Wednesday 30 August 2017

خال

خال

امجد جاوید

''سرجی ۔! آپ نے اس لڑکی کو دیکھاہے''
 ''نہیں۔''
وہ اس قدر حسین ہے کہ بندہ اسے دیکھ کر'' آنکھ جھپکنا بھول جائے۔اس قدر چرب زبان اور شاطر ہے ،کوئی کتنا بھی پارسا کیوں نہ ہو ،بس اس کے پاس کچھ دیر بیٹھ جائے ۔وہ تو اسے بھی شیشے میں اُتار لے گی۔وہاں میرے جیسے بندے کی کیا اوقات ہے بھلا۔“ میرے سامنے میز کے پار بیٹھا وہ نوجوان وقاص اپنی بپتا سنانے کا آغاز کر چکا تھا۔میں اس کی بات پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ سننے لگا کیونکہ اس کے لہجے میں وہ درد اور المناک کیفیت کا احساس تھاجو کسی بھی ناکام عاشق کا ہوتا ہے۔
آپ شاید یہ سمجھیں کہ میں کوئی”لوگرو“ قسم کو بندہ ہوں۔ایسا نہیں ہے۔میں ایک ایک ناکام صحافی ہوں ۔جو بڑا نہیں، اچھا صحافی بننے کا خواہش مند تھا۔میں صحافتی سرگرمیوں میںنا کام ہو گیا ۔مگر جنہوں نے مجھ سے قلم پکڑنا سیکھا تھا وہ نہ صرف بڑے بلکہ کامیاب صحافی بن گئے تھے۔مجھے یہ افسوس بہر حال رہا کہ وہ اچھے صحافی نہ بن سکے۔کیونکہ ان کے کام ہی کچھ ایسے تھے۔میںتو ایسے دشمن تلاش کرتا رہا جو مجھے میرے منافق دوستوں سے بچا لیتا۔ میں اس میں بھی ناکام رہا۔ خیر۔!سلیم شیخ انہی ”کامیاب“صحافیوں میںسے ایک تھا۔ اس کے سامنے ایک ٹیڑھا مسئلہ آن پڑا ۔وہ اس نوجوان وقاص کا مسئلہ تھا۔اس کے بارے میںمجھے یہی بتایا گیا تھا کہ ایک حسین و جمیل ، شاطر و طرح دار لڑکی نے پیار و محبت کا ڈھونگ رچا کر اسے لوٹ لیا ہے۔وہ لڑکی اپنے تعلقات میں اس قدر طاقت ور ہے اب اس پر ہاتھ ڈالتے ہوئے وہ خوف زدہ ہے۔وہ ان مقامی صحافیوں کے پاس مدد کے لئے آن پہنچا۔ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کریں سو مجھے بڑے اہتمام سے آفس میں لایا گیا اور اس کو میرے سامنے بٹھا دیا کہ اس کی رودادسنیں اور کوئی حل نکالیں۔جبکہ میرے ذہن میں ایک ہی سوال تھا کہ اس لڑکی سے اتنا خوف زدہ کیوں ہیں؟ یہ سوال ذہن میںرکھتے ہوئے میں نے وقاص کے سلسلہ گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیئے سوال کیا۔
”تم اگر اس لڑکی کا برا نہیں چاہتے ،اس کے ساتھ مخلص ہو تو پھر کیا چاہتے ہو؟“
”کچھ بھی نہیں ،سوائے اس دولت کے جو لڑکی نے مجھ سے ہتھیا لی ہے۔میںتولٹ گیا ہوں ۔برباد ہو گیا ہوں۔میرے پلے تو اب کچھ بھی نہیں رہا۔میںتو اب کوئی کاروبار کرنے کے لائق بھی نہیں رہا۔چار سال تک کویت میں رہ کر جو پونجی کمائی تھی وہ لے اُڑی۔“ اس نے حسرت آمیز لہجے میںکہا۔
”تم اتنے ہی بے وقوف تھے کہ اُس پر اپنی ساری پونجی لٹا دی۔پاگل تھے کیا تم؟“میں نے کافی حد تک درشت لہجے میں پوچھا ۔میرے یوں پوچھنے پر یقینا اس کی نگاہوں میں اس لڑکی کا سراپا لہرایا ہو گا۔وہ خیالوں ہی میں ٹھٹک گیا پھر لمحہ بعد تیزی سے بولا۔
”سر جی،عرض کیا ہے نا،وہ حسین ہی اس قدر ہے کہ بندہ اس کے سامنے جاتا ہے نا تو سمجھو پاگل ہو جاتاہے۔اور پھر وہ کیا۔۔۔وہ تو۔۔وہ تو۔۔۔ “وہ کہتے کہتے رک گیا۔
”تو وہ کیا؟“ میںنے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”وہ تو بالکل ویسی ہے،جیسے میرے خوابوں کی شہزادی ہے۔میں نے جب اسے دیکھا تو اس کے حسن ہی کا ہو کے رہ گیا ۔میری باقاعدہ منگنی ہوگئی تھی اس کے ساتھ۔میں سرجی آپ کو شروع سے بتاتا ہوں۔“ اس نے صوفے پر پہلو بدلتے ہوئے کہا تو میں نے اس کے چہرے پر اپنی نگاہیں جما دیں۔”وہ جب میں کویت سے آیا تو میں نے پہلی بار اسے اپنی کزن کی شادی میں دیکھا۔سرجی وہ کیا شے لگ رہی تھی۔یہ اونچا لمبا سرو کے جیسا اس کا قد،گہرے نیلے رنگ کا شلوار سوٹ پہنا ہوا تھااس نے، جس پر سنہری کام تھا۔لباس ایسا تھا کہ جس سے اس کا گورا بدن چھلک ہی رہا تھا۔جسم کا ایک ایک خم نمایاں تھا۔میںتو دور ہی سے دیکھ کر چونک گیا ۔اتنے خوبصورت بدن والی لڑکی۔اس کی پشت میری طرف تھی۔اس کے کھلے ہوئے گیسو کمر سے بھی نیچے تک جھول رہے تھے۔میںکویت میں رنگ رنگ کا حسن دیکھ کر آ یا ہوں ۔مگر جو بات اس میں ہے نا،کسی اور میں نہیں ہے۔اسے یوں دیکھ کر شدت سے اُس کا چہرہ دیکھنے کی خواہش میرے دل میں مچلنے لگی تھی۔اور پھر سر جی،میں دل کڑا کر کے اس کے سامنے جا پہنچا ،تب تو پھر میرے ویسے ہی ہوش گم ہو گئے۔کیا نین نقش تھے اس کے ،میں تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔وہ جی کہتے ہیں ناکہ پہلی نظر میں محبت ہو جاتی ہے۔بس مجھے وہ ہو گئی ۔میرے تو دن رات کا چین لٹ گیا۔میں نے چند دن بعد ہی اپنے والدین سے کہہ دیاکہ مجھے تو بس یہی رخسانہ ہی چاہیئے۔“اتنا کہہ کر اس نے اپنی بات میں وقفہ دیا۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے میںنے پوچھا۔
”اچھا تو اس کا نام رخسانہ ہے ،کون ہے وہ؟“ میں نے اس کی ساری سراپا نگاری کو نظر انداز کر تے ہوئے پوچھا تو وہ فوراً گویا ہوا۔
”وہ جی ، یہ جو چمن نگر ہے۔وہاں کا جو بنیادی مرکز صحت ہے۔وہ اس میںایل ایچ وی ہے۔“
”بس ایک ایل ایچ وی سے ڈرے ہوئے ہو، ارے وہ تو ایک درخواست کی مار ہے۔“ میںنے شیخ سلیم کی طرف دیکھ کر افسوس سے کہا۔پھر سامنے پڑے ہوئے ٹیلی فون کا ریسور اٹھاتے ہوئے کہا۔”ابھی ایک فون کرتا ہوں ضلعی آفیسر کو،اور وہ ۔۔۔“میں نے کہنا چاہا تو وہ نوجوان تیزی سے بولا۔
”خدا کے لیئے۔! یہ ریسور رکھیں اور میری پوری بات سنیں۔“اس کے یوں کہنے پر میں نے ریسور رکھ دیا اور پھر سے اس کی طرف متوجہ ہو گیا۔تو وہ کہنے لگا۔”اس کے تعلقات پتہ نہیں کہاں کہاں تک ہیں سر جی۔میرا خیال ہے آپ اب خبروں پر نگاہ نہیں رکھتے ۔ شیخ صاحب آپ ہی بتائیں۔“
”وہ پچھلے دنوں وہیں چمن نگر میں اس نے ایک ڈاکٹر کو تھپڑ مار دیا اور پھر اس ڈاکٹر کے خلاف اس نے جلوس بھی نکلویا دیا۔اس ڈاکٹر کی تو وہ درگت بنی کہ اسے وہاں سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا۔کافی عرصہ معطل رہنے کے بعد اب بحال ہوا ہے ۔ وہ چمن نگر ہی نہیں یہ ضلع ہی چھوڑ گیاہے۔“
” یار ایسی بلا شے کون ہے؟“ میں حیران رہ گیا۔
” وہ ایسی ہی ہے سر جی،وہ خود کچھ بھی نہیں ہے۔ بس حسن کا ایک شاہکا ر مجسمہ ہے۔ اس کے پیچھے بہت سارے بے غیرت قسم کے دلال نما لوگ ہیں۔کچھ سامنے ہیں اور کچھ اپنی سازشوں میں اس لڑکی کا استعمال کرتے ہیں۔ میں بھی ایسی ہی سازش کا شکار ہو گیا ہوں۔ کسی نیچ اور گھٹیا بندے کو میری کویت سے لائی ہوئی دولت نہیں بھائی۔ مجھے جو علاقے میں عزت اور شہرت ملی ہے وہ انہیں برداشت ہی نہیں ہوئی۔ ایسے حسدکے مارے لوگ مختلف ہتھکنڈوں ، حیلوں اور بہانوں سے سازش کرکے اپنے دل کی آ گ بجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔مگر ایسا ہوتا نہیں، ان کی یہ آگ بڑھ جاتی ہے۔ “ اس نے حد درجہ جذباتی ہوتے ہوئے کہا
”ہاں یار مجھ تمھاری بات میری سمجھ میں آ رہی ہے۔“ میں نے ہمدردی سے کہا پھر سلیم شیخ سے پوچھا” کیوں، تمہیں کیا لگتا ہے، وہ کوئی گینگ وغیرہ تو نہیں ہے؟“
” اِسے ہی تو سمجھنا ہے کہ ایسا ہے بھی یا نہیں۔ اگر ایسا ہے تو ۔۔۔“ اس نے معنی خیز نگاہوں سے مجھے دیکھتے ہوئے کہا پھر دھیرے سے مسکرا دیا۔ میں سمجھ گیا کہ اس کے دماغ میں کیا چل ہا ہے۔ تب میں نے وقاص سے پوچھا
” اچھا ، یہ بتاﺅ ، منگنی کیسے ہو گئی تمھاری؟“
” بس میری غلطی کا آغاز تو یہیں سے ہوا ہے نا سر جی، میں نے اپنے والدین سے بات کی۔ وہ بہت مشکل سے مانے، کیونکہ ان کی ذات برادری الگ ہے اور ہماری الگ۔ میں نے ہر طرح کا دباﺅ دے کر اپنے والدین کو منا لیا۔ انہوں نے درمیان میں کچھ لوگ ڈالے، ان کی مرضی معلوم کی اور پھر ان کے ہاں جا پہنچے ۔ دو چار دفعہ آنے جانے سے اور ایک ہی مقصد ہونے کی وجہ سے وہ لوگ مان گئے۔ بس اس طرح منگنی ہو گئی۔پھر وہ جو اجنبیت کی جھجھک تھی، وہ ختم ہوگئی۔ہم گاہے بگاہے ملتے رہے۔ انہی ملاقاتو ں میں وہ پہلے پہل تو دور دور رہتی رہی۔ لیکن پھر ہر ملاقات میں وہ ایک الگ سا نشہ دیتی رہی۔ وہ مجھ پر اس طرح خمار طاری کر دیتی کہ مجھے اپنا ہوش ہی نہ رہتا۔“ وہ اپنی رُو میں کہتا چلا گیا۔
” مطلب تم شادی سے پہلے ہی۔۔۔؟“ میں نے چونک کر پوچھا
”نہیں نہیں سر جی ، اس کے حسن کا سحر،اس کے لمس خمار، اس کی باتوں کا جادو، آئندہ آنے والے دنوں کے خواب کچھ ایسے رنگین ہوتے تھے کہ مجھے کچھ ہوش ہی نہیں رہتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے مطالبات بڑھتے چلے گئے۔“ اس نے اپنی بات میں زور دیتے ہوئے کہا
” کیا مطالبات تھے اس کے؟“ میں نے پوچھا
”یہی کہ اگر شادی جلدی کرنی ہے تو پہلے میرے جہیز کا سامان بنا دو۔ہر شے میں اپنی مرضی کی خود خریدوں گی۔میں اسے رقم دیتا رہا۔میں اب سوچتا ہوں ، وہ شاطر ایسی تھی کہ کہیں بھی رقم لینے دینے کا کوئی ثبوت نہیں ہے میرے پاس۔“ وہ تیزی سے بولا
”خیر ، قصہ کوتاہ یہ ہے کہ وہ شاطر، تعلقات والی طاقت ور حسینہ تمہیں لُوٹ چکی ہے اور اب تم اس سے اپنی رقم واپس لینا چاہتے ہو، بس یہی بات ہے نا؟“ میں نے بات کو سمیٹتے ہوئے پوچھا۔
”سر جی ، اگر تو وہ رقم واپس کر دیتی ہے اور تعلق نہیں رکھنا چاہتی، تو بھی ٹھیک ہے۔ اگر وہ شادی کر لینے پر راضی ہو جاتی ہے تو میں سب کچھ بھول جاﺅں گا۔ اس طرح کم از کم علاقے میں میری عزت ہی رہ جائے گی۔“ آخرکار اس نے اپنا مدعا بیان کر دیا۔
” اور اگر وہ ان باتوں پر بھی راضی نہیں ہوتی تو پھر کیا کیا جائے؟“ میں نے پوچھا
”تو پھر کم از کم اس کا یہاں سے تبادلہ کہیں دُورہو جائے۔“ اس نے کہا تو میں سوچ میں پڑگیا۔ کیا کرنا چاہئے؟ میں کافی دیر تک سوچتا رہا۔ میری سوچ جدھر بھی جاتی، وہیں سے ناکام لوٹ آتی۔ میں کچھ ایسا کرنا چاہتا تھا کہ یہ معاملہ بخیر و خوبی حل ہو جائے۔ تب اچانک میرے ذہن میں خیال آ گیا تو میں نے کہا۔
” یار کیوں نا میں اس سے سیدھے سبھاﺅ جا کر ملوں اور اس سے بات کرلوں؟“
” دیکھ لیں، جو آپ بہتر سمجھیں۔“ وقاص نے تیزی سے کہا تو نجانے مجھے یہ شک کیوں گزرا کہ ممکن ہے یہ ہمارے ہی خلاف کوئی سازش تو نہیں ہے۔
” ہم وہاں جائیں گے کیسے؟“ سلیم اپنے مطلب کی بات پر اُتر آیا۔
”باہر کار کھڑی ہے۔ میں آپ کو لے جاتا ہوں۔ پر میں ایک بات آپ کو بتا دوں۔ آپ اگر اس پر ہاتھ ڈالو تو بہت مضبوطی سے،سانپ پکڑنے کے لئے بڑا محتاط ہونا پڑتا ہے۔“ وہ محتاط لہجے میں بولا
” میں تمھارا مشورہ ذہن میں رکھوں گا۔ سلیم یار ٹیم تیار کرو۔“ میں نے کہا اور چمن نگر جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ ٹیم تیار کرنے کا مطلب تھا کہ اخبار والوں نے اچانک اس بنیادی مرکزِ صحت پر چھاپہ مارا ہے۔ جہاں رعب داب پڑتا ، وہاں سیلم کی دہاڑی کھری ہونے والی تھی۔ مگر مجھے اس کوئی سروکار نہیں تھا۔
چھ بندے چمن نگر کی جانب چل پڑے۔ اندازے کے مطابق وہ کوئی آدھے گھنٹے کا سفر تھا۔اس دوران وقاص مجھے اس لڑکی کے بارے میں بہت ساری باتیں سناتا چلا گیا۔ جو اسے گاہے بگاہے معلوم ہوتی رہیں۔جس ڈاکٹر کے خلاف اس نے جلوس نکلوایا تھا ۔اس سے پہلے ایک ڈاکٹر کے ساتھ عشق کی پینگیںبڑھاتی رہیں ۔ جب اسے اچھی طرح نچوڑ لیا تو بلیک میل کرنے لگی۔وہ بندہ خدا،اس سے سچ مچ کا عشق کرنے لگ گیا تھا۔وہ ذلیل و خوار ہو کر یہاں سے نکلا ،وہ ایسا یہاں سے ایسا گیا کہ اس نے نہ صرف نوکری چھوڑ دی ،بلکہ وہ نشے کی لت میں بھی مبتلا ہو گیا۔رخسانہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ اس نے اپنی حفاظت کے لےے چند غنڈے بھی رکھ چھوڑے ہیں،جو عموماً اس کے پاس ہی رہتے ہیںاور ان کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ تعلق کی نوعیت کیا ہو سکتی ہے۔ایسی اور کئی باتیں مجھے وقاص نے سنائیں۔ جیسے ہی ہم چمن نگر کے باہر پہنچے تو نوجوان نے گاڑی روک دی ۔تب میںنے پوچھا 
”کیا ہوا ، گاڑی کیوں روک دی؟“
”آپ جائیں، میں یہیں رکوں گا۔ظاہر ہے میں ساتھ ہوا تو وہ سمجھ جائے گی کہ میں نے بھیجا ہے۔ اسے تو بھنک بھی نہیں ملنی چاہیے۔“ وقاص نے کہا تو مجھے اس کی بات نہایت معقول لگی۔تب میں نے سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو؟“
”میںیہیں آپ کا انتظار کرتا ہوں۔“اس نے اشارے سے بتایا۔وہ نہر کنارے ایک چھوٹا سے ہوٹل تھا ۔جس کے باہر چارپائیاں اور لکڑی کی کرسیاں رکھی ہوئیں تھیں ۔ میں نے اس منظر میں زیادہ دھیان نہیں دیا۔کیونکہ ایک دوسرے لڑکے نے سٹیرنگ سنبھال کر گاڑی بڑھا دی تھی۔
جب میں چمن نگر کے نبیادی مرکز صحت کے اندر گاڑی میں سے اترا تو میرے ذہن میں رخسانہ کا تصور ایک عیاش ، شاطر اور خود غرض لڑکی کے طور پر بن چکا تھا ،جو اپنی خواہش کے لےے کچھ بھی کر سکتی تھی۔ایسی عورت کو میں سبق سکھانا چاہتا تھا۔دوسرے لفظوں میں کہا جائے تو اسے سبق سکھانے میں میری خواہش بھی شامل ہو گئی تھی۔مجھے ان بے غیرت اور گھٹیا مردوں پر زیادہ غصہ آ رہا تھا کہ جو ایسی عورتوں کو اپنے مقاصد کے لےے استعمال کرتے ہیں۔
میں گاڑی سے نکل کر سیدھا ڈاکٹر کے کمرے میں چلا گیااو ر باقی ٹیم اردگرد پھیل گئی ۔تا کہ وہ یہ کاروائی ڈال سکیں کہ کتنے ملازمین حاضر ہیں۔کیا ہوا ہے،اور کہاں کہاں خامی ہے۔جسے وہ ان کی کمزوری بنا سکیں۔ایک شریف سا ، خشخشی داڑھی والا، لمبے قد کا ڈاکٹر کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا ۔کوئی مریض نہیں تھا، میز پر مختلف چیزیں تھیں ، وہ مجھے اندر آتا ہوا دیکھ چکا تھا ، میں نے دبنگ انداز میں سلام کیا اور بڑے کروفر سے اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔
”جی فرمائیں ۔!“وہ انتہائی تمیز سے بولا تو میں نے اپنا تعارف بڑے ٹھنڈے لیکن دھانسو انداز میںکروایا ۔تب وہ چونک گیا اور کسی حد تک حواس باختہ ہو کر پریشان بھی ہو گیا۔ظاہر ہے بیٹھے بٹھائے اخبار والے ان پر غضب کی طرح نازل ہو گئے تھے۔ پھر ایسا چھوٹا اسٹیشن جو پہلے ہی خبروں کی زد میں تھا۔میںنے اس سے زیادہ باتیں نہیں کیں ،بلکہ اسے لے کر دفتر سے باہر آ گیا اور اپنے انداز میں سوال پر سوال کرنے لگا۔میرا مقصد رخسانہ کے کمرے تک پہنچنا تھا اور کسی بہانے وہاں رُک کے اس سے گفتگو کرنا تھی۔کچھ ہی دیر بعد میں اس کے دفتر میں تھا اور وہ میرے سامنے تھی۔ میں چونکا نہیں ۔بلکہ مجھے چونکنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔وہ حجاب میں تھی اور بڑی ساری چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔ 
”یہ ہیں جی،مس رخسانہ ،یہاں ایل ایچ وی ہیں۔بہت ہی محنتی اور تجربہ کار اور پابند وقت ہیں۔ علاقے کی عوام ان کے کام سے بہت خوش ہیں۔“ڈاکٹرنے بڑی خوش اسلوبی سے اس کا تعارف کرایا تو میںدھیرے سے مسکرایا دیا ۔پھر رخسانہ کی خوبصورت آنکھوں میںدیکھتے ہوئے بولا۔
”اگر آپ اجازت دیں تو میں یہاں بیٹھ کر کچھ دیر آپ سے باتیں کر سکتا ہوں؟“
”جی کیوں نہیں،تشریف رکھیں“اس نے کہا ،یقینا اسے میرے بارے میں معلوم ہو گیا تھا۔تبھی ڈاکٹر واپس مڑتے ہوئے بولا۔
”سر جی،آپ یہاں سے فارغ ہو جائیں تو دفتر میںتشریف لے آئیے گا، چائے ادھر ہی پیئں گے۔“میں نے اثبات میں سر ہلایا اور رخسانہ کی طرف دیکھنے لگا جو ستی ساوتری بنی سیاہ چادر میں لپٹی ہوئی تھی۔بلاشبہ اس کی آنکھیں خوبصورت تھیں۔ گورے رنگ میںگلابی پن کی جھلک تھی،گلابی آمیزش والے گورے رنگ پر سیاہ آنکھیں تو خوبصورت تھیں ہی،لیکن ان میںمن موہنی آنکھوں کا دیکھنے انداز اپنی جگہ پر کشش اور منفرد تھا۔تجسس بھری سوال کرتی،کچھ سہمی بے باک نگاہیں۔اس نے اپنا نقاب جس ہاتھ سے روکا ہوا تھا۔وہ مرمریں ہاتھ شفاف تھا،لابنی لابنی انگلیوں کے ساتھ گول گلابی کلائی ،صاف دکھائی دے رہی تھی۔میز کی دوسری جانب بیٹھی وہ میری لب کشائی کی منتظر تھی۔میں نے پاس کھڑی دائی کی طرف دیکھا،جس کا مطلب یہی تھا کہ وہ وہاں سے چلی جائے میں اس کی غیر موجودگی میںبات کرنا چاہتا ہوں۔میری نظروں کا مفہوم سمجھ کر وہ بولی۔
”آپ بلا جھجھک بات کریں ،جو بھی آپ کہنا چاہتے ہیں؟“
”دیکھیں ، میں تمہید میں اپنا اورآپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔آج اگر ہم اس بنیادی مرکز صحت میں آئے ہیں اس کی وجہ صرف آپ ہیں۔“
”میں۔۔وہ کیوں؟“اس نے حیرت زدہ لہجے میں چونکتے ہوئے کہا۔ تو میں بڑے پر سکون انداز میں گویا ہوا۔
”آپ کے بارے میںکافی ساری شکایات ہمیں ملی ہیں۔جس سے یہی تاثر ملتا ہے کہ آپ یہاں کی کرتا دھرتا ہیں۔یہاں تک کہ کوئی ڈاکٹر بھی آپ کی مرضی کے خلاف یہاں نہیں ٹک سکتا۔“
”آپ سے کسی نے مذاق کیا ہو گا“ اس نے چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد پر اعتماد لہجے میںکہا ۔یقینا یہ کہتے ہوئے وہ طنزیہ انداز میںمسکرائی بھی ہو گی کیونکہ اس کی آنکھیں یہی بتا رہی تھیں۔
”آپ کے خیال میں میرے ساتھ کوئی مذاق کیوں کرے گا؟اور۔۔۔۔“میںنے کہنا چاہا اتو اس نے میری بات قطع کرتے ہوئے اسی اعتماد سے بولی۔
”کیونکہ ایسا قطعاً نہیں ہے۔یہ میں اس لےے بھی کہہ سکتی ہوں کہ آپ نے فقط سنا ہو گا اور پھر یہ سوال آپ بغیر کسی تحقیق کے مجھ سے کر رہے ہیں ۔ اگر آپ یہاں تحقیق کرلیتے ، جو بہرحال آپ کافرض بنتا تھا۔توآپ کو بھی اچھی طرح معلوم ہو جاتا کہ ایسا کچھ نہیں ہے۔میں ایک سرکاری ملازم ہوں اور یہاں اپنی ڈیوٹی پوری دیانتداری سے دے رہی ہوں۔ہاں اگر میرے بارے میںکسی کو کوئی شکایت ہے تو بتائیں۔“
”کوئی اگر بتاتا بھی ہے تو آپ کے خلاف کوئی محکمانہ کاروائی نہیں ہوتی،جس کی وجہ آپ کے تعلقات ہیں ۔جیسے کہ پچھلے دنوں ایک ڈاکٹر۔۔۔“ 
”سر! اگر آپ کے پاس میری کوئی شکایت نہیں ہے تو پلیز وقت ضائع نہ کریں۔رہی اس ڈاکٹر کی بات ،وہ مسیحا نہیں بھیڑیا تھااور اس کے ساتھ جو بھی سلوک ہوا۔وہ بہت تھوڑا تھا۔ اور جہاں تک تعلقات کی بات ہے تو کاش میں اتنی طاقت ور ہوتی ۔پھر بتاتی۔“یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہی ،پھر تیزی سے بولی۔”یاپھر اگر کوئی کسی قسم کی انتقامی کاروائی آپ لوگ کرنا چاہتے ہیں تو وہ ایک الگ بات ہے۔“اس کے لہجے سے بغاوت ٹپک رہی تھی۔
”یہ آپ کو ایساکیوں لگا کہ میں آپ کے خلاف کوئی انتقامی کاروائی کرنے جا رہا ہوں۔“میں نے اس کی اکتائی ہوئی آنکھوں میںدیکھتے ہوئے کہا
”اس لیئے سر،کہ میںنے اب تک یہاں کسی کو بھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔میںنے دیانت داری سے خدمت کی ہے ۔میرا نہیں خیال کہ کوئی مریض یہاں آیا ہو اور وہ مجھ سے ناراض ہو کر گیا ہو۔ آپ کا لہجہ اور انداز بتا رہا ہے کہ بات وہ نہیں جو آپ کر رہے ہیں۔“اس نے تیز اور تیکھے لہجے میں بے اعتنائی سے کہا تو میں سمجھ گیا ،اس نے کتنی خوبصورتی سے پتہ استعمال کیا ہے اس نے صاف انداز میں اپنے آپ کو دیانت دار اور خدمت گذار بنا کر ایک طرف کر لیا اور یہی باور کرایا کہ اس پر کسی اور ہی وجہ سے الزام تراشی کی جا رہی ہے اور یہ اس کے خلاف انتقامی کاروائی ہے ۔ یہ وہ لمحات تھے جب مجھے صاف بات کہنے کے لےے تمہید باندھنا پڑی۔
”دیکھ بی بی۔!جب کسی پر کرپشن ثابت کرنی ہو تو اس کے ہزار راستے ہیں۔لیکن اگر ضلعی آفیسر آپ کا تبادلہ کسی دوردراز علاقے میں کر دے تو یہ بعد کی بات ہے کہ آپ اپنے تعلقات آزمائیں گی ،کیا خیال ہے؟
”یہی ایک میری کمزوری ہے جس کے باعث مجھے بلیک میل کیا جاتاہے لیکن جس قدر مجھے زچ کیا جاتاہے ، میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اگر میرا تبادلہ ہوا تو میںنوکری چھوڑ دوں گی۔“
”اس لیئے کہ آپ نے بہت زیادہ مال دولت جمع کر لی ہے۔۔۔“میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ تنک کر بولی۔
”سر۔!میں جب آپ سے کہہ رہی ہوں کہ آپ کھل کر بات کریں تو آپ کیوں جھجھک رہے ہیں۔ بولیں کس نے بھیجاہے آپ کو ؟“ اس کا انداز جارحانہ تھا۔اس نے کچھ اس طرح طنزیہ انداز میںکہا کہ مجھے ایک لمحہ کو سبکی محسوس ہوئی۔
”یہی کہ پہلے ڈاکٹر ،اور پھر دوبئی پلٹ کو لوٹنے کے بعد۔۔۔“ میںنے کہنا چاہ تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”میں سمجھ گئی ،آپ کو کس نے بھیجا ہے ۔آپ تو وہ سارے الزامات مجھے بتائیں گے ہی ۔لیکن اس سے پہلے میںوہ سارے الزامات آپ کو بتا دیتی ہوں جو وہ لوگوں کے سامنے مجھ پر لگاتا پھرتا ہے ۔سنیں،میں آپ کو سناتی ہوں۔لیکن میںپہلے آپ کو بتاتی ہوں کہ میرا تبادلہ میری کمزوری کیوں ہے؟“وہ بپھرتے ہوئے بولی ۔اس دوران اسے ہوش ہی نہ رہا کہ اس کا نقاب گر گیا ہے اور اس نقاب میں چھپا چہرہ چودھویں کے چاندکی طرح طلوع ہو گیا۔شفاف سفید اور گلابی چہرہ ۔ستوان ناک،رسیلے بھرے بھرے پتلے لب،گوشت بھری ٹھوڑی اور رخسار تو یوں تھے ،جیسے دو قاشیں چہرے پر سی دی گئی ہوں۔ایک لمحے کے لےے میں بھی اس کے حسن سے مبہوت رہ گیا۔لیکن اگلے ہی لمحے میں اس کے ہنر کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکا کہ اس نے نقاب اتارنے کا لمحہ کیا خوب چنا ہے۔وہ مجھے بھی اپنے رعب حسن میں لپٹ لینا چاہتی تھی۔جیسے کوئی مکڑی اپنے جال میںپھانسنے پر تیار ہو جاتی ہے۔میری توجہ ہٹ گئی تھی جس میں وہ بلاشبہ کامیاب ہو گئی تھی۔مجھے اس کی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑا۔
”سر جی ، میرے دونوں والدین بوڑھے ہو چکے ہیں۔دونوں بیمار ہیں، بہت مشقت کر لی انہوں نے۔میںان کی دیکھ بھال کے لئے یہاں سے قطعا کہیں نہیں جا سکتی۔میرا چھوٹا بھائی پڑھ رہا ہے۔میرا تبادلہ اگر ہو جاتا ہے تو اسے گھر واپس آنا پڑے گا۔اس کی پڑھائی ختم ہو کر رہ جائے گی ، وہ میڈیکل کے تیسرے سال میں ہے۔میں اپنے گھر اور بھائی کے تعلیمی اخراجات خود برداشت کر رہی ہوں ۔ کیونکہ میں ہی اپنے گھر کی واحد کفیل ہوں۔ نہ میں نوکری ختم کر سکتی ہوں اور نہ تبادلہ ہو جانا برداشت کر سکتی ہوں۔اور میری یہی کمزوری ان کے ہاتھ آ گئی ہے۔“ 
”میں نے تمھارے حالات سن لئے لیکن وہ جو الزامات لگا رہا ہے اس میں کوئی تو سچائی ہو گی۔ایویں توکسی پر کوئی الزام نہیں لگا دیتا“ میں نے تیزی سے کہا
”نہیں ،بہت سارے بے غیرت اور سازشی لوگ ایسے ہیں جو خواہ مخواہ الزام لگا دیتے ہیں ۔جو سراسر ان کی اپنی ذاتی وجہ ہوتی ہے اور۔۔۔۔“
”کیا یہ سچ نہیں کہ آپ کی اس سے منگنی ہو گئی تھی اور منگنی کی آڑ میں تم نے اس کی دولت ہتھیا لی۔“
”جھوٹ ،نہیں،منگنی نہیں ہوئی تھی۔اس نے فقط اپنے والدین کو میرے گھر بھیجا تھا ۔ میرے گھر والوں نے سوچنے کے لئے کچھ وقت مانگا ،جاتے ہوئے روایت کے مطابق اس کی والدہ میرے ہاتھ میں پانچ سو کا نوٹ تھما گئی۔وہی پانچ نوٹ انکار کے ساتھ انہیں واپس بھجوا دیا گیا۔وہ جو بندہ واپس دے کر آیا تھا ،وہ آج بھی موجود ہے ۔یہی دولت تھی جسے آپ جو مرضی رنگ دے دیں۔ان کی ذات الگ تھی اور ہماری الگ ،بات آگے بڑھ ہی نہیں سکتی تھی۔“
”اس کا دعویٰ ہے کہ تم نے اس کے ساتھ بہت زیادہ وقت گذارا ہے“
”سر یہ الزام نہیں ،تہمت ہے ۔میری اس سے یونہی ایک بار یہیں ملاقات ہوئی ہے ۔وہ کسی مریضہ کے ساتھ آیا تھا“۔وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولی۔ مجھے لگا کہ بہت اچھی اداکارہ بھی ہے۔
”اس مطلب ہے ،آپ ہر الزام سے خود کو بری الزمہ قرار دے رہی ہیں۔ویسے اس ڈاکٹر کے ساتھ کیا معاملہ پیش آیا تھا۔“میرے یوں کہنے پر اس نے میری طرف شاکی نگاہوں سے دیکھا اور پھر اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اعتماد سے بولی۔
”دیکھیں ۔!میں نہیں جانتی کہ میںکس قدر حسین ہوں۔لیکن میں اتنا جانتی ہوں کہ میں نے اپنی حفاظت خود کی ہے۔میں اپنی غربت کے ساتھ لڑی ہوں اور لڑ رہی ہوںمیں نے اسی جگہ ، چمن نگر میں لڑکوں کے ساتھ بیٹھ کر پڑھا ہے لیکن کسی کی جرات نہیں تھی کہ میری طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے۔وہ ڈاکٹرشادی شدہ ہو کر مجھ سے عشق فرمانے لگا تھا ۔ میں نے اسے احساس دلایا کہ تم اپنی حرکتوں سے باز آ جاﺅ۔لیکن وہ نہیں سمجھا ،پھر میںنے اسے سمجھا دیا ۔ کیا اپنے کردار کی حفاظت کرنا اب جرم ہے آپ کے معاشرے میں۔اگر یہ جرم ہے تو میں نے یہ جرم کیا ہے۔ میرے پاس کچھ اور ہو نہ ہو ایک صاف اور شفاف کردار ہے اور و ہ دوبئی پلٹ ، اپنی دولت کا زعم دکھاتا ہے مجھے۔۔اس نے مجھے دھمکی دی ہے کہ میرا تبادلہ کروا دے گا ۔۔کیونکہ اسے میری کمزوری کا پتہ ہے ۔“وہ حد درجہ جذباتی ہو گئی تھی ۔اس سے پہلے کہ میںکوئی بات کہتا وہ تیزی سے بولی۔”اچھا ہوا آپ یہ بات کہنے یہاں تک آگئے ہیں۔ورنہ مجھے کوئی اور راستہ تلاش کرنا پڑتا۔میں آپ سے فقط اتنا کہتی ہوں آپ پوری ایمان داری سے ان الزامات کی تحقیق کریں ۔اگر میںغلط ثابت ہوئی تو جو آپ کا جو حکم ہو گا میںاسے مانوں گی ۔جو سزا دینا چاہیں ،میں بھگتوں گی،لیکن اگر یہ سچ ثابت نہ ہوا تو پھر آپ کو میری ماننا ہو گی۔اور مجھے یقین ہے کہ آپ ظلم نہیں کریں گے۔۔“
اس کی بات سن کر میرے پاس کسی بھی قسم کے کسی سوال کی گنجائش نہیں رہی تھی۔کوئی سوال کرتا بھی تو وہ محض کمی بشی ہوتی یا پھر اپنی شکست کا واضح اعتراف ہوتا۔میں چند لمحے سوچتا رہا پھر اٹھتے ہوئے آہستگی سے کہا۔
”ٹھیک ہے ۔میں پھر آﺅں گا۔“
”میں انتظار کروں گی۔اور آپ جو حکم دیں گے ،میں مان لوں گی۔“اس نے حتمی انداز میں کہا۔میںنے اس کی طرف بھر پور نگاہ سے دیکھا،اس کے چہرے پر حزن پھیلا ہوا تھا،وہ بھیگا ہوا چہرہ عجیب کشش لیئے ہوئے تھا۔حسن ہو اور وہ بھی حزنیہ کیفت میں تو وہ خواہ مخواہ میں الوہی لگتا ہے۔ میںخود پر جبر کرتا ہوا اس کے کمرے سے باہرنکل آیا۔
بنیادی مرکز صحت سے باہر نکلتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوا کہ جیسے میں ایک ہارا ہوا جواری ہوں۔ جو میز پر ایک لڑکی کے سامنے اپنے سارے پتے ہار گیا ہے۔اب صرف جھوٹ اور سچ کا نتارا کرنا تھا ۔ظاہر ہے گینداب میرے کورٹ میں تھی،مجھے پوری تحقیق کرنا تھی۔لیکن یہ سب ہوتا کیسے؟ میں اس فکر میں مبتلا ہو گیا۔مجھے اعتراف کرنا پڑا کہ میں رخسار کا چہرہ بھی نہیں پڑھ سکا۔وقتی طور پر اس نے مجھے مطمئن کر کے واپس بھیج دیا تھا جیسے چھوٹے بچے کے ہاتھ میں کھلونا تھما کر وقتی طور پر بہلادیا جائے۔مجھے اپنی ہزیمت کا احساس ہوا تو خود پر غصہ آنے لگا۔میں اسی کیفیت میں جب گاڑی میں بیٹھاتوسلیم نے جلدی سے پوچھا۔
”کیابنا قابو میں آئی یا پھر آپ بھی وہیں دل ہار آئیں ہیں۔“اس کے یوں فضول ریمارکس دینے پر جب میں نے گھور کر دیکھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولا۔”آپ کے چہرے پر جو بارہ بجے ہیں اس سے تو یہی اندازہ ہوتا ہے۔“
”نہیں یار۔! میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکا۔“ میں نے صاف گوئی سے کہا
”مطلب۔!آپ پر بھی اس کا جادو چل گیا۔“ وہ سر ہلاتے ہوئے بولا
”بکواس نہیں کرو،مجھے کچھ سوچنے دو۔ابھی راستے میں وہ بھی انتظار کر رہا ہو گا۔“میںنے کہا تو گاڑی میں خاموشی چھا گئی۔
وہ پل کے پاس سڑک کنارے ہمارے ہی انتظار میںکھڑا تھا۔میں گاڑی سے نکلا تو وہ مجھے لے کران چارپائیوں کی جانب بڑھ گیا جو نہر کنارے شیشم کے گھنے درختوں کے نیچے دھری ہوئی تھیں۔جب تک دوسرے گاڑی پارک کر کے آئے ،کھانا بھی چن دیا گیا۔میں بہت الجھا ہوا تھا۔سامنے رزق پا کر بھی بھوک نہیں جاگی تھی۔اک شکست کا احساس مجھے مارے ڈال رہا تھااور سچائی کو سامنے لانے کی فکر مجھے ستائے جا رہی تھی۔
”کیسا رہا۔؟“ اس نے پوچھا ،تو اسی لمحے میرے دماغ میں ایک بات اتر آئی ۔وہ ایک ایسا نکتہ تھا ، لمحوں میں ساری وضاحت ہو سکتی تھی۔میں کافی حد تک پر سکون ہو گیا اور بڑے مزے سے کہا۔
”یار۔!اس کا حسن تو دیکھنے والا ہے۔یقین جانو،جس طرح تم نے بتایا تھا ،وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔“
”کیا بتاﺅ ںجناب ۔! یہ اس کا حسن ہی تو ہے ،جس نے میری دن رات کی نیند یںاڑا رکھی ہیں۔“ وہ خلاﺅں میں دیکھتے ہوئے بولا
”تمہارا ہی حوصلہ ہے یار،جو تم اس کے ساتھ اتنا وقت گذار لیتے تھے ۔ میں تو کچھ دیرہی میں سمجھو ڈھیر ہو گیا ہوں۔“یہ کہتے ہوئے میں نے اس کے چہرے پر دیکھا،اور مزہ لیتے ہوئے انتہائی سوقیانہ انداز میں کہا۔”یار وہ کیا شعرہے ،غلط ہے کہ درست ، اب میں سمجھا ہوں تیرے رخسار پہ تل کا مقصد ، دولت حسن پر دربان بٹھا رکھا ہے۔یار وہ جو اس کے اوپری ہونٹ پر دائیں جانب سیاہ تل ہے نا، سرخ ہونٹوں پر سیاہ تل،اس نے تو مجھے لوٹ ہی لیا ہے یار۔۔۔“
”اُو سر جی ،اسی تل نے ہی تو ہماری جان نکالی ہوئی ہے۔“وہ خیالوں میںگم ہوتے ہوئے بولا تو میں چند لمحے خاموش رہا پھر میں کھانے کی طرف متوجہ ہو گیااور کوئی بات نہیں کی ۔جب ہم کھانا کھا چکے اور میں ٹھنڈا سوڈا حلق سے اتار رہا تھا تو وہ بولا
” اب ہماری قسمت کا کیا فیصلہ ہوتا ہے سر جی ،تبادلہ ہو گا، یا مجھ سے شادی کرے گی۔۔۔“
”یہ دونوں باتیں نہیں ہوں گی“ میں نے سکون سے کہا
”کیا مطلب ،پھر کیا رقم واپس کرئے گی وہ۔“
”کون سی رقم ،جب تم نے اسے کوئی رقم دی ہی نہیں تو مطالبہ کیسا۔تم جھوٹ بولتے ہو اور میرا مشورہ یہی ہے کہ آئندہ اسے تنگ مت کرنا۔ورنہ میں بھی تمہارے خلاف ہو جاﺅں گا۔اسے اپنے حال میں جینے دو۔“ میںنے سخت لہجے میں کہا
”یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ؟“وہ شدت حیرت سے بولا۔
”وہی جو سچ ہے ۔تم سراسر اس پر الزام لگا رہے ہو۔حقیقت یہی ہے کہ جو وہ کہہ رہی ہے ٹھیک ہے ۔ مثلاً تم نے اس کا چہرہ ہی نہیں دیکھا اور اس کے ساتھ وقت گذارنے کی باتیں کرتے ہو؟“ میں نے اُکتاتے ہوئے کہا
”آپ کے پاس اس کا ثبوت کیا ہے؟“ وہ غصے میں بولا
”یہ کہ اس کے چہرے پر سرے سے کوئی تل ہی نہیں ہے۔تمہیں اتنا تو پتہ نہیں اور تہمت لگانے چل دیئے ہو۔“ میں نے سکون سے کہا تو اس نے ندامت سے میری طرف دیکھا اور چاپائی سے اُٹھ کر گاڑی کی جانب بڑھ گیا۔ 
ززز

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *