Saturday 23 December 2017

حصار ۔۔ امجد جاوید ۔۔ قسط نمبر 17

حصار
امجد جاوید
قسط نمبر 17
” یہ کیا ....؟“ ثانیہ نے حیرت سے پوچھا 
” چھو کر دیکھ رہا ہوں ، تم میرے سامنے بیٹھی حقیقت ہو یا میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں ۔“ اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا
” میں سچ مچ تمہارے سامنے بیٹھی ہوں ۔“اس نے حیرت ملی خوشی سے کہا
” مجھے یقین نہیں آ رہا نا ۔“ اس نے محبت سے لبریز لہجے میں کہا
” یقین کر لو ۔“ اس نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا تو شعیب کو یوں لگا جیسے ہر جانب خوشیاں بکھر گئی ہیں ۔
٭....٭....٭
 ڈاکٹر ظہیر اپنے لان میں کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے سامنے ذیشان افسردہ سے حال میں بیٹھا ہوا پریشان تھا ۔ ڈاکٹر ظہیر کو سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ہو اسے کس طرح سمجھائے ۔ جب اسے پتہ چلا کہ ثانیہ کی منگنی ہی نہیں اس کا نکاح بھی ہو گیا ہے اور وہ اپنے سسرال بھی چلی گئی تو ذیشان نے ہی اسے فون پر بتایا تھا ۔ تبھی ڈاکٹر ظہیر نے اسے اپنے پاس بلا لیا تھا ۔ یہی وہ وقت تھا جب وہ اس کے ساتھ باتیں کر کرے ، اس کو وقت دے کر اس کے غم میں شریک ہو سکتا تھا ۔ 
” یار مجھے اب تک یہ سمجھ میں نہیں آ سکا کہ میرا کوئی قصور تھا ؟ اگر کوئی غلطی تھی ، کوئی بھی ایسی بات تھی تو مجھے بتاتی ، مجھ سے شیئر کرتی ، ایسی کوئی بات نہ ہونے کے باوجود اس طرح کسی دوسرے کے ساتھ شادی رچا لینا ، ناٹ فیئر یار ....“ ذیشان نے انتہائی غصے میں کہا تو ڈاکٹر ظہیر نے کہا 
” یہ تو حقیقت ہے نا کہ اس نے شادی کر لی ،اس نے تم سے شادی نہیں کرنا تھی نہیں کی ۔تم سے محبت کا وہ سب ڈرامہ تھا یا نہیں تھا ، ثانیہ کی کوئی خاندانی مجبوری تھی یا نہیں تھی ۔ جو بھی تھا ، اب وہ ماضی بن گیا ۔حقیقت کو تسلیم کرو اور اسے اپنی زندگی سے کھرچ کر نکال دو ۔“ 
” ماما بھی یہی بات کر اہی تھی ۔وہ بھی یہی کہہ رہی تھی کہ میں اسے بھول جاﺅں ، یہ اچھا ہوا کہ اس کے ساتھ شادی نہیں ہوئی ، ورنہ گھر میں لڑائی جھگڑے اور فساد ہی رہنا تھا ۔ کیونکہ اس کا دل پیچھے رہنا تھا اور وہ یہاں رہتی ۔“ ذیشان نے کہا تو وہ بولا 
” ہاں، وہ ٹھیک کہہ رہی تھیں ۔اس کے نجانے کون سے مسائل تھے ۔ وہ کیسا ماضی تھا ، گزر گیا ، اب آگے کی سوچو ۔ بھول جاﺅ اسے ۔“ 
” نہیں بھول سکتا ، میں اسے نہیں بھول سکتا ظہیر ۔ وہ شاید مجھے بھول جائے ۔وہ شاید مجھ سے محبت کرتی تھی یا نہیں کرتی تھی مگر میں اسے محبت کرتاتھا ، اور اب بھی کرتا ہوں ۔“ ذیشان نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا 
” میں کب انکار کرتا ہوں کہ تمہیں اس سے محبت نہیں ہے ۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تمم اسے اپنے دل سے فوری نہیں نکال سکتے ، یا شاید تم اسے اپنے من سے نکال ہی نہیں سکتے ہو ۔ لیکن ، مجھے یہ بتاﺅ ، تمہارا یہ دل گرفتہ ہو جانے والا رد عمل ، بے حوصلہ ہو جانا ، اس کے لئے آ ہیں بھرنا ، کیا اس سے تمہاری زندگی میں وہ واپس آ جائے گی ۔ نہیں ایسا نہیں میری جان ، وہ اب شعیب کی ہو چکی ۔مانو کہ ہو پرائی ہوہ چکی ۔ اب تم اس کے بارے میں بھی نہ سوچو ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے اس سمجھایا 
”تم بالکل سچ کہہ رہی ہو ۔ مجھے ایسے ہی کرنا چاہئے ،۔ لیکن ،یار کیا میں ربورٹ ہوں ، کیا میرے سینے میںدل نہیں ہے ؟ جسے میں نے چاہا ، جس سے محبت کی ، کیا اُسے یوںبھول سکتا ہوں ؟“ وہ شکوہ بھرے لہجے میں بولا
” اُو یار ، اب بھی تم ان محبت پیار کے ڈراموں پر یوںرکھو، وہ بھی تم جیسا حقیقت پسند بندہ۔مان لیا ، محبت ہو گئی ، لیکن اسے وہ کیا کہتے ہیں شاعروں کی زبان میں حرز جاں بنا لینا ، زخم دل زخم جگر وغیرہ وغیرہ .... “ اس نے مسکراتے ہوئے کہنا چاہا تو ذیشان نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا 
” اب تم میرا مذاق اُڑا رہے ہو ؟“ 
” نہیں میری جان ، میں مذاق نہیں اُڑا رہا ، تمہیں ثانیہ کو بھول جانے کا مشورہ دے رہا ہوں ۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا 
” اچھا اگر میں یہ کہہ دوں کہ میں اسے بھول گیا تو کیاوہ سچ مچ میرے دل اور دماغ سے نکل جائے گی ؟“ اس نے پوچھا تو ڈاکٹر ظہیر کہتا چلا گیا 
” نہیں یہ ممکن نہیں ہے ، میں جانتا ہوں تم اس سے محبت کرتے ہو۔ لیکن اس واقعہ کو اپنی زندگی کی ناکامی مت بنا لیا ۔ یہ مردانگی نہیں ہے ۔ زندگی میں کامیابیوں کے ساتھ ناکامیاں بھی آ تی ہیں ۔ مگراس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اپنی ناکامی کو اپنی زندگی پر مسلط کر لیا جائے ، خود پر طاری کر کے ،اپنی زندگی کو ڈسٹرب ہی نہیں مذاق بنا لیا جائے ۔ سومیری جان ، اس کی محبت رکھو اپنے دل میں لیکن کسی کو بھی یہ احساس نہ ہونے دو کہ تم نے ناکامی دیکھی ہے ۔ ایک نارمل انسان کی طرح زندگی کے معاملات کودیکھو ۔ اپنا بزنس کرو ۔ کیونکہ محبت کا مطلب وہ نہیں جو میں تم میں دیکھ رہا ہوں ۔“
” نا تمہارے نزدیک کیا ہے محبت کا مطلب ؟“ ذیشان نے پوچھا
” دوسروں کے لئے اچھا سوچنا ، یہ ہے محبت کا مطلب اور دوسروں کے لئے وہی اچھا سوچ سکتا ہے ، جو اپنے لئے اچھا سوچ سکتا ہوں ۔“ اس نے اپنا نکتہ نگاہ واضح کیا تو ذیشان نے پوچھا 
”تم اصل میں کہنا کیا چاہتے ہو ، وہ بات کہو ؟“ 
”دیکھو اب ثانیہ کسی کی ہو گئی ۔ تمہیںاگر اس سے محبت ہے تو تمہارے کسی عمل سے اس کی زندگی ڈسٹرب نہ ہو ۔تم اسے کسی طرح کا بھی نقصان نہ پہنچاﺅ ۔اگر کبھی اسے تمہاری مدد کی ضرورت پڑے تو اس کی مدد پوری جان سے کرو ۔یہ ناکامی نہیں ، محبت ہے ۔وہ تمہاری نہیں ہو سکی ، کسی کی ہے لیکن ہے تو وہی نا ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے کہا تو ذیشان سوچ میں پڑ گیا ۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا ، پھر زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولا
” تم ٹھیک کہتے ہو یار ، میں پوری کوشش کرو ںگا ۔“ اس نے کہا تو وہ اٹھتے ہوئے بولا 
” چل ، تمہاری بھابھی نے کھانا بنا لیا ہوگا ۔ کھاتے ہیں ۔“ 
” چلو پھر ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ بھی اس کے ساتھ اٹھ کر اندر کی جانب چلا گیا ۔ ذیشان خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا ۔
٭....٭....٭
ثانیہ اور شعیب کی شادی کو دو ہفتے ہو گئے تھے ۔ وہ تیسرے دن ہی ہنی مون کے لئے نکل گئے تھے ۔وہ پاکساتن کے شمالی علاقے کی سیر پر تھے ۔روزانہ ہی ان کا فون آ جاتا ۔ پھوپھو فاخرہ خوش تھی کہ جو اس نے سوچا ، وہی ہو گیا ۔ اس کا پلّے سے کچھ نہیں گیا تھا ۔ ایسے ہی ایک صبح حسب معمول وہ کاریڈور میں بیٹھی ہوئی تھی کہ فرازنہ گیٹ سے اندر آ گئی۔اس کا چہرہ پیلا ہو رہا تھا ۔ وہ ہونقوں کی مانند دیکھتے ہوئے سیدھی پھوپھو فاخرہ کے پاس آ گئی ۔ اس نے سلام دعا کئے بغیر ادھر ادھر دیکھ کر کہا 
” پھوپھو، مجھے لگتا ہے میں ماں بننے والی ہوں ۔“
پھوپھو فاخرہ کو پہلے تو سمجھ میں نہیں آ یا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ، جیسے ہی اس کی سمجھ میں آ یا، اس کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے ۔
پھوپھو فاخرہ پھٹی پھٹی آ نکھوں سے فرزانہ کو دیکھ رہی تھی ۔جبکہ فرزانہ بے بسی کا بُت بنی اس کے چہرے پر دیکھ رہی تھی ۔ کچھ دیر بعد پھوپھو فاخرہ نے خود پر قابو پاتے ہوئے دھیمی آ واز میں پوچھا
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم ؟ تمہیں کچھ عقل بھی یا نہیں ؟“
”مجھے عقل بھی ہے او رسمجھ بھی ،میں نے تمہیں بتا دیا ہے ۔ اب تم جانو اور تمہارا کام ۔“ فرزانہ نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا اور اندر کی جانب بڑھ گئی ۔
پھوپھو فاخرہ نے تو یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ اس طرح کی کسی صورت حال کا سامنا بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کے ہاتھ پاﺅںپھول گئے ۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا دماغ بند ہو گیا ہے ، اس کچھ بھی سمجھائی نہیں دے رہا تھا ۔وہ سمجھ رہی تھی کہ اگر یہ بات کسی کو بھی پتہ لگ گئی تو ایک طوفان کھڑا ہو جائے گا ۔ کوئی فرزانہ کو پوچھے یا نہ پوچھے لیکن قصور وار وہی تھی ۔اس کے ساتھ کیا ہوگا ؟ سارا کچا چٹھا کھل جائے گا ؟ کچھ دیر تک یونہی اوٹ پٹانگ سوچتے رہنے کے بعداس نے خود کو تسلی دی ۔اس نے سوچا ہر مسئلے اک حل ہوتا ہے ۔ اگر یہ مسئلہ آن پڑا ہے تو اس سے بہتر انداز میں نپٹا جا سکتا ہے ۔ یہی سوچتے ہوئے اس کے دماغ میں یہ خیال رینگ گیا کہ کہیں یہ فرزانہ اسے بلیک میل ہی نہ کر رہی ہو؟پہلے یہ تصدیق تو ہو جائے کہ وہ واقعی ہی ماں بننے والی ہے تب کچھ اس کا حل سوچا جائے ۔اگر وہ کس بھی مقصد کی خاطر بیلک میل کرنے کے چکر میں ہے تو چند دن ہی میں کوئی الزام لگا کر اسے گھر سے باہر کرے گی ۔ پھر وہ جو بھی کہتی رہی ، کون مانے گا ۔ اس خیال کے ساتھ وہ تیزی سے اٹھی لیکن پھر بیٹھ گئی ۔ اک نئی سوچ نے اسے پانی کے بلبلے کی مانند بٹھا دیا ۔اگر وہ جھوٹ بھی بول رہی ہے ، اس نے 
بلیک میل بھی کرنا چاہا تو اسے یوں الزام لگا کر گھر سے نہیں نکال سکتی تھی ۔
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *