Wednesday, 20 September 2017

کیمپس۔۔۔۔ امجد جاوید۔۔۔ قسط نمبر2

کیمپس

امجد جاوید

قسط نمبر2


”آپ کہاں گم ہیں، کلاس تو ختم ہو گئی ہے، سب جا چکے ہیں“۔ میں نے چونک کر دیکھا، کلاس میں کوئی نہیں تھا اور مجھ سے یہ کہنے والا میرے سامنے کھڑا مجھے دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے باقاعدہ میرا کاندھا ہلا کر مجھ سے یہ بات کہی تھی۔ میں نے اسے غور سے دیکھا، گورے چٹے رنگ کا لمبا سا گھنگھریالے بالوں والا لڑکا بڑی دلچسپی سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔” مجھے اسد کہتے ہیں“۔ اس نے اپنا نام بتایا اور مصافحے کے لیے اپنا ہاتھ آگے بڑھا دیا۔
”ابان علی....! تم مجھے ابان کہہ سکتے ہو“۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام لیا اور پھر اٹھ کر اس کے ساتھ کلاس روم سے باہر چل دیا۔
”مجھے تمہارا بے تکلفانہ انداز اچھا لگا، لیکن تم اس قدر کھو کہاں گئے کہ کلاس ختم ہو جانے کا احساس تک نہیں ہوا“۔ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”بس یار....! یہ سوچنے لگا تھاکہ میں یہاں تک آکیسے گیا“۔ میں نے عام سے لہجے میں کہا۔
”ارے چھوڑیار....! ماضی میں کیا رکھا ہے، وہ گزر گیا۔ جیسا بھی تھا، اچھا برا، وہ تو اب ہاتھ آنے والا نہیں، اب تو یہ سوچو میری جان کہ یہاں دو سال کیسے گزرنے ہیں“۔ اس نے شوخی سے کہا اور ہلکا سا قہقہہ لگا دیا۔ تو میں نے صاف گوئی سے کہا۔
”مجھے تمہاری زندہ دلی اچھی لگی“۔
”آﺅ، پھر اس خوشی میں کینٹین پر چلتے ہیں، وہاں تھوڑا بہت تعارف ہو جائے گا، اور جن کلاس فیلوز سے میرا تعارف ہو چکا ہے، ان سے بھی ملوا دیتا ہوں“۔ یہ کہتے ہوئے وہ کلاس روم سے باہر نکلا۔راہداری میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ہم دونوں چلتے ہوئے سیڑھیوں تک آئے اور پھر ڈیپارٹمنٹ سے باہر آگئے۔
بعض اوقات ماحول بھی موڈ بنا دیا کرتا ہے۔ اب اسدکو کیا معلوم تھا کہ میں کیا سوچ رہا ہوں اور میرے ماضی میں کیا تھا۔ شاید اس نے اپنے ماضی کے تناظر ہی میں مجھے دیکھا۔ ممکن ہے اس کا ماضی کوئی اتنا اچھا نہ رہا ہو۔ اپنے آپ ہی کو ڈھارس دینے کے لیے اس نے مجھے تسلی دی ہو۔جو کچھ بھی تھا، مجھے یہ اچھا لگا کہ اس نے مجھے محسوس کیا، میرے لیے رکا رہا اور میرے قریب ہونے کے لیے مجھے مخاطب کیا۔ ورنہ وہ بھی دوسروں کی طرح کلاس روم سے نکل جاتا۔ وہ مجھ سے دو قدم آگئے تھا۔ میں نے اسے پھر غور سے دیکھا۔ نیلی جینز پر چیک دار سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ پاﺅں میں جاگر تھے اور کوئی اتنا خاص نہیں تھا کہ اس میں کوئی مزید کشش محسوس ہوتی۔ میں چونکہ اس ماحول کا عادی نہیں تھا، اس لیے اسد کے بارے میں کوئی اتنا زیادہ تجزیہ نہیں کر سکتا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کے باہر آتے ہی اس نے پوچھا۔
”تم تو اس ماحول کے عادی ہو گے نا.... میں پہلی بار اس علاقے میں آیا ہوں۔ خشک سا علاقہ ہے اب نہ جانے یہاں کے لوگ کیسے ہوں گے“۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا تو میں ہنس دیا۔ 
”سچ پوچھو نا اسد، میں بھی زیادہ اس علاقے میں نہیں رہا، میرا زیادہ وقت لاہور میں گزرا ہے، لیکن حوصلہ رکھو، تمہیں تم جیسے ہی لوگ مل جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں نا ہر بندہ اپنے جیسے دوسرے بندے کو تلاش کر رہا ہوتا ہے“۔
”بات تو تمہاری ٹھیک ہے، یہ بھی حقیقت ہے کہ ماحول اور موسم وہاں کے انسانوں کے مزاج پر اثر انداز ضرور ہوتا ہے۔ اب دیکھیں میرا یہ خیال یہاں کے لوگوں کے بارے میں کس حد تک درست ثابت ہوتا ہے“۔ اس نے کافی حد تک سنجیدگی سے کہا۔
”لگتاہے تم کچھ ڈرے ڈرے سے ہو، کیا بات ہے“۔ میں نے انتہائی بے تکلفی سے پوچھا۔
”ڈر نہیں رہا، اجنبیت محسوس کر رہا ہوں۔ تھوڑا بور بھی ہو رہا ہوں، کیونکہ میں بہت بھرا پُرا گھر اور خوبصورت شہر چھوڑ کر آیا ہوں۔ میرپور آزاد کشمیر میرا علاقہ ہے“۔
”اوہ....! تم تو خاصی دور سے آئے ہو۔ چلو کوئی بات نہیں۔ مجھے امید ہے کہ تم یہاں کے لوگوں کی کمپنی انجوائے کرو گے“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو اس کے چہرے پر بھی مسکراہٹ آگئی۔ اس وقت تک ہم کینٹین تک پہنچ گئے۔ باہر لان میں کرسیاں خالی پڑی ہوئی تھیں۔ مگر اسد اندر ہی بڑھتا چلاگیا۔ وہاں جنوبی کونے میں چند لڑکے گپ شپ میں مصروف تھے۔ ہم دونوں کی جانب دیکھتے ہی وہ خاموش ہو گئے۔ ان میں سے ایک نے ویٹر کو خالی کرسیاں لانے کے لیے کہہ دیا۔ جو فوراً ہی آگئیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی ایک سنجیدہ سے لڑکے نے میری جانب دیکھ کر کہا۔
”تمہارا تعارف تو ہو گیا ابان، ہم سب تمہیں خوش آمدید کہتے ہیں۔ امید ہے کہ ہم سب کا وقت بہت اچھا گزرے گا؟“ اس نے بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا تھا، اس سے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ مجھے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ وہ ان کا لیڈر ہے۔ تب میں نے دھیرے سے کہا۔
”میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں“۔
”ہاسٹل میں رہو گے یاڈے سکالر ہو؟“ ایک دوسرے نے لڑکے نے پوچھا۔
”ڈے سکالر سمجھ لو، شہر میں ایک گھر ہے، جس کے مکین باہر کے ملک گئے ہوئے ہیں،بس نگرانی کے لیے وہاں ٹھہرا ہوا ہوں“۔ میں نے ایک اور جھوٹ داغ دیا۔
”سپر....! یہ تو بہت اچھا ہے، تم بڑے سکون سے رہو گے وہاں“۔ تیسرے نے کہا۔
”ہاں....! یہ تو ہے، خیر یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ یہاں سکون نام کو کچھ ملتا بھی ہے یا نہیں ،یا سارا وقت بے سکون ہی رہیں گے“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اتنے میں چائے آگئی۔ تب تعارف کا سلسلہ دراز ہوتا گیا۔ بات کیمپس کے ماحول سے نکلی تو پھیلتی گئی۔ وہ جو خود ساختہ لیڈر تھا ، وہ ڈی جی خان کے علاقے سے تھا، تنویر گوپانگ، درمیانہ سا قد، قدرے بھاری سا، بڑے چہرے اور بھاری مونچھوں والا، سانولے رنگ کا۔ اس کی آواز خاصی بھاری تھی۔ جب کوئی خاص بات کرنی ہو تو اسے بہت بنا سنوار کر کہتا تھا۔ کافی دیر تک یونہی گپ شپ چلتی رہی اور اس محفل میں ان سب کا نام میرے ذہن میں نہ رہا، میں بس ان کی طرف دیکھتا رہا اور وہ کہتے رہے۔ میں بھی یہی اندازہ لگاتا رہا، کون کس طرح کا ذہن رکھتا ہے۔ کافی دیر بعد اچانک ایک لڑکے نے اپنے سیل فون پر وقت دیکھتے ہوئے کہا ۔ ”اوئے میڈم کا پیریڈ شروع ہونے والا ہے، چلو چلیں“۔
یہ سنتے ہی تقریباً سبھی اٹھ گئے۔ تنویر گوپانگ نے فوراً ہی بڑا نوٹ نکالا اور ویٹرکو دے کر حساب بعد میں کرنے کا کہا اور باہر کی سمت چل دیا۔ میں نے اسد کی طرف دیکھا، اس نے مسکرا کر چلنے کا اشارہ کیا تو ہم دونوں باہر کی جانب لپکے۔ تبھی میں نے دیکھا کچھ لڑکیاں دوسری طرف سے نکل کر ڈیپارٹمنٹ کی جانب جارہی ہیں۔
”یہ بے چاری لڑکیاں بھی نہ جانے کہاں کہاں سے آئی ہوں گی“۔ اسد نے یوں کہا جیسے ان سے وہ ہمدری محسوس کر رہا ہو۔
”تو کیا انہیں نہیں آنا چاہئے تھا؟“ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے، بہر حال گھر سے دور رہنا خاصا مشکل ہوتا ہے“۔ وہ مضطرب سے لہجے میں بولا۔
ہم ایسی ہی بے مقصد باتیں کرتے ہوئے پھر سے ڈیپارٹمنٹ کی راہداریوں میں آگئے۔ ہم کلاس روم میں داخل ہوئے تو سبھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ رہے تھے۔ میں بھی پچھلی رو میں جانے کے لیے بڑھا ہی تھا کہ چند لڑکیوں نے مجھے روک لیا۔ اس وقت مجھے بالکل بھی احساس نہیں تھا کہ یہ میری کلاس فیلوزہیں یا ہماری سینئر کلاس سے تعلق رکھتی ہیں۔ میں نے ان کی جانب دیکھا اور خاموش رہا۔
”بڑی دیر کی مہربان آتے آتے....“ایک شوخ سی لڑکی نے میرا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ایک دوسری موٹی سی لڑکی بولی اٹھی۔
”نواں آیاں اے سوہنیا....“
اس کے مضحکہ خیز انداز پر وہاں موجود ہر ایک ہنس دیا۔ میں اسی لمحے سمجھ گیا کہ اب میرے ساتھ مذاق ہونے والا ہے اور ممکن ہے یہ میری کلاس کی نہ ہوں۔ تب میں نے بڑے سکون سے کہا۔
”آپ کون ہیں اور کیا چاہتے ہیں؟“
”برخور دار سمجھ دار ہے، جلدی سمجھ گیا ہے“۔ ایک لڑکی نے میری طرف دیکھ کر عجیب طرح سے ہنستے ہوئے کہا۔ مجھے غصہ آگیا۔
”ظاہر ہے آپ جیسی ماﺅں کے بچے سمجھ دار ہی ہوں گے“۔ میں نے فوراً ہی اسے جواب دیا تو اس کا چہرہ فق ہو گیا۔ اسے امیدنہیں تھی کہ میں اسے ایسا جواب دوں گا۔ تب اس نے انتہائی غصے میں کہا۔
”بہت بدتمیز ہو تم، تمیز نہیں ہے بات کرنے کی“۔
”میں نے کون سا غلط کہا ہے، تم نے برخوردار ہی کہا ہے نا مجھے“۔ میں نے سرد سے لہجے میں کہا۔
”جانتے ہو، تمہاری اس بات کے بدلے میں تمہارے ساتھ کیا ہو سکتا ہے“۔ وہ بپھرتے ہوئے بولی۔
”نہیں جانتا، بتا دو“۔ میں نے پھر سکون سے کہا، تو اسد نے فوراً مجھ سے کہا۔
”یار ابان یہ ہمارے سینئر کلاس فیلوز ہیں، وہ فرسٹ ائیر فول....“
”کریں مذاق.... میں نے کب روکا ہے۔ یہ تو رشتے جوڑنے بیٹھ گئے ہیں“۔ میں نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا۔ جس نے جلتی پر تیل کاکام کیا۔ تب اس لڑکی نے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔
”چلو، میں دیکھ لوں گی اسے“۔
”کسے دیکھو گی.... کیا ابھی تم نے مجھے نہیں دیکھا“۔ میں نے جان بوجھ کر ہنستے ہوئے کہا وہ غصے میں تیز قدموں سے چلتی ہوتی باہر چلی گئی اور پھر میری توقع کے مطابق دوسری لڑکیاں بھی باہر چلی گئیں۔ کلاس میں سناٹا چھا گیا۔ میں نے سب کی طرف ایک نگاہ سے دیکھا۔ مجھے کئی نگاہوں میں اپنے لیے ترس دکھائی دیا کہ نہ جانے اب میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ یہی وہ موقعہ تھا جب میں نے تمام لڑکیوں کی طرف دیکھا۔ ممکن ہے ان میں وہ ایک ہو.... کون ہے وہ؟ کاش اس کے بارے میں مجھے آج ہی معلوم ہو جائے؟
”کوئی بات نہیں ابان، آﺅ بیٹھو، کرلیں گے بات ان سینئرز سے“۔ تنویر گوپانگ نے ذرا اونچی آواز میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا تو میں نے بڑے سکون سے کہا۔
”اوکے....! لیکن پریشان ہونے کی ضرورت نہیں میں دیکھ لوں گا“۔
یہ کہتے ہوئے میں پچھلی طرف پڑی ایک خالی نشست پر آن بیٹھا۔ تبھی میڈم زہرہ جبیں کلاس روم میں آگئیں۔
وہ ادھیڑ عمر سمارٹ سی خاتون تھیں۔ گندمی رنگ، گہرے سیاہ لمبے بال جو انہوں نے کلپ سے باندھ رکھے تھے۔ تیکھے نقوس والی میڈم نے نفیس سا چشمہ لگایا ہوا تھا۔ لباس کے رنگ اور ڈیزائن میں بھی خاصی نفاست تھی۔ پہلی نگاہ میں ان کی گردن پر نظر پڑی تھی جو شفاف، لمبی اور خوبصورت تھی۔ گلے میں باریک سی چین میں ہلکا سا لاکٹ تھا۔ بڑی دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے کلاس پر نگاہ ڈالی اور بڑے شستہ لہجے میںبولیں۔
”یہ کس نے سینئرز کو بھڑکا دیا۔ بڑے غصے میں دکھائی دے رہے تھے“۔
”یہ ابان نامی ایک نیا لڑکا آیا ہے اس نے ....“ ایک لڑکی نے اٹھ کرکہا اور پھر اختصارسے سب کہہ دیا۔ میڈیم غور سے سنتی رہی اور بار بار میری جانب دیکھتی رہی ۔ساری بات سن کر وہ میری جانب دیکھ کر بولیں۔
”آپ نے تو آتے ہی ڈیپارٹمنٹ میں ہلچل مچا دی۔ آپ کو شاید معلوم نہیں کہ آپ کے سینئرز خاصے تگڑے لوگ ہیں“۔ ان کے چہرے پر ہلکی ہلکی مسکان تھی۔
”اچھی بات ہے میڈم، وہ تگڑے ثابت ہو جائیں تو مجھے ان پر فخر ہو گا“۔ میں نے کھڑے ہو کر بڑے مو ¿دب لہجے میں کہا تو میڈم کے چہرے پر حیرت در آئی۔
”اچھی بات ہے، خیر! ہم اپنے لیکچر کی جانب بڑھتے ہیں“۔ وہ سکون سے بولیں اور لیکچر شروع کر دیا۔ کلاس میں سناٹا رہا اور پھر پیریڈ ختم ہوگیا۔ میڈم کے جاتے ہی کلاس میں ہلکا ہلکا شور ہونے لگ گیا تھا۔ موضوع میری ذات ہی تھا۔ میں نے کسی کی طرف توجہ نہیں کی اور باہر جانے کے لیے قدم بڑھا دیئے۔ انہی لمحات میں چند لڑکے دروازے میں آکے کھڑے ہوگئے۔ بلاشبہ وہ سینئرز ہی تھے۔ کیونکہ ان کے پیچھے وہی لڑکیاں تھیں جو کچھ دیر پہلے میرا مذاق اڑانے کے لیے آئی تھیں۔ ان لڑکوں کے چہروں پر غصے، غضب اور حیرت کے ملے جلے تاثرات تھے۔ ہر کوئی سمجھ سکتا تھا کہ وہ میری درگت بنانے کے لیے آئے ہیں۔ اسی لیے تنویر گوپانگ جلدی سے آگے بڑھا اور ان سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ ایک لیڈر ٹائپ سینئر نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور پھر بڑے گھمبیر لہجے میں بولا۔
”یہ ہے وہ....؟“ اس نے اشارہ میری طرف کیا تھا۔
”ہاں یہی وہ بدتمیز ہے“۔ پیچھے کھڑی اس لڑکی نے تقریباً چیخنے والے انداز میں کہا تو اس نے میری جانب دیکھ کر کہا۔
”چلو وہاں روسڑوم کے پاس کھڑے ہو جاﺅ۔ دیکھتا ہوں تم کتنے بڑے بدمعاش ہو“۔
”اور اگر میں وہاں تک نہ جاﺅں تو....“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سرد سے لہجے میں کہا تو وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگا۔
”تو پھر تمہارے ساتھ بہت کچھ ہو سکتا ہے“۔ اس بار اس کے لہجے میں وہ پہلے والا تنتنا نہیں تھا۔
”مثلاً کیا؟“ میں نے پھر اسی انداز میں سے پوچھا۔
”جس کا تم تصور نہیں کر سکتے“۔ اس نے غصے میں کہا ۔
”میں تیار ہوں“۔
یہ کہہ کر میں اس کی جانب دیکھنے لگا اور کسی بھی غیر متوقع افتاد کے لیے تیار ہو گیا۔ وہ چند لمحے میری جانب دیکھتا رہا اور پھر انتہائی غصے میں بولا۔
”دیکھ لوں گا میں تمہیں، تم کس طرح اس ڈیپارٹمنٹ میں رہتے ہو“۔
”میں یہیں پر ہوں۔ اپنا شوق پورا کر لینا۔ پھر جب میں نے کچھ کیا تو گھبرامت جانا، اتنے لوگ سن رہے ہیں، دھمکی تم دے کر جارہے ہو“۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے سکون سے کہا تو وہ کافی حد تک ڈھیلا پڑ گیا۔ اس درمیان تنویر گوپانگ نے صحیح وقت پر دخل اندازی کی اور بولا۔
”او سرجی، بدتمیزی اور مذاق میں فرق ہوتا ہے، اس لڑکی کو نہیں چاہئے تھا کہ وہ ابان کے ساتھ بدتمیزی کرتی“۔
”آپ ایک ہی طرف کی بات سن کر یہاں چڑھ دوڑے ہیں۔ پہلے آپ اصل حقائق معلوم کرتے“اسد نے فوری طور پر میری طرف داری کی۔
”آئیں، پھر وہاں بیٹھ کر یہ معاملہ طے کر تے ہیں“۔ اس سینئر نے دال گلتی نہ دیکھ کر کلرک کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو میں فواً بولا اٹھا۔
”نو، نہیں، سب کے سامنے، یہاں.... یہیں بات ہو گی۔ میں دخل اندازی نہیں کروں گا“۔
”اُو چلو چھوڑو یار ! ایسی بھی کیا بات ہو گئی ہے۔ وہ مذاق کرنے آئیں تھیں، بدتمیزی کرنے لگیں۔ اس نے بھی ویسا ہی کہہ دیا، بات ختم۔ اب آپ کیا اس کے لیے لڑائی جھگڑا کرو گے؟“ تنویر گوپانگ نے بڑی ملائمت سے کہا۔
”چلو پھر اسے کہو روسٹرم پر کھڑے ہو کر اپنا تعارف کروا دے۔ ان کی بھی بات رہ جائے گی“۔ سینئر نے کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”پیار سے کہو گے تو بہت کچھ برداشت کر سکتا ہوں، رعب جماﺅ گے یا بدتمیزی کرو گے تو میں خود بہت بڑا بدتمیز ہوں“۔
”چلو میں تمہیں پیار سے کہہ رہا ہوں“۔ وہ سینئر بولا۔
”نہیں، وہی لڑکی پیار سے کہے، یہاں روسڑم پر آ کر اور جب تک میں کھڑا رہوں، میرے ساتھ کھڑی رہے“۔ تب میں نے مضحکہ اڑانے والے انداز میں کہا تو وہ لڑکی پیر پٹختے ہوئے یہ کہہ کر مڑ گئی۔
”مائی فٹ.... کچھ نہیں ہو گا ان سے“۔
سینئر اس لڑکی کو جاتا ہوا دیکھتا رہ گیااب وہ مزید کیا بات کرسکتے تھے۔ وہ بھی پلٹ کر واپس چلے گئے۔
کہتے ہیں کہ جو برستے ہیں وہ گرجتے نہیں، مجھے یہ اصول یاد تھا۔ وہ سینئر ان لوگوں کے سامنے تو کچھ نہیں کہہ سکا خاموشی سے واپس چلا گیا تھا۔ اب دوطرح کی ہی صورتِ حال سامنے آ سکتی تھی۔ ایک تو یہ کہ وہ بات کو بھول جائے اور معاملہ رفع دفع ہو جاتا، یا پھر میرے بارے میں کسی نہ کسی طور پر کوئی سازش تیارہو جاتی۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ سازش ہمیشہ منافق اور گھٹیا لوگ ہی تیار کرتے ہیں اور جو کوئی جتنی طویل عرصے کی سازشیں کرتا ہے، وہ اتنا ہی منافق اور گھٹیا ہوتا ہے اور میں جب یہاں آیا تھا تو ہر طرح کی صورتِ حال کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو کر آیا تھا۔ انسانی فطرت یہ ہے کہ وہ ہمیشہ طاقت ور کا ساتھ دیتی ہے ۔ اس کا جھکاﺅ ہمیشہ طاقت کی طرف ہی ہوتا ہے۔ کلاس میں پہلے دن کے یہی وہ لمحات تھے، جہاں مجھے خود کو کمزور ثابت نہیں کرنا تھا۔ بحث اس سے نہیں کہ کون کیسی طاقت رکھتا ہے۔ یہ طاقت مختلف قسم کی بھی ہو سکتی ہے جیسے تنویر گوپانگ اپنی چرب زبانی یا دولت کی طاقت کا مظاہرہ میرے سامنے کر چکا تھا یا اسد کے پاس ہمدردی جیسے خوبصورت جذبے کی طاقت تھی یا وہ طاقت جس کی بنا پر میڈم نے سینئرز کو تگڑے کہا تھا۔
لوگ واپس چلے گئے تھے اور کلاس میں سناٹا تھا۔ شاید وہ میرا ردِعمل دیکھنے کے منتظر تھے۔ میں نے اسد کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور بڑے سکون سے پوچھا۔
”اور کوئی پیریڈ ہے ؟پھر....“
”ہاں، ایک پیریڈ ہے تو سہی، لیکن وہ سر آج آئے ہی نہیں ہیں“۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
”اس کا مطلب ہے، پھر چلیں، کل ملاقات ہو گی“۔ میں نے کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے قریب کھڑے لڑکوں سے مصافحہ کیا اور ڈیپارٹمنٹ سے نکل کر پارکنگ تک آگیا۔
l l l
اس رات پاپا سے بات کر کے میں سو گیا تھا۔ رات گہری ہو جانے کی وجہ سے زریاب انکل کو فون نہیں کیا تاکہ وہ ڈسٹرب نہ ہوں۔ اگلے ہی دن پہلی فرصت میں، انہیں کال کر دی۔ وہ اپنے آفس میں تھے۔ میرا فون پا کر وہ بہت خوش ہوئے۔ تھوڑی دیر تمہیدی باتیں کر کے میں نے پاپا کی حالت ِ زار کے بارے میں بتایا۔ وہ خاصے رنجیدہ ہو گئے۔
”یار، بات یہ ہے، میں نے نہ جانے کتنی بار اسے کہا ہے کہ اگر تم نے اس سے بدلہ لینا ہے تو آجاﺅ، چند دن پاکستان میں رہو، اپنے والدین کی قبروں پر جاﺅ۔ فاتحہ پڑھو، جیسے بھی ممکن ہوا میں اسلم کو تمہارے سامنے لاکھڑاکر وں گا۔ پھر تم اس کے ساتھ جو مرضی کرلینا اور واپس برطانیہ چلے جانا۔ بعد میں جو ہو گا، میں بھگت لوں گا، مگر وہ مانتا ہی نہیں ہے۔ اندر ہی اندر جل کڑھ رہا ہے۔ اب اس کا علاج تو میرے پاس نہیں .... ہے نا بیٹے“۔ انہوں نے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
”انکل....! اگر اسلم کو ایک ہی فائر سے مار دیا جائے۔ اسے مرنے میں چند لمحے لگیں تو کیا یہ اس آزار، چبھن اور درد کا متبادل ہو سکتا ہے جو میرے پاپا نے اب تک محسوس کیا اور کرتے چلے آرہے ہیں۔ یہ کوئی انصاف نہیں ہے“۔ میں نے اپنا نکتہ نگاہ واضح کرتے ہوئے کہا۔
”کیا ہونا چاہئے، بولو، بتاﺅ تمہارے خیال میں کیا ہونا چاہئے۔ وہی ہو جائے گا۔ کسی بھی قیمت پر میں تمہارے پاپا کو بہت خوش دیکھنا چاہتا۔ میں اسے یہ غم لے کر مرتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا۔ اس کے لیے مجھے جو کچھ بھی کرنا پڑا میں کر گزروں گا“۔ وہ جوشِ جذبات میں بولے۔
”میرے بھی جذبات ایسے ہی ہیں انکل جیسے آپ کے ہیں، لیکن آپ ہی بتائیں۔ میں یہاں بیٹھ کر کیا کر سکتا ہوں۔ میری ماما، جس نے بہت دکھ سہے، وہ بھی اس اذیت میں مبتلا رہیں جس میں پاپا مبتلا ہیں۔ وہ اپنے والدین سے ملنے کراچی نہیں جا سکیں۔ یہاں تک کہ وہ بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ انہوں نے اپنے کسی رشتے دار سے رابطہ نہیں رکھا، مبادا کہیں میرے پاپا کو احساس ہو۔ وہ دکھ محسوس کریں.... الماس کا کیا قصور ہے کہ اسے ان فضاﺅں میں زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے جو اس نے دیکھی ہی نہیں، یہاں وہ محفوظ تو ہے“ میں نے دکھ بھرے لہجے میں انہیں بتایا تو وہ خاموشی سے سنتے رہے۔ میری بات ختم ہوتے ہی بولے۔
”میں یہ سب جانتا ہوں اور سمجھ بھی رہا ہوں۔ سارے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ بتاﺅ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ میں کچھ نہیں کر سکا ہوں، اس لیے میں کبھی تمہارے باپ سے ملنے بھی نہ جا سکا۔ میں شرمندہ ہوں اس سے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میرے دل میں اس کے لیے تڑپ نہیں ہے، میں بہت کچھ کرنا چاہتا ہوں اور کر بھی سکتا ہوں۔ مجھے بتاﺅ میں ابھی کر دیتا ہوں“۔ انہوں نے پورے اعتماد سے کہا۔
”انکل....! پاپا اگر اس سے بدلہ نہیں لے سکتے تو میں لوں گا۔ میں یہاں کی زندگی چھوڑ کر پاکستان آ جاﺅں گا۔ کچھ پانے کے لیے ، تھوڑا بہت کھونا تو پڑتا ہے نا۔ جب تک میں لاعلم تھا، تب کی بات اور تھی لیکن اب اسے معاف نہیں کروں گا“۔ میں عزم سے کہا۔
”یہی بات میں نے تمہارے پاپا سے کہی ہے۔ وہ اپنا بزنس تمہارے حوالے کرے اور خود پاکستان آجائے، پھر دونوں مل کر اس سے اپنا انتقام لے لیں گے۔ یا پھر جو بھی ہو سکا ہم سے وہ ہم کریں گے۔جہاں تک تمہارے یہاں پاکستان آنے کی بات ہے، بیٹے تمہارے سامنے مستقبل ہے، تم اپنی لائف بناﺅ، ہم تمہیں ان جوکھم میں نہیں ڈالنا چاہتے۔ یہ ہم دونوں کا مسئلہ ہے، ہم ہی اس سے نپٹ لیں گے۔ تمہارے پایا نے محنت کر کے بزنس کو جس سطح پر چھوڑا ہے، تم اسے اس سے آگے لے جاﺅ، جب وہ پاکستان آئے تو اسے کم از کم یہ پریشانی نہ ہو کہ وہاں کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے“۔ انہوں نے مجھے تفصل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔ 
”تو پھرکیا کہا پاپا نے ....“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”یہی کہ وہ بہت جلد تمہیں کاروبار میں ایڈجسٹ کر کے پاکستان آرہا ہے“۔ انہوں نے سکون سے کہہ دیا۔
”یہ بات انہوں مجھے نہیں بتائی“۔ میں نے جلدی سے کہا۔
”وہ کون سا فوراً آ رہا ہے، اسے یہاں آنے میں تھوڑا وقت لگے گا۔ وہ تم لوگوں کو اعتماد میں لے کر اور ذہنی طور پر تیار کر کے آئے گا“۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”انکل مجھے آپ سے بات کر کے بہت اچھا لگا۔ مجھے بہت حد تک ذہنی سکون ملا ہے“۔ میں نے انہیں اپنی کیفیت بتاتے ہوئے کہا۔
”تم میرے بچے ہو، اچھا ہوا تم نے مجھ سے اس موضوع پر بھی بات کرلی، تمہارا باپ بہت اچھا اور نرم دل انسان ہے۔ اس لیے تو انتقام لیتے لیتے اتنا وقت بیت گیا۔ تم مجھ سے بات کر لیا کرو، تم بھی تو میرے بیٹے جیسے ہو“۔ انہوں نے انتہائی شفقت سے کہا تو مجھے بہت اچھا لگا۔ پھر کچھ دیر الوداعی باتوں کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔
زریاب انکل، اعلیٰ انتظامی آفیسر تھے۔ ایسے لوگ کہیں ایک جگہ تو رہتے نہیں، شہروں شہروں گھومتے ہوتے ہیں۔پاپا کو ایک اچھا اور مضبوط بنیادوں والا بزنس بنانے میں ان کے مشوروں اور حوصلوں کا بہت ساتھ رہا تھا۔ ایک چھوٹے زمیندار کا بیٹا ہونے کے باوجود انہوں نے خاصی محنت کی تھی۔دولت جائیداد تو انہوں نے بنائی ہی تھی، اس کے ساتھ انہوں نے احباب کا ایک وسیع حلقہ بھی بنا رکھا تھا۔ شاید لڑکپن ہی سے ان کے لاشعور میں طاقت کے حصول کی خواہش جڑ پکڑ گئی تھی۔ اب جبکہ وہ اپنی ملازمت سے سبکدوش ہو جانے والے تھے۔ وہ اپنی زندگی کو ایک نئی طرز سے ، اپنی خواہش کے مطابق شروع کرنا چاہ رہے تھے۔ انہوں نے شادی اپنے ہی خاندان میں کی تھی۔ جس سے ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا۔ دونوں بیٹیاں فرح اور فروا بہت ذہین تھیں اور اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ فرح مجھ سے بڑی تھی۔ فروا میری ہم عمر اور ابان مجھ سے چھوٹا تھا۔ وہ اپنی مختصر سی فیملی کے ساتھ بہت خوشگوار زندگی گزار رہے تھے۔ رچڈل میں ہماری زندگی بھی بہت اچھی بسر ہو رہی تھی۔ مگر جب سے میں نے پاپا کا دکھ سناتھا۔ تب سے میری زندگی میں بے چینی در آئی تھی۔
اب میں پاپا کو زیادہ وقت دینے لگا تھا۔ انہیں لے جاتا۔ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ باتیں کرتا، انہیں گھماتا پھراتا، یہاں تک کہ ایک دن میری ماما نے بہت خوشگوار موڈ میں کہا۔
”یہ آج کل تم باپ بیٹے کو کیا ہو گیا ہوا ہے؟“
”کیا ہو گیا ہے ماما“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”یوں لگتا ہے جیسے دونوجوانوں کی نئی نئی دوستی ہو گئی ہو۔ تیرے پاپا تو جیسے ہمیں بھول ہی گئے ہیں“۔ انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”اُو بیوی....! تجھے یونہی لگتا ہے۔ تم کوئی بھولنے والی چیز ہو۔ میں تو بزنس اس کے حوالے کر رہا ہوں۔یہ وہاں پوری طرح ایڈجسٹ ہوجائے تو پھر سارا وقت تیرے لیے ہی تو ہے“۔ پاپا نے ہنستے ہوئے کہا۔
”آپ لوگ جو مرضی کریں، میں اور میری الماس، ہم ایک دوسرے کے لیے کافی ہیں۔ میرے بیٹے کی زندگی بہت اچھی ہو، ایک ماں اس سے زیادہ اور کیا چاہ سکتی ہے“۔ ماما نے دعائیہ انداز میں کہا تو ماحول میں ایک دم سے تقدس بھر گیا۔
ان دنوں میں پوری توجہ سے بزنس کو سمجھ رہا تھا۔ میری زریاب انکل سے روزانہ بات ہو جایا کرتی تھی۔ وہ چاہے بھول بھی جائیں لیکن میں ان سے ضرور بات کیا کرتا تھا۔ ان کی باتوں سے مجھے بہت حوصلہ ملا کرتا تھا۔ وہ بہت اچھی اچھی باتیں بتاتے رہتے تھے۔ ان سے باتیں کر کے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ میں کوئی ذمہ دار قسم کا بندہ ہوگیا ہوں۔ وہ پرانا کھلنڈرا سا لڑکا نہ جانے کہاں گھو گیا تھا،جس کی ہزار ں دلچسپیاں ہوا کرتی تھیں۔ وہ کون سا کام تھا جو میں نے نہیں کیا تھا۔ میری فطرت میں تھرل تھا۔ ہر وہ کام جو ناممکن دکھائی دیتا تھا، میں اسے ہی ہمیشہ کرنے کی کوشش کیا کرتا تھا۔ چونکہ اس بزنس کو میں نے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کیا تھا، اس لیے ہفتوں کے معاملات دنوں میں طے کرنے لگا تھا۔ پاپا مجھ سے بہت خوش تھے اور میں بھی اطمینان محسوس کر رہا تھا کہ ایک دن زریاب انکل کافون آگیا۔ تھوڑی دیر اِدھر اُدھر کی باتوں کی بعد وہ بولے۔
”تم دو تین ہفتوں میں پاکستان آنے کے لیے تیار ہو جاﺅ، کم از کم چھ مہینے سے پہلے واپس رچڈل نہیں جاپاﺅ گے۔ ذہن یہی بنا کر آنا کہ تمہیں تقریباً دو سال یہاں رہنا ہے“۔
”ایسی کیا بات ہو گئی انکل، خیریت تو ہے۔ آپ نے یوں ایک دم....“ میں نے حیرت سے پوچھتے ہوئے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”تم یہاں آجاﺅ گے نا تو پوری تفصیل بتادوں گا۔ ویسے تمہارا حیران ہونا بنتا ہے کہ کہاں تمہیں وہاں پرایڈجسٹ کیا جارہا تھا اور کہاں تمہیںاچانک یہاں پاکستان بلوا رہا ہوں اور وہ بھی دو سال کے لیے ....“ انہوں نے پُرسکون انداز میں کہا۔
”آپ نے پاپاسے بات کی “۔ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”ہاں، کرلی، جو کچھ میرے ذہن میں ہے، وہ بھی میں نے ان سے شیئر کر لیا ہے۔ تم بس فوراً تیاری کرو اور آجاﺅ۔ زیادہ سامان اٹھانے کی ضرورت نہیں، ہر چیز تمہیں یہاں مل جائے گی“۔
وہ اسی پُرسکون لہجے میں بات کر رہے تھے۔ اب سوائے ان کی بات ماننے کے میرے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ میں نے ان سے طے کر لیا کہ دو ہفتوں کے اندر اندر پہلی ملنے والی فلائٹ سے ان کے پاس آجاﺅں گا۔
تقریباً تیسرے ہفتے کے درمیان ایک رات مجھے پاپا، ماما اور الماس ائیرپورٹ پرسی آف کرنے کے لیے موجود تھے۔ ماما خاصی پُرسکون تھی مگر پایا کا چہرہ خاصا دھواں دھواں ہو رہا تھا۔ اس سے میں نے اندازہ تو لگا لیا تھا کہ کچھ ایسا ہے جو انہیں پریشان کر رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ میرے پاکستان جانے کی وجہ ہی سے تھا۔ کیا تھا، زریاب انکل ہی نے مجھے بتانا تھا۔ کچھ بھی معلوم نہ ہونے کے باوجود میں پاپا کو بہت تسلیاں دیتا رہا۔ ان کا حوصلہ بڑھاتا رہا۔ کیونکہ یہ طے تھا کہ میرا وہاں جانا اسلم ہی سے متعلق ہو سکتا تھا اور میں ذہنی طورپربھی اور جسمانی طور پر ہر طرح کے حالات کے لیے تیار تھا۔ دراصل میرے اندر کچھ عجیب سے جذبات پرورش پا گئے تھے۔ پاپا کی ہزیمت ان کا اندر ہی اندر پلنے والا دکھ، اور بے بسی کی حالت مجھ سے نہیں دیکھی گئی تھی۔ مجھے یوں لگا تھا کہ جیسے میری اپنی زندگی ایک جگہ آکر رک گئی ہے اور اب مجھے اپنے پاپا کی زندگی گزارنی ہے جو ساری زندگی ایک انجانے دکھ اور بوجھ تلے گزر گئی تھی۔ اب جبکہ وہ آخری عمر میں ہیں اور میں ان کا بیٹا انہیں اس بوجھ سے نجات نہ دلاسکوں تو میرا ہونا کیا ہوا۔ میرا وہ پاپا ، جس نے ساری زندگی مجھے پھولوں کی سیج دی اور خود کانٹوں پر لوٹتا رہا، یہ میرا اپنا فرض تھا کہ میں انہیں ایک پُرسکون زندگی دینے کے لیے اپنا آپ داﺅ پر بھی لگا دیتا تو یہ میرا فرض منصبی ہے۔ کبھی کبھی تو اسلم کی گردن ناپنے کے لیے مجھے صرف فاصلہ اور وقت ہی حائل دکھائی دیتا تھا۔ دل چاہتا تھا کہ اٹھوں اور اسے جا کے ادھیڑ کررکھ دوں۔ فلائٹ کا وقت قریب آ گیا تو پاپا نے اس انداز سے مجھے رخصت کیا، جیسے کوئی دل پر بھاری پتھر رکھ کر مجھے وداع کررہا ہو۔ میں ماما اور الماس سے ملنے کے بعد پاپا سے گلے ملتے ہوئے ہولے سے بولا۔
”پاپا....! آپ بھی دعا کرنا اور ماما سے ساری بات کہہ کر انہیں بھی دعا کے لیے کہیے گا۔ آپ یقین جانیں آپ کی دعاﺅں کے صدقے آپ کا بیٹا کامیاب لوٹے گا“۔
”آمین....! ثم آمین!“ یہ کہتے ہوئے پاپا نے مجھے خود سے جدا کیا تو میں تیزی سے اندرکی جانب بڑھ گیا۔
مجھے معلوم تھا کہ ائیر پورٹ سے باہر زریاب انکل اور آپی فرح میرے انتظار میں ہوں گے۔ میرے پاس ایک چھوٹا سا بیگ تھا۔ اس لیے ائیر پورٹ کے مراحل سے جلد ی گزر گیا۔ میں ان دونوں کی تصویریں بہت دفعہ دیکھ چکا تھا۔ اس لیے پہلی نگاہ ہی میں انہیں پہچان گیا۔میں ان کے گلے لگ گیا۔ تو میری پیٹھ تھپکتے ہوئے بولے۔
”دیکھو.... ! ہم پہلی بار مل رہے ہیں۔ مگر ذہنی طور پر ہم ایک دوسرے کے کتنے قریب ہیں“۔
”یہ تو ہے انکل....!“ میں نے کہا تو ایک جوان سی لڑکی نے مجھے گلے لگا لیا اور پیار سے بولی۔
”پتہ ہے میں کون ہوں؟“
”فرح آپی....!“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بہت پیار سے بولیں
”نہیں، بلکہ میرا بھائی، ابان تو فروا کا بھائی ہے۔ اب میرا بھائی آ گیا ہے تو ہم دونونں مل کر خوب ان کی دھنائی کریں گے“۔
اس پر زریاب انکل نے زور دار قہقہہ لگایا اور پھر بہت زیادہ خوش ہوتے ہوئے بولے۔
”دیکھنا بیٹے....! اس کی باتوں میں نہیں آجانا۔ وہ جیسا کہتے ہیں نا، ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور یہاں معاملہ ایسا ہے“۔
”نہیں پاپا....! میں کم از کم اس کے ساتھ ایسا نہیں کروں گی۔ یہ میرا بھائی ہے کوئی اس کی کیئر کرے نہ کرے، میں ضرورکروں گی“۔ فرح آپی نے بہت پیار اور سنجیدگی سے کہا۔
”میں خوش قسمت ہوں آپی، میری کوئی بڑی بہن نہیں ہے اور ایسے ہی کسی رشتے کے لیے میرے دل میں ہمیشہ شدید خواہش تھی، جواب پوری ہو گئی ہے“۔
”اچھا چلو، جلدی سے گھر چلیں، وہ ناشتے پر ہمارا انتظار کررہے ہوں گے“۔ زریاب انکل نے کہا تو ہم تینوں پارکنگ کی جانب چلے گئے۔
آنٹی فرحانہ، ابان اور فروا ہمارے منتظر تھے۔ وہ سب بہت پیار سے ملے۔ اک ذراسی بھی اجنبیت کا احساس نہیں تھا۔ مجھے لگتا تھا جیسے میں اپنے ہی گھر میںآ گیا ہوں۔
”چلو ، سیدھے ناشتے کی میزپر، پھر بعد میں ہوتا رہے گا آرام“۔ آنٹی نے کہا تو ہم سب ناشتے کی میز پر جا پہنچے، جہاں ناشتے کے نام پر ساگ سے لے کر ٹوسٹ تک پڑے ہوئے تھے۔ اس قدر اہتمام دیکھ کر میں نے فرح آپی سے کہا۔
”لگتا ہے میں کسی اجنبی کے گھر آگیا ہوں“۔
”کیا مطلب ہے تمہارا، ہم اپنے ہی گھر میں آئے ہیں“۔
”تو یہ اہتمام....! کیا روزانہ ایسا ہی ناشتہ کرنا پڑے گا“۔ میں نے مصنوعی حیرت سے کہا تو سب ہنس دیئے۔
”آج عیاشی کرلو ،کل سے تو فقط پراٹھا اچار ہی ملے گا“۔ فروا نے تیزی سے کہا۔
”کیوں جی، اسے وہی ناشتہ ملے گا، جو یہ چاہے گا؟“ فرح نے باقاعدہ میز پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا تو زریاب انکل نے ہنستے ہوئے فرحانہ آنٹی سے کہا۔
”تمہیں پتہ ہونا چاہئے کہ یہ اب فرح کا بھائی ہے۔ اس کی دیکھ بھال میں ذرا سی بھی کمی آئی تو احتجاج فرح نے ہی کرنا ہے“۔
”بس تو پھر، یہ گیا اپنے کام سے....بس چند دن لگیں گے انہیں پاگل ہوتے ہوئے“۔ فروانے ہنستے ہوئے کہا۔
”ہاں....! جیسے آپی خود ہیں“۔ ابان نے لقمہ دیا تو ان دونوں کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے فرخ آپی نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
”اس وقت ہم اﷲ کے دیئے ہوئے رزق کے سامنے بیٹھے ہیں۔ اس لیے میں کسی قسم کی کوئی بحث نہیں کروں گی۔ لہٰذا ناشتہ شروع کیا جائے“۔
پھر ایسی ہی نوک جھونک، رچڈل والوں کے بارے میں حال احوال، پاکستان کے موسم اور مقامی حالات پر باتیں کرتے ہوئے ناشتہ ختم کیا۔
”لو بھئی تم کرو آرام اور میں چلتا ہوں آفس، بعد میں آ کر سکون سے باتیں کریں گے“۔ زریاب انکل نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”ٹھیک انکل، جیسا آپ چاہیں“۔ میں نے مو ¿دب انداز کہا تو فرح آپی بولیں۔
”آﺅ، میں تمہیں تمہارا کمرہ دکھاﺅں۔ وہاں آرام کرو“۔ یہ کہتے ہوئے وہ چل دیں اور میںان کے پیچھے چل پڑا۔ دوسری منزل پر ایک کشادہ بیڈ روم میں جاتے ہی سکون کا احساس ہوا۔ وہ چند منٹ ٹھہر کر چلی گئیں اور پھر میں جو سویا تو شام کی خبر لایا۔
میں فریش ہو کر نیچے گیا تو انکل لان میں تھے۔ انہوں نے مجھے وہیں بلوالیا۔ میں ان کے پاس جا بیٹھا۔ اِدھر اُدھر کی گپ شپ کے بعد انہوں نے وہ ذکر چھیڑ دیا، جس کے لیے انہوں نے مجھے یہاں بلوایا تھا۔ انہوں بڑے سکون سے کہا۔
”دیکھو بیٹا....! دل تو یہی چاہتا ہے کہ اسلم کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو اس نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن ہم بھی بیٹیوں والے ہیں، احترام بہر حال ہمیں کرنا ہے۔ اسلم کا نہیں ، اس کی بیٹی کا۔ اسے وہی عزت اور مان دینا ہے، جو اپنے گھر کی خواتین کو دیا جاتا ہے“۔
”میں آپ کی بات نہیں سمجھ سکا“۔ میں آہستگی سے کہا۔
”میں تمہیں پوری بات بتاﺅں گا تو ہی سمجھ آئے گی“۔ انہوں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا، پھر چند لمحے توقف کے بعد کہتے چلے گئے۔” اسلم کی بیٹی یونیورسٹی میں داخلہ لے چکی ہے۔ جن دنوں میں نے تمہیں یہاں آنے کو کہا تھا، ان دنوں میں نے پوری طرح تصدیق کرلی تھی کہ اس کی بیٹی ماہم نے یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے لیے کاغذات جمع کروائے ہیں۔ ایک میں نہیں، دو تین ڈیپارٹمنٹ میں۔ میں نے ابان کے نام سے تمہاری تصویریں لگا کر کاغذات جمع کروا دیئے۔ابان کا داخلہ بھی سب میں ہو گیا۔ ماہم نے ایک ڈیپارٹمنٹ چنا اور اس میں باقاعدہ کلاس لینے لگی ہے۔ تمہارا داخلہ بھی ابان کے نام سے وہیں ہو گیا ہے۔ اب تم نے اس وقت تک وہاں پڑھنا ہے، پڑھنا کیا ، کلاسز لینی ہیں، جب تک تم ماہم کو اپنے اس حد تک کلوز کر لو کہ وہ تم سے شادی کے لیے راضی ہو جائے“۔ یہ کہہ کر انہوں طویل نے سانس لیا۔
”اوہ.... ! تو یہ ہے بات“۔ میں نے سمجھتے ہوئے کہا پھراچانک خیال آیا۔ ”اس طرح ابان کی تعلیم کا کیا ہو گا؟وہ ....“
” یہ میرا مسئلہ ہے۔ داخلہ یقینا غیر قانونی ہے۔ اس کا تمہیں دھیان رکھنا ہو گا۔ ماہم کی عزت، احترام اور حرمت ہر وقت ملحوظ خاطر رہے۔ کسی کو بھی ذرا سا شک نہیں ہوناچاہئے کہ تم یہاں کے نہیں ہو، برطانیہ سے ہو۔ اس دوران چھٹیوں میں تم واپس جاکر آجانا، اب یہ تم پر ہے کہ تم اس سارے معاملے کو نبھا پاتے ہویا نہیں“۔ انہوں نے کسی حد تک بے یقینی کے سے انداز میں کہا۔
”آپ نے یہ سب کر لیا تو میں کیوںنہیں کر پاﺅں گا ۔ مگر آپ نے شاید ایک بات کا خیال نہیں رکھا۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے، ایک ہی گھر میں یہاں ہونے کی وجہ سے اسلم کو یا دوسروں کو معلوم نہیں ہو گا کہ میں کون ہوں؟“ میں نے ان کی توجہ ایک اہم نکتہ کی طرف دلائی۔
”میں نے اس کا بندوبست کر لیا ہوا ہے۔ اس شہر میں میرے دوست کی ایک بڑی ساری کوٹھی ہے۔ سب کچھ ہے اس میں ہر طرح کی سہولت جو تمہارے شایانِ شان ہو گی۔ یہ سب تمہارے لیے ہے میری طرف سے۔ تم نے ظاہر یہی کرنا ہے کہ اس کوٹھی کے مکین یورپ گئے ہوئے ہیں۔ تم یہاں کے مضافات سے تعلق رکھتے ہو۔ انہوں نے تمہیں یہاں نگرانی کے لیے رکھا ہوا ہے۔ تمہارے ساتھ دو ملازمین بھی ہیں۔ تم نے چونکہ پڑھنا تھا، اس لیے یہ آفر تم نے قبول کرلی۔ یہ تمہاری حد تک ہے،اس سے آگے کسی کو اپنا بھید مت دینا۔ تم ہم سے کٹ کررہو گے۔ یہاں تک کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو جاتے“۔ انکل زریاب نے پوری بات سمجھا دی۔
”تو انکل....!اب مجھے اپنے پاپا کا بدلہ لینے کے لیے میدانِ عشق میں اترنا پڑے گا۔ خیر دیکھ لوں گا۔ کب جانا ہو گا مجھے کیمپس ؟“ میں نے مسکراتے ہوئے خوشگوار انداز میں پوچھا۔
”صبح ،اور تم ابھی اس کوٹھی میں جارہے جس کا نام سبزہ زار ہے۔ وہاں سے آیا ہوا ملازم سلیم باہر تمہارا انتظار کر رہا ہے،وہ میرا بہت خاص بندہ ہے۔ کوئی مشکل معاملہ ہو یا کسی مشورے کی ضرورت پڑے تو بلاجھجک اس سے کر کیا کرنا“۔ انکل نے کہا تو میں چونک گیا۔
”صبح؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں.... تم پہلے ہی دو ہفتے لیٹ ہو ۔ کل تم نے کلاس جوائن کرنی ہے۔ باقی سب باتیں فون پر ہوتی رہیں گی۔ یہ لو، یہ سیل فون تم استعمال کرنا“۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے جیب سے ایک عام سا فون نکالا اور مجھے دے دیا۔ میں نے وہ فون پکڑا اور اٹھ گیا۔
”ٹھیک ہے انکل....! میں چلتا ہوں“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ابھی ٹھہرو، اپنا بیگ لیتے جاﺅ“۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنے ملازم کو آواز دے دی۔ تب ان لمحات میں مجھے یوں لگا کہ میں میدان جنگ میں اتر گیا ہوں۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *