Wednesday 30 August 2017

کھردری جیت


کھردری جیت


امجد جاوید










درمیان میں فقط چند لمحو ں کا فاصلہ تھا ،جن کے طے کرنے کے بعد وہ ایک لاکھ ڈالر جیت کر لکھ پتی بن سکتا تھا۔یا پھر ہارجانے کی صورت میں وہ اس مقابلے ہی سے باہر ہو جاتا۔وہ پوری توجہ سے اپنے سامنے دھرے کمپیوٹر مانیٹر پر دیکھ رہا تھا۔اس نے انگلی کِی بورڈ کے انٹر والے بٹن پر تھی۔اسے بس انگلی دبانا تھی اور پھر لمحوں میں ہار جیت کا فیصلہ ہو جاتا۔اس کے بدن میں سنسنی پھیلی ہوئی تھی۔وہ فیصلے کے اس آخری سرے پر پہنچ چکا تھا،جس سے آگے اس کے علم کی انتہا تھی۔وہ اپنی استعداد کے مطابق جواب دے چکا تھا۔آگے بس اندھیرا تھا،کوئی آپشن نہیں تھا۔صرف چند لمحے ،اس کے بعد یا تو ایک آسودگی بھری زندگی اس کی منتظر تھی ، جس سے حسرت زدہ بچپن سے لیکر نا امیدی بھری جوانی تک کے سارے دکھ بھول جاتا۔یہاں تک کہ اسے زندگی سے بھی کوئی گلہ نہ رہتا۔اور اگر وہ ہار جاتا تو دکھ کی شدت بہت زیادہ ہو ناتھی۔وہ پچھلے ایک برس سے مقابلے جیت رہا تھا اور یہ اس کا آخری مقابلہ تھا۔وہ ایک لاکھ ڈالر کا مالک بن جاتا یا پھر حالات کے لگائے ہوئے زخموں میں ایک افسوس بھرا کاری زخم مزید لگ جاتا۔اس نے انٹر دبانے کے لیے انگلی کو حرکت دینا چاہی ،اسی لمحے ڈور بیل بج اٹھی۔پر سکون ماحول میں اسے یہ آواز کسی دھماکے سے کم نہیں لگی تھی۔مانیٹر پر صفحہ غائب ہو گیا تو اسے ہوش آیا۔ڈور بیل بجنے کے ردعمل میں جو لرزش ہوئی تھی،اس سے انٹر دب گیا تھا،جس سے اس کے دیئے گئے جواب محفوظ ہونا شروع ہو گئے تھے۔ ایک سبز رنگ کا بار سو فیصد تک پورا ہوجانے کی سمت بڑھ رہا تھا۔اس کا دل انتہائی تیزی سے دھڑکنے لگا۔تیز دورانِ خون میں اُسے دھڑکن کی آواز اپنے کانوں میں گونجتی ہوئی محسو س ہونے لگی۔تبھی ڈور بیل دوبارہ بج اٹھی ۔سامنے بار سو فیصد ہو جانے کے بعد غائب ہو گیا تھا۔یہی وہ لمحہ تھا جب زین علی کا سانس رک گیا۔اسے لگا جیسے مانیٹر اسکرین نے اسے جکڑ لیا ہو ۔ نتیجہ سامنے آنے ہی والا تھا۔بیل پھر بج اٹھی مگر وہ اسے یوں لگی جیسے دور کہیں بجی ہو ۔اسے تو بس اپنے دل کی دھڑکنوں کا شور سنائی دے رہا تھا ۔ باہر کی آوازیں بالکل معدوم ہو چکی تھیں۔مانیٹر پر ایک صفحہ ظاہر ہونے لگا تھا۔وہ جب مکمل ہوا تو اس پر انگریزی کے لفظ جگمگا رہے تھے۔وہ مقابلہ جیت چکا تھا۔ایک لاکھ ڈالر جیت جانے کی نوید اسے مل گئی تھی۔ایک آسودہ زندگی اس کے ہاتھ لگ چکی تھی۔اس نے ایک گہری سانس لی اور کرسی کی پشت پر یوں ڈھے گیا جیسے کوئی فاتح باکسر رِنگ کے کونے میں اعصاب شکن تھکاوٹ کے بعد بیٹھ جاتا ہے۔تنے ہوئے اعصاب ایک دم ڈھیلے پڑ گئے تھے اور وہ پوری قوت سے اپنے دل کی رفتار کو قابو کرنے کی کوشش کرنے لگا۔اسے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اس کے خواب اس کے اردگرد طواف کرنے لگے ہیں۔مانیٹر پر بہت کچھ تیزی سے بدلتا چلا جا رہا تھا۔ انعام دینے والی تنظیم کی مبارک باد اور نجانے کن کن لوگوں کے پیغامات ظاہر ہو رہے تھے۔وہ خود کو سنبھال رہا تھا۔تبھی ڈور بیل بج اٹھی۔وہ چونک گیا۔اسے احساس ہوا کہ یہ بیل تو کافی دیر سے بج رہی ہے۔حالانکہ دیر نہیں ہوئی تھی یہ سارا دورانیہ چار سے پانچ منٹ کا تھا۔اس نے ایک نگاہ مانیٹر پر ڈالی۔وہاں پیغامات آ رہے تھے۔چند قدموں کے فاصلے پر اس کے فلیٹ کا داخلی دروازہ تھا۔اسے شدید قسم کی کوفت ہوئی کہ اسی وقت ہی کسی کو آنا تھا۔ اسے چارو ناچار اٹھ کر دروازے کی طرف لپکنا پڑا۔ورنہ مسلسل بجتی ہوئی بیل اسے ذہنی اذیت دیتی رہے گی۔اس نے دروازہ کھولا تو دن کی روشنی امنڈ آئی۔جس میں رخسار کھڑی دکھائی دی تو زین علی کی ساری کوفت خوشی میں بدل گئی۔اس سے پہلے کہ وہ کچھ پوچھتی زین علی آگے بڑھا اور دونوں بانہیں پھیلا کر اسے زور سے بھینچ لیا اور پھر اسے اٹھاکے اندر آ گیا۔وہ اس کی گرفت میں مچلنے کی بجانے حیرت زدہ سی تھی ۔کمرے کے عین وسط میں لاکر اس نے دوچار باررخسار کو گھومایا اور پھر اسے صوفے پر پھینک کر اس کی کمر کے پاس بیٹھ گیا۔تب رخسار نے پوچھا۔


”زین تم ٹھیک تو ہو نا ،خدا نخواستہ۔۔ ۔“اس کے لہجے میں انتہائی درجے کی تشویش گھلی ہوئی تھی۔مگر زین اس کی بات قطع کرتے ہوئے خوشی سے لبریز لہجے میں بولا۔


”میںنے تمہارے بارے میں سو فیصد ٹھیک سوچا تھا۔آج مجھے میرے یقین کا ثبوت بھی مل گیا ہے۔تم فقط میری محبت ہی نہیں ،میرے لیے خوشی قسمتی بھی ہو۔“


”بات کیا ہے اور یہ تم کیا اوٹ پٹانگ بولتے چلے جا رہے ہو۔“رخسار نے شرمائے بغیر حیرت سے پوچھا تو زین اس کی طرف دیکھتا چلا گیا ۔ گلابی لباس میں ملبوس رخسار کے سیاہ لمبے گیسوصوفے پر اورکچھ اس کے گلابی ملے سفید رنگت والے چہرے پر پھیلے ہوئے تھے۔بڑی بڑی غلافی آنکھوں میں حیرت جمی ہوئی تھی۔اس کے پتلے پتلے سرخ لبوں پر کئی سوال مچل رہے تھے۔اس کا مناسب تیکھا ناک سانس کی تیز رفتار سے ہلکا ہلکا متحرک تھا۔سونے کی ہلکی سی چین اس کی گردن میں الجھی ہوئی تھی۔اس کا آنچل نجانے کہاں تھا اور وہ خود پر جھکے ہوئے زین کی طرف مسلسل دیکھتی چلی جا رہی تھی۔کتنے ہی لمحے یونہی گذر گئے،خوشی بھرے جذبات میں ذرا سا ٹھہراﺅ آیا تو وہ بولا۔


”اب سے کچھ دیر پہلے ،یہ دنیا ،یہ حالات اور مجھے خود اپنا آپ اوٹ پٹانگ لگتا تھا۔میں آج تک یہی سمجھتا آیا ہوں رخسار کہ میںاس دنیا میں موجود اربوں لوگوں میں سے ایک ہوں جو کچرا ہوتے ہیں۔کیڑے مکوڑے جن کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔لیکن اب میں ان اربوں لوگوں میں سے باہر نکل کر کھڑا ہوں۔وہ چھوٹے چھوٹے بے ضرر خواب جن کے لیے میں ترستا رہا ہوں،وہ اب میری دسترس میں ہیں۔“وہ یوں کہہ رہا تھا جیسے وہ خود خوابوں کی دنیا میں پہنچ گیا ہے۔اس کے لیے جہاں حسرت آمیز خوشی تھی ،وہاں بغاوت ملا فخر یہ انداز بھی تھا۔رخسار اس کی حالت دیکھ کر چکرا گئی تھی۔اس نے غیر محسوس انداز سے زین کو خود سے قریب کیا،پھر اس کے ساتھ جڑ کر بیٹھتے ہوئے آہستگی سے بولی۔


”زین،تم ٹھیک ہو نا،تم نے کوئی نشہ وغیرہ تو نہیں کیا۔سچ بتاﺅ۔کیا بات ہے۔“اس کے لہجے میں حیرت اور تشویش کے ساتھ دکھ بھی گھل مل گیا تھا۔


”تمہیں معلوم ہے رخسار،میں نے آج تک کوئی نشہ نہیں کیا۔لیکن اب ایک نہیں کئی نشے میسر آگئے ہیں۔زندگی خود خواب لگے گی ۔دولت کا نشہ ،تمہارے قرب کا نشہ،جدید دنیا کو برتنے کا نشہ۔۔۔ لہلہاتے کھیتوں میں شاداب فصلوں کے درمیان فارم ہاﺅس بنا کر یا پھر کسی سبز پہاڑ کے دامن میں گھر بنا کر ہم دونوں ایک درسرے میں کھوئے رہا کریں گے۔ اب درمیان میں دنیا نہیں ہو گی۔تم اور میں۔۔۔بس۔۔“زین اپنے ساتھ لگی رخسار کے بدن کی حد ت پا کر مزید مخمور ہو گیا تھا۔وہ اسے اپنے بدن میں سمو لینا چاہتا تھا۔جیسے وہی اس کی حقیقی خوشی ہو۔اس نے رخسار کو زور سے بھنچتے ہوئے اس کے لبوں کا ذائقہ چکھنا چاہا۔


”زین۔!یہ کیا پاگل پن ہے۔تم مجھے کچھ بتاﺅ گے بھی یا نہیں۔“وہ کافی حد تک سخت لہجے میں کہتے ہوئے ذرا ہٹ کر بیٹھ گئی۔تب وہ یوں چونکتے ہوئے ایک طرف ہٹ گیاجیسے ہوش میں آ گیا ہو۔اس نے رخسار کا نرم ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا،پھر اس کی مخروطی انگلیوں کو سہلاتے ہوئے خود کھڑے ہوکے اسے یوں اٹھایا جیسے کسی شہزادی کو تعظیماً اٹھا یا جاتا ہے ۔وہ حیران ہوتے ہوئے اس کی جانب دیکھتے اٹھ گئی۔


”آﺅ۔!میںتمہیں بتاﺅں۔“وہ یوں بولا جیسے اس کی آواز کہیں دور سے آ رہی ہو۔وہ یوں اس کے ساتھ چل دی جیسے ٹرانس میں ہو۔وہ اسے مانیٹر کے پاس دھری کرسی پر بیٹھا کر بولا۔”یہ دیکھو۔!ہم ایک لاکھ ڈالر جیت چکے ہیں۔“


اس نے مانیٹر پر غور سے دیکھا۔ چندلمحے پڑھتی رہی پھر سرسراتی ہوئی آواز میں یوں پوچھا جیسے اسے یقین نہ آ رہا ہو۔


”یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔سب کیا ہے۔۔۔تم ایک لاکھ۔۔۔ڈالر۔۔۔یہ کیا ہے زین۔۔“


وہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے ایک جگہ انگلی سے نشاندہی کرتے ہوئے بولا۔


”یہ دیکھو ۔!انہوں نے یہ رقم میر ے اکاﺅنٹ میں ٹرانسفر بھی کر دی ہے۔“


”مجھے یقین نہیں آ رہا ہے۔“وہ آنکھیںپھاڑے اسکرین پر دیکھتے ہوئے بولی۔


”ہم ابھی بنک سے تصدیق کر لیتے ہیں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے ایک نیا صفحہ کھولا،وہ بنک کی سائٹ تھی۔چند منٹ بعد اس نے تصدیق کر لی کہ رقم اس کے اکاﺅنٹ میں آ چکی ہے۔


”زین یہ۔۔۔“وہ حیرت سے بولی۔


”میں نے تمہیں ایویں ہی اپنے لیے خوش قسمتی نہیں کہا۔یاد کرو،آج سے تقریباً ایک سال پہلے جب سیڑھیاں چڑھتے ہوئے تمہاری کتابیں گر گئیں تھیں ۔میں نے تمہاری مدد کی خاطروہ کتابیں اٹھاتے ہوئے تمہارے فلیٹ تک آیا تھا اور تم نے شرماتے ہوئے پہلی بار مجھے چائے آفر کی تھی۔ حالانکہ ہم پہلے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے، کبھی بات نہیں ہوئی تھی “وہ ماضی میں کھو کر بولا۔


”ہاں ،مجھے یاد ہے۔۔ہم نے اس دن ڈھیر ساری باتیں کی تھیں۔ تم پہلی بار ہمارے فلیٹ میں آئے تھے۔ اس سے پہلے ہم ایک سال سے آمنے سامنے کے فلیٹوں میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے سے اجنبی تھے“وہ دور کہیں خلاﺅں میںگم ہوتے ہوئے بولی۔


” اوروہی پہلا دن تھا جب تم یہاں اس فلیٹ میںپہلی بار آئی تھی۔ یاد کرو، اسی دن ہماری دوستی کی ابتداءہوئی تھی۔“وہ ماضی میں پھیل گیا تھا۔


”ہاں زین۔!میں تمہیں دیکھتی تھی ، تمہیں پسند بھی کرتی تھی ۔ لیکن تم اس دن مجھے اچھے لگے تھے۔پہلی بار میرے دل میں تمہارے لیے محبت نے آنکھ کھولی تھی۔“اس نے پرانی یادوں کے حوالے سے اعتراف کرتے ہوئے کہا۔


”ہاں۔!ٹھیک اسی دن،اسی کمپیوٹر پر مجھے ایک ایسی سائٹ ملی ،جس پر ذہنی آزمائش کا ایک مقابلہ چل رہا تھا۔مجھے وہ بہت دلچسپ لگا۔میں نے اس مقابلے میں حصہ لیا اور ایک سو ڈالر جیت گیا۔اب اس کھیل کا اصول یہ تھا کہ جو ہار گیا،سو ہار گیا۔وہ مقابلے ہی سے باہر ہو گیا۔لیکن اگر جیت گیا تو ہی اگلے مرحلے میں جا سکتا تھا۔یہاں بھی آپشن تھا ۔اگلہ مرحلہ یا پھر رقم لے کر مقابلے سے آوٹ ہو جانا۔میں ہر جیت کے بعد اگلے مرحلے میںچلا جاتا رہا اور آج یہ ان کا آخری مرحلہ تھا۔“اس نے خوشی سے لبریز لہجے میںتفصیل بتاتے ہوئے کہا۔


”اُوہ۔!مگر تم نے مجھے کبھی بتایا نہیں ۔“وہ خوشگوار حیرت سے بولی۔


”جیت جاتا تو تیرے ساتھ ہی شیئر کر نا تھا،اور کون ہے میرا اس دنیا میںتمہارے سوا۔۔۔ہار جاتا تو خواہ مخواہ تمہیں دکھ ہوتا۔“اس نے حسرت بھرے انداز میں کہا تو رخسار نے ایک طویل سانس لی۔جیسے بات سنتے ہوئے اس نے اپنی سانس روک لی ہو۔پھر خود پر قابو پاتے ہوئے بولی۔


”اب تم کیا کرو گے۔؟“


”بتایا نا۔۔تمہاری مرضی کا گھر۔!جو شاندار ہو،پھر تیرے پاپا سے تجھے مانگ لوں گا۔پھر کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کر کے بقیہ زندگی پر سکون گذاریں گے۔“ یہ کہتے ہوئے زین کا لہجہ اداسی میں بھیگ گیا تھا۔وہ ایک لمحہ ٹھہر کر اس کی آنکھوں دیکھتے ہوئے بولا۔”تیرے سوا میرا اس دنیا میں کون ہے یار،جس سے میں اپنے دکھ سکھ شیئر کر سکوں،تنہا ہوں جسے تیری محبت ہی جینے کا حوصلہ دے رہی ہے۔“اس کے یوں کہنے پر رخسار تڑپ اٹھی۔اس نے زین کو گلے لگا کر زور سے بھینچ لیا۔پھر اسی طرح اس سے لپٹے ہوئے اس کے کان میں ہولے سے بولی۔


”میں ہوں نا تمہارا سب کچھ،آج سے ماضی کی طرف دیکھنا بھی نہیںاور نہ ہی اسے یاد کرنا ہے۔ایک نئی زندگی کاآغاز کرتے ہیں۔بہت سسک لیا ، اب نہیں ،ہم اس دنیا میں رہتے ہوئے ایک نئی دنیا بسائیں گے۔“


”کیوں نہیں۔“زین نے اس کی گرم سانسوں کو اپنی گردن پر محسوس کرتے ہوئے کہا۔پھر دھیرے سے الگ ہو کر بولا۔”اب سوچنا یہ ہے کہ اتنی بڑی رقم کو سنبھالنا کیسے ہے۔اور ۔۔“یہ کہتے ہوئے اس نے مانیٹر کی طرف دیکھا ،جہاں پھر سے کچھ لفظ جگمگانے لگے تھے۔وہ اس طرف متوجہ ہو گیا۔وہاں اس کے لیے پیغام تھا۔وہ اسے پڑھنے لگا۔


تنظیم والوں نے ایک ہفتے کے بعد ایک تفریحی ٹور کی آفر کی تھی۔یہ ایک طرح سے اُن لوگوں کی گیٹ ٹو گیدر تھی جنہوں نے مختلف مقابلوں میں انعامات جیتے تھے۔اس کے ذہن میں کئی سارے چہرے پھر گئے۔وہ سب مختلف ممالک کے لوگ تھے۔وہ ان کی تصویریں سائٹ پر دیکھ چکا تھا۔ایک دم اس کا دل ہمک اُٹھا تھا۔وہ کبھی پاکستان سے باہر نہیں گیا تھا۔اتنے پیسے ہی نہیں ہوتے تھے کہ وہ کسی فارن ٹور کے بارے میں سوچ بھی سکتا۔ہاںمگر اس کے دل میں یہ خواہش شدید تر تھی جو حسرت بن چکی تھی۔اس نے فوراً ہی یہ آفر قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا۔تبھی اس نے رخسار کی موجودگی کا احساس کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا،وہ بھی پیغام پڑھ چکی تھی۔


”تم بھی وہی سوچ رہی ہو جو میں سوچ رہا ہوں۔“اس نے پوچھا۔


”ہاںنا۔!اس تفریحی ٹور میں مزید دولت کمانے کا بھی امکان پوری طرح موجود ہو سکتا ہے۔ جو تنظیم اتنے لوگوں میں لاکھوں ڈالر بانٹ سکتی ہے وہ نجانے کتنا پھیلاﺅ رکھتی ہو گی،کیونکہ کوئی اتنا احمق نہیں ہے کہ یو نہی دولت بانٹتا پھرے۔کوئی امکان ہوا تو ٹھیک ہے ورنہ محض تفریح کر کے واپس آ جانا۔ویسے پیغام میں فقط ٹور کی آفر ہے۔کہاں ہے یہ تو نہیں بتایا۔“ رخسار نے اسکرین پر دیکھتے ہوئے کہا۔


”میں یہ آفر قبول کر وں گاتو ہی وہ تفصیلات بھجوائیں گے۔یہ دیکھو۔“ اس نے ایک جگہ نشان دہی کرتے ہوئے بتایا


”چلو ٹھیک ہے ،تم دو انہیں اپنی رضامندی ،میں اتنے میں چائے بنا کر لاتی ہوں۔پھر بات کرتے ہیں،ان کی تفصیلات پڑھ کر۔۔“وہ کچن کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔


”اوکے۔!“زین نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کرسی پر بیٹھ کر اسکرین میں مگن ہو گیا۔


زین نے انتہائی غربت کے ماحول میں آنکھ کھولی تھی۔ اس کا والد ٹیکسٹائیل ملز میں مستری تھا۔غنیمت یہ تھا کہ وہاں نوکری پکی تھی۔جیسے تیسے لشتم پشتم گذر بسر ہو رہی تھی۔کیونکہ زیادہ تر خرچ اس کی ماں کی بیماری پر ہو جاتا۔دوا دارو کے بعد جو بچ جاتا ،اسی سے وہ گذارہ کر رہے تھے۔بچپن میں اس نے دیکھا ،اس کا باپ سائیکل پر سوار ہو کر صبح صبح اپنے کام پر نکل جاتااو ر شام ڈھلے لوٹتا۔وہ سکول سے آنے کے بعد اپنے جیسے ہی کوارٹروں میں رہنے والوں بچوں نے ساتھ کھیلتا۔جس وقت وہ میٹرک میں پہنچا، اس کی والدہ اگلے جہاں سدھار گئی۔ وہ اپنا آپ سنبھال سکتا تھا اس لیے باپ نے دوسری شادی بارے سوچا بھی نہیں ۔ سامنے کے کورٹر میں منصور علی ساغر رہتا تھا۔وہ سکول تک اس کے ساتھ پڑھا۔ اس کا باپ بھی مستری تھا۔ماں تھی اور ایک بہن۔ وہی اس کا واحد دوست تھا۔ وہ اور اس کے گھر والے اس کا بہت خیال رکھتے تھے۔ اگرچہ منصورنے کالج میں آرٹس کے مضامین لے لیے تاہم وہ آپس میں روزانہ ملتے۔ یہ ملاقاتیں بہت کم ہوتی گئیں ۔اسے کالج میں دوست اچھے مل گئے تو اس کی ساری توجہ پڑھائی کی طرف ہو گئی۔وہ ٹیکسٹائل انجینئر بن جانا چاہتا تھا۔باپ نے بھی اپنا سب کچھ اسے انجینئر بنانے میں لگا دیا۔وہ اپنے آخری سال میں تھا کہ باپ بھی اسے ہمیشہ کے لئےے داغِ مفارقت دے گیا۔وہ دنیا میں تنہا رہ گیا۔آمدنی کی جوذریعہ تھا وہ ختم ہو گیا۔اس نے پرانے کوارٹر اور اس میں موجود ہر شے سے جان چھڑائی اور کرائے کے اس فلیٹ میں آن بسا۔یہ ایک ایسا علاقہ تھا،جہاں سے نہ صرف اس کا کالج نزدیک تھا بلکہ چند اچھی ٹیوشنز بھی مل گئیں تھیں۔وہ محنت کرتا رہا اور ٹیکسٹائل انجینئر بن گیا۔ان دنوں اسے نوکری کی ضرورت تھی۔جس کے لیے اس کا سار ا دن اخبارات اور کمپیوٹر میں نوکریاں تلاش کرکے گذر جاتا تھا۔


رخسار بھی اسی بلڈنگ میں اس کے سامنے والی رُو کے ایک فلیٹ میں رہتی تھی۔اس کا باپ ایک سرکاری ملازم تھا۔وہ تین بھائیوں میں سب سے بڑی تھی۔وہ کمپیوٹر سائنس کے آخری سال میں تھی۔ایک ہی کالج اور ایک ہی بس میں آنے جانے سے اکثر آمنا سامنا رہتا تھا۔یہی شناسائی ملاقاتوں میں بدلی اور وہ تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے۔رخسار کو اُمید تھی کہ وہ بہت جلد ایک ہو جائیں گے۔ درمیان میں اگر اس کی تعلیم مکمل کا انتظار تھا تو دوسری طرف زین ایک بہترین جاب کے بعد ہی اسے اپنانا چاہتا تھا۔اسی انتظار میں وہ دن بتاتے چلے جا رہے تھے۔آج جب وہ کالج سے واپسی پر معمول کے مطابق اس سے ملنے کے لیے آئی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ وہ تو لاکھوں روپے کا مالک بن چکا ہے۔اسے اپنا ہی نہیں ۔اپنے خاندان کا مستقبل بھی تابناک دکھائی دے رہا تھا۔کایا پلٹنا کسے کہتے ہیں،وہ اس وقت محسوس کر رہی تھی۔وہ چائے لیکر اس کے پاس گئی تو زین نے مگ پکڑتے ہوئے کہا۔


”یہ دیکھو۔!تھائی لینڈ کے کسی جزیرے کورل آئی لینڈ میں تین دن کا قیام ہے۔دو دن آنے جانے میں لگ جائیں گے۔اس ٹور کا تمام خرچ وہ تنظیم دے گی۔ابھی انہیں مطلوبہ انفارمیشن دے دیتا ہوں تو ٹکٹ کنفرم ہو کر آ جائے گا۔یہ دیکھو۔۔“


”تو کیا پروگرام ہے تمہارا۔“وہ اس کے پاس پڑے سٹول پر بیٹھتے ہوئے بولی۔


”جانا چاہئے ۔دیکھیں تو سہی،کیا ہے؟“وہ پرجوش انداز میں بولاتو رخسار نے اس کے چہرے پر دیکھ کر کندھے اُچکا تے ہوئے کہا۔


”اوکے۔!جیسے تمہاری مرضی۔“کہنے کو تو اس نے کہہ دیا تھا لیکن اس کا دل نہیں مان رہا تھا کہ وہ یوں اچانک چلا جائے ۔وہ کھو سی گئی تھی اور اس کے دل میں کھدبد ہونا شروع ہو گئی تھی۔زین نے اس کا چہرہ دیکھا اور پھر بڑا ساسپ لے کر بولا۔


”ابھی ہم شاپنگ کے لیے نکلیں گے۔چونکہ ہم ڈنر کے بعد ہی واپس آ سکیں گے۔اس لیے خاصی دیر ہو سکتی ہے۔تم اپنی ماما کو بتا آﺅ۔“


”ہاں لیکن پہلے وہ انفارمیشن تو دے دو ان تنظیم والوں کو۔“رخسار نے اسے یاد دلایا تو وہ کمپیوٹر کی جانب متوجہ ہو گیا۔رخسار اسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھنے لگی تھی۔اسے اپنی قسمت پر رشک آ رہا تھا۔زین اچھا خاصا وجہہ نوجوان تھا۔لمبا قد،سفید کھلتی ہوئی رنگت،ذرا سا لمبوترا چہرہ ،جس پر تیکھے نقوش تھے۔خاص طورپر گھنی پلکوں والی مخمور آنکھیں ،سرخ پتلے پتلے لب،مضبوط کسرتی بدن والا زین پہلے ہی اس کے دل میں پوری طرح سمایا ہوا تھا ،اس پر دولت مند زین تو مزید پرکشش ہو گیا تھا۔


”رخسار ۔!یہ دیکھو ،میں کچھ رقم تمہارے اکاﺅنٹ میں ڈال رہا ہوں۔تم نے میری غیر موجودگی میں کرنا یہ ہے کہ ایک اچھا سا گھر تلاش کرنا ہے ،جسے ہم خرید لیں۔“


”نہیں ۔ایسا مت کرنا۔۔تم واپس آ جاﺅ،پھر کوئی پلاننگ کریں گے سکون سے۔کوئی ضرورت نہیں ہے اوٹ پٹانگ خرچ کرنے کی۔یہ سب بعد میں دیکھ لیں گے۔“اس نے گہری سنجیدگی سے کہا تو زین چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہ گیا ۔پھر اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولا۔


”اب جاﺅ۔ماما کو بتا آﺅ۔اور تیار ہو کرجلدی سے آ جاﺅ۔“


”اور تم بھی نہا کرخدا کے لیے اس پرانی جینز سے جان چھڑا لینا،کوئی اچھا سا سوٹ پہن لینا۔“اس نے ہنستے ہوئے کہا اور اٹھ کر باہر کی جانب چل دی۔زین مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھنے لگا۔وہ فلیٹ سے کیا گئی ، ایک دم سونا پن ہر جانب پھیل گیا۔وہ اٹھا اور کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔باہر دور تک گھر ہی گھر تھے،جن کے پار سمندر تھا۔اسے لگا جیسے اس کے خواب اس کے چاروں طرف منڈلانے لگے ہیں۔سوچ کے ساتھ انسانی رویہ کیسے بدل جاتا ہے ۔یہ کیفیت اس وقت وہ خود میں محسوس کر رہا تھا۔اسے لگا جیسے کراچی شہر کی فضائیں بھی اپنی تاثیر بدل چکی ہیں۔وہ مسکرا دیا۔پھر تیار ہونے کے لیے کھڑکی سے ہٹ گیا۔


٭٭٭


دارلحکومت بنکاک سے کافی دور تھائی لینڈ کے ساحلی شہر پتایا میں پہنچ جانے کے بعد جب زین کو رل آئی لینڈ تک جانے والی فیری میں بیٹھا تو اس کے بدن میں سنساہٹ ہونے لگی۔سہ پہر ہوچکی تھی۔وہ رنگین نشست پر بیٹھا ہوا تھا۔فیری ہلکے ہلکے ہلکورے لے رہی تھی۔مختلف رنگوں اور تصویروں سے سجی اس فیری میں کافی سارے لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔لیکن رش اتنا زیادہ نہیں تھا۔بہت کم لوگ تھے۔لوگ جلدی جلدی بیٹھ رہے تھے۔جن کے چہرے بتا رہے تھے کہ وہ مختلف ملکوں اور خطوں سے تعلق رکھنے والے ہیں۔اس نے اپنے بدن میں ہونے والی سنساہٹ کے بارے میں سوچا تو اسے خیال آیا۔فیری میں بیٹھنے والے ان لوگوں میں ممکن ہے ،اس جیسے وہ لوگ بھی ہوںجو تنظیم کے انعام یافتہ ہیںاور گیٹ ٹو گیدر کے لیے آنے والے ہیں۔اس نے ممکن حد تک ان لوگوں پر ایک نگاہ ڈالی۔اسے ایسا کوئی چہرہ نہ لگا جو سائٹ پر لگی تصویروں سے مطابقت رکھتا ہو۔اس نے سب کچھ ذہن سے نکالا اور نشست سے ٹیک لگا کر باہر سمند رکی لہروں کو دیکھنے لگا۔تیز ہو ا کے ساتھ ساحلی علاقے کی مخصوص بو اس کے نتھنوں سے ٹکرا رہی تھی۔اس نے اپنا بیگ سنبھالا اور سمندر کے اُفق پر نگاہیں ٹکا دیںجہاں کہیں کورل آئی لینڈ تھا۔وہ سمندر کو محسوس کرنے میں کھویا ہوا تھا کہ ایک خوشگوار مہک نے اسے اپنی طرف متوجہ کر لیا۔اس کے دائیں جانب سمندر کی طرف والی نشست پر ایک لڑکی آ کر بیٹھ گئی۔جس کے ساتھ ہی اس کی زلفیں اس کے چہرے پر پھیل گئیں۔چند لمحوں بعداس لڑکی نے اپنی زلفیں سنواریں تو اس میں سے ایک خوبصورت چہرہ نمودار ہوا جو میک اپ سے یکسر بے نیاز تھا۔ان لمحات میں زین کو یوں لگا جیسے ناخوشگوار بوریت میں ایک دم سے مہکتی ہوئی خوشگوار رنگینی اتر آئی ہو۔وہ ساتھ بیٹھی لڑکی کے چہرے پر غور سے دیکھ رہا تھاکہ اس نے زین کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔


”ایک لاکھ ڈالر ۔۔خرچ کر لیے یا ابھی ہیں؟“


اگرچہ یہ بڑا آسان سا سوال تھا اور وہ بڑی آسانی سے نہیں بھی کہہ سکتا تھا مگر اس سوال کے پس منظر میں جو کچھ تھا اس نے زین کو اس لڑکی پر توجہ دینے پر مجبور کر دیا ۔اس کا رنگ سانولا تھا۔قدرے فربہ مائل لڑکی کے نقوش بہت تیکھے تھے۔گول چہرہ اور بھرے بھرے گال۔اس کی آنکھیں بلا کی خوبصورت تھیں۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے”زوروں “ کا آنکھوں میں کاجل ڈالا گیا ہو۔منا سا تیکھا ناک اور متناسب رسیلے لب۔قدرتی گھنیری پلکوں میں سیاہ آنکھیں تجسس اور دلچسپی سے معمور تھیں۔اس نے سفید پتلون اور سلیو لیس شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔سر سے اوپر سیاہ چشمہ ٹکا ہوا تھا۔اس کے بھرے بھرے بدن سے ماحول ہی بھرا ہوا لگ رہا تھا۔بلاشبہ وہ پر کشش لڑکی تھی۔تب زین نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔


”میں سمجھا نہیں تم کیا کہنا چاہ رہی ہو۔کیونکہ بنا تعارف کے ایسا سوال پوچھنا کچھ۔۔۔“


”گیت چنینائی ۔!“یہ کہتے ہوئے اس نے اپنابھرا بھرا ہاتھ زین کے ہاتھ میں دے دیا۔تبھی زین کے ذہن میں فوراً ہی اس کی پہچان آگئی۔وہ انعام یافتہ لڑکی اپنی تصویر سے ہٹ کر دکھائی دے رہی تھی۔


”سائٹ پر پرانی تصویر کی وجہ سے،پہلی نگاہ میں پہچانی نہیں جا رہی ہو۔ “ زین نے مسکراتے ہوئے کہا


”لیکن میں نے تمہیں اسی وقت پہچان لیا تھا جب تم نے فیری کے لیے ٹکٹ لیا تھا۔مجھے اگر ٹکٹ نہ لینا ہوتا ناتو میں تمہیں وہیں روک لیتی۔“اس نے کچھ لفظوں اور آنکھوں کے اشاروں سے اپنی بات مکمل کرلی۔


”وہی سوال ،اگر میں تم سے کروں تو۔۔۔“زین نے خوشگوار لہجے میں پوچھا۔


”تو میں کہوں گی کہ میں نے سارا پلان کر لیا ہے۔ٹور کے بعد سب خرچ کر دینا ہے۔ایک بڑا سا بوتیک بنا کر،فیشن شو کروانے ہیںاور بہت کچھ۔۔۔اور میں سمجھ سکتی ہوں کہ تم نے بھی یہ سب خرچ نہیں کیا ہو گا۔اگر تم نے رقم جوئے میںنہ ہار دی ہو۔ورنہ کسی اچھے مقصد کے لیے پلان کرنا پڑتا ہے۔“وہ اپنی بات کہہ رہی تھی کہ فیری کے سٹارٹ ہونے کی آواز میں اس کی بات دب گئی۔ایک شور سا مچ گیا۔کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔


”گیت ،کیوں نا ہم جزیرے پر جا کر گپ شپ کریں۔“زین نے کہاتو وہ سر ہلا کر سمندر کی جانب دیکھنے لگی۔


گہرے سبزی مائل سمندر میں کورل آئی لینڈ نمودار ہو گیا تھا۔اس وقت سورج مغرب میں غروب ہونے کے لیے پر تول رہا تھاجو ان کی پشت پر تھا اور اس کی نقرئی روشنی میں جزیرہ چمک رہا تھا۔زین کو وہ منظر بہت دلکش لگ رہا تھا۔پھر جزیرے سے کچھ فاصلے پر وہ فیری رُک گئی تولوگ اترنے لگے۔چھوٹی کشتیاں ان کے انتظار میں تھیں۔گیت اور وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہو ئے جس نے تھوڑی دیر بعد انہیں ایک جیٹی پراتار دیا۔وہ دونوں جزیرے کی جانب بڑھ گئے۔


”زین ۔!کوئی پروٹو کول نہیں ہے۔“اس نے جزیرے پر قدم رکھتے ہی کہا ۔کیونکہ وہاں کچھ ایسا نہیں تھا کہ جس سے یہ اندازہ ہوتا کوئی ان کے لیے منتظر ہو گا۔تب اس نے ہنستے ہوئے کہا۔


”تمہارا کیامطلب ہے پروٹوکول میں ہمیںاکیس توپوں کی سلامی دی جائے۔چھوٹا سا جزیرہ ہے یہ۔یہاں سے دس منٹ کے راستے پر وہ عمارت مل جائے گی جس تک ہمیں جانا ہے“زین نے دائیں جانب سڑک پر اشارہ کرتے ہوئے کہا جو دور تک جا کر ڈھلوان میں غائب ہو گئی تھی۔


”وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ بھاری بیگ۔۔۔“اس نے روہانسا ہو تے ہوئے کہا۔


”اب یہ توقع مت رکھنا کہ میں تمہارا قلی بن جاﺅں گا۔ہمت کرو اور چلو۔“زین نے مسکراتے ہوئے کہا اور دونوں چل پڑے۔


”کیا خیال ہے زین،یہ محض گیٹ ٹو گیدر ہو گایا کچھ مزید ہو جانے کا چانس ہو گا۔“وہ پھولے ہوئے سانس میں چلتے ہوئے بولی۔


”کچھ مزید سے تمہارا کیا مطلب ہے ؟“اس نے آہستگی سے پوچھا۔


”یہی کہ وہ کوئی اپنا مقصد بیان کر یں گے۔ہمارے ذریعے کچھ کرنے کی کوشش کریںگے۔“وہ تیزی سے کہتی چلی گئی۔


”قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا۔میںتفریح کے موڈ میں آیا ہوں۔وہ کرکے واپس چلا جاﺅں گا۔میں فضول سوچ کر اپنا وقت برباد نہیں کرنے والا۔“اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔


”اوکے۔!“گیت نے اختصار سے یوں جواب دیا، جیسے کوئی اب مزید بات نہیں کر ے گا،اس کا انداز ایسے ہی تھا۔


سڑک کی ڈھلوان اترتے ہی اسے وہ گھر دکھائی دے گیا جس کی تصویر وہ پہلے ہی اپنے ای میل میں دیکھ چکا تھا۔زین کو یہ سب اس لیے اجنبی نہیں لگ رہا تھا کہ وہ سب کچھ پہلے ہی ای میل کے ذریعے یہاں کی ہر اہم تصویر اس نے دیکھ لی ہوئی تھی۔یہ ساری معلومات تنظیم والوں نے بھیجی تھی اور بلاشبہ گیت کو بھی یہ سب معلوم ہو گا۔اس لیے وہ بھی بہ غور جائزہ لے رہی تھی۔وہ ایک پختہ اور بڑا سا رنگ برنگا گھر تھا۔جس کے اردگرد گہرے سبز قطعات تھے اور ایک ترتیب میں درخت لگے ہوئے تھے۔وہ جزیرے کی عام آبادی سے کافی ہٹ کر تھا۔وہ جیسے ہی داخلی دروازے کے قریب پہنچے۔چندنوجوان تھائی لڑکیاں آگے بڑھیں۔ انہوں نے نمستے کے سے انداز دونوں ہاتھ جوڑ کر ”وائی“ کیااور جلدی سے ان کا سامان پکڑ لیا۔ایک سجی سنوری روائتی لباس میں ملبوس تھائی لڑکی نے آگے جانے کا اشارہ کیا۔وہ ان لڑکیوں کے جلو میں اس کافی حد تک کشادہ گھر کے داخلی دروازے سے اندر چلے گئے۔ان کے سامنے بڑا سارا کمرہ تھا،جو روائتی تھائی ثقافت کا نمونہ پیش کر رہا تھا۔جس میں بانس کا کام زیادہ تھا۔سامنے ہی صوفے پر ایک ادھیڑ عمر فربہ خاتون کھڑی تھی۔اس نے براﺅن کوٹ پتلون کے ساتھ سنہری ٹائی اور پرپل قمیص پہنی ہوئی تھی۔اس کے بال کھلے تھے ۔چھوٹی چھوٹی آنکھوں کے ساتھ وہ انہیں بڑی دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔پچکا ہوا ناک،موٹے پھولے ہوئے گال اور پتلے پتلے ہونٹوں والے گول چہرے پر مسکراہٹ تھی۔وہ ایک قدم آگے بڑھی ، پہلے گیت کو وائی کیاا ور اسے گلے لگا لیاپھر یہی کچھ زین کے ساتھ کیا۔


”میں ”یوآن “ہوں۔آپ کی میزبان ،کورل آئی لینڈ پر آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں“اس نے صاف انگریزی میں کہا تو زین کا احساس ہوا کہ وہ بولتی بھی ہے۔”آپ اپنے کمرے تک جائیں۔فریش ہو جائیں۔آپ کے لیے ساری انفارمیشن وہاں ایک میز پر دھری ہوئی ہیں۔ٹھیک آٹھ بجے ڈنر ہو گا۔“یہ کہہ کر اس نے جواب کا انتظار بھی نہیں کیا اور ہلکے سے جھک کر اندر جانے کی طرف اشارہ کیا۔وہ لڑکیاں انہیں لے کر اوپری منزل کی جانب بڑھ گئیں۔پہلے ہی ایک کمرے پر گیت کا نام لکھا ہوا تھا۔وہ زین کو ہاتھ ہلاتے اس میں چلی گئی۔اس کے ساتھ ہی کمروں پر مختلف لوگوں کے نام تھے۔ان میں سے ایک پر اس کا نام تھا،وہ اندر چلا گیا تو لڑکی نے اس کا سامان رکھا،فریج کی طرف اشارہ کیا اور ہلکا سا جھک کر باہر چلی گئی۔زین نے گھڑی پر وقت دیکھا ۔آٹھ بجنے میں ابھی دو گھنٹے سے زیادہ کا وقت تھا۔اس نے فریج میں سے پانی کی بوتل لی اور ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔اس کے سامنے ہی کمپیوٹر پرنٹر سے نکالا ہوا ایک کتابچہ پڑا ہوا تھا۔پانی پی کر اس نے بوتل میز پر رکھی،کتابچہ اٹھایا اور عادتاًکمرے کی واحد کھڑکی کے پاس جا کھڑا ہوا۔ملجگے اندھیرے میں دور دور تک کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔اس نے ایک طویل سانس لی،واپس بیڈ پر آکر لیٹ گیا۔وہ تیار ہونے سے پہلے اپنی تھکن اتار لینا چاہتا تھا۔نیند آنے تک وہ کتابچہ پڑھ چکا تھا۔


دستک کی تیز آواز پر زین علی کی آنکھ کھل گئی۔اس کی نگاہ وال کلاک پرپڑی،آٹھ بجنے میں صرف کچھ منٹ رہتے تھے۔اس نے دوسری دستک پر دروازہ کھول دیا۔سامنے تھائی لڑکی موجود تھی۔اس نے مسکراتے ہوئے ”وائی“ کیا اور صرف ایک لفظ بولی۔


”ڈنر۔۔“یہ کہتے ہوئے ہاتھ کی انگلیوں سے آٹھ کا اشارہ کیا ۔زین نے بات سمجھنے کا اشارہ کر کے چٹکی بجا دی۔جس کامطلب تھا کہ تم چلو، میں آ رہا ہوں۔


زین نے تیزی سے شاور لیا،بغیر شیو کیئے اس نے دُھلی ہوئی جینز اور ٹی شرٹ پہنی او رتقریباً آٹھ بجے کمرے سے نکل آیا۔نیچے ڈرائینگ روم تک اسے کوئی ذی روح نہیں ملا، وہ باہر دروازے پر آ گیا۔ڈنر کا اہتمام باہر لان میں کیا گیا تھا۔جہاں کافی زیادہ روشنی تھی۔ایک بڑی ساری گول میز تھی جس کے اردگرد نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیٹھے ہوئے تھے۔ان میں صرف ایک ادھیڑ عمر کالابھجنگ شخص بیٹھا ہوا تھایا پھر یو آن تھی۔گیت پر نگاہ پڑتے ہی وہ ادھر بڑھ گیا۔اس کے دائیں جانب سیٹ خالی تھی۔وہ وہیں جا کر بیٹھ گیا۔تبھی اس ادھیڑ عمر شخص نے مسکراتے ہوئے کھرکھری آواز میں کہا۔


”زین نے انعام بھی آخر میں جیتا اور یہاں بھی آخیر میں پہنچا۔“


تب زین نے اس کی طرف بڑے غور سے دیکھا۔وہ کلین شیو،سیاہ رنگ،کنجی زرد آنکھوں پر نفیس سنہری چشمہ ،پچکا ہوا ناک، موٹے ہونٹ ،خاصی بھاری بھنویں،سر کے بال برف جیسے سفید تھے۔اس نے سرمئی رنگ کا سفاری سوٹ پہنا ہوا تھا۔اس کی شخصیت خاصی رعب دار تھی۔


”خیر۔!بات کا آغاز کرتے ہیں۔میں آپ سب کو تنظیم کا آرگنائزر ہونے کے ناطے خوش آمدید کہتا ہوں۔آپ نے انعامات جیتے ،اس پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔میں پروفیسر رام داس ہوں۔بھارت سے میرا تعلق ہے۔ زبان و ادب ،قدیم اور جدید میرا پیشہ ہی نہیں ،میرا شوق بھی ہے۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ میںہندوﺅں کی تچلی ذات ”دلت “سے تعلق رکھتا ہوں۔میرا خیال ہے کہ پہلے تعارف ہو جائے ،پھر بات آگے بڑھاتے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے نوجوان کی طرف اشارہ کیا۔جاپانیوں جیسی شباہت والا،جس کی ہلکی ہلکی مونچھیں اور داڑھی جیسے ابھی اگی نہیں تھی،مگر بال سیاہ اور گھنے تھے۔اس نے اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے سب کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔


”میں بھوٹان سے دوریجی ہوں ،سائنس اور ٹیکنالوجی کا طالب علم ہوں ۔ بدھ کا پیروکار ہوں۔“


اس سے آگے سانولے رنگ کا لمبا تڑنگا ،مناسب جسم اور موٹی گردن والا نوجوان تھا،اس نے چہرہ اوپر اٹھایا اور بولا۔


”میں اوسانکا ہوںسری لنکا سے ۔فارن افیئر اور سماجی تنظیم و بہبود میرا شعبہ ہے۔معذرت خواہ ہوں کہ میں کوئی مذہبی آدمی نہیں،میں شوشلسٹ نظریات رکھتا ہوں“


”میں جھرنا ہوں۔بنگلہ دیش سے ۔مائیکرواکنامکس میںبہت آگے تک جانا چاہتی ہوں۔ہندو ہوں۔“کافی حدتک فربہ مائل،موٹی موٹی گالوں اور غلافی آنکھوں والی لڑکی نے موٹے اور رسیلے لبوں سے کہا۔اس کے دائیں گال پر تل تھا او ر شاید مسکراتے رہنا اس کی عادت تھی۔اس کے ساتھ ہی ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔بہت زیادہ سفید اور سرخ رنگ کی۔انتہائی سرخ گال ،پتلے پتلے ہونٹ اور گہری سیاہ آنکھیں جبکہ اس کے بال بھورے تھے۔اس نے سب کی طرف دیکھا اور کافی حد تک دھیمی آواز میں کہا۔


”انوچنائے میرا نام ہے۔نیپال میرا وطن ہے۔تحقیق و ترقی اور انسانی وسائل میرا شعبہ ہے ۔ہندو ہوں۔“


”عبدالشرف ہوں بنگلہ دیش سے،مسلمان ہوں۔بزنس اینڈ ٹریڈ میں مہارت حاصل کر رہا ہوں۔“گہرے گندمی رنگ کا چھوٹے قد کا نوجوان تھا۔جس کی آواز خاصی بھاری تھی۔


”میں جوہوشا ہوں۔مالدیپ سے آئی ٹی انجینئر ہوں۔مسلمان ہوں ۔ “ سخت چہرے اور سانولے رنگ کے اس نوجوان نے اختصار سے اپنا تعارف کرایا۔اس نے نقوش کافی حدتک موٹے تھے۔اس کے ساتھ ہی ایک پتلا اور لمبے قد کا لڑکا تھا۔پچکا ناک ،ہلکی مونچھیں ،سیاہ بال ،گہرا سانولا ،جس کے موٹے ہونٹوں پر گہری مسکراہٹ تھی۔اس نے اپنی تیز تیز آنکھوں سے سب کی طرف دیکھا اور بولا۔


”میں ستیش رائے،بھارت سے ،میڈیکل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں کام کرتا ہوں۔ہندو ہوں۔“


”میں گیت چنینائی ہوں۔فیشن ڈئیزانر ہوں، مگرمیڈیا میرا کام ہے ۔میں اتنی مذہبی نہیں ہوں سمجھ لیں کہ سیکولرہوں۔ہندو گھرانے میںپیدا ہوئی ہوں۔مگر مذہب پر اتنا زیادہ یقین نہیں رکھتی۔“


”میں زین علی،پاکستان سے ،مسلمان ہوں۔“اس نے اپنا تعارف کرایا تو رام داس نے سب کی طرف دیکھا اورکہا۔


”آپ سب انعام یافتہ ہیں۔یہاں مزید لوگ ہیں۔جو انعام یافتہ نہیں لیکن تنظیم کے ساتھ پوری طرح منسلک ہیں۔یہ میرے دائیں طرف نوجوان مان سنگھ ہے۔سوفٹ وئیر انجینئر ،بنگلور سے تعلیم حاصل کی ہے۔ اس کے ساتھ میت کور،یہ تنظیم کے متعلق معاملات دیکھتی ہے۔“یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہا۔مان سنگھ خاصامضبوط نوجوان تھا لیکن میت کور نسبتاً ناٹے قد کی فربہ مائل لڑکی تھی،جس کی شرٹ سے اس کا جسم باہر نکلنے کو مچل رہا تھا۔چند لمحوں کی اس خاموشی میں کافی تجسس تھا۔پھر رام داس نے کہنا شروع کیا۔”میری پہلی خوشی یہ ہے کہ آپ سب اس مشرقی خطے سے تعلق رکھنے والے ذہن ترین نوجوان ہیں۔یہ فطری سوال ہے کہ ہم سب یہاں کیوں مل بیٹھے ہیں؟کیا ضرورت تھی کہ مقابلہ کروایا جائے ،اتنا بھاری انعام دیا جائے اور پھر تفریحی ٹور کا اہتمام بھی کیا جائے؟“یہ کہہ کر وہ رکا اور سوالیہ نگاہوں سے سب کی طرف دیکھا،پھر کہتا چلا گیا۔”آپ سب کم وبیش یہ جانتے ہوں گے کہ بھارت میں ایک ”دلت“ کی زندگی کیسی ہے اور وہ اس زندگی کو کیسے بسر کر رہا ہے۔میرا ماضی انتہائی غربت اور ذلت میں گذرا ہے۔میں اپنی اور اپنی نسل کی ذات نہیں بدل سکتا۔لیکن ایسا تو ہو سکتا ہے نا کہ اس خطے سے ذلت بھری غربت ختم کی جا سکتی ہے۔جو تما م تر مسائل کی جڑ ہے۔جس سے جرائم پھوٹتے ہی نہیں پلتے بھی ہیں۔جس کے باعث انسانیت سسک رہی ہے۔جنگ و جدل کے بادل ہم سب پر ہمہ وقت مسلط رہتے ہیں۔میں نے اپنی اب تک کی زندگی میں جو کچھ کمایا وہ سب داﺅ پر لگادیا ہے۔آپ کو اکٹھا کر لیا، اپنے ایک خواب کی تکمیل کے لیے۔اور وہ خواب یہ ہے کہ ہم اپنے خطے کی غربت ختم کر سکیں۔کیا یہ ممکن ہو پائے گا؟اس سوال کا جواب کے لیے میں آپ سے بحث و مباحثہ کر کے آپ سب کو بور نہیں کروں گا اور نہ ہی میں وقت ضائع کرنے کے موڈ میں ہوں۔میں نے اپنا خواب آپ سب کو سنا دیا۔اگر یہ ممکن ہو سکتا ہے اور آپ اس پر اتفاق کرتے ہیں تو ٹھیک ہے ،ورنہ آپ تفریح کریں اور واپس اپنے اپنے وطن لوٹ کر اپنی زندگی جئیں ۔میںنے اپنی کوشش کر لی،مجھے آپ سے بات کرنے کا حوصلہ اس لیے ہوا کہ آپ اس خطے میں سے ذہین ترین لوگ ہیں۔فوری فیصلہ کرنے کی آپ میں صلاحیت ہے ۔ آپ اگر اسے نا ممکن کہتے ہیں تو ایسا ہی ہو گا۔ تاہم میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا۔“وہ یہ کہہ کر خاموش ہوا تو اوسانکا نے کہا۔


”پروفیسر۔!آپ نے اپنا خواب کن بنیادوں پر دیکھا،وہ تو بتائیں ،باقی باتیں بعد کی ہیں۔کیا سوچتے ہیں آپ؟ مطلب،ہم سب مختلف ممالک اور مذہب سے تعلق رکھنے والے ہیں۔ہم سب کے ممالک میںیہ مسئلہ ہے۔اتنے بڑے خطے میں غربت ختم کرنے کے لیے بڑے بڑے خزانے ہی نہیں،وقت کے ساتھ ساتھ نسلیں بھی چاہیں۔“


”تم ٹھیک کہتے ہواوسانکا۔!آپ سب لوگ بھی امیر طبقے سے تعلق نہیں رکھتے ۔اگر ابتد اءمیں آپ لوگ خود کو اس خطے کے امیر ترین لوگوں میں شامل کر لیں تو کیا غربت ختم ہونے کی ابتدا ءنہیں ہو جائے گی۔اگرآپ میںسے ہر بندہ ایک سو سے زیادہ لوگوں کو نوکری دینے کے قابل ہو جائے تو ذرا سوچیں ان کے ساتھ کتنے لوگ منسلک ہیں۔امداد باہمی کی بنیاد پر سرحدوں اور مذہب کے بغیر ایک بہت بڑا بزنس آپ سب کی ابتداءبن سکتا ہے۔کیونکہ، آپ کی سب سے بڑی قوت، آپ کی سوچ ہے“


”پروفیسر۔!آپ کے ذہن میں منصوبہ کیا ہے۔وہ بتائیں ۔پھر اس پر بحث ہو سکتی ہے۔“ستیش نے اپنی نرم آوازمیں بڑے تحمل سے کہا۔


”میں نے ایک چھوٹی سی تنظیم بنائی ہے۔جس کا مقصد غربت ختم کرنا ہے ۔وہ میں نے آپ کو بتا دیا۔جیسے کہ اوسانکا نے کہا،بڑے بڑے خزانے چاہیں۔ظاہر ہے دولت کے بغیر تو ایک چھوٹا سا کاروبار بھی شروع نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن میں کہتا ہوں کہ دولت بھی عقل مندی سے حاصل کی جا سکتی ہے۔بہترین منصوبہ بہترین کاروبار کی بنیاد بن سکتا ہے۔ہماری تنظیم بزنس کرے گی۔جس میں آپ سب لوگ اپنے اپنے شعبے کی مہارت اور اپنی مہارت کے ساتھ ساتھ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کریں گے۔ امداد باہمی کی بنیاد پر سرحدوں اور مذاہب سے ماورا ہو کر،سیاست کو نظر انداز کر کے فقط انسانیت کے لیے ،انسانی احترام کے لیے اسی خطے سے دولت کے وسائل پیدا کریں،خود مضبوط ہوں،بزنس مضبوط ہواور اپنا مقصد حاصل کر لیں۔سب سے پہلے آپ خود مضبوط ہوں،پھر دوسروں کو کرتے چلے جائیں۔“


”یہ خواب مجھے نہیںلگتا کہ کوئی سبز باغ ہے۔اس خواب کو حقیقت میں لانے کے لیے مشکل ضرور ہے لیکن یہ نا ممکن نہیں۔تا ہم اگر اس میں سب کی پلاننگ شامل ہو گی اور اس میں شریک لوگوں کو یہ یقین ہوگا کہ حاصل ہونے والی دولت کی تقسیم مساوی ہو گی۔“انوچنائے نے اپنے سر کو ہلاتے ہوئے اپنی ہی سوچوں میں کسی نکتے پر توجہ دیتے ہوئے کہا۔تو پروفیسر نے اپنی عینک کو درست کرتے ہوئے کہا۔


”یہیں سے شروعات ہیں۔اب یہ کیسے ہو گا؟یہ تو اسی وقت طے کیا جا سکتا ہے نا جب یہ معلوم ہو کہ آیا یہ منصوبہ اپنی عملی حیثیت رکھتا ہے ،اس میں کون کون لوگ شامل ہیں۔یہ سب ابھی نہیں،ابھی آپ اس پر سوچیں، سب لوگ ایک دوسرے کے ساتھ اس پر بحث و مباحثہ کریں۔اپنا ذہن بنائیں ۔اس تفریحی ٹور کے تیسرے اور آخری دن ہم طے کریں گے۔پلان ناقابل عمل ہوا تو یہیں چھوڑ دیں گے۔ورنہ طے کر لیں گے۔“یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا تو یو آن نے کہا۔


”نوجوانو۔!آپ میرے مہمان ہو۔ہلا گلا چاہتے ہو تو میوزک ہے،پینے کے لیے ہر طرح کاڈرنک ہے ،جسے جیسی موج مستی چاہئے ،وہ بلا جھجک مجھے بتا دے ۔ہر شے مل جائے گی ،جس سے آپ لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ “اس نے اپنی پچکی ناک اور پتلے لبوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا تبھی گیت اٹھتے ہوئے بولی۔


”کیوں زین ،کیا تبصرہ کرتے ہو۔اس پروفیسر کی بات پر؟“


”تبصرہ تو میں تب کروں گانا،جب میں اس پر سوچوں گا۔فی الحال تو میں یہ سوچ رہا ہوں کہ یہاں میرے کھانے کے لیے کچھ حلال ہو گا بھی یا نہیں۔“زین نے مسکراتے ہوئے کہا۔


”ہاں ۔!یہ تمہارا خاصااہم مسئلہ ہے۔ویسے ہم چاہے کسی ایک فلسفے یا نظرےے پر اتفاق کر بھی لیں مگر مذہبی معاملات میں ہمارے یہ مسائل رہتے ہیں۔او ریہ مسئلے بڑی بڑی جنگوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔کیا خیال ہے تمہارا۔“وہ کافی حد تک سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔تب وہ دونوں چہل قدمی کے سے انداز میں وہاں سے ہٹ کر کچھ فاصلے پر جا رکے تو زین بولا۔


”تم اپنی بات کا جواب خود ہی دے چکی ہوگیت۔مذہب ،سیاست اور نظریہ ان سب سے ہٹ کر کسی فلسفہ پر اتفاق ہو جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔جیسے پروفیسر کا دولت بنانے اور بہت زیادہ دولت بنانے کا منصوبہ ۔ ہوتا یوں ہے کہ ہم اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے کسی نظریہ یا فلسفہ کا سہارا لیتے ہیں۔جیسے پروفیسر کا غربت ختم کرنے کا فلسفہ ۔اگر وہ صرف یہی کہتا نا کہ میںنے دولت بنانی ہے اور میرے ساتھ شامل ہو جاﺅ،تو میں زیادہ خوش ہوتا۔“


”کیا دولت بنانا بری بات ہے ۔میرا مطلب ہے کسی مقصد کے لیے۔“وہ کہنا چاہتی تھی کہ زین نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔


”دولت بنانے میں شرم کیسی،دولت کے حصول کے لیے ہم یہاں اکھٹے ہیںاور میں پورے یقین سے کہتا ہوں ہم سب کا اتفاق بھی ہوجائے گا۔میں اصل میںیہ کہنا چاہتا ہوںکہ صاف اور سیدھی بات ہو۔“


”تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو۔“وہ آنکھیں جھپکتے ہوئے بولی۔


”دولت کا حصول فطری کشش رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہر انسان طاقتور بھی ہونا چاہتا ہے۔دولت کا راستہ ہم دیکھ چکے ہیں۔جب دولت اور طاقت کے حصول کی راہ دکھائی دے رہی ہو تو اسی طرف جاتے ہوئے قدم پھر رک نہیں پاتے ۔وہاں سے پلٹنا بہت مشکل ہوتا ہے۔“وہ کھوئے ہوئے لہجے میں بولا۔


”تمہاری بات سے شک ٹپک رہا ہے۔“گیت کی سنجیدگی مزیدگہری ہو گئی۔تب وہ مسکراتے ہوئے بولا۔


”اتنا نہیں،جتنا تم سوچ رہی ہو۔تصویر کے دونوں رخ سامنے ہوں تو ایسا ہی ہوتا ہے۔“


”لگتا ہے تم ٹھیک سوچ رہے ہو۔ لیکن یہ وقت ہی بتائے گا کہ اس تھیلی سے کیا نکلتا ہے۔خیرآﺅ۔ یو آن سے پوچھیں تمہارے لیے کیا ہے اور میرے لیے کیا۔میرا خیال ہے تم ڈرنک تو نہیں لوگے۔“


”ہاں ایسا ہی ہے۔“زین نے کہا اور اس طرف چل دیئے جس طرف وہ کھڑی تھی۔بڑے سارے سبز قطعے پر ملجگی روشنی میں سبھی مست تھے۔ جزیرے پر ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی۔کچھ لوگ پروفیسر کے اردگرد تھے۔ رات اس جزیرے پر لمحہ بہ لمحہ گذرتی چلی جا رہی تھی۔


٭٭٭


ممبئی شہر سے خاصی دور اورپونا کے مضافات میں پہاڑیوں کے درمیان ایک پر شکوہ محل نما سفید رنگ کی عمارت سبزے کے درمیان انتہائی خوشگوار تاثر دے رہی تھی۔سورج طلوع ہونے کو تھا۔اس لیے مشرقی افق کی نارنجی روشنی کا پس منظر اسے مزید خوبصورت بنا رہا تھا۔ عمارت کے سامنے مین روڈ تھا۔سبز قطعات کے درمیان تار کول کی گھومتی ہوئی سڑک عمارت سے سامنے سے گذر رہی تھی۔درمیان میں فوارا چل رہا تھا۔پھولوں کی بیلوں،کیاریوں،سر سبز قطعات اور مختلف قسم کے درختوں کے درمیان وہ سفید عمارت ماورائی سی لگ رہی تھی۔پچھلی جانب بھی ایسے ہی سبز قطعے تھے۔جس کے درمیان میں سفید پتھروں کی روش بنائی گئی تھی۔اس آخر ی کنارے پر لوہے کی سفید پینٹ کی ہوئی ریلنگ تھی جس کے آگے کھائی تھی۔ سفید ریلنگ کے پاس گیروے رنگ کی دو چادروں میں ملبوس پنڈت شیو پرشاد، اُبھرتے ہوئے سورج سے آنکھیں ملائے ہوئے کھڑا تھا۔سرخی مائل دمکتے ہوئے چہرے پر لبوں کو چھپائے ہوئے سیاہ بڑی مونچھیں ،بے ترتیب پھیلی ہوئی داڑھی،سیاہ جٹادھاری بال،ماتھے پر سفید رنگ کی تین افقی لکیروں کا قشقہ ،کلائیوں میں لوہے اور سونے کے موٹے موٹے کڑے،انگلیوں میں پتھر جڑی انگشتریاںاور بڑے سارے پیٹ پر جینود کھائی دے رہی تھی۔وہ ہاتھ پھیلائے سورج کو دیکھتے ہوئے ایسے حالت میں تھا جیسے مراقبے میں ہو۔ساتھ میں زیر لب تیزی سے اشلوک پڑھتا چلا جا رہا تھا۔وہ ہر طرف سے بے نیاز تھا۔ دھوپ اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی۔جس طرح دھوپ تیز ہو رہی تھی ، اس کے اشلوک پڑھنے میں بھی تیزی آ رہی تھی۔یہاں تک کہ سورج پوری طرح طلوع ہو کر غضب ناک ہو گیا۔تب پنڈت بھی بے بس ہوتا ہوا دکھائی دیا۔اس نے ہوا میں زور زور سے ہاتھ ہلائے پھر کچھ دیرپر سکون سا کھڑا رہا۔چند لمحوں بعد اس نے ہاتھ نیچے کئے اور واپس پلٹ پڑا۔اس نے لکڑی کی کھڑاویں پہنی ہوئی تھیں۔وہ اپنی چادریں سنبھالتا ہوا عمارت کی دائیں جانب اس جگہ پر آگیا،جہاں ایک سفید پتھر کا چبوترا بنا ہوا تھا اور اس کے درمیان میں سرخ قالین بچھا ہوا تھا۔قالین کے درمیان میں چاندی کی پڑی طشتریوںمیں پھل تھے اوران کے اردگرد پھول تھے جو صرف زرد رنگ کے تھے۔اگربتیاں جل رہے تھیں جس سے سارا ماحول معطر ہو رہا تھا۔وہ کھڑاویں اتا رکر سفید چاندنی پر بیٹھ گیا۔پھلوں کے درمیان پڑا ہوا ناریل اٹھایا،اس میں اسٹرا ڈالا اور پینے لگا۔سیر ہونے کے بعد اس نے ناریل رکھا ہی تھا کہ عمارت سے ایک لڑکی نکلی جس نے پرانی داسیوں کے جیسا نیم برہنہ لباس پہنا ہوا تھا۔ساڑھی نما سفید چادر جس سے پنڈلیاں ،کمر اور سینے کا کچھ حصہ دکھائی دے رہا تھا۔موتیا کے پھولوں والے گجرے کا زیور پہنے وہ بڑے ادب سے قریب آئی اور ہاتھ میں پکڑی ہوئی چاندی کی طشتری اس کے سامنے رکھ دی۔اس میں سفید رنگ کا کاغذ پڑا ہوا تھا۔پنڈت شیوپرشاد نے اس پرایک نگاہ ڈالی اور طشتری میں سے کاغذ اٹھا کر پڑھنے لگا۔اس پر جو لکھا ہوا تھا،اس تحریر نے شیوپرشاد کی ساری سنجیدگی ختم کر کے رکھ دی۔وہ بے ساختہ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔پھر اسی بے ساختگی میں بولا۔


”تو بساط پر مہرے سجا دیئے تم نے رام داس۔۔۔“


”مہاراج۔!مجھے کچھ کہا۔“وہ لڑکی کافی حد تک جھکتے ہوئے دونوں ہاتھ جوڑ کر بولی تو وہ چونک گیا۔


”ناہی۔۔بالک۔۔ناہی۔۔تم جاﺅ۔۔“اس نے کاغذ اپنے ہاتھوں میں مسل دیا اور پھر واپس طشتری میں رکھ دیا جسے وہ لڑکی اٹھا کر پلٹ گئی۔


پنڈت شیوپرشاد کے چہرے پر خوشی جھلک رہی تھی۔اس نے جو خواب دیکھا تھا اس کی شروعات ہو گئیںتھیں۔اسے یہ جاننے کی قطعاً پرواہ نہیں تھی کہ رام داس نے یہ سب کیسے کیا۔اسے تو بس نتیجے کا پھل کھانا تھا جس کے لیے ابھی وقت کا بہت فاصلہ تھا۔اس کا یہ خواب بہت پرانا تھا،جو اس نے بہت عرصہ پہلے دیکھا تھا۔وہ خواب اس نے اتنا دیکھا کہ اسے خود سچ معلوم ہونے لگا تھا۔اس نے اپنے خواب کی بہت زیادہ حفاظت کی تھی۔اتنی زیادہ کہ کبھی کبھی وہ یہ خواب خود اپنے آپ سے بھی چھپا لیتا۔پنڈت نے جب اپنے گرو سے تعلیم مکمل کی تو وہ اپنے فارغ شدہ چیلے پر بڑا فخر کرتا تھا۔اسے پوری امید تھی کہ پنڈت شیوپرشاد دھرم کا بڑا سیوک ہو گا۔اس نے کیابھی ایسے ہی،پونا کے مضافات سے وہ اٹھا اور کر ممبئی نگری میں اس کے چرچے ہونے لگے۔اپنی رسیلی زبان سے جس موضوع کو بھی وہ چھڑتا اس کے منہ سے لفظ موتیوں کی مانند جھڑنے لگتے۔پھر اس کی ہندوستان یاترا شروع ہو ئی،تقریباً دس برس کے عرصے میں کشمیرسے لے کر راس کماری تک کا اس نے سفر کیا۔پلٹ کر ممبئی میں ہی ایک آشرم بنا لیا۔سکول،یتیم خانہ ،معذوروں کے لیے گھر اور مندر۔ یہ سب اس طرح چلنے لگے کہ چندہ دینے والوں کو خود پر رشک آنے لگا۔اس نے تھوڑا سکون کیا تو وہ خواب جو کہیں سو گیا تھاانگڑئیاں لے کر بیدار ہو گیا۔شاید یہ خواب ایک خواب ہی رہتا، لیکن جب اس نے اخبار میں ایک بحث پڑھی تو اسے اپنا خواب حقیقت دکھائی دینے لگا۔


یہ بحث مایا تہذیب کے بارے میں تھی۔جس کی پیش گوئیوں دنیا بھرمیں موضوعِ بحث ہو گئیں تھیں۔اس کی ایک پیشن گوئی نے نہ صرف دنیا کو دہشت زدہ کر دیا بلکہ خوف میں بھی مبتلا کر نے کا باعث بن گئی تھی۔مایا تہذیب کی پیشن گوئی کے مطابق دسمبر 2012ءمیں اتنی بڑی تباہی آنے والی ہے کہ جس سے دنیا ختم ہو کر رہ جائے گی۔اس تباہی کا ذمے دار ان کا ایک آسمانی دیوتا ہے جس کا غضب ہی اس عالمی تباہی کا ذمے دار ہو گا۔یہ پیشن گوئی ایک سِل پر درج ہے جو اب خاصی شکستہ حالت میں ہے۔مایا تہذیب ،گوئٹے مالا،شمالی ال سواڈو اور وسطی میکسیکو کے علاقے پر مشتمل ہے جو تقریبا ایک ہزار کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہواعلاقہ تھا۔اس تہذیب کی ابتداءدو ہزار سال قبل مسیح میں ہوئی تھی۔جب یہ اپنے عروج پر تھی تب اس خطے کی پہلی مکمل طور پر تحریری زبان یہیں وجود میںآئی تھی۔ایک مندر سے دستیاب یہ سِل اُسی تحریر میں ہے۔بحث نے جب زور پکڑا تو قدیم زبان کے ماہرین نے اپنی اپنی علمیت اور سائنسی علم کے مطابق چھان پھٹک کی ،تو دو آراءسامنے آئیں۔ایک رائے تو یہی تھی کہ یہ پیشن گوئیاں سچ ہو سکتی ہیںکیونکہ زمانے کے حالات اسی طرف جا رہے ہیں،جیسا کہ کہاگیاہے۔دوسری رائے یہ تھی کہ وہ سِل جس پر یہ پیشن گوئیاں درج ہیں، وہ کافی شکستہ حالت میںہے۔لہذا پڑھنے میں غلطی ہو رہی ہے۔اصل میں یہ ایک دور کا خاتمہ اور دوسرے دور کا آغاز ہے۔ان کی دلیل یہ ہے کہ مایا تہذیب کی تقویم میں دُور ،پیریڈ یا سائیکل ہوتا ہے۔بارہ دُور گذر چکے ہیں۔اب چارسوسال کے تیرھویں دُور یعنی اکیس دسمبر سن بیس سو بارہ کو مایا دیوتا ”بولون یوکٹئے“ کی واپسی کو بیان کرنے والی پیشن گوئی پر کئی برسوں سے تحقیق کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے ۔مایا تقوم کا آغاز 3113ءقبل مسیح میں ہوا۔ایک دور کا خاتمہ اکیان سو پچیس برس میں ہوتا ہے۔اصل میں اس پیشن گوئی میں کہا یہ گیا ہے کہ مایا دیوتا آسمان سے اتر کر ایک نئے دور کی بنیاد رکھے گا۔یعنی یوم تخلیقِ نو،بارہ دسمبر بیس سو بارہ ہے۔پنڈت شیوپرشادیہ بحث بہت دلچسپی سے دیکھ رہا تھا۔اس دوران اس کی نگاہ سے ایک مضمون گذرا۔جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتی علم نجوم کی رو سے دنیا اس وقت کلجگ یا کلیگ سے گذر رہی ہے۔یہ بد ترین دور ہے،جس کا آغاز 3102ءقبل مسیح سے شروع ہوا تھا۔اس کا کل دورانیہ پانچ ہزار برس ہے۔مایاتہذیب کے قریب تریہ ابتداء،جس سے دنیا کے برے دور کا آغاز ہوا تھا۔وہ اس کا سن3114ءقبل مسیح بتاتے ہیں۔قدیم بھارتی قمری حساب سے گنتی کیا کرتے تھے۔چونکہ یہاں معاملہ اچھا خاصا الجھا ہوا ہے۔لیکن پیشن گوئی تقریباً ایک جیسی ہے کہ آسمان سے دیوتا اتر کر نئے دور کی بنیاد رکھے گا۔چونکہ علم نجوم کے ماہرین کا یہ خیال ہے کہ 2012ءمیں عالمی سطح پر شورش ،ہنگامہ آرائی یا قدرتی آفات کا خطرہ ہے۔اسی سال کے بعد سنہری دور کا آغاز ہونے والا ہے۔امن سلامتی اور خوشی کی ابتداءہے۔ اس کا سبب کسی روحانی شخصیت کے وجود سے ہو گا۔یعنی ایک نئے دور کاآغاز ہوگا۔پنڈت شیوپرشادنے یہ مضمون پڑھا تو اسے ویدوں کی تعلیم یاد آنے لگی۔اپنے گرو کے سکھائے ہوئے اسباق میں سے بہت ساری باتوں کے دوران ایک بات یاد آ گئی کہ ایک وقت آنے والا ہے ،جب شیو بھگوان کی تیسری آنکھ کھلنی ہے ۔یہی وہ دور ہو گا،جس میں شیو بھگوان کے وہ سیوک جو شیو بھگوان کے آنے کی راہ ہموار کریں گے ،وہی اس دنیا پر حکمران ہوں گے اور ان کی شکتی نہ ختم ہونے والی ہو گی۔انہیں موت نہیں ہوگی اوروہ اس سنہری یُگ میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔مضمون میں دی گئی سوچ پنڈت کے دماغ میں ہلچل مچانے کا باعث بن گئی ۔وہ کئی دن تک سوچتا رہا ۔کہتے ہیں کہ جب دل کی خواہش اور دماغ کی سوچ ایک جیسی ہو جائے تو ارادے پر عمل کرنے میںکوئی دقت نہیں ہوتی،کیونکہ یہی سنگم جنون کے ابتداءکا باعث بنتا ہے۔ پنڈت نے ارادہ کر لیا تو پہلا یہ کام کیا کہ مضمون نگار کی تلاش کر کے رابطہ کیا۔وہ پروفیسر رام داس تھا جو بمبئی ہی کے ایک کالج میں پڑھاتا تھا۔اس نے فوراً ہی اسے بلوا لیا ۔وہ یہ جانتا تھا کہ مضمون کے جو لفظ ہیں اوران میں جو تحقیق ہے ۔ان سے آگے بھی بہت ساری باتیں ہیں،جن کا جاننا اور سمجھنا بہت ضروری ہے۔تا ہم اس نے یہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ شیو بھگوان کا پجاری ہونے کے ناطے وہ سب کچھ کرے گا، جو شیو کی تیسری آنکھ کھلنے سے پہلے ہونا چاہئے۔کیا کرنا ہے اور کیسے کرناہے۔یہ اس نے رام داس سے ملنے کے بعد فیصلہ کر نا تھا،جس نے پنڈت سے ملنے کا عندیہ دے دیا تھا اور چند دن بعد پہنچ جانے کی بابت کہہ دیا ۔


ایک دن سفیدماروتی اس پر شکوہ سفید عمارت کے داخلی دروازے کے سامنے ا ٓرُکی۔جس میں سے دِلت پروفیسر رام داس باہر آیا۔وہ اکیلا ہی تھا اور اس دن اس نے گہرے نیلے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچا۔دروازہ کھل گیا اور اس میں سے ایک باوردی مستعد سیکورٹی گارڈ برآمد ہوا۔اس نے سلیوٹ کے انداز میں سلام کیا تو رام داس نے سر کے ہلکے سے اشارے کے ساتھ جواب دیا۔ وہ اسے لیے ہوئے ایک پروقار اور قیمتی سامان سے آراستہ ڈرائینگ روم میں لے گیا۔وہاں کی ہر شے سے امارت اور نفاست ٹپک رہی تھی۔اس سارے ماحول میں وہ سیاہ فام دِلت پروفیسر بالکل اجنبی لگ رہا تھا ۔ اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ جس پنڈت شیوپرشادسے ملنے کے لیے آیا ہے۔وہ برہمن پجاری ہے۔اس کے گیان دھیان کا چرچا پورے بھارت ہی میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں ان جگہوں پر بھی ہے جہاں جہاں بھارتی آباد ہیں۔ اس کے بارے میں یہی تاثر تھا کہ وہ گیان دھیان کی اگلی منزل کو پانے کے لیے لمبی پوجا میں مصروف ہے۔گارڈ نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ بیٹھ گیا۔اس کے ساتھ ہی اس کے لیے مشروبات اور انواع اقسام کے پھل رکھ دیئے گئے۔جو وہاں کی مخصوص داسی نما ملازمائیں رکھ کر گئیں تھیں۔کسی بھی برہمن پجاری کے گھر میں کسی دِلت کی ایسی پذیرائی ہندو معاشرے میں نا ممکن سی بات تھی۔ذات پات اور چھوت چھات کے قائل معاشرے میں اگر یہ بات نکل بھی جاتی تو برہمن کوپجاری ہی تسلیم نہ کیا جاتا او رجو گہرا تاثر اور عقیدت اس کے ساتھ منسوب ہو چکی تھی،وہ ختم ہو کر رہ جاتی۔پروفیسر رام داس یہ اس وقت سوچتا چلا گیا جب پنڈت شیوپرشادخود اس کے پاس آیا اور اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گیا۔پھر باتوں کے دوران اس کے ساتھ کھاتا پیتابھی رہا۔رام داس ایک خواب ناک کیفیت سے گذر رہا تھا ۔پنڈت شیو پرشادنہ صرف اس کو عزت اور پذیرائی دے رہا تھا بلکہ اس کے ساتھ بیٹھ کر کھا پی بھی رہاتھا۔


”تم حیران مت ہو پروفیسر۔!ہمارے درمیان اگر ذات پات اور چھوت چھات ہے تو یہ دھرم کی وجہ سے ہے اور اب ہمارا مل بیٹھنا بھی دھرم کے لیے ہی ہے۔“پنڈت نے اپنے مخصوص نرم لہجے میں مسکراتے ہوئے کہا۔


”یہ چمتکار کیسے ہو گیا پنڈت جی۔“رام داس نے واقعتا حیرت اور عقیدت میں بھیگے ہوئے لہجے میںپوچھا کیونکہ وہ یہ سمجھنا چاہتا تھا کہ یہ پنڈت کی اپنی اختراع تھی یا پھر کوئی دھرم میں ایسا جواز ہے۔


”ہم تمہیں سچ بتائیں ۔تمہارا لکھا ہوا مضمون ہمارے اس خواب کی تائید ہے جو ہم مسلسل دیکھ رہے ہیں۔تمہی نے اپنے مضمون میں لکھا ہے نا کہ شیو بھگوان کی تیسری آنکھ کھلنے والی ہے تو اس کے اشارے ہمیں ہو رہے ہیں۔“پنڈت نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔


”میرے لیے کیا حکم ہے؟“وہ تیزی سے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔


”وہ بھی تم نے خود ہی لکھا ہے ۔اب تم نے مجھے یہ بتانا ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا؟ممکن ہے تم اور ہم ہی وہی ہوں جنہیں شیو بھگوان نے اپنے سیوک چن لیے ہیں۔“پنڈت نے اپنے مخصوص ٹھہرے ہوئے نرم لہجے میںکہا۔


”میرے ذہن میں سب کچھ ہے۔مجھے بس تھوڑا سا وقت اور کافی ساری دولت چاہئے۔سب کچھ ایسے ہو گا کہ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہو گی او رہم اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔“رام داس نے پر جوش لہجے میں کہا۔


”دولت کی پرواہ مت کرو،جتنی چاہو گے دوں گا۔۔اور اگر تم یہ کرو لو گے تو میں یہ وچن دیتا ہوں ،اگلے جنم میںتم براہمن ہو گے۔۔“پنڈت نے ہاتھ اٹھا کر شدت سے کہا تو رام داس کا سینہ خوشی سے بھر گیا۔وہ ہاتھ جوڑ کر اٹھتے ہوئے بولا۔


”آپ کا اتنا ہی وچن کافی ہے۔میں ایک سال بعد آپ کے پاس یہاں واپس آﺅں گااور اس دوران جو کچھ میںکروں گا اس کی اطلاع آپ تک پہنچتی رہے گی۔“


”جا پروفیسر۔!ہم نے تیرے شبدوں کی لاج رکھ دی ،تو سیوا کر اور سو رگ پا۔۔۔“پنڈت نے اپنے مخصوص نرم لہجے میں دعائیہ انداز سے کہا اور اٹھ گیاپھر اسے تھپکی دےتے ہوئے واپس مڑ گیا۔اور اس دن ابھی ایک پورا سال نہیں ہوا تھا کہ رام داس کی کامیابی نے اسے مسرور کر دیا تھا۔


پنڈت رام داس اٹھا اور عمارت کے اندر چلا گیا۔وہاں اس کے انتظار میں چند داسی نما ملازماﺅں کے ساتھ ایک شخص کھڑا تھا۔جس نے سفید کرتا پاجامہ پہنا ہوا تھااور ایک خاتون جس نے گہرے رنگ کی ساڑھی او ر موتےے کے پھولوں سے بال گوندھے ہوئے تھے۔ پنڈت نے اس آدمی کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا اور ایک کمرے کی جانب چل دیا۔وہ اس کے بیٹھنے کا مخصوص کمرہ تھا۔جس میں ایک دبیز قالین بچھا ہوا تھا اور چند گاﺅ تکئے تھے۔وہ جا کر وہاں بیٹھا تو وہ آدمی ہاتھ باندھے دروازے ہی میں رک گیا ۔پنڈت نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔


”رام داس سے رابطہ کرو اور اس سے پوچھو کہ وہ ہمیں کب ملنے آ رہا ہے اور اسے کس شے کی ضرورت ہے؟“


”جو حکم مہاراج۔!“اس آدمی نے کافی حد تک جھکتے ہوئے کہا اور پھر پلٹ گیا۔جبکہ پنڈت اپنے ہی خیالوں میں کھو گیا۔اسے معلوم تھا کہ اسے اپنے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے پوری طرح جاگنا ہو گا۔


٭٭٭


زین علی کراچی ائیر پورٹ پراترا تو کافی حد تک پرجوش تھا۔اس کے ذہن میں خیالات کا انبار جمع ہو چکا تھا۔اگرچہ گیت چنینائی کے ساتھ اس کی کمپنی سب سے زیادہ رہی لیکن اس نے اپنے خیالات سنانے کی بجائے اس کی باتیں زیادہ سنیں تھیں۔اس نے اس سے باتیں کرنے کا بہت موقعہ ملا تھا تا ہم مالدیپ کاجوہوشا اور سری لنکا کا اوسانکا اسے اچھے اور زندگی سے بھر پوردکھائی دیئے تھے۔اُسے اُمید تھی کہ آگے چل کر ان سے خوب بنے گی۔وہ اپنے سامان کے ساتھ ائیرپورٹ سے باہر آیا تو رخسار اس کے انتظار میں تھی۔اسی لمحے زین کو لگا جیسے پانچ دن کی جدائی بہت طویل تھی۔رخسار کسی کی پرواہ کیئے بغیر اس کے سینے سے جا لگی۔تبھی زین اسے بھینچتے ہوئے بولا۔


”میں تمہاری بے چینی سمجھ سکتا ہوں۔ہمارے ساتھ ساتھ جدائی بھی سانس لیتی رہی ہے ۔“


”صرف جدائی نہیں،اتنے دن تم دیار غیر میں تھے ،کوئی رابطہ نہیں تھا،یقین جانو۔۔بس۔۔۔“یہ کہتے ہوئے وہ الگ ہوئی اور اس کی آواز بھرا گئی۔


”اب تو آ گیا ہوں نا۔۔چلو گھر چل کر باتیں کرتے ہیں۔“زین نے پیار سے اس کا ہاتھ تھام کر کہا تو دونوں ایک قریبی کیب میں بیٹھنے لے لیے لپکے۔


فلیٹ میں داخل ہوتے ہی زین کو یہ اندازہ ہو گیا کہ رخسار کا زیادہ وقت یہیں گذرتا رہا ہے۔اس نے سامان رکھا،اپنے بیڈ روم میں جا کر ایزی ہوا اورجب واپس آیا تو رخسار چائے بنا کر لا چکی تھی۔


”کیسا رہا تمہارا ٹور؟“اس نے مگ تھمایا اور سامنے والے صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھتے ہوئے بولی۔


”بہت ہی اچھا ،بہت کچھ کرنے کا راستہ مل گیا ہے۔پہلے دن صرف تعارف ہوا۔“یہ کہہ کر اس نے ساری تفصیل بتا دی،پھر بولا۔”دوسرے دن ہم سوچتے رہے ،باتیں کرتے رہے،ایک دوسرے کے خیالات جانتے رہے ۔گیت میرے ساتھ خاصی مانوس ہو گئی تھی۔“


”کہاں تک مانو س ہو گئی تھی۔ذرا میں بھی سنوں۔۔۔“رخسار نے طنزیہ انداز میں کہا تو زین نے قہقہ لگا تے ہوئے کہا۔


”وہ نہیں جو تم سمجھ رہی ہو۔خیر۔!باقی تفصیلات تو چلتی رہیں گی۔آخری دن ہم سب نے فیصلہ کر لیا کہ ہم سب مل کر دولت بنائیں گے۔“


”مگر کیسے۔۔۔؟“رخسار نے الجھتے ہوئے کہا۔


”ہم سب ایک دوسرے سے اپنے خیالات شیئر کریں گے ۔ہر بندہ اپنا اپنا پراجیکٹ دے گا۔سب اس پر بحث کر یں گے ،جو زیادہ اچھا سمجھا جائے گا ۔اسے قبول کرکے شروع کر لیا جائے گا۔اس پراجیکٹ میں جو جتنی دولت لگائے گا،منافع یا نقصان اسی تناسب سے ہو گا۔“


”مان لیا،لیکن یہ کیا ضمانت ہے کہ تمہارا لگایا ہوا پیسہ محفوظ ہے اور دوسری بات۔۔“


”یہ رسک تو لینا ہو گارخسار،وہ میں لوں گا۔یہ جو دولت میرے پاس ہے ۔یہ کون سا میری محنت کی کمائی ہے۔جو پراجیکٹ قبول ہو جائے گا۔باقی سب اس کی مدد کریں گے۔اب زمانہ تبدیل ہو گیا ہے۔اب ”خیال“ بکتا ہے۔جیسے کمپیوٹر کی دنیا میںنت نئی چیزیں مارکیٹ میں آر ہی ہیںا ور وہ دولت کمار ہے ہیں۔ جیسے ابتدائی سیل فون کیسا تھا، اور اب اس کی موجودہ صورت کیا ہے ، ہم اگر اس میں کوئی نئی اختراع دے دیتے ہیں تو ہم دولت کما لیں گے۔ ہمارے کاروبار کی بنیاد”خیال “پر ہو گی۔ہمارے پاس ایک سال ہے ،کامیاب ہوگئے تو ٹھیک ،نہ ہوئے تو ہماری قسمت ،“ زین نے لاپرواہی سے کہا تو رخسار چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی۔


”رابطہ کیسے ہو گا۔“


”میرے سامان میں ایک لیپ ٹاپ ہے۔اس میں ایک سوفٹ وئیر ہے جو انٹر نیٹ کے ساتھ منسلک ہے۔ یہ صرف اسی مقصد کے لیے بنایا گیا ہے۔مان سنگھ ایک لڑکا ہے،بنگلور کی سلیکون سٹی میں پڑھاہے۔یہ اس کا بنایا ہوا ہے ۔اگر لیپ ٹاپ نہیں بھی ہے تو یہ سیل فون کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اسے وہاں سے بھی آپریٹ کیا جا سکتا ہے۔اس نے کچھ اور بھی دیا ہے ۔تم اسے دیکھنا،ہو سکتا ہے یہ تمہارے کام کے ہوں۔“


”تو اس کا مطلب ہے ہمارا گھر بنانے کا خواب ابھی ادھورا رہے گا اور ہم اپنا گھر نہیں بنا پائیں گے۔“رخسار اداس ہوتے ہوئے بولی۔


”نہیں رخسار،ہم پہلی فرصت میں شادی کریں گے۔دوسرے مرحلے میں ہم نے نہ صرف اچھا گھر بلکہ بہت اچھا آفس بھی بنانا ہے۔تم میر ی شریک حیات ہی نہیں،شریک ِکار بھی رہو گی۔میں آج ہی تمہیں مانگنے کے لیے تمہارے گھر آ رہا ہوں۔“زین نے کہا تو رخسار کے چہرے پر کہکشاں چھا گئی۔پھر کافی حد تک سنجیدہ ہوتے ہوئے بولی۔


”نہیں زین۔میں اپنی تعلیم مکمل کر لوں۔یہ میرا آخری سال ہے۔مجھے تم پر ہر طرح کا اعتماد ہے۔“


”اوکے۔جیسے تمہاری مرضی،میں ہر طرح سے تمہارا ہوں۔۔“زین نے اس کی طرف پیار بھری آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو وہ شرما گئی۔پھر اٹھتے ہوئے بولی۔


”رات کا کھانا ہماری طرف ہے،اب آرام کرو ،میں جگانے آجاﺅں گی۔“ اس نے کہا اور پھر تیزی سے بار نکلتی چلی گئی۔زین بھی شدید تھکن محسوس کر رہا تھا ،اس لیے اٹھا اور اپنے بیڈ پر دراز ہو گیا۔


اس رات زین جب رخسار کے ہاں سے کھانا کھا کر اور پتایا کی سیر بارے گپ شپ کر کے واپس آیا تو اس کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔وہ کمپیوٹر کھول کر بیٹھ گیا۔اس نے اپنا مخصوص پروگرام کھولا تو دوریجی اور گیت آن لائن تھے۔گیت ان سب سے تیز نکلی تھی۔اس نے ایک فلم بنانے کا پروجیکٹ دے دیا تھا اور ان دونوں کی بات چیت اسی موضوع پر ہو رہی تھی۔وہ کچھ دیر تک ان کی گفتگو دیکھتا رہا۔


”تمہارے ملک میں جو فلمیں بن رہی ہیں وہ بہت بڑے بڑے بجٹ کی ہیں۔اور تم نے جو پراجیکٹ دیا ہے۔اس کا بجٹ کہیں کم ہے،ان کا مقابلہ کیسے کر پاﺅ گی۔“دور یجی نے بات کہی۔


”معاف کرنا،میںنے خیال شئیر کیا ہے۔تم صرف یہ دیکھو کہ یہ خیال کیسا ہے۔اگر یہ اچھا ہے تو بجٹ کی پرواہ مت کرو،یہ ہو جائے گا۔“


”نہیں،خیال تو اچھا ہے۔اگر اسے بہتر طریقے سے بنا لیا جائے تو۔۔“


ان کی باتیں چلتی رہیں ،جبکہ زین نے اس کا پراجیکٹ پڑھنا شروع کر دیا۔اسے کہانی کافی حد تک اچھی لگی تھی ۔اب یہ کہانی بالکل بگڑ کر رہ جاتی یا مزید سنو رجاتی،جس طرح اس کا پیسہ بالکل ڈوب جانے والا تھا یا پھر اسے واپس آنے کی بہت کم اُمید تھی ۔لیکن وہ رسک لینا چاہتا تھا۔


تقریباً دو ہفتے تک وہ اسی موضوع پر بات کرتے رہے۔ اس نے ہر شے طے کر لی اور پھر کام کا آغاز بھی کر دیا۔زین کے خیال میں وہ بہت تیز جا رہی تھی۔لیکن پھر بھی اس نے اپنی رقم کا چوتھائی حصہ اسے بھیج دیا ۔جس طرح دوسروں نے دیا تھا۔اسی طرح اگلے چند دنوں میں جوشوہا کا پراجیکٹ آ گیا۔اسے کمپیوٹر کے بارے میں ایک خیال سوجھا تھا،جس پر تحقیق کی ضرورت تھی۔سوہر بندے کو ایک ایک ماہ دے دیا گیا تا کہ وہ اپنے طور پر سروے کر کے بتا ئے ۔زین صرف اس لیے پر اُمید تھا کہ انہیں کام کرنے کے لیے بہت بڑی مارکیٹ مل گئی تھی۔طالب علمی کے دوران اس نے جو خواب دیکھے تھے کہ وہ ٹیکسٹایل میں کیا کیا کر سکتا ہے۔اس کے پورے ہونے کا وقت آ گیا تھا۔اس نے اپنی تمام تر توجہ اپنا پراجیکٹ بنانے پر لگا دی۔اس نے محسوس کیا کہ ہر بندے نے اپنے خوابوں کو پانے کے لیے دوڑ لگا دی ہے۔کیونکہ رام داس نے کہا تھا کہ ہر بندہ درآمد و برآمدات کے لیے اپنی اپنی حکومت سے اجازت نامہ حاصل کرے۔کیونکہ وہ بھی ان کے ساتھ اس کاروبار میں شامل ہو گا۔


٭٭٭


اس رات گیت کی فلم کی نمائش تھی ۔وہ بہت تھوڑے بجٹ میں ایک بہترین کہانی پر ایک خوبصورت تفریحی فلم بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی۔وہ اپنی تمام تر صلاحیتوں سمیت اس میں لگی ہوئی تھی۔تاہم اس کے ”خیال“ کو دوسروں نے بے انتہا تقویت دی تھی۔جسے جو خیال آتا تھاوہ اس سے شئیر کرتا تھا۔رام داس نے بہت زیادہ مدد کی تھی۔اس نے بمبئی کی فلمی دنیا میں اپنے تعلقات کو جہاں تک ہو سکا آزمایا تھا۔ایک ایک سین پر سب نے زوروں کی بحث کی تھی۔وہ رات ان سب کا امتحان تھا۔فلم اگر کامیاب ہو جاتی تو وہ اسے انٹرنیشل مارکیٹ میں لے جانے کے لیے بے تاب تھے۔اس کا پورا پلان بن گیا تھا۔ہر بندہ اپنے اپنے ملک میں بیٹھا کمپیوٹر کے ذریعے وہاں کی خبروں کے ساتھ منسلک تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد مان سنگھ وہاں کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتا چلاجا رہا تھا۔اس نے سیل فون کو کمپیوٹر کے ساتھ منسلک کیا ہوا تھا۔ہر بندہ بے تاب تھا کہ چند گھنٹوں کے بعد نتیجہ کیا برآمد ہونے والا ہے۔زین ڈرائینگ روم میں اپنے لیپ ٹاپ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔اتنے میں داخلی دروازہ کھلا اور رخسار اندر آ گئی۔اس وقت نجانے کیوں زین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی ۔ایک لمحے بعد اس نے سب کے لیے یہ پیغام دے دیا کہ میں پیشن گوئی کرتا ہوں ،فلم کامیاب ہو گی۔چونکہ سارے ہی ایک خلا جیسی کیفیت میں تھے۔اس لیے فوراً ہی اس پر تبصرے آنا شروع ہو گئے۔ وہ سب حیران تھے کہ کس بنیاد پر یہ پیشن گوئی کر رہا ہے۔


”کھانا نہیں کھانا ہے آج۔؟“رخسار نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے اسکرین پر دیکھا۔


”کھاﺅں گامگر ذراتھوڑا لیٹ ،دیکھیں تو سہی گیت کی فلم کا کیا ہوتا ہے۔“وہ خوشدلی سے بولا۔


”تمہیں کیا لگتا ہے؟“اس نے تشویش سے پوچھا۔


”تمہارے آنے سے پہلے تک تو مجھے فکر تھی۔لیکن اب نہیں،مجھے یقین ہے کہ یہ فلم کامیاب ہو گی۔“وہ مسکراتے ہوئے بولا تو اس نے حیرت سے پوچھا۔


”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“


”یہ میں تمہیں بعد میں بتاتا ہوں۔اسکرین پردیکھو،میںنے یہ پیغام دیا ہے تو ان کے تبصرے دیکھو۔“اس نے لیپ ٹاپ اس کی طرف سرکایا اور پھر محبت پاش نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگا۔رخسار دیکھتی رہی اور پھر گلابی ہوتے ہوئے چہرے سے پوچھا۔


”تم نے اتنے یقین سے کیسے لکھ دیایہ سب؟“


”تم میرے لیے خوش قسمتی ہو۔تم آ گئی ہو تو دیکھنا میری لگائی ہوئی دولت کیسے واپس آتی ہے۔“زین نے کہا تو رخسار ایک دم سے شرماگئی۔پھر مصنوعی غصے سے بولی۔


”جب تمہیں نتیجہ معلوم ہے تو پھر بھوکے کیوں رہنا ہے۔چلو ،پہلے کھانا کھاﺅ۔ میںنے ٹیبل پر لگا دیا ہے،ٹھنڈا ہو جائے گا،اسے یہیں پڑا رہنے دو۔ویسے بندے کو اتنا بھی ضعیف العتقاد نہیں ہونا چاہئے۔“


زین نے اس کی طرف دیکھا،پھر کھانے کے لیے اٹھ گیا۔رخسار نے اپنی نگاہیں اسکرین پر لگا دیں۔وہ تبصرے پڑھتی رہی اور مسکراتی رہی۔کچھ دیر بعد وہ اٹھی اور چائے بنانے چل دی۔زین کھانا کھا کر اسکرین کے سامنے آ بیٹھا تو وہ چائے لے آئی۔دونوں گپ شپ بھی کرتے رہے اور لمحہ بہ لمحہ جو اطلاعات سامنے آ رہی تھیں ،ان پر تبصرہ چل رہ تھا۔اس وقت رات کا پہلا پہر ختم ہو رہا تھا۔جب یہ معلوم ہونا شروع ہو گیا کہ گیت کی فلم کامیاب ہے۔وہاں پر موجود فلمی پنڈت ،شوبز صحافی او ر شائقین کی رائے یہی تھی۔ایک ہنگامہ سا برپا ہو گیا تھا۔اس میں حیرانگی کا عنصر یہ تھا کہ اتنے کم بجٹ والی فلم اتنی زیادہ پزیرائی کیسے پا گئی ہے؟زین نے ایک طویل سانس لی اور کہا۔


”بولو،میںنے کیا کہا تھا۔“اس کے لہجے میں خوشگوار حیرت کے ساتھ ساتھ محبت بھرا تاثر گھلا ہوا تھا۔


”یہ بات تم جانو،میںتو چلی،رات بہت ہو گئی ہے۔“رخسار نے گلابی ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ یوں کہا جیسے وہ جانا نہ چاہتی ہو مگر مجبوراًجا رہی ہو۔کچھ ہی لمحے گذرے ہوں گے کہ زین کو اپنا کمرہ خالی خالی سا لگا۔ اس نے اپنے اس تاثر کا ختم کرنے کے لیے اسکرین پر اپنی ساری توجہ لگا دی۔جہاں جوہوشا کے پراجیکٹ پر بات ہونا شروع ہو گئی تھی۔ان کے درمیان گیت نہیں تھی۔وہ ابھی مصروف تھی۔


پہلے ہی پراجیکٹ پر کامیابی نے ان کے حوصلے بلند کر دیئے ۔تب انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ ہر بندہ اپنے اپنے ملک میں اپنا آفس بنائے ،جو بہت معیاری ہو۔اس میں ملازمین کیسے رکھنے ہیں اور اس کی تنظیم کیا ہو گی۔اس پر ان کی بحث چلی،جس میں انوچنائے اور اوساکاکی رائے کو بہت اہمیت دی گئی۔طے پا گیا کہ اب کاروبار کو کیا رُخ دینا ہے۔وہ وقت آ گیا تھا کہ جب دولت کمانے کے لیے زین نے باقاعدہ کام شروع کر دینا تھا۔بہت سارے پلان وہ ایک دوسرے کے سامنے رکھ چکے تھے۔


٭٭٭


پتایا شہر کے ساحل پر واقع مہنگے ہوٹل کی لابی میں سمندر کی طرف شیشہ لگی کھڑکی کے پاس میت کور بیٹھی ہوئی تھی۔اس کی نگاہیں ساحل پر آتی جاتی لہروں پر لگی ہوئیں تھیں۔جبکہ ذہن میں بہت سارے سوال اٹھ رہے تھے۔ناٹے قد کی ،بھرے بھرے جسم والی میت کور نے سیاہ پتلون اور سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی۔اس کے لمبے بال کھلے ہوئے تھے او رچہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا۔وہ کچھ دیر پہلے ہی بھارت سے یہاں پہنچی تھی۔فریش ہونے کے بعد سیدھا یہاں لابی میں آ بیٹھی تھی۔ویٹریس اس کے سامنے کافی کچھ رکھ گئی تو اس کا دھیان ساحل سے ہٹ گیا۔وہ مان سنگھ کے بارے میں سوچنے لگی۔جس کی وجہ سے اس کی سوچ میں محبت بھرا رس گھلا ہوا تھا۔


چند برس پہلے ان دونوں کی ملاقات بمبئی میں ہی ہوئی تھی۔ایک ہی شہر میں رہنے کے باعث ان میں ملاقاتیں بڑھیں اور پھر وہ دونوں ایک دوسرے کو چاہنے لگے۔میت کور پھر بھی مڈل کلاس طبقے سے تعلق رکھنے والی تھی ۔اس کا تعلق کافی حد تک آسودہ خاندان سے تھا ۔لیکن مان سنگھ بہت حد تک معاشی پریشانیوں کا شکار تھا۔ بنیادی طور پر وہ امرتسر کا رہنے والا تھا۔ ممبئی میں پڑھنے کے لیے آیا تھاکہ اپنی پڑھائی کے لیے کما بھی سکے ۔ اسے بہت زیادہ ڈر اس بات کا تھا کہ وہ اپنی تعلیم بھی مکمل کر پائے گا یا نہیں۔میت کور اسے بہت زیادہ حوصلہ دیتی رہی۔کیونکہ مان سنگھ بہت ذہین طالب علم تھا۔ان دونوں کے درمیان یہ طے تھا کہ جب مان سنگھ آسودہ ہو جائے تو وہ شادی کر کے ایک نئی زندگی کی بنیاد رکھیں گے۔انہی دنوں بمبئی میں مان سنگھ کی تعلیم مکمل ہو گئی تو اس کے استاد رام داس نے اسے بنگلور جانے کا مشورہ دیا۔وہ چاہتا تھا کہ اتنا ذہین طالب علم محض معاشی تنگی کے باعث ضائع نہ ہو جائے بلکہ آئی ٹی کی دنیا میں اپنا نام بنائے۔مان سنگھ نے اپنے استاد کا مشورہ مانا اور بنگلور چلا گیا۔کیونکہ رام داس نے اس کے اخراجات کی ذمہ داری لے لی تھی۔وقتی طور پر مان اور میت ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔لیکن فون اور کمپیوٹر کے ذریعے وہ دونوں رابطے میں رہے۔ تین سال کا عرصہ یونہی گذر گیااور اس دوران ان کی ملاقات نہ ہو پائی۔ڈیڑھ برس پہلے مان سنگھ نے اسے رام داس کا نمبر دیا اور اس سے ملنے کی بابت کہا۔وہ ملی اور اسے بہترین جاب مل گئی۔ایک اعلی آفس اور اس کے ساتھ کام کرنے والے لوگ۔وہ ایک سماجی تنظیم کے تمام امور دیکھنے لگی۔پچھلے برس اس کی مان سنگھ سے پتایا ہی کے قریب کورل آئی لینڈ میں ملاقات ہوئی تھی۔اگرچہ مصروفیات کے باعث وہ دونوں زیادہ وقت ایک ساتھ نہیں گذار پائے تھے تاہم تین دن کے ساتھ کا احساس ہی انہیں مسرور کر گیا۔پھر ان میں ملاقات نہ ہو سکی ۔ دونوں بے حد مصروف ہو گئے۔اب پھر وہی سارے لوگ کورل آئی لینڈ آنے والے تھے۔ دونوں نے طے کر لیا کہ وہ ایک دن پہلے پتایا میںملیں گے۔پھر کورل آئی لینڈ پر جائیں گے۔سو میت کور اس وقت مان سنگھ کا انتظار کر رہی تھی جو کچھ ہی دیر میں یہاں پہنچنے والا تھا۔اس نے ایک طویل سانس لی اور کافی کا سپ لینے لگی۔اس کی نگاہیں اب داخلی دروازے کی طرف تھیں۔


مان سنگھ داخلی دروازے میں نمودار ہوا تو میت کور نے مگ وہیں چھوڑ دیا اور تیزی سے اس کی طر ف بڑھی۔اس نے سیاہ سوٹ ، گرے شرٹ اور گہرے نیلے رنگ کی پگڑی باندھی ہوئی تھی۔تیکھے نقوش والا لمبے قد کا مان سنگھ تجسس اور پیار بھرنگاہوں سے بے تاب میت کور کو دیکھ رہا تھا۔وہ اس کے سینے سے آ لگی تھی۔مان سنگھ نے اسے زور سے بھینچ لیا۔کتنے ہی لمحے یونہی گذر گیا۔پورٹر نے اس کا سامان قریب رکھا تو دونوں الگ ہوگئے ۔تب وہ بولی۔


”آﺅ جی،کمرے ہی میںچلتے ہیں۔“


دونوں لفٹ کی طرف بڑھ گئے۔کچھ ہی دیر بعد وہ سامان سمیت کمرے میں تھے۔جہاں وہ تھے ،تنہائی تھی اور ان کی بے تابیاں تھیں۔کچھ دیر بعد جب انہیں ہوش آیا تو مان سنگھ فریش ہونے کے لیے باتھ روم میں جا گھسا۔تب میت کور نے کھانے کے لیے آرڈر کر دیا۔


اس وقت وہ بیڈ پر آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے درمیان کافی کچھ کھانے پینے کے لیے پڑا ہوا تھا۔تبھی مان سنگھ نے میت کے چہرے پر دیکھتے ہوئے گہری سنجیدگی سے کہا۔


”میت۔!ہمیں آج رات کے بعد شاید اتنا وقت نہ ملے،میں اس پر سکون وقت میں تمہیں بہت کچھ بتا دینا چاہتا ہوں۔اسے غور سے سننا،پھر اس کے بعد ہمیں ایک فیصلہ بھی کرنا ہے۔“


”وہ کیا ہے جی،کوئی خاص بات ہو گئی ہے؟‘وہ پریشان ہوتے ہوئے بولی۔


”اس کا فیصلہ خود کر لینا۔“یہ کہ کر اس نے گلاس میں بچا ہوا سوڈا حلق میں اُتارا اور پھر بولا۔”بنگلور میں میرا روم میٹ ایک پارسی تھا۔سوچتا بہت تھالیکن عملی طور پر کچھ کر نہیں پاتا تھا۔بس وہاں رہ کر ماں باپ کا پیسہ ہی ضائع کر رہا تھا۔وہ تھوڑے وقت میں بہت ساری دولت کمانا چاہتا تھا۔وہ کمپیوٹر ہیکر بننا چاہتا تھا۔اب پتہ نہیں وہ بنا ہے یا نہیں لیکن میں نے ہیکنگ میں کامیابی حاصل کر لی۔“


”اُوہ۔!“میت کور کے منہ سے سرسراتے ہوئے نکلا۔وہ اس کی طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے وہ کوئی عجیب سی مخلوق ہو۔


”زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔بہت غربت دیکھی ہے۔تیرے اور میرے درمیان فاصلہ اسی غربت ہی کا تو ہے۔“وہ حیرت آمیز لہجے میں بولا۔


”لیکن ہم اب غریب نہیں رہے۔تمہارے پاس اور میرے پاس بہت دولت ہے۔جتنا دوسروں نے کمایا،اتنا ہم نے بھی بنا لیا ہے۔ویسے تم نے کوئی جرم تو نہیں کیا ۔۔ہیکنگ کر کے۔۔۔؟“


”اُوہ نہیں اوئے۔!میں بنک سے روپے نکلوا بھی لوں اور کسی دوسرے اکاﺅنٹ میں ٹرانسفر بھی کر دوں تو کب تک۔۔۔میں مانتا ہوںکہ میں نے دولت بنائی ہے ،مگر اتنی زیادہ نہیں جتنا سوچا جا سکتا ہے۔اور پھر میں معلومات چرالوں تو کس کے لیے،وہ معلومات جو میرے مقصد کی نہیں،تو ان کے لیے محنت کرنے کا فائدہ ،میں اکیلا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔اس کے لیے ایک گینگ کی ضرورت تھی۔جعلی کمپنیاں بنا کر دولت کا رُخ ان کی طرف موڑ دیا جائے۔جب میں کافی حد تک آسودہ ہو گیا۔بہترین گھر،گاڑی ،ملازم مجھے مل گئے ۔میں امرتسرمیں اپنے والدین کو رقم بھی بھیجنے لگا۔تب ایک دن رام داس مجھے اپنے پاس بلالیا۔“


”اسے پتہ ہے تمہارے بارے میں کہ تم۔۔۔“میت نے تشویش زدہ لہجے میں پوچھا۔


”نہیں۔!میںنے اسے یہی بتایا کہ مجھے بنگلور میں ایک اچھی کمپنی میں جاب مل گئی ہے۔یہ ساری سہولیات انہوں نے دی ہے۔تب اس نے مجھے آفر کی کہ میں اس کے لیے کام کروں ۔وہ ایک مخلص آدمی ہے۔میں نے بغیرکسی رقم کے اس کے لیے کام کیا۔اس دوران وہ مجھے تنظیم کے سرماےے میں حصہ دار بناتا چلا آیا۔رام داس کو یہی پتہ ہے کہ میں اس کے احسان کا بدلہ چکا رہا ہوں۔یہ تھا وہ پس منظر جو میں نے تمہیں اس لیے بتایا کہ تم میری بات سمجھو سکو،جو میں تمہیں اب بتانے والا ہوں۔“


”کیا ہے وہ بات۔؟“میت دھیرے سے بولی۔


”اس وقت دو جعلی کمپنیاں ہیں ، جن میںسرمایہ آتا ہے اور جاتا ہے۔ یہ ان لوگوں کے ساتھ کام کر رہی ہے۔اس سے میں جو دولت بنا رہا ہوں اس کا کسی کو پتہ نہیں ۔اب میں تمہیں کیوں بتا رہا ہوں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ رام داس کے جمع کیئے ہوئے لوگوں نے صرف ایک برس میں اتنی زیادہ دولت کما لی ہے جس کا تصور بھی نہیں تھا ۔اگران کی رفتار یہی رہی تو مزید دو برس میں یہ لوگ امیر ترین دولت مندوں میں شمار ہوں گے اور یہ رام داس کے قابو میں بھی نہیں رہیں گے۔“مان سنگھ نے پرسکون لہجے میں کہا۔


”وہ قابو میں نہیں رہیں گے،تم کیا کہنا چاہتے ہو؟“وہ گہری تشویش سے بولی۔


”پہلے میری بات غور سے سن لو،“یہ کہہ کر وہ ذرا سا سیدھا ہو اور کشن اپنی گود میں رکھ کر بولا۔”میں نے جو سوفٹ وئیر بنا کرا نہیں دیا ہے ۔اس کی وجہ سے یہ سارے لوگ ،ان کی ہر بات،ان کا ہر پراجیکٹ ،یعنی وہ ہر لفظ اور ہر آواز جو یہ ایک دوسرے سے کہتے ہیں وہ میرے سامنے صاف اور واضح ہے۔یوں جیسے میں ہتھیلی پر دیکھ رہا ہوں۔میں چاہوں تو ان سب کی دولت اکھٹی کر کے دنیا کے کسی کونے میں چھپ کر سکون سے زندگی گذاردوںیا پھر کچھ او ر جعلی کمپنیاں بنا کر ان کی دولت کا رخ اپنی طرف کر لوں،ان کے پراجیکٹ ان کی معلومات کو اپنے انداز میں استعمال کر لوں،یا پھر ان کے ساتھ تو چلتا رہوں اور دھیرے دھیرے دولت بناتا رہوں۔“


”یہ آخری والا آپشن ٹھیک ہے ۔اس طرح۔۔۔۔“میت تیزی سے بولی۔


”کہا نا پہلے پوری بات سنو۔!“وہ پر سکون لہجے میں بولاپھر لمحہ بھر ٹھہر کر کہنے لگا۔”میں رام داس کو ذاتی طورپر جانتا ہوں۔جتنا اس نے پیسہ ان لوگوں میں بانٹا ہے۔وہ پیسہ اور اس کے بعد جو ان کی اتنی تیزی سے کامیابی ہوئی ہے وہ ۔۔یہ سب میرے دماغ میں کھٹک رہی ہے۔وہ رام داس اتنا کچھ نہیں کر سکتا۔اس کے پیچھے کوئی ہے۔“


”کون ہے وہ؟“وہ حیرت سے بولی۔


”یہی تو معلوم کرنا ہے یہ میرا شک ہے ۔یہ شک اگر یقین میں بدلتا ہے تو پھرا ن کا وہ مقصد سامنے آ سکتا ہے،جس کے لیے یہ سارا کچھ بنایا گیا ہے۔“


”فرض کرو تمہیں وہ معلوم ہو جاتا ہے تو پھر تم کیا کروگے؟“اس نے بات کو سمجھتے ہوئے پوچھا۔


”یہی تو۔!دو باتیں ہیں۔ہمیں کچھ پتہ ہی نہ چلے اور یہ سارا کھیل ختم ہو جائے۔بلا شبہ وہ طاقت ور ہو رہے ہیں۔انہوں نے کوئی اپنا جدید سوفٹ وئیر بنو ا لیا ،مجھ سے بھی ماہر بندہ لے لیا تو میں اندھیرے میں چلا جاﺅں گا۔ممکن ہے میرے بارے میں معلوم بھی ہو جائے کہ میں کیا کچھ کرتا رہا ہوں۔اس لیے سوچتا ہوں کہ سب کچھ اکھٹا کر وں اور خود اندھیرے میں گم ہو جاﺅں۔اور دوسری بات یہ کے کہ ان کا اصل مقصد سامنے آنے پر ہمیں ضرورت ہی نہ پڑے ان سے الگ ہونے کی۔میرا یہ گمان کہتا ہے کہ ایک دن اچانک سب کچھ اندھیرے میں چلا جائے گا ۔کیونکہ مینڈک کے پھولنے کی ایک حد ہوتی ہے۔زیادہ پھولے گا تو پھٹ جائے گا۔“ مان سنگھ نے لہجے میں پہلی بارتشویش اُتر ی تھی۔


”تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم ابھی سب کچھ سمیٹیں اور کسی محفوظ جگہ پر گم ہو جائیں ،کیا ایسی کسی جگہ کا انتخاب کر لیا ہے تم نے؟“وہ بولی۔


”اس بارے ابھی میں نے نہیں سوچا،کیونکہ تیرے بغیر میں کہیں بھی رہنے کا تصور نہیں کر سکتا۔کیونکہ گم ہو جانے کے بعد ہمیں پوری دنیا سے رابطہ ختم کرنا ہوگا۔تا کہ کسی بھی طرح ہم تک کوئی پہنچ نہ سکے۔اب بتاﺅ،تمہارا کیا فیصلہ ہے؟“اس نے میت کی حیرت بھری نگاہوں میں دیکھتے ہوئے کہا ۔ وہ کتنی ہی دیر تک خاموش رہی پھر الجھے ہوئے لہجے میں بولی۔


مان۔! ابھی اگر ہم نے دولت اکٹھی کی تو وہ بہت تھوڑی ہوگی۔ کچھ عرصے بعد زیادہ ہوگی ،کوئی ایسی جگہ بھی نہیں جہاں ہم اور ہمارا سرمایہ محفوظ ہو،میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آ رہاہے۔فوری فیصلہ کیا ہو سکتا ہے ۔ ہاں مگر یہ طے کرنے کے لیے ہم کچھ عرصہ انتظار کریں ۔“


”یہ یاد رکھو، ہمیں اپنے اس فیصلے کے بارے میں جو بات کرنی ہے ،آمنے سامنے یعنی رو بروہی کر نی ہے۔کمپیوٹر سافٹ وئیر یا سیل فون پر نہیں۔میں منفی صفرصفرصفر ون پرسنٹ بھی رسک نہیں لینا چاہتا۔اس لیے ہمیں انہی تین دنوں میں فیصلہ کرنا ہے“


”کر لیں گے۔“میت کور نے سوچتے ہوئے کہااور اپنا سر اس کے زانو پر رکھ کر دراز ہو گئی۔پھر پیار سے بولی۔”اتنے برسوں بعد ہمیں تنہائی میں کچھ وقت ملا ہے ،اسے۔۔۔“اس نے کہنا چاہا لیکن کہہ نہ سکی،مان سنگھ نے اس کے لبوں پر پیار کی مہر ثبت کر دی۔کھڑکی کے باہر سورج غروب ہو رہا تھا۔اور پتایا شہر کی روشنیاں جگمگا اٹھیں تھیں۔


٭٭٭


یو آن کے گھر کے سبز لان میں سہ پہر کی دھوپ اترآئی تھی۔ہلکی ہلکی چلنے والی ساحلی ہوا میں رات کے ڈنر کا اہتمام ہو رہا تھا۔ رنگین گھر کے اندر تقریباً سارے ہی پہنچ چکے تھے۔حتمی اس لیے نہیںکہا گیا تھا کہ ابھی رام داس نہیں پہنچا تھا۔وہ پتایا تو آ چکا تھا لیکن ابھی تک جزیرے پر نہیںپہنچا تھا۔یو آن اس کے انتظار میں ابھی تک ڈرائینگ روم میں بیٹھی ہوئی تھی۔گھر کے دوسری جانب سبز لان میں فائبر کی رنگین چھتریوں کے نیچے وہ سب تین مختلف ٹولیوں میں بیٹھے ہوئے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ایک گروپ لڑکیوں کا تھاجس میں میت کور،گیت چنینائی،انوچنائے اور جھرنا تھیں،دوسرے میں ستیش رائے ، زین علی اور جو ہوشا تھے،جبکہ تیسرے میں مان سنگھ ،عبدالشرف ،دورویجی اور اوسانکا تھے۔وہ سب اپنی اپنی دلچسپی کی باتیں کرتے چلے جارہے تھے۔ان میں قطعاً اجنبیت نہیں تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ان کے درمیان برسوں سے تعلق موجود ہے۔ان کے چہروں پر دولت مندی کا تاثر اور روےے میں امارت ٹپک رہی تھی۔پچھلی بار جب وہ آئے تھے تو ان کے پاس ایک ایک لاکھ ڈالر تھا۔اس بار وہ کئی لاکھ ڈالر کے مالک تھے ۔ ایک سال سے وہ ہمہ وقت رابطے میں تھے اور اب بھی وہ یہی محسوس کر رہے تھے کہ جیسے ان کے درمیان کوئی بات موضوع گفتگو نہیں ہے۔انہی لمحوں میں لڑکیاں اپنی گپ شپ ختم کر کے اٹھیں اور لڑکوں کی جانب بڑھ آئیں۔گیت سیدھی زین کے پاس آئی اور مسکراتے ہوئے بولی۔


”کیا خیال ہے زین،جزیرے کی سیر کی جائے،شام ہونے میں بڑا وقت پڑا ہے۔“


اس سے پہلے کہ زین جواب دیتا،ستیش نے خاصی حد تک طنزیہ لہجے میں کہا۔


”میں سمجھا ،تم ڈانس کے لیے کہو گی،حالانکہ یہاں میوزک نہیں ہے۔“


”آج رات میں نہیں لیکن کوئی دوسری ضرور تمہارے ساتھ ناچے گی،اگر تم ناچ سکو تو۔۔“گیت نے مسکراتے ہوئے چھبتی ہوئی بات کہہ دی۔اس پر ستیش نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اورپھر نظر انداز کرتے ہوئے دوسری طرف دیکھنے لگا۔اس وقت تک وہ زین کا ہاتھ پکڑکر اٹھا چکی تھی۔دونوں ہی رنگین گھر سے گھوم کر سامنے کی طرف آئے اور پھر باہر والی سڑک پر آ کر چلتے چلے گئے۔


”کیا خیال ہے تمہارا زین ۔!کیا ہمارا یہ گروپ بہت آگے تک ایک دوسرے کے ساتھ چل سکے گا؟“


”تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو؟“اس نے پوچھا۔


”تم نے دیکھا نہیں اور ستیش کی بات نہیں سنی،وہ اپنے من میں کچھ چھپائے ہوئے ہے۔ورنہ ایسی بات نہ کہتا۔“


”ممکن ہے وہ تم سے محبت کرنے لگ گیا ہو۔اس لیے وہ۔۔۔“


”محبت۔!یہ بھی عجیب سی چیز ہے یار،فلموں یا کتابوں میں اچھی لگتی ہے۔ ورنہ عملی زندگی میں اس کی کوئی وقعت نہیں۔اب تم یہ مت کہہ دینا کہ اتنے لوگوں میں سیر کرنے کے لیے میں نے تمہیں ہی کیوں چنا،ستیش کو کیوں نہیں، تو اس کا مطلب محبت نہیں،میں نے تمہارے ساتھ کچھ ڈسکس کرنا ہے ،الگ سے۔۔۔“


”کیا ،ایسی کیا بات ہے؟“زین نے چونکتے ہوئے کہا۔


”دیکھو۔!ہم دونوں کا شعبہ تقریباً ایک جیسا ہے۔اگر ہم دونوں مل کر اپنا بزنس کریں اور فقط یہ خطہ ہی نہیں ،عرب ممالک میں بھی ہم کام کر سکتے ہیں۔پلاننگ کے ساتھ سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔“


”مگر میں تم سے قطعاً اتفاق نہیں کرتا۔دیکھو،جہاں سے ہم پروان چڑھے ہیں۔ہمیں اسے ہی مضبوط رکھنا ہو گا۔ہم سب اپنا اپنا کاروبار رکھتے ہوئے ایک دوسرے کا کاروبار بھی دیکھ رہے ہیں اور ضرورت سے زیادہ کما رہے ہیں۔ہر دن ہمارے اکاﺅنٹ میں اضافہ ہو رہا ہے تو پھر ادھر ادھر کیا دیکھنا۔ہاں،میںتم سے اس صورت اتفاق کروں گا کہ ہم سب مل کر اس پراجیکٹ پر کام کریں۔“زین نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔


”اوکے۔!ہم نے یہ بات کی ہی نہیں۔وہ دیکھو،دور گہرے سبزی مائل پانی میں تیرتی ہوئی کشتی کیسی لگ رہی ہے۔“گیت نے یوں کہا جیسے کچھ دیر پہلے ان کی بات ہی نہیں ہوئی۔وہ کچھ دیر تک یونہی سیر کرتے ہوئے مناظر سے لطف اندوز ہوتے رہے۔تبھی فضا میں ہیلی کاپٹر کی گڑ گڑاہٹ ہونے لگی۔انہوں نے دیکھا ایک سیاہ رنگ کا ہیلی کاپٹر فضا میں چکرا رہا ہے اور پھر تھوڑی دیر بعد وہ زمین پر اتر آیا۔وہ اس جانب چل دئیے۔ہیلی کاپٹر ان سے کافی فاصلے پر اترا تھا۔ اس میں سے رام داس نکلا،وہ چند قدم آگے بڑھ گیا۔اسے لینے کے لیے کچھ تھائی لوگ تھے۔وہ ان کے ساتھ چل پڑا توہیلی کاپٹر دوبارہ فضا میںاُڑ گیا۔دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا،لیکن کچھ بھی تبصرہ نہیں کیا۔وہ رنگین گھر کی جانب چل پڑے۔وہ واپسی پر باتیں نہیں کر رہے تھے۔ان کے درمیان خاموشی تھی۔


رات نے اپنا آنچل پھیلا دیا تھا۔رنگین گھر کے سبز لان میں ایک جگہ تیز روشنی تھی اور وہاں ایک بڑے میز کے اردگرد کرسیاں لگی ہوئیںتھیں۔اس سے ذرا فاصلے پر میوزک کا اہتمام تھا اور پھر اس سے ذرا آگے ڈنر کے لیے میزیں سجا دی گئیں تھیں۔وہ سب لوگ یوںتیار ہو کر وہاں بیٹھے ہوئے تھے جیسے بزنس میٹنگ ہو رہی ہو۔رام داس کے بیٹھتے ہی وہ سارے اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔وہ ان کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ کہنے لگا۔


”آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہوئے میںانتہائی خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ ہم نے جس عظیم کام کے لیے گذشتہ برس ابتدا کی تھی،اس کا ایک حصہ نہایت شاندار اور توقع سے بڑھ کر ہم مکمل کر چکے ہیں۔یہ سب آپ کی محنت ہے اور مجھے اُمید ہے کہ آپ اسی طرح ایک ساتھ آگے بڑھیں گے تو آئندہ دو برس میں اس خطے کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوں گے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پچھلے برس ہم نے جو فیصلہ کیا تھا یہ اسی کا نتیجہ ہے ۔“


”اس میں آپ کی سرپرستی شامل رہی ہے تو ہم اس قدر کامیاب ہوئے ہیں۔“اوسانکا نے تیزی سے کہا تو سب نے تائید میں میز بجا دیا۔ایک خوشی کا تاثر ماحول میں شامل ہو گیا۔


”اس برس ہم نے کیا کرنا ہے،اس بارے آپ نے جو مشورے دیئے اور جو آپ سب کی آراءہیں ،وہ ٹھیک ہیں،اس بارے ہم طے کریں گے کہ مزید دولت مند کیسے ہونا ہے۔لیکن ایک پہلو، جس پر ہمیں بات کرنی ہے،وہ یہ ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے ہم نے کیا کرنا ہے ۔وہ ایک سوچ میں آپ کو دیتا ہوں۔پھر ہم اس پر کوئی فیصلہ کریں گے۔“یہ کہہ کر اس نے سب کی طرف دیکھا اور پھر کہتا چلا گیا۔”یوں تو اقوام متحدہ کے علاوہ دیگر بہت ساری تنظیمیں اپنا سرمایہ غربت کے خاتمے کے لیے لگاتی چلی آ رہی ہیں۔مگر غربت ہے کہ جوں کی توں ہے۔ہر حکومت اپنے وسائل خرچ کر رہی ہے۔ آپ اپنے ملک میں ایک سماجی تنظیم بنائیں جو ان سارے وسائل میں بھی حصہ دار ہو اورآپ کا سرمایہ بھی بہتر طریقے سے لگاسکے۔ ایسے نوجوانوں کو سامنے لائیں جو غریب ہوں،مخلص ہوں اور کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ابتداءمیں آپ پورے ملک کو فوکس نہ کریں۔کچھ علاقے چن لیں اور وہاں محنت کریں۔وہاں پر آپ انڈسٹری لگائیں یا زراعت کو ترقی دیں۔وہ مقامی ماحول کے مطابق ہو گا۔مگر۔!خود سامنے آئے بغیر سماجی تنظیم کو پروان چڑھائیں۔“


”ہم کیوں سامنے نہیں آئیں ؟“انوچنائے نے تیزی سے پوچھا۔


”اس لیے کہ آپ اپنا کام کرتے چلے جائیں ۔اپنی دولت کے حصے میں سے اس تنظیم کو پروان چڑھائیں ۔آپ سب کی ذہانت قیمتی ہے۔ سیاست اور مذہب سے ہٹ کر صرف انسانیت کی خدمت کے لیے غریب لوگوں کو بھی پروان چڑھائیں۔وہ اپنا کام کریں اور آپ اپنا کام کریں ۔ ایک طرح سے یہ بھی سرمایہ کاری ہے۔کیونکہ آپ کی سماجی تنظیم کی بنیاد بزنس پر ہو گی۔کچھ لو اور کچھ دو کا اصول سامنے رکھ کر غریب کے وسائل میںاضافہ کریں۔وہی لوگ آپ کی مضبوط مارکیٹ ہیں۔“رام داس نے کہا اور سب کی طرف دیکھا ۔اس دوران یو وان بیٹھی سگریٹ پھونکتی رہی اور میت کور بڑے غور سے ساری باتیں سنتی رہی۔تبھی اوسانکا نے کہا۔


”آپ کا خیال کافی حد تک مضبوط ہے۔اگر درست پلاننگ کے ساتھ اسے آزمایا لیا جائے۔“


”وہی تو۔اسی پر بحث کے لیے آپ سب کو زحمت دی ہے۔فیصلہ یہ کرنا ہے کہ تنظیم ہونی چاہیے یا نہیں اور اگر ہونی چاہئے تو کیا وہ پورے خطے کی ایک ہی ہو یا ہر ملک میں الگ الگ ۔ظاہر ہے اب ہم نے اپنے دائرے میں سے نکلنا ہے اور ہم پر بہت سارے لوگوں کی نگاہیں ہوں گی۔کیا آپ کو احساس نہیں ہے؟کیا لوگ آپ سے سوال نہیں کرتے ہیں کہ آپ نے اتنی تیزی سے کیسے ترقی کر لی،جہاں کچھ لوگ آپ کی ترقی کو رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہوں گے۔وہاں حسدکرنے والے بھی بہت ہیں۔اب عام آدمی سے لے کر حکومتی سطح تک آپ کے تعلقات ہوں گے۔“


”کیا جو ہو شانے جو ٹی وی چینل کا پراجیکٹ دیا ہے اس پر ابھی اسی دوران بحث ہوجائے گی۔کیونکہ یہ مجھے اسی کے ساتھ مربوط لگتا ہے ۔ ‘ ‘ عبد الشرف نے لب کشائی کی۔


”بالکل۔! یہ بہت ضروری ہے ۔جیسے اس پر حقیقی شو ہوں گے۔ مثلاً، آپ سو لاگو ںکو دس ڈالر دیں اور ان سے بیس دالر بنانے کا کہیں، جو بنا لیں انہیں بیس سے چالیس بنانے کا کہیں، اس طرح آپ کو بہترین مارکیٹ کرنے والے لوگ مل جائیں گے۔“


” بہٹ سادہ لیکن موثر خیال ہے“ جھرنا نے تبصرہ کیا


” سو،آج کے لیے اتنی باتیں کافی ہیں۔آئیں،اب کھائیں پیں او ر موج اڑائیں۔“رام داس نے کہا تو سبھی اٹھ گئے۔تبھی رنگین گھر سے چند نیم برہنہ تھائی لڑکیاں آگئیں۔میوزک بجنے لگا۔زین بھی اٹھ گیا۔ تبھی اسے ایک جھٹکا سا لگا۔گیت اٹھی اور سیدھے ستیش رائے کے پاس گئی اسے اپنی بانہوں میں لیا او اس جانب بڑھ گئی،جہاں سب آہستہ آہستہ ناچ رہے تھے۔اسے خود پر حیرت ہوئی۔گیت کے معاملے میں اس نے ایسا کیوں محسوس کیا؟یہ وقت سوچنے کے لیے نہیں تھا۔انوچنائے اس کے قریب آ گئی تھی۔اس کے سرخ گال اور سرخ ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی ۔ زین نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیا۔وہ دونوں میوزک کی تان پر تھرکنے لگے۔نیپالی انوچنائے خاصی گداز اورلچک دار تھی،اس کے قرب کا احساس اور لمس کا نشہ اسے کسی اور ہی دنیا میں لے گیا۔وہ دونوں باتیں بھی کرتے رہے۔ان کی باتیں محض ایک دوسرے سے متعلق تھیں۔ اس میں کاروبار یا دولت بنانے کا شائبہ تک نہیں تھا۔اس کی باتوں سے معلوم ہوا کہ وہ نجانے کب سے زین کے ساتھ دوستی کی خواہاں تھی۔اس نے پاکستان آنے کی خواہش کا بھر پور اظہار کیا تو زین نے اسے دعوت دے دی کہ وہ جب چاہے آ سکتی ہے۔


رات گئے زین پلٹ کر اپنے کمرے میں آگیا۔وہ سو جانا چاہتا تھا، لیکن نیند تھی کہ اس کی آنکھوں میں اُتر ہی نہیں رہی تھی۔سوچوں کا ایک لا متناہی سلسلہ اسے گھیرے ہوئے تھا ۔ اس کی سوچیں رام داس کی باتوں سے ہوتی ہوئیں گیت چننیائی اور پھر انوچنائے کی طرف چلی گئی۔ وہ بیڈ پر پڑا تھک گیا۔رات کا نجانے کون سے پہر تھا ۔زین کی آنکھ نہ لگی ۔کمرے میں ملجگا اندھیرا تھا۔وہ کافی دیر پڑا سوچتا رہا کہ اسے نیند کیوں نہیں آ رہی ہے مگرکچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وہ اٹھا اور فریج تک گیا ۔وہاں سے پانی لے کر چند گھونٹ بھرے اور بوتل واپس رکھ دی۔وہ پر سکون ہو گیا۔پھروہ عادتاًکھڑکی میں جا کر کھڑا ہو گیا۔نجانے کیوں اس کے ذہن میں گیت کا رویہ آ گیا تو اس نے فورا اس کو ذہن سے جھٹک دیا اور اس کے ساتھ ہی انوچنائے اور اس کا لمس اس کے دماغ پر چھا گیا۔وہ سوچتا ہوا باہر دیکھ رہا تھا کہ اس کی نگاہ دورلان کے سرے پر ایک ہیولے پہ پڑی۔اندھیرے کی وجہ سے واضح نہیں تھا کہ وہ کون تھا،لیکن وہ جو کوئی بھی تھا، زمین پر پڑا دہرا ہو گیا ہوا تھا۔انداز ہ یہی تھا کہ وہ کوئی عورت ہے۔وہ چند لمحے خالی الذہن کے ساتھ اسے دیکھتا رہا ۔پھر اچانک اسے خیال آیا کہ اتنی رات گئے وہاں کون دہراہوا پڑا ہے۔اسے دیکھنا چاہئے ،یا کم از کم نیچے جا کر کسی کو بتائے۔ یہ سوچتے ہی وہ اپنے کمرے سے نکلا اور نیچے آ گیا۔وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ملجگے اندھیرے میں سناٹاتھا۔وہ آگے بڑھتا گیا،یہاں تک کہ رنگین گھر سے باہر آ گیا۔وہاں بھی کوئی ذی روح نہیں تھا۔اس نے سوچا کہ اب وہ یہاں تک آہی گیا ہے تو دیکھ لے۔وہ کون ہے؟وہ تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔لمحوں بعد وہ ہیولا واضح ہو گیا۔وہ یو وان تھی اور بے حس و حرکت پڑی ہوئی تھی۔اس نے اُسے ٹٹول کر دیکھنا چاہا تو بدبو کا ایک بھبھکا اُٹھا ۔وہ اپنی ہی قے میں لتھڑی ہوئی پڑی تھی ۔ زین نے خود پر جبر کرتے ہوئے اس کی نبض ٹٹولی۔وہ زند ہ تھی۔زین نے جلدی سے اسے اٹھا یا ۔وہ خاصی بھاری تھی اور بد بو نے الگ دماغ خراب کر دیا ہوا تھا۔وہ اسے گھسیٹتا ،گرتا ،پڑتا رنگین گھر کے اندر لے گیا۔ اسے حیرت ہو رہی تھی کہ یہاں کسی طرح بھی سیکورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔وہ ایک دم پریشان ہو گیا۔اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ یووآن کو ہوش میں کیسے لائے ۔ اسے یہ تو پتہ نہ چلا مگر سب سے پہلے اس نے اس کی بُو دور کرنے کے بارے میں سوچا۔وہ اسے لے کر اسی کے کمرے کے باتھ روم میں چلا گیا اور اس پر شاور کھول دیا۔جیسے ہی وہ بھیگی تو اسے ہوش آنے لگا۔اس نے نیم وا آنکھوں سے زین کی طرف دیکھا اور پھرتشکرانہ انداز میںآہستہ آہستہ سر ہلانے لگی۔وہ کچھ بڑبڑائی تھی لیکن اسے کچھ پتہ نہیں چلا۔یووآن اپنے کپڑے خودہی اتارنے لگی تو زین کو جیسے ہوش آ گیا۔وہ باتھ روم سے باہر نکل گیا پھر تیزی سے اس کے کمرے میں پڑے اس کے کپڑے تلاش کر کے باتھ روم میںچلا گیا۔ وہ اپنا لباس اتار چکی تھی۔اس نے جلدی سے اسے کپڑے پہنادئیے ۔وہ خود بھی بھیگ چکاتھااور بد بو نے اسے تنگ کیا ہوا تھا۔اس نے یووآن کو جیسے تیسے لاکربیڈ پر لٹا دیا۔پھراپنے کمرے میںچلا گیا جہاں سے وہ خشک کپڑے پہن کر آیا تو وہ وہیں پڑی تھی اور کافی حد تک ہوش میں تھی۔یوو آن نے ایسے اشارے سے سمجھایا۔ اس نے پرفیوم کی بوتل اٹھائی اور اسے خوشبو لگائی،کمرہ تک معطر ہو گیا۔وہ پرسکون ہو کر لیٹ گئی۔تبھی اس نے زین کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا جیسے کوئی خوف زدہ بندہ کسی کا سہارا چاہ رہا ہو۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا ہاتھ نہ چھڑا سکا۔وہ سوئی ہوئی ادھیڑ عمر یووآن کو دیکھنے لگا ،جس کے چہرے پر فطری معصومیت تھی۔کہتے ہیں کہ کسی فرد کے باطن بارے جاننا ہو تو اس کے ساتھ سفر کر کے دیکھیں یا پھر اس کو سوتے ہوئے دیکھ لیں،آپ کو احساس ہو جائے گا ۔کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ پر گرفت ڈھیلی ہوگئی۔وہ بے خبر سو گئی تھی۔زین اٹھا اور اس کے کمرے سے باہر آ گیا۔


اگر چہ یہ ایک معمولی واقعہ تھا۔لیکن اگر اس پر سوچا جائے تو یہ بہت بڑا تھا۔سب سے اہم سوال تو یہی تھا کہ یووآن نے اتنی پی کیوں ،اور اگر پی بھی لی تھی وہ گھر سے کافی فاصلے پر کیوں ادھ موا پڑی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ کیا وہاں پر سیکورٹی کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔کیا وہ اس قدر محفوظ ہیں کہ دنیا کی نگاہ ہی میں نہیں یا پھر اتنے غیر محفوظ کہ کوئی بھی انہیں نشانہ بنا سکتا تھا۔زین کو نیند نہیں آ ئی۔وہ صبح ہو جانے تک اسی فکر میں رہا۔کیونکہ وہ یہ معمہ حل کرنا چاہتا تھا۔


٭٭٭


پونا کے مضافات میں اس محل نما سفید عمارت کے اندر گہری خاموشی تھی۔یہ خاموشی بڑی پر اسرار لگ رہی تھی۔سورج طلوع ہو چکا تھااور پنڈت شیوپرشادسفید چبوترے پر بچھے قالین پہ بیٹھا ہوا تھا۔وہ گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا ۔اس کے چہرے پر ترد کے آثار واضح تھے۔وہ کچھ دیر پہلے دام داس کی طرف سے پیغام پڑھ چکا تھا۔اب وہ اسی سے متعلق سوچ رہا تھا۔بھارت ماتا کے خطے پر جو مہرے سجا دیئے گئے تھے۔اب وقت آ گیا تھا کہ چال چلی جائے۔وہ پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا تھا کہ کاروبار کے نام پر غریب مگر ذہین نوجوان کو دولت مند بنا دیا تھا۔اب وہ سارے ہی دولت بنانے کے علاوہ کچھ اور سوچ ہی نہیں رہے تھے۔ کسی کو یہ فکر نہیں تھی کہ دولت جائز طریقے سے آ رہی ہے یا ناجائز ذریعہ استعمال ہو رہا ہے۔تفریحی چینل سے لے کر کرکٹ جوئے تک کا پلان کر لیا گیا تھا۔جس کی آدھی آمدنی انہوں نے اسی سماجی تنظیم کو دینا تھی،جس کے بارے میں وہ منصوبہ بنا چکے تھے۔یہ بہت اچھا ہوا تھا کہ اسی خطے سے وہ لوگ خود ہی دولت پیدا کررہے تھے اور اسی خطے پر دوبارہ خرچ بھی ہو رہی تھی۔اس کی اپنی دولت میں سے ابھی دو فیصد بھی خرچ نہیں ہوا تھا۔ جبکہ اس منصوبے کے شروع میں بہت زیادہ خرچ ہونے کی توقع کر رہا تھا۔رام داس نے جہاں اور بہت سارے پلان کئے تھے ،وہاں ان میں یہ سوچ بھی پیدا کر دی تھی کہ وہ اپنے اپنے ملک میں حکومتی سطح پر تعلقات بنائیں۔تا کہ ان کے کسی کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ا س خطے میں جہاں ایمانداری ہے وہاں کرپشن بھی پورے زوروں پر موجود ہے۔وہ دولت خرچ کر کے ہر رکاوٹ دور کر سکتا تھا۔وہ اسی فکر میں ڈوبا ہوا تھا کہ عمارت کی طرف سے پہلے ایک پختہ عمر جوان باہر آیا جس نے سفید کرتا اور پاجامہ پہنا ہوا تھا۔لیدر کے نرم چپل اور سفید چشمہ لگایا ہوا تھا۔ اس کے پیچھے گندمی رنگ کی لمبے قد والی پتلی سی عورت تھی،جس نے گہرے سبز رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔مختصر سا بلاوز ،لمبے بال اور تیکھے نقوش پہلی نگاہ میں متاثر کر رہے تھے۔ان دونوں کے چہروں پر گہری سنجیدگی تھی۔وہ دونوں آ کر سفید چبوترے کے باہر ہی رک گئے اور جھک کر پرنام کیا۔ پھر سیدھے ہوتے ہوئے پختہ عمرجوان نے کہا۔


”حکم مہا راج۔!“


”وجے تم نے رام داس کے پیغام پڑھ لیے ہوں گے؟“


”جی مہاراج ،اور ابھی ساوتری نے بھی دیکھ لیے ہیں۔“اس پختہ عمر جوان وجے نے کہا تو پنڈت شیوپرشادنے ساوتری کی طرف دیکھا ۔پوچھا۔


”ساوتری۔!کیا کہتی ہو تم؟“


”ویسا ہی سب کچھ ہو رہا ہے ،جو ہم نے سوچا تھا۔اور وہی کچھ ہو رہا ہے جو ہم چاہتے ہیں۔ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہوا ،جس سے ہمیں کوئی خرابی معلوم ہوئی ہو۔“


”تو پھر کیا کہتے ہووجے؟“ شیوپرشادنے پر جوش لہجے میں پوچھا۔


”مہاراج ۔!عرصہ ہو گیا ہے،ان لوگوں کی پوری طرح نگرانی ہو رہی ہے ۔ یہ جو تفریحی چینل شروع کرنے جا رہے ہیںاسی میں ہمارے لوگ شامل ہو کر ہر ملک میں پھیل جائیں گے ۔وہ ان کے لیے بھی کام کریں گے اور ہمارے لیے بھی۔یہی لوگ رابطہ ہوں گے۔میںنے یہ سارا پلان کر لیا ہے۔یہی لوگ ایسا نیٹ ورک بنائیں گے جیسا یہاں چل رہا ہے۔“


”تمہارا مطلب ہے یہی رابطہ لوگ وہاں بننے والی سماجی تنظیم نہ صرف دیکھیں گے بلکہ اسے چلائیں گے بھی۔“ شیوپرشادسوچتے ہوئے بولا


”بالکل ایسے مہاراج۔!ان کاروباری لوگوں کا جو نیٹ ورک بن چکا ہے ۔یہ اس سے بالکل ہٹ کر ہمارا اپنا خفیہ نیٹ ہو گا ۔جس کے بارے میں رام داس کو بھی معلوم نہیں ہو گا۔“


”کب سے یہ کام شروع کر رہے ہو؟“اس نے پوچھا۔


”بس آپ کی آگیاچاہئے ۔آج ہی سے شروع ہو جائے گا۔ سب تیار ہے کیونکہ ایک سال سے میں اسی پر کام کر رہا ہوں۔ یہاں بھارت میں تو میں کب سے کام کر رہا ہوں۔ رات میں نے ایک چھوٹا سا تجربہ کرکے دیکھا ہے۔“وجے نے پرنام کر تے ہوئے آہستگی سے کہا۔


”وہ کیا وجے؟“ شیوپرشاد نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا


”کورل آئی لینڈ پر، رام داس کی میزبان کو احساس دلا دیا ہے کہ وہ محفوظ نہیں۔“


”اوہ۔! “ اس کے منہ سے سرسراہٹ نکلی


” کسی بھی ملک میں کوئی کام ہو میں کر سکتا ہوں۔ “ اس نے زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا


” کیا؟“ اس نے تیزی سے پوچھا


” اس ایک ہفتے میں آپ دیکھ لیں گے کہ میں کیا کر سکتا ہوں۔“ اس بار اس کے لہجے میںپھنکار بھی شامل تھی۔


”ٹھیک ہے ۔“ پنڈت نے ہاتھ اٹھا کر اجازت دیتے ہوئے کہاتو وہ دونوں دوبارہ جھکے ،پرنام کیا اور واپس مڑگئے۔


پنڈت شیوپرشادکے چہرے پر سرخی پھیل گئی تھی۔وہ اپنے ہی تصورات میں بہت کچھ دیکھ رہا تھا۔اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ جہاں حکمرانی کرنے کامعاملہ ہو وہاں لہو ضرور بہتا ہے۔اسے یہ غرض نہیں کہ لہو کتنا بہتا ہے ،اسے بس اپنے مقصد سے غرض تھی۔اس نے جھرجھری لینے والے انداز میں گہری سانس لی اور تن کر کھڑا ہو گیا۔


٭٭٭


اس بار زین کراچی ائیر پورٹ پراترا تو اس کے استقبال کے لیے رخسار نہیں تھی بلکہ اس کی جگہ اس کی کمپنی کے چند لوگ تھے جو اپنے اپنے شعبے کے سربراہ تھے۔کاروں کا ایک قافلہ اس کا منتظر تھا۔وہ بڑے کروفر کے ساتھ ایک سیاہ گاڑی میں بیٹھا تو وہ لوگ چل پڑے ۔ کراچی کی شاہراہ پر سیاہ گاڑیوں کایہ قافلہ تیزی سے بڑھتا ہوا چلاجا رہا تھا۔ پچھلی بار جب زین واپس آیا تھا تو فرحت اور تازگی کے ساتھ جوش بھی محسوس کر رہا تھا۔اس بار جب وہ آیا تو اس کے ساتھ بہت سارے سوالوں کے تشنہ جواب کی الجھن تھی۔سب سے اہم سوال جو اس کے ذہن میںتھا وہ یہی تھا کہ کیا یہ کاروباری لوگ مستقبل میں ایک دوسرے کے ساتھ چل بھی سکیں گے؟جس طرح یوں چلتے چلے آ رہے ہیں۔مذہب،سیاست اور نظریات کے جو بڑے اہم پہلو ہیں ،کیا وہ آڑے نہیں آئیں گے؟کیا اب وہ وقت آ گیا ہے کہ رام داس غربت ختم کرنے کے نام پر ان سے رقم وصول کرنا شروع کر دے گا؟کیا غربت ختم کرنا ایک ڈرامہ ہے یا اس کی کوئی حقیقت بھی ہے؟کیا انہوں نے ہمیں اپنی کمائی کے لیے ”گھوڑے“کے طور پر تیار کر لیا ہے۔بظاہر سب اچھا چل رہا ہے۔وہ دولت کمانے کے لیے ہر طرح کی کامیابی حاصل کرتے چلے جا رہے ہیں۔کیا یہ یونہی چلتا چلا جائے گا یا کہیں کوئی حد بھی ہے؟اس وقت شام کے سائے ڈھل گئے تھے۔جب سیاہ گاڑیوں کا یہ قافلہ کلفٹن کے علاقے میں ایک بڑے بنگلے کے سامنے آیاتو گیٹ کھل گیا۔وہ سبھی گاڑیاں اندر چلی گئیں۔زین والی گاڑی پورچ میں پہنچی تو باوردی سیکورٹی گارڈ نے اس کا دروازہ کھولا تو وہ اندربڑھتے ہوئے رُک گیا سامنے ہی سیاہ منی اسکرٹ میں ملبوس اس کی سیکرٹیری کھڑی ہوئی تھی۔زین نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔


”کل آفس میں اہم میٹنگ ہو گی،اب میں آرام کروں گا۔“


لیڈی سیکرٹیری نے سنا اور جھک کر سلام کر کے باہر کی جانب چلی گئی۔زین آگے بڑھ گیا وہ ڈرائنگ روم میںآیا تو اس نے دیکھا سامنے صوفے پر رخسار بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے ہلکے سرمئی رنگ کا شلوار قمیص پہنا ہوا تھا۔سینے پر بڑا سا آنچل پھیلائے،کھلی زلفوں ،آنکھوں میں اشتیاق اور لبوں پر مسکراہٹ لیے وہ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔اس نے رک کر اس کی قیامت خیزی دیکھی۔تب وہ ذرا سا شرماتی ہوئی اس کی طرف کھنچی چلی آئی اور آتے ہی اسے زور سے بھینچ لیا۔ زین کو یوں لگا اس کی محبت میں مزید شدت آچکی ہے۔پھر اس سے الگ ہوتے ہوئے بولی۔


”ویل کم بیک“


”میں سوچ بھی نہیںسکتا تھا رخسار کہ تم میرے آنے سے پہلے یہاںپر ہو گی بلکہ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد تمہاری طرف جاﺅں گا یا پھر۔۔۔“


”مجھے یہاں بلوا لو گے۔“یہ کہتے ہوئے رخسار ہنس دی۔پھر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال کراوپری منزل کے لیے سیڑھوں کی طرف بڑھتے ہوئے بولی۔”فریش ہو جاﺅ۔بہت ساری باتیں ہیں تمہیں بتانے کے لیے۔“


”ایسی بات ہے ؟“زین نے کہا تو اس نے آنکھوں سے اثبات کا اشارہ دے دیا۔وہ دونوں سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔


ڈنر کے بعد وہ چائے کا مگ لے کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے صوفوں پر آ بیٹھے۔ان کے پس منظر میں کراچی کے برقی قمقمے یوں لگ رہے تھے جیسے تاروں بھرے آسمان کا کوئی ٹکڑا ان کی کھڑکی کے ساتھ آن لگاہو۔ تب زین نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔


”اب بتاﺅ،کیا کیا باتیں ہیںبتانے والی۔“


”اب میں یہاں تمہارے ساتھ مستقل رہوں گی۔کہیں نہیں جاﺅں گی۔ ہم دونوں ایک ساتھ آفس جایا کریں گے۔۔“رخسار مسکراتے ہوئے بولی تو زین نے خوشگوار حیرت سے کہا۔


”یہ تو بہت خوشی کی بات ہے،مگر تمہارے گھر والے۔۔۔اور شادی سے پہلے انہیں۔۔۔“اس نے جان بوجھ کر ادھورے سوال کیئے تو سنجیدگی سے بولی۔


”زین۔!کیا تمہیں نہیں لگتا کہ تمہاری یہ ترقی ایک معمولی سے فلیٹ سے اس شاندار بنگلے تک کا سفر اتنی جلدی اور اتنا غیر فطری ساہے۔“


”بات تمہاری اہم ہے لیکن میرے سوالوں کا جواب تو نہیں ۔“زین نے بھی سنجیدگی سے پوچھا۔


”وہی تو بتانے جا رہی ہوں۔سیانے کہتے ہیں کہ اگر رسک لو تو پھر بھاگنے کے لیے راستہ ڈھونڈ کر رکھو،میںنے انہیں ایسی محفوظ جگہ پہنچادیا ہے ، جہاں کسی کی بھی نگاہ ان تک نہیںپہنچ سکتی ہو۔ خدا نخواستہ اگر کبھی ہمیں محفوظ پناہ گاہ کی ضرورت ہو تو ہمیں کوئی پریشانی نہ ہو۔جہاں تک شادی کی بات ہے۔میں ابھی اور اسی وقت تمہارے ساتھ نکاح کرنے کے لیے تیارہوں۔“اس کے لہجے میں تشویش کے ساتھ ساتھ پیار بھی جھلک رہا تھا۔


”ابھی اور اسی وقت تو ممکن اس لیے نہیںکہ زین اور رخسار کی شادی ہو اور وہ یونہی سادگی میں ہو جائے۔“


”نہیں زین۔!تمہاری اِس دنیا میں رخسار کی کوئی پہچان نہیں ہے،اسے کوئی نہیں جانتا۔یہاں میری حیثیت جیسی بھی ہو،اسے دنیا پر ظاہر نہ کرو۔“وہ گہری سنجیدگی سے بولی۔


”کیوں۔؟تم ایسا کیوں سوچ رہی ہو۔“اس نے تیزی سے پوچھا۔


”اس لیے کہ وقت اور حالات کاکچھ نہیں پتہ،جب تک یہ وقت اور حالات ہماری دسترس میں نہیں آ جاتے۔ہمیںکسی بھی معاملے کو آسان نہیں لینا ۔ہر وقت آنکھیںکھلی رکھنا ہیںاور حالات میں چھپے اس خطرے کو پہلے دیکھنا ہے جو ہماری طرف بڑھنے والا ہو۔“


”ایسا سوچنے کی وجہ؟“


”غیر فطری ترقی اور کامیابی ،جب سارا کچھ آسان ہو جائے گا تو پھر کوئی مضائقہ نہیں،میںتمہارے ساتھ دنیا گھومنے کی خواہش رکھتی ہوں۔ میںبھی چاہتی ہوں کہ لوگ مجھے تمہارے نام سے پہچانیں۔مجھے نہیں معلوم کہ اب کورل آئی لینڈ سے کیا کچھ سوچ لے کر آئے ہو۔کن خیالوں پر تم نے کام کرنا ہے۔لیکن میری اس بات کے تناظر میںسوچو۔تب تمہیں خود احساس ہو جائے گا کہ میں کیا چاہتی ہوں۔“اس نے کہا تو ان کے درمیان کافی دیر تک خاموشی چھا رہی۔زین کے دماغ میں نجانے کیوں یوآن آ گئی۔ اس نے مگ رکھتے ہوئے کہا۔


”تم ٹھیک کہتی ہو۔اب ہمارے لیے خطرات کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے ۔ ٹھیک ہے جیسا تم چاہو۔“


”اب بتاﺅ،کیا رو داد ہے وہاںکی؟“رخسار نے ایک دم خوشگوار اور دل لبھانے والے انداز میںکہا تو زین دھیرے سے مسکرایا۔پھر آہستہ آہستہ وہاں کی روداد سنانے لگا۔وہ سنتی رہی پھر بولی۔”زندگی بہت مختصر ہے زین،اب تو یہ اور زیادہ مختصر ہو گئی ہے۔کیونکہ اب ہم اس زندگی سے نکل آئے ہیں،جہاں فقط سسکنا ہوتا ہے اور زندگی بڑی طویل لگتی ہے۔ ‘ ‘ رخسار نے کچھ اس انداز سے کہا کہ زین پر بے حد پیار آ یا۔پھر اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔


”تو پھر کیا خیال ہے،صبح نکاح کر لیں؟بلکہ کل کی شام تمہارے نام۔۔۔“


”جیسے تم چاہو۔میں ہر پل تمہاری ہوں۔“وہ شرماتے ہوئے بولی تو زین کو یوں لگا جیسے اردگرد جلترنگ بج اٹھے ہو۔یہ اس کی نئی زندگی کی شروعات تھیں۔یہ زندگی کیسے ہو گی،اس کے بارے میں وہ بڑا خوش گمان تھا۔مگر اس خوشگوارخیال کی جھیل میں نئے فرائض کے پتھر آن گرے۔ وہ ہلکے سے مسکراتے ہوئے بولا


” تم دنیا دیکھنا چاہتی ہو نا، جہاں جانا چاہتی ہو اس کا پروگرام بنا لو، ہم ہنی مون کے لیے وہیں جائیں گے، تب تک یہ سارے کام سمیٹ لیں۔“


” ٹھیک ہے،ہم شادی بھی تبھی کر لیں گے، جس وقت یہاں سے جانا ہو گا ۔‘ ‘ اس نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی زین کے سینے سے لگ گئی۔ اس نے رخسار کا چہرہ اٹھایا، اس کی آنکھوں میں دیکھا اور لبوں پر اپنے اعتماد کی طویل مہر ثبت کر دی۔


٭٭٭


ممبئی کے ساحلی علاقے جوہو میں ساحل کنارے سفید بلڈنگ کے ایک کمرے میں مان سنگھ بے چینی سے ٹہل رہاتھا۔وہ کبھی اپنے لیپ ٹاپ کے پاس جاتا،چند لمحے اس پر نگاہیں گاڑے رکھتا اور پھر وہاں سے ہٹ کر کھڑکی میں آن کھڑا ہوتا۔جہاں سے ساحل سمندر سمیت دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا تھا۔ساحلی ہوا اس کے چہرے سے ٹکراتی تو چند لمحے تک وہ اس کی خوشگواریت میں کھو جانے کی کوشش کرتا مگر پھر اس کا دھیان لیپ ٹاپ کی طرف چلا جاتا۔وہ پچھلے ایک گھنٹے سے اسی کشمکش میں تھا۔دفعتاً دروازے پر دستک سے وہ بری طرح چونک گیا۔پھر جیسے خیال آتے ہی اس نے گہری سانس لی اور دروازہ کھولنے کے لیے بڑھ گیا۔باہر میت کور کھڑی تھی۔اس نے نیلی جین اور گلابی سیلو لیس ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ماتھے سے ذرا اوپر سیاہ گلاسز ،بال کھلے ہوئے اور چہرے پر پریشانی کے گہرے آثار تھے۔


”مان،خیریت تو ہے نا ،تم نے اس قدر جلدی میں مجھے بلایا۔۔۔سب ٹھیک تو ہے نا؟“


”آﺅ،اندر آﺅ۔!کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے ۔لگتا ہے حالات ہمارے ہاتھ سے نکلنے والے ہیں۔“مان سنگھ نے تردد سے کہا تو پریشان سی میت کور اندر آ گئی ۔اس نے اپنا پرس ایک طرف رکھا اور صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولی۔


”بات کیا ہے؟“


”میں نے پروفیسر رام داس کے لیے جوسافٹ وئیر تیار کیا تھا،اسے وہی کاروباری لوگ استعمال کر رہے تھے۔سب ٹھیک چل رہا تھا،لیکن پچھلے ایک ہفتے سے میں محسوس کر رہا ہوں کہ کوئی اجنبی ہیکر ہے جو ہمارے درمیان موجود ہے اور ہماری تمام تر معلومات اس کے پاس ہیں۔“مان نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔


”تو اس میں اتنا پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔تم اپنے سافٹ وئیر کو اپ ڈیٹ کر لو،نیا بنا لو،جس کمزوری سے اس نا معلوم ہیکر نے فائدہ اٹھایا ہے،اسے ختم کر و اور اسے نکال باہر کرو۔۔“میت نے سکون کا گہرا سانس لے کر کہا اور اٹھ کر فریج سے پانی نکالا۔


”نہیں ،یہ اتنا آسان نہیں ہو گا میت،کیونکہ یہ فقط سافٹ وئیر ختم کرنے سے بھی نہیں ہو گا۔ان کے درمیان کوئی دوسری طاقت آ گئی ہے ،میں کوئی نیا سافٹ وئیر بھی بنا لوں،تب بھی وہ موجود رہے گا۔“اس بار مان کے لہجے میں کافی حد تک خوف چھلک رہا تھا۔جس پر میت نے اس کی طرف دیکھا ،پھر اس کے قریب جا کر اس کے چوڑے سینے سے جا لگی،پھر اس کی گردن اور سینے پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔


”ریلکس مان۔!تم مجھے صاف لفظوں میں بتاﺅ،اصل بات کیا ہے،کیسے شک ہوا،شک ہی ہے ابھی یا پھر تمہیں یقین ہو گیا ہے۔پھر ہم سوچ لیں گے کہ ہم نے کیا کرنا ہے؟“


”سنو۔!میں ستیش اور گیت پر کئی دنوں سے نظر رکھے ہوئے تھا،ان کا آپس میں بہت گہرا معاملہ چل رہا ہے۔ان کی بہت ساری باتوں میں ابہام چل رہا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ اس نئی تنظیم پر بھی بات کرتے ہیں جو بھارت کے مختلف علاقوں میں بنائی جا رہی ہے۔ہر علاقے میں اپنا بندہ مضبوط کرنے کے لیے کچھ رکاوٹیںدر پیش تھیں۔اس پر انہوں نے بحث کی ،ظاہر ہے ایک علاقے میں اپنا بندہ مضبوط کرنے کے لیے وہاں کسی پہلے مضبوط بندے کے ساتھ مخالفت تو چلے گی۔اب ہوا یوں کہ ان دونوں نے جس جس بندے کو بھی رکاوٹ کے طور پر ڈسکس کیا،وہی بندے پچھلے ایک ہفتے سے مختلف حادثات میں مرگئے ہیں۔اب اس علاقے میں ایک بندہ ایسا ہے،جیسے انہوں نے ڈسکس کیا ہے اور میرے حساب سے آج اس کا خاتمہ ہونے والا ہے۔“مان نے تیزی سے کہا۔


”اوہ میریاں ربا۔!“میت کور نے حیرت سے پھیلی ہوئی آنکھوں سے مان کو دیکھتے ہوئے بے ساختہ کہا۔


”آج اگر وہ بندہ ختم ہو جاتا ہے نا تو یقینا ،دوسرے ملکوں میں بھی ایسا ہی ہو گا۔دوسری طاقت سرگرم ہو چکی ہے ،جو انہی کی ہے اور آخر کار فائدہ انہی کو ہو رہا ہے۔“ مان سنگھ نے تشویش سے کہا


”ممکن ہے یہ فقط بھارت ہی میں ہو ،گیت اور ستیش ہی ایسا کر رہے ہوں۔“میت کور نے انجانے لہجے میں کہا،جس میں بے یقینی تھی۔


”ہاں۔!اگر یہ سب دوسرے ملکوں میں نہ ہوا تو ،پھر گیت اور ستیش پر شک کیا جا سکتا ہے۔ورنہ پھر دوسری طاقت کا ہمارے درمیاں ہونا لازمی ہے اور وہ ہمیں پوری طرح اپنی نگرانی میں لیے ہوئے ہے۔اس کا یقین ہمیں کر لینا چاہئے۔“مان نے یوں کہا جیسے اس کی آواز گہرے کنویں سے آ رہی ہو۔


”کیا اب ہم غائب ہو سکتے ہیں ۔میرا مطلب ہے ،سرمایہ نکالیں اور ۔ ۔ ۔ “میت کور نے آہستگی سے کہتے ہوئے بات ادھوری چھوڑ دی۔


”نہیں۔!اب کہیں نہیں جاسکتے۔۔کم از کم سرماےے کے ساتھ نہیں،بلکہ جو جعلی اور ڈمی کمپنیاں میں نے بنائی ہوئی ہیں۔ان کا بھی پتہ لگ سکتا ہے ۔ اگر ہمیں غائب ہونا ہے تو ابھی ہونا ہے اور وہ بھی سرمایے کے بغیر ۔۔“ مان نے حتمی انداز میں کہا۔


”تم بھی نا مان۔یونہی حوصلہ ہار جاتے ہو۔دیکھو افراتفری ہے،اس میں سرمایہ نکالنا بہت آسان ہے اور ہم نکل جائیں گے۔“میت نے کہا تو وہ برا سامنہ بنا کر بولا


”احمقوں والی بات مت کرو۔سرمایہ ایک بنک سے دوسرے بنک میں آن لائن جائے گا تو پتہ چل جائے گا۔ہمارا سرمایہ صرف اس وقت محفوظ ہو سکتا ہے ،جب وہ بنک سے نکال لیں۔اب ذرا غور سے سنو میری بات، پوری دنیا میں فقط سوئس بنک ہی نہیں ہیں جو کالا دھن محفوظ کرتے ہیں۔دوسری بہت ساری جگہیں ہیں۔وہاں سرمایہ محفوظ ہو جائے گا۔“


”اور جگہیں۔۔ مثلاً۔۔؟“ وہ حیرت سے بولی


”بیلیز ، برطانیہ کی ایک کمپنی جو سائبریا کے گرم علاقوں میں میکسکو کی جنوبی جانب واقع ہے۔ یہ سرمایہ محفوظ کرنے کی بہترین جگہ ہے۔سوئٹرز لینڈ یہاں پر دنیا کی تقریباً 30% دولت کو نجی طور پر تحفظ دیا گیا ہے۔ یہاں کے سوئس بنک عالمی دباﺅ کا مقابلہ کرتے ہیں اور کسی کے کھاتے کے بارے میں قطعاً خاموش رہتے ہیں۔ کوئی معلومات مہیا نہیں کرتے ۔ برمودا ، تقریباً باسٹھ ہزار نفوس کی ملکیت 360 جزیروں پر مشتمل یہ جگہ برمودا کے نام سے جانی جاتی ہے۔ جہاں دنیا کی بہترین معیار زندگی والے لوگ رہتے ہیں۔ یہ جگہ اس وقت سرمایے کے لئے محفوظ پناہ گاہ بنی جب ایک خاص نظام کے تحت 1960ءسے 1970ءکے عشرے میں مختلف جزیروں کی مدد سے سرمائے کو محفوظ رکھا گیا۔سیچلیز ۔ بحر ہند میں تقریباً 100 جزیزوں پر مشتمل جگہ سیچلز جہاں کی سیر کرنے اور بہترین پرُ فضا مقام کے باعث پرکشش ہے اور دولت محفوظ کرنے کے لئے بھی۔ جہاں عالمی تجارتی کمپنی کے لئے پہلے 20 سال ٹیکس معاف ہوتا ہے ۔ دولت مشترکہ ڈومینکا ، اگر وقت ہی سب سے اہم ہے تو ڈومینکا سب سے انصاف کرنے والی جگہوں میں سے ہے۔ یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں کوئی سوال نہیں کیا جاتا اور سو فیصد قانونی ہے۔“


” واﺅ۔۔۔ تمہیں تو خاصی معلومات ہیں“وہ حیرت سے بولی


لیکن ہمارے لیے مسئلہ یہ ہے کہ ہم وہاں تک اپنا سرمایہ پہنچائیں کیسے؟“


”میرے دماغ میں تو وہی افراتفری آتی ہے۔ان سب میں شک کا وائرس ڈال دو۔یہ سارے کاروباری ایک دوسرے پر شک کرنے لگیں۔جیسے ہی وہ اپنا اپنا سرمایہ نکال کر محفوظ کریں۔ہم بھی کر لیں گے۔اب سوچنا یہ ہے کہ یہ افراتفری ڈالنی کیسے ہے۔یہاں تک کہ جو دوسری طاقت ہمیں دیکھ رہی ہے۔اسے بھی پتہ نہیں چلے ۔“


”تو پھر اس آخری بندے کو بچانا ہو گا۔جیسے وہ دوسری طاقت ختم کردینا چاہتی ہے۔“مان سنگھ نے سوچتے ہوئے کہا۔


”کون ہے وہ ،کہاں رہتا ہے۔یہ کچھ معلوم ہے تمہیں؟“میت نے پر جوش لہجے میں پوچھا۔


”یہ جو نزدیکی ائیرپورٹ ہے نا،اس کے ساتھ ساتھ جھونپڑ پٹی ہے،وہ اسی میں رہتا ہے ،ویرو دادا نام ہے اس کا،اصل میں اس علاقے کا دادا ہے ،جو کالا دھندا ہے وہاں، اسی کا چل ہے،بے تاج بادشاہ ہے علاقے کا۔“ اس نے ہولے سے بتایا


”تمہیں اتنی معلومات کہاں سے ملیں۔“ اس نے حیرت سے پوچھا


”میں دو دن سے یہاں پر ہوں اور اسی کو تلاش کیا ہے۔میں اس سے ملا نہیں ہوں اور نہ ہی اسے دیکھا ہے،لیکن یہ تصدیق ہو گئی ہے کہ وہی ہے۔“مان سنگھ نے سوچتے ہوئے کہا۔


”تو پھر چلیں ،اس سے ملتے ہیں،اسے ساری صورت حال بتا دیتے ہیں اور اس کے ذمے لگا دیتے ہیں کہ وہ افراتفری پیدا کر ے۔پیسے میں بڑی قوت ہے۔“میت کور نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا۔


”چلو۔“وہ ایک دم سے تیار ہو گیا دونوں نے جلدی جلدی اپنا سامان سمیٹا جوایک بیگ اور لیپ ٹاپ پر مشتمل تھا۔دونوں کمرے سے نکلتے چلے گئے۔


وہ جھونپڑ پٹی کو ئی چھوٹی سی یا چند گھروں پر مشتمل نہیں تھی۔ایک بڑے رقبے پر پھیلی ہوئی اس جھونپڑپٹی میں نجانے کتنے گھر تھے جو تنگ گلیوں اور چھوٹے چھوٹے بازاروں پر مشتمل تھے۔گنجان ترین آبادی میں ایک شخص کو تلاش کرنا اور وہ بھی ایسے شخص کو جسے دیکھا تک نہیں ہو،کا فی مشکل کام تھا۔ایک چوراہے پر مان سنگھ نے اپنی گاڑی روکی اور باہر نکل آیا۔اس کا رُخ ایک شراب بیچنے والی دوکان کی طرف تھا،جہاں کئی سارے لوگ تھے۔دوپہر سے ذرا پہلے کا وقت تھا۔اس نے بڑے اعتماد کے ساتھ کاﺅنٹر پر کھڑے شخص سے پوچھا۔


”اس علاقے میں ویرو دادا رہتا ہے،اس سے ملنا ہے ،کوئی اتہ پتہ معلوم ہے اس کا؟“


”کہاں سے آیا ہے تو۔۔اور ویرو دادا کا یوں پوچھ رہا ہے جیسے وہ تیرا ملازم ہے۔؟“وہ سیاہ رنگ کا پتلا سا شخص بڑی بد تمیزی سے بولا۔


”دیکھ اگر تجھے معلوم ہے تو اس سے ملا دے،نہیں تو میں کسی دوسرے سے پوچھ لیتا ہوں۔“مان سنگھ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔


”تو نیا لگتاہے یہاں پر،ورنہ یہا ں ویرو دادا کو کون نہیں جانتا ،ٹھہر اپن کو فون لگانے دے۔“یہ کہہ کر اس نے اپنا سیل فون نکالا اور کسی سے آہستہ آہستہ بات کرنے لگا۔تقریباً ایک منٹ بعد اس نے کہا۔”چل تجھے لے چلوں،اپنی گاڑی یہیں چھوڑ دے۔“


”چلو ،“مان سنگھ نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔پھر میت کور کو ساتھ لے کر اور اپنا لیپ ٹاپ اٹھا کر اس سیاہ فام کے ساتھ چل دیا۔وہ آگے آگے تھا اور یہ دونوں پیچھے پیچھے چلتے چلے گئے۔ٹیڑھی میڑھی ،تنگ گلیوں اور کچے پکے ،ٹین کی چھتوں والے جھونپڑ نما گھروں کے درمیان سے چلتے ہوئے وہ ایک لکڑی اور لوہے کے بنے ہوئے گھر کے سامنے آ رکے ۔ جس کی کچھ سیڑھیاں چڑھنے کے بعددروازہ تھا۔


”وہ ہے ویرو دادا کا گھر۔۔چل جا۔۔“یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گیا تو یہ دونوں آگے بڑھتے چلے گئے۔جیسے ہی وہ سیڑھوں پر چڑھے دروازہ کھل گیا ۔جس میں سے تین چار بندے اور ایک عورت باہر نکل آئی۔انہوں نے پوچھے بغیر ان کی تلاشی لے ڈالی۔انہیں کچھ بھی نہ ملا۔لیپ ٹاپ ایک بندے نے اپنے قبضے میں کر لیا تھا۔پھرانہیں گھیرے میں لے کر اندر چلے گئے۔اندر سے وہ مکان خاصا کھلا تھا۔راہداری پار کرتے ہی ایک ہال نما کمرے میں فرش پر قالین بچھائے ایک سیاہ فام شخص اپنی تیز اور کنجی آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔


”ویرو دادا؟“ مان سنگھ نے تصدیق چاہی


”کیسے آنا ہوا اور کیوں ملنا چاہتے ہو ،کام کی بات کرنا فالتو مغز مت چاٹنا۔“اس نے تلخ آواز میںکہا۔


”تجھے بتانے آیا ہوں کہ آج کسی بھی وقت تجھ پر حملہ ہونے والا ہے۔وہ کون ہیں ،میں نہیں جانتا،لیکن وہ تجھے ختم کرنا چاہتے ہیں۔“مان سنگھ نے اعتماد سے کہا،تو وہ ایک دم سے ہنس دیا۔پھر اچانک خاموش ہو کر بولا۔


”اے لو۔!ہم پہ حملے کی اطلاع کوئی پہلے ہی ہمیں دے دے گا۔اور کوئی ہمیں جان سے بھی مارنا چاہتا ہے ،پر تم مجھے کیوں۔۔۔“یہ کہتے ہوئے وہ اچانک سنجیدہ ہو گیا۔پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد بولا۔ ”ادھر بیٹھو،اور بتا،بات کیا ہے؟“وہ دونوں بیٹھ گئے تو مان سنگھ نے کہا۔


”کچھ نامعلوم لوگ میرے دوستوں کو مار رہے ہیں۔میرے تین دوست مر چکے ہیں ،باقی تین اجنبی تھے۔ان میں ساتواں نام تمہارا ہے،تمہیں اس لیے بتا رہا ہوں کہ تم بچ جاﺅ اور میری دلچسپی یہ ہے کہ وہ لوگ کون ہیں ،ان کے بارے میں معلوم ہو جائے۔“


”ارے بابا،وہ نام کس نے دیا۔۔۔“


”یہ معلوم ہوتا تو ان تک پہنچ نہ گیا ہوتا۔خیر۔!میں یہاں تمہارے پاس ہوں اور یہ میری دوست بھی،اگر تم پر حملہ ہو جاتا ہے تو ان کو زندہ پکڑ لو،خود بچ جاﺅ اور ان سے معلوم کرو کہ وہ کون ہے ،اس کے لیے میں تمہیں رقم بھی دوں گا۔اگر تم پر حملہ نہیں ہوا تو پھر ممبئی میں کوئی اور ویرو دادا ہو گا۔۔میں اس لیے بھی تمہیں رقم دے دوں گا۔۔۔کہ میںنے آج تمہارا وقت ضائع کیا۔“


”بات میں دم ہے یار۔۔چل جا بیٹھ اس کمرے میں اپنی چھمیا کے ساتھ،شام تک انتظار کرتے ہیں۔“ویرو دادا نے کہا تو وہ اٹھ کر اس کمرے میں چلا گیا،وہاں ایک ہی بیڈ تھا،ایک ٹوٹا ہوا میز اور کرسی،وہ دونوں بیڈ پر بیٹھ گئے۔خلا کے جیسے وقت نے انہیں گھیر لیا، جو نہ چل رہا تھا اور نہ رک رہا تھا۔


سہ پہر سے ذرا پہلے اچانک ہی باہر کا دروازہ دھڑ دھڑ بجا،مان سنگھ نے ہڑ بڑا کر لیپ ٹاپ سکرین سے اپنی نگائیں ہٹا لیں۔ میت کور بھی اٹھ کر بیٹھ گئی۔پھر دونوں ہی کمرے کی واحد کھڑکی میں آ گئے جہاں سے باہر کا منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔وہاں تقریباً پینتس چالیس کے قریب مسلح افراد موجود تھے۔ایک بندہ نئے ماڈل کی جیپ کے سامنے کھڑا زور زور سے پکار رہا تھا۔


”اے ویر ودادا،نکل باہر ،آج تیرا آخری دن ہے۔“


اس کے ساتھ ہی اس نے دو فائر کر دیئے۔مان سنگھ اور میت کور نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔حیرت اور خوشی کے ملے جلے تاثرات دونوں کے چہروں پر تھے۔انہیں یقین تھا کہ اگر ویر ودادا کو پہلے معلوم نہ ہوتا تو یہ باہر سے آنے والے لوگ یقینااسے ختم کر دیتے۔اب چونکہ اسے معلوم تھا ،اس لیے نوواردوں کے بچ نکلنے کی گنجائش نہیں تھی۔فائر کی بازگشت ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ میت کور نے کہا۔


”دیکھنا مان،اگر کوئی بھٹکی ہوئی گولی۔۔۔“


”واہگرو کر پاکرے گا۔۔تو بس چپ کر کے یہاں پڑی رہ۔۔یہ رسک تو اب لینا ہی ہے۔“مان سنگھ نے تیزی سے کہا اورباہر دیکھنے لگا۔ویرو دادا کی طرف سے بالکل خاموشی تھی۔تبھی باہر کھڑے چند لوگوں نے فائر نکال دیئے۔اس بار فائرنگ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ چاروں طرف سے گولیاں برسنا شروع ہو گئیں۔چند لمحوں میں کئی لوگ ڈکارتے ،چیختے اور واویلا کرتے ہوئے گرنے لگے۔ان کے چہروں پر حیرت امنڈ آئی کہ یہ کیا ہونے لگا ہے ۔چند منٹوں میں وہاں باہر کا نقشہ ہی تبدیل ہو گیا۔پھر ایک طرف سے کسی نے اسپیکر میں کہا۔


”ہتھیار پھینک کر سر پہ ہاتھ رکھو اور پیچھے چلے جاﺅ،جس نے نہ کیا وہ۔۔۔“


جملہ مکمل بھی نہیں ہوا تھا کہ وہ لوگ زخمیوں کو مرتا چھوڑ کر پیچھے ہٹ گئے۔


ویرو دادا کے چہرے پر حیرت ،فتح مندی اور غصے کے تاثرات واضح دیکھے جا سکتے تھے۔وہ دونوں ہال نما کمرے میں تھے ، جہاں نئے ماڈل کی جیپ کے آگے کھڑا شخص باندھ کر لایا گیا تھا،اس کے ساتھ تین لوگ مزید تھے۔باقی سب کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا اور زخمیوں کو ہسپتال بھجوا دیا گیا۔


”کتنے بندے مر گئے؟“ویرو دادا نے پوچھا۔


”چھ بندے۔۔ہو سکتا ہے کچھ ہسپتال میں۔۔مر جائیں۔“ایک طرف کھڑے موٹے سے شخص نے کہا۔تو ویرو دادا نے بندھے ہوئے شخص کی طر ف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔


”اسے کھولو ،اور پوچھو،کون ہے یہ اور کیوں یہاں آیا۔سچ بتا ئے تو چھوڑ دینا۔“


اسی موٹے شخص نے اسے تیزی سے کھولا۔پھر کھڑا کر کے پوچھا،وہ خاموش تھا۔تبھی وہ موٹا اس پر پل پڑا،گھونسوں اور تھپڑوں کی بارش کر دی،وہ زمین پر گر گیا اوراس کے منہ سے خون بہنے لگا تھا۔اس جیسا سلوک دوسروں کے ساتھ بھی ہونے لگا۔اس ہال نما کمرے میں یوں محسوس ہو نے لگا جیسے کوئی فری ریسلنگ ہو رہی ہو۔کچھ دیر بعد ویرو دادا نے کہا۔


”بس۔!لے جاﺅ انہیں،بتا دیں تو ٹھیک ورنہ گولی مار دینا۔“


اس کے کہنے پر وہ سب رک گئے،پھر انہیں ہانک کر لے گئے۔تبھی ویر ودادا نے مان سنگھ کی طرف دیکھ کر کہا۔


”تم سچ کہتے تھے،لیکن تمہیں پتہ کیسے چلا ،یہ حملہ معمولی نہیں تھا۔مجھے پہلے سے معلوم نہ ہوتا تو آج۔۔“یہ کہتے ہوئے اس نے جھرجھری لی۔


”یہ ایک لمبی کہانی ہے ،چھوڑو اسے۔“یہ کہہ کر اس نے اپنے کوٹ کی سائیڈ جیب سے ایک بڑے نوٹوں والی گڈی نکال کر اس کے سامنے رکھ دی۔اگر ان کے بارے میں معلوم ہو جائے تو میں فون کر کے پوچھ لوں گا“


”لے جاﺅان نوٹوں کو،میں بتا دوں گا۔۔“یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا نمبر بتا دیا جیسے میت کور نے فوراًمحفوظ کر لیا۔ان دونوں نے ویرودادا سے ہاتھ ملایا اور اس گھر سے باہر آ گئے۔شام ڈھل چکی تھی۔


٭٭٭٭٭٭


زین اپنے شاندار آفس میں میز کے پار بیٹھا ہوا تھا۔اس سے ذرا فاصلے پر رخسار لیپ ٹاپ میں کھوئی ہوئی تھی۔دونوں کے لباس ،انداز اور اطورا سے امارت ٹپک رہی تھی۔پچھلے ایک ہفتے سے وہ بری طرح مصروف تھے۔پاکستان کے مختلف علاقوں میں جو این جی او کی طرز پر تنظیم بنائی تھی،اس کے نہ صرف تمام تر معاملات طے ہوگئے تھے ،بلکہ منتخب علاقوں میںسے بندے بھی چن لیے گئے ہوئے تھے۔اب صرف انہیں ابتدائی بجٹ دینا تھا اور پھر کام شروع ہو جانا تھا۔اس وقت زین اس فائل کے انتظار میں تھا جو اس کے اسسٹنٹ نے مکمل کر لی تھی۔کچھ دیر بعد دروازے پر ہلکی سی دستک ہوئی اور ایک اسسٹنٹ آفس میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں فائل تھی جو اس نے میز پر رکھتے ہوئے کہا۔


”سر۔!یہ تقریباً اٹھارہ لوگ ہیں۔انہیں دیکھ لیں۔ڈراپ کرنا ہے یا سب کی اپروول ۔۔آپ ایک نظر دیکھ لیں،پھر انہیں فائنل کر کے بجٹ دیں۔“اس کے لہجے میں ادب تھا۔


”تمہارا کیا خیال ہے۔“زین نے فائل سیدھی کرتے ہوئے پوچھا۔


”میری طرف سے سب فائنل ہیں۔آپ دیکھ لیں۔“اسسٹنٹ نے مودب لہجے میں کہا۔


”چلیں،میں ابھی آپ کو بلاتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ فائل دیکھنے لگا۔ہر بندے کی تصویر کے ساتھ کوائف تھے۔وہ دیکھتا چلا گیا۔اچانک ایک صفحے پر وہ رک گیا۔وہ منصور علی ساغر تھا۔اس کے بچپن کا دوست،جب وہ کوارئٹروں میں رہا کرتے تھے۔وہ تو اسے لاکھوں میں بھی پہچان سکتا تھا۔اس کا دل ایک دم سے ہمک اٹھا۔اس نے باقی جلدی جلدی فائل دیکھی اور منصور علی ساغر کا صفحہ الگ کر کے باقی فائل رخسار کی طر ف بڑھاتے ہوئے بولا۔


”یہ لو ۔!ان سب کو ڈن کر دواور طے شدہ بجٹ انہیں دے دو۔میں چیک سائن کر دیتا ہوں۔“یہ کہہ کر اس نے چیک بک نکالی اور اس پر دستخط کر کے وہ چیک بھی رخسار کو دے دیا۔رخسار وہ سب لے کر باہر چلی گئی۔ تبھی زین اٹھا اور باہر نکلتا چلا گیا۔اس نے اپنی گاڑی نکالی تو سیکورٹی کا قافلہ بھی اس کے ساتھ چل دیا۔وہ سیدھا ایک فائیو سٹار ہوٹل میں پہنچا۔وہ کچھ دیر بیٹھا رہا پھر اپنی ہی سیکورٹی سے نگاہیں بچا کر ایک دوسرے راستے سے باہر نکل آیا۔وہ پیدل چلتا ہوا سڑک پر موجود ایک سٹاپ پر آیا۔جہاں رکشے ٹیکسیاں کھڑی ہوئیں تھیں۔وہ ایک رکشے میں بیٹھا اور اسے چلنے کو کہا۔


رکشا کافی دیر تک چلتا رہا اور پھر اس جگہ پر آ گیا جہاں زین کا بچپن اور جوانی کے ابتدائی دن گذرے تھے۔جن میں بھوک ،افلاس اور غربت کے سوا کچھ بھی نہیں تھا۔اس نے رکشہ منصور کے گھرسے ذرا فاصلے پر رکوا دیا۔ادائیگی کرنے کے بعد وہ پیدل چل پڑا۔دو گلیاں پار کرنے کے بعد وہ ایک خستہ سے کوارٹر کے سامنے آ رکا۔جہاں کراس تھا اور جن کے درمیان میں ایک بڑا سا برگد کا درخت لگا ہوا تھا۔یوں تو وہاں اردگرد خاصی ہریالی تھی۔لیکن غربت کی پرچھائیں اس ہریالی کو بھی مانند کر رہی تھی۔ کچھ بھی نہیں بدلا تھا ۔اس نے دھڑکتے ہوئے دل اور لرزتے ہوئے ہاتھ سے دروازے پر دستک دی۔دوسری دستک کے بعد ایک لمبے قد کا پتلا سا جوان باہر نکلا۔جس کے چہرے پر غربت اور افلاس دور ہی سے پڑھی جا سکتی تھی۔دھنسی آنکھیں ،مسلے ہوئے کپڑے ،گندمی رنگ،سستی سی چپل،بڑھی ہوئی شیو،یہ تھا منصور علی ساغر،اس نے باہر کھڑے ہوئے زین کو دیکھا،لمحہ بھر پہچانے کی کوشش کی اور پھر حیرت زدہ انداز میں بولا۔


”ارے زین تم۔۔تم یہاں۔۔کہاں کھو گئے تھے؟“


”گلے ملو یار،سب بتاتا ہوں۔“اس نے بانہیں پھیلا کر کہا تو وہ اس کے سینے سے آ لگا۔ذرا سی دیر میں وہ الگ ہوئے اور پھر اندر چلے گئے ۔جہاں منصور کی بوڑھی والدہ تخت پوش پر بیٹھی دال چن رہی تھی۔قریب ہی اس کی بہن الماس موجود تھی۔ الماس کی جوانی اور اس کا رنگ و روپ غربت نے نگل لیا تھا۔ مگرقدرت کی طرف سے ودیعت نقوش تو ویسے ہی خوبصورت تھے۔یہی لڑکی اگر دولت بند ہو تو اس کا حسن بھی نگاہوں کو خیرہ کردے۔ زین نے اسے دیکھ کر سرد آہ بھری، جسے الماس نے بھی محسوس کیا۔ان سب سے ملنے ملانے اور کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد وہ دونوں ایک الگ کمرے میں جا بیٹھے تو منصور نے پوچھا۔


”اتنے دنوں بعد،میری یاد کیسے آ گئی۔“


”بس آ گئی،لگتا ہے نہ تمہیں کوئی نوکری ملی ہے اور نہ ہی کچھ کر سکے ہو“زین نے خود کلامی کے سے انداز میں پوچھا۔


”اذیت بھری زندگی ہے یار،پتہ نہیں کیا کیا سوچا تھا،مگر یہ غربت ہے کہ جان ہی نہیں چھوڑ رہی۔باپ اب بھی ٹیکسٹائل مل میں کام کرتا ہے۔میں بھی کرتا ہوں۔لیکن ماں کی بیماری ختم نہیں کر سکے اور نہ بہن کے ہاتھ پیلے ہو سکے ہیں۔یہ تو میرے رونے ہیں یار۔تم ٹھیک ٹھاک لگ رہے ہو،سناﺅ ،کیسی گذر رہی ہے؟“منصور نے دکھی لہجے میںکہتے ہوئے پوچھا۔


”سمجھو،آج سے تمہاری غربت ختم،ڈیفنس کے علاقے میں میری ایک کوٹھی خالی پڑی ہوئی ہے ،وہاں پر فوراً شفٹ ہو جاﺅ۔اب یہ مل وغیرہ میں کام کرنے کی ضرورت نہیں۔“زین نے تیزی سے کہا ۔پھر جیب میں سے بڑے نوٹوں کی گڈی نکال کر اسے دیتے ہوئے بولا۔”یہ لو،فی الحال اپنے خرچ لے لیے رکھو،ہماری اگلی ملاقات اسی گھر میں ہو گی اور میں تمہیں بتاﺅں گا۔کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔کوٹھی کا پتہ لکھو۔“


”یہ کیا۔۔تم کہیں پاگل ۔۔۔“منصور نے شدتِ حیرت سے کہا۔


”بکواس مت کرو،میرے پاس وقت نہیں ہے۔ابھی سے تم خود کو ایک بزنس مین کے طور پر تیار کرو،کل یاپرسوں تم سے ملاقات ہو گی۔سب تفصیل بتا دوں گا۔“


” وہاں مجھے۔۔۔!“ اس نے کہنا چاہا تو زین نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا


”بس تمہیں وہاں جا کر اپنا نام بتانا ہے۔وہ تمہیں سیل فون دیں گے۔پھر اسی پر ہماری بات ہوا کرے گی۔اب میں چلتا ہوں۔“یہ کہہ کر اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔


”ابے کچھ دیر بیٹھو،وہ الماس چائے بنا رہی ہے۔میں نے تو بہت ساری باتیں ۔۔۔“


”کل یا پرسوں ساری باتیں ہو جائیں گی،فکر نہ کرو۔“یہ کہہ کر وہ باہر چل دیا۔منصور بھی اس کے ساتھ چل پڑا۔ذرا سا آگے جا کر اسے رکشا مل گیا۔اس نے وہ پکڑا اور واپس ہوٹل کی جانب چل پڑا۔پھر جیسے وہاں سے نکلا تھا،اسی طرح ہوٹل جا پہنچا۔سیکورٹی والوں میں کھلبلی مچی ہوئی تھی۔اسے دیکھ کر پر سکون ہو گئے۔وہ واپس اپنے آفس آ گیا۔جہاں سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔رخسار حسب معمول لیپ ٹاپ میں کھوئی ہوئی تھی۔اسے دیکھتے ہوئی بولی۔


”کہاں چلے گئے تھے،یہ جو آپ لوگ چینل شروع کررہے تھے۔اس کے کچھ لوگ آپ سے ملنا چاہ رہے ہیں۔کب کا وقت دوں انہیں؟“


”کل کا دے دو۔اب میں آرام کرنا چاہوں گا۔ایک ہفتے سے بہت مصروف رہا ہوں۔“زین نے صوفے پر بیٹھتے ہوئے کہا تو رخسار نے اس کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔


”مصروفت بھی ایسی کہ ہمیں شادی موخر کرنا پڑی،ویسے کیا خیال ہے ،اب کچھ سوچیں اس بارے میں۔۔“


”جب بھی تم یہ خیال کرو کہ ہم بہت سارے دن فرصت سے کہیں آزاد گھوم پھر سکتے ہیں ۔ویسے اگر شادی ساتھ رہنے کا نام ہے تو وہ ہم ایک ساتھ رہ تو رہے ہیں۔“زین نے اس کی طرف دیکھا اور پھر آنکھ مارتے ہوئے بولا۔


”اوکے۔!ایسا نہ وہ کہ وقت کی تلاش میں ہی وقت ہمیں کھو دے۔“رخسار نے سرد آہ لیتے ہوئے کہاا ور پھر تیزی سے بولی”میں انہیں میل کر رہی ہوں کہ تم کل دوپہر ایک بجے انہیں مل رہے ہو۔“


”اوکے۔!تو پھر چلیں۔“زین نے اٹھتے ہوئے کہا۔


”تم چلو،میںکچھ دیر ٹھہر کر آتی ہوں۔“رخسار نے مسکراتے ہوئے کہا تو کچھ کہے بنا آفس سے نکلتا چلا گیا۔


اس وقت وہ ایزی ہو کر بیٹھا ہوا تھا۔اس کے سامنے میز پر ایک نیا سیل فون رکھا ہوا تھا۔وہ کبھی کبھار اس کی طرف یوں دیکھ رہاتھا جیسے کال آنے کا منتظر ہو ۔قریب ہی اس کا لیپ ٹاپ بند پڑا ہوا تھا۔دفعتاً سیل فون جاگ اٹھا تو جلدی سے کال ریسو کر لی۔دوسری طرف منصور علی تھا۔


”ہاں منصور۔پہنچ گئے؟“


”ہاں پہنچ گیا۔“اس نے اختصار سے کہا۔


”اب فون اسے واپس دو۔“اس نے بنا وقت ضائع کئے کہا تو چند لمحوں بعد وہاں پر موجود بندے کی آواز ابھری۔تو اس نے کہا۔”یہ گھران کے حوالے کرو اور تم سرونٹ کواٹر میں شفٹ ہو جاﺅ۔انہیں کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں ہونی چاہئے۔میں کسی وقت آﺅں گا۔دھیان رکھنا ۔اب فون انہیں دو۔“


”جی زین،!بولو“


”یہ گھر اب تمہارا ہے،اس میں سکون سے رہو۔میں کسی وقت آ کر تمہیں تفصیل سے سمجھا دوں گا کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔یہ بند ہ یہاں تمہاری ہر طرح سے مدد کرے گا۔باقی باتیں پھر ہوں گی۔خدا حافظ۔“


”خدا حافظ۔!“دوسری طرف سے منصور نے کہا تو زین نے فون بند کر دیا۔پھر وہ سوچنے لگا کہ منصور کا اب کیا کیا کیسے بنانا ہے۔


٭٭٭٭٭٭


رات کا پچھلا پیر تھا۔آخری تاریخوں کا چاند سر پر آ چکا تھا۔پنڈت شیوپرشاداپنی محل نما عمارت کی چھت پر تنہا ٹہل رہا تھا۔اردگرد کے برقی قمقموں کی چھنتی ہوئی روشنی میں اس کے چہرے پر فکر و تردد کے آثار واضح دیکھے جا سکتے تھے۔وہ رات بھر سو نہیں سکا تھا ۔کروٹیں بدل بدل کر جب تھک گیا تو اپنے کمرے سے نکل کر باہر آ گیا۔وہ کچھ دیر دالانوں میں پھرتا رہا ،وہاں بھی سکون نہ ملا تو اوپر چھت پر آ کر ٹہلنے لگا۔ یہاں بھی اسے سکون نہیں تھا۔اس کے دماغ میں وجے کی باتیں گھوم رہی تھیں۔جس نے اپنے کمپیوٹر پر دکھایا تھا کہ رام داس نے جو کاروباری گروپ بنایا ہے وہ اب محفوظ نہیں رہا۔گیت چنینائی ،ستیش اور مان سنگھ میں سے کسی کی وجہ سے ویرو دادا بچ نکلا تھا اور اس علاقے میں جس نوجوان کو انہوں نے تنظیم کا سربراہ بنایا تھا،اسے قتل کر دیا گیا تھا۔پنڈت کو جہاں کاروباری گروپ کے غیر محفوظ ہو نے کا دکھ ہوا،وہاں اپنے ہی خلاف جانے پر پریشانی بھی ہونے لگی۔اس کھیل کے دوسرے مرحلے میں اس کے تین ”غدار“سامنے آ چکے تھی۔وہ سوچ یہ رہا تھا کہ ان تینوں کو یکسر ختم کر دے یا پھر رام داس سے بات کر کے کوئی اپائے کرے۔مگر پھر ان کی جگہ کون لے گا؟یہ فکر اپنی جگہ تھی۔کیا وہ آنکھیں بند کر کے اس وقت کا انتظار کرے جب ویرو دادا ان تک پہنچ جاتاہے۔یا پھر فوراً ہی اسے غائب کر کے اس سے پوچھ لیا جائے کہ ان کی راہ پر کس نے لگایاہے؟ اگر اچانک ان تینوں کو غائب کر دیا گیا تو باقی ایک دم سے اندھیرے میں غائب ہو جائیں اور پھر نئے سرے سے سب کچھ بنانا پڑے گا۔ممکن ہے پھر دوبارہ انہیں کوئی رام داس جیسا کوئی ملے گا بھی یا نہیں؟تنظیم میں سیندھ لگ جانا بھی کوئی معمولی بات نہیں تھی۔اگرچہ وجے نے کہا تھا کہ ویرو دادا کو سنبھال لے گا۔اس جیسے غنڈے موالی کو ختم کر دینا آسان بھی تھا لیکن پنڈت کو اصل فکر رام داس کے اس گروپ کی تھی جو اپنی اپنی جگہ بہت مضبوط ہو چکا تھا۔وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔اگر یہ ٹاسک وجے کو دیتا ہے تو ٹوٹ پھوٹ یقینی تھی۔اور یہ معلوم بھی نہ ہوتا کہ ان تینوں میں سے کون ”غدار “ ہے،ہیں بھی یا نہیں یا ان میں سے کوئی ایک ہے۔اور اگر رام داس کے ذمے لگاتا ہے تو وجے کی ساری بات اس کے سامنے کھولنا پڑے گی،اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔یہاں تک کہ صبح کے آثار واضح ہونا شروع ہو گئے اور وہ تھک کر بے حال ہو گیا۔وہ چھت سے نیچے اتر آیا مگر اس کے پاس کوئی حل نہیں تھا۔


وہ اپنی معمول کی پوجا کے بعد سفید چبوترے پر آن بیٹھا تھا۔اس کے ذہن پر نیند کے ساتھ مسئلے کا بوجھ بھی تھا۔اسے احساس نہیں تھا کہ معاملہ اتنی جلدی کھل جانے کی نوبت آ جائے گی۔ذہن کے کسی کونے میں یہ بات ٹھوکریں مار رہی تھی کہ کوئی تیسری طاقت بن جائے تو ان دونوں کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔مگر یہ فطری طور پر مسئلے کا حل نہیں تھا۔وہ ا ٓنکھیں بند کئے بیٹھا ہوا تھا کہ ایک داسی نما ملازمہ اس کے قریب آ کھڑی ہوئی ۔ وہ اس کے وجودکا احساس کر کے پنڈت نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا تو وہ مودب لہجے میں بولی۔


”پروفیسر رام داس جی پدھارے ہیں۔“


”تم جاﺅ اور اس کی سیوا کرو۔“پنڈت نے عام سے لہجے میں کہا اور اپنے دھیان میں بیٹھ گیا لیکن اس کے ذہن نے یہ فوراً سوچنا شروع کر دیا کہ یہ اس وقت یہاں کیسے آیا ہے۔کچھ دیر بعد وہ اٹھا اور عمارت میں سے ہوتا ہوا ،اس کمرے تک جا پہنچا جہاں پروفیسر رام داس ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھااور اس کے سامنے انواع و اقسام کے پھل چنے ہوئے تھے۔وہ پنڈت کو دیکھتے ہی ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہو گیا۔پنڈت نے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھایاپھر فکر مند سے لہجے میں پوچھا۔


”ہاں رام داس ۔!کیا بات ہے کہ تمہیں صبح ہی یہاں آنا پڑا۔“


”مہاراج۔!دو دن سے مختلف فون کالز موصول ہو رہے ہیں ۔وہ مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دے رہے ہیں ۔کوئی ویرو دادا نام کا غنڈہ ہے۔ میں نے پوچھا اس سے کہ وہ کیوں ایسا کر رہاہے۔اس نے مجھے بتایا کہ میں نے جوفلاحی تنظیم بنائی ہے۔اس کی وجہ سے میں اسے راستے کی رکاوٹ سمجھ کر راستے سے ہٹانا چاہتا ہوں اور اس کے لیے حملہ بھی کروایا ہے۔“وہ ایک ہی سانس میں کہتا چلا گیا۔


”اس نے محض دھمکی دی ہے یا کوئی۔۔۔۔“پنڈت نے سوچتے ہوئے لہجے میں بات ادھوری چھوڑدی۔


”فی الحال وہ دھمکی ہی دے رہا ہے۔صرف مجھے ہی نہیں ۔ستیش رائے ،اور گیت چنینائی کو بھی۔پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم نے ایسا بالکل نہیں کیا اور نہ ہی کوئی ارادہ تھا۔یہ سب کیسے ہوا؟اس سے تو بڑی مشکلات پیداہو سکتی ہیں؟“رام داس کے لہجے میں تشویش تھی۔


”ہونہہ۔“پنڈت نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا۔دراصل اس وقت اس کے ذہن میںمان سنگھ کا نام گھوم رہا تھا۔مگر وہ فوراً ہی رام داس کے سامنے اظہار نہیں کر سکتاتھا۔اس لیے بات کو کسی اور ہی راہ پر ڈالتے ہوئے بولا۔


”دیکھ رام داس ،کوئی تیسرا بھی درمیان میں ہو سکتاہے جو تم سب لوگوں کی اس قدر تیز ترقی سے حسد کر رہا ہو۔کوشش کر کے دیکھو،اسے تلاش کرو۔“


”ممکن ہے وہ تیسری قوت ،ہمارے درمیان ہی میں موجود ہو۔“رام داس نے تیزی سے کہا۔


”بالکل ممکن ہے ،تمہارے جتنے بھی کاروباری لوگ ہیں،خصوصاً بھارت میں انہیں دیکھو،اگر ہمارے درمیان ہوا تو فوراً مل جائے گا۔اگر نہ ہوا تو باہر تلاش کرنا پڑے گا۔مجھے بتاﺅ ،میں تمہاری کیا مدد کر سکتا ہوں۔جتنی چاہو،میں تمہاری سیکورٹی بڑھا دیتا ہوں۔“پنڈت نے آہستہ آہستہ اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔


”بات سیکورٹی کی نہیں ،اس تیسری قوت کی ہے،جو ہم پر نگاہ رکھے ہوئے ہے ظاہر ہے ستیش اور گیت تو بالکل الگ ہیں۔وہ سامنے نہیں ہیں۔ اور پھر باقی ممالک میں کہیں بھی کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا۔یہ دیمک کہیں اندر ہی سے لگ چکی ہے۔“


”تو دیکھو،تلاش کرو،مجھے بتاﺅ،میں کیا کروں؟“پنڈت کے لہجے میں ہلکی سی اکتاہٹ تھی۔جیسے رام داس فوراً ہی محسوس کر لیااور اپنی بات کو سمیٹتے ہوئے بولا۔


”بس مہاراج میں نے آپ تک یہ صورت حال پہنچا نا تھی۔“


”میں مزید سوچوں گا اس پر،اگر ہو سکا تو کوئی بندہ بھی دے دوں گا تمہاری مدد کے لیے۔تم نے پریشان نہیں ہونا اس سے بھی مشکل اور گھمبیر مسئلے آنے والے ہیں۔“اس بار پنڈت نے لہجے کو کافی حد تک خوشگوار رکھا۔ تبھی رام داس نے نمستے کے انداز میں ہاتھ جوڑے اور اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔


”آگیاءدیجے مہاراج۔۔۔“


اس کے یوں کہنے پر شیو پرشاد نے اپنا سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا


”ابھی نہیں،کچھ دیر بعد جانا۔“یہ کہہ کر پنڈت اٹھا اور چبوترے کی طرف جانے کے لیے چل دیا۔راستے میں اپنی داسی نما ملازمہ سے وجے اور ساوتری کو بلانے کے لیے کہہ دیا۔


وہ چبوترے پر بیٹھا کافی حدتک ہشاش بشاس تھا۔وہ سوچ چکا تھا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے۔یہ جیسے ہی وجے اور ساوتری سامنے آ کر کھڑے ہوئے تو اس نے رام داس کی آمد بارے بتا کر پوچھا۔


”بولو۔!اب کیا کرنا چاہئے۔“


”مہاراج۔!وہ وقت آ گیاہے کہ جب رام داس کو اعتماد میں لے لیا جائے،ورنہ آگے جا کر بہت مشکل ہو جائے گی،چھپائے رکھنے سے ممکن ہے رام داس کچھ غلط کر بیٹھے۔“وجے نے آہستگی سے کہا تو پنڈت نے ساوتری کی طرف دیکھا۔


”وجے ٹھیک کہہ رہا ہے مہاراج۔اگر مل جل کر آگے کا پلان ترتیب دیں گے تو ہم جلدی اپنا مقصد حاصل کر لیں گے۔“


”تو ٹھیک ہے ،ابھی کچھ دیر بعد رام داس سے ملتے ہیں ،تم چلو اس کے پاس۔“پنڈت نے کہا تو وہ نمستے کرتے ہوئے ذرا جھکے اور عمارت کے اندر چلے گئے۔


جس وقت پنڈت دربارہ ڈائینگ روم میں آیا تو اس وقت وہ تینوں خاموش بیٹھے ہوئے تھے۔وہ تینوں کھڑے ہوگئے۔پنڈت نے انہیں بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھ گیا۔پھر رام داس کی طرف رخ کر کے بولا۔


”رام داس۔!یہ وجے اور ساوتری ہیں۔یہ کیا ہیں اور کیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں ،اس بارے میں صرف اتنا سمجھ لو کہ یہ تمہارے ہر طرح سے کام آئیں گے ،جو تم انہیں کہو گے۔یہ اب تمہارے ساتھ ہوں گے۔میں ایسا کیوںکر رہا ہوں توسنو،“یہ کہہ کر پنڈت نے پہلو بدلا اور پرسکون سے لہجے میں کہتا چلا گیا۔”شیو بھگوان کا راج تو پوری پرتھوی پر ہے۔اور اب اگلے یگ میں شیو راج کی شروعات ہونے والی ہیں۔بہت بڑی تباہی آنے والی ہے۔ظاہر ہے نئی تعمیر کے لیے بہت کچھ توڑنا پڑتا ہے۔ہم جو کچھ کر رہے ہیں شیو بھگوان کی سیوا کے لیے کر رہے ہیں۔“


”جی مہاراج۔!“رام داس منمنایا۔


”ہم بڑی شانتی سے آگے بڑھ رہے تھے۔لیکن جو تم نے بات بتائی ہے ۔ اس مخالفت کوہونا ہی تھا،اس سے پہلے کہ وہ ہمیں ختم کر دیں۔ہمیں اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ختم کرنا ہے۔ہمیں اپنی اور اپنے مقصد کی بقا کے لیے ہتھیار تو اٹھانا ہو گا۔میں یہ نہیں کہتا کہ ہم لڑنے لے لیے اٹھ کھڑے ہوںبلکہ غنڈے موالی اور اس جیسے ہماری راہ میں آئیں تو انہیں آسانی کے ساتھ راستے میںسے ہٹایا جا سکتاہو۔ہم نے اپنی ذات یا جاگیر یا ملک نہیں بنانا،شیو بھگوان کے آنے کا راستہ صاف کرنا ہے۔“ پنڈت کہتے ہوئے سانس لینے لے رکا تو وجے نے مودب لہجے میں کہا۔


”اس کے لیے ہم اپنی جان ہتھیلی پر لیے پھرتے ہیں ۔ہمیں حکم دیں،ہمیں کرنا کیا ہے؟“


”سنو۔!یہ دولت ہی تو ہے جس سے بہترین ذہن رکھنے والوں کو قابو کر لیا گیا ہوا ہے۔دولت کی زنجیر نے اس سب کی صلاحیتوں کو باندھ رکھا ہے۔تم نے نہیں دیکھا رام داس ،جتنا ہم نے لگایا،اس سے کئی گنا ہم واپس لے چکے ہیں۔اور وہ لوگ دولت کے نشے میں اس قدر مخمور ہیں کہ اب جو بھی انہیں کہا جائے گا وہی کریں گے۔تجربہ کر چکے ہم۔اب دو طریقے ہیں،دو راستے ہیں ،ایک راستہ یہ ہے کہ ہم نے جو فلاحی تنظیم بنا لی ہے،اس کو اتنا مضبوط کر دیں کہ وہ الیکشن میں حصہ لے اور حکومت بنانے کے قابل ہو جائے،لیکن اس کے لیے بہت طویل چلنا ہوگا۔بہت وقت درکار ہو گا۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ انہی کاروباری لوگوں کے ہاتھوں اسمبلی کے رکن خرید لیے جائیں اور پھر جو چاہئے اپنی مرضی سے منوا لیا جائے؟“ پنڈت نے اپنے دل کی بات کہی تو اسے لگا جیسے اندر ہی اندر پلنے والی قوت سامنے بیٹھے تینوں لوگوں کے سپرد کر دی ہے۔وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوا تو رام داس بولا


”اگر ایسا ہے تو پھر فلاحی تنظیم بنانے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ہم چند سیاست دان منتخب کر کے ۔۔انہیں ۔۔۔۔“


”نہیں۔!پریشر کے لیے،دباﺅ کے لیے ایسی قوت کا ہونا اشد ضروری ہے ۔دولت کی پروا مت کرو،ویرو دادا جیسے بندے کو پیدا ہی نہ ہونے دو ۔ لیکن اس سے پہلے دیکھو ،ہمارے اندر کون غدار ہے؟“


”مجھے چند دن دیں مہاراج،میں کوشش کرتا ہوں۔“رام داس نے تیزی سے کہا۔


”ساوتری اب تمہارے ساتھ آفس میں بیٹھے گی۔تم سب مل کر اس مقصد کو آگے بڑھاﺅ گے۔اس سال بھارت میںالیکشن ہونے والے ہیںاور اس الیکشن میں ہم نے کامیابی لینی ہے۔پھر جس طرح دوسرے ممالک میں الیکشن ہوں،وہاں وہاں ہمارے بندے ہونے چائیں۔ایک سال ، بہت کم وقت ہے تم لوگوں کے لیے۔“پنڈت نے پر جوش انداز میں کہا اور ان کی طرف دیکھنے لگا۔ان لوگوں میں چند لمحے خاموشی رہی،پھر وجے نے کہا۔


”جیسے آپ کا حکم مہاراج۔“وجے نے کہا اور اٹھ کر جھک گیا،اسی طرح ساوتری نے کہا تو رام داس کو بھی ایسے ہی کرنا پڑا۔تبھی پنڈت اٹھا اور انہیں بیٹھے کا اشارہ کر تے ہوئے بولا۔


”اب تم جانو اور تمہارا کام،بیٹھو اور باتیں کرو۔فوری طور پر ایک ارب روپیہ میں تم لوگوں کو دیتا ہوں۔“


اس نے کہا اور واپس پلٹ کر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔


٭٭٭٭٭٭٭


رات کے پہلے پہر ہی گہرا سناٹاتھا۔زین اپنے بنگلے کے سوئمنگ پول کے کنارے بیٹھا ہوا تھا۔جہاں پر لگے برقی قمقموں میں سے ایک ہی جل رہی تھی۔جس سے کافی روشنی ہو رہی تھی۔وہ نیکر میں تھا اور اس کے قریب پائن ایپل فریش جوس دھرا ہوا تھا۔جبکہ رخسار پانی میں تیر رہی تھی۔اس نے انتہائی مختصر لباس پہنا ہوا تھا۔بس سوئمنگ کا سیٹویم سے کچھ زیادہ اور عام لباس سے بہت کم۔زین گہری سوچ میں تھا جبکہ رخسار پانی سے کھیل رہی تھی۔وہ کچھ دیر تنہا پول میں مچھلی کی مانند تیرتی رہی پھر جیسے اسے خیال آگیا۔وہ پانی کو ہٹاتی ہوئی کنارے آ لگی اور بڑے رسان سے کہا۔


”زین۔!کیا آج سوئمنگ کا ارادہ نہیں ہے؟“


”دل نہیں چاہ رہا۔“


اس کے یوں کہنے پر رخسار چند لمحے حیرت سے اسے دیکھتی رہی پھر یوں لگا کہ جسے چاند پول میں سے باہر آ گیا ہو۔ وہ روشنی میں چمک رہی تھی جیسے اس کے بدن پر نقرئی روشنی لپٹ گئی ہو۔مگر زین نے اس کی جانب توجہ نہیں دی۔وہ بدن اس کے لیے کوئی نیا نہیں تھا۔جس کی کشش میں وہ سب کچھ بھول جاتا،شاید اب اس میں اتنی کشش نہیں رہی تھی یا پھر جو خیال وہ سوچ رہا تھا وہ اس قدر اہم تھا ۔رخسار نے اپنے بدن کو تولیے سے لپیٹ لیا اور اس کے سامنے والی کرسی پرآن بیٹھی اور عام سے لہجے میںپوچھا۔


”دل کیوں نہیں چاہ رہا،طبعیت تو ٹھیک ہے ناتمہاری؟“


”بس ایسے ہی،تم کرو انجوائے۔“


”نہیں تمہارا موڈ نہیں ہے تو پھر چلتے ہیں آﺅ۔۔“اس نے فوراً ہی کھڑے ہو کر کہا تو بادل نخواستہ وہ بھی اٹھ گیا۔دونوں چلتے ہوئے عمارت کے اندر چلے گئے۔یہاں تک کہ وہ بیڈ روم میں آ گئے۔ان دونوںہی نے لباس تبدیل کیااور بیڈ روم میں دھرے صوفوں پر آن بیٹھے۔


”کیا سوچ رہے ہو؟“رخسار نے اس کی طرف دیکھ کر پوچھا۔


”کچھ نہیں،لگتا ہے میں کچھ تھک گیا ہوں۔“اس نے گہرے انداز میں کہا۔


”تو چلو،کہیں باہر جانے کا پروگرام بناتے ہیں۔کسی اچھی سی جگہ چل کر ڈنر کرتے ہیں۔“وہ خمار آلود لہجے میں بولی۔


”یہ بھی تو ہے نا،کہیں جانے کو جی بھی نہیں کر رہا“اس نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا۔


”چلو تم موڈ بناﺅ اور میں کھانا لگواتی ہوں۔“اس نے صلاح دی ،اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا،اس کا سیل فون بج اٹھا۔رام داس کا فون تھا۔اس نے زین کو فوراً آن لائن ہوجانے کے لیے کہا اورفون بند کر دیا۔ رخسار اس کا لیپ ٹاپ اٹھا ئے اس کے ساتھ ہی صوفے پر جڑ کر بیٹھ گئی۔ذرا سی دیر میں وہ آن لائن تھا۔رام داس نے پورے بزنس گروپ کو آن لائن کیا ہوا تھا۔وہ سارے ویڈیو کانفرنس میں تھے۔


”خیریت تو ہے نا رام داس ،کوئی ہنگامی نوعیت کا مسئلہ تو نہیں ہے؟“زین نے پوچھا تو اس نے جواب دیا۔


”میں آپ سب سے کچھ باتیں کرنا چاہ رہا تھا،اب یہ تکلف ہمیں چھوڑنا ہو گا کہ ہم کچھ ہو جانے کے منتظر رہیں۔بلکہ اب ہم جو بھی کام کریں گے ،جو فیصلہ بھی ہو گا۔اسے تھوڑے وقت میں پورا کرنے کی کوشش کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ اب ہمیں اپنے طریقہ کار میںبھی تبدیلی لانا ہوگی۔آپ سب لوگ میری بات سن رہے ہیں نا۔۔“اس نے بات ختم کی تھی کہ سب کی طرف سے یہ پیغام آ گیا کہ وہ سب سن رہے ہیں۔


”تم بات کرو،ہم سن رہے ہیں۔“جوشوہا کہ آواز اور تصویر سب نے سنی اور دیکھی۔


”آپ سب ذہین لوگوں نے بہت کم وقت میں بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔یہ ہم سب جانتے ہیں۔آپ سب عام سے لوگ تھے اور آپ کا شماراب اہم لوگوں میں ہوتا ہے۔یہ منزل نہیں محض ایک سنگ میل ہے۔ ابھی آپ کو جنوبی ایشاءکے امیر ترین لوگوں میں سے ہونا ہے۔ممکن ہے کوئی بندہ اکتا گیا ہو اور وہ اس بزنس گروپ سے الگ ہونا چاہتا ہو تو وہ شوق سے الگ ہو سکتا ہے لیکن یہ قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا کہ کوئی گروپ کو نقصان پہنچائے۔“


”کیا ایسا کوئی مسئلہ سامنے آ گیا ہے؟“جھرنا نے تیزی سے پوچھا۔


”احساس ہو رہا ہے لیکن بہت جلد اسے بھی دیکھ لیا جائے گا۔اب میں اس مقصد کی طرف آتا ہوں جس کے لیے اس ویڈیوکانفرنس کا اہتمام کیا گیا ہے۔“یہ کہہ کر چند لمحوں کے لیے خاموش ہوا،پھر کہتا ہی چلا گیا۔”جنوبی ایشاءمیں سیاست اور کاروبار پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہے۔آپ سب نے دیکھ لیا ہے کہ دن بدن یہ سارے کاروبار چند خاندانوں کی دسترس میں جا رہے ہیں۔اسی وجہ سے وہ خاندان سیاست میں بھی جو چاہتے ہیں کرتے ہیں۔عام آدمی کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلکہ وہ اپنی کٹھ پتلیاں بنا کر لوگوں کو نمائندگی کے لیے بھیج دیتے ہیں۔اصل حکم انہی کا چلتا ہے۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ پورے جنوبی ایشاءکے وسائل بھی انہی لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور وہی اس پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں۔سوال یہ ہے کہ یہ تسلط،یہ قبضہ اور یہ اجارہ داری کیسے ختم کروائی جائے۔تا کہ ایک عام آدمی تک زندگی کی بھر پور سہولیات پہنچیں۔اسی خطے کے لوگوں میں سب سے زیادہ غریب لوگ آباد ہیں۔یہ غربت انہی کا مقدر کیوں ہے؟کیا ہم اپنی زندگی اس خطے کے عوام کے لیے وقف نہیں کر سکتے۔کسی بھی مذہب سے بالاتر ہو کر۔مذہب عوام کا اپنا ذاتی معاملہ ہے۔ہمارے نزدیک انسانیت کی فلاح ہو۔ہمارے لیے نہ سرحدیں اور نہ ہی ان کے مذاہب رکاوٹ ہونا چاہیں۔کیونکہ ہوتا آ رہا ہے کہ یہی وسائل ،دولت اور سیاست پر قابض لوگ جو تعداد میں بہت تھوڑے ہیں جب چاہے ،مذہب اور سیاست کے نام پر دوسرے مذہب کے لوگوں کو رگیدکر رکھ دیتے ہیں۔انہیں زندہ جلا دیا جاتاہے۔بم دھماکوں میں بے گناہ افراد کو اُڑا دیا جاتاہے۔کیا یہاں کے عوام کی قسمت میں امن نہیں؟یہ وہ تمہید ہے جس کے بعد میں اصل سوال کرنے جا رہا ہوںجس پر ہم بحث و مباحثہ کر سکتے ہیں۔اور اس کا کوئی لائحہ عمل بنا لیں جیسا کہ ہم پہلے کرتے آئے ہیں۔اور وہ سوال یہ ہے کیا غربت اور امن کی راہ میں جو رکاوٹ ہے، اسے ختم کر دینا چاہئے۔کیا ہم اس مقصد کو اپنا لیں ،کیا ہم ایسا کر سکتے ہیں؟“رام داس اپنی بات ختم کی تو یکے بعد دیگرے اس پر اظہار خیال کرنے لگے۔تقریباً ایک گھنٹہ کی بحث کے بعد یہ فیصلہ کر لیا گیا کہ بزنس گروپ اور نئی فلاحی تنظیم کی راہ میں جوبھی رکاوٹ بنے گا اسے ختم کر نا ہی ہو گا۔وہ چاہے کوئی بھی ہو۔جب تک قوت نہیں ہو گی اس وقت تک یہ ممکن نہیں۔یہ کیسے ہو گا ۔اس کے لیے دو دن بعد ویڈیو کانفرنس کا سیشن طے ہو گیا۔یہاں تک کہ زین نے لیپ ٹاپ بند کر دیا اور ایک طویل سانس لے کر رخسار کی طرف دیکھا ۔اس کے چہرے پر تشویش اور فکر مندی کے گہرے تاثرات تھے۔


”کیا ہوا رخسار،تم پریشان ہو گئی ہو؟“وہ آہستگی سے بولا


”زین۔!کیا تمہیں نہیں لگتا۔یہ بزنس گروپ اور یہ فلاحی تنظیم اب کسی اور ہی راہ پر گامزن ہے۔رام داس نے جو لفظ بھی کہے ہیں ۔ان میں روح نہیں تھی۔“اس کے لہجے میں تشویش گھلی ہوئی تھی۔تب اس نے پوچھا۔


”دوسرے لفظوں میں تم کہنا یہ چاہتی ہو کہ رام داس جو کہہ رہا تھا ،اس کے پیچھے مقصد کوئی اور ہے؟“


”یقینا ۔!رام داس نے یہ جو قافلہ بنا لیا ہے۔یہ پرت در پرت کھلتا ہی چلا جا رہا ہے۔ان کا اصل مقصدکیا ہے ،یہ شاید کبھی معلوم نہیں ہو پائے گا۔“اس نے گہرے لہجے میں کہا۔


”تمہاری تشویش ٹھیک ہے۔اور تم کوئی نئی بات بھی نہیں کر رہی ہو۔یہ تو پہلے دن ہی سے معلوم ہے کہ ان کے اپنے خاص مقاصد ہے۔جن کے لیے وہ ہمیں استعمال کر رہے ہیںاور ہم فائدہ اٹھا رہے ہیں۔دولت کا حصول۔۔۔“


”اب بات صرف دولت کے حصول کی نہیں لگتی زین۔!رام داس کے لفظوں سے خون کی بو آ رہی ہے۔تم نے محسوس نہیںکیا ،اس کا لہجہ پہلے والا نہیں تھا۔زین ،اب تمہیںبہت احتیاط کرنا ہو گی۔“


”دیکھو۔!میں کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کر تا،مطلب ایساکوئی کام نہیں جس سے میرے وطن کو نقصان پہنچ رہا ہو۔میں مانتا ہوں کرکٹ جواء،سٹے بازی جیسے کام یہاں پاکستان میں غیر قانونی ہیں،لیکن جہاں میں سرمایہ لگاتا ہوں،وہاں تو نہیںہے ۔ اس لیے میں مطمئن ہوں۔“اس کے لہجے میں واقعتا اطمینان جھلک رہا تھا۔


”کل کو یہی لوگ دہشت گردی میں ملوث پائے گئے یا ان کا کوئی اور ۔ ۔ ۔ “ رخسار نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولا۔


”جب کوئی ایسا واقعہ آیا تو میں ان کا سب سے بڑا مخالف ہوں گا۔اس بات کوچھوڑ و،میں جو سوچ رہا ہوں،اس پر غور کرو،رام داس کی اس ویڈیو کانفرنس کے بعد مجھے لگتا ہے کہ سرماےے کا بہت بڑا حصہ انہیں دینا ہو گا۔تم سارے اکاﺅنٹ دیکھ کر مجھے بتاﺅ ،اس وقت ہمارے پاس کتنا سرمایہ ہے ۔سامنے کتنا ہے اور جو چھپا ہوا ہے وہ کتنا ہے اور ہم ان میں سے کتنا دے سکتے ہیں۔“


”میں یہ معلومات اپ ٹو ڈیٹ رکھتی ہوں۔میں ابھی فائل لا کر دکھا دیتی ہوں۔“رخسار نے کہا اور اٹھ کر بیڈ روم کے سیف کی جانب بڑھ گئی۔نمبر لاک ملا کر سیف کھولی۔اس میں سے فائل نکالی اور زین کے پاس لے آئی۔وہ کافی دیر تک اس فائل میں دیکھتا رہا۔اس کے چھ اکاﺅنٹ تھے۔تین ظاہر اور تین خفیہ۔کسی اکاﺅنٹ میں سات اور کسی میں چھ ہندسوں میں رقم تھی۔کہیں ڈالر ،کہیں یورو اور کہیں روپے۔کچھ دیر بعد اس نے فائل بند کی اور مسکراتے ہوئے بولا۔


”چلو،ڈنر کرتے ہیں۔شیف سے کہو۔“


”اوکے۔!“اس نے کہا اور کسی روبوٹ کی مانند اٹھ کر چل دی۔جیسے ہی وہ تنہا ہوا ،اس نے مخصوص سیل فون نکالا اور منصور علی کو فون کر دیا ۔وہ تو جیسے اسی کے انتظارمیں تھا۔


”سناﺅ،کیسے دن گذرا۔“زین نے سکون سے پوچھا۔


”یقین جانو،مجھے تو یہ خواب لگ رہا ہے۔ویسے تم نے آنا تھا ،اب تک انتظار کر رہا ہوں۔“


”سکون سے سو جاﺅ۔کل کسی وقت ملیں گے۔تم نے کل دن میں یہ کرنا ہے کہ کسی بھی آن لائن بنک میں اپنا اکاﺅنٹ کھلوا لو،بلکہ دو تین میں،پھر مجھے بتا دو۔باقی پھر میں تمہیںتفصیل سے کل بتا دوں گا۔“


”ٹھیک ہے۔“اس نے حتمی انداز میںکہا ۔پھر چند الواداعی باتوں کے بعد زین نے فون بند کر دیا۔وہ پرسکون ہو کر بیٹھ گیا۔رخسار نے تو رام داس کی باتیں سن کر حالات کے رخ کا اندازہ کر لیا تھا ۔وہ تو بہت پہلے کر چکا تھا۔اس کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔اس نے سوچ لیا تھا کہ اب اس نے کیا کرنا ہے۔اس نے سکون کے ساتھ ٹیک لگائی اور آنکھیں بند کرلیں۔


٭٭٭٭٭٭


ممبئی کے ساحلی علاقے کے اسی اپارٹمنٹ میں مان سنگھ اور میت کور آمنے سامنے بیڈ پر بیٹھے ہوئے تھے۔جہاں وہ پہلے بھی ایک بار مل چکے تھے ۔رات خاصی گہری ہو گئی ہوئی تھی۔ان دونوں کے چہرے پر گہری تشویش کے آثار واضح تھے ۔تبھی مان سنگھ نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا۔


”چل چھوڑیہ ساری فکر،تو کھانا لگا۔پھر بات کرتے ہیں۔“


”میری بھوک اُڑ گئی ہے۔میں تونہیں کھا سکتی،تم چاہو تو کھا لو۔“میت کور نے کافی حد تک غصے میں کہا تو مان سنگھ نے ہلکا سا قہقہ لگاتے ہوئے کہا۔


”یار،جو ہونا ہے نا،وہ ہو کر رہے گا،تم کیوں فکر کرتی ہو۔“


”وجے اور ساوتری اب رام داس کے آفس میں بیٹھنے لگے ہیں۔وہ رام داس ان سے دب گیا ہوا ہے۔یہ جو ویرو دادا پر حملہ ہوا ،یا اس سے پہلے جو بندے مرے ہیں۔یہ ساری اس وجے کی کارستانی ہے۔آج میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے کہ وہ تمہیں ،ستیش رائے اور گیت تینوں کے بارے میں کہہ رہا تھا کہ انہیں دیکھیں،ان میں سے کوئی ایک غدار ہے۔“ اس نے فکر مندی سے کہا۔


”تمہیں کیا لگتا ہے ،وہ کیا کر یں گے؟“مان سنگھ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔


”ہائے مان،تم اتنا بھی نہیں سمجھ سکتے ،یہ بات تو ایک بچہ بھی سمجھ جائے گا کہ تم تینوں کو چیک کریں گے۔وہ دو تو نہیں ہیں۔باقی تیسرا۔۔“میت نے کہنا چاہا لیکن مان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔


”اب وہ مجھ تک نہیں پہنچ سکتے میت۔یہ میں تمہیں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔تم نے صرف یہ کرنا ہے کہ محض چار دن ،گنتی کے چار دن اب آفس میں کام کرنا ہے،پھر اس کے بعد سیدھا امر تسر آ جاناہے۔پانچویں دن ہماری ملاقات ہر مندر صاحب میں ہونی چاہیے۔میں وہیں تمہارا انتظار کروں گا۔“


”یہ تم اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتے ہو۔“وہ ایک دم سے بولی


”اس لیے کہ میں ایک کمپیوٹر ہیکر بھی ہوں۔میں نے اب تک یہی سمجھا تھا کہ وجے یا ساوتری ہی وہ دوسرا بندہ ہے جو ہمارے سافٹ وئیر میں خاموشی سے ہمیں دیکھ رہا ہے۔اگر ایسا ہوتا وہ اب تک مجھے پکڑ چکے ہوتے ، وہ جو کوئی بھی ہے باہر سے ہے۔اگر اندر سے بھی ہوتا تو اب تک میں دھر لیا جاتا۔اگرچہ میرے ذہن میں ایک سوال ہے کہ رام داس اور وجے کے پیچھے کون ہے۔کیونکہ رام داس خود ہی سب کچھ کر رہا ہوتا تو وجے لوگوںکو اپنے ماتحت رکھتا،نہ کہ ان سے دب جاتا،کہانی کچھ اور ہے میت،اب ہمیں زیادہ لالچ نہیں کرنا چاہئے۔میں نے ان چار دنوں میں صرف دولت ٹھکانے لگانی ہے۔“


”کیسے کروگے یہ سب۔۔۔۔؟“میت نے حیرت سے پوچھا۔


”یہ میرا مسئلہ ہے میت،جیسا میں نے کہا ہے۔ویسا کرنا اور فوراً ممبئی چھوڑ دینا۔ان کے کیا ارادے ہیں،ہمیں ان سے کوئی غرض نہیں،میری چھٹی حس بتا رہی ہے کہ وہ کوئی اور سافٹ وئیر انجینئر تلاش کر چکے ہوں گے۔“


”یہ سب تمہارے اندازے ہیں،لیکن ایک بات ٹھیک ہے کہ اب ہمیں زیادہ لالچ نہیں کرنا چاہئے۔ان کے پیچھے کون ہے،کون نہیں،اس سے ہمیں واقعی کوئی غرض نہیں ہونی چاہے۔مگر یہ جو ویرو دادا ہے ۔اس نے بھی تو اب تک کچھ نہیں کیا؟“


”اسے میں نے خود روکا ہوا ہے۔رام داس کا سیل نمبر ہی دیا ہے اور اس کی راہ پر لگایا،اسے خود نہیں معلوم کہ وہ کون ہے۔کہاں رہتا ہے،جس دن میں نے اس کی بابت بتا دیا وہ ان تک پہنچ جائے گا۔ مگر میں اپنے محسن کے بارے میں نہیں بتاﺅں گا۔ ایسا تو میں نے انہیں بل سے نکالنے کے لئے کیا، اور وہ نکل آئے ۔ ایسے بھی اب چند دن تو وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا،ہسپتال میں پڑا ہے۔اسے چلنے پھرنے میں ایک ہفتے سے زیادہ لگے گا۔“


”رام داس تمہارا محسن ہے۔اگر انجانے میں اس نے نقصان پہنچا دیا تو؟“میت کور نے پوچھا۔


”وہی تو،اسی لیے میں نے ویر ودادا کو چکر دیا ہوا ہے۔تم نہیں دیکھا،خوف کی ہلکی سی لہر نے وجے اور ساوتری کو نکال باہر کیا ہے۔اب ان کے پیچھے ۔۔۔خیر۔اب وہ ویرو دادا ایک بے کار گھوڑا ہے۔ان چار دنوں میں وہ ہمارے کام آنے والا نہیںاور اس کے بعد ہمیں کسی کی بھی ضرورت نہیں۔“مان سنگھ کہتے کہتے ایک دم سے خاموش ہو گیا۔


”مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی مان۔تم افراتفری پیدا کر کے بنکوں سے دولت نکالنا چاہتے تھے۔لیکن اب تو بالکل سکون ہے۔ان چار دنوں میںکیا کرو گے۔“میت نے الجھتے ہوئے پوچھا۔


”وجے نے انہی دنوں میں سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لینا ہے۔تم نے نہیں بتایا کہ اس نے آفس کے نئے سرے سے ترتیب دینا شروع کر دیا ہے۔خیر،تم چھوڑوان باتوں کو کھانا گرم کرو۔صبح ہونے میں چند گھنٹے باقی ہیں۔تم نے اپنے گھر سے تیار ہو کر آفس جانا ہے۔دل تو نہیں کرتا کہ میں تمہیں جانے دوں۔مگر مجبوری ہے ،یہ چار دن آفس میں لگاﺅ ،تا کہ کسی کو شک نہ ہو۔ہاں یہ جو ایک دو گھنٹے ہیں۔ساری فکر چھوڑو اور صرف میری ہو کر میرے ساتھ رہو۔۔“


”اوکے۔!میت ایک دم سے مان گئی۔پھر جلدی سے اٹھی اور کچن کی طرف بڑھ گئی۔اور مان سنگھ سوچوں میں کھو گیا۔


ممبئی کے موسم کا اعتبار نہیں ہوتا اور خاص طور پر برسات کے دنوں میں،بارش کب ہونی ہے اور کب ختم ہو جانی ہے،اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتاتھا۔آسمان پر سرمئی بادل چھائے ہوئے تھے۔بڑی زور سے بارش برس کر ختم ہو چکی تھی۔جس وقت رام داس آفس میں آیا۔وہ کافی حد تک خوشگوار تھاحالانکہ ایسے خراب موسم میں اچھے بھلے بندے کا موڈ خراب ہو جاتاہے۔اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا بیگ ملازم کو تھمایا اور اپنے آفس میں چلا گیا۔وجے اور ساوتری کی کال ا ٓ چکی تھی کہ وہ نہیں آ رہے ہیں۔میت کورنے اپنے معمول کا کام ترتیب دیا اور اٹھ کر رام داس کے آفس کی جانب جانے لگی تو اچانک باہر زبردست فائرنگ ہوئی اور اس کے ساتھ ہی کئی چیخیں بلند ہوئیں۔بلاشبہ یہ انہی کے سیکورٹی گارڈ کی چیخیں تھیں۔لمحہ بھر بعد اندر سے بھی فائرنگ ہونے لگی۔رام داس ہونقوں کی طرح نکلا اور ہال میں آ گیا جہاں دوسرے ملازمین خوف و ہراس میں سمٹے ہوئے کھڑے تھے۔میت حیران تھی کہ یہ حملہ کیسے ہوگیا؟ابھی چند گھنٹے پہلے مان سنگھ نے بتایا تھا کہ ویرو دادا ہسپتال میں پڑا ہے۔اور ہلنے کے قابل نہیں ہے۔تو پھر یہ کون ؟وہ یہ بات اچھی طرح سوچ بھی نہیں سکی تھی کہ چند سیاہ پوش نوجوان سے لڑکے اندر آگئے۔ان میں سے ایک آگے بڑھا اورغور سے ان لوگوں کو دیکھا۔پھر رام داس کی طرف د دیکھ کر بولا۔


”کب تک چھپے رہو گے رام داس،آخر میں نے تمہیں تلاش کر ہی لیا۔ اب مرنے کے لیے تیار ہو جاﺅ۔“


”کون ہو تم۔“رام داس نے اگرچہ کڑک لہجے میں کہا مگر خوف اس کے لہجے سے عیاں تھا۔


”وہی،جو چند دن سے تمہیں تلاش کر رہا تھا۔ویرو دادا۔۔۔تمہارا کھیل ختم ہوا۔“یہ کہتے ہی اس نے برسٹ مارا،جس کے ساتھ ہی کئی چیخیں بلند ہو گئیں۔ان میں رام داس کی چیخ سب سے بلند تھی۔میت کور چونکہ اس کے قریب کھڑی ہوئی تھی۔دو گولیاں اس کے بھی لگیں۔اسے لگا جیسے انگارے اس کے جسم میں بھر دیئے گئے ہوں۔درد اورجلن کی ناقابل برداشت لہر اٹھی جس نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔خوف سے تو وہ پہلے ہی بے حال تھی۔اس لیے چکرائی اور فرش پر گرتے ہی بے ہوش ہو گئی۔اس سے یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ رام داس آخری ہچکی لے کر اس دنیا کو چھوڑ چکا ہے۔اور حملہ آور اپنا کام کر کے جا چکے ہیں۔


٭٭٭٭٭٭


زین اپنے آفس میں تنہا بیٹھا بڑے دکھ اور تشویش سے لیپ ٹاپ پر نگاہیں جمائے بیٹھا تھا۔کسی ساوتری نامی خاتون کی طرف سے رام داس کے مر جانے اور پھر آخری رسومات بارے پیغامات آ رہے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ بزنس گروپ کو یہ پیغام بھی دے رہی تھی کہ آپ سب اس کی آخری رسومات پر آئیں۔اس کے بعد رام داس کے کام کو آگے بڑھانے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔میں آپ لوگوں کے لیے سارے انتظامات کر رہی ہوں اور وقتاً فوقتاً بتاتی رہوں گی۔زین نے فوراً ممبئی کا مخصوص ٹی وی لگایا،جس پر اس دہشت گرد واردات کی رپورٹ دکھائی جا رہی تھی۔رام داس کی نعش ،اور ہسپتال میں زخمی دکھائے جا رہے تھے۔وہ کچھ دیر تک یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔پھر کرسی سے ٹیک لگا کر آنکھیں بند کر لیں۔اسے یوں لگا جیسے سب کچھ ختم ہو جانے والا ہے۔


”خیریت تو ہے زین،طبعیت تو ٹھیک ہے نا تمہاری۔“رخسار کی آواز پر وہ چونک گیا۔پھر ایک زخمی سی مسکراہٹ کے ساتھ لیپ ٹاپ کا رخ اس کی طرف کر دیا۔اس نے جلدی سے بڑے غور سے چند لمحے دیکھا اور پھر افسوس ناک انداز میں بولی۔”اوہ۔!“


”برا ہوا رام داس کے ساتھ،نجانے کیوں مجھے احساس تھا کہ اس کی یہ تحریک سرے نہیں چڑھے گی۔اس نے ان قوتوں کو للکار دیا تھا،جس نے آکٹوپس کی طرح اس معاشرے کو جکڑا ہوا ہے۔اس کے ساتھ یہی ہونا تھا۔“وہ افسوس بھر ے لہجے میں بولی۔


”وہ تو ہونا تھا،جو ہو گیا،کیا تم اس کی آخری رسومات میں جا رہے ہو؟“ رخسار نے پوچھا۔


”جانا تو چاہئے۔لیکن مجھے نہیں امید کہ وہاں اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے کوئی حتمی بات ہو پائے گی۔“ وہ بولا۔


”نہیں ،تمہیں جانا چاہئے۔“اس نے حتمی انداز میں کہا تو زین نے بھی فیصلہ کن انداز میں کہا۔


”اوکے ۔!میں جاﺅں گا۔“


”تو پھر چلیں گھر۔تمہیں تیاری کے لیے بھی کچھ وقت چاہئے ہو گا۔میں مینجر سے کہہ دوں کہ وہ تمہارے جانے کا بندو بست کرے۔“اس نے کہا اور باہر نکل گئی۔تبھی زین نے لیپ ٹاپ اسکرین پر نگاہ ڈالی تو وہاں کچھ نہیں تھا۔وہ سائٹ بالکل بے حس و حرکت تھی۔ورنہ ہر لمحہ آنے والے پیغامات آگے چلتے رہتے ۔اس نے سائٹ کو آگے پیچھے کر کے دیکھا ، سب درست تھا۔اسے یوں لگ رہا تھا کہ جیسے وہ سائٹ بند ہو گئی ہو۔وہ ابھی اسی بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے سیل فون کی اسکرین جگمگانے لگی۔اس نے بے دلی سے کال ریسو کی ۔ وہ یو آن تھی۔وہ بہت مشکل سے بول رہی تھی۔


”ارے رنگین تتلی ۔!کیسی ہو؟“


”میں ٹھیک نہیں ہوں۔پتہ نہیں میری زندگی کے چند گھنٹے ہیں یا نہیں ۔ میں یہ سمجھتی ہوں کہ تم رام داس کی آخری رسومات میں جانا چاہتے ہو گے ۔لیکن میں چاہتی ہوں کہ تم میرے پاس آ جاﺅ۔“


”کیا ہوا یو آن۔!اتنی مایوسی کی باتیں کیوں کر رہی ہو؟ میں اس کی رسومات سے فارغ۔۔۔“‘


”زین،چند گھنٹے،آجاﺅ۔“یو آن نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔


”اوکے رنگین تتلی ،میں آ رہا ہوں۔“زین نے کہا اور فون بند کر دیا۔پھر اپنے مخصوص ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے یہ کہہ دیا کہ مجھے فوری طور پر تھائی لینڈ کے لیے چارٹرڈ طیارہ چاہیے۔وہ سوچ رہا تھا کہ یو آن کو ایسی کیا ضرورت آن پڑی ہے کہ وہ اسے بلا رہی ہے۔کبھی کبھار باتیں کرلینا یا پھر اگر کوئی عام بات ہوتی تو کہہ دیتی،کوئی خاص بات ہے جو وہ یوں بلا رہی ہے۔کیا یہ کوئی جال تو نہیں؟یہ اچانک سائٹ کا بند ہو جانا،اور پھر اس کے فوراً بعد یو آن کا فون آ جانا۔۔مجھے جانا بھی چاہیے یا نہیں۔۔۔وہ فیصلہ نہیں کر پا رہاتھا کہ کیا کرے۔انہی لمحات میں اس نے فیصلہ کر لیا اگر ممبئی جانے کے ساتھ وہ پتایا سے بھی ہو لے تو کوئی مضائقہ نہیں۔یہ طے کرتے ہی اس نے اپنے ذرائع سے کہہ دیا کہ اس نے کس طرح سفر کرنا ہے۔


شام ہو رہی تھی جب وہ بنکاک ائیرپورٹ پر اپنے چارٹرڈ طیارے میں اترا۔کورل آئی لینڈ کے لیے ہیلی کاپٹر کا بندوبست تھا۔اسے اچھی طرح یاد تھا کہ دوسری میٹنگ میں رام داس ہیلی کاپٹر سے ہی وہاں پہنچا تھا۔اس نے اپنے آنے کی اطلاع یو آن کو دینے کے لیے فون کیاتو دوسری جانب اس کی آواز بڑی نجیف آواز سنائی دی۔


”ینگ بوائے۔!میں پتایا ہسپتال میں ہوں۔جلدی پہنچنے کی کوشش کرو۔“


”کیا تم کورل آئی لینڈ نہیں ہو؟“زین نے پوچھا تو یو آن نے بتایا کہ وہ کس ہسپتال میں ہے اور وہ اس تک کیسے پہنچ سکتا ہے۔اس نے متعلقہ حکام کو نئی صورت حال کے بارے میں بتایا۔پھر کچھ ہی دیر بعد وہ پرواز کر گئے۔پتایا پہنچتے ہی اسے ایک تیز رفتار گاڑی ہسپتال لے گئی۔جہاں تھوڑی ہی دیر بعد وہ یوآن کے پاس تھا۔وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔اس کا رنگ پیلا ہو چکا تھا۔آنکھوں میں جیسے جان ہی نہیں تھی،مگر اسے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں اُمید کی کرن لہرائی۔وہ اس کے پاس بیٹھتا ہوا بولا ۔ اس دوران قریب کھڑی لڑکیاں باہر چلی گئیں۔


”رنگین تتلی۔!تمہیں کیا ہو گیا؟“


”ینگ بوائے۔!میرے پاس وقت اس لیے کم ہے کہ میرے دل کا آپریشن ہونے جا رہا ہے۔میرے بچ جانے کے بہت کم چانس ہیں۔یہ میں اچھی طرح جانتی ہوں۔میںنے تمہارے انتظار میں اتنا وقت لیا ہے ڈاکٹرز سے۔اب سنو،میں نے تمہیں کیوں بلایا؟“


”ایسی کیا بات ہے یوآن؟“زین نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہوئے پوچھا۔جو سرد ہورہے تھے۔


”میری رام داس سے بہت پرانی دوستی ہے۔جب ہم دونوں نوجوان تھے۔وہ بہت دنوں سے ڈسٹرب تھا۔اسے یقین ہو رہا تھا کہ اسے قتل کر دیا جائے گا۔ایک ہفتہ پہلے وہ یہاں آیا تھا اور اس نے مجھے اس سارے کھیل کا اصل مقصد بتایا دیا تھا۔“


”کیا مقصد ہے؟“ زین نے تیزی سے پوچھا۔


”وہ بھی بتا دیتی ہوں،مگر ایک وعدہ کرو میرے ساتھ۔“


”بولو،میں وعدہ کرتا ہوں۔“


”مان سنگھ بھارت میں پھنس گیا ہوا ہے۔رام داس کے قاتل اسے بھی قتل کر دیں گے۔تم اسے کسی طرح بچا لو۔“


”مان سنگھ ۔۔کیسے۔۔۔۔خیر ،اس سے رابطہ ہے۔“


”ہاں ہے۔میں شاید نہ رہوں لیکن اگر تم مان سنگھ کر بچالو ،تو وہ رقم جو رام داس نے کچھ دن پہلے فلاحی تنظیم کے لیے اکھٹی کی ہے،وہ تمہیں مل سکتی ہے۔چاہو تو کچھ مان سنگھ کو بھی دے دینا کیونکہ رام داس کو اس کی بڑی فکر تھی۔“


”یو آن۔!میں اس لالچ کے بغیر بھی اسے بچا لوں گا۔اس کا رابطہ دو۔۔“


”میرے سرہانے ایک لفافہ پڑاہے۔اس میں بہت سارے شواہد ہیں۔ مان سنگھ کا رابطہ نمبر ہے اور وہ سارے کوڈ جس سے تم وہ رقم اپنے اکاﺅنٹ میں ٹرانسفر کر سکتے ہو۔“یو آن نے بتایا تو زین نے وہ سفید رنگ کا لفافہ نکالا،وہ کھلا ہوا تھا،اس نے جلدی سے مان سنگھ کا نمبر دیکھا اور پھر یو آن کے فون ہی سے رابطہ کیا۔


”یو آن۔!کیا زین پہنچ گیا؟“


”میں زین ہی بات کر رہا ہوں۔تم کہاں ہو۔تمہارے نکلنے کا راستہ۔۔۔“


”میں ممبئی میں ہوں۔میں یہاں سے نکل بھی سکتا ہوں۔لیکن میت کور ہسپتال میں ہے۔میں اس کے بغیر نہیں جا سکتا۔پلیز ۔!تم آ جاﺅ،اور کسی طرح میت کور کو اپنے ساتھ لے جاﺅ،میں پہنچ جاﺅں گا۔سائیٹ بند ہونے کی بعد وہ کتوں کی طرح مجھے تلاش کر رہے ہیں۔“


”لیکن رام داس کاقتل کیسے ہوا؟“


”یہی تو معلوم کرنا ہے۔میں انہیں چھوڑوں گا نہیں،کل صبح رام داس کی آخری رسومات ہیں۔باقی تم خود سمجھ دار ہو۔“مان سنگھ نے کہا تو زین نے چند الوداعی جملوں کے بعد فون بند کر دیا۔یو آن کی آنکھیں بند تھیں۔ تبھی زین نے اسے پکارا۔


”اے رنگین تتلی۔!آنکھیں کھولو۔“


”گڈ بائے ینگ بوائے۔!اگر کوئی سانس باقی ہوئی تو ملاقات ہو جائے گی،ورنہ ہمیشہ کے لیے الوداع۔۔۔اب تم جاﺅ۔“یہ کہہ کر یو آن نے آنکھیں بند کر لیں۔زین کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے کمرے سے چلی جانے والی لڑکیاں اندر آ گئیں۔ان کے پیچھے ہی نرسیں تھیں۔ انہوں نے اس کے سامنے سٹریچر پر یو آن کو ڈالا اور باہر چل دیں۔زین نے لفافے کو دیکھا اور ہسپتال سے نکلتا چلا گیا۔اسے ممبئی پہنچنا تھا۔


ممبئی کے علاقے وارا ناسی میں موجود مانی کا نیکا شمشان گھاٹ تھا جو دریائے گنگا کے کنارے قدیم زمانے سے موجود تھا۔دلت پروفیسر رام داس کی آخری رسومات وہیں ادا ہوناتھیں۔زین رات کے دوسرے پہر وارا ناسی میں ایک شاندار ہوٹل میں آ چکا تھا۔جہاں ستیش رائے اور گیت چنینائی سمیت سبھی ایک ہال نما کانفرس روم میں موجود تھے۔سب کے ذہنوں میںیہی سوال تھا کہ میت کور تو زخمی حالت میں ہسپتال میں پڑی ہے۔لیکن مان سنگھ کہاں ہے؟اچانک سائیٹ کیوں بند ہو گئی؟رام داس کا قتل کس نے کیا؟اور اب ہمارا مستقبل کیا ہو گا؟یہ ساوتری کون ہے؟کیا اس پر اعتماد کیا جا سکتاہے؟ وہ سب انہی سوالوں پر بحث کرتے چلے جا رہے تھے لیکن زین کچھ اور ہی سوچ رہاتھا۔اس نے یو آن کے دیئے ہوئے لفافے میں موجود ایک تحریر میں وہ سارا پلان پڑھ لیا تھا جو رام داس نے کسی شیو پرشاد کے ساتھ بنایا تھا۔بہت ممکن تھا کہ وہ شیوپرشاد بھی رام داس کی آخری رسومات میں شامل ہو۔اس کی سب سے پہلی خواہش یہی تھی کہ وہ میت کور سے ملے۔مگر یہ سب لوگ کچھ اور ہی باتوں میں الجھے ہوئے تھے۔


”میرے خیال میں اگر آخری رسومات میں شامل ہونے سے پہلے میت کور سے مل لیں تو شاید کوئی کام کی بات معلوم ہو جائے۔کیونکہ وہ رام داس کے بہت قریب رہی ہے۔کیونکہ رسومات کے بعد ساوتری نے ایک طویل ملاقات رکھی ہے۔جس میں آئندہ کے لیے بات ہو گی۔یہاں ہم جتنی بھی بات کریں گے،اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔“زین نے انہیں رائے دی تو کچھ دیر بعد سبھی نے اس سے اتفاق کرلیا۔اور پھر کچھ دیر بعد سب اس ہسپتال کی جانب ایک قافلہ کی صورت چل دیئے۔وہ ایسا وقت تھا جب سڑک پر اتنی زیادہ ٹریفک نہیں تھی۔تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ ہسپتال میں جا پہنچے،جہاں میت کور زیر علاج تھی۔سب سے آخر میں زین اس کے پاس گیا۔میت کارنگ زرد تھا اور آنکھیں سوجی ہوئیں تھیں۔


”میں تمہارے بارے میں نہیں پوچھوں گا۔کیا تمہارے پاس سیل فون ہے؟‘اس نے عام سے لہجے میں کہا۔


”ہاں ہے ،مگر کیوں۔“وہ حیرت سے بولی۔


”یہ مان سنگھ کا نمبر ہے،اس پر بات کرنا،اور اپنا نمبر مجھے دو،پھر میں جو کہوں وہی کرنا ،تم اپنے آپ کو ذہنی طو پر تیار رکھو کہ آج دوپہر سے پہلے کسی وقت یہاں سے نکلنا ہے۔“زین نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔


”زین۔۔تم۔۔۔“وہ ششدر ہوتے ہوئے بولی۔


”وقت بہت کم ہے۔زیادہ سوال مت کرو،میں تمہیں کال کر لوں گا۔“ا س نے اسے سمجھاتے ہوئے کہااور کافی سارے مقامی کرنسی کے نوٹ اسے تھما دئیے۔


”یہاں مجھ پر سیکورٹی بہت ہے،پتہ نہیں میں یہاں سے نکل بھی سکتی ہوں کہ نہیں،مگرمیں پوری کوشش کروں گی۔“میت کور نے پر جوش لہجے میں کہا۔اور پھر ایک کاغذ پر اپنا نمبر گھسیٹ دیا۔زین نے مزید کوئی بات نہیں کی اور باہر آ گیا۔واپسی پر ان سب کا خیال تھا کہ میت کور کچھ بھی نہیں جانتی۔انہیں مایوسی ہوئی تھی۔اس سب کا خیال یہی تھا کہ ساوتری سے ملاقات کے بعد ہی طے کر لیں کے کہ آگے کیا کرنا ہے۔ان کا رخ اسی ہوٹل کی طرف تھا۔


جمنا کے کنارے اس شمشان گھاٹ پر انسانی گوشت کے جلنے کی چراند پھیلی ہوئی تھی۔کچھ دیر پہلے بارش ہوئی تھی۔وہ سب لوگ اکھٹے ہی وہاں پہنچے تھے جہاں ساوتری ان کے استقبال کے لیے موجود تھی۔اس نے سفید رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی۔کھلے بال یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے بھیگے ہوئے ہوں۔میک اپ سے بے نیاز چہرہ، انتہائی مختصر بلاوز،جس کی پشت پر محض دو تنیاں ہی تھیں اور اس سے ساوتری کا سانولا بدن واضح ہو رہا تھا۔وہ ادھیڑ عمری میں بھی نوجوان لڑکیوں کے جیسا بدن رکھتی تھی۔وہ انہیں لیتی ہوئی اس جگہ پہنچ گئی جہاں کچھ فاصلے پر رام داس کی ارتھی لے آئی گئی تھی۔زین ان سب سے پیچھے تھا۔اس نے ہسپتال سے آنے کے بعد سب سے پہلا کام یہی کیا تھا کہ ایک ویٹر کو بھاری رقم دے کر مقامی نیٹ ورک کا ایک سیل فون منگوالیا تھا۔اس نے دیکھا کہ رام داس کی ارتھی پر ایک پنڈت آ گیا تھا۔رسومات شروع ہو چکی تھیں۔انہی لمحوں میں اس نے میت کور کو کال کر دی۔اس نے فوراً پک کرتے ہوئے کہا۔


”میں ہسپتال سے نکل رہی ہوں۔اگر پکڑی بھی گئی تو یہی بہانہ بناﺅں گی میں رام داس کی آخری رسومات میں شامل ہونے سے خود کو نہیں روک پائی۔“


”اوکے۔!باہر نکل کر ٹیکسی میں بیٹھو اور مجھے کال کرو۔“یہ کہتے ہوئے ا س نے فون بند کر دیا۔سامنے ایک لڑکا کاندھے پر مٹکا اٹھائے لکڑیوں پر پڑی ارتھی کے اردگرد چکر لگا رہا تھا۔جس وقت اس نے چتا کو آگ دکھائی اسی لمحے میت کور کا فون آ گیا۔


”میں وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئی ہوں۔میں نے مان سنگھ کر بھی فون کر دیا ہے۔اب بتاﺅ۔“


”تم دونوں جتنی جلدی ہوسکے یہاں ممبئی سے نکل چلو۔“


”ٹھیک ہے،مان ایک جگہ میرا منتظر ہے۔میں اس سے مل کر بتاتی ہوں۔“ا س نے کہا تو زین نے فون بند کر دیا۔


چتا میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔وہ وہاں کچھ دیر تک ٹھہرے رہے،پھر ساوتری نے اسے واپس پلٹنے کا اشارہ کیا تو وہ شمشان گھاٹ سے نکل آئے۔تبھی اس نے نمستے کے انداز میں ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔


”آپ سب لوگ ہوٹل پہنچیں۔ابھی کچھ دیر بعد ہماری ملاقات ہوتی ہے۔“


وہ سارا قافلہ ہوٹل کی جانب روانہ ہو گیا۔


لنچ کے بعد وہ پھر سارے اسی ہال نما کانفرس روم میں جمع ہو گئے۔اس بار ساوتری ہلکے پیازی رنگ کی ساڑھی پہنی ہوئی تھی تا ہم اس کا سانولا بدن ویسے ہی جھلک رہا تھا۔جبکہ زین کا میت کور کے ساتھ مسلسل رابطہ تھا۔وہ دونوں ایک جگہ مل چکے تھے اور وہیں سے مان سنگھ ایک فور وہیل جیپ کے ذریعے امر تسر کی طرف روانہ ہو گیا تھا۔اس وقت وہ ممبئی سے بہت دور جا چکے تھے۔اس کانفرس میں کچھ بھی طے نہیں ہو پایا۔سوالات کی بوچھاڑ تھی جس کا سامناساوتری نے کیا،تبھی آخر میں اسے یہی کہنا پڑا۔


”ایک ہفتے بعد ہم ایک نئی جگہ کا تعین کرکے وہاں ملتے ہیں۔تب تک ہم سارے معاملات طے کر لیں گے۔کل صبح ایک نیا سافٹ وئیر انجینئر اس سائیٹ کو چلائے گا۔ہم سب وہیں طے کرتے رہیںگے۔اس وقت ہمارے درمیان یقین اور اعتماد کی فضا بالکل نہیں ہے۔ہمیں سب سے پہلے اپنے درمیان یقین کی فضا پیدا کرنا ہو گی۔“


یہی اس کانفرنس کا اعلامیہ تھا۔وہ سب ہال سے نکلے اور اپنے اپنے ملک جانے کے لیے تیار ہو گئے۔


”زین ۔تمہارا کیا ارادہ ہے۔مجھے اپنے ساتھ پاکستان لے چلو گے۔“ انوچنائے نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔تو زین نے فوراً بہانہ بناتے ہوئے کہا۔


”چلو،لیکن میرا دل چاہتا ہے کہ میں آگرہ میںجا کر تاج محل دیکھوں،کیا تم پسند کرو گی۔“


”میں کئی بارجا چکی ہوںوہاں پر،چلو ٹھیک ہے۔اگلے ہفتے سہی،ہم نے دوبارہ تو ملنا ہی ہے۔“اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔


”لیکن اگر تم چاہو تو ہم یہ شام یہاں ممبئی میں اکھٹے رہ سکتے ہیں۔میں رات کی کسی فلائیٹ سے کراچی نکل جاﺅں گا۔“


”اور تاج محل ۔؟“ انو چنائے نے پوچھا۔


”پھر کبھی سہی،تمہارا ساتھ کسی تاج محل سے کم ہے۔“زین نے کہا تو ان کے پیچھے کھڑی گیت نے شوخ انداز میں کہا۔


”اور اگر تم دونوں چاہو تو یہ شام میرے گھر میں گذار سکتے ہو جو بالکل ساحل پر واقع ہے۔“


”اگر تم خلوص سے کہہ رہی ہو تو چلو۔۔۔“


”آﺅ۔!“گیت نے مسکراتے ہوئے اپنی گاڑی کی طرف اشارہ کیا اور وہ تینوں چل دیئے۔زین اس وقت تک بھارت میں رکنا چاہتا تھا،جب تک مان اور میت کور دونوں کسی محفوظ ٹھکانے پر نہیں پہنچ جاتے تھے۔اس کے لئے اسے تھوڑا وقت چاہئے تھا۔اس لیے اس نے گیت کی دعوت قبول کر لی،ورنہ وہ تاج محل کے بہانے دہلی جانا چاہتا تھا۔اسے لگا انو اور گیت کے ساتھ وقت اچھا گذرے گا۔


٭٭٭٭٭


”مان لو وجے کہ یہ سب تمہاری غلطی کی وجہ سے ہوا ہے۔ بنا بنایا کھیل تم نے بگاڑ کر رکھ دیا۔کیا ضرورت تھی ویرو دادا پر حملہ کرنے کی،اور اگر اس نے دھمکیاں دیں تھیں تو تم اتنے کمزور نکلے کہ رام داس کی حفاظت بھی نہیں کر سکے۔کوئی سیکورٹی نہیں ،وہ آئے اور مار کر چلے گئے۔“شیو پرشاد انتہائی غصے میں اپنے سامنے کھڑے وجے اور ساوتری پر برس رہا تھا۔رات کا پہلا پہر تھا اور وہ ہال میں موجود تھے۔تبھی وجے نے سر اٹھایا ،اپنی عینک درست کی اور زہریلے لہجے میں بولا۔


”رام داس کو ویرو دادا نے نہیں،میں نے مارا ہے۔میرے آدمیوں نے۔۔“


”تم نے۔۔۔؟“شیو پرشاد حیرت سے کھڑا ہو گیا ۔


”ہاں مہاراج،میں نے مارا ہے۔“اس نے زہریلی مسکراہٹ سے طنزیہ انداز میں کہا۔


”تو اس کا مطلب ہے ،تم غدار نکلے ہو۔۔میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جس سانپ کو میں پال رہا ہوں وہی مجھے ڈس لے گا،یہ ساوتری بھی تمہارے ساتھ ہے۔“


”ہاں۔!میرے ساتھ ہے،ضروری نہیں کہ رام داس ہی یہ کھیل کھیل سکتا ہے،وہ تو سب کچھ شیو پرشاد مہاراج کے لیے کر رہا تھا،لیکن اب میں خود اپنے لیے کروں گا۔۔۔اور اب اس میں شیو پرشاد بھی نہیں ہو گا۔“اس نے انتہائی سرد لہجے میں کہا اور اپنی صدری کی جیب سے ریوالور نکال لیا۔


”کیا مطلب۔!“شیو پرشاد نے حیرت خوف اور غصے کے ملے جلے انداز میں کہا۔


”مطلب،سیدھا سادھا ہے مہاراج،صرف تم ہی حکمرانی نہیں کر سکتے ۔مجھے بھی حکمرانی کرنا آتا ہے۔اور شاید میں ایسا نہ سوچتا اگر تمہاری تجوری میں سونا ،ہیرے اور جواہرات میں نہ دیکھ لیتا۔کھیل ویسا ہی رہے گا۔ لیکن اس میں شیو پرشاد کی جگہ وجے ہو گا۔“اس نے کہا اور قہقہ لگا دیا۔


”ایسا نہیں ہو سکتا۔۔کیالوگ تمہیں قبول کر لیں گے۔۔۔تم۔۔۔“وہ خوف زدہ لہجے میں بولا


”میں نے اس کا سارا بندوبست کر لیا ہے مہاراج۔۔آپ کے مرنے کے بعدسب کچھ میرا ہو گا۔یہ آپ نے بہت سارے کاغذات میں لکھ دیا ہوا ہے۔بس آپ کو مرنا ہے اور میں نے ہر شے کا مالک بن جانا ہے۔ آپ ہی نے کہا تھا کہ دولت کی زنجیر سے ذہین لوگوں کی صلاحیتوں کو باندھا جا سکتا ہے۔میںبھی کر سکتا ہوں۔جس دن سے رام داس کے ساتھ تم نے منصوبہ بنایا تھا،میں نے اسی دن سے سوچ لیا تھا کہ جب میدان سج جائے گا ،میں اسے اپنے قابو میں کر لوں گا۔اب وہ وقت آ گیا ہے۔“اس کے لہجے سے زہر ٹپک رہا تھا۔


”تو پھر دیر کس بات کی ہے وجے۔“ساوتری نے طنزیہ انداز میں کہا تو وجے نے ریوالور سیدھا کیا اور یکے بعد دیگرے گولیاں مارتا چلا گیا۔شیو پرشاد بری طرح تڑپا۔اس کی آنکھوں میں خوف ناک حیرت جم گئی تھی۔ وہ چند لمحے سانس لیتا رہا۔پھر ایک جھٹکے کے ساتھ ساکت ہو گیا۔وجے کو جب شیو پرشاد کی موت کی تصدیق ہو گئی تو وہ تیزی سے باہر کی جانب مڑا اور کچھ دیر بعد ویرو دادا کو اندر لے آیا۔


” یہ کیا ہے؟“ وہ حیرت سے اندر کا منظر دیکھ رہا تھا۔


” تم نے پنڈت شیو پرشاد کو مار دیا ہے اور اس سے پہلے رام داس کو بھی۔۔“وجے نے انتہائی مضحکہ خیز انداز میں کہا


” مگر میں۔۔۔۔“


اور پھر یہ حیرت اس کی آنکھوں میں جم گئی ،ساوتری نے اس کی پشت پر گولیاں برسا دیں تھیں۔وہ چیخ بھی نہ سکا اور وہیں ساکت ہو گیا۔


سی سی کیمرے سے لی گئی فلم کے یہ سارے منظر مقامی پولیس ہیڈکوارٹر میں دیکھے گئے۔پولیس ڈیپارٹمنٹ کے اعلی آفیسرز نے یہ سب دیکھا اور اس کیس پر مامور انسپکٹر دیال پر سب کی نگاہیں اٹھ گئیں۔


”وجے اور ساوتری میرے قبضے میں ہیں اور وہ یہ اقرار کر چکے ہیں کہ انہوں نے شیوپرشاد کا قتل کیا۔کیونکہ یہ فلم میں نے انہیں بھی دکھا دی تھی۔شیو پرشاد نے ایک بہت اچھا کام یہ کیا تھا کہ اپنے محل نما گھر میں ایسے ہی کئی خفیہ کیمرے نصب کروایا دئیے تھے۔ان کیمروں کو شیو پرشاد نے خفیہ ہی رکھا تھا ۔جس سے ہمارا کام آسان ہو گیا۔“


”ان لوگوں کا کیا کیا ہے جو کل رام داس کی آخری رسومات میں شامل تھے،کیا وہ اپنے اپنے ملک چلے گئے ہیں۔یایہیں ممبئی میں موجود ہیں۔“ ایک آفیسر نے پوچھا۔


”تقریباًسبھی لوگ چلے گئے ہیں۔تاہم ستیش اور گیت ہمارے رابطے میں ہیں ۔اگر کوئی جرم ثابت ہوا تو ان سے رابطہ کریں گے۔“


”ان میں دو لوگ آپ نظر انداز کر رہے ہیں۔مان سنگھ اورمیت کور۔۔۔ان کا کوئی سراغ ملا؟“دوسرے آفیسر نے پوچھا۔


”تا حال ان کا کوئی سراغ نہیں ملا،ان کے لیے ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔اب یہ تفتیش بہت بڑے پیمانے پر ہو گی۔“انسپکٹر دیال نے کہا۔


”لیکن بہت جلدی۔۔یہی دو لوگ بہت اہم ہیں۔“آفیسر نے زور دیتے ہوئے کہا


”جی،میں جانتا ہوں۔اور فوری طور پران تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں۔“ انسپکٹر نے کہا اور وہ آفیسر اٹھ گیا۔اس کے ساتھ ہی وہ میٹنگ ختم ہو گئی۔


٭٭٭٭٭


مان سنگھ درمیانی شب کے بعد اگلی صبح کے قریب امر تسر اپنے دوست ہرنام سنگھ کے گھر پہنچا تھا۔اتنی طویل ڈرائیونگ اور اعصاب توڑ دینے والے خوف میں وہ ٹوٹ پھوٹ کر رہ گیا تھا۔میت کور کی حالت بہت خراب تھی،اس کے زخم ایک طرح سے تازہ ہو گئے تھے۔ہر نام سنگھ خود ڈاکٹر تھا۔اس نے میت کور کو سنبھال لیا تھا۔وہ دونوں کچھ کھائے پیئے بغیر سو گئے تھے۔مگر صبح ہی صبح ہرنام سنگھ نے انہیں جگا دیا۔


”اوئے۔!یہ اخبار دیکھ،وہ تمہارا رام داس کا قاتل تو کوئی او ر ہی نکلا یہ دیکھ اس نے کیا کیا ہے؟“


اس نے اخبار پکڑا اور نیند بھری آنکھوں سے تفصیلات دیکھنا شروع کیں۔لیکن جیسے جیسے وہ پڑھتا گیا ۔اس کی نیند اڑتی گئی۔


”مجھے یہی شک تھااور یو آن اس لیے پورے یقین سے کہہ رہی تھی ۔“اس نے اخبار ایک طرف رکھتے ہوئے کہا۔


”اب تمہارے لیے بھی تو خطرہ ہے یا پھر۔۔۔“ہرنام نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔


”خطرہ ہے یا نہیں،مجھے یہاں سے نکلنا ہے۔تفتیش کے نام پر وہ مجھے حراست میں رکھ سکتے ہیں۔یہ اچھا ہوا کہ زین یہاں سے نکل گیا۔ورنہ وہ کبھی واپس نہ جا سکتا۔“ مان نے تشویش بھرے لہجے میں کہا۔


”تو ا ب کیا کرنا ہے؟میرے خیال میں جب تک میت کور پوری طرح ٹھیک نہیں ہو جاتی اس وقت تک میں تمہیں چھپا سکتا ہوں۔“ہرنام نے پر سکون لہجے میں کہا تو مان سنگھ نے بے چین ہوتے ہوئے کہا۔


”لیکن اگر میں نے آج ہی یہاں سے نکلنا ہو تو ۔۔ورنہ میںنے اب تک جو کمایا ہے وہ ضائع ہو جائے گا۔“


”وہ کیسے؟“اس نے پوچھا۔


”میرا ارادہ تھا کہ میں پتایا نکل جاﺅں گا۔اس لیے سارا سرمایہ یوآن کو بھیج دیا ۔کیونکہ رام داس نے بھی اپنا سارا کچھ وہیں شفٹ کر دیا تھا۔ہم دونوں میں طے تھا کہ وہاں جا کر میں رہوں گا اور پھر رام داس وہاں آ جائے گا۔لیکن مجھے بچانے کی خاطر یو آن نے سب کچھ داﺅ پر لگا دیا۔وہ تو نہیں رہی لیکن سب کچھ زین کے ہاتھ میں چلاگیا۔اب مجھے اس کے پاس جانا ہے ۔“مان سنگھ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔


”ٹھیک ہے ،میں یہاں ان لوگوں سے رابطہ کرتا ہوں جوسکھ یاتریوں کو باہر بھیجتے ہیں۔فوری طورپر تو انہی کے ذریعے بھیجا جا سکتا ہے۔“


”رقم کی پروا مت کرنا،چاہے جس طرح بھی ہو،کسی دوسرے نام سے یا جیسے بھی، یہاں سے نکالو،“مان سنگھ نے التجا کرنے والے انداز میںکہا تو ہرنام سنگھ سر ہلاتے ہوئے اٹھ کر چلا گیا۔


٭٭٭٭٭


اس وقت صبح روشن ہو چکی تھی جب وہ ائیرپورٹ سے بنگلے پہنچا۔اس نے بیڈ روم میں صوفے پر پھیلتے ہوئے سامنے کھڑے ملازم سے کہا۔


”تم ایسے کرو ،فوراً ناشتہ بناﺅ،اور دیکھو رخسار کہاں ہے۔اسے بھیجو۔“


”جی،وہ توکل کی یہاں نہیں ہے۔“


”کل کی،مطلب۔۔“اس نے کہا پھر اگلے ہی لمحے کہا۔”تم ناشتہ بناﺅ۔میں دیکھتا ہوں۔“


ملازم پلٹ گیا تو اس نے اپنا سیل فون نکالا اور رخسار کے نمبر پش کر دیئے۔کافی دیر بیل بجتی رہی۔تب وہ خمار آلود لہجے میںبولی۔


”اُو زین،تم آ گئے۔“


”مگر تم کہاں ہو۔اپنے والدین کے پاس۔۔۔؟“


”میں جہاں بھی ہوں زین ،وہیں خوش ہوں۔اب شاید تمہاری اور میری ملاقات نہ ہو پائے،سوری ،میں نے دو دن لگا کر تمہارے سارے اکاﺅنٹ خالی کر دیئے ہیں۔میری باقی زندگی کے لیے اتنی بڑی رقم کافی ہے۔“


”یہ کیا بکواس کر رہی ہو۔مذاق بند کرو اور آﺅ،بہت سارے کام ہیں۔“


”نہیں زین،میں اب بہت دور جا چکی ہوں۔اتنی دور کہ تم مجھ تک نہیں پہنچ سکتے۔میں جانتی ہوں کہ تمہارا بزنس کا سارا کھیل ختم ہو گیا ہے۔اب تم مزید دولت نہیں کما سکتے۔کیونکہ تمہاری دولت رام داس نے پہلے ہی واپس لے لی تھی،میرے لیے اب تم میں کوئی کشش نہیں،اب تک میں نے یہ سیل فون اس لیے رکھا تھا کہ تمہیں صورت حال سے آگاہ کر دوں تا کہ تم پریشان نہ رہو،اتنا تو حق ہے نا تمہارا ۔چند لمحوں بعد یہ نمبر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔مجھے تلاش کرنے کی کوشش مت کرنا،کیونکہ رات ہی میں نے شادی کر لی ہے اور میں آج کسی وقت لندن پرواز کر جاﺅں گی۔الوداع۔۔۔ہمیشہ کے لیے۔۔۔“رخسار نے کہا اور فون بند کر دیا۔زین چند لمحے سوچتا رہا۔پھر تیزی سے اٹھ کو اپنا لیپ ٹاپ اٹھایا ۔اس نے فوری طور پر اپنے اکاﺅنٹ دیکھے۔کسی میں کچھ بھی نہیں تھا۔زین نے طویل سانس لی اور صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔بے ساختہ اس کے منہ سے نکل گیا۔


”یا اللہ تیرا شکر ہے،ابھی میں


نے یو آن کا سرمایہ اپنے اکاﺅنٹ میں منتقل نہیں کیا تھا۔اس نے فوری طورپر وہ لفافہ نکالا۔اس میں سے کوڈ والا صفحہ سیدھا کیا اور کچھ دیر بعد اس کے اکاﺅنٹ میں وہ ساری رقم منتقل ہو چکی تھی جو پورے گروپ نے رام داس کو دی تھی۔پھر اس نے منصور علی ساغر کو فون کیا۔


”ارے منصور کہاں ہو بھئی؟“


”جی،اپنے گھر میں،تم آ گئے۔“


”ہاں،اور دوپہر کے کھانے پر تھوڑا اہتمام کر لینا،میں آ رہا ہوں۔“


”بہتر۔!“اس نے کہا تو زین سے فون بند کر دیا۔زین نے سب کچھ ایک طرف رکھا اور صوفے سے ٹیک لگا دی،دل میں نجانے کیوں خلش بن گئی تھی۔کاش رخسار اتنی جلد بازی نہ کرتی۔پتہ نہیں اس کی آمد اس کے لیے خوش قسمتی کا باعث تھی یا اس کا اس کی زندگی سے نکل جانا خوش قسمتی تھی۔لیکن یہ طے تھا کہ اس نے رخسار سے محبت کی تھی۔اب وہ چلی گئی تھی تو دکھ کی شدت اس کے من میں اتر گئی تھی۔رخسار نے اسے کنگال کر دیا تھا لیکن قسمت نے کئی گنا رقم اس کے مقدر میں کر دی تھی۔اسے اس جمع تفریق سے نہیں بلکہ وہ ایک اور جیت سے خود کو خوش قسمت تصور کر رہا تھا۔وہ تھی منصور علی ساغر کی بہن الماس جو اس کی بچپن کی محبت تھی۔اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ آج دوپہر وہ اسے مانگ لے گا۔اور وہ انکار نہیں کریں گے۔وہ ہر طرح سے جیت گیا تھا بس رخسار کی بے وفائی نے جو دل پر خراش لگائی تھی اس کے باعث کھر د ری جیت اس کی قسمت میں تھی۔اس نے ایک طویل سانس لی اور خود پر ہنس دیا۔

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *