امجد جاوید ایک ایسے ہی تخلیق کار ہیں جن کا حوالہ کہانی ہے ۔کہانی کی تخلیق کا یہ سفر ناول نگاری اورتمثیل نویسی تک آن پہنچا ہے ۔ادبی مراکز سے دور، جنوبی پنجاب کے شہر حاصل پور ( بہاول پور) سے تعلق رکھنے والے ادیب کو چولستانی ہو نے پر فخر ہے۔ ان کا موضوع عشق ، عشق حقیقی، تصوف کے علاوہ پاکستانیت ہے۔وہ وطن سے محبت کو ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں ۔امجد جاوید نے لکھنے کا آغاز ۱۹۸۸ءمیں ایک کہانی لکھ کر کیا۔اب تک ان کے لکھے ہو ناولوں کی تعداد اکیس ہو گئی ہوئی ہے۔ جن میں عشق کا قاف ، فیض عشق ، امرت کور، کیمپس ، سائبان سورج کا ، دھوپ کے پگھلنے تک ،جب عشق سمندر اُوڑھ لیا، ذات کا قرض ، عورت زاد اور قلندر ذات قابل ذکر ہیں۔ دو ٹی وی سیریل لکھے ، آپ نے صحافت کی شروعات۱۹۹۳ءمیں کی تھی لیکن چند برس بعد ہی یہ شعبہ چھوڑ دیا۔ سو بے شمار مضامین، فیچر ، انٹر ویو اور کالم ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے ابلاغیات اور بعد ازاں اُردو و اقبا لیات میں ماسٹرز کیا۔ان کی تخلیق کاری پر اتنا ہی کہہ دینا کافی ہے کہ جیسے کوئی درویش کسی ٹیلے پر جنڈ کے درخت تلے اپنے ہی گیان دھیان میں مگن بیٹھا ہو ۔اس کی خلیق کاری کو کون کس طرح دیکھتا اور پر کھتا ہے ، وہ اس معاملے سے بے نیاز بس لکھتے چلے جارہے ہیں
,
مہمان
Amjad Javed
Social Counter