Sunday 7 January 2018

حصار ۔۔۔ امجد جاوید ۔۔ قسط نمبر18

حصار
امجد جاوید
قسط نمبر 18
 فرزانہ نے اگر کرامت شاہ کے بارے میں بتا دیا تو کچھ بھی ممکن ہے ۔ کوئی فرزانہ کو پوچھے یا نہ پوچھے ، اس کی تحقیق ضرور ہونے لگ جائے گی ۔پھر کیا ہوگا ؟ اس بارے میں وہ سوچ کر ہی لرز گئی تھی ۔اس کا حل یہی تھا کہ وہ بڑے پیار سے ، چاپلوسی کے ساتھ فرزانہ کا ساتھ دے ۔ یہاں تک کہ اس کی شادی ہو جائے ۔ ورنہ وہ بہت بری پھنس سکتی تھی ۔
پھوپھو فاخرہ کو سوچتے ہوئے دوپہر ہو گئی ۔اس کی سمجھ میں ایک ہی حل آ یا ۔ اسی بارے بات کرنے کے لئے وہ کچن میں جا پہنچی ۔ فرزانہ اس وقت سبزی بنا رہی تھی ۔ پھوپھو فاخرہ تاک کر اس کے پاس گئی تھی ۔ اس گھر پر ثروت بیگم نہیں تھی ۔ اس نے جاتے ہی پوچھا
”فرزانہ ،میں سمجھ سکتی ہوں کہ ویسا ہی ہوگا ، جیسا تم محسوس کر رہی ہو ۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تمہیں وہم ہو گیا ہو ؟“
” ایسا نہیں ہے پھوپھو ، میں اپنی طبیعت کے بارے میں بہتر سمجھتی ہوں۔“ اس نے بڑے اعتماد سے کہا 
”ایک تو تیری منگنی بھی نہیں ہوئی ، ورنہ اسے ہفتے تیری شادی کروا دیتی ۔ “ پھوپھو فاخرہ نھے کہا تو فرزانہ تنک کر بولی 
” پتہ نہیں میری منگنی ہوتی بھی ہے کہ نہیں یا پھر وہ ہی جواب دے دیتے ہیں ، ان کی مرضی چاہے وہ نہ آ ئیں ، مگر میری تو زندگی خراب ہو گئی نا ۔“
” کیوں خراب ہو گی تمہاری زندگی ، میں جا کر ان سے کرتی ہوں بات ۔“ پھوپھو فاخرہ نے سینہ ٹھونک کر کہا
” اب تمہارے ہاتھ میں سب ۔“ وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی 
”لیکن ایک بات ہے فرزانہ ؟“ پھوپھو نے پیار سے کہا
” وہ کیا ....؟“ اس نے متجسس لہجے میں پوچھا
”دیکھ پہلے ہم ایک بار تصدیق کر لیں ۔ایویں پریشان ہونے کا کیا فائدہ ۔ہم چلتے ہیں ڈاکٹر کے پاس ۔“ پھوپھو نے کہا تو فرزانہ نے چند لمحے سوچا پھر بولی
” ٹھیک ہے ، میں چلتی ہوں ۔“ 
” تو ایسا کر ، جلدی سے کام ختم کر ،میں لے چلتی ہوں تمہیں ،یہاں سے نکلیں گی الگ الگ ، سمجھی ہو نا تم ؟“ پھوپھو نے اسے ساری بات سمجھا ئی اور کچن سے نکلتی چلی گئی ۔ 
سہ پہر کے بعد وہ ہسپتال میں پہنچ گئی تھیں ۔وہ دوسری خواتین کے ساتھ وہاں بیٹھی ہوئیں تھیں ۔ جس کے دل میں چور ہوتا ہے وہ خواہ مخواہ ہی ڈرتا رہتا ہے ۔ پھوپھو فاخرہ پریشان سی گھبرائی ہوئی تھی اور فرزانہ نے چہرے کو چھپایا ہوا تھا ۔ کچھ دیر بعد ان کی باری آ گئی تو وہ خاتون ڈاکٹر کے سامنے جا بیٹھیں۔ ڈاکٹر نے ایک نگاہ فرزانہ کو دیکھا۔ پھر شک بھری نگاہوں سے پوچھا
” کتنا عرصہ ہو گیا ہے شادی کو ؟“
” یہی کوئی تین ماہ ۔“ پھوپھو نے بڑے سکون سے جھوٹ بول دیا۔
” آپ کیا لگتی ہیں ان کی ؟“ ڈاکٹر نے پوچھا
” میں ساس ہوں جی اس کی ۔“ پھوپھو نے جھوٹ پر جھوٹ بولا 
کچھ سوالات کے بعد ایک پرچی پر لکھتے ہوئے پوچھا۔
” کیا نام ہے تمہارا ؟“
” جی اس کا نام ثانیہ ہے ۔ ثانیہ شعیب ۔“ پھوپھو نے نام بتا کر گویا سکون کا سانس لیا ۔اب ڈر کی کوئی بات نہیں تھی ۔“
” اچھا، یہ میںنے ٹیسٹ لکھے ہیں ۔ان کی رپورٹ لے کر آ ئیں میرے پاس ،پھر دیکھتے ہیں ۔“ ڈاکٹر نے کہا اور پرچی انہیں تھما دی ۔وہ دونوں اٹھیں اور لیبارٹری میں جا پہنچی ۔انہیں وہاں کچھ دیر لگی ۔ وہاں سے رپورٹ لے کر وہ ڈاکٹر کے پاس آ گئیں ۔ڈاکٹر نے ساری رپورٹیں دیکھیں اور پھر خوشی سے بولیں 
” مبارک ہو ۔آپ دادی بننے والی ہیں ۔“
”دادی ....؟“ پھوپھو فاخرہ نے گھبرا کر یوں کہا جیسے اس پر تو جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو ۔اگلے ہی لمحے اس کی نگاہ ڈاکٹر کے چہرے پر پڑی جو حیرت سے اس کا منہ دیکھ رہی تھی ۔ اس نے جلدی سے خود پر قابو پایا اور بولی ،” میں تو خوشی کے مارے حیران ہو گئی ہوں ۔“
” اس طرح ....؟“ ڈاکٹر نے پوچھا
” یہی کہ پتہ نہیں بیٹا ہوگا کہ بیٹی ۔“ پھوپھو نے بات سنبھالنا چاہی لیکن ڈاکٹر نے روکھے سے لہجے میں کہا
” بی بی ، ہم روزانہ پتہ نہیں کتنی ایسی لڑکیوں کو دیکھتے ہیں ۔خیر میں دوا لکھ دیتی ہوں اور احتیاط بھی ۔ “ یہ کہتے ہوئے وہ پیڈ پر دھرے کاغذ پر لکھنے کے لئے جھک گئی ۔
پھوپھو کے ساتھ فرزانہ بھی ڈاکٹر کے شک پڑ جانے پر شرمندہ سی بیٹھی ہوئی تھی ۔ پھوپھو نے تو کوشش کی تھی کہ کسی طرح اس کے بارے میں پتہ نہ چلے لیکن ڈاکٹر ایک تجربہ کار خاتون تھی ۔ اس نے بھانپ لیا تھا ۔ ڈاکٹر نے پر چہ لکھا اور انہیں تھما دیا ۔ وہ پرچہ لے کر باہر چل دیں ۔ انہیں ڈاکٹر کے شک پڑ جانا ان کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا ۔وہ ایک نئی جان کے باعث گھبرا گئی تھیں کہ اس کا کیا ہوگا ؟وہ ہسپتال سے باہر آ چکی تھیں ۔وہ آ پس میں کوئی بات نہیں کر پار ہی تھیں ۔ باہر آ کر فرزانہ نے پوچھا 
” پھوپھو، اب کیا ہوگا ؟“
” ارے کچھ نہ کچھ توہوگا ۔“ اس نے تلخی بھری پریشانی سے کہا پھر اگلی ہی لمحے اسے ہوش آگیا کہ اس قدر فرزانہ سے تلخی ٹھیک نہیں ۔سو بڑے حوصلہ افزا لہجے میں بولی ،” تم کیوں فکر کرتی ہو ، میں ہوں نا سب سنبھال لوں گی تم جاﺅ گھر ۔“
” ٹھیک ہے پھوپھو ۔“ اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو دونوں آ گے بڑھ گئیں ۔ وہ ہسپتال سے باہر سڑک پر آ کر کھڑی ہو گئی ۔ اتنے میں ایک رکشہ ان کے قریب آ گیا ، وہ دونوں اس میںبیٹھیں اور چل دیں ۔ 
٭....٭....٭
ذیشان اس وقت آ فس سے نکلنے کے لئے پرتول رہا تھا ، جب اس کا فون بج اٹھا۔ وہ ڈاکٹر ظہیر کی کال تھی ۔ اس نے کال رسیو کرتے ہوئے کہا
” ہاں جی ڈاکٹر صاحب ، کیا بات ہے ۔“
” کیا کر رہے ہو ؟“ اس نے پوچھا
” آ فس میں ہوں اور گھر جانے کی سوچ رہا ہوں ۔“ اس نے سکون سے کہا
” تم ایسا کرو ، پہلے میرے پاس ہسپتال آﺅ ، مجھے تم سے کام ہے ۔“ اس نے سنجیدگی سے کہا
” خیر تو ہے نا ، کوئی ایسی بات ....“ اس نے کہنا چاہا تو بات کاٹ کر بولا 
” ایک تو یہ تمہاری تحقیق کیاتفتیش والی گندی عادت ....“
” آ رہا ہوں میری جان بس ابھی ۔“ اس نے تیزی سے کہتے ہوئے فون بند کردیا ۔ اس نے سب کچھ سمیٹا اور اور آ فس سے نکلتا چلا گیا ۔ کچھ دیر بعد وہ ڈاکٹر ظہیر کے سامنے اس کے کمرے میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی دیکھ کر ذیشان نے پوچھا 
” خیر تو ہے نا ؟“
” یار میں فیصلہ نہیں کر پارہا ہوںکہ خیر ہے یا نہیں ۔اسی لئے تمہیں بلایا ہے ۔“ڈاکٹر ظہیر نے ذیشان کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا”مجھے ایک بات بالکل سچ بتانی ہے ، اس میں جھوٹ نہیں بولنا ۔“ 
” ہاں پوچھو ، بالکل سچ بتاﺅں گا ۔“ اس نے الجھتے ہوئے کہا 
” تمہارا اور ثانیہ کی محبت کا انداز کیا تھا ؟“ ڈاکٹر ظہیر نے اشارے میں پوچھا
” میں سمجھا نہیں ؟“ اس نے کہا 
” اچھا ، پھر میں تمہیں سمجھاتا ہوں ۔ مگر پہلے وعدہ کرو ، میری ہر بات سن کر پہلے خود پر قابو رکھو گے ، سکون سے میری بات سنو گے ،کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے ایک بار اچھی طرح سے سوچنا ہے ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے پریشان انداز میں کہا تو ذیشان کو یقین ہوگیا کہ کوئی اہم بات ہے ورنہ اس قدر سنجیدہ آ دمی یوں کبھی گھبرایا ہوا نہیں ہوتا تھا ۔ کوئی بہت اہم بات ہے ۔ اس نے ذیشان نے اسے یقین دلاتے ہوئے کہا 
” تم مت گھبراﺅ ،میں پورے ہوش و حواس میں ہوں ، پاگل نہیں ہوں کہ کچھ بھی بنا سوچے سمجھے کر دوں گا ۔ جو بھی کروں گا ، تمہارے مشورے کے بعد کروں گا ۔“
” اچھا پھر سن ۔“ڈاکٹر ظہیر نے کہا۔ چند لمحے سوچنے کے بعد کہتا چلا گیا ،” میں آ ج جب تھوڑی دیر پہلے ہسپتال آ یا ہوں تو میں نے وہ شعیب کی پھوپھو کے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھا ، جس نے خوب اپنے آ پ کو لپیٹا ہوا تھا ۔ میں کار پارک کر کے انہیں تلاش کیا کہ ان کو اگر کوئی مدد چاہئے تو میں انہیں دوں ۔لیکن وہ کہیں بھی دکھائی نہیں دیں ۔شاید وہ چلی گئیں تھیں ۔“
” ساتھ میں کون تھا ؟“ ذیشان نے پوچھا
ُُ” یہی سوال میرے ذہن میں بھی آ یا تھا ۔میں فوراً پہچان نہیں پایا تھا ، بس ایک لمحے کو دیکھا تھا ۔خیر ۔ میں نے انہیں تلاش وہ نہیں ملیں تو میں اندر کاﺅنٹر پر چلا گیا ۔ ان سے پوچھا ۔ “ 
” وہاںتو کئی لوگ آ تے ہیں ۔“ ذیشان نے کہا
” کاﺅنٹر گرل فوراً تونہ بتا سکی لیکن جب میں نے لسٹ دیکھی تو اس میں ثانیہ شعیب کا نام تھا ، جو ایک گائناکالوجسٹ کی طرف ریفر ہوئی تھی ۔ میں حیران رہ گیا کہ ابھی شادی کو دن کتنے ہوئے ہیں ۔ وہ ویسے بھی ہمارے پاس زیر علاج رہی تھی ۔ تب ایسا کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔“ڈاکٹر ظہیر نے پریشانی میں کہا
”پھر کیا کیا تم نے ؟“ ذیشان نے الجھتے ہوئے پوچھاڈاکٹر ظہیر نے کہا
”میں سیدھا اسی خاتون ڈاکٹر کے پاس گیا ۔ ان سے پوچھا ۔ ان ڈاکٹر نے ایک حیران کن خبر سنائی کہ ثانیہ شعیب ماں بننے والی ہے ۔“  
” کیا کہہ رہے ہو تم ؟“ذیشان نے انتہائی حیرت سے پوچھا
” میری حیرت تم سے بھی زیادہ تھی ۔ میں لیبارٹری والوں کے پاس گیا ۔ وہاں سب موجود ہے ۔میںنے سب کا پرنٹ لے لیا ۔ میرے ذہن میں پہلی بات ہی یہی آ ئی ہے کہ تم ....“ ڈاکٹر ظہیر نے کہنا چا ہا ت ووہ شدت سے بات کاٹتے ہوئے بولا
” نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہے، بالکل بھی نہیں۔ جو تمہارے دماغ میں آ یا ہے ۔ ہمارے درمیان ایک پاکیزہ تعلق تھا ۔ایسا بالکل نہیں ....“ اس نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے یوں کہا جیسے اس کا دماغ گھوم گیا ہو ۔ وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا،” اگر ایسا ہوتا تو وہ میرے ساتھ ہی شادی کرتی ، میرے ساتھ شادی کرنے سے انکار نہ کرتی ۔“
” کسی حد تک تم بھی ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ میں یہ سوچ رہا ہوںکہ کیاتم بھی یہ سمجھتے ہو ، کہیں یہ سب کچھ تو شادی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنا ؟ “ڈاکٹر ظہیر نے پوچھا
” یار تمہاری اس بات نے تو میرے اندر ہلچل مچا کر رکھ دی ہے ۔کئی باتیں ہیں جو سوچنے والی ہیں ۔ ثانیہ کا اس قدر بیمار ہونا ، اب سمجھ میں آ رہا ہے ۔تم سب یہی کہتے تھے نا کہ اسے کوئی بیماری نہیں صرف ذہنی دباﺅ کی شدت ہے ، یہی نا ؟“ ذیشان نے بڑے جذباتی انداز میں سوال کیا ۔تو وہ بولا
” بالکل ، اس کی ساری رپورٹیں ٹھیک تھیں اور ....“
” سوال یہ ہے ظہیر ، یہ ظلم اس کے ساتھ کس نے کیا ؟اسی ظلم کی وجہ سے اس نے میرے ساتھ شادی نہیں کی ؟وہ اسی باعث پاگلوں جیسی ہو گئی تھی ؟“ ذیشان نے دکھی لہجے میں شدت سے کہا توڈاکٹر ظہیر نے بڑے حوصلہ مند لہجے میں کہا
” دھیرج ، اسی لئے میںنے کہا تھا کہ سکون سے رہنا۔ یہ صورت حال میں جذبات کا نہیں عقل کا استعمال کرنا ہوگا۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہا ، پھر پر سکون لہجے میں بولا، بہت سارے سوال ہیں ، مگر ان سارے سوالوں کا جواب صرف اور صرف ثانیہ کے پاس ہیں۔ ہمیں ادھر اُدھر سر مارنے کے بجائے ، ثانیہ ہی سے پوچھنا ہوگا ۔“
” اگر ثانیہ نے ہمارے کسی سوال کا جواب دینا پسند کیا تو ؟“ ذیشان نے کہا
”یہ مجھ پر چھوڑو۔میں اس صورت حال کو بہت اچھی طرح دیکھوں گا ۔ میں یہ بھی انتظار نہیں کروں گا کہ وہ دوبارہ یہاں آ ئے گی تو کوئی بات کروں گا ۔ میں دیکھ لوں گا سب ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے سوچتے ہوئے کہا
” کیا کرو گے تم آ خر ؟“ ذیشان نے کہا تو ڈاکٹر ظہیر نے مسکراتے ہوئے کہا 
” اور تم کیا کر سکتے ہو؟“
” تم بھی ٹھیک کہہ رہے ہو ۔“ ذیشان نے اعتراف کرتے ہوئے کہا
” تو یہی بات میں کہہ رہا ہوں ۔ہمیں کوئی جلد بازی نہیں کرنی ، سکون سے ، ایک دو دن بعد میں ثانیہ سے ملتا ہوں ۔ اس سے بات کرتا ہوں ۔پھر کوئی نہ کوئی صورت حال تو سامنے آ ئے گی نا ۔تب تک یہ بھی سمجھ میں آ جائے گا کہ دراصل ہمیں کرنا کیا ہے ؟“
” کرنا کیا مطلب ....“ ذیشان نے پوچھا 
”مطلب ، پہلے یہی فیصلہ کرنا ہوگاکہ اب ہم نے ثانیہ کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا چاہئے یا نہیں ؟ “
” تعلق تو رکھنا ہے ۔“ وہ بے ساختہ بولا
” کس ناطے سے اور کیوں ؟اب جبکہ وہ بیاہی جا چکی ہے ۔ ہمیں یا تمہیں کوئی حق حاصل نہیں کہ اس کی زندگی میں دخل دو ، اسے ڈسٹرب کرو ۔اس لئے پہلے سوچو ، سکون سے سوچو ، پھر کوئی بھی فیصلہ کرو ۔ اس کے بعد سب دیکھ لیں گے ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے کہا تو وہ بھی سوچنے پر مجبور ہو گیا ۔وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر بولا
” میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا یار ۔“
” تم آ ج رات سوچ لو، کل پرسوں ، جب بھی ۔ ہم پھر اس پر بات کر یں گے ۔ابھی جذباتی انداز میں کوئی بھی فیصلہ مناسب نہیں ۔“اس نے سمجھایا
” ظہیر ، تم ٹھیک کہتے ہو یا ر، میں سوچتا ہوں ۔پھر جو فیصلہ ہو گا ۔ وہی حتمی ہوگا ۔“ ذیشان نے سر ہلاتے ہوئے کہاتوڈاکٹر ظہیر بولا
” ٹھیک ہے ابھی تم جاﺅ ، میں بھی ڈیوٹی کر لوں ، کل میں تمہارے آ فس میں تجھے ملوں گا ۔“
” اوکے ۔“ ذیشان نے کہا اور ہاتھ ملا کر نکلتا چلا گیا۔
٭....٭....٭
پھوپھو فاخرہ کو جیسے رات نیند ہی نہیں آ ئی تھی ۔ اس نے جیسے تیسے ناشتہ کیا اور گھر سے نکلتی چلی گئی ۔دن چڑھ آ یا تھا جب وہ بابا کرامت شاہ کے گھر پہنچ گئی ۔ وہ جلد از جلد بابا کرامت شاہ سے ملنے کے لئے بیتاب تھی ۔وہاں ابھی اتنے زیادہ لوگ بھی نہیں تھے ۔وہ کچھ ہی دیر بعد بابا کرامت شاہ کے کمرے میں جا پہنچی 
” ارے آ فاخرہ آ .... سنا اب تم خوش ہو نا ۔“ بابا کرامت شاہ نے اسے دیکھتے ہی کہا لیکن اس کی شکل پر ہوائیاں اڑتے دیکھ کر پوچھا،” پر تیری شکل کیوں اتنی بگڑی ہوئی ہے ، کیاافتاد پڑگئی تم پر ؟“
” بابا سارا کچھ چوپٹ ہو جانے والا ہے ، میرا سارا بنا بنایا کھیل تو بگڑے گا ہی ، میرے ساتھ جو ہوگا وہ ....“ پھوپھو فاخرہ ایک دم سے پھٹ پڑی 
” ارے ہوا کیا ، کچھ بتائے گی بھی ۔“ بابا کرامت نے غصے میں کہاتو اس نے فرزانہ کے بارے میں سب بتادیا۔ یہ سن کر بابا کرامت کے چہرے پر خباثت بھری مسکراہٹ ابھر آ ئی پھر بولا
”میں تمہیں ایک کلینک کا پتہ دیتا ہوں ، اسے وہاں لے جا ، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔فکر نہ کر ۔وہاں کی ڈاکٹر سب سنبھال لے گی ۔“ 
”اگر کسی کو پتہ چل گیا ، یا اسے کچھ ہو گیا تو، اس نے اگر جانے سے انکار کر دیا تو .... ؟“ پھوپھو فاخرہ نے ڈرتے ہوئے پوچھا تو وہ غصے میں بولا
” انکار کرے تو بتانا ، میں اسے ویسے ہی ختم کر دوں گا ۔“
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *