Sunday 7 January 2018

بابا گپی ۔۔ امجد جاوید


بابا گپّی؟
امجد جاوید 
                تاحدِ نگاہ سنہری ریت کے ٹیلے ہی ٹیلے دکھائی دے رہے تھے۔سہ پہر کی طلائی دھوپ میں ریت کا سمندر بڑا پراسرار دکھائی دے رہا تھا۔ اُفق تک بھوری ریت تھی ۔جہاں سے گہرا نیلا آسمان شروع ہوجاتا تھا۔ درمیان میں کہیں سبزہ نہیں تھا۔ پر ہول سناٹے میں ہَوا شور مچاتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔اس قدر بےباک ویرانی تھی کہ وحشت ہو رہی تھی۔ غنیمت یہ تھا کہ ان دنوں بہار کا موسم تھا۔ گرمیا ں اگرہوتیں ،تو یہاں رہنا اک عذاب سے کم نہیں تھا۔میں نے گھبرا کے نگاہیں اُس طرف پھیر لیں،جہاں کنٹینروں اور کینوس کی چھولداریوں سے سے ایک بستی اُگ آئی تھی۔تب بے اختیار میرے سینے میں گھٹی ہوئی سانس یوں آزاد ہوئی جیسے کبوتر کو ہاتھ سے چھوڑ دیا جائے۔ میں اُدھر چل دیا۔                         ہم ایک غیر ملکی کمپنی کے تحت اس صحرائی علاقے میں گئے تھے۔وہاں جا کر یوں لگا جیسے ہم پوری دنیا سے کٹ گئے ہیں۔ہم نے جہاں کیمپ لگایا تھاوہ ٹیلوںمیں گھری ہوئی قدرے صاف زمین تھی ۔قریب ہی ایک کچی سڑک تھی۔جوشمال میں تقریبا بائیس کلو میٹر کے فاصلے پرواقع اےک قصبہ تک لے جاتی تھی۔ہفتہ وار چھٹی کے دن ہی ہم کمپنی کی گاڑی میں اس قصبے تک جاتے۔تب ہمیں یقین ہوتا کہ ہم بھی اس دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔وہاں ایک اکلوتا پی سی او تھا۔جہاں سے بڑی کوشش کے بعدہم اپنے گھر والوں سے رابطہ کر پاتے تھے۔ہمارے کیمپ کے جنوب میں ایک چھوٹی سی مقامی لوگوں کی بستی تھی۔اس بے آب و گیا صحرا میں یہ کچی بستی غنیمت تھی۔ہمارے وہاں ہونے سے انہیں بڑا معاشی فائدہ ہوا تھا۔ وہاں کے نوجوان ہمارے ساتھ کام میں شامل ہوگئے تھے۔ جس سے ان کی اچھی مزدوری بن جاتی۔ ہماری بھی کھانے پینے کی کافی ضروےات وہیں سے پوری ہونے لگیں۔ خصوصا وہاں کا خالص دودھ ہمیں میسر آنے لگا۔وہ نوجوان صبح صبح آ جاتے، سارا دن کام کرتے اور شام کو اپنی بستی پلٹ جاتے۔چند دنوں میں ان سے خاصی مانوسیت ہوگئی۔
میری وہاں پر ایک سپروائز کی حیثیت سے نوکری تھی۔ میرے ماتحت مقا می مزدوروں سمیت پندرہ سے بیس افراد کام کرتے تھے۔ پہلے پہلے میرے لئے وہاں کام کے علاوہ بوریت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔ مگر چند دنوں کے بعد ہی ان مقامی مزدوروں کی وجہ سے یہ کیفیت نہ رہی۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ نوجوان میرے ساتھ کام کرنا زیادہ پسند کرتے تھے۔ میں بھی ان میں دلچسپی لینے لگا تھا۔ میری دلچسپی کی وجہ ان کی آپس کی گفتگو تھی۔وہ اکثر کسی بابے گپی کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ جیسے ہی بابے گپی کا ذکر آتا یا اس حوالے سے کوئی بات کرتا، تب وہ کھلکھلا کر ہنس دیتے۔باباگپی کے حوالے سے بات کرکے وہ بہت مزہ لیتے ۔مجھے تجسس ہونے لگا کہ آخر یہ کیا ماجراہے؟وہ بابا گپی کون ہے اور اس کے ساتھ معاملہ کیا ہے؟ کیا انہوں نے کسی اشارے کے لئے کوئی اصطلاح گھڑی ہوئی ہے، یا واقعتا کسی بابے کا کوئی وجود ہے؟ دن بدن میرے لئے تجسس بڑھتا گیا۔آخر ایک دن جب آرام کا وقت تھااورسب آرام کر رہے۔ میں نے ان مقامی مزدوروں میں سے زیادہ سمجھ دار لڑکے سانول کوبلا لیا۔ و ہ جھجکتے ہوئے میرے خیمے میں آگیا۔میں نے اسے سوڈے کی ٹھنڈی بوتل پینے کو دی۔ پھر اس سے مقامی بودوباش وغیرہ کے بارے میں گپ شپ کرنے لگا۔اس دوران میں نے بابے گپی کے بارے میں پوچھ لیا۔ پہلے تو اس نے شرمندگی سے میری جانب دیکھا پھرکھسیانی سی ہنسی میں بولا۔
                ”اُو سائیں!اس کاکیا ذکر کرنا۔
                ”پھر بھی کچھ تو بتاﺅ۔“ میں نے اصرار کیا۔
کیا کریں گے اس کے بارے میں پوچھ کے۔۔۔ ایویں بس۔۔“ وہ اس ذکر سے بچنا چاہتا تھا۔ اب جبکہ میں نے بات چھیڑ لی تھی۔ا س لئے تھوڑی بہت معلومات تو لے لینا چاہتا تھا۔
یار ، جیسا بھی ذکر ہے، تم بتاﺅ،“ میں ذرا سے سخت لہجے میں کہا تو وہ بولا
سائیں! ہماری بستی میں ایک بوڑھا بابا رہتا ہے۔ اس کا کوئی بھی نہیں ہے۔ اکیلا رہتا ہے۔
مگر جب بھی تم لوگ اس کا ذکر کرتے ہو تو۔۔۔
وہ ایساہے ناسائیںکہ وہ باتیں بڑی عجیب عجیب سی کرتا رہتاہے۔جس کہ نہ اسے سمجھ آتی ہے اور نہ ہمیں۔
نہ اسے سمجھ آتی ہے نہ تم لوگوں کو ۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی؟“ میں دبی دبی حیرت سے پوچھا۔
وہ ایسی باتیں کرتا ہے،جس کا نہ کوئی سر ہوتا ہے نہ پیر“ اس نے ہولے سے بتایا۔
وہ کوئی ذہنی مریض ہے؟“ میں نے کریدا
نہیںنہیںسائیں!کبھی کبھی تو وہ بڑی سیانی باتیں کرتا ہے۔اصل میں وہ بولتا ہی کم ہے۔پھر جب باتیں کرتا ہے توسیانی باتیں کرتے کرتے اچانک پٹڑی سے اُتر جاتا ہے۔ وہ ایسی باتیں ہوتی ہےں کہ کسی کی سمجھ میں ہی نہیں آتیں۔“ اس نے دھیمے سے مسکراتے ہوئے بتایا۔
مطلب وہ کیسی باتیں کرتا ہے؟ میں نے الجھتے ہوئے تجسس آمیز لہجے میں پوچھا تو وہ چند لمحے میری جانب دیکھتا رہا پھر بولا
کیا بتاﺅں سائیں! کوئی کام کی بات ہو توکہوں۔“ اس نے پھر سے پہلوتہی کرنا چاہی۔ مگر میں بھی ہار ماننے والا نہیں تھا۔ اس لئے کہا
میں نے دیکھا ہے تم لوگ اکثر اس کا نام لے کر ہنستے رہتے ہو۔کوئی خاص وجہ ہوگی تبھی تم لوگ۔۔۔
سائیں بات یہ ہے وہ ایسی بے ڈھنگی اور فضول بات کرتا ہے کہ کسی کو بتاتے ہوئے شرم آتی ہے۔سب اسے بابا گپی ہی کہتے ہیں۔ لیکن جو بات وہ کرتا ہے، وہ گپ بھی نہیں ہوتی۔پتہ نہیںکیا کہتا رہتا ہے۔“ اس نے بے مزہ ہوتے ہوئے کہا۔
اچھا وہ جیسی بھی بات کرتا ،اسے چھوڑو۔تم مجھے اس کی کوئی اےک بات بتاﺅ۔“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔ تو وہ خیالوں میں کھو گیا جیسے کوئی بات منتخب کر رہا ہو۔ پھر بولا
اس کی ایک بات بتاتا ہوں سائیں۔ایک دفعہ مچھلی کے شکار کی بات چل نکلی۔ ہم میں سے اکثر ایسے ہیں جنہوں نے کبھی زندگی میں مچھلی کا شکار نہیں کیا ہو گا۔ ہر کوئی اپنااپنا قصہ یا واقعہ سناتا رہا۔ جس میں کچھ سچ تھا کچھ جھوٹ تھا۔ ہر کوئی اپنی باری پر بات کرتا رہا۔ جب بابے کی باری آئی اس تو کمال کر دیا۔“ وہ سانس لینے کے لئے رُکا اور پھر کہتا چلا گیا”کہنے لگا ،تم لوگوں نے کیا شکار کیا ہوگا۔ شکار تو میںنے کیا تھا۔میں دریا کے پل پر کنڈی لگائے بیٹھا تھا۔ ابھی اتنا زیادہ وقت نہ ہوا تھا کہ ایک مچھلی میری کنڈی میں لگ گئی۔میں نے اسے باہر نکالنا چاہا تو وہ نہ نکلی۔آخر میں ڈور پل کے ساتھ باندھی اور خود دریا میں چھلانگ لگا دی۔ تاکہ دیکھوں تو سہی معاملہ کیا ہے؟میں نے نیچے پانی میں جا کر دیکھا تو مچھلی کم از کم چالیس فٹ کی تھی۔“ اتنا کہہ کر سانول رک گیا۔
اچھا پھر۔۔؟“ میں نے تیزی سے پوچھا
سائیں۔!بات یہاں تک رہتی تو ٹھیک تھا۔کہنے لگا۔۔۔میں نے اس مچھلی کودریا سے باہر نکالنا چاہامگر وہ نہ نکلی۔میں دریا سے باہر ا ٓگیا۔قریب ہی کنارے پر ملاحوں کی کشتیاں کھڑی تھیں۔ میں نے ان میں سے ایک کشتی اور چند غوطہ خورمزدور لئے۔ دریا میں اس جگہ آ یا تو مچھلی کانٹا نکالنے میں الجھی ہوئی تھی۔ میں نے مزدوروں کی مدد سے اس مچھلی کو کشتی میں لاد کر کنارے پر لے آ یا۔“ اتنا کہہ کر وہ پھر رُک گیا تومیں نے کہا
پھر۔۔۔!“
پھر کہنے لگا کہ اتنی بڑی مچھلی دیکھ کر لوگ کافی تعداد میں وہاں جمع ہوگئے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اس مچھلی کو گھر کیسے لے کر آﺅں۔میں نے وہ اُسے وہیں بانٹ دینے کا فیصلہ کیا۔جیسے ہی اس کا پیٹ چاک کیا گیا، اس میں سی ایک زندہ بلی نکلی۔میں نے اس پکڑنا چاہامگر وہ چھلانگ لگا کر بھاگ گئی۔ بس میں نے وہ مچھلی وہیں بانٹی اور گھر آ گےا۔“ اس نے اپنی بات مکمل کرکے یوں اطمینان بھرا سانس لیا جیسے بہت بڑا بوجھ اُتر گیا ہو۔
 ” ہائیں! یہ کیا بات ہوئی؟“بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔ میں خود حیران رہ گیا تھا۔ یہ تو خوابوں کی اصطلاحوں اور اشاروںجیسی باتیں تھیں ۔ جس کی نہ کوئی منطق ،نہ کوئی دلیل، نہ وجہ اور نہ کوئی جواز تھا۔
وہ ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔“ وہ ہنستے ہوئے بولا
اس دن کے بعد سے میرا تجسس کم ہونے کی بجائے مزید بڑھ گیا۔وہی ایک بات میرے ذہن میں گھومتی رہی۔ اس پر میں سوچنا بھی چاہتا تو کوئی ایسا سرا میرے ہاتھ نہ لگتا کہ جس کے سہارے میں کسی نتیجے پر پہنچ سکتا۔ ان مقامی نوجوانوں میں اےک نوجوان جندوڈا نامی بھی تھا۔ ایسے ہی اےک دن وہ میرے پاس بیٹھا تھا۔ یونہی گپ شپ کے دوران بابا گپی کا ذکر آ گیا۔
یا ر جندوڈا! اس کی کوئی گپ سناﺅ۔“ میں نے تجسس سے کہا۔
گپ۔۔۔! گپوڑ کہو سائیں۔خیر میں ایک سناتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ کچھ لمحے خاموش رہا پھر بولا،” باباگپی کو اس علاقے میں آ ئے کوئی پانچ چھ سال ہوئے ہیں۔
کیا وہ شروع سے یہاں نہیں رہتا۔ میرا مطلب وہ مقامی نہیں ہے؟“ میں نے پوچھا
نہیں! بزرگ کہتے ہیں کہ سانپ ،شیر اور درویش کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہوتا ۔ اب وہ پتہ نہیں کیا ہے۔ نجانے وہ کہاںسے آیا ہے۔ پانچ چھ سال ہوئے بستی کے باہر وہ چھپر ڈال کر اس میں رہتا ہے۔ کسی نے کچھ کھانے کو دے دیا تو کھا لیا ورنہ یونہی پھرتا رہتا ہے۔ وہ کسی سے کچھ نہیں مانگتا۔اس کے چھپر کے سامنے ایک بڑا سا درخت ہے۔ جس کی بڑی گھنی چھاﺅں ہے۔ بوڑھے اور فارغ لوگ اکثر وہیں جا کر بیٹھے رہتے ہیں۔ وہ چاہے وہاں ہو نہ ہو۔ کبھی کبھار ہمار ا دل کرتا ہے گپیں سننے کو تو ہم بھی چلے جاتے ہیں۔کبھی اس نے ذکر نہیں کیا کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے۔پر اس کے آنے سی بستی میں رونق بہت ہے۔“اس نے اچھی خاصی معلومات دے دی۔
وہ تم اس کی کوئی گپ سنانے لگے تھے۔“ میں نے اسے یاد دلایا
ہاں۔! ایک دن کافی سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔بات اسی صحرائی علاقے کی سیاحت بارے چل نکلی، جہاں ہم آباد ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ عمریں گذر جاتی ہے اس کو پورا دیکھنے کے لئے۔تب بابا گپی نے بڑے اعتماد سے بتایا کہ وہ ستّر سال پہلے اس پورے علاقے کی سیر کر چکا ہے۔ سب ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔وہیں بیٹھے ایک بوڑھے نے کہا کہ چند دن پہلے تم نے اپنی عمر ساٹھ سال بتائی ہے۔کیاتم پیدا ہونے سے پہلے ہی اس علاقے کی سیر کر چکے ہو؟
پھر،اس نے کیا جواب دیا؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا
عمر کے بارے میں تو کچھ نہیں کہا لیکن بڑی ہی سنجیدگی سے بولا کہ جس کا جو جی چاہے مجھ سے پوچھ لے۔ میں بتا دیتا ہوں کہ کہاں پر کیا ہے۔“ اس نے مزہ لے کر بتایا
پھر پوچھا تم لوگوں نے۔۔۔؟“ میں نے جلدی سے پوچھا
نہیں۔! اس کی بات کو یونہی گپ سمجھ کر ہوا میں اُڑا دیا۔“ وہ بولا۔
اُوہ۔!“ میں نے ایک خیال کے تحت بڑے افسوس سے کہا۔ پھر کچھ دیر تک بات کرتے رہنے کے بعد ہم اپنے کام کے لئے اُٹھ گئے۔میں نے محسوس کیا کہ یہ جندوڈااپنے ساتھی سانول سے زیادہ باتونی اور صاف گو ہے۔
میرے ذہن میں با با گپی کے بارے میں مزید تجسس در آیا۔آخر وہ کیسا آدمی ہے ۔میں اکثر اس کے بارے میں یونہی سوچتا رہتا ۔اور میرے ذہن میں اُوٹ پٹانگ باتیں گھومتی رہتیں۔ ایسے ہی ایک دن جندوڈا سے مجھے نہ صرف بابا گپی کے بارے میں تازہ گپ سننے کو ملی بلکہ نئی معلومات بھی ملی۔
سائیں ،آج میں آپ کو ایک تازہ گپ سناتا ہوں۔“ اس نے ٹھنڈی بوتل کو غٹا غٹ پی کر خالی کرتے ہوئے ، ایک طرف رکھ کر کہا۔
بولو۔۔!“ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
بابا گپی کے پاس یونہی گپ شپ کے دوران پالتو جانوروں کی بات ہونے لگی۔ ہر کسی نے اپنی بات کی۔ جب بابے کی باری آئی تو پتہ ہے اس نے کیا کہا؟“ اس نے بات کرتے ہوئے میری جانب دیکھ کر بولا
تم ہی بتاﺅ۔“ میں نے کہا
کہنے لگا، میرے پاس ایک ایسی نسل کا کتا تھا، جو رات کے اندھیرے میں بھی دیکھ سکتا تھا۔ اس کا قد گائے کے بچھڑے جتنا تھا۔ وہ میں نے رکھوالی کے لئے نہیں بلکہ لڑائی کے لئے رکھا تھا۔وہ کتاتین سال تک زندہ رہا ۔ اس دوران اس نے کوئی مقابلہ نہیں ہارا۔
یار جندوڈا۔! یہ تو عام سی باتیں ہیں۔اس میں کوئی گپ والی بات تو نہیں۔ایسا ممکن ہوسکتا ہے۔“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
نہیں سائیں۔! میں جو کہنے والا ہوں وہ تو سنیں نا۔“ اس کے لہجے میں اک ذرا احتجاج چھلک پڑا۔میں خاموش رہا تو وہ کہتا چلا گیا،”کتوں میں جتنی اچھی خصوصیات ہوتی ہیں وہ ساری اس میں تھیں گپ والی بات یہ ہے کہ بقول بابا گپی کے ، وہ کتا انسانوں کی طرح بولتا تھا۔“ اس نے اپنی بات تیزی سے مکمل کرکے گہری سانس لی اور پھر میری طرف یوں دیکھنے لگا جیسے اپنی بات کا ردعمل جاننا چاہتا ہو۔اب میں اس پر کیا کہہ سکتا تھا۔
 اس دن جودوسری بات معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ اسے پنجاب کے ایک شہر ساھیوال سے بہت اُنسیت تھی۔ بابے کے مطابق اس شہر کی ہر شے اعلی درجے کی ہوتی ہے۔ساھیوال سے اس کی جذباتی قسم کی محبت تھی۔جیسے لاہور کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہا ں کے جن کنووﺅں سے معشوق پانی بھرتے ہیں وہ میٹھے ہیں باقی سب کھارے ہیں۔ اس طرح جس شے کے ساتھ ساھیوال کا نام جڑا ہے۔ وہ سب سے اچھی ہے ۔ حتکہ بابا گپی نے اگر کبھی اپنی سائیکل ٹھیک کروائی تھی توساھیوال سے۔اس کے جیسے کاریگرکہیں نہیں پائے جاتے۔ بقول بابا گپی” میں صبح سائیکل لے کر نکلتا ،سو میل کا سفر کرکے، سائیکل مرمت کروا کے، شام کو واپس آ جاتا۔
چند ہفتوں کے بعد میں نے بھی ذہنی طور پر مان لیا کہ وہ اگر دنیا کا سب سی بڑا گپ باز نہیں ہے تو کم از کم اس صحرائی علاقے کا سب سے بڑا گپی ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں نے ایک بات اور بھی محسوس کی ۔وہ مقامی نوجوان آپس میں مذاق کرتے ہوئے بابا گپی کا نام لیتے اور قہقہہ لگا کر ہنس دیتے۔انہی لمحات میں مجھے خیال آتا کہ یہ کہیں دوسروں کو بے وقوف تو نہیں بناتے؟ اور ان کا پہلا نشانہ میں ہوں۔ممکن ہے بابا گپی کا وجود ہی نہ ہو، کوئی فرضی کردار گھڑ رکھا ہو۔یہ بھی ہو سکتا تھا کہ انہوںنے کسی خاص اشارے یا استعارے کے لئے بابا گپی کی اصطلاح وضع کی ہوئی ہو۔تب میرے دل میں اس بابے سی ملنے کی خواہش پیدا ہوتی۔ ایک تومقصد یہ تھا کہ اس کی وجود کی تصدیق ہو جائے ،دوسرا یہ بھی تھا کہ دیکھوں تو سہی کیا واقع وہ ایسی باتیں کرتا ہے، جس طرح سانول اور جندوڈا وغیرہ اس کے بارے میں کہتے ہیں۔ لیکن وقت تھا کہ ملتا ہی نہیں تھا۔شام کو تھکن سے بدن چُور ہو رہا ہوتا تھا۔ اس وقت تو بس آرام کرنے کی سوجھتی تھی۔ یا پھر چھٹی
کے دن نزدیکی قصبے میں جانا ہوتا تھا تاکہ اپنی گھر والوں کی خیر خیریت دریافت کر لی جائے ۔ وہاں بھی خاصا وقت لگ جاتا تھا۔یوں باوجود خواہش کے میں بابا گپی کو دیکھنے اور اس سے ملنے نہ جا سکا۔
اس صحرائی علاقے میں ہمارا کام ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ ہمیں وہاں آئے ہوئے پانچ ہفتے سے زیادہ وقت ہو گیا تھا۔ ایک دن اچانک ہیڈ کوارٹر سے مجھ سمیت چند آدمیوں کو واپس بلوا لیا گیا۔ وہ ہمیں کسی اور پراجیکٹ کے لئے بھیجنا چاہتے تھے۔ہماری جگہ کام کرنے کے لئے جو لوگ ، جس گاڑی میں آئے تھے۔ ہمیں اسی پر واپس جانا تھا۔ دوسروں کی طرح میںنے بھی فوری طور پر جانے کےلئے تیاری کرلی۔ میرے پاس ایک بیگ تھا اور بس۔ جس وقت ہم وہاں سے چلے تو دوپہر ڈھل کر سہ پہر سے مل رہی تھی۔ تب اچانک میرے دل میں خیال آیا کہ میں بابے گپی سے تو ملا ہی نہیں ہوں۔ اس سے ملنے کے لئے مےرے دل میںبڑی شدّت سے خواہش اُبھری۔ مگر اتنے مختصر وقت میں کیسے مل سکتا ہوں۔اگر اس کی بستی راہ میں ہوتی توکچھ دیر رک جاتے۔ تاہم میں نے ایک کوشش کرنے کی ٹھان لی۔
گاڑی کے ڈرائیور کا نام عرفان تھا۔وہ میرا اچھا خاسا شناسا تھا۔میں نے اس سی بات کی۔ وہ اس شرط پر مان گیا کہ باقی لوگوں کے تیار ہو جانے تک ہم واپس آجائیں گے۔ میں نے اس ے گاڑی لانے کو کہا اور خود ان مقامی نوجوانوں کے پاس چلا گیا۔
سائیں ، آپ اس وقت یہاں کیسے؟“ جندوڈا نے پوچھا۔ انہیں ہمارے جانے کی خبر ہو گئی تھی۔
میں اس وقت تمہاری اس بابے سے ملنے جا رہا ہوں۔“ میں نے پرسکون انداز میں کہا تو وہ حےرت اور تذبذب میںبولا
پتہ نہیں ۔۔۔ پتہ نہیں سائیں وہ ملتا بھی ہے یا نہیں اس وقت۔۔۔
اس کے یوں کہنے پر میرا شک یقین میں بدلنے لگا کہ یہ لوگ اب تک جھوٹ بولتے آئے ہیں۔
چلیں دیکھتے ہیں، مل گیا تو ٹھیک، ورنہ میری قسمت“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔
چل سانول۔۔۔ تو انہیں لے جا
نہیں یا ر تو لے جا“ جندوڈا نے جلدی سے کہا
ہم سب چلتے ہیں۔“ میں نے یہ کہہ کر ان کی مشکل حل کر دی۔
کچھ لمحوں میں وہاں گاڑی آ گئی۔ ہم اس میں سوار ہوئے اور بستی کی جانب چل دئےے۔ دوران سفر وہ سب خاموش تھے۔ اس وقت وہ صحرا مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ نجانے اتنے دن یہاں رہنے کی وجہ سے قربت کا احساس ہو گیا تھا۔ہمارے سفر کا اختتام ایک جھونپڑی کے پاس ہو، جسے مقامی زبان میں ”گوپا“ کہتے ہیں۔ وہاں باہر کوئی بھی نہیں تھا۔ایک گھنا درخت تھا۔ جس کے آ س پاس کافی ساری زمین ایسے صاف تھی،،جیسے ابھی کسی نے وہاں آ کر بیٹھنا ہو۔ ایک طرف صف لپٹی ہوئی پڑی تھی۔ اس کی پاس ہی دو گھڑے،جن پٹ سن کی بوری کے ٹکڑے لپیٹے ہوئے تھے تاکہ پانی ٹھنڈا رہے۔ ہم وہاں جا کر رک گئے۔
پتہ نہیں وہ اندر ہے بھی کہ نہیں۔۔۔ کہا نا کہ وہ سیلانی بندہ ہے۔“ جند وڈا نے تشویش سے کہا۔
تو آواز تو دے۔“ سانول نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر زور سے آواز دے دی۔” بابا بوٹے۔۔۔!“
دوسری آواز پر ایک شخص جھونپڑی میں سے نمودار ہوا۔ پہلی نگاہ میں وہ کوئی خاص تاثر نہیں دے سکا۔چھوٹے سے قد کا کالا بھجنگ سا شخص تھا۔سر سے آدھا گنجا، سفید بال یوں الگ سے دکھائی دے رہے تھے جیسے گوند سے چپکائے گئے ہوں۔ اسی طرح چھوٹی سی بے ترتیب ڈاڑھی اور بھاری مونچھیں جو اس سے قطعا مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ان گھنی مونچھوں کے درمیان سے جھانکتے موٹے موٹے سیاہ ہونٹ عجیب سا تاثر دے رہے تھے۔ تیکھی ناک آگے سے ذرا سی مڑی ہوئی تھی۔اس کی کنجی آنکھوں میں بلا کی چمک تھی۔ یوں جیسے چیتے کی آنکھیں ہوتی ہیں ۔چہرے اور سر کی نسبت کان بڑے تھے۔ اس نے سفید براق دھوتی
 اور کرتا پہنا ہوا تھا۔ پاﺅں میں چمڑے کا جوتا پہنے ہوئے تھا جس کا رنگ اُڑ چکا تھا۔پہلی نگاہ میں وہ کوئی سر ی لنکن لگتا تھا۔کرکٹر جے سوریا سے اس کی بہت حد تک مشابہت تھی۔ اس لئے وہ مجھے سر ی لنکن لگا تھا۔ یا پھر ایسا بنگالی جس نے دریا کے علاوہ زمین ہی نہ دیکھی ہو۔
بابا بوٹے۔۔ یہ تم سے ملنے کے لئے آئے ہیں۔“جندوڈے نے جان چھڑانے والے انداز میں کہا۔ تب اس نے پہلے مجھے سرتاپا غور سے دیکھا اور پھر وہ اپنے قد سے زیادہ بھاری آواز میں بولا
کیوں ملنا چاہتے ہیں؟
بلاشبہ میرے پاس جو متوقع جواب تھا وہ میں کہہ نہیں سلتا تھا۔ میں اس کوئی مصلحت آمیز جواب دینا چاہ رہا تھا کہ سانول جلدی سے بولا
دوسرے تم سے کیوں ملنے آتے ہیں۔ کبھی کسی چنگے بندے سی بھی مل لیا کر۔“ اس کا لہجہ کافی حد تک ہتک آ میز تھا۔جسے میں نے تو محسوس کیا مگر بابے پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ بابا شاید مسکرایا تھا۔ بڑے خوشگوار لہجے میں بولا۔
آﺅ۔۔آﺅ۔۔ بیٹھو“ یہ کہہ کر وہ صف بچھانے لگا۔
ہم نے اتنی دیر نہیں بیٹھنا، بس چند منٹ۔۔۔“ میں نے کہا
اُ و جناب بیٹھو۔“ اس بار اس نے بڑی لہر میں کہا تو میں صف پر بیٹھ گیا۔ تب اس نے پوچھا،” باتیں تو ہوتی رہیں گیں، سنائیں میں کیا سیوا کروں کیا کھائیں پئیں گے۔“ اس نے کہا تو میں نے پہلے سے سوچی ہوئی بات کہہ دی۔
آپ شاید ہماری سیوا نہ کر سکیں اس لئے تھوڑی دیر۔۔۔
آپ حکم توکریں۔۔۔“ اس نے میری بات قطع کرتے ہوئے کہا
تو پھر آ پ ہمیں ساھیوال میں موجود چاچے فضل دین حلوائی کے لڈو کھلا دیں۔“ میں نے کہا تو بابے نے چونک کر میری طرف دیکھا۔پھر بڑے گھمبیر انداز میں بولا
اچھا، چل وہی کھلا دیتے ہیں۔
یہ کہہ کر وہ اُٹھا اور گوپے کے اندر چلا گیا۔ اس پر وہ مقامی نوجوان کھسیانی ہنسی میں ہنسنے لگے اور سرگوشیوں میں نجانے کیا کچھ کہتے رہے۔وہ چونکہ ذرا فاصلے پر کھڑے تھے۔ اس لئے ان کی کوئی بات میرے پّلے نہیں پڑ رہی تھی۔ میں نے بابے کو گوپے کے اندر گئے جب دس بارہ منٹ سے زیادہ ہوگئے تو سانول کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولا
سائیں چلیں؟
ابھی ٹھہرو، بابا اندر گیا ہے اسے واپس آ لینے دو پھر چلتے ہیں۔“ میں تذبذب سے کہا
اس نے اب کیا باہر آنا ہے۔آپ نے فرمائش ہی ایسی کر دی ہے۔“جندوڈا نے دھیرے سے کہا
چلو دو منٹ اور دیکھتے ہیں پھر واپس چلتے ہیں ۔“ میں نے حتمی لہجے میں کہا اور گوپے کے دروازے کی جانب دیکھنے لگا۔ مجھے افسوس ہونے لگا تھا کہ میں نے خواہ مخواہ ایسی فرمائش کر دی۔ اتنی دیر میں اس سے باتیں کرکے کچھ تھوڑا بہت خود اندازہ لگا لیتا کہ وہ کیسی باتیں کرتا ہے۔بہر حال چند منٹ بعد میں مایوس ہوکر وہاں سے جانے کے لئے اُٹھ گیا۔ اس وقت میں صف سے اُٹھ کر جوتی پہن چکا تھا جب بابا گوپے میں سے نمودار ہوا۔ اس وقت میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نے اس کے ہاتھ میں نے چاچے فضل دین حلوائی کی دوکان کی مخصوص چھاپ والا گتے کا ڈبہ اس کے ہاتھ میں دیکھا۔
                ” معاف کرنا جوان۔! مجھے دیر ہوگئی۔ دوکان پر تو رش نہیں تھا، مگر اس بازار میں لڑائی ہوگئی تھی۔ ایک بندہ بڑا زخمی ہوگیا۔بس ان کی لڑائی ختم کراتے دیر ہوگئی۔ آﺅبیٹھو۔۔۔ کھاﺅ۔“ اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ مےرے ساتھ وہ مقامی نوجوان بھی پھٹی پھٹی آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، جب اس نے ڈبے کا ڈھکن اتارا اور اس میں سے تازہ ورق لگے لڈّو دکھائی دئےے۔
جی ۔۔۔!“ میں جھجھکتے ہوئے بیٹھ گیا تو میرے ساتھ وہ نوجوان بھی بیٹھ گئے۔ہم نے ایک ایک لڈّو اُٹھا کے کھایا۔ جبکہ بابا کہہ رہا تھا۔
یہ آج ہی تازہ لڈّو بنے ہیں ۔ مجھے خود بہت پسند ہیں۔ اور پھر ساھیوال تو ساھیوال ہے اس کی تو ہر شے اعلی ہے۔
کیوں؟“ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا تو چند لمحے میریجانب دیکھتا رہا پھر بڑے جذب سے بولا
یہ تمہیں اس وقت پتہ چلے گا جب تم کہیں فنا ہو جاﺅ گے۔
اس وقت میں اس کی بات بالکل نہیں سمجھا تھالیکن لہجے سے مرعوب ضرور ہوا تھا۔ مجھے جلدی تھی۔عرفان با ربار گھڑی پر ہاتھ رکھ کر اشارہ کر رہا تھا۔
اچھا بابا جی اجازت۔۔۔!“ میں نے اُٹھتے ہوئے کہا۔ تب وہ بھی کھڑا ہو گیا اور مصافحہ کرتے ہوئے میرے دونوں ہاتھ پکڑ کر ہولے سے بولا
سنو۔! منظروں میں نہیں اُلجھتے، ان کی روح کو سمجھتے ہیں۔ اس طرح انسان بھی اُلجھا ہوا ہے۔ جس دن اُسے اپنی سمجھ آگئی،اسی دن پوری کائنات اس کے تابع ہو جائے گی۔ حالانکہ اسے بتا دیا ہوا ہے کہ یہ کائنات اس کے لئے مسخر کر دی گئی ہے۔
میں نے اس کی طرف دیکھا اور واپسی کے لئے مڑ گیا۔مقامی نوجوان وہیں رہ گئے تھے
قریبی قصبہ آ جانے تک میں اس بابے کی بات میں کھویا رہا۔ شام ہوجانے کی وجہ سے مغربی اُفق نارنجی ہو رہا تھا۔پرندے اپنے ٹھکانوں کی جانب رواں تھے۔ میری کیفیت عجیب سی ہو رہی تھی۔واپس آتے ہوئے صحرائی منظر بہت خوبصورت لگ رہے تھی۔ وہاں کی ویرانی مجھے باتیں کرتی محسوس ہونے لگی تھی۔
یار۔! گھر فون کرکے بتا دیں،پھر چلتے ہیں۔“ میرے ایک ساتھی نے کہا تو اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آگیا۔ میں بھی اس کے ساتھ پی سی او تک چلا گیا۔
ساہیوال میں میرا ایک دوست انور علی رہتا تھا۔ وہ بجلی سے چلنے والی اشیاءکا مکینک تھا۔ اس کی اسی بازار میں دوکان تھی ،جہاں چاچے فضل دین حلوائی کی دوکان تھی۔ میں نے اسے فون کر دیا۔ حال احوال کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔
آج تمہارے بازار میں کوئی لڑائی بھی ہوئی تھی۔جس میںکوئی آدمی شدید زخمی ہو گیاتھا؟
ہاں یار، یہ دو تین گھنٹے پہلے کا واقعہ ہے۔“ اس نے بتایا تو میں نے اضراری انداز میں فون بند کردیا۔ تب سے لے کر اب تک، میرے ذہن میں یہی سوال ہے کہ کیا وہ واقعی گپّی تھا؟
ززز


No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *