Wednesday 30 August 2017

حُرمت

حُرمت

امجد جاوید

سرمئی بادلوں سے آسمان ڈھکا ہواتھا۔موسمِ بہار کی پہلی بارش سے ہر شے نکھر گئی تھی۔اگرچہ سہ پہر کا وقت تھالیکن یوں لگ رہا تھا جیسے شہر پر شام اتر آئی ہو ۔سڑکیں بھیگ کر زیادہ سیاہ ہو گئیںتھیں۔ایسے میں رضاسلمان نے سڑک کنارے موجود پھولوں کے ایک اسٹال کے پاس اپنی گاڑی روک دی۔اسے رکتے دیکھ کر سٹال والے نے تیزی سے پھولوں کا گلدستہ بنایا اور گاڑی کے قریب آ کر کھڑا ہو گیا۔رضا نے پسنجر سیٹ والا دروازہ کھولا،اس نے گلدستہ وہاں رکھ دیا۔رضا نے ایک بڑا نوٹ اسے دیا تو وہ سلام کرتے ہوئے دروازہ بندکرکے پیچھے ہٹ گیا۔رضانے گاڑی بڑھا دی۔وہ جلد از جلد قبرستان پہنچ جانا چاہتا تھا۔جہاں اس کا پاپا سلمان اشرف ابدی نیند سو رہا تھا۔رضا کا گذشتہ ہفتے سے یہی معمول تھا۔ اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ پاپا یوں بچھڑ جائیں گے۔ وہ لندن سے پہلی دستیاب فلائٹ سے یہاں پہنچا تو پاپا کا جنازہ تیار تھا۔اس نے خود اپنے ہاتھوں سے انہیں سپرد خاک کیا تھا۔سارا دن وہ تعزیت کے لیئے آنے والوں سے ملتا رہتا۔سہ پہر ہوتے ہی وہ قبرستان کا رخ کرتا۔وہاں تھوڑا وقت گذار کر اسے سکون ملتا تھا۔
رضا نے قبرستان کے باہر پھاٹک کے پاس گاڑی روکی،گلدستہ اٹھایا اور قبرستان کے اندر چلا گیا۔اس کے سامنے اک بڑا سا شہر خموشاں تھا۔وہ پختہ روش سے آگے بڑھتا گیا۔جبکہ اس کے پاپا کی قبر ابھی کچی تھی۔جیسے ہی وہ اس کے قریب پہنچا ،اس کی نگاہ ایک سیاہ پوش لڑکی پر پڑی جو بڑی شدت سے رو رہی تھی۔سرمئی بادلوں اور سبز بیلوں کے پس منظر میں وہ سیاہ لباس پہنے، گلابی چہرے والی لڑکی ہر طرف سے بے نیاز یوں شدت سے رو رہی کہ اس کا بدن ہولے ہولے لرز رہا تھا۔اسے لگا جیسے آسمان سے بارش تھمی تو اس لڑکی کی آنکھوں سے جاری ہو گئی ہے۔وہ رک گیا اور پوری محویت سے اس کی شدتِ گریہ دیکھتا رہا۔فطری طور پر اس نے سوچا کہ یہ کون ہے؟ضرور کوئی گہرا جذباتی تعلق ہو گا۔تبھی آنسوا تنی تیزی سے رواں ہے۔اس لڑکی نے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں پیوست کر کے سینے کے قریب چادر کو پکڑا ہوا تھا۔چند منٹ بعد اس لڑکی نے خود پر قابو پا لیا۔پھر اپنی مخروطی انگلیوں سے گالوں پر آئے آنسو صاف کیئے اور دھیرے سے مڑی۔اس کی نگاہ سامنے کھڑے رضا پر پڑی تووہ ایک دم ٹھٹک گئی۔کتنے ہی لمحے وہ اس کے چہرے پر سے نگاہیں نہ ہٹا پائی۔ ´وہ یوں بے جان بت کی مانند بن گئی جیسے اس نے کچھ انہونا دیکھ لیا ہو۔چند لمحوں میں اس کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گذر گئے۔جس سے رضا بوکھلا سا گیا۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتا،وہ لڑکی ایک جھٹکے سے رخ پھیر کر اس کے قریب سے ہوتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔رضا نے متجسس نگاہوں سے اس لڑکی کو دیکھا۔وہ ذرا فاصلے پر موجود سکھ چین کے درختوں کے پاس کھڑی ادھیڑ عمر خاتون کے پاس جا کر رکی۔اس سے پرس لیااور قبرستان سے باہر جانے والے راستے پر چل دی۔
انہی لمحات میں رضا کو احساس ہوا کہ اس کے پاپا کی قبر پر آنے والے لوگ ،اس کے لیئے محترم ہیں۔اخلاقی تقاضا یہی تھا کہ وہ ان کے قریب جاتا اور کسی بھی انداز سے ان کا شکریہ ادا کرتا۔وہ جانتاتھا کہ اس کے پاپا بہت سارے لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ممکن ہے یہ لوگ انہی احسان مندوں میں سے ہوں۔اس نے گلدستہ اپنے پاپا کی قبر پر رکھا اور پھر آہستہ قدموں سے چلتا ہوا،اس ادھیڑعمر خاتون کے پاس جا کر سلام کیا ۔خاتون نے آنکھیں بند کر کے بڑے جذب سے جواب دیا۔تب رضا نے بات بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
 © ©”آپ اور؟“
”میں بلقیس خاتون ہوں اور وہ میری بیٹی ہے۔“اس نے اختصار سے جواب دیا۔
”آپ دونوں یہاں۔۔“اس نے جان بوجھ کر جملہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”وہ اپنے باپ کی قبر پر فاتحہ خوانی کے لیئے آئی تھی۔“اس نے کہا تو وہ حیرت سے ششدررہ گیا۔ان چند لفظوں نے اسے پورے وجود سے ہلا کر رکھ دیاتھا۔
”اپنے باپ کی قبرپر۔۔مطلب۔۔۔آپ۔۔“اس نے اٹکتے ہوئے پوچھاتو وہ خاتون چندلمحے اس کی طرف دیکھتی رہی،پھر بنا کچھ کہے پلٹ کر اسی جانب بڑھ گئی ،جدھر اس کی بیٹی گئی تھی۔رضا حیرت زدہ سا وہیں کھڑا رہ گیا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے پاپا نے دوسری شادی کی ہو گی؟اولاد میں ایک جوان لڑکی بھی ہو گی،جیسے اس نے چند لمحے قبل دیکھا ہے اوریہ سامنے کھڑی خاتون اس کی سوتیلی ماں تھی۔وہ ایک ایسے شاک میں تھا جس نے وقتی طور پر اس کی ساری سوچیں مفلوج کر کے رکھ دی تھیں۔اس کا پاپا تو اس کی نگاہوں میں ایسے کردار کا مالک تھا کہ جس کی قسمیں کھائی جا سکتی تھیںاور یہ ۔۔۔اس نے دیکھا، دونوں نگاہوں سے اوجھل ہو چکی تھیں۔تبھی اسے خیال آیا کہ اس کے پاپا سے اتنی قربت رکھنے والے یہ کون ہیں۔کہاں رہتے ہیں؟یہ تو معلوم کرے،وہ تیزی سے ان کی جانب لپکا۔جیسے ہی وہ بیرونی پھاٹک تک پہنچا ۔وہ ایک چھوٹی سی سرخ رنگ کی گاڑی میں سوار تھیں ،جو رینگتے ہوئے تیز ہو گئی تھی۔اس نے زور سے آواز دی ،لیکن وہ نہیں رکیں۔چند ہی لمحوں میں وہ جاچکیں تھیں۔وہ بوجھل قدموں کے ساتھ واپس اپنے پاپا کی قبر پر آگیا۔
رضا کے اندر ہلچل مچ گئی تھی۔یوں لگ رہا تھا جیسے لمحوں میں سب کچھ بدل گیا ہو۔اعتماد ٹوٹ جانے کا دکھ کیا ہوتاہے۔وہ اس وقت ایسی ہی کیفیت سے گذر رہا تھا۔وہ فاتحہ پڑھنے لگا۔اس کی دعا میں وہ پہلے والا جذب نہیں تھا بلکہ جذب کو شک کا دیمک لگ گیا تھا۔بلقیس خاتون کے لفظ ا س کے کانوں میں گونج رہے تھے۔قبر اسے جواب نہیں دے سکتی تھی کہ وہ مطمئن ہو جاتا۔وہ چند لمحے وہیں کھڑا رہا،پھر پلٹ کر قبرستان سے نکلتا چلا گیا۔
  رضا سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔وہ اپنی ماما شبانہ بیگم سے پوچھ سکتا تھاکہ پاپا نے دوسری شادی کی تھی؟جواب ہاں میں ہوتا یا ناں میں،اس کی ماما پر کیا گذرتی،اس کا وہ احساس کر سکتا تھا۔عورت چاہے جیسی بھی ہو،جیسے طبقے سے بھی تعلق رکھتی ہو۔اپنے مرد کے ساتھ کسی دوسری عورت کاذکر سن کر کبھی پر سکون نہیں رہ سکتی۔اسے تحمل اور صبر سے خود اس سارے معاملے کو دیکھنا تھا۔اگر اس عورت نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے تو اس کے پاس ثبوت بھی ہوں گے۔اس کے پاپا کی دوسری شادی ثابت ہو جاتی ہے یا نہیں۔یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا۔بلکہ اسے تجسس ہو گیا تھا کہ اس کے پاپا کی زندگی کیسے گذری تھی۔ایک دکھ کا احساس رضا پر تن گیا تھا، آخر پاپا نے ہم سے یہ بات کیوں چھپائی ۔کیا مجبوری تھی ان کی،کیسے حالات تھے ان کے ساتھ،جو وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو دنیا کے سامنے نہیں لا سکے۔اب اگر وہ عورت اپنے دعویٰ کے ساتھ دنیا کے سامنے آ جاتی ہے تو کیاہم اس حقیقت کو تسلیم کر لیں گے،مان جائیں گے ؟اور انہیں تسلیم کرلیں گے۔اس کے لیئے سوچوں کا در،وَا ہو گیا تھا۔وہ اس وقت اپنی ماما کو اس معاملے کے بارے میں نہیں بتانا چاہتا تھا۔جب تک وہ خود کسی نتیجے پر نہیں پہنچ جاتاتھا۔یہ فیصلہ کر کے وہ قدرے پر سکون ہو گیا تھا۔
رضا کی اپنے پاپا کے آفس میں مصروفیات بڑھتی چلی جا رہی تھیں۔اسے بہر حال اپنے پاپا کی محنت پر رشک آ رہا تھا۔پاپا نے کتنی محنت کی تھی،اس کا اندازہ ان کے اثاثوں سے ہو رہا تھا۔اور وہ خوشگوار حیرت میں ڈوبتا چلا جا رہا تھا۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے پاپا کی زندگی کے بارے میں بھی جاننا چاہتا تھا۔سو پاپا کے قریبی ساتھیوں اور پرانے ملازمین کو زیادہ قریب رکھتا تھا۔انہی میں ایک فیض الدین بھی تھا۔جس نے سب سے زیادہ سلمان اشرف گذارا تھا۔اور شنید یہی تھی کہ پاپا رازونیاز اسی سے کرتے تھے۔
اگلی سہ پہر اس نے فیض الدین کو اپنے آفس میں بلا لیا۔چائے کے دوران گپ شپ میں اس نے اپنے پاپا کی باتیں چھیڑ دیں ۔پھر باتوں ہی باتوں میں اس نے پوچھا۔
”فیض صاحب۔!پاپا کے ساتھ آپ کی طویل رفاقت رہی ہے۔کیا آپ کے علم میں کوئی ایسا معاملہ ہے کہ انہوں نے دوسری شادی کی ہو؟“
فیض الدین چند لمحے سر جھکائے بیٹھا رہا۔اس دوران رضا کا دل دھڑکتا رہا۔وہ ہاں یا ناں کے درمیان اعصاب کو جھنجوڑ دینے کی کیفیت میں مبتلا رہا۔تبھی اس نے سر اٹھایا اور آہستگی سے بولا
 © © ©”جی ہاں،انہوں نے دوسری شادی کی تھی۔آپ اس وقت بہت چھوٹے تھے۔آپ کوتو او لیول کے بعد لندن بھیج دیا گیا تھا۔ انہوں نے بیگم صاحبہ کو بھی نہیں بتایا کہ بات چھپی ہے تو چھپی رہے یہاں تک کہ وہ دنیا میں نہیں رہے۔“
”دوسری شادی کرنا کوئی جرم نہیں،لیکن دوسری شادی چھپانے کی انہیں مجبوری کیا تھی۔“رضا نے انتہائی سکون سے کہا۔
 ©”دیکھیں ،میں اتنی تفصیل تو نہیں جانتا۔ہاں وہ کبھی کبھار کافی رقم لیا کرتے تھے اور چند دن کے لیئے اپنی دوسری بیگم کے پاس جاتے تھے۔میں صرف اتنا جانتا ہوں۔باقی وہ کون ہیں ،کہاں رہتے ہیں۔میں اس بارے میں نہیں جانتا۔“فیض الدین نے بے چارگی سے کہا۔
”میں اس خاتون سے ملا ہوںاور اس کی بیٹی کو بھی دیکھا ہے۔“یہ کہتے ہوئے اس نے قبرستان والا واقعہ بیان کر دیا۔اس دوران فیض الدین خاموشی سے سنتا رہا ۔“اس وقت میرا دماغ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔میں ان سے یہ بھی معلوم نہیں کر سکا کہ وہ کہاں رہتے ہیں۔کیا ایسا کوئی ذریعہ ہے کہ ہم انہیں تلاش کر لیں؟“
”مگر میرا خیال ہے کہ انہیں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ۔ظاہر ہے وہ خاتون اور لڑکی اگر سلمان صاحب کی بیگم اور بیٹی ثابت ہو گئیں تو جائیداد میں بھی حصہ دار بن جائیں گی۔وہ تو اگر سامنے آکر بھی دعویٰ کریںتو آپ انہیں تسلیم نہ کریں۔“فیض الدین نے خلوص سے مشورہ دیا۔
”پتہ نہیں پاپا کے ساتھ کیسے حالات تھے۔بات جائیداد کی نہیں،اُن سے ہمارے تعلق کی ہے،کیا سلمان اشرف کی بیوی اور بیٹی کو تنہا چھوڑدیا جائے۔پھر اگر جائیداد میں ان کاحق ہے تووہ انہیں ملنا چاہیے۔فیض صاحب سمجھیں ،وہ ہمارے قریبی رشتے دار ہیں۔“رضا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”اب میں کیا کہہ سکتا ہوں اب وہ خود ہی سامنے آ جائیں تو۔۔۔“اس نے حیرت اور بے بسی سے کہا۔
”کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ ہم انہیں تلاش کر لیں۔بجائے اس کے کہ وہ ہمیں عدالت میں یا کسی ایسے فورم پر ملیں ،جہاں ہمارایا ہمارے خاندان کا تاثر غلط چلا جائے۔مگر یہ ساری باتیں قبل از وقت ہیں۔ہمیں ان سے مل کر کوئی بات تو کرنی چاہیے۔“اس نے اپنا نکتہ نظر کہا۔
”میںکوشش کرتا ہوں۔ہمارے ہاں ایک پرانا ڈرائیور تھا۔وہی صاحب کے ساتھ جایا کرتا تھا۔آپ دوچار دن دیں۔میںانہیں تلاش کرلیتا ہوں۔“فیض الدین نے حتمی انداز میں کہا
”لیکن انتہائی رازداری کے ساتھ،پھر بعد میں جو ہو گا،وہ دیکھا جائے گا۔“رضا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو فیض سر ہلا کر رہ گیا۔
ززز
زاریہ کاریڈور میںکرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔روشن دن کی نرم دھوپ اس کے گورے پیروں سے ذرا فاصلے پر تھی۔عنابی رنگ کے لیدر سلیپر اور اسی رنگ کے ریشمی لباس میںملبوس تھی۔اس کا آنچل کرسی سے ڈھلک کر آہستگی سے چلنے والی ہوا میں لہرا رہا تھا۔اس کے ہاتھوں میں تازہ اخبار تھا مگر وہ ایسے نظر انداز کئے اپنی ہی سوچوں میں گم تھی۔اس کے چہرے پر فوراً توجہ حاصل کر لینے والے اس کے ہونٹ تھے۔سرخ لعلیں ہونٹ،جن کے دائیں جانب نیچے کی طرف سیاہ تل تھا۔غلافی آنکھوں میں ایک بے طرح کی اداسی اتری ہوئی تھی۔تیکھے ناک میں لونگ کی جگہ ہلکی سی سونے کی تار تھی۔لمبے اور گھنے سیاہ بالوں کی کس کر باندھی ہوئی چوٹی سے اس کا ماتھا بڑا کشادہ لگ رہا تھا۔مجموعی طور پر اس کے حسن میں ایسا تاثر تھا جس میں کھو جانے کی حسرت جھلک رہی ہو۔حالانکہ گداز بدن والی زاریہ کو دیکھ کر تازگی کا احساس ہوتاتھا۔وہ نجانے اپنی سوچوں میںآباد کس دنیا میں موجود تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا جسم تو یہیں ہو لیکن اس کی روح کہیں اور چلی گئی ہو۔
 © ©”ناشتہ کر لیا تم نے زاریہ؟“عقب سے بلقیس خاتون کی آواز آئی تو اس کے سوچوں کا سارا تانا باتا بکھر کر رہ گیا۔
”جی۔۔۔جی ہاں۔۔کرلیا۔۔۔“اس نے چونکتے ہوئے کہا تو بلقیس نے کھڑے کھڑے کہا
”کیا سوچ رہی ہو؟“
”کچھ نہیں ۔“اس نے یوں کہا جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو۔
 © ©”خیر ۔!مجھے ابھی ابھی معلوم ہوا ہے کہ رضا آج کسی بھی وقت یہاں آئے گا۔“یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکی پھر بڑبڑاتے ہوئے خود کلامی کے انداز میں بولی ۔”میرے حساب سے اس نے چار دن زیادہ لے لیئے ہیں۔“
”کیا یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نہ آئے۔۔“زاریہ نے آہستگی سے پوچھا ´
”ممکن ہی نہیں ہے۔کیا تم نے اس کا اضطراب نہیں دیکھا تھا۔کیسے بھاگتا ہوا پھاٹک تک آیا تھا۔میں اس کے سکون میں جو چنگاری لگا آئی ہوں۔وہ بھڑکے نہ۔۔ایسا ہو ہی نہیں سکتا ۔وہ آ رہا ہے ۔تم تیار رہنا۔“اس نے تیزی سے کہا۔
”آپ نے ہی تو کہا ہے کہ میں اس کا سامنا نہ کروں اور نہ ہی اس سے کوئی با ت کروں ۔پھر میں نے کیا تیار ہونا ہے “وہ مضطرب لہجے میں بولی
”ہو سکتا ہے تمہارا اور اس کا سامنا ہو ہی جائے۔کوئی بات کرنی پڑ جائے۔تم نے وہی کرنا ہے ،جو تمہیں کہا گیا ہے۔“بلقیس نے یوں کہا جیسے اسے سرزنش کر رہی ہو۔
”ویسے ماما۔!کوئی عقل مند بندہ یہ نہیں چاہئے گا کہ اس کی جائیداد کسی دوسرے کو جائے۔وہ تو ایسے کسی بھی رشتے دار سے انکار کر دے گا۔جس کے باعث جائیداد جاتی ہوئی نظر آئے،“وہ طنزیہ لہجے میں بولی
”یہ میرا معاملہ ہے ،میں کیا کرتی ہوں اور کیسے کرتی ہوں۔یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔وہ آج کسی بھی وقت آ سکتاہے۔تم ذہنی طور پر تیار رہنا۔“وہ اعتماد سے بولی۔
”میں تو ابھی آفس چلی جاﺅں گی۔اس دوران وہ آ کر چلا جائے تو مجھے بتا دیں۔ورنہ میںعاتکہ کی طرف چلی جاﺅں گی۔وہیں سے لیٹ آﺅں گی۔“اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
”یہ ٹھیک رہے گا۔تمہارا اور اس کا سامنا ہی نہیں ہونا چاہئے۔“اس نے سوچتے ہوئے کہا اور اندر کی جانب چلی گئی۔تب زاریہ کے چہرے پر کرب پھیل گیا۔ان نے چند لمحے اخبار کی طرف دیکھا۔پھر وہیں ایک طرف رکھ کر اندر چلی گئی۔وہ آفس کے لیئے تیار ہونے چل دی تھی۔
        ززز
دوپہر سے پہلے ہی رضا ان کے ہاں چلا گیا۔اس کا چہرہ کسی بھی جذبے سے عاری تھا۔بلقیس خاتون نے اسے ڈرائینگ روم میں بیٹھایا اور خود سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی۔
”آپ اس دن فوراًہی وہاں سے آ گئیں۔ورنہ میںجلد ہی آپ سے ملنے کے لیئے آجاتا۔دراصل مجھے آپ کو تلاش کرنا پڑا۔“رضا نے بات کا آغاز کیا
”کیوں ،کیوں تلاش کیا تم نے؟“بلقیس بیگم کی آواز میں حیرت تھی جسے رضا کی تلاش کے کوئی سروکا نہ ہو۔
”ظاہر ہے آپ نے پاپا کے حوالے سے اتنی بڑی بات کہہ دی ہے تو۔۔۔“اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”دیکھو۔میرا تعلق سلمان صاحب سے تھا۔ان کے حوالے سے جتنے بھی تعلق ہیں۔مجھے ان سے کوئی غرض نہیں،میں کسی سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتی۔تم نے خواہ مخواہ زحمت کی۔“اس نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔
”کیوں ،ایسا کیوں ،سوچ رہی ہیںآپ؟“اس نے تجسس کے پوچھا
 © ©”تمہارے اس سوال سے تمہاری بے جا ضد ظاہر ہورہی ہے۔ہم اپنی زندگی میںخوش ہیں۔پہلے کی طرح میں اب بھی گمنامی کی زندگی بسر کرناچاہتی ہوں۔  © ©“اس نے ہنوز اکتاہٹ ہی سے کہا
”دیکھیں ،کسی سے تعلق رکھنا یا نہ رکھنا آپ کا ذاتی معاملہ ہے ۔لیکن آپ سلمان اشرف کی بیوہ ہیں،جو میرے پاپا ہیں۔“وہ جذباتی انداز میںبولا تو بلقیس خاتون نے بڑے نرم لہجے میںکہا۔
”دیکھو بیٹا ۔!تمہارے پاپا سے میری شادی کچھ ایسے حالات میںہوئی ،جنہیں بہرحال نارمل نہیں کہا جا سکتا۔میرا ان سے شرعی نکاح تھا۔اس نکاح کا کوئی دستاویزی ثبوت اگر تھا بھی تو وہ میرے پاس نہیں ہے۔دو گواہ تھے ،جن میں ایک زندہ ہے اور دوسرا فوت ہو گیا۔
”یہ کیسے ہوا ؟کیسے حالات تھے وہ،نکاح کیوں ضروری ہو گیا تھا۔؟“اس نے اضطرابی انداز میں کئی سوال کر ڈالے تو بلقیس خاتون نے گہری سنجیدگی سے کہا
”میں تمہارے ان سوالوں کا جواب دینے کی پابند نہیں ہوں۔جو ہونا تھا،وہ ہو گیا،اب کیا حاصل۔“
”نہیں،میں مطمئن ہونا چاہتا ہوں۔یہ باتیں میرے پاپا کی زندگی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔“رضا نے تیزی سے کہا ،تب بلقیس خاتون کتنی دیر خاموش رہی پھر بجھے ہوئے لہجے میں بولی توکہتی چلی گئی۔
وہ نرس تھی اور ان دنوں اسے نرسنگ کرتے ہوئے دو برس سے زیادہ ہو گئے تھے۔جب سلمان اشرف ان کی گلی میںاپنے دوست کے پاس آن ٹھہراتھا۔سلمان اشرف پر ان دنوں کوئی مقدمہ تھا۔وہ چھپنے کے لیئے اپنے شہر سے اُن کے شہر میں آ گیا تھا۔بلقیس خاتون کو وہ اچھا لگا اور وہ اس میں دلچسپی لینے لگی۔وہ ان دنوں اتنا امیر نہیں تھا تا ہم اس کی شخصیت زیادہ جاذب نظر تھی۔بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک آ ن پہنچی کہ انہیں شادی کر لینے کا احساس ہو گیا ۔مگر حالات ایسے نہیں تھے کہ ان کی شادی ہو سکتی۔سو کسی بھی متوقع گناہ سے بچنے کے لیئے انہوں نے یہی فیصلہ کیا کہ خاموشی سے نکاح کر لیا جائے۔بعد میں جب حالات سازگار ہو جائیں گے تو باقاعدہ اعلان کر دیا جائے گا۔ان کا نکاح ہو گیا۔وہ کچھ عرصہ یونہی رہے۔اس دوران بلقیس خاتون کے ہاں زاریہ پید ا ہونے والی ہو گئی۔پھر اچانک ایک دن سلمان اشرف کو وہاں سے نکلنا پڑا۔بلقیس خاتون نے اپنے گھر والوں کو بتا دیا اور وہ سلمان اشرف کا انتظار کرنے لگی۔دو برس کے بعد وہ واپس آ یا۔تب پتہ چلا کہ جب ان دونوں کا نکاح ہوا تھا اس وقت اس کی پہلے شادی ہو چکی تھی اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔بلقیس خاتون نے اسے اپنی قسمت کالکھا سمجھ کر قبول کر لیا۔تا ہم غلط بیانی کے باعث ا س نے سلمان اشرف سے قطع تعلق کر لیا۔یوں دن گذرتے گئے۔وہ اپنے شہر میں رہی اورسلمان اشرف اپنے شہر میں۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ دونوں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ایک دوسرے سے ملتے رہے ۔یہاں تک کہ دو برس قبل وہ یہاں اس شہر میں آکر آباد ہو گئے۔جس کی وجہ زاریہ کی تعلیم تھی۔اس سے پہلے کہ وہ زاریہ کے لیئے کچھ کرجاتے،وہ اچانک دنیا چھوڑ گئے۔”مجھے کسی سے کوئی گلہ نہیں ۔میری قسمت ہی ایسی تھی۔اب مجھے کسی شے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔زاریہ اپنے گھر کی ہو جائے۔اب بس یہی میری تمنا ہے۔اسے کسی بھی اچھے گھر میں رخصت کر نے لیے لیئے میرے پاس بہت کچھ ہے۔“بلقیس خاتون نے بڑے سکون سے کہا۔
”اتنا کچھ۔۔۔مطلب پاپا نے۔۔۔؟“رضا نے تیزی سے پوچھا۔
”نہیں ۔میں نے کہا نا۔تمہارے پاپا زاریہ کے لیئے کچھ نہ کر سکے۔اور نہ ہی کبھی ان کی طرف سے دیا ہوا قبول کیا ۔میں نرسنگ کرتی رہی ہوں۔میں اتنا کمایا ہے کہ باقی زندگی سکون سے بسر کر سکتی ہوں۔میں اب بھی چاہوں تو بہت کچھ کما سکتی ہوں۔اور پھر زاریہ ایک برس سے نجی کمپنی میں ملازمت کر رہی ہے ۔اتنا کما لیتی ہے کہ ہم دونوں کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے ۔“وہ اطمینان سے بولی۔
 ©”کس کمپنی میں ملازمت کر رہی ہے۔؟“رضا کے پوچھنے پر بلقیس نے کمپنی کا نام بتا دیا۔وہ اتنی مضبوط کمپنی تھی کہ ملازمین کو بہترین ادائیگی کر سکتی تھی۔تا ہم نجانے رضا کے دل میں ایسی کیا لہرابھری ۔اسے یہ سن کر اچھا نہیں لگا تھا کہ زاریہ وہاں کام کرے۔دونوں کے درمیان خاموشی آن ٹھہری تھی۔اس خاموشی کو بلقیس خاتون ہی نے توڑا۔
”ممکن ہے تمہیں جو میںنے بتایا ۔اس سے تمہیں شک وشبہات کا احساس ہو۔میری اس کہانی میںخامیاں اس لیئے معلوم ہوں گی کہ بہت ساری کڑیاں غائب ہیں۔لیکن ۔!مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں ہے۔مجھے تمہیں اطمینان دلانے کی یا اپنی کہانی سچ ثابت کرنے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔“
”دیکھیں۔!آپ کو خواہش ہو یا نہ ہو ۔لیکن میں اپنے پاپا کی زندگی سے جڑی ہر بات کو جاننا چاہتا ہوں۔کم از کم مجھے تو مطمئن کریں نا آپ۔۔۔“رضا کے لہجے میں ذرا سا غصہ جھلک رہا تھا۔
”رضا۔!میں بحث نہیں کرنا چاہتی ۔مگر ایک شرط پر تمہارا اطمینان۔۔۔“اس نے کہنا چاہا تو وہ بولا
”آپ کوئی بھی شرط رکھیں۔میں مانتا ہوں۔“
”تو سنو۔!میرے پاس سلمان کی چند چیزیں ہیں،جن سے ہو سکتا ہے ،تمہارا اطمینان ہوجائے۔نہ بھی ہو تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“وہ اطمینا ن سے بولی
”پاپاکی چیزیں۔۔مطلب۔۔؟“وہ تجسس سے بولا
”ہاں ۔!ان کی چیزیں ،میں لاتی ہوں۔“یہ کہہ کر وہ اٹھی اور اندر چلی گئی ۔کچھ دیر بعد جب وہ پلٹی تو اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا لیدر بیگ تھا۔وہ اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔”یہ لو۔!اس میںتمہارے پاپا کی وہ چیزیں ہیں۔جو میرے پاس نشانی کے طور پر رہ گئیںتھیں۔یہ بہر حال میرے لیئے تو اثاثہ ہیں۔تم انہیں لے جاﺅ۔کیو نکہ ان چیزوں کی تصدیق فقط تمہاری ماما ہی کر سکتی ہے۔“یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔رضا بڑی گہری نگاہوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔پھر بولا
”میں بہت جلد یہ چیزیں آپ کو واپس کر دوں گا۔“رضا نے کہا
”نہیں ،تم ان کے حقیقی وارث ہو۔انہیں لے جاﺅاپنے ساتھ۔جب وہ نہیں رہے تو اب ان چیزوںکی اہمیت نہیں رہی۔یہ میں تمہیں دیتی ہوں۔“یہ کہہ کر وہ یوں خاموش ہو ئی جیسے خود پر قابو پا رہی ہو۔پھر بڑے جذباتی لہجے میں بولی۔”رضا ۔!یہ ذہن میں رہے،میں جو تمہیں اطمینان دلا رہی ہوں اور یہ چیزیں۔۔سلمان کی بیوہ ثابت کرنے کے لیئے نہیں ہیں۔مجھے نہ جائیداد کی طلب ہے اور نہ یہ چاہوں گی کہ تم مجھے سلمان اشرف کی بیوہ کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرو۔بس شرط یہی ہے۔“
ان کے درمیان ایک بے نام سی خاموشی آن ٹھہری تھی۔تب رضا ہی نے کہا۔
”زاریہ ۔!میری بہن ہے ۔میں اب تک اس سے نہیں مل سکا،آپ اسے تو بلوائیں،میں اسے بات۔۔۔“
”اس سے مل کر تمہیں دکھ ہو گا۔وہ تم سے شدید نفرت کرتی ہے۔‘بلقیس خاتون نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا
”کیوں ۔؟وہ مجھ سے نفرت کیوں کرتی ہے۔“اس نے حیرت سے پوچھا۔
”جس بچے نے اپنا بچپن انتہائی تنگی اورتشنگی میں گذارا ہواور اسے احساس ہو کہ اس کے باپ کی اولاد عیش کر رہی سارا کچھ اس اولاد کے پاس ہے تو۔۔۔بس کیا بتاﺅں۔تم خود سمجھ سکتے ہو۔“اس نے جان چھڑانے والے اندا ز میں کہاتو رضا کو بہت افسوس ہوا۔پھر کافی دیر بعد بولا
”وہ گواہ، جو زندہ ہے ۔کیا آپ اس کے بارے میں بتا سکتی ہیں۔کیا میں اس نے مل سکتا ہوں۔“
”میں نہیں جانتی اب وہ کہاں ہے،چند سال پہلے تک وہ اپنے آبائی گھر میں رہتا۔اب نجانے کہاں ہو۔زندہ بھی ہے یا۔۔۔“وہ لاپروائی سے بولی۔پھر معلومات دینے لگی۔رضا نے غور سے سنا اور پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ واپس آتے ہوئے وہ بہت جذباتی ہو رہا تھا۔
ززز
زاریہ اور عاتکہ دونوں اپنے آفس کے سامنے والے ریستوران میں بیٹھی ہوئی لنچ کر رہی تھیں۔وہ دونوں ایک برس کی رفاقت میں بہت گہری سہیلیاں بن چکی تھیں۔پورے آفس میں یہ دونوں ہی تھیں جو الگ تھلگ بیٹھ کر اپنے رازونیاز کر لیتی تھیں۔انہیں دفتر کے باقی لوگوں سے کوئی سروکار نہیں ہوتا تھا۔اس وقت وہ لنچ کے بعد سوڈا پی رہی تھیںجب زاریہ نے پوچھا۔
”کیا بات ہے جو آج تم نے بڑے اہتمام سے مجھے لا کر یہاں لنچ کروایا؟“
تب عاتکہ نے اس کے چہرے پر غور سے دیکھتے ہوئے گہری سنجیدگی سے پوچھا۔”زاریہ ۔!میں چند دنوں سے نوٹ کر رہی ہوں تم بہت الجھی ہوئی اور بے چین سی ہو۔کیا بات ہے ؟کوئی مسئلہ ہے؟“
”مجھے خود سمجھ میں نہیں آ رہا ہے عاتکہ۔میرے ساتھ کیا ہورہا ہے۔مجھے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے میں ٹکڑوں میں بٹ گئی ہوں۔دل کی اپنی ضد ہے اور ذہن اپنی باتیں منوا رہاہے۔حالات کی نشاندہی ایک الگ سمت میں ہے اور میری خواہشیں مجھے کچھ اور ہی کرنے پر مجبورکر رہی ہیں۔میںحالات کے ایسے دوراہے پر کھڑی ہوں،جہاں مجھے خود سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ میں کیا کروں۔“زاریہ نے الجھے ہوئے انداز میں عجب سے لہجے میںکہا۔
”اس الجھن کی وجہ فیصل تو نہیں ہے۔اس سے کوئی بات۔۔۔“عاتکہ نے کہتے ہوئے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
”نہیں،وہ نہیںہے۔۔“یہ کہتے ہوئے اس نے نفی میں سر ہلایا پھر ایک طویل سانس لے کر بولی۔”تمہیں تو معلوم ہے وہ بے چارہ اپنا حال دل کہہ کر میری طرف سے اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ میں اس کی محبت کا جواب محبت سے دوں لیکن۔۔۔“
”لیکن کیا؟“وہ تجسس سے بولی
”یار مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ اگر مجھ سے محبت کرتا ہے تو اس میں میرا کی دوش،نہ میں اسے محبت کرنے کا کہتی ہوں اورنہ منع کرتی ہوں۔اس کی مرضی ،لیکن اگر مجھے اس سے محبت نہیں ہے تو میں کیوں مجبور ہو جاﺅں“
”دیکھو۔!ایک لڑکی کی سب سے بڑی خواہش یہ ہوتی ہے کہ کوئی اسے ٹوٹ رک چاہے۔وہ تمہیں ایسے ہی چاہتا ہے تمہیں اور کیا چاہیے۔وہ ہینڈ سم ہے،اچھے خاندان سے ہے۔اس کی۔۔۔“عاتکہ یوں بول رہی تھی جیسے وہ فیصل کی وکالت کر رہی ہو۔اس پر زاریہ نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
”لیکن وہ میرا آئیڈیل نہیںہے۔“اس کا لہجہ یوں تھا جیسے بکھرتے ہوئے اسے اپنا آپ سمیٹنا اچھا نہ لگ رہا ہو۔
”مجھے تمہاری آ ج تک سمجھ نہیں آئی زاریہ۔یہ تمہاری خوش قسمتی ہے کہ اس نے تجھے پسند کیا۔میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ ایک اچھا شوہر ثابت ہو گا۔سو طرح کی خوبیاں ہیں اس میں۔یہ تم بھی جانتی ہو اور تم ۔۔۔تم کسی آئیڈیل کی تلاش میں ہو۔خوابوں کی دنیا سے باہر نکل آﺅ۔تمہارے سامنے جو دنیا ہے ،وہی حقیقت ہے ۔کسی آئیڈیل کا مل جانایہاں نا ممکن ہے ۔“وہ اسے سمجھاتے ہوئے کہتی چلی گئی
”نہیں عاتکہ۔میں نہیں مانتی ۔اس دنیا میں بھی آئیڈیل مل جاتے ہیں۔میں نے دیکھا ہے اپنا آئیڈیل ۔“وہ پر یقین لہجے میں بولی تو عاتکہ حیران رہ گئی۔
”یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟“وہ سرسراتے لہجے میں بولی
”میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔اگر یہی بات تم چند دن پہلے سمجھانے کی کوشش کرتی تو ممکن ہے میں تمہاری بات مان لیتی مگر اب نہیں۔میںنے اپنا آئیڈیل دیکھ لیا ہے اور بس۔!اب اسے پانا ہے ۔۔“اس نے دور خلاﺅں میں گھورتے ہوئے کہا ۔اس پر عاتکہ کتنی دیر خاموش رہی۔پھر اجنبی سے لہجے میں بولی۔
”زاریہ ۔!اتنی رفاقت کے باوجود ،آج تم پہلی بار مجھے اجنبی سی لگی ہو۔کہاں دیکھ لیا تم نے اپنا آئیڈیل ؟“
”بس دیکھ لیا۔اور جب اسے پالوں گی نا۔۔تو ساری دنیا کو معلوم ہو جائے گا۔یہ وعدہ رہا عاتکہ ،سب سے پہلے میں تمہیں بتاﺅں گی۔۔“یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے نارمل ہو گئی ۔تب عاتکہ کو یوں لگا جیسے زاریہ کی ذہنی صحت پر اسے شک ہو گیا ہو۔اس نے رسان سے کہا۔
”زاریہ ۔!تم مجھے بہنوں کی طرح پیاری ہو ۔میں اب بھی تمہیں سمجھاتی ہوں کہ تم خواب در خواب میں نہ گرو۔ورنہ حقیقی دنیا کی طرف لوٹتے ہوئے ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جاﺅ گی۔“
”پھر کیا ہوا ۔اگر میرے مقدر میں یہی لکھا ہے تو یونہی سہی۔تم شاید اس تجربے سے نہیں گذری ہو۔وہ خواب جو تم کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے برسوں گذار دو۔۔اپنے آئیڈیل کی محبت تمہاری رگوں میں خون کی مانند شامل ہو جائے۔اور وہ خواب اچانک تمہارے سامنے مجسم ہو جائے تو کیا تم اس کی محبت اپنے وجود سے نوچ کر پھینک سکتی ہو۔“وہ خواب ناک لہجے میں کہتی چلی گئی۔جس پر عاتکہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔اس لیئے حیرت زدہ لہجے میں پوچھا
”کون ہے وہ؟“
”کہا نا،ابھی نہیں۔میں اسے اپنے خوابوں طرح چھپاکر رکھنا چاہتی ہوں۔“اس نے پر اسرار لہجے میںکہا پھر چونکتے ہوئے بولی۔”ناراض مت ہونا۔ہم سب کھلی آنکھوں سے دیکھے گئے خواب کسی کو بتانے کی ہمت نہیں کر سکتے ۔کیونکہ ان خوابوں میں ہماری پوری ذات عریاں ہو جاتی ہے۔اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو،سو جانے سے پہلے جو تم خواب دیکھتی ہو۔وہ بتا سکتی ہو کسی کو۔۔؟“
”مم۔۔۔مجھے۔۔۔سمجھ نہیں ۔۔ہم اس موضوع پر پھر بات کریں گے۔لنچ ٹائم کب کا ختم ہو گیا ہے آﺅ۔“عاتکہ نے پہلے ریسٹ واچ پروقت دیکھا۔پھر میز پر پڑی اپنی چیزیں سمیٹتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی۔زاریہ بھی اٹھی اور اس کے ساتھ چل دی۔دونوں اپنی اپنی جگہ الجھی ہوئی تھیں۔
ززز
رضا کو اپنے پاپا کے بزنس بارے سمجھتے ہوئے ایک ماہ سے زیادہ وقت گذر گیا تھا۔کس کو کیا دینا ہے اورکہاں سے کتنا لینا ہے ۔اس کی تفصیل کے لیئے دیگر سٹاف کے ساتھ فیض الدین نے اس کی بھر پور مدد اور رہنمائی کی تھی۔جائیداد کے معاملات چھیڑنے کے لیئے اسے وقت ہی نہیں ملا تھا۔اس کازیادہ تر وقت آفس ہی میں گذر جاتا۔لندن والے کاروبار بارے وہ پوری طرح مطمئن تھا۔ وہ سب اس کے بزنس پارٹنر نے سنبھال لیا تھا۔وہاں سے اچھی خبریں مل رہی تھیں،بظاہر وہ پر سکون تھا لیکن پاپاکے بارے انکشافات نے اس کے اندر ہلچل مچا دی ہوئی تھی۔وہ اسے جلد از جلد حل کر لینا چاہتا تھا۔اس دن رضا کی سامنے والی نشست پر فیض الدین بیٹھا کاغذات میں الجھا ہوا تھا۔اس نے کافی منگوائی اور آہستگی سے بولا
”فیض صاحب۔!چھوڑیں یہ کام۔میں آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“
”جی کہیں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے فائل بند کی اوراس کی جا نب متوجہ ہو گیا۔رضا نے بلقیس خاتون سے ہونے والی ملاقات بارے بتا کر اس گواہ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔تو فیض نے کہا۔”تو پھر مل لی اس سے۔ آپ وہ ایڈریس مجھے دیں میں تلاش کروا لیتا ہوں۔“
”ہاں۔!آپ ایسا ہی کریں۔“یہ کہ کر اس نے فیض الدین کو معلومات دے دیں۔
چوتھے دن رضا اور فیض الدین اس گواہ کے پاس تھے۔وہ گواہ ہسپتال میں اپنی زندگی کے آخری سانس گن رہا تھا۔اس نے بڑے غور سے رضا کو دیکھا اور پھر ان کی آمد کا مقصد جان کر بولا
”اچھا۔تم ہو سلمان نے بیٹے۔ہاںیہ سچ ہے کہ تمہارے باپ نے بلقیس سے شادی کی تھی۔شادی کیا تھی۔بس یار مجبوری میںنکاح کیا تھا دونوں نے۔۔پسند کرتے تھے ایک دوسرے کو۔۔تب سلمان ہمارے پاس ہی ادھر رہتا تھا۔بس پھر وہ اپنی مجبوری میں پھنسا رہا اور وہ اپنی ضدپر اڑی رہی۔سلمان بے چارہ چلا گیا۔ہم نے بھی چلے جاناہے۔وہ بہت پیار کرتی تھی تمہارے باپ سے ۔۔مگر ہے بڑی انا والی۔۔۔“وہ اپنی رو میں پرانی یادیں کہتا چلاگیاتھا۔شام تک وہ واپس اپنے شہر لوٹ آئے۔اس گواہ نے بہت سی پرانی باتیں بھی بتائیں تھیں۔رضا تمام راستے وہی سوچتا رہا تھا۔ائیرپورٹ سے گھر کی طرف جاتے ہوئے اس کا دل بہت اداس تھا۔وہ اپنے پاپا کے بارے میں یقین کرنا چاہتا تھا۔وہ ہو گیا تھا۔لیکن اسے اب پل صراط کے جیسا مرحلہ درپیش تھا۔اسے اب سارا کچھ اپنی ماما سے کہنا تھا۔وقت آن پہنچا تھا ،اب وہ اس وقت سے نگاہیں نہیں چرا سکتا تھا۔
ڈنر کے بعد وہ اپنی ماما کو ڈرائینگ روم میں لے کر بیٹھ گیا۔اس کے پاس بلقیس خاتون کا دیا ہوا بیگ تھا۔کچھ دیرادھر ادھر کی باتوں کے بعد اس نے عام سے لہجے میں کہا
”ماما۔!اگر آپ کو یہ معلوم ہو کہ پاپا نے دوسری شادی بھی کر رکھی تھی تو آپ کا ردعمل کیا ہو گا۔“
”کچھ بھی نہیں ۔کیونکہ مجھے یقین ہے ،انہوں نے دوسری شادی نہیں کو ہوگی۔“شبانہ بیگم نے اطمینان سے کہا۔
”وہ آپ سے چھپا بھی سکتے تھے؟“رضا سوالیہ انداز میں بولا
”تم عورت کو نہیں سمجھتے بیٹا۔اندازہ ہو جاتاہے ۔خیر ۔معاملہ کیا ہے۔؟“
تب رضا نے قبرستان میں ہونے والا واقعہ پوری تفصیل سے بیان کر دیا۔وہ ایک ایک لفظ غور سے سنتی رہیں۔پھر بولیں۔
”اگر اس عورت نے اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے تو اس کے پاس ثبوت بھی ہو گا۔“شبانہ بیگم نے سکون سے پوچھا۔
”ہاںہے۔۔“رضا نے کہا اور بیگ میںموجود ساری چیزیں اپنی ماما کے سامنے ڈھیر کر یں۔پھر اس کے ساتھ ہی بلقیس خاتون کے ساتھ ہونے والی کا احوال سنا دیا۔سب کچھ سن کر ماما نے گہرا سانس لیا اورپھر بولیں۔
”یہ سچ ہے بیٹا کہ تمہارے پاپا ان دنوں مصیبت میں مبتلاہوئے تھے۔جب تمہیں پیدا ہوئے چند ماہ ہی ہوئے تھے۔ان پر غبن اور فراڈ کا الزام تھا جو ان کے بزنس پارٹنر نے ان پر لگا دیاتھا۔وہ ادھر ادھر چھپتے پھرتے رہے تھے۔بڑے سخت دن گذارے تھے انہوں نے۔بعد میں تمہارے پاپا سچے ثابت ہوئے۔جس شہر اور جگہ کا نام تم بتا رہے ہو۔تمہارے پاپا نے وہاں بھی تھوڑا وقت گذارا ہے۔“
”اور یہ چیزیں۔؟“رضا کا دماغ انہی میں اٹکا ہوا تھا۔
”یہ خط تمہارے پاپا ہی کے لکھے ہوئے ہیں۔اور یہ خط تو میرا ہے جو میںنے تمہارے پاپا کو لکھا تھا۔یہ کتابیں اور ان پر دستخط ،یہ انہی کے ہیں۔یہ شرٹ ان کی ہے جو میں نے بنوائی تھی۔یہ ان کے نام والا سگریٹ کیس اور لائیٹر ۔۔۔یہ فرانس سے لیا تھا۔میںساتھ تھی اس وقت ۔لیکن یہ تو بہت عرصے بعد خریدا گیا تھا۔اور یہ تازہ تصویر۔۔“وہ کہتے ہوئے رک گئیں۔
”یہ ادھیڑ عمر بلقیس خاتون ہے۔یہ دائیں طرف زاریہ ہے اور درمیان میں پاپا۔۔تصویر میں پس منظر تو ادھر ہمارے شہر ہی کا ہے ۔وہ بعد میں بھی ملتے رہے ہیںان سے۔یہ دونوں پچھلے دو برس سے ادھر ہیں۔یہ تصویر یہی بتا رہی ہے۔۔“رضا نے تفصیل سے کہا تو شبانہ بیگم سوچتے ہوئے بولیں۔
”رضا۔!اس عورت کو جائیداد سے کوئی سروکار نہیں اور وہ اپنا تعلق بھی ثابت کر رہی ہے ۔تم اس گواہ سے ملے ہو۔۔“
”ہاں۔!آج ہی ملا تھا۔اس نے بھی تصدیق کر دی تھی۔“رضا نے اپنی ماں کے چہرے پردیکھتے ہوئے کہا ،جہاں سکون تھا۔
”تو پھر کہتے ہو تم؟“وہ دھیرے سے بولیں۔
”ماما۔!ثبوت اور شواہد تصدیق کر رہے ہیں کہ پاپا نے شادی کی ،بلقیس خاتون ان کی دوسری بیوی اور زاریہ ان کی بیٹی یعنی میری بہن ہے۔آج نہیں توکل سب کویہ معلوم ہو جائے گا ۔اور۔۔۔“
”دنیا کی فکر چھوڑو،اپنی کہو۔کیا کہنا چاہتے ہو ؟“شبانہ بیگم نے سنجیدگی سے کہا۔
”ماما۔!دو ہی راستے ہیں۔ایک یہ کہ انہیں یکسر نظر انداز کر دیا جائے ۔فرض کریں اگر وہ جائیداد وغیرہ کے مقدمہ وغیرہ بھی کرتی ہیں تو پاپا کے نام کا حوالہ آئے گا۔جیسے ہم تسلیم ہی نہیں کریں گے۔“رضا نے سمجھایا۔
”اوردوسرا رستہ؟“شبانہ بیگم نے پوچھا۔
”ہم انہیں تسلیم کر لیں اور اگر آپ کی اجازت ہو تو انہیں اس گھر میں لے آئیں ۔اور پھر جو ان کا حق بنتا ہے وہ انہیں دے دیں۔زاریہ محض بلقیس خاتون کی بیٹی نہیں،سلمان اشرف کی بھی ہے۔اور رضا سلمان کی بہن۔ اسے معاشرے میں وہی عزت اور مان ملنا چاہئے جو سلمان اشرف کی بیٹی اور رضا کی بہن کا ہو سکتا ہے ۔“رضا نے پر جوش انداز میں اپنی بات ختم کی تو شبانہ بیگم چند لمحے خاموش رہیںاور پھر بڑے گھمبیر لہجے میں بولیں۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن ،اگر میںکہوں کہ چند دن صبر کرو اور ان سارے معاملات کو اچھی طرح دیکھو۔مجھے معلوم ہے کہ تمہارے پاپا نے یہ جائیداد کس طرح بنائی ہے ۔اگر چہ وہ وراثت میںکچھ حاصل نہیں کر سکتے ۔لیکن آخرت میں ہماری جوابدہی ہے۔جو ان کا حق بنتا ہے ۔وہ انہیں ضرور دو۔کیونکہ انہیں جو کچھ ملنا ہے ۔وہ تم اپنی ذاتی جائیداد میںسے دو گے جو تمہارا باپ تمہارے لیئے چھوڑ گیا ہے۔وہ یہاں آکر رہیں ،مجھے کوئی اعتراض نہیں۔بس میں یہ چاہتی ہوں کہ جہاں تم رہو۔میںبھی وہیں رہوں۔مجھے اپنے بیٹے کے ساتھ رہنا ہے ۔یہی میری خواہش ہے ۔زندگی کے یہ آخری پل میں تمہارے ساتھ گذارنا چاہتی ہوںمیرے بیٹے۔“شبانہ بیگم نے انتہائی جذباتی انداز میںکہا۔آخری لفظ کہتے ہوئے وہ روہانسی ہو گئی تھی۔رضا کا دل بھر آیا تھا۔
”ماما ۔!کیا آ پ نہیں سمجھتی ہیں کہ میں آپ کے ساتھ رہنے کی کتنی بڑی خواہش اپنے دل میں رکھتا ہوں۔خیر۔!میںنے یہی پلان کیا ہوا ہے میں آپ کو لے کر لندن چلے جانا ہے ۔یہاں بزنس چلتا رہے گا۔یہ تو ہونا ہی ہے ۔ فی الحال تو بلقیس خاتون کو مناناہے ۔اس لیئے جیسا آپ کہتی ہیں ویساہی ہو گا۔“
”زاریہ کیا کہتی ہے ؟“ماما نے پوچھا۔
”میری ابھی تک اس کے ملاقات نہیں ہو سکی،بلکہ ایک لفظ تک کا تبادلہ ہمارے درمیان نہیں ہوا۔وہ کیا سوچ رہی ہے مجھے قطعاًمعلوم نہیں۔میں ایک دو دن میں ہی اس سے ملوں گا۔“وہ سوچتے ہوئے لہجے میںبولا
”جو تمہارا دل چاہے کرو میرے بیٹے ۔یہ سارے معاملات جلد از جلد ختم کرو،تا کہ میں تمہاری دلہن لانے کا ارمان پورا کر سکوں۔“شبانہ بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔اس کا لہجہ ممتا میںبھیگا ہوا تھا۔
”معاملات تو چلتے رہتے ہیں۔آپ نے جو کرنا ہے کریں۔جتنے ارمان نکالنے ہیں نکال لیں۔“اس نے خوشی سے معمور لہجے میں کہا۔تو شبانہ بیگم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔جس سے رضا کا دل خوشی سے بھر گیا۔
رضا کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کی ماما اتنی جلدی مان جائیں گی۔لیکن جب اس نے حالات کا جائزہ لیا تو ساری بات اس کی سمجھ میں آ گئی ۔وہ بس اپنے بیٹے کی خوشی میں خوش تھیں۔سو ایک دن اس نے فیض الدین سے کہہ دیا۔
”فیض صاحب۔!میرے خیال میں اب ہمیں پاپا کی جائیداد والامعاملہ بھی حل کر لینا چاہیے۔“
”جیسے آپ کی مرضی۔میرا نہیں خیال کہ اس میں کوئی الجھن ہے۔وراثت تو آپ اور بیگم صاحبہ کے نام منتقل ہو نی ہے ۔اور بس،ہماری کمپنی کے وکیل چند دنوں میں یہ مکمل کر لیںگے۔“فیض نے عام سے انداز میں کہا
”ٹھیک ہے ،لیکن بلقیس خاتون اور زاریہ کو اتنا ہی ملنا چاہیئے جتنا ان کا حق بنتا ہے ۔آپ فرض کر لو کہ وہ بھی وراثت میں حصے دار ہیں۔“رضا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”وہ قانونی یا وراثتی حقدار نہیں ہیں۔اس لیئے قانونی طور پر جائیداد آپ کے نام ہو گی۔پھر آپ جو چاہیں انہیں دے دیں۔“فیض الدین نے وضاحت کی۔
”وہ صورت کوئی بھی ہو۔اس جائیداد اور اثاثوں میں جو شرعی حق بنتا ہے ۔وہ انہیں پورا پورا ملنا چاہئے۔آپ کاغذات تیار کروائیں۔میںبلقیس خاتون سے بات کر لیتا ہوں۔“رضا نے حتمی انداز میں کہا۔
”جی۔چند دن میں یہ سارے قانونی مراحل طے ہوجائیں گے۔میںکاغذات تیار کروا دیتا ہوں۔“فیض نے کہا تو رضا بڑی حد تک مطمئن ہو گیا۔اب اسے فقط بلقیس خاتون کو منانا تھا کہ وہ ان کے ساتھ آ کر رہے۔ لیکن ایک چبھن اب بھی اس کے دماغ میں تھی کہ زاریہ اس سے بات کیوں نہیں کرتی۔کبھی اس نے ملنے کی خواہش نہیں کی؟وہ یہ سب سوچتا،پھر خود ہی اپنے آپ کو یہ جواب دے کر مطمئن کر لیتا کہ چند دن بعد جب میں انہیں ان کا حق دے دوں گا تو وہ سمجھ جائے گی۔رضا اس کا بھائی ہے کوئی غیر نہیں۔تب تک اگر وہ نہیں بھی بات کرتی تو کوئی مسئلہ نہیں۔
رضا چند دن تک اپنی کیفیات کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا تھا۔اس کے لیئے پاپا کی شخصیت آئیڈیل رہی تھی۔اگرچہ اس کا زیادہ وقت والدین سے دور رہتے ہوئے گذرا تھا اور وہ اپنے پاپا کو اتنے قریب سے بھی نہیں دیکھ سکاتھا۔لیکن پاپا کے بارے میں انکشافات نے اس کے اندر ہلچل مچا دی تھی۔نہ چاہتے ہوئے بھی وہ انہی کے بارے میں سوچنے لگتا۔اس کہانی میں موجود ایک ایک کردار کا تجزیہ کرنے بیٹھ جاتا۔کبھی کبھی تو اسے پاپا کی دوسری شادی محض اس لیئے اچھی نہ لگتی کہ انہوں نے یہ سب راز میں رکھا۔اگر وہ اعلانیہ شادی کر لیتے تو اسے اتنا زیادہ دکھ نہ ہوتا۔اور پھر رضا کو کبھی کبھی اپنے پاپا پر ڈھیروں پیار آ جاتا کہ ہمیں دکھ نہ دینے کے باعث انہوں نے یہ سب چھپائے رکھا۔اسی جمع تفریق میں آخر کار اسے پاپا حق بجانب لگتے۔دوسری شادی کرنا کوئی جرم نہیں،انہوں نے ضرورت محسوس کی اور کر لی۔پھر بلقیس خاتون کا اطمینان اس کی سمجھ سے بالا تر تھا۔زندگی کے معاملات جیسے بھی رہے ہوں۔دنیا داری کی ضرورت اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے۔ممکن ہے پاپا ان کے لیئے اتنا کچھ کرگئے ہوں کہ اب وہ مزید ضرورت محسوس نہ کرتی ہو۔کیا یہ اطمینان اور قنا عت پسند حقیقت ہے،محض دکھاوا ہے یا پھر کوئی مجبوری؟اس کے سامنے سوالیہ نشان تن جاتے اور اس کی سوچیں ٹھٹک جاتیں۔تب خیال نئے راستے بنا لیتا۔
وہ اکلوتا تھا۔اس نے بہن بھائی نہیں دیکھے تھے۔قدرت نے اگر اسے ایک بہن دے دی تھی تو اسے اپنی بہن کو پوری عزت اور مان دینا چاہئے۔اس کی ذاتی جذباتی خواہش اپنی جگہ ،لیکن زاریہ کی رگوں میں اس کے باپ کا خون دوڑ رہا تھا۔سلمان اشرف کی بیٹی بارے آج اگر چند لوگوں کومعلوم ہے تو کل جب بات پھیلے گی،تب کیا ہوگا؟جس طرح وہ خود پاپا کی دوسری شادی بارے سن کر ہل گیا تھا۔جذباتی وابستگی کے باوجود شک میں تھا۔جبکہ حالات کی کڑیاں بھی درمیان سے غائب تھیں۔ایسے میں بات پھیلی تو کتنے رنگین افسانے منظر عام پر آکر پھیل جاتے تھے۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ پاپا کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد ،ان کی ذات منفی تاثر کا محور بن جاتی ۔لوگوں کو بحث کے لیئے چٹخارے دار موضوع مل جاتا۔وہ اور اس کا خاندان بد گمانی سے لے کر جگ ہنسائی کے گرداب میں پھنس جاتا۔زاریہ جس کمپنی میں ملازمت کرتی تھی ۔وہ ان کے پھیلے ہوئے بزنس کے مقابلے میں چھوٹی تھی۔جیسے ہی سلمان اشرف کاحوالہ زاریہ کی ذات کے ساتھ جڑتا تو اس کے تعارف کا حوالہ یہی بنتا۔زاریہ کی ذات پر شک کیا جاسکتا تھا۔اس شک کا مطلب اس کے باپ کی کردار کشی تھی۔رضا سلمان کی بہن کا شک زدہ وجود،وہ کس کھاتے میںرکھتا،ایک دم سے رضا کو اپنے اردگرد کا ماحول زہر آلود دکھائی دینے لگتا۔
زاریہ کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ متضاد خیالات میں گھر جاتا۔وہ ایک بار دکھائی دینے کے بعد پھر نظر نہیں آئی تھی۔کیا وہ مجھ سے ملنا پسند نہیں کرتی یا اس نے دل میں ایک بھائی کے لیئے جذبات ہی نہیںہیں؟یہ سوال ایسی چبھن کی مانند تھے جواس کے دماغ میں بے چینی بھر دیتے ۔فطری وابستگی کا احساس اور جذباتی خواہش کے علاوہ جگ ہنسائی سے بچنے کے لیئے اس مسئلے کا سیدھا سادھا حل یہی تھا کہ وہ بلقیس خاتون سمیت زاریہ کو اپنے گھر میں لے آئے۔انہیں وہ عزت اور مان دے جو ان کا حق ہے۔لیکن یہاں بھی وہ حتمی فیصلہ نہیں کر سکتا تھا۔ان دونوں کے ذکر پر اس کی ماما خاموش ہو جایا کرتی تھی۔جیسے وہ انہیں پسند نہ کرتی ہو۔یہ ایک فطری ردعمل تھا۔دوسری جانب بلقیس خاتون کا رویہ لا پرواہی والا تھا۔یہ معاملہ کیسے حل ہو گا؟وہ خود نہیں جانتا تھا۔وہ محض سوچ کر رہ جاتا۔
اس دن عاتکہ اپنی میز پر بڑی پریشان اور افسردہ بیٹھی ہوئی تھی۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔وہ کئی بار دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں موجود فیصل سے بات کرنے کے بارے میں سوچ چکی تھی۔ مگرہر بار فطری جھجک اسے روک لیتی۔اسی کشمکش میں لنچ ٹائم ہو گیا۔اس نے بے دلی سے اپنا لنچ بکس لیاہی تھا کہ اس کا سیل فون بج اٹھا۔دوسری طرف فیصل ہی تھا۔چند رسمی جملوں کے تبادلے کے بعد اس نے کہا
”کیا خیال ہے عاتکہ ،آج لنچ سامنے والے ریستوران میں نہ لیں۔“
”ہاں،میرابھی یہی خیال ہے ۔میں زاریہ کے بارے میں بات کرنا چاہ رہی تھی۔“اس نے ہمت کر کے کہہ دیا۔
”تو پھر آﺅ۔میں وہیں جا رہا ہوں۔“ا س نے کہا اور فون بند کر دیا۔دونوں تقریباً ایک ساتھ ہی ریستوران میں پہنچے ۔وہ رش سے ہٹ کر اوپن ائیر میں چھتری تلے آ بیٹھے تو عاتکہ نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”میں آج صبح ہی سے ملنا چاہ رہی تھی۔۔وہ زاریہ۔۔۔ 
”ہاں آج تیسرا دن ہے وہ نہیں آئی،اس کا سیل فون بھی بند ہے ۔خیریت تو ہے نا۔“اس نے بے تابی سے پوچھا۔
”مجھے اس کے بارے میںمعلوم نہیں لیکن۔۔میں پریشان ضرور ہوں۔“وہ بولی
”وہی تو میں پوچھنا چاہ رہا ہوں۔“اس نے انتہائی بے تابی سے پوچھا۔جس پر وہ چند لمحے سوچتی رہی ،پھر بولی
”پرسوں جب وہ نہیں آئی تو میں نے اسے فون کر کے نہ آنے کی وجہ پوچھی،اس نے کوئی خاص وجہ نہیں بتائی،لیکن وہ پریشان تھی۔الجھی ہوئی تو وہ کئی دنوں سے تھی۔عجیب اوٹ پٹانگ باتیں کرتی رہتی تھی وہ۔پتہ نہیں کیا معاملہ چل رہا تھا اس کے ساتھ۔خیر اس نے کوئی وجہ بتائے بغیر فون بند کر دیا۔پھر کچھ دیر بعد اس کا پیغام(ایس ایم ایس) میرے سیل فون پر آ گیا۔۔
”کیا تھا وہ پیغام۔“اس کی بے تابی حد درجہ بڑھ گئی تھی۔
”یہی کہ اگر میرے بارے میں کوئی غیر معمولی بات محسوس کرو فوراً اس نمبر پر بتا دینا۔وہ کسی رضا سلمان نامی شخص کا تھا۔“
”تمہیں معلوم ہے یہ کون شخص ہے۔“اس نے ٹٹولنے والے انداز میں پوچھا۔
”نہیں ،میں نہیں جانتی ۔اور نہ ہی پہلے کبھی اس کا ذکر کیا تھا۔“اس نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔پھر اپنا سیل فون نکال کر بولی۔”وہ پیغام میں تمہیں فاروڈ کر رہی ہوں۔“
”کون ہو سکتا ہے وہ شخص؟“اس کی سوئی وہیں اٹک گئی 
”میں نے اسی وقت زاریہ سے پوچھنا چاہا تھا مگر اس وقت میں مصروف تھی ۔میں نے سوچا ،بعد میں معلوم کرتی ہوں پھر اس کے بعد اس کا سیل فون ہی آف جا رہاہے۔“
”کیا خیال ہے پھر،اس کے زیادہ غیر معمولی بات کیا ہو گی۔وہ تین دن سے غائب ہے ،سیل فون بند ہے ۔کوئی رابطہ ،کوئی اتا پتہ نہیں“اس نے تشویش سے کہا۔
”میں تم سے یہی تو مشورہ کرنا چاہ رہی تھی کہ کیا میں اس نمبر پر اطلاح دے دوں یا ہمیں کچھ اور کرنا چاہیے۔“
”تم۔۔۔اس نمبر پر اطلاع دو۔ابھی اور اسی وقت۔دوسرا،ہمیں خود اس کے بارے میں پتہ کرنا چاہیے۔“اس نے حتمی انداز میں کہا۔ 
”میں ابھی اس نمبر پر کال کرتی ہوں۔“یہ کہہ کر وہ کال ملانے لگی،چند لمحوں میں اس کارابطہ ہو گیا۔اس نے اپنا تعارف کرا کے زاریہ کے بارے میں بتا دیا۔فون بند ہوتے ہی فیصل نے پوچھا۔
”تمہیں اس کے گھر بارے معلوم ہے نا۔۔آﺅ چلیں۔اس کا پتہ کرتے ہیں۔“
”آفس ٹائم میں تو ممکن نہیں ۔۔بعد میں چلتے ہیں۔“اس نے بہانہ بنا کر ٹال دینا چاہا تو وہ فوراً بے چین ہوتے ہوئے بولا۔
”تم فکر نہ کرو۔۔باس کو اعتماد میں لے کر باقی وقت کی چھٹی میں لے لیتا ہوں۔یہ میری ذمے داری ہے اور پھر تجھے ڈراپ بھی کر دوں گا۔“اس پر عاتکہ نے چند لمحے سوچا اور پھراثبات میںسر ہلا دیا۔
دوپہر ڈھلنے والی تھی جب وہ زاریہ کے گھر کے سامنے پہنچے ۔عاتکہ نے گاڑی سے اتر کر بیل دی اور انتظار کرنے لگی،پھر کافی دیر تک بیل دینے کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا، جیسے گھر میں کوئی مکین نہ ہو۔فیصل بھی گیٹ تک آ گیاتھا تو عاتکہ بڑبڑاتے ہوئے بولی 
”کہیں وہ اچانک چلے نہ گئے ہوں۔؟“
”میرے خیال میں کوئی گڑبڑ ہے ضرور۔۔۔“وہ یوں بولا جیسے اسے کسی گڑبڑ کا یقین ہو۔
”اب کیا کیا جائے۔“وہ گبھراتے ہوئے بولی۔
اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا ایک قیمتی گاڑی ان کے پاس رکی،اس میں سے رضا باہر آیا۔اس کے ساتھ دو لوگ اور بھی تھے۔وہ ذرا فاصلے پر کھڑے رہے۔جبکہ ان کے درمیان تعارف کا مرحلہ طے ہو گیا۔اور صورت حال بھی واضح ہو گئی۔
”میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا ہوں۔زاریہ اور اس کی والدہ دونوں کا فون بند ہے۔“رضا نے کہا اور ساتھ آئے ہوئے آدمیوں سے کہا کہ وہ گیٹ کا لاک توڑ دیں،
”ایسے کیسے ہم کسی کے گھر کا تالہ توڑ سکتے ہیں۔یہ غیر قانونی ہے اور۔۔۔“
”میں سب سنبھال لوں گا ۔آپ نے فکر ہو جائیں۔میںنے پولیس کو بھی اطلاع کر دی ہوئی ہے۔“رضا نے پر اعتماد لہجے میں کہا 
تالہ تڑوا کر رضاگھر کے اندر چلا گیا۔فیصل بڑھا تو عاتکہ کو بھی ناچار اندر جانا پڑا۔اندر پر ہول سناٹا تھا۔وہ ڈرائیگ روم میں گئے۔وہاں کوئی نہیں تھا مگر بکھرا ہوا سامان کچھ اور ہی سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔وہ ایک کے بعد ایک کمرہ دیکھتے ہوئے زاریہ کے کمرے میں جا پہنچے۔جہاں کا منظر دیکھ کر وہ تینوں ہی دم بخود ہو گئے۔
زاریہ قالین پر دائیں کروٹ بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔اس کے ہاتھ او رپیر نائیلون کی رسی سے بندھے ہوئے تھے۔سوجے ہوئے ہونٹ ،چہرے پر خراشیں او کنپٹی کے پاس سے خون بہہ کر سوکھ گیا تھا۔ہلکے کاسنی رنگ کا لباس کہیں سے مسلا ہوا اور کہیں سے پھٹا ہوا تھا۔پہلی نگاہ میں ہی اندازہ ہو رہا تھا کہ اس پر اچھا خاصا تشدد کیا گیا ہے۔اس وقت ان تینوں کے ذہن میں ایک جیسا سوچ رہے تھے کہ وہ زندہ بھی ہے یا سامنے بے جان جسم پڑا ہے۔رضا نا قابل یقین انداز میں اس کی طرف یوں دیکھ رہا تھا جیسے وہ شدید ترین دکھ کی کیفیت سے گذر رہا ہو۔جبکہ فیصل لمحہ بھر دیکھنے کے بعد بے تابانہ اس کی طرف بڑھا اور نبض ٹٹولنے لگا۔چند لمحوں میںکئی رنگ اس کے چہرے پر سے گذر گئے۔پھر اچانک خوشی بھرے لہجے میں تھرتھراتے ہوئے بولا۔
”زندہ ہے۔۔زاریہ زندہ ہے۔۔عاتکہ پانی لاﺅ۔۔“
اس کے یوں کہنے پر وہ دونوں جیسے ہوش میں آگئے۔رضا نے فوراً اس کی رسیاں کھولنا شروع کر دیں۔عاتکہ پانی لے کر آئی اور چھینٹے اس کے منہ پر مارنے لگی۔زاریہ کے بدن میں ہلکی سی تھرتھراہٹ پید ا ہوئی اور پھر بے ہوش ہو گئی۔اس نے کوشش جاری رکھی۔کچھ دیربعد وہ ہونقوں کی طرح ان کی طرف دیکھنے تو لگی لیکن یوں جیسے اسے کچھ بھی دکھائی نہ دے رہا ہو۔وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر ہونٹوں سے سرسراہٹ ہی نکل رہی تھی۔وہ اسے پوری طرح ہوش میں لانا چاہ رہے تھے۔مگر انہیں کامیابی نہیں ہو پا رہی تھی۔اس دوران چند پولیس والے بھی آگئے لیکن وہ پوری طرح ہوش میں نہ آسکی۔البتہ اس کی سرگوشی ،بڑبڑاہٹ میں بدل گئی تھی۔تینوں نے بہت غور سے سنا تو سمجھ میں آیا ،وہ کہہ رہی تھی۔
”میں ۔۔۔رضا کو۔۔۔دھوکہ نہیں ۔۔۔دے سکتی۔میں ۔۔۔رضا کو ۔۔۔دھوکہ نہیں۔۔۔دے سکتی۔۔۔“
رضا پر حیرت ٹوٹ پڑی۔یہ کیا ماجرا ہے؟مگر وہ ایسا وقت تھا کہ اس سوال پر زیادہ سوچا نہیں جا سکتا تھا ۔
”فیصل ،میں زاریہ کو ہسپتال لے کر جا رہا ہوں۔۔تم ان پولیس آفیسر کے ساتھ رہو۔میرے لوگ بھی یہیں ہیں۔آﺅ عاتکہ ۔۔“رضا نے کہا اور پھر زاریہ کو اٹھا کر گاڑی تک لے گیا۔
زاریہ کو انتہائی نگہداشت وارڈ میں پوری ایک رات گذر گئی تھی۔شام ہوتے ہی عاتکہ اپنے گھر چلی گئی اور فیصل پولیس کی کاروائی کے بعد وہاں سے سیدھا ہسپتال آ گیا تھا۔رضا اور فیصل کو جاگتے پوری رات ہو گئی تھی۔جبکہ ڈاکٹرز اسے پوری طرح ہوش میں لانے کی بھر پور کوشش کر رہے تھے۔اگر چہ رضا کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھاکہ یہ اچانک کیا ہوا؟تا ہم زاریہ کاگاہے بگاہے ایک ہی فقرہ بڑ بڑانا اسے سر تا پا ہلا دینے کے لیئے کافی تھا۔زاریہ کس دھوکے کی بات کر رہی ہے؟اس کی یہ حالت کیسے ہوئی اور کس نے کی؟بلقیس خاتون کہاں ہے؟ان پر یہ افتاد کیا آن پڑی؟کیا یہ زاریہ کے قتل کی کوشش تھی یاکوئی اور ہی معاملہ تھا؟کیا بلقیس خاتون قتل ہو گئی ہے یا وہ اغواءہو چکی ہے اس کے ساتھ کیا ہوا؟وہ پریشانی کی انتہا پر تو تھا ہی لیکن ان سوالوں پر وہ جتنا سوچتا،اتنا ہی الجھتا چلا جا رہا تھا۔کیونکہ اس کا اطمینان انہی سوالوں کے جواب میں تھاجو اس کے لیئے اب راز کی مانند بن گئے تھے۔اس راز کو فقط زاریہ ہی کھول سکتی تھی اور وہ موت و حیات کی کشمکش میں تھی۔اس وقت سورج طلوع ہونے کو تھا جب سینئر ڈاکٹر نے انہیں اپنے کمرے میں بلایا۔وہ دونوں ہی چلے گئے۔
”رضا صاحب۔!مریضہ ہوش میں تو آ جاتی ہے لیکن کوئی ایسی دماغی پیچیدگی ہے جس کے باعث وہ پوری طرح حواسوں میں نہیں آ رہی ۔ میری اس بات کی تصدیق اس کی بڑبڑاہٹ ہے جس کے بعد وہ پھر سے ہوش میں نہیں رہتی۔معاملہ خاصا سنجیدہ ہو گیا ہے۔“
”تو پھر اب کیا تجویز ہے ۔“رضا نے پوچھا
 © ©”میں نے اپنی ڈاکٹرز کی ٹیم کے ساتھ بھر پور کوشش کی ہے اور کر بھی رہا ہوں۔لیکن میں اس حق میں بھی نہیں ہوں کہ ایسے پیشنٹ کو زیادہ دیر رکھ کر رسک لوں۔اس پر تشدد بھی خاصا ہوا ہے ۔ممکن ہے اس وجہ سے دماغی پیچیدگی ہو گئی ہو۔“
”آپ جو بہتر سمجھے ہیں بتائیں۔میں انتظا م کرلیتا ہوں۔“رضا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”میں ابھی مزید ایک دو دن دیکھتا ہوں ۔مزید رپورٹس آ جائیں تو ماہرین سے مشورہ کرتا ہوں۔ممکن ہے اس دوران کوئی بہتر صورت نکل آئے۔“ڈاکٹر نے اسے تسلی دی۔
”جیسے آپ کی مرضی۔اگر آپ کہیں تو میں اسے لندن بھی لے جا سکتا ہوں۔“رضا نے ایک خیال کے تحت کہا تو ڈاکٹر بولا
”وہاں بہر حال سہولیات زیادہ ہیں۔ایسا ہو جائے توزیادہ بہتر ہے۔لیکن دو دن تک مجھے کوشش کر لینے دو۔“پھر مزید تھوڑی باتوں کے بعد وہ دونوں وہاں سے اٹھ آئے۔وہ دونوں انتہائی نگہداشت وارڈ کی طرف آئے تو سامنے شبانہ بیگم اپنی گھریلو ملازمہ سے ساتھ کھڑی ہوئی تھی۔
”ماماآپ۔!آپ کو کیسے پتہ ۔۔؟“رضا نے پوچھنا چاہا تو شبانہ بیگم نے ہاتھ سے اشارے سے روکتے ہوئے کہا۔
”مجھے کل شام ہی سے معلوم ہے۔ میںنے سوچا کہ رات بھر میں کسی وقت زاریہ ٹھیک ہو گئی تو اسے تم گھر لے آﺅ گے۔۔مگر لگتا ہے معاملہ خاصا سیریس ہے ۔۔خیر۔!تم ایسا کرو ۔گھر جاﺅ اور آرام کرو ۔۔میں ہوں یہاں پر۔“
”ماما۔آپ یہاں کیسے۔۔مطلب۔۔“رضا نے جذباتی انداز میں کہا۔
”میں سنبھال لوں گی سب میرے ساتھ یہاں ڈرائیور ہے اور یہ رانی ہے ۔تم جاﺅ۔آرام کرو۔ورنہ تمہاری طبعیت خراب ہو جائے گی۔“شبانہ بیگم نے اعتماد سے کہا تو وہ گھر جانے کے لیئے تیار ہو گیا۔فیصل بھی اپنے گھرچلا گیا۔
رضا اپنے بیڈ پر پڑا کئی ساری سوچوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔کل سہ پہر سے لے کر اب تک کی جو صورت حال تھی۔اس کا کوئی بھی سرا اس کے ہاتھ نہیں لگ رہا تھا۔اسے سمجھ آ رہی تھی تو فقط ایک بات کی کہ کسی بھی طرح زاریہ کا بچ جانا ضروری ہے ۔تب ہی ہر بات واضح ہو گی ورنہ ہر معاملہ ایسی تاریکی میں کھو جائے گاکہ پھر تلاش کرنے کے باوجود بھی ہاتھ نہیں لگنے والا تھا۔کیونکہ باوجود انتہائی کوشش کے بلقیس خاتون کا سراغ نہیں مل سکا تھا۔
اگلا پورا ہفتہ زاریہ کی حالت بتدریج بہتر ہوئی۔اس کی بڑبڑاہٹ بند ہو گئی تھی اور وہ بے چینی بھی ختم ہو گئی تھی جو اس کے ساتھ مسلسل تھی۔وہ خواب آور ادویات کے زیر اثر دنیا و مافیا سے بے خبر پڑی رہتی تھی۔ڈاکٹرز کو امید کو گئی تھی کہ وہ صحت یاب ہو جائے گی۔اگر چہ اس کی دماغی پیچیدگی کی وجہ سر پر لگنے والی چوٹ تھی تا ہم وہ ایسے دکھ کی کیفیت سے بھی گذری تھی جس کا شاک وہ برداشت نہیں کر پائی تھی۔اب وہ کب تک ٹھیک ہو پائے گی۔یہ حتمی طور پر نہیں کہا جا سکتا تھا۔کبھی بھی اچانک وہ اپنے حواسوں میں آ سکتی ۔تب کوشش کی جائے کہ اسے دوبارہ کوئی ذہنی شاک نہ لگے۔رضا کے لیئے یہ صبرآزما لمحات تھے ۔کیونکہ زاریہ کے علاج میں صبر کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔اس دوران سب سے زیادہ خیال شبانہ بیگم ہی نے رکھا۔فیصل اور عاتکہ برابر آتے تھے اور بہت وقت گذارتے ۔وہ خود آفس میں بیٹھا ماما سے رابطے میںرہتاتھا۔رضا نے زاریہ کے اردگرد کئی لوگوں کا پہرا بیٹھا دیا تھا کئی خواتین خدمت گار مقرر کردیں۔وہ خود شام ڈھلے اس کے پاس جاتا اور پھر رات گئے لوٹ آتا۔
پولیس کی روائیتی تفتیش جاری تھی۔ان کے مطابق یہ ڈکیتی ہی کی واردات تھی۔جبکہ بلقیس خاتون کی گم شدگی ایک معمہ بن گئی تھی۔پولیس کی کاروائی کچھوئے کی مانند تھی۔رضا کی توجہ اس طرف بھی تھی کہ بلقیس خاتون کا جلد از جلد پتہ مل جائے ۔لیکن کامیابی نہیں ہو پا رہی تھی۔انہی دنوں فیض الدین چھٹیاں لے کر چلا گیا۔اس کے کچھ خاندانی مسائل ایسے آ گئے تھے کہ جنہیں نپٹانا بہت ضروری تھا ۔وہ دوبئی چلا گیا۔اگلے ہفتے میں اس نے واپس آ جاناتھا۔رضاکے پاس دوسرے بہت سارے لوگ تھے۔اس نے پولیس تفتیش کے سارے معاملات وکلاءکے ذمے لگا دیئے اور اپنی توجہ زاریہ پر لگا دی۔
ززز
زاریہ خواب ناک کیفیت میں تھی۔سرمئی بادلوں سے بھرا آسمان اور سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ اس کے سامنے تھے۔بادل اس کے قریب سے یوں گذر رہے تھے جیسے وہ خود بادلوں میں تیر رہی ہو۔وہ خود ایک پہاڑی کے سرے پر کھڑی تھی ۔اس کا سفید لبادہ تیز چلنے والی ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا۔اس کے سامنے وادی میں کچھ فاصلے پر کھپریل اور ٹین کی چھتوں والے مختلف رنگوں کے چھوٹے بڑے گھر تھے۔پوری وادی پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی یو ں جیسے سارے موسموں کے پھول یہیں اُگ آئے ہوں۔وہ کھلی آنکھوں سے سرمئی بادلوں سے ڈھکے آسمان پر دھنک دیکھ رہی تھی۔وہ انتظار والی کیفیت میںتھی، جیسے کوئی اچانک آنے والا ہے، جو اسے دور افق میں موجود دھنک تک لے جا کر جھولا جھلانے والاہے۔اگر چہ انتظار کی یہ کیفیت انتہائی طویل اور کسک بھری تھی لیکن اس پر خمار بھی تھا جیسے یہی کسک بھر اانتظار اس کا حاصل ہو۔تب اچانک سرمئی بادل اجنبی لگنے لگے ۔دھنک کے درمیان میں سے بجلی کڑکنے لگی۔چکا چوند اتنی تھی کہ وہ اپنی آنکھیں کھلی نہ رکھ پائی۔اچانک تیز ہوا نے اس کے پاﺅں اکھاڑ دیئے۔وہ وادی میں گرتی چلی گئی۔جیسے کوئی پیراشوٹ سے زمین پر آ رہا ہو۔اسے لگا کہ وہ اپنے ہی بیڈ روم میں آن گری ہے۔تبھی دروازہ کھلا اور بلقیس خاتون اندر آ گئی۔اس کے ساتھ ایک طویل قامت ادھیڑ عمر شخص تھا۔جس سے وہ صرف ایک بار مل چکی تھی۔ اب اسے وہ دوسری بار دیکھ رہی تھی۔دونوں کے چہرو ںپر غصہ ،کرختگی اور جھلاہٹ تھی۔جبکہ وہ اپنے فیصلے کی وجہ سے مطمئن تھی۔وہ اس کی سامنے والی کرسی پر آ کر بیٹھ گئے۔تب بلقیس خاتون کہتی چلی گئی۔
”دو دن ہو گئے مجھے اس لڑکی کو سمجھاتے ہوئے مگر یہ نہیں سمجھ رہی۔ایسا تو گمان میں بھی نہیں تھا ۔ہم نے سوچا اور اسے حقیقت میںبدلنے کے لیئے جتنی ہم نے تگ و دو کی،آخری لمحات میں آکر وہ سب خوفناک حالات میں بدل دے گی یہ لڑکی۔ُُ
”اسے ہوا کیا ہے،پاگل ہو گی ہے؟“وہ شخص بولا
”مجھے نہیں معلوم ،میں تو دماغ کھپا کھپا کے تھک چکی ہوں،خود ہی پوچھ لو۔“وہ شکت خوردہ لہجے میںبولی تو اس شخص نے زاریہ کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
“تمہیں ہوا کیا ہے ،دو دن پہلے تک تو تم ٹھیک تھی۔یہ اچانک کیا ہوا؟“
”میں اس معصوم رضا کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔تم لوگ۔۔بہت بڑے فراڈ ہو۔“زاریہ نے اطمینان سے کہا۔
”یہ تب سوچنا تھا جب تم اس پلان میں شامل ہوئی تھی۔ایک عام لڑکی سے زاریہ سلمان بنانے میں مجھے بھاری رقم خرچ کرنا پڑی ہے۔کاغذی ثبوت بنانے سے لے کر تمہارے رہن سہن تک ،یہ تم جانتی ہو۔اب جبکہ جائیداد تمہارے نام ہورہی ہے ۔اس کے کاغذات تمہیں مل جانے والے ہیں ۔عیش بھری زندگی تمہاری منتظر ہے تو پھر۔۔“
”اسے یہ بھی بتاﺅ کہ رضا مستقبل میںچاہتا کیا ہے؟“
”وہ تم دونوں کواپنے گھر میں رکھنا چاہتا ہے ۔گھر مطلب،کروڑوں کا بنگلہ اور خود وہ ماں بیٹا یہاں سے چلے جائیں گے۔پھر کاروبار تیر ااور تو اس کے سیاو سفید کی مالک۔اتنی دولت تم نے خواب میں بھی نہیں دیکھی ہو گی۔“
”مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔آپ نے جو کرنا ہے وہ کرو۔مجھے وہی ایک عام سے لڑکی بنا کر میرے حال پر چھوڑ دو۔“وہ التجائیہ انداز میںبولی۔
”ایویں چھوڑ دیں۔تم ہمارے پلان کا حصہ ہو ۔اگر تم نہ رہی تو سب ختم ۔تمہارا یہ ناٹک اگر ہمیں بلیک میل کرنے کے لیئے ہے تو سن لو ۔تم بھی ہمارے ساتھ مجرم ہو۔ہمارے ساتھ تم بھی گرفت میں آجاﺅ گی۔کون اعتبار کرے گا تم پر “وہ شخص غراتے ہوئے بولا تو بلقیس خاتون نے کہا۔
”دیکھوزاریہ۔!ایک طرف عیش کی زندگی ہے ۔سکون سے زندگی گذارو۔دوسری طرف موت ہے ۔آج تم ہمیں دھوکہ دے سکتی ہو تو کل ہمارے بارے میںسب بتاسکتی ہو۔اب یہ رسک تو نہیں لیا جا سکتا ۔اب فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔“
”میںاپنا فیصلہ سنا چکی ہوں۔تم لوگوں نے مجھے مارنا ہے تو مار دو۔۔“زاریہ نے سکون نے کہہ دیا۔
”یہ جو تم نے مرنے مرنے کی رٹ لگا رکھی ہے نا۔تمہیںنہیں معلوم کہ میں تمہیں کتنی بھیانک موت دوں گا۔سسکا سسکا کر ماروں گا۔۔“یہ کہتے ہوئے اس نے خودپر قابو پایا پھر کافی حد تک تحمل سے بولا۔”مجھے بتاﺅ ، آخر تمہارا دماغ کیوں خراب ہوا۔میں اب بھی تمہیں ضمانت دیتا ہوں کہ میں تمہیں رضا کی جگہ بٹھادوں گا۔ورنہ وعدے کے مطابق چاہو تو ملک سے باہر جا سکتی ہو۔جائیداد ہمارے نام کر کے۔ © ©“
”اسے یہ بھی سمجھا دو کہ اس کے مرنے سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔جائیداد کے کاغذات تو ہمارے پاس آ ہی جائیں گے۔اس کے نام کی جائیداد بھی مجھے مل جائے گی۔اس کا مرنا ہمارے لیئے گھاٹے کا سودا نہیں۔“بلقیس نے اجنبی لہجے میں کہا۔
”تم لوگ جو مرضی چاہے کرو۔مگر میں رضا کو دھوکہ نہیںدے سکتی۔“وہ سکون سے بولی
”کیوں۔یہ اچانک اس کے لیئے تمہارے دل میں ہمدردی کیوں؟“اس نے تڑپ کر غصے میں کہا۔
”یہ میرا ذاتی معاملہ ہے“زاریہ نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا تو وہ شخص آپے سے باہر ہو گیا۔
”زاریہ ۔!بہت ہو چکا ،تمہارا مرنا اب بہت ضروری ہو گیا ہے۔دولت نے تمہارا دماغ خراب کر دیاہے۔ ©“یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس نے ایک زناٹے دار تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔زاریہ پلٹ کر بیڈ سے نیچے جا گری۔ اس کے ہونٹوں سے خون نکلنے لگا۔اس شخص نے یہیں بس نہیں کی۔زاریہ کو بے دردی سے پیٹنا شروع کر دیا۔بلقیس نے آگے بڑھ کر زاریہ کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا تا کہ اس کی آواز بھی نہ نکل سکے۔کچھ دیر بعد زاریہ نیم بے ہوش ہو گئی ۔مگر وہ دونوں اس پر تشدد کرتے رہے۔یہاں تک کہ زاریہ کا سر بیڈ سے ٹکرایا۔ پھر اسے اتنا ہوش تھا کہ وہ قالین پر بے دم سی پڑی تھی ۔کنپٹی اور ہونٹوں سے خون رس رہا تھا۔وہ دھندلی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھ رہی تھی۔
”اب اسے مر ہی جانا چاہئے۔پہلے بھی اسے زہر دے کر مارنا تھا۔اب اسے وقت سے پہلے مارنا پڑ رہا ہے ۔جاﺅ رسی لاﺅ۔“اس شخص نے غراتے ہوئے نفرت سے کہا۔زاریہ نے ڈوبتی سانسوں سے دیکھا۔بلقیس رسی لے آئی۔دہ دونوں اسے باندھنے لگے۔زاریہ مزاحمت نہ کر سکی۔وہ باندھ چکے تو اس شخص نے کہا۔
”اسے یہیں پڑا رہنے دو۔اور تم یہاں سے سارا قیمتی سامان نکال لو۔میںیہاں سب سنبھال لوں گا۔۔تم مجھ سے رابطہ رکھنا۔جب کہوںتب واپس آنا۔میںکچھ دیر بعد گاڑی بھیجتا ہوں۔“یہ کہتے ہوئے وہ دونوں باہر چلے او ر کمرے میں سناٹا چھا گیا۔زاریہ موت کے قدموں کی چاپ سننے لگی۔بے بسی کی موت۔۔۔ لاحاصل موت۔۔وہ لمحہ بہ لمحہ موت کے سمندر میںڈوبتی چلی جا رہی تھی۔وہ اپنا بچاﺅ کرنا چاہتی تھی لیکن بے بس تھی۔۔ ذرا سی قوت بھی اس میں نہیں تھی۔زندگی کے ساحل پہنچنے کی شدید تمنا۔۔۔سمندر میں چلتی بادبانی کشتی کو آواز دینا چاہتی تھی۔۔ مگرنہ دے سکی اور پھر۔۔آخری چیخ اس کے حلق سے بلند ہوئی۔
زاریہ کے سامنے کا منظر بالکل بدل گیا تھا۔وہ ہسپتال میں تھی اور اس کے اردگرد اجنبی لوگ کھڑے تھے۔وہ انہیں غور سے دیکھ رہی تھی کہ اس کی نگاہ رضا پر آن ٹکی۔وہ حیرت زدہ رہ گئی ۔جیسے یقین نہ آ رہا ہو۔اس نے رضا کی طرف دونوں ہاتھ بڑھا دیئے۔اور بے ساختہ کہا۔
”رضا۔۔تم ۔۔“
رضا نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگا لیا۔تب سینئر ڈاکٹر نے رضا کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
”مبارک ہو ،اب یہ نارمل حالت کی طرف لوٹ آئی ہے لیکن احتیاط بہر حال لازمی ہے۔چند دن میں ہم اسے ڈسچارج کر دیں گے۔“
وہ لوگ چلے گئے اور وہ دونوں وہاں تھے۔زاریہ نے رضا کو خود سے الگ نہیں کیا تھا۔اسے یوں تھامے بیٹھی تھی جیسے اگر اب اس نے رضا کو چھوڑ دیا تو پھر دوبارہ نہیں پاسکے گی۔کتنے ہی لمحے یونہی بیت گئے۔
”تم آرام کرو۔۔میں یہیں ہوں تمہارے پاس۔“رضا نے خود کو الگ کرتے ہوئے اسے بیڈ پر لٹا دیا۔
”میں کہاں ہوںَ۔۔اور تم۔۔یہاں کیسے۔“زاریہ نے تجسس سے پوچھا۔
”سب بتا دوں گا۔۔اس وقت تم اپنے دماغ پر بوجھ مت ڈالو۔سکون سے رہو۔یہاں تمہیں کوئی خطرہ نہیں ہے“رضا نے اس کا ماتھا تھپتھپایا تو اس نے واقعتا سکون سے آنکھیں موند لیں۔
ززز
اگلے چند دن میں زاریہ بہت بہتر ہو گئی تھی۔لیکن رضا ایک عجیب طرح کی الجھن میں پھنس گیا تھا۔زاریہ کے لیئے اس کے جذبات و احساسات ایک بھائی کے تھے۔اس کی تمام تر کوشش ایک بھائی کا فرض تھیںجو ایک بہن کے لیئے ہونی چاہیں۔اس کوشش میں ایک خواہش بھی گھلی ہوئی تھی۔اسے یہ احساس دلایا گیا تھا کہ زاریہ اس سے نفرت کرتی ہے ۔وہ اس نفرت کو اپنے لیئے محبت میں بدلنا چاہتا تھا۔جب وہ اس سے ملی تو ہوش و حواس بے بیگانہ تھی۔اب وہ ہوش میں تھی۔ایسے لمحات میں وہ کوئی ایسی بات نہیںکرنا چاہتا تھا کہ ماضی کی کوئی یاد اسے ڈسٹرب کرے یا ماضی کی بھل بھلیوں میں کھو کر کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو جائے۔اس لیئے وہ بہت کم اس کے سامنے جاتا تھا۔رضا کے لیئے سب سے اہم بات اس کی بڑبڑاہٹ تھی کہ وہ کیسا دھوکہ تھاجو وہ اسے دینا نہیں چاہتی تھی۔اسے اس وقت تک صبر کرنا تھا جب تک وہ خود اپنے من کی بات نہ کہہ دیتی۔اسی باعث وہ پولیس تفتیش میں اتنی دلچسپی نہیں لے رہا تھا۔نجانے اسے کیوں احساس تھا کہ بات یہیں سے نکلنے والی ہے۔یہ ساری باتیں ایک طرف،اس کی اصل الجھن کا سبب کچھ اورتھا۔زاریہ کا رویہ ایسانہیں تھا جو ایک بہن کا اپنے بھائی کے لیئے ہو سکتا تھا۔کئی مواقع پر وہ ٹھٹک گیا تھا کہ وہ اس رویے کو کیا سمجھے؟
پہلی بار اسے تب احساس ہواتھا جب شام کے وقت وہ ہسپتال کے کمپاﺅنڈ میں آ بیٹھے تھے۔زاریہ نے سیاہ سوٹ پہنا ہوا تھا اور ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ خاصی نکھری ہوئی لگ رہی تھی۔وہ خاموش تھی ،جیسے خیالوں میںکہیں دور پہنچی ہوئی ہو۔اسی خاموشی میں اس نے رضا کا ہاتھ تھام لیا اور آنکھیں موند کر تادیر بیٹھی رہی جیسے کوئی سہارا مل جانے سے پر سکون ہو جائے۔رضا نے جب مضبوط ہوتی گرفت کو محسوس کیا تو دھیرے سے ہاتھ چھڑا لیا ۔ تب وہ چونکتے ہوئے حواسوں میں آ گئی۔اس نے شاقی نگاہوں سے رضا کی طرف دیکھا اور کھوئے ہوئے لہجے میںبولی۔
”رضا۔!جانتے ہو خواہش اور حقیقت کے درمیان سفر کیسے طے ہوتا ہے ؟“یہ کہہ کر وہ اس کی آنکھوں میںدیکھنے لگی وہ خاموش رہات کہنے لگی۔”صرف اور صرف لگن سے ،جتنی شدید لگن ہو گی۔سفر اتنی جلدی طے ہو گا، خواہشیں ان کی پوری نہیں ہوتیں جو لگن نہیں رکھتے۔میںمانتی ہوں زندگی صرف ایک بار ملتی ہے ،پھر اس دنیا میں لو ٹ کر نہیں آنا۔لیکن بندہ کم از کم اس دنیا سے جائے تو اس میںکسی کو پالینے کی لگن ضرور ہونی چاہئے؛“
”تب پھر ان خواہشیوں کا کیا ہو گا۔جو ادھوری رہ جاتی ہیں؟“رضا نے یونہی بات بڑھانے کو پوچھا۔
”نہ پوری ہوں۔خواہشیں تو پوری ہوہی نہیں سکتیں۔لیکن ایسی خواہشیں بے فائدہ اور لاحاصل ہوتی ہیں جن میں لگن نہیں ہوتی۔میں صرف لگن کی سچائی کو مانتی ہوں۔“یہ کہتے ہوئے وہ کھو گئی ۔پھر اچانک بولی۔”خیر۔! میںکیا موضوع لے کر بیٹھ گئی ہوں۔“
تب رضا نے یونہی ادھر ادھر کی باتیں چھیڑ دیں۔موسم کی،ادویات کی اور ہسپتال کی باتیں،جن کا کوئی مقصد نہیں تھا۔
اگلی شام زاریہ نے خواہش کی کہ وہ کھلی فضا میں کچھ دیر گھومنا چاہتی ہے ۔رضا نے ڈاکٹر سے اجازت لی اور اسے لے کر نکل گیا ۔وہ پسنجر سیٹ پر بیٹھی بہت خاموش تھی۔اس شام زاریہ نے خاصا اہتمام کیا ہوا تھا۔ہلکے کاپیازی رنگ کے شلوار سوٹ میں پیاری بھی لگ رہی تھی۔اس کے بال کھلے ہوئے تھے۔اور گلے میں پڑا آنچل بھی لہرا رہا تھا۔وہ ایک پارک میں چلے گئے۔دونوں خاموش تھے اور چہل قدمی کے انداز میں روش پر جا رہے تھے۔تبھی زاریہ کی نگاہ ایک جوڑے پر پڑی۔وہ قدرے نیم تاریک گوشے میںبینچ پر بیٹھے محو گفتگو تھے۔وہ نوبیاہتا جوڑاتھا۔وہ ایک دوسرے میں یوں گم تھے کہ انہیں آس پاس کی خبر ہی نہیں تھی۔
”کتنے خوش قسمت ہیںیہ دونوں ،اردگرد کے منظر سے بے نیاز اپنی دنیا میںکیسے مست ہیں۔ان دونوں میں ایک دوسرے کے لیئے کشش ہے ناجو انہیں اس قدر قریب کیئے ہوئے ہے ۔ورنہ تنہائی انسان کا مقدر بن جاتی ہے ۔“ زاریہ نے اداس لہجے میں کہا۔
”میرے خیال میں تنہائی بھی تو ایک رویہ ہے نا زاریہ۔دیکھا جائے تو انسان ہر وقت تنہا ہے اور چاہے تو انسان اپنے اندر میلہ لگا سکتاہے۔“رضا نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو رضا۔فطری ضرورت ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے ۔۔بعض اوقات تو یہ مجبوری بن جاتی ہے۔لیکن وہ کون سی شے ہے جو انسانوں کو جوڑے رکھتی ہے ۔ایک دوسرے کے ساتھ رہنے پر مجبور کرتی ہے ۔میرے خیال میں وہ شے محبت سے بھی ماورا ہوتی ہے او راس کا نام ابھی تک لفظ میں نہیں ڈھلا۔“اس نے کہا اور ایک خالی بینچ پر بیٹھ گئی۔رضا بھی بیٹھ گیا تو وہ اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہوئے اپنا سر اس کے کاندھے پر رکھ دیا۔چند لمحے یونہی گذر گئے۔وہ چونک اٹھا۔اسے لگا جیسے تشنگی کی آنچ سمٹ کر اس تک آن پہنچی ہو۔جیسے کوئی مومی مجسمہ ہو او ر زاریہ کے بدن کی آنچ اسے پگھلا دینے کے در پے ہو۔لیکن شاید وہ نہیں جانتی تھی کہ رضا کے اندر بہن کے پیار کی ٹھنڈک پوری طرح موجود تھی۔
رضا کی نگاہوں میں ایک ایک منظر تھا۔ہر بار کے لمس میں ایک ہی پکار تھی۔جیسے وہ سمجھ رہا تھا۔لیکن رشتے کا تقدس ایسی سوچ کو حیا کے بھاری پتھر سے کچل کر رکھ دیتا۔وہ جانتا تھا کہ یہی وہ چند رشتے ہوتے ہیں،جن کے باعث زندگی میں حرمت ہے ۔وہ اپنی اس الجھن کو کسی کے ساتھ بھی شیئر نہیں کرنا چاہتا تھا۔اگر ایسا کر لیتا تو اس کی اپنی ذات انتہائی گھٹیا گڑھے میں گر کر چکنا چور ہی نہ ہو جاتی بلکہ گل سڑ جاتی۔ نجانے اسے کیوں لگ رہا تھا کہ زاریہ جذبات کے ایسے آبشار کی مانند ہو گئی ہے جیسے اپنے پر بھی اختیار نہیں رہا۔اس کے دماغ کی ایسی کون سی گرہ ہے جو اسے ایسا کرنے پر مجبورکر رہی ہے۔کیا وہ ماضی بھول چکی ہے ، یا اپنے طور پر کسی نئی دنیا میں بس رہی ہے؟اسے ڈر تھا کہ کوئی ذہنی جھٹکا اسے پھر سے اسی مقام پر نہ لے جائے جہاں سے وہ اسے کھینچ کر لایا تھا۔وہ ایک پل صراط تھی جس پر چلتے ہوئے وہ انتہائی مضطرب تھا۔پھرایک دن اس نے زاریہ سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔وہ تقدس کوآلودہ نہیں کر سکتا تھا۔
  وہ سہ پہر کا وقت تھا جب وہ دونوں جھیل کنارے بیٹھے ہوئے تھے۔آسمان پر گہرے سرمئی بادل تھے۔یوں جیسے ابھی برس پڑیں گے۔جس طرف وہ کرسیوں پر نیم دراز تھے ،اس جانب درخت نہیں،پختہ سڑک تھی جس کے ساتھ ساتھ گہری سبز گھاس والا قطعہ دور تک چلا گیا تھا۔جھیل کے باقی اطراف میںدور دور تک درخت تھے جن پر سبز رنگ کے مختلف شیڈ والے پتے ہلکی ہلکی چلنے والی ہوا میںلہرا رہے تھے۔اور انہی درختوں سے گرے آوارہ پتے ہوا کے دوش پر تھے۔زاریہ نے بھی گہرے سبز رنگ کی شلوار سوٹ پر آف وائٹ شال لی ہوئی تھی۔کھلے بالوں کے ساتھ چہرہ میک اپ سے بے نیاز تھا۔وہ دونوں آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے او ر وہ مسلسل رضا کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ وہ دونوں بھی جھیل کی مانند خاموش تھے ۔جبکہ رضا اتنا ہی مضطرب تھاا۔اب نجانے اس جھیل کی تہوں میں کیا تھا۔مگر اس نے خود پر قابو پائے رکھا۔وہ منتظر تھا کہ زاریہ کوئی بات کہے اور اسی کا سرا پکڑ کر اپنی بات کہہ دے۔کافی دیر بعد وہ بولی۔
”کتنا رومانوی ماحول ہے لیکن لوگ کتنے کم ہیں یہاں پر۔۔۔یوں لگ رہا ہے کہ مادی زندگی نے ہماری روح کو بری طرح مجروع کر دیا ہے۔ہم اپنا سکون شور شرابے میں تلاش کرتے ہیں۔شاید ہم جسم اور روح کے تعلق کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں۔“
”اصل میں رشتوں کا تقدس ہی معاشرے کی جڑیں مضبوط کر تاہے۔یہ نہ ہو تو سب عشقہ کی بیل کی مانند ہو جائے۔جو اپنے جذبات کی تسکین کے لیئے تقدس کے درخت کا رس چوس کر اسے سکھادیتے ہیں۔“رضا نے کہا تو وہ ایک دم سے چونک گئی ۔جیسے کسی نے اسے نیند سے جگا دیا ہو۔اس کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گذر گیا۔وہ یوں خاموش ہو گئی جیسے اچانک اسے بہت کچھ یاد آ گیا ہو۔اس نے حیرت سے رضا کی جانب دیکھا اور پھر بولی۔
 © ©”مجھے ہسپتال سے کب ڈسچارج کیا جا رہا ہے؟“
”جب میں سمجھوں گا کہ تم بالکل صحت یاب ہو گئی ہو۔کہیں ایسا نہ وہ تم۔۔۔“رضا نے کہنا چاہا تو اس نے بات قطع کر تے ہوئے کہا۔
”مجھے چھوڑو۔میں ٹھیک ہوں۔مجھے اب تمہارے خلاف ہونے والی سازش کو بے نقاب کرنا ہے۔“
”کیسی سازش۔۔۔؟“رضا نے بے تابانہ پوچھا تو زاریہ نے چند لمحے اس کی طرف یوں دیکھا جیسے کوئی پجارن کسی مقدس مورتی کو دیکھتی ہے۔پھر یوں بولی جیسے اس کی آواز بکھر بکھر کر سمٹ رہی ہو۔
”میں سلمان اشرف کی بیٹی نہیں ہوں اور نہ ہی بلقیس خاتون تمہارے پاپا کی بیوی ہے۔یہ سب پلان تھا جو تمہاری جائیداد ہتھیانے لے لیئے کیا گیا تھا۔“وہ اتنا کہہ کر رضا کے چہرے پر ردعمل دیکھنے لگی۔جہاں حیرتیں اتر آئی تھیں۔”میںایک غریب گھر کی خواہشوں کی ماری لڑکی ہوںجو پڑ ھ لکھ کر اپنی دنیا آپ بنانا چاہتی ہے ۔بلقیس میری رشتے دار ہے اور وہ مجھے اپنے ساتھ کے آئی تا کہ نہ صرف میرا خرچ بچ جایا کرے بلکہ بڑے شہر میں موجود وسائل سے اپنا حصہ سمیٹ لوں ۔اس کی نوازشیں جاری رہیں۔یہاں تک کہ ایک دن اس نے مجھے اپنا پلان سنایا۔“
”کیا تھا پلان؟“رضا نے بے ساختہ پوچھا تو زاریہ اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہتی چلی گئی۔
”اس کے ڈاکٹر پاس اسی شہر کاایک معزز اور امیر شہری زیر علاج تھا۔بلقیس خاتون کو وہاں نرس اس شخص نے رکھوایا تھا۔کیونکہ کبھی ماضی میں ان دونوں کی شناسائی رہی تھی۔اس شخص کو کینسر تھا۔اور وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ رہا تھا۔وہ شخص سلمان اشرف تھا۔“
”کیا۔!پاپا کو کینسر تھا؟“رضا چیخ اٹھا۔
”ہاں۔!انہوں نے یہ بات سب سے چھپائی تھی۔صرف ڈاکٹر اور نرس بلقیس خاتون جانتی تھی۔تمہارے پاپا نے سختی سے منع کیا تھا کہ یہ بات کسی کومعلوم نہ ہو۔اس کے گھر والوں کو تو قطعاً نہیں۔کیونکہ موت کا احساس، موت سے پہلے مار دیتاہے ۔وہ تو اس اذیت سے گذر ہی رہا ہے،دوسروں کو کیوں مبتلا کرے۔“
”اُوہ۔!پاپا فقط ہماری خوشی کی خاطر اکیلے دکھ جھیلتے رہے۔“رضا یوں بلک پڑا جیسے اس کے دل میںخنجر پیوست ہو گیا ہو۔
”پرانی شناسائی اور رازدار ہونے کا فائدہ بلقیس نے اٹھایا ۔لیکن ایک اور شخص بھی اس پلان میں شامل تھا۔ان لوگوں نے مجھے راتوں رات امیر ہو جانے کا کہا اور میںمان گئی۔دولت میری کمزوری ہی نہیں ضرورت بھی تھی۔میں کاغذات میں زاریہ ریاض سے زاریہ سلمان بن گئی۔اور پھر ہم سب تمہارے باباکی موت کا انتظار کرنے لگے۔جو طویل ہوتا گیا اور اس میں ڈیڑھ برس لگ گیا۔تب بلقیس سے صبر نہ ہو سکا اور اس نے تمہارے پاپا کو سلو پوائزن دینا شروع کر دی۔اس کا مجھے اس وقت پتہ چلا جب تمہارے پاپا اس دنیا میں نہیں رہے۔“
”تو میرے پاپا کی قاتل بلقیس ہے؟“
”شایدہاں۔یا شاید نہیں،کیونکہ اس سے سب کچھ وہی شخص کرواتا تھا جو اس پلان میں شامل تھا۔جیسے پہلے میں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔وہی سب کچھ بلقیس سے کہتا اور وہ کرتی جاتی۔اس دن قبرستان میں ہماری ملاقات اتفاقیہ نہیں بلکہ وہ بھی پلان کا حصہ تھی۔تب میں گئی اور تم پر نگاہ پڑنے سے پہلے تک میں پلان کا حصہ رہی لیکن جیسے ہی تمہیں دیکھا میری دنیا بدل گئی۔میں نے اسی وقت فیصلہ کر لیا تھا کہ تمہیں دھوکہ نہیں دینا۔اور۔۔“
”اور کیا۔۔؟“رضا نے اپنے اندر کے دکھ کر پوری طرح دباتے ہوئے کہا۔
”اور تمہیں پانا ہے۔تم میرا آئیڈیل ہو رضا۔“زاریہ نے پاگلوں کی طرح اس کے چہرے پر یوں دیکھتے ہوئے کہا جیسے پوری دنیا وہیں سمٹ کر آ گئی ہو۔
”تمہارا آئیڈیل ،تمہارے لیئے اتنا اہم تھا کہ تم نے دولت اور جائیداد چھوڑ دی؟“رضا نے ایک خیال کے تحت پوچھا۔
”ہاں۔!میرے لیئے اتنا ہی اہم ہے۔میں تمہیں اپنی کھلی آنکھوںکے خواب میںتب سے دیکھ رہی ہوں۔جب سے میرے اندر کی فصلیں پکنا شروع ہو گئی تھیں۔ہرن کے نافے سے پھیلنے والی مہک کو سبھی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ مہک نافے میں پیدا کب ہوتی ہے ؟اس پر کوئی دھیان نہیں دیتا۔حالانکہ یہ اس کے اندر کا اظہار ہوتی ہے۔میں تمہاری معصومیت ،وجاہت او ر مردانہ پن پر قربان ہو گئی۔۔مجھے اس دن احساس ہوا کہ زنانِ مصر نے اپنی انگلیاں کیسے کاٹ لی ہوں گی۔میں نے فیصلہ کہ چاہے میری جان چلی جائے،تمہیں دھوکہ نہیں دوں گی۔“زاریہ اپنے جذبات کے رو میںبہتی ہوئی کہیں چلی گئی۔
”اور تمہیں اس حال تک کس نے پہنچایا۔۔“
”بلقیس اور اس شخص نے۔۔کیونکہ میری وجہ سے ان کا پلان ختم ہو گیا۔تم نے تو پورے خلوص سے جائیداد ہمارے نام لگا دی۔میںنے انکار کر دیا۔مجھے معلوم تھا کہ میرا انکار میری موت ہے،اور میںنے موت قبول کر لی،وہ تو مجھے مار کر پھینک گئے تھے۔یہ میری زندگی تھی یا میر ی محبت کی سچائی،کہ میں پھر سے زندگی کی طرف لو ٹ آئی ہوںاور آج وہ میرے پاس ہے جس کی چاہ میںنے خود سے بڑھ کر کی ہے“زاریہ یہ کہہ کر خاموش ہو گئی۔وہ سب کچھ کہہ کر یوں ہلکی پھلکی اور پر سکون ہو گئی تھی کہ جیسے خلاﺅں میںتیررہی ہو۔پہ در پہ انکشافات نے رضا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔لیکن اس کے ساتھ کئی سوالوں نے بھی جنم لے لیا۔یہ موقعہ نہیں تھا کہ وہ زاریہ سے کہتا۔اس لیئے وہ بولا۔
”زاریہ۔!آﺅ چلیں ،باقی باتیں کل کریں گے۔شام ڈھل گئی ہے“تب اسے احساس ہوا کہ جھیل ،درختوں اور پورے منظر کو اندھیرا نگل رہاہے۔وہ واپس چل دیئے۔
ززز
شبانہ بیگم کے لیئے یہ انکشافات پاگل کر دینے والا تھا کہ سلمان اشرف نے انہیں دکھ نہ دینے کی خاطر اپنا روگ چھپائے رکھا۔شاید اتنا درد اس نے سلمان اشرف کی موت پر محسوس نہیں کیا ۔جتنا وہ اب کر رہی تھی۔وہ رضا سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن شدتِ غم سے کچھ بھی تو نہ کہہ سکی۔اسے خود پر قابو پانے میں خاصا وقت لگ گیا تھا۔پھر اس نے بھیگے ہوئے لہجے میںکہا۔
”رضا۔!مجھے یہ احساس تو تھا کہ کہیں نہ کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے او روہ سچ ثابت ہوا ۔لیکن اب بھی دیکھنا کوئی نیاجال تمہارے لیئے منتظر نہ ہو۔میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ فیض الدین جیسا با اعتماد ملازم یہ سب پلان کرے گا۔“
”شاید فیض الدین کے بارے میںپتہ نہ چلتا مگر بلقیس خاتون کی گر فتاری کے بعد یہ سارے انکشافات ہوئے اور زاریہ کی کہی ہوئی ہر بات کی تصدیق ہو گئی۔اس نے اعتراف جرم کر لیااور فیض الدین کے بارے میں ساری تفصیل بتا دی۔اصل میں سارا پلان اس نے بنایا تھا۔“رضا نے وضاحت کی۔
”فیض الدین نے پرانی رفاقت کا فائدہ اٹھایا۔وہ تمہارے پاپا کے سارے زوال و عروج سے واقف تھا۔اس کے لیئے یہ کہانی گھڑنا ،پرانی چیزوں سے تصدیق کروانا اتنا مشکل نہیں تھا۔وہ جعلی نکاح نامہ بھی بنوا سکتا تھا۔ جیسے اس نے زاریہ کے بارے میں کہا۔لیکن ایسا کر کے وہ بلقیس کو بیوی ثابت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ایک طرف وہ وراثت کی حصہ دار ہوتی اور دوسری طرف قانونی وارث۔۔پھر اسے کیا ملتا ؟
”ہاں ۔!اس نے یہ بھی اعتراف کیا۔“رضا نے سوچتے ہوئے کہا۔
”درا صل بیٹا۔!وہ ایک منافق شخص تھا او ر منافق لوگ اس مادہ سانپ جیسے ہوتے ہیں جو اپنے ہی سنپولیوں کو نگل جاتے ہیں۔حسد کا زہر انہیں خود بے چین رکھتاہے ۔انہیں احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ لمحہ لمحہ اپنی ذات میں غلاظت بھررہے ہوتے ہیں۔اس لیئے تو منافق دنیاکے غلیظ ترین انسان ہوتے ہیں۔“شبانہ بیگم نے قدرے تلخی سے کہا۔
”ماما۔!آپ فکر نہ کرو۔میں اب محتاط ہو ں۔“رضا نے یہ کہہ کر اپنی ماما کو اطمینان دلانے کی بھر پور کوشش کی ۔مگر خود مطمئن اب بھی نہ تھا۔اس کے سامنے زاریہ کا رویہ تھا۔وہ اپنے لفظوں میں سچی ثابت ہو ئی تھی۔ان چند دنوں میں اس نے زاریہ کے بارے میںبہت متضاد سوچا تھا۔اسے نجانے یہ کیوں لگ رہا تھا کہ اس نے فیض الدین سے بھی بڑا پلان کیا ہوا ہے ۔تھوڑی سی جائیداد اور دولت کے عوض وہ اپنا آپ نہیں گنوا نا چاہتی بلکہ اس نے تو رضا ہی کو پانے کا سوچ لیاتھا۔یہ آئیڈیل اور محبت کا فلسفہ اس کی سمجھ میںآنے والا نہیں تھا۔لیکن۔!دوسری طرف اسی خیال کی تردید بھی ہو جاتی ۔وہ لڑکی جو بے ہوشی کی حالت میں بھی اسے دھوکہ نہ دینے کے بارے میں سوچ رہی ہو۔یہاں تک کہ اس نے موت بھی قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔یہ عمل ایسا نہیں تھا کہ اس پر سرے سے لکیر پھیری جا سکے۔اسی تصدیق اور تردید نے ایک نئی کشمکش نے جنم لیا تھا۔مگر وہ فیصلہ کر چکا تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔ڈاکٹرز نے زاریہ کو ڈسچارج کرنے کے بارے میں کہہ تھا۔یہی وہ وقت تھا جب اس نے حتمی بات کرنا تھی۔
وہ ایک خوشگوار صبح تھی سفید آسمان شفاف تھا۔جس سے سورج کی روشنی نے ہر شے کو چمکا دیا ہوا تھا ۔ زاریہ کو ڈسچارج کر دیا گیا ہوا تھا اور وہ جانے کے لیئے بیٹھی ہوئی تھی۔فیصل اور عاتکہ اس کے پاس موجود تھے، جب رضا ان کے پاس پہنچا۔اس کے پہنچتے ہی کمرے کی فضا جیسے جاگ اٹھی تھی۔
”سوری ایوری باڈی۔!میں تھوڑا لیٹ ہو گیا۔تو پھر چلیں؟“رضا نے خوش کن لہجے میں کہا۔
”کہاں؟کہاں جانا ہے مجھے؟“زاریہ نے دکھ اور تجسس کے گھلے ملے لہجے میں پوچھا تو رضا چند لمحے خاموش رہا پھر فیصل اور عاتکہ کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”اچھا کیا تم نے یہ سوال کر دیا،تمہارے سوال کا سیدھا سا جواب تو یہی ہے کہ ہمارے گھر،لیکن اس نے پہلے ہمیں یہ طے کرنا ہو گا کہ وہاں تمہاری حیثیت کیا ہو گی۔“
”ہاں ،میں سمجھتی ہوں کہ یہ طے ہوناچاہئے۔ایسا کیوں ہے یہ میں جانتی ہوں۔“عاتکہ نے تیزی سے کہا۔
”تو پھر سنو۔!زاریہ میرے گھر میں میری بہن کی حیثیت سے رہے گی۔جو اس کا تعارف۔۔“
”نہیں رضا۔!میں ایسا سوچ بھی نہیںسکتی۔تم نے کہہ دیا اور میں نے مان لیا۔“زاریہ ایک دم سے بھڑک اٹھی۔
”کیا حرج ہے ۔میں نے تمہیں زبان سے بہن کہا تو دل سے بھی مان لیاہے۔میں تمہیں ایک بہن کی عزت اور مان دوں گا۔ہر وہ۔۔۔“رضا نے آہستگی سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”تم نے کہا اور تم نے مان لیا۔میں نے نہیں کہا اور نہ میںنے مانا،میں نے جو مانا ۔وہ تم جانتے ہو۔میں مر تو سکتی ہوں لیکن اس سے انکار نہیںکر سکتی۔“زاریہ نے یوں کہا جیسے زندگی کی ڈور اس کے ہاتھ سے چھوٹ رہی ہو۔اس کا چہرہ ایک دم سے پیلا ہو گیا تھا۔فیصل نے اس کی بدلتی ہوئی حالت کو محسوس کر لیا تھا۔
”زاریہ میری کوئی بہن نہیں ہے۔میں اس کے لیئے ترس رہا ہوں۔میںنے پہلی نظر سے لے کر اب تک تمہیں بہن ہی کے روپ میں دیکھا ہے ۔اسی رشتے سے تجھے سوچا ہے اور وہی مقام میں تمہیں دینا چاہتا ہوں۔مجھے یہ خیال آیا تھا کہ تم نے فیض الدین سے بھی بڑا پلان کیا۔جس کا سب کچھ ہے۔اسی کو اپنا لو تو سب کچھ تمہارا ہو گا۔لیکن میرا دل نہیں مانتا۔کیونکہ میں اب بھی تمہیں سب کچھ دیناچاہتا ہوں۔یہاں کا سب کچھ تیرے حوالے،بس تم ایک بہن کامان مجھے دے دو۔۔۔“آخری لفظ کہتے ہوئے رضا کا لہجہ التجائیہ ہو گیا تھا۔
”نہیں رضا۔!میں تمہاری زندگی سے بہت دور جاسکتی ہوں ۔لیکن میں اپنے آئیڈیل کو اپنے ہاتھوں پاش پاش نہیں کر سکتی۔“
”دیکھو میں نے تمہیں بہن سوچا ،سمجھا اور تسلیم کیا ہے۔کیا تم نہیں سمجھتی جو تم سوچ رہی ہو وہ میرے لیئے کتنا اذیت ناک ہو گا۔“رضا نے اسے کہا۔
”اور یہی جذبات میرے ہیں رضا ۔“وہ سکون سے بولی۔۔
”تو پھر فیصلہ کیا ہو گا۔تم دونوں دریا کے ان کناروں کی طرح ہو جو مل نہیں سکتے۔“تب اچانک فیصل نے کہا
”میں تم سے تمہیں نہیں مانگتی رضا۔اور نہ تمہاری دنیا میں آﺅں گی۔مجھے تمہاری دولت اور جائیداد سے بھی کچھ نہیں چاہیئے۔اب اگر دینا بھی چاہو گے تو میں نہیں لوں گی۔تم اپنی دنیا میں خوش رہو ۔بس ایک شے مانگتی ہوں اگر دے سکو تو۔؟“زاریہ نے عجیب سے لہجے میں یوں کہا جیسے کوئی اپنی آخری خواہش بیان کر رہا ہو۔
”بولو۔“رضا نے حیرت سے کہا۔
”تمہیں تمہارے لفظوں کا پاس مبارک ہو۔لیکن مجھے وہ احساس دے دو جو محبت سے بھی ماورا ہوتا ہے۔اور شاید اس کے لیئے کوئی لفظ نہیں بنا۔میں اسے حاصل ہی نہیں کرنا چاہتی جو میرا نہیں تھامگر اسے تو بچا سکتی ہوں جو میرا اپنا ہے۔کیا تم مجھے وہ احساس دے سکتے ہو۔“زاریہ نے یوں کہا جیسے کسی وادی میں کھڑے ہو کر زور سے آواز دے دی جائے۔رضا کو بڑی دیر تک اس کی بازگشت سنا ئی دیتی رہی۔وہ کوئی جواب نہیں دے سکا۔ تب زاریہ نے فیصل کی طرف دیکھ کر کہا۔”آﺅ فیصل ۔!چلیںہم ایک نئی زندگی کی شروعات کریںگے۔یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔اس نے پلٹ کر بھی کمرے کی طرف نہیں دیکھا۔فیصل نے بیگ اٹھائے اور اس کے پیچھے چل دیا۔رضا نے شدتِ دکھ سے آنکھیں بند کر لیں۔تبھی عاتکہ نے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”تمہیں افسوس نہیں کرنا چاہے۔بلکہ تمہیں اپنے لفظوں کی حرمت پر فخر کرنا چاہیے۔وہ کہتے ہیں نا کہ انسان کو بھی اختیار ہے کہ وہ اپنا مقدر بنا سکتا ہے ۔اس نے اپنی قسمت خود چن لی ہے۔وہ فیصلے جو آسمانوں پر ہو جاتے ہیں۔انہیں کوئی نہیں ٹال سکتا ۔آﺅ چلیں۔“
رضا نے عاتکہ کی طرف دیکھا اور اٹھ گیا۔پھر دونوں چلتے ہوئے پارکنگ تک آ گئے۔جہاں سے انہوں نے فیصل او ر زاریہ کو جاتا ہوا دیکھتے رہے۔رضا ایک دم سے پر سکون ہو گیا۔وہ سمجھ گیا تھا کہ انسان حرمت سے کیا کچھ پا لیتاہے۔
ززز

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *