Wednesday 3 January 2018

خلاصہ عشق کا قاف ۔۔۔امجد جاوید ۔۔۔ از ماہ جبیں



ناول: عشق کا قاف
ماہ جبیں
سانول صحرائے چولستان کا بیٹا ہے۔ وہ اکثر ریوڑ چراتے ہوئے خواجہ غلام فرید کی کافی
" عشق اوولڑی پیڑ وو
لوکاں خبر نہ کائی "
پورے جذب کے ساتھ گاتا رہتا ہے کہ عشق پوری شدت کے ساتھ اس کی اندر دھونی رمائے بیٹھا ہے۔ ایک دن سانول حسب معمول ڈوب کر یہی بول گا رہا تھا کہ اسے خبر ہی نہ ہوئی کہ اس کا چھوٹا بھائی بھیراروٹی لے کر آن پہنچا اور اس کے من کا بھید پوچھنے لگا۔ سانول نے بات ٹال دی۔کھانے سے فارغ ہوئے ہی تھے کہ انھیں دور گدھ منڈلاتے نظر آئے۔ جو اس بات کی نشانی تھی کہ کوئی زندہ وجود، موت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سانول اپنے اونٹ پر سوار ہو کر جلد ہی اس جگہ پہنچ گیا۔ وہاں اس نے نیلی جینز اور اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس نوجوان کو زخمی اور تیز بخار میں پایا جسے ریت نے ڈھانپنا شروع کر دیا تھا۔ سانول ابتدائی مدد کے طور پر تھوڑا سا پانی پلا کر اسے بستی میں اپنے گھر لے جاتا ہے۔ جہاں ایک درویش ” میاں جی “ کے علاج سے اس لڑکے کو ہوش آتا ہے تو وہ اپنا نام علی رضا بتاتا ہے۔
علی رضا یونیورسٹی کے سال آخر کا ہونہار اور فرمانبردار طالب علم ہے۔اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتاہے۔ اس کی کلاس فیلو فرزانہ خان جو امیر کبیر سیاستدان سردار امین خان کی بیٹی ہے، علی سے اظہار محبت کرتی ہے۔ لیکن علی اس کے لیے کوئی جذبہ محسوس نہیں کرتا اور تحمل سے اسے سمجھاتا ہے کہ ان دونوں کا ملن ممکن نہیں کیونکہ علی نہ تو کوئی جذبہ رکھتا ہے اور ان دونوں کے بیچ طبقاتی فرق کو حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اگرچہ فرزانہ کی محبت میں کوئی کھوٹ نہ تھا لیکن بچپن سے ہی اپنی ہر خواہش کو پوری کرنے والی لڑکی یہ انکار برداشت نہ کر سکی۔ اپنے خاندانی غرور اور انا کے ہاتھوں وہ یہ سمجھ بیٹھی تھی کہ علی بھی اسے مل جائے گا۔ خود پسندی پر لگی ضرب سے تلملاتے ہوئے فرزانہ نے علی کے اغوا کا منصوبہ بنا ڈالا۔ اور کسی گروپ کے ذریعے ہاسٹل کی ایک تقریب سے علی کو اغوا کروایا۔ نتائج پر غور کیے بنا فرزانہ نے صرف علی کو سبق سکھانا چاہا تھا کہ مصیبت میں ڈال کر سہارا دوں گی۔ لیکن علی نے اغوا کاروں کی باتیں سن کر مزاحمت کی تو وہ اسے روہی میں پھینک کر فرار ہو گئے۔ اسی دوران گولی علی کو لگ گئی اور ان کا پستول بھی وہیں گر گیاعلی کے اغوا سے جہاں اس کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے وہاں اس کے اساتذہ اور دوست بھی از حد پریشان ہوتے ہیں کیونکہ علی کی تو کسی سے دشمنی نہ تھی۔ سب اسے ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔ اور اغوا کاروں کی طرف سے رابطہ کا بھی انتظار ہے۔ فرزانہ بھی اپنے منصوبے کے مطابق کوئی دلچسپی ظاہر کیے بنا اپنے باپ سے پولیس کو فون کرواتی ہے۔
جب علی کے والد تھانے پہنچتے ہیں تو الٹا پولیس ان سے پوچھتی ہے کہ آپ کے بیٹے میں سردار امین کیوں دلچسپی لے رہا ہے۔ علی کا سیاستدانوں سے کیا تعلق۔ والد اس بات سے انکار تو کرتے ہیں لیکن پریشان ہو کر گھر آ جاتے ہیں۔ پولیس کی ابتدائی تفتیش کی رپورٹ سے فرزانہ بھی ڈر جاتی ہے کہ کہیں اصل بات سامنے نہ آ جائے۔
ادھر روہی کی بستی میں میاں جی کے علاج سے علی کی حالت میں بہتری آتی جا رہی ہے۔ تو سانول پستول کی وجہ سے کچھ مشکوک ہو کر علی سے حالات پوچھتا ہے۔ علی اسے اپنا محسن سمجھتا ہے شکر گزار ہو کر تفصیلی حالات بتاتا ہے اور اپنا اندازہ بھی کہ کون لوگ علی کو اغوا کر سکتے ہیں۔ لہجے کی سچائی کو محسوس کر کے سانول بھی دل صاف کر لیتا ہے۔ انہی لمحات میں وہ دونوں دوستی اور اعتماد کی مضبوط ڈور میں بندھ جاتے ہیں جس کا انہیں خود بھی پتہ نہیں چلتا
ڈھولک اور لڑکیوں کے گانے کی آواز آنے پر علی وجہ پوچھتا ہے تو سانول دل کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے کہ یہ ڈھولک اس کی شادی کی خوشی میں بج رہی ہے۔ جو تین دن بعد ہے۔ لیکن وہ نجانے کب سے مہرو سے محبت کرتا ہے۔ اور اپنی ماں کے آگے مجبور ہو کر یہاں شادی کر رہا ہے۔ کیونکہ وٹے سٹے کی رسم نبھانے کو سانول کی کوئی بہن نہیں۔ اور اب جاگا کی رسم میں گانہہ بندھوا کر وہ بہت دکھی ہو رہا تھا۔ اس کیفیت سے نکلنے کے لیے سانول نے فیصلہ کیا کہ وہ علی کو شہر کی سرحد تک چھوڑنے خود جائے گا تاکہ علی اب اپنے گھر جا سکے۔ادھر فرزانہ کا دل بھی عجیب وسوسوں سے بھر گیا۔ یونیورسٹی سے واپس آئی تو اسے لگا اس سے بہت بڑی غلطی ہو گئی اس نے علی کو کھو دیا ہے۔ انہی سوچوں سے اسے بےتحاشا رونا آ گیا۔
صحرائے چولستان کی ہواوں میں عشق و مستی کی کیفیت کے اثرات ہوتے ہیں سانول کے اندر بھی یہ آگ کچھ اس طرح بھڑک رہی تھی کہ اسے خود کا بھی ہوش نہیں تھا۔ اسے قطعا" معلوم نہ تھا بارگاہ عشق میں کیسے رہا جاتا ہے۔
جب گانہہ باندھنے کی رسم کے بعد سانول بہت دکھی ہو رہا تھا اسی کیفیت میں اس نے علی کو شہر کی سرحد تک خود چھوڑ کر آنے کا فیصلہ کیا۔ پہلے علی باہر گیا۔۔ بعد میں سانول اپنا اونٹ کھول کر لے کر جا رہا تھا کہ گلی میں مہرو اور اسکی چند سہیلیوں سے مڈبھیڑ ہو گئی جو شادی والے گھر جا رہی تھیں۔ راستے میں سانول کو دیکھ کر حیران رہ گئیں کہ اس وقت اونٹ پر کدھر جا رہا ہے۔ پھوپھی زاد ہونے کے ناطے مہرو نے حق جتاتے ہوئے سوال جواب بھی کیے اور مذاق ہی مذاق میں اونٹ کی اگلے پیروں میں لاٹھی پھنسا کر اونٹ کو بیٹھنے پر مجبور کر دیا۔ اونٹ لڑکھڑایا تو سانول گر پڑا مہرو نے اسے سنبھالنے کی غرض سے لپک کر تھاما۔ مہرو کے اس قدر قرب اور عین آنکھوں کے سامنے چہرے نے سانول کے سارے جذبات جگا دئیے۔ سانول کے چہرے کے رنگ دیکھ کر مہرو بھی حیرت زدہ رہ گئی۔ چشم زدن میں سانول نے سب حال دل کہہ دیا۔ اور مجبوری بھی۔۔ جسے مہرو نے کم ہمتی گردانا اس ہتک سے سانول کے دماغ میں نجانے کیا سمائی کہ اس نے مہرو کو اونٹ پر لادا اور جانے لگا۔ مہرو اور لڑکیوں کی چیخ و پکار سے کچھ لوگوں نے راستہ روکنے کی کوشش کی تو جو علی گلی کے موڑ پر تھا ہوائی فائر کر کے سانول کا راستہ صاف کروایا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سانول مہرو کو بھگا کر اپنے دوست کے ڈیرے پر لے گیا۔
اگلی صبح بہت سوگوار تھی۔ ہر ایک کی آنکھ میں سانول کے لیے حیرت طنز اور نفرت تھی۔
مہرو کے گھر والے بستی کے چند لوگوں کے ساتھ پیر سیدن شاہ کی حویلی چلے گئے۔ پیر سیدن شاہ اس علاقے کا کرتا دھرتا جاگیردار تھا نہ صرف اس علاقے کے ووٹوں سے اسمبلی میں پہنچا ہوا تھا بلکہ جھوٹی پیری مریدی کے ذریعے بھی لوگوں کو غلامی میں کر رکھا تھا۔ بستی کے لوگوں نے اسے سانول اور مہرو والا واقعہ بتایا تو اس نے مہرو کے بھائی رب نواز کو اکسایا کہ ان دونوں کا پیچھا کرے اور اپنی بہن کو واپس لے آئے اور علی کو قید میں ڈال دیا۔ وہ لوگ پیروں کے نشانات سے سانول کو ڈھونڈنے نکل گئے۔ ادھر سانول اپنے دوست خان محمد کے ڈیرے پر مہرو سے نکاح کر کے واپس بستی میں جانا چاہتا تھا۔ اپنی محبت کی ساری باتیں سنا کر اسے منا رہا تھا۔ لیکن مہرو کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ اس طرح اٹھا کر لانے پر خوف زدہ تھی۔ اچانک وہاں سے بھاگ نکلی۔ سانول بھی پیچھے بھاگا جیسے ہی ٹیلے سے اترے سامنے مہرو کا بھائی اور بستی کے چند لوگ آ رہے تھے۔ رب نواز سانول کو قتل کر کے مہرو کو واپس لے آتا ہےسانول کی لاش بستی میں پڑی ہوتی ہے اور کوئی اسکے نزدیک آنے کو تیار نہیں۔ علی کو قید خانے میں صورت حال کا پتہ چلتا ہے تو وہ تڑپ کر پہرہ داروں کو اسی کی بندوق تان کر وہاں سے نکل آتا ہے سیدھا سانول کے گھر پہنچتا ہے۔ جہاں میاں جی اسی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ سانول کی ماں بھائی کو ساتھ ملاتے ہیں تو جنازہ کے چار کاندھے پورے ہوتے ہیں۔ یہی چاروں سانول کو دفنا کر آتے ہیں۔ تو علی کے دل پر اپنے محسن کی اس طرح موت کا بہت اثر ہوتا ہے۔ وہ اسی گھر میں رہ جانے کا فیصلہ کرتا ہے۔سانول کی ماں اسے منع کرتی ہے لیکن وہ نہیں مانتا۔ اگلے دن علی میاں جی ملنے مسجد جاتا ہے تو انکو بتاتا ہے کہ قید خانے سے نکلنے کے بعد ایک سفید براق لباس والے بزرگ نے راستہ کی رہنمائی کی۔۔۔ تب میاں جی کچھ معرفت کی باتیں کرتے ہیں روح کی پاکیزگی اور انسان کے ارفع مقام کا بتاتے ہیں۔ جس سے علی کی تشنگی مزید بڑھ جاتی ہے۔ تب یہ عقدہ کھلتا ہے کہ صحرا میں رہنمائی کرنے والے بزرگ میاں جی ہی تھے۔
روہی کے پیر سیدن شاہ اور سردار امین خان ایک دوسرے کے سخت حریف ہیں۔ ایک دوسرے کے حالات پر نظر رکھنے کی وجہ سے روہی میں سانول کے قتل کی خبر اور اسکے دوست کی خبر سردار امین اور اسکی بیٹی فرزانہ تک بھی پہنچ جاتی ہے۔ انکو شک ہے کہ یہ وہی علی ہے۔ سردار امین اس واقعہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے لیے اپنا سیاسی کھیل شروع کر دیتا ہے۔ اور پولیس کو پیر چندن کے پاس بھیجتا ہے۔ فرزانہ بری طرح پریشان اور شرمندہ ہوتی ہے۔
ادھر مہرو کو بھی اب سانول کی باتوں کا احساس ہوتا ہے وہ لاشعوری طور ہر سانول کا عشق مان لیتی ہے۔ لیکن اب اسکا قصور یہ ہے کہ وہ رات سانول کے ساتھ تنہا گزار چکی ہے اور کوئی اسکی پاکیزگی کو ماننے کو تیار نہیں یہاں تک کہ خود اسکی اپنی ماں۔ رب نواز کو پیر سیدن شاہ نے اپنی پناہ میں رکھ لیا تھا مگر کہاں کوئی نہیں جانتا تھا۔ ایک شخص سب کو کھٹک رہا تھا۔ جس کی دوستی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ وہ تھا علی۔
علی نے اب مسجد میں نماز ادا کرنی شروع کر دی تھی۔پھر میاں جی کے ساتھ بیٹھ کر قدرت فطرت دنیا اور آخرت کی باتیں کرتا۔ میاں جی اسے باتیں سمجھاتے تو اسے بہت سکون ملتا۔ اللہ کی زمین پر اللہ کے حکم کے مطابق نیک اعمال سے آخرت سنوارنا۔
میاں جی علی کو سمجھاتے ہیں کہ تمھاری اپنی ماں کا حق پہلے ہے۔۔۔ پھر علی سانول کے قتل پر الجھنے لگتا ہے تو میاں جی سمجھاتے ہیں تھوڑا انتظار کرو کچھ باتیں وقت کے ساتھ واضح ہوتی ہیں۔۔ پس منظر کچھ اور دکھائی دیتا ہے۔ اصل کچھ اور ہوتا ہے۔مہرو بھی علی کو یہ سمجھانے آتی کہ وہ چلا جائے یہاں سے۔
لیکن علی کا عزم اسکی اپنی کیفیت بدل دیتا ہے۔ اسے لگتا ہے اب وہ خود روکے گی علی کو۔
پولیس شہری لڑکے علی کی بازیابی کے لیے پیر سیدن شاہ کے پاس آتی ہے تو وہ انسپکٹر کی بے عزتی کر کے اسے لاجواب کر کے بھیج دیتا ہے۔ لیکن خطرہ محسوس کر لیتا ہے۔
پولیس کچی بستی سے علی کو تلاش کر کے ساتھ لے جاتی ہے۔ پہلے وہ لوگ سانول کے دوست خان محمد کے ڈیرے پر جاتے ہیں۔ اور صورت حال پر بحث کرتے ہیں سردار امین کا ذکر بھی زیر بحث آتا ہے۔
علی اپنے گھر والوں سے ملتا ہے تو وہ اسکا حلیہ اور باتیں سن کر حیران پریشان ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ علی دوبارہ جانے کا کہہ رہا ہوتا ہے۔ وقتی طور پر بات ختم ہو جاتی۔ اگلے دن علی یونیورسٹی جاتا ہے۔۔ فرزانہ بھی اسکے انتظار میں شرمندہ پھر رہی ہوتی ہے۔ علی کسی کے کچھ بھی کہنے سے پہلے ہی کہہ دیتا ہے کہ میں نے سب کو معاف کیا۔ لیکن فرزانہ پھر بھی اسے سب کچھ بتا کر معافی مانگتی ہے اور محبت کا اظہار کرتی ہے۔ علی اسے معاف کر کے کہتا ہے پہلے سمجھنے کی کوشش کرو کہ تم محبت کرنے کی اہل ہو ؟ فرزانہ کے لیے ایک سوال چھوڑ کر چلا گیا۔
مہرو کے دل کی بے چینیاں اسے میاں جی کے پاس لے جاتی ہیں جو اسے سمجھاتے ہیں اتنا تلخ نہ ہو جاو کہ نفرت کا زہر پھیل جائے۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ اللہ تم سے محبت رکھتا ہے۔ اس کی طرف رجوع کرو۔ اس سے ساری باتیں کیا کرو۔
پیر سیدن شاہ کا مرید خاص اسے علاقے کی صورت حال بتاتا ہے۔ کہ عرس آنے والا ہے۔ پیر سیدن شاہ نے لندن میں شادی کر رکھی تھی اسکے بیوی بچے ادھر ہی رہتے تھے بس عرس کے موقعے پر آتے تھے۔ ورنہ پیر سیدن خود لندن ان کے پاس رہ آتا تھا۔
سانول کا دوست خان محمد اماں فیضاں کو راضی کر لیتا ہے کہ وہ اپنے بیٹے سانول کے قتل کی ایف آئی آر درج کروائے۔
جب اس ایف آئی آر کا پیر سیدن شاہ کو پتہ چلتا ہے تو وہ غضبناک ہو کر دونوں خاندانوں کو اپنی حویلی بلاتا ہے۔ اماں فیضاں کو دوسرے بیٹے کے قتل کی دھمکی دے کر ایف آئی آر واپس کرواتا ہے اور مہرو کی شادی سانول کے چھوٹے بھائی سے کرنے کا حکم دیتا ہے۔ جس کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگیں۔پیر کے حکم پر قرآن پاک کو ضامن بنا کر دونوں خاندان معافی نامہ راضی نامہ کر لیتے ہیں۔ مہرو کی روح تک چھلنی ہو جاتی ہے۔
سردار امین خان نے انسپکٹر رفاقت باجوہ کو اس کیس کے پیچھے لگایا ہوتا ہے۔ اس صلح نامہ بہت مایوس ہوتا ہے۔ اور نیا داﺅ کھیلنے کا سوچتا ہے اور علی سے ملاقات کا فیصلہ کرتا ہے۔ علی اپنی ماں کے سرہانے ایک خط چھوڑ کر دوبارہ سانول کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ جہاں میاں جی اور سانول کے گھر والے اسے دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ اور ساری صورت حال بتاتے ہیں۔ علی ان کو تسلی دیتا ہے۔ صبح نماز فجر کے بعد وہ میاں جی کچھ باتیں کرنا چاہتا ہے۔ لیکن پیر سیدن کے حمایتی کچھ نمازیوں کے جھگڑا کرنے کے بعد میاں جی اور علی مسجد چھوڑ کر سانول کے قبر کے قریب ایک درخت کے نیچے ٹھکانہ کر لیتے ہیں۔ وہاں میاں جی علی کے ساتھ زندگی اور موت کی حقیقتوں پر کچھ وضاحتیں کرتے ہیں۔ روح کی ماہیت اور اللہ پر خلوص دل کے ساتھ یقین کا سبق پڑھاتے ہیں۔ اپنے اندر کو وسعت دو جتنا برتن ہو گا اتنا بھرے گا نا۔
یہ کہہ کر میاں جی نے علی کو گھر بھیج دیا۔ اگلے دن بھیرے اور ریوڑ کو دیکھنے کے بعد ظہر کے وقت میاں جی کے پاس پہنچا۔ نماز کے بعد میاں جی نے علی کو تاکید کی کہ یہاں مسجد اور مدرسہ بنے گا اور اگر میں نہ رہوں تو مجھے دفن بھی یہیں کرنا۔ اللہ پر بھروسہ رکھنا حوصلہ بلند رکھنا۔ یہ کہہ کر میاں جی صف پر لیٹ گئے۔ کافی دیر بعد دیکھا تو میاں جی ابدی نیند سو گئے تھے۔
میاں کی آخری رسومات ادا کرنے کے بعد اس نے لوگوں سے پوچھا کہ اگر کسی کوئی مطالبہ میاں جی سے ہے تو مجھے بتائے۔۔ اور میاں جی کی وصیت کے مطابق مسجد اور مدرسہ بنانے کا اعلان کر دیا۔
مہرو ایک بار پھر علی کو سمجھانے آئی لیکن علی سے ظالم اور مظلوم کی حقیقت کا درس لے گئی۔
ادھر فرزانہ کے دل کی بے کلی اور بے چینیاں بڑھتی چلی جارہی تھیں۔ رو رو کر بے حال ہو گئی تو اذان کی آواز سن کر اپنے رب کے آگے سربسجدہ ہوگئی۔ اس سکون کی نیند آئی خواب میں علی کو دیکھا کہ اشارہ کر رہا ہے یہی سیدھا راستہ ہے۔
اب علی اور احمد بخش نے وصیت کے مطابق اسی زمین سے گارا مٹی کی اینٹیں بنانے کا کام شروع کیا۔ پیر سیدن کے آدمیوں نے آکر سب توڑ دیں اور ٹوبہ سے پانی لانے کی بندش کر دی۔ اس رات علی نے نماز کے بعد اللہ سے عاجزی سے دعائیں کیں اور خواب میں میاں جی کو دیکھا انھوں نے نئے سبق پڑھائے جس سے علی کا حوصلہ بڑھا صبح بارش ہوئی اور ان کے پاس ہی گڑھا پانی سے بھر گیا۔ دوبارہ اینٹیں بنانے کا کام شروع کیا اور دیواریں بلند ہونی شروع ہوئیں۔ پیراں دتہ نے دوبارہ آکر سب توڑ دیا اور پانی کے گڑھے میں پیشاب کر دیا۔ علی اور احمد بخش چپ چاپ دیکھتے رہے۔۔۔۔ پیراں دتہ نے یہ ساری رہورٹ اپنے پیر کو دی ساتھ ہی مہرو والا معاملہ یاد کروایا۔ کیونکہ اس کی اپنی نظر مہرو پر تھی وہ چاہتا تھا کہ بھیرو کے ساتھ شادی جلد از جلد ہو تاکہ وہ خود مہرو پر ہاتھ صاف کر سکے۔۔۔ پیر نے حکم دیا کہ اگر وہ لوگ شادی نہیں کر رہے تو مہرو کو اٹھا کر حویلی لے آو۔ پیراں کو یہ فیصلہ پسند نہیں آیا۔ وہ مہرو اور اسکے گھر والوں کو دھمکا کر راضی کروانے کی کوشش کرنے لگا۔
فرزانہ نے اپنے باپ سردار امین سے اچھی خاصی بحث اور شرائط کے ساتھ فلاحی تنظیم بنا کر سماجی خدمت کے کام کرنے کی اجازت کی اور ٹیم کو پہلا سروے ہی روہی کے علاقے کا دے دیا۔ شو مئی قسمت اس ٹیم کی ملاقات علی کے ساتھ ہو گئی۔ جب ٹیم مکمل معلومات کے ساتھ اپنے دفتر واپس آئی تو معلومات کی روشنی میں ان سب کا مشترکہ فیصلہ تھا کہ تعلیم کے حوالے سے کام کا آغاز کیا جائے اور جس مدرسہ کی بنیاد رکھی جا رہی ہے اسی کی مدد کی جائے۔ لاشعوری طور پر فرزانہ کی ہمدردیاں اسی علاقے کے ساتھ تھیں۔ کہ اس نے علی کو وہاں کھویا تھا۔ لیکن اسے اندازہ نہیں تھا قسمت اسے کیا دکھانے والی ہے۔فرزانہ اپنے دفتر میں جز وقتی ملازمت کے لیے علی کے باپ کو اچھی تنخواہ کی آفر کرتی ہے۔ جو وہ قبول کر لیتا ہے۔ علی کی ماں اس کو برکت گردانتی ہے۔
علی اور احمد بخش بیٹھے سوچ رہے ہوتے ہیں کہ اب کام کیسے جاری کیا۔ علی کا حوصلہ بلند ہوتا ہے اور اللہ پر بھروسہ کہ کوئی سبیل ضرور بنے گی۔
تھوڑی دیر بعد ہی خان محمد ٹرالی بھر کر سامان اور مزدور لے کر آتا ہے اور کام شروع کروا دیتا ہے۔ پانی کے مسئلے کو بھی اللہ علی کے زریعے حل کرواتا ہے
علی کی نشاندہی پر جس جگہ کو کھودا گیا وہاں میٹھا پانی نکل آیا۔ جسے علی اللہ کا حکم اور نبی پاک کے صدقہ کی برکت قرار دیتا ہے۔ میٹھے پانی کے کنویں سے بستی میں جشن کا سماں تھا۔ عصر کی نماز وہیں ادا کی سب نے۔ امامت کی ذمہ داری احمد بخش کو دی گئی۔ علی نے اللہ کی کبریائی بیان کرنے کے بعد علم کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور بچوں کو مدرسہ بھیجنے کا کہا۔
اب کی بار اگر کسی نے اقرار نہیں کیا تو مخالفت بھی نہیں کی۔
سوئی ہوئی مہرو کی اچانک آنکھ کھلتی ہے تو وہ کسی معمول کی طرح سانول کی سوچوں میں گم علی کی طرف جانے لگتی ہے۔ علی تہجد کی نماز میں مشغول ہوتا ہے۔ دو لوگ اس پر گولی چلا دیتے ہیں لیکن مہرو کی چیخ سے نشانہ چوک جاتا ہے اور لوگ فرار ہو جاتے ہیں۔ علی اس کی بے وقت آمد پر حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔
وہ لوگ پیر سیدن شاہ کے بھیجے ہوئے تھے۔ کیونکہ پیر علی کو سردار امین کا کارندہ سمجھ رہا ہوتا ہے۔ اور خان محمد کو اس کا حمایتی۔ میٹھے پانی کا کنواں بھی پیر سیدن کو بہت تکلیف دے رہا تھا۔
صورت حال پر غور کرتے کرتے اس نے کچھ نئے احکامات جاری کیے ان پر عمل نہ ہونے کی صورت میں اماں فیضاں بھیرے اور مہرو کو جان سے مارنے کا حکم دے دیا۔
علی روزانہ ہی نماز کے بعد اللہ سے سیدھے راستے اور مدد کا سوال کرتا تھا۔ اور لوگوں کو اللہ اور اسکی نبی کی تعلیمات بتاتا۔ اللہ کی محبت باتیں کرتا۔ ایک دن ایک درویش بھی آن پہنچا۔ جسے علی نے درویش بابا کہا اور بابا نے علی کو فقیر سائیں کا نام دے دیا۔ درویش بابا کو وہاں کھانا کھلانے کی ذمہ داری دے دی گئی۔
مہرو کے دل میں سانول کی محبت جاگ جاتی ہے اور وہ بھیرے سے شادی سے صاف انکار کر دیتی ہے۔
انسپکٹر رفاقت باجوہ ایک بار پھر پیر سیدن کے پاس آ تا ہے اور اپنی تذلیل کروا کر چلا جاتا ہے۔ لیکن اس واقعہ کے بعد پیر سیدن خان محمد کے قتل کا حکم دے دیتا ہے۔ تین بندے پیر سیدن کی گاڑی خان محمد کو قتل کرنے جاتے ہیں۔ قتل کے بعد پکڑے جاتے ہیں۔ لوگ تھانے لے جاتے ہیں تو باجوہ ان کو گرفتاری ڈالے بغیر نامعلوم مقام پر بند کر لیتا ہے۔ تاکہ پیر سیدن کے گرد گھیرا ڈال سکے۔ ان تین میں ایک بندہ مہرو کا بھائی رب نواز ہوتا ہے۔
خان محمد کے قتل کی وجہ سے مسجد کی تعمیر کا کام ایک بار پھر رک جاتا ہے۔۔ لیکن علی کا اللہ پر بھروسہ مزید بڑھ جاتا ہے۔ مہرو کھانا لے کر ملنے آتی ہے تو دونوں اللہ کی شکر گزاری پر بات کرتے ہیں۔ اچانک مہرو اسے کہتی ہے کہ کوئی لڑکی تم سے محبت کرے تو اسکی قدر کرنا ورنہ میرا حال دیکھ لو۔۔۔ علی کی آنکھوں کے سامنے فرزانہ کا چہرہ آ جاتا ہے۔ لیکن وہ سر جھٹک دیتا ہے۔
پیر سیدن اور پیراں دتہ ان بندوں کے لیے پریشان ہوتے ہیں جو خان محمد کے قتل کے بعد غائب تھے۔ پیر سیدن اس پرسرار خاموشی کو طوفان کی آمد سمجھ کر اس کے سدباب کی کوششیں شروع کرتا ہے۔
اسی دوران مہرو کے شادی سے انکار کے جرم میں اسے حویلی لانے کا حکم دے دیتا ہے۔
پیراں دتہ مہرو کو اٹھوا کر حویلی پہنچا دیتا ہے جہاں اسے پیر سیدن کے بستر کی زینت بننا ہے۔بستی میں مشہور ہو جاتا ہے کہ مہرو پاگل ہو گئی ہے۔ یہی بات احمد بخش پوچھتا ہے تو درویش بابا عشق کی باتیں بتاتے ہیں جذب کی صلاحیت اور برداشت کی وضاحت کرتے ہیں۔ باتوں باتوں علی درویش بابا کو اپنے کہانی سنانے پر قائل کر لیتا ہے۔۔۔ پھر بات اسرار الہی ،اسمائے حسنہ العشق ھو اللہ کی ہونے لگتی ہے۔
فرزانہ کی ٹیم اپنے پروجیکٹ کے لیے علی کا مدرسہ ہی فائنل کر لیتی ہے۔ اور مسٹر حامد رقم لے کر وہاں پہنچ جاتی ہے۔ جو علی درویش بابا سے مشورہ کر کے قبول کر لیتا ہے۔ اور رقم انہی کے حوالے کر دیتا ہے۔ تعمیر کا کام ایک بار پھر شروع ہو جاتا ہے۔
علی کو جب مہرو کے اغوا کا پتہ چلتا ہے۔ تو وہ احمد بخش کو انسپکٹر باجوہ کے پاس بھیج دیتا ہے۔ باجوہ جو ان تین قاتلوں کو پیر کے خلاف گواہی دینے پر آمادہ کر نے پر زور لگا رہا ہوتا ہے۔ اس کو امید کی کرن نظر آتی ہے۔ مہرو کے اغوا کا سن کر رب نواز پیر سیدن کے خلاف گواہی پر راضی ہوجاتا ہے۔
جب پیر سیدن اپنی ڈوریاں ہلا کر معلومات لیتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ اس کے بندے رفاقت باجوہ کے پاس ہیں۔ اور اس معاملے میں سردار امین بھی شامل ہے۔ پیر سیدن شاہ ڈی آئی جی کو ثالث بنا کر سردار امین کو اپنے گھر بلاتا ہے۔ اورلمبی بحث کے بعد اس کے مطالبات مان کر استعفی دے دیتا ہے۔ تاکہ اپنا خاندانی عرس خیر و عافیت اور شان و شوکت کے ساتھ منعقد کر سکے۔
ڈی آئی جی ہر طرف سے دباو ڈال کر رفاقت باجوہ کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اور وہ بندے چھوڑ دیتا ہے۔
رب نواز دکھی ہو کر خود ہی اپنی بہن مہرو کو مار دھاڑ کے بعد حویلی سے نکالنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اور اسے علی کے پاس چھوڑ کر کہیں نکل جاتا ہے۔ علی فرزانہ سے رابطہ کر کے اپنا تعارف کرواتا ہے اور مہرو کو اس کی پناہ میں بھیج دیتا ہے۔ فرزانہ علی کا فون سن کر سر تا پاﺅں لرز جاتی ہے۔ کہ علی نے اسے کسی قابل سمجھا۔ اور جی جان سے مہرو کی خدمت میں لگ جاتی ہے۔ مہرو تو پہلے ہی اللہ سے لو لگا چکی ہے۔
روہی کی حویلی میں رات کا اور خوف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ ہر طرف سے شکست کامنہ دیکھنا پیر سیدن سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ وہ رب نواز اور مہرو کے قتل کا حکم جاری کر دیتا ہے۔ جبکہ پیراں دتہ اسکی توجہ علی کی طرف مبذول کرواتا ہے۔ اب اسے سردار امین کے کھیل کی سمجھ آنے لگی
اس نے عرس کے بعد آرام سے سردار امین کو مزہ چکھانے کا فیصلہ کیا۔
فرزانہ اپنے پروجیکٹ کے وزٹ کے لیے مدرسہ پہنچ جاتی ہے۔ جہاں اسکی ملاقات علی اور درویش بابا سے ہوتی ہے۔ علی دیکھتا ہے کہ یہ پہلے والی بے باک تفاخر والی فرزانہ نہیں ہے۔ وہیں صف پر بیٹھ کر وہ اللہ اور اللہ کی مخلوق سے محبت کی بات کرتے ہیں۔ نیت کی بات کرتے ہیں۔ فرزانہ ایک بار پھر علی سے معافی مانگتی ہے۔ فرزانہ ڈبل شفٹ کروا کر کام جلد مکمل کروانے کا کہتی ہے۔
فرزانہ کے مدرسے کے وزٹ سے پیر سیدن کو تصدیق ہو جاتی ہے کہ علی کے پیچھے سردار امین ہی ہے۔۔۔
سردار امین ، پیر سیدن کی خاموشی سے ڈر جاتا ہے کیونکہ اسکی پارٹی تو حکومت میں تھی۔ خان محمد کے بھائی اور دوست بھی اس سے باز پرس کرتے ہیں کہ اس نے خان کے خون کا سودا کیا ہے۔۔۔
مسجد مکمل ہو جاتی ہے تو درویش لوگ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور جیسے اللہ کی مدد شامل رہی وہ یاد کرتے ہیں۔ باتوں باتوں میں درویش بابا علی کو اشارہ دیتا ہے کہ محبت کرنے والے دل کی قدر کرنی چاہیے۔۔۔ اس رات کو علی خواب میں پھر میاں جی سے ملا۔ جنہوں اسے کام مکمل ہونے کی مبارکباد دی اور اسے اشارہ دیا کہ اب وہ دنیا میں اپنا کردار نبھائے۔
علی واپس شہر اپنے گھر چلا جاتا ہے۔ گھر والے حیران اور خوش ہو جاتے ہیں۔ انھیں اندازہ ہو جاتا ہے کہ علی کن راستوں کا مسافر ہے۔ علی تمام یونیورسٹیوں میں ٹاپ کرتا ہے۔ اسکا وی سی اسے جاب کی آفر کرتا ہے۔ جو وہ قبول کر لیتا ہے۔
فرزانہ بھی علی کو یونیورسٹی میں دیکھ کر خوش ہو جاتی ہے۔ علی اس کے ساتھ مہرو سے ملنے جاتا ہے تو مہرو اسے حالات بدلنے کی خوشخبری سناتی ہے۔ جس سے علی کو کوئی حیرت نہیں ہوتی کیونکہ مہرو کا دل اللہ کی طرف لگ چکا ہے اور اس پر حجابات اٹھنے شروع ہیں۔
پیر سیدن شاہ عرس سے پہلے ہی اپنے بیٹے قاسم شاہ کو بلوا لیتا ہے تاکہ الیکشن میں اسے کھڑا کروائے۔۔۔ لیکن ائیر پورٹ سے روہی کے راستے میں رب نواز خان محمد کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر قاسم شاہ کو قتل کر دیتا ہے۔ پیر سیدن کو سکتہ والی خاموشی لگ جاتی ہے وہ کسی کو بھی رونے نہیں دیتا۔۔۔۔ سردار امین اس واقعہ سے اتنا خوفزدہ ہوتا کہ ملک چھوڑ کر جانے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ لیکن ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں نام کی وجہ سے نہیں جا سکتا۔ فرزانہ بھی جانے سے انکار کر دیتی ہے۔
درویش بابا کے سمجھانے پر رب نواز سردار امین سے دشمنی سے باز آ جاتا ہے۔ پیر سیدن شاہ گرفتاری کے موقعہ پر اپنے سر میں گولی مار کر خود کشی کر لیتا ہے۔
علی فرزانہ اور مہرو بستی میں جاتے ہیں۔ مہرو بچوں کو مدرسہ تک لانے کی ذمہ داری اٹھانے کا عزم کرتی ہے۔ اور علی درویش بابا کے سامنے فرزانہ کی محبت قبول کر لیتا ہے۔ درویش بابا کا نعرہ حق اللہ حق حق حق۔۔ پورے صحرا میں گونج جاتا ہے۔


Mah Jabeen
December 30, 2017 at 9:41pm · 

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *