Saturday 23 December 2017

انور گریوال ۔۔ روزنامہ وقت لاہور سنڈے میگزین

 
روزنامہ وقت لاہور
سنڈے میگزین 

چولستان کے انتہائی شمالی اور دریائے ستلج کے جنوبی کنارے آباد شہر حاصل پور کے باسی کی شخصیت میں بھی صحرا اور دریا کا امتزاج پوری طرح پایا جاتا ہے۔ جس طرح ایک ادیب اپنی تحریروں میںپوری طرح موجود ہوتا ہے اسی طرح ان کی تحریروں میں میں امتزاج پوری طرح موجود ہ ہے۔ ستمبر انیس سو پینسٹھ میں پیدا ہوئے۔ جنگ بندی کے بعد اس رات بلیک آﺅٹ ختم ہوا تھا۔ تبب یہی تبصرہ ہوا کہ امن کا پیام بر آ گیا۔ شاید رب تعالی کو کسی کا کہا پسند آ گیا اور امجد جاوید ایک لکھاری کے طور پر منصہ شہود پر ہمارے سامنے ہے۔ پہلی کہانی جنوری اٹھاسی میں شائع ہوئی ، پھر اس کے بعد ان کا سفر نہیںرکا جو اب تک جاری ہے، بقول شخصے کہ اس سفر میں انہوں نے اب تک آنکھ نہیں جھپکی۔ حاصل پور کے ہائی سکول سے تعلیم کی ابتدا کی اور انیس سو ترانوے میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور سے ایم اے ابلاغیات میں ماسٹرز کیا۔ بعد ازاں ایم اے اردو و اقبالیات بھی کر لیا۔ غیررسمی صحافتی زندگی کا آغاز تو شہر میں مختلف رسالے اور اخبار نکال کر کرتے رہے۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزنامہ جنگ سے ابتدائی تربیت لی اور میگزین سے منسلک ہوئے۔ اس کے بعد دیگر اخبارات اور میگزین میں خدمات سر انجام دیتے رہے۔ پھر صحافتی زندگی کو ایک دم سے خیر آباد کہہ کر ناول نگاری شروع کر دی۔
  وقت؛ کہانی کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟ 
  امجد جاوید؛مجھے یہ اندازہ ہی نہیں تھا کہ میرے اندر کوئی تخلیقی صلاحیت ہے بھی یا نہیں۔تا ہم مجھے مصوری کا بہت شوق تھا۔باقاعدہ کہیں سیکھنے کا موقعہ نہیں ملا ۔رنگوں سے خود ہی کھیلتا اور خود ہی خوش ہو لیا کرتا تھا۔پھر پنسل سے چہرے بنانے لگا۔اس میں کافی حد تک مہارت آ گئی تھی ۔پھر مجھے سمجھایا گیا کہ تصویریں بنانا جائز نہیںتو میں نے یہ سلسلہ یکسر ختم کر دیا۔ممکن ہے میرے اندر کی یہی صلاحیت مجھے اُکساتی رہی ہو۔یہاں تک کہ میں لفظوں سے تصویریں بنانے لگ گیا ۔آج بھی خوبصورت رنگوں والی تصاویر مجھے اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں۔ لکھنے کی جانب میری توجہ اس لیے بھی گئی کہ مجھے مطالعہ کا بہت شوق تھا۔شاید ہوش سنبھالنے سے پہلے ہی اخبارات کے بچوں والے صفحات ،بچوں کے رسالے پڑھتا تھا۔ ایک دن اچانک یہ خیال آیا کہ کیا میںبھی کہانی لکھ سکتا ہوں؟ میں نے کوشش کی کہانی لکھی اور وہ شائع ہو گئی۔ پھر کہانیوں کا سلسلہ چل نکلا۔
وقت؛صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد صحافت کی بجائے کہانی اور ناول کی دنیا میں کیسے گئے؟
  امجدجاوید؛ کہانی لکھتا تو تھا، کوئی مختصر اور کوئی طویل،اپنے ایک دوست سیف اللہ خالد کی وساطت سے لاہور میں گل فراز احمد سے ملاقات ہوئی ، بس پھر ناول شروع ہوگیا۔یہ اللہ پاک کا کرم اور قارئین کی پسند ہے کہ یہ سلسلہ دراز ہے۔ 
   وقت ؛کہانیاں محض تفریح طبع کا ذریعہ ہوتی ہیں ۔یا ان کا مقصد اصلاح کا باعث بھی بنتا ہے۔
  امجد جاوید؛ میں نہیں سمجھتا کہ کہانی یا افسانہ بلا مقصد لکھا جاتا ہے ۔کہانی یا افسانہ وہی کامیاب اور موثر ہوتا ہے جس میں مقصدیت ہو۔قاری اپنے ذوق سے مخلص ہوتا ہے۔وہ کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کرتا ہے ۔ کہانی تو زندگی ہے۔ شعور سے پہلے ہی ہم کہانی سن رہے ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ شعر میں بھی کہانی ہوتی ہے۔ 
   وقت؛ کہانی کے لئے آپ کی طبیعت کا رجحان کیا تھا، موضوعات کس طرح منتخب ہوئے؟ 
  امجد جاوید؛الحمد للہ موضوعات کی میرے لئے کبھی کمی نہیں رہی۔اصل میں انسان اتنا بڑا موضوع ہے ،کہ ختم نہیںہو سکتا۔ جو کچھ بھی ظہور ہو رہا ہے، یہ انسانی وجود کے دم سے ہے۔ کائنات میں ہلچل، نت نئی ایجادات ، رویے، جذبات اور نجانے کیا کچھ، یہ سب انسان سے ہیں۔ کہانی اور انسان ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔ اور انسان پر سب سے زیادہ اثرات اس کے مذہب کے ہوتے ہیں۔ شاید مجھ پر تصوف اور عشق کے اثرات غالب تھے ، سو میرا رجحان اسی طرف ہو گیا۔ میرے لئے موضوع مسئلہ نہیں، وقت کی کمی ہے۔ 
  وقت؛ عملی میدان میں کن شخصیات سے متاثر ہوئے، کن لوگوں سے رہنمائی پائی؟
  امجد جاوید؛ بہت ساری شخصیات ہیں۔میں اس معاملے میں خوش قسمت ہوں کہ میری رہنمائی کرنے والے مجھے ملتے رہے اور اب بھی ہیں۔ ان میں سب سے پہلے میری استاد میری والدہ محترمہ ہیں، جو خود تو لکھ پڑھ نہیں سکتی تھیں، لیکن مجھے لکھنا سکھایا۔ میرے استاد محترم خورشید صاحب، یونیورسٹی میں سجاد پراچہ صاحب، روزنامہ جنگ میں عبدالرحمن جامی، عابد مسعود تہامی، آصف علی پوتا، فرح وڑائچ، ملک اسلم تھے۔ شمیم نوید اور اختر حسین شیخ صاحب سے کہانی بارے سیکھا۔ڈرامہ میں عرفان مغل ہیں۔ مطلب میں ہر وقت سیکھنے کو ترجیح دیتا ہوں۔ اور رب تعالی میرے لئے پیدا کرتے ہیں۔ 
  وقت؛ ادب کی دنیا میں ناول کی کیا اہمیت ہے، معاشرے پر ناول کیا اثرات مرتب کرتاہے؟ 
  امجد جاوید؛ ناول ادب کی ایک اہم صنف ہے اور اس کے معاشرتی زندگی پر گہرے اثرات ہیں۔آپ دیکھیں کہ جس طرح وقت اور حالات بدلے ہیں، ناول ایک ایسے تجربہ کی صورت ہمارے سامنے ہے، جو ماضی سے سبق اور مستقبل دونوں کی بابت رہنمائی کر رہا ہے۔ان تو ناول کی دنای میںبڑی وسعت آ چکی ہے۔
  وقت؛ کتنے ناول لکھ چکے ہیں، کتنے جاری ہیں، مستقبل میں کیا ارادے ہیں؟ 
  امجد جاوید؛ عشق کا شین (حصہ دوم، سوم)، عشق کا قاف، چہرہ، تاج محل، جب عشق سمندر اوڑھ لیا، ذات کا قرض، سائبان سورج کا، روشن اندھیرے، عشق سیڑھی کانچ کی، عشق کسی کی ذات نہیں، عشق فنا ہے عشق بقا، کیمپس، امرت کور، فیض عشق، قلندر ذات (اول، دوم، سوم) دھوپ کے نکلنے تک۔ اور کافی پر اجیکٹ ہیں۔
  وقت؛ ناول یا کہانی لکھنے کے لئے ماحول، معلومات اور وقت وغیرہ کی کیا اہمیت ہے ؟ 
  امجد جاوید؛ یہ تو بہت ضروری ہے۔کسی بھی کہانی کے لئے ماحول تو چاہئے۔ وہاں کے بارے میں معلومات ہوں تو زیادہ دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔میں ہمیشہ اپنی کہانی کو تحقیقی بنیاد ضرور دیتا ہوں۔
  وقت؛ دوردراز اور پسماندہ علاقہ میں رہ کر ادب کی کسی صنف میں کام کرنا کیسا تجربہ ہے؟
  امجد جاوید؛ادبی مرکز سے دوری کے اثرات تو بہر حال ہوتے ہیں۔ ماحول بہت اثر انداز ہوتا ہے۔مضافاتی تخلیق کار میں تحقیق کا فقدان پایا جاتا ہے، اس کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں،۔ کتابوں تک رسائی، جدید سہولیات سے عدم واقفیت،،عدم دستیابی اور استفادہ نہ کر پانا، معلومات نہ ہونا، رابطوں کا فقدان، اشاعتی اور ادبی وسائل فراہم کرنے والے اداروں سے نا آشنائی وغیرہ ہیں، دوسری طرف ”تخلیق کا رکی تلاش“ جیسا عمل ابھی ہمارے ہاں شروع نہیں ہوا مگر اب میں دیکھ رہا ہوں کہ اس پر بھی کام ہو رہا ہے۔
  وقت؛ ادبی گروہ بندی کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
  امجد جاوید؛ادبی گروہ بندی دراصل دوستوں کے حلقے کا نام ہے، جو بذات خود غلط عمل نہیں ہے۔ جس کا حلقہ احباب جتنا وسیع ہوگا، وہ اتنا ہی اطلاعات اور سہولیات سے قریب رہے گا۔ کہاجا سکتا ہے کہ یہ محض الزام ہے لیکن جہاں اس کے فائدے ہیں وہاں اس کے نقصان بھی ہیں ۔ دراصل جب اس میں انتہا پسندی اور اقربا پروری یا ان لوگوں کو نوازا جاتا ہے جو تخلیق کا نہیں ہوتے تو پھر یہ غلط عمل بن جاتا ہے۔ جس کی ایک چھوٹی سی مثال دوں گا کہ آپ نے گذشتہ برس کے افسانوی ادب پر تجزیات دیکھے ہوں، انہیں دیکھ کر ہنسی آتی ہے، اور افسوس بھی۔اس میں دو اتنہائیں پیدا ہوتی ہیں۔خوامخواہ نوازتے رہنا اور خوا مخواہ کی منفی تنقید۔اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ مقابلے کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ اور برا پہلو یہ ہے نو آموز کوا پنی جگہ بنانے میں بہت توانائی ضائع کرنا پڑتی ہے۔بہر حال یہ وقت ثابت کرتا ہے کہ اصل میں تخلیق ہی زیادہ جاندار ہوتی ہے۔ گروہ بندی کچھ نہیں۔
  وقت؛ ادب کی دیگر اصناف میں سے کس کس میں طبع آزمائی کی؟ 
  امجدجاوید؛ شاعری بھی کی، ڈرامہ بھی لکھا، شاعری میں میرا مجموعہ تمہیں چاہوں گا شدت سے موجود ہے۔ ٹی وی سیریل پہچان لکھا، سکھاں ایک دوسرا ڈرامہ ہے، جس کا سکرپٹ ایڈیٹر تھا۔ 
  وقت؛ ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں کے مالی حالات میں اتنا فرق ؟ یعنی کوئی لکھ پتی تو کوئی ککھ پتی؟ 
  امجدجاوید؛ لکھاری کے لئے معاوضے کا بہت بڑا کردار ہے ۔ آخر ایک ادیب کب تک مشن کے لئے لکھتا رہے گا؟ جتنا زیادہ معاوضہ ملے گا، اتنا زیادہ بہتر کام ہوگا ۔ مقابلے کی فضا بنے گی۔ زیادہ محنت ہوگی۔ قلم کار کو اس کا معاوضہ ضرور ملنا چاہئے۔ یہ مہمیز کا کام کرتا ہے۔ 
  وقت؛ کمپیوٹر، موبائل اور ٹی وی چینلز کی بھرمار کے بعد کتاب کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے؟ 
   امجد جاوید؛ یہ ایک خوف تھا، جو نہیں رہا ۔ کتاب کی اہمیت بڑھی ہے۔ یہ وقت نے ثابت کر دیاہے۔
  وقت؛ کتب بینی کے فروغ کے لئے تجاویز!
   امجد جاوید؛لکھنے پڑھنے کا ہر کام تحقیقی بنیادوں پر ہو، لائیبریری تک رسائی آسان بنا دی جائے، اور سب سے اہم بات کوئی تو ملک میں ایسا ادارہ ہو جو کسی کتاب کو اس کی حیثیت دے کہ یہ ادب کے کسی مقام پر ہے بھی یا نہیں۔ 
  

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *