Wednesday 30 August 2017

آب زَد

آب زَد

امجد جاوید

سیلی جب ملتان ائیر پورٹ سے باہر نکلی تو کئی نگاہوں میں اس کے لیئے ستائش بھر گئی۔اس کا فطری حسن تو قدرت کا عطیہ تھا ہی،لیکن بدن کے خال و خد میں بھی وہ سراپا شہکار تھی۔قدرت کے عطیے پر اگر انسانی محنت ہو جائے تو بھی شہکار وجود میں آ جاتے ہیں۔سیلی اپنے فطری حسن کی کشش سے آشنا تھی۔سو وہ ستائشی نگاہوں سے بے نیاز ،متلاشی نگاہوں سے ائیر پورٹ کے داخلی راستوں کی طرف دیکھنے لگی۔وہ مجسمہ حسن ایک لمحہ کو ٹھہر گئی توگویا نگاہیں بھی تھم گئیں۔تبھی اس کے پیچھے گرانڈیل مرد نما خاتون ”سجو “بھی رک گئی۔ خواجہ سراﺅں جیسی سجو اس کی ملازمہ کم اور سیکورٹی گارڈ زیادہ دکھائی دے رہی تھی۔انہی لمحات میں اس کی نگاہ مسکراتی ہوئی فائقہ پر پڑی جو چند مردو خواتین کے ساتھ تیزی سے اس کی جانب بڑھی تھی۔
”ویل کم سیلینہ۔۔۔ویل کم ۔۔آپ کی آمد ہمارے لیئے خوشی کا باعث ہے۔“
”حماد خان نہیں آئے ۔“اس نے آہستگی سے پوچھا
”وہ تھوڑا مصروف تھے۔۔ہمیشہ کی طرح ۔۔خیر،میں جو آگئی ہوں۔اور وہ بھی اتنے لوگوں کے ساتھ“یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس دی۔
”چلیں پھر ۔!“یہ کہتے ہوئے اس نے قدم بڑھا دیئے۔مزیدتبصرہ کرنااس نے مناسب ہی نہ سمجھا تھا۔وہ سب اس کے پیچھے پیچھے آنے لگے۔ائیر پورٹ کی عمار ت کے باہر گاڑیاں قطار میں کھڑی تھیں۔وہ بیٹھی تو گاڑیوں کا یہ قافلہ چل دیا۔
سیلی ،لاہور سے ملتان کے اس مضافاتی علاقے مظفر گڑھ میں حماد خاں کی خصوصی دعوت پر آئی تھی۔اُس نے ایک اعلیٰ سطعی سیمنار کا اہتما م کیا تھا۔یہ وہ علاقہ تھا،جہاں گذشتہ برس دریائے سندھ کے سیلاب نے تباہی مچا دی تھی۔نجانے کتنے لوگ لقمہ اجل تھے۔کتنے بے گھر ہو گئے اور ان میں ایسے بھی تھے ،جنہیں سیلاب بہا کر لے گیا تو پھر ان کا نام و نشان تک نہ ملا کہ لواحقین صبر ہی کر لیں۔یہ سیمنار انہی سیلاب زدگان کی بحالی بارے صورت حال کا جائزہ لینے کے لیئے تھا۔جسے اس علاقے کے سیاسی زعماءنے اپنی طاقت کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا تھا۔جن ممالک نے اِن لوگوں کی امداد کی تھی،ان کے سفیر یانمائندے ، حکومتی وزراء،این جی اوز کے لوگوں کے علاوہ وہ بھی شامل تھے جنہوں نے اپنے طور پر ان سیلاب زدگان کی مدد کی تھی۔
سیلاب کے دنوں میں سیلی بھی یہاں موجود تھی۔اس نے اپنی آنکھوں سے وہ سارے منظر دیکھے تھے،جن سے انسان دہل کر رہ جائے۔ان مناظر کو اس نے اپنے دل پر محسوس کیا تھا۔وہ اچھی طرح جانتی تھی کہ اس سیمنار میں اس کی حیثیت محض نمائشی ہے ،ورنہ اس کا یہاں نہ کوئی کام تھا اور نہ کوئی مقصد ۔ وہ صرف اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس صحرائی علاقے میں آئی تھی۔جس لمحے اسے دعوت ملی تھی۔اسی لمحے ایک خواہش ،ہمک کر ہوک بن گئی تھی۔وہ اس شخص سے دوبارہ ملنا چاہتی تھی ، جو سیلاب کے دنوں میں اس سے ملا تھا۔ایک آوارہ جھونکے کی طرح،جو اپنی خوشبو ،تازگی اور فرحت سے سرشار کر جائے۔تب وہ پورے دل سے مچل گئی تھی ۔ وہ جو کسی کو خاطر میں نہ لاتی تھی اور نہ ہی کسی سے مرعوب ہوئی تھی۔اس شخص سے ملنے کی خواہش ،خوشی بن کر اس کے پورے وجود میں پھیل گئی تھی۔اس نے فوراً ہی وعدہ کر لیا تھا۔پھر یہ چند دن کیسے گذرے ۔یہ وہی جانتی تھی۔اضطراب و انتظار کے یہ دن بڑے صبر آزما تھے۔اسے اُمید نہیں تھی کہ وہ دوبارہ اس شخص سے مل پائے گی ۔اس کا ارادہ یہ تھا کہ وہ اسے تلاش ضرور کرے گی۔اپنے دل میں اس شخص سے ملنے کا ارمان چھپائے ،وہ حماد خاں کی حویلی کی جانب گامزن تھی۔سیلاب کے دنوں میں وہ وہیں ٹھہری تھی۔وہ یہاں کا سب سے مضبوط سیاسی گھرانہ تھا۔اس شخص کے بارے میں سیلی نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔یہاں تک کہ حماد خاں کو بھی نہیں ۔اور شاید اسے خود بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ اسے اتنا یاد آئے گا۔
گاڑیوں کا قافلہ حویلی کی جانب رواں تھا۔اس کی گاڑی میں خاموشی تھی۔اور ان علاقوں کو دیکھ رہی تھی جو پچھلے برس زیر آب تھے۔اس نے آنکھیں موند لیں اور ماضی کے ان لمحات میں جا پہنچی ، جب اس کے من میں جوت جاگی تھی۔یہی وہ دن تھے،جب اس نے زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا تھا۔انہی دنوں اس نے انسان کے اندر تک جھانکنے کا تجربہ حاصل کیا تھا۔ کیونلہ جس طرح علم کا دارومدا سوچ پر ہوتا ہے، اس طرح عمل سے بھی سوچ کا کھوج مل جاتاہے۔
 ٭ ٭ ٭ ٭
جولائی کے اس گرم موسم میں تازہ دم ہونے کے لیئے وہ شاورلے چکی تو سیدھی ٹی وی لاﺅنج میں آ گئی۔کہیں کہیں سے بھیگا ہوا ڈھیلا ڈھالاسفید ریشمی لباس اس کے بدن سے چپک کر رہ گیا تھا۔اس کی لمبی سیاہ زلفوں سے پانی قطرہ قطرہ موتیوں کی طرح گررہا تھا۔جس سے لباس اس کی پشت پر سے اس کا گلابی بدن آشکار کر رہا تھا۔کھلے گیسوﺅں سے ایک آوارہ لٹ گال سے ہوتی ہوئی نچلے لب تک آ گئی تھی۔ بڑی بڑی متلاشی آنکھیں مخمور تھیں۔شہد ملا گورا رنگ ،گول چہرہ ،پتلے لب اور ستواں ناک میں سونے کی ہلکی سی تار ،اس کے نقوش کو ابھار رہی تھی۔اس نے اپنے گلابی پیروں میں سے سیاہ سلیپر اتارے ،تولیے سے زلفوں کا باندھا اور صوفے پر پھیل کر بیٹھ گئی۔
کچھ ہی دیر بعد ٹی وی پر اس کا وہ پروگرام آنے والا تھا، جس میں سیلی کے رقص کو بے انتہا سراہا گیا تھا۔اس کے ذہن میں وہ سینکڑو ں لوگ تھے جو اس کی ایک ایک ادا پر بے تحاشا داد دے رہے تھے۔اس نے بھی سٹیج پر خود کو شعلہ جوالہ بنا کر اپنا من داﺅ پر لگا دیا تھا۔وہ رقص کر تی رہی اور اپنے عشاق کا دل اپنی مٹھی میں جکڑتی رہی۔بہت عرصے بعد اس نے یوں کھلے عام پرفارمنس دی تھی۔ورنہ تو چند مخصوص لوگ تھے جو ان کے بنگلے پر آتے اور اس کے مجرے سے خط اٹھاتے تھے۔کچھ دیر پہلے ہی وہ ایسا ہی مجرا کر کے آئی تھی۔جس کا معاوضہ اس کی ماں کہیں بیٹھی گن رہی تھی۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ذرا دیر بعد ٹی وی پر وہ پروگرام آنے والا ہے، جس میں اس کا رقص تھا۔ایک تماشائی کی حیثیت سے وہ اپنا مجرا خود آپ دیکھنا چاہتی تھی۔اس لیئے وہ ٹی وی لاﺅنج میں تھی۔
وہ پشتینی طوائف زادی تھی۔بہت عرصہ قبل اس کی ماں کوٹھے سے اتر کرکوٹھی میں آن بسی تھی ۔یہیں سے اس نے بنگلے میں جانے کی خواہش کر لی تھی۔ڈھلتی عمر کی طوائف اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے ہی کا سوچتی ہے۔اس کا اپنا دور تو ختم ہو گیا تھا۔لیکن اس کا مستقبل سیلینہ عرف سیلی کی صورت میں اس کے پاس تھا۔وہ ایک نایاب مگر ناتراشیدہ ہیرے کی مانند اس کی صندوقچی میں پڑی ہوئی تھی۔اب وہی اس کی کل متاع تھی۔اس نے سیلی پر بھر پور توجہ سے سرمایہ کاری کی تھی۔بہترین تعلیمی اداروں میں اسے پڑھایا۔اسے ایک ایسی امیرزادی کے طورپر پیش کیا جو کسی بھی امیر زادی سے کم نہیں ہوتی۔جدید ماڈل کی گاڑی سے لے کر جدید ترین فیشن کی ہر شے اسے میسر تھی۔وہ سمجھدار تھی۔اس لیئے آرٹ اینڈ کلچر کے نام پر ایک اکیڈمی بنا لی تھی۔جہاں موسیقی اور رقص کی باقاعدہ تربیت دی جاتی تھی۔امیر گھرانوں کی بہت ساری لڑکیاں کلچر،آرٹ اور فیشن کے نام پر یہ سب سیکھ رہی تھیں۔کام وہی پرانا تھا لیکن نا م اور ڈھب کی تبدیلی سے وہ سوسائٹی میں اپنا اچھا تاثر بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔سیلی اسی ماحول میںپروان چڑھی تھی۔وہ اپنی ماں کی توجہ پا کر ایسا تراشیدہ ہیرا بن گئی ،جس کی جگمگاہٹ سے ہزاروں فدا ہو گئے ۔جس طرح گاڑیوں کے شیدائی ہر نئے ماڈل کے منتظر رہتے ہیں ۔اسی طرح عشاق بھی ہر نئی ماڈل لڑکی یا طوائف کی خبر رکھتے ہیں۔سیلی کی شہرت ان امیر زادوں میں رہنے لگی جو محض اپنی ذات ہی کو اہمیت دیتے ہیں۔جس کا مقصد محض اپنی ذاتی خواہشوں کی تکمیل ہوتا ہے۔محدود محفلوں میں وہ اتنا کمانے لگی،جتنا اس کی ماں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔اس پر کی گئی سرمایہ کاری رنگ لانے لگی تھی۔زیادہ دولت کمانے کے لیئے اس نے محدود محفلوں سے نکل کر اپنی آرٹ اینڈ کلچر اکیڈمی کے تحت بڑے بڑے پروگرام کرانا شروع کر دیئے۔جس میں بہت سارے لوگوں کا کمانے کا موقع ملا تو سیلی ایک انڈسٹر ی کی صورت اختیار کر گئی۔اسے دیکھ کر لگتا تھا کہ اگر پرانے زمانے کی کوئی طوائف اسے کماتا ہوا دیکھ لے تو حیرت سے مر جائے ۔ انہوں نے ساری زندگی میں اتنا نہیں کمایا ہو گا،جتنا وہ چند دنوں میں کمالیتی تھی۔
  سیلی کی نگاہ وال کلاک پر پڑی ۔ابھی پروگرام شروع ہونے میں تھوڑا وقت تھا۔اس نے ریمورٹ اٹھا کر ٹی وی آن کر دیا۔وہ مختلف چینل بدلتے ہوئے،وہ چینل تلاش کرنے لگی،جہاں اس کا پروگرام آنے والا تھا۔سیلی نے دیکھا ،ہر چینل پر سیلاب اوراس کی تباہ کاریاں دکھائی جا رہی تھیں۔اس نے ملک میں سیلاب کی آمد بارے سنا تو تھا مگراتنی تباہی ہو رہی تھی۔اس بارے سوچا بھی نہیں تھا۔تبھی ایک جگہ وہ ٹھٹک کر رک گئی۔تباہ حال علاقے کے پس منظر میں ایک معصوم سی بچی شدت سے رو رہی تھی۔وہ اٹکتے ہوئے مقامی زبان میں بتا رہی تھی کہ اس کے سارے گھر والے سیلاب کی نذر ہو گئے ہیں۔اور وہی زندہ بچی ہے۔ہچکیاں لے کر روتے ہوئے وہ چھ سات برس کی بچی کے ہونٹ خشک اور آنکھوں سے بے تحاشا پانی بہہ رہا تھا۔سیلی وہیں ساکت ہو گئی ۔اب اس بچی کی پرورش کون کرے گا؟وہ کہاں رہے گی؟ کیسے وہ زمانے کے بے رحم ہاتھوں سے محفوظ رہے گی؟کیا اس قدر لوگ موت کا شکار ہو گئے ہیں؟کتنے لوگ ہوں گے جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے اپنے پیاروں سے بچھڑ گئے ہوں گے؟کتنے بے گھر ہو گئے ہیں؟ اب و ہ کیسے زندگی گذار رہے ہوں گے۔۔۔؟ایسے بے یارومدد گار نجانے کتنے بچے ہوں گے۔۔اس نا گہانی آفت میںنجانے کتنے زخمی ہوں گے۔۔کتنے بیمار ۔۔اس وقت وہ بری طرح چونک گئی ،جب گود میں رکھے ہاتھوں پر گرم گرم آنسو آن گرے۔سیلاب زدگان بارے سوچتے ہوئے وہ انتہائی غم زدہ ہو گئی تھی۔دکھ کی شدت سے اس کا پورا وجود بھر گیا۔اس نے اپنے آنسوﺅں کو صاف کیا اور اِدھر اُدھر دیکھا۔کوئی بھی اسے نہیں دیکھ رہا تھا۔اس نے ریمورٹ ایک طرف رکھا اور صوفے پر ٹیک لگا لی۔اس کا دل بھر آیا تھا اور آنسو پھر سے رواں ہو گئے۔
”کیا تمہارے پاس ان سیلاب زدگان کے لیئے انہی چند آنسوﺅں کا خراج ہے ۔۔۔‘اس کے اندر سے آواز ابھری۔تو وہ چونک گئی۔قدرت نے اسے کیسی کیسی نعمتوں سے نوازا ہوا تھا۔جہاں وہ بیٹھی ہے ،وہ عالیشان بنگلے کا سب سے بہترین کمرہ ہے۔قیمتی اور پر آسائش چیزوں سے بھر اہوا ۔اگر میرا یہی بنگلہ آفت کی زدمیں آجائے،میرے بدن میں کوئی کمی پیدا ہو جائے تو پھر میںکیاہوں ؟ایک لمحے کے بعد میں مر جاﺅں تو یہ سب کس کام کا؟اسی بدن سے جو دولت کمائی تھی،اس کا کیا مصرف۔۔۔ہیرے موتیوں جڑے زیور اسے کیا فائدہ دے سکتے ہیں۔۔وہ لوگ جو اس وقت آفت سے گذر رہے ہیں ،ان کی مدد کون کرے گا۔۔۔
”مجھے ان کی مدد کرنی چاہئے۔۔۔“اس کے اندر سے زور دار آواز گونجی جو بازگشت کی طرح اس کے اندر پھیل گئی۔ہر گذرتے لمحے کے ساتھ اس کے اندر یہ سوچ مضبوط ہوتی چلی گئی ۔روتی ہوئی بچی کا چہرہ اس کی نگاہوں سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔اسے یوں لگا جیسے کوئی اس کا ہاتھ پکڑ کر اٹھانا چاہتا ہو کہ اٹھو،اور ان سیلاب زدگان کی امدادکو پہنچو۔پھر وہ ایک دم سے اٹھ گئی۔اس نے یاد کیا کہ وہ کس علاقے کی ٹی وی رپورٹ دیکھ رہی تھی۔اس نے ڈریسنگ ٹیبل سے اپنا سیل فون اٹھایا اور حماد خاں کے نمبر پش کر دیئے۔وہ اس کا قدردان تھا اورکئی بار اس کا مجرا سننے ان کے بنگلے پر آیا تھا۔دونوں میں اچھی خاصی جان پہچان تھی۔فوراً ہی فون ریسو کر لیا گیا۔
”سیلی،بھئی بڑی لمبی عمر ہے تمہاری۔یہ سامنے ٹی وی پر تمہارا پروگرام دیکھ رہا ہوں۔کیا غضب ڈھا رہی ہو تم۔۔بھئی بہت خوبصورت ۔۔۔کیا ادائیں ہیں۔۔کیا نزاکت ہے۔۔“حماد خاں پر جوش انداز میں کہتا چلا گیا۔
”ہم ابھی آپ کے پاس آنا چاہ رہے ہیں۔“اس نے گہری سنجیدیگی سے کہا۔
”سیلی۔!خیریت تو ہے نا۔۔یہ تمہاری آواز۔۔“اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”کچھ نہیں ہوا ہماری آواز کو۔۔ہم پہلی ملنے والی فلائیٹ سے آ رہے ہیں۔ملتان ائیر پورٹ سے ہمیں لے لیجئے گا۔“وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولی تو اس نے انتہائی تجسس سے پوچھا۔
”جم جم آﺅ ۔۔مجھے بڑی خوشی ہو گی۔۔ائیر پورٹ سے بھی لے لوں گا۔۔لیکن یہ اچانک آمد۔۔کس لیئے؟“
”وہیں آکر بتائیں گے نا۔۔ہم دوبارہ فون کر کے فلائیٹ بارے بتاتے ہیں۔انتظار کیجئے گا۔۔“اس نے کہا۔
”میں انتظار کررہا ہوں۔“وہ بولا تو اس نے فون بند کر دیا
سیلی تیار ہونے لگی۔اسے یقین تھا کہ اس کی ماں اسے جانے کی قطعاً اجازت نہیں دے گی۔سواس نے خاموشی سے بیگ تیار کیا ،جو سمجھ میں آیا وہ رکھا اور لباس تبدیل کر کے تیار ہو گئی۔اس دوران وہ ٹریول ایجنٹ سے ٹکٹ بارے کنفرم کر چکی تھی۔پھر وقت پر گاڑی نکال کر رات کے دوسرے پہر وہ ائیر پورٹ جا پہنچی۔وہ جانتی تھی کہ اس کی ماں نشے میں دھت کہیں پڑی ہو گی۔اس نے اپنی گاڑی پارکنگ میں چھوڑی اور ملتان کے لیئے پرواز کر گئی۔جہاں حماد خاں اسے لینے کے لیئے آیا ہوا تھا۔اس وقت پوہ پھٹ رہی تھی۔جب وہ مظفر گڑھ کے قریب اپنی آبائی حویلی کی جانب چل پڑا۔حال احوال کے بعد جب حماد نے اس سے یہاں آنے کے مقصد بارے پوچھا تو سیلی نے بتا دیا۔
”اُو سیلی۔!کیا تم نہیں جانتی ہو۔ان علاقوں میںکیسی کیسی وبائیں پھیلی ہوئی ہیں۔جہاں لوگ مر رہے ہیں۔وہاں تم جا رہی ہو ۔تم دوسرے دن ہی بیمار پڑ جاﺅ گی۔یہاں تم کیا مدد کرو گی ان کی۔۔وہیں کسی بنک میں چند لاکھ جمع کروا دیتی۔۔پہنچ جاتے ان کے پاس۔۔تیری طرف سے فرض ادا ہو جاتا۔۔۔“
”ہم آپ پر بوجھ نہیں بنیں گے ۔۔آپ بس ہمیں اس علاقے تک پہنچا دیں۔ہم بیمار پڑ جائیں یا ہمیں کوئی وبا نگل جائے۔۔وہ آپ کی ذمہ داری نہیں ہے۔“سیلی نے سکون سے کہا۔
”تم ناراض ہو گئی ہو۔کیونکہ تم حقیقت نہیں جانتی ہو ۔سارا علاقہ پانی میں گھرا ہوا ہے ۔امدادی کام کرنے والے کر رہے ہیں ۔مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا ہے ،تم وہاں کرو گی کیا؟“
”سچی بات تو یہی ہے حماد۔۔۔ہمارے ذہن میں کچھ بھی نہیں ہے کہ ہم وہاں ان کی کیسے مدد کر پائیں گے ۔۔مگر ہم نے جانا ہے ۔۔“اس نے کسی ضدی بچے کی طرح کہا۔
”تم آنٹی کو بتا کر نہیں آئی ہو۔ظاہر ہے وہ لوگ تمہیں تلاش کر لیں گے۔۔اس دوران اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو “حماد نے ایک دوسرے پہلو سے اسے سمجھانا چاہا۔
”وہ ہمارا مسئلہ ہے۔۔آپ کو ہماری وجہ سے کوفت نہیں ہو گی۔“اس نے کہا تو حماد خاموش ہو گیا۔پھر حویلی آ جانے تک ان میں گفتگو نہ ہوئی ۔اسے خصوصی مہمان خانے میں ٹھہرادیا گیا۔
”ابھی تم آرام کرو۔۔ناشتے کے بعد میں تمہیں خود اس علاقے میں لے جاﺅں گا ۔۔“حماد خاں نے کہا تو اس نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔وہ واپس گیا تو سیلی بیڈ پر پھیل گئی ۔اس کی آنکھوں سے نیند نجانے کہاں غائب ہو گئی تھی۔ اس نے اپنا سیل فون بند کیا اور سوچنے لگی کہ وہ ان سیلاب زدگان کی امداد کیسے کر سکتی ہے؟
٭٭٭٭
دریائے سندھ کے بیٹ والے اس پورے علاقے میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہوئی تھی۔پانی کی ناگہانی آفت نے موت کے ساےے پھیلا دئےے تھے۔لوگ زیرآب علاقوں میں محصور ہو کر رہ گئے ہوئے تھے۔جبکہ پانی تھا کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔حماد خاں اسے زیر آب علاقے میں تو نہ لے جا سکا۔لیکن ایک ایسے کنارے تک لے گیا، جہاںسے محصور لوگ باہر آ رہے تھے اور کسی نہ کسی محفوظ ٹھکانے کی طرف جا رہے تھے۔وہ ان لٹے پٹے لوگوں کو دیکھتی رہی۔اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے تھے۔حماد خاں اسے وہاں سے واپس لے آیا،پھر چوک گودر سے نکلے تو ڈیرہ غازی خاں روڈ کے مغرب کی جانب ایک اونچے ٹیلے پر بہت سے اسے لوگ دکھائی دئےے۔تبھی اس نے پوچھا
”حماد وہ لوگ۔۔۔“
”سیلاب زدگان ہی ہیں۔لگتا ہے یہاں محفوظ جگہ پر آ گئے ہیں۔“اس نے بتایا۔
”ادھر چلیں۔“اس نے تیزی سے کہا تو حماد نے گاڑی اس جانب موڑ دی۔طاقتور فور وہیل جیپ اس ٹیلے کے قریب رکی تووہ باہر آ گئی۔گرم ہوا کے تھپڑے سے اس کا چہرہ تمتما اُٹھا۔وہ سیاہ گاگلز میں سے وہاں موجود چہروں کو دیکھنے لگی۔جہاں صرف حزن و ملال تھا۔اسے لگا جیسے وہاں پہ ہر ذی روح غم زدہ ہے۔چھت ،چھن جانے کے دکھ سے لے کر،اپنوں سے بچھڑ جانے کا غم ان کے چہروں پر کندہ تھا۔بے گھر لوگوں کی زندگی کیا ہوتی ہے ،اس کا احساس اسے وہاں جا کر ہوا۔سڑک سے ذرا فاصلے پر وہ ریتلی مٹی کا بڑا سا ٹیلہ تھا۔اس کے اردگر دزمین بے آب و گیا تھی۔تقریباً ہر عمر کے مرد اور عورتیں وہاں موجود تھیں۔جو مختلف ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے تھے۔سر پر سورج اور پاﺅں کے نیچے ریتلی زمین ۔میلے کپڑوں اور اٹے ہوئے سروں کے ساتھ وہ بے گھر لوگ ایسے منظر میں تھے جس میں فقط بے یقینی ہوتی ہے۔چندلوگ حماد خاں کی طرف بڑھ گئے تھے۔سیاسی گھرانے کی وجہ سے وہ اپنی پہچان رکھتا تھا۔وہ ان سے باتیں کرنے لگا۔وہ لوگ مختلف بستیوں سے یہاں رات ہی پہنچے تھے۔کئی دنوں سے پانی میں گھرے ہوئے لوگ محفوظ مقام کی تلاش میں یہاں تک آ گئے تھے۔ حماد ان سے وعدے و عید کرنے لگا تو سیلی نے آسمان کی جانب دیکھا۔دوپہر کا سورچ سر پر آ رہا تھا۔نیلے آسمان پر سفید بادل تھے جو کبھی کبھی سایہ دے جاتے ۔ بارش برس گئی تو کیا ہو گا۔؟اس نے دکھ سے سوچا ۔تبھی سڑک پر سے ایک ٹرالی کو کھینچتا ہوا ایک ٹریکٹر مڑا۔وہ اس ٹیلے کی طرف آ رہا تھا۔ٹرالی میں دیگیں رکھی ہوئی تھیں اور چند لوگ سوار تھے۔وہ ان لوگوں کے لیئے کھانا لے کر آئے تھے جبکہ المیہ یہ تھا کہ ان کے پاس کوئی برتن بھی نہیں تھا۔جس میں وہ کھانے کے لیئے کچھ لے سکتے ۔سب بے سروسامان تھے۔لوگ کھانے کی طرف دوڑ پڑے،نہ جانے وہ کب سے بھوکے تھے۔سیلی کو لگا جیسے وہ کھانا ان لوگوں کے لیئے کم پڑ جائے گا۔وہ انہیں بڑے دکھ سے دیکھ رہی تھی ۔کھانے پر یوں ٹوٹ پڑنے کا منظر اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔اچانک سیلی کی نگاہ ایک لڑکی پر پڑی ۔وہ سب کی طرف پشت کئے ٹیلے کی دوسری جانب ڈھلوان پر بیٹھی ہوئی تھی۔وہ اس سارے ہنگامے سے الگ تھلگ تنہا تھی ۔اسے بڑا عجیب سالگا تو اس جانب بڑھ گئی۔اس کی آمد کا احساس کر کے وہ بھرے بھرے بدن والی لڑکی نے خوف زدہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اور پھر فوراً ہی نگاہیں جھکا لیں۔سیلی کو وہ ساری دنیا سے روٹھی ہوئی لگی۔میلے چیکٹ مٹی گارے سے بھرے کپڑوں والی اس لڑکی کے پاس بیٹھ کر سیلی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر پوچھا۔
”کیا بات ہے،یہاں کیوں بیٹھی ہیں ۔بھوک نہیں لگی آپ کو؟“
یوں پوچھنے پر لڑکی نے چند لمحے شاکی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا،پھر دکھ سے بھیگے ہوئے لہجے میں اپنی مقامی زبان میں بولی
”بھوک کسے نہیں لگتی باجی،یہ پیٹ کا دوزخ ہی تو ہے جو بندے کو مار دیتا ہے۔میری ماں گئی ہے کھانا لینے۔۔لے آئے گی تو کھا لوں گی۔“
”آپ لوگوں کو سیلاب نے اتنی مہلت بھی نہیں دی کہ کوئی برتن اٹھا سکیں یا۔۔۔“اس نے پوچھنا چاہا تو لڑکی نے بات قطع کر تے ہوئے کہا۔
”باجی،آپ ایسی باتیں کیوں پوچھ رہی ہیں۔کون اپنے گھر کو چھوڑتاہے اور وہ بھی اس بے سرو سامانی کی حالت میں ۔پتہ نہیں کیا ہو گا ہمارے ساتھ۔۔کب تک ہمارا تماشہ لگا رہے گا۔۔“وہ یوں بولی جیسے ابھی رو دے گی۔
”دیکھو۔!ہم یہاں آپ سب کی مدد کرنے کے لیئے آئے ہیں۔ہمیں بتائیں ،ہم آپ کے لیئے کیا کر سکتے ہیں۔“اس نے ایک خیال کے تحت پوچھا تو لڑکی جیسے پھٹ پڑی۔
”اگر آپ کچھ کرنا ہی چاہتی ہیں نا باجی، تو خدا کے لیئے سب سے پہلے ہمیں کوئی ایسی آڑ دے دو جہاں ہم،ان لوگوں کی نظروں سے محفوظ ہو جائیں۔لوگ یہاں آ کر ہمارا تماشہ کرتے ہیں۔ترس کھاتے ہیں ہمیں دیکھ کر ،جیسے ہم کوئی ایسی مخلوق ہو گئے ہیں ،جن پر صرف ترس ہی کھایا جا سکتا ہے ۔ہم چھ دن سے اپنے گھروں کی چھتوں پر تھے۔رات میں سور ہی تھی جب ہم وہاں سے نکلے ہیں۔ہم نے وہاں سے کوئی چیز کیا لینی تھی۔جانیں بچا کر یوں نکلے ہیں کہ میں اپنے سر کا دوپٹہ بھی نہیں لے سکی۔یہ چادر جو آپ میرے سر پر دیکھ رہی ہیں میری ماں کی ہے اور اس وقت میری ماں ننگے سر ہے۔ہمیں چاہے کوئی کھانا نہ دے۔برتن نہ دے ۔۔کچھ نہ دے۔۔چاہے چھت بھی نہ ہو۔مگر کوئی ایسی آڑ ہو۔جہاں میں اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں کے ساتھ سمٹ کر بیٹھی رہوں۔یہاں جو میں سب کی نگاہوں کے سامنے شرم سے گھڑی جا رہی ہوں ،کم ازکم اس سے تو چھٹکارا ملے۔۔اس سے اچھا تھا کہ ہم پانی میں گھرے رہتے۔۔“یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے رونے لگی۔اس کی رندھی ہوئی آواز میں پنہاں دکھ کو سیلی نے اپنے دل پر محسوس کیا۔ اس نے لڑکی کے پھٹے ہوئے کپڑوں پر نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
”آپ فکر نہیں کرو۔۔ہم کچھ کرتے ہیں۔“سیلی نے پیار سے اس کا کاندھا تھپتھپایا اور اٹھ گئی۔اس کی سمجھ میں آ گیا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے ۔وہ پلٹ کر حماد خاں کے پاس آ گئی۔وہ ایک خوبرو سے دیہاتی نوجوان سے بات کر رہا تھا۔
”اچھا۔۔تو تمہارا نام ندیم ہے ۔۔۔“حماد خاں نے اسے سرتا پا دیکھتے ہوئے کہا تو قریب کھڑے ایک ادھیڑ عمر شخص نے کہا
”سائیں ۔! یہی تو ہے ہمارا آسرا۔ہمیں چھ دن ہو گئے تھے اپنی چھتوں پر پڑے ہوئے اس نے نہ صرف ہمیں وہاں کھانا پانی پہنچایا۔بلکہ محفوظ جگہ لا کر بھی کھانا لے آیا ہے۔اللہ اس کی زندگی دراز کرے۔“
”کس تنظیم سے تعلق ہے تمہارا ندیم۔۔“حماد نے انتہائی تجسس سے پوچھا
”کسی سے بھی نہیں ۔۔اپنی مدد آپ ۔۔۔میرے ساتھ میرے چند دوست ہیں۔“وہ سکون سے بولا
”اُوہ۔!یہ تو بہت اچھی بات ہے۔“یہ کہتے ہوئے اس نے جیب میں سے چند بڑے نوٹ نکالے اور اس کی طرف بڑھا کر بولا ”یہ لو۔!“
ندیم کو شاید حماد کا انداز پسند نہیں آیا تھا،اس لیئے پہلے اس نے نوٹوں کو اور پھر حماد کی طرف دیکھ کر کہا۔
”سائیں۔!آپ رکھیں۔میںان کی خدمت کر رہا ہوں ۔۔یہ نوٹ کہیں اور کام آئیں گے۔“
”رکھ لو۔۔۔اس سے کچھ نہ کچھ تو ہو جائے گا۔“
”میرے پاس اللہ کا دیا اتنا ہے کہ میں ان کی خدمت کر سکتا ہوں۔۔آپ تو بہت بڑ ے آدمی ہیں۔ میرے خیال میں آپ کو مجھ سے بہت زیادہ کرنا چاہئے۔ان نوٹوں سے تو ایک وقت کاکھانا بھی نہیں بن سکے گاان لوگوں کے لیئے۔“
”بہت جذباتی ہو تم۔“حمادخاں نے بظاہر سکون سے کہا تھا لیکن اسے ندیم کی بات بہت بری لگی تھی ۔بے عزت کر کے رکھ دیا تھا۔
”شاید یہ جذبے ہی ہیں جو کام آتے ہیں۔یہ کاغذ کے نوٹ نہیں۔۔خیر۔آپ اپنا کام کریں میں اپنا کر رہا ہوں۔مجھے کافی مصروفیت ہے۔۔اگر آپ نے کوئی بات کہنی ہو تو کہیں۔۔ورنہ اجازت دیں۔۔“
”ٹھیک ہے ۔۔ٹھیک ہے۔۔جاﺅ۔۔“حماد خاں نے کہا اور سیلی کی طرف دیکھ کرکہا۔”چلو سیلی۔۔واپس چلیں۔۔“یہ کہہ کر اس نے نوٹ واپس جیب میں ڈال لیئے۔اس کا چہرہ غصے میں سرخ ہو گیا تھا۔وہ واپس چل دیئے۔ٹیلے سے حویلی تک کے راستے میں سیلی نے حماد سے کہا 
”ہمیں ابھی ملتان جانا ہے ۔وہاں سے۔۔“
”دیکھوسیلی۔!صاف بات ہے۔تم شاید انسانی ہمدردی یا انسانیت وغیرہ کے چکر میں یہاں پر ہو،مگر ہم سیاسی لوگ ایسا پس منظر رکھتے ہیں کہ لوگوں کی ہم سے وہ امیدیں بھی ہیں جو ہم پوری نہیں کر سکتے۔جس کا تماشہ تم نے ابھی دیکھا ہے ۔اسی سیلاب کے حوالے سے مجھے اور بہت سارے کام ہیں۔سوری میں تمہیں اتنا وقت نہیں دے سکتا۔“حماد خاں نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”کوئی بات نہیں ۔آپ کسی اور کو بھجوا دیں“وہ اس کی کیفیات کو سمجھتے ہوئے اطمینان سے بولی
”ہاں۔!میں فائقہ سے کہہ دیتا ہوں ۔۔وہ اپنے ساتھ کچھ لوگوں کو لے جائے گی۔“اس نے آہستگی سے کہا تو پھر ان میں خاموشی چھا گئی۔ٹیلے سے حویلی تک کا فاصلہ کوئی اتنا زیادہ نہیں تھا۔
حویلی میں جاتے ہی سیلی نے اپنا بیگ کھولا اور اس میں دھراکیش اٹھا لیا۔پھر ایک میرون رنگ کی تھیلی نکالی اور ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوئے حماد خاں کے پاس لے گئی۔وہ تھیلی اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔
”اس میں تین ہیرے ہیں ۔جو میںنے فروخت کرنے ہیں۔مجھے بس کیش چاہئے۔“
”ہیرے۔!فروخت کرنے ہیں۔کیا تم ان کی مدد کے لیئے اس حد تک جا پہنچی ہو ۔“وہ حیرت سے بولا
”ہاں۔!اس سے پہلے کہ میرا یہ جذبہ ماند پڑ جائے ۔۔آپ انہیں فروخت کر دو۔۔“سیلی نے یوں کہا جیسے اکتائی ہوئی ہو۔
”ٹھیک ہے ۔جیسا تم چاہو۔کل تک تمہیں کیش مل جائے گا۔“حماد خاں نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیا۔سیلی کچھ دیر تک حویلی میں رہی پھر فائقہ اورچند لوگوں کے ساتھ ملتان کے لیئے رورانہ ہو گئی۔جہاں اس نے خریداری کرنا تھی۔ پھررات گئے وہ حویلی واپس آ گئی۔
٭٭٭٭
پوہ پھوٹ رہی تھی جب وہ ٹیلے پر جا پہنچی ۔اس کے ساتھ صرف ڈرائیور تھااوردو ٹرک تھے۔ایک میں خیمے اوردوسرے میں سازوسامان تھا۔اس نے دیکھا ،ویسا ہی سماں تھاجیسا وہ کل چھوڑ گئی تھی۔سیلاب کی تباہ کاری کا پھیلاﺅ ہی اتنا تھا کہ امدادی ٹیمیں پانی میں پھنسے ہوئے لوگوں کو نکال رہی تھیں۔پاک فوج کے جوان ہمہ وقت مصروف کار تھے۔یہ لوگ شاید اس لیئے ابھی تک نظر انداز تھے کہ محفو ظ جگہ پر تھے۔سول ڈیفس اور کچھ فلاحی تنظیموں کے لوگ وہاں موجود تھے۔وہ لوگ حیران تھے کہ اتنی صبح صبح وہاں پر کون آ گیا ہے ۔
سیلی کی نگاہیں اس لڑکی کو تلاش کر رہی تھیں۔جلد وہ اسے کل والی جگہ پر بیٹھی دکھائی دے گئی۔جیسے وہ وہیں پر ساکت ہو گئی ہو۔کسی مجسمے کی طرح ،وہ اس طرف بڑھ گئی۔لڑکی کی آنکھوں میںشناسانی کی چمک ابھری تو سیلی نے مسکرا تے ہوئے کہا۔
”گبھرانا نہیں۔وہ سامنے خیموں سے بھرا ہوا ٹرک آ گیا ہے ۔میں بہت سارے کپڑے بھی لائی ہوں۔“
”سچی۔“وہ یوں بولی جیسے اعتبار نہ آ رہا ہو۔
”ہاں ۔!بس ابھی کچھ دیر میں تم محفوظ ہو جاﺅ گی۔۔اچھا۔مجھے بتاﺅ ۔وہ ندیم کیسے مل سکے گا۔“سیلی نے اس کے جواب کا انتظار کیئے بغیر پوچھا
”کچھ دیر پہلے میں نے اسے یہاں دیکھا تھا۔۔“یہ کہتے ہوئے اچانک اس نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔”وہ دیکھیں۔۔وہ لوگوں کے درمیان۔۔“
کچھ ہی دیر بعد ندیم اس کے سامنے تھا۔سیلی نے اسے بھر پور نگاہوں سے دیکھا۔پھر بولی۔
”ندیم۔!کیا آپ ہماری کچھ مدد کرو گے۔؟“
”جی فرمائیں ،میں کیا کر سکتا ہوں آپ کے لیئے۔“وہ انتہائی سنجیدیگی سے بولا
”وہ سامنے دو ٹرک کھڑے ہیں ۔ان میں خیمے اور بہت سارا سامان ہے ۔۔جو ہماری سمجھ میں آیا۔ہم لے آئے ہیں۔۔۔آپ بس انہیں بانٹ دیں۔“
”اُوہ۔!یہ خیموں والا تو آپ نے بہت بڑا احسان کیا ہے۔آپ تھوڑا انتظار کریں ۔میں سب کر لیتا ہوں۔“اس نے کہا تو وہ حیران ہو گئی۔حماد خاں کو بے دھڑک جواب دینے والا اس کی بات آرام سے مان گیا تھا ۔وہ مزید کچھ کہے بنا پلٹ گیا۔سیلی چند لمحوں تک اس ان تھک جوان کو دیکھتی رہی ۔پھر اس لڑکی سے باتیں کرنے لگی۔اس دوران اس کی نگاہ ایک عورت پر پڑی جو زمین پر ساکت پڑی ہوئی تھی۔ایک لمحے کے لیئے تو اسے یوں لگا جیسے اس عورت کی روح پرواز کر چکی ہے۔وہیں زمین پر اس کے پاس چار بچے یوں لگ کر بیٹھے ہوئے تھے جیسے کسی مہیب خوف سے سہمے ہوئے ہوں۔وہ سب کچھ بھول کر اس کے پاس جا پہنچی ۔اس نے عورت کو دڑتے ڈرتے ہلایا۔اس نے یوں آنکھیں کھو لیں جیسے کوئی بے ہوشی میں نہ سمجھتے ہوئے کسی کو دیکھ رہا ہو اور اسے کچھ سمجھ میں نہ آ رہا ہو۔
”بی بی جی۔آپ ایسے کیوں پڑی ہوئی ہیں۔کیا بات ہے ۔؟“اس نے بے تابی سے پوچھا تو وہ ہونقوں کی طرح دیکھتے ہوئے بولی
”میری دھی نمانی ۔۔!کل رات میرے ہاتھوں ہی سے پانی میں بہہ گئی ،اب تک تو نمانی پانی میں مر کھپ گئی ہو گی۔۔میرا دودھ پیتی تھی وہ۔۔کیسے چیخی تھی۔۔اس کا چہرہ نگاہوں سے ہٹ ہی نہیں رہا۔۔لگتا ہے وہ مجھے بلارہی ہے ۔۔مجھے اس کے پاس جانا ہے۔۔“یہ کہتے ہوئے وہ یوں رونے لگی کہ اس کا پورا بدن لرزنے لگا۔آنکھوں سے آنسوﺅں کا سیلاب اُمنڈ رہا تھا۔سیلی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ کب اس کی اپنی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے تھے۔اس نے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔
”یہ چار بچے آپ کے ہیں؟“
”ہاں ۔!یہ چاروں میرے ہیں۔اور وہ پانچویں۔۔۔اسے پانی نگل گیا“یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیئے۔جیسے اسے وہاں بہت تکلیف ہو رہی ہو۔سیلی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اس عورت کی ڈھارس کیسے بندھائے ۔اسے لگا جیسے وہاں پر موجود ہر فرد اپنے ساتھ کئی کہانیاں رکھتا ہے۔بے گھر ہو جانا کتنی بڑی اذیت ہے۔اسے خود اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہوا تو وہ بولی۔
”آپ گھبراﺅ نہیں۔۔ہم آپ کی بیٹی تو نہیں لوٹا سکتے مگر آپ کی تکلیف دور کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں۔“یہ کہتے ہوئے و ہ اٹھ گئی۔یہی وہ لمحات تھے جب اس نے اپنا سیل فون آن کر دیا۔فون میں اس کے دوستوں سے لے کر عشاق تک کے نمبر موجود تھے۔اس نے بہت سارے لوگوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔سب سے پہلے اس نے ایک ایسی سرکاری آفیسر کو فون کیا جو صوبائی سطح پر بڑی اہمیت رکھتا تھا۔ وہ حیران تھا کہ وہ کہاں جا پہنچی ہے۔
”ہمیں یہاں ڈاکٹر ز اور دوائیوں کی اشد ضرورت ہے ۔ہمیں شام تک چاہیئے بس۔۔“اس نے اپنی مخصوص ادا سے کہا تو اس نے وعدہ کر لیا۔سیلی نے مزید کئی لوگوں سے رابطہ کیا۔ہر ایک نے وعدہ کیا۔سہ پہر تک یہی سلسلہ چلتا رہا۔
خیمے لگتے رہے یہاں تک کہ اس ٹیلے پر خیموں کی ایک بستی گویا اگ آئی۔اس دوران لوگوں میں کھانا بھی تقسیم کیا گیا۔وہیں ٹیلے پر اس نے دیکھا،ایک بزرگ سا بندہ اپنے خاندان کے ساتھ خیمے سے باہر بیٹھا ہوا تھا۔وہ کھانا بھی کھا رہا تھا لیکن ساتھ میں رو بھی رہا تھا۔کاندھے پر دھرے کپڑے سے وہ آنسو صاف کرتا اور پھر کھانا شروع کر دیتا۔سیلی اسے دیکھتی رہی ۔وہ کھانا کھا چکا تو سیلی ان کے قریب چلی گئی۔وہاں ٹیلے کے لوگ جان گئے تھے کہ یہ لڑکی ان کے لیئے بہت کچھ کر رہی ہے۔وہ بزرگ تو اس کی طرف دیکھتا رہا تا ہم اس کی بیٹیوں اور بیوی نے اس کی آمد پر اچھا محسوس کیا۔کچھ دیر باتوں کے بعد اس نے پوچھا
”کیابات ہے یہ بزرگ اتنا رو کیوں رہے ہیں۔۔“
یہ پوچھنے پر اس بزرگ نے سیلی کی طرف دیکھا تو اس کی بیوی جلدی سے بولی
”کیا بتائیں ۔!ہم اپنے علاقے کے زمیندار ہیں۔یوں سمجھیں اپنے وقت کے بادشاہ تھے۔اب ہمارا حال فقیروں سے بھی بد تر ہو گیا ہے۔دو کنال کے گھرمیں ہم رہتے تھے اور دوکنال ہی کا ہمار ا ڈیرہ تھا۔جہاں تین وقت کا کھانا ہمارے ہاں سے ہی جاتا تھا۔علاقے میں آنے والا ہر آفیسر ،ملازم یا مسافر ہمارے پاس ہی آتا تھا۔جانور پانی میں بہہ گئے ۔فصلیں تباہ ہو گئیں اور یہاں فقیروں کی طرح پڑے ہیں۔پتہ نہیں اللہ سائیں ہم سے کیا امتحان لے رہا ہے۔“
سیلی اس پر کچھ بھی نہ کہہ سکی۔کچھ دیر خاموش رہی،پھر اٹھ کر چل دی۔اس کا دل بوجھل ہو رہا تھا۔یہاں آکر پتہ چلا تھا کہ دنیا کی بے ثباتی کیا ہوتی ہے۔ وہ کھڑی ادھر ادھر دیکھ رہی تھی کہ کدھر جائے۔وہ تھک چکی تھی۔آرام کرنا چاہتی تھی۔وہ حویلی جا سکتی تھی مگر جانا نہیں چاہ رہی تھی۔جن لوگوں سے اس نے امدادی سامان کا وعدہ لیا تھا۔وہ مسلسل رابطے میں تھے۔سامان لے کر ٹرک اس ٹیلے کی جانب چل پڑے تھے۔ و ہ ان کے آنے تک وہاں رہنا چاہتی تھی۔وہ یہی سوچ رہی تھی کہ ندیم اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔تب اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”آپ تھک گئیں ہو گی نا؟“
”آپ کوکیسے پتہ چلا۔۔“
”آپ کا چہرہ بتا رہا ہے ۔آئیں ،تھوڑا آرام کر لیں۔“یہ کہہ کر وہ چل دیا۔تو وہ بھی اس کے ساتھ چل دی۔وہ ٹیلے کے کنارے خیمہ نصب تھا۔“یہ آپ کے لیئے مخصوص ہے ،آپ یہاں آرام کر لیں۔میںابھی آتا ہوں۔“
اسے خیمے کے اندر بیٹھے چند منٹ ہوئے تھے کہ ندیم آ گیا۔اس کے ہاتھ میں چائے کے دومگ تھے ۔پہلی بار سیلی کو احساس ہوا کہ اس ویرانے میں چائے کا ایک مگ کتنا قیمتی بھی ہو سکتا ہے ۔اس نے سپ لیا اور قدرے خوشگوار لہجے میں بولی
”خیمے سب کو پورے آ گئے تھے۔“
”کچھ بچ گئے ہیں ۔میرا خیال ہے کہ جو مزید لوگ آئیں گے ۔ان کے کام آ جائیںگے۔“
”ندیم یہاں کچھ ڈاکٹر ،سٹاف اورادویات آ رہی ہیں۔انہیں کیسے۔۔۔“سیلی نے کہنا چاہا تو اس کی آنکھیں ایک دم سے روشن ہو گئیں۔اسے یوں لگا جیسے خزانہ مل کیا ہو ۔وہ خوشی سے بولا
”یہ تو سمجھیںکمال ہو گیا۔بہت سارے لوگ بیمار ہیں۔اللہ نے ان کے لیئے بندوبست کر دیا۔“یہی وہ لمحہ تھا جب سیلی نے سوچا کہ آخراس کے دل میں اتنا درد کیوں ہے ان لوگوں کے لیئے۔آج کی منافقت بھری، مفاد پرست دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو انسانیت کے لیئے اتنا کچھ کرتے ہیں کہ اپنی ذات کو بھی بھول جائیں ۔فطری طور پر حماد خاں اور ندیم کا موازنہ کرنے لگی۔وہ شخص سارے وسائل ہونے کے باوجود کچھ نہ کر سکا۔حتکہ اس کے دئیے ہوئے ہیروں کے بدلے کیش نہ لا سکا اوریہ۔۔۔تبھی اس نے پوچھ لیا۔
ندیم ہم ایک بات پوچھیں ۔۔۔آپ ان کے لیئے اتنا سب کچھ کیوں کر رہے ہیں؟“
”آپ کیوں یہاں بیٹھی ہیں۔“اس نے کہا پھر لمحہ بھر توقف کے بعد بولا۔”یہ سوال آتا ہے ذہن میں،خیر میرا کیسی تنظیم یا پارٹی سے کوئی تعلق نہیں ۔دراصل میں خود اس مصیبت کو جھیل چکا ہوں۔1992ءمیں ہم دریائے چناب کے کنارے رہتے تھے۔میںبہت چھوٹا تھا اس وقت ۔۔ہماری بستی ڈوب گئی تھی۔ہم اس طرح دریا کے بند پر پڑے تھے بے یارومدد گار۔۔کوئی آسرا نہیں تھا۔ہمارے بزرگ اس وقت کے بڑے ضلعی آفیسر کے پاس گئے تو اس نے کہا تھا،اب آئے ہو جب ہمارے پاس سب کچھ ختم ہو گیا ہے ،جاﺅ پھر سیلاب آئے گا تو دیکھیں گے کہ کیا مدد کرنی ہے تم لوگوں کی۔۔۔
”مطلب۔!وہ آفیسر پھر سے سیلاب جیسی نا گہانی آفت کا منتظر تھا؟“وہ حیران ہو گئی۔
”جب کچھ کرنا ہی نہیں ہے تو ایسی سوچ ہی ہوتی ہے ،خیر۔!ہمارا وہ علاقہ دریا کے کٹاﺅ میںا ٓ گیا ۔ہم وہاں سے ادھر دریائے سندھ کنارے آ گئے۔تب سے میں نے یہ سوچ لیا تھا کہ اگر ایسی کوئی آفت آئی تو میں اپنے دوستوں کے ساتھ چل کر مدد کروں گا۔“
”آپ کو اٹھ دن ہو گئے ۔آپ کے گھر والے ۔۔۔“اس نے پوچھا
”ہماری بستی ابھی محفوظ ہے ۔یہ کھانا پانی،وہیں سے آ رہا ہے ۔مجھے نہیں پتہ اللہ کہاں سے دے رہا ہے۔میںنے تو اپنے گھر سے ابتداءکی تھی۔اور آج آپ کی صورت میں غیبی مدد مل گئی۔یقین کریں آپ ان لوگوں کو نئی زندگی دے دی ہے ۔“اس نے جذب سے کہا تو سیلی نجانے کن کیفیات سے گذر گئی۔ایک ایسا سکون اس کے دل میں اترا تھا ،جس کا احساس اس نے پہلے کبھی نہیں کیا تھا۔
”اتنی تباہی ہوئی کیوں۔کیا 92ءمیں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔“
”نہیں۔!اتنی تباہی نہیں تھی۔یہاں بارہ لاکھ سے پچیس لاکھ کیوسک پانی گذرا ہے ،جو دریا کے بند پرداشت نہیں کر سکے۔۔کہا جا رہا ہے کہ یہ اعمال کا نتیجہ ہے کہ یہاں اتنی آفت آئی ۔۔لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ یہ آفت ہماری غلطیوں کی وجہ سے آئی ہے۔ایسی غلطیاں جو کرپشن کا نتیجہ ہیں اور ناقابل برداشت ہیں۔“وہ ایک دم سے جذباتی ہو گیا تھا۔”ظاہر ہے کرپٹ لوگوں کی غلطیاں اور غفلت اتنی انسانی جانوں کو نگل گئیں۔حالانکہ ایسے جدید آلات اب میسر ہیں ،جن سے موسمیاتی تبدیلوں کے بارے میں پیشین گوئی ہو سکتی ہے۔خیر ۔!آپ آرام کریں ۔۔“اس نے کہا اور مگ اٹھا کر باہر چلا گیا۔سیلی چند لمحے تک چٹائی پر بیٹھی رہی ۔پھر لیٹ گئی ۔وہ زندگی کے انہی پہلوﺅں کو بھی سوچنے لگی جہاں آہیں ،سسکیا ں اور غم ہی تھے۔اس کا فون بجتا رہا اور یونہی سوچتی رہی ،زندگی کتنی ارزاں ہو گئی تھی۔یہی سوچتے ہوئے نجانے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔
فون کی بیل ہی سے وہ بیدار ہو ئی تھی۔چندلمحوں تک وہ سمجھ ہی نہ سکی کہ وہ کہاں ہے۔پھر جب سمجھ میں آیا تو خود پر مسکرا دی۔یوں چٹائی پر سو جانے کا اس نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔جہاں اسے نیند آ گئی تھی۔اسے گبھراہٹ سی محسوس ہونے لگی تھی۔سرا ور پلکیں بھاری ہو نے لگیں ۔اس نے یہی سمجھا کہ شدید تھکن اور آرام کی کمی کے باعث بدن دکھ رہا ہے ۔اس نے فون سنا،ڈاکٹر ز آ گئے ہوئے تھے۔وہ جلدی سے اٹھی تو اسے چکر آ گیا۔وہ اپنے آپ کو سنبھالتی ہوئی خیمے سے باہر چلی گئی۔اسے یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوئی کی سڑک کنارے خیمے نصب تھے اوران کے پاس کئی ٹرک اور دوسری گاڑیاں کھڑی تھیں۔وہ ندیم کو دیکھنے کے لیئے وہاں کھڑی رہی۔وہ اس کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی کہ ایک بچہ اس کے قریب آ گیا۔اس کے ساتھ دو تین اور بچے بچیاں تھیں جو دوڑتے ہوئے کچھ فاصلے پرہی رک گئے تھے۔وہ معصوم بچہ اس کی طرف دیکھتا رہا ،پھر ؟ کرتے ہوئے بولا۔
”آپی ۔۔آپی۔۔آپ نے اتنی ساری چیزیں دی ہیں۔۔۔کیا ہماری کتابیں بھی ہمیں مل جائیں گی۔“
”کتابیں،مطلب۔۔“ایک لمحے کو اس کی سمجھ میںنہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔
”آپی ،حکومت نے ہمیں کتابیں مفت دی تھیں۔وہ تو پانی میں بہہ گئیں ۔اب وہ دوبارہ تو نہیں ملیںگی۔۔یا پھر ملیں گی ۔۔کیا ہم پھر سکول جا سکیں گے۔“
”اُو۔!اچھا،آئیں گی بیٹا۔کتابیں آئیں گی ۔۔باقی تو آپ سب لوگ خوش ہو نا۔“
”بہت خوش ،اب تو اماں بابا۔۔ہنس کر بات کرتے ہیں۔۔“اس نے معصومیت سے کہا اور پھر ایک طرف بھا گ گیا۔اس کے اپنے چہرے پر بھی مسکراہٹ آ گئی۔اسے وہیں سے معلوم ہوا کہ ندیم سڑک کنارے خیموں کے پاس ہے۔وہ اس جانب بڑھ گئی ۔ٹیلے سے سڑک تک کا کوئی اتنا فاصلہ نہیں تھا۔لیکن یہ سفر اسے بہت زیادہ لگا۔اس کا پورا بدن دکھنے لگا تھا۔
سیلیکی آمد کا احساس کر کے وہ سب اس کے گرد جمع ہو گئے۔جو لوگ کچھ نہ کچھ لے کر آئے تھے۔وہ تفصیلات بتاتے رہے۔ندیم نے وہاں خیمے لگا کر ہسپتال کی صورت دے دی ہوئی تھی۔جہاں ڈاکٹرز نے آتے ہی کام شروع کر دیا تھا۔کچھ بیڈ تھے۔جو انہی خیموں میں لگا دیئے گئے ۔
”آپ لوگ جو کچھ بھی لائے ہیں،ندیم کے حوالے کر دیں۔ہماری طرف سے شکریہ کہہ دیں۔ہم بعد میں فون کر لیں گے۔“اس نے کافی حد تک لا پرواہی سے کہا اور ڈاکٹرز سے ملنے کے لیئے چل دی۔
”میڈم لگتا ہے آپ خود بھی ٹھیک نہیں ہیں اس وقت ۔۔“ایک بزرگ سے ڈاکٹر نے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہمیں بھی احساس ہو رہا ہے ۔بدن دکھ رہا ہے۔شاید تھکن کی وجہ سے ۔“اس نے ایک سٹول پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”میں دیکھتا ہوں ۔۔“ڈاکٹر نے کہا ۔اور مختلف آلات سے اسے دیکھنے لگا۔پھر بولا۔”وہی ہوا نا،آپ کو بخار ہے ۔۔کس وجہ سے ہے،یہ دیکھنا ہو گا،آپ بہر حال اب آرام کریں ۔میں آپ کو میڈیسن دیتا ہوں۔“ڈاکٹرنے کہا تو قریب کھڑا ندیم تیزی سے بولا۔
”مجھے یہی ڈر تھا۔اگر آپ چاہیں تو میں آپ کو حویلی چھوڑ دوں۔۔۔“
”نہیں ،ہم یہیں رہیں گے ۔۔آپ میڈیسن دیں۔“سیلی نے کہا اور ندیم کی طرف دیکھ کر مسکر دی۔
ہسپتال نما خیموں میں روشنی تھی۔اسے ایک خیمے میں لٹا دیا گیاتھا۔ندیم کا کہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے۔رات گئے و ہ لوٹا تو اس کا بخار بہت حد تک کم ہو گیا تھا۔
”آپ کہاں تھے؟“
”میں مظفر گڑھ گیا تھا۔آپ کے لئے کچھ دوائیں لینے اور ٹیسٹ کروانے ،خداکاشکر ہے کوئی خطرے والی بات نہیں ہے،جیسا ڈاکٹر سمجھ رہے تھے۔“
”آپ میرے لیئے اتنی دور گئے؟“سیلی نے حیرت سے پوچھا۔
”کیوں ،کیا میں آپ کے لیئے نہیں جاسکتا۔“یہ کہہ کر وہ چند لمحے رکا پھر سوچتے ہوئے بولا،”میڈم آپ کے لیئے میری کوئی بھی کوشش اس لیئے نہیں ہے کہ آپ لڑکی ہیں اور وہ بھی بے حد حسین لڑکی،میرے دل میں آپ کے لیئے احترام ہے ،بے حد احترام ۔۔کیونکہ آپ ہماری محسن ہو۔ایک غیبی مددگار۔۔“ندیم یوںکہہ رہا تھا جیسے وہ کوئی ماورائی مخلوق ہو۔ایک لمحے کے لیئے سیلی کانپ گئی ۔وہ اسے کس حد تک عزت اور مان دے رہا تھا۔”اگر اسے یہ معلوم ہو جائے کہ ہم ایک طوائف زادی ہیں تو کیا پھر بھی وہ ایسے ہی ہمارا احترام کرے گا؟نہیں ہمیں یہ تاثر نہیں دینا چاہئیے۔“
”ہم نے ایسا کیا کر دیا۔جو آپ اتنا احترام دے رہے ہیں۔“سیلی نے یونہی کہہ دیا۔
”مجھے نہیں معلوم کہ آپ کون ہیں۔کہاں سے آئی ہیں۔لیکن میں سمجھتا ہوں کہ آپ نے جو کچھ بھی کیا۔پورے دل سے کیا۔میرا نہیں خیال کہ کوئی ریاکاری تھی،“وہ بڑے سکون سے بولا
”وہ ہی تو پوچھ رہے ہیں نا۔آپ نے ایسا خیال کیسے کر لیا ۔“وہ دلچسپی سے پوچھنے لگی۔
”بعض اوقات لفظ اتنی اہمیت نہی رکھتے ،جتنے عمل سے نیت کا اظہار ہو جاتاہے۔آپ دوسرے لوگوں کی طرف روپے پھینک کر جا سکتی تھیں،سازو سامان کے ڈھیر لگا کر اپنے محل میں سکون کرتیں۔یوں ان بے یارو مددگار لوگوں کے درمیان رہ کر وقت نہ گذارتیں۔ایک ایک کا خیال نہ کرتیں۔ان کے پاس جا کر ان کے دکھ درد میں شریک نہ ہوتیں۔“وہ جذب میںکہتا چلا گیا توسیلی کو یاد آ گیا۔اس لیئے جلدی سے بولی
”ہاں ندیم۔!یہاں بچوں کے پڑھنے کا بھی کوئی بندوبست کردیں ۔۔بتائیں ان کے لیئے کیا کیا چاہیئے ہو گا۔“
”وہ بھی ہو جائے گا ،آپ فی الحال خود کو سنبھالیں۔۔“ندیم نے کہا اوراٹھ گیا۔اس نے نہ صرف خود اسے دوائیں دیں بلکہ کھانے پینے کا بھی
 خیال رکھا۔پتہ نہیں کیا وقت تھا۔جب اسے نیند آ گئی۔دوبارہ جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے سخت پیاس لگی ہوئی تھی۔ہر طرف اندھیرا تھا،وہ ایک دم خوف زدہ ہو گئی۔شاید اس کے منہ سے کوئی آوازیں ایسی نکلی تھیںیا کسی کو پکارتے ہوئے ٹھیک طرح سے کہہ نہیں پائی تھی۔چند لمحوں بعد ہی ندیم اس کے خیمے میں آ گیا۔اس کے ہاتھ میں لائٹ تھی۔
”کیا ہوا طبیعت ٹھیک ہے نا۔“اس نے تیزی سے پوچھا
”پیاس ۔ہمیں پیاس لگ رہی ہے۔“اس نے بڑی مشکل سے کہا،حالانکہ خوف سے اس کا بدن پسینے میں بھیگا ہوا تھا۔اس نے قریب پڑے سٹول سے پانی کی بوتل اٹھائی اور سیلی کی جانب بڑھا دی۔ وہ غٹا غٹ ساری پی گئی۔پھر خالی بوتل اسے تھماتے ہوئے بولی”ندیم۔!آپ کچھ دیر ہمارے پاس بیٹھو۔“
”میں یہیں ہوں ۔آپ کے پاس۔میں کہیں بھی نہیں گیا تھا۔یہاں باہر بیٹھا تھا۔لگتا ہے آپ ڈر گئیں ہیں۔“
”ہاں۔!ہم خوف زدہ ہو گئے تھے۔“ا س نے اعتراف کرلیا۔پھر سیلی کو نیند نہیںآئی ۔وہ اس سے باتیں کرتی چلی گئی۔زندگی اور اس کی بے ثباتی کی باتیں،پانی میں گھرے ہوئے لوگوں کی بے بسی کی باتیں،ایک دوسرے سے بچھڑجانے کی باتیں۔بے حس لوگوں کی بے اعتنائی کی باتیں۔یہاں تک کہ پوہ پھٹ گئی اور اندھیرا چھٹنے لگا۔سیلی کو لگا کہ وہ اتنا دیہاتی نہیں ہے ،جتنا وہ سمجھی تھی۔وہ خاصا پڑھا لکھا اور با شعور انسان دکھائی دیا تھا۔وہ باتیں کرتے کرتے سو گئی تھی۔اس کی آنکھ کھلی تو سامنے اس کی ماں کھڑی تھی۔اس کے ساتھ حماد خاں تھا۔
”ہائے ہائے میری بچی۔!یہاں کہاں پڑی ہے ۔؟حماد آپ نے بھی اسے نہیں سمجھایا۔“
”پوچھ لیں اس نے میں نے بہت سمجھایا تھا۔لیکن یہ مانی ہی نہیں ،تو پھر میںنے اس کے حال پر چھوڑ دیا۔“اس نے لاپرواہی سے کہا اور اپنا دامن صاف کر لیا۔”آخر آپ نے اسے آنے ہی کیوں دیا۔“
”ہم اپنی مرضی سے آئے ہیں۔“سیلی نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”چلو اٹھو۔چلیں۔ہائے ہائے کیا حالت بن گئی میری شہزادی کی ۔۔“اس کی ماں کا بس نہیں چل رہا تھا،ورنہ وہ اسے لمحوں میں غائب کر کے لے جائے۔
”اماں چلیں جائیں گے۔اتنی جلدی کاہے کی ہے۔۔“سیلی نے کہا تو اس کی ماں نے شور مچا دیاکہ یہ کوئی جگہ ہی رہنے کی ۔اگر تمہیں کچھ ہو گیا تو پھر کیا ہو گا۔تمہیں جلد از جلد کسی ماہر ڈاکٹر کو دکھانا ہو گا۔خدا نخواستہ کوئی وبائی مرض چمٹ گیا ہو تو وغیرہ وغیرہ جیسی دلیلیں دئےے چلی جا رہی تھی۔کون اپنی ڈوبتی ہوئی انڈسٹری کو دیکھ سکتا ہے ۔وہ خاموشی سے سنتی رہی پھر حماد سے بولی۔
”آپ نے کیش لیا۔۔وہ ۔۔۔“
”نہیں ۔وہ ہیرے میںنے تمہاری اماں کو دے دیئے ہیں۔“حماد خان نے کہا اور نگاہیں چرا لیں۔
”کوئی ضرورت نہیں ہے یوں دولت برباد کرنے کی ،حکومت کر رہی ہے نا ان کے لیئے اور تم نے جو کر دیا اب تک وہ بہت ہے ،بس چلو تم۔۔۔“ا س کی ماں تنک کر بولی۔
سیلی نے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے اٹھ کر خیموں والے ہسپتال سے باہر آ گئی۔اس کی نگاہیں ندیم کو تلاش کر رہی تھیں۔اس کے جانے کی اطلاع لمحوں میںٹیلے پر پھیل گئی۔ندیم کو معلوم نہ ہوتا یہ ممکن نہ تھا۔وہ وہاں پہنچا تو سیلی گاڑی کے قریب پہنچ چکی تھی۔
”اچھا ہوا ندیم آپ آ گئے۔ہم جا رہے ہیں ،آپ ۔۔۔“وہ بات پوری بھی نہیں کر پائی تھی کہ اس کی ماں نے جلدی سے کہا
”تو یہ ہے ندیم ۔!“
”ہاں ۔!جوچند ہزار میں ان سیلاب زدگان کی مدد قبول نہیں کرتا بلکہ لاکھوں روپے وصول کر لیتاہے۔۔“حماد خاںنے اپنے بھڑاس نکالی تو ندیم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
”ظاہر ہے یہ بے چارے لوگ محنت کریں گے تو کئی برسوں کی روٹی بنا پائیں گے ۔بہت دے دیا انہیں ،چلواب۔۔تم تو چلو۔۔“اس کی ماں نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا تو سیلی کی نگاہیں جھک گئیں۔وہ ندیم کا سامنا ہی نہ کر پائی۔بس ایک لمحے کے لیئے ا س کی طرف دیکھاتھا۔اسے لگا جیسے وہ بہت کچھ کہنا چاہتا ہے۔اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔شاید اس نے سیلی کی نگاہوں میں بے بسی دیکھ لی تھی وہ ایک لفظ بھی نہیں بولا ۔کئی لمحے گذر گئے۔پھر لمحہ بہ لمحہ وہ ٹیلا دور ہوتا چلا گیا۔یہاں تک کہ وہ نظروں سے اوجھل ہو گیا۔تب سیلی نے کہا۔
”اماں۔!آپ نے ندیم کو یوں بے عزت کر کے اچھا نہیں کیا ۔آپ کو نہیں معلوم وہ کیا کچھ کر رہیںہیں وہاں پر۔“وہ ایک دم برس پڑی تھی۔
”بس اب چھوڑو ۔!جو ہونا تھاوہ ہو گیا۔اب لاہور پہنچنے کی فکر کرو۔۔سب سے پہلے میںنے تمہیں ڈاکٹرز کو دکھانا ہے ۔“اس کی ماں نے کمال مہارت سے اس کی بات کو نظر انداز کر دیا اور وہ خون کے گھونٹ پی کر رہ گئی۔پھر وہ لاہور پہنچ جانے تک یونہی کھولتی اور شرمندہ ہوتی رہی۔
وقت گذرتا چلا گیا او ر ندیم اسے نہیں بھولا ،وہ اس کے بارے میںسوچتی رہتی تھی۔وہ دن جب اسے یاد آتے تو پھر بے تحاشا یاد آتے۔وہ موازنہ کرنے بیٹھ جاتی ،انسانی جذبوں کو تولنے کی کوشش کرتی،جس میں ناکام ہو جاتی ۔تا ہم اسے اندازہ ضرور ہو جایا کرتا تھا۔کسی بھی شے کی اچھائی یا برائی ،اعلی یا گھٹیا ہونا،اسی وقت ثابت ہوتا ہے جب کوئی معیار سامنے ہو۔ٹیلے پر جانے سے پہلے اس نے جس طرح کے انسانی رویے دیکھے تھے۔اس میں منافقت ہی منافقت تھی۔اسے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ دوسروں کے جذبات سے کھیلنے والے مفاد پرست لوگ کتنے گھٹیا ہوتے ہیں۔ایک اعلی رویہ اس کے سامنے آیا تو پتہ چلا زندگی اپنا ایسا پہلو بھی رکھتی ہے۔معیار لے کر تجزیہ کیا جائے تو سب کچھ عیاں ہو جاتاہے۔اور اس کے لیئے کبھی کبھی وقت کی بڑی شدت سے ضرورت ہوتی ہے ۔وہ ندیم کے ایک ایک روےے پر غور کر تی رہی ۔وہ جب بھی اس کے بارے میں سوچتی،وہ اسے مزید اچھا لگنے لگتا،یہاں تک کہ ایک برس گذر گیا ۔اور وہ اس سے ملنے کی تڑپ لیئے پھر سے ان فضاﺅں میں آ گئی تھی۔
٭٭٭٭
”سیلینہ جی ،اتریں ۔حویلی آ گئی ہے،کہاں کھوئی ہوئی ہیں آپ۔۔“فائقہ نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ اپنے آپ میں آ گئی۔وہ گاڑی سے اتری اور حویلی کے مہمان خانے کی جانب بڑھ گئی۔تب فائقہ نے بتایا۔”یہاں آپ تیار ہوںگی۔پھر کچھ ہی دیر بعد سیمینار میں جائیں گے۔“اس نے خا موشی سے سنا اور اپنے لیئے مخصوص کمرے میںچلی گئی۔اس کا بولنے کو دل ہی نہیں کر رہا تھا ،پرانی یادوں اسے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ندیم کا چہر ہ اس کی نگاہوں سے ہٹ ہی نہیں رہا تھا۔کتنی بے بسی سے دیکھا تھا اس نے ۔سیلی کا دل بھر آیا۔پتہ نہیں وہ اب ملے گا بھی یا نہیں۔۔۔؟
وہ سمینار میں پہنچی تو مقرر ین زور شور سے خطاب کر رہے تھے۔ہر ایک کی تقریر کا لب لباب خوشامد تھا۔سیلاب زدگان کی بحالی کا سارا کریڈٹ سیاست دان لے جارہے تھے۔وہ دکھی دل سے سوچے چلی جا رہی تھی کہ وہ لوگ تو بالکل نظر انداز ہو گئے ہیں جنہوں نے حقیقت میں ان مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کی تھی۔پاک فوج کے اس سپاہی کا کہیں ذکر نہیں تھا جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر پانی میںگھرے ہوئے لوگوں تک پہنچا تھا۔اس رضاکار کی ہمت نظرانداز ہو گئی جو بھوکوں اورپیاسوں تک کھانا پانی لے کر جاتا رہا۔اسے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ بعد میں وہاں مختلف حکومتوں نے بہت کچھ کیا۔مثلاًسعویہ کی طرف سے ہسپتال لایا گیا اور جولائی کے آخر میں جب عید آئی تو وہ لوگ واپس اپنے گھروں کو پلٹ گئے تھے۔وہ مختلف کیفیات سے گذرتی ہوئی تقریریں سنتی رہی ۔سیمینار ختم ہو گیا تو وہ حماد خاں کے ساتھ شو پیس کی طرح خصوصی مہمانو ں کے درمیان پھرتی رہی۔اس نے خود محسوس کیا کہ وہ وہاں اوپری دل سے ہنستی مسکراتی رہی تھی۔سہ پہر کے وقت ہر طرح سے فراغت ہو گئی تو اس کا دل حویلی جانے کو نہ چاہا، وہ گاڑی میں بیٹھی تو ساتھ میں سجو بھی تھی،تب اس نے ڈرائیور سے ٹیلے پر جانے کو کہا۔وہ حکم کی تعمیل میںادھر چل پڑا۔
سڑک کنارے ٹیلا ویران تھا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔یہاں تک کہ ایک برس پہلے کے آثار بھی نہیں تھے وہاں ۔گذرتے وقت کی نشانیاں اگرزمین پر تھیں تو شاید اب تک یہ زمین انہی نشانیوں سے اَٹ چکی ہو گی۔یہ تو انسان کا دل ہی ہے جو پرانی یادوں کا مسکن بنا رہتا ہے ۔وہ ویران ٹیلے پر کھڑی تھی۔ اس سے ذرا فاصلے پر سجو تھی اور ٹیلے کے نیچے گاڑی کے قریب ڈرائیور منتظر تھا۔
سیلی وہاں ٹیلے کی بے آب و گیا زمین کو تکتی رہی۔اسے وہاں کا ایک ایک منظر یاد آتا چلا گیا تھا۔جس کے ساتھ نجانے کتنے سوال امنڈتے چلے آئے تھے۔ ایک لمحے کو سے ایسا لگا جیسے سارے منظر پھر سے جاگ گئے ہیں۔ اسے لگا ندیم ہیں کہیں آس پاس ہی ہوگا۔تبھی سڑک پر سے فوروہیل سرکاری جیپ اتری اور سیدھی ٹیلے تک آ گئی۔وہ اسے دیکھتی رہی ۔جیپ گاڑی کے قریب رکی اور اس میں سے تین لوگ باہر آئے۔سب سے آگے والا سمارٹ سانوجوان ویل ڈریسڈ تھا،اس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا۔وہ بڑے نپے تلے قدموں سے چلتا ہوا اس کے قریب آگیا۔
”کہئے میڈم کیا حال ہے۔“نوجوان نے سیاہ چشمہ اتارا تو سیلی پر حیرت ٹوٹ پڑی ۔اس نے ایک دم سے ندیم کو پہنچانا تھا۔
”ندیم آپ ۔!کیسے پتہ چلا کہ میں یہاں ہوں؟“
©”مجھے معلوم تھا کہ آپ سیمینار میں مدعو ہیں۔۔اور یہ یقین تھا کہ آپ اس ٹیلے پر ضرور آئیں گی۔چاہئے تو یہ تھا کہ میں یہاں پہلے آتا اور آپ کا استقبال کرتا ،بس ذرا سی تا خیر ہو گئی۔“
”ہمیں یقین نہیں آ رہا ندیم کہ یہ آپ ہی ہیں وہ جو ایک برس پہلے یہاں ملے تھے۔وہ دیہاتی نوجوان اور یہ سرکاری گاڑی۔۔“
”میں سی ایس پی آفیسر ہوں۔۔خیر چھوڑیں ۔۔آپ کے لیئے تو میں وہی ندیم ہوں۔گارے مٹی سے بھر ہوئے کپڑوں والا،جو آٹھ دن تک نہیں نہایا تھا۔۔“وہ خوشگوار انداز میں بولا
”ہم کیسے یقین کر لیں ۔۔خواب کیا ہے اور حقیقت کیا ہے۔۔۔“سیلی حیرت کے بھنور سے نکل ہی نہیں پا رہی تھی۔
”خواب اور حقیقت کو چھوڑیں ،اگر آپ کے پاس وقت ہو تو چلیں میرے ساتھ،بہت سارے لوگ آپ سے ملنے کو بے تاب ہیں۔“
”ضرور ۔!چلو۔۔ہم تو خود آپ سے ملنے کو بے تاب تھے۔آئیں ۔“اس نے قدم بڑھا ئے تو سجو بھی اس کے ساتھ چل دی ۔دونوں گاڑیاں سڑک پر حویلی کی طرف جانے والے مخالف راستے پر چل دیں۔
وہ ایک بہت ہی خوبصورت ماڈل ویلج تھا۔جہاں صفائی ستھرائی کے ساتھ ترتیب بھی تھی۔وہ ایک بڑے سے گھر کے سامنے جارکے۔گاڑیوں سے اتر نے کے بعد وہ ،سجو اور سیلی گھر کے اندر چلے گئے۔سامنے بڑے سارے صحن سے آگے دالان میں ایک بزرگ بیٹھا ہوا تھا۔اس سمیت گھر کے ہر فرد نے قیمتی لباس پہنا ہوا تھا۔اس کی آمد پر وہ بزرگ کھڑاہو گیا۔اس نے آگے بڑھ کر سیلی کر سر پر پیار دیتے ہوئے کہا
”خوش آمدید بیٹی۔!“
وہ ایک لمحے کو لرز گئی۔وہ پہچان چکی تھی کہ وہ بزرگ کون ہے۔اس کی زبان سے اپنے لیئے بیٹی کا لفظ سن کر تھرا گئی تھی۔ایسا تو کسی نے بھی اسے کہنے کی جرات نہیں کی تھی۔چاہے اس نے آرٹ اینڈ کلچر کے نام پر جتنی بھی نیک نامی کمائی تھی۔سیلی نے گھر کو دیکھا اور لرزتے ہوئے لہجے میںبولی۔
”وقت نے آپ کو پھر بادشاہ بنا دیا ہے۔“
”ہاں پتر ۔لیکن یقین بھی آگیا ہے کہ وہ مالک جس کو جو چاہے دے دے اور جب چاہے لے لے۔۔لے کر بھی سب کچھ دے دیتاہے۔۔اپنا یہاں کیا ہے ،اسی کا ہے۔۔آﺅ ۔۔بیٹھو۔۔“
وہ اس کی بہو اور بیٹیوں میں جا بیٹھی ۔وہ سب اس کی آﺅ بھگت میں لگ گئیں۔
”آپ ٹیلے پر بڑے مایوس تھے۔“
”نہیں ،صرف یہ سوچتا رہا تھا کہ مجھ سے کیا گناہ سرزد ہو گیا جس کی سزا ملی۔۔۔لیکن نہیں وہ بس امتحان تھا،گذر گیا۔۔اب بھی سب ویسا ہی چل رہا ہے۔“اس بزرگ نے کہا
سیلی وہاں کافی دیر تک بیٹھی باتیں کرتی رہی۔جب چلنے لگی تو اس بزرگ کی بیوی نے ایک مقامی طرز کا بڑا سا آنچل جیسے ”بھوچھن“کہا جاتا تھا،اس کے سر پر دے دیا۔
”بیٹی ۔!یہ ہماری طرف سے ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اب یہ تمہارا گھر ہے ،جب چاہو آ سکتی ہو۔یہاں تمہارا مان ایک بیٹی کی طرح رکھا 
جائے گا۔“اس خاتون نے رسان سے کہا تو سیلی پھر پورے وجود سے لرز گئی۔اگر انہیں پتہ چل جائے میں کون ہوں تو کیا یہ پھر بھی میری اتنی ہی عزت کریں گے۔؟
”آئیں میڈم ،ابھی کچھ اور لوگوں سے بھی ملنا ہے۔“ندیم نے کہا تو وہ زیر بارسا وجود لے کر پھاٹک تک آ گئی۔پھر بڑی حسرت سے اس صحن کو دیکھا،دالان میںکھڑے گھر والوں پر نگاہ ڈالی،پھر جیسے سب دھندلا ہو گیا۔اسے پتہ ہی نہیں چلا کب اس کی آنکھیں بھر آئیں تھیں۔وہ جلدی سے گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔اس بار ندیم نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا تھا۔راستے میں ایک جگہ رکا اور اشارہ کرتے ہوئے بولا۔
”یہ سکول ہے۔۔عام سرکاری سکول نہیں ۔۔ایک مثالی سکول ،جس بچے نے آپ سے کتابیں مانگی تھیں۔وہ اب اس سکول میں پڑھتاہے ۔ابھی ملواتا ہوں اس سے۔“
”اور وہ خاتون ۔۔جن کی بیٹی سیلاب میں بہہ گئی تھی ۔“اس نے تجسس سے پوچھا۔
”وہ اللہ کو پیاری ہو گئی ہے۔“ندیم نے آرزدہ لہجے میںبتایا۔
”اور اس کے بچے۔۔“وہ تڑپ کر بولی
”میرے پاس ہیں۔۔میں ان کی دیکھ بھال کر تا ہوں۔۔“اس نے سکون سے کہا ۔اورایک بڑے سے گھر کے سامنے گاڑی روک دی۔”یہ میرا گھر ہے۔۔“
”آپ کا ۔۔۔“اس نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”ہاں میرا۔۔آئیں ۔۔“وہ بولا اوراسے لے کر اندرچلا گیا۔کئی سارے کمروں پر مشتمل سادہ سا لیکن صاف ستھرا گھر بڑا پر سکون تھا۔وہ جیسے ہی صحن میں آئے۔تو سامنے سے ایک نوجوان مگر اپنے سراپے سے خاتون دکھائی دینے والی لڑکی آ گئی۔وہ پروین تھی جو لڑکی جو ٹیلے پر آڑ مانگ رہی تھی۔ وہ آتے ہی سیلی سے گلے لگ گئی۔یہ پروین اور اس کا شوہر یہاں ان بچوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔
”مجھے نہیں یقین تھا کہ ہم کبھی دوبارہ مل پائیں گے۔“پروین نے شدت جذبات میں کہا۔
”لیکن دیکھیں قسمت لے آئی ہے۔“
”آئیں ۔!“وہ انہیں لے کر ڈارئینگ روم میں آئی گئی۔
”آ پ کے والدین اور۔۔۔“سیلی نے بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
”وہ یہاں نہیں رہتے ،بلکہ وہ اسی بستی میں ہیں جہاں سیلاب آنے سے پہلے رہتے تھے۔میڈم میں دراصل آپ کو بتاﺅں کہ ٹیلے پر وہ خاتون فوت ہو گئی تو اس کے بے یارومددگار بچے بے آسرا ہو گئے۔یہ ذمہ داری پروین نے اپنے سر لی کہ وہ انہیں پالے گی۔پھر کئی بچے بڑھتے گئے تب پھر پوری طرح یہ ذمہ داری میں نے لے لی۔اب یہاں بہت سے بچے پرورش پا رہے ہیں۔“ندیم نے بتایاتو سیلی ان کیفیات میں جا پہنچی ،جہاں احساس فقط روح محسوس کر تی ہے۔جسم سے اس کا کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔بچے وہیں آتے رہے تو وہ ان سے باتیں کرتی رہی۔اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ کتنا وقت گذر گیا ہے۔تبھی سجو نے قریب آ کر بتایا۔
”حماد خاں کا بار بار فون آ رہا ہے۔وہ آپ کے بارے میں پوچھ رہے ہیں،کیا بتاﺅں۔“
”یہی کہ ہم ائیرپورٹ چلے جائیں گے۔۔حویلی نہیں آئیں گے۔۔“سیلی نے بے خیالی میںکہہ دیا۔
”اپنا سامان تو ادھر پڑا ہے۔۔“سجو نے اسے یاد دلایا۔
”چلیں پھر چلتے ہیں۔“سیلی نے ندیم اور پروین کی طرف دیکھ کر کہا۔
”ہم آپ کو ائیر پورٹ پر وداع کریں گے۔آپ حویلی جائیں۔اور حماد خاں کو لے کر ائیر پورٹ آئیں۔“ندیم نے کہا تو سیلی نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا ۔اور پھر اٹھ کر چل دی ۔اس نے محسوس کیا کہ وہاں سے جاتے ہوئے اس کے قدم بوجھل ہو رہے تھے۔
ائیر پورٹ پر ندیم تھا۔جب وہ وہاں پہنچی ،اس کے ساتھ حماد خاں بھی تھا،فائقہ اور دوسرے لوگوں کے ساتھ سجو بھی تھی۔حماد خاں حسب سابق انتہائی بے رخی سے ملا ،تب ندیم بولا۔
”میڈیم ۔!کیا حماد خاں نے وہ رقم آپ کو پہنچا دی تھی جو آپ نے یہاں ٹیلے پر موجود لوگوں پر خرچ کی تھی۔؟“
”مطلب ۔ہم نے جو رقم خرچ کی۔۔۔آپ نے وہ حماد خاں کو دی۔۔“سیلی نے انتہائی حیرت سے کہا۔
”ہاں ۔!یہ اس کی رسید ہے جو رقم دے کر ان سے لی گئی تھی۔“ندیم نے جیب سے ایک کاغذ نکال کر اسے تھماتے ہوئے کہاتو حماد خان نے پوری ڈھٹائی سے کہا
” وہ رقم اب بھی میرے پاس امانت پڑی ہے، میں دے دوں گا۔“
”یہ رقم دے کر میں یہ باور نہیں کروانا چاہتا کہ میں بہت امیر آدمی ہوں ۔۔میں نے تو بس اتنا کیا کہ ٹیلے پر موجود لوگوں کو یہ سوچ دے دی کہ رازق اللہ کی ذات ہے ۔آج رقم لوٹانے کی نیت کرو،کل رب اور زیادہ دے گا۔یہ سب ان لوگوں نے جمع کر کے انہیں دے دئےے تھے۔میںیہ بھی باور کرانا چاہاکہ روٹیاں دینے والی اللہ کی ذات ہے ۔مگر افسوس ہم میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سیلاب زدگان کی امدادی اشیاءکو اب تک بلیک مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں۔“
”ہم آپ سے بہت شرمندہ ہیں ندیم۔“ وہ انتہائی شرمندگی سے بولی 
”جو کچھ آپ دیکھ کر آئی ہیں یہ اپنی مدد آپ کے تحت ہوا ہے۔ اگر ان جیسے لوگوں کے وعدے پر رہتے تو آج بھی ان لوگوں کی طرح ہوتے جو اب تک بحالی کے منتظر ہیں۔“ اس نے انتہائی دکھ سے کہا تو سیلی کتنی دیر تک ا س کی طرف دیکھتی رہی، پھر جو بولی تو اس کا لہجہ بدلا ہوا تھا
اور اس کا ازالہ فقط ایک صورت میںکر سکتے ہیں “
”وہ کیسے؟“ندیم نے پوچھا
”اس سیلاب کے باعث ہم جہاں کیچڑ میں پڑے ہوئے کنول کی خوشبو سے متعارف ہوئے ،وہاں کئی ایسے ،مکروہ چہرے بھی دیکھے جو خوبصورت نقاب اوڑے ہوئے ہیں۔اصل زندگی کیا ہے، یہ اب ہم نے جاناہم نے سوچ لیا ہے کہ ہم یہیں رہ جائیں۔کیاآپ ہمیں قبول کریں گے۔لیکن ہم پہلے یہ بتادیں ہم ایک طوائف۔۔۔“
”میں جانتا ہوں سیلینہ ،میں آپ کو اس وقت پہچان گیا تھا۔جب آپ ٹیلے پر آئیں تھیں۔آپ اپنی ذات میں کیا ہیں ؟غرض اس سے نہیں ،اس درد مند دل کا احترام ہے،جو اس وجود میں دوسروں کے لیئے تڑپا اور آپ کو لے کر اس ویرانے میں آگیا۔اگر آپ کی خواہش ہے تومیں پورے دل سے آپ کو قبول کر تا ہوں۔“
”چلیں،واپس چلیں۔اور ان بچوں کی ذمے داری مجھے دے دیں۔“سیلی نے تڑپ سے کہا۔”جاﺅسجو چلی جاﺅ،اب ہم لوٹ کر نہیں جائیںگے۔“اس نے کہا اور ندیم کی طرف دیکھا ۔پھر اس کا ہاتھ پکڑکر ائیرپورٹ سے باہر چل دی 
٭٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *