کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر3
گذشتہ شام جب میں یہاںسبزہ زار میں آیا تو مجھے خاصا خوشگور احساس ہوا تھا۔ سلیم مجھے موٹر بائیک پر لے آیا تھا۔ آتے ہی اس نے مجھے سارے گھر سے آگہی دے دی تھی۔ گیراج میں کھڑی کار سے لے کر سٹور روم تک اس نے مجھے دکھا دیا۔ میرا بیڈ روم اس نے سیٹ کیا ہوا تھا۔ وہیں جندوڈانام کا ایک دوسرا ملازم تھا۔ وہ کچھ ادھیڑ عمر تھا۔ اس کے ذمے کھانا بنانا اور گھر کی صفائی ستھرائی تھی جبکہ جوان عمر سلیم، چوکیدار سے لے کر میرے معاملات کی دیکھ بھال بھی کرنے والا تھا۔ اس نے مجھے شہر کے بارے میں خوب معلومات دیں۔ میں ان دونوں سے کچھ دیر باتیں کرتا رہا اور پھر بیڈ روم میں چلا گیا۔ ایسے میں انکل زریاب کا فون آگیا تھا۔
”بیٹے....! یہیں سامنے الماری میں لیپ ٹاپ پڑا ہے۔ چاہو تو اسے استعمال کرلو“۔
”ٹھیک ہے انکل میں دیکھ لیتا ہوں“۔
”نہ پتہ چلے تو سلیم سے پوچھا لینا، ویسے ماحول کیسا لگا تمہیں“۔
”بہت اچھا، بہت سکون ہے یہاں پر“۔ میں نے واقعتا اپنی رائے دی۔
”چلو ٹھیک ہے اور ہاں، ایک بات یاد رکھنا، ماہم سے متعلق ہر معاملہ بلکہ ماہم بذات خود صرف تمہارے اور میرے درمیان راز ہے۔ یا پھر تیسرا بندہ تمہارا پاپا ہے۔ اور چوتھا سلیم،باقی تم خود سمجھدارہو“۔
”میں سمجھ گیا ہوں“۔ میں نے اعتماد سے کہا۔
”وش لوگڈلک بیٹا....!“ انہوں نے جو ش سے کہا اور فون بند کر دیا۔
کیمپس میں پہلا دن گزارنے کے بعد جب میں واپس سبزہ زار آیا تو ہارن کی آواز سنتے ہی سلیم نے گیٹ کھول دیا۔ میں گاڑی پورچ میں کھڑی کر کے ڈرائنگ روم میں چلا گیا۔
”سر....! کیسا رہا کیمپس کا پہلا دن....؟“ سلیم نے مجھ سے تھوڑا فاصلے پر کھڑے ہو کر پوچھا۔
”بہت اچھا، ماحول بھی ٹھیک ہے“۔ میں نے یونہی جواب دے دیا۔
”آپ کھانا کھاکر آرام کریں۔ شام کے وقت آکر آپ چاہیں تو میں آپ کو شہر گھما لاﺅں گا“۔سلیم نے صلاح دی۔
”ہاں یار، شہرسے واقف ہونا بہت ضروری ہے۔ مجھے نیند آگئی تو ٹھیک ورنہ پھر نکل چلیں گے“۔ میں نے اسے کہا۔
”ٹھیک ہے سر....! میں کھانا لگوا دیتا ہوں، آپ فریش ہو کر میز پر آجائیں“۔اس نے جواب میں کہا اور وہاں سے ہٹ گیا۔
اس شام جب میں اورسلیم یونہی شہر دیکھنے نکلے تو موسم خاصا خوشگوار ہو رہا تھا۔ عارف ڈرائیونگ کررہا تھا اور میں ساتھ والی سیٹ پر تھا۔ مال پر گھومتے رہنے کے بعد کچھ دوسری سڑکیں دیکھیں اور پھر واپسی پر ہم ایک مارکیٹ میں جا پہنچے۔ مجھے کچھ چیزیں خریدنا تھیں۔ ایک جانب گاڑی روک کر ہم دونوں ایک دکان کی جانب بڑھے۔ تبھی سامنے سے مجھے اسد آتا ہوا دکھائی دیا ۔ وہ مجھے دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ پھر گرم جوشی سے ملتے ہوئے بولا۔
”یار....! آج تو تم نے بڑا حوصلہ دکھایا ہے ، ورنہ ان سینئرز نے ہمیں بہت ذلیل کیا تھا“۔
”اپنا آپ خود بچانا پڑتا ہے۔ ورنہ دنیا تو انسان کو ذلیل کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ خیر....! تم یہاں کیسے؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاسٹل میں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ سوچا۔ تھوڑا گھوم پھر آﺅں۔ وقت اچھا گزر جائے گا“۔ اس نے اُکتاتے ہوئے لہجے میں کہا۔
”آﺅ، پھر چلتے ہیں، کہیں بیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں“۔ میں نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے کہا۔
”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آخری بس نکل جائے گی کیمپس کی، پھر ہاسٹل تک جانا مسئلہ بن جائے گا“۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں چھوڑ آﺅں گا تمہیں۔ فکر نہیں کرو“۔ میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے کھل گیا۔
”پھر ٹھیک ہے“۔ وہ خوش ہوتے ہوئے تیزی سے بولا۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
”آﺅ، تھوڑی سی شاپنگ کرلیں“۔
وہ میرے ساتھ پلٹ آیا اور ہم کچھ دیر تک شاپنگ کرتے رہے۔ پھر میں نے سلیم سے کسی اچھے ریستوران کی طرف جانے کے لیے کہہ دیا۔
ریستوران کی چھت پر دھیمی روشنی میں، اسد اور میں دونوں بیٹھے ہوئے باتیں کررہے تھے۔سلیم میرے ساتھ نہیں آیا تھا۔ ویٹر کو آرڈر دے دیا تھا اور اسد مجھے اپنے بارے میں بتا رہا تھا۔ پھر یہاں آنے اور پچھلے دو ہفتوں میں ہونے والے اہم واقعات اور اپنا تاثر بتانے لگا۔ میں دلچسپی سے سنتارہا۔ میں کلاس کا ماحول کسی حد تک سمجھ گیا تھا اور ڈیپارٹمنٹ کی جو فضا تھی اس سے بھی کسی حد تک واقف ہو گیا تھا۔ دراصل سینئر کلاس کو تگڑی کلاس اس لیے کہا جارہا تھا کہ اس میں چند لڑکوں کا ایک ایسا گروپ تھا جو ایک سیاسی ومذہبی طلبہ تنظیم سے تعلق رکھتے تھے۔ اگرچہ پورے کیمپس میں ان کا اتنا زور نہیں تھا لیکن ایک طاقتور عنصر کے طور پر ان کا دباﺅ بہر حال طلبہ و طالبات کے ذہنوں پر موجود تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سینئر کا گروپ نئی آنے والی کلاس کو اپنے دباﺅ میں کرلینا چاہتا تھا۔ ان کا طریقہ کار بہت عجیب سا تھا۔ وہ پہلے اپنا رویہ ہتک آمیز رکھتے۔ ان میں آگے سے کوئی بول پڑا تونرم پڑ جاتے ورنہ دبا کررکھتے۔ فسٹ ائیر فول میں سوائے ایک لڑکی کے سامنے سبھی خاموش رہے تھے۔ یا دوسرا میں تھا جو ان کے دباﺅ میں نہیں آیا تھا۔ باقی سب کے ساتھ ان کا برتاﺅ اچھا نہیں تھا۔ اس کی کیا وجہ تھی؟ اس وقت نہ تو اسد کی سمجھ میں آئی تھی اور نہ میری۔ اتنے میں ویٹر نے کھانا لگا دیا تو میں نے کہا۔
”خیر....! ان کے رویے کی سمجھ تو آجائے گی۔ کل مجھے لگا کہ وہ تنویر گوپانگ بھی انہی کی طلبہ تنظیم سے تعلق رکھتا ہے“۔
”ہاں لگا تو مجھے بھی ہے؟ لیکن ابھی اس نے کھل کر اپنا اظہار نہیں کیا۔ ابھی تک تو سب کلاس فیلوز سہمے ہوئے ہیں، نیا ماحول، نئی جگہ، ابھی ایک دوسرے کے بارے میں معلوم بھی تو نہیں ہے نا“۔ اسد نے اپنا تاثر دیا۔
”سب دیکھ لیں گے۔ تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ سب بھول جاﺅ اور کھانے پر توجہ دو۔ وہ بھی یہیں اور ہم بھی یہیں“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور لڑکیوں کا ذکر چھیڑ دیا۔ یہی وہ موضوع ہوتا ہے جس پر بڑی خوشگواری اور دلچسپی سے باتیں چلتی چلی جاتی ہیں۔ اسد بھی ایک ایک لڑکی کے بارے میں باتیں کرتا چلا گیا جس کا نام اسے معلوم نہیں تھا۔ وہ اسے بہت اچھی لگی تھی، جس سے سینئر نے کوئی بات نہیں سنی تھی۔ اگرچہ وہ زیادہ خوبصورت نہیں تھی لیکن حوصلے والی تھی۔یہی خوبی اسے پسند آگئی۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ ماہم کیسی ہے؟ مگر میں نے اس کا تذکرہ تک نہیں کیا۔ یوں رات دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد میں اورسلیم اسے چھوڑنے کیمپس کی جانب چل دیئے۔ جہاں گرلز اور بوائز ہاسٹل کا ایک طویل سلسلہ تھا اور انہی میں سے ایک ہاسٹل میں اسد رہتا تھا۔ ہم اسے ہاسٹل سے باہر ہی چھوڑ کر آگئے ۔ واپسی پر میں عمارات کے اس سلسلے کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ کہیں روشنی ، کہیں اندھیرا دور اور نزدیک عمارتیں۔ ان میں نہ جانے کتنے لوگ ہوں گے۔ کون کون اپنی کس کس طرح کی خواہش لے کر یہاں آیا ہو گا۔ جن کے بارے میں یقین سے کہا ہی نہیں جاسکتا تھا کہ ان کی وہ خواہش پوری ہو گی یا نہیں۔ اتنے لڑکے اور لڑکیاں ان کے لیے انتظامات کرنے والے لوگ اور پھر ان سے متعلق لوگ۔
”سر....! کیا سوچنے لگ گئے ہیں آپ؟“سلیم نے پوچھا تو میں اپنے خیالات سے نکل آیا۔
”بس یونہی، اس منظر کو دیکھ کر کیمپس کے بارے میں سوچ رہا تھا“۔ میں نے عام سے انداز میں کہا تو وہ بڑے خلوص سے بولا۔
”سر جی، یہ جو دکھائی دینے والا منظر ہے نا، سب کو ایسے ہی نظر آتا ہے، لیکن بہت کم لوگ ہیں جو وہ منظر بھی دیکھ لیتے ہیں، جو یہاں دکھائی نہیں دیتے“۔
اس کی بات خاصی دلچسپ تھی، اس لیے میں چونکتے ہوئے کہا۔
”تم کہناکیا چاہتے ہو“۔
”آپ اسے یوں سمجھ لیں کہ ایک وہ دنیا ہوتی ہے جو ہمارے سامنے ہے ، جو ہم دیکھ سکتے ہیں، لیکن یہاں دکھائی دینے والی دنیا کے علاوہ اور بہت ساری دنیا ئیں ہیں، جو فقط ان کو نظر آتی ہے جو اس سے متعلق ہوں“۔
”مان لیا کہ وہ کچھ ہے، جو تم کہہ رہے ہو، لیکن یہاں دو باتیں پیدا ہوتی ہیں؟ ایک یہ کہ تم کیسے جانتے ہو، کیا تم ان دنیاﺅں سے متعلق رہے ہو اور دوسری بات کہ یہ کیسی دنیا ئیں ہیں جو دکھائی نہیں دیتی“۔ میں نے دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا۔
”آپ کی پہلی بات کا جواب تو یہ ہے سر جی کہ میں یہاں کچھ عرصہ رہا ہوں۔ میری ملازمت تھی یہاں پر، پھر میں نے چھوڑ دی اور جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کا تعلق ہے وہ میں اس وقت آپ کو سمجھانا بھی چاہوں تو نہیں سمجھا پاﺅں گا، وہ جب کبھی ضرورت پڑی تو آپ پوری تفصیل سے بتا دوں گا“۔
”ٹھیک ہے، تب سہی، مگر مجھے اس بارے میں تحسس ضرور رہے گا“۔ میں نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
”وہ آپ فکر نہ کریں۔ میں سب بتادوں گا“۔ اس نے کہا اور گاڑی کیمپس کے مین گیٹ سے مین روڈ پر ڈال دی۔ تب سبزہ زار پہنچنے تک ہم میں کوئی بات نہیں ہوئی۔
اگلی صبح جب میں کیمپس کی سڑک پر تھا اور کار بڑی آہستگی سے ڈرائیو کرتا ہوا جارہا تھا، تب میرے بدن میں کل جیسی سنسنی خیزی نہیں تھی۔ میں پُرسکون تھا اور صرف یہ ذہن میں تھاکہ اگر کل کی طرح آج بھی سینئرز کے ساتھ آمنا سامنا ہو گیا تو پھر میرا رویہ کیا ہونا چاہئے۔ انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر لڑکیوں کو آگے کیا ہوا تھا تاکہ کوئی اپنا ردِعمل ظاہر بھی کرنا چاہے تو مخالف جنس کو دیکھ کر خاموش رہے، کہہ نہ پائے۔ ممکن ہے یہاں کے لڑکوں میں ابھی جھجک ، شرم اور حیا ہو جو میرے جیسے برطانیہ کے پروردہ میںنہیں ہوتی۔ اس لیے میں نے بہت بولڈ انداز میں ان کا سامنا کر لیا تھا۔ خیر، جوکچھ بھی تھا، آج اگر انہوں نے کوئی ایسی بات کی تو رویہ یکسر مختلف ہو گا۔ وہ خود سوچتے رہ جائیں گے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے۔ اک ذرا سا ماحول میری سمجھ میں آیا تھا۔ اگر وہ واقعتا ہی ایسا تھا تو میرے لیے کوئی بندہ بھی مشکل پیدا نہیں کر سکتا تھا۔ میں انہیں بڑی آسانی سے اپنی راہ پرلے آتا۔ یہی سوچتے ہوئے میں ڈیپارٹمنٹ پہنچ گیا۔ آج بھی میں شلوار سوٹ میں تھااور خود کو پُرسکون محسوس کر رہا تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر جب میں راہداری میں آیا تو کلاس روم کے سامنے لڑکیوں کا جمگھٹا سا لگا ہوا تھا جو میری کلاس فیلوز تھیں۔ ان میں سینئر لڑکیاں نہیں تھیں۔ میں جیسے ہی ان کے قریب سے گزرنا چاہا تو ایک لڑکی نے تیز انداز میں کہا۔
”ابان.... ذرا بات سننا“۔
میں رک گیا۔ مجھے اندازہ نہیں تھاکہ کس نے مجھے پکارا ہے۔ میںنے خاموشی سے سب کی طرف دیکھا تاکہ وہ دوبارہ مخاطب ہو تو مجھے پتہ چلے، چند لمحے کوئی نہیں بولا تو میں نے پوچھا۔
”آپ میں سے کسی نے مجھے آواز دی ہے؟“
”جی.... میں نے....“ ان میں سے ایک پتلی سی اور لمبی سی لڑکی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”جی فرمایئے؟“ میں نے کہا۔
”کیا آپ ہمارے ساتھ کینٹین تک چلیں گے“۔ اس نے پوچھا
”خیریت، میں اکیلا ہی کیوں؟“ میں نے کسی قدر حیرت سے پوچھا۔
”وہیں چل کر بتاتے ہیں۔ آج سر نہیں آئے، میڈم ہی پیریڈ لیں گی۔ کلاس کا کوئی مسئلہ نہیں ہے“۔ اس نے جلدی سے مجھے مطلع کیا۔
”آپ چلیں، میں وہیں آجاتا ہوں“۔ میں ے کہا اور آگے بڑھ گیا ۔ میں حیران تھا کہ انہوں نے مجھے ہی دعوت کیوں دی ہے۔ مجھے راہداری میں کوئی لڑکا دکھائی نہیں دیا تو وہی لڑکی بولی۔
”سب باہر ہیں اور یہاں سینئرز کی کلاس ہو رہی ہے“۔
”چلیں“۔ میں نے کہا اور واپسی کے لیے قدم بڑھا دیئے۔ میں آگے آگے تھا اور وہ لڑکیاں میرے پیچھے تھیں۔ میں اسد کو تلاش کررہا تھا کہ وہ بھی میرے ساتھ ان کے درمیان موجود ہو۔ مگر وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیا۔ میں کینٹین کے اندر چلا گیا تو ہمارے کلاس فیلوز ایک کونے میں بیٹھے ہوئے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ وہیں تنویر گوپانگ اور اسد دونوں تھے۔ میں ان کے قریب چلا گیا۔
”اُویار ابان....! کل تم نے تو کمال کر دیا، ان سینئرز نے تو ہماری بڑی بے عزتی کی تھی“ ۔ تنویر گوپانگ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”کمال تو کر دیا، لیکن اگر اب عتاب آیا تو ان کی طرف سے اس پر“۔ ایک لڑکا بولا۔
”دیکھ لیں گے یار ، تم کیوں گھبراتے ہو“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا، پھر تنویر اور اسد سے کہا۔ ”تم دونوں آﺅ ذرا مجھے ایک کام ہے“۔
وہ دونوں اٹھ کر کینٹین سے باہر آگئے۔ تو میں نے انہیں لڑکیوں کی دعوت کے بارے میں بتایا۔
”ہاں یار وہ سامنے لان میں سب بیٹھ گئی ہیں، لگتا ہے تمہاراہی انتظار کررہی ہیں۔ مگر کیوں؟“ تنویر نے آہستگی سے یوں کہا جیسے وہ ہماری بات سن نہ لیں۔
”اس لیے تم.... میرے ساتھ چلو“۔ میں نے ان سے کہا۔
”چلو، چلتے ہیں“۔ اسد نے کہا اور ہم تینوں ان کے پاس جا کر خالی نشستوں پر بیٹھ گئے۔
”جی ....فرمائیے“ ۔ میں نے اس لڑکی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا، جس نے دعوت دی تھی۔
”دراصل ہم سب کی طرف سے ایک چھوٹی سی پارٹی کا اہتمام ہے، جس میں آپ کو ویلکم کہنا ہے۔ کیونکہ، کل آپ نے وہی کیا جو ہمارے دل میں تھا“۔
”اوہ....! میں نے کوئی بہت بڑا تیر تو نہیں مار لیا، انہیں ان کی باتوں کا صرف جواب دیا تھا۔ میری کون سی ان کے ساتھ دشمنی تھی“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ابان، آپ کو پتہ نہیں، پہلا پورا ہفتہ انہوں نے ہمیں بہت تنگ کیا تھا۔ ایک دفعہ مذاق کر لیا ،ہو گیا، یہ تو نہیں دوسرے کو تنگ ہی کرتے رہیں“۔ ایک دوسری لڑکی نے کہا۔
”میں پھر کہوں گاکہ یہ کوئی اتنا بڑا کام نہیں تھا۔ ذرا سا حوصلہ کر لیا جائے تو کچھ نہیں ہوتا“۔ میں نے عام سے لہجے میں کہا۔
”دوسری بات تو سنی نہیں آپ نے۔ ہم سب جو یہاں موجود ہیں آپ کا ہر طرح سے ساتھ دیں گی۔ کیونکہ ہاسٹل میں سینئر لڑکیوں نے باقاعدہ آپ کو ذلیل کرنے کا پروگرام بنالیا ہوا ہے ۔وہ اپنی بہت زیادہ بے عزتی محسوس کر رہی ہیں؟“ ایک لڑکی نے کہا۔
”آپ سب کا بہت شکریہ، لیکن یہ بات اگر ہم سب کلاس فیلوز مل کر کرلیتے تو زیادہ بہتر نہیں تھا، میرا مطلب ہے بوائز اور گرلز ....“ میں نے ایک خیال کے تحت یونہی صلاح دی۔
”ہاں جی، ایک گیٹ ٹو گیدر تو ہونی چاہئے۔ تاکہ دوسروں کو معلوم ہو کر ہم سب ایک ہیں“۔ تنویر گوپانگ سے رہانہ گیا اس نے فوراً ایک تجویز دے دی۔
”یہ ہم طے کر کے آج ہی رکھ لیتے ہیں“۔ اسد نے کہا۔
”چلیں؟ ہم سب آپ کو بتا دیتی ہیں، فی الحال جو ہم نے سوچا، وہ ہو جائے“۔ اسی لمبی سی لڑکی نے کہا۔
”جیسے آپ کی مرضی“۔ یہ کہتے ہوئے اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ وہ بات مجھے اسد نے رات ہی بتائی تھی۔ تب میں نے بوجھ لیا۔”مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ گرلز میں سے ایک نے سینئرز کو دبا دیا تھا اور وہ اس سے مذاق نہیں کر پائے تھے، وہ کون ہیں؟“۔ میں نے پوچھا۔
”وہ....! وہ ماہم چوہدری ہے....وہ کل بھی نہیں آئی تھی اور آج کا پتہ نہیں آئے گی بھی یا نہیں۔ دراصل وہ یہاں کے ایک سیاستدان اسلم چوہدری کی بیٹی ہے کسی کو خاطر ہی میں نہیں لاتی اپنی مرضی کرتی ہے“۔
”لو....! وہ آگئی، پتہ نہیں اس کی لمبی عمر ہے یا وہ شیطان....“ ایک لڑکی نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا تو میں نے دھڑکتے ہوئے دل سے اس کی جانب دیکھا۔ کار پارکنگ میں ایک جدید ماڈل کی کار رک گئی تھی۔ بلاشبہ وہ اس میں ہی تھی۔ میں اس کی جانب غور سے دیکھنے لگا۔ چند لمحوں بعد کار میں سے جو لڑکی نکلی، اس نے میرون کلر کی قمیص اور سفید شلوار پہنی ہوئی تھی، قمیص پر سنہرے رنگ کا ہلکا کام تھا۔ جو اس کی شخصیت میں عجیب ساتاثر دے رہا تھا۔ سلکی شولڈر کٹ بال، پتلی سی ، دراز قد، سیاہ گیسووﺅں میں اس کا گورا رنگ یوں لگ رہا تھا جیسے ہمک رہا ہو۔لمبی لمبی انگلیوں والے نازک ہاتھوں میں بیگ تھامے، اس نے کار کو لاک کیا اور چاروں جانب دیکھا۔ تبھی اس کی نگاہ لان میں بیٹھی لڑکیوں پر پڑی۔ وہ سمجھ گئی کہ کلاس نہیں ہو رہی ہے۔ اس لیے وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی ہوئی ہماری جانب آنے لگی۔ میں اس کو بڑے غور سے دیکھ رہا تھا، یہی وہ ماہم چوہدری تھی، جس کے لیے میں اتنا سفرکر کے یہاں تک آچکا تھا۔ اسے خبر ہی نہیں تھی کہ کوئی اس کے لیے اپنے دل میں کیا کچھ لیے بیٹھا ہے۔ وہ قریب آچکی تھی، اس کے نقش بتا رہے تھے کہ وہ خوبصورت چہرے کی مالک ہے، چند لمحوں بعد وہ میرے سامنے آجانے والی تھی، اس لیے میں رخ پھیر کر اس کی وہاں آمد کا انتظار کرنے لگا۔
وہ دشمن جاں میرے سامنے تھی۔ میں نے اسے بہت غور سے دیکھا تھا۔ اس نے بڑی بے نیازی سے اپنے شولڈر کٹ زُلفوں پہ ہاتھ پھیرا تو سفید مخروطی انگلیوں میں نیلے رنگ کا بڑا سا نگینہ گولڈ کی انگوٹھی میں جڑا ہوا دکھائی دیا۔ وہ اک ادا سے ہم سب کے قریب آئی اور لاپرواہانہ انداز میں سب کی جانب دیکھتے ہوئے ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔وہ میرے دائیں جانب ذرا سے فاصلے پر براجمان تھی۔ میں اسے بڑے غور سے دیکھ سکتا تھا۔ بلا شبہ وہ حسین تھی۔ حسن بھی ہو اور امارت بھی، ان دونوں کا تال میل ہو جائے تب ناز و نزاکت کا آجانا اک فطری سا امر لگتا ہے۔ اس کے چہرے پر سب سے زیادہ پُرکشش اور فوراً توجہ حاصل کرنے والی اس کی آنکھیں تھیں۔ بھنور اسی موٹی موٹی آنکھیں، گھنیری پلکوں اور کمان ابرو کے ساتھ میں چمکتی ہوئی زندگی سے بھر پور آنکھیں۔ ستواں ناک اور پتلے پتلے اس لیے ہونٹ، گول چہرے پر گال ابھرے ہوئے اور سرخ سے تھے۔ ہلکے میک اپ میں چہرے کے نقوش کو ابھارا ہوا تھا لیکن اوپری لب کے دائیں جانب ہلکا ساتل چھپ نہیں سکا تھا۔ اس کی لابنی گردن میں سونے کی ہلکی سی چین تھی جس میں چھوٹا سا موتی چمک رہا تھا ۔ سفید آنچل میں کہیں کہیں سیاہ ستارہ نمانگینے تھے۔ گورے پاﺅں میں سفید سلیپر، یہ سب کچھ میںنے چند لمحوں میں دیکھا اور اس سے نگاہیں پھرلیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ وہ میری نگاہوں میں اپنے کے لیے پسندیگی کی ذراسی بھی رمق دیکھ لے۔ یہ قدرت کا عورت کو عطیہ ہے کہ اسے ایسی حس سے نواز ہوا ہے۔ وہ مرد کی آنکھوں میں موجود اپنے لیے کسی بھی جذبے کو فوراً سمجھ لیتی ہے۔ جیسے زلزلہ آنے سے کہیں پہلے پرندوں کو معلوم ہو جاتا ہے۔ میں نے لمحوں میں خود پر قابو پایا اور یوں بن گیا جیسے وہ میرے لیے اجنبی ہے۔
”آج یہاں کیسے بیٹھے ہو آپ لوگ، کلاس نہیں ہوئی کیا؟“ اس نے پتلی سی آواز میں بڑے صاف لہجے میں پوچھاتو رابعہ نے کافی حد تک شوخ اور پُرتجسس لہجے میں کہا۔
”ارے کلاس کو چھوڑو رانی، اِن سے ملو، یہ ہیں ابان علی، ہمارے نئے کلاس فیلو....“
مجھے دعوت دینے والی رابعہ نے اس قدر پرشوق لہجے میں کہا تو ماہم نے شانِ بے نیازی سے پلکیں اٹھا کر میری جانب دیکھا۔ پھر چند لمحے مجھ پر نگاہیں ٹکائے مجھے دیکھتی رہی اور بولی۔
”ان سے ملنے کی کوئی خاص وجہ ہے رابعہ؟“ اس بار ماہم کے لہجے میں کافی حد تک غرور کا خمار بول اٹھا تھا۔ اس نے یہی پوز کیا تھا کہ جیسے میں اس کے لیے کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا۔ رابعہ کسی عام سی چیز کو خاص بنا کر پیش کر رہی ہے ۔ تب رابعہ نے تیزی سے پرجوش لہجے میں کہا۔
”خاص وجہ.... ارے بہت ہی خاص وجہ کہو....“ اتنا کہہ کر اس نے کل کلاس میں ہونے والا واقعہ اختصار سے دہرا دیا۔وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ ”ابان نے بھی ان سینئرز کے ساتھ وہی کیا ہے، جو چند دن پہلے تم نے کیا تھا، ہمیں تو بہت خوشی ہوئی ہے کہ کم از کم بوائز میں سے کوئی ایسا ہمارے ساتھ شامل تو ہوا“۔
”اور ہم اس خوشی کو سیلی بریٹ کرنے کے لیے یہاں جمع ہیں.... سمجھی کچھ....“ فضہ نے دبنگ لہجے میں کہا تو اس نے حیرت سے پہلے اُسے اور پھر میری طرف دیکھ کر کہا۔
”اور....! یہ پارٹی یہاں.... اس خوشی میں ہو رہی ہے“۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کوئی بچوں جیسی حرکتیں دیکھ کر خوش ہو رہا ہو۔ میں نے اتنی میں دیر میں اندازہ لگالیا تھا کہ ماہم کس طرح کی نفسیات رکھتی ہے۔ اس کے دماغ میں امارت اور اپنے ہونے کا غرور سمایا ہوا تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھی جو نہ توخود سے زیادہ کسی دوسرے کو اہمیت دیتے ہیں اور نہ ہی دیکھ سکتے ہیں۔ میرا یہ خیال اس وقت سچ ثابت ہو گیا جب اس نے اگلی بات میری توقع کے مطابق کہی۔ ”چلو، ٹھیک ہے.... مینو کیا ہے؟“
اس کے پوچھنے پر رابعہ نے اسے بتایا تو وہ سنتی رہی۔
”بس یہ سمجھ کہ ہم گرلزنے ہی....“ فضہ نے کہنا چاہا تو وہ فوراً بولی۔
” مینو بڑھا لو اور جو بوائز ہیں، انہیں بھی یہیں بلوالو، یہ ٹریٹ میری طرف سے ہو گی....“ اس نے امارت کے خمار آلود لہجے میں کہا تواپنے خیال کے درست ہونے پر مسکرا دیا۔
”واﺅ....! ونڈر فل.... وہ جو کل گیٹ تو گیدر ہونی تھی، آج ہی ہو جائے“۔ رابعہ نے چہکتے ہوتے کہا۔
”ٹیچرز کو بھی بلالیں....“ ایک لڑکی نے صلاح دی تو ماہم نخوت سے بولی۔
”اُو نہیں....! یہ ہم سٹوڈنٹس کی پارٹی ہے.... ٹیچرز کو پھر کبھی بلالیں گے....“
”اسد.... پلیز آپ بوائز کو یہاں لے آئیں، اتنے میںما ہم آرڈر دے آئی“۔ رابعہ نے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔
”جی، بالکل....!“ اسد نے سعادت مندی سے کہا اور اٹھ گیا۔ تب میں سوچنے لگا کہ زندگی میں بہت سارے لوگ ملتے ہیں۔ ہر کوئی خامیوں اور خوبیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ وہ خود کو کیا بنا کر پیش کررہا ہے اور حقیقت میں وہ کیا ہوتا ہے۔ چند انسانی خواہشیں ایسی ہیں۔ جن کے اظہار کا لاشعوری احساس چھپائے نہیں چھپتا اور وہ ظاہر ہو ہی جاتا ہے۔ جیسے کہ خود نمائی کی خواہش۔ ماہم خود نمائی کی خواہش کو ذرا سا بھی چھپا نہیں سکی تھی۔ جس پر میں دل ہی دل میں ہنس کررہ گیا۔ کیونکہ بہت سارے انسانی جذبات ایسے ہیں، جنہیں انسان اپنی خوبی گردانتا ہے۔ مگر وہی ان کی کمزوری بھی ہوتے ہیں۔ ماہم میرے لیے اتنی مشکل ثابت نہیں ہو سکتی تھی، لیکن میں کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہتا تھا۔
”آپ کیا سوچ رہے ہیں کہیں آپ کل والے واقعے پرپچھتاتو نہیں رہے“۔ ماہم نے براہِ راست مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔ اس کے لہجے میں کافی حد تک طنز تھا ۔جسے میں نظر انداز کرتے ہوئے آہستگی سے بولا۔
”نہیں، ایسا نہیں ہے، نہ تو میں پچھتا رہا ہوں اور نہ ہی کل کے واقعے بارے میں سوچ رہا ہوں“۔
”اُوہو! چلو اچھی بات ہے“۔ یہ کہہ کر مجھے یوں نظر انداز کر کے لڑکیوں سے باتیں کرنے لگی جیسے مجھ سے مخاطب ہو کر اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔ میں اس کی اس ادا پر مسکرا ہی سکتا تھا۔ پھر ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہو سکی۔ کچھ ہی دیر بعد سب لوگ جمع ہو گے۔ باتوں کا موضوع سینئرز اور ان کا رویہ تھا۔ کھانے پینے کے دوران آئندہ آنے والے دنوں کے بارے میں تبصرہ اور عزم کیا گیا کہ ہمیں کیسے رہنا ہے۔ ماحول میں جو ایک اجنبیت تھی، وہ تحلیل ہو گئی تھی اور اس میں ایک خاص قسم کی خوشگواریت در آتی تھی۔ جس سے ذرا سی بے تکلفی کی فضا پیدا ہو گئی تھی۔ وہاں سب کا تعارف بھی ہوا، کسی کا نام ذہن میں رہ گیا، کسی کانہیں۔ انہی لمحات میں جبکہ ہم کھاپی چکے تھے، تنویر گوپانگ نے کافی حد تک اونچی آواز میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا۔
”یار ابان....! یہ گیٹ تو گیدر تیرے آنے ہی سے ہوئی ہے.... ورنہ ہم سب تو بالکل اجنبیوں کی مانند کلاس لے رہے تھے“۔
”خیر، یہ بے تکلفی تو ہونا ہی تھی، آج نہ ہوتی تو کسی اور وقت ہو جانا تھی“۔ فریحہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ تب مجھے وہ کہنے کا موقعہ مل گیا جو میرے ذہن میں کچھ دیر پہلے آیا تھا۔ میں نے سب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔ ”سنیں پلیز....!“ میرے یوں کہنے پر سبھی میری جانب دیکھنے لگے۔ تب میں نے کہا۔ ”مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے ایک طرح سے یہ اپنا مان محسوس کیا ہے کہ گرلز نے مجھے اس انداز سے خوش آمدید کہا۔ میں آپ سب کا شکریہ ادا کرناچاہتا ہوں۔ اگر آپ قبول کرلیں تو....“
میرے یوںکہنے پر چند لمحوں کے لیے خاموشی چھا گئی۔ پھر ماہم نے ہی حیرت زدہ لہجے میں کہا۔
”اس میں اجازت لینے کی کیا ضرورت ہے“۔ آپ کہہ دیں“۔
”میں محض لفظوں سے نہیں بلکہ آپ سب کے شانِ شایان شکریہ کہنا چاہتا ہوں۔“ میں نے اس کی طرف گہری نگاہوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو وہ واقعتا حیران ہوتے ہوئے بولی۔
”واﺅ....! واہ کیا کہنے ابان....!“
”آپ سب کو میری طر سے لنچ کی آفر ہے۔ وہ بھی آپ کے پسندیدہ ریستوران میں۔ وہ طے کرلیں پھر ہم سب وہیں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔“ میں نے پُرسکون انداز میں کہا تو ماہم ایک لمحے کے لیے ساکت رہ گئی لیکن رابعہ نے انتہائی خوش میں کہا۔
”تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ ماہم کو تھینکس کہنے کے لیے اتنا اہتمام کریں گے؟“ اس کے لہجے میں خوشگوار حیرت چھلک رہی تھی۔ باقی سب کا بھی یہی حال تھا، ان میں اچانک بھنبھناہٹ شروع ہو گئی تھی۔
”کیوں نہیں، انہوں نے یہاں مجھے ٹریٹ دی تو میرا بھی حق بنتا ہے کہ انہیں شکریہ کہوں“۔ میں نے آہستگی سے کہا تو رابعہ بولی۔
”اوکے، ہم ابھی طے کرتے ہیں اور....“
”لیکن پہلے ماہم سے پوچھ لیں کہ وہ ....“ فریحہ نے تیزی سے کہا تو سب نے ماہم کی جانب دیکھا۔ وہ خوشگوار حیرت میں ڈوب گئی تھی۔ جس کا اظہار اس کے چہرے کی سرخی سے ہو رہا تھا جو ایک دم سے اس کی آنکھوں سمیت چہرے پر درآئی تھی۔ وہ چند لمحے سوچتی رہی، پھر مسکراتے ہوئے بولی۔
”ٹھیک ہے، جیسا آپ سب چاہیں“۔
”میرا مشورہ ہے۔ اگر ماہم اپنی پسند کا ریستوران بتادے تو زیادہ اچھا ہو گا“۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
”اوکے ....!“ فریحہ نے تیزی سے کہا اور اس سے پوچھنے لگی۔ کچھ دیر بعد طے ہو گیا کہ کس ریستوران میں کب پہنچ جانا ہو گا۔ درمیان میں فقط میڈم کا پیریڈ لینا تھا۔ پھر اس کے بعد فری ہوں گے۔ سواس وقت ہم وہاں سے اٹھ کر کلاس روم کی جانب چل پڑے۔
ہم سب ڈیپارٹمنٹ کے کاریڈور میں آگے پیچھے جارہے تھے۔ میرے ساتھ اسد تھا اور ہم لنچ کے بارے میں بات کرتے ہوئے چلتے چلے جارہے تھے۔ تبھی راہداری میں سینئرز کا ایک گروپ کھڑا ہوا دکھائی دیا۔ ان میں وہی لڑکے اور لڑکیاں تھیں، جنہوں نے کل میرے ساتھ مذاق کرنے کی کوشش کی تھی۔ میں ان سے بچ کر ہی نکلنا چاہتا تھا۔ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچا ،ایک لمبے سے قد والے غنڈہ ٹائپ لڑکے نے میرے سامنے اپنا بازو کر دیا۔ جس سے مجھے رکناپڑا۔ میں سمجھ گیا کہ وہ میرے ہی انتظار میں تھے۔
”راستہ روکنے کا مطلب سمجھتے ہو کیا ہے؟“ میں سکون سے کہا۔
”جانتا ہوا، اسی لیے تمہیں روکا ہے۔ تمہیں اپنے سینئرز سے معافی مالگنا ہوگی اور جو وہ کہتے ہیں، وہ تمہیں کرنا ہو گا“۔ اس غنڈہ ٹائپ سینئرنے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”اور اگر میں انکار کردوں تو....؟“ میں نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
”تو پھر.... ہمارے پاس کئی طریقے ہیں.... ایک تو یہ ہے کہ ہم ابھی تمہیں اٹھائیں گے اور باہر لے جائیں گے.... تمہاری یہ شرٹ اتار کر اسے آگ لگا دیں گے.... تب تمہیں اپنے گھر بغیر شرٹ کے جانا پڑے گا.... کہو کیسے لگو گے.... گھر جاتے ہوئے....“ اس نے طنزیہ انداز میں ہنستے ہوئے کہا۔
”اور اگر میں نے یہیں اس راہداری میں تمہاری پتلون اتار دی.... تو بتاﺅ، تم کیسے لگو گے....“میں نے بھی اسی طرح کے طنزیہ لہجے میں کہا۔ تب اس نے چونک کر میری جانب دیکھااور غصے میں بولا۔
”ٹیڑھی شے لگتا ہے بھئی.... ہاسٹل ہی لے جانا پڑے گا....“
”تو چلو چلتے ہیں“۔ میں نے اس کا کالر پکڑتے ہوئے کہا۔ ”لیکن پہلے یہ طے کر لو.... ڈیپارٹمنٹ سے ہاسٹل تک کا سفر کر لو گے....؟“ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال دیں۔ تو اس نے اپنا کالرچھڑاتے ہوتے کہا۔
”مزہ آئے گا تیرے ساتھ.... چل دیکھتا ہوں تو کیا شے ہے“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میری طرف ہاتھ بڑھانا چاہا تو انہی کی کلاس فیلو بولی۔
”رک جاﺅ عاطف....!اگر یہ شخص تمہارا مذاق برداشت نہیں کر سکتا تو پھر زبردستی کیوں.... ایسی بات کیوں بڑھا رہے ہو؟“
”اسے بتانا پڑے گا کہ اس ڈیپارٹمنٹ میں کیسے رہنا ہے....“ اسی غنڈے عاطف نے کہا ہی تھا رابعہ تیز اور اونچی آواز میں بولی۔
”سینئرز اگر اپنی عزت کروانا نہیں جانتے ہو تو جاﺅ، جا کر سیکھو، عزت کیسے کروائی جاتی ہے۔ تم لوگوں نے ایک سال رہنا ہے اور ہم نے دو سال.... اب جس کی ہمت ہے.... وہ ابان کی طرف ہاتھ بڑھائے.... پہلے میں دیکھتی ہوں اسے“۔ اس نے باقاعدہ آستینیں چڑھاتے ہوئے کہا۔ اس کے ساتھ ہی وہاں شور مچ گیا۔ وہ چند لوگ ہی تھے اور ہم سارے تھے۔ ان سب نے سینئرز کو گھیرے میں لے لیا۔ تبھی انہی میں سے ایک لڑکی نے گھبراتے ہوئے کہا۔
”چھوڑیں دفعہ کریں.... ان جونیئرز کے منہ نہیں لگنا چاہئے....“
”اے....! زبان سنبھال کربات کر.... کہیں ابتداءتم ہی سے نہ ہو جائے.... مجھے تو تم پر پہلے ہی بڑا غصہ ہے....؟ “فریحہ نے اس لڑکی کی طرف دیکھ کر کہا۔
”لے چلو، ان سینئرز کو.... اپنی کلاس میں۔ وہیں پوچھتے ہیں چل کر....“ رابعہ نے غصہ میں لرزتے ہوئے کہا۔ میں ان کے تیور دیکھ رہا تھا۔ سبھی کے چہرے رابعہ کی تائید کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ماہم خاموشی سے دیکھ رہی تھی۔
”چلو....!“ اسد نے عاطف کا کالر پکڑا اور کلاس روم کی طرف دھکیلا۔ عاطف کے چہرے پر اچانک گھبراہٹ آگئی۔ کلاس روم میں سوائے انہیں ذلیل کرنے کے اور کیا ہو سکتا تھا۔ اسی لمحے مجھے احساس ہوا کہ وہ مذاق کے نام پر جونیئرز کے ساتھ زیادتیاں کرتے رہے ہیں۔ تبھی انہیں اس قدر غصہ آیا تھا۔ ”چلتے ہویا پھرلے جانا پڑے گا؟“ فریحہ نے اس کے کاندھے ٹہوکادیتے ہوئے کہا۔ اس پر عاطف نے میری جانب دیکھا۔ اس کی نگاہوں میں غصے کی جگہ گھبراہٹ دکھائی دے رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا، ماہم بول اٹھی۔
”میرے خیال میں اس بار انہیں معاف کردیں۔ اگر پھر انہوں نے کوئی ایسی ویسی حرکت کی تو انہیں دیکھ لیں گے.... کیا خیال ہے ابان.... “اس نے براہِ راست میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ سب کی نگاہیں مجھ پر ٹک گئیں۔
”ٹھیک ہے ماہم.... جیسا تم چاہو....“میں نے فوراً ہی اس کی بات مانتے ہوئے اپنا ردعمل دے دیا۔ مجھے یقین تھا کہ سبھی نے میری طرف حیرت سے دیکھا ہو گا۔ مگر میں ماہم کے چہرے پر دیکھ رہا تھا جہاں خوشگوارت اتر آئی تھی۔ وہی خوشگواریت جوانا کی تسکین ہو جانے پر ہوتی ہے۔ اس نے رُخ پھرا اور شاہانہ ادا کے ساتھ کلاس روم کی جانب بڑھ گئی۔ تب آہستہ آہستہ مجمع چھٹنے لگا۔ سینئرز فوراً ہی وہاں سے چلے گئے اور ہم بھی کلاس کی طرف چل پڑے۔ اس وقت میں سوچ رہا تھا کہ مذاق اور ذلیل کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ یقینا ہمارے سینئرز کے دماغ میں وہاں پراپنی حاکمیت منوانے کا خناس رہا تھا۔ اس لیے شروع دن ہی سے اپنے جونیئرز کو دبا کررکھنے کی خواہش نے انہیں ذلیل کرنے پر مجبور کیا۔ شاید مزاحمت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا حوصلہ بڑھ گیا تھا۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ مزاحمت کرنے والوں میں ماہم بھی تھی۔ ظاہر ہے کوئی بھی کس کی عزت نفس کو مجروح کرے گاتو اس کاردعمل سوانے نفرت کے اور کیا ہو سکتا ہے۔ میں کلاس روم میں داخل ہوا تو سامنے ہی روسٹروم کے پاس تنویر گوپانگ کو کھڑے ہوئے پایا۔ وہ میری جانب دیکھ کر بولا۔
”یار اگر تم کہو تو جو چند ٹیچر آج یہاں ہیں، انہیں بھی لنچ میں شامل کر لیا جائے“۔
جب میں اس کی بات سن رہا تھا، اس وقت میری نگاہ ماہم پرپڑی جو پہلی قطار میں قریب ہی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بھی تنویر کا مشورہ سن لیا تھا۔ تب میں نے ماہم کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”یہ پارٹی ماہم کے اعزاز میں ہے، اُسے تھنیکس کہنے کے لیے.... اب وہ جسے چاہے بلالے۔ اس سے پوچھ لو“۔
میرے یوں کہنے پر ماہم نے چونک کر میری جانب دیکھا۔ اس سے پہلے تنویر اس سے پوچھتا، وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔
”تنویر ....! یہ فقط ہماری پارٹی ہے۔ اگر ٹیچرز ہوئے تو ہم میں ذراسی بھی بے تکلفی نہیں ہو گی۔ ان کے اعزاز میںپھر کس وقت پارٹی کر لیں گے۔ یہ لنچ اپنے لیئے رہنے دو پلیز....“
”او کے....! جیسا تم چاہو....“ تنویر نے یوں سر ہلاتے ہوئے کہا، جیسے وہ اس کی بات سمجھ گیا ہو۔ انہی لمحات میں میڈم آگئی۔ وہ کافی غصے میں دکھائی دے رہی تھی۔ جس کا اظہار لیکچر کے دوران بھی کرتی رہی۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ ایسا رویہ کیوں رکھے ہوئے ہے۔ پھر یہی سوچ کر نظر انداز کر دیا کہ ممکن ہے، ان کا اپنا کوئی مسئلہ ہو۔ ان کے بے جا غصے کو پوری کلاس نے محسوس کیا تھا۔ یہاں تک کہ ان کا لیکچرختم ہو گیا۔
دیئے گئے وقت پر سبھی کلاس فیلو،ریستوران پہنچ گئے۔ چھوٹا سا ہال بھر گیا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ لڑکیاں نہ صرف لباس بدل کر آئی ہیں، بلکہ وہ زیادہ تازگی کا احساس دے رہی تھیں۔ ہلکا ہلکا میک اپ تو سبھی لڑکیوں کے چہرے پر تھا۔ مجموعی طور پر وہاں پہ ہر بندہ خوش دکھائی دے رہا تھا۔ گپ شپ ہونے لگی تھی۔ اتنے میں ماہم بھی آن پہنچی۔ وہی سب میں منفرد دکھائی دی تھی۔ یہ انفرادیت ِ اس نے جان بوجھ کر پیدا کرنے کی کوشش کی تھی۔ ظاہر ہے اس کی وجہ اپنی انا کو تسکین دینا تھا۔ وہ سیاہ پتلون اور سفید کرتا پہن کر آئی تھی جس پر سیاہ کام ہوا تھا۔ گلے میں بڑا سارا موتیوں کا ہار اور بالوں میں ہیئر کیچ لگا ہوا تھا۔ وہ بالکل میرے سامنے آ کر بیٹھ گئی۔ ہم دونوں میں سوائے علیک سلیک کے کوئی بات نہیں ہو ئی۔ یوں ڈیپارٹمنٹ ، سینئرز اور ٹیچرز کے بارے میں گپ شپ چلتی رہی۔ یہاں تک کہ کھانا لگ گیا اور سب اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ اگر چہ یہ ایسا وقت تھا جب آپ اپنی باتوں سے دوسرے کو متاثر کر کرنے یا قریب کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ایسا بھی ہے کہ ایسے معاملے کے لیے لفظوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔ بنا کوئی لفظ کہے بہت کچھ سمجھا دیا جاتا ہے۔ اسے قریب کرنے کی مجھے اتنی جلدی نہیں تھی۔ مجھے اپنا آپ چھپا کر اُسے یوں قریب کرنا تھا کہ وہ بس میری ہو جائے اور میرے سوا، اُسے کچھ بھی دکھائی نہ دے۔ اس میں بڑی احتیاط کی ضرورت تھی۔ ایسا بھی ہوتا ہے نا کہ جو زیادہ تیز چلتا ہے، وہ جلدی ہانپ جاتا ہے۔ماہم کے بارے میں میرا اب تک یہی اندازہ تھا کہ وہ بہت موڈی اور انا پرست لڑکی تھی اور یہ بھی تھا کہ ایک ہی دن میں تھوڑا وقت ایک ساتھ گزارنے سے کوئی حتمی رائے قائم نہیں کی جا سکتی تھی۔ وہ کب کیا کر دے، اس بارے بھی کچھ نہیں کہا جا سکتا تھا۔ ایسے کسی بندے کو اس طرح اپنا بنانا ہو، یہاں تک کہ وہ آپ کی کہی ہوئی ہر بات مانتا چلا جائے، تو بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ بڑے ہی خوشگوار ماحول میں کھانا کھایا گیا، گپ شپ بھی ہو گئی تھی۔ پھر آہستہ آہستہ سب ہی چلے گئے۔ میں تنویر اور اسد ریستوران میں رہ گئے۔ تبھی نہ جانے رابعہ بھی کسی کونے سے آنکلی ۔ میں نے حیرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”تم گئی نہیں ہو ابھی تک، ہاسٹل ہی جانا تھا نا تمہیں؟“
”ہاسٹل بھی چلی جاتی ہوں۔ کون سا بسیں بند ہو گئیں ہیں یا پھر رکشوں کی ہڑتال ہے“۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہاں ٹھہرنے کا مطلب....؟“ اسد نے تیزی سے پوچھا تو اس نے اپنے پرس میں سے چند بڑے ٹوٹ نکاتے ہوئے کہا۔
”یہ میری طرف سے شیئر ہے.... کیونکہ اب ہم دوست بن گئے ہیں“۔
میں اس کے خلوص سے بہت زیادہ متاثر ہوا۔ میرے اندر اس کے لیے بے حد پیار امنڈآیا تھا، اس لیے جذباتی سے لہجے میں بولا۔
”رابعہ ....! تمہارے خلوص کا بہت شکریہ، جب بھی کبھی کسی بھی طرح کے شیئر کی ضرورت ہوئی، میں تمہیں بلا جھجک کہوں گا۔ فی الحال اسے اپنے پرس میں رکھو“۔
”میں مانتی ہوں تمہارے پاس بہت سارے پیسے ہیں، لیکن....“ اس نے کہنا چاہا مگر میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
”لیکن ویکن چھوڑو، میرے پاس نہیں ہوں گے نا تو میں تمہی سے کہوں گا۔ انہیں اس وقت تک کے لیے سنبھال رکھو۔ ”میں نے وہ نوٹ پکڑ کر اس کے کھلے ہوئے پرس میں واپس ڈال دیئے اور پرس اسے تھما دیا۔ اس نے کاندھے اُچکاتے ہوئے میری جانب دیکھا اور باہر کی جانب بڑھنے لگی، تو میں نے کہا۔ ”رُکو....! میں یہ بل دے دوں تو میں تمہیں ہاسٹل چھوڑ آتا ہوں“۔
”نہیں، میں چلی جاﺅں گی“۔ اس نے تیزی سے کہا اور باہرکی جانب بڑھ گئی۔ میں چند لمحے اسے سوچتا رہا پھر بل دینے کے لیے کاﺅنٹر کی کاجانب بڑھ گیا۔ اسد اسے سٹاپ تک چھوڑنے کے لیے باہر کی طرف نکل گیا۔
l l l
No comments:
Post a Comment