Monday 23 October 2017

ایک شام امجدجاوید صاحب کے ساتھ



ایک شام امجدجاوید صاحب کے ساتھ
(لائیو انٹرویو)
سیف اللہ خان۔ کوئٹہ بلوچستان

معروف فکشن رائٹر ،شاعر، افسانہ نگار، ڈرامہ نگار، نقاد اور 24 سے زائد کتابوں کے مصنف جناب امجد جاوید صاحب آج ہمارے سوالوں کے لائیو جوابات دینے کیلئے ہمارے ساتھ موجود ہیں۔ آپ کو بتاتے چلیں کہ یہ انٹرویو فیس بک پہ جاسوسی, سسپنس, سرگزشت آفیشل فین کلب کے پلیٹ فارم سے بالکل لائیو لیا جارہا ہے۔ یہاں امجد جاوید صاحب براہ راست آپ کے کمنٹس کا جواب دیتے رہیں گے۔ سب سے پہلے امجد جاوید صاحب کا کچھ تعارف پیش کرتے ہیں ۔اس کے بعد فورم کے ممبرز ایک ایک کرکے ان سے سوال پوچھ سکتے ہیں۔ 
امجد جاوید صاحب 27 ستمبر 1965 کو حاصل پور میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ یونیورسٹی سے ایم اے ابلاغیات اور ایم اے اقبالیات کے ڈگری ہولڈر ہیں۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ ادبی ذوق کی یہ حالت ہے کہ آج آپ کی لکھی ہوئی تحریروں (24 شائع شدہ کتابوں) پہ تحقیقی مقالے لکھے جانے لگے ہیں۔
عشق حقیقی اور صوفیانہ طرز تحریر ان کا خاصہ ہے۔ ان کے ناولز اسی موضوع کے گرد گھومتے نظر آتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب حقی صاحب نے ناول "عشق کا شین" تشنہ رکھ چھوڑا تو پبلشر کے کہنے پہ امجد صاحب نے اس ناول کے دو حصے لکھے جنہیں ازحد پزیرائی ملی۔ اس کے علاوہ بے رنگ پیا،قلندر ذات، امرت کور، عورت ذات، عشق کا قاف، تاج محل، عشق کسی کی ذات نہیں، جب عشق سمندر اوڑھ لیا.... اور عشق سیڑھی کانچ کا شمار ان کے مشہور ترین ناولوں میں ہوتا ہے ۔کامیابی 30 دنوں میں اور منٹو کے نسوانی کردار .... ان کی الگ طرز کی کتابیں ہیں جو اپنے موضوع کے اعتبار سے دلچسپی سے خالی نہیں۔امجد صاحب ایک اچھے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی شخصیت کے بھی مالک ہیں۔ عموما ادیب ادباءبہت کم کسی کے ساتھ گھلتے ملتے ہیں جبکہ امجد صاحب کو یہ چیز چھو کر بھی نہیں گزری۔ اسی بانکپن اور ملنسار جذبے کا اثر ہے کہ آج وہ ہمارے ساتھ ہمکلام ہورہے ہیں۔ امید ہے ان کے ساتھ ادب، سیاست ،مذہب ،معاشرت، تصوف، ادبی رسائل ،تحریریں کہانیاں اور دیگر موضوعات پہ سیر حاصل گفتگو ہوگی۔اس انٹرویو کے منتظمین میں شامل ہیں کبیر عباسی، مظہرسلیم ،لبنی رضوان، ڈاکٹرسبا،ارشد طلعت ،مسعود پرویز،احمدلانگاہ، غزالہ یاسمین ایمانے زارا شاہ اور سیف خان۔تو چلتے ہیں ان کی طرف.... جہاں قارئین اپنے ذوق و شوق کے مطابق نت نئے سوال پوچھ رہے ہیں

سوال۔السلام علیکم امجد صاحب ،بہت بہت شکریہ ہمیں جوائن کرنے کا۔ اکثر و بیشتر ڈائجسٹ لکھاری یہ گلہ کرتے رہتے ہیں کہ انہیں اردو ادب میں وہ مقام حاصل نہیں جن کے وہ حقدار ہیں۔ڈائجسٹ پہ تنقید کرنے والے یہاں کہانیوں کی سطحی موضوعات زبان و بیان کی غطیوں اور دیگرامور پہ نکتہ چینی کرتے رہتے ہیں ۔آپ اس حوالے سے کیا سمجھتے ہیں ؟
 جواب ۔ڈائجسٹ لکھاری کا مقام بن رہا ہے ادبی غنڈہ گردی ختم ہو رہی ہے۔ اس میں اب زیادہ وقت نہیں لگے گا
سوال ۔سر جی لکھنے کا خیال کیسے سوجھا، کسی سے متاثر تھے کیا؟
 جواب ۔مجھے میرے حاسدین نے بنایا۔وہ جس قدر حسد کرتے رہے، میں اتنا ہی آگے بڑھتاگیا ہوں۔ یہ سلسلہ آج بھی ہے۔ یہ میرے رب سائیں کا مجھ پر خاص کرم ہے۔
سوال ۔کون سے لکھاری سے متاثر ہیں؟
جواب ۔میں کسی ایک لکھاری سے متاثر نہیں ہوا۔ میرا اپنا ایک نظریہ ہے۔ وہ لکھاری جو میرے اندر نیا خیال پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائے ،میں اس سے متاثر ہوتا ہوں۔ زندہ تحریر وہی ہے جو نیاخیال پیدا کرے۔
سوال۔ ماشا اللہ سے آپ کی 24 کتابیں شائع ہو چکیں،ان کا ذکر تو آپ لوگوں سے فخر کے ساتھ کرتے ہوں گے تاہم بہت سے لوگ ڈائجسٹ رائٹر کو رائٹر ہی نہیں مانتے،تو ایسے میں ڈائجسٹس میں لکھنا کیسا لگتا ہے آپ کو؟
جواب ۔ بہت سے لوگ ڈائجسٹ رائٹر کو رائٹر ہی نہیں مانتے تو وہ نہ مانیں، زبردستی نہیں ہے ۔ یہ ادبی غنڈہ گردی ہے۔ کوئی مانے یا نا مانے۔ آپ نے کام کرنا ہے اور کر کے دکھانا ہے۔ خود مان لیتے ہیں لوگ۔ ڈائجسٹ رائٹر کے کام پر اب مقالے لکھے جا رہے ہیں نا ، ماننا پڑے گا۔ کیونکہ جتنا اردو ادب پر ڈائجسٹ کا احسان ہے ادبی رسالے تو اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔
سوال ۔سر ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کے آپ کس حد تک قائل ہیں ؟ اور اردو ادب کو آج اور مستقبل میں آپ کس مقام پر دیکھ رہے ہیں؟
جواب۔ادب برائے زندگی اور ادب کا مقام ظاہر ہے زبان کے ساتھ ہوتا ہے ، بدلتے ہوئے ماحول اور جدت میں تبدیلی تو آتی ہے۔ میں اردو ادب کا شاندار مقام دیکھ رہاہوں۔
سوال ۔کون سے ڈائجسٹ میں کہانی کی اشاعت آپ کے لئے سب سے زیادہ خوشی کا باعث ہے؟
جواب۔جو زیادہ پیسے دے۔(ہاہاہاہا)
سوال ۔اور پیسے کون سا ادارہ زیادہ دیتا ہے۔
جواب۔یہ تو کسی خاتون سے عمر پوچھنے والی بات ہے (مسکراتے ہوئے)
سوال ۔لکھنے کا باقاعدہ آغاز کہاں سے کیا پہلی کہانی یا تحریر کہاں شایع ہوئی
جواب۔سچی کہانیاں کراچی۔۔۔جنوری شمارہ 1988 کہانی.... ”درد تھا عجب کوئی“
سوال ۔سر جے ڈی پی میں اتنی تاخیر سے آمد کی وجہ؟
جواب۔میں موڈ اور پیار کا بندہ ہوں۔ بن بلایا کہیں نہیں جاتا۔ اقلیم علیم صاحب نے بہت پیار دیا، محبت اور احترام دیا۔ میں انکار نہیں کرسکا
سوال ۔آپ کا ناول قلندر ذات کب تک ادھورا رہے گا؟
جواب۔بس لکھ رہا ہوں بہت جلد ،، دعا کریں۔
سوال ۔کس موضوع پر لکھنا سب سے زیادہ پسند ہے
جواب۔تصوف ، عشق ، اور پاکستانیت پر
سوال ۔آپ کو میں نے زیادہ نئے افق میں پڑھا ہے،،اس کے بعد دیگر نگارشات ڈھونڈ ڈھانڈ کر پڑھیں،اور میں نے یہ بات شدت سے محسوس کی ہے کہ آپ نے زیادہ سنگھ پریوار اور قلندرانہ ماحول میں ڈوب کر لکھا ہے،اس کی کوئی خاص وجہ؟آپ سکھ کمیونٹی اور خالصہ حریت پسندوں سے اس قدر متاثر کیوں ہیں؟آپ نے خالصتان پر خوب لکھا، لیکن آپ نے تحریک آزادی کشمیر اور فلسطین سمیت دیگر مسلم حریت پسند تحاریک کو تقریباً تقریباً نظر انداز کیا ہے،اس کا کوئی خاص پس منظر ہے یا یہ آپ کی لا شعوری کوشش ہے؟
جواب۔وعلیکم سلام۔ آپ کا شکریہ کہ ٓاپ نے مجھے پڑھا۔ میں سکھ کلچر کو اس لئے پسند کرتا ہوں کہ یہ پنجابی کلچر ہے۔ دوسرا میں خالصتان تحریک کو بہت پسند کرتا ہوںاور پاکستان میں اس کا زبردست حمایتی ہوں۔ کشمیر فلسطین پر دوسرے احباب بہت لکھ چکے اور لکھ رہے ہیں ، یہ پہلو تشنہ تھا سو میں نے اپنے ذمے لے لیا۔ مزید بھی اس پر لکھوں گا اور میرا ایک سوال ہے سب سے کہ کیا جے ڈی پی کے کسی رسالے میں خالصتان کے موضوع پر لکھا جا سکتا ہے ؟ کیا قاری برداشت کرے گا ؟
گفتگو
1 سر قاری یقینا خوشی سے پڑھے گاکیونکہ آج کی تحریک خالصتان کے پس منظر سے قاری بخوبی واقف ہے۔
2.... بالکل سر۔۔۔بلکہ آج کل تو ایسے ناول کی شدت سے ضرورت ہے۔ ان عالمی ایشوز پر جے ڈی پی میں کافی ٹائم سے کوئی ناول نہیں آیا۔۔ضرور لکھیں۔
3.... اس موضوع پر لکھنا ہر لحاظ سے کامیاب ہوگا۔
سوال ۔تنقید کرنے والوں (نقاد) کے بارے میں کیا کہیں گے۔ 
جواب۔یہی لوگ مجھے پیارے ہیں۔مجھے آگے بڑھنے میں مدد دیتے ہیں
سوال ۔یہ یقینا میری بدقسمتی رہی ہے کہ میں آپکا لکھا زیادہ نہیں پڑھ پائی۔
جواب۔عشق اور خصوصا عشق حقیقی وہ موضوع ہے جس پر قلم اٹھانا آسان کام نہیںکیونکہ لکھاری کو انسانی نفسیات، عقائد اور سماجی تناظر کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے ۔آپ نے اس موضوع پر زیادہ لکھا۔اس موضوع پر لکھنے کی انسپائریشن کہاں سے ملی؟
جواب۔ایک وقت آیا 2002 میں جب میں نے سوچا کہ میں کیا لکھتا جا رہا ہوں۔۔ صوفیا سے عقیدت تو تھی ہی سو میں نے یہ رستہ پکڑا۔ اس میں انسانیت کی بات زیادہ اچھے انداز میں کی جا سکتی ہے
سوال۔ آپ کو اپنا کونسا ناول اب تک اچھا لگا ہے ?
جواب۔امرت کور عشق کا قاف اور قلندر ذات 
سوال۔پاکستان کے کن کن شہروں میں چکر لگا اور بیرون ملک کہاں کہاں گئے۔۔۔۔ کیا سفر لکھنے میں مددگار ہوتا ہے
جواب۔میں نے بہت دیکھا پاکستان۔۔۔ سفر وسیلہ ظفر رہا
سوال۔میری انتہائی بدذوقی کہ کبھی آپ کو پڑھا نہیں۔بلکہ بے ادبی کو زیادہ دخل ہے کہ پہلی دفعہ گذشتہ ماہ کے جاسوسی ڈائجسٹ میں رنگ "خنجر بکف" سے واقفیت ہوئی اور کہانی اچھی لگی۔
جواب۔شکریہ
سوال ۔مستقل مزاجی کامیابی کی کنجی ہے۔۔یہ کیسے خود میں پیدا کی جا سکتی ہے۔۔۔۔کوئی آسان سا عمل بتائیں۔۔۔
جواب۔اپنے آپ پر بھروسہ ، اور خود میں تحمل پیدا کر کے۔
سوال۔آپ عشق حقیقی اور تصوف کے تھیم میں لکھنا پسند کرتے ہیں۔جاسوسی کیلئے لکھتے ہوئے البتہ کرائم سسپنس وغیرہ کا راستہ اپنانا پڑتا ہے ان الگ الگ موضوعات کو کیسے مینیج کرلیتے ہیں
جواب۔جو لکھاری ہوتا ہے وہ لکھ لیتا ہے۔یہ جو جا سوسی میں شائع ہوتا ہے کیا یہ زندگی سے باہر ہے ؟
سوال۔سب سے پہلے خوش آمدید سر۔میرا سوال یہ ہے کہ کہا جاتا ہے کہ آج مطالعہ کا رجحان کم ہو گیا ہے اس سے حوالے سے بعض لوگ کہتے ہیں کہ اب معیار وہ نہیں رہا۔ اس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب۔میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔ مطالعے کا رجحان بڑھا ہے۔ معیار عمر کے ساتھ بدلتا ہے۔ ایک نوجوان، بچوں کی کہانیاں پڑھے گا؟ یاد رکھیں، ہر قاری اپنے ذوق کے ساتھ مخلص ہوتا ہے۔
گفتگو
میں اتفاق کرتی ہوں سر
آج کی مصروف زندگی نے قاری کو بہت سلیکٹیو کر دیا ہے مگر قاری ادب سے دور نہیں ہوا
فرصت کے تھوڑے سے وقت میں وہ وہ پڑھنا چاہتا ہے جو اسکے ادبی ذوق کی پوری تسکین کر سکے
کتابیں رسالے بڑھے ہیں کم تو نہیں ہوئے۔۔ کیا آج سے دس برس پہلے اتنے اخبار تھے ؟
صحیح کہا،رسائل کی تعداد اور اشاعت بڑھ رہی ہے
سوال ۔سر ڈائجسٹ میں رائٹرز کو مخصوص مائنڈسیٹ اور ڈائجسٹ کے مخصوص دائرہ کار میں رہ کر لکھنا پڑتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کیا رائٹرز مالی مسائل کو پس پشت ڈال کر معیاری اور بامعنی ادب لکھ سکتے ہیں ؟ ڈائجسٹ لکھاری اظہار خیال اور مالی لحاظ سے ہمیشہ تنگدستی کا شکار کیوں رہتا ہے؟
جواب۔میں نے آپ کا سوال مشکل سے سمجھا ہے۔ اس کا جواب بہت پہلے عبدالقادر جو نیجو صاحب نے دے دیا تھا کہ میں دونوں ہاتھوں سے لکھتا ہوں دائیں ہاتھ سے اپنے لئے اور بائیں ہاتھ سے لوگوں کے لئے۔ آج کا لکھاری مالی حالات سے تنگ نہیں ، بس لکھتا ہو اور ادب کیا ہے پہلے اس کا تو تعین کر لیں۔
سوال ۔کلاسیکل ادب اور ڈائجسٹ ادب میں اگر میں اپنی کم علمی کے باعث ایک امتیازی لائن نکالنا چاہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کلاسیکل ادب میں فلسفہ کی چھاپ نظر آتی ہے ۔استعاروں، تشبیہات، تمشیلات اور علامتی تناظر میں زندگی کے حقائق کو عیاں کیا جاتا ہے اور ایک خاص ذہنی سطح کا قاری ہی اس سے حظ اور لطف اٹھا سکتا ہے جب کہ ڈائجسٹ نے عام فہم الفاظ اور سادہ طرز تحریر سے سماجی مسائل کو اجاگر کیا اور عام ذہنی سطح کے قاری کی تسکین کا سامان بھی کیا۔آپ ان دونوں طرز کے ادب کے کس نظر سے دیکھتے ہیں؟آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مستقبل میں ڈائجسٹ طرز کی تحریر یں ادب میں امتیازی مقام حاصل کر پائیں گی ،اگر نہیں تو کیوںکیونکہ پاک و ہند میں شاعری شدید استعاروں، تشبیہات اور ثقیل الفاظ سے مزین رہی اور سادہ الفاظ پر مشتمل شاعری کو شاعری کی صفت سے ہی خارج تصور کیا حاتا تھامگر آج شاعری میں سادگی اس کا حسن ہے کیا ایسا ہی ارتقاءنثری ادب میں بھی متوقع ہے؟
جواب۔کبھی آپ نے اردو کی پہلی کتاب سب رس پڑھی ؟ اس آج کا کوئی بندہ بھی نہیں پڑھ سکتا اگر پڑھے گا تو دانتوں پسینہ آ جائے گا۔ یہ وقت کا تقاضا ہے۔ اردو زبان ترقی کر رہی ہے۔ اصل شے ابلاغ ہے۔ اگر ابلاغ ہو رہاہے تو بات سمجھی جائے گی ورنہ نہیں۔ مشکل الفاظ اور تشبہات ختم ہو رہی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ۔ مزرا غالب کس پر زندہ ہیں ؟
گفتگو
بہت شکریہ ۔یقینا آج غالب اپنی اسی شاعری کی بدولت زندہ ہے جو انہوں نے فکر معاش کی وجہ سے لکھی اور جو خود ان کی نظر میں بے کار تھی
خطوط ، اور جو سہل لکھی گئی ، جیسے جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
 سر امجد ۔بالکل ایسا ہی ہے
یقینا آنے والے وقت میں ڈائجسٹ میں لکھا گیا بھی ادب کی اگلی صفوں پر قیام کرے گا
سر امجد ۔میں نے جو ڈائجسٹ میں لکھا دو یونیورسٹیز اس پہ ایم فل کا مقالہ لکھوا چکی ہیں
انشاءاللہ سر یہ روایت چل پڑے گی اور باقی ڈائجسٹ رائٹرز کے کام پر بھی ایسے ہی کام ہوگا
سوال۔اشاعت کے حوالے سے پاکستان کا نمبر 1 ڈائجسٹ کسے سمجھتے ہیں؟
جواب۔میرا خیال ہے سسپنس ڈائجسٹ
سوال۔ سر میرا سوال ہے پہلے کے مقابلے میں وہ کہانیاں شایع نہیں ہورہیں، معیار تھوڑا نیچے چلا گیا ۔کیا یہ واقعی ایسا ہے یا ہم قاری یکسانیت کا شکار ہوچکے ہیں؟اگر ایسا ہے تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہئے ،اگر ایسا نہیں تو پھر رائٹر حضرات کو کیا کرنا چاہئے۔
جواب۔قاری کا معیار گرا ہے ۔ ڈائجسٹ، وہ شائع کرتا ہے جو قاری کو پسند ہو لیکن ڈائجسٹ نے اپنا معیار بھی رکھنا ہوتا ہے۔ یہ ایک کشمکش ہے۔نیا تجربہ غیر محسوس انداز میں کرنا پڑتا ہے ، جسے قاری قبول کرتے ہیں تو چل پڑتا ہے اور۔۔۔۔
سوال۔میں ذاتی طور پر سمجھتی ہوں کہ قاری کے پڑھنے کامعیار بڑھا ہے تبھی اسے ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب رسائل میں معیاری تحریریں نہیں چھپتیں آپ کیا کہیں گے؟
جواب۔قاری اپنی عمر سے آگے بڑھتا ہے اور اس کے ساتھ وقت اور ماحول کا اثر بھی ہوتا ہے۔وہ قاری جو 1970 میں تھا اس کا معیار کہاں پر ہے۔ خیر یہ بات اپنی جگہ لیکن میں آپ سے ایک دوسری بات عرض کرتا ہوں ، کہانی شائع ہونے کے اگلے ماہ جب تبصرے شائع ہوتے ہیں تو وہیں معیار دکھائی دے جاتا ہے۔ قاری بڑا ظالم ہے وہ اپنے ذوق کے ساتھ مخلص ہے۔ وہ اس کہانی کو رد کر دیتا ہے جو اسے پسند نہیں۔اس کا مطلب ہے تعین کون کرتا ہے ؟ مدیر کو مجبور کون کرتا ہے ؟کہ وہ کس طرح کی کہانیاں چنے ؟آج قاری بہترین کہانی پڑھنا چاہتا ہے تو وہ اپنا معیار بہتر بنائے اور کڑی تنقید کرے ، ایسی تنقد جو صحت مند ہو، اس میں کیں بھی ذرا سا تعصب یا گروہ پروری نہ ہو تو دیکھیں کہانی کا معیار۔تیسری چیز ادارہ ہے ۔
سوال ۔میرا دوسرا سوال ہم 2018 میں داخل ہونے والے ہیں ٹیکنالوجی کی جدت اپنے عروج پر ہے مگر ڈائجسٹس میں ٹیکنالوجی پر بہت کم تحاریر پڑھنے کو ملتی ہیں ایسا کیوں؟
جواب۔ڈائجسٹ کا سب سے بڑا مسئلہ کہہ لیں یا خامی کہ وہ وہی شائع کرتا ہے جو قاری پسند کرتا ہے۔ ہم قاری کہیں بھی سمجھوتہ نہیں کرتے ، اگلے ماہ سب سامنے ہوتا ہے۔۔۔ سو۔۔۔
سوال۔کبھی مزاحیہ لکھنے کی کوشش کی ؟
جواب۔جی ایک ڈرامہ لکھا ہے اور کالم لکھا ، تھڑے بازیاں روزنامہ انصاف لاہور میں۔
سوال۔سوشل میڈیا پر آمد کا تجربہ کیسا رہا، فائدہ ہوا یا نقصان؟
جواب۔بہت فائدہ رہا اسی سوشل میڈیا کی بدولت ہم اور آپ اتنی دور بیٹھے ہوئے بھی باہم رابطے میں ہیں
 سوال۔ سر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ آجکل کی کہانیوں میں پہلے جیسی چاشنی اور تھرل کیوں نہیں رہا ؟
جواب۔قاری بہت بڑی قوت ہے۔ کہانی وہ لکھواتا ہے۔ لکھاری اس کی رائے میں چلتا ہے۔ ہر ماہ لکھاری کا حساب ہوتا ہے۔
سوال۔قلندر ذات لکھنے کا آئیڈیا کیسے سوجھا؟
جواب۔خیال تو آتے ہی رہتے ہیں۔ تجربات بھی کرتا ہوں۔
غضنفر بصیر شاہ۔آپ کا پسندیدہ ناول کونسا ہے ؟ اپنے لکھے ھوئے ناولز کے علاوہ
جواب۔داستان ایمان فروشوں کی
سوال ۔سر ایک وقت آتا ہے کہ رائٹر فیڈاپ ہوجاتا ہے۔ ہرچیز سے ماحول سے حالات سے اور شاید اپنے آپ سے بھی ذہن کچھ نیا اور اچھوتا تخلیق نہیں کرپاتا ہے آپ پر کبھی ایسا وقت آیا ؟
جواب۔نہیں ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔ الحمد للہ
سوال۔ امجد جاوید صاحب آپ کے خیال میں جدید دور کے قاری کا رجحان زیادہ کس طرف ہے ؟معاشرت، تصوف،سائنس فکشن، ایکشن کرائم یا رومانویت ؟
جواب۔جدید قاری کا رجحان ہر طرف ہے۔ دراصل پاکستان میں ابھی اتنی تخصیص نہیں ہو پائی ، کہانی میں آپ کو سب کچھ ملتا ہے۔ جاسوسی میں اگر رومانس نہ ہوتو آپ لکھاری کے ساتھ کیا کرتے ہیں ؟
گفتگو
قاری ایسی تحریر کو "خشک کہانی" کہہ دیتے ہیں....
جب تک سارے مصالحے نہ ہوں۔۔۔۔۔ (قہقہہ)
گفتگو
جی اب مجھے مکمل جواب ملا.... زبردست (جوابی قہقہہ)
سوال۔نئے لکھنے والوں میں سے آپ کے خیال میں کون اچھا لکھ رہا اور نوآموز کو کیا مشورہ دیں گے؟
جواب۔سبھی اچھا لکھ رہے ہیں ، یہ کوئی سیاسی بیان نہیں ، جو لکھ رہا ہے وہ اچھا ہے۔
سوال۔سر.... آپ سسپنس ڈائجسٹ کے آخری صفحات کیلئے بھی ناول لکھیں اور آئی وش کہ آپ کا کوئی قسط وار ناول بھی آجائے جس کا تھیم عشق حقیقی کے گرد گھومتا ہو۔
جواب۔جی بالکل، میرے ذہن میں دو تین پلاٹ ہیں
عشق پر لکھنے کیلئے.... عاشق ہونا ضروری ہے کیا ؟ 
جواب۔میرے خیال میں ہی نہیں بلکہ یہ حقیقت ہے کہ پہلے عاشق ، پھر معشوق بننا پڑتا ہے۔۔ تب کہیں جا کہ حلقہ عشق میں داخلہ ملتا ہے۔اب اگر یہ پوچھیں گے کیسے تو میرا نیا ناول ہے” بے رنگ پیا “ اسے پڑھنا پڑھے گا۔
سوال۔سر آپ خود کن موضوعات پر لکھنا پسند کرتے ہیں عشق حقیقی یا ایکشن ،کرائم وغیرہ 
جواب۔دونوں، اور یہ امتزاج اپ قلندر ذات میں دیکھ سکتے ہیں۔
سوال۔”کہانی لکھنے کے گر“ کے عنوان سے کچھ بتائیں تاکہ نئے لکھاری فنی تکنیکس سے واقف ہو سکیں؟
جواب۔میں ابھی خود کو اس قابل نہیں سمجھتا۔
گفتگو
سر.... کسر نفسی سے کام نہ لیں
سوال۔24 ناول اور سینکڑوں کہانیاں کیسے لکھ لیں ؟
جواب۔دعا کریں آپ کو بھی کو حاسد مل جائے اور مقابلے کا حوصلہ
سوال۔آج کے دور میں کتابیں اور خاص طور پر ڈائجسٹ کے بارے میں آپ نہیں سمجھتے کہ ان کا آن لائن اجرا بھی ہونا چائیے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے اور ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ بہت سے قاری سہولت یا مختلف وجوہات کی وجہ سے آن لائن پڑھتے ہیں جو ویب سائٹس پر فری میں میسر ہیں۔ جس سے اشاعتی اداروں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا۔
جواب۔آن لائین بہت سارے ڈائجسٹ ہیں ، فری بھی اور پیسے لگا کر بھی۔ وقت کے ساتھ یہ ہونا ہے ، جس کو جہاں سہولت ملے ، میں اس حق میں ہوں کہ آن لائین ہونا چاہئے اور اس سے لکھاری کو پیسہ ملنا چاہئے۔
گفتگو
شکریہ بالکل۔اب وقت کا تقاضا بھی ہے۔ اس سے یقینا ریڈرزشپ بڑھے گی اور اردو زبان کو مزید ترقی ملے گی
سوال۔سر آپ بیک وقت مختلف رسالوں اور ڈائجسٹوں میں کیسے لکھ پاتے ہیں غالبا پچھلے مہینے میں 56 رسالوں میں آپ کی کہانیاں شایع ہوئی تھیں۔
جواب۔نہیں سر ایسا کبھی نہیں ہوا۔۔۔۔۔
سوال۔سر جی میرا سوال یہ ہے کہ عشق کا شین پارٹ 2 آپ نے لکھی ہے - کچھ اسکے بارے میں بتائیں 
جواب۔میں اس سوال کا انتظار کر رہا تھا۔ سو عرض یہ ہے کہ میرے پبلیشر جناب گل فراز احمد صاحب نے مجھے کہا کہ آپ عشق کا شین کا اگلا حصہ لکھ دیں۔ تب میر اپہلا سوال یہی تھا کہ علیم الحق حقی صاحب کا وہ ناول میں کیسے لکھ سکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے ہر طرح سے مطمئن کیا ، قانونی ، اخلاقی ہر طرح۔میں حقی صاحب سے عقیدت رکھتا ہوں۔ میں نے اپنے لئے اسے اعزاز جانا اور دوسرا حصہ لکھا ، عوام میں بہت پسند کیا گیا تو تیسرا حصہ لکھنے کو کہا گیا ، میں نے لکھ دیا، ، چوتھے کا تقاضا کیا جانے لگا، میں لکھ رہا تھا کہ حقی صاھب نے اپنا دوسرا حصہ دے دیا، میں نے وہ وہیں چھوڑ دیا، اس کا مسودہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ میری حقی صاحب سے عقیدت ہے لیکن آج تک ان سے فون پر بھی بات نہیں ہوئی ، میں نے سنا اور خیر چھوڑیں یہ تذکرہ ، رب تعالی انہیں جنت میں اعلی مقام سے نوازے۔ اس ناول کی قسمت دیکھین یہ آج بھی ادھورا ہے۔
سوال ۔جے ڈی پی میں آپ نے پہلے لکھاپھر اتنی لمبی بریک لے لی۔مستقبل کے کیا ارادے ہیں ؟
جواب۔جی میں نے بالکل لکھنا ہے۔ اس وقت تین پراجیکٹ میرے ہاتھ کے نیچے ہیں۔ جیسے ہی مکمل ہوئے تو میں نے بس یہیں لکھنا ہے ، ان شاہ اللہ وہ بھی مستقل۔
گفتگو
یہ ہمارے اور آپ کے دیگر چاہنے والوں کے لیئے بہت اچھی خبر ہے۔۔۔
سوال
امجد جاوید صاحب میں آپ کو پڑھ نہیں سکا۔اب پڑھنے کی کوشش کرونگا۔سب سے پہلے آپکی کون سی کتاب ناول پڑھنی چاہئے۔برائے مہربانی بتا دیں۔شکریہ
جواب۔ جو ٓپ کو پہلے دستیاب ہو جائے ۔باقی مجھے آپ کے مزاج کا نہیں پتہ ، آپ امرت کور یا قلندر ذات پڑھ لیں۔
سوال۔نئے افق کے لیئے کوئی پراجیکٹ زیر غور ہے یا اب ہم آپ کو جے ڈی پی کا ہی حصہ سمجھیں؟
جواب۔جے ڈی پی
سوال۔میں نے عشق کاشین پارٹ 2 اور پارٹ3 دونوں پڑھی ہے کہیں محسوس نہیں ہوا کے رائیٹر بدل گیا اور آپ کی ہر کہانی پڑھتا ہوں کچھ بتائیں آپ کو یہ کہانی عشق کا شین پارٹ 2 لکھنے کے لئے جناب علیم الحق حقی صاب نے کیا کہا پلیز
جواب۔میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ میرے پبلشر جناب گل فراز احمد صاحب نے مجھے کہا کہ آپ عشق کا شین کا اگلا حصہ لکھ دیں۔ تب میر اپہلا سوال یہی تھا کہ علیم الحق حقی صاحب کا وہ ناول میں کیسے لکھ سکتا ہوں۔ انہوں نے مجھے ہر طرح سے مطمئن کیا ، قانونی ، اخلاقی ہر طرح۔میں حقی صاحب سے عقیدت رکھتا ہوں۔ میں نے اپنے لئے اسے اعزاز جانا اور دوسرا حصہ لکھا ، عوام میں بہت پسند کیا گیا تو تیسرا حصہ لکھنے کو کہا گیا ، میں نے لکھ دیا، ، چوتھے کا تقاضا کیا جانے لگا، میں لکھ رہا تھا کہ حقی صاھب نے اپنا دوسرا حصہ دے دیا، میں نے وہ وہیں چھوڑ دیا، اس کا مسودہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ میری حقی صاحب سے عقیدت ہے لیکن آج تک ان سے فون پر بھی بات نہیں ہوئی ، میں نے سنا اور خیر چھوڑیں یہ تذکرہ ، رب تعالی انہیں جنت میں اعلی مقام سے نوازے۔ اس ناول کی قسمت دیکھیں یہ آج بھی ادھورا ہے۔
سوال۔آپ اپنی کونسی تخلیق سب سے زیادہ پسند ہے؟
جواب۔میرے 4 بچے.... (قہقہہ)
گفتگو
بہت خوب
اللہ کریم آپ کو ہمیشہ خوش رکھے آمین
سوال ۔ادارہ جاسوسی ڈائجسٹ پبلیکشنز کے لیے قسط وار کب لکھیں گے ؟
جواب۔جب بھی اقلیم علیم صاحب حکم دیں گے اور میرے پاس وقت ہوا۔۔۔۔۔۔۔
گفتگو
1 ہم منتظر رہیں گے سر۔
2 انتظار رہے گا 
3 منتظر
سوال۔بعض سینئر رائٹرز کی جانب سے نئے رائٹرز کی فیس بک اور دیگر پلٹ فارمز پر خلاف توقع حوصلہ افزائی کی بجائے دل شکنی کی حد تک تنقید کی جاتی نظر آتی ہے۔آپ بطور سینئر رائٹر اس ٹرینڈ پر کیا کہیں گے اور اس صورتحال میں جونئیر رائٹرز کو کیا مشورہ دیں گے؟
جواب۔میں اس پر بہت پہلے سے کچھ کہنا چاہتا تھا ، اپ کا شکریہ کہ موقعہ دیا۔دیکھیں جو اپنے جونئیر کو تنقید کا نشانہ بناتا ہے یا عوامی پلیٹ فارم پر اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اسے چاہئے کہ وہ سمجھ لے اس کا زوال شروع ہوگیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ نئے لوگوں نے آنا ہے ، ان کا دور ہے۔ بہت سارے سینئر پٹ اس لئے جاتے ہیں کہ وہ بزعم خود اپنی ذات کو ادارہ سمجھنے لگتے ہیں۔ بڑا آدمی بڑا ہی ہوتا ہے۔ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتا ہے۔جو نیئر یا سینئر کو میں نہیں مانتا ، ممکن ہے کبیر عباسی کوئی ایسی کہانی لکھے جو مجھے بھی پیچھے چھوڑ دے حالانکہ میرا کوئی مقام نہیں ہے ، لکھاری بس لکھاری ہے۔ لکھاری کو حوصلہ نہیں ہارنا چاہئے ، تحمل سے اپنا کام کرنا چاہئے ، جس دن لکھاری نے یہ سمجھ لیا کہ میں بڑا لکھاری بن گیاہوں سمجھیں اسی دن وہ ختم ہوگیا۔ ہاں سینئر کی عزت کرنا ، احترام کرنا اور انہیں بڑا ماننے ہی میں بڑا پن ہے۔
سوال۔ (گزشتہ سے پیوستہ)اور جو سینئر کہانی پر تنقید کو خود پر تنقید سمجھ لے اور اپنے حواریوں کے تھرو نئے رائٹرز کے خلاف غلیظ ترین الفاظ میں مہم چلائے۔اس پر آپ کیا کہیں گے؟ 
جواب۔یہی نئے لکھاری کا امتحان ہے۔ اسے ہی وہ بھٹی کہا جاتا ہے جس میں اسے کندن بننا ہے ، یہ وہ مقام ہے کہ کہاں سے خاموشی کے ساتھ گزر جانا چاہئے، پلٹ کر جواب نہیں دینا۔میں نہیں مانتا کاغذ پہ لکھے شجرہ نسب۔۔۔۔۔ بات کرنے سے قبیلے کا پتہ چلتا ہے۔جہاں اتنے پھول کھلے ، میں تو اسے کانٹا ہی سمجھوں گا۔
سوال۔آپ خود کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں
جواب۔میں بنیادی طور پر فلسفہ پسند کرتا ہوں لیکن یہ موڈ ہوتا ہے کہ کس وقت کیا پڑھنا ہے۔ زیادہ تر اب وہی پڑھنا ہوتا ہے جو کسی کہانی کے مطابق تحقیق ہو۔
سوال۔آپ کا پسندیدہ رائٹر جس کو آپ پڑھنا پسند کرتے ہوں۔
جواب۔بہت سارے ہیں
سوال۔زیادہ سے زیادہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ بطور رائٹر ہم اپنے خیالات و احساسات دوسروں تک پہنچادیتے ہیںلیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ رائٹرز کا لکھا ہوا کچھ بھی.... قارئین کے ذہنوں پہ تادیر تک اثر پزیر ہوتا رہتا ہے آپ جانتے ہیں ڈائجسٹ پڑھنے والوں کا وسیع حلقہ نوجوان قارئین پہ مشتمل ہے ایک رائٹر کو ان کیلئے لکھتے ہوئے کن خطوط کا بطور خاص خیال رکھنا چاہیئے؟
جواب۔ان کے کردار بنانے پر۔۔ کم از کم وطن کی محبت ت ولازمی ہو نا
گفتگو
بہترین نکتہ بتایا.... سر
سوال۔بہت خوشی ہوئی آپ کو یہاں دیکھ کر۔گو آپ کو پڑھا نہیں مگر یہاں اس انٹرویو سے مجھے کچھ کچھ اندازہ ہو گیا ہے کہ آپ کا رجحان کس طرف زیادہ ہے اور کس موضوع پر لکھنا پسند کرتے ہیں۔ یعنی صوفیزم۔اوپر بھی مینشن کیا جا چکا ہے کہ حقی صاحب کے بعد عشق کا شین آپ نے مکمل کیاوہ بہت ہی بہترین ناول ہے۔ سر اب آپ کی خدمت میں دلی عرض ہے۔معاشرتی۔پیار۔محبت۔ایکشن۔اس موضوع پر پڑھا ہے۔پلیز آپ اگر جے ڈی پی کے لیے ایسا ہی کوئی صوفیزم پر ناول یا کہانی لکھے تو کیا کہنے۔ ایک نیا انداز ہوگا۔نئے مشاہدات اور تجربات ہونگے۔پلیز شدت سے انتظار ہے آپ کے صوفیزم رنگ کا۔
جواب۔بہت شکریہ۔۔۔۔ آپ اقلیم علیم سے کہہ دیں
سوال۔آج کل آپ کا ایک ناول ایک اخبار کے سنڈے میگزین میں پبلش ہو رہا ہے۔کیا انہوں نے آپ کو دعوت دی ہے لکھنے کی یا آپ نے خود سے بھیج دیا اور انہوں نے شائع کر دیا؟
جواب۔سلسلہ وار کہانی حصار۔ سنڈے میگزین روزنامہ دنیا۔ جی مجھے حکم دیا تھا جناب صہیب مرغوب صاحب نے۔ وہ میرے کرم فرما نہیں محسن بھی ہیں۔
سوال۔سائنسی موضوعات پر کوئی ناول لکھنا چاہیں گے چاہے خیالی طور پر ہی کیوں نہ ہو یا جیسے ناول دیوتا ہے ۔ایسے موضوعات پر کوئی ناول ہیں آپ کے ذہن میں؟
جواب۔میرے ذہن میں کئی خیال ہیں ۔ ان میں نہ صرف ایک پورا خیال موجود ہے ، بلکہ کہانی بھی مکمل ہے لیکن اسے صرف صفحات پر اتارنا ہے۔
گفتگو
انتظار رہے گا....
سوال۔عشق کیا ہے؟
جواب۔عشق کی سمجھ عشق ہی عطا کرتا ہے۔۔ ویسے آپ میرا ناول بے رنگ پیا پڑھ لیں اس سوال کا جواب پوشیدہ ہے وہاں
سوال۔جاسوسی میں ”خنجر بکف “پڑھی اچھی لگی-سر یہ بتائیں آپ کے تعارف میں لکھا ہے ڈرامہ نگار تو آپ کے کون سے ڈرامے ان ائیر ہوئے؟ شائد میں نے دیکھے ہوں۔
جواب۔سکھاں اور پہچان۔۔ اے ٹی وی سے آن ائیر ہوئے تھے
گروپ انتظامیہ۔۔۔بہت بہت شکریہ امجد جاوید صاحب آپ نے مسلسل دو گھنٹے ممبرز کے سوالات کے جوابات دیئے ۔اللہ تعالی سلامت رکھے آپ کو ان تمام ممبرز کے بھی انتہائی شکر گزار ہیں جو ہماری کاوش پہ لبیک کہتے ہوئے پوسٹ پہ آئے اور سوالات پوچھے.... زندگی رہی تو ایسی ہی کسی اور محفل کے ساتھ آپ دوستوں کی خدمت میں حاضری ہوگی تب تک کیلئے د اللہ پہ امان۔
انتظامیہ:جاسوسی, سسپنس, سرگزشت آفیشل فین کلب
جواب۔آپ سب کا بھی بہت بہت شکریہ۔فی امان اللہ
٭....٭....٭

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *