Wednesday 30 August 2017

شہ مات

                                                  شہ مات 

امجد جاوید


شہر کے ماحول سے ہٹ کر مضافات میں وہ نئی پوش آبادی تھی۔ جدید طرز کے بنگلوں میں آشیانہ بھی ایک ایسا بنگلا تھا جو اپنے مکینوں کی امارت کا مظہرتھا۔ بیرونی گیٹ سے سیاہ تارکول کی سڑک پورچ سے ہوکر دوسرے آہنی گیٹ پر جاکر ختم ہوجاتی تھی۔ درمیان میں سبز لان تھا۔ سامنے لمبی دومنزلہ عمارت تھی جس کے عقب میں بڑے بڑے سبز قطعات تھے۔ ایک جانب لان ٹینس کورٹ پھر لان اور اس کے آخر میں سوئمنگ پول تھا۔
اوائل فروری کی دھوپ میں سوئمنگ پول سے ملحق لان میں سمیرا افضل سفیدرنگ کی نرم کرسی پر بیٹھی ہوئی انگریزی اخبار پڑھنے میں مگن تھی۔ا گرچہ وہ پینتیس سال کی تھی لیکن اس نے اپنے بالوں میں آئی ہوئی چاندی کو نہیں چھپایا تھا۔ متناسب جسم اور قبول صورت تو تھی مگر اس کے چہرے پر زخم کی ایک لکیر تھی جو دائیں آنکھ کے کونے سے ٹھوڑی تک تھی۔ زخم کی اس لکیر نے جہاں اس کے چہرے کے حصے کو بدنما کردیا تھا، وہاں اس کی زندگی میں آنے والی خوشیوں پر بھی لکیر پھیر دی تھی۔ پھر وقت کے ساتھ اس کے اور خوشیوں کے درمیان ایک لکیر ہی کھنچی رہی جسے وہ پار نہ کرسکی۔
ان دنوں وہ یونیورسٹی سے کامرس کی تعلیم حاصل کرکے اپنے پاپا افضل علی رندھاوا کے ساتھ بزنس میں شامل ہوگئی تھی جبکہ باپ کی خواہش تھی کہ اس کی جلداز جلد شادی ہوجائے۔ اس کا ایک جاگیردار دوست اپنے بیٹے کے لیے اس کا طلب گار تھا۔ کسی بھی فیصلے کے لیے حتمی بات کرنا ابھی باقی تھی۔ انہی دنوں وہ اپنے والدین کے ساتھ اپنی آبائی زمینوں پر جارہی تھے کہ ایک ٹریکٹر کی ٹکر لگنے سے ان کی فوروھیل جیپ حادثے کا شکار ہوگئی۔ اس کاباپ تو وہیں دم توڑ گیا جبکہ ماں اسپتال میں اس دنیا کو چھوڑ گئی۔ اسے جب ہوش آیا تو دونوں کی تدفین ہوچکی تھی۔ یہ حادثہ اس کے جسم پر ہی نہیں، اس کی زندگی میں بھی زخم بھرگیا۔ وہ اور اس کا سولہ سالہ بھائی دونوں رہ گئے۔ اس کا چھوٹا بھائی اذلان علی رندھاوا لندن میں پڑھ رہا تھا۔ وہ اس حادثے کا سن کر واپس آچکا تھا۔ جس دن وہ اسپتال سے ڈسچارج ہوکر گھرواپس آئی اورپہلی بار آئینے کا سامنا کیا تو اس کا دل لہو لہوہوگیا۔ اس کا سارا حسن اس لکیر نے ختم کرکے رکھ دیا تھا۔ تبھی اس نے کئی فیصلے کرڈالے۔
اس کا پہلا فیصلہ یہی تھا کہ وہ زندگی بھر شادی نہیں کرے گی۔ اپنی زندگی اپنے بھائی کے لیے وقف کر دے گی اور اسے اعلیٰ مقام دلائے گی۔ جب تک وہ لندن سے تعلیم مکمل نہیں کرلیتا اور واپس آکر بزنس کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہوجاتا، اس وقت تک وہ پوری تندہی اور یکسوئی سے اپنے باپ کا بزنس سنبھالے گی۔ اپنی آبائی زمینوں کی حفاظت کرے گی۔ اذلان علی اپنے والدین کے کھوجانے پر بہت آزردہ تھا۔ سمیرا نے اسے واپس لندھ بھیجنا چاہا مگر وہ نہیں گیا۔ تاہم اس نے اپنے باپ کا بزنس سنبھال لیا۔ اذلان نے زیادہ تعلیم حاصل نہ کی، بہ مشکل بی اے تک پہنچا۔ وہ خود بہ خود سیاسی میدان میں آتا چلا گیا پھر وقت کے ساتھ سمیرانے بھی اسے سیاست ہی میں لانے کا فیصلہ کرلیا۔ پھر جب وہ بزنس کے ساتھ ساتھ سیاست کو بھی سمجھنے لگا اور ایم این اے کی نشست جیت گیا تو سمیرا نے بھی سب کچھ اسے سونپ دیا۔ وہ اپنے بھائی پر نازاں تھی کہ جس نے بہت کم وقت میں نہ صرف سب کچھ سنبھال لیا تھا بلکہ علاقے میں بھی اپنی ساکھ بنالی تھی۔ تقریباً ایک سال سے وہ اپنا سب کچھ سونپ کر تنہائی کی زندگی گزاررہی تھی اور انہی دنوں وہ اس بنگلے میں شفٹ ہو گئی تھی۔
اس دن بھی وہ معمول کے مطابق ناشتے سے فراغت کے بعد لان میں بیٹھی اخبار پڑھ رہی تھی جب اخبار کا صفحہ پلٹتے ہوئے اس نے اذلان کو اپنی طرف آتے دیکھا۔ اس نے اخبار تہ کرکے میز پر رکھا اور دلچسپی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ وہ لمبے قد، بھاری جثے اور بارعب شخصیت کا مالک تھا۔ اس وقت نیوی بلیو سوٹ میں ملبوس تھا جس کے ساتھ اس نے گرے کلر کی ٹائی لگائی ہوئی تھی۔ وہ بڑے ادب کے ساتھ اس کے سامنے والی کرسی پر آکر بیٹھ گیا تو سمیرا نے بڑے پیار سے پوچھا۔
”خیریت تو ہے نا اذلان! آج تم آفس جانے کے بجائے میرے پاس آبیٹھے؟“
”خیریت ہی ہے آپی۔ وہ دراصل میں رات دیر سے آیا تھا، آپ سوچکی تھیں۔ میری آنکھ بھی اب دیر سے کھلی تو خیر، مجھے آپ سے ایک بات کرنا تھی۔“ وہ قدرے تذبذب سے بولا۔
”کوئی بہت ہی اہم بات ہے تو کرلو ورنہ ہم شام کے وقت کرلیں گے۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”نہیں، ابھی کرنی ہے۔“اس نے تیزی سے کہا تو وہ کرسی پر پہلو بدلتے ہوئے ہمہ تن گوش ہوگئی۔
”آپی! آپ کو تو معلوم ہے کہ میں حکومتی پارٹی میں اپنا اثررسوخ رکھنے کے باعث کافی مراعات لے رہا ہوں۔ میں چند مہینوں سے ایک پراجیکٹ کے پیچھے لگا ہوا تھا۔ وہی نئی انڈسٹری لگانے کے لیے جس کے بارے میں آپ کو بتایا تھا۔“اس نے کافی حد تک اعتماد سے کہا۔
”ہاں، وہ تو ٹھیک ہے لیکن تم کہنا کیا چاہ رہے ہو؟“ اس نے اصل مدعا جاننا چاہا تو وہ بولا۔
”مجھے فارن ٹور کی آفر ہوئی ہے۔ جس میں نہ صرف چھ ملکوں کی سیر کرلوں گا بلکہ بہ آسانی نئی انڈسٹری بھی لگاسکتا ہوں۔ دو ڈھائی ماہ لگ جائیں گے تقریباً یورپ اور چھ ایشیائی ملکوں میں جانا ہوگا۔“
”تو جاﺅ، اس میں اتنا پریشان ہونے کی ضرورت کیا ہے؟“
”پریشانی یہ ہے کہ میری غیر حاضری میں آپ یہاں کے معاملات کو دیکھ لیا کریں تو میں پرسکون ہوکرجاﺅں گا ورنہ“ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑدیا۔
”تمہاری بات سمجھ میں آتی ہے لیکن ذرا سوچو اذلان میں اگر نہ رہی تو پھر تم کیا کرو گے؟“ اس نے سرد لہجے میں مایوسی بھرے انداز میں کہا تو اس نے تیزی سے غصے میں کہاجیسے وہ اس کی بات سن کر تڑپ گیا ہو۔
”آپی! یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟“
”میرا مطلب ہے تم خود پر بھروساکیوں نہیں کرتے؟ تم اگر نہیں سنبھال سکتے تو یہ سب اتنا پھیلاﺅ کیوں کررہے ہو؟ جو ہے اسے سنبھالو، زیادہ کا لالچ مت کرو۔ اور تم کیا کررہے ہو؟ کیا تمہارے پاس ایسے بندے بھی نہیں ہیں جن پر تم اعتماد کرکے کہیں جاسکو؟ مجھے افسوس ہے اذلان! تم اب تک اپنے ارد گرد ایسے بندے بھی نہیں بناسکے ہو۔“
”آپی! میرا مطلب یہ نہیں کہ آپ بزنس کو یا زمینوں کی دیکھ بھال دوبارہ سنبھال لیں۔ صدیقی صاحب ہیں جو بزنس دیکھتے ہیں، نجیب اللہ ہے جو زمینوں کے اور یہاں کے معاملات دیکھتا ہے۔ میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ جو اتنے ڈھیر سارے ملازمین ہیں، انہیں کم از کم یہ احساس رہے کہ ان کے مالکان ان کے سرپر ہیں۔ میں جہاں بھی ہوں ان سے، آپ سے رابطہ رکھوں گا۔“اس نے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اذلان! میں اپنی اس پرسکون زندگی میں بہت خوش ہوں۔ اس سے نکلنا بہت مشکل تو ہوگا لیکن خیر تم جاﺅ، میں دیکھ لوں گی مگر میری ایک شرط ہے۔“اس نے اپنے لبوں پر مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا۔
”وہ کیا؟“ اس نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”یہی کہ جیسے ہی تم واپس آئے، میں تمہاری شادی کردوں گی ۔ اگر تمہاری کوئی پسند ہے تو بتادو ورنہ میں اس دوران کوئی لڑکی پسند کرلوں گی۔“
”اوہ!“یہ کہتے ہوئے وہ ہنس دیا پھر بولا۔ ”ابھی تک تو میری کوئی پسند نہیں ۔ یہ حق آپ کا ہے، آپ جو مرضی کریں۔“اس نے لاڈ سے کہا تو سمیرا اخبار اٹھاتے ہوئے بولی۔
”کب جانا ہے؟“
”کل شام کی فلائٹ ہے۔ بس آج ٹکٹ اوکے کروانا تھے۔ اب آپ صائمہ سے کہہ کر میرا سامان تیار کروادیجیے گا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔
”اوکے، کہہ دوں گی۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا اور پھر سے اخبار پڑھنے میں مگن ہوگئی جیسے وہ سب کچھ معمول کے مطابق ہو۔
٭٭٭
سرسبز وشاداب دیہی علاقے میں ”نورنگر“ ایک چھوٹا سا گاﺅں تھا جس سے ایک کچی سڑک نکلتی تھی اور قریبی قصبے سے ملانے والی پکی سڑک سے جاملتی تھی۔ چھوٹے سے اس گاﺅں میں زندگی کی بنیادی ضرورتیں تو میسر تھیں لیکن بہت ساری ضروریات کے لےے قریبی قصبے میں جانا پڑتا تھا۔ جاتی ہوئی بہار کا رنگ وروپ ہر شے سے ظاہر ہورہا تھا۔ اس گاﺅں میں مہردین کا کچا گھر قدرے کھلا سا تھا۔اس کے دو ہی بچے تھے خرم اور ذکیہ ۔ دونوں ہی جوان ہوچکے تھے۔ خرم جس قدر کڑیل جوان، وجیہہ اور بانکا نکلا تھا ۔ ذکیہ بھی اسی طرح لمبی، جوان، خوب صورت اور الہڑ تھی۔ مہردین کو اگر خرم کے لیے روزگار کی فکر کھائے جارہی تھی تو اس کی بیوی آمنہ کو اپنی جوان بیٹی کی شادی کا غم مارے ڈال رہا تھا۔ معاشی طور پر ان کی حیثیت کچھ بھی نہیں تھی۔ مہردین ایک معمولی مالی تھا جو زمینداروں کے فارم ہاﺅس پر کام کرتا تھا۔ یہ مالکوں کی مہربانی تھی کہ اسے وہاں برسہا برس سے رکھا ہوا تھا۔ گھر میں چند مویشی تھے اور گزارہ ہورہا تھا۔
خرم بمشکل ایف اے تک تعلیم حاصل کرسکا تھا۔ قریبی گاﺅں کے ہائی اسکول سے میٹرک کرلیا تو پڑھنے کا جنون کم نہ ہوا۔ ایف اے کی پرائیویٹ تیاری کرکے امتحان دے کر پاس ہوگیا۔ شاید اس کے پڑھنے کا یہ جنون نہ ہوتا اگر اس کی بچپن کی منگیتر عائزہ سے اسے محبت نہ ہوتی۔ وہ اس کی ماموں زاد اور اکلوتی تھی جو بی اے کرلینے کے بعد استانی بن جانے کے خواب دیکھ رہی تھی۔ خرم نے بہت ہاتھ پاﺅں مارے کے مزید تعلیم حاصل کرے مگر غربت نے اس کی ایک نہ چلنے دی۔ مہردین اسے کام کاج کے لیے کہتا تو آمنہ اپنی بیٹی کے دکھڑے لے کر بیٹھ جاتی اور خرم اپنا سرپکڑ کر بیٹھ جاتا کہ آخر وہ کرے تو کیا کرے؟
اس دن بھی وہ اپنے دوست کے پاس جانے کے لیے گاﺅں سے قصبے جانے والی کچی سڑک پر سائیکل لے کر نکل گیا۔ اس کا ایک جگری دوست فرحان تھا جو اسی سڑک کے آس پاس اپنا ریوڑ چراتا تھا۔ وہ اس سے اپنے دل کی باتیں کرکے اور ہلکا پھلکا ہوکرگاﺅں واپس چلاجاتا تھا۔ وہ تیزی سے سائیکل چلاتا ہوا اس کے پاس پہنچ گیا۔ فرحان سڑک کے کنارے درخت کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ اسے دیکھتے ہی بولا۔
”اچھا ہوا تو آگیا۔ مجھے بڑی بھوک لگ رہی ہے۔ تو کچھ دیر ریوڑ کا خیال رکھ میں گھر سے کچھ کھاکر آتا ہوں۔“
”صرف کھا کر نہیں، میرے لیے بھی کچھ لے کر آنا۔“ اس بے لاپروا انداز میں کہا اور سائیکل کھڑی کر دی ۔
”کیوں آج پھر؟“ اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
”ہاں بس تو جا اور جلدی آ۔“اس نے وہیں درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے کہا جہاں کچھ دیر پہلے فرحان بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ایک نگاہ خرم پر ڈالی اور سائیکل لے کر چل دیا۔
اس کی نگاہ ریوڑ پر تھی لیکن تنہائی پاتے ہی سوچوں نے اسے گھیر لیا۔ اس دن بھی وہ حسب معمول چھت پر دن چڑھے تک لیٹا رہا تھا حالانکہ وہ کب کا جاگ چکا تھا۔ بس اپنے باپ کے کام پر جانے کا منتظرتھا۔ وہ آنکھیں موندے اپنے باپ کے غصے میں بھیگے لفظوں کا زہر اپنے کانوں میں انڈیلتا رہا ۔ وہ کہہ رہا تھا۔
”کام کا نہ کاج کا دشمن اناج کا۔ دیکھا، اب تک شہزادوں کی مانند پڑا سورہا ہے جیسے اس کا باپ کوئی مہاراجا ہو۔ میں اگر چار پیسے کما کر نہ لاﺅں تو اس گھرمیں فاقے ہوجائیں۔ ہر وقت سستی میں رہتا ہے ۔ کوئی فکر نہیں کہ باپ کا ہاتھ بٹانے کا سوچے۔ میں بوڑھا ہورہا ہوں، کب تک کمائی کرتا رہوں گا۔ بیگم! اگر کل کلاں کو میں آنکھیں موند لوں تو سن لو، تیرا تو بس اللہ ہی حافظ ہوگا۔ اس ناہنجار خرم سے کوئی امید نہ رکھنا ۔ خود بھی بھوکا مرے گا اور دوسروں کو بھی مارے گا۔“
”خدا کے لیے زبان سے اچھا، اچھا بولیں۔ یہ کیا ہر وقت اسے پھٹکارتے رہتے ہیں۔ بس میری ذکیہ کسی طرح اپنے گھر کی ہوجائے تو پھر چاہے مجھے موت آجائے۔ مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں ہوگی۔ میں نے سوچا تھا کہ یہ پڑھ لکھ کر کہیں نوکری کرے گا۔ گھر کے حالات اچھے ہوں گے تو اس کی بہن کا کوئی رشتہ بھی آئے گا اور عزت کے ساتھ اسے گھر سے رخصت کر دوں گی ۔“وہ دکھی لہجے میں بولی۔
”ہاں، یہ پڑھنے کا خوب کہا تو نے ۔ نہ اب کوئی مزدوری کرسکتا ہے اور نہ کہیں نوکری پر لگ سکتا ہے ۔ بے کار ہوگیا ہے یہ۔ اب تو کوئی اور ہی وسیلہ ہوگا، اس کی امید چھوڑدے۔“باپ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا تو ماں اس سے بھی زیادہ اکتائے ہوئے انداز میں بولی۔
”اچھا، تو جا کام پر، کیوں اپنا خون جلاتا ہے ۔ یہ روز کا رونا تو ہماری قسمت میں لکھا ہوا ہے ۔ ہماری تو تقدیر ہی پھوٹ گئی ۔ کس سے گلہ کریں؟“
”جاتا ہوں، جاتا ہوں۔ اپنے لاڈلے سے کہنا کسی کام دھندے کی فکر کرے ورنہ میں کسی جگہ مزدوری پر رکھوادوں گا پھر مت رونا کہ میرا پڑھا لکھا بیٹا۔“
”روز تو کہتی ہوں پر خیر تم جاﺅ، پہلے ہی دیر ہوگئی ہے۔“
اور وہ آنکھیں بند کرکے سنتا رہا۔ روز کی طرح آج بھی اس نے اپنے باپ کی باتوں کو دل پر نہیں لیا تھا۔ باپ کے جانے کے بعد وہ چھت سے اترا تو ماں معمول کے مطابق بڑبڑانے لگی ۔ وہ خاموشی سے نہایا دھویا، کپڑے پہنے اور عائزہ کے گھر کی طرف چل دیا۔ اسے احساس تھا کہ وہاں سے ناصرف کچھ کھانے کو مل جائے گا بلکہ چند باتیں کرکے وہ پرسکون بھی ہوجائے گا۔ عائزہ گھر میں اکیلی ہی تھی ۔ وہ دبلی پتلی، تیکھے نقوش والی حسین لڑکی تھی جس کے چہرے پر فطری معصومیت تھی۔
”ماموں تو خیر کام سے گئے ہوئے ہوں گے، ممانی کہاں ہیں؟“
”ہمسائیوں کے ہاں گئی ہیں۔“عائزہ نے کہا تو خرم چونک گیا۔ اس کا لہجہ اجنبی تھا۔ اس نے غور سے عائزہ کودیکھا۔ وہ ہلکے کانسی رنگ کے شلوار سوٹ کے ساتھ بڑا سا آنچل لیے کافی حد تک سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی۔ وہ دھیمی دھیمی سی من کو سلگانے دینے والی مسکراہٹ نہیں تھی بلکہ مایوسی کی پرچھائیاں بکھری ہوئی تھیں۔ جسے محسوس کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
”خیریت تو ہے عائزہ! تم“
”ہاں خرم، میں پریشان ہوں۔ جس طرح پھپو ذکیہ کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں نا، میرے والدین بھی اسی طرح فکرمند ہیں۔ میں نے بی اے کا امتحان دے دیا ہے اور جلد ہی استانی بھی لگ جاﺅں گی لیکن تم تو کچھ بھی نہیں کرتے ہو۔ کیا مستقبل ہے تمہارا؟“ وہ ٹوٹتے ہوئے لہجے میں مایوسی بھرے انداز میں بولی۔
”دیکھو ابھی تو میں خود اپنے مستقبل کے بارے میں نہیں جانتا لیکن تم میر ی محبت پر بھروسا رکھو ۔ میں کچھ نہ کچھ کرلوں گا۔“اس نے امید بھرے انداز میں محبت سے لبریز لہجے میں کہا تو وہ دکھی لہجے میں بولی۔
”اس میں کوئی شک نہیںہے خرم کہ میں تم سے شدیدمحبت کرتی ہوں۔ تمہارے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی کیونکہ میں نے تمہیں ہی چاہا ہے۔ بچپن سے تمہارا نام میرے نام کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس لیے تو میں تمہیں آنے والے کل کے بارے میں آگاہ کررہی ہوں۔ اگرمیرے والدین نے اپنا فیصلہ بدل دیا تو پھر کیا کرو گے کیا میں اپنے والدین کے خلاف بغاوت کر دوں بولو؟“اس نے جذباتی اندا زمیں کہا تو وہ بھنا کر بولا۔
”عائزہ! ہر بندے نے مجھے نکما، احمق اور بے وقوف سمجھا ہوا ہے ۔ کیا میں نہیں چاہتا کہ میں کوئی کام کروں؟چار پیسے کماﺅں؟ ہر بندے کی باتیں سنوں اور خوامخواہ ذلیل وخوار ہوتا رہوں؟ نہیں، میں بھی کام کرنا چاہتا ہوں ۔میری بھی انا ہے مگر کرنے کو کچھ تو ملے۔“
”تمہیں کہاں کوئی معیاری کام ملے گا۔ محض ایف اے ہو، کوئی ہنر بھی تو نہیں ہے تمہارے پاس۔ کون دے گا تمہیں نوکری؟“عائزہ نے پریشانی سے کہا۔
”یہی تو میں بک رہا ہوں۔ اچھی نوکری کے لیے مجھے شہر جانا پڑے گا اور میرے والدین تو مجھے اتنا بھی افورڈ نہیں کرسکتے کہ شہر میں بے روزگاری کے دن گزارنے کے لیے کوئی زاد راہ ہی دے دیں ۔ یہاں گاﺅں میں تو کوئی ایسی نوکری نہیں ہے۔ مزید پڑھ نہیں سکتا میں کہ غربت اس کی اجازت نہیں دیتی۔ بتاﺅ تم ہی بتاﺅ کہ میں کیا کروں؟“ اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔
”جو کچھ بھی کرو، اپنے بارے ہی میں نہیں میرے بارے میں بھی سوچو۔ تمہاری بے روزگاری ہی ہمارے راستے کی دیوار ہے ۔ تم کمانے لگ جاﺅ گے، اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوجاﺅ گے تو میرے والدین بھی ہنسی خوشی مجھے تمہارے ساتھ بیاہ دیں گے۔ اور تم سوچ لو خرم کہ میں کسی دوسرے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔“ اس نے مرتعش لہجے میں حتمی طور پر کہا تو خرم چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر انتہائی مایوس لہجے میں بولا۔
”مجھے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ میں کیاکروں۔میرا تو جی چاہتا ہے کہ میں خود کشی کرلوں۔ مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ سارے عذابوں سے جان چھوٹ جائے گی۔“
”خدا نہ کرے خرم۔“عائزہ تڑپ کر بولی۔ ” تم ایسا کیوں سوچتے ہو؟ رب پر بھروسا کرو اورکچھ نہ کچھ کرو۔ میں استانی لگ گئی تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔ تم دل چھوٹا مت کرو۔“ اس نے ڈھارس دیتے ہوئے کہا۔ اس نے خرم کو ڈھارس دینے اور حوصلہ بڑھانے کے لیے بہت کچھ کہنا چاہا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ سب دلاسے ہیں ورنہ حقیقت بہت تلخ تھی۔ معاشی فکر نے ان کی محبت کی مٹھاس میں زہر گھول دیا تھا۔ خرم کو کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا تھا۔اس لیے وہ اٹھ کر جانے لگا تو عائزہ نے کہا۔
”تم بیٹھو تو سہی، امی آتی ہوں گی۔ میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں۔“
”نہیں، میں پھر آﺅں گا۔“یہ کہتے ہوئے وہ اپنی سائیکل اٹھا کر نکل گ یا۔
وہ درخت کے ساتھ ٹیک لگائے غم جاناں وغم دوراں کے تلخ حقائق سوچتا چلاجارہا تھا۔ وہ عائزہ کے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔ والدین کی تو روز سنتا تھا لیکن آج عائزہ نے اسے آئینہ دکھایا تو وہ خود اندر سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوگیا۔ وہ جو اس کی محبت تھی، اسے پانے کے لیے درمیان میں معاشی دیوار ایستادہ تھی۔ اسے توڑنا فی الحال اس کے بس میں نہیں تھا۔ وہ کیاکرے؟ یہی اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔
وہ انہی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ اسے تیز ہارن کی آواز سنائی دی۔ قصبے والی سڑک کی جانب سے ایک فوروھیل تیزی سے آرہی تھی جبکہ کچی سڑک کے درمیان میں ایک میمنا بے نیازی سے کھڑا تھا۔ بلاشبہ اس بے زبان نے جیپ کے تلے آکر کچل جانا تھا۔ خرم نے کچھ بھی سوچے سمجھے بغیر میمنے کو بچانے کے لیے چھلانگ لگا دی۔ وہ میمنے کو لیتا ہوا کچی سڑک کے دوسرے کنارے جاگرا۔ یہ سب لمحے میں ہوا۔ خرم کے ہاتھوں اور کہنی پر چوٹیں آئی تھیں اور کافی خراشیں بھی تھیں۔ اٹھتے ہوئے اس نے اپنے گھٹنے پر بھی چوٹ محسوس کی۔ وہ چوٹوں کے درد اور خراشوں کی جلن پر قابو پانے کی لاشعوری کوشش میں تھا کہ ذرا فاصلے پر جیپ گھرگھراہٹ کے ساتھ رک گئی۔ وہ لنگڑا تا ہوا اٹھ گیا۔ اتنے میں جیپ کا دروازہ کھلا اس میں سے سفید وردی میں ملبوس شوفر اترا۔ پہلے ایک خاتون نکلی پھر اس کے پیچھے گاگلز لگائے سمیرا افضل برآمد ہوئی۔ اس نے اپنے گاگلز اتارے اور حیرت سے خرم کو دیکھا اور جیسے چونک گئی۔ پھر کتنے ہی لمحے یوں دیکھتی رہی جیسے اس کی کوئی پرانی شناسائی ہو اور وہ اسے پہچاننے کی کوشش کررہی ہو۔ تبھی اس نے خلوص اور شناسائی بھرے لہجے میں پوچھا۔
”تمہیں چوٹ تو نہیں لگی، کیا ضرورت تھی اس طرح“ وہ کہتے کہتے رک گئی جیسے کوئی سخت لفظ کہنا نہ چاہ رہی ہو اور خود کو روک لیا ہو۔ خرم نے اس کی طرف دیکھا پھر بے پروا انداز میں کہا۔
”جان بچانی ہے میڈم! وہ چاہے جانور ہی کی کیوں نہ ہو۔ آپ جائیں پلیز اور میں معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو میری وجہ سے رکنا پڑا۔“یہ کہتے ہوئے اس کے چہرے پر کرب کا فطری تاثر پھیل گیا۔ سمیرا چند لمحے اس کو دیکھتی رہی پھر تیزی سے پلٹ کر جیپ میں جابیٹھی۔ شوفر بھی پلٹا اورپھر چند لمحوں میں وہ جیپ نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ خرم درخت کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس وقت وہ نہ صرف ذہنی بلکہ جسمانی تلخی بھی محسوس کررہا تھا۔ وہ اپنی قسمت کو کوس رہا تھا کہ وہ غریب کیوں ہے۔
٭٭٭
نورنگر کے دوسرے سرے اور گاﺅں سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر سمیرا افضل اپنے فارم ہاﺅس کے ایک کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی۔ اپنی آبائی زمینوں پراس کے بھائی نے کچھ برس قبل ہی فارم ہاﺅس بنوایا تھا۔ اس میں شاندار رہائش گاہ تھی۔ تقریباً سولہ ایکڑ زمین کی چاردیواری کے اندر چار ایکڑ پر دومنزلہ عمارت تعمیر تھی۔ اس سے ذرا فاصلے پر مخصوص مہمانوں کا ایک الگ بلاک تھا۔ وہ انہی کے لیے کھولا جاتا تھا جن میں وزیر، سفیر، اعلیٰ درجے کے بیورو کریٹ یا سیاست دان جو کسی نہ کسی حوالے سے اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوسکتے تھے۔ اس بلاک کی سجاوٹ اس نے بڑی منفرد رکھی تھی۔ باہرسے جدید دکھائی دینے والی عمارت کو اندر سے ان پرانی چیزوں سے سجایاگیا تھا جو اس کے والد کے زیراستعمال رہی تھیں۔ قدیم اشیا کو بہت نفاست سے سجایا گیا تھا۔سمیراافضل اپنازیادہ تر وقت اسی بلاک میں گزارتی تھی اور باقی سارا وقت رہائشی بلاک میں جہاں وہ اس وقت ایک کمرے میں گم صم بیٹھی ہوئی تھی۔ اس بار وہ یہی سوچ کر آئی تھی کہ چند دن پرسکون ماحول میں گزارے گی۔ وہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری کتابیں، میگزین اور ویڈیو فلمیں لائی تھی کہ تنہائی میں ان سے خوب لطف اندوز ہوگی لیکن یہاں آتے ہی وہ یکسر سب کچھ بھول گئی تھی۔ اسے یاد رہا تھا تو وہ لڑکا جس نے میمنے کو بچاتے ہوئے اپنی زندگی داﺅ پر لگادی تھی۔ اس لڑکے نے ایک دم ہی اس کو ڈسٹرب کرکے رکھ دیا تھا۔ یہاں تک کہ وہ جب سے فارم ہاﺅس آئی تھی، اپنے کمرے میں بند ہوکر رہ گئی تھی اور دوسرے بلاک تک نہیں گئی تھی۔
دوپہر سے شام ہوگئی اور سورج غروب ہوکر اندھیرا پھیل گیا۔ اس دوران اس نے فقط چائے کا ایک کپ پیا تھا۔ بس وہ تھی اور اس کی سوچیں تھیں۔ و ہ اپنی زندگی کے اس دور میں جاپہنچی تھی جب من میں محبت کے جذبات کونپل کی طرح پھوٹتے ہیں اور احساس کے ہرموسم کو بہار میں لپیٹ کر خوابوں کے جزیرے میں لے جاتے ہیں۔جہاں فقط پیار ہی کے رنگ بکھرے ہوتے ہیں۔ ان لمحوں میں وہ خود کو محبت کے ایسے ہی گمنام جزیرے کا باسی محسوس کررہی تھی۔ دل تھا کہ اس کے قابو سے باہر ہوگیا تھا۔ وہ خواب جو اس نے وقت کی پٹاری میں بند کرکے رکھ دیے تھے، وہ زہریلے ناگوں کی طرح اس کے سامنے پھن پھیلائے ہوئے تھے۔ ہر لڑکی کی طرح اس کا ایک آئیڈیل تھا۔ وہ بھی اپنی پسند کے لیے شدت پسند تھی جو اسے نہیں ملا تھا۔ کچھ شبیہات مختلف لڑکوں میں اسے ضرور ملی تھیں مگر یوں پوری طرح مجسم حالت میں اس کے خوابوں کا شہزادہ اس کے سامنے آجائے گا، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اس کے خوابوں کا شہزادہ اور اس لڑکے کے پہناوے میں فرق تھا۔ اس کے اندر شدت سے یہ خواہش ابھری تھی کہ کاش اس لڑکے کو ایک بار اپنی پسند کے روپ میں دیکھ لے۔ وہ حیران تھی کہ وہ ایسا کیوں سوچ رہی ہے؟ اچانک اس کے خیالوںکا ردھم ٹوٹ کر رہ گیا۔ اس کی خاص ملازمہ صائمہ اس کے سامنے کھڑی اسے پکاررہی تھی۔
”میڈم! آپ کہاں گم ہیں کیا ہوگیا ہے آپ کو؟“اس پر سمیرا نے سر اٹھا کر اسے دیکھا پھر حواسوں میں آکر ایک لمبی سانس لے کر جو بولی تو اس کے لہجے میں حالات کی تلخی، صدیوں کی تھکن اور تمناﺅں کا نوحہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا۔
”کیا تمہیں کبھی ایسا محسوس ہوا ہے صائمہ کہ جس ہیرے کی تمہیں تلا ش ہو مگر وقت، حالات اور موسم تمہارے خلاف ہوجائیں۔ خاک چھانتے ہوئے تم تھک ہار کر جاںبلب ہوکر مایوسی کی چادر اوڑھے وقت کے تپتے صحرا میں بس موت کے انتظار میں بیٹھ جاﺅ ۔حالات کا دھارا تمہیں منوا کر بے بس کرکے اس مقام تک لے آئے جہاں واپسی کا راستہ بھی نہ ہو۔ تم موت کی جانب بڑھ رہی ہو، موسم کی شدت میں گدھ تمہاری موت کا انتظار کررہے ہوں اور ایسے میں تمہیں اچانک وہ مطلوبہ ہیرا مل جائے تو پھر تم کیا کرو گی؟“صائمہ چونک گئی۔ اس کے سامنے کا نئی سمیرا افضل تھی۔ اس لیے حیرت زدہ نگاہوں سے چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی پھر گھٹنوں کے بل اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اس کے چہرے کو غور سے دیکھتے ہوئے بولی۔
”میڈم، آپ وہ نہیں جو شہرسے میرے ساتھ آئی تھیں۔ یہاں تک آتے ہوئے آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ پلیز مجھے بتائیں۔ آپ کا لہجہ“
”آج میں ہاری ہوں اپنے آپ سے۔“ سمیرا نے دکھ بھرے لہجے میں کہا۔ ”وہ خوش کن خیال جو میرے اندر موجود تھا، جس کے بارے میں جی رہی تھی، اپنے خواب بنتی تھی اور ان خوابوں میں اپنی مرضی کی زندگی جی رہی تھی۔ وہ آج چھین گیا مجھ سے۔ صائمہ! تم بتاﺅ، کیا خوابوں کی تعبیر اس قدر بھیانک ہوتی ہے؟“
”میڈم پلیز! مجھے بتائیں آپ کو ہو کیا گیا ہے ؟“وہ لجاجت سے بولی تو سمیرا کی آنکھوں میں ستارے چمک اٹھے، وہ آہستگی سے بولی۔
”وہ لڑکا جس نے میمنے کو بچایا تھا۔ وہ تم ایک لڑکی ہو صائمہ ۔ تم سمجھ سکتی ہو کہ ہر لڑکی خواب دیکھتی ہے اور اس کے خوابوں کا ایک شہزادہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے شہزادے کی شکل و شبیہات، وجاہت، انداز سب کچھ اپنی مرضی کابناتی ہے مگر اسے کبھی یہ یقین نہیں ہوتا کہ وہ اس دنیا میں کہیں موجود ہوسکتا ہے۔ کسی کو یقین ہو نہ ہو، میں نے اپنے خوابوں کا شہزادہ دیکھ لیا ہے ۔“
”سوری میڈم، کیا اس طرح ایک غریب لڑکا جو“ وہ اٹکتے ہوئے بولی۔
”نہیں صائمہ! ہیرا کیچڑ میں بھی پڑا ہو تو ہیرا ہی ہوتا۔ ہیرے کو تراشنا، سنوارنا اور اس کا جائز مقام دینا تو ہماری مرضی سے ہوتا ہے۔ کوہ نور ہیرا کبھی زمین کے ساتھ مٹی میں پیوست تھا، اب کہاں ہے؟“ وہ بے حد جذباتی لہجے میں بولی تو صائمہ نے حیرت سے اس کی شدت کومحسوس کیا۔ جس پانی کے آگے جتنا بڑا بندھ باندھا گیا ہو جب وہ ٹوٹتا ہے تو پانی اتنی ہی طوفانی شدت سے بہتا ہے۔ چند لمحوں کی خاموشی ہو گئی۔ تبھی صائمہ نے خوش کن لہجے میں کہا۔
”میڈم! کیاآپ اس لیے مایوس ہیں کہ اس ہیرے کو اپنی انگوٹھی میں نہیں جڑسکتیں کیا صرف یہی بات ہے؟“
”ہاں، وقت کو واپس نہیں لایا جاسکتا۔ ناممکن بات ہے۔ حالات تو لمحوں میں بگاڑے جاسکتے ہیں مگر بنانے میں بڑا وقت لگتا ہے۔ میں ماضی اور مستقبل کے درمیان حال میں کھڑی ہوں اور جس حال میں کھڑی ہوں۔ وہاں ذرا سی بے احتیاطی سب کچھ ڈسٹرب کرسکتی ہے۔ تمہیں شاید احساس نہیں، یہ آگ سے کھیلنے والی بات ہے۔“سمیرا کے لہجے سے مایوسی ٹپک رہی تھی۔ تبھی وہ بولی۔
”ماضی وہ جو بیت گیا، ہمارے ہاتھ میں نہیں۔مستقبل ہم خود بناتے ہیں، حال کی بنیاد پر۔ یہ حال ہی ہے جس سے ہم چاہے خوشیاں کشید کرلیں یا محض حسرتیں۔“
”کیا کہنا چاہتی ہو تم؟“ سمیرا نے چونک کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ خوش کن لہجے میں بولی۔
”دیکھیں میڈم! دولت میں بڑی کشش ہوتی ہے ۔ یہی کشش اسے آپ کے قریب کرے گی۔ اسے بنائیں، سنواریں، اپنی مرضی سے تراش لیں۔ بھول جائیں کہ آپ وقت کے کس حصے میں کھڑی ہیں۔ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل لیں۔ اس تعبیر کو اس قدر مضبوطی سے اپنی گرفت میں لے لیں کہ وہ پھر آپ کے ہاتھوں سے نکل ہی نہ سکے۔“
”کیا ایسا ممکن ہے صائمہ؟ یہ دنیا“ وہ حیرت آمیز لہجے میں بولی تو صائمہ نے امیدافزا انداز میں کہا۔
”ہاں، کیوں ممکن نہیں۔ چند دن میں اسے آپ کے پاس لے آﺅں گی پھر آپ اسے جیسا چاہیں تراش لیں۔میں ہوں نا آپ کے ساتھ اور رہی دنیا کی بات تو اسے چھوڑیں۔ میں نے کئی بیگمات کو پالتو جانوروں کی طرح ایسے لڑکے پالتے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ کون سا شوبز یا سیاست سے تعلق رکھتی ہیں جہاں سب کچھ منظرعام پر آجائے گا۔ بس ذرا ساحوصلہ چاہیے۔“
”میں انکار نہیں کرپاﺅںگی صائمہ۔ شاید انکار کرنے کی مجھ میں سکت ہے ہی نہیں۔“ اس نے یاس وامید سے کہا۔
”آپ سب کچھ بھول جائیں اور فقط یہ یاد رکھیں کہ وہ آپ کے پاس آنے والا ہے۔ باہر دیکھیں، سورج ڈھل گیا ہے۔ ابھی تک آپ نے کھانا نہیں کھایا۔ یہاں کے لوگ کیا سوچیں گے، آئیں۔“ صائمہ نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا، تب اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”تم چلو، کھانا لگواﺅ میں آتی ہوں۔“صائمہ نے اس کا ہاتھ چھوڑا اور باہر کی سمت واپس پلٹ گئی۔
٭٭٭
اگلی صبح سورج بہت چمک دار تھا۔ سمیرا کی آنکھ بہت دیر سے کھلی تھی۔ وہ رات گئے تک یونہی خیالوں کے جنگل میں بھٹکتی رہی تھی۔ وہ حیران تھی کہ سپنے پھر سے بھی رنگین ہوسکتے ہیں۔ وہ جب بیدار ہوئی تو اس کا موڈ بہت خوشگوار تھا۔ اس دن وہ اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔ سفید کاٹن کے سوٹ پر براﺅن کڑھائی گلے میں آنچل، نازک سفید سیلپر، کھلے گیسو۔ اس دن اس کا لپ اسٹک لگانے کو جی چاہا لیکن اس کے پاس سامان زیبائش نہیں تھا۔ اسے یاد آیا کہ عرصہ ہوا اس نے میک اپ کا سامان ہی نہیں خریدا تھا۔ وہ تیار ہوکر ناشتا کرکے باہر آئی تو صائمہ اس کے انتظار میں تھی۔ بلاشبہ خوابوں کی رنگینی کا اثر اس کے چہرے پر بھی تھا کہ صائمہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرادی۔ یہ مسکراہٹ پیشہ ورانہ نہیں فطری تھی۔
”صبح بخیر میڈم! میں نے آج آپ کے لیے کاریڈور میں بیٹھنے کا اہتمام کیا ہے ۔ نجیب کو میں نے بلوایا ہے ۔ وہ آپ کا انتظار کررہا ہے۔“
”چلو۔“ اس نے اختصار سے کہا اور اس کے ساتھ بڑھ گئی۔
کاریڈور سے باہر کا منظر بہت حسین تھا۔ ایک چھوٹی سی میز پرکتابیں اور میگزین پڑے ہوئے تھے۔ دوسری پر چائے کے نفیس برتن سجے ہوئے تھے۔ ان میزوں کے ارد گرد آرام دہ کرسیاں دھری ہوئی تھیں۔ سمیرا نے دور کھڑے نجیب کو دیکھا اور بیٹھ گئی۔ صائمہ نے چائے بنائی اور اسے دی۔ اتنے میں نجیب پاس آکر کھڑا ہوگیا۔ ابھی سمیرا نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا تھا۔ تبھی اچانک وہ یوں چونکی جیسے کسی بھڑ نے اسے کاٹ لیا ہو۔ پیالی سے چائے تک چھلک گئی۔ سمیرا ایک ٹک دور گیٹ کی جانب دیکھے چلی جارہی تھی۔ صائمہ نے تیزی سے مڑ کر دیکھا ۔ فارم ہاﺅس کے ہیڈ مالی مہردین کے ساتھ وہی کل والا لڑکا سست قدموں سے ان کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کل کی نسبت آج اس نے کافی اچھے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ سمیرا نے چائے کی پیالی میز پر رکھتے ہوئے اپنے دل کی دھڑکنوں پر قابو پانے کی کوشش کی۔ وہ دونوں ان کے قریب آکر کھڑے ہوئے تھے کہ نجیب نے تیزی سے کہا۔
”مہردین! کیا بات ہے؟ کوئی کام ہے تو مجھے بتاﺅ۔ ابھی جاﺅ یہاں سے۔“
”میں بی بی جی سے ملنے آیا ہوں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے سلام کیا تو سمیرا نے جواب دیتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”کیا بات ہے مالی بابا؟“یہ پوچھتے ہوئے اس نے واضح طور پر اپنے لہجے میں لرزش محسوس کی تھی کیونکہ اس کی نگاہیں خرم کے چہرے سے ہٹ ہی نہیں رہی تھیں۔
”بیٹی، میری زندگی کا زیادہ وقت آپ کے خاندان کی خدمت میں گزر گیا ہے ۔ آپ لوگوں کے سوا ہمارے دکھ درد سننے والا کون ہے۔ میں بڑی آس اور امید لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ ایک عرض کرنا تھی آپ سے۔“
”ہاں بابا، بولو کیا بات ہے؟“ اس وقت تک وہ خود پر قابو پاچکی تھی اور خرم سے نگاہیں ہٹا کر مہر دین کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ نجیب اس کے پاس کھڑا ہے۔
”میرا یہ بیٹا بارھویں جماعت پاس ہے مگر کوئی کام دھندا نہیں کرتا، نہ ہی نوکری ملتی ہے اور نہ ہی مزدوری۔ آپ کے پاس اتنے ملازم ہیں، وہاں اسے بھی نوکری دے دیں۔“مہردین نے منت بھرے انداز میں کہا تو سمیرا کا دل اچھل کر حلق میں آگیا۔ جس کی تلاش میں وہ نکلنا چاہتی تھی، وہ خود چل کر اس کے پاس آگیا تھا اور وہ اسے جیسے چاہے رکھ سکتی تھی۔ نہ جانے کیوں وہ اپنی قسمت پر نازاں ہونے لگی۔ اسے لگا کہ یہ محض اتفاق نہیں ۔قدرت کی طرف سے اس کی ریاضتوں کا صلہ ہے۔اس نے ترچھی نگاہوں سے خرم کو دیکھا ۔ وہ بے نیاز سا لاابالی انداز میں یوں کھڑا تھا جیسے وہ ابھی انکار سنے گا اور فوراً واپس پلٹ جائے گا۔ تبھی اس نے جی کڑا کرکے براہ راست خرم سے پوچھا۔
”کیا نام ہے تمہارا؟“
”جی، خرم۔“ اس نے مختصر سا جواب دیا۔
”کیا کام کرنا چاہتے ہو تم؟“ اس نے پوچھا۔
”جو بھی، کام تو کام ہی ہے نا جیسا بھی ہو میڈم صاحبہ۔“ اس کے لہجے میں اکتاہٹ تھی۔
”نہیں، میرا مطلب کوئی لکھنے پڑھنے والا کام اگر تمہیں دیا جائے تو کیا تم کرلوگے؟“ سمیرا نے جان بوجھ کر ایسا پوچھا تھا تبھی وہ اس کی توقع کے مطابق بولا۔
”آپ سکھا دیں گی تو میں کرلوں گا۔“
”گڈ۔“ یہ کہہ کر اس نے مہردین کی طرف دیکھ کر کہا۔” دیکھو مالی بابا! یہاں فارم ہاﺅس پر رہ کر کیا کرے گا یہ۔ لکھنے پڑھنے والا کام تو ہے نہیں، جو ہے اسے یہ نجیب دیکھ لیتا ہے۔ آپ کومعلوم ہے کہ سارا حساب کتاب اسی کے پاس ہوتا ہے۔ ہاں، شہر میں اس کے لیے کوئی نہ کوئی گنجائش نکالی جاسکتی ہے۔“
”بیٹی، اس نے آپ ہی کی سرپرستی میں رہنا ہے۔ یہاں کیا، شہر کیا۔“مہردین نے انتہائی ممنونیت بھرے انداز میں کہا تو سمیرا نے خرم سے پوچھا۔
”کیوں خرم! کیا تم شہرمیںرہ لوگے؟“
”جی میڈم! اگر مجھے وہاں کام کے ساتھ ساتھ پڑھنے کا چانس مل جائے تو میں ضرور شہر ہی میں رہوں گا۔“خرم کے دل میں اچانک خواہش جاگ اٹھی تھی۔ عائزہ بی اے کرچکی تھی اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ کسی طرح بھی اس سے پیچھے رہ جائے۔ اس کے ساتھ ہی وہ سارے خواب ایک لمحے میں اس کی آنکھوں میں پھیل گئے جو اس نے کھلی آنکھوں سے دیکھے تھے۔ اپنے مستقبل کو شاندار بنانے کی امنگ اس کے اندر انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی تھی۔ شاید وہ مزید انہی سوچوں میں رہتا کہ سمیرا نے کہا۔
”ٹھیک ہے بابا! میں آج شام کو واپس جارہی ہوں۔ آپ اسے تیار کرکے بھیج دو۔میرے ساتھ ہی چلا جائے گا۔آپ بے فکر ہو جائیں، میں اسے کہیں نہ کہیں ایڈجسٹ کرلوںگی۔“ یہ کہہ کر اس نے بڑی مشکل سے خرم پرسے نگاہیں ہٹائیں اور نجیب سے پوچھا۔
”تم حساب کے رجسٹرلائے ہو؟“
”نہیں جی، میںنے سوچا کہ آپ یہاں چند دن رہیں گی اور“
”نہیں فوراً لاﺅ۔ میں نے واپس جانا ہے اور باقی باتیں پھر بتانا مجھے آکر۔“ سمیرا نے سختی سے کہا تو وہ فوراً ہی پلٹ گیا تبھی مہردین بولا۔
”بہت مہربانی ہے جی آپ کی ۔ میں احسان مند ہوں جی آپ کا۔ یہ کہیں اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے میری ساری زندگی کی محنت کا صلہ مل گیا آپ لوگوں سے۔ بہت مہربانی جی۔“ مہردین یوں گویا ہوا جیسے اسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔
”ٹھیک ہے بابا۔ آپ اسے بھیج دو۔“سمیرا نے اپنے سامنے کھڑے خرم کو جی بھر کے دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اسے اپنے سامنے کھڑا کرکے چھو کے دیکھے۔ وہ یہی سوچ رہی تھی کہ وہ دونوں باپ بیٹا پلٹ کر گیٹ کی جانب چل دیے۔
”یہ تومنزل خود ہی چل کر آپ کے پاس آگئی میڈم۔“ صائمہ نے خوش کن لہجے میں کہا تو سارے جہاں کی خوشیاں لہجے میں سمیٹے سمیرا بولی۔
”ہاں، وہ کہتے ہیں نا کہ جذبے سچے ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔ تم واپسی کی تیاری کرو۔ تم دیکھنا، میں اس ہیرے کو کیسے تراشتی ہوں۔ میں اب یہاں ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتی۔“
”ٹھیک ہے میڈم!میں تیاری کرتی ہوں لیکن ایک بات سیانے کہتے ہیں سہج پکے سو میٹھا۔ اسے پتا بھی نہ چلے اور یہ آپ کی قربت کا عادی ہوجائے۔ اسے اپنی راہ پر لانے کے لیے بہت صبر سے کام لینا ہوگا۔“
”میں سمجھتی ہوں صائمہ۔ آخر ایک طویل عرصہ ان مردوں کو سمجھتے ہوئے گزارا ہے ۔ اتنی معصومیت بھری سادگی اور انا یہ لڑکا اتنا آسان نہیں جتنا دکھائی دے رہا ہے۔ چاہے مجبوریاں ہیں اس کی مگر مخلص ہے، تم دیکھ لینا۔ خیر، بس تم واپس چلنے کی تیاری کرو۔“ سمیرا نے خیالوں میں ڈوبتے ہوئے چونک کر کہا۔ وہ خود پر حیران تھی کہ وہ کیسے بدل گئی ہے ۔ کیا محبت انسان کو اس طرح بھی اچانک بدل دیتی ہے۔ یہ اس کے لیے بڑا خوشگوار تجربہ تھا۔ صائمہ چلی گئی تو وہ آئندہ آنے والے دنوں میں کھوگئی۔
٭٭٭
خرم کو شہر آئے ایک دن اور دو راتیں گزر چکی تھیں۔ اسے یہاں ملازمین کے رہائشی کوارٹر میں جگہ دی گئی تھی جہاں فقط سونے اور سوچتے رہنے کے علاوہ کوئی کام نہیں تھا۔ کھانا اسے وقت پر مل جاتا اور وہ گاﺅں کی یادوں اور اپنے خوابوں کے درمیان پینڈولم کے مانند جھول رہا تھا۔ خاص طور پر جب وہ افراتفری میں یہاں آیا تھا۔ ماں اور بہن نے بڑی خوشی کے ساتھ اسے شہر روانہ کیا تھا لیکن عائزہ بہت سوگوار تھی ۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے اوپری دل سے اسے شہر جانے کی اجازت دی تھی لیکن جدائی تو بہرحال جدائی ہوتی ہے۔ اس نے زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ اسے الوداع کرتے ہوئے کہا تھا۔
”دیکھو خرم! اب اگر زندگی نے تمہیں ایک اچھا موقع دے دیا ہے تو اس کا بھرپور فائدہ اٹھانا۔ میں مانتی ہوں کہ تمہیں بہت محنت کرنا پڑے گی لیکن خدا کے لیے آگے تعلیم جاری رکھنا اور اسی بل بوتے پر تم کوئی اچھی سی نوکری کرنا۔ اور یہ یاد رکھنا کہ میں تمہارا یہاں شدت سے انتظار کروںگی۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اس کے سینے سے لگ گئی تھی اور ہچکیوں سے رو رہی تھی۔
”تم تویوں کہہ رہی ہو جیسے میں پھر لوٹ کر ہی نہیں آنے والا۔ میں آتا جاتا رہوں گا۔“اس نے شکوہ بھرے انداز میں کہا اور خود سے الگ کرتے ہوئے اس کی آنکھوں میں دیکھا جہاں امید اور یقین کے دیے روشن تھے۔
 عائزہ نے اس کے کندھے پر سر رکھ دیا۔تبھی خرم نے محسوس کیاتھا کہ اگر وہ کچھ دیر مزید یونہی اس کے پاس رہا تو شاید اپنے ارادے میں متزلزل نہ ہوجائے ۔ اس لیے جلدی سے بولا۔
”اب میں جاتا ہوں، اپنا خیال رکھنا۔“
”ہاں جاﺅ۔“ اس نے آنکھوں میں آنسو اور لبوں پر مسکراہٹ سجائے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ وہ چند لمحے اس کی طرف بڑے جذباتی انداز میں دیکھتا رہا پھر ایک جھٹکے سے پلٹ گیا۔عائزہ کی وہ تصویر اس کے آنکھوں میں ثبت ہوکر رہ گئی تھی۔ اس وقت بھی وہ ناشتا کرنے کے بعد ایسی ہی یادوں میں کھویا ہوا تھا کہ میڈم سمیرا کا بلاوا آگیا۔
مختلف راستوں سے گزرنے کے بعد وہ رہائشی عمارت کے عقب میں سوئمنگ پول کے پاس بیٹھی سمیرا کے پاس پہنچ گیا۔ میڈم نے سرخ رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس پر پیلے سفید اور نارنجی رنگ کے دائرے بنے ہوئے تھے۔ مہین سا آنچل گلے میں ڈالے ہوئے وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ خرم اس کی سانسوں کازیروبم واضح طور پردیکھ چکا تھا۔ اس نے فوراً ہی اپنا دھیان بدل لیا تو سمیرا کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔ تبھی اس نے خوشگوار لہجے میں سامنے پڑی کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”آﺅ خرم! بیٹھو۔ میں نے تم سے بہت ساری باتیں کرنی ہیں۔“
”جی فرمائیں۔“وہ ہچکچاتے ہوئے بولا اور کرسی پر سمٹ کر بیٹھ گیا، تب وہ مسکراہٹ بھرے چہرے کے ساتھ بولی۔
”میں نے بہت سوچا کہ تمہارے لیے کون سا کام ہو مگر مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔“وہ کہتے کہتے رکی تو خرم کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ ملازمت نہ ملی تو پھر کیا ہوگا؟ کیا واپس جانا پڑے گا؟ تبھی وہ حوصلہ کرتے ہوئے بولا۔
”میڈم! آپ نے مجھے کام سکھانے کا وعدہ کیا تھا۔ باقی آپ مجھے ھر کام بھی دیں گی، میں وہ کرلوں گا۔ میں پڑھنابھی تو چاہتا ہوں۔“
”میں تمہاری مجبوری جانتی ہوں۔ تمہاری بہن کی شادی ہونے والی ہے اور تمہارے گھر کے حالات خیر، میں تمہیں واپس نہیں بھیج رہی بلکہ میں نے تمہارے لیے ایک کام سوچا ہے۔“ وہ پرسکون لہجے میںبولی۔
”کون سا میڈم؟“ خرم نے تیزی سے پوچھا۔
”تم نے صائمہ کو دیکھا ہے؟ وہ جوکرتی ہے اس کا کام تم کرو گے۔“ میڈم نے اس کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”جی دیکھا ہے مگر وہ“
”تم اس کی فکر نہ کرو۔ اس کے لیے بہت سارے دوسرے کام ہیں لیکن پہلے تمہیں خود کو اس کا اہل بنانے کے لیے خود پر توجہ دینا ہوگی۔ میں نے تمہارے لیے ایک گائیڈ مقرر کردیا ہے اور صائمہ تمہیںتمام ایٹی کیٹس اور کام سکھائے گی۔ پہننا، بولنا، رکھ رکھاﺅ سب کچھ۔ تمہیں پڑھنا بھی ہے۔ خرچ کی فکر نہ کرو، تمہاری تنخواہ گھر پہنچتی رہے گی ۔ آج سے تمہارا یہی کام ہے۔“
”ٹھیک ہے میڈم۔“ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا تو سمیرا قدرے گمبھیر لہجے میں بولی۔
”اور ایک بات اور یہ جاب جو تم کرنے جارہے ہو اس میں رازداری سب سے اہم ہوتی ہے۔ ہر معاملے کی رازداری۔“
”میں سمجھ گیا میڈم۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا۔
”اب تم جاﺅ، صائمہ تمہارا انتظار کررہی ہے ۔وہ تمہارے لیے شاپنگ کرنے جائے گی۔“ یہ کہہ کر سمیرا نے خود پر جبر کرتے ہوئے اپنی توجہ اخبار کی طرف کرلی۔ خرم اٹھا تو خود کو خوش قسمت فرد محسوس کررہا تھا۔ اسے لگا کہ وہ اپنی منزل پالے گا۔
٭٭٭
مئی کے جھلسادینے والی گرمی کو چھوڑ کر سمیرا ایبٹ آباد کے پوش علاقے میں آن ٹھہری تھی۔ وہ بہت عرصے بعد یہاں آئی تھی۔ یہ کوٹھی کبھی اس کے پاپا نے بنوائی تھی اور وہ گرمیوں کا کچھ حصہ ادھر ہی گزارا کرتے تھے۔ وہ اپنے مخصوص ملازمین کو ساتھ لائی تھی اور ان میں خرم بھی تھا۔ وہ خوش تھی جس کا اظہار نہ صرف اس کے چہرے سے عیاں تھا بلکہ اس کے پہناوے تک میں تبدیلی آگئی تھی۔ وہ سادہ لباس پہننے والی اب اپنے ملبوس میں ہرطرح کے امتزاج کا خیال رکھنے لگی تھی۔ انہیں آئے ہوئے وہ تیسری شام تھی۔ سورج مغرب میں سرنگوں ہوگیا تھا جس کے باعث بادل بھی نارنجی ہوگئے تھے۔ ایسے میں سمیرا چھت پر کھڑی تھی۔ اس نے میرون رنگ کا لباس پہنا ہوا تھا جس پر سنہری کڑھائی تھی۔ اس کے قریب ہی نیلی جینز اور سفید ٹی شرٹ پہنے خرم کھڑا تھا۔ سمیرا ڈوبتے ہوئے سورج کوکچھ دیر تکتے رہنے کے بعد پلٹی اور چند لمحے تک خرم کے چہرے کو پر دیکھتے ہوئے بولی۔
”اذلان آج کل ہی میں واپس آنے والا ہے ۔ دوسرے لوگوں کی طرح اس کے ذہن میں بھی سوال پیدا ہوں گے کہ تم میرے ساتھ کیوں ہو؟ میں تمہیں جس قدر اہمیت دے رہی ہوں اس سے وہ تمہاری حیثیت کا تعین کرے گا اور ممکن ہے وہ تم سے پوچھ گچھ کرے۔ میں نہیں جانتی کہ تمہارے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہوگا۔“
”آپ جو حکم دیں، میں“ خرم نے کہنا چاہاتو وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
”وقت آنے پر میں تمہیں بتاﺅں گی کہ تمہاری حیثیت اور مقام کیا ہے میری نگاہوں میں۔ اس وقت میں تم سے فقط یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اذلان کی تفتیش سے کہیں گھبرا مت جانا۔“
”جب تک آپ ہیں، میں کیوں گھبراﺅں گا۔“اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ سمیرا کیا چاہتی ہے۔
”بس یہی یہی اعتماد رکھنا ۔ آﺅ، اب کھانا کھاتے ہیں۔“ سمیرا نے یوں کہا جیسے بہت بڑا بوجھ اس کے ذہن سے اتر گیا ہو۔ اس نے بھرپور نگاہوں سے خرم کو دیکھا اور چھت کے ایک کونے میں بنی سیڑھیوں کی جانب چل دی۔ خرم اس کے پیچھے پیچھے تھا۔ سمیرا چند سیڑھیاں ہی اتری تھی کہ لڑکھڑا گئی۔ اس سے پہلے کہ وہ گرتی، خرم نے اسے سنبھال لیا۔ جیسے کسی روئی کے گالے کو پکڑ لیا جاتا ہے۔ سمیرا کی سانسیں ایک دم سے تیز ہوگئیں۔ وہ خرم کی بانہوں میں دبی، اس کے سینے سے لگی ہوئی تھی۔ وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہیں پارہی تھی ۔ وہ یوں ادھ موئی ہوگئی جیسے اس پر نشہ طاری ہوگیا ہو تبھی خرم نے پوچھا۔
”آپ ٹھیک تو ہیں میڈم؟“
”آں ہاں، میں ٹھیک ہوں۔“ اس نے یوں کہا جیسے کسی کنوئیں میں سے بول رہی ہو پھر اس نے خود پر قابو پالیا اور خرم کی بانہوں سے نکل کر آہستہ آہستہ سیڑھیاں اترنے لگی۔
٭٭٭
ڈنر کے فوراً بعد سمیرا چلی گئی حالانکہ پچھلے دو دن سے یہی معمول تھا کہ وہ خرم کو لے کر ٹی وی لاﺅنج میں آجاتی۔ گپ شپ کے ساتھ چائے پیتی اور پھر کافی دیر بعد اپنے بیڈروم میں جاتی۔ خرم کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ وہ اپنے آپ سے لڑتی ہوئی بے بس ہورہی ہے۔ اگر وہ زیادہ دیر اس کے ساتھ رہی تو برف کی طرح پگھل جائے گی۔ وہ برف جو اس نے کئی برسوں سے خود پر مسلط کی ہوئی تھی۔ وہ ٹی وی لاﺅنج میں آکر ٹی وی دیکھنے لگا۔ کافی دیر گزر گئی۔ وہ چائے پی کر ٹی وی دیکھتے دیکھتے اکتا گیا تھا۔ اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہونا شروع ہوگئی تھیں۔ جب اچانک فائر ہوا، اس کے ساتھ ہی سمیرا کی چیخ گونج اٹھی۔ چند لمحے تو اسے یوں لگا جیسے اسے وہم ہوا ہو مگر جلد ہی اسے احساس ہوگیا کہ سمیرا ہی ہذیانی انداز میں چیخ رہی ہے۔ سمیرا کی آواز بیڈ روم سے نہیں بلکہ پچھلے لان کی طرف سے آرہی تھی۔ فائر کی آواز نے اسے جھنجوڑ کر رکھ دیا۔وہ چشم زدن میں کاریڈور پار کرکے اندازے کے مطابق اس جانب بڑھا۔ کچھ ہی فاصلے پر سمیرا اسے اوندھے منہ پڑی دکھائی دی۔ وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا۔ اس نے سمیرا کو سیدھا کیا تو خون کی چپچپاہٹ اس نے اپنے ہاتھوں پر محسوس کی۔ گولی اس کے کندھے میں لگی تھی۔ اس نے تیزی سے ٹٹول کر دیکھا۔ بس وہی ایک فائر تھا جس سے خون ابل رہا تھا۔ اس وقت تک دوسرے ملازمیں بھی وہاں تک پہنچ گئے تھے۔ اس نے دیکھا کہ سمیرا بے ہوش ہوچکی ہے ۔ اس نے اپنے حواس بحال رکھے۔دونوں ہاتھوں سے اسے اٹھایا اور تیزی سے پورچ کی جانب چل دیا۔ وہاں گاڑی کھڑی تھی، تب تک صائمہ بھی وہاں پہنچ گئی تھی۔ وہ بن کہے اسے گاڑی میں لٹا کر اس کا خون روکنے کی کوشش کرنے لگی جبکہ خرم نے گاڑی اسپتال کی جانب بڑھادی۔
٭٭٭
ہاسپٹل کمپلیکس سے فراغت کے بعد سمیرا واپس جانے کے لیے بضدہوگئی۔ جس شام وہ واپس پہنچی، اسی رات اذلان بھی وطن واپس لوٹ آیا۔ وہ آتے ہی اپنی بہن کے کمرے میں گیااور رات گئے تک اس کے پاس رہا۔ جس وقت وہ ڈرائنگ روم میں آیا، اس کے چہرے پر ندامت، پریشانی اور غصہ پھیلا ہوا تھا۔ صائمہ اس کے سامنے تھی اور اس سے یہی سوال کیا گیا کہ یہ فائر کس نے کیا ہے اوروہ سمیرا کو نشانہ کیوں بنانا چاہتا تھا؟
”یہ تو میں ہی نہیں، کوئی بھی نہیں جانتا۔ ہم سب کا یہی خیال تھا کہ وہ اپنے بیڈروم میں چلی گئی ہیں لیکن وہ باہر لان میں چلی گئیں۔ کیوں گئیں؟ ہم یہ بھی نہیں جانتے۔“ صائمہ نے بڑے سکون سے جواب دیا۔
”تم سب لوگ وہاں پر کس لےے تھے؟۔ میں یہ جاننا چاہتا ہوں کہ قاتلانہ حملہ کس نے کیا اور کیوں کیا ؟ اس دشمن کے مقاصد کیا تھے کیونکہ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ ہمارے ہزار دوست، دشمن ہیں لیکن کبھی کسی کی جرا ¿ت نہیں ہوئی پھر یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب خرم ان کے پاس تھا۔“وہ غصے میں بولا۔
”خرم پر شک اس لیے نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اس وقت“ صائمہ نے کہنا چاہا لیکن وہ تیزی سے بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”نہیں مس صائمہ نہیں۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب وہاں پر وہ موجود تھا اوریہ جو تبدیلی آئی ہے، خرم کے یہاں ہونے کی وجہ سے آئی ہے ۔ مجھے یہ بتاﺅ، یہ خرم آپی کے ساتھ کیوں ہے اور آپی اس پر اتنی نوازشات کیوں کررہی ہیں؟“
”مجھے یقین تھا کہ آپ ایسا سوال ہی کریں گے ۔ میں نے پہلے ہی سے سوچ رکھا تھا کہ آپ کو نہ صرف بتا دوں گی بلکہ اس معاملے میں آپ کو اچھی طرح سمجھا بھی دوں گی۔“ صائمہ نے تحمل سے کہا تووہ حیرت سے بولا۔
”کیا مطلب تم کیا کہنا چاہتی ہو؟“
”وہی جوآپ کو بتانا ضروری ہے۔ دیکھیں، سمیرا بی بی کو خرم پسند آگیا ہے اور انہوں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ خرم سے شادی کرلیں گی لیکن اس وقت تک نہیں جب تک خرم اس سطح پر نہیں آجاتا جہاں کسی کوبھی اس کی کم عمری کے سوا کوئی دوسرا عیب دکھائی نہ دے۔“ صائمہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ تذبذب سے بولا۔
”کیوں صائمہ، ایسا کیوں کیا انہوں نے؟ جب ان کی عمر تھی تب انہوں نے شادی کا نہ سوچا اور اب“
”معاف کیجیے گا، آپ کا یہ سوال ہی غلط ہے۔ کیا آپ کو یہ بتایا جائے کہ انہوں نے شادی کیوں نہیں کی؟ آپ جو ساری دنیا سے بہتر جانتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔“
”اس عمر میں؟“ اس نے سرسراتے ہوئے کہا تو صائمہ جذباتی لہجے میں بولی۔
”دل پر کسی کا زور نہیں ہوتا اذلان صاحب۔ آپ ایک عورت کے جذبات شاید نہ سمجھ سکیں ۔ کیا وہ بوڑھی ہوگئی ہیں؟ وہ جوان ہیں اگر انہوں نے اس عمر میں اپنی تنہائی کا مداوا کرلیا ہے، ایک شخص انہیں پسند آہی گیاہے تو ہمیں یا کسی کو ان پر اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔“
”لیکن گناہ کی زندگی“ وہ دھیرے سے کہتے ہوئے جان بوجھ کر خاموش ہوگیا۔ صائمہ نے تیزی سے کہا۔
”نہیں اگر وہ گناہ کا راستہ اختیار کرتیں تو ان کے پاس بہت سارے ذرائع تھے۔ بڑے چوردروازے تھے لیکن انہوں نے اپنا جائز حق حاصل کرنے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ وہ خرم کو اپنی سطح پرلانے کی کوشش کررہی ہیں۔ وہ اپنی خواہشوں سے مجبور نہیں ہوئیں کہ اپنی سطح سے گر جائیں۔“
”لیکن اس قدر نوازشات وہ ان کے خاندان کو بہت نواز رہی ہیں۔ بے دریغ دولت لٹارہی ہیں۔ خرم کی بہن کی شادی کے لیے، گھر پختہ کروانے کے لیے اور خرم کی ذات پر سوال یہ ہے کہ اگر وہی احسان مندی سے انحراف کرجاتا ہے تو؟“
”تو پھر سمیرا بی بی کی قسمت۔ کیا آپ اپنی بہن کی زندگی میں خوشیاں نہیں دیکھنا چاہتے؟ جنہوں نے اپنی ساری زندگی“
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ نہ ان کے دولت لٹانے پر نہ ان کے انتخاب پر۔ اس دولت پر آپی کامجھ سے زیادہ حق ہے لیکن کہیں وہ اس سے بلیک میل تو نہیں ہورہیں؟“
”یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟“
”اس کا ثبوت آپی پر فائر کا ہونا ہے ۔ یہ واقعہ اس وقت ہوا جب خرم وہاں موجود تھا۔ خیر، میں اپنے طورپر دیکھتا ہوں کہ یہ معاملہ کیا ہے ۔ پتا چل گیا تو ٹھیک ورنہ میںپھر پولیس کی مدد لوں گا۔“
”کیا میڈم یہ چاہیں گی کہ اس واقعے کی تشہیر ہو؟“صائمہ نے پوچھا۔
”کچھ بھی ہے لیکن مجھے بہرحال اپنے نادیدہ دشمن تک پہنچنا ہے۔“ اذلان نے کہا اور صائمہ کی مزید کوئی بات سنے بغیر اپنے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
٭٭٭
جیسے ہی سمیرا کا زخم بھرا، اس نے کراچی جانے کا اعلان کردیا۔ برسوں پہلے جو لکیر اس کے چہرے پر پڑچکی تھی، وہ پلاسٹک سرجری کے ذریعے ختم کروانے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اس نے کراچی کے ایک مشہور ڈاکٹر سے رابطہ کرکے وقت بھی لے لیا تھا۔ اس بار سمیرا نے خرم کے سوا کسی ملازم کو بھی اپنے ساتھ نہیں لیا تھا۔ اذلان انڈسٹری کا نیا سیٹ اپ لگانے میں بری طرح الجھاہوا تھا۔ صائمہ کو اس نے جان بوجھ کر اپنے ساتھ نہیں لیا تھا۔ نہ جانے اس سے کیا خار ہوگئی تھی کہ سمیرا نے چند ہفتوں سے سرد مہری والا رویہ اپنایا ہوا تھا۔ اب اس کے تمام تر معاملات کو خرم ہی دیکھ رہا تھا پھر ایک دوپہر وہ اور خرم کراچی پہنچے۔ ائر پورٹ پر کلفٹن والے بنگلے کے ملازمین اسے لینے کے لیے آئے تھے۔ سمیرا اس شام ڈاکٹر سے ملی۔ اس نے ابتدائی چیک اپ کے بعد حوصلہ افزا خبر سنائی تو اس کے چہرے پر خوشی پھیل گئی۔
اس وقت سورج نارنجی ہورہا تھا۔ جب سمیرا اور خرم ساحل سمندر پر چہل قدمی کررہے تھے۔خرم نے پہلی بار سمندر دیکھا تھا اورسمندر سے آنے والی ہواﺅں کو محسوس کیاتھا۔ وہ سمندر کی طرف بڑے غور سے دیکھ رہا تھا کہ سمیرا نے خمار آلود آواز میں پوچھا۔
”خرم ! اتنے غور سے کیا دیکھ رہے ہو؟“
”سورج سے لے کر ساحل تک آنے والی روشنی کی اس لکیر کو دیکھ رہا ہوں۔ کتنا اضطراب ہے اس میں۔“ اس نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا تووہ اسی خمار آلود آواز میں بولی۔
”تم نے پہلی بار دیکھا ہے نا؟“
”ہاں، پہلی بار۔ یہاں آکر محسوس کررہا ہوں کہ وہ ساحل اتنے کیوں آبادہوتے ہیں جہاں آزادی ہے۔“ خرم نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ کھلکھلا کر ہنستے ہوئے بولی۔
”واﺅ تم تو بہت دور کی سوچ رہے ہو۔ پتا نہیں ان ہواﺅں میں خمار ہوتا ہے یا پھر سمندر کے قرب کا نشہ کہ بندہ اپنے آپ میں نہیںرہتا۔ اندر سے کچھ نہ کچھ ہونے لگتا ہے۔“ اس کے یوں کہنے پر خرم چونک اٹھا۔ تبھی اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے سمیرا کی طرف دیکھا جس کے چہرے پر نہ جانے کیا کیا تحریر تھا۔ ایسے میں وہ دھیرے سے بولا۔
”تو چلیں پھر شام کا اندھیرا پھیلنے لگا ہے۔“
”ہاں چلو۔“سمیرا نے بھی ایک دم سے کہا اور وہ دونوں گاڑی کی طرف بڑھنے لگے۔ ذرا سے فاصلے پر وہ بنگلا تھا جس میں رہائش پذیر تھے۔
٭٭٭
رات کے گہرے سناٹے میں ہوا تھمی ہوئی سی محسوس ہورہی تھی۔ سمیرا کب سے لان میں تنہا بیٹھی اپنی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ کاریڈور کی روشنی میں اس کا ہیولا ہی دکھائی دے رہا تھا۔ ایسے میں اچانک بجلی کڑکی اور پھر اس کے ساتھ ہی بوندا باندی شروع ہوگئی۔حدت بھرے بدن پر ٹھنڈی ٹھنڈی بوندیں پڑیں تو اک عجب سا کیف اس پر طاری ہوگیا ۔ وہ یونہی بیٹھی رہی یہاں تک کہ بوندا باندی بارش میں بدلنے لگی۔ وہ پوری طرح بھیگ گئی تھی، تبھی اسے احساس ہوا کہ کاریڈور میں خرم کھڑا اسے آوازیں دے رہا ہے۔
”میڈم پلیزآپ اندر آجائیں، آپ کی طبیعت خراب ہوسکتی ہے۔“
”نہیں بلکہ تم ادھر آﺅ۔ دیکھو بارش میں کتنا مزہ آرہا ہے ۔ “ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اپنی بات پوری کی تو خرم بھی آگیا۔ تبھی وہ اپنی کرسی پرسے اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ اس کے قریب آگیا۔ یہاں تک کہ خرم کے بدن پر لگے اس کے پسندیدہ پرفیوم کی مہک وہ محسوس کرنے لگی تھی۔ خرم نے کچھ کہنے کے لےے لب کھولے ہی تھی کہ وہ بولی۔
”یہ فطرت کے مناظر انسانی جذبات پر کس طرح اثرانداز ہوتے ہیں، تم نے کبھی سوچا؟“
”بہت کیونکہ میں گاﺅں میں فطرت کے زیادہ قریب رہا ہوں۔ اس وقت مجھے یہ احساس ہورہا ہے کہ آپ“ خرم نے کہا تو وہ تیزی سے اس کی بات کاٹتے ہوئے بولی۔
”خوشی کے سوتے انسان کے اندر ہی سے پھوٹتے ہیں۔ ہمارے سماجی نظام میں کیوں اس قدر پابندیاں ہیں کہ انسان اپنے آپ میں مقید ہوکررہ جاتا ہے؟ خیر یہ تو ایک لمبی بحث ہے، میں تم سے ایک بات کہنا چاہ رہی ہوں۔“
”جی بولیں۔“ خرم نے اپنے حواسوں پر قابو پاتے ہوئے کہا کیونکہ تنہائی، بارش، رات اور دو بھیگے بدن اپنے اپنے اندر کی آگ میں سلگ اٹھے تھے۔ وہ لرزتی ہوئی آواز میں بولی۔
”میرے چہرے پر سے یہ لکیر ختم ہوجائے تو تمہیں کیسا لگے گا؟“
”میڈم! آپ ہرحال میں میرے لیے محترم ہےں۔ لکیر ختم ہوگئی تو آپ کا حسن بڑھ جائے گا ۔“اس نے محتاط انداز میں جواب دیا۔
”خرم! تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں اپنے قریب کیوں رکھا ہوا ہے؟ احسا س ہے تمہیں ؟“وہ اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولی۔
”آپ ہی بہتر بتاسکتی ہیں۔ میں تو آپ کا ملازم ہوں۔“خرم اس کے لہجے سے مزید محتاط ہوتے ہوئے بولا۔
”کیا تم اپنے آپ کو فقط ملازم ہی تصور کرتے ہو کوئی اور احساس نہیں ابھرا تمہارے اندر؟“ اس نے حیرت سے پوچھا ۔
”یہی کہ آپ میری محسن ہیں، آپ نے مجھے فرش سے اٹھا کر عرش“
”نہیں، تمہارا اس سے بھی بڑھ کر مقام ہے۔ تم میرے دل کے مالک تو بن ہی گئے ہو، کیا تم میرے جسم کے مالک نہیں بننا چاہو گے؟“ یہ پوچھتے ہوئے جہاں اس کا لہجہ خمار آلود تھا، وہاں اسے اپنی پوری توانائی بھی صرف کرنا پڑی تھی۔ تبھی وہ جان بوجھ کر انجان بنتے ہوئے بولا۔
”میڈم! میں سمجھا نہیں کہ آپ کیاکہہ رہی ہیں؟“
”خرم! تم اتنے بچے نہیں ہو کہ میری بات نہ سمجھ سکو۔ تم سمجھتے ہو کہ میں کیا کہہ رہی ہوں اورتم یہ بھی جانتے ہو کہ میرے ہوجانے کے بعد تم زندگی کے کس مقام تک جاپہنچو گے ۔ اس کا تم نے تصور بھی نہیںکیا ہوگا۔“سمیراکے لہجے میں حاکمیت بھی اتر آئی تھی تو وہ تیزی سے بولا۔
”میں آپ ہی کا تو ہوں میڈم جو حکم دیں میں حاضر ہوں۔“
”کیا تم مجھ سے شادی کروگے؟“ سمیرا نے ایک دم سے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔
”شادی یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں میڈم؟ میں آپ سے شادی نہیں کرسکتا۔ میں آپ کا ہرحکم ماننے کے لیے تیار ہوں مگر شادی تو عائزہ سے کروں گا۔ اس سے محبت کرتا ہوں اور وہ میرے بچپن کی منگیتر ہے ۔“خرم کے لہجے میں بغاوت کے علاوہ احتجاج بھی چھلک رہا تھا، تبھی وہ حیرت سے بولی۔
”وہ عائزہ تمہاری کزن تم اس سے محبت کرتے ہو؟“ یہ کہتے ہوئے وہ لمحہ بھر کو رکی پھر بڑے گمبھیر لہجے میں بولی۔” اگر بات محبت ہی کی ہے تو میں تم سے کہیں زیادہ محبت کرتی ہوں، عشق کرتی ہوں تم سے تم کسی اور کے نہیں ہوسکتے، تم صرف میرے ہو۔“ 
”کیوںنہیں ہوسکتا میڈممیں آپ کا ملازم ہوں اور ملازمت کررہا ہوں لیکن اپنی محبت پر کوئی سودا نہیں کرسکتا۔معاف کیجیے گا میڈم آپ نے بہت غلط سوچا۔ آپ میری محسن ہیں لیکن میری محبت کوئی اور ہے۔ میں آپ کے احسانات تلے دبا ہوا ہوں۔ آپ کے لیے جان دے سکتا ہوں لیکن محبت، اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کرسکتا۔“اس نے واشگاف الفاظ میں سمیرا پر واضح کردیا تو وہ ایک دم سے شعلہ جوالہ بن گئی۔ اس نے پوری قوت سے اپنا ہاتھ گھمایا اور ایک زودار تھپڑ خرم کے منہ پر دے مارا۔
”اگر مجھے ایک لمحے کے لیے بھی احساس ہوتا کہ تم یوںنگاہیں پھیر جاﺅگے تو میں تمہیں کبھی خاک سے نہ اٹھاتی ۔ دور ہوجاﺅ میری نظروں سے۔ یہ دنیا ہے ہی ظالم، کبھی محبت نہیں دے سکتی۔ جاﺅ، دفع ہو جاﺅ۔ مجھے تنہا چھوڑدو۔“سمیرا نے تقریباً چیختے ہوئے کہا۔ لمحہ بھر شعلہ بار نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتی رہی پھر تیزی سے تقریباً بھاگتے ہوئے اندر کی جانب چلی گئی۔ خرم چہرے پر ہاتھ رکھے چند لمحے کھڑا سوچتا رہاپھر لان سے نکل کر بیرونی گیٹ پر آیا اور وہاں سے نکل کر باہر روڈ پر آگیا۔ اس نے گہری سانس لی اور اندھیرے ہی میں ایک جانب بڑھ گیا۔
٭٭٭
اگلے دن کی شام جب وہ پکی سڑک پر بس سے اترا تواسے میڈم کی ملازمت چھن جانے کا کوئی افسوس نہیں تھا۔ اگرچہ اس وقت وہ خالی ہاتھ گاﺅں جانے والی کچی سڑک پر چل رہاتھا لیکن اس کے اندر اعتماد کی دولت پوری طرح موجود تھی۔ اس نے اپنے خوابوں کو نئے سرے سے ترتیب دے لیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ فرحان اپنا ریوڑ لے کر جاچکا ہوگا۔ اس لیے تیز تیز قدموں سے چل رہا تھا کہ سورج غروب ہونے سے پہلے اپنے گھر پہنچ جائے۔ گھر پہنچ جانے تک اسے لوگوں کی نگاہوں میں بڑا عجیب سا تاثر ملا جیسے وہ اس سے کوئی بات کہنا چاہتے ہوں لیکن کہہ نہ پائے ہوں۔ اس نے اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا تو صحن میں بیٹھی اپنی ماں پر نگاہ پڑی۔ وہ انتہائی خستہ وپریشان حال دکھائی دی۔ قریب ہی اس کا باپ مہردین سرجھکائے افسردہ حالت میں بیٹھا ہوا تھا۔ جیسے ہی ماںکی نگاہ اس پر پڑی۔ وہ بلبلاتی ہوئی چیخ مار کر اٹھی اور چلانے والے انداز میں بولی۔
”تو اب آیا ہے خرم جب سارا کچھ ہی لٹ گیا ہے ۔“یہ کہتے ہوئے وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ماں کی آہ و زاری پر اس کا دماغ گھوم کر رہ گیا۔ تبھی اس نے ایک دم سے پریشان ہوتے ہوئے بے ساختہ پوچھا۔
”کیا کہہ رہی ہو ماں خیر تو ہے نا؟“
”خیرہی تو نہیں ہے پتر سب کچھ لٹ گیا۔“وہ دہائی دیتے ہوئے بولی تو خرم نے گھبراتے ہوئے پوچھا۔
”اماں ذکیہ تو ٹھیک ہے نا؟ بابا بولتے کیوں نہیں، بتاﺅ گے بھی؟“
”ذکیہ تو ٹھیک ہے پتر تو بیٹھ میرے پاس۔ میں تجھے بتاتا ہوں۔“مہردین نے کہا تو وہ اس کے چہرے کو دیکھتا ہوا اس کے ساتھ ہی چارپائی پر بیٹھ گیا۔ تب مہردین گویا ہوا۔”وہ اپنی عائزہ ہے نا وہ اغوا ہوگئی ہے۔“
”ع عا ئزہ کیسے؟“ اس نے شدید حیرت سے پوچھا۔
”رات کے پچھلے پہر کچھ لوگ آئے، انہوں نے اغوا کیا اور جاتے ہوئے بے تحاشافائرنگ کی۔ پتا نہیں چل سکا کہ وہ کون لوگ تھے۔“مہردین نے دھیمے سے لہجے میں بتایا۔
”ماما اور مامی، وہ کہاں تھے؟“ اس نے مرتعش لہجے میں پوچھا۔
”سارے گھر ہی میں سورہے تھے صحن میں۔ انہوں نے تیرے مامے اور مامی کو باندھا اور اسے اٹھا کر لے گئے۔“ وہ مایوسی بھرے انداز میں کہہ کر خاموش ہوگیا۔ خرم کے دماغ میں غصہ ٹھوکریں مارنے لگا تھا۔ اسے گمان بھی نہیں تھا کہ سمیرا اس قدر گھٹیا انتقام لے گی۔ یہ خبر سننے سے پہلے تک وہ سمیرا کو معصوم، مجبور اور بے قصور خیال کرتا تھا۔ کسی کا بھی کسی پر دل آجانا ایک فطری سی بات ہے۔ وہ من پسند کے حصول کے لیے اپنی بھرپور کوشش کرتا ہے مگر اب اس کے انکار کا وہ اس طرح بدلہ لے گی، یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ ایک طرف اسے جہاں سمیرا پر بے تحاشا غصہ آرہا تھا تو دوسری جانب عائزہ پر ہونے والے ظلم نے اسے ادھ موا کرکے رکھ دیا تھا۔ وہ ظالم نہ جانے اس کے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟ دماغ بھی بڑے عجیب شے ہے۔ کسی بھی نامعلوم بات کے بارے میں ایسے ایسے منظر ابھارتا ہے کہ بندہ خود ہی لرز کر رہ جاتا ہے ۔ وہ اٹھا اور اپنی بائک لے کر گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کارخ عائزہ کے گھر کی طرف تھا۔
ممانی کی حالت بہت خستہ تھی۔ وہ تو یوں تھیں جیسے سکتے کی حالت میں ہوں۔ ان سے کچھ بولا ہی نہیں جارہا تھا۔ ماموں نے ہی اسے تفصیل بتائی۔
”ہمیں پتا ہی نہیں چلا کہ وہ لوگ کب صحن میں آگئے۔ چہروںپر ڈھاٹا باندھے وہ پانچ یا چھ افراد تھے۔ میری آنکھ عائزہ کی چیخ سے کھلی تو وہ ہم پر گنیں تانے ہوئے تھے۔ میں نے تو یہی سمجھا کہ وہ ڈاکو ہیں ڈاکا ڈالنے کے لیے آئے ہیں۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ چابیاں وغیرہ ان کے حوالے کردوں لیکن انہوں نے کوئی بات ہی نہیں سنی اور ہم سب کو باندھ دیا۔ چوکیدار کو اس وقت پتا چل گیا تھا ۔ اس نے گاﺅں میں آتے ہوئے گاڑیاں دیکھ لی تھیں۔ اس نے شو ر مچا کر بندے تو اکٹھے کرلیے تب ان لوگوں نے بہت زیادہ فائرنگ کرنا شروع کردی۔ گاﺅں کے لوگ سہم کر پیچھے ہٹ گئے۔ وہ یہی سمجھے تھے کہ مال لوٹ کر لے جارہے ہیں۔ ان کے نکل جانے کے بعد گاﺅں کے لوگ ادھر آئے۔ انہوں نے ہمیں کھولا تو پتا چلا کہ کسی شے کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔ وہ فقط عائزہ ہی کو اغوا کرنے آئے تھے اور کرکے چلے گئے۔“
تفصیل سن کر خرم کے دماغ میں آندھیاں سی چلنے لگیں۔ اسے کراچی سے اپنے گاﺅں تک پہنچنے میں پوری رات اور دن لگ گیا تھا۔ اس کا سیل فون بھی وہیں کمرے میں رہ گیا تھا۔ سمیراکے لیے عائزہ کو اغوا کروانا بہت آسان تھا۔ وہ ایک فون کال پر سارے کام کرواسکتی تھی۔ اس کی اتنی قوت اور رسائی تو تھی۔ دماغ کے کسی کونے میںیہ خیال بھی سرسرا رہا تھا کہ ممکن ہے یہ سمیرا نے نہ کروایا ہو۔ ماموں کا اپنا ہی کوئی معاملہ ہو۔ عائزہ کی رنجش ہو، کچھ بھی ممکن تھا۔ خرم نے اس بارے میں ماموں سے بات کی تھی مگر کوئی ایسا معاملہ یا سراغ نہیں ملا تھا کہ جس سے کسی دوسرے کے ملوث ہونے کا شک ہو۔ماموں نے بھی نامعلوم افراد کے خلاف پرچہ درج کروا دیا تھا۔ خرم نے بہت سوچا، اسے سمیرا کے علاوہ کوئی دوسرا سمجھ میں نہیں آیا۔ تبھی اس نے ماموں سے کہا۔
”ماموں، آپ کا سیل فون کہاں ہے؟“
”یہ لو۔“ انہوں نے جیب سے نکال کر دیا تو خرم فون لے کر گھر سے باہر چلاگیا۔ اس نے سمیرا کا نمبر ملایا، وہ بند تھا پھر اس نے شہر والے بنگلے کا نمبرملایا۔ کچھ ہی دیربعد صائمہ لائن پر تھی۔ وہ اس کی آواز پہچانتے ہوئے بولی۔
”خرم! یہ اچھا نہیں کیا تم نے ۔ میڈم کا دل توڑدیااگر انکار ہی“
”بولتی ہی رہوگی یا میری بات بھی سنوگی؟“ اس نے انتہائی غصے میں کہا تو صائمہ نے حیرت سے پوچھا۔
”خرم! کیا ہوا ہے تمہیں؟“
”اب بھی مجھے کچھ نہ ہو۔ وہ جو تمہاری میڈم نے گھٹیا پن کیا ہے نا تم بھی اسے جانتی ہو۔کہاں ہے وہ؟ میری بات کرواﺅ اس سے۔ اس کا فون بند جارہا ہے۔“اس نے اسی طرح شدید غصے میں کہا تو وہ تحمل سے بولی۔
”میڈم تو سورہی ہیں۔ رات پچھلے پہر ہی یہاں پہنچی تھیں۔ آتے ہی انہوں نے مجھے تمہارے متعلق بتایا ۔ وہ بہت غم زدہ ہیں۔ آج دوپہر تک نہیں سوپائی ہیں۔ میں خود تم سے رابطہ کرنا چاہ رہی تھی مگر تمہارا سیل فون میڈم کے پاس تھا لیکن تمہارا جارحانہ لہجہ بتارہا ہے کہ“ یہ کہتے ہوئے اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑدیا تو خرم نے جارحانہ انداز میں کہا۔
”اسے جگا کر میری بات کرواﺅ ورنہ اگر میںنے شہر میں آکر بات کی تو سارا زمانہ دیکھے گا۔اس نے جو گھٹیا حرکت کی ہے اس کا خمیازہ اسے بھگتنا پڑے گا۔“
”مجھے بتاﺅ تو سہی کیا ہوا ہے، کیا کردیا میڈم نے وہ تو خود“
”تم تو اسی کی زبان بولوگی۔ تم نے کون سا سچ بتادینا ہے۔ تم بس اس سے میری بات کرواﺅ۔“ خرم نے اس کی بات کاٹتے ہوئے تیزی سے غصے میں کہا تو صائمہ نے سخت لہجے میں کہا۔
”خرم! تمیز سے بات کرو اور اپنی اوقات میں رہو۔ کہو کیا کہنا ہے تمہیں؟“
”تو پھرسنو، تمہاری میڈم نے گھٹیا حرکت کرتے ہوئے عائزہ کو اغوا کروایا ہے ۔ اسے کہہ دو جس طرح رات کے اندھیرے میں اسے اغوا کروایا ہے، اسی طرح آج رات ہی واپس بھجوا دے ورنہ پھر کوئی بھی سکون سے نہیں سو پائے گا، میں جان لے لوں گا۔“ خرم نے وحشیانہ انداز میں کہا۔
”تم ہوش میں تو ہو خرم۔میڈم ایسا نہیں کرسکتیں اور نہ ہی انہوں نے ایسا کیا ہے۔تم فکر نہیں کرو، میں میڈم سے بات کرتی ہوں۔ تم خود پر قابو رکھو۔ میں تم سے دوبارہ رابطہ کرتی ہوں اور تم ادھر ادھر کوئی بات نہ کرنا۔“صائمہ نے کہہ کر فون بند کردیا۔ خرم نے کال منقطع ہوجانے پر صائمہ کی بات پر غور کیا تو اسے یقین ہو گیا کہ عائزہ کے اغوا میں سمیرا ہی کا ہاتھ ہے ورنہ وہ اتنے یقین سے بات نہ کرتی۔
خرم نے سیل فون اپنے ماموں کو واپس کیا اور سوچنے لگا کہ زخمی شیرنی کے منہ سے عائزہ کو کیسے چھڑوایا جائے۔ اگرچہ سمیرا کے مقابلے میں اس کی اپنی کوئی اہمیت نہیں تھی لیکن عائزہ کے لیے اور اپنے خاندان کی عزت کے لیے وہ اپنی جان بھی دے سکتا تھا۔ اب یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے چپ چاپ بیٹھ جاتا۔ اسے کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا۔ گاﺅں میں اس کا ایک دوست فرحان تھا جس سے وہ کوئی مشورہ کرسکتا تھا۔ وہ اس قابل نہیں تھا کہ کوئی مدد کرسکے۔ شہر میں جو اس نے وقت گزارا تھا، تھوڑے بہت اس کے تعلق بنے تھے۔ خرم نے جو وقت سمیرا کی قربت میں گزارا تھا، اس سے وہ بہت حد تک اس کی نفسیات سے واقف ہو گیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ وہ کیا کرسکتی ہے ۔ اس لیے خرم نے سمیرا کے بارے میں اپنے منہ سے ایک لفظ بھی نہیں نکالا تھا۔ ان کی آپس کی چپقلش میں نشانہ بے چاری عائزہ بن گئی تھی۔ اگر وہ یہ بات اپنے منہ سے نکال دیتا تو سب سے پہلے ماموں اور ممانی ہی اس کے مخالف ہوجاتے۔ سارے گاﺅں والے اسے ہی برابھلا کہتے۔ اس لیے وہ فی الحال اس ذلت سے بچنا چاہتا تھا۔ اس نے فیصلہ کرلیا تھا کہ اگر سمیرا نے اس کی بات نہ سنی تو وہ شہر چلاجائے گا۔ اس کے بعد ہی وہ اگلا قدم اٹھائے گا۔ وہ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ماموں کا فون بج اٹھا۔ اسے لگا کہ سمیرا کا فون ہوگا، تب تک ماموں نے فون ریسیور کر لیا تھا۔ ماموں بہت غور سے بات سن رہے تھے اور سرسراتے ہوئے جواب دے رہے تھے پھر اچانک ان کے منہ سے نکلا۔
”ایک کروڑ میں“ اس کے ساتھ ہی فون بند ہوگیا۔ ماموں ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگے تو خرم نے پوچھا ۔
”کیا ہوا ماموں؟“
”جنہوں نے عائزہ کو اغوا کیا ہے، انہی کا فون تھا۔ وہ عائزہ کی رہائی کے بدلے میں ایک کروڑ مانگ رہے ہیں اور صرف آج رات کا وقت دےا ہے۔اگر پولیس کو بتایا یا کسی دوسرے کو تو وہ مار دیں گے عائزہ کو۔ بتاﺅ اتنی رقم کہاں سے لائیں ؟“
یہ سنتے ہی خرم کو یقین ہوگیا کہ یہ صرف اور صرف سمیرا کا کیا دھرا ہے۔ صرف اسے جھکانے کے لیے ورنہ سارا دن گزرگیا تھا اس نے رابطہ نہیں کیا۔ خرم کے اس نمبر سے رابطہ کرتے ہی انہوں نے تاوان مانگ لیا۔ اس نے لمحہ بھر میں فیصلہ کرلیا کہ اسے کیا کرنا ہے ۔ اس لیے بڑے اطمینان سے بولا۔
”ماموں، آپ ان سے سودے بازی کی کوشش کریں اور نمبر مجھے دے دیں ۔ کوشش کریں کہ معلوم ہوجائے کہ وہ کون لوگ ہیں۔ میں کچھ نہ کچھ کرتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے نمبر ایک کاغذ پر نوٹ کرکے جیب میں ڈالا اور بائک لے کر چلاگیا۔ اس کا رخ فرحان کے گھر کی طرف تھا۔ اس سے مشورہ کرکے ہی وہ کوئی قدم اٹھاناچاہتا تھا۔
٭٭٭
ابھی رات کا دوسرا پہر تھا جب خرم کے گھر کے سامنے فوروھیل جیپ آن ٹھہری۔ یہ سمیرا کی پسندیدہ گاڑی تھی۔ وہ تو ہر آہٹ پر کان دھرے بیٹھا تھا۔ فوراً باہر نکلا۔ دروازے پر صائمہ کھڑی تھی اور گاڑی میں فقط ڈرائیور تھا۔ صائمہ نے کسی تمہید کے بغیر پوچھا۔
”کچھ پتا چلا عائزہ کا؟“
”نہیں، ابھی تونہیں۔“اس نے اجنبی لہجے میں بتایا۔
”اچھا خیر، فارم ہاﺅس پر میڈم آگئی ہیں تم چلو میرے ساتھ ، وہیں بات کرتے ہیں۔ گھر میں بول دو۔“ صائمہ نے کہا تو وہ سمجھ گیا کہ بلاشبہ وہ اس سے سودے بازی کرے گی۔ وہ واپس پلٹا اور اپنے باپ مہردین کو بتاکر صائمہ کے ساتھ چل پڑا۔
فارم ہاﺅس پہنچتے ہی وہ ڈرائنگ روم میں چلے گئے جہاں سمیرا بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ ایک ہی دن میں گویا نچڑ کر رہ گئی تھی جیسے صدیوں کی بیمار ہو۔ خرم نے واضح طور پر محسوس کیا کہ گزشتہ رات اس کے اندر سناٹا تھا اور ماحول میں شور تھا۔آج رات ماحول میں سناٹا تھااور اس کے اندر شور برپا تھا۔ اس نے خود پر قابو پایا اور سمیرا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔
”مجھے عائزہ چاہیے، اس کے لیے میں ہرقیمت دینے پر تیار ہوں ۔ یہاں تک کہ اپنا آپ بھی۔“
اس کے یوں کہنے پر سمیر ا نے شاکی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا اور بڑے تحمل سے بولی۔”خرم! کاش تم میرے لیے اتنا تڑپتے اور جہاں تک تمہاری اپنی قیمت ہے تو تم خود جانتے ہو کہ تم کیا ہو۔ تمہاری قیمت صر ف میں نے لگائی تھی، کوئی دوسرا لگا ہی نہیں سکتا۔“
”سودے بازی تو کرسکتی ہو؟“خرم نے سارا احترام ایک طرف رکھتے ہوئے تیزی سے کہا توا س نے زخمی مسکراہٹ سے پوچھا۔
”کیا دے سکتے ہو؟“
”وہی جو تم چاہتی ہو۔ عائزہ پر ظلم کرکے تم نے اچھا نہیں کیا۔ اس کی زندگی تم نے داﺅ پر لگادی ۔“خرم نے طنزیہ انداز میں کہا تو وہ بڑے تحمل سے بولی۔
”خرم! تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کہ میں نے عائزہ کو اغوا کروایا ہے۔ میں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ یہی سچ ہے اور کسی بھی سودے بازی کو ذہن سے نکال دو۔ ہاں، اگر تم چاہو تو میںاس کی بازیابی کے لےے تمہاری مدد کرسکتی ہوں۔“
”کیا مدد کریں گی آپ؟انہوں نے ایک کروڑ مانگے ہےں ۔ وہ کون سا کسی جاگیردار یا مل اونر کی بیٹی ہے یا پھر اس کے باپ کابزنس چل رہا ہے ۔ بے چارہ غریب کسان ہے۔اغوا کرنے والے بھی بندے دیکھ کر اغوا کرتے ہیں کہ انہیں کچھ مل جائے ۔ وہ اپنی زمینیں بھی بیچ دے تو اتنی رقم نہیں لاسکتا اور پھر ان کی کسی سے دشمنی بھی نہیں ہے۔ وہ صرف اس لےے اغوا ہوئی کہ وہ تمہارے لیے کباب میں ہڈی بن گئی تھی۔“ اس نے انتہائی بدتمیزی سے کہا تو اس بار صائمہ نے خرم کو جھڑکتے ہوئے کہا۔
”خرم! یہ تم کس لہجے میں بات کررہے ہو؟ میڈم جب کہہ رہی ہیں کہ انہوںنے اغوا نہیں کروایا تو“
”میں بحث میں نہیں پڑنا چاہتا۔ مجھے عائزہ چاہیے کسی بھی صورت میں۔“ خرم نے اس کی بات کاٹ کر نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ اس پر صائمہ اور سمیرا دونوں خاموش رہیں تو وہ بولا۔” چلیں، میں مان لیتا ہوں کہ عائزہ آپ کے پاس نہیں ہے تو اس طرح سودا کرلیں۔ آپ مجھے ایک کروڑ دے دیں، اس کے عوض میں اپنا آپ دیتا ہوں پھر میں وہی کروں گا جو آپ چاہیںگی۔“
”تمہاری دماغی حالت پر میں شبہ تونہیں کرسکتی لیکن اس وقت تم پاگلوں جیسی باتیں کررہے ہو۔“ سمیرا نے افسوس بھرے انداز میں کہا پھر لمحہ بھر توقف کے بعد بولی۔” خیر، تم پرسکون ہوجاﺅ اور میری بات مانو۔اگر تم مجھ پر اعتماد کرو تو میں ہر طرح سے تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔“
”میں تیار ہوں، وہ اپنے گھر خیریت سے پہنچ جائے پھر آپ جو کہوگی میںمانوں گا۔“
”صائمہ، اسے فون دو۔“سمیرا نے کہا اور پھر خرم سے مخاطب ہوکر بولی۔ ”اپنے ماموں سے تازہ ترین صورت حال پوچھو۔ اغوا کرنے والے جو رقم بھی بتائیں انہیں کہہ دو کہ دیں گے ۔ رقم کیسے وصول کریں گے اور“
”میڈم! پولیس کو اس معاملے کی بھنک بھی مل گئی تو عائزہ کی زندگی کو خطرہ ہوگا۔ اس لیے ہم نے پولیس کو نہیں بتایا۔“
”جانتی ہوں۔میں جو کہہ رہی ہوں اسے غور سے سنو اور اسی پرعمل کرو بس۔“
”بولیں۔“ اس نے تحمل سے کہا۔
”صرف یہ پوچھو کہ رقم دے کر عائزہ کو کیسے لینا ہے؟ باقی تم مجھ پر چھوڑدو۔“سمیرا نے کہا تو خرم کو پختہ یقین ہوگیا کہ وہ اس کے سامنے ڈراما کررہی ہے۔ ایک بار تو اس کے جی میں آیا کہ ابھی اسی وقت وہ اس پر تشدد کرکے سب کچھ اگلوا لے مگر اس نے فوراً ہی خود پر قابو پایااور تحمل سے صائمہ کی طرف دیکھا جو اس کی جانب فون بڑھا رہی تھی۔ خرم نے اپنے ماموں کو فون کرکے صورت حال معلوم کی پھر وہی کہہ دیا جو سمیرا نے کہا تھا۔
”کیا کہتے ہیں؟“ سمیرا نے تجسس سے پوچھا۔
”وہ لوگ سودے بازی میں پچاس لاکھ تک آگئے ہیں۔“
”ٹھیک ہے، یہ طے کرلو کہ وہ رقم کس طرح لیں گے اور عائزہ کو کس طرح حوالے کریں گے۔“ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو خرم فون پر اپنے ماموں کے نمبر پش کرنے لگا۔
٭٭٭
صبح کا ملگجا اندھیرا ابھی پھیلا ہوا تھا۔ جب خرم، صائمہ اور سمیرا کے ساتھ فور وھیل جیپ میں اس مقام کی جانب بڑھ رہا تھا جہاں اغوا کاروں نے رقم کے عوض عائزہ کا تبادلہ کرنا تھا۔ وہ جگہ فارم ہاﺅس سے تقریباً ڈھائی کلو میٹر کے فاصلے پرتھی۔ جس وقت مقام کے بارے میں سمیرا نے سنا تھا، اسی وقت اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک ابھرآئی تھی۔وہ درختوں کا بڑا سا جھنڈتھا جو کسی جنگل کے مانند دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے قریب سے کچی سڑک گھوم کر گزرتی تھی۔ کچی سڑک آگے جاکر دائیں جانب مڑجاتی تھی۔ ایک طرف نشیب تھا اور آگے فصلیں تھیں اور بائیں جانب چڑھائی تھی جس پر جنگل کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ وہ کچے کا علاقہ تھا۔اغواکاروں نے یہ جگہ بہت سوچ کر منتخب کی تھی۔و ہ دور دور تک دیکھ سکتے تھے کہ ان کے پیچھے کوئی مددگار یا پولیس تو نہیںہے۔
اس نے جیپ روکتے ہی فیصلہ کرلیا کہ سمیرا کو اس کے اس گھٹیا انتقام کی سزا ضرور دے گا۔ وہ سلگتے ہوئے دماغ کے ساتھ گاڑی سے اترا، بریف کیس اٹھایا اور چڑھائی پر چڑھنے لگا۔ وہ چلتا جارہا تھا۔ اس کے ارد گرد درخت تھے لیکن کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اچانک اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے کال ریسیو کی تو دوسری طرف سے کوئی بولا۔
”میں تمہیں دیکھ رہا ہوں۔ یہاںسے دس قدم آگے بڑھ کر بریف کیس زمین پر رکھو اور پھر پلٹ جاﺅ۔“
”عائزہ کوسامنے کرو۔“ اس نے کہا تو دوسری طرف سے کوئی بولا۔
”وہ بھی آجائے گی لیکن جیسا میں کہتا ہوں، ویسا ہی کرو۔ بریف کیس رکھتے ہی وہ سامنے آجائے گی۔“
اس نے ایک طویل سانس لی، خودپر قابوپایا اور آگے بڑھتے ہوئے قدموں کی گنتی کی۔ دس قدم چل کر بریف کیس رکھ دیا پھر الٹے قدموں واپس پلٹ کر رک گیا۔ وہ انتظار کرنے لگا تبھی سامنے کی طرف سے ایک بندہ نمودار ہو۔اس کا چہرہ پوری طرح ڈھکا ہوا تھا ۔ اس نے بریف کیس کھولا، اس میں پڑے نوٹ دیکھے اور کوئی مخصوص اشارہ کرکے بریف کیس سمیت جنگل میں کہیں غائب ہوگیا۔چند لمحوں بعد اسے عائزہ آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ بے حال ہورہی تھی، اس کی حالت بڑی خراب تھی۔ بکھرے بال، مسلے ہوئے کپڑے جس پر مٹی لگی ہوئی تھی۔ اس کاآنچل غائب تھا۔ وہ اس کے قریب آتے ہی اس کے سینے سے لگ کر ہچکیوں سے رونے لگی تبھی خرم نے کہا۔
”چلو، جلدی چلو۔“
وہ پلٹ کر تیز قدموں سے جیپ کی طرف جانے لگے۔ اب یہ رسک تو اس نے لینا ہی تھا کہ سمیرا کے ساتھ واپس جائے۔ اس نے جی کڑا کیا اور جیپ کی طرف لپکا، تبھی اس نے دیکھا دو نقاب پوش جیپ کی طرف فائرنگ کرتے ہوئے بھاگ رہے تھے پھر اس کے ساتھ ہی زبردست فائرنگ ہونے لگی۔ خرم کی سمجھ میں نہیں آیا کہ اچانک یہ کیا ہو گیا ہے۔ پرسکون سناٹا اچانک ہی موت کی لرزہ خیزی سے دہل اٹھا تھا۔ اب یہ تو ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ جیپ کی طرف جاسکتے ۔ گاڑی کے پاس فائرنگ کرنے والے دونوں نقاب پوش کچی سڑک پر گرے ہوئے تھے۔ نہ جانے کون سی گولی ان کی زندگی چاٹ جائے اس لیے وہ جیپ کی طرف جانے کے بجائے نشیب میں اتر گئے۔ تبھی انہیں اپنی پشت پرسمیرا کی چیخ سنائی دی۔ خرم نے ایک لمحے کے لیے رک کر سمیرا کی مدد کرنے کاسوچا لیکن یہ وقت نہیں تھا۔ اس نے عائزہ کا ہاتھ زور سے پکڑا اور کچی سڑک پارکرکے نشیب میں سے نکل کر کھیتوں کی جانب بھاگ اٹھا۔
وہ دونوں کھیتوں کے درمیان سے گزرتے گرتے پڑتے بھاگتے چلے جارہے تھے۔ وہ کافی دور نکل آئے تھے۔ فائرنگ کی آواز دور کہیں پیچھے رہ گئی تھی۔ عائزہ کا سانس پھولا ہوا تھا۔ وہ راستے میں کئی جگہ گری پھر ہمت کرکے اٹھ کر بھاگنے لگی۔ وہ کسی خدائی مدد کے طالب تھے ورنہ تو انہیں تقریباً دو کلو میٹر کا سفر بہرحال ایسے ہی طے کرنا تھا۔ ایک جگہ تو اس کا دم اکھڑ گیا۔ وہ بے حال ہوکر گرپڑی۔ وہ سانس بحال کرنے کے لیے رکے تبھی خرم نے غور سے دیکھا۔ ذرا فاصلے پرکھیتوں کے درمیان سے کچی سڑک جاتی ہوئی دکھائی دی۔ بلاشبہ یہ کسی بڑے راستے پرجاکر ملتی ہوگی یا پھر نزدیک ہی انہیں کہیں پناہ مل جائے۔ چند منٹ بعد ہی اس نے خرم سے کہا۔
”چلو مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے، خداکے لیے نکلو یہاں سے۔“
اس نے ادھر ادھر دیکھا، دور دور تک کوئی نہیں تھا۔ وہ چلتے گئے۔ انہوں نے کچی سڑک والا راستہ اختیار کرلیا تھا۔ اچانک انہیں سامنے سے ایک جیپ آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ شش وپنج میں پڑگئے۔ وہ ان کے دشمن بھی ہوسکتے تھے کیونکہ خوف زدہ آدمی یا تو ہر شے سے ڈرتا ہے یا پھر وہ نڈر ہوجاتا ہے۔ ان دونوں کے پاس فرارکا راستہ نہیں تھا۔ وہ سڑک سے ہٹ کر چلنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ جیپ ان کے قریب آکر رک گئی اورچشم زدن میں چند آدمی باہر نکل آئے۔ ان کے چہرے چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، وہ سب خرم پر پل پڑے۔ اسے مزاحمت کا موقع ہی نہیں ملا ۔ اسی دوران کسی نے اس کے سر پرریوالور کادستہ مارا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا چلاگیا۔ وہ چکرا کر زمین پر گرا اور دنیا و مافیہا سے بےگانہ ہوگیا۔
جس وقت اسے ہوش آیا، سورج کی تیز روشنی ہر جانب پھیلی ہوئی تھی۔ جیسے ہی اسے احساس ہوا کہ وہ کچی سڑک پر پڑا ہواہے تو اسے یادآیا کہ وہ یہاں کیوں ہے۔وہ تیزی سے اٹھا تو ایک دم سے چکرا گیا۔ تبھی کسی نے اسے تھام لیا۔ اس نے نگاہیں اٹھا کر دیکھا تو وہ کوئی اجنبی شخص تھا۔ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”تم تم کون ہو؟“
”یہی سوال اگر میں تم سے کروں تو۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں بے ہوش پڑے ہو؟“ اس اجنبی نے جواب دینے کے بجائے سوال کردیا۔ تبھی خرم نے انتہائی اختصار سے اسے اپنے بارے میں بتایا۔ اس شخص نے پانی کا پیالہ اسے دیا۔ اس کے پاس گاگر نما برتن تھا جس میں سے پانی نکال کر پیالے میں بھرا تھا۔ خرم نے پانی پیا تو وہ اجنبی بولا۔
”یہ زمین میری ہے اور میں ابھی کچھ دیرپہلے ہی آیا ہوں۔ تمہیں یہاں بے ہوش دیکھا تو ہو ش میںلانے کی کوشش کی ۔ آﺅ کچھ دیر آرام کرلو۔“
”نہیں، مجھے ابھی جانا ہوگا۔ وہ عائزہ کو کہیں لے گئے ہوں گے۔مجھے انہیں تلاش کرنا ہے ۔“اس نے انتہائی غصے میں کہا۔ یہ اس کی بے بسی کا غصہ تھا۔ وہ ہاتھ آئی بھی تھی اور پھر گم کردی گئی۔ بلاشبہ سمیرا نے اسے واپس چھین لیا ہے کیونکہ وہ ان کے ساتھ جیپ میں نہیں آیا تھا۔ اس نے یہ قطعاً دھیان نہیں دیا کہ سمیرا کی ہذیانی چیخ کیوں بلند ہوئی تھی۔
”کہوتو میں تمہیں تمہارے گاﺅں تک چھوڑدیتا ہوں۔ یہاں قریب ہی ڈیرے پر میری بائک کھڑی ہے۔“ 
”تمہارا احسان ہوگا۔“خرم نے بے بسی اور احسان مندی سے کہا۔ یہ سنتے ہی اجنبی نے اسے اٹھایا اور ڈیرے کی جانب چل پڑا۔ خرم خود کوسنبھالنے کی بھرپور کوشش کرتاہوا اس کے ساتھ چل دیا۔
٭٭٭
خرم انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنے گھر میں چارپائی پر پڑا ہوا تھا۔ اسے اپنے زخموں کی تکلیف کم اورعائزہ کے دوبارہ کھوجانے کا زیادہ دکھ تھا۔ یہ ہزیمت اسے توڑے جارہی تھی۔ اس کی ماں اس کے زخم صاف کرکے اور ان دشمنوںکو بددعائیں دیتی ہوئی کچن میں دودھ گرم کررہی تھی جبکہ مہردین گاﺅں کے ڈسپنسر کو بلانے گیا ہوا تھا۔ دوپہر کا وقت ہوگیا تھا جب فرحان اس کے پاس آیا۔ وہ اس کی حالت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ اس کی طرف دیکھ کر وہ سراسراتے ہوئے بولا۔
”یہ تمہاری حالت کیسے ہوئی؟ تم تو رات کو شہر گئے ہوئے تھے۔“
”میں شہر نہیں جاسکا۔ میڈم ہی ادھر فارم ہاﺅس پر آگئی۔“ یہ کہہ کر اس نے اختصار کے ساتھ ساری روداد کہہ دی ۔فرحان یہ سب کچھ سن کر پریشان ہوگیا پھر حیرت زدہ لہجے میں بولا۔
”تو پھر عائزہ صبح نجیب کے ساتھ کیسے جارہی تھی؟“
اس نے کہا تو خرم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر یوں بولا جیسے اسے اپنی سماعتو ں پر یقین نہ آیا ہو۔
”کیا کہا تم نے؟ ذراپھر سے کہنا۔“فرحان نے تشویش بھرے لہجے میں اپنی بات دہرائی تو خرم نے کہا۔ ”عائزہ اور وہ بھی نجیب کے ساتھ پاگل ہوگئے ہو۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم؟ ہوش میں تو ہو؟“ اس کے لہجے سے شدید حیرت چھلک رہی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے فرحان نیند میں بڑبڑا رہا ہو لیکن فرحان نے اعتماد سے کہا۔
”میںپورے ہوش میں ہوں۔ میں صبح جب ریوڑ لے کر جارہا تھا، تب میرے قریب سے نجیب کی گاڑی گزری تھی۔ میں نے اس میں بیٹھی ہوئی عائزہ کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔کوئی دوسرا ہوتا تو شاید ذہن میں نہ رہتا۔“
”کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ کہیں تمہیں وہم تو نہیں ہوا؟“ خرم نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے اٹھ کر پوچھا۔
”میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں اور مجھے وہم بالکل نہیں ہوا۔“ اس کے لہجے میں وہی اعتماد تھا۔
”کیسے دکھائی دے رہی تھی وہ؟“ خرم نے کسی سوچ کے تحت پوچھاتو وہ بولا۔
”وہ ٹھیک ٹھاک اور پرسکون بیٹھی ہوئی تھی۔ میں تو یہی سمجھا کہ وہ عائزہ کو واپس گھر چھوڑنے جارہا ہے ۔ تمہارے اور میڈم کے درمیان کوئی سودے بازی ہوگئی ہوگی۔ میں مطمئن ہوگیا لیکن اب چھوٹا بھائی آیا تھا میرے پاس روٹی دینے تو میںنے تمہارے متعلق پوچھا۔ اس نے بتایا کہ تم زخمی حالت میں گھر آگئے ہو اور عائزہ تو ابھی تک گھر نہیں پہنچی۔ اب تم کچھ اور ہی کہانی سنارہے ہو۔“
”وہ اپنے گھر نہیں پہنچی تو پھر کدھر گئی؟نجیب سے اس کا کیا تعلق ہے ؟ یہ کیا معما ہے ؟“خرم نے وحشت ناک انداز میں کہا تو فرحان پریشان ہوتے ہوئے بولا۔
”اب یہ تو عائزہ ہی بتاسکتی ہے یا پھر نجیب۔“اس نے کہا تو خرم چونک گیا۔ اس نے بے خیالی میں اپنا سیل فون نکالنا چاہا مگر وہ کہیں گر گیا تھا۔ پھراحساس ہوتے ہی اس نے جوتے پہننے شروع کردیے اور بڑبڑاتے ہوئے بولا۔
”ہاں، یہ نجیب ہی بتاسکے گا۔ وہ عائزہ کے بارے میں کوئی سرپرائز تو دے گا ہی۔چل اٹھ، میں تجھے راستے میں اتاردوںگا۔“
وہ دونوں اچانک ہی صحن میں آگئے۔ آمنہ آوازیں دیتی رہی لیکن خرم نے اپنی ماں کی سنی ان سنی کردی۔ اس نے صحن میں کھڑی بائک اسٹارٹ کی تو فرحان اس کے پیچھے بیٹھ گیا۔ پھر دونوں ہی گھر سے نکل گئے۔اس نے فرحان کو راستے میں اتارا اور اپنا رخ فارم ہاﺅس کی طرف کرلیا۔اس کے ذہن میں خیالات آندھی اور طوفان کی طرح خیال گردش کررہے تھے۔
٭٭٭
حسب معمول فارم ہاﺅس کا گیٹ کھلا ہوا تھا۔ اس نے بائک جاکر پورچ میںروکی۔ تبھی فارم ہاﺅس کے ایک ملازم نے اسے دیکھا تو اس کی جانب بڑھ آیا۔ خرم نے حال احوال کے بعد نجیب کے بارے میں پوچھا ۔
”وہ ادھر خاص مہمانوں والے بلاک میں ہے۔“
”کیا ادھر کوئی مہمان آئے ہیں؟“ اس نے پوچھا۔
”پتا نہیں، میں کچھ دیر پہلے ہی آیا ہوں۔مجھے تو یہی بتایا گیا ہے کہ وہ ادھر ہے۔“
”اچھا، میں دیکھتا ہوں۔“ یہ کہہ کر خرم تیزی سے اس طرف جانے لگا۔ابھی وہ اس بلاک کے نزدیک نہیں پہنچا تھا کہ نجیب باہر آتا ہوا دکھائی دیا۔ وہ سوٹ پہنے ہوئے تھا اور کہیں جانے کی تیاری میں تھا کیونکہ وہ تیزی سے گاڑی کی طرف لپکا تھااور اس کا سارا دھیان اس طرف تھا۔ خرم تیزی سے اس کے پاس پہنچا تو نجیب اسے دیکھ کر ٹھٹکا اور رک گیا۔ تبھی اس نے انتہائی غصے سے پوچھا۔
”عائزہ کہاں ہے؟“ نجیب نے چند لمحے اس کی طرف حیرت سے دیکھا پھر حقارت آمیز لہجے میں بولا۔
”پاگل ہوگئے ہو تم؟ مجھے کیا معلوم اور تم معمولی مالی کے بیٹے ہوکر میرے ساتھ کس لہجے میں بات کررہے ہو؟“ 
”میںپوچھ رہا ہوں کہ عائزہ کہاں ہے، اسے فوراً میرے حوالے کردو۔“اس کی آواز میں غراہٹ تھی۔ تب نجیب نے اسے سر سے پاﺅں تک دیکھا اور پھر اسی حقارت بھرے لہجے میں کہا۔
”تم لوگوں کو اب ہر بندہ چور دکھائی دے گا۔ جاﺅ، اسے کہیں اور جاکر تلاش کرو۔ میرا مغز مت چاٹو۔مجھے پہلے ہی دیر ہورہی ہے۔“یہ کہہ کر وہ گاڑی کی طرف بڑھا، تب خرم نے غصے میں کہا۔
”تمہیں میری بات سمجھ نہیں آرہی ہے، میں کیا کہہ رہا ہوں؟“
”یہ بات اپنی میڈم کو جاکر سمجھاﺅ جس نے تمہیں خوامخواہ سر پر چڑھا رکھا ہے ۔تمہاری اوقات یہ نہیں کہ میرے منہ لگو۔ جاﺅ دفع ہو جاﺅ۔“ اس کے لہجے میںحقارت کے ساتھ طنز بھی شامل ہوگیا تھا۔ تبھی خرم نے دائیں ہاتھ کا مکا اس کے منہ پر دے مارا۔ نجیب نے دفاعی انداز میں اپنے ہاتھ آگے کیے تو خرم وحشیانہ انداز میں اس پر پل پڑا۔ نجیب اپنی عمر اور بھاری تن وتوش کے باعث اتنا پھرتےلا نہیں تھاجبکہ خرم پاگل پن کی حد تک غصے میں آگیا تھا۔ اس نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے نجیب کی کمر میں دونوں ہاتھ ڈالے۔ اسے اٹھا کر اوپر کیا اور پھر زمین پر دے مارا۔ وہ منہ کے بل گرا تو اس نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا۔ ایک بار نجیب نے اس کا پاﺅں پکڑا اور مروڑ کر پرے دھکیلا۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پایااور ایک جانب لڑھک گیا۔ اسی لمحے کی مہلت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ تیزی سے اٹھا اور واپس بھاگ کھڑا ہوا۔ اس کا رخ اسی بلاک کی طرف تھاجہاں سے نکل کر وہ اپنی گاڑی کی طرف بڑھا تھا۔ وہ بھی تیزی سے اس کے تعاقب میں لپکا۔ اگرچہ دونوں کا فاصلہ اتنا زیادہ نہیں تھا لیکن نجیب اچانک ہی کہیں غائب ہوگیا۔ خرم کے لیے وہ جگہ اجنبی نہیں تھی۔ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ کسی بھی آہٹ کا دھیان رکھتے ہوئے وہ دبے پاﺅں آگے بڑھنے لگا۔ وہاں چند کمرے تھے بلاشبہ وہ انہی میں سے ایک میں ہوگا۔ وہ محتاط انداز میں آگے بڑھ رہا تھا۔ اسے لگا کہ کسی کمرے میں سے آواز آرہی ہے۔ اس نے اندر جھانکنے کے لیے کوئی درز یا جھری تلاش کرنے کی کوشش کی تو اسے پرانی طرز کی کھڑکی ذرا سی کھلی ہوئی ملیجس سے اندر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ کلین شیو نجیب کے چہرے پر ذرا سی پریشانی تھی جبکہ اس کے بائیں گال پر انگریزی کے حرف ایکس کی صورت گہری خراش میں سے خون ابل رہا تھا۔ اس نے بائیں ہاتھ میں پرانے طرز کے فون کا ریسیور پکڑا ہوا تھا۔ اس کے سوٹ پر کہیں کہیں دھول لگی ہوئی تھی۔ اس کی آواز آنا بند ہوگئی تھی۔ شاید وہ اپنی بات کہہ کر دوسری جانب سے سن رہا تھا پھر جیسے ہی اس نے ریسیور رکھا تو دوسرے کمرے سے عائزہ برآمد ہوئی، تب خرم حیران رہ گیا۔ وہ تازہ دم دکھائی دے رہی تھی جیسے ابھی سنگھار میز سے اٹھ کر آئی ہو۔ کیا وہ عائزہ ہی تھی۔ اس کی نگاہوں کو دھوکا ہورہا ہے؟ اس نے پھر غور سے دیکھا۔ وہی چوڑا ماتھا، ستواں ناک، چمک دار سیاہ بھونرا آنکھیں، پتلے لب جس پر سرخ لپ اسٹک لگی ہوئی تھی۔ نفاست سے سنواری ہوئی سیاہ زلفیں جو اس نے کھلی چھوڑ رکھی تھیں۔ اس نے بسنتی رنگ کا شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا اور اسی رنگ کا آنچل کندھوں پر پھیلایا ہوا تھا۔ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ نجیب کو دیکھ کر کچھ کہا جسے اس نے نہیں سنا۔ وہ ایک طرف پوری یکسوئی سے دیکھ رہا تھا۔ خرم نے اس کی نگاہوں کی سمت دیکھا، اسے کچھ اور تو دکھائی نہیں دیا۔ بس سفید کرتے کی آستینوں میں سے دو مردانہ ہاتھ دکھائی دیے جن میں ریوالور دبا ہوا تھا۔بائیں ہاتھ میں نال اور دائیں ہاتھ کے انگوٹھے اورانگلی میں ایک گولی دبی ہوئی تھی جو وہ چیمبر میں ڈال رہا تھا۔ باقی تین انگلیاں دستے پر تھیں۔ دو گولیاں ابھی لوڈ کرنے کے لیے باقی تھیں جو ان ہاتھوں کے قریب ہی پڑی ہوئی تھیں۔ خرم کو عائزہ کی وہاں موجودگی اور اس قدر پرسکون ہونے کی وجہ سمجھ نہیں آئی لیکن وہ لمحہ بھر میں سمجھ گیا کہ وہ لوگ اسے ختم کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ وہ تیزی سے پیچھے ہٹا اور باہر کی سمت دوڑا۔ وہ اتنا سمجھ گیا تھا کہ یہ کوئی سازش ہے، کون کس کے ساتھ کیا کررہا ہے، یہ سمجھنے کا ابھی وقت نہیں تھا۔ وہ جلد از جلد وہاں سے دور جانا چاہتا تھا کیونکہ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اور وہ بے موت مرنا نہیں چاہتا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہاں کے گارڈ اس کی جان کے دشمن بن جاتے، وہ بھاگتے ہوئے پورچ کے پاس پہنچا۔ وہاں پر بائک نہیں تھی اس نے پریشانی میں ادھر ادھر دیکھا ۔تبھی فارم ہاﺅس کے گارڈ گنیں تھامے اس کے پاس آکر کھڑے ہوگئے۔ وہ ابھی یہ ساری صورت حال سمجھ ہی رہا تھا کہ پولیس وین گیٹ سے اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔ وہ قریب آکر رکی تو پولیس والوں نے اسے قابو کرلیا۔
٭٭٭
ایک ہفتے سے وہ لاک اپ میں تھا۔ وہاں سوائے تشدد کے اور کچھ بھی نہیں ہورہا تھا۔ وہ تنہا تھا، اسے کھانے پینے کے لیے فقط اتنا ہی دیا جاتا تھا کہ وہ زندہ رہے۔ جہاں وہ جسمانی تشدد سے بے حال تھا، وہاں ذہنی اذیت سے بالکل پاگل ہوگیا تھا۔ وہ منظر جو اس نے فارم ہاﺅس کے مہمانوں والے بلاک کے کمرے میں دیکھا تھا، اس کی اسے قطعاً سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اتنی پرسکون عائزہ وہاں کیا کررہی تھی؟ کیا وہ بھی ان کے ساتھ ملی ہوئی تھی؟ اس سوچ کے ساتھ ہی اس کا دماغ ماﺅف ہوجاتا ۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا۔ اسے یہ احساس تو ہوگیا تھا کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا ہے مگر یہ کوئی اتنی انہونی بات نہیں تھی۔ راہ چلتے ہوئے کتا بھی دھوکے سے کاٹ سکتا ہے، اس کے ساتھ تو سازش ہوئی تھی ۔ سازش انہی لوگوں کی کامیاب ہوتی ہے جواعتماد رکھتے ہوں۔ دھوکا یا سازش جو بھی تھا اسے اس سطح پر گھیرکر لے آیا تھاکہ وہ بے بس پنچھی کے مانند قفس میں پڑا تھا اور اس کا پرسان حال کوئی نہیں تھا۔ اسے لاک اپ میں دوسرا دن تھا جب اذلان غصے میںبھرا ہوا اس کے پاس آیا۔ اس کی آنکھوں سے اور لفظوں سے آگ برس رہی تھی۔
”تم نے میری آپی کے ساتھ دھوکا کیا ہے، گھٹیا انسان۔ اسے قتل کرنے کی سازش کی ۔ پہلی بار تو میں نے آپی کے صدقے تمہیں معاف کردیا تھا لیکن تم اس قدر گھناﺅنی حرکت کروگے، یہ میں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس قدر گھٹیا حرکت، اس قدر احسان فراموشی وہ اس وقت زندگی اور موت کی کشمکش میں ہےں۔ اپنا جرم قبول کرو ورنہ یہ خود ہی تم سے اگلوالیں گے۔ یہ مت سمجھنا کہ تمہاری زندگی بچ جائے گی ۔ اگر میری آپی کو کچھ ہوگیا نا تو پھانسی کا پھندا تمہاری گردن میں ڈالنے سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔ عدالت نے اگر تمہیں سزا نہ بھی دی تو میں تمہیں سزادوں گا اور ایسی عبرت ناک سزا دوں گا کہ دنیا دیکھے گی۔“
”میری بات سنو اذلان! میں نے“ خرم نے کچھ کہنا چاہا تو وہ حقارت سے بولا۔
”خاموش کمینے۔ میں تمہاری نہیں، تم میری بات سنو اور جرم قبول کرکے عدالت سے سزا پالو اور بس“ اس نے کہا اور کوئی بات سنے بغیر واپس پلٹ گیا پھر اس کے بعد خرم سے کوئی بھی نہیں مل سکا۔ دن رات کے تشدد سے وہ اس قدر ٹوٹ گیا تھا کہ ناکردہ گناہ بھی ماننے کوتیار ہوگیا۔ اس کے ساتھ یہ سب کیا ہوگیا ؟ بس ایک یہی سوال اسے زندہ رکھنے کی امید بنا ہوا تھا ورنہ تو اس کی حالت مردوں سے بھی بدتر ہوگئی تھی۔ وہ ذہنی اور جسمانی طور پر ٹوٹ پھوٹ چکا تھا۔
٭٭٭
قفس میں روشنی اذیت کو بڑھادیتی ہے۔ خرم کی اذیت مزید بڑھ گئی تھی کہ اس کا ریمانڈ لینے کے لیے قصبے سے شہر کی عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ یہ بات اسے اس وقت معلوم ہوئی جب اسے لاک اپ سے نکالا گیا اور انسپکٹر آصف کے سامنے لایاگیا۔ وہ تھانے میں باہر جانے والے راستے پرکھڑا تھا۔ اس کے قریب ہی پولیس وین کھڑی تھی۔ انسپکٹر آصف بڑے ڈیل ڈول، موٹے نین نقش اور سانولے رنگ کاتھا۔ اس نے اپنی سرخ آنکھوں سے ہتھکڑی لگے خرم کو دیکھا۔ اس نے خرم کو لے جانے کا اشارہ کیا۔ وہ خود پولیس وین میں اگلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ اور چار سپاہی پیچھے بیٹھے تو وین چل دی ۔ خرم اپنی سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہ کیا ہوگیا ہے؟ سمیرا اسے اس قدر ذلیل ورسوا کرنے کے بعد اذیت میں بھی ڈال دے گی یہ تو کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ عائزہ اور نجیب کے درمیان کیا تعلق تھا؟ کیا وہ بے وفائی کر گئی ہے یا کسی مجبوری میں ایسا کیا ہے ؟ وہ ان سوالوں کا جواب چاہتا تھا۔ بس اس کے ذہن میں عائزہ کی وہ مسکراہٹ چپک گئی تھی جواس نے فارم ہاﺅس کے خاص مہمانوں والے بلاک کے کمرے میں دیکھی تھی۔ اس مسکراہٹ میں انجانی کہانی تھی جس کے بارے میں سوچنا بھی اس کی اذیت بڑھادیتا تھا۔ وہ پولیس کے نرغے میں ایسا پھنسا تھا کہ کسی سے رابطہ تک نہیں ہوپایا تھاورنہ وہ خود ان سوالوں کا جواب تلاش کرلیتا۔ اسے حیرت اس پربھی تھی کہ کیا ا س کے گھر والوں نے بھی اسے تلاش نہیں کیا کہ وہ کہاں ہے؟ ایک سوال جو اسے چٹکیاں بھررہا تھا کہ اگرسمیرا نے دشمنی کرنا ہی تھی تو پھر وہ موت وحیات کی کشمکش میں کیوں ہے؟ اذلان جھوٹ بول رہا ہے یا واقعتا ایسا کچھ ہوگیا ہے ۔وہ جس قدر سوچتا رہا سوال اسی قدر بڑھتے رہے اور اس کی اذیت کو بڑھاتے رہے۔ اچانک اس کی سوچوں کا بہتاہوا دھارا رک گیا۔ پولیس وین پکی سڑک سے ہٹ کر ایک ذیلی کچی سڑک پر آگئی تھی پھر ہچکولے کھاتی ہوئی کچھ فاصلے پر رک گئی۔ وہ حیران ہوگیا کہ یہ کدھر آکر رک گئے ہیں۔ تبھی ایک سپاہی نے اس کے پہلو میں ٹہوکا دیتے ہوئے کہا۔
”چلو نیچے اترو۔“
”تم لوگ تو مجھے عدالت لے جارہے تھے، یہاں کیوں؟“ خرم نے حیرت سے پوچھا۔
”اوئے عدالت تو اس لےے لے جاتے ناکہ تم ہمارے کاغذوں میں گرفتار ہوتے۔ تمہاری گرفتاری تھانے میں ہے ہی نہیں۔ اس لیے تجھے اوپر والی عدالت میں بھیج رہے ہیں۔“سپاہی نے انتہائی خباثت سے کہا تو وہ سمجھ گیا کہ اذلان نے اسے یونہی دھمکی نہیں دی تھی۔ یہ ماورائے عدالت قتل کے آثار تھے۔ اسے پتا چل گیا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے، تبھی ایک دوسرے سپاہی نے کہا۔
”نیچے اتروگے یا تجھے گھسیٹ کر اتاریں۔“
خرم کو موت کا پیغام دے دیا گیا تو اس کے حواس ایک دم سے جھنجھنااٹھے۔ وہ اتنی آسانی سے مرنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ تیزی سے سوچنے لگا کہ موت کے ان ہرکاروں کے ہاتھوں سے کیسے نکلا جائے۔ فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ ساکت ہوکر بیٹھا ہوا تھا کہ سپاہیوں نے اسے بازوﺅں سے پکڑا اور گھسیٹتے ہوئے وین سے اتارنے لگے۔ اس دوران میں پیچھے سے کسی نے زور سے دھکا دیا تو وہ سیدھا کچی زمین پرجاگرا۔ سامنے ہی انسپکٹر آصف کھڑا اسے دیکھ رہا تھا۔ ایک سپاہی نے آگے بڑھ کر خرم کے ہاتھوں میں لگی ہتھکڑی کھول دی تو انسپکٹر نے سردلہجے میں کہا۔
”اٹھو اور بھاگو۔“
”نہیں، میں نہیں بھاگوں گا ۔مجھے عدالت لے جائیں جو“ خرم نے بچنے کی آخری کوشش کرتے ہوئے سنی ان سنی کرتے ہوئے درشت لہجے میں کہا۔
”میں کہہ رہا ہوں، اٹھو اور بھاگو۔ نہیں بھاگو گے تو کیا بچ جاﺅ گے، چلو“ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک سپاہی کو اشارہ کیا۔ اس نے گن سیدھی کرکے بولٹ مارا تبھی تیز سائرن کی آواز قریب آتی ہوئی سنائی دی۔ اس کے ساتھ ہی ڈی ایس پی رضوان کی گاڑی نمودار ہوئی۔ وہ تیزی سے ان کے قریب آئی اور ان سے ذرا فاصلے پر رک گئی۔ اس کے پیچھے دو پولیس وین تھیں جن کے رکتے ہی اس میں موجود پولیس نفری اتری اور انہوں نے ان سب کو گھیر لیا۔ انسپکٹر آصف پرسکون انداز میں یہ سب دیکھ رہا تھا۔ ڈی ایس پی رضوان جیپ میں سے اترا اور قریب آکر بولا۔
”میں یہ سوال نہیں کروں گا انسپکٹر کہ تم یہ کیا کررہے ہو، کیوں کررہے ہو؟ میں جانتا ہوں۔ اسے میری گاڑی میں بٹھاﺅ۔“
”سر وہ آپ اگر“ انسپکٹرنے کہنا چاہا تو ڈی ایس پی نے غصے میں کہا۔
”میں نے جو کہا ہے، وہ نہیں سنا تم نے ؟ کیا میں نفری کو حکم دوں؟“
”نہیں سر! آپ ٹھیک کہتے ہیں۔“ اس نے یہ کہتے ہوئے گن تانے سپاہی کو ہاتھ کے اشارے سے منع کردیا۔ سپاہی پیچھے ہٹ گیا۔ انسپکٹر خود آگے بڑھا اور خرم کوا ٹھا کر ڈی ایس پی کی گاڑی کی طرف لے گیا۔ اسے گاڑی میں پچھلی نشست پر بٹھانے کے بعد ڈی ایس پی کو سیلیوٹ کیا۔
”ٹھیک ہے، اب تم فوراً تھانے رپورٹ کرو۔ میں وہیں آرہا ہوں۔“یہ سن کر انسپکٹر نے دوبارہ سیلیوٹ کیا تو وہ اپنی جیپ کی جانب بڑھا۔ وہ وہاں سے چلا گیا تو نفری بھی اپنی اپنی وین میں بیٹھ کر واپس چل دی ۔خرم موت کے منہ سے بچ نکلا ۔
٭٭٭
سہ پہر ہوچکی تھی ۔فارم ہاﺅس کے شاندار ڈرائنگ روم میں اذلان اور سمیرا کے فیملی فرینڈ آچکے تھے۔ان میں تین مرد کاروباری طبقے سے تھے، ایک بزرگ سیاست داں جو سیاسی طور پر ان کا گاڈ فادر تھا۔ ایک ان کا خاندانی وکیل اور ایک خاتون تھی جونہایت امیر اور مشہور خاندان سے تھی۔ وہ ایک سوشل ورکر بھی تھی۔ انہیں یہ خبر نہیں تھی کہ انہیں فوری طور پر یہاں کیوں بلوایا گیا ہے۔ ان سب کوبلانے والا ڈی ایس پی رضوان تھا۔ مہمانوں کو اگرچہ خبر نہیں تھی کہ کیوں بلوایا گیا ہے تاہم وہ ان دونوں کی مخدوش حالت سے آگاہ تھے اسی لیے اپنے سارے کام چھوڑ کر پہنچے تھے۔ ڈی ایس پی رضوان وہیں موجود تھا اور ان کااستقبال کررہا تھا۔ سب سے آخر میں اذلان پہنچا۔ جس وقت اذلان مہمانوں سے مل رہا تھا، انہی لمحوں میں چند پولیس والے خرم کو بھی وہیں لے آئے۔ اسے یوں خستہ حالت میں دیکھ کر سبھی کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہوگیا۔ ماحول میں سنجیدگی پھیل گئی، تبھی ڈی ایس پی بولا۔
”آپ سب مہمانوں سے معذرت کہ بغیر بتائے آپ کو یہاں فوری طور پر پہنچنے کی زحمت دی۔ میں نے آپ کو انتہائی اہم نوعیت کے معاملے کے لیے بلایا ہے ۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ میری بات سنیں اور پھر اس کاکوئی حل نکالیں۔“
”جی، جی بولیں۔“ بزرگ سیاست داں نے فوراً کہا تو وہ کہتا چلاگیا۔
”ایک ہفتہ قبل مجھے یہ اطلاع ملی تھی کہ خرم نامی ایک نوجوان نے سمیرا بی بی پر قاتلانہ حملہ کیا ہے جس میں وہ بچ گئی ہیں لیکن انتہائی نازک حالت میں ہےں جبکہ خرم فرار ہے۔ قصبے کے تھانے میں یہ درخواست نجیب نامی آدمی نے دی تھی جس پر ایف آئی آر درج کرلی گئی لیکن حقیقت یہ ہے کہ انسپکٹر آصف نے خرم کو گرفتار تو کرلیا تھا لیکن اس کی گرفتاری نہیں ڈالی تھی اور سمیرا موت وحیات کی کشمکش میں تھیں۔ آج صبح خرم کو ایک ویرانے میں لے جاکرقتل کیا جارہا تھا کہ میں بروقت پہنچا اور اسے قتل ہونے سے بچالیا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خرم کی گرفتاری کیوںنہیں ڈالی گئی اور اسے قتل کیوں کیا جارہا تھا؟“
”جی بالکل، یہ سوال تو بنتا ہے ۔“وکیل نے فوراً کہا۔
”دوسری طرف گزشتہ رات اسپتال سے سمیرا بی بی پراسرار طور پر غائب ہوگئیں حالانکہ وہاں پر پولیس کا سخت پہرا تھا۔ ان کا ابھی تک سراغ نہیں ملا۔ کسی کو بھی ان کا پتا نہیں ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اذلان کی طرف دیکھا پھر پوچھا۔
”شاید آپ کومعلوم ہو کوئی سراغ، کوئی پتا؟“
”نہیں رضوان صاحب! ان کا کوئی پتانہیں چل رہا ۔“
”اذلان صاحب! آپ کویاد ہوگا کہ جب آپ ملک سے باہر تھے اس وقت سمیرا پر ایبٹ آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ اس واقعے کی اطلاع کسی بھی تھانے میں نہیں دی گئی، میں پوچھتا ہوں آخر کیوں؟“
”میری تحقیق کے مطابق وہ کارستانی خرم ہی کی تھی لیکن آپی کے کہنے پر میں نے اس معاملے کو دبادیا۔“اذلان نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”جب آپ کویقین تھا پھر بھی آپ نے اپنی بہن کو اس کے ساتھ بلکہ اس کے رحم وکرم پرچھوڑدیا ۔ان کی حفاظت کی کوشش نہیںکی؟“
”یہاں موجود سب لوگ یہ جانتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی کی مالک تھیں اورمیں ان کے معاملات میں دخل نہیں دے سکتا۔ وہ اگر میری بات مان لیتیں تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ جہاں تک ان کی حفاظت کی بات ہے تو میں نے ان کاہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کی۔ انہیں کسی سے خطرہ نہیں تھا۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”مگر آپ یہ نہ جان سکے کہ ان کے پیچھے قاتل لگے ہوئے تھے تاکہ انہیں قتل کردیں۔ قاتلوں نے پہلے ایبٹ آباد میں کوشش کی اور پھر ایک ہفتے پہلے جب وہ خرم کے ساتھ جاکر عائزہ کو اغوا کاروں سے چھڑوانے گئی تھیں۔“ رضوان نے ایک ایک لفظ پر زور دے کر کہا۔
”ڈی ایس پی صاحب! آپ کے کہنے کامطلب یہ ہوا کہ خرم اس معاملے میں ملوث نہیںتھا؟“ وکیل نے جرح کرتے ہوئے کہا۔
”میں اسے بے گناہ قرار نہیں دے رہا۔ آپ سب کے سامنے حقائق پیش کررہا ہوں۔ فیصلہ تو آپ نے کرنا ہے ۔ خیر، میں یہ واضح کرنا چاہ رہا ہوں کہ خرم تو تھانے میں تھا مگر اسپتال سے سمیرا غائب ہوگئی۔ کیا انہیں اغوا کرلیا گیا ہے یا وہ خود ہی کہیں غائب ہوگئی ہےں یا پھر سارا ڈراما خود سمیرا کر رہی ہیں؟ اس سے اگرچہ مزید سوال پیدا ہوں گے لیکن میں بات کومحدود رکھتے ہوئے اس سوال کا جواب چاہتا ہوں تو یہ معاملہ خود بہ خودحل ہوجائے گا۔“
”تو آپ سمجھائیں نا اس معاملے کو۔ کیوں خوامخواہ تجسس پیدا کررہے ہیں؟“ بزرگ سیاست داں نے کسی حد تک تلخی سے کہا تو ڈی ایس پی مسکراتے ہوئے بولا۔
”تو پھر سنیں، سمیرا میری کالج فیلو رہی ہےں، بعد میں بھی ہمارے درمیان اکثر وبیشتر رابطہ رہتا تھا۔ وہ میری شادی پر بھی آئی تھیں۔ جن دنوں ایبٹ آباد میں ان پر حملہ ہوا تو انہوں نے مجھے وہاں بلایا اور قاتلانہ حملے کے بارے میں تمام ترتفصیلات بتاکر اپنے طور پر تفتیش کرنے کوکہا۔ میں نے اپنا تبادلہ یہاں کروایا اور خفیہ طور پر اپنی تفتیش شروع کردی۔ مجھے خرم اور سمیرا کے تعلق کے بارے میں پوری طرح علم تھا۔ گاہے بگاہے ہم دونوں کے درمیان معلومات کا تبادلہ ہوتارہتا تھا۔ میں ان قاتلوں تک پہنچ تو گیالیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے وہ میری دسترس میں نہیں آرہے تھے۔ تب اچانک سمیرا نے مجھے بتایا کہ خرم اس پر عائزہ کے اغوا کا الزام لگارہا ہے، تب میں نے پوری کوشش کرکے اس گروہ کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی۔ سمیرا نے جو کیا، وہ خرم کی مدد کرنے کے لیے نہیں بلکہ میرے کہنے پر کررہی تھی کیونکہ اغوا کار کوئی اور نہیں اسی گروہ کے لوگ تھے جنہوںنے ان پرقاتلانہ حملہ کیا تھا۔“
”کون تھے وہ لوگ؟“ اذلان نے تیزی سے پوچھا۔
”لیکن پہلے یہ تو معلوم ہوجائے کہ سمیرا اس وقت کہاں ہےں؟“ ڈی ایس پی نے اذلان کی بات نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا تو اذلان بولا، اس کے لہجے میں حددرجہ بے چینی تھی۔
”ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں رضوان صاحب ۔ آپ خوامخواہ سنسنی پھیلارہے ہیں۔ اگر آپ کو آپی کے بارے میں معلوم ہے یا اس گروہ کے بارے میں پتا ہے تو پلیز، ہمیں بتائیں تو ہم کچھ کریں ۔میں ڈی آئی جی سے بات کرتا ہوں اگر وہ لوگ آپ کی دسترس میں نہیں آرہے ہیں۔“
”سمیرا پر قاتلانہ حملہ کرنے والا اور عائزہ کو اغوا کرنے والا مجو گینگ اس وقت میری حراست میں ہے۔ سمیرا بی بی رات اسپتال سے اغوا ہوچکی ہوتیں اگر میرا وہاں پر کڑا پہرا نہ ہوتا۔ انہوں نے کوشش کی اور میرے جال میںپھنس گئے۔ سمیرا کو اسپتال سے میں نے اپنے گھر میںشفٹ کردیا تھا۔ میں نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی ساری وجہ خود سمیرا ہی سے سنیں۔“ ڈی ایس پی نے ڈرامائی انداز میں کہا اور پھر اندرونی کمرے کی طرف دیکھنے لگا۔ سب لوگ بھی ادھر ہی دیکھنے لگے۔ تبھی وہاں سے سمیرا نمودار ہوئی وہ وھیل چیئر پر بیٹھی ہوئی تھی جسے وہ خود ہی دھکیلتی ہوئی ان کے پاس آگئی۔ اس نے سب کی طرف دیکھا پھر آزردہ لہجے میں بولی۔
”میں نے یہاں ہونے والی ساری باتیں سن لی ہیں۔ رضوان تو کچھ اور ہی چاہتا تھا لیکن یہ میں نے ہی تجویز دی تھی کہ آپ سب کو یہاں جمع کرکے سارے حقائق آپ کے سامنے رکھ دیے جائیں تاکہ ہم سب کسی فیصلے پر پہنچ سکیں۔“
”ہاں بولو بیٹا۔“ بزرگ سیاست داں نے گہری سوچ کے ساتھ کہا۔
”اس وقت مجھے قطعاً سمجھ نہیں آئی تھی کہ اچانک کسے میرے ساتھ دشمنی ہوگئی ہے۔ جب مجھ پر پہلی بار حملہ ہوا اگرچہ اذلان نے کہا تھا کہ وہ دشمن کو تلاش کرے گا لیکن اس نے تونہیں کیا، میں نے تلاش کرلیا کیونکہ رضوان کی مدد سے مجھ پر آہستہ آہستہ حقیقت کھل گئی۔ مجو گینگ کسی اور کا نہیں، میرے اپنے سگے بھائی اذلان کا ہے ۔ میرا بھائی ہی میری موت چاہتا تھا جسے میں نے اپنی اولاد کی طرح پالا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ہچکیاں لے کررونے لگی۔ وہاں پر موجودسبھی ششدر رہ گئے کہ اذلان ایسا کرسکتا ہے جبکہ اذلان پھٹی پھٹی نگاہوں سے ایک ٹک اپنی بہن کی طرف دیکھ رہا تھا۔
”بتاﺅ اذلان! تم نے ایسا کیوں کیا؟“ ڈی ایس پی رضوان نے تحکمانہ انداز میں پوچھا تو وہ یوں چونکا جیسے سکتے سے باہر آیا ہو پھر چند لمحے بعداپنے حواس پر قابو پاتے ہوئے بولا۔
”ہاں، میں میں ہی اپنی بہن کی موت چاہتا تھا۔ ایک معمولی ملازم کے بیٹے اور وہ بھی کم عمر نوجوان کے ساتھ تنہائی میں وقت گزارے، ایک بھائی یہ کیسے برداشت کرسکتا ہے اور اس پر کجا آپی نے اس کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ خرم آپی کے حواسوں پر کیسے چھاگیا؟ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا تھا اور پھر آپی اس سے شادی کرلیتیں تو ہماری جائداد میں سے وارث پیدا ہو جاتے۔ میں اپنی جائداد کی تقسیم نہیں چاہتا تھا اور وہ بھی ایک کمی کمین کے پتر کی اولاد اور پھر میں یہ کیسے برداشت کرسکتا تھا کہ میرا سیاسی کیریئر داﺅ پر لگ جائے۔ میری ہی سیاسی مخالفین میرا مذاق اڑاتے کہ میری بہن ایک کمی کمین کو خود بیاہ کرلائی ہے۔ میرا تو سیاسی کیرئیر تباہ ہوکررہ جاتا اوربزنس کمیونٹی مجھ پر تھو تھو کرتی۔ میں نے اس کا قصہ ہی ختم کردینا چاہا اور اس کا سارا الزام خرم پر ڈال دینا چاہتا تھا۔“ وہ اعتراف کرچکا تو ڈی ایس پی نے کہا۔
”ظاہر ہے، سمیرا کو ختم کرنے کا کوئی جواز تو ہوتا ۔ وہ خرم پر عائزہ کے اغوا کی صورت میں مسلط کردیاگیاتاکہ سمیرا کے ساتھ خرم بھی نہ رہے۔ یہ تو اس کی قسمت اچھی تھی اور میرے لگائے ہوئے بندے وہاں موجود تھے۔ورنہ یہ دونوں ہی ادھر ختم ہوجاتے اور یہ اس واقعے کو اپنی مرضی کا رنگ دے دیتے۔“
”نہیں، اس میں اذلان کے سرغنہ ہونے کا معلوم کیسے ہوا؟“ وکیل نے اپنی تسلی کے لیے پوچھا۔
”اذلان کھل نہیں رہا تھا، اس نے بڑا مضبوط نیٹ ورک بنایا ہوا تھا۔ جس دن سمیرا گئی تھی، عائزہ کو چھڑوانے کے لیے تو وہ جان بوجھ کر گئی تھی تاکہ مجو گینگ کے لوگ ان پر حملہ کریں۔ میں نے بھی اپنے بندے گھات میں لگائے ہوئے تھے۔ سمیرا کو گولی اس لیے لگ گئی کہ خرم اپنے ساتھ عائزہ کو لے کر کسی اور طرف نکل گیا۔ توجہ بٹی تو گینگ کے لوگ سمیرا تک پہنچ گئے۔ وہی ان کی ٹارگٹ تھی لیکن پھر اذلان کے اس وقت ہاتھ پیر پھول گئے جب سمیرا کو دوبارہ اسپتال میں اغوا یا قتل کرنے کی کوشش کی گئی اور سمیرا وہاں سے غائب ہوگئی۔ تبھی اسے تلاش کرنے میں بہت ساری غلطیاں ہوگئیں اس سے۔ فون تو اس کا ٹیپ کیا ہی جارہاتھا۔ اس نے احتیاط نہیں کی۔ بدحواسی میں اس نے بہت سارے ثبوت چھوڑے اوریہ سامنے آگیا۔“
”بہت برا کیا۔“خاتون سوشل ورکر پہلی بار بولی تو ڈی ایس پی نے کہا۔
”سمیرا کے غائب ہونے پر خرم کی صورت میں اس کے خلاف ثبوت ہوسکتا تھا۔ اس کو ختم کرنے کے لیے اس نے ایک بھیانک منصوبہ بنایا۔ اس کا گروہ اغوا کرنے میں مہارت تو رکھتا ہی تھا۔ انہوں نے انسپکٹر آصف کے بچے کواغوا کرکے اسے مجبور کیا کہ وہ خرم کو پار کردے۔ اگر مجو گینگ کے کچھ لوگ پکڑے نہ گئے ہوتے تو اب تک خرم قتل ہوچکا ہوتا اور اس طرح آپ کے سامنے نہ بیٹھا ہوتا۔ یہ گینگ اس لیے بنایا گیا تھا کہ علاقے پر اپنا دباﺅ رکھا جا سکے۔“یہ کہہ کر اس نے مہمانوں کی طرف دیکھا پھر چند لمحے توقف کے بعد بولا۔
”بس اب ایک اور کردار“ یہ کہہ کر اس نے ایک دوسرے دروازے کی طرف دیکھا جہاں سے لیڈی پولیس کی حراست میں عائزہ برآمد ہوئی۔ اس کے چہرے پر شرمندگی پھیلی ہوئی تھی۔ اس نے ایک بار خرم کی طرف دیکھا اور پھر نگاہیں جھکالیں۔
”یہ عائزہ ہے۔ یہ خود ہی بتائے گی کہ اس سارے معاملے میں اس کا کردار کیا رہا ہے۔“وہ چند لمحے خاموش کھڑی رہی پھر سسکتے ہوئے بولی۔
”خرم کے شہر جانے سے پہلے میں ایک بار نوکری کے سلسلے میںاذلان سے ملی تھی۔ اس نے نہ صرف مجھے نوکری دلوانے کی آفر کی تھی بلکہ یہ تک کہا کہ میں کیوں یہ چھوٹی موٹی نوکری کرنا چاہتی ہوں۔ اس نے مجھے بہت سبز باغ دکھائے۔ مجھ پربہت خرچ کیا اور میں یہاں فارم ہاﺅس پر ان سے ملنے کے لیے آتی رہی۔ اس وقت میں خود خرم سے جان چھڑانا چاہتی تھی۔ جب یہ سمیرا کے لےے نورنگر چھوڑ کر شہر چلا گیا تو میںنے یہی سنا تھا کہ وہ سمیرا سے شادی کر لے گا، تب اذلان نے مجھے لندن پہنچادینے کی آفر کی۔ پھر انہوں نے جو کہا میں کرتی چلی گئی۔میرے اغوا والا سارا ڈراما تھا۔ میں جان بوجھ کر اسے کھیتوں میں لے گئی تھی کہ اگر یہ یہاں بچ گیا تو وہاں قتل کردیا جائے گا۔ اس ڈرامے کا مقصد صرف یہی تھا کہ خرم بھڑک کر سمیرا کو قتل کردے ۔“عائزہ نے کہا اور رونے لگی۔
”اور بے چاری صائمہ، خرم اور سمیرا کے بارے میں پل پل کی خبر اذلان تک پہنچاتی رہیں اور وہ اس دن ماری گئی۔ یہ ہے وہ ساری بات جو میں نے آپ سے کہنی تھی۔ اب آپ سب سے ہی فیصلہ چاہوں گا کہ اذلان کے ساتھ کیا کیا جائے ؟“
سب پر خاموشی چھاگئی، کوئی بھی کچھ نہیں بولا۔ کتنا ہی وقت گزر گیا۔ تبھی اس بزرگ سیاست داں نے کہا۔”اذلان، اپنی بہن سمیرا کا مجرم ہے۔ اس کے بارے میں وہی فیصلہ کرے گی کہ اسے کیا سزا دی جائے ۔ بولو سمیرا بیٹی، کیا کہتی ہو؟“
”میں نے اسے پالا ہے، پرورش کرکے جوان کیا ہے ۔ بتائیں ایک ماں اپنے بچے کو کیا سزا دے گی؟“
”یہ ماں کی عدالت سے تو بری ہوسکتا ہے لیکن قانون کی نگاہ میں مجرم ہے۔مجھے تو اپنا فرض نبھانا ہے ۔تین قتل میں کہاں ڈالوں، بتائیں؟“ ڈی ایس پی رضوان نے کہا۔
”ٹھیک ہے، جب آپ نے قانون کے مطابق سب کچھ کرنا تھا تو پھر ہم سب کویہاں“
”تاکہ بعد میں آپ ہی لوگوں نے میڈیا اور عدالت میں شور مچانا ہے۔ آپ سوچ لیں کیا کرنا ہے، میں انتظار کرلیتا ہوں۔“ ڈی ایس پی رضوان نے واضح کرتے ہوئے کہا۔
”اور یہ خرم اس کا فیصلہ کیا ہے، کیا یہ اب بھی عائزہ کو معاف کرسکتا ہے جو مجرم ہے؟ یہ بھی تو“ خاتون سوشل ورکر نے کہا۔سب کی نگاہیں خرم کی طرف اٹھ گئیں۔ اگر وہ عائزہ کو معاف کردیتا ہے تو پھریہ جواز تھا کہ اذلان کو بھی معاف کردیا جائے ۔ تبھی خرم نے کہا۔
”سیانے کہتے ہیں کہ شادی اس سے کی جائے جو تم سے پیار کرتا ہو۔سمیرا نے تو دو بار میرے لیے جان کی بازی لگادی۔ میں عمر کہ کوئی فرق نہیں سمجھتا۔میں کسی بھی شرط کے بغیر سمیرا کی بات ماننے کو تیار ہوں۔ میں اس سے شادی کروں گا اگر یہ مجھے قبول کرے تو۔“
اس کے یوں کہنے پر سب کے چہروں پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی جبکہ عائزہ پھوٹ پھوٹ کر رونے اور چلانے لگی۔ خرم نے اسے مسترد کرکے ہتک کا تیر ماردیا تھا جس پر وہ بلبلا اٹھی تھی۔ ایسے میںاذلان کھڑا ہوا، نہ جانے کس وقت اس نے ریوالور نکال لیا تھا جو اس نے اپنی کنپٹی پر رکھا اور ٹریگر دبادیا۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *