Tuesday, 19 September 2017

کیمپس ۔۔۔ امجد جاوید ۔۔ قسط نمبر 1

قسط نمبر1
کیمپس
امجد جاوید
نیو کیمپس کی حدود میں داخل ہوتے ہی مجھے شدت سے سنسنی خیزی کا احساس ہوا۔ مجھے یوں لگا جیسے یہ سنسنی میرے بدن کے ریشوں تک میں اترتی چلی جارہی ہے۔ بظاہر میری نگاہ میں تارکول کی دورویہ سڑک تھی جو دور تک جاتی ہوئی دکھائی دے رہی تھی، لیکن میرے ذہن میں وہ سارا منظر پھیلا ہوا تھا، جسے میں نہ جانے کتنی بار سوچ چکا تھا۔ سڑک کنارے سر سبزو شاداب درخت تھے، جن میں سے صبح کے سورج کی روشنی چھن چھن کر آرہی تھی۔ سبز درختوں میں سے زرد رنگ کی روشنی کسی آبشار کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ مختلف رنگوں کے پھولوں کے پودے بھی دورویہ راستے کے ساتھ ساتھ لگے ہوئے تھے۔ میرے ذہن میں پھیلا ہوا منظر، میرے اندر سنسنی بیدار کرنے لگا تو میرا دوران خون بڑھنے لگا۔ انہی لمحات میں مجھے احساس ہوا کہ میری کار کی رفتار معمول سے کچھ زیادہ ہو گئی ہے۔ میں نے کار کی رفتار دھیمی کرلی اور اپنے آپ کو سنبھانے لگا۔
میرے لیے اس کیمپس کا ماحول بالکل اجنبی تھا ۔ اونچی نیچی عمارتوں کے طویل سلسلے سے یوں لگ رہا تھا۔ جیسے صحرائی ٹیلوں کے ریگستان میں ایک چھوٹا سا شہر آباد کر دیا گیاہو۔ دورو نزدیک عمارتوںکو سڑکوں کے جال نے آپس میں ملا دیا ہوا تھا۔ انہی عمارتوں کے درمیان میں کہیں ایک وہ ڈیپارٹمنٹ تھا، جہاں میں نے کچھ وقت گزارنا تھا۔ وقت کا یہ دورانیہ کتنا ہو سکتا ہے، یہ میں نہیں جانتا تھا۔ یہ تو اس پر منحصر تھا، جس کے لیے میں یہاں تک آن پہنچا تھا۔ مجھے اچھی طرح احساس تھا کہ اس کیمپس کی فضا میرے لیے کوئی پھولوں کی سیج ثابت ہونے والی نہیں تھی۔ اصل میں سامنے دکھائی دینے والا ایک منظر ہر انسان کو مختلف اس لیے دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس منظر کو اپنی سوچ اور زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہے۔ کیمپس کے پہلے منظر ہی میں سے جو سنسنی خیزی ابھر کر آرہی تھی، دراصل وہ میرے اندر کی سوچیں ہی تھیں۔ میں جس مقصد کے لیے وہاں آیا تھا، اس کے لیے مجھے کس قدر قربانی دینا پڑتی، کامیاب ہو جاتا ہوں یا ناکام، جو کچھ بھی تھا، وہ وقت اور حالات کے دبیز پردوں میں چھپا ہوا تھا۔ میری سوچوں کو میرا مضبوط ارادہ حوصلہ دے رہا تھااور میں پورے اعتماد کے ساتھ کیمپس کی ان فضاﺅں میں آگیا تھا، جو میرے لیے بالکل اجنبی تھیں۔
مجھے اپنا ڈیپارٹمنٹ تلاش کرتے ہوئے زیادہ وقت نہیں لگا۔ میں نے کار پارکنگ میں لگائی اورڈیپارٹمنٹ کی عمارت کی جانب بڑھ گیا۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر راہداریوں سے ہوتا ہوا اس کلاس روم کے سامنے جا پہنچا، جس میں لمبے قد، پتلے بدن اور سانولی رنگت والے لیکچرار داخل ہو رہے تھے۔ میں تصدیق کرنے کے لیے کہ یہی میرا کلاس روم ہے ، نہایت ادب سے پوچھا۔
”سر....! میں سال اول کا طالب علم ہوں اور پوچھنا یہ چاہتا ہوں کہ یہی میرا کلاس روم ہے....“
”چلو، چلو، بیٹھو،یہی ہے“۔ انہوں نے عینک کے اوپر سے مجھے دیکھتے ہوئے جلدی سے کہا اور میرے ساتھ ہی اندر داخل ہو گئے۔ کلاس میں تقریباً سارے لوگ بیٹھ چکے تھے۔ میں نے سب پراچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی۔لڑکے کم تھے اور پچھلی نشستوں پر بیٹھے ہوئے تھے جبکہ لڑکیوں کی تعداد زیادہ تھی۔ ان لڑکیوں کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔ پتہ نہیں وہ ان میں ہو گی یا نہیں ہو گی؟ میں پورے یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اگر وہ ان میں ہے تو کون ہے؟ میں یہی سوچتا ہوا پچھلی رومیں ایک خالی نشست پر جا بیٹھا۔
”نوجوان....! کلاس کو شروع ہوئے دو ہفتے ہو گئے ہیں اور تم ہو کہ اب آرہے ہو، ایسا کیوں؟“
”سر....! دراصل میں لاہور میں تھا ، وہاں سے وائنڈاپ کرتے کرتے کچھ دن لگ گئے۔ اس لیے دیر ہو گئی“۔ میں نے کیمپس میں آ کر پہلا جھوٹ بڑی آسانی سے بول دیا۔
”اوہ....! کیا نام ہے تمہارا“۔ انہوں نے پوچھااور رجسٹر کھولنے لگے۔
”میرا نام ابان علی ہے“۔ بڑے اعتماد کے ساتھ میں نے دوسرا جھوٹ بھی بول دیا۔
”کہاں سے تعلق ہے؟“ انہوں نے پھر عام سے لہجے میں پوچھا تو میں نے اسی شہر کے مضافات میں ایک گاﺅں کا نام لے لیا۔ جو میرا تیسرا جھوٹ تھا۔ میرے جواب پر انہوں میری جانب غور سے دیکھا پھر مسکراتے ہوئے بولے۔ ”لگتا نہیں ہے کہ تم اسی شہر کے مضافات سے تعلق رکھتے ہو؟“ 
یہ بڑا نازک سوال تھا ور اس کا جواب مجھے بہت سوچ سمجھ کر دینا تھا مگر ایک دھیمی سی مسکراہٹ دے کر میں خاموش رہا تو کلاس میں چہ میگوئیوں کی ہلکی سی بھنبھناہٹ شروع ہو گئی۔ تبھی لیکچرار کلاس کی جانب متوجہ ہو گئے اور میں نے اگلی نشستوں پر بیٹھی لڑکیوں پہ ایک نگاہ ڈالی اور خود کو پُرسکون کرتے ہوئے لیکچرار کی طرف متوجہ ہو گیا۔
l l l
ابان علی میرا فرضی نام تھا ۔ حقیقت میں ابان علی یہیں اس شہر کے مضافات میں رہتا تھا جو میرے پاپا کے بہت ہی قریبی دوست کا بیٹا تھا۔ میں ایک طویل عرصے کے بعد پاکستان آیا تھا۔ اگرچہ میں نے ہوش پاکستان ہی میں سنبھالا تھا لیکن پھر بعد میں میرا لڑکپن اور نوجوانی کا کچھ حصہ برطانیہ کے شہر رچڈل میں گزرا تھا۔ ہم سے بہت پہلے میرے پاپا وہاں چلے گئے تھے۔ پھر بہت عرصے بعد انہوں نے ہمیں بھی وہیں بلوا لیا۔ وہیں میری بہن الماس پیدا ہوئی۔ یوں پاپا، ماما، الماس اور میں رچڈل میں بہت اچھے اور خوشگوار دن گزار رہے تھے۔ پاپا نے وہاں آ کر بہت محنت کی تھی۔ شروع دنوں میں مزدوری کرتے رہے، پھر چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، جو بڑھتے بڑھتے کافی حد تک بڑھ گیا تھا۔ انہی دنوں میں پڑھائی تقریباً مکمل کر کے پاپا کے ساتھ بزنس میں ہاتھ بٹانے کا سوچ رہا تھا کہ ایک دن سڑک کے ایک حادثے میں پاپا شدید زخمی ہو گئے۔ کئی دن ہسپتال میں رہنے کے بعد جب وہ گھر واپس آئے تو میرا ان کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزرنے لگا۔ میرے پاپا نے میری پرورش کافی حد تک مشرقی انداز میں کی تھی۔ وہ ہمیں ہر دم یہ احساس دلاتے رہتے کہ ہم مسلمان ہیں اور پاکستانی ہیں۔ بچپن کی دی ہو ئی سوچ پر میرے خیالات پرورش پاتے رہے تھے۔ ایک مشرقی بیٹا ہونے کے ناطے، میں پاپا کی خدمت کرنے کو سعادت خیال کرتا تھا۔ اس لیے میں ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزارنے کی کوشش کرتا تھا۔ پاپا کے گھر پر رہنے کے باوجود بزنس ٹھیک چل رہا تھا۔ ان کا منیجر سب کچھ سنبھالے ہوئے تھا۔ تاہم مجھے ہر دم خیال رہتا تھا کہ اب مجھے عملی زندگی میں آجانا چاہئے۔ مجھے بس انتظار اس بات کا تھا کہ پاپا مجھے خود اپنے بزنس میں آنے کی دعوت دیں کہ انہیں حادثہ پیش آگیا اور ہم دونوں زیادہ وقت ایک دوسرے کے ساتھ گزارنے لگے۔
ایسے ہی ایک دن میں اور پاپا،گھر سے باہر لان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آسمان پوری طرح شفاف نہیں تھا، سفید بادل بہت زیادہ تھے۔ اس باعث دھوپ نہیں تھی مگر پھر بھی اچھی خاصی روشنی تھی۔ ہوا کسی حد تک تیز تھی۔ میں ایسے موسم میں بڑی خوشگواریت محسوس کیا کرتا تھا۔ ہم دونوں یونہی بزنس کے بارے میں باتیں کرتے چلے جارہے تھے۔ایسے میں ماما نے انہیں فون لا کر دیا۔ پاپا نے سوالیہ نگاہوں سے انہیں پوچھا کہ کس کا فون ہے تو وہ فون تھماتے ہوئے بولیں۔
”زریاب بھائی کا فون ہے ، آپ بات کرلیں؟“ یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گئیں تو میں بھی اٹھ آیا۔ میں نے بس اتنا ہی سنا تھا۔
”کیسے ہو زریاب؟“
نہ جانے ان کا فون کب بند ہوا۔ میں ڈرائنگ روم میں آ کر ٹیلی ویژن کے سامنے بیٹھ گیا تھا۔ میں ایک دلچسپ پروگرام میں کھویا ہوا تھا کہ پاپا میرے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ تب میں نے ٹیلی ویژن بند کر دیا اور یونہی بات کرنے کی خاطر ان سے کہا۔
”پاپا....!زریاب انکل آپ کے ایک ہی پاکستانی دوست ہیں۔ وہ آپ کو اب تک یاد رکھے ہوئے ہیں۔ ان کے علاوہ آپ کو پاکستان سے کبھی کسی کا کوئی فون نہیں آیا۔ کیا ہمارا وہاں پر کوئی نہیں ہے؟“ 
مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے اس سوال کا ان پر اتناشدید ردعمل ہو گا۔ انہوں نے بے چارگی سے میری جانب دیکھا۔ ان کا چہرہ تن گیا اور وہ خاموشی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب گئے۔ وہ کتنی ہی دیر تک میرا چہرہ دیکھتے رہے۔ مجھے لگا کہ وہ چہرہ تو میرا دیکھ رہے ہیں، لیکن ذہنی طور پر وہ کہیں اور کھوئے ہوئے ہیں۔ بلاشبہ ماضی کی کسی یادمیں اتنی شدت تھی کہ اس نے انہیں خود سے غافل کر دیا تھا۔
”ایسے کیا دیکھ رہے ہیں پاپا؟“ میں نے ان کی حالت دیکھتے ہوئے بے چینی سے پوچھا۔
”کچھ نہیں بیٹا“۔ انہوں نے یہ کہتے ہوئے ایک طویل سرد آہ لی۔ میں نے واضح طور پر ان کے چہرے پہ آئی ہوئی بے بسی کو دیکھ لیا تھا۔ پھر وہ کچھ کہے بغیر وہاں سے اٹھ کر چلے گئے۔ میرے لیے ان کاردِعمل کافی حد تک حیرت انگیز تھا۔ میری نگاہوں کے سامنے سے پاپا کا چہرہ ہی نہیں ہٹ رہا تھا۔ کس قدربے بسی اور بے چارگی تھی ان کے چہرے پر، ایسا کیوں ہے؟ انہوں نے میرے سوال کا جواب کیوں نہیں دیا تھا؟ اور ان کی ایسی حالت کیوں ہو گئی؟ ان سوالوں نے میرے اندر تجسس نہ صرف بیدار کر دیا بلکہ امید کی خواہش بھی پیدا ہو گئی۔ پاکستان سے شدید محبت رکھنے کے باوجود نہ وہ کبھی پاکستان گئے تھے اور زریاب انکل کے سوا کسی سے کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ ایسا کیوں تھا؟ فطری سی بات ہے کہ ان سوالوں کا جواب پاپا ہی کے پاس تھا اور وہی اس کا جواب دے سکتے تھے۔ میں چاہے ان سے جتنا بھی بے تکلف تھا مگر ان سے ایسے سوال کرنے کا حق نہیں رکھتا تھا ، جن سے ان کے چہرے پر بے بسی یا بے چارگی درآئے۔ میں اپنے آپ میں بہت شرمندہ تھا مگر تجسس مجھے بے چین کئے دے رہا تھا۔
اسی رات پاپا ڈنر پر بہت خاموش خاموش سے تھے۔ مجھے بڑا افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے ان سے ایسا سوال کیا ہی کیوں۔ میں نے تھوڑا بہت کھایا اور وہاں سے اٹھنے لگا تو پاپا نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”تم نے کہیں جانا تو نہیں، میرا مطلب ہے گھر پر ہی ہونا؟“
”جی، میں گھر پر ہوں“۔ میں نے کہا تو وہ ماما کی طرف دیکھ کر بولے۔
”زینت....! ہماری چائے اس کے کمرے میں لے آنا، ہمیں کچھ باتیں کرنی ہیں“۔ یہ کہہ کر وہ کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
ان کے یوں کہنے پر ماما نے ذرا سی حیرت کے ساتھ انہیں دیکھا اور پھر کھانے میں مشغول رہیں۔ میں اپنے کمرے میں ان کا انتظار کرنے لگا۔ کافی دیر بعد وہ میرے کمرے میں آئے تو ماما بھی ان کے ساتھ تھیں۔ انہوں نے چائے کے دو مگ ہمارے پاس رکھے اور واپس چلی گئیں۔ وہ میرے پاس بیڈ پر ہی بیٹھ گئے تھے۔ انہوں نے چائے کا ہلکا سا سپ لیا اور گہرے لہجے میں بولے۔
”بیٹے....! آج وہ وقت آگیا ہے، جس کا مجھے برسوں سے انتظار تھا۔ زریاب کا فون آنے کے بعد مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں تم سے کیسے بات کر پاﺅں گا۔ تم نے سوال کر کے میری مشکل آسان کردی۔ میں اب سارا کچھ تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں۔ جو بات رہ جائے گی، وہ میں تمہیں بعد میں بتا دوں گا“۔
”ایسی کیا باتیں ہیں پاپا؟“ میں نے گہری دلچسپی اور تشویش سے پوچھا۔
”بیٹا....! وہ باتیں میرے ماضی سے متعلق ہیں؟ میرا وہ ماضی ، جو پنجاب کی سر زمین سے جڑا ہوا ہے۔ میں نہ تو ان یادوں سے خود کو الگ کر پایا ہوں اور نہ ہی میں اپنا ماضی بھول سکا ہوں۔ میں نے چاہا تھا کہ سب کچھ بھلا دوں اور اپنے ماضی سے ہر طرح کا ناطہ توڑ لوں، مگر میں ایسا نہیں کرپایا میرے بیٹے۔ آج میں تمہیں اس لیے بتا دینا چاہتا ہوں کہ پھر تمہیں کبھی کسی سوال کرنے کی ضرورت محسوس نہ ہو“۔ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔ کچھ دیر تک چائے کے ہلکے ہلکے سپ لیتے رہے۔ اس دوران میں خاموش رہا اور ان کی بدلتی ہوئی کیفیات کو بڑے غور سے دیکھتا رہا۔
”میں جنوبی پنجاب کی ایک دور افتادہ بستی میں رہتا تھا۔ بستی میں اگرچہ بہت سارے لڑکے تھے، مگر ان میں ہم تین لڑکے ہی ایسے تھے، جو پڑھ رہے تھے۔ زریاب، اسلم اور میں ۔ ہم روزانہ سائیکلوں پر سوار ہو کر نزدیکی گاﺅں میں موجود ایک سکول میں پڑھنے جاتے۔ چاہے کھیل کا میدان تھا یا پڑھائی کا،ہم سب لڑکوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی تگ و دو لگی رہتی تھی۔ میرا بڑا مختصر سا خاندان تھا، میرے والد، والدہ اور میں۔ میں اکلوتا تھا، اس لیے میرے والد غریب اور چھوٹے کسان ہونے کے باوجود پوری توجہ سے مجھے پڑھا رہے تھے۔ وہ میرے متعلق بڑے بڑے خواب دیکھا کرتے تھے۔ ہماری بستی پر وہی روایتی جاگیردارانہ فضا طاری تھی ۔ مگر ہمیں کسی نے کچھ نہیں کہا تھا۔ زریاب ایک کافی خوشحال کسان کا بیٹا تھا اور اسلم ہماری ہی بستی کے چھوٹے سے سکول میں تعینات ٹیچر کا بیٹا تھا۔ ہم اپنی مستی میں اپنی دنیا میں گم تھے۔ یہاں تک کہ ہم نے دسویں پاس کرلی اور شہر کالج میں پڑھنے آگئے“۔ یہاں تک کہہ کر وہ سانس لینے کے لئے رکے اور مگ میں بچی ساری ٹھنڈی چائے ایک ہی گھونٹ میں پی گئے۔ پھر چند لمحوں بعدبولے۔
”کالج پڑھنے کے لیے ہمیں شہر جانا پڑا۔ میں ، زریاب اور اسلم شہر میں ایک ہی جگہ رہتے تھے۔ ہم میں بڑی گہری دوستی ہو گئی۔ ہر ہفتے بعد ہم گاﺅں جاتے، اگر کچھ زیادہ چھٹیاں ہو جاتیں تو وہ وقت بھی ہم گاﺅں ہی میں گزارتے تھے۔ ہمارا وہ وقت بہت اچھاہوتا تھا۔ بے فکری کا دور ہنسی خوشی گزر رہا تھا۔ خیر ،قصہ مختصر، اس کی تفصیل پھر کسی وقت سہی، لیکن جو بات میں تمہیں بتانے جارہا ہوں وہ یہ ہے کہ اسلم نے اپنے دل کی بات ہمیں نہیں بتائی تھی، جس سے ہم پر ایسا عتاب آیا کہ سب کچھ ختم ہو کر رہ گیا“۔
”کیسا عتاب پاپا“۔ میں نے تشویش سے پوچھا۔
”یہ ایسا عتاب تھا، جس سے ہماری زندگی تک بدل گئی اور اس کے اثرات ہم پر آج تک ہیں“۔
”کیا ہوا تھا؟“ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
”ہماری بستی کے پاس ہی ایک بڑی حویلی تھی، جس کے مالک سردار فخرالدین تھے۔ بہت بڑا زمیندار تھا اس علاقے کا۔ بہت اچھا آدمی تھا اور خدا ترسی تو اس کی بہت مشہور تھی۔ اس کی وجہ سے ہی اس علاقے میں امن اور سکون تھا۔ اس کی اولاد میں دو لڑکے اور ایک لڑکی تھی۔ اس کے لڑکے بہت اچھے سکولوں میں پڑھ رہے تھے اور اس کی بیٹی وہیں تھوڑا بہت پڑھی تھی، اس کا دماغ پڑھائی میں اتنا نہیں چلتا تھا۔ نہ جانے کب اور کس وقت اسلم کی اس لڑکی کے ساتھ تعلق کی ابتدا ہو گئی تھی۔ بعد میں پتہ چلا تھاکہ وہ اسے پڑھانے جاتا تھا۔ کچھ دن گیا تھا اور اس کا ذکر اسلم نے ہم سے نہیں کیا تھا۔ ہمیں پتہ اس وقت چلا جب بات بہت آگے بڑھ گئی تھی“۔
”بات آگے بڑھ گئی تھی، کیسے؟“ میںنے حیرت سے پوچھا۔
”ان دونوں کے درمیان تعلق اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ انہوں نے شادی کا فیصلہ کر لیا۔ اس میں اسلم کی اتنی دلچسپی نہیں تھی، جتنی اس لڑکی کی تھی۔ اس نے اسلم کو مجبور کر دیا کہ وہ اسے یہاں سے لے کر کہیں دور چلا جائے۔ اسلم خوف زدہ ہو گیا۔ وہ جان چھڑوانا چاہتا تھا۔ مگر اس لڑکی نے جان نہیں چھوڑی، ان کے درمیان معاملہ ہی اس حد تک چلا گیا تھا کہ لڑکی ماں بننے والی ہو گئی“۔
”اوہ....!“ میں نے بے ساختہ کہا۔
”خیر....! ان دنوں ہم بستی گئے ہوئے تھے۔ شام ڈھلے اسلم نے مجھے اور زریاب کو اس معاملے کے بارے میں بتایا تو ہمارے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ۔ اگرچہ سردار فخرالدین اچھا آدمی تھا مگر وہ اپنی غیرت کے سلسلے میں اسلم کو کبھی معاف نہیں کرنے والا تھا۔ اور جہاں تک لڑکی کو وہاں سے بھگاکر لے جانے کا تعلق تھا، اسلم تو ایسا کر ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کی اتنی اوقات ہی نہیں تھی۔ ہماری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا کریں۔ ہم اسلم کی مدد کس طرح کریں، یہ بھی ہمارے دماغ میں نہیں آرہا تھا۔ اسلم حد درجہ مایوس ہو گیا تو زریاب نے اپنے طور پر صلاح دی کہ لڑکی کو سمجھا بجھا لیتے ہیں کہ وہ گھر سے بھاگنے کا خیال ترک کر دے اور اس بچے سے کسی طرح جان چھڑالے ، وہ پہلے تو راضی نہ ہوا پھر ایک دم سے راضی ہو گیا“۔
”اس میں کیا بات تھی....“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”اس میں اسلم کی خباثت تھی، مجھے اور زریاب کو کھیتوں کے درمیان ایک جگہ وقت دے دیا اور کہا کہ وہ لڑکی کے ساتھ وہاں آجائے گا، ہم وہاں پہنچ گئے۔ کچھ وقت بعد لڑکی بھی وہیں آگئی۔ وہ ہمیں دیکھ کر گھبرا گئی۔ اس نے اپنے ساتھ سامان بھی باندھ ہوا تھا۔ تب ہمیں احساس ہوا کہ ہم تو اسے سمجھانے کے لیے وہاں گئے تھے اور وہ گھر سے نکل آئی تھی“۔
”اس میں اسلم کی خباثت کیاتھی؟“ میں نے الجھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ ہمیں بہت بعد میں پتہ چلا تھا، اس وقت تو ہم خود پریشان تھے کہ یہ کیا ہو گیا ہے، وہ لڑکی بھی پریشان تھی۔ زریاب نے پریشانی میں وہاں سے نکل کر اسلم کو دیکھنے کی کوشش کی وہ آ بھی رہا ہے یا نہیں، دفعتاً وہ بھاگتا ہوا میرے پاس آیا اور مجھے وہاں سے بھاگنے کے لیے کہا۔ میں کچھ بھی نہ سمجھا اور وہاں سے بھاگ پڑا۔ تب تک بہت سارے لوگ ہمارے قریب آچکے تھے ۔ بھاگتے ہوئے اچانک مجھے ایسا لگا کہ فائر ہوا ہے اور میری پنڈلی میں انگارے بھر گئے ہیں۔ اس وقت میں پوری طرح سمجھ گیا تھا کہ لڑکی کے گھر والوں کو پتہ چل گیا ہے“۔
”کیسے پتہ چلا انہیں؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”یہ بات بہت بعد میں پتہ چلی تھی، جب سب کچھ ختم ہو گیا تھا۔ اسلم نے پوری طرح اپنی جان چھڑانے کے لیے سارا الزام مجھ پر دھر دیا تھا۔ ہمیں وہاں پہنچا کر خود اس نے سردار فخرالدین اور اس کے بیٹوں کو بتا دیا کہ ان کی بیٹی میرے ساتھ بھاگ جانے والی ہے اور اس وقت کھیتوں میں ہے۔ وہ لوگ پہنچ گئے۔ انہوں وہی منظر دیکھ لیا جو اسلم انہیں دکھانا چاہتا تھا۔ وہ جو خود چور تھا، سادھ بن گیا اور ان کی نظروں میں ان کا بہی خواہ ثابت ہو گیا۔ مجرم بنا تو میں، یہاں تک کہ میری پنڈلی میں گولی لگ گئی“۔
”نہیں پاپا، وہاں ان کی بیٹی موجود تھی، وہ انہیں نہیں بتا سکتی تھی کہ آپ مجرم نہیں ہیں، وہ تو اسلم ہے، جس نے....“ میں نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”ایک فائر تو مجھے لگانا،لیکن دوسرا فائر جو سردار فخرالدین کے بڑے بیٹے نے کیا تھا، ان کی بیٹی کو لگا۔ انہوں نے اس کو وہیں مار دیا۔ ہو سکتا ہے، انہیں مزید گولیاں بھی ماری ہوں، مگر میں وہاں ٹھہرا نہیں تھا، میں بھاگتا رہا اورمیرے ساتھ زریاب بھی بھاگتا رہا۔ انہوں نے کچھ بندے ہمارے پیچھے لگائے، مگر ہم ان کے ہاتھ نہیں آئے تھے۔ یہ میری خوشی قسمتی تھی یا بدقسمتی، ہمیں سڑک پر جاتا ہواٹرک مل گیا۔ ہمارے اشارہ کرنے پرڈرائیور نے ٹرک روک دیا۔ ہم اس میں سوار ہو گئے اور شہر کی جانب چل دیئے، لیکن مجھے نہیں پتہ تھا کہ پیچھے میری ساری دنیا لٹ جائے گی“۔ آخری کہتے کیسے ہوئے پاپا کا لہجہ بھیگ گیا اور ان کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ یہ دیکھ کر میں تڑپ گیا اور جلدی سے پوچھا۔
”کیا ہو گیا تھا؟“
”میں ان کے ہاتھ نہیں لگا تھا۔ شہر میں ہمارے ایک کلاس فیلو کا والدہ ڈاکٹر تھا، اسے اعتماد میں لیا، انہوں نے زخم صاف کر کے پٹی کر دی میری میڈیکل ٹریٹ منٹ ہو گئی اور میں سکون آور انجکشن کے زیر اثر سو گیا، لیکن اس رات سردار فخرالدین کے بیٹوں نے میرے بابا اور میری اماں دونوں کو قتل کر دیا اور ہمارے گھر کو آگ لگا دی.... کچھ.... بھی نہیں بچا تھا“۔پاپا جو پہلے ہی رو دینے والے تھے ایک دم سے دھاڑ مار کررو دیئے۔ میں نے پہلی بار انہیں اس قدر غم زدہ دیکھا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں انہیں کیسے ڈھارس دوں۔ وہ ہچکیاں لے کر رونے لگ گئے تھے۔ میں حیرت سے بت بنا ان کی طرف دیکھتا رہا۔ کچھ دیر بعد انہیں ذرا سا حوصلہ ہوا تو خود پر قابو پاتے ہوئے بولے۔ ”اسلم نے بہت سوچ سمجھ کر منصوبہ بنایا تھا، وہ نہ صرف خود بچ گیا بلکہ اس نے اپنے والدین کو بھی بچا لیا۔ اس کے باپ کی نوکری بچ گئی۔ وہ اسی طرح عزت واحترام کے ساتھ وہاں نوکری کرتا رہا۔ سردارکی بیٹی جو ماں بننے والی تھی اور جس کا مجرم اسلم تھا، اس کا راز اس کی موت کے ساتھ ہی دفن ہو گیا۔ وہ مخلص ثابت ہو گیا اور میں مجرم بن کر چھپا رہا۔ کوئی شنوائی نہ ہوئی، کوئی مدعی نہیں تھا، ایک ہی رات میں تین قتل ہو گئے اور کسی نے پوچھا تک نہیں“۔
”زریاب انکل کے گھر والوں نے کچھ نہیں کیا تھا؟“ میں نے طوفان تھم جانے پر آہستگی سے پوچھا۔
”انہیں تو پہلے سمجھ ہی نہیں آئی کہ حقیقت کیا ہے، وہ بے چارے توخود زریاب کے غائب ہو جانے پر پریشان تھے۔ ایک طرف انہیں شرمندگی کھائے جارہی تھی تو دوسرا زریاب کی گمشدگی انہیں پاگل کرنے لگی۔ زریاب فقط میرے لیے شہر میں میرے ساتھ رہ رہا تھا۔ ہم دونوں کو خبر نہیں تھی کہ پیچھے گاﺅں میں کیا ہو گیا ہے۔ یہ تو چند دن بعد وہ گاﺅں گیا تو پتہ چلا کہ سب کچھ میرا ہی خاکستر ہو گیا ہے۔ اس نے بہت شور مچایا، لیکن اس کی آوازیہ کہہ کر دبا دی گئی کہ وہ صرف مجھے بچانے کے لیے یہ سب ڈرامہ رچارہا ہے۔ وہ بھی اس کا ساتھی ہے۔ سردار فخرالدین نے ان کے خاندان پر دباﺅ ڈالنا شروع کر دیا کہ زریاب کے ذریعے مجھے پکڑا جائے۔ وہ مجھے مار دینا چاہتے تھے۔ حقیقت پر پردہ پڑ گیا تھا۔ وہ گاﺅں سے واپس میرے پاس شہر آیا تو اس نے ساری صورتِ حال بتائی۔ میں جوشِ انتقام میں پاگل ہو گیا۔ میں شاید انہیں مارنے کے لیے دوڑ پڑتا، جو سراسر خود کشی تھی اور آج میں تمہیں سب کچھ بتانے کے لیے یہاں موجونہ ہوتا۔ تم نہ ہوتے.... مگر قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ زریاب نے اور ڈاکٹر انکل نے مجھے سمجھایا کہ جو ہونا ہے، وہ تو ہو گیا، اب کیا کرو گے جا کر، خود کشی مت کرو۔ اپنے آپ کو سنبھالو، میں دنیا کا بدقسمت شخص ہوں جو اپنے والدین کے جنازوں کو کاندھا بھی نہ دے سکا تھا، جو بے گناہ مارے گئے۔ میں اکیلا ان کا ماتم کرتا رہا اور ان کی قبریں بھی نہ دیکھ سکا“۔
”اوہ....! یہ تو بہت ظلم ہوا آپ کے ساتھ“۔ میں نے انتہائی دکھ سے کہا۔
”ہاں....! ظلم ہوا ،لیکن آج تک میں اس درد کی کسک محسوس کر رہا ہوں۔ میں کچھ نہیں کر سکا۔ میں صبر کرنا چاہتا ہوں، مگر صبر تو وہاں ہوتا ہے میرے بچے کہ جہاں بدلہ لینے کی قدرت ہو اور وہ خود کو بدلہ لینے سے روک لے۔ طاقت ہونے کے باوجود دشمن کو کچھ نہ کہا جائے، مگر میں تو مجبور محض تھا اور آج تک ہوں۔ کچھ نہیں کر سکا تھا۔ تب بھی نہیں، جب مجھے وہ شہر چھوڑنا پڑا۔ ڈاکٹر انکل کے جاننے والے کراچی میں تھے۔ انہوں نے مجھے کراچی بھیج دیا۔ میں وہاں شپ یارڈمیں نوکری کرنے لگا۔ زریاب کے خط مسلسل آتے تھے۔ صرف اسی سے رابطہ تھا، اس کی اسلم سے دوستی دشمنی میں بدل گئی تھی، لیکن اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکا۔ وہ سرداروں کا منظورِنظربن گیا تھا۔ اس نے ان کی حمایت لے لی تھی۔ وہ لوگ مجھے مسلسل تلاش کر رہے تھے۔ یہ زریاب ہی کا مشورہ تھا کہ میں کسی اور ملک میں نکل جاﺅں۔ ادھر پاکستان میں رہوں ہی نا، پھر جب کبھی وقت آیا تو دیکھ لیں گے۔ میں وقت کی تلاش میں رہا اور پھر ایک دن مجھے لندن کا چانس مل گیااور میں تب سے یہاں ہوں، پلٹ کر واپس نہیں جا سکا۔ ایک بدقسمت بیٹا، جو اپنے والدین کی قبریں بھی نہیں جانتا“۔ یہ کہتے ہوئے وہ پھر بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رو دیئے۔ مجھ سے برداشت نہ ہو سکا۔ میں نے پاپا کو گلے لگا لیا۔ میرا دل بھی بھر آیا تھا۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے خود سے الگ کیا، تو میں نے دل کی گہرائیوں سے کہا۔
”پاپا....! میں آپ کا دُکھ سمجھتا ہوں، پلیز مجھے بتائیں، میں آپ کے لیے کیا کر سکتا ہوں“۔
”تم بہت کچھ کر سکتے ہو بیٹا! میں اپنے والدین کی قبروں کو دیکھ سکتا ہوں۔ ان پر جا کر فاتحہ پڑھ سکتا ہوں۔ اسلم سے اپنا انتقام لے سکتا ہوں۔ بہت کچھ کر سکتے ہو تم“۔ انہوں نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا
”مجھے بتائیں۔ میں سب کچھ کرنے کے لیے تیار ہوں۔ ”میں نے پورے عزم اور انتہائی مضبوط ارادے کے ساتھ کہا تو وہ میری طرف چند لمحے دیکھتے رہے، پھر ان کے چہرے پر دھیمی سی مسکراہٹ آگئی۔
”میںجانتا تھا بیٹے، تمہارا جواب یہی ہو گا۔ میں جب تمہیں اور تمہاری ماں کو اکیلا کراچی میں چھوڑ کر یہاں آیا تھا، تب تم بہت چھوٹے سے تھے۔ سکول جاتے تھے تم ۔نہ جانے کیوں میرے دل میں تھا کہ تم ہی میرا بدلہ لو گے۔ اگرچہ یہ بات اچھی نہیں ہے،انتقام کو وراثت میں دیناجاہلوں کا کام ہے، لیکن سچ کہوں، تب سے میرے دل میں یہی تھا۔ آج تم نے کہا تو مجھے لگا، میں نے اپنا انتقام لے لیا، میں تمہیں اس آگ میں جھونکنا نہیں چاہتا۔ تمہاری ماں نے بہت مصیبتیںسہی ہیں۔ تقریباً پانچ سال بعد وہ مجھ سے جدا ہو کر اپنے والدین کے ساتھ رہی، پھر یہاں آ کر بھی میرا ہاتھ بٹاتی رہی۔ تم اکیلے وہاں کیا کرو گے۔ جبکہ وہ اسلم، ایک طاقتور سیاستدان بن چکا ہے۔ تم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے ہومیرے بچے۔میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کچھ نقصان ہو۔ تمہاری اپنی زندگی ہے، اسے بناﺅ سنوارو، اپنی ماں کو خوش رکھنے کی کوشش کرو“۔پاپا نے بے چارگی سے مسکراتے ہوئے کہا تو میرا دل کٹ گیا۔ تب میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
”پاپا....! آپ فی الحال آرام کریں۔ میرا خیال ہے کہ آپ کے دل کی بھڑاس نکل گئی ہے۔ آپ سو جائیں ہم اس موضوع پر دوبارہ بات کریں گے۔ آپ پلیز آرام کریں۔ آئیں، میں آپ کو آپ کے کمرے تک چھو ڑ آﺅں“۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ خاموشی سے اٹھ گئے۔ مجھے لگا کہ وہ پہلے سے زیادہ سکون محسوس کر رہے ہیں۔ میں انہیں ، ان کے کمرے تک چھوڑ کر واپس آگیا۔ میںنے واپس اپنے بیڈ پر آ کر وقت دیکھا۔ رات کے دس بج رہے تھے۔ میں زریاب انکل کو فون کرنا چاہا رہا تھا، لیکن اس وقت پاکستان میں تقریباً رات کے تین بجنے والے تھے ۔ میں نے ان سے صبح بات کرنے کا فیصلہ کیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *