Wednesday 30 August 2017

ہار

ہار

امجد جاوید
پہلی نگاہ میں وہ نِری انگریز لگتی تھی۔بوٹا
 قد،گوری سیند ورملی رنگت،سیاہ گھنیری پلکوں والی نیلی آنکھیں،گہری بھوری زلفوں میں کئی رنگوں کی لٹیں تھیں۔جس میں سیاہ ،بھورا اور بادامی رنگ نمایاں تھا۔گھنگھریالی زلفیں یوں دکھائی دے رہی تھیں کہ جیسے وہ شانہ سے نا آشنا ہوں اور ابھی ان میں سے پانی ٹپک پڑے گا۔بھرے بھرے سرخ گال جیسے پورا چہرہ بنا دینے کے بعد کچھ زائد مٹی سے گال بنائے گئے ہوں۔ستواں ناک ،جس میں ہلکی سی سونے کی تار تھی۔سرخ لب جس میں لکیریں واضح دکھائی دیتی تھیں۔لمبی گردن میں نجانے کتنی طرح کے الول جلول ہار پہنے ہوئے تھی۔موتیوں کے ،سونے کے ،پتھر کے ، لمبے اور چھوٹے ہار جو اس کے کھلے گریبان والی قمیض میں کچھ اندر تھے اور کچھ باہر۔ سیاہ پاکستانی لباس میں وہ حقیقت میں دمک رہی تھی۔اس کی لانبی مخروطی انگلیوں میں مختلف طرز کی انگوٹھیاں تھیں۔ویسی ہی جیسے گلے میں موجود مختلف طرز کے ہار۔وہ راحیلہ یاسر تھی۔پاکستان نژاد برطانوی لڑکی جس کا تقریباً ایک ماہ پہلے فون مجھے ملا تھا۔وہ مجھ سے ملنا چاہتی تھی۔وہ کون تھی،کس مقصد کے لیے ملنا چاہتی تھی۔میں نہیں جانتا تھا۔اس نے یونہی بتایا تھا کہ وہ چند ہفتوں میں پاکستان آ رہی ہے ۔یہاں آ کر وہ مجھے کال کرے گی،پھر طے شدہ مقام پر ملیں گے۔سومیں لاہور کے مہنگے ہوٹل میں اس کا مہمان بنا بیٹھا تھا۔میں اس کا جائزہ لے رہا تھا اور وہ میری طرف غور سے دیکھ رہی تھی۔
”میں سمجھتی تھی کہ آپ کوئی بوڑھے یا پھر ادھیڑ عمر کے بزرگ نما انسان ہوں گے ، اتنی تجربہ کاری تو وقت کے ساتھ آتی ہے نا۔جب کوئی پختہ کار ہو جائے تو عمر کھپ جاتی ہے۔مگر آپ تو اس کے برعکس نکلے۔مجھے بہت اچھا لگا آپ کو دیکھ کر،جوان ،بھر پور مرد اور بہترین شخصیت کے مالک۔۔۔“
”تعریف کرنے کا شکریہ۔۔۔۔“میںنے دھیمے لہجے میں کہا اور دل ہی دل میں اس کی رواں اور شستہ اردو سن کر تعریف کی۔
”بلاشبہ آپ کے دل میں ہو گا کہ میں آپ سے کیوں ملنا چاہتی ہوں۔اگر آپ اجازت دیں تو میں تھوڑا سا اس کا پس منظر بیان کردوں۔مگر اس سے پہلے کیا میں ویٹر کو آرڈر نہ کر دوں؟“اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے الجھے ہوئے انداز میں پوچھا۔
”جی بالکل۔“میں نے کہا اور اس نے ویٹر کو آرڈر کر دیا۔پھر روئے سخن میری طرف کر کے بولی۔
”میرے بابا کا تعلق لاہور ہی سے ہے لیکن وہ برطانیہ ہی میں مقیم ہیں اور وہیں سرجن ڈاکٹر ہیں۔ہم دو ہی بہن بھائی ہیں۔وہیں پیدا ہوئے ،پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ ہمارے بابا نے ہم سے کبھی کوئی مطالبہ نہیں کیا، سوائے اس کے ہم اردو بولیں،پڑھیں اور لکھیں۔سو ہم دونوں بہن بھائی اردو اہل زبان کی طرح بولتے ،پڑھتے اور لکھتے ہیں۔ظاہر ہے ہم نے جہاں اور بہت کچھ پڑھا ،وہاں ناول بھی بہت پڑھے۔تقریباًدو برس قبل ہم دوستوں نے ایک پروڈکشن ہاﺅ س بنایاہے جس میں فلم اور ٹی وی ڈرامے بنائے جائیں گے ۔ ہم برصغیر کے اردو لکھاریوں سے کہانیاں لے رہے ہیں۔اس کے بعد ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ کس کہانی پر فلم بنائیں اور کس پر ٹی وی ڈرامہ اور کس ملک کے لیے۔خیر ۔!میں آپ کے سارے ناول پڑھ چکی ہوں۔میں آپ سے کہانی خریدنے کے لیے آپ کے پاس آئی ہوں۔اب آپ کے سامنے ہوں۔“اس نے مسکراتے ہوئے تمہید کے ساتھ ملاقات کا مقصد بھی بیان کر دیا۔
”آپ کیسی کہانیاں چاہ رہی ہیں۔“میں آہستگی سے پوچھا۔ 
”ایسی منفرد کہانیاں جو ایک دم سے چونکا دیں۔محبت بھری رومانی کہانیاں ،جن میں نیا پن ہو۔انسانی رویوں کے نئے پہلو جن میں بیان ہوں۔“اس نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
”دیکھیں یہ کسی بھی لکھاری کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے ۔ہو سکتا ہے جو آپ کو نیا پن لگے ،وہ نہ لکھاری کے لیے نیا ہو اور نہ ہی ناظرین کے لیے۔اسی طرح لکھاری جیسے منفردکہہ رہا ہو وہ آپ کے نزدیک منفرد نہ ہو۔نیا انسانی رویہ آپ کے لیے کچھ اور میرے نزدیک کچھ دوسرا ہو سکتا ہے۔عالمی سطح کی کوئی تحریر یکساں حیثیت نہیں رکھتی۔“میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا جو اپنی روشن آنکھیں مجھ پر گاڑے ہوئے تھی۔میری بات ختم ہوتے ہی وہ حرکت میں آئی اور تیزی سے بولی۔
”لیکن پھر بھی کوئی چیز۔جس میں انفرادیت ہو۔۔میرے پاس اپنا ذاتی معیار ہے۔جیسے میں بیان نہیں کر سکتی۔میں اسی معیار کی کہانیوں کی تلاش میں ہوں۔آپ ،نامور اور کہنہ مشق لکھاری ہیں۔آپ کوشش کریں۔“اس کے کہنے کا انداز یوں تھا کہ جیسے وہ مجھے چیلنج کر رہی ہو۔اورمیری صلاحیتوں کو آزمانے کے در پے ہو۔اور پھر اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس نے رقم دے کر چیز خریدنی ہے۔وہ چیز کی پوری طرح جانچ پڑتال کر کے ہی خریدے گا۔سو میں نے بھی اسے کھل کر جواب دینا زیادہ بہتر سمجھا۔
”یہاں پر دوباتیں ہیں۔ایک کہانی سے متعلق اور دوسری آپ لوگوں کے روےے کے بارے میں۔“
”بولیں۔!بلکہ ضرور کہیں۔۔“اس نے اپنی آنکھوں میں تجسس سمیٹتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہا۔پھر میز پر کہنیاں ٹکا کر قدرے جھک گئیں تا کہ میری بات کو بڑے غور سے سن سکے۔ایسا کرنے سے اس کی گردن میں پڑے اول جلول ہار ایک دم سے جھنجھنا اٹھے۔تبھی میری نگاہ ان ہاروں پر جا پڑی۔یہ ایک اضراری کیفیت تھی جس سے میری نگاہ تو پڑی لیکن وہاں کی جزئیات کو میں نے نہیں دیکھا۔میرا ذہن اس کے جواب کے لیے لفظ ترتیب دے رہا تھا۔
” یہ جو فلموں اور ڈراموں وغیرہ کی کہانیاں ہوتی ہیں نا۔۔ان میں کمرشل پہلو زیادہ دیکھا جاتاہے ۔اس کے علاوہ وہ تمام لوازمات جو فلم یا ڈارمے کی کامیابی کے لیے ضروری ہوتے ہیں۔انہیں بھی مد نظر رکھنا پڑتاہے۔جس ماحول کی کہانی کی آپ بات کر رہی ہیں۔اس میںنیا پن ،اسی ماحول ہی سے لیا جائے گانا۔۔مثلاً میرے پاس صحرائی علاقے کی روایتی کہانی میں نیا پن ڈالا جا سکتا ہے۔۔۔ایسا ہی بہت کچھ ہے ۔ میری بات سمجھ رہی ہیں نا آپ۔۔“میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا جو ساکت و صامت انداز میں میری بات سن رہی تھی۔ایک لمحے کو مجھے یوں لگا جیسے میرے کہے ہوئے لفظ اس کی سمجھ میں نہیں آرہے ہیں۔تبھی اس میں حرکت ہوئی اور اس نے دھیرے سے کہا۔
”جی،میں آپ کی بات سمجھ گئی ہوں۔اس کا جواب میں بعد میں دیتی ہوں۔آپ اپنی دوسری بات کر لیں۔“
”دوسری بات یہ ہے کہ آپ یہ شوبز والے اسی طرح خیال جمع کر لیتے ہیں ۔اور پھر کسی نو آموز لکھاری سے اپنے مطلب کی ”شے“ لکھوا لیتے ہیں ،بہت کم رقم میں۔۔بعض اوقات نو آموزلکھاریوں کی تحریر کو اپنے نام سے استعمال کر لیتے ہیں۔ایک طرف سے سنے گئے خیال کو دوسری جانب استعمال کر لیا۔آپ جانتی ہیں کہ یہاں ”خیال“ ہی کی قیمت ہوتی ہے۔“میں نے یہ کہہ کر اس پر واضح کر دیا کہ لکھاریوں کو لوٹنے کا چلن کیا ہے۔
”آپ بالکل ٹھیک کہتے ہو۔آپ کی پہلی بات کو بعد میں زیر بحث لاتے ہیں۔یہاں فی الحال میں واضح کردوں کہ آپ اپنی کہانی سنائیں اور اس کا معاوضہ مجھے طے کرنے کی اجازت دیں۔میں ایک ہفتہ یہاں پر ہوں۔آپ اپنے خیال سناتے جائیں اور ان کا فوری معاوضہ لیتے جائیں۔جو کہانی میرے معیار پر پوری اتری ،اس پر آپ اپنی مرضی کا معاوضہ مانگنے کے مجاز ہوں گے۔یعنی کہانی لکھنے سے پہلے ہی آپ اس کی قیمت لے لیں۔کیا کہتے ہیں آپ؟“اس نے بڑی خوبصورتی سے بال میرے کورٹ میں پھینک دی ۔تب مجھے تذبذب میں کہتے ہوئے بنی۔
”مجھے منظور ہے۔“
”گڈ۔!جہاں تک آپ کی پہلی بات ہے ،اس کے ضمن میں عرض کروں کہ جو آپ کو اچھا لگتا ہے ،جس ماحول کی جیسی بھی کہانی آپ کے ذہن میں ہے،مجھے سنائیں۔جو اچھی لگی اس پر معاہدہ طے کر لیں گے۔ورنہ آپ کو اپنی کہانی کا معاوضہ تو مل ہی جائے گا۔“اس نے سادہ سے انداز میں کہا تو میں مطمئن ہو گیا۔اس دوران ویٹر ہمارے درمیان کافی اور اس کے لوازمات رکھ گیا۔کافی پینے کے دوران یہ طے پا گیا کہ وہ ایک دن میں کسی بھی وقت،کہیں بھی ملاقات طے ہو جایا کرے گی۔وہیں کہانی سنا دی جائے گی اور وہیں معاوضہ دے دیا جائے گا۔اس کے علاوہ ان کے پروڈکشن ہاﺅس،برصغیر کے اردو لکھاریوں اور مختلف تحریروں پر بات ہوتی رہی ۔یہاں تک کہ ہم اپنی اپنی راہ ہو لیے۔
ہماری دوسری ملاقات ایک بنگلے میں ہوئی۔مجھے ڈرائنگ روم میںلے جاکر بیٹھایا ہی تھا کہ وہ چند لمحوں ہی میں وہاں آ گئی۔اس نے بلیک شارٹس اور سلیو لیس ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔اس نے اپنی زلفیں کس کر باندھی ہوئیں تھیں،جس سے اس کا ماتھا چوڑا دکھائی دے رہاتھا۔اس بار گردن میں ہاروں کابوجھ نہیں تھا بلکہ سفید موتیوں کا چھوٹا سا ہار تھا جو عموماًیورپی خواتین پہنتی ہیں۔اس کے داہنے ہاتھ میں نیلے رنگ کے پتھر والی ایک انگشتری تھی۔پاﺅں میں ایسے سلیپر نما جوتے تھے جیسے دو سیاہ خرگوش اس نے اپنے پیروں میں باندھے ہوئے ہوں۔شارٹس اور سلیپرں کے درمیان سفید پنڈلیاں دمکتی ہوئی لگ رہی تھیں۔ میں نے ایک نگاہ اس کے چہرے پر ڈالی،جس پر شوق کے دےے روشن تھے۔اس نے اوپری دانت سے نچلے ہونٹ کو دبایا ہوا تھا۔وہ میرے ساتھ ہی صوفے پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔اور اپنی نگاہیں مجھ پر گاڑ دیں،جن میں تجسس پوری طرح عیاںتھا۔
”جی ، تو کیا آپ مجھے کہانی سنا رہے ہیں؟“ اس نے یوں پوچھا کہ جیسے شاید میں کوئی بہانہ کردوں گا۔
”بالکل۔!کیا آپ سننے کے لیے تیار ہیں؟“ میں نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔
”جی،میںبے تاب ہوں۔“اس نے کہا اور پھر آنکھوں سمیت کھل کر مسکرا دی۔ تب میں اسے کہانی سنانے لگا۔وہ ایک لڑکے کی کہانی تھی۔جس طرح زیادہ مٹھاس کڑواہٹ کا باعث بن جاتی ہے ،اسی طرح زیادہ محبت اس کے لیے اکتاہٹ بن گئی تھی۔اسے ایک چہرہ دکھائی دینے لگا، جو پھر بعد میں مجسم ہو کر نظر آنے لگا۔وہ اس سے محبت کرنے لگا۔ایک ہی ایک لڑکی،یعنی اس جیسا چہرہ رکھنے والی لڑکی کہیں دوسرے شہر میں بس رہی تھی۔وہ اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔لڑکا اس چہرے میں ڈوب جاتاہے۔جبکہ وہ لڑکی،اس لڑکی کی آس میں ہو جاتی ہے۔وہ پورے انہماک سے میری کہانی سنتی رہی۔درمیان میں اس نے مجھے قطعاً ڈسٹرب نہیں کیا۔بلکہ پوری توجہ سے مجھے یوں سنتی رہی جیسے ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہی ہو۔اس دوران کھانے پینے کے لوازمات بھی چلتے رہے ۔یوں تقریباً ایک گھنٹے بعد میری کہانی مکمل ہوئی ،جسے سننے کے بعد وہ چند لمحے سوچتی رہی ۔پھر قریب پڑا اپنا پرس اٹھایا۔اس میں سے بڑے پونڈوں کی ایک گڈی نکالی۔اس میں سے کافی سارے نوٹ گنے،الگ کیئے،گڈی واپس رکھی اور نوٹ اپنی دونوں ہتھلیوں پر رکھ کر پیش کرنے والے انداز میں بولی۔”یہ آپ کی اس کہانی کا معاوضہ۔۔۔کہانی اچھی تھی لیکن سوری،مجھے یہ کہانی اپنے معیار پر اترتی ہوئی محسوس نہیں ہوئی۔“
اگرچہ وہ رقم میری اب تک کی کہانیوں کا سب سے زیادہ معاوضہ تھا،مگر وہ معاوضہ ہاتھوںمیں آتے ہی مجھے عجیب سالگا۔جیسے کسی ضرورت مند کی فقط ضرورت پوری کی جائے۔مجھے کچھ اچھا محسوس نہیں ہوا۔مرا دل تو کیا کہ یہ نوٹ اسے واپس کر دوں اور کہوں کہ جب میری کہانی پسند آئے تو میں اس کا معاوضہ اپنی مرضی سے لے لوں گا۔اس سے پہلے کہ میں ان خیالات کا اظہار کرتا۔وہ اٹھ کر یوں کھڑی ہوگئی جیسے اجازت طلب کر رہی ہوں۔میں نے اس کی طرف نہیں دیکھا بلکہ باہر کی جانب لپکتا چلا گیا۔
ہماری تیسری ملاقات ایک فارم ہاﺅس پر ہوئی۔میں شہر کے ایک خاص مقام تک آیا،جہاں سے راحیلہ کی بھجوائی ہوئی گاڑی نے مجھے وہاں تک پہنچا دیاتھا۔میں راستے میں سوچتا چلا آیا تھا کہ یہ راحیلہ ،اس کا خمیر اگرچہ مشرق ہی سے اٹھا ہے،والدین مشرقی ہیں مگر یہ تو ذہنی طور پر وہی انگریز ہے۔اسی ماحول میں پلی بڑھی اور جوان ہوئی۔اس کے پہننے اوڑھنے اور بات کرنے میں اسی ماحول کا اظہار ہے۔ اس کی سوچ بھی مغربی ہے۔جبکہ کہانیوں میں مشرق پوری طرح ہمکتا ہے ۔ ممکن ہے میری کہانی ،اس کے معیار پر اس لیے نہ اتری ہو۔بہر حال میں نے سوچ لیا تھا کہ اس کی خواہش پر کہانیاں سناﺅں گا۔ ایک تجربہ ہی سہی۔گاڑی پورچ میں رکی تو ایک آیا نما ملازمہ اپنی معیت میں مجھے چھت تک لے گئی۔جہاں فائبر کی کرسیوں میں ایک پر راحیلہ بیٹھی ہوئی تھی۔اس نے نیلی جینز پر سفید ڈھیلا ڈھالا مہین کرتا پہنا ہوا تھا۔ جس میں سے اس کی گلابی بدن ہی پوری طرح عیاں نہیں ہو رہا تھا بلکہ اندرونی پیراہن کا سیاہ رنگ بھی پوری طرح واضح ہو کرا پنی بناوٹ کا اظہار کر رہا تھا۔اس نے اپنی زلفیں اکٹھی کر کے پونی میں باندھی ہوئیں تھیں۔اس نے ہلکے سے سفید سلیپر پہنے ہوئے تھے۔جو اس نے ایک دوسری کرسی پر رکھے ہوئے تھے اور مجھے دیکھتے ہی سمیٹ لیئے۔اس نے زندگی سے بھر پور مسکراہٹ کے ساتھ میرا استقبال کیا۔میں اس کی سامنے ولای کرسی پر بیٹھ گیا۔کچھ دیر حال احوال کے تمہیدی جملوں کا تبادلہ ہوا ۔ماحول بہت شاندار تھا۔چھت پر سے اردگرد کے سبز منظر بہت خوبصورت دکھائی دے رہے تھے۔اپنے سامنے اور اردگرد کے دلکش نظاروں کو دیکھ کر میں ویسے ہی سرشار ہو گیا۔
”جی،تو پھر سنایئے اپنی نئی کہانی۔۔“اس نے میری توجہ اپنی طرف مبذول کی۔تب میں نے چند لمحات میں اپنے خیالات کو مجتمع کیا اور پھر کہانی سنانے لگا۔یہ ایک لے پالک لڑکی کی کہانی تھی۔جیسے اپنے والدین کا علم نہیں تھا۔مگر جس کے پاس وہ رہ رہی تھی ،اس کے رشتے دار اس کے خلاف ہو جاتے ہیں۔لڑکی اپنی ذات کے سراغ میں اپنے والدین کو تلاش کرنا چاہتی ہے اور یہی کمزوری ان کے ہاتھ آ جاتی ہے۔میں کہانی سناتا رہا اور اس کے چہرے کے تاثرات کو بھی دیکھتا رہا۔یہ بالکل ایسے ہی تھا کہ جیسے کوئی منظر کو دیکھ رہا ہو،مگر اس پر سوچ نہ رہا ہو۔کیونکہ میری ساری توجہ اپنی کہانی کے تاروپود ،الفاظ کی نشست و برخاست اور جملوں کی بندش پر تھی۔ہمیں کسی نے بھی ڈسٹرب نہیں کیا۔کوئی چھت پر نہیںآیا۔میںکہانی سناتا رہا اور راحیلہ پوری توجہ سے سنتی رہی۔تقریباً ایک گھنٹے کے بعد جب کہانی مکمل ہوئی تو اس نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا۔
”کہانی بہت اچھی ہے ،کسی بھی کمرشل فلم کے لیے استعمال کی جا سکتاہے اسے ۔لیکن سوری سر۔!یہ کہانی میرے معیار پر پوری نہیں اتری۔“
میرے جذبات پر اچانک ہی اوس پڑ گئی۔اس کہانی کا خیال اگرچہ میرے ذہن میں بہت پہلے ہی سے تھا لیکن اس کا خلاصہ میں نے بہت محنت سے پوری رات لگا کر بنایا تھا۔اس نے اپنا پرس نکالا سفید لفافے میں موجود پاﺅنڈ نکال کر دیکھے اور پھر وہ لفافہ مجھے دے دیا۔
”گن لیں۔یہ پہلی کہانی سے زیادہ معاوضہ ہے۔“
نجانے کیوں مجھے یہ لفافہ پکڑتے ہوئے خوشی نہیں بلکہ شرمندگی کے احساس نے جکڑ لیا۔میں وہاں سے جانے کے لیے بے چین ہو گیا۔اس نے مجھے بہت کہا کہ میں لنچ کے لیے رک جاﺅں۔مگر میں اندر سے مطمئن نہیں تھا۔اس وقت دوطرح کے جذبات مجھ پر حاوی تھے۔ایک کہانی کی نا پسند یدگی کا دکھ اور دوسرا نئی کہانی کی بنت میںپوری قوت لگا دینے کا جذبہ ،وہ سوچ تک میرے ساتھ آئی۔میں بہت اچھے انداز میں اس سے رخصت ہوا۔وہاں سے نکلتے ہی نئی کہانی کی بنت کے لیے خیالات کو اپنے قبضہ قدرت میں کرنے کی سعی کرنے لگا۔ڈرائیور نے مجھے فارم ہاﺅس سے شہر کے اسی مقام تک چھوڑ دیا،جہاں اسے میں نے کہا۔
ہماری چوتھی ملاقات مصنوعی جھیل والے پارک کے پر سکون گوشے میں ہوئی۔ دوپہر سے کچھ پہلے کا وقت تھا۔گھنے درختوں کی چھاﺅں میں دو کرسیاں تھیں اور درمیان میں میز دھرا ہوا تھا۔راحیلہ کی بھیجی ہوئی گاڑی ہی مجھے وہاں تک لائی تھی۔وہ ایک کرسی پر بر ا جمان میری طرف پراشتیاق نگاہوں سے دیکھ رہی تھی۔اس بار راحیلہ کی زلفیں کھلی ہوئیں تھیں۔ہلکے پیازی رنگ کا پاکستانی لباس پہنا ہوا تھا، جس پر گہرے میرون رنگ کے چھوٹے چھوٹے پھول تھے۔اس کا لباس خاصا تنگ تھا۔جسم کے سارے خطوط کھل کر اپنا اظہار کر رہے تھے۔ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ،اس نے اپنے گلے میں سونے کی موٹی سی تین چین پہنی ہوئیں تھیں۔ایک موٹی جو گلے کے بالکل ساتھ لگی ہوئی تھی۔درمیانی اس کے سینے سے ذرا اوپر تک اور تیسری پتلی جو سینے سے ذرا نیچے تک لٹک رہی تھی۔ لمبے لمبے سونے کے جھمکے اور پیروں میں سیاہ لیدر کے سلیپر کے ساتھ سونے کی پائل پہنی ہوئی تھی۔ اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے ایک لمحے کو سینے کی نیلی رگوں نے متوجہ کیا۔تا ہم میرا دھیان اپنی کہانی کی طرف تھا جو میں نے اسے سنانا تھی۔میز پر کھانے پینے کے لوازمات پہلے ہی سجے ہوئے تھے،جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس نے کہا۔
”لیں کچھ۔۔۔!“
”نہیں ، بہت شکریہ۔آپ کہانی سنیں۔“باوجود کوشش کے میں اپنی بے تابی نہ چھپا سکا۔تبھی وہ سیدھا ہوئی پوری طرح متوجہ ہو کر بولی۔
”جی ،ضرور۔!سنائیں۔“
میں نے کہانی شروع کر دی۔میرے تئیں وہ بہت منفرد کہانی تھی۔اس میں عورت کے ان نازک جذبات کا بیان تھا۔جو پیار کی پہلی ملاقاتوں میں اپنے اندر محسوس کرتی ہے اور پھر کوئی انہی جذبات کو استعمال کر لیتا ہے۔میں جتنے جذب سے وہ کہانی سناتا رہا۔وہ اتنے ہی شوق و انہماک سے سنتی رہی۔اس بار مجھے پورا یقین تھا کہ وہ کہانی اس کے معیار پر پورا اترے گی۔کیونکہ میں نے اپنی زندگی کی نچوڑ کہانی اسے سنا دی تھی۔میری کہانی ختم ہوئی تو اس نے جذبے سے عاری چہرے کے ساتھ کافی دیر تک مجھے دیکھا۔پھر بنا کہے اپنے پرس میں ہاتھ ڈالا،بنا گنے ہی اس نے کافی سارے پاﺅنڈ اپنے ہاتھ میں لیے اور میری جانب بڑھادیئے۔میں نے پکڑ لیئے تو وہ بولی۔
”مجھے افسوس ہے سر۔!آپ کی یہ کہانی بھی مجھے متاثر نہ کر سکی۔میرے معیار پر نہیں اتری۔بہر حال آپ کا معارضہ پیش ہے۔“
میں ایک دم سے چکر ا گیا۔دل چاہا کہ یہ معاوضہ اس کے منہ پر دے ماروں اور آئندہ کے لیے نہ ملنے کا کہہ کر اٹھ جاﺅں۔یہ میرے اندر کے انا پرست شخص کے جذبات تھے۔لیکن ایک قلم مزدور لکھاری کے لیے ایسا رویہ دکھانا،اس کے لیے زہر قاتل ہو سکتا تھا۔پھر اس کا مطلب یہ بھی تھا کہ کیا میں بنجر ہو گیا ہوں۔میرے پاس مزید کوئی کہانی نہیں ہے؟ کیا میں اس بات کا اعتراف کر لوں کہ میں اس کے چیلنج کے سامنے ہار گیا ہوں۔باوجود کوشش کے میں اپنے اندر کے جذبات کا اظہار نہ کر سکا۔تبھی میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”مجھے اجازت۔۔۔؟“
”دو دن بعد میں نے واپس چلے جانا ہے۔اور ہماری فقط ایک ہی ملاقات ہو پائے گی۔یعنی کل میں آپ کی آخری کہانی سنوں گی۔“اس نے میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو میں نے انتہائی اختصار سے کہا۔
”اوکے۔!“
میں اس کار کی جانب بڑھ گیا جو مجھے یہاں تک لائی تھی اور اب مجھے اس نے واپس چھوڑ دینا تھا۔
اگلے دن میری پانچویں اورآخری ملاقات ایک معروف پروڈکشن ہاﺅس کے آفس میں ہوئی۔وہ چند لوگوں میںگھری ہوئی تھی اور ان سے کاروباری باتوں میں مصروف تھی ۔اس نے میراگرم جوشی سے استقبال کیا،ہاتھ ملایا اور پھر مجھے ایک طرف صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے لوگوں کے ساتھ باتوں میں مصروف ہو گئی۔میں اس کی باتیں سنتا رہا اور اسے دیکھتا رہا۔وہ سیاہ کوٹ پتلون اور سفید شرٹ کے ساتھ بالکل ایک کاروباری خاتون دکھائی دے رہی تھی۔اس کی باتوں کا انداز بھی سیدھا سادھا کاروباری تھا۔جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ کافی سارے معاہدے کر چکی ہے ۔کچھ کے ساتھ ابھی تذبذب میں ہے اور کسی کو صاف جواب دے چکی ہے ۔ یہاں تک کہ ہم آفس میں تین لوگ رہ گئے۔تیسرا شخص اس پروڈکشن فرم کا مالک تھا۔راحیلہ نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بن کچھ کہے اٹھ کر باہر چلا گیا۔ہم اب صرف دونوں تھے ۔ وہ اٹھی اور میرے قریب صوفے پر آن بیٹھی۔اتنے قریب کہ اس کے لباس پر لگی پرفیوم کی مہک نے ایک خاص خوشگوار تاثر دے دیا۔
”جی فرمائیں۔!میں ہمہ تن گوش ہوں۔“یہ کہتے ہوئے اس نے لاشعوری طور پر اپنے گلے میں پہنی ہوئی سفید قیمتی موتیوں کی مالا کو انگلی سے سہلایا۔
”کیا آپ مصروف ہیں؟“میں اضراری کیفیت میں پوچھا تو دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولی۔
”نہیں۔نہیں تو۔۔میں صرف اور صرف آپ کے لیے یہاں ہوں۔آپ جب تک یہاں اس کمرے میں ہیں،یہاں کوئی نہیں آئے گا۔سوائے آفس بوائے کے۔۔وہ کچھ کھانے پینے کو تو لائے گاہی۔۔“
”تو پھر سناﺅں کہانی۔۔۔“میں نے پوچھا۔
”جی۔“ اس نے کہا اور میرے چہرے کی طرف دیکھنے لگی۔اس بار جو میں نے اسے کہانی سنائی ،وہ ان حالات کے بارے میں تھی جو کسی بھی انسان کی شخصیت بنانے یا بگاڑ دیتے ہیں۔اور اس میں انفرادیت یہ تھی کہ ان حالات میں وہ کون سے گھناﺅنے یا پاکیزہ لمحات ہوتے ہیں ،جن کے تاثرات بہت دور تک جاتے ہیں۔لمحاتی فیصلوں کے دور رس اثرات پر مبنی کہانی میں روایتی کردار تھے جو ہماری تمام زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔وہی تقریباً ایک گھنٹہ تھا۔درمیان میں دوبار کافی کے ساتھ لوازمات بھی آئے۔میں کہانی سنا چکا تو اس نے اپنے پرس کو سیدھا کیا اور پاﺅنڈوں کی اچھی خاصی تعداد نکالتے ہوئے بولی۔
”سوری سر جی۔اس بار بھی آپ کی کہانی معیار کو نہیں چھو سکی۔“
میں اس کے یوں کہنے پر ایک دم سے بھنا گیا۔مجھے لگا کہ وہ اپنی دولت کے بل بوتے پر فقط مجھے زچ کرنے کے لیے ایسا کر رہی ہے۔شاید وہ اپنے کسی جذبے کی تسکین کی خاطر اس طرح کا رویہ اپنائے ہوئے تھی۔یا پھر گھٹیا لوگوں کی طرح ذہنی اذیت دے کر اندر کے تخلیقی انسان پر کاری ضرب لگانے کی ذلیل کوشش تھی۔تا کہ تخلیقی انسان اپنے زخموں کو سہلاتا ہوا ذہنی اذیت کا شکار ہو جائے۔جس سے وہ احساس کمتری اور اپنے بانجھ پن کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔تبھی میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے اس کے اب تک دیئے ہوئے سارے پونڈ نکالے اور اس کے سامنے رکھتے ہوئے بولا۔
”مجھے افسوس ہے کہ میں آپ کے معیار پر پورا نہیں اتر سکا۔یہ اپنی رقم اپنے پاس رکھیں۔“
”نہیں۔۔نہیں ۔۔۔سر۔۔۔یہ آپ کے ہیں۔“یہ کہہ کر اس نے مزید رقم ان پر رکھ کر مجھے دینا چاہے مگر میں نے نہیں لیے۔وہیں پڑے رہنے دیئے تو وہ بولی۔”یہ آپکامعاوضہ ہے ۔آپ کا خیال میں نے سناتو۔۔۔“
”نہیں ۔!آپ اس کے عوض فقط ایک بات بتا دیں۔“میں دھیمے لہجے میں کہا
”پوچھیں۔!“وہ اشتیاق سے بولی۔
”آپ کا معیار کیا ہے،ذرا میں بھی تو سنوں۔“
”ہاں۔!میں آپ کو ایک چھوٹی سے کہانی سناتی ہوں۔“اس نے کہا۔
”جی بالکل۔!میں ہمہ تن گوش ہوں۔“میں نے بھی اسی کے لفظ استعمال کیئے ۔ اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔تب اس نے پوچھا۔
”کیا آپ عورت کی اس صلاحیت سے واقف ہیں کہ وہ مرد کی آنکھ میں اس کی نیت دیکھ لیتی ہے۔“
”جی،مجھے معلوم ہے۔“میںنے دھیمے سے کہا۔
”تو بس پھر اسی کو ذہن میں رکھے گا۔اب میں آپ کو کہانی سناتی ہوں۔“یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوئی۔پھر کہتی چلی گئی۔”میں نے بہت پڑھا بلکہ بے تحاشا اردو فکشن پڑھا۔مجھے پڑھنے میںیہاں تک مہارت ہو گئی کہ لکھنے والے کی شخصیت مجھ پر واضح ہو جاتی تھی۔میرے اپنے ذہن میں ہر عورت کی طرح ایک رومانوی شخص کا ہیولا ہے۔جو مجھے ٹوٹ کر چاہتا ہے۔وہ اتنا رومانوی ہے کہ میں اس کی محبت کی پھوار میں اس قدر بھیگ جاتی ہوں کہ بے بس ہو جاتی ہوں۔وہ شخص میں نے آپ کی کہانیوں میں دیکھا۔مجھے لگا کہ میں اپنے رومانوی شخص تک پہنچ گئی ہوں ۔میں نے اس کا زندہ وجود پا لیا ہے۔یہاں تک کہ میں آپ سے ملی۔یہ سچ ہے کہ میں ایک پروڈکشن ہاﺅس کی مالک ہوں۔مجھے اچھی کہانیوں کی تلاش ہے۔آپ کی یہ ساری کہانیاں اچھی ہیں اور میں ان کا معاہدہ آپ سے ابھی کروں گی لیکن۔۔۔“
”لیکن کیا۔۔؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”آپ کی کہانیوں میں جس قدر رومانس ہے ،جذبات نگاری میں انوکھا پن ہے ،سراپا نگاری میں کمال ہے،محبت کے احساس کی اتھاہ گہرائیاں ہیں،خوبصورت ترین اور بے خود کر دینے والے جذبات کی کارفرئیاں پوری لطافت کے ساتھ آپ کی تحریروں میں ہے۔۔معاف کیجئے گا۔۔وہ آپ میں نہیں ہیں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گلے میں پڑے سُچے موتیوں کے ہار کو پھر لاشعوری طور پر انگلیوں سے چھوا۔
”آپ کو اس سے کیا،آپ کو کہانی چاہیے تھی۔مصنف کی شخصیت جیسی بھی ہو۔“میں نے پر سکون لہجے میں کہا۔
”نہیں،میں آپ پر فریفتہ ہو گئی تھی۔میں نے آپ کو آپ کی تحریروں کے ذریعے بہت چاہا تھا۔ان دنوں کہانی سننے کے دوران میں نے آپ کا ہر لمحہ جائزہ لیا۔عورت کی نگاہ مرد کی آنکھ میں اس کی نیت تک پڑھ لیتی ہے۔سو آپ بہترین رومانوی لکھاری ہیں۔مگر رومانوی انسان نہیں۔۔“ اس نے بے چینی میںکہا اور صوفے سے اٹھ کر میز کے عقب میں پڑی کرسی پر جا بیٹھی۔اس کا چہرہ اورآنکھیں میرے لیے اجنبی ہو گئیں تھیں۔میں اٹھا اور آفس سے باہر نکلتا چلا گیا۔اس کے اعتراف نے میرے اندر کے تخلیقی انسان کو بچا لیا تھا۔جس پر میں خوشی سے نہال ہو رہا تھا ۔تا ہم میرے اندر ایک سوچ بڑی شدت سے سوال بن گئی تھی کہ میں ہار گیا ہوں یا وہ ہار گئی ہے؟
ززز

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *