Wednesday 30 August 2017

خنجر بکف

خنجر بکف

امجد جاوید




ممبئی کے علاقے جوہو میں موجود تین منزلہ پرانی عمارت کے نیچے ٹیکسی رُکی۔ اس میں سے نارائن داس نکلا۔ وہ جدید تراش کی پتلون اور شرٹ میں ملبوس تھا۔ اس نے ایک نگاہ اُڑی ہوئی رنگت والی عمارت پر ڈالی۔اُترتی ہوئی شام میں اس کا رنگ مزید بھدا لگ رہا تھا ۔ اس کی پشت پر سمندر اور دائیں جانب نیم دائرے میں کہیں دور تک پھیلا ہوا ساحلی علاقہ تھا۔ اس نے ایک طویل سانس لے کر ادھر ُادھر دیکھا اور عمارت کے داخلی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ بارش ہو جانے کے بعد موسم اچھا ہو گیا تھا۔ سمندر سے آ نے والی ہوا میں انجانی مستی بھر گئی تھی ۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے دوسری منزل پر پہنچا ۔ اس کا سامنا تین آ دمیوں سے ہوا جو اسے گھورتی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے ۔ وہ شکل ہی سے غنڈے لگ رہے تھے۔ اس نے جیسے ہی دائیں جانب مڑنا چاہا،وہ تینوں اٹھ کر کھڑے ہو گئے ۔ ان میں سے ایک زیادہ عمر کے بندے نے نارائن 

داس سے کرخت لہجے میں پوچھا
”کدھر جانے کا؟“
”تاﺅ جی سے ملنے ہے۔“ نارائن نے سکون سے کہا تووہ تینوں الرٹ ہو گئے ،انہوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھاپھر اسی نے پوچھا
” کون ہو تم اور کیا کام ہے ؟“
”میںکام انہیں ہی بتاﺅں....“اس نے کہنا چاہاتوسامنے کھڑے بندے نے تیزی سے کہا
” وہ نہیں ملے گا ، سو رہا ہے ، کل آ نا ۔“ 
” میں نے فون کیا ہے ۔بولو نارائن داس آ یا ہے ۔“اس نے خشک لہجے میں سختی سے کہا تو چند لمحے سوچنے کے بعد بات کرنے والے نے اپنے ساتھی کو اشارہ کیا۔ ان میں سے ایک تیزی سے چلا گیا۔وہ تینوں وہیں کھڑے رہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ بندہ واپس آگیا۔ اس نے سر کا اشارہ کرتے ہوئے کہا
”آﺅ ۔“
وہ اس کے پیچھے چلتا چلا گیا۔
اس گھر کی ہر شے پرانی تھی ۔ اسے لگا جیسے وہ ستر کی دہائی والے کسی گھر میں آ گیا ہو ۔کھڑکی کے ساتھ ایک پلنگ پروہ بوڑھا ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔سفید بال ، کلین شیو، بنیان کے ساتھ دھوتی باندھے ہوئے۔ وہ اس کے چہرے پر دیکھتا رہا تھا جیسے کچھ ٹٹولنے کی کوشش میں ہو۔ نارائن نے دونوں ہاتھ جوڑ کر نمشکار کیا۔ بوڑھے تاﺅ نے بھی نمشکار کرتے ہوئے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ قریب پڑی ایک پرانی طرز کی آ رام کرسی پر بیٹھ گیا۔
” اتنے برس بعد آ یا، کہاں چلا گیا تھا۔ویرولی والے واقعے کے بعد تم ایک دم سے غائب ہو گئے۔؟“ تاﺅ نے پوچھا
” تاﺅ ، کیااتنا کچھ سننے کو وقت ہے آ پ کے پاس ؟“ نارائن نے دھیمے سے پوچھا پھر لمحہ بھر خاموش رہ کر کہا،”دوبارہ اگر میں مل سکا تو ضرور بتاﺅں گا۔“ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ تاﺅ نے چند لمحے اس کی طرف دیکھا پھر بولا
” بول، کام کیا ہے ؟“
نارائن نے اپنی پتلون کی جیب میں ہاتھ ڈالا، اس کے ہاتھ میں کسی فیشن میگزین کا ایک صفحہ تھا۔ اس نے وہ کھولااور تاﺅ کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا
” ویرولی والے معاملے میں اس رات یہی میرے ساتھ تھی ۔اسی سے اس گینگ کا پتہ چلے گا ۔“
” یہ تو فلم سٹار ہے ؟“ تاﺅ نے وہ صفحہ غور سے دیکھتے ہوئے کہا، پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد بولا” کیا چاہتے ہو ؟“
” اسے کچھ دن اپنے پاس رکھنا چاہتا ہوں ۔“ نارائن نے کہا ۔ اس پر تاﺅ نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھیرا اور پھر بولا
”کب....؟“
” آج شام ، ساری فیلڈنگ کر لی ہے ، بس آپ کی یہی مدد چاہئے، کوئی محفوظ جگہ، صرف اتنی دیر کے لئے، جب تک وہ کچھ بتا نہیں دیتی۔“ نارائن نے کہاتو اس کے لہجے میں سے غصہ جھلکنے لگا تھا۔ 
’ ’ میرے فون کا انتظار کرنا۔“ تاﺅ نے سرہلاتے ہوئے کہا
” ٹھیک ہے تاﺅ ، اس کے بعد ہی کچھ نیا سکے گا ۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔اس نے دونوں ہاتھ جوڑ کر نمشکار کیا اور تیزی سے باہر کی جانب نکلتا چلا گیا۔
شام پھیل کر رات میں ڈھلنے لگی تھی۔ وہ فائیوسٹار ہوٹل کی لابی میں پہنچا تواس کے انتظار میں کھڑا ایک نوجوان غیر محسوس انداز میں اس کی جانب بڑھا۔وہ یوں اس کے قریب آ گیا جیسے اس کے لئے اجنبی ہو ۔اس نوجوان نے دوسری جانب دیکھتے ہوئے کہا
” وہ اندر ہے، صرف دو لوگ ہیں اس کے ساتھ سیکورٹی کے لئے ۔“
”اس کے نکلنے پر نگاہ رکھنا۔“ نارائن نے کہا اور آ گے بڑھ گیا ۔ ا س کا رخ اس ہال کی طرف تھا، جہاں وہ فلم سٹار تھی ۔ ہال کے دروازے پر چند لوگ کھڑے تھے۔ ان کے مانگنے سے پہلے ہی نارائن نے دعوتی کارڈ ان کے حوالے کر دیا۔ ان میں سے ایک بندہ ہلکا سا جھکا اور اسے اندر جانے کا اشارہ کیا ۔ خواب ناک ماحول میں اس نے دیکھا اور اندازہ لگایا کہ اندر پچاس سے زیادہ لوگ تھے۔ وہ ایسے کونے کی جانب چلا گیا جو نیم تاریک تھا۔وہاں کسی فلم کے مہورت کے بعد ہونے والی پارٹی تھی۔وہ فلم سٹار اسی فلم کی ہیروین تھی۔اس کے ارد گرد بہت سارے لوگ تھے۔نارائن نے دیکھا، وہ پہلے سے کہیں زیادہ خوبصورت ہو گئی تھی۔وہ خود پر جبر کئے اس لمحے کا انتظار کرنے لگا، جب اس نے وہاں سے نکلنا تھا۔یہ فلم سٹار قسم کی لڑکیاں جب گھر سے کسی تقریب کے لئے نکلتی ہیں تو ان کا بہت سارے لوگ انتظار کرتے ہیں ، یہ خود انتظار کرواتی ہیں ۔ تاکہ زیادہ سے زیادہ پبلسٹی مل سکے ، مگر جب کسی بھی تقریب سے نکلتی ہیں تو پتہ ہی نہیں چلتا۔انہیں اپنی سیکورٹی بھی چاہئے ہوتی ہے ۔اس لئے وہ اچانک ہی رفو چکر ہو جاتی ہیں ۔ 
دو گھنٹے کے طویل انتظار کے بعد اس نے فلم سٹار کی بے چینی بھانپ لی ۔نارائن اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ایک دروازے کی جانب بڑھنے لگی ۔چند لمحوں بعد ہی وہ اس دروازے سے باہر چلی گئی ۔ نارائن سرعت سے اٹھا اور اسی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔ وہ ایک راہداری میں تیزی سے جا رہی تھی جس کے اختتام پر دروازہ تھا۔ اگلے ہی لمحے اس نے وہ دروازہ کھولا تو باہر سیکورٹی والے کھڑے تھے۔نارائن تیزی سے آ گے بڑھااور دروازے تک جا پہنچا۔فلم سٹار اپنی کار کی جانب بڑھ رہی تھی۔ یہی وہ لمحہ تھا جس کا اسے انتظار تھا۔ اس نے اپنے دونوں پسٹل نکالے اورانتہائی تیزی سے ان کے سر پر جا پہنچا۔اس میں کسی بھی مہارت سے زیادہ صرف حوصلے کی ضرورت تھی ۔اس سے پہلے وہ صورت حال کو سمجھتے نارائن نے پسٹل کی نال فلم سٹار کی گردن پر رکھتے ہوئے کہا
”مار دوں گا اگر کوئی حرکت ہوئی ؟“
” کک....کون ہو ....“ فلم سٹار نے کہنا چاہاتواس نے نال سے دباﺅ ڈالتے ہوئے کہا
”کار میں بیٹھو ، بتاتا ہوں ۔“ یہ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ ایک سیکورٹی والے نے اس کی جانب اپنا پسٹل کیا ہی تھا کہ نارائن نے دوسرے ہاتھ میں پکڑے پسٹل سے اس پر فائر کر دیا۔وہ ڈکارتا ہوا نیچے گرا۔وہ سب صورت حال سمجھ گئے تھے ۔ فلم سٹار تیزی سے کار کی پچھلی نشست پر بیٹھ گئی تو نارائن بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا ۔ ایک پسٹل اس نے فلم سٹار کے پہلو میں لگا دیا اور دوسرا ڈرائیور کی گردن پر رکھتے ہوئے سرد لہجے کہا
”نکلوباہر ۔“
جب تک ڈرائیور باہر نکلا، تب تک اندھیرے میں موجود ایک نوجوان نکلا اور انتہائی تیزی سے ڈرائیونگ سیٹ پر آ بیٹھا۔اس نے گئیر لگایا،اور کار تیزی سے بھگادی ۔اسے معلوم تھا کہ دو چارمنٹ بعد ہر طرف پتہ چل جائے گا ۔ یہی دو چار منٹ انتہائی قیمتی تھے۔ہوٹل سے باہر آ جانے تک کا انتہائی رسک تھا۔اس لئے وہ پوری طرح محتاط تھا۔نوجوان نے بڑی مہارت کے ساتھ کار کو ہوٹل کی پچھلی طرف سے نکال کر سامنے کی طرف لایا اور پھر نکلتا چلا گیا۔وہ ہوٹل سے باہر آ گئے ۔چند منٹ مین روڈ پر رہنے کے بعد اس نے کار ایک چھوٹی سڑک پر ڈال دی ۔ ایک جگہ سامنے سڑک کنارے سیاہ وین کھڑی تھی ۔نوجوان نے کار وہیں روکی اور خود باہر نکل آ یا۔ نارائن نے فلم سٹار کو گھسیٹ کر اس وین میں ڈالا۔تب تک نوجوان وین کی ڈرائیونگ سیٹ آن پہنچا۔ اگلے چند لمحوں میں وہ وہاں سے نکلتے ہوئے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔
وہ سمند ر کنارے ساحلی پٹی کے ویرانے میں ایک پرانا سا لکڑی کا بنا ہوا کاٹیج تھا۔اندھیرے میں وہ کوئی بھوت بنگلہ ہی دکھائی دے رہا تھا۔نوجوان نے وین اس کاٹیج کے سامنے جا روکی، اس نے بڑے سکون سے باہر والا پھاٹک کھولا اور واپس آ کر وین اندرونی دروازے کے قریب لے جا کر روک دی ۔نارائن نے خوف زدہ سی فلم سٹار کی طرف دیکھ کر کہا
”چل نکل باہر ۔“
وہ نکلے اور اس کاٹیج میں چلے گئے جو نجانے کب سے کسی کے استعمال میں نہیں تھی ۔وین سمیت وہ نوجوان باہر ہی سے پلٹ گیا تھا۔ایک دھول جمی ٹوٹی ہوئی کرسی پر بیٹھتے ہوئے فلم سٹار نے خوف زدہ لہجے میں پوچھا
” کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟“
” ارے میری جان ، اتنی جلدی بھی کیا ہے ۔مگر ۔! افسوس مجھے اس بات پر ہے کہ تم اتنی جلدی مجھے بھول گئی ہو ؟“ نارائن نے اس کی پشت سے سامنے آ تے ہوئے کہا
”میں سمجھی نہیں؟“
” تم اس وقت بھی ناسمجھ تھی میری جان۔مگر اب تم ناسمجھی نہیں کرو گی۔جو پوچھوں گا ، وہ سب بتادو گی ۔ورنہ ....“ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں حد درجہ غصہ بھڑک رہا تھا۔ 
” کیا چاہتے ہو تم ؟“ فلم سٹار نے خوف زدہ لہجے میں الجھتے ہوئے پوچھا
”صرف اتنا بتا دو، داوڑے اور اس کے لوگوں کو کس نے مروایا تھا؟“ نارائن نے بالکل اس کے سامنے فرش پر گھٹنے لگا کربیٹھتے ہوئے پوچھاتو اس لڑکی کے منہ سے بے ساختہ نکلا
”ننّا....“
 ” ہاں ، میں ننّا....جس کی تو صرف تین دن رکھیل رہی اور بدلے میں کیا ہوا، تم نے میرے سارے ساتھی مروا دئیے۔پھر مجھے مارنے کو کتنا تلاش کیا میرے دشمنوں نے؟ یہ تم نہیں جانتی ، کیونکہ تم تو ایک فلم سٹار بن گئی ۔ اچھا ہے ،ہر کوئی اپنا فائدہ لیتا ہے ، تم نے بھی لیا، کوئی بات نہیں ،بس اب جلدی سے بک دو، کون تھے وہ لوگ ۔“ یہ کہتے ہی ننّا نے ایک زور دار تھپڑ اس کے منہ پر مارا تو وہ الٹ کر فرش پر جا پڑی۔فلم سٹار کی آ نکھوں سے خوف ابل رہا تھا۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ خواب ہے یا حقیقت ۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے نارائن کو دیکھنے لگی ۔اس کے لپ اسٹک لگے لبوں سے خون بہہ نکلا تھا۔وہ دھیرے دھیرے اٹھی اور ہاتھ جوڑ کر بولی 
” ننّا.... یہ تب کی بات تھی ، تین برس پہلے،مجھے صرف تم لوگوں کا پتہ بتانے کی بڑی رقم دی گئی تھی۔میں نے ایک ماہ میں تم لوگوں کو تلاش کیا تھا۔میں نہیں جانتی ہو کون تھے وہ لوگ اور ....“ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ نارائن نے اسے بالوں سے پکڑا اور اس کا سر فرش پر دے مارا، فلم سٹار کی پیشانی سے خون بہہ نکلا۔
” صرف سچ بتاﺅ ، ورنہ ایک ایک بوٹی الگ کرو ںگا تمہاری۔“ اس نے غراتے ہوئے پوچھا وہ گڑگڑانے والے انداز میں روتے ہوئے بولی
” بھگوان کے لئے ننّا، میرا یقین کرو ۔مجھے تو سلیم سٹکا نے یہ آفر کی تھی، اسی نے مجھے فلم میں ہیروئن بنایا ، اور دو تین فلمیں لے کر دیں ۔یہ آج جس فلم کی مہورت والی پارٹی تھی،یہ اس کی دوسری فلم ہے ۔میں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتی ننّا، میرا یقین کرو ۔“ 
” ارے چکنّی، تو کاہے کو اس بھری جوانی میں مرنا چاہتی ہے ،بتا دے ۔“ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو رکا، پھر بولا،” دیکھ ہمارے بعد اس علاقے میں رگھو ٹانڈیا نے سارا کام سنبھالا،وہی ہے یااس کے پیچھے کو ئی دوسرا ہے ، چل کنفرم کر ، جلدی بول ۔“ نارائن نے دیوانوں کی مانند اس کے بال پکڑ کر پوچھا تو وہ ایک دم ساکت ہو گئی پھر بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی
”ننّا، تم بہت بڑی غلطی کر رہے ہو ۔میں نے تمہیں بتا دیا تو تم ان کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ہو، لیکن مجھے کبھی نہیںچھوڑیں گے ۔اب تم مارو یا وہ ،ایک ہی بات ہے ۔لیکن تمہارا کیا حشر ہوگا، تم نہیںجانتے ہو ۔“
” میں روز مرا ہوں اور روز جیا ہوں ۔ میں کب کا مر گیا ہوتا، مجھے صرف ان کے انتقام نے زندہ رکھا ہے ۔تو بتا دے ، بس تیرے پاس یہ آخری منٹ ہے ، بتا دے تو ٹھیک ورنہ اب میں وقت ضائع نہیںکروں گا۔“اس نے پاگلوں کی طرح کہتے ہوئے اپنا پسٹل نکال لیا۔فلم سٹار کی آ نکھیں پھیل گئیں ۔نارائن نے نال اس کے ماتھے پر رکھ دی ۔
”راج مٹھل ....“فلم سٹار نے تیزی سے کہا،” جوہو، ویرولی اور دادر میں اسی کا راج ہے ، وہ کچھ بھی کر سکتا ہے ۔اسی کے ایک اشارے پر داوڑے کا گینگ ختم ہوگیا۔سلیم سٹکا، رگھو ٹانڈیا جیسے کئی لوگ اس کے لئے کام کرتے ہیں۔تجھے تو وہ چٹکی میں لے کر مسل دے گا ۔“
” راج مٹھل ....“ نارائن نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ جس بندے کا نام لے رہی ہے وہ کون ہے ۔اسے پہلے شک تھا، اب یقین ہوگیاتھا۔
” کیوں ہو گئی نا بولتی بند ۔ چھوڑ دے مجھے اور اپنی زندگی میں واپس لوٹ جا ، اسی میں تیری بھلائی ہے ۔“ فلم سٹار کو تھوڑا حوصلہ ملا تو وہ تیزی سے کہتی چلی گئی ۔
 ” تُو سچ کہہ رہی ہے نا، وہ راج مٹھل ہے ؟“ نارائن نے پوچھا
”ہاں ہاں سچ کہہ رہی ہوں۔“فلم سٹار نے دہرایا
” چل پھر لگا فون اس کو ، بول اُسے کہ ننّا نے تجھے اغوا کیا ہے ۔“ نارائن نے غراتے ہوئے کہا تو فلم سٹار کی آ نکھوں میں شدید حیرت تیرنے لگی ۔اسے پھر سے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ننّا اپنی موت کو خود کیسے گلے لگا رہا ہے۔ نارائن نے کار سے اس کا سیل فون اٹھا لیا تھا۔اس نے وہ اپنی جیب سے نکالا اور فلم سٹار کے سامنے کر دیا۔” لگا فون ۔“
” وہ تجھے ....“ فلم سٹار نے کہنا چاہا تو نارائن نے گھما کے تھپڑ مارتے ہوئے کہا 
” تیری ماں کی ....لگا فون ۔“ 
فلم سٹار نے فون لیا اور نمبر پش کرنے لگی ۔ رابطہ ہوتے ہی دوسری طرف سے فون اٹھا لیا گیا۔اس نے اسپیکر آ ن کر دیا۔
” اے آیٹم کہاں ہے تو۔“ دوسری طرف سے آ واز ابھری 
” راج بھائی سے بات کراﺅ۔“ فلم سٹار نے تیزی سے کہا
” مجھ سے کر لو نا۔“ دوسری طرف سے کسی نے کہا اور قہقہ لگا دیا
” ابے ....بات کرا راج بھائی سے ۔“وہ چیخی 
”چل کراتا ہوں ، پن اتنی جلدی کاہے کی ہے۔“ اس نے اور چند لمحوں کے بعد ایک بھاری آ واز گونجی 
” ہاں بول ، سنا ہے تجھے کسی نے اٹھایا ہے ۔“
’ ’ہاں راج بھائی ، میں اسی کے سامنے ہوں ۔وہ تم سے بات کرنا چاہتا ہے ۔“ اس نے تیزی سے کہا
” ارے واہ ، اتنی ہمت کس سالے میں پیدا ہو گئی ، کرا بات ۔“ بھاری آواز میں کسی نے غصے میں کہاتو نارائن نے فون پکڑ لیا، پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولا
”مجھے تم سے بات ہی نہیں کرنی ، حساب بھی چکتا کرناہے بھڑوے ۔صرف اتنا بول ، ویرولی میں داوڑے اور اس کے لوگوں کو تو نے مروایا تھا؟“
” کون بے تُو....؟“بھاری آ واز والے نے پوچھا
”بتا دے تو ٹھیک ، خود تم سے ملوں گا ، ورنہ اس آ یٹم نے جو کہا، وہی مان لوں گا۔بول اگر ہمت ہے تو ۔“نارائن ے اسے غصہ دلانے کے انداز میں کہا 
”ہاں ، میںنے خلاس کرواکے اپن کا گینگ لگایا ادھر ، چل بول کون ہے تُو ؟“ بھاری آ واز والے راج نے کہا تو نارائن کے پورے بدن میں آ گ پھیل گئی ۔اسے خود پر قابو پانے میں چند لمحے لگے پھر بولا
” ننّا، جسے تم لوگوں نے....“
” ابے تیری ماں کی آ نکھ ، تُو جندہ ہے ابھی ۔“ دوسری طرف سے راج نے قہقہ لگاتے ہوئے ۔ نارائن نے فون بند کر دیا۔ پھر فلم سٹار کو واپس کرتے ہوئے کہا
”چل ، تجھے چھوڑا۔“ اس نے کہا اور اسے کرسی کے ساتھ باندھنے کے لئے رسی اٹھا لی ۔ اسے معلوم تھا کہ سیل فون کال کی وجہ سے چند منٹوں میں اس جگہ کی نشان دہی ہو جائے گی ۔اور کسی کو بھی یہاں پہنچنے میں زیادہ سے زیادہ آدھا گھنٹہ لگے گا۔ اتنے وقت میں وہ یہاں سے نکل جانا چاہتا تھا۔
” اگر تو نے مجھے چھوڑ دیا ہے تو ایک کام کر ، مجھے شہر میں کسی جگہ چھوڑ دے ۔“فلم سٹار نے کہا تو نارائن اسے باندھتے ہوئے بولا
” آ دھا گھنٹہ انتظار کر، وہ لے جائیں گے تجھے ۔“ 
”نہیں ، وہ نہیں آ ئیں گے ۔اگر آ ئے بھی تو مجھے مار دیں گے ۔ پولیس کو بھی نہیںبتائیں گے ۔تو مجھے چھوڑ دے بس ۔“ فلم سٹار نے کہا تو نارائن نے رسی ایک طرف پھینکی۔ اس کے گلے میں پڑا سکارف لے کر اس کے ہاتھ باندھے اور اسے لے کر باہر آ گیا۔ وہ چند قدم ہی بڑھا تھا کہ دروازے پر وہی وین آ رکی ۔ نوجوان ڈرائیور نے ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیںنکلا۔ جیسے ہی وہ دونوں بیٹھے ، اس نے وین بڑھا دی۔
ساحلی پٹی پر دور چند ہوٹل کھلے ہوئے تھے ۔یہی وہ جگہ تھی جہاں رات گئے تک غنڈے موالی عیاشی کرتے تھے ۔نارائن نے اس طرف دیکھ کر فلم سٹار سے پوچھا
” یہاں چھوڑ دوں ؟“
” ہاں ۔یہیں چھوڑ دو ۔“ اس نے کہا تو نوجوان نے بریک لگا دئیے ۔فلم سٹار اترکر بولی 
” تو نے مجھے چھوڑ دیا، اس کا انعام لیتا جا ننّا“ اس نے ڈرامائی انداز میں کہا پھر بولی ،” راج سے بچنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے ۔ مایا دیوی تجھے وہی بچا سکتی ہے بس ۔“ یہ کہہ کر وہ پلٹی اور ان ہوٹلوں کی جانب بھاگ نکلی ۔
” مایا دیوی ۔“نارائن لبوں میں بڑبڑا کر رہ گیا۔تب تک نوجوان ڈرائیور نے وین بھگا لی تھی۔
٭....٭....٭
”کون ہے یہ مایا دیوی ؟“ نارائن نے اپنے دوست مانّے سے پوچھا۔ جس کے پاس وہ کچھ دیر پہلے پہنچا تھا۔مانّے نے اسے چائے کا کپ تھماتے ہوئے کہا
” میں نہیں پوچھوں گا کہ یہ تمہیں کس نے بتایا، لیکن میں مایا دیوی کے بارے میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ وہ ایک خوف کا نام ہے ۔ایک سال کے آس پاس ہوگیا ہے اس مارکیٹ میں آ ئے ۔ لیکن وہ ہے کون ، اس کے بارے میں کوئی نہیںجانتا۔کوئی اس تک نہیں پہنچ سکا۔“
”تو پھر اس نے مجھے غلط راہ پر ڈال دیا ، مجھے اس کا اعتبار نہیں کرنا چاہئے تھا۔“ نارائن نے افسوس سے کہا
”چل تو ساری رات کا جاگا ہوا ہے ،سوجا ۔ مجھے کام پر جانا ہے ،واپس آ کر بات کرتے ہیں ۔“ مانّے نے کہا اور اٹھنے لگا۔
” پر یہ راج کا پتہ تو اس نے دیا، بات ہوئی اس سے ۔“ نارائن نے کہا تو وہ سنجیدگی سے بولا
” تو نے اسے چھوڑ دیا اچھا کیا، راج اب تیری تلاش میں نکلے گا تو پتہ چل جائے گا کہ اس نے ٹھیک کہا تھا یا غلط ، تیری راج ہی سے بات ہوئی تھی یا کسی اور سے ، تو سوجا ۔ شام کو بات کریں گے ۔“ مانّے بولا اور تولیہ اٹھا کر واش روم میں چلا گیا۔اس نے بھی سوچنے کی بجائے سوجانے کو ترجیح دی ۔
اس کی آ نکھ دوپہر سے پہلے ہی کھل گئی ۔وہ نہا دھو کر فریش ہوا،پھر ایک کپ چائے بنا کر وہ کھڑکی میں آ بیٹھا۔ سامنے لوگوںکا ہجوم آ جا رہا تھا ۔ یہ ہنو مان مندر کے پاس والاویرولی ہی کا ایک علاقہ تھا۔وہ ایک بلڈنگ کے اپارٹمنٹ میں تھا۔جہاں اس کا دوست مانّے کئی برس سے رہ رہا تھا۔وہ بھی گنگا نگر کا تھا، اس کے بچپن کا دوست ۔ ساری دنیا میں اگر اسے کسی پر یقین تھا وہ یہی مانّے ہی تھا۔ اس نے چائے کی چسکی لی اور واپس نرم گدے پر آ بیٹھا۔ اسے وہ دن یاد آ نے لگا،جب قدرت نے اسے دوبارہ نئی زندگی پانے کا موقعہ دیا تھا۔وہ ماضی میں کھو گیا۔
 اس دن نارائن داس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو بڑے نفیس اور نرم گدے پر پایا تھا۔وہ حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے اپنی کلائی پر چٹکی بھری تو احساس ہوا کہ نہ صرف وہ جاگ رہا ہے بلکہ ہوش میں بھی ہے ۔لیکن اگلے ہی لمحے اس کی حیرت اس قدر بڑھی کہ وہ بے ہوش ہونے والا ہو گیا۔وہ ایک صاف ستھرے کمرے میں تھا۔ کمرے میں اس قدر صفائی ستھرائی دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا تھا۔ورنہ توآ نکھ کھلتے ہی اپنے ارد گردغلاظت، پان کی پیک بھری دیواریں، دھول مٹی یا گارے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ اس نے ناک کو سکیڑ کر سونگھا تو بدبو نہیں آ رہی تھی ، اس نے گھبرا کر دیکھا، اس کا اپنا لباس بھی صاف تھا۔وہ میلے چکٹ بدبو دار کپڑے نہیں تھے۔
” کسی نے میرے کپڑے اُتارے اور ....“ وہ گھبراہٹ میں مزید نہ سوچ سکا۔ کئی خیال اس کے دماغ میں آکر رفو چکر ہو گئے ۔اس نے اپنے دماغ کو جھٹکا اور حیرت سے اپنے چاروں طرف دیکھ بڑبڑاتے ہوئے بولا 
”ہئے بھگوان میں کہاں ہوں؟“ 
اسے کمرے میں کوئی بھی دکھائی نہیںدیا۔وہ سوچ میں پڑ گیا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ کل رات وہ فٹ پاتھ پر تھا۔ کل شام کی ذلالت وہ کبھی نہیںبھول سکتا تھا۔ ہمیشہ کی طرح کل شام بھی اس کے پاس پیسے نہیں تھے ۔ وہ نشہ پورا کرنے اور پیٹ کی آ گ بجھانے کو نکل پڑا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اسے مایوسی نے آن گھیراتھا۔شہر کے اس علاقے میں کسی سیاسی جلسے میں افراتفری پھیل جانے کے باعث اس علاقے میں ہو کا عالم ہو گیا تھا۔ ہوٹل تک بند ہو گئے جہاں سے وہ مانگ کر کھانا کھا سکتا تھا ۔ اسے کھانا نصیب نہیںہوا تھا۔ دن ڈھل گیا،اور وہ خالی پیٹ بلبلاتا پھرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ گھوم پھر کر واپس اپنے ان موالیوں میں آ گیا جن کے ساتھ وہ نشہ کرتا تھا۔ وہ بھی سب اسی کی طرح تھے۔ ان کی دھنسی آنکھوں میں سے بھوک کے ساتھ بے بسی جھانک رہی تھی ۔بھوکے پیٹ اور نشے کی طلب نے اسے بے حال کر کے رکھ دیا تھا۔ اسے اپنی حالت پر رحم آ نے لگا۔وہ سبھی کیڑے مکوڑوں کی مانند فٹ پاتھ پر کلبلا رہے تھے ۔ ممکن تھا کہ ان میں سے کوئی مر بھی جاتا۔کسی کو کسی کا ہوش نہیں تھا۔ وہ سبھی نیم مردہ حالت میں وہاں پڑے تھے ۔ 
بے بسی میں اُلجھی ہوئی رات کا پہلا پہر ختم ہو نے کو تھا۔ ایسے ہی وقت میںان کے پاس ایک کار آ کے رُکی ۔ اس میں سے دو آ دمی نکل کر ان کے پاس جا پہنچے ۔ ان کے ہاتھ میں کافی سارے چھوٹے چھوٹے شاپر بیگ تھے ۔ انہوں نے وہ شاپر بیگ ان میں بانٹ دئیے ۔ان میں کھانا تھا ۔ اس کے ساتھ ہی چرس کی تھوڑی تھوڑی ٹکڑی ان میں بانٹ دی گئی۔ تبھی فٹ پاتھ پر پڑے ان کیڑے مکوڑے نما مخلوق کی تو جیسے دنیا ہی بدل گئی ۔ انہوں نے یہ بھی نہیںدیکھا کہ وہ کون تھے اور کہاں سے آئے اور کدھرچلے گئے ۔ وہ کھانے پر جھپٹ پڑے تھے اور پھر چرس بھرا دھواں اڑاتے اُڑاتے نجانے کب وہیں فٹ پاتھ پر ہی ڈھیر ہو گئے تھے ۔یہ انہیں بالکل بھی یاد نہیںتھا کہ وہ سوئے تھے یا مدہوش ہو گئے تھے۔
نارائن داس، نرم گدے پر سے اٹھا اور کمرے کے دروازے پر آن کھڑا ہوا۔ اس نے گھر کی چھوٹی سی دیوار سے باہر دیکھ کر اندازہ لگا لیا کہ وہ ممبئی کی جھونپڑ پٹی کے غلیظ علاقے میں موجود اس چھوٹے سے گھر میں ہے۔ 
” کیا میں اُڑ کر یہاں آ گیا ہوں ؟ “ اس نے انتہائی احمقانہ انداز میں حیرت سے سوچا پھر اپنی ہی اس احمقانہ سوچ پر لعنت بھیجتے ہوئے کمرے سے باہر آ گیا۔تبھی اس کی نگاہ کابک نما رسوئی پر پڑی ، جہاں سستی سی ساڑھی پہنے ایک ادھیڑ عمر عورت کھڑی کچھ بنا رہی تھی ۔آہٹ پا کر پلٹی تو اس نے دیکھا،وہ کالی بھجنگ سی مقامی عورت تھی ۔وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی
” اُٹھ گئے کا؟آپ پھورن نہائی لو ، میں گرم گرم پراٹھا بنائی کے لائی ، چائے بھی بس بنائی سمزوو۔“
” کون ہو تم اور یہ سب کیا ہے ؟“ اس نے پوچھا
”کہا نا ....، نہائی لو ، کچھ کھائی پی لو ، پھر بات کرت ہوں ۔“ ادھیڑ عمر عورت نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے کونے میں بنے باتھ روم کی جانب چل دیا۔تب اسے پیچھے سے آ واز سنائی دی،” اے، شیو کا سارا سامان پڑا ہے ۔بنا لینا۔“
وہ باتھ روم سے فریش ہو کر شیو بنا کے کمرے میں آگیا۔ وہ گدے پر بیٹھا تو وہ مقامی عورت ناشتہ رکھ گئی ۔اس کے سامنے گھی میں تلے ہوئے پراٹھے، اچار ، بھاجی،مکھن کے ساتھ چائے کا ایک بڑا سارا پیالہ رکھا ہوا تھا۔وہ سوچنے لگا ، نجانے کب اور کس زمانے میں ایسا ناشتہ کیا تھا۔دکھ کی ایک لہر اس کے اندر سرائیت کر گئی۔اس کا دل بھر آیا ۔اس کا ماضی پوری طرح بے تاب ہو کر اس سامنے آن کھڑا ہوا تھا۔جسے وہ سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ مگر ان لمحوں نے سب کچھ اس کی آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کیا تھا۔اس نے اپنی نم آ نکھوں سے ٹپکتے ہوئے آنسوﺅں کو پونچھا اور کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔
وہ کھانا ختم کر چکا توووہی مقامی عورت اندر آ ئی ، جس وقت وہ برتن اٹھا رہی تھی ، تب اس نے پوچھا
” یہ سب کیا ہے ؟ اور کون ہو تم ؟“
”ابھی تم کوآرا م کرنے کا،سب پتہ چل جاوے گا ۔دھیرج رکھو ۔“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا اور برتن سمیٹ کر کمرے سے نکل گئی ۔اسے گئے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے ہوںگے۔ اس نے اپنے گھر کے کھلے دروازے میں دیکھا، دو آدمی اندر آ گئے ۔ وہ دونوں ادھیڑعمر تھے اور اپنی وضع قطع سے پیسے والے لگ رہے تھے۔وہ سیدھے اس کے پاس آ گئے ۔ وہ چند لمحے اسے کھڑے کھڑے چندلمحے اس کی جانب دیکھتے رہے۔پھر ان میں سے ایک آدمی بولا
” نارائن جی ،ہم کون ہیں، اس بارے جاستی سوچنے کا نہیں ۔پن تمہارے واسطے ایک نئی زندگی لے کر آ یا ہوں۔“ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو نارائن نے ان کی جانب دیکھتے ہوئے تجسس سے پوچھا
” مجھے کرنا کیا ہوگا؟“ 
وہ جانتا تھا کہ ممبئی جیسے شہر میں کوئی بنا مطلب کسی کی طرف دیکھتا بھی نہیں ہے۔یہ کون ہیں جو اس کے لئے زندگی لے کر آئے تھے ۔وہ دونوں اس کی طرف دیکھتے رہے پھروہی بولا
” یہ ہمیں نہیں معلوم ،اپن بس ڈیل کرنے آ یا ہے ؟“ 
” کیسی ڈیل ؟“ اس نے پھر اپنی کھوکھلی سی آ نکھوں میں اکتاہٹ سمیٹتے ہوئے پوچھا تو وہی ادھیڑ عمر جذباتی انداز میں بولا
” اگر تم نئی زندگی چاہتے ہوتو ہمارے ساتھ چلو،پھر سے وہی سٹرونگ مین بن جاﺅ ،نہی تو ادھر پڑا رہو ، تم کو پیسہ ملتا رہے گا ، کھاپیﺅ، نشہ کرو اور اس کھولی میں مر جاﺅ ۔“
” کس نے بھیجا ہے تمہیں؟“ اس نے کافی حد تک سمجھتے ہوئے پوچھا
” اپن خود نہی جانتا،بس تم بولو؟“وہ تیزی سے بولا تو اگلے ہی لمحے نارائن نے فیصلہ کن لہجے میں کہا
” چلو ۔“ 
یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔ بات کرنے والے نے باہر چلنے کا اشارہ کیا وہ سلیپر پہن کر چل پڑا۔ برآمدے میں وہ کالی بھجنگ عورت اس کی طرف دیکھتے ہوئے خاموش کھڑی رہی۔ وہ تینوں باہر گلی میں آ ئے ، جس کی نکڑ پر ایک چھوٹی سی گاڑی کھڑی تھی۔جیسے ہی وہ جھونپڑ پٹی سے نکل کر مین روڈ پر آ ئے ، انہوں نے وہ چھوٹی گاڑی چھوڑی اور ایک بڑی فور وہیل میں بیٹھ کر چل دئیے ۔ نارائن سمجھ گیا کہ وہ جھونپڑ پٹی میں لوگوں کو متوجہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔کوئی دو گھنٹے بعد ان کا سفر ایک ہیلتھ کئیر سنٹر پر ختم ہوا۔فور ویل پورچ میں رکی ۔پہلے وہ دونوں اترے پھر نارائن اتر کر ان کے ساتھ اندر چل دیا۔ لاﺅنج میں ایک بندہ کھڑا تھا۔ اس کی طرف اشارہ کرکے وہ ادھیڑ عمر بولا
” یہ تمہار یہاںا ہر طرح سے خیال رکھے گا ، ادھر رہو ،ابھی تمہیں ڈاکٹر دیکھنے آ جائے گا ۔اوکے ۔“
’ٹھیک ہے ۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو دونوں کوئی بات کئے بغیر واپس مڑ گئے ۔وہ انہیں جاتا ہوا دیکھتا رہا ۔
نارائن ہیلتھ کئیر سنٹر کے کمرے میں تنہا تھا۔ اسے لگا جیسے ماضی اس کے چاروں جانب اُگ آ یا ہو ۔اس نے دیوارسے ٹیک لگا ئی اور سوچنے لگا ۔
 کون ہے میرا مہرباں؟کوئی شریف آ دمی تو ہو نہیں سکتا۔وہی کر سکتا ہے جو ا س کی جرم والی زندگی سے واقف ہو ۔یہ نئی زندگی وہ یونہی نہیں دینا چاہتا تھا، کوئی ایسا کام تھا ، جو اس کے بغیر نہیں ہو سکتا تھا، وہ کون تھا؟ یہ بات وہ اچھی طرح جانتا تھاکہ جلد یا بدیر وہ اس کے سامنے آ نے والا ہے ، اس لئے اس نے یہ سوچنے پر سر نہیںکھپایا۔بلکہ ان دنوں کو یاد کرنے لگا، جب وہ کالج کے آخری دنوں میں تھا، اس پر پیسے بنانے کی دھن سوار ہوئی تھی ۔
اس کی وجہ سمیتا دیوی تھی ۔وہ ان کے گھر سے چند گھر چھوڑ کر اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی ۔وہ گنگا نگرکے علاقے میں موجود کواٹر نما گھروں میں رہتے تھے ۔ساتھ ہی کئی کارخانے تھے ، جہاں پر سمیتا دیوی کی ماں اور باپ دونوں الگ الگ شفٹ میں کام کرتے تھے۔نجانے وہ کب اسے اچھی لگی اور اسے اپنا دل دے بیٹھا تھا۔محبت کی یہ آ گ بھڑکی تو اس نے سمیتا دیوی کو بھی لپیٹ میں لے لیا۔ دونوں ایک دوسرے سے ملنے لگے ۔بات شادی کرنے تک آ ن پہنچی تھی ۔
” دیکھ سمیتا ۔! میں کالج میں فائنل امتحان دیتے ہی نوکری پر لگ جاﺅں گا ۔ باپو نے ادھر فیکٹری میں بات کر لی ہوئی ہے ۔جس دن نوکری لگی ، اسی دن تیرے گھر میں ماتا پتا کو بھیج دوں گا۔“ نارائن داس نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
” تب تک اگر میرے پتا نے کہیں اور بات کر دی تو مجھ پہ الزام مت دینا۔“ سمیتا نے بڑی معصومیت میں اپنی بے قراری کا اظہار کیا
” ارے ایسے نہیں ہوگا پگلی ، اگر ہوا بھی تو پھر تم ہی کچھ کروگی ۔“ نارائن نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
” ہاں، میں تو یہی کر سکتی ہوں نا کہ پڑھائی کے بہانے کچھ وقت لے لوں۔“وہ اس کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے بولی
” بس تو پھر ایسے ہی کر ،توپڑھ، جب تک میری نوکری نہیں لگ جاتی۔“ اس نے حتمی لہجے میں کہا۔ 
وہ مان تو گئی لیکن وہی ہو گیاجس کا اسے ڈر تھا ، ابھی نارائن کے فائنل امتحان کچھ دور تھے ۔ایک دن سمیتا دیوی نے اسے بتایا کہ آج شام ان کے گھر اس کی خالہ آ رہی ہے ۔اس کے ساتھ اس کا بیٹا مہیش بھی ہے ۔ مہیش ادھر ہی رہے گا ، یہ کارخانے میں نوکری کرے گا ۔ باپو نے ہی انہیں بلایا ہے ۔ یہ پکی بات ہے کہ اس کی شادی بھی مہیش ہی سے ہو جائے گی ۔
”اب کیا کروں؟“ نارائن نے تشویش سے پوچھا
” کرنا کیا ہے ،ابھی تو وہ آ ئے گا، نوکری کرے گا ، کچھ پیسہ کمائے گا ، تب بات چلے گی ، تو ایسا کر تھوڑا پیسہ بنا ،نوکری کر ، پھر میں بھی تیری بات ہی کروں گی ، ابھی کیا بات کروں ؟“ سمیتا نے اسے راستہ دکھایا۔
” چل تیری بات مانی ۔دو مہینے میں پیسہ بناتا ہوں ۔“ اس نے فیصلہ کن انداز میں کہا،اس نے عزم کر لیا کہ وہ سمیتا کو ہر قیمت پر حاصل کرے گا ۔  
 اگلے ہی دن وہ کالج میں اپنے کلاس فیلو داوڑے کے پاس جا پہنچا ، جو کالج ہی میں ڈرگ کا دھندا کرتا تھا۔وہ بھی گنگا نگر کا ہی تھا۔ دونوں بڑے دوست تھے ۔ لیکن جب سے اس نے ڈرگ کا دھندا کیا تھا، نارائن اس سے دور رہنے لگا تھا۔
” دیکھ میں صرف اتنا ہی پیسہ بنانا چاہتا ہوں ، جس سے میری ضرورت پوری ہو جائے اور ....“ اس نے اپنی بات پوری کرنا چاہی لیکن داوڑے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
”بات سن ، یہاں آ نے کا راستہ ہے ، لیکن جانے کا نہیں،تُو ایک اچھا لڑکا ہے ، جانے دے ، تھوڑا بہت پیسہ چاہئے تو وہ مجھ سے لے لے ۔“
” مجھے نہ تو بھیک چاہئے اور نہ تھوڑا پیسہ ، مجھے بس پیسہ کمانا ہے اور بہت کمانا ہے ۔“ نارائن نے دو ٹوک لہجے میں کہا 
 ”یار تیرا مسئلہ سمیتا دیوی ہے نا ، اس کے لئے بہت ہوگا ۔“ داوڑے نے سمجھایا تو نارائن نے کہا
”ہاتھی نکل بھی گیا اور دُم پھنس گئی تو ....؟ ایسا نہیں،ایسا نہیں چلے، تُو بس مجھے کام دے اور میں خوب کما لوں ، پھر میں نکل بھی آﺅں گا۔“ اس بار نارائن نے اُکتاتے ہوئے کہا تھا ، جس پر داوڑے کچھ دیر تک خاموش رہا پھر چٹکی بجاتے ہوئے بولا
” چل آ ، تجھے آ ج ہی کام دیتا ہوں ، ایک پیکٹ پہنچا کے آ ۔“
وہ پہلاپیکٹ بڑے آرام سے دے آ یا تھا ۔واپسی پر جو اسے رقم ملی، اسے دیکھ کر وہ خود حیران رہ گیا۔ اک دم اتنا پیسہ؟
”ارے ننّا، ایسے کیا دیکھتا ہے ، یہ تو کچھ بھی نہیںہے،دومہینے میں تجھے نہال کردوںگا۔جا اب آرام کر،کل ایک پیکٹ اور دے آنا۔“ داوڑے نے کہا تو وہ خوشی خوشی چلا گیا تھا۔
اس نے جتنی رقم سوچی ہو ئی تھی، وہ اس نے ڈیڑھ ماہ ہی میں بنا لی۔وہ زیادہ کا لالچ نہیںکرنا چاہتا تھا۔سو اس نے ایک دن حتمی بات کرنے کے لئے سیمتاکو بلا لیا۔وہ پورے وقت پر آگئی۔ایک درمیانے درجے کے ریستوران میں کھانا کھاتے ہوئے اس نے سیمتا کویہ خوشخبری سنا دی کہ اس کے پاس اتنی رقم ہو گئی ہے کہ چھوٹا موٹا کاروبار کر سکے۔سمیتا بھی خوش ہو گئی۔ اس نے نارائن سے یہ پوچھنے کی کوشش تو کی کہ یہ اتنی رقم کہاں سے آئی ، لیکن نارائن کے ٹال جانے پر اصرار نہیں کیا۔انہوں نے پروگرام بنا لیا کہ شادی کے لئے انہوں نے کیا کرنا ہے۔ وہ دونوں اپنے کام کا پلان کرنے لگے۔ کئی سنہرے خوابوں بھی ایک دوسرے سے شیئر کرتے رہے۔بس وہ موقع دیکھ رہے تھے کہ کب سیمتا کی منگنی بارے بات ہو ۔وہ وقت بھی جلد ہی آ گیا۔ اس نے اپنے پتا کو منا لیا تھا۔ یہ بات اس نے نارائن کو اس دن بتائی جب وہ دونوں سارا دن بیچ پر موج مستی کرتے رہے تھے۔
 وہ دونوں خوش تھے ۔یہ سمیتا ہی کا جذباتی پن تھا کہ وہ نارائن کو جلد از جلد حاصل کر لینا چاہتی تھی ۔ایک دن جب وہ فلم دیکھ کر واپس پلٹے تو ہواﺅں میں تھے۔ اس دن انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اگلے ہفتے میں وہ شادی کر لیں گے ۔سمیتا اپنے گھر چلی گئی اور وہ اپنے گھر۔
اگلی صبح وہ کالج کے سامنے پہنچا ہی تھا کہ پولیس والوںنے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ایک کانسٹیبل آگے بڑھا اور اس نے پوچھا
”ابے او بھڑوی کے ، تیرا نام ہی نارائن عرف ننّا ہے نا؟“
”ہاں تو، پر بات کیا ہے؟“اس نے گھبراتے ہوئے کہاتواگلے ہی لمحے اس پر تھپڑ وں مکوں اور ڈنڈوں کی بارش ہو گئی۔اسے یہ ہوش ہی نہیں رہا کہ کب پولیس نے اسے گاڑی میں ڈالا اور کب پولیس اسٹیشن جا پہنچا۔ حوالات میں پہنچتے ہی اس کی نگاہ داوڑے کے چند لڑکوں پر پڑی۔وہ ساری بات سمجھ گیا ۔
 تین برس بعد جب وہ جیل سے باہر آیا تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ سمیتا کی شادی ہو گئی تھی۔وہ مہیش کے ساتھ نجانے کہاں تھی۔ اس کے پتا کو کسی نے اولڈ ہوم میں پہنچا دیا تھا۔ اس کے اپنے ماتا پتا بھی نہ رہے تھے ۔اس کی دنیا ویران ہو چکی تھی۔ سب ختم ہو گیا تھا۔ لیکن اسے اس سوال کاجواب کبھی نہیں مل سکا کہ وہ کون ہے جس نے اس کے بارے میں مخبری کی تھی۔
اسی شام داوڑے اس کے پاس آ گیا۔
” داوڑے ، میرا کسی کو معلوم نہیںتھا،پن مجھے پکڑا گیا۔کس نے کیا یہ کام ، کون ہے وہ جس نے میری زندگی تباہ کر دی ؟“اس کاداوڑے سے پہلا سوال یہی تھا۔
” مجھے بھی نہیں معلوم ،میں نے بہت پتہ کیا۔میرا کالج میں سارا کام ٹھپ ہوگیا۔وہ مجھے مل جائے تو ماں قسم چھلنی کردوں ۔“ داوڑے نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ 
نارائن کا نہ گھر رہا تھا اور نہ کوئی اپنا، وہ اسی کے ساتھ چلا گیا۔اس کا گھر دھاراوی کی جھونپڑ پٹی میں تھا۔ وہاں دو لڑکے مزید تھے۔ گھٹیا شراب کے ساتھ کھانا کھا کر داوڑے نے پلان دیا۔
” دیکھو، تم لوگوں کا کوئی نہیں رہا،بڑا ہاتھ مارتے ہیں۔یہ چھوٹا کام اب نہیں۔“
” کیا کرنے کا ؟“ ایک لڑکے نے پوچھا
”تم لوگوں کو کام پر لگانے کا ۔ دھندا، پر بڑے لیول کا۔ادھر جوہو میں اپن پر ہاتھ رکھنے والا تاﺅ ہے نا ،فل پروٹیکشن ، جو وہ بولے ،مال لانا اور لے جانے کا۔پھر خوب عیاشی کرنے کا۔“ اس نے لہر میں بازو گھما کر کہا
” کرنے کا یار ۔“ نارائن نے جھومتے ہوئے کہا۔
اگلے چار برس یہی دھندا چلتا رہا۔ جرم کی دنیا میں نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور نہ کوئی دشمن ۔صرف فائدہ ہوتا ہے ۔ کون کب اور کتنا فائدہ لے جائے، یہی دیکھا جاتا ہے ۔ انہیں جوہو سے تھوڑا دور ویرولی کا علاقہ دیا گیا۔ اس علاقے کو حاصل کرنے کے لئے انہیں بڑی محنت کرنا پڑی تھی ۔ بہت لڑنا پڑا، کئی خوب بہے ۔ آ خر انہوں نے وہ علاقہ چھین لیا۔ نارائن بہت مال کمانے لگا تھا۔مگر وہ اس بندے کو کبھی نہیں بھولا تھا، جس نے اس کا سب کچھ چھین لیا تھا۔ماں باپ ، سمیتا، ایک اچھی زندگی۔ وہ جتنا کماتا، سب اُڑا دیتا تھا۔ مال لانے اور لے جانے کے بعد وہ عیاشی میں دن گزارتا تھا۔ ایک سے ایک لڑکی اس کی راتوں میں آتی اور دن کے اجالے میں وہ انہیںبھول چکا ہوتا تھا۔ہر نیا آنے والا دن جرم کی دنیا میں نام بنا رہا تھا۔اس کے ساتھ ہی ہر مشکل کام کا بڑا پیسہ مل رہا تھا۔ ویرولی میں داوڑے کا گینگ مشہور ہوتا جارہا تھا۔
یہ ممبئی میں انڈرورلڈ کی روایت رہی ہے کہ ایک گینگ مشہور ہوتا ہے تو کچھ ہی عرصہ بعد ا سکی جگہ نیا گینگ بن جاتا ہے ۔کبھی اپنی اندرونی ٹوٹ پھوٹ سے کبھی کسی دوسرے گینگ کی جگہ چھین لینے کے باعث اور کبھی گینگ کے اہم بندوں کے مر جانے کے باعث ۔ گینگ کی ایک دوسرے کے خلاف یہ چھینا جھپٹی چلتی رہتی ہے۔ اس کا فائدہ ان بڑے جرائم پیشہ لوگوں کو ہوتا ہے جو سکون سے کہیں بیٹھے ، انہیں اپنی انگلیوں پر نچا رہے ہوتے ہیں۔داوڑے کے گینگ کی بھی ایک کئی دشمنیاں چل رہی تھیں ۔ وہ بہت محتاط ہو کر کام کرتے تھے۔ لیکن بہت سارے لوگوں کی نگاہوں میں تھے ۔
ایک رات ویرولی ہی کے ساحلی علاقے والے بنگلے میں نارائن ایک لڑکی کا منتظر تھا۔ شراب کا نشہ اسے ہلکاہلکا سرور دے رہا تھا۔وہ لڑکی جب اس کے سامنے پہنچی تونارائن کے حواس ہی گھوم گئے ۔ یہ اس کا اپنا خیال تھا کہ اتنی خوبصورت لڑکی اس نے پہلے کبھی دیکھی نہیں تھی ۔
” اے چکنی ، کیا نام ہے تیرا؟“ اس نے لڑکی کو صوفے پر اپنے قریب کرتے ہوئے کہا
”بولے تو کوئی بھی رکھ لے نام ،جو بولے گا وہ ہوئے گا۔“ لڑکی نے منمناتے ہوئے اپنے گیسو سنوارتے ہوئے قاتل ادا سے کہا۔تب نجانے کہاں اس کے ذہن میں چھپی ہوئی سمیتا جاگ گئی ۔اس کے ہونٹ بالکل سمیتا جیسے لگ رہے تھے۔ اس نے لڑکی کے لبوں پر انگلیاں پھیرتے ہوئے بڑے سرور سے کہا
” چل تیرا نام ، سمیتا۔اب تو میرے پاس رہے گی ،جو مانگے گی، ملے گا ، پر کہیں بھی نہیں جانے کا ۔“
” ڈن ۔“ اس لڑکی نے کہا اور اپنے بازوں اس کی گردن میں حمائل کر دئیے ۔ نارائن کسی دوسرے ہی جہان میں پہنچ گیا۔اس رات وہ تیز نشے کی طرح کا خمار بن کر اس پر چھا گئی ۔نارائن کو جیسی لڑکی چاہئے تھی وہ مل گئی تھی ۔ وہ خوش تھا۔ اس نے داوڑے سے کہا کہ چند دن ادھر ہی رہ کر عیاشی کرتے ہیں۔ وہ اس شرط پر مان گیا کہ تین دن بعد اس لڑکی کو بھگا کر کام پر جانا ہے۔ 
تیسری رات کا آخری پہر چل رہا تھا۔ نارائن قربتوں کی انتہا کو چھو کر مدہوش پڑا ہوا تھا۔وہ شراب اور اس لڑکی کے نشے میں تھا۔ ہر جانب سناٹا تھا۔ایسے میں بنگلے ہی کے آس پاس اُسے فائر کی آواز سنائی دی، جس نے خاموشی کو چیر کر رکھ دیا تھا ۔اس کے دماغ میں الارم بجتے ہی نشہ کافور ہوگیا۔ نارائن نے اپنا جائزہ لیا ۔ اس نے فقط پتلون پہنی ہوئی تھی ۔اسی ایک لمحے میں اس نے اپنے ساتھ پڑی اس لڑکی کے بدن میں انتہائی تیزی سے ہوئی تھرتھراہٹ محسوس کیا۔وہ بے ساختہ اٹھ گئی۔وہ تیزی سے بھاگتی ہوئی کھڑکی تک گئی ، پھر واپس آ کر اس نے اپنے کپڑے سنبھالے۔ اس سے پہلے کہ وہ کمرے سے نکل بھاگتی ، نارائن معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا تھا ۔ کیونکہ باہر فائرنگ کا تبادلہ ہونے لگا تھا۔ اس نے چیتے کی سی پھرتی سے اس لڑکی کو پکڑ لیا۔لڑکی کے منہ سے بے ساختہ چیخ بلند ہوئی۔
” کون ہیں باہر ؟“نارائن نے تیزی سے پوچھا
” مم....میں کیا جانوں ؟“ لڑکی نے ہکلاتے ہوئے کہا 
اس نے لڑکی کو گھما کر بیڈ پر پھینکا۔ وہ اٹھنے لگی تونارائن نے تکیئے کے نیچے سے پسٹل نکال لیا۔ اسی دوران لڑکی چکنی مچھلی کی طرح اس کے ہاتھ سے نکلی اور کھڑکی کی جانب بھاگی ۔صاف ظاہر تھا کہ وہ کھڑکی سے کود جانے والی تھی ۔ نارائن نے ایک ہی جست میں اسے کھڑکی کے پاس دبوچ لیا۔
” تیرے پاس صرف ایک لمحہ ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے نارائن نے پسٹل کی نال اس کے سرخ لبوں پر رکھ دی ۔اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی ، ایک دم سے دروازہ کھلا،جو شخص اندر داخل ہوا اسے دیکھتے ہی سارا معاملہ اس کی سمجھ میں آ گیا۔وہ داوڑے کا جانی دشمن سلیم سٹکا تھا۔وہ لڑکی کو اس حالت میں دیکھ کر دروازے ہی میں ساکت ہو گیا تھا ۔
” چھوڑ دے اسے ؟“سلیم سٹکانے غراتے ہوئے کہا
”آخر تو نے اپنی اصلیت دکھا دی نا بھڑوے ، عورت کو بیچ میں لا کر وار کرتا ہے ، ہیجڑے ۔“ نارائن نے انتہائی تلخی سے کہا
” دیکھ تیری گینگ کے سارے لوگ مر گئے ، کوئی نہیںبچا،اگر اس لڑکی کو کچھ ہو گیا تو بچے گا تو بھی نہیں، چھوڑ دے ۔“ اس نے سرد سے لہجے میں کہا
” یہ ڈائیلاگ بازی کسی اور سے کر بھڑوے، میں .... “ اس نے اپنی بات پوری نہیں کی اور اسی دوران وہ لڑکی سمیت کھڑکی سے کود گیا۔باہر کی طرف گرتے ہی نارائن نے فائر کر دیا تھا۔تبھی کمرے سے بھی فائر ہو گیا۔لاشعوری طور پر نارائن نے خود کو بچانا چاہا ، اسی کروٹ کے دوران وہ لڑکی اس کے ہاتھ سے نکل گئی ۔اب اس کے پاس اپنی جان بچانے کے سوا کوئی چارہ نہیںتھا۔وہ انتہائی سرعت سے اٹھا اور بھاگتا چلا گیا۔ اس کی پشت سے فائر بھی ہوئے ، جو اس نہ لگے یہاں تک کہ وہ دیوار کود گیا۔
داوڑے کا گینگ ختم ہو گیا تھا۔ اب وہاں سلیم سٹکا گینگ کا راج ہونا تھا ۔ وہ صبح صبح اپنے ایک دوست مانّے کے پاس چلا گیا۔شام تک اسے پتہ چل گیا کہ وہ لوگ اسے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ اس نے وہ علاقہ ہی چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا۔ مانّے سے اس نے تھوڑے پیسے لئے اور ویرولی کے علاقے کو چھوڑ کر دادرمیں آگیا ۔ ویرولی میں رہتا تو مارا جاتا۔دادر میں پہلے دن وہ ریلوے ٹریک کے ساتھ پڑے ایک پائپ میں سویا تھا۔ اگلی صبح بھوک اور نشے کی طلب نے اسے بے حال کر دیا۔ ا سکے پاس جو پیسے تھے وہ نشے کی طلب پوری کرنے میں خرچ ہو گئے ۔وہ نشہ اسے وہیں پائپوں میں پڑے موالیوں سے مل گیا تھا۔ انہوں نے ہی نشہ ملنے والی جگہ دکھا دی ۔ نارائن کا مقصد دشمنوں سے بچنا اور نشے کی عادت کو پورا کرنا تھا ، پھر اس کا مسکن یہی کبھی کسی پل کے نیچے، کبھی ریلوے ٹریک کے ساتھ، کبھی کسی کچرے کے پاس اور پھر وہ فٹ پاتھ پر آ گیا ۔اپنی جان بچانے کے چکر میں وہ گھٹیا نشے کا عادی ہوتا چلا گیا تھا۔ جس نے اس کی زندگی اجیرن کر دی ۔ ذلت کی زندگی نے اس کے اندر سے موت کا خوف نکال دیا۔ وہ بے حس ہو گیا تھا۔ وہ اپنی اس تباہی کا ذمے دار اس کو سمجھتا تھا، جس کی وجہ سے پہلی بار پولیس نے اسے پکڑا تھا ۔ دوسری وہ حسیں کال گرل تھی ۔ اسے اپنا اور اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے کا خیال بھی آتا ۔لیکن نشے کے چنگل میں پھنسا وہ بے بسی میں محض سوچ کر ، دانت پیس کر رہ جاتا تھا۔ پھر ایک دن اسے فٹ پاتھ سے اٹھا کر اس ہیلتھ کئیر سنٹر میں پہنچا دیا گیا تھا ۔اب زندگی اسے کس ڈگر پر لے جانے والی تھی ، اسے خود معلوم نہیں تھا۔
 اسی ہیلتھ کئیر سنٹر میں رہتے ہوئے اسے تین ماہ سے زیادہ ہو گئے تھے ۔وہ نشے کی عادت کو بالکل ختم کر چکا تھا۔ڈاکٹر کے علاج پر اس نے پوری توجہ دی تھی ۔اس صبح وہ طویل جوگنگ کے بعد بھاگتا ہوا گیٹ میں داخل ہوا تواس کی نگاہلان میں بیٹھے انہی دو ادھیڑ عمر والوں پر پڑی جنہوں نے اسے یہاں چھوڑا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کے بالکل ٹھیک ہونے کے بعد اب کوئی کام لینے والے ہیں۔ وہ سیدھا ان کے پاس آ کر کرسی پر بیٹھ گیا ۔
”فٹ ہو گئے ہو ، اچھا لگا۔“ اسی بندے نے غیر جذباتی انداز میں کہا، جس نے پہلے بھی اس سے بات کی تھی ۔ دوسرا خاموش سے اسے دیکھ رہا تھا۔
” اب بولو کام کیا ہے ؟“ نارائن نے کوئی وقت ضائع کئے بغیر سیدھے پوچھا تو سامنے والا ادھیڑ عمر بولا
” کوئی کام نہیں ہے۔تمہارے سامنے آ پشن رکھنے آ یا ہوں ۔“
” کیسے آ پشن ؟“ اس نے پوچھا
” ایک ،یہاں رہنا ہے بھارت میں یا باہر جانا ہے ، جہاں تم اپنی زندگی گزارو، دوسرا، یہیں کہیں جاب کرنی ہے تو بتاﺅ کیا کر سکو گے ؟ تیسرا، اپنا کوئی بزنس کرنا چاہتے ہو تو کہو ؟“ ادھیڑ عمر نے کہا تو اس نے آ ہستگی سے پوچھا
” یہ آ فر دینے والا کون ہے ؟“
” بتایا نا مجھے خود بھی نہیں معلوم ، تم بولو؟“ اس نے خشک لہجے میں پوچھا
 ” ان میں سے کوئی بھی نہیں۔“ اس نے سکون سے کہا
” تو ....؟“ اس نے بھنویں اچکاتے ہوئے پوچھاتو نارائن چند لمحے خاموش رہا پھر سرد سے لہجے میں بولا
”اس کا شکریہ ، جس نے مجھے نئی زندگی دی ، اس سے کہو اب کام بولو، یا مجھے جانے دو ۔“
” آ ج شام تک بتا دیں گے ۔“ ادھیڑ عمر نے کہا اور اٹھ گیا ۔ اس کے ساتھ ہی دوسرا خاموش بندہ بھی اٹھ گیا۔وہ انہیں پورچ تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا ۔ پھر خود بھی اٹھ کر اندر چلاگیا ۔وہ سمجھ چکا تھا ، اب اسے یہاں سے چلے جانا ہے ۔ایک نئی زندگی اس کا انتظار کر رہی تھی ۔ مگروہ لاکھ کوشش کے بعد بھی اپنے دشمنوں کو نہیں بھلا سکا تھا۔اسے بس انتقام لینا تھا۔
٭....٭....٭
ُُنارائن اور مانّے اپنے فلیٹ کی بالکونی میں بیٹھے ہوئے تھے۔کافی دور سمندر دکھائی دے رہا تھا۔ مغربی افق میںجھکا ہوا سورج شام ہو نے کا عندیہ دے رہا تھا۔مانّے آتا ہوا کھانا لے آ یا تھا۔جب تک نارائن نے وہ کھایا، مانّے چائے بنا لایا۔ وہ دونوں وہیں بیٹھے چائے پی رہے تھے اور خاموش تھے۔ تبھی مانّے نے دھیرے سے کہا
”تم نے وہ بھارت سے نکل جانے کی آپشن مان لینا تھی۔جو ختم ہو گیا سو ختم ہو گیا، اب جلی ہوئی راکھ سے چنگاریاں کیون تلاش کر رہے ہو ۔“
” تم کہتے تو ٹھیک ہو ،پن میں باہر جا کر کروں گا کیا؟وہی گھسٹ گھسٹ کر زندگی گزاروں ۔“ اس نے ہلکے سے کہا
” مگر وہاں دشمنی تو نہ ہوتی۔“ مانّے نے جواب دیا
” تُو ڈرا رہا ہے مجھے ؟“ نارائن نے پوچھا
” نہیں، سمجھا رہا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے چائے کی چسکی لی ، پھر دھیمے سے لہجے میں بولا،” راج مٹھل تو پھر بھی سامنے آ جائے گا ، اس نے تیری تلاش میں بندے بھی لگا دئیے ہوں گے، یہ کنفرم ہے لیکن، مایا دیوی ایک ان دیکھا خوف ہے ۔سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ کسی کو پیسے کے لئے نہیںمارتی ۔“ 
” کس لئے مارتی ہے۔“ نارائن نے پوچھا
”معلوم نہیں،پر مارتی ہے ، اپنے ہونے کا ثبوت بھی دیتی ہے ۔یہ جو راج مٹھل ہے نا ، اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔پر مسئلہ یہ ہے کہ تم مایا دیوی تک کیسے پہنچو گے ؟ وہ کیوں مہربان ہو گی تم پر؟اسے تم سے کیا فائدہ ہوگا؟“ مانّے نے صورت حال اس کے سامنے رکھی ۔
” ہاں مجھے ایک سراب کے پیچھے بھاگنے کی بجائے ، راج مٹھل کا بندو بست کرنا ہے ۔“ یہ کہہ کر اس نے چائے کا مگ خالی کردیا۔
”اس سے پہلے کہ وہ تمہارا بندو بست کرے ، میرا خیال ہے ،تم اس .... “یہ کہتے ہوئے وہ رک گیا، پھر حیرت سے بولا،” پر وہ مہربان کون ہے ، جس نے تمہیں نئی زندگی دی اور ....“ مانّے نے حیرت سے پوچھا۔ 
” جب اس نے نہیںبتایا تومیں کیوں پوچھوں۔خیر ،میں تمہاری زندگی عذاب نہیں کرنا چاہتا۔تم سکون سے رہو ۔میں آج شام یہ جگہ چھوڑ دوں گا ۔“ نارائن نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا اورمانّے کئے چہرے پر دیکھنے لگا، اس پر مانّے نے تڑپ کر کچھ کہنا چاہا تو نارائن نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا۔ 
 شام ڈھل چکی تھی ۔ نارائن سڑک کنارے ٹہلتا ہوا جا رہا تھا۔مانّے نے چند ہزار روپے اس کی جیب میں ڈال دئیے تھے۔اس لئے وہ وقتی طور پر اس فکر سے آ زاد تھا ۔اس کا سارا دھیان راج مٹھل کی جانب لگا ہوا تھا کہ اس تک کیسے پہنچا جائے ۔ارد گرد آ تے جاتے لوگوں سے بے نیاز وہ چلتا چلا جا رہا تھا۔تبھی اسے چھوٹاسا ریستوران دکھائی دیا، جہاں سے کبھی اس نے داوڑے کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔وہ ریستوران میں گھس گیا۔نچلے درجے کے غریب لوگ ، کچھ سفید کالر اور طالب علم وہاں بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔وہ بھی اک میز کے گرد بیٹھ گیا۔
” کیا کھائے گا سائب۔“ ایک نوجوان ویٹر نے اس کے سامنے پانی رکھتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں پوچھا۔داوڑے کے ساتھ اس نے جو کھایا تھا ، وہی اس نے بتا دیا۔ وہ کھانا آ جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ ایسے میں شکل ہی سے دکھائی دینے والے چند غنڈے ریستوران میں داخل ہوئے ۔انہوں نے آ تے ہی اس نوجوان ویٹر کو مارنا شروع کر دیا ، جو کچھ دیر پہلے ہی اس سے آرڈر لے کر گیا تھا۔چھوٹی سی جگہ تھی ۔ایک غنڈہ اسے مارتا تو وہ ایک طرف گر جاتا، دوسرا مارتا تو وہ دوسری جانب گر جاتا۔ وہ سبھی اسے گالیاں بک رہے تھے۔نارائن یہ سب دیکھ رہا تھا کہ ایک غنڈے کے مارنے پر وہ ویٹر اس پر آ ن گرا۔نارائن نے اٹھ کر اسے تھام لیا۔ ایک غنڈہ اسے مارنے کو بڑھا تو نارائن نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا
” بس اب نہیں مارنا اسے ۔“
” ابے سالے تو کون ہوتا ہے ہمیں روکنے والا۔“ یہ کہتے ہی اس غنڈے نے گھونسا مارنے کو ہاتھ بڑھایاتو نارائن نے پوری قوت سے اس کی ٹانگوں کے درمیان ٹھوکر ماردی ۔ وہ ڈکارتا ہوا پیچھے کی جانب گر گیا۔حملہ آ ور غنڈوں کی آ نکھوں میں حیرت تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اس پر اکھٹے ہو کر حملہ آ ور ہوتے ، نارائن نے پسٹل نکال کر زمین پر پڑے ہوئے غنڈے کی ٹانگوں میں فائر جھونک دیا ۔ یہ اس قدر آناً فاناً ہوا کہ سب ساکت ہو گئے ۔ نارائن نے اس پر جھک کر پوچھا
 ”بتا کون سالا؟“
” مم....مم .... میں ....“ اس نے ہکلاتے ہوئے کہا
”چلو بھاگو۔“ اس نے پسٹل کی نال سے انہیں باہر کی جانب جانے کا اشارہ کیا ۔جیسے ہی وہ نکلے اس نوجوان نے دونوں ہاتھ باندھتے ہوئے نارائن سے کہا
” آ پ کو ئی بھی ہو ، آپ نکل جاﺅ یہاں سے، یہ ابھی زیادہ ہو کر واپس آئیں گے اور ....“
” مت گھبراﺅ، کھانا لے کر آ ﺅ ۔“ 
” سائب ، یہ رگھو ٹانڈیا کا چھوکر ا لوگ ہے ، بوہت خطرناک ۔“ اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا تو نارائن بولا
”کہا نا ، کھانا لاﺅ ۔“
وہ نوجوان ویٹر تیزی سے کاﺅنٹر کی جانب بڑھ گیا اور اسی تیزی سے کھانا لا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔وہ کھانا رکھ چکا تو نارائن نے اس نوجوان ویٹر کو اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ بیٹھ گیا تو اس نے پوچھا
” تیرے ساتھ کیا لفڑا ہے ؟“
” یہ لوگ ہمارا کھولی مانگتا ہے ، وہاں میں ہوں اور میری ماں ہے ۔اب ہم کہاں جائیں ؟ انہوں نے پہلے بھی مجھے مارا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ رو پڑا۔
” اچھا ، باہر نظر رکھ ، جب وہ آ ئیں تومجھے بتانا ۔“ یہ کہہ کر نارائن کھانے کی جانب متوجہ ہو گیا۔ اس نے اطمینان سے کھانا کھایا، ہاتھ دھوئے اور ریستوران کے کاونٹر پر پیسے دے رہا تھا کہ باہر پولیس کی گاڑی آ رکی ۔دو کانسٹیبل کے ساتھ ایک حوالدار نے اندر آ کر کاونٹر پر بیٹھے مالک سے پوچھا
” کون تھا وہ غنڈہ جس نے فائر کیا؟“
” میں ہوں ۔“ نارائن نے کہا تو حوالدار نے چونک کر اسے دیکھا۔ جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہوکہ اس کی ایسے بندے کے ساتھ بھی ملاقات ہو سکتی ہے جو خود کو پولیس کے حوالے کرے ۔
” کون ہے بے تو؟“ اس حوالدار نے حقارت بھرے لہجے میں پوچھتے ہوئے اسے گردن سے پکڑنا چاہا۔ تبھی نارائن نے اس کا ہاتھ پکڑا اور سرد سے لہجے میں کہا 
”مایا دیوی ، نہیں چاہتی کہ کوئی اور اس علاقے میں ہو ۔چل پولیس اسٹیشن ، لے چلے گا مجھے؟ “ 
نارائن نے اس قدر اعتماد سے غراتے ہوئے کہا تھاکہ وہ حوالدر ایک لمحہ کو گڑ بڑا گیاپھر دھیمے سے لہجے میں بولا
” چل ، میرے ساتھ ۔“
نارائن اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ سب وین میں بیٹھے تو وین چل دی ۔ کچھ دور جا کر اس حوالدار نے وین رکوائی اور نارائن سے کہا
” چل اُترجا،تم لوگ ....“وہ کچھ کہنا چاہتا تھا کہ رُک گیا تو نارائن نے اس کی آ نکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا
” رگھو ٹانڈیا سے کہنا، راج مٹھل کو بتا دے ، اب میں ہوں ادھر ، اسے یہاں سے چلے جانے کا ۔ورنہ سب کھلاس ۔“ یہ کہہ کر اس نے لمحہ بھر حوالدار کو دیکھا اور وین سے نیچے اتر گیا۔نارائن کو یقین نہیں تھا کہ اتنی جلدی اسے مایا دیوی کی طاقت کا اندازہ ہو جائے گا ۔وہ ایک خوف کی مانند چھا گئی تھی ۔نارائن سڑک سے اتر کر اندھیرے کی جانب چل دیا، وہ خود سوچتا چلا جا رہا تھا کہ جس کا خوف اس قدر ہے ، اس کے نام پر غنڈہ گردی اسے تنکے کی طرح اڑا دے گی ۔اس کا نام استعمال کرنا بہت بڑا رسک تھا۔
٭....٭....٭
رات کا دوسراپہر چل رہا تھا۔اس وقت وہ ساحل سمندر کی سیمنٹ والی ریلنگ کے ساتھ کھڑا تھا۔سمندر کی لہریں سر پٹخ رہی تھیں ۔دور سامنے حاجی علی کے مزار کی روشنیاں دکھائی دے رہی تھیں ۔ ایک جانب دادر سے ویرولی آ نے والا سمندر پربنی سڑک تھی ، جس پر ٹریفک رواں دواں تھی ۔ اس کے پیچھے ایک لمبی جھونپڑ پٹی تھی۔ وہ واپس مانّے کے پاس نہیں جانا چاہتا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے مانّے کو کوئی نقصان ہو ۔ وہ ایک لگی بندھی زندگی گزار رہا تھا ۔ اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔نہ اس کے پاس دولت تھی ، اور نہ ہی کوئی گینگ جس اس کی قوت بن سکتا تھا۔وہ تنہا تھا ۔اس وقت وہ یہی سوچ رہا تھا کہ یہاں رہتے ہوئے اپنے دشمنوں تک پہنچنا بہت مشکل ہے ۔ جب تک وہ اتنی قوت حاصل کرے گا ، تب تک وہ لوگ کس قدر طاقت ور ہوںچکے ہوں گے یا ویسے ہی ان کا صفایا ہو چکا ہوگا۔ بھلے وہ خودبھی نہ رہتا۔اس کے اور دشمنوں کے درمیان وقت حائل تھا۔ 
وہ تیزی سے سوچتا چلا جا رہا تھا ۔ ایک طرف اس کے دشمن تھے ، دوسری جانب وہ لوگ جنہوں نے اسے نئی زندگی دی تھی اور تیسرا پہلو مایا دیو ی تھی ۔ وہ تنہا کیا کر سکتا ہے ؟وہ چند گھنٹے یا مزید ایک دن نیند کے بغیر گزار سکتا تھا۔کوئی رہنے کا ٹھکانہ تک نہیں تھا۔ اس نے جذبات میں آ کر ادھیڑ عمر کی آفر ٹھکرا دی تھی ، ورنہ وہ بھارت سے باہر سکون سے زندگی گزار رہا ہوتا ۔
اس وقت وہ یہی سوچ رہا تھا جب ایک فور وہیل اس کے پہلو میں آ کر رُکی ۔ہیڈ لائیٹس کی تیز روشنیاں اس کی آ نکھوں کو چندھیا گئی تھیں ۔ اس نے ایک بازو اپنی آ نکھون پر رکھ اوردوسرے سے پسٹل کو اپنے ہاتھ مکٰن کرلیا۔جس وقت اس کی آ نکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو تین لوگوں کے ساتھ وہی نوجوان ویٹر بھی تھا۔وہ لاشعوری طور پر محتاط ہو گیا۔ وہ اس کے قریب آ گئے ۔ان میں سے ایک لمبے قد والے نے نوجوان ویٹر سے پوچھا
” یہی تھا وہ ؟“
” جج ....جی .... یہی تھا۔“ اس نے تصدیق کر دی تو دوسرے نے کہا
” چل ، بھاگ جا ۔“ 
اس نوجوان ویٹر نے اپنی جان بچتے ہی ایک طرف دوڑ لگا دی ۔ اس نے پیچھے مڑ کر بھی نہیںدیکھا۔ وہ تینوں اس کے پاس آ گئے ۔تبھی لمبے قد والے نے اس کے بالکل پاس آ کر سکون سے پوچھا
” ہمارے ساتھ آرام سے چلے گا یا زبردستی لے جانا پڑے گا ۔“
 ” میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ ....“نارائن ے کہنا چاہا تو پیچھے کھڑے آدمی نے کہا
” جاستی بات نہیں کرنے کا ، چپ چاپ گاڑی میں بیٹھنے کا ، اور ہمارے ساتھ چلنے کا ۔“
”پسٹل پر اتنا اونچا بولتا ہے ۔“ نارائن نے حقارت سے کہا
ُُ ” تو بھی ہاتھ میں لئے ہوئے ہے ،اب تو چلا ، دیکھتے ہیں کون مرنے کا، چل چلا ´“ یہ کہتے ہوئے وہ آ گے بڑھا اور اس نے نارائن پر پستل تان لیا۔تبھی لمبے قد والے نے اپنا پستل پھینک کر کہا
” چل ا ٓ، میرے ساتھ خالی ہاتھ ۔“
نارائن پاگل نہیں تھا کہ وہ پسٹل پھینک دیتا، اس نے واپس پشت پر پسٹل اڑسا اور اس کے سامنے آ گیا ۔ان دونوں نے آ نکھوں میں آ نکھیں ڈالیں ہی تھیں کہ بغل میں کھڑا تیسرے بندے نے اس پر چھلانگ لگا دی ۔ نارائن محتاط تھا، وہ جھکائی دے گیا۔ وہ سیمنٹ کی ریلنگ کے ساتھ جا لگا۔ پھر بھنا کر اٹھا اور اسے پکڑنے کو لپکا اسی وقت لمبے قد والا اس پر جھپٹا۔نارائن نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے گھونسا مارا، تب تک اس کی گردن پر مکا پڑ چکا تھا ، وہ چکرا گیا۔ اتنے میں تیسرا بھی اس پر پل پڑا۔اس نے آ تے ہی نارائن کی گردن پر ہاتھ ڈالا اور ٹکر مارنے کو سر بڑھایا ، نارائن نے سر ایک جانب جھکا لیا، وہ اپنے جونک میں آ گے ہوا تو نارائن نے اس کے ٹکر مار دی ۔وہ تینوں اس پر پل پڑے ۔ نارائن جانتا تھا کہ وہ وقت میں تینوں سے نہیں لڑ سکتا۔ اس نے دو کی پروا نہیںکی کہ وہ کیا کر تے ہیں ۔ اس نے ایک کو پکڑا اور پوری قوت سے سیمنٹ کی ریلنگ کی جانب لے جا کراس کا سر زور سے مارا ۔ وہ وہیں لڑھک گیا۔اب اس کے سامنے دو تھے ۔لمبے قد والے نے ٹھوکرمارے کے لئے ٹانگ بڑھائی تھی ، اسی لمحے اس کی پسلی میں ایک ٹھوکر لگی جس کی پروا نہ کرتے ہوئے لمبے قد والی کی ٹانگ پکڑ لی اسے اپنی جانب کھینچ کر اس نے چھوڑ دیا۔ وہ لڑکھڑا کر گر گیا۔تبھی اس نے پسٹل نکال کر اس پر فائر کر دیا۔ تیسرا پسٹل نکال کر اس کی جانب نال کر ہی رہا تھا کہ نارائن نے فائر کردیا۔چند منٹوں میں وہ تینوں ڈھیر ہو چکے تھے ۔نارائن نے دیکھا دور دور کافی لوگ کھڑے یہ تماشا دیکھ رہے تھے ۔ اس نے آ ﺅ دیکھا نہ تاﺅ ،بھاگ کر گاڑی میں بیٹھا ۔ گاڑی سٹارٹ ہی تھی ، اس نے گیئر لگایا اور چل دیا۔
 گاری بھگاتے ہوئے اس نے ایک طویل سانس لی اورملجگی روشنی میں سمندر کی شوریدہ سر لہروں کو دیکھنے لگا۔ اس کے ذہن میں یہی سوال تھا کہ وہ اب کہاں جائے ۔انہی لمحات میں اسے ویرولی کی اسی ساحلی پٹی پر بنے بانسوں والے اس ہوٹل کی یاد آ گئی ۔ جو بوڑھا ڈیلاس پتہ نہیں کب سے چلا رہا تھا ۔ اس نے اسی کے پاس جانے کی ٹھانی ۔ وہ گاڑی بھگاتاہوا وہاں جا پہنچا ۔وہاں ہوٹل کے باہر چند موالی بیٹھے ہوئے گھٹیا شراب سے شغل کر رہے تھے ۔اس نے ہوٹل سے ذرا دور گاڑی روکی اوراُتر کے کاﺅ نٹر پر کھڑے ڈیلاس کے پاس چلا گیا۔اسے دیکھ کر وہ ایک دم سے خوش ہوگیا۔
” اے بچے ، کدھر چلا گیا تھا تو ، بہت عرصے بعد نظر آ یا۔“ 
” ڈیلاس ، مجھے گاڑی بیچنی ہے ، وہ سامنے کھڑی ۔“اس نے جواب دینے کی بجائے اپنا مدعا کہہ دیا ، بوڑھے کے ماتھے پر بل پڑے ،پھر مسکراتے ہوئے سر ہلا کر بولا
”پریشان لگتا ہے ۔ خیر ۔“ یہ کہہ کر وہ کاﺅنٹر میں جھکا ، نوٹوں کی ایک گڈی نکال کر اسے دیتے ہوئے بولا،” چار دن بعد آ نا ، گاڑی کی رقم یا پھر گاڑی لے جانا ۔“
نارائن نے وہ گڈی پکڑکے جیب میں رکھ لی۔ وہ جانتا تھاکہ ڈیلاس تھوڑی بہت جانچ کر کے ہی اس گاڑی کی رقم دے گا ۔یہ اسکا دھندا تھا، اور وہ اپنے دھندے میں بڑا محتاط تھا ۔
” ایک کام اور ....“نارائن نے دھیمے سے کہا
”وہ کیا؟“ بوڑھے ڈیلاس نے بھنوئیں اچکا تے ہوئے پوچھا تو نارائن نے اپنا پسٹل نکال کر کاﺅنٹر پر رکھ دیا، پھر بولا
”ایک بلٹ بھی نہیں بچی اس میں۔اس کے بنا تو کچھ نہیں ہونے کا“
” اوہ ۔“ ڈیلاس نے منہ سے بے ساختہ نکلاپھر سر ہلاتے ہوئے بولا،” ابھی تھوڑی دیر رکو،میں آ تا ہوں ۔“
یہ کہہ کر وہ اندر کی طرف چلا گیا۔نارائن وہیں کاﺅنٹر پر کھڑا رہا۔تقریباً دس منٹ بعد ڈیلاس واپس آ گیا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک شاپر بیگ تھا۔ اس نے وہ نارائن کو دیتے ہوئے کہا
” اپنا یہ گھوڑا ادھر رکھو اور یہ لے جاﺅ ، ساتھ میں دو فالتو میگزین ہیں۔“
نارائن نے وہ شاپر کھول کر دیکھا،ڈیلاس کی طرف دیکھ کر مسکرایا اور واپس جانے کے لئے مڑ گیا۔
رات کا دوسرا پہر بھی گزر چکا تھا۔وہ ساحلی سڑک کے ساتھ چلتا چلا جارہا تھا ۔ وہ سونے کے لئے کوئی جگہ دیکھ رہا تھا ۔ ممبئی میں ہزاروں مزدور ، بے روزگار سڑکوں ، پارکوں ، فٹ پاتھوں اور نئی تعمیر ہونے والی بلڈنگوں میں سوتے ہیں ۔اس شہر میں یہ کوئی نئی یا انہونی بات نہیں تھی ۔وہ چلتا چلا جا رہا تھا کہ اسے ایک بلڈنگ دکھائی دی ، جو ابھی تعمیر ہو رہی تھی ۔ ایسی بلڈنگوں میںوہاں کام کرنے والا مزدور طبقہ اور ارد گرد کے کئی موالی سو جاتے تھے ۔وہ تیزی سے ادھر بڑھ گیا۔تعمیراتی سامان سے بچتا ہوا وہ بلڈنگ میں چلا گیا۔ نیچے کوئی نہیں تھا۔وہ اوپر چڑھتا چلا گیا۔ کئی جگہوں پر اسے لوگ سوتے ہوئے ملے ۔ ایک جگہ اسے سونے کے لئے مناسب لگی ۔ وہ وہاں فرش پر جا کر لیٹ گیا۔ اس کا بدن چور چور ہو رہا تھا ۔ اس نے کچھ بھی نہیں سوچا اور نیند کی وادی میں کھو گیا۔
اس کی آ نکھ کھلی تو اسے آ نکھ کھلنے کی وجہ بھی پتہ چل گئی ۔ ہلکا ہلکا شور ہو رہا تھا ، جیسے کوئی کسی کو مار رہا ہو اور کوئی آ گے سے بچنے کے لئے منتیں کر رہا ہو ۔ اس نے دھیان دیا تو کافی حد تک وہ بات سمجھ گیا۔ کوئی غنڈے کسی کو یہاں لا کر پیٹ رہے تھے ۔ کوئی بات منوانا چاہتے ہوں گے ۔ وہ چند لمحے وہیں لیٹا رہا ۔اس شور کے ختم ہو نے کا انتظار کرتا رہا ۔وہ ان کی نگاہوں میں آ ئے بغیر وہاں سے نکل جانا چاہتا تھا ۔اس کے کان اسی شور کی جانب لگے ہوئے تھے ۔تبھی ایک نام سن کر اسے کرنٹ سا لگا ، وہ تیزی سی اٹھا اور اس شور کی جانب بڑے محتاط انداز میں بڑھنے لگا۔وہاس شور کے قریب پہنچا تو ایک ستون کی آ ڑ لے کر اس نے دیکھا، چھ سات غنڈوں کے درمیان ایک ادھیڑ عمر صحت مند شخص ہاتھ جوڑے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا۔ بلاشبہ اسے جاگنگ کرتے ہوئے اٹھا کر لائے تھے ۔وہ اسی حلیئے میں تھا۔
” مجھے چھوڑ دو ، جتنا پیٹی کہو گے ، اتنا دوں گا ، میرے مار دینے سے تم کو کیا ملے گا ۔“اس نے رحم طلب انداز میں کہا
” نہیں گھوٹکے نہیں، بہت ہو چکا ، تونے ہماری بات نہیں مانی ، بہت کہا تجھ سے ، تو نے ہماری نہیں مانی ، مگر ہم اپنی تو منوا سکتے ہیںنا ، تجھے تیری اسی بلڈنگ میں ماریں گے ، تجھے کہا تھا نابہن ....“ان میں سے ایک لمبے بالوں والے نے کہا ، جس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی ۔وہ پہچان گیا تھا یہی سلیم سٹکا ہے ۔ وہی جس نے داوڑے گینگ پر حملہ کیا تھا۔ وہ وہی تھا جس سے بچ کر اس نے لرکی سمیت کھڑکی سے چھلانگ لگائی تھی ۔ وہ اس اتفاق پر حیرت زدہ رہ گیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور فوری فیصلہ کر لیا۔ 
” او سلیم سٹکا، چھوڑ دے اسے ۔“
آ واز گونج کر رہ گئی تھی ۔وہ سبھی ساکت ہو گئے ۔ان کے چہروں پر حیرت تھی ۔شاید ان کی سوچ میں بھی نہیںتھا کہ کوئی یوں انہیںللکارے گا ۔
” کون ہے بے سامنے آ ۔“ اس نے کہا ہی تھا کہ نارائن نے تاک کر فائر جھونک دیا۔ اس نے ایک چیخ سنتے ہی اپنی جگہ بدل لی ۔جواباً کئی فائر ہو ئے ۔ اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ اس کے پسٹل میں چند گولیاں ہیں ۔ اس نے تاک کر دوسرا نشانہ لیا پھر یکے بعد دیگرے فائر کرتا چلا گیا۔کئی چیخیں بلند ہوئیں ۔ باقی شاید بھاگنے کی فکر میں تھے ۔نارائن کے پاس ساری گولیاں ختم ہو گئیں ۔ اس نے پسٹل ہاتھ ہی میں رکھا ۔دوسرا میگزین چڑھاکر اس نے سامنے دیکھا۔وہ سبھی گرے پڑے تھے۔جسے اغوا کر کے لائے تھے وہ بھی اپنے سر ہاتھ رکھے فرش پر لیٹا ہوا تھا۔ان میں پتہ نہیں کتنے زخمی تھے اور کتنے مر چکے تھے۔اس نے محتاط انداز میں کہا
”چلا گولی سٹکا ۔“ یہ کہتے ہی اس نے فائر کر دیا۔دوسری جانب سے کسی نے بھی کوئی جوابی فائر نہیں کیا۔اس نے چند لمحے انتظار کیا،پھر بولا،” گھوٹکے ، اٹھ کر آ جا ۔“
یہ سنتے ہی گھوٹکے کے بدن میں ارتعاش پیدا ہو ا، اس نے اٹھ کر بے یقینی کے سے انداز میں ان سب کو دیکھا، پھر اٹھ گیا۔وہ اٹھ کر چند قدم چلا ہی تھا کہ ایک غندہ اٹھا اور اسے پکڑنا چاہا ، نارائن نے بلاتردد اس پر فائر کردیا۔ گھوٹکے تیزی سے باہر کی جانب بھاگااور نارائن کو دیکھتے ہی اس کے منہ سے نکلا
” اوہ ....“
”پیچھے ہٹ جا ، ابھی مجھے سب کو مارنا ہے ۔“ یہ کہتے ہی اس نے ان پر فائرنگ کردی ۔ چند لمحوں بعد وہ ان کے پاس چلا گیا۔ان میں سے دولوگ شدید زخمی تھے ، باقی سب مر چکے تھے ۔ سلیم سٹکا ختم ہو چکا تھا۔ اسے دیکھ کر نارائن کو بڑی تسکین ہو ئی ۔ان میں جو ایک زندہ تھا، اسے ٹھوکر مار کر نارائن نے کہا
” زندہ رہا تو راج مٹھل سے کہنا،میں آ گیا ہوں ۔“ یہ کہہ کر وہ تیزی سے پلٹا اور باہر نکلتا چلا گیا۔ گھوٹکے نیچے جا چکا تھا ۔ بلڈنگ کے ارد گرد ہلچل مچ چکی تھی ۔ نارائن بھی نیچے آیا گھوٹکے نے کہا
” جلدی نکل چلو ، ورنہ ان کے لوگ آ سکتے ہیں،یا پھر یہ پبلک نہیں جانے دے گی ، چل نکل ۔“
رش کی وجہ سے ٹریفک رک گئی تھی ۔ نارائن کے ہاتھ میں پسٹل تھا۔ اسے کی طرف دیکھتے ہی لوگ ادھر ادھر ہونے لگے ۔ سامنے ایک ٹیکسی کھڑی تھی وہ دونوں اس میں بیٹھ گئے ۔
وہ گھوٹکے کا شاندار گھر تھا۔ گھوٹکے اور نارائن لاﺅنج میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ نارائن فریش ہو کر نئے کپڑے پہن کر صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ ناشتہ کر چکے تھے ۔تبھی گھوٹکے نے اس کی طرف دیکھ کر کہا
” میں نہیں جانتا تم کون ہو ۔پن میرے لئے فرشتہ کی مافق آ یا تم۔بولو کیا مانگتا ۔“
”گھوٹکے ، تم کیا دے سکتے ہو مجھے ؟ “ نارائن نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو گھوٹکے کی جیسے جان ہی نکل گئی ۔ وہ پریشانی میں بولا
” یہ کیا کہہ رہے ہو ؟“
 ” کچھ نہیں، بس یہ ایک اتفاق تھا،میری وجہ سے تیری جان بچ گئی ۔اب مجھے جانا ہے ۔“
” کہاں جائے گا تو ؟“
’ ’کہیں بھی ۔“ اس نے کاندھے اچکا کر کہا
” نہیں تم میرے پاس رہو ، اِدھر میرے گھر میں ، یا تجھے ایک فلیٹ دیتا ہوں اُدھر رہو ۔ جب تک میں ہو ں بس تم عیش کرو ۔“ گھوٹکے اُس پر دریا دل ہوگیا۔وہ خاموش رہا۔ اسے تو خود ایک ٹھکانہ چاہئے تھا۔تبھی گھوٹکے بولا،” یہ بتاﺅ تم میرے پاس رہے گا نا؟“
”شایدرہوں یا پھر نہ رہوں ۔“ نارائن نے کہا ہی تھا کہ باہر سے ایک ملازم آ یا اور اس نے آ تے ہی کہا
”وہ انسپکٹر اشوک آ یا ہے ، ملنا چاہتا ہے آ پ سے ۔“
تبھی گھوٹکے نے نارائن کی طرف یوں دیکھا جیسے اس کی رائے چاہ رہا ہو ، اس پر نارائن نے کاندھے اچکا دئیے ۔گھوتکے نے اسے اندر بلانے کا اشارہ دے دیا۔ کچھ دیر بعد وہ ان کے ساتھ آ کر صوفے پر بیٹھ چکا تھا ۔
 ” اچھا تو یہ ہے وہ جس نے آ پ کی جان بچائی ۔“ انسپکٹر اشوک نے اسے سر سے پیر تک دیکھتے ہوئے کہا۔ چند لمحے خاموشی کے بعد بولا،”جان سکتا ہوں تم کون ہو اور کہاں سے ہو ؟“
” یہ فالتو کا سوال ہے ۔میں ادھر سویا ہو ا تھا،سلیم سٹکا کو دیکھ کر اسے مارا۔“ نارائن نے جان بوجھ کر یہ بات انسپکٹر اشوک سے کہی تھی ۔وہ اس کا ردعمل دیکھنا چاہتا تھا ۔ اسی سے پتہ چل جاتا کہ انسپکٹر اشوک کیا چاہتا تھا ۔اس کا تیر نشانے پر لگا تھا ۔ اے سی پی اشوک کی آ نکھیں ذرا سی کھلیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی ۔
” ویلڈن ، تم نے میرا کام آ سان کیا، میں خود اسے ختم کرنا چاہتا تھا۔ بڑی مصیبت بن گئے ہوئے ہیں یہ لوگ ۔“
” تو بس اسے اپنے کھاتے میں ڈالواور ترقی لو صاحب ۔“ نارائن نے سنجیدگی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا 
”وہ کوئی اکیلا تو ہے نہیں۔میں اسے اپنے کھاتے میں ڈالوں گا تو پتہ نہیں کتنے دشمن بن جائیں گے ۔ “ انسپکٹر اشوک نے کہا
” ڈرتے ہو ؟“ نارائن نے طنزیہ پوچھا
” ہاں ڈرتا ہوں مگر ان غنڈوں سے نہیں بلکہ اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کی کالی بھیڑوں سے ، سفید کالر جرائم پیشہ سے اور بکاﺅ پریس سے ۔تم نے ٹی وی نہیں دیکھا، پولیس کی واٹ لگ رہی ہے ۔“اس نے دکھی انداز میں کہا
” پھر کیا چاہتے ہو آپ ؟“گھوٹکے نے اس کی بات سے انداز لگاتے ہوئے فورا ً پوچھا۔ وہ بھانپ گیا تھا اے سی پی اشوک کیا چاہتا ہے ۔
” میں اگر چاہوں تو ابھی تمہیں گرفتار کر کے لے جاﺅں ، سب کا منہ بند ہو جائے گا ۔لیکن اس کا ہوگا کچھ نہیں ۔وہ بے غیرت غنڈے اپنا کام کرتے رہیں گے ۔گھوٹکے صاحب آپ جیسے لوگوں کا درد سر بنے رہیں گے ۔“ اے سی پی اشوک نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
” وہی تو اب آپ کیا چاہتے ہو ؟“ گھوٹکے نے پوچھا تو انسپکٹر اشوک نے نارائن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
”میں اس سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں ۔پھر فیصلہ ہوگا کہ مجھے کیا کرنا ہے ۔“ انسپکٹر اشوک نے انتہائی سنجیدگی سے کہا
” بولو، بتاتا ہوں ۔“ نارائن نے حتمی لہجے میں پوچھا
” یہ مت بتاﺅ کہ کہاں سے ہو اور کون ہو لیکن یہ ضرورپوچھوں گا کہ یہاں پر کیوں ہو ؟ کیا کرنا چاہتے ہو ؟“اے سی پی اشوک نے پوچھا
” مجھے راج مٹھل کو مارنا ہے ۔“ نارائن نے سکون سے کہا تو اے سی پی اشوک کی آ نکھیں چمک اٹھیں ۔تبھی اس نے جلدی سے پوچھا
” کیا تم اس کی جگہ لینا چاہتے ہو یا کوئی اور بات ہے ؟“
” نہیں، مجھے کچھ نہیں چاہئے ، میں نے بس اسے مارنا ہے ۔“نارائن نے سکون سے کہا
” یہ کام تو میں بھی کرنا چاہتا ہوں ۔یہ المیہ یہ ہے کہ قانون کی وردی میں کر نہیں سکتا ہوں ۔ وجہ پہلے بتادی ہے ۔اگر تم اس کی جگہ لینے کے لئے اسے مارنا چاہتے ہو توپھر مجھے کوئی فائدہ نہیں۔ آ ج ان سے لڑ رہا ہوں کل تم سے لڑوں گا ۔غنڈہ راج یونہی رہے گا ۔“یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہو اپھر بولا،” اور اگر تم اپنا کوئی بدلہ لینا چاہتے ہو تو میں تمہارا ساتھ دیتا ہوں ۔گارنٹی گھوٹکے صاحب دے دیں ۔“
” ڈن ہو گیا۔“ نارائن نے سکون ہی سے کہا
” میں دیتا ہوں اس کی گارنٹی ۔“ گھوٹکے نے دانت پیستے ہوئے کہا، اسے بھی اپنا بدلہ چاہئے تھا۔
وہ ابھی یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ ملازم نے آ کر بتایا کہ باہر پریس والے آ ئے ہیں۔ اس پر گھوٹکے نے انسپکٹر اشوک کی طرف دیکھا تو اس نے نارائن کی جانب دیکھ کر کہا
”اسے ذرا سائیڈ پر کردو ، اور انہیں بلا لو ۔پریس کو یہی بتانا کہ وہ غنڈے آ پس میں لڑ پڑے تھے ، جس کا فائدہ اٹھا کر میں وہاں سے بھاگ ا ٓیا ۔“
” ٹھیک ہے ، بلاﺅ پریس کو ۔“گھوٹکے نے کہا تو نارائن اٹھ گیا۔
٭....٭....٭
ججماتا جھونپڑ پٹی کی شمالی سڑک پار وہ کئی منزلہ بلڈنگ تھی ، جس کے ایک فلیٹ میں نارائن ایک صوفے پر بیٹھا چائے پی رہا تھا۔ انسپکٹر اشوک نے اپنا ایک آ دمی اس کے رابطے میں دے دیا تھا۔ جس نے پسٹل سے لیکر فالتو میگزین تک ، سیل فون سے لے کر کپڑوں تک اسے فراہم کر دئیے تھے ۔اس کا سوائے سریندر کے کسی کے ساتھ رابطہ نہیں تھا۔اب جو کچھ بھی دیکھنا تھا اسی کی آ نکھوں سے دیکھنا تھا ۔ اسے سریندر نے کافی ساری معلومات دیں تھیں ۔راج مٹھل کا ابھی پتہ نہیں چل رہا تھا لیکن رگھو ٹانڈیا کے بارے میں ایک اطلاع آ ئی تھی ، جس کی تصدیق کرنا باقی تھی ۔ وہ اسی انتظار میں تھا کہ کب سریندر اسے بتاتا ہے ۔
شام ڈھل کر رات میں تبدیل ہو گئی تھی ۔رات کا پہلا پہر ختم ہو چکا تھا ۔ ایسے میں سریندر کا میسج آ گیا۔ اس نے نیچے بلایا تھا۔ نارائن نے اپنے پسٹل سنبھالے ، دروازے کو لاک کیا اور لفٹ سے نیچے چلا گیا۔سریندر ایک سیاہ کار لئے باہر اس کا انتظار کر رہا تھا۔وہ پسنجر سیٹ پر بیٹھاتو سریندر نے گیئر لگا دیا۔ سڑک پر آتے ہی وہ بولا
”کدھر جانا ہے ؟“
” رگھو ٹانڈیا اس وقت گولڈن بار میں ہے اپنی آئیٹم کے ساتھ ۔ اس کے ساتھ چار بندے ہیں۔اب اگلا پلان تمہارا ہے کہ تم نے کیا کرنا ہے ۔“ سریندر نے تفصیل بتائی اور کار کی رفتار بڑھا دی ۔
’ ’ چل وہیں چل کر دیکھتے ہیں۔“ اس نے دھیمے سے انداز میں کہا اور سامنے دیکھنے لگا۔ نارائن کو یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کے کور پر کچھ کوگ ہوں گے ، جس کی اس نے تصدیق کرنا مناسب نہیں سمجھا۔کچھ اس پر نگاہ رکھنے والے تھے اور کچھ موقعہ ملتے ہی اس کی مدد کرنے والے ۔مگر اسے خود پر یقین تھا۔ اس نے تیزی سے یہ سوچا کہ گولڈن بار میں اسے کیا کرنا ہے ۔ تقریباً بیس منٹ بعد وہ وہ گولڈن بار کے سامنے پہنچ گئے ۔ جس کے گیٹ پر بڑے رنگین سائین بورڈ لگے ہوئے تھے اور چند ہٹے کٹے قسم کے سیکورٹی والے موجود تھے ۔سریندر نے کار اس طرح لگائی کہ ایک سیکورٹی والا فوراً ان کی جانب بڑھا۔ اس نے آ تے ہی کہا
” کار ادھر نہیں لگانا، دوسری طرف لگاﺅ ۔“
سریندر نے اس کی بات نہیں سنی ۔ اس نے کار بندی کی اور باہر نکلتے ہی اس نے اپنا کارڈ اس کے سامنے کرتے ہوئے بولا
” پولیس، اپنے مینیجر کے پاس لے چلو ۔“
اتنی دیر میں نارائن بھی باہر نکل چکا تھا۔اس نے محسوس کیا کہ ان کے رکتے ہی دو کاریں اور موٹر بائیک بھی وہیں آ ن رکے تھے ۔ اس کا خیال درست ثابت ہوا تھا۔سیکورٹی والے نے پیچھے مڑ کر دیکھااور گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔وہ دونوں بھی اس کے پیچھے چل پڑے ۔ سیکورٹی والوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں تو انہیں تلاشی لئے بغیر اندر جانے دیا گیا گیا۔وہ ایک راہداری سے اندر گئے تو وہاں جلتی بجھتی ہوئی رنگین روشنیوں میں کئی لوگ ناچتے ہوئے دکھائی دئیے ۔ وہ سب مستی میں تھے ۔ کاﺅنٹر پر شراب چل رہی تھی ۔ کئی جوڑے وہاں بیٹھے شراب کے ساتھ آ پس میں مست تھے ۔ کئی ٹیبلوں کے ارد گرد بیٹھے ہوئے کھا پی رہے تھے۔ کئی کونوں میں لگے صوفوں پر بیٹھے ہوئے ایک دوسرے میں کھوئے ہوئے تھے۔کسی کو کسی کا احساس نہیں تھا۔ تیز موسیقی سے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔شاید وہ ہال ساﺅنڈ پروف تھا، جس میں اتنا شور تھا اور اس کی آ واز باہر نہیں جا رہی تھی ۔ وہ دونوں ابھی جائزہ لے رہے تھے کہ ایک سوٹ پہنے ٹھگنے قد کا گنجا شخص ان کے پاس آ کر رک گیا۔ وہ انہیں دیکھتا ہوا بولا
” جی فرمائیں ، میں ہی یہاں کا مینجر ہوں ۔“
” اس سے پہلے ہم تمہیں بتائیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں، تم ہمیں ایک پیک آ فر نہیں کرو گے ۔“سریندر نے ارد گرد دیکھتے ہوئے کہا
”ہم نے پہلے کبھی آپ کو ادھر نہیں دیکھا؟“ مینجر نے ان پر شک کرتے ہوئے کہا تو سریندر نے آرام سے اس کی گردن پر ہاتھ رکھتے ہوئے غرا کر کہا
 ” چل ، وہاں کاﺅنٹر تک چل اور وہیں سے پولیس اسٹیشن فون کر ، پتہ کر ہم کون ہیں ؟پھر تم سے بات کرتا ہوں، چل ۔“
” مم .... میرا مطلب یہ نہیںتھا۔“ اس نے وضاحت کرنا چاہی لیکن نارائن نے کچھ سنے بنا اس کا بازو پکڑا اور اور کاونٹر کی جانب بڑھ گیا۔وہ تینوں کاﺅنتر تک جا پہنچے ۔ مینجرنے بار ٹینڈر کو پیک بنانے کا اشارہ کیا۔ پھر سریندر سے پوچھا،” جی بتائیں میں کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“
” تم پہلے تصدیق کر کے آ ﺅ ، پھر بات کرتے ہیں۔“ اس نے حقارت سے کہا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا۔وہ رگھو ٹانڈیا کو دیکھنا چاہتا تھا جو کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔دو پیگ ان کے سامنے رکھ دئیے گئے ۔چند لمحے ہی گذرے تھے کہ غیر محسوس انداز میں کچھ لوگ ان کے ارد گرد آ کر کھڑے ہوگئے ۔ وہ جو کوئی بھی تھے ان کے لئے خطر ناک تھے ۔ نارائن نے پہلے رگھو ٹانڈیا کو دیکھا ہوا نہیں تھا، اس لئے وہ سریندر کی جانب دیکھ رہا تھا۔ وہی اسے شکل سے پہنچانتا تھا۔ وہ قریب آ جانے والے لوگوں کو بھی محسوس کر چکا تھا ۔ انہی لمحات میں اس نے چند لوگوں کو تیزی سے اسی راہدری میں جاتے ہوئے دیکھا، جہاں سے وہ آ ئے تھے ۔ اس نے سریندر کو اشارہ کیا تو وہ چونک گیا، پھر تیزی سے اس طرف بڑھنے لگا تو وہ چند لوگ ان کی راہ میں آ گئے ۔ انہیں یقین ہو گیا کہ رگھو ٹانڈیا نکل رہا ہے ۔وہ چھ لوگ تھے جو ان کی راہ میں حائل تھے ۔نارائن نے سریندر کی طرف دیکھا اور ایک ساتھ ان پر پل پڑے ۔ وہ انہیں وہیں پر روکنے کے موڈ میں تھے ، جبکہ وہ دونوں انہیں جھکائی دے کر راہداری کی جانب بڑھ گئے ۔وہ ان کے پیچھے بھاگے ۔تب تک نارائن نے پسٹل نکال کر ایک فائر کر دیا ۔وہ لمحہ بھر رکے ۔ انہیں اتنا ہی وقت درکار تھا، وہ راہدری میں گئے تو وہ لوگ گیٹ پار کر رہے تھے ۔ یہ بھاگتے ہوئے گیٹ تک پہنچے اور باہر نکل آ ئے ۔وہ چار لوگ تھے اور ایک کار میں بیٹھ رہے تھے ۔ 
” وہ آ گے والا رگھو ہے ۔“ سریندر نے تیزی سے کہا تو نارائن نے فائر کردیا۔ وہ کار میں بیٹھ چکے تھے اس لئے بچ گئے ۔سریندر نے عقل مندی کی کہ ٹائروں پر فائرنگ کر دی ۔ ایک دھماکے سے ٹائر پھٹ گیا۔مگر وہ اسی طرح کار بھگانے میں کامیاب ہو گئے ۔ اتنی دیر میں پیچھے سے فائر ہوا۔سریندر کار کی جانب بھاگا تو نارائن اسے کور دیتا ہوا فائر کرنے لگا ۔ وہ پیچھے ہٹتا ہو اکار تک جا پہنچا۔سریندر نے دروازہ کھول دیا تھا جیسے ہی وہ بیٹھا ، سریندر نے کار بھگا دی ۔ انہیں یقین تھا کہ وہ انہیں زیادہ دور تک نہیں جانے دیں گے ۔ جیسے ہی وہ ان کے پیچھے لگے سامنے سے فائر ہو نے لگے ۔ایک چھناکے سے اسکرین میں فائر ہوا ۔ نارائن تاک کر نشانہ لگانے لگا۔اسی دورانان کے قریب سے زن سے موٹر بائیک گزریں اور وہ لمحوں میں آ گے والی کار کو بھی کراس کر گئیں ۔وہ آ گے والی گاڑی کے دونوں طرف ہو گئے اور پھر پسٹل نکال کر فائر کر دیا۔ سامنے والی کار لڑکھڑائی اور پھر قلابازی کھا تے ہوئے فٹ پاتھ پر چڑھی اور ایک بلڈنگ کی باہر والی باﺅنڈری کے ساتھ جا لگی ۔ وہ دونوں موٹر بائیک والے رکے نہیں آ گے بڑھتے چلے گئے ۔سریندر نے تیزی سے بریک لگائے تو چند قدم کے فاصلے پر جا کر ہی رک سکے ۔انہوں نے کار چھوڑی اور فوراً رگھو والی کار کی جانب بڑھے ۔
” یہ ہے رگھو ۔“ سریندر نے اگلی سیٹ پر خون سے لت پت رگھو کی طرف اشارہ کیا۔ وہ نیم بے ہوش تھا۔نارائن نے اس پر فائر کردیا۔ اس نے ہچکی لی اور وہیں ساکت ہو گیا۔ وہ وہاں نہیں ٹھہرے بلکہ تیزی سے پلٹ کر اپنی کار تک پہنچے اور پھر اسے بھگا کر چل دئیے ۔
٭....٭....٭
اگلی صبح وہ گھوٹکے کے آ فس میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا۔اس نے بڑی بڑی پریشانی میں نارائن کو بلایا تھا۔وہ اس کے سامنے بیٹھا تھا اور کاموش تھا۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد گھوٹکے بولا
” رات مجھے راج مٹھل کا فون آ یا تھا۔“
” اسی کو لے کر پریشان ہو ، کیا کہہ رہا تھا ؟“ نارائن نے پوچھا
”وہ تجھے مانگ رہا تھا ۔“ یہ کہہ کر اس نے نارائن کے چہرے پر دیکھا، پھر بولا،”کہہ رہا تھا کہ میں تو مر ہی جاﺅ گا لیکن کیا تو زندہ رہے گا ۔آج شام تک کا وقت دیا ہے ورنہ وہ میری فیکٹر ی کو آ گ لگا دے گا ، گھر پر حملہ کر سکتا ہے اور وہ جو بلڈنگ بن رہی ہے ، اُسے اُڑا دے گا ۔“ گھوٹکے نے رو دینے والے انداز میں کہا تو نرائن نے پوچھا
”پھر کیا سوچا تم نے ؟“
” میں نے کیا سوچنا ہے ،میں تو کچھ بھی نہیں کر سکتا۔اس کا حل تمہارے پاس ہے یا پھر انسپکٹر اشوک کے پاس ۔“ 
” تو پھر تمہیں پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں، ہم دیکھ لیں گے ۔“ نارائن نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا تو ان کے درمیان خاموشی چھا گئی ۔
”میں جانتا ہوں مٹھل کو ، وہ بہت ظالم چیز ہے ۔شام ہو جانے کے بعد وہ ضرور وار کرے گا ۔“گھوٹکے نے پریشان لہجے میں کہا
” اچھا ابھی شام تو ہونے دو ، میں دیکھتا ہوں ۔“ نارائن نے کہا اور اٹھنے لگا پھر کچھ سوچ کر بولا،” یہ مایا دیوی کون ہے ؟جانتے ہو کچھ اس کے بارے میں ؟“
” نہیں ، میں بالکل نہیں جانتا اور نہ آ ج تک اس کا کوئی پتہ ملاہے ، کوئی فون کال نہ کبھی آ ئی ، نہ ہی کبھی سنی اورنہ ہی کسی سے سنا کہ اس نے مایا دیوی سے بات کی ہے ۔“
” وہ کیا اتنی ہی خفیہ ہے ، کسی کو اس کے بارے میں پتہ تک نہیں؟“ وہ الجھتے ہوئے بولا
”اور تمہیں ا سکے بارے میں تجسس کرنے کی ضرورت نہیں۔“گھوٹکے نے یوں دھیمے لہجے میں کہا جیسے مایا دیوی سن نہ لے 
” کیوں ، ایسا کیوں ؟“اس نے تجسس سے پوچھا
” مایا دیوی کے بارے میں سنا ہے ، جب اور جس وقت بھی اسے کسی سے کام لینا ہوتا ہے ،وہ اس تک پہنچ جاتی ہے ۔وہ بالکل ایسے ہے جیسے ہمارے ارد گرد ان دیکھی ہوا ۔“ وہ شاید بہت ڈرا ہوا تھا اس لئے ایسی باتیں کر رہا تھا ۔ سو نارائن نے مزید بات نہیں کیاور وہاں سے اٹھ گیا۔
 اس کے دماغ میں ہلچل مچ گئی تھی ۔ جس طرح وہ راج مٹھل کو باہر نکالنا چاہتا تھا ، ٹھیک اسی طرح راج بھی اُسے باہر نکالنا چاہتا تھا ۔چوہے بلّی کا یہ کھیل بہت کم وقت رکھتا تھا۔ شام ہونے میں ابھی کافی وقت تھا۔ اس نے سریندر کو کال ملائی ۔ وہ کہیں بازار میں تھا۔اس نے کچھ وقت بعد کال کرنے کا پیغام بھیج دیا۔ جس پر نارائن نے اسے فوراً گھوٹکے کے آ فس پہنچ جانے کا پیضام بھیج دیا۔ اسے سریندر کا انتظار کرنا تھا۔وہ گھوٹکے کے آ فس سے باہر نکل کر ایک ایسی کرسی پر آن بیٹھا ، جہاں سے سڑک دکھائی دیتی تھی ۔اس کی ساری توجہ باہر تھی ۔سریندر کو اس تک پہنچنے میں دس سے پندر ہ منٹ لگ سکتے تھے۔وہ باہر دیکھتے ہوئے لاشعوری طور پر سوچتا چلا جا رہا تھا کہ راج کو کیسے باہر نکالا جائے ۔ اگر اس کے ٹھکانے کا کوئی تھوڑا سا سراغ بھی مل جاتا ہے تو وہ اسے باہر نکال سکتا تھا ۔
دس منٹ سے زیادہ کا وقت ہو گیا تھا۔نارائن کی پریشانی بڑھنے لگی تھی ۔ اس نے اضطراب میں سریندر کو کال کرنا چاہی ۔ تبھی اس کی نگاہ ایک چھوٹے سے گروپ پر پڑی جو ایک وین میں سے باہر نکلا تھا۔ان میں سے ایک سامنے دوکان میں گھس گیا۔ پھر فوراً ہی باہر سامنے بلڈنگ پر ایک نگاہ ڈالی، جہاں وہ بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس نے سب لوگوں کو بتایا، باری باری سبھی نے اوپر کی طرف دیکھا۔اس نے سریندرکا کال ملادی ۔ 
” بس میں پہنچ رہا ہوں دو منٹ بعد۔ “ سریندر نے کہا
” وہیں رک جاﺅ ۔“ نارائن نے تیزی سے کہا
” خیر ہے نا ۔“ اس نے پوچھا تو نارائن نے اسے صورت حال بتاتے ہوئے کہا
” مجھے پورا یقین ہے کہ انہیں میرے بارے پتہ چل گیا ہے کہ میں کہاں ہوں ۔ وہ فیلڈنگ لگا رہے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ دس منٹ مزید لیں گے ۔ اس کے بعد وہ یا تومجھے باہر نکالیں گے یا میرا باہر نکل آ نے کا انتظار کریں گے ۔“ 
” یہ اچھا ہو گیا، ہم بھی فیلڈنگ لگا لیتے ہیں ۔“ سریندر نے کہا
” اتنی جلدی ہو جائے گا ؟“ اس نے پوچھا
” ہو جائے گا ، انتظار کرو ۔ “ سریندر نے کہا اور فون بند کر دیا ۔نارائن کی بے چینی دیکھنے والی تھی ۔ وہ ان پر نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ یہیں سے انہیں شوٹ کر دے لیکن یہ ممکن نہیںتھا۔ یہی سوچتے اس کے ذہن میں خیال آ یا کہ انہیں میرے بارے میں پتہ کیسے چلا؟ ضرور ان کا مخبر یہیں کہیں آ س پاس ہوگا ۔مگر یہ وقت اس مخبر کو تلاش کرنا کا نہیں تھا ۔وہ سوچتا بھی جا رہا تھا اور اس کی نگاہ اس ساری سڑک تک تھی جتنا وہ کھڑکی سے دیکھ سکتا تھا ۔وہ سکون سے پلٹا اور گھوٹکے کے آ فس میں چلا گیا۔
نارائن نے جب ساری صورت حال بتائی تو وہ انتہائی پریشان ہو گیا۔وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولا
” میں نے تمہیں بلا کر بڑا غلط کیا،وہ چاہتا بھی یہی تھا ۔اب کیا ہوگا؟“
” چپ چاپ اپنے آ فس میں بیٹھو رہو ۔“نارائن نے کہا
” تم ایسا کرو ، لفٹ سے نیچے چلے جاﺅ ، پیچھے سے ایک راستہ جاتا ہے ، وہاں سے نکل جاﺅ۔پھر دیکھتے ہیں ۔“گھوٹکے نے تیزی سے کہا
” تمہارا کیا مطلب ہے ، وہ ادھر نہیں ہوں گے۔ممکن ہے ان کے بندے اندر بھی آ گئے ہوں ۔خیر ، میںنے تجھے خبردار کر دیا۔اب میں دیکھتا ہوں انہیں ۔“نارائن نے کہا اور آ فس سے باہر آ گیا۔ 
وہ دوبارہ اسی کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا نہیں ہوا بلکہ اسی عمارت کی ایک دوسری راہداری میں چلا گیا۔ چونکہ اس عمارت میں کئی آفس تھے اس لئے لوگ آ جا رہے تھے ۔ کوئی بھی کسی پر شک نہیں کر سکتا تھا۔مزید دس منٹ اسی کشمکش میں گزر گئے ۔ سریندر کیا کر رہا تھا ، اس کی کوئی خبر نہیں تھی۔وہ ٹہلتے ہوئے ایک کھڑکی کے پاس گیا۔ وہ لوگ ہنوز وہیں تھے ۔ان کی تعاد میں اضافہ نہیں ہوا تھا ۔اسے یہ دیکھنے کی بے چینی ہونے لگی کہ عمارت کی پطھلی طرف کتنے لوگ ہو سکتے ہیں ۔ ممکن ہے سریندر انہیں پھنس نہ گیا ہو ۔ یہ سنتے ہی وہ انتہائی اضطراب میں پلٹ کر دوسری جانب جانے لگا تو اس کے سامنے ایک نوجوان لڑکی کھڑی ا سکی طرف دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔ہلکے سبز اور سفید رنگ کے سوتی لباس میں، درمیانہ سا قد ، گندمی رنگ، گول چہرہ ، تیکھے نقوش، بوائے کٹ بال ، پتلے پتلے لبوں پر سرخ رنگ کی لپ اسٹک اور سیاہ کاجل بھری آ نکھوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے معصومانہ انداز میں مسکرا رہی تھی ۔ اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے سیل فون کی اسکرین اس کے آ گے کرتے ہوئے کہا
” نارائن داس،گنگا نگر ۔“
اپنا نام اور آبائی علاقے کا نام سن کر وہ ساکت توہو ہی چکا تھا، سیل فون کی اسکرین پر اپنی تصویر دیکھ کر وہ بری طرح چونک گیا۔اس نے بڑے غور سے لڑکی کو دیکھا ، وہ ہنوز مسکرا رہی تھی ۔
” کون ہو تم ؟“ نارائن نے سرسراتے ہوئے انداز میں پوچھا
” میں انجلا، میرے آ فس میں آ ﺅ ، بیٹھ کر بات کرتے ہیں ۔“ اس نے کہا اور بڑے اعتماد سے مڑگئی۔نارائن نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دیا۔وہ ایک شاندار آ فس میں داخل ہوگئی ۔ وہ اپنے آفس کی دائیں جانب والی کھڑکی کے پاس گئی اور اسے اپنے قریب آ نے کا اشارہ کیا۔ وہ کھڑکی کے پاس گیا تو وہ بولی 
” اس طرف بھی لوگ ہیں راج مٹھل کے ، وہ دیکھو، وہ کالا ساریڈ چیک دار شرٹ میں اور اس کے ساتھ موالی کھڑے ہیں ۔“
اس پر نارائن ایک لفظ بھی نہیں بولا، بلکہ انجلا کے چہرے پر دیکھنے لگا۔ وہ میز کے ایک طرف سے ہوکر کرسی پر بیٹھ گئی ۔اس نے نارائن کو بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ پھر دھیمے سے انداز میں پوچھا 
” کون ہو تم اور یہ سب ....“
 ”بتایا نا میں انجلا ، ابھی تم یہاں محفوظ ہو ۔اور ....“ اس نے کہنا چاہا تو نارائن نے اس کی بات کاٹتے ہوئے تیزی سے کہا
” باہر میرا دوست محفوظ نہیں، مجھے اس کو بچانا ہے ۔“
”کیسے بچاﺅ گے ؟“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا
” میں اسے فون کرتا ہوں۔“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا اور سریندر کو کال ملا دی ۔ پہلی ہی بیل پر اس نے فون رسیو کر لیا۔ تبھی اس نے تیزی سے کہا،” سریندر، ادھر مت آ نا ابھی ، بہت بڑی فیلڈنگ لگی ہوئی ہے ۔“
” ہاں ، میں نے پتہ کر لیا ہے ۔میں کچھ دور ہوں ۔“
” ٹھیک ہے ، تم نے آ گے نہیں آ نا بلکہ واپس لوٹ جاﺅ ۔“
” مگر تم ....“اس نے پوچھا
” میری چھوڑو،میں نکل جاﺅں گا، تم بچو۔ “ اس نے صلاح دی اور فون بند کر دیا، پھر انجلا کے کی طرف دیکھ کر بولا،” انجلا ، تم یہ سب کیوںکر رہی ہو ۔“
” تم پر دل آ گیا ہے ۔“ اس نے رومانوی انداز میں کہا اور قہقہ لگا کر ہنس دی ۔پھر نہایت سنجیدگی سے بولی 
” ابھی میں ان پنٹر لوگوں کو دیکھ لوں ، پھر بات کرتے ہیں۔“  
” نہیں ، یہ تمارا مسئلہ نہیں میرا ہے ، میں دیکھ لیتا ہوں انہیں۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔ انجلا بھی اس کے پیچھے ہی اٹھ گئی ۔وہ اس کا بازو پکڑ کر کھڑکی کے قریب لے گئی ۔ باہر کچھ عجیب ہی سماں تھا۔کئی سارے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے ۔ایک دوسرے کو مار رہے تھے ۔انہیں دیکھتے ہوئے ابھی دو چار منٹ ہی ہوئے تھے کہ پولیس کی گاڑیاں آ گئیں ، جنہیں دیکھتے ہی وہ سب وہاں سے تتر بتر ہو گئے ۔
” دوسری طرف بھی ایسا ہی ہوا ہے ، دیکھنا چاہو تو دیکھ لو ۔“ انجلا بولی تو نارائن اس کی طرف دیکھتا رہا پھر کہا
” تھینک یو ، اگر تم اپنا سیل نمبر....“
” ارے کیا کرے گا سیل نمبر کو ، میں جو تیرے پاس ہوں ۔تم کہاں جا رہے ہو ؟“انجلا نے اٹھلا کر کہا
” مجھے جانا توہے ، میں....“
” ارے نہیں ببّوا، تو کہاں جائے گا ، اب میرے پاس رہے گا ، میرے ساتھ، تجھے سکون سے بتاتی ہوں راج مٹھل کو کیسے پکڑنا ہے ۔“ انجلا نے باقاعدہ اس کے گلے میں بانہیں ڈالتے ہوئے کہا تو بولا
” یہ تم کیوں ....“
” سب بتاﺅں گی نا ، اب ادھر آ بیٹھ کھانا کھاتے ہیں۔“ اس نے نارائن کا ہاتھ پکڑا اور اسے لے جا کر کرسی پر بٹھا دیا۔ پھر ادھر ادھر فون کرتے ہوئے و ہ آفس میں ٹہلتی رہی ۔ پھر جس وقت کھانا لا کر لگا دیا گیا تو وہ ایک صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی
” گھوٹکے سے کہہ دیا ہے کہ مت گھبرائے ۔ سریندر بھی محفوظ ہے ، اب سکون سے کھانا کھاﺅ ۔ پھر میرے ساتھ میرے گھر چلو ۔“ یہ کہہ کر انجلا نے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔نارائن نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جس طرح بندہ خود کو حالات کے حوالے کر دیتا ہے ، اسی طرح خود کو انجلا کے سپرد کر دے گا۔ 
ممبئی میں لوگوں کی طرح موسم کے بدل جانے کا بھی کوئی پتہ نہیں چلتا۔ وہ انجلا کے ساتھ اس کے بنگلے کے کاریڈور میں بیٹھا ہوا چائے پی رہا تھا ۔ سہ پہر کاوقت تھا ۔ بارش بڑے زوروں کی ہو رہی تھی ۔ وہ دونوں خاموش تھے ۔نارائن نے یہ سوچ لیا تھا کہ وہ انجلا سے سوا ل نہیںکرے گا۔ یہ کنفرم تھا کہ جب اس نے بات بتانا ہوگی وہ خود بتا دے گی ۔
 اگرچہ اس کے دماغ میں یہ بات پہلی ہی تھی لیکن انجلا سے ڈرامائی انداز میں ملنے کے بعد وہ شدت سے ایک ہی بات سوچے چلا جا رہا تھا ۔یہ سارے اتفاقات اس کے ساتھ ہی کیوں ہوتے چلے جارہے ہیں ۔ہر قدم پر اس کی مدد کے لئے کوئی نہ کوئی موجود ہوتا ہے ؟ کیا قسمت کی دیوی اس پر مہربان ہو چکی ہے یا پھر دوسری وجہ ہے ؟یہاں مرتے ہوئے بندے کے پاس سے لوگ نگاہیں چرا کر گزر جاتے ہیں، اس کے لئے اتنی مہربانی کیوں ہو رہی ہے ؟ کیا کوئی شخص ہے جو چھپ کر اس کے پیچھے ہے ؟وہ جرم کی اس دنیا میں رہ کر بہت کچھ سمجھ گیا تھا ، عموماً ایسا ہوتا نہیں اور نہ ہی ایسے اتفاقات جنم لیتے ہیں ۔فٹ پاتھ پر آ نے سے پہلے اور فٹ پاتھ والی زندگی سے وہ بخوبی واقف تھا۔اسے یوں لگ رہا تھا کہ فٹ پاتھ سے اٹھا لینے والی زندگی اس کی اپنی نہیں رہی ، کوئی کٹھ پتلی کی طرح اسے نچا رہا ہے ۔اسے شاید یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ انسان جب بھی کٹھ پتلی بن کر ناچتاہے۔اسے شاید یہ سمجھ نہیںآرہی تھی کہ انسان جب بھی کٹھ پتلی بنتا ہے،اس کی نا آسودہ خواہشیں ہی اسے گھڑ کر پتلی بناتی ہیں ۔اپنی ہی ناآسودہ خواہشوں کے جال میں پھنس جاتا ہے ۔ 
  ” کیا سوچ رہے ہو ؟“ انجلا نے پوچھا تو وہ اپنی سوچوں سے باہر آ گیا۔اس نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے مگ سے لمبا سپ لیا، پھر ہنستے ہوئے اس کی جانب دیکھا اور بولا
”راج مٹھل کو پکڑنے ہی کی سوچ سکتا ہوں ، اس کے علاوہ اور کیا سوچ میرے بھیجے میں آ سکتی ہے ۔“
اس نے کہا تو انجلا کی کھنکتی ہوئی ہنسی ارد گرد پھیل گئی ۔ پھر سکون سے بولی 
” اسے جب چاہو ، پکڑ لوں ۔ فکر مت کرو ، آ ج رات ہی اس کا کام تمام ہو جائے گا ۔“
” نہیں، انجلا نہیں۔“ وہ تڑپ کر تیزی سے بولا،” میںنے اسے اپنے ہاتھوں سے مارنا ہے ۔“ 
” چلو ، ایسا کر لیتے ہیں ، بس یہ سمجھ لو نارائن،وہ ہمارے سامنے ہے ، جیسے ہی وہ ہاتھ کے نیچے آ یا ، اسی وقت ....“ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی بات مکمل کر دی ۔ان کے درمیان خاموشی چھا گئی ۔تبھی نارائن نے ہنستے ہوئے پوچھا
” انجلا ، تم اتنی مہربان کیوں ہو گئی ہو مجھ پر ؟ کیا پہلی نگاہ میں محبت ہو گئی ہے مجھ سے “
انجلا اس پر زور دار قہقہ لگا کر ہنس دی ۔ چند لمحے ہنستے رہنے کے بعد وہ ایک دم خاموش ہو گئی اور پھر بڑے سنجیدہ لہجے میں بولی
” دنیا کا سب سے بڑا فراڈ یہ محبت ہے ۔لوگ اس لفظ کی آ ڑ میں کس طرح ایک دوسرے کو پھنساتے ہیں وہ تو اپنی جگہ ، خود پھنستے ہیں ۔زندگی کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہی لفظ محبت ہے ۔کیونکہ یہ لفظ انسان کو حقیقت سے نکال کر خوابوں میں لے جاتا ہے ۔“
” بڑے بھیانک خیال ہیں تمہارے ۔“ نارائن نے کہا
” یہی حقیقت ہے پیارے ۔تمہاری بغل میں جب لڑکی ہوتی ہے، تم کتنی محبت جتاتے ہو ، کام نکل گیا تو اگلے دن بھول جاتے ہو ۔“ وہ اس کی آ نکھوں میں دیکھ کر بولی
” یہ تم نے ٹھیک کہا۔“ اس نے اعتراف کر لیا۔
”تم اور میں مل گئے ، جتنا وقت ہمیں ملا، ہم کچھ بھی سوچے بغیر دھوم سے گذاریں ،دن اور رات رنگین کر لیں۔پھر تم کہاں اور میں کہاں۔“ اس نے خمار آ لود لہجے میں کہا تو نارائن سمجھ گیا وہ کیا چاہتی ہے ۔ 
” پر جب تک راج مٹھل ختم ....“ اس نے تیزی سے کہا تو انجلا نے اس کی بات کاٹ کر مستی میں کہا
”ماں کی آ نکھ راج مٹھل کی ، چل اسے ختم کرتے ہیں ، پھر میں جو چاہوں گی کروں گی تیرے ساتھ ۔“ یہ کہہ کر اس نے قہقہ لگا دیا۔
٭....٭....٭
اس وقت شام ڈھل گئی تھی ۔نارائن ایک کمرے میں نرم گدے پر نیم خوابیدہ پڑا ہواتھا۔ ایسے میں اس کا سیل فون بج اٹھا۔ وہ انجلاکا فون تھا اور اس نے فوری اسے باہر بلایا تھا۔وہ تیزی سے پورچ میں پہنچا تو انجلا فور وہیل میں بیٹھ چکی تھی ۔ ڈرئیوانگ سیٹ پر ایک ادھیڑ عمر تھا اور اس کے ساتھ ایک نوجوان بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ انجلا کے ساتھ پچھلی سیٹ پر بیٹھا گیاتو فور وہیل چل پڑی ۔وہ تیزی سے رہائشی علاقے میں سے نکلے اور دورویہ سڑک پر آ گئے ۔ شام کے ایسے وقت میں ٹریفک بہت زیادہ تھی ۔نارائن کے ساتھ بیٹھی انجلا پڑے سکون کے ساتھ اپنے سیل فون سے کھیل رہی تھی ۔نارائن نے پوچھا ہی نہیںکہ کہاں جانا ہے ۔ وہ خاموش بیٹھا رہا۔ ڈرائیور کی نگاہیں سامنے لگی ہوئی تھیں، وہ بڑی مہارت سے فور وہیل چلا رہا تھا ۔ ساتھ میں بیٹھا خاموش نوجوان یوں دکھائی دے رہا تھا جیسے ربورٹ ہو ۔ وہ بھی چپ چاپ بیٹھا رہا۔ کچھ ہی دیر بعد وہ ویرولی سے دادر جانے والی سی لنک سڑک کے قریب سے گزر گئے ۔ اس کے بعد وہ نادر شہر کی طرف داخل ہوئے اور پھر جونپڑ پٹی سے ہوتے ہوئے وہ ویرولی فورٹ تک جا پہنچے ۔ڈرائیور نے فوروہیل روک دی ۔ انجلا نے سیل فون سے کھیلنا بند کر دیا اور نیچے اتر آ ئی ۔نارائن بھی اتر تو وہ فورٹ کی جانب چل پڑی ۔ اس کا انداز یوں تھا جیسے وہ کسی پکنک پر جا رہی ہو ۔وہ چاروں آ گے بڑھتے گئے ، پھر پتھر کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہ بالکل اوپر پہنچ گئے جہاں سے دو طرف سمندر دکھائی دے رہا تھا اور تیسری جانب وہی غربت زدہ جھونپڑ پٹی۔وہاں اندھیرا نہیں ملجگی روشنی تھی ۔وہ چاروں بڑھتے گئے ، یہاں تک کہ ایک سرے پرتین فٹ کی دیوار میں ایک دیا روشن تھا ۔ وہ چرچ کی علامت تھا۔ وہیں اس کے پاس چند لوگ کھڑے تھے ۔ ملگجی روشنی میں احساس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ شکل صورت سے کیسے تھے ۔انجلا ان سے چند فٹ کے فاصلے پر جا کر کھڑی ہوئی ۔اس نے کسی تمہید کے بغیر پوچھا
” بول ، کیا فیصلہ کیا ہے تو نے ؟“
” اے چھمیا، تم کیوں میری دشمن ہو رہی ہے ۔میں تیرا خیال کرتا ہوں ، پن تم میری بات کیوں نہیں سمجھتی ہو ۔ میں....“ اس نے کہنا چاہاتھا کہ انجلا نے اس کی بات کاٹ دی ۔
” تیرا بس چلے توتم مجھے ایک سیکنڈ بھی برداشت نہ کرو ۔ ادھر گولی میرے بھیجے میں مارودو۔یہ عزت وزت چھوڑو ، اپنا فیصلہ سناﺅ ۔“ انجلا نے کہا تو وہ ایک دم سے ہنس دیا
”تم ٹھیک بولی ہو چھمیا، ایک دم سولہ ا ٓنے بولی تم ،پن کیا کروں ادھر میرا دھندا ہے ، مجھے تو دھندا کرنے کا ۔“سامنے کھڑے ایک شخص نے کہا تونارائن کو وہ آ واز جانی پہچانی لگی ۔اس کے حواس پوری طرح بیدار ہو گئے ۔
”نہیں ، اب یہاں نہیں رہنے کا ، یہاں سے چلے جانے کا ۔“انجلا نے غراتے ہوئے کہا تو وہ پھر ہنس دیا
” اتنا محنت ایسے ہی نہیںکیا کہ تجھے سب دے کر میں دم دبا کر کتے کی مافق یہاں سے چلا جاﺅں ، ہوش کر چھمیا،یہاں اس لئے آ گیا کہ تو نے ایک بار مجھ پر احسان کیا تھا۔ اگر تو یہ سوچتی ہے کہ کوئی لفڑا کرے گی ، ایسا مت سوچ ، ہم میں سے کوئی بھی مرا، تو دوسرا بچ کر یہاں سے نہیں جانے والا۔“ سامنے والے بندے نے کہا تو انجلا حقارت بولی 
”میں تمہارا فیصلہ سننے آ ئی ہوں ۔یہ کچے پکے راگ مجھے مت سنا۔“
” ابھی وقت ہے چھمیا، مجھے میرا کام کرنے دے ، تم اپنا کام کرو ۔اس نارائن کو میرے حوالے کرو، بات ختم ۔“ اس نے کہا ہی تھا کہ نارائن سامنے کھڑے شخص کو پہچان گیا۔ وہ راج مٹھل تھا۔
” کیا کرے گا تو، مارے گا اس کو ؟“ انجلا نے انتہائی غصے میںپوچھا 
” مارے گا ، اپنے ہاتھوں سے مارے گا ۔“ اس نے بھی غصے میں کہا
” تو چل ، اگر تم میں ہمت ہے تو مار ، یہ کھڑا نارائن ۔“ انجلا نے نارائن کی طرف اشارہ کیا تو وہ سب ایک دم الرٹ ہو گئے ۔راج مٹھل نے چشم زدن میں اپنا ہاتھ بڑھایا تو اس میں پسٹل تھا۔انجلا کے ساتھ آ ئے دونوں لوگوں نے بھی اس پسٹل تان لئے ۔صورت حال گھمبیر ہو گئی تھی ۔
” تیرا شکریہ چھمیا، تو نے مجھے نارائن لا دیا، جو مانگو گی ملے گا ۔ پہلے مجھے اس کو مارنے دے ۔“ راج مٹھل کی غراتی ہوئی آ واز گونجی تو انجلا بولی 
” فائر کر ۔“ 
لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ راج مٹھل نے فائر کر دیا۔ کھٹاک کی آ واز آ ئی ، تب تک نارائن اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا۔ راج مٹھل کے پسٹل میں کوئی بلٹ نہیں تھی ۔ اس نے وحشیانہ انداز میں پہ در پہ ٹرائیگر دبایا ، مایوس ہو کر اس نے پسٹل پرے پھینک دیا۔پھر چیختے ہوئے بولا
” یہ کس نے دیا مجھے ؟“
 ” تیری قسمت نے ،تیرے ساتھ کوئی نہیں ہے اس وقت ، وہ جانتے ہیں کہ اب یہاں راج تیرا نہیں مایا دیوی کا ہے ۔تم بے وقوف ہو جو مایا دیوی کی طارقت نہیں سمجھے ہو ۔“ اس نے کہا اور نارائن کی طرف دیکھ کر بولی ،” مار دو اس کو ۔“
”چل میں چھوڑ جاتا ہوں ویرولی ۔“ راج مٹھل نے کہا
” نارائن مار دو اس کو ۔“ انجلا نے سرد سے لہجے میں کہا تونارائن اا گے بڑھا اور راج مٹھل کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔دونوں آمنے سامنے تھے ۔ راج مٹھل یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پرانا ریسلر ہو ۔نارائن نے اس کے ماتھے پر پسٹل رکھا اور ٹرائیگر دبا دیا۔ ایک دھماکا ہوا ، اس کے منہ سے آ واز بھی نہ نکلی اور وہ کٹے ہوئے شہتیر کی طرح گر گیا۔ اس کے ساتھ انجلا کی آ واز گونجی 
” تم سب چند دن سکون کرو ، جو روپیہ تم لوگوں کا ملا، اس سے عیش کرنے کا ،پھر بتاتی ہوں کیا کرنا ہے ، آ ﺅ نارائن۔“ 
اس کے ساتھ ہی وہ پلٹی اور واپس چل دی ۔ وہ سبھی اس کے ساتھ چل دئیے ۔ وہ چاروں فور وہیل تک یوں پہنچے جیسے سیر کر کے آ ئے ہوں ۔وہ جس راستے سے آ ئے تھے ، تقریباً دو گھنٹے بعد واپس انجلا کے اسی بنگلے میں پہنچ گئے ۔ پورچ میں اترتے ہی ڈرائیور فور وہیل لے گیا۔ اس کے ساتھ وہ نوجوان بھی چلا گیا۔ اندر بڑھتے ہوئے انجلا نے نارائن کی کمر میں ہاتھ ڈالتے ہوئے رومانوی انداز میں کہا
 ” پوری فریش ہو جاﺅ ، پھر ڈنر لیتے ہیں۔ اس کے بعد میں تمہیں اپنے بیڈ روم میں لے چلوں گی ۔“
 کوئی اور وقت ہوتا تو نارائن اس رومانوی قرب پر مست ہو جاتا، لیکن اس کے دماغ میں آ ندھیاں چل رہی تھیں ۔ وہ بہت کچھ سوچ رہا تھا ۔یہی سوچیں اسے بے سکون کر دینے کے لئے کافی تھیں ۔
٭....٭....٭ 
 رات کا دوسرا پہر تھا ۔نارائن نے انجلا کے بیڈ روم کا درواز دبایا تو وہ کھلتا چلا گیا۔ سامنے جہازی سائز کے بیڈپر سرخ رنگ کی نائیٹی پہلے وہ نیم دراز تھی ۔وہ اس کی طر ف دیکھ کر مسکرا رہی تھی ۔پھر خمار بھرے لہجے میں ،یوں انگریزی میں کہا جیسے وہ بے تاب ہو ۔
” میرے بیڈ روم میں خوش آ مدید ۔“
وہ آ ہستہ قدموں سے چلتا ہوا اس کے بیڈ تک جا پہنچا۔انجلا نے اس کا ہاتھ پکڑ کر بیڈ پر بٹھا لیا، پھر اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولی،” کیا تم خوش نہیں ہو یہاں میرے پاس آ نے میں ؟“
” ایسی تو کوئی بات نہیں۔“ اس نے زبردستی مسکراتے ہوئے کہا
”پھر یوں تمہارا چہرہ ....؟“ اس نے بے تابی سے پوچھا
” بس ، میرے دماغ میں ....“ اس نے کہنا چاہا تو انجلا نے تڑپ کر غصے میں کہا
” ارے تیرے دماغ کی بہن ....“ یہ کہہ کر اس نے نرم لہجے میں کہا،” میں جانتی ہوں تم بہت کچھ پوچھنا چاہتے ہو ، تمہارے اس دماغ میں بہت کچھ ہے ۔میں تمہیں سب بتا دوں گی ، آج رات ہی بتاﺅں گی ، لیکن جب تک تم میرے ساتھ ہو ، سب بھلا دو ۔میں وعدہ کرتی ہوں جب تم صبح میرے بیڈ روم سے جاﺅ، تمہیں سارے سوالوں کے جواب مل جائیں گے ۔“
” ڈن ؟“ نارائن نے بے یقینی کے سے انداز میں پوچھا 
”ڈن ۔ “اس نے انگوٹھے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا 
نارائن نے ایک نگاہ اسے دیکھا اور پھر سائیڈ ٹیبل کی لائیٹ آف کردی ۔بیڈ روم میں ایک طوفان برپا ہو گیا تھا ۔
اس وقت صبح کی نیلگوں روشنی ہر جانب پھیلی ہوئی تھی جس نارائن کی آنکھ کھلی ۔وہ بیڈ پر تھا لیکن اس کے ساتھ انجلا نہیں تھی ۔وہ ایک دم سے پریشان ہو گیا ۔ وہ تیزی سے اٹھا اور بیڈ سے اترگیا۔ابھی وہ قدم بڑھانے ہی لگا تھا کہ انجلا بیڈ روم میں داخل ہوئی ۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا ٹرے تھا اور اس میں دو کافی مگ رکھے ہوئے تھے ۔وہ اس کی طرف پیار بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے بولی 
” آ ﺅ ، ادھر بیٹھ کر کافی پیتے ہیں۔“
نارائن نے ایک طویل سانس لی اور واش روم میں چلا گیا ۔ اس ے یقین ہو گیا تھا کہ انجلا نے جو کہا ہے وہ ضرور کرے گی ۔اس نے اپنے چہرے پر پانی کے چھپکے مارے ،پھر انہیں صاف کر کے انجلا تک چلا گیا، جو بیڈ روم کی انیکسی میں بیٹھی ہوئی تھی ۔وہ سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔اس نے مگ اٹھایا اور گرم گرم کافی کا سپ لے لیا۔تبھی اس نے ماحول کو خوشگوار کرنے کی خاطر ہنستے ہوئے کہا
” انجلا ، یہ کافی بھی تمہاری طرح بہت گرم ہے ۔“
” ہاں ، کوئی شے گرم نہیں ہوتی ، گرم بنا دی جاتی ہے ۔“ ا سنے بھی عام سے لہجے میں کہا اور خاموش ہو گئی ۔چند لمحے یونہی خاموشی کی نذر ہو گئے ، پھر وہ ایک بڑا سا سپ کر بولی ،” نارائن، میں کچھ بھی نہیں ہوں ، میرا اعتماد ، میرا حوصلہ ، میری طاقت ، میری نہیں ہے ۔یہ سب مجھے مایا دیوی نے دیا ہے ۔ورنہ میں ایک مجبور ، بے بس اور لاچار لڑکی تھی ۔ جس کاک دل چاہتا مجھ سے کھیل لیتا تھا ۔میرا جسم میرا نہیں رہا تھا ۔ خیر ، تمہارے ذہن میں یہی سوال ہے نا کہ یہ مایا دیوی کون ہے ؟“
” ہاں ، یہی سچ ہے ؟“ نارائن نے اعتراف کیا
”وہ نہ دکھائی دینے والی ایک سوچ ہے ۔اپنوں کو ، مظلوموں کو قوت دینے والی اور دشمنوں کے لئے خوف کی علامت ۔مجھے بالکل نہیں معلوم کہوہ کون ہے ،لیکن میں جانتی ہوںکہ وہ اس وقت بھی مجھے دیکھ رہی ہے ۔“
” مطلب ، جو یہ رات گزری ۔“ نارائن نے طنزیہ پوچھا
” ہاں ،یہ بھی اسے معلوم ہے ۔اسی نے ہی مجھے کہا، یہ ایک رات میرا انعام تھی ۔تم مجھے اچھے لگے ہو ۔“انجلا نے صاف کہہ دیا
” پر یہ سب ہے کیا گورکھ دھندا؟“ نارائن نے الجھتے ہوئے پوچھا
” میں نہیں جانتی، جس طرح کل دوپہر سے پہلے میں تجھے نہیں جانتی تھی ۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہوئی ، ایک سپ لیا اور پھر کہتی چلے گئی ،” مجھے میرے سیل فون پر تمہاری ساری معلومات ملیں اور مجھے کہا کہ میں اسی عمارت میں گھوٹکے کے آ فس میں ہوں ۔تلاش کروں اور اپنے پاس محفوظ کرلوں۔ تمہاری تصویر مجھے اچھی لگی ۔ میں نے پانچ منٹ میں تجھے تلاش کر لیا۔باہر جو کچھ ہوا ، وہ سب مایا دیوی کا اپنا کام تھا ، مجھے اس کے بارے میں نہیں پتہ کہ وہ کیسے ہوا، کس نے کیا۔مجھے بس فون پر سب پتہ چلتا چلا جا رہا تھا ۔جس طرح مجھے کہا جا رہا تھا ، میں ویسا ہی کر رہی تھی ۔“
” اور وہ راج مٹھل ، وہ خالی پسٹل ؟“ نارائن نے پوچھا
”تم شاید یہ سمجھ رہے تھے کہ میں سیل فون پر کوئی گیم کھیل رہی تھی ، ایسا نہیں تھا، وہ معلومات مل رہی تھیں ۔ مایا دیوی کی اتنی رسائی ہے کہ اس نے راج مٹھل کے ارد گرد بندوں کو خرید لیا تھا ، سب موالی ٹپوری پیسے کے لئے اپنی ماں بیچ دیتے ہیں سالے ۔“ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کا لہجے اتنہائی ترش اور حقارت بھرا ہو گیا تھا۔
” سوال یہ ہے انجلا ، مایا دیوی ....“ اس نے کہنا چاہا تووہ ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے بولی
” پوری بات سن لو ، پھر کہنا۔“
” بولا ،“ ا س نے کہا اور ایک بڑا سپ لے کر خالی مگ ایک جانب رکھ دیا
”مجھے یہ تک کہا گیا کہ بہت عرصہ ہوا تم کسی لڑکی سے نہیں ملے ہو ، میں بھی بھوکی تھی ۔ یہ ایک رات مجھے انعام میں ملی ، یہ سب میں نے تمہیں بتا دیا، اب تم جو چاہو سو پوچھ سکتے ہو ۔“
” مایا دیو ی کون ہے اور مجھ پر مہربان کیوں ہے ؟“ نارائن نے تیزی سے سوال کیا تو انجلا مسکرا دی ، پھر سکون سے بولی 
”اس سوال کا جواب تو مایا دیوی ہی دے سکتی ہے ۔ اگر وہ چاہے تو ابھی جواب بھیج دے چاہے تو نہ دے ۔“
”اوکے ۔“ نارائن بہت کچھ سوچ کر خاموش ہو گیا۔وہ کتنی ہی دیر تک خاموش بیٹھے رہے ، پھرانجلا نے اٹھتے ہوئے کہا
” تیار ہو جاﺅ ،ناشتہ کرتے ہیں ۔تمہارا نیالباس تمہیں مل جاتا ہے ۔ “ 
 یہ کہہ کر وہ اپنے بیڈ روم سے نکلتی چلی گئی ۔
ناشتے کی میز پر انجلا تیار ہو کر آ کر آ ئی تھی ۔ اس نے سیاہ بزنس سوٹ پہنا ہوا تھا۔ لبوں پر میرون رنگ کی لپ اسٹک کے ساتھ ہلکا ہلکا میک اپ کیا ہوا تھا۔ اس نے اپنا سیل فون رکھااور میز کے گرد کرسی پر آ ن بیٹھی ۔ اس نے ستائشی نگاہوں سے نارائن کو دیکھا، وہ بھی سیاہ سوٹ کے ساتھ سفید شرٹ اور گہری نیلی ٹائی باندھے جچ رہا تھا ۔ اس پر نارائن نے ہنستے ہوئے پوچھا
” کیا دیکھ رہی ہو ؟“
” پتہ نہیں مجھے آ ج رات بھی ملے گا تمہارا ساتھ یا نہیں ۔“
 ” کیوں ؟ ایسا کیا ہے ؟“
” ناشتہ کرو ، بہت بھوک لگی ہے ۔“ اس نے کہا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی ۔ گاہے بگاہے اس کے سیل فون کی اسکرین روشن ہوتی رہی ، وہ ایک نگاہ ڈالتی اور پھر کھانے کی طرف متوجہ ہوجاتی ۔ جب دونوں کے سامنے چائے کے کپ آ گئے اور ملازمین نے سارے برتن اٹھا لئے تب انجلا بولی 
” وہی ہوا نا ، جو میں سوچ رہی تھی ؟“
” کیا مطلب ؟“نارئن نے کسی نئے خدشے کا خیال کرتے ہوئے پوچھاتو وہ بولی 
” سنو ، تمہارے لئے ایک پیغام ہے ۔نمبر ایک ، یہیں ویرولی میں رہو ،اور بھائی گیری کرو ۔ نمبر دو ، باہر جانے کے لئے تیار ہو جاﺅ نمبر تین ، ممبئی میں کسی بھی جگہ کسی بھی فرم میں جاب کر لو ۔“
” یہ آ پشن تو پہلے بھی .... “وہ کہتے کہتے رُک گیا۔اس کے ذہن میں فوری خیال آگیا کہ اسے انجلا کے سامنے اپنا ماضی بیان نہیں کرنا چاہئے ۔اس پر وہ بڑے سکون سے بولی 
” مجھے نہیں معلوم یہ آ پسن تمہیں پہلے ملے ہیں یا نہیں ، لیکن اس وقت میرے سامنے ہیں ، بولو ، کیا چاہتے ہو ؟“
” جس نے آ پشن دئیے ہیں اسی کی جو مرضی ۔“ نارائن نے بڑے سکون سے جواب دیا تو وہ ہنس دی ۔اسی لمحے اسکرین روشن ہوئی ، انجلا نے پڑھا اور پھر بڑے نا آ سودہ لہجے میں بولی 
” نہیں آ پشن تمہی سے مانگی گئی ہے ۔“
” تو کہہ دو نمبر تین ۔“نارائن نے الجھتے ہوئے کہا۔ انجلا نے نمبر تین ٹائپ کر دیا۔ 
٭....٭....٭
وہ جوہو کے ساحلی پٹی کے ساتھ بنے ولاز میں سے ایک ولا ءکے بیڈ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔عمارت کے اندر تین خاموش قسم کے ملازمین ربورٹ کی طرح چل پھر رہے تھے ۔ان میں سے ایک نے اسے پورا ولا دکھایا، دوسرے نے اس کا بیڈ روم اور اس میں پری ہوئی اشیاءدکھائیں اور تیسرے کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ شیف تھا ۔ باقی باہر کے ملازمین کے بارے اسے کچھ معلوم نہیں تھا۔ وہ بیڈ پر پڑا سوچ رہا تھا ۔زندگی اسے کہاں سے کہاں لے آ ئی ہے ؟وہ اپنی پہلی زندگی کو زندگی گنتا ہی نہیںتھا۔اس کی نئی زندگی تو فٹ پاتھ کے بعد شروع ہوئی تھی ۔اس نے تب سے اب تک غور کیا تو بہت ساری باتیں اس کی سمجھ میں آ رہی تھیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اب تک اس کے ساتھ جتنے واقعات و حالات پیش آ ئے ، وہ محض اتفاق نہیں تھے ۔اسے اگر وہ اپنی کامیابی گردانتا ہے تو وہ بھی بالکل نہیں تھی ۔ ہاں اس نے رسک لیا، اپنا اور اپنے ساتھیوں کا بدلہ لینے کے لئے ہمت کی ، اس میں اتنا حوصلہ تھا کہ وہ دشمنوں کا سامنا کر سکے ۔ اس نے ہمت ، حوصلہ اور جرات کی، تبھی حالات بنتے چلے گئے ۔ ورنہ وہ بدلہ تا کیا خود کو بھی نہیں سنبھال سکتا تھا ۔
دوسری بات جو اس کی سمجھ میں آ رہی تھی، وہ یہ کہ فٹ پاتھ سے لیکر اب تک جو ایک ہی طرح کے آ پشن دے رہا ہے ، وہ کوئی ایک ہی ہے ۔اب وہ یہ یقین سے نہیںکہہ سکتا تھا کہ وہ اس کا دوست ہے یا دشمن ، کون ہے ؟ یہ اسے معلوم نہیں تھا ۔ صرف مایا دیوی کا نام آ جانا ایک ایسی وجہ تھی جس کے بارے وہ سوچ سکتا تھا ۔ اس نے مایا دیوی کی طاقت کا اندازہ بھی لگا لیا تھا۔ وہ سرف ایک نام ہے اور وہ نام کس کا ہے یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔
ان دونوں باتوں کو سامنے رکھ کر اگرسوچا جائے تو تو یہی سمجھ میں آ تا تھا کہ مایا دیوی ہی اس پر مہربان ہوئی ہے جس نے اسے فٹ پاتھ سے اٹھایا اور یہاں اس ولاءتک پہنچا دیا ۔ وہ اب اگر اس سے بھاگ بھی جانا چاہتا ہو تو نہیں بھاگ سکتا تھا ۔وہ اس سے کیا کام لینا چاہتی تھی ، وہ یہ بھی نہیں سوچ سکتا تھا ، اس کے پاس صرف ایک ہی چوائس تھی کہ مایا دیوی جو حکم دے وہ بلا چون و چرا قبول کر کے ایک بہترین زندگی گزارے ۔ 
اس نے یہ فیصلہ کر لیا تھا۔وہ فٹ پاتھ کی زندگی کو دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا ۔اسے یہ بھی خبر نہیں تھی کہ کچھ دیر بعد اس کے ساتھ کیا ہو جانے والا ہے ۔اس کے دشمن ختم ہو گئے تھے ، جن میں مایا دیوی نے پوری طرح مدد کی تھی ۔ اب اسے یہیں رہنا تھا اور جو مایا دیوی کہتی اس کا حکم بجا لانا تھا ۔
تقریباً ڈیڑھ ماہ گزر گیا۔اسے سوائے کھانے پینے اور سونے کے کوئی اور کام نہیں تھا۔شام کے وقت اس کے پاس وہی تینوں ملازم آ جاتے ، وہ اس کے ساتھ جم کرتے ، تھوڑی دیر فائٹ کرتے اور اسے بری طرح تھکا کر اس کے ساتھ سوئمنگ کرتے ۔اسی دورانئیے میں وہ خود کو بہت فٹ محسوس کرنے لگا تھا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ مایا دیوی اسے کسی خاص مقصد کے لئے تیار کر رہی ہے ۔ ایسی ہی ایک شام جب وہ سب کچھ کر کے فریش ہوا اور کھانے کی میز تک آ یا تو میز پر ایک قدرے فربہ مائل نوجوان لڑکی بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس نے سیاہ مختسر لباس پہنا ہوا تھا ، جس میں سے اس کا گورا بدن جھلک رہا تھا ۔ اس کے کانوں سے ذرا اوپر بال تھے ، جن میں سے وہ ترچھی نگاہ کر کےاسے دیکھ رہی تھی ۔جیسے ہی نارائن کی نگاہ اس پر پڑی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے اسے ہاتھ ہلایا ۔ وہ قریب آ یا تو اس لڑکی نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا
”میں شیتل ،آج رات تمہیں کمپنی دینے آئی ہوں ۔“
” ویلکم ۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا اور سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا ۔ پہلے پہل وہ دونوں خاموشی سے کھانا کھاتے رہے پھر ان میں باتیں ہو نے لگیں جو کچھ دیر بعد قہقہوں اور پھربے تکلفی میں بدل گئیں ۔
صبح شیتل بیڈ روم میں ہی تھی جب وہ جانے کے لئے تیار ہو چکی تھی ۔اس نے نارائن سے کہا 
” اوکے ڈیر، میں اب چلتی ہوں ۔“
” میں بھی تیار ہوں ، ابھی نیچے جا کر ناشتہ کرتے ہیں پھر .... “
”نہیں ناشتہ نہیں کرنا ، تمہارے تکئیے کے نیچے میں نے ایک سیل فون رکھا ہے ۔ اس میں تمہارے لئے مایا دیوی نے بہت کچھ بھیجاہے ۔وہ پڑھ اور دیکھ لینا۔میں اس لئے یہاں آئی ہوں کہ جو کچھ سیل فون میں ہے ، اس کا یہاں کے ملازمین کو بھی پتہ نہیں چلنا چاہئے ۔ اور ہاں اسے ادھر نہیں کھولنا، وہ آ ف ہے ، یہاںسے باہر کہیں دور جا کر ٹھیک دس بجے اوپن کرنا۔“
” اوکے ، میں سمجھ گیا۔“نارائن نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو شیتل ہاتھ ہلاتے ہوئے بیڈ روم سے باہر چلے گئی ۔اس نے جلدی سے تکیہ اٹھایا ، وہاں ایک سیل فون پڑا تھا ۔ اس نے وہ اٹھا کر جیب میں ڈال لیا ۔ پھرباہر کی جانب لپکا۔ وہ شیتل کو جاتا ہوا دیکھتا رہا یہاں تک کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی ۔
 وہ نو بجے ایک کار لے کر نکل گیا۔جب وہ کم از کم دس کلومیٹر سے زائد سفر کر چکا تو ایک چھوٹے سے ریستوران میں آ کر بیٹھ گیا۔ وہاں اس نے فریش جوس کا آرڈر دیا اور سیل فون کو کھول کر دیکھنے لگا۔ اس سیل فون میں صرف ایک نمبر محفوظ تھا۔اور اسی نمبر سے ایک میسج آ یا ہوا تھا ۔اس میں یہ ہدایات تھیں کہ سیل فون میں کس جگہ کیا پڑا ہے ۔ اس نے پہلا فولڈر کھولا ، اس میں سات آٹھ چھوٹے چھوٹے ویڈیو کلپ تھے ۔ وہ ایک ایک کر کے دیکھنے لگا۔پھر تصویروں کے فولڈر میں آگیا ، وہ بہت ساری تصویریں پڑی ہوئیں تھیں ، ان میں کچھ ایسی بھی تھیں جن پر معلومات درج تھیں ۔ وہ سمجھ گیا کہ اس کے لئے کیا حکم ہے اور اس نے کیا کرنا ہے ۔وہ پوری طرح تیار ہوگیا ۔
اس ریستوران سے نکلنے کے بعد وہ ایک شاپنگ مال میں چلا گیا۔ وہاں کی پارکنگ میں اس نے اپنی کار روکی اور اندر بڑھ گیا۔ کچھ دیر تک پھرتے رہنے کے بعد وہی سیل فون بجا اور اس پر میسج آ گیا ۔ ایک بیوٹی پارلر میںجانے کو کہا گیا ۔ کچھ دیر بعد وہ وہاں تھا۔ اس وقت وہان کوئی خاتون گاہک نہیں تھی ۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون نے مسکراتے ہوئے اس کا استقبال کیا ۔ اس نے وہاں ہینگر میں پڑے کپڑے اسے تھما دئیے ۔ 
دوپہر کے دو بجے کا وقت تھا ۔نارائن سیاہ رنگ کی کار کو خود ہی ڈرائیو کرتا ہوا جا رہا تھا۔اس کے چہرے پر ذرا سی تبدیلی تھی ۔ اس نے نقلی مونچھیں لگائی ہوئیں تھیں۔اور بھنوئیں کچھ زیادہ تھیں ،اس نے آ نکھوں پر سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا۔ہلکے نیلے رنگ کی چیک دار شرٹ اور سیاہ پتلون پہنے وہ کسی آ فیسر جیسا دکھائی دے رہا تھا ۔ اس کے انداز میں بڑا سکون تھا۔وہ گل مہر روڈ پر تھا جا ہلکا ہلکا دائرے میں جارہاتھا۔ اسے آزاد نگر جانے والے روڈ پر مڑنا تھا۔اس نے گھڑی دیکھی ، وہاں پہنچنے میں اسے زیادہ سے زیادہ تین منٹ درکار تھے ۔ وہ جیسے ہی روڈ پر پہنچا، اسے سامنے بلڈنگ دکھائی دی جہاں اس نے جانا تھا ۔ اس نے کار پارکنگ میں لگائی اور کار لاک کئے بنا باہر نکل آ یا۔ اس بلڈنگ میں کاروبار ہوتا تھا ۔ اس لئے کافی لوگوں کا رش تھا۔ یہ ممکن ہی نہیںتھا کہ وہاں پر سی سی ٹی وی کیمرے نہ لگے ہوتے ۔ اس نے غیر محسوس انداز میں ارد گرد دیکھا، اسے دو آ دمی دکھائی دئیے، جن کی تصویر اور کپڑے تک اس نے ویڈیو میں دیکھے ہوئے تھے ۔ اسے معلوم تھا کہ یہ اس کے کور کے لئے ہیں ۔انہیں اس وقت تک کچھ نہیں کرنا تھا ، جب تک نارائن کو کوئی خطرہ نہ ہوتا۔وہ بلڈنگ کے اندر چلا گیا۔ وہی دو آ دمی اس سے پہلے ہی لفٹ کے سامنے جا پہنچے ۔ انہوں نے لفٹ کا بٹن دبایا اور انتظارر کرنے لگے ۔ وہ نارائن کو اس طرح کور کئے ہوئے تھے کہ اگر وہ سی سی ٹی وی کیمرہ میں آ بھی رہے ہوں تو نارائن کا چہرہ دکھائی نہ دے ۔
وہ لفٹ میں داخل ہو گئے ۔ نارائن ان کی طرف پشت کر کے کھڑا ہوگیا۔ اگلے ہی لمحے اس کی پشت میں لگے تین پسٹل میں سے دو انہوں نے غیر محسوس انداز میں نکال لئے۔ وہ تینوں چوتھی منزل تک جا پہنچے ۔وہ دونوں اس کے آگے آگے تھے ، وہاں اس راہداری میں کوئی بندہ دکھائی نہیں دیا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے وہاں پر چھٹی ہو ۔ وہاں پر بڑی بڑی کمپنیوں کے آ فس تھے ۔ جلد ہی انہیں اپنی مطلوبہ کمپنی کا دآفس دکھائی دے گیا۔ وہ دونوں آفس کے اندر چلے گئے ۔
ایک منٹ کے وقفے کے بعد نارائن بھی اندر چلا گیا ۔ آفس کے اندر کا ماحول بڑا خاموش سا تھا۔ وہ دونوں آ دمی ایک شخص کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے تھے اور اس سے باتیں کرنے لگے ۔ نارائن اس آ فس کا سارا ماحول ویڈیو میں دیکھ چکا تھا۔ یہ سمجھنے میں بالکل بھی پریشانی نہیں ہوئی کہ اس نے کدھر جانا ہے ۔وہ لنچ ٹائم تھا ، کافی لوگ وہاں نہیں تھے ۔ وہ سیدھا چلتا ہوا اس کمپنی کے مالک کے آفس میں جا پہنچا۔ وہ موٹا مالک ایک صوفے پر لیٹا ہوا تھا۔یہ وقت چنا ہی اس لئے گیا تھا کہ وہاں لوگ کم ہوتے تھے ۔کمپنی کا مالک کھانا کھا کر کچھ دیر کے لئے آ رام کرتا تھا، سب لوگ جانتے تھے اس لئے ایسے وقت میں ملاقاتی نہیں آ تے تھے ۔نیم تاریک کمرے میں وہ داخل ہوا تو ایک لمحہ کے لئے اسے کچھ دکھائی نہ دیا تھا ، اس نے جاتے ہی آ فس کی پشت والی دیوار میں بنی کھڑکی کا پردہ سرکا دیا۔ وہ موٹا آ دمی انتہائی غصے میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا ۔اس نے کچھ کہنا چاہا ہی تھا کہ نارائن اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔تبھی اس نے پوچھا
” ابے کون ہے تو ؟“
” مایا دیوی ۔“ نارائن نے سرسراتے ہوئے انداز میں کہا تو اس کی ہوا نکل گئی ۔ وہ یوں ہوگیا جیسے ابھی مر جانے والا ہو ۔ وہ ہکلاتے ہوئے بولا
” کک ....کک کیا بات ہے ، یوں تم کیسے اندر آ گئے ۔“
” تمہیں مارنے ؟“ یہ کہتے ہوئے اس نے پسٹل نکال لیا جس پر سائیلنسر لگا ہوا تھا ۔اس نے نال کمپنی کے مالک کے ماتھے پر رکھی تو نیم مردہ سا مری ہوئی آ واز میں بولا
” دیکھو ، مایا دیوی جو کہے گی میں مان لوںگا۔ ساری پراپرٹی ان جھونپڑ پٹی والوں کو واپس کر دوں گا ۔ “
”تو لاﺅ ، وہ فائل کدھر ہے ؟“ نارائن ے کہا
” ابھی دیتا ہوں ۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھاتونارائن بھی اس کے پیچھے ہی اٹھ گیا۔ وہ موٹا مالک میز کی دراز تک گیا۔ اس کی چابیاں دراز سے لیں اور ساتھ دیوار کے ساتھ رکھی ہوئی تجوری میں تیزی سے مطلوبہ چابی لگائی اور ایک فائل نکال لی ۔ نارائن نے فائل کی تصویر دیکھی ہوئی تھی۔ اس نے پھر بھی تصدیق کی۔ اس نے فائل کھولی ۔ اس میں دیکھا، اطمینان کرنے کے بعد پوچھا
” یہی فائل ہے یا....“
” بھگوان قسم یہی فائل ہے ،بس یہ....“ لفظ اس کے منہ ہی میں رہ گئے تھے ۔ نارائن فائر کرتے ہی تیزی سے پیچھے ہٹ گیا۔ وہ اپنے کپڑوں پر خون کے داغ نہیں لگنے دینا چاہتا تھا۔ اس نے پسٹل سامنے چھپایا۔ وہ بڑے آرام سے باہر نکل آیا ۔ 
 وہ دونوں ابھی تک وہیں تھے ۔نارائن اجنبی سے انداز میں ان کے پاس سے گزرا اور پھر آ فس سے باہر چلا گیا۔ ایک منٹ کے وقفے سے وہ دونوں بھی باہر آ گئے ۔ وہ لفٹ تک گئے ۔ یہی لمحے سب سے زیادہ رسک لینے والی تھے ۔اس دوران اگر موٹے کمپنی مالک کے قتل کا پتہ چل جاتا تو وہ لفٹ ہی میں پھنس کر رہ جاتے ان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ جانا تھا۔ وہ بجائے لفٹ کے سیڑھیوں کی جانب بڑھے اور پھر تیزی سے اترتے چلے گئے ۔انہیں لفٹ سے جانے کی نسبت تین منٹ زیادہ لگے ۔نارائن کو اس کا احساس بھی نہیںہوا ۔ وہ بڑے اطمینان سے کار میں بیٹھا اور پارکنگ سے نکال کر آ زاد نگر ہی کی جانب چل پڑا۔
ابھی وہ کچھ دور ہی گیا تھا کہ اس کا سیل فون بجا ۔ پھر اس کے ساتھ ہی میسج آ گیا۔ اس نے کھول کر پڑھا تولکھا تھا کہ جب تک خود کو محفوظ نہ سمجھو یہ سیل فون ضائع مت کرنااور جیسے ہی خود کو محفوظ سمجھو ۔اس میں موجود سرخ فولڈرکو کھولنا۔ نارائن نے اندازہ لگایا کہ وہ ساحلی ولاءسے تقریباً دس کلو میٹر ہی کی دوری پر ہے ۔ اس نے خود کو محفوظ سمجھا اور سرخ فولڈر کھول لیا۔ فولدر کھلتے ہی اسکرین تاریک ہو گئی ۔ وہ سمجھ گیا سیل فون کے کسی وائرس نے سارے فون کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔ یہ فون اب کسی کام کا نہیں رہا تھا ۔اس نے راستے میں جاتے ہوئے ایک کچرے کے ڈبے میں پھینک دیا۔
٭....٭....٭
تقریباً ایک ماہ گزر گیا۔ نارائن کے وہی دن اور راتیں تھیں ۔ اسے وہی کام تھا ۔ کھانا پینا ، کسرت کرنی اور سوجانا۔کبھی کبھار وہ اپنے تینوں ملازمین کے ساتھ گھومنے پھرنے کے لئے باہر بھی چلا جاتا۔ اسے یہ اجازت نہیں تھی کہ وہ کہیں بیٹھ کر ، کسی ریستوران سے کھا پی لیتا ۔وہ تینوں سائے کی مانند اس کے ساتھ رہتے تھے ۔
اس شام بھی وہ ڈنر کرکے اپنے بیڈ روم میں چلا گیا تھا۔ابھی وہ نیند میں جا ہی رہا تھا کہ اسے خوشبو محسوس ہو ئی ۔ اس نے جلدی سے آ نکھیں کھول دیں ۔ کمرے میں ہلکی سی روشنی تھی ۔اس نے ایک عورت کا ہیولا دیکھا، جو چلتا ہوا اس کے پاس آ گیا ۔وہ تیزی سے اٹھا تاکہ اس ہیولے کو پکڑ سکے ، تب تک وہ ہیولا اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اس کے بیٹھتے ہی سائید ٹیبل کالیمپ روشن ہو گیا۔ مدہم روشنی میں اس نے دیکھا ، ایک عورت اس کے ساتھ بیڈ کے دوسرے کنارے پر بیٹھی ہے ۔ مدہم روشنی میں وہ اس کے چہرے کو غور سے نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔ تبھی وہ عورت بولی 
” اتنا پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں ۔میں تمہارے لئے آ ئی ہوں ۔سنا ہے بہت ساری لڑ کیا ں تمہاری زندگی میں آئی ہیں ،اب ایک رات مجھے بھی آزما کر دیکھو ۔“
” کون ہو تم ؟“نارائن نے پوچھا
” یہاں اس ولاءمیں ،تمہارے بیڈ روم تک کس کی اجازت سے آ یا جاسکتا ہے ؟“
” مایا دیوی ۔“ نارائن نے ہلکے سے کہا تو وہ ہنس دی
” تو پھر تمہیں چنتا کس بات کی ہے ، سکون سے پڑے رہو ۔“وہ عورت خمار بھرے لہجے میں بولی اور اگلے ہی لمحے اس سے لپٹ گئی ۔ خوشبو نے جہاں نارائن کو مہکا کر رکھ دیا تھا، وہاں اس عورت کے جسم کی گرمی نے اس کے سارے بدن میں سنسناہٹ پھیل گئی تھی ۔ ان کے درمیان خاموشی چھا گئی تھی مگر ان کے بدن شور مچانے لگے تھے ۔نارائن کی حیرت لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جا رہی تھی ۔کسی کا بدن اتنا پر خلوص بھی ہو سکتا ہے ، اس نے یہ سوچا بھی نہیں تھا۔ تشنگی ، بے تابی اور جنون کے رنگ اس کے بیڈ پر بکھر رہے تھے ۔ یہاں تک کہ وہ تھک کر چور ہو گیا ۔سارا شور ایک سناٹے میں بدل گیا۔ایک طویل خاموشی کے بعد نارائن نے اس سے پوچھا
” کون ہو تم ؟“
اس پر وہ عورت بیڈ سے اٹھی ۔ اس نے کپڑے پہنے اور پھر اس نے کمرہ روشن کر دیا۔ نارائن کے سامنے ایک پتلی سی عورت کھڑی تھی ۔ بدن کے خدو خال بتا رہے تھے کہ جیسے انہیں تراشا گیا ہو ۔ صراحی دار لمبی گردن ، گول چہرہ اور بوائے کٹ بال ، چہرے کے نقوش کو اس نے گور سے دیکھا تو یوںلگا جیسے یہ چہرہ اس نے پہلے بھی کبھی دیکھا ہوا ہے ۔وہ عورت مسکراتی ہوئی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے تو وہ بولی 
” اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو ؟“ 
” یہی کہ میں نے تمہیں پہلے کہاں دیکھا ہے ۔“ نارائن نے اعتراف کیا 
” کچھ بھی یاد نہیں آ یا؟“ وہ منمناتے ہوئے بولی 
” مجھے یاد نہیں آ رہا ۔شاید ابھی یاد آ جائے ۔“اس نے بے چارگی سے کہا تو وہ ہنس دی ۔پھر ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولی 
” نارائن ، میں مایا دیوی کے بہت قریب رہنے والی ، ہر دم اس کے ساتھ رہنے والی ہوں ۔اس دنیا میں اسے صرف میںنے دیکھا ہے ۔“ اس کے سنسنی خیز انکشاف پروہ چونک کر اٹھ بیٹھا ۔
” کون ہے وہ اور ....“ نارائن کے منہ سے بے ساختہ نکلا
” یہی تو ساری دنیا جاننا چاہتی ہے ۔اور جس دن دنیا کو یہ معلوم ہوگیا کہ وہ کون ہے ، اسی دن مایا دیوی کا وجود ختم ہو جائے گا ۔“ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا
” تو پھر تم مجھے کیوں بتا رہی ہو؟“نارائن نے جلدی سے پوچھا
” وہ اس لئے کہ مایا دیوی چاہتی ہے کہ تمہیں بتایا جائے ۔ ایسا فیصلہ کیوں کیا گیا، ممکن ہے بعد میں پتہ چل جائے ۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوئی اور پھر کہتی چلی گئی ،”جاننا چاہتے ہو مایا دیوی کیسے بنی ؟“
” ہاں ، کیسے بنی ؟“ اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا
”ایک لڑکی تھی ، یہی کوئی اٹھارہ سال کی تھی ، ابھی کالج میں پڑھ رہی تھی ۔جہاں وہ رہتی تھی وہیں کے آس پاس رہنے والے کچھ غنڈوں نے اس کا ریپ کر لیا۔اس نے شور نہیں مچایا ، اس دکھ کو سہہ گئی۔ اس نے صرف اپنی ماں کو بتایا۔اس کی ماں نے فوراً اس کی شادی کا بندوبست کر دینا چاہا۔ وہ لڑکی اپنے کالج فیلو کو چاہتی تھی ۔ اس نے کوشش کی کہ کسی طرح اس کے ساتھ شادی ہو جائے ۔مگر نہ ہو سکی ۔ جہاں اس کی ماں نے کہا، اس ے وہاں شادی کرنا پڑی ۔ وہ سسرال چلے گئی ۔“
”پھر ....“ وہ بولا
”اس کا پتّی بہت خبیث نکلا ۔وہ اس سے اونچے لیول کا دھندہ کروانا چاہتا تھا ۔وہ چھوٹا موٹا ٹھیکیدار تھا ، بڑا ٹھیکیدار بننے کے لئے اپنی پتنی کو آفسیروں کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا ۔اسے مارا پیٹا، اور اسے غنڈوں کے ریپ کی ساری کہانی سنا دی ۔ وہ ریپ بھی اسی نے کروایا تھا تاکہ اس کی ماں اسے اسی کے ساتھ بیاہ دے ۔ ان کے پاس دوسرا آ پشن ہی نہ رہے ۔وہ لڑکی بے بس ہو گئی ۔ اس کے پاس فرارکا کوئی راستہ نہیں تھا۔“ وہ عورت یہ کہتے ہوئے ایک دم سے خاموش ہو گئی 
” کیا کیا پھر اس لڑکی نے ؟“ اس نے پوچھا
” انہی دنوں اس کی ملاقات اپنے کالج فیلو سے ہوئی ۔ اس نے اپنا سارا دکھڑا اسے سنا دیا اور مدد مانگی کہ کسی طرح اس کے پتی سے اس کی جان چھوٹ جائے ۔اس کے کلاس فیلو سے اور تو کچھ بن نہ پڑا، اسے یہی کہا کہ چند دن تک تمہارے شوہر سے تمہاری جان چھوٹ جائے گی ۔ پھر ایسا ہی ہوا ۔ ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا ۔ اس کا شوہر کسی کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ اس لڑکی کو انشورنس کے علاوہ بہت پیسہ ملا ۔اس نے سب جمع کیا اور وہاں سے گھر بیچ کر کسی دوسری جگہ چلی گئی ۔یہ سب اس نے اپنے کلاس فیلو کے کہنے پر کیا۔“
” اس کلاس فیلو نے اسے جرم کے عاستے پر لگا دیا۔“ نارائن کو کہانی کچھ کچھ سمجھ میں آ نے لگی تھی ۔ 
” نہیں اس نے کچھ نہیں کیا۔وہ کمپیوٹر ہیکر تھا۔اس کی مدد سے لوگوں کا پیسہ چراتا تھا ۔کمپنیوں کے راز فروخت کرتا تھا اور لوگوں کو بلیک میل کرتا تھا۔ اس نے اس لڑکی کو کمپیوٹر پڑھنے کا کہا۔ وہ خود بھی اسے سمجھاتا اور سکھاتا۔اس لڑکی نے تین برس دن رات ایک کر دئیے ۔یہ سب لڑکے کے اپنے فائدے کے لئے تھا۔وہ لڑکی اس کی مددگار بن گئی ۔اس لڑکی نے ڈگری لی اور ایک سوفٹ وئیر کمپنی میں ملازمت کر لی ۔اسے وہاں جا کر پتہ چلا کہ زندگی کیا ہوتی ہے ۔ ایک کارپوریٹ آ فس میں اس کی ساری ناآسودہ خواہشیں جاگ اٹھیں ۔ اس نے اپنے کلاس فیلو کے ساتھ مل کر اپنی ایک چھوٹی سی کمپنی بنائی اور پھر دن رات محنت کرتے چلے گئے ۔“
” انہوں نے آپس میں شادی کر لی تھی ؟“ نارائن نے پوچھا
”ارے کہاں ، وہ ویسے ہی ایک دوسرے کے ساتھ خوش تھے ۔ دونوں ہی غربت کی پیداوار تھے ۔ انہیںبچے نہیںچاہیں تھے ۔وہ اس جھمیلے ہی میں نہیںپڑنا چاہتے تھے ۔اور یہ گھر کی زندگی وہ چاہتے ہی نہیں تھے ۔ خیر ۔! ایک دن اس لڑکی کا کلاس فیلو بلیک میلنگ کے چکر ہی میں مارا گیا۔اس دن اس لڑکی کو سوچ آ ئی کہ جرم کی دنیا میں اگر رہنا ہے تو ایک طاقت بن کر ، ورنہ خاموشی سے نکل جائے ۔“ یہ کہہ کر وہ عورت خاموش ہو گئی 
” پھر کیا فیصلہ ہوا ؟“ اس نے پوچھا
” یہی کہ وہ اس دنیا سے اب نہیں نکل سکتی، مگر طاقت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتی ۔ اس کے پاس صرف ایک ہی راز تھا کہ جس طرح اس کیاپنی ناآسودہ خواہشیں اس کی طاقت بن گئیں ، اسی طرح نجانے کتنے لوگ اپنی حسرتیں ، خواہشیں اور امیدیں لئے پھرتے ہیں۔ بس ان ہیں استعمال کر لیا جائے ۔ اس نے ابتدا اپنے ہی آ فس سے کی ۔ ان لوگوں کو نوازنا شروع کر دیا ۔وہ جتنی طاقتور ہوتی چلی گئی ، اس نے اتنا ہی خود کو چھپا لیا۔“یہ کہہ کر وہ عورت خاموش ہو گئی ۔ اس پر نارائن نے پوچھا
”اس کا مطلب ہے مایا دیوی کسی آئی ٹی کمپنی کی مالک ہے ؟“‘ 
” ایک نہیں اب تو کتنی ہیں ۔وہ اپنی دولت کے تین حصے کرتی ہے، ایک اپنے لئے ، دوسرا اپنے لوگوں کے لئے اور تیسرا مایا دیوی کی حفاظت کے لئے ۔اس کا حکم کئی جگہوں سے ہوتا ہوا کسی تک جا پہنچتا ہے ۔ وہ کبھی کسی کے سامنے نہیں آ ئی ۔“ یہ کہہ کر وہ عورت مسکرا دی ۔
”میرا سوال وہیں ہے ، وہ مجھ پر اتنی مہربان کیوں ہے ؟“
” یہ تم خود سے کیوں نہیں پوچھتے ہو ؟ کوئی وجہ تو ہوگی ۔“ اس عورت نے کہا اور صوفے سے اٹھ کھڑی ہوئی ۔
” کہاں چل دی ہو ، ابھی تو رات باقی ہے ۔“ اس نے عورت کے بدن کو دیکھتے ہوئے کہا تو اس نے اپنا پرس اٹھایا، اس میں سے ایک سیل فون نکال کر وہیں سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں بولی 
”مجھے جانا ہوگا ۔ یہ سیل فون رکھ دیا ہے ۔ کل دس بجے ، اسی طرح ولا ءسے دور جا کر کھولنا۔“ یہ کہہ کر اس نے حسرت سے نارائن کو دیکھا اور پھر مڑ کر بیڈ روم سے نکلتی چلی گئی ۔جب تک وہ کپڑے پہن کر باہر نکلا، وہ پورچ میں موجودایک شاندار کھڑی گاری میں بیٹھ کر چلی گئی ۔نارائن واپس اپنے بیڈ پر آیا ۔ اس نے سیل فون دراز میں رکھ کر وقت دیکھا ، رات ختم ہونے والی تھی ۔ وہ حسب معمول سب کچھ بھلا کر سو گیا۔
٭....٭....٭
نارائن ولاءسے دس کلومیٹر سے بھی زیادہ فاصلے پر چلا گیا۔ اس نے جوہو ساحل کی ایک پارکنگ میں کار روکی اورٹہلتا ہوا ساحل پرچلا گیا۔وہ ایک پتھر پر بیٹھ گیا۔جیب سے سیل فون نکالا اور اسے کھول لیا۔پہلے کی طرح ایک ہی نمبر تھا اور اسی سے میسج بھی آیا ہوا تھا۔جس مین یہ کہا گیا تھا کہ اس میں ایک ہی ویڈیو ہے اسے غور سے دیکھنا۔اس نے ویڈیو چلایا تو اس میں وہی رات والی عورت تھی ۔وہ کہہ رہی تھی 
” نارائن ، مجھے یہ دکھ ہمیشہ رہے گا کہ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔کبھی سمیتا دیوی تمہاری محبوبہ ہوا کرتی تھی ، کیا تم نے مجھ میں کچھ بھی محسوس نہیں کیا۔ مہیش بے غیرت نکلا تھا ۔وہ ساری کہانی میری ہے جو میں نے تمہیں سنائی ۔ کہیں بھی تم نے اپنا پن محسوس نہیں کیا۔میں اتنی بدل گئی ہوں؟ میں مانتی ہوں کہ اپنی شخصیت بدلنے کے لئے میں اپنا چہرہ پلاسٹک سرجری سے تھوڑا سا بدل لیا، مگر محبت کرنے والے تو سانسوں سے پہچان لیتے ہیں ۔جب مجھے ہوش آ یا تو سب سے پہلے میںنے تجھے تلاش کیا ۔جبکہ تم نشے میںگم ہو چکے تھے ۔ میںنے تمہیں بڑی آسائش والی زندگی دینا چاہی مگر تم ہر بار خود ہی انکار کرتے رہے ۔میری محبت نے اس دن جوش مارا تھا جب تم نے ایک عام سی کال گرل کو میرا نام دیا تھا۔میںنے اسے فلم سٹار بنا دیا۔تم نے اچھا کیا اسے قتل نہیں کیا۔ جو فائل میںنے تم سے منگوائی وہ گنگا نگر کے واسیو کی تھی ۔ میں تمہارے ساتھ اس دنیا میں رہنا چاہتی تھی ، مگر تم نے مجھے پہچانا ہی نہیں ۔ پہچان جاتے تو یہ ویڈیو نہ دیکھ رہے ہوتے ۔ خیر،اس ویڈیو کے ختم ہو جاتے ہی یہ سیل فون بے کار ہو جائے گا ۔تم اب واپس ولاءنہیںجاسکتے ۔ تم نے میری طاقت کا اندازہ لگا لیا ہے لیکن اس جرم کی دنیا میں مجھ سے بھی بڑے بڑے بلکہ بہت بڑے مجرم پڑے ہیں ۔ میں بھی ایک دن راز بن جاﺅں گی۔ تم پلٹ کر گنگا نگر چلے جاﺅ ۔ تمہارے دوست مانّے کو میں وہ فائل دے دی ہے ۔ وہ وہیں ہے گنگا نگر ، تم بھی وہیں جا کر لوگوں کی خدمت کرو، یہی تم جھونپڑ پٹی والوں کی قسمت ہے۔“
ان لفظوں کے ساتھ ہی ویڈیو ختم ہو گیا۔ایک لرزا ہوا اور اسکرین تاریک ہو گئی ۔ بالکل اس کی قسمت کی طرح ۔ وہ چند لمحے فون کو دیکھتا رہا اور پھر زور سے سمندر میں پھینک دیا۔
٭....٭....٭

4 comments:

  1. کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہتے ہیں؟
    گردہ؟ تم ہو
    اپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ڈھونڈنا
    مالی خرابی کی وجہ سے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے
    کیا ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اچھی پیش کش کریں گے
    آپ کے گردے کے ل money $ 400،000 ڈالر کی رقم۔ میرا نام ڈاکٹر مارٹن ہے
    مارٹن ہاسپٹل میں نیفروولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال ہے
    گردے کی سرجری میں مہارت حاصل ہے اور ہم بھی اس سے نمٹتے ہیں
    ایک زندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوندکاری
    اسی ڈونر
    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائشیا ، دبئی میں واقع ہیں
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم نہ کریں
    ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں سنکوچ کریں.
    ای میل: martenhospital@gmail.com

    نیک تمنائیں

    DR MARTEN

    ReplyDelete
  2. کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہتے ہیں؟
    گردہ؟ تم ہو
    اپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ڈھونڈنا
    مالی خرابی کی وجہ سے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے
    کیا ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اچھی پیش کش کریں گے
    آپ کے گردے کے ل money $ 400،000 ڈالر کی رقم۔ میرا نام ڈاکٹر مارٹن ہے
    مارٹن ہاسپٹل میں نیفروولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال ہے
    گردے کی سرجری میں مہارت حاصل ہے اور ہم بھی اس سے نمٹتے ہیں
    ایک زندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوندکاری
    اسی ڈونر
    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائشیا ، دبئی میں واقع ہیں
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم نہ کریں
    ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں سنکوچ کریں.
    ای میل: martenhospital@gmail.com

    نیک تمنائیں

    DR MARTEN

    ReplyDelete
  3. کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہتے ہیں؟
    گردہ؟ تم ہو
    اپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ڈھونڈنا
    مالی خرابی کی وجہ سے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے
    کیا ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اچھی پیش کش کریں گے
    آپ کے گردے کے ل money $ 400،000 ڈالر کی رقم۔ میرا نام ڈاکٹر مارٹن ہے
    مارٹن ہاسپٹل میں نیفروولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال ہے
    گردے کی سرجری میں مہارت حاصل ہے اور ہم بھی اس سے نمٹتے ہیں
    ایک زندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوندکاری
    اسی ڈونر
    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائشیا ، دبئی میں واقع ہیں
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم نہ کریں
    ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں سنکوچ کریں.
    ای میل: martenhospital@gmail.com

    نیک تمنائیں

    DR MARTEN

    ReplyDelete

  4. گردہ؟ تم ہو
    اپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ڈھونڈنا
    مالی خرابی کی وجہ سے اور آپ نہیں جانتے کہ کیا کرنا ہے
    کیا ، پھر آج ہم سے رابطہ کریں اور ہم آپ کو اچھا پیش کریں گے
    آپ کے گردے کے ل money ،000 400،000 ڈالر کی رقم۔ میرا نام ڈاکٹر مارٹن ہے
    مارٹن ہاسپٹل میں نیفروولوجسٹ ہوں۔ ہمارا ہسپتال ہے
    گردے کی سرجری میں مہارت حاصل ہے اور ہم بھی اس سے نمٹتے ہیں
    ایک زندہ کے ساتھ گردوں کی خریداری اور پیوندکاری
    اسی ڈونر
    ہم ہندوستان ، ترکی ، امریکہ ، ملائشیا ، دبئی میں واقع ہیں
    اگر آپ گردے بیچنے یا خریدنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو براہ کرم نہ کریں
    ای میل کے ذریعے ہم سے رابطہ کرنے میں سنکوچ کریں.
    ای میل: martenhospital@gmail.com

    نیک تمنائیں

    DR MARTEN

    ReplyDelete

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *