Saturday 20 January 2018

ماں جیسی ۔۔۔ امجد جاوید

ماں جیسی
امجد جاوید 



فون زاری بیگم ہی نے اٹھایا تھا ،لیکن اس کی ”ہیلو“ مجھے عجیب سی لگی۔میںجو کھنکتے ہوئے منفرد سے لوچ دار لہجے میں توقع کر رہا تھا ،اس کی بجائے مجھے کھرداراور خشک لہجہ سننے کا ملا تھا۔
”خیریت تو ہے زاری بیگم،آپ کی طبعیت تو ٹھیک ہے نا؟“ میں نے چند تمہیدی فقروں کے تبادلے کے بعد اس کی آواز کے حوالے سے پوچھا تو وہ غصے میں لپٹے ہوئے بظاہر نرم لہجے میں بولی۔
”کیا بتاﺅں میں آپ کو،ان دنوں میں ایک ایسی پریشانی میں گھر گئی ہوں،جو کسی کو بتا بھی نہیں سکتی۔“
”پریشانی ،بتا نہیں سکتی،معاملہ کیا ہے؟“ میں نے تجسس سے پوچھا
”پھر کسی وقت سہی،اس وقت تو آپ یہ بتائیں کہ میں آپ کی کیا خدمت کر سکتی ہوں۔“اس نے واضح طور پر میری بات نظر انداز کرتے ہوئے دوسرے لفظوں میں کام کی بات کرنے کو کہا۔تو میں نے بھی اس کے معاملے کو چھیڑنا مناسب نہیں سمجھا۔اس لیئے سیدھے اپنے مطلب پر اتر آیا۔
”آپ نے یہاں آفس آنا تھا۔اورپھر آپ نے کچھ ماڈل گرلز سے بھی ملوانے کا وعدہ کیا تھا۔میری فوٹو گرافر روزانہ مجھ سے پوچھتی ہے اور آ پ کا کوئی پتہ نہیں ہے۔“میں نے صاف انداز میں اس سے پوچھا۔
”اوہ۔!“اس نے یوں کہا جیسے وہ بھول گئی ہو،پھر لمحہ بھر توقف کے بعد بولی”مجھے سب یاد ہے لیکن میں کیا کروں۔میں ذہنی طور پر اس قدر پریشان ہوں کہ۔۔۔بس کیا بتاﺅں۔پلیز یہ سب کسی اور وقت پر رکھ لیں ۔میں شاید ان دنوں کوئی بھی وعدہ نبھانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں۔“اس نے اسی کھردرے اور خشک لہجے میں کہا تو میں نے مزید بات کرنا مناسب ہی نہ سمجھا ،سو چند الوداعی باتوں کے بعد فون بند کر دیا۔
زاری بیگم اداکارہ تھی،کسی زمانے میں جب ٹیلی وژن کی رنگین نشریات شروع ہوئیں تھیں ،انہی دنوں زاری بیگم نے بحثیت اداکارہ اس دنیا میں قدم رکھا تھا۔وہ بھر پور جوان،حسین اور معصوم چہرے والی اداکارہ تھی۔جس نے ایک ہی ڈرامہ سیریل کے بعد شہرت پا لی تھی۔ویسے بھی ان دنوں ایک ہی ٹی وی چینل تھا اور عوام وہی چینل دیکھنے پر مجبور تھے۔اداکار بھی اتنے ہی سے تھے کہ ان کے چہروں کو بخوبی یاد رکھا جا سکتا تھا۔ایسے میں کوئی نیا اور متوجہ کر لینے والا چہرہ بہت جلد مقبول ہو جاتاتھا۔ابھی اس نے عوام کے ذہنوںمیں جگہ بنائی ہی تھی کہ اچانک وہ منظر سے غائب ہوگئی۔اس کے بارے میں مختلف افوائیں گردش کرنے لگیں۔کسی نے سرخی جما دی کہ وہ شادی کر کے وطن سے باہر چلی گئی ہے،کوئی اس بات پر زور دے رہا تھا کہ وہ کسی جاگیر دار کو پسند آ گئی ہے،اس لیے وہ منظر سے غائب ہو کر اسے پیاری ہو چکی ہے۔ایک میگزین نے یہ تو یہاں تک ثابت کر نے کی کوشش کی کہ وہ ہیروین سمگل کرتے ہوئے پکڑی گئی ہے اور اب دوبئی کی کسی جیل میں ہے۔ہر بات کے ساتھ ایک لمبی کہانی بھی تھی۔افواہ چونکہ پہاڑ کی چوٹی سے گرنے والی برف ہوتی ہے۔جوں جوں نیچے گرتی ہے وہ تودہ بن جاتی ہے اورپھر تودہ پگھل کر زمین میں جذب ہو جاتا ہے۔ بالکل ایسی طرح وقت کے ساتھ یہ افوائیں بھی دم توڑ گئیں۔زاری بیگم قصہ پارینہ بن گئی ۔ میں جب شوبز سے متعارف ہوا تو میں اس پس منظر سے واقف نہیں تھا ۔تا ہم ایک اشتہاری کمپنی میں کام کرنے والے میری دوست زاہد بخاری نے یونہی باتوں کے دوران مجھ سے کہا۔
”او یار۔!یاد آیا،تمہارے پاس ایک اداکارہ آئے گی زاری بیگم،پہلے وہ فون کرے گی۔اس کا بہت خیال رکھنا۔وہ میرے کرم فرماﺅں میں سے ہے۔بہت جگہ میرے کام آئی ہے۔نہ صرف اپنے میگزین کے لیئے بلکہ اپنے اخبار کے شوبز رپورٹر سے بھی ملوا دینا۔“
”حدود اربعہ کیا ہے اس کا؟“میں نے ایک خاص اصلاح میں رازی بیگم کے بارے میں مزید معلومات چاہیں۔تب اس نے پس منظر بتاتے ہوئے کہا۔
”باقی تم اس سے ملو گے نا تو وہ تمہیں اپنے بارے میں وہ سب بتا دے گی جو تم پوچھنا چاہو۔تب سارا ہی حدوداربعہ معلوم ہو جائے گا۔اس کی سب سے بڑی صلاحیت یہ ہے کہ تیرے جیسے خشک بندے کو بھی اپنا بنالے گی،بہت ملنسار اور کام آنے والی خاتون ہے۔“
”چلو آئے گی تو دیکھا جائے گا۔مگر مجھے یوں لگا ہے کہ جیسے تم اس کے وکیل ہو۔“میں نے ہنستے ہوئے خوشگوار موڈ میں کہا۔
”یار تم یہی سمجھ لو۔“اس نے بھی ہنستے ہوئے کہا اور پھر ہم اپنی باتوں میں مگن ہو گئے۔
زاہد بخاری سے بات ہوئے تقریباً دو ہفتے ہوئے تھے۔اپنی مصروفیت میں زاری بیگم کا نام بھی ذہن سے اتر گیا تھا۔ایسے ہی ایک چمکتے ہوئے دن انٹر کام پر استقبالئیے سے معلوم ہوا کہ موصوفہ وہاں آئی کھڑی ہے۔میں نے اسے اندر اپنے کمرے میں بلوالیا۔پہلی نگاہ میں وہ قطعاً ادھیڑ عمر دکھائی نہیں دیتی تھی۔جوانی کا خمار اب بھی اس کے چہرے پر جھلک رہا تھا۔ا چھی صحت کی بدولت اس میں جوانی کے دور میں دکھائی دینے والی لڑکی جھلک رہی تھی۔اس دور میں خواتین جو سنگھار کرتی تھیں،اپنا ہیر سٹائل بناتی تھیں یا ملبوسات کی ایک خاص تراش ان دنوں میں مقبول تھی۔وہ سارا عکس اس میں دکھائی دے رہا تھا۔ یوں جیسے سن اسی کی دہائی میں لکھے گئے کسی افسانے کی ہیروین حقیقی روپ میں سامنے آ گئی ہو۔یہ حقیقت ہے کہ وقت کے ساتھ اس کی عمر میں اضافہ ہوا تھا لیکن لگتا یوں تھا کہ جیسے وقت اس پر ٹھہر گیا ہو۔وہ وقت جو اس کا اپنا پسندیدہ تھا ،اور جس میں رہنا وہ پسند کرتی تھی۔وہ میرے سامنے والی کرسی پر بیٹھ چکی تھی۔تھوڑی دیر باتوں کے بعد جب ہم کافی پی چکے تو میں نے پوچھا۔
”جی فرمائےے۔میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں۔“
”دیکھئے۔!اس وقت میں کسی بھی کام سے نہیں آئی۔کئی دنوں سے سوچ رہی تھی کہ آپ سے ملوں۔آج ادھر سے گذر رہی تھی ،سوچا ملتی جاﺅں۔“اس نے کھنکھتی ہوئی آواز اور لوچ دار لہجے میں کہا۔
”یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا۔“میں نے بھی تکلفاً کہا۔
”آج میں آپ کو خصوصی طور پر دعوت دینے آئی ہوں کہ جب بھی آپ کو فرصت ہو ،میرے غریب خانے پر تشریف لائیں،وہیں پر کام کی باتیںبھی ہو جائیں گے۔“اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ممکن ہے اس طرح بہت دن لگ جائیں اورمجھے فرصت نہ ہو،آپ پلیز بتائیں۔تکلف کی ضرورت نہیں ۔زاہد بخاری میرا بہت اچھا دوست ہے۔میں ہر ممکن حد تک۔۔۔“میں نے کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”میں چاہتی ہوں کہ ایک پر سکون ماحول میں کام کی باتیں ہوں۔اور پھر جس طرح بخاری صاحب آپ کے دوست ہیں۔ہم بھی آپ کے دوست بن جائیں کیا خیال ہے؟“اس نے ایک دوسرے انداز میں اپنی ہی بات منوانا چاہی۔شاید وہ مجھے احساس دلا رہی تھی کہ وہ اپنی بات منوانا جانتی ہے۔
”خیال تو بہت اچھا ہے۔لیکن یہاں مصروفیت ہی اتنی ہو تی ہے۔میں فقط شوبز ہی نہیں دیکھتا بلکہ پورا میگزین۔۔۔“
”میں آپ کو فون کر کے یاد دلاتی رہوں گی۔جب بھی آپ کو موقع ملے۔“اس بار زاری بیگم نے ہنستے ہوئے کہا تو میں نے بھی وہیں بات ختم کر دینازیادہ مناسب سمجھا۔”یہ میرا فون نمبر ہے۔آپ اس پر کال کر سکتے ہیں۔“اس نے ایک کاغذ پر اپنا نمبر لکھتے ہوئے کہا۔پھر تھوڑی دیر بیٹھ کر وہ چلی گئی۔
اگلے ہفتے میں اس نے تین بار مجھے یاد دہانی کروائی تو پھرایک دن میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا۔اس وقت شام ہونے کو تھی جب میں اس کے گھر کے لیے اپنے آفس نے نکلا۔تقریباً آدھے گھنٹے کی مسافت کے بعد میں اس علاقے میں پہنچ گیا جو کسی زمانے میں لاہور کا پوش علاقہ تصور کیا جاتارہا تھا۔قیام پاکستان کے فوراً بعد وہاں بہت بڑے بڑے نام والی شخصیات یا پھر امیر آدمی وہاں پر رہائش پذیر تھے۔ میں جس گھر کے سامنے پہنچا وہ پرانے طرز کے بنگلے جیسی عمارت تھی۔کچھ دیر بعد میں ایک سجے ہوئے ڈرائنگ روم میں تھا،جس کی سجاوٹ دیکھ کرمجھے یوں لگا جیسے میں سن اسی کی دہائی میںبننے والی اردو فلموں کے کسی سیٹ پر بیٹھا ہوا ہوں۔میرا زاری بیگم کے بارے میں یہ تاثر بن گیا کہ وہ اپنے عروج کے زمانے میں ہی کہیں کھوگئی ہے۔اس نے جدید فیشن کو نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنے گھر کے لیئے بھی قبول نہیں کیا۔ تقریباً ایک گھنٹے کی گپ شپ کے بعد زاری بیگم کے ساتھ تکلف کی فضا ختم ہوگئی اور اس کی جگہ خوشگوار ماحول نے لے لی تھی۔پھر رفتہ رفتہ چند ملاقاتوں کے بعد کام کی باتیں بھی ہونے لگیں بلکہ میں اس کے بارے میں بہت واضح ہو گیا۔
زاری بیگم نے سن اسی کی دہائی میں فقط شوق کے تحت اداکاری شروع کی تھی۔اس کی والدہ ،قیام پاکستان سے پہلے امرتسر کی مشہور طوائفوں میں سے ایک تھی۔وہ اگست47ءسے پہلے ہی ہندوستان چھوڑ کر پاکستان کے شہر لاہور میں آبسی تھی۔امر تسر میں اس کا اچھا خاصا رکھ رکھاﺅ تھا۔جو اس نے یہاں بھی آ کر برقرار رکھا ۔وہ اپنے ساتھ ساری جمع پونجی بھی لے آئی تھی اور وہاں کا محل نما مکان بیچ کر اس کے دام بھی کھرے کر لیے تھے۔یہاں آ کر اس نے اپنا آبائی پیشہ چھوڑ دیا او ر اپنے ہی پرانے واقف کاروباری آدمی سے شادی کر لی۔اس کی اولاد میں تین بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں،جن میں زاری بیگم سب سے آخری اولادتھی جیسے بہت لاڈ پیار ملا۔زاری بیگم نے اپنے گھر میں کاروباری گھرانے جیسا انداز بھی دیکھا تھا۔گھنگھرو طبلے کی آواز کو تو جسے وہ دفن کر چکے تھے۔لیکن جب تک وہ جوان ہوئی،اس وقت تک فلموں اور ٹی وی ڈراموں کا ایک کریز بن چکا تھا۔اس نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو ساتھ میں اداکاری کا شوق بھی پروان چڑھ چکا تھا۔اداکاری کی خواہش اس لیے بھی شدت اختیار کر گئی تھی کہ ان کے لیے ٹی وی کوئی بہت دور کی شے نہیں تھی۔بلکہ ذرا سی کوشش کے بعد اسے ایک سیریل مل گئی۔جس میں اس نے جتنا ضد کر کے کام کیا اتنا ہی اداکاری کے جوہر دکھائے۔شہرت جہاں بہت تیز نشہ ہے وہاں بعض اوقات وبال جاں بھی بن جاتی ہے۔زاری بیگم کے منظر عام پر آتے ہی امر تسر والی طوائف کی شہرت بھی سامنے آنا شروع ہو گئی جو اتنے برس گذر جانے کے بعد حالات کی گرد میں چھپ گئی تھی اور کاروباری حلقے میں ان کی پہچان ایک نئے انداز میں ہوگئی تو کسی نے ماضی ٹٹولنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی تھی۔جب اس نے اداکاری شروع کی تو دبے دبے لفظوں میں حالات کی گرد کے نیچے پڑی پہچان واضح ہونے لگی۔اور پھر شہرت نے کسی تیز ہوا کی مانند ساری گرد اڑا دی۔تب زاری بیگم کے بہن بھائیوں نے اس کی شدت سے مخالفت کی اور اسے دبا کر چاردیواری تک محدود کر دیا۔شوبز تو کیا،اس سے متعلق کسی فرد کی رسائی زاری بیگم تک نہ ہوئی۔یوں افواہوں کا بازار گرم ہوا تھا جو دھیرے دھیرے ماضی کا حصہ بن گیا تھا۔زار ی بیگم کی شادی لاہور ہی کے ایک کاروباری گھرانے میں ہو گئی۔اس کا شوہر افضل بٹ اسے بیاہ کر اسی گھر میں لے آیا۔جہاں وہ ان دنوں رہ رہی تھی۔
افضل بٹ،ان لوگوں میں سے تھا جو فقط دولت بنانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں ۔یہ دولت کس طرح اور کیسے آتی ہے،اس سے انہیں غرض نہیں ہوتی۔اس نے ایک شاندار ہوٹل اور ایک شاپنگ پلازہ بنایا۔جس سے وہ فکر معاش سے آزاد ہو کر اپنے کاروبار کر بڑھانے کی تک و دو میں لگ گیا۔افضل بٹ طبعاً عیاش قسم کا بندہ تھا ۔اس کی سرگرمیاں زیادہ تر انہی لوگوں کے ساتھ تھیں، جو شوبز سے تعلق رکھتے تھے۔وقت گذرنے کے ساتھ دھیرے دھیرے افضل بٹ کو اس دنیا سے بھی دولت کمانے کے ذرائع دکھائی دیئے تو وہ پروڈیوسر بن گیا۔اس شعبے میں آنے کے لیے بلاشبہ زاری بیگم نے بھی بہت زیادہ حوصلہ افزائی کی تھی ۔یوں اس کام میں دونوں کی خواہش شامل ہو گئی۔افضل بٹ کا شوبز میں اچھا خاصہ حلقہ بن گیا تھا۔جبکہ اپنی دلچسپی کے تحت زاری بیگم بھی اس کاروبار میں شریک ہو گئی۔جو دن بدن بڑھتا چلا گیا۔
زاری بیگم کے من میں اداکاری کی خواہش راکھ میں دی ہوئی چنگاری کی طرح موجود رہی تھی۔اس کا بہت جی چاہتا تھا کہ وہ اداکاری کرے۔لیکن ایک تو اپنی سطح کا لحاظ کرتے ہوئے اور دوسرا بہن بھائیوں کے خوف سے جس کا ماضی سے سامنا تھا۔وہ اداکاری نہ کر سکی تھی۔تا ہم اپنے بزنس کو سپورٹ دینے والے لوگوں سے ملنا ملانا اور دوسرے اقدامات وہی کرتی رہی،جس میں صحافیوں سے اچھے تعلقات بھی شامل تھے تا کہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے بہت اچھا تاثر عوام تک پہنچ سکے۔جو بلاشبہ مضبوط تعلق کی بناءپر ہو سکتا تھا۔پھر ایک دن آیا کہ راکھ کی چنگاری کو ہوا مل گئی۔ اس نے اپنی ہی بڑے بجٹ کی ایک ٹی وی سیریل میں ایسا بھر پور کردار نبھایا کہ وہ فوراً ہی لوگوں کی نگاہ میں پہچان بنا گئی۔نجانے کب سے تشنہ خواہش پوری ہوئی تھی۔زاری بیگم کو جو توقع سے زیادہ شہرت ملی تو وہ اپنے اس تاثر کر برقرار رکھنا چاہتی تھی۔ ظاہر ہے اس میں اپنی شہرت کیش کرانے کی خواہش بھی تھی۔سوانہی دنوں میری اس سے ملاقات ہوئی تھی۔زاہد بخاری کے کہنے پر میںنے اس سے کافی کام لیئے۔ زاری بیگم نے بھی میری مدد کی۔میری اس سے فقط یہی دلچسپی تھی کہ مجھے ہر ہفتے سر ورق سجانے کے لیے نئی ماڈل کی ضرورت ہوتی تھی۔سو یہ مسئلہ حل ہو گیا۔اس کے رابطے میں ایسی کئی ماڈل گرل تھیں جو اداکاری کی خواہش میں ماڈلنگ کرتی تھیں۔میری فوٹو گرافر چونکہ این سی اے سے تعلیم یافتہ تھی،اس لیے وہ بھی اپنے آپ میں مہان شے تھی۔اس کا بھی کام آسان ہو گیا۔یوں ہمارے درمیان تعلق بڑھتا گیا۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ زاری بیگم کی سمجھ بوجھ تھی کہ اس نے ہمیشہ میرے ساتھ بہت اچھا برتاﺅ کیا تھا۔یعنی معمول کے اس برتاﺅ سے ہٹ کر جو عام شوبز رپورٹر کے ساتھ تھا۔اور پھرمیں شوبز رپورٹنگ کا بندہ بھی نہیں تھا۔اس لیے میں نے کوئی غرض یا مطلب نہیں رکھا تھا۔ہاں۔!ایک بات جو مجھے اچھی لگتی تھی وہ اس کا کھنکھناتا ہوا لوچ دار لہجہ تھا بعض اوقات میں وہ سننے کے لیے طویل بات کر جایا کرتا تھا۔اس سے جو بات بھی ہوتی ،اس میں بہر حال خوشگواریت کا تاثر ضرور ہوتا تھا۔اس دن جب میں نے اس کا کھردرا لہجہ سنا تو مجھے قطعاً اچھا نہیں لگا تھا۔میں اس بارے سوچ ہی رہا تھا کہ اس کا فون آ گیا۔
”آپ ناراض تو نہیں ہوئے؟“اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں پوچھا۔
”نہیں۔!میں ناراض نہیں ہوا۔بلکہ مجھے یہ اچھا لگا کہ آپ نے کسی بہانے کا سہارا نہیں لیا ۔بلکہ مجھے صاف بتادیا۔ورنہ میں آپ سے امید رکھتے ہوئے کسی دوسرے ذریعہ سے رابطہ نہ کرپاتا۔یہ تو اچھی بات ہے۔“ میں نے مروتاً کہا۔حالانکہ ایسا کہنے کو میرا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا۔ایسا کیوں تھا۔میں فوری طور پرا س کی وجہ نہیں سمجھ سکا تھا۔
”یہ آپ کی مہربانی ہے کہ آپ نے ایسا سوچا،لیکن اب میں نے دھیان دیا ہے تو مجھے لگا کہ میں آپ کو اپنا مسئلہ بتا دوں۔“اس نے تذبذب سے کہا۔
”اب میں اس پر کیا کہہ سکتا ہوں۔“میں کسی بھی ردعمل کا اظہار نہ کرتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔
”آپ پلیز ایسا کیجئے کہ آج ہی ،بلکہ ابھی وقت نکالیں اور میرے ہاں آ جائیں۔میں یہاں آپ کو تفصیل سے بتاتی ہوں۔“اس نے اپنائیت بھرے انداز میں کہا۔
”میں دفتر سے گھر جاتے ہوئے آپ کے پاس آ جاﺅں گا۔“میںنے حتمی سے لہجے میں کہا تو وہ ذرا سے خوشگوار لہجے میں بولی۔
”ٹھیک ہے ،میں انتظار کر رہی ہوں۔“پھر چند باتوں کے بعد فون بند ہو گیا۔
اس وقت شام کے سائے ڈھل جانے کے باعث شہر بھر میں برقی قمقمے روشن ہو چکے تھے۔جب میں اس کے ہاں پہنچا۔وہ بڑے تپاک سے ملی۔پھر سہولت سے بیٹھ جانے کے بعد بولی۔
”دراصل میں اس مسئلے میں تشہیر نہیں چاہتی ،کیونکہ اس میں سراسر میرا اپنا ہی نقصان ہے۔یہ معاملہ ایسا ہے کہ اگر کسی صحافی کے ہاتھ لگ گیا تو میں خواہ مخواہ منفی قسم کی خبروں میں آ جاﺅں گی۔آپ کو معلوم ہے کہ میرے سو سجن ،سو دشمن ہیں۔“
”آپ نے تو کبھی کسی سے نہیں بگاڑی؟ پھر آپ کے سو دشمن کیسے؟“ میں نے حیرت سے کہا۔
”ایسا ہو گیا ہے نا۔“اس نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا۔پھر لمحہ بھر توقف کے بعد بولی۔”خیر۔!میں آپ کو بتاتی ہوں ،لیکن ،پلیز یہ خبر کے لیے نہیں ہے بلکہ میں آپ سے مدد کی خواہاں ہوں۔“اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
”چلیں ،آپ بتائیں تو سہی۔“میں نے تجسس سے پوچھا۔
”یہ جو ابھی میری ٹی وی سیریل چلی ہے،اس میں میرا کرداربہت بھرپور قسم کا تھا۔رائٹر سے میں نے خود لکھوایا تھا۔یہ آپ کو بھی معلوم ہے،اس سے مجھے ایک خاص قسم کا بوم ملا ہے۔میرا شوق بھی پورا ہو گیا اور آئندہ مستقل اداکاری کا موقع بھی مجھے مل گیاہے۔بہت عرصے سے میرے دل میں ایسی خواہش تھی ۔میری اس خواہش کے بارے میں آپ کو بھی پتہ ہے۔“یہ کہہ کر اس نے پہلو بدل کر بڑے ڈرامائی انداز میں کہا۔”اب ہوا یوں کہ جہاں بٹ صاحب نے اپنی نئی سیریل کے لیے ایک کردار مجھے آفر کیا ہے بلکہ دو ڈائریکٹر تو مجھے سائن بھی کر چکے ہیں۔اب وہ کیسا کردار لکھوائیں گے یہ مجھے نہیں معلوم،میرا ان سے بہر حال معاہدہ ہو گیا ہے۔“
”ایک منٹ۔“میں نے اس کی رواں گفتگو کو روکا اور پوچھا۔”کوئی سے کردار سے آپ کی مراد کیا ہے؟“
”مطلب،وہ میری شخصیت کو دیکھ کر ہی کردار لکھوائیں گے ،خیر یہ ایک ضمنی سی بات تھی،میں اصل بات بتاتی ہوں،“اس نے کہا تو میں خاموش ہو گیا۔یعنی یہ ابھی تمہید ہی تھی۔”میں ان کی سیریل میں کام کروں گی یہ طے ہے ،اور دوسرا ایک فلم کے لیے بھی میرے ساتھ بات چل رہی ہے۔لیکن۔!نجانے کون دشمن ہے ،چند دنوں سے وہ مسلسل فون پر مجھے دھمکیاں دے رہا ہے کہ میں اداکاری بالکل نہ کروں،اگر کی،تو وہ مجھے جان سے مار دے گا۔“ اس نے یوں کہا جیسے ایک بہت بڑی بات کا بوجھ اس کے سر پر سے ہٹ گیا ہو۔مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔
”کون ہے وہ ۔مطلب اس نے اپنا کوئی نام یا کوئی پہچان بتائی۔“میں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
”نہیں نا،ایسا ہی تو نہیں ہے۔ورنہ میں اب تک اسے تلاش کر کے۔اس تک پہنچ نہ گئی ہوتی۔آپ کو پتہ ہے کہ میںاتنی کمزور نہیں ہوں۔اب یہ بھی معاف کر دینے والی با ت نہیں ہے کہ کوئی ایرا غیرا اٹھ کر مجھے دھمکیاں دینا شروع کر دے۔“ اس نے دبے دبے غصے میں کہا۔تو میں چند لمحے سوچتا رہا پھر پوچھا۔
”زاری بیگم ۔!آپ کو یہ کیسے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کوئی ایرا غیرا ہی ہے؟“میں نے کہا تو وہ چونک گئی۔تب میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔”اس نے کوئی ایسی وجہ بتائی کہ وہ کیوں آپ کو اداکاری نہ کرنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔کوئی شرط یا کوئی بلیک میلنگ یا پھر کوئی مطالبہ؟“
”میںنے پوچھا تھا اس سے کہ وہ کیوں ایسا کہہ رہا ہے۔جس پر اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔بس اس کا یہی مطالبہ ہے کہ میں اداکاری نہ کروں۔ورنہ وہ مجھے جان سے مار دے گا۔اس کے علاوہ وہ کوئی بات ہی نہیں کرتا۔اب یہ بات کہ مجھے اس کے ایرے غیرے ہونے کا احساس کیوں ہوا۔تو ظاہر ہے میری شہرت سے کسی نے حسد محسوس کیا ہو گا اور اس نے کوئی غنڈہ بد معاش میرے پیچھے لگا دیا ہے کہ میں ڈر جاﺅں اور اداکاری سے باز آ جاﺅں۔“
”آپ کے خیال میں وہ کون ہو سکتا ہے؟“ میں نے پوچھا۔
”وہ کوئی بھی ہے،ادھرشوبز ہی کے حلقے میں سے ہے۔بہت قریب ہی ہے لیکن، اسے معلوم ہے کہ میں نئے معاہدے سائن کر چکی ہوں ۔اور مزید بات چیت کر رہی ہوں۔“وہ ایک تنتنے سے بولی۔
”آپ کو علم ہے کہ پچھلے دنوں بازار حسن میں بھی ایک نوجوان اداکارہ کا قتل ہوا ہے ۔پھر بھی آپ یہ خیال کر رہی ہے یہ کوئی محض حاسد ہے جو آپ کو اداکاری سے روکنے کے لیے دھمکیوں پر اتر آیا ہے۔میں نے اسے حالات کا ایک نیا پہلو دکھایا تو وہ چند لمحے سوچتی رہی ۔پھر بولی۔
نہیں،یہ وہ بازار حسن والی بات نہیں ہے۔وہ کوئی اور معاملات تھے۔میرے معاملات میں تو یقینا کوئی میری شہرت سے حسد کر علاوہ خائف بھی ہو گیا ہے۔ورنہ پہلے کبھی کسی نے ایسی دھمکی نہیں دی، اور پھر یہ بات اس لیے بھی سمجھ میں آتی ہے کہ صرف اداکاری سے روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔اس کے علاوہ کچھ نہیں۔“اس نے صاف انداز میں کہا۔
”آپ نے خود سے کوئی وجہ جاننے کی کوشش کی۔“میں نے کریدتے ہوئے پوچھا۔
”ہاں۔میںنے وجہ پوچھی ،اس کا بس یہی ایک مطالبہ ہے کہ میں اداکاری نہ کروں۔ضدہو گئی ہو جیسے۔“زاری بیگم نے اکتاتے ہوئے لہجے میں کہا۔ تو میں نے ساری بات سمیٹے ہوئے پوچھا۔
”تو بتائے،میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں؟“
”یہی کہ اس بندے کو تلاش کیا جائے،اس تلاش میں آپ میری مدد کریں۔“اس نے بڑے نرم لہجے میں کہا۔
”دیکھیں۔!میں کوئی فورسز کا بندہ تو ہوں نہیں۔ایک معمولی صحافی ہوں۔اپنے طور پر کوشش ہی کر سکتا ہوں۔“میں نے کہا تو وہ دھیرے سے مسکرا دی اور پھر ذرا سے خوشگوارانداز میں بولی۔
”ارے نہیں۔میں اس طرح سے تھوڑا کہہ رہی ہوں۔بلکہ میرا مطلب ہے کہ کہیں کوئی اشارہ آپ کو مل جائے ۔وہ جس طرح آپ کو اپنی خبروں کے لیے ٹپ مل جاتی ہے ویسے میں نے ابھی بٹ صاحب سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا۔پہلے ہی بہت مشکل سے۔۔خیرآپ سمجھتے ہیں ۔یہ بات دہرانے کا فائدہ ہی نہیں۔“اس نے کہتے کہتے بات ختم کر دو۔پھر تھوڑی دیر تک اسی موضوع پر باتیں چلتی رہیں۔اس کے بعد میں اس کے پاس سے اٹھ آیا۔
زاری بیگم کا یہ مسئلہ کرئی نیا یا حیران کن نہیں تھا۔شوبز کی دنیا میں ایسے معاملات چلتے ہی رہتے ہیں جیسے فلمی ہیرونوں کے درمیان نمبر ون کہلانے کی چپقلش اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہے ،چٹ پٹے ،مصالے دار بیانات سے قاری نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ ان کی اس جنگ میں بہت سارے پہلو بھی عیاں ہوتے ہیں۔میں نہیں سمجھتا تھا کہ زاری بیگم نے جو باتیں کہیں ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہوں مثلاً یہ کہ اس کے اپنے شوہر سے یہ بات چھپائی ہوئی ہے ۔ایسا ممکن ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔کیونکہ اس کی اپنے گھر پر کڑی نگاہ تھی۔میں نے جو سمجھا وہ یہی تھا کہ یہ ان کے بزنس کا معاملہ ہے ۔ان کے حریف کوئی نہ کوئی حربہ تو آزماتے ہی ہوں گے اور ان لوگوں سے بھی بعید نہیں تھا کہ انہوں نے کسی کے خلاف سازش کی ہو۔اور ردعمل کے طور پر اسے دھمکیاں مل رہی ہوں۔یہ بھی ممکن تھا کہ یہ لوگ ہی کسی کے خلاف کوئی سازش تیار کر رہے ہوں۔اور پھر زاری بیگم کا یہ ڈرامائی انداز کی میں خبروں میں نہیں آنا چاہتی کہ کہیں شہرت کو نقصان نہ ہو۔یہ الٹی گنگا بہنے والی بات تھی۔حالانکہ شوبز کے لوگ تو خبروں میں رہنے کے لیے اسکینڈل تک خود ڈئزائن کرتے ہیں۔یوں مجموعی طور پر زاری بیگم کی پوری بات میرے حلق سے نہیں اتری میں نے اسے معمول کا واقعہ سمجھ کر ذہن میں تو رکھا لیکن اس کے لیے کوئی خاص تگ ودو نہیں کی۔
چند دن گذرنے کے بعدایک صبح دفتر آتے ہی معمول کے مطابق اخبار پڑھے تو ان سب ہی میں زاری بیگم کی تصویر دیکھی۔وہ کسی نئے ڈرامے کے افتتاح پر لیا گیا گروپ فوٹو تھا۔اس تصویر میں زاری بیگم بہت خوشگوار موڑ میں دکھائی دے رہی تھی۔گہرے نیلے رنگ کے شلوار سوٹ میں سن اسی کی دہائی کے فیشن کی نمائندگی کرتے ہوئے بڑی منفرد دکھائی دے رہی تھی۔اس دن اتفاقاً ہمارے ہی اخبار کا شوبز رپورٹر ساجد گوندل بھی مینٹگ کے بعد میرے پاس آ کر بیٹھ گیاتھا۔میں نے اس کے ساتھ چائے پیتے ہوئے اس تصویر پر تبصرہ کرنے کے علاوہ افتتاح کی روداد سننے کی غرض سے ذکر چھیڑ دیا۔تب وہ بولا۔
”ہاں،رات اچھا خاصا ہنگامہ تھا۔یہ تصویر تو بڑے پر امن ماحول میں بنی ہے۔سمجھیں یہ سیریل تو بنانے سے پہلے ہی بک گیا ہے۔بڑے بڑے لوگ تھے وہاں پر۔“
”یہ زاری بیگم کے بارے میںکیا خیال ہے۔اس کی ما نگ زیادہ ہو گئی ہے یا پی آ راو؟“میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”بہت تیز خاتون ہے ۔مجھے شوبز کا ابھی اتنا زیادہ تجربہ نہیں ہے ۔لیکن جو بھی ہے۔اس بناءپر میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس جیسی تیز اور چرب زبان خاتون نہیں دیکھی۔لمحوں میں بندے کو اپنی راہ پر لے آتی ہے۔“وہ تو جیسے شروع ہو گیا۔
”میں اس کی خصوصیت نہیں پوچھ رہا میرے یار، میں اس کے پہلے سیریل کے بعد والی پوزیشن کے بارے میں بات کر رہا ہوں۔“میں نے اس کی گفتگو کو ٹریک بدلنے کے لیے کہا تو اس نے سوچتے ہوئے بڑے رازدرانہ انداز میںکہا۔
”ہاں۔!بوم تو ملا ہے اس کو۔لیکن ۔اس کے ساتھ قتل کی دھمکیاں بھی تو مل رہی ہیں۔“
”ایسا کیا۔“میںنے حیرت سے کہا۔کیونکہ مجھے حیرت اس بات پر ہوئی تھی کہ جو بات وہ چھپانا چاہتی ہے وہ کھلے راز کی مانند ہر کسی کو معلوم ہے۔بلاشبہ یہ بات مخصوص حلقوںمیں بھی گردش کر رہی ہو گی۔میری حیرت کا ساجد گوندل پر خاطرخواہ اثر ہوا۔اس لیے تفصیلاً بولا۔
”اس میں دو باتیں ہو سکتی ہیں،زاری بیگم اپنے آپ کو اہمیت دینا چاہتی ہے۔لوگوں پر وہ یہ باور کرانا چاہتی ہے کہ وہ بہت بڑی فنکارہ ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر دھمکیوں والی بات حقیقت ہے تو زیادہ دن نہیں لگیں گے۔دھمکی دینے والا سامنے آ جائے گا۔بلکہ پکڑا جائے گا۔یہ زاری بیگم کے ہاتھ خاصے لمبے ہیں۔“
”تمہاری پہلی بات سے میں اتفاق اس لیے نہیں کروں گا کہ اگر اس نے یہ بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے ایسا کہا ہوتا تو اخبار کس مرض کی دوا ہیں۔یوں سینہ بہ سینہ بات پھیلانے سے بہتر نہیں ہے کہ بات ایک دن میں ہی سب کو معلوم ہو جائے۔“میں نے بحث کرتے ہوئے کہا۔
”کیا آپ نہیں سمجھتے کہ سینہ بہ سینہ پھیلانے والی کتنی سنسنی ہے اور اس طرح لوگوں کو تبصروں سے بندہ سمجھ جاتا ہے کہ کون سجن ہے اور کون دشمن۔“ اس نے دلیل دیتے ہوئے کہا جو بہر حال اپنا وزن رکھتی تھی۔
”تمہارا خیال ہے کہ یہ محض افواہ ہے جو انہوں نے سنسنی کے لیے خود پھیلائی ہے۔؟“میں نے گویا بات ختم کر دینا چاہی۔
”اگر ایسا نہیں تو پھر یہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کیوں نہیں لیتے۔ان کے گھر والے نمبر پر دھمکیاں ملتی ہیں نا۔تو اس پر آبزرویشن لگوادیں۔پولیس یا پھر کسی دوسرے ادارے کا اپنا ایک تفتیشی طریقہ کار ہوتا ہے۔وہ شخص مل جائے گا اور دھمکیاں بند ہو جائیں گے۔یونہی خواہ مخواہ کا سٹنٹ کھڑا کیا ہواہے۔“اس نے بے زاری سے کہا۔
”خواہ مخواہ تو نہیں ہو سکتا نا۔“ میںنے مسکراتے ہوئے کہا۔
”کیسی بات کرتے ہیں آپ،آپ کو سر درد آج ہے تو آپ علاج کسی اور وقت پر رکھ دیں گے یا پھر اسے نظر انداز کر دیں گے۔جتنی تکلیف ہوتی ہے بندہ اتنی جلدی علاج کی کوشش کرتا ہے۔“گوندل نے صاف لفظوں میں کہا اور پھرا س موضوع پر بات ہی ختم ہو گئی۔وہ چلا گیا اور میں اپنے معاملات میں مصروف ہو گیا۔
اگلے دن کی شام ہونے سے تھوڑی دیر قبل زاری بیگم کا فون آ گیا۔اس وقت میں دفتر سے نکلنے کے لیے پر تول رہا تھا۔اس دن بھی زاری بیگم کا لہجہ کھردرا ہی تھا۔
”میں نے ایک پریس کانفرنس بلائی ہے ۔آپ آیئے گا۔“
”ہمارے اخبار کے شوبز کو تو بلایا ہے نا آپ نے؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں ہاں،ابھی گوندل صاحب سے بات ہوئی ہے ،وہ آ رہے ہیں۔لیکن آپ تو ضرور آئیںنا۔“ وہ تیزی سے بولی۔
”موضوع کیا ہے پریس کانفرنس کا۔مطلب کیا بات ہو گی؟“ میںنے یونہی تجسس سے عادتاً پوچھ لیا۔
”وہی ٹیلی فون والی دھمکیاں،آج تو ہمارے دفتر والے فون پر مجھے دھمکیاں ملی ہیں۔“اس نے ذرا سی حیرت اور غصے ملے جذبات میں کہا۔
”اس کا مطلب ہے کہ اب آپ کھل کر سامنے آ جانا چاہتی ہیں۔“میں نے کریدنا چاہا تو وہ ایک دم سے محتاط ہوتے ہوئے بولی۔
”اب یہ تو کرنا ہی پڑے گا۔خیر۔!آپ آ ہی رہے ہیں ،باقی باتیں یہیں ہو جائیں گے۔“ اس نے تیزی سے کہا۔بلاشبہ اسے دوسرے لوگوں کو بھی فون کرنا تھا۔اس لیے میں نے فون رکھ دیا میں نے انہی لمحوں میں سر اٹھا کر دیکھا تو ساجد گوندل کو اپنے سامنے کھڑا ہوا پایا۔میرے متوجہ ہوتے ہی وہ بولو۔
”کیا خیال ہے۔پھر چلیں؟“
”کہاں؟“ میں نے تصدیق کر لینا چاہی۔
”زاری بیگم کے گھر،فون میں نے ہی آپ کی طرف ٹرانسفر کیا تھا۔“گوندل نے مسکراتے ہوئے کہا۔پھر تھوڑی دیر بعد ہم اس کے گھر کی جانب نکل گئے۔
وہاں پر شہر کے تقریباً تما م اہم شوبز رپورٹر پہنچے ہوئے تھے۔ان سب کو دھمکیوں کے بارے میں معلوم تھا۔اور وہاں پر اسی حوالے سے باتیں ہو رہی تھیں۔یہ ان کی قیاس آرائیاں تھیں کہ زاری بیگم آج کس حوالے سے بات کرے گی۔کچھ دیر بعد اس نے اپنے شوہر کے ساتھ باقاعدہ بات چیت شروع کی۔لمبی چوڑی تمہید کے بعد اس نے یہی کہا کہ مجھے میرے حاسدین کی جانب سے قتل کی دھمکیاں مل رہی ہیں جو اب نا قابل برداشت حد تک جا پہنچی ہیں۔سب سے اہم بات اس نے یہ کی کہ اب وہ باقاعدہ پولیس کے پاس جا رہی ہے۔اس نے تھانے کا نام بتائے بغیر کہا کہ ابتدائی رپورٹ لکھوا دی گئی ہے۔ لہذا اب پولیس ہی کے ذریعے قانونی کاروائی کی جائے گی۔سوال و جواب کا سلسلہ تھوڑی دیر تک رہا جو کہ سر اسر تکلف ہی تھا،۔میں سمجھ گیا تھا کہ اس کا مقصد صرف جواباً دھمکیاں دینا ہے تا کہ وہ جو کوئی بھی ہے پولیس کے ڈر سے خاموش ہو جائے۔اس سارے دورانئے میں اس کا شوہر بالکل خاموش رہا تھا۔اور پھر پریس کانفرنس ختم ہوتے ہی اٹھ کر چلا گیا تھا ۔میں اور گوندل بھی وہاں سے آ گئے۔
میرے ذہن میں یہ بات چپک کر رہ گئی تھی کہ آخر یہ دھمکیوں والی بات اتنی لمبی کیوں ہوتی چلی جا رہی ہے۔اس کا سلسلہ یا تو ختم ہو جانا چاہئے تھا یا پھر اخبار میں تصویر آتے ہی اس کا کوئی نہ کوئی عملی ثبوت دیا جانا ضروری تھا۔یا پھر کوئی فقط یہی چاہتا تھا کہ زاری بیگم ذہنی پریشانی کا شکار رہے۔اتنے دنوں تک بات ایک ہی جگہ اڑی ہوئی تھی۔شاید اس طرح کا خیال گوندل کے ذہن میں بھی تھا۔گیٹ سے باہر نکلتے ہی وہ بولا۔
”کیا خیال ہے آپ کا،یہ ڈرامہ کچھ زیادہ لمبا نہیں ہو گیا؟“
”میں بھی یہی سوچ رہا ہوں۔اتنے دنوں بعد ان کی جانب سے بھی دھمکی دے دی گئی ہے۔کیوں نہیں انہوں نے اب تک کوئی کوشش کی۔پہلے یہ معاملے کی تشہیر نہیں چاہتے تھے۔اب باقاعدہ رپورٹرز کو بلوا لیا گیا ہے۔پولیس کی بجائے خود ان کی اپنی رسائی بہت زیادہ ہے ۔کم از کم ٹیلی فون پر آبزرویشن ہی لگوا لیتے۔اس فون تک پہنچتے جہاں سے کال کی گئی ہے انہوں نے تو کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی۔“میں نے اپنا خیال ظاہر کیا۔
”اگرچہ یہ بات دل کو لگتی ہے ،تا ہم انہوں نے ایسا ہی کیا ہو اور نمبر پولیس کو دے دیا ہو۔“گوندل نے خیال آرائی کی۔
”تو پھر اتنی تشہیر کی ضرورت کیا ہے۔چپ چاپ خاموشی سے اس بندے تک پہنچ جائیں اور بات ختم۔“میںنے کہا تو گوندل نے ایک دم سے چونکتے ہوئے کہا۔
”ذرا ایک منٹ۔۔۔“یہ کہتے ہوئے اس نے میری جانب دیکھا۔پھر کہتا ہی چلا گیا۔”اب تک سارے زاری بیگم کی ہمدردی میں ہیں۔وہ رپورٹرز کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہو گئی ہے۔ کیوں نا ہم اس خبر کو اپنے اندااز میں دیکھیں۔اپنی تحقیق کریں۔نتیجہ جو بھی ہو اسے سامنے لے آئیں۔زاری بیگم اگر ناراض ہو تی ہے تو بھاڑ میں جائے۔“
”میرے خیال میں تم نے اب عقل مندی کی بات کی ہے۔“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ فوراً سمجھ گیا کہ میرا نقطہ نگاہ کیا ہے۔اس لیے تیزی سے بولا۔
”تو پھر کیوں نا ہم کسی جگہ بیٹھ کر یہ طے کر لیں کہ آخر کرنا کیا ہے۔“گوندل نے خالصتاً صحافیانہ انداز میں کہا تو میں ہنس دیا۔
”کل بات کریں گے۔تم بھی اس پر سوچنا۔میں بھی سوچوں گا۔“میں نے کہا اور اپنی راہ لی۔اگلے دن وہ معمول کی میٹنگ کے بعد میرے پاس آ گیا اور آتے ہی یہی موضوع چھیڑ دیا کہ اس نے کیا سوچا ہے۔
”یقین جانیں ، میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔“وہ مایوسانہ لہجے میں بولا تو میںنے سنجیدگی سے پوچھا۔
”جس تھانے میں انہوں نے ایف آئی لکھوائی ہے۔اس کے بارے میں معلوم کیا۔اور وہاں کوئی بندہ واقف ہے۔“
”مجھے معلوم ہے اور واقفیت ہے وہاں پر۔“اس نے تیزی سے کہا۔
”پو پھر خبر لینے کے انداز میں اندر کی بات معلوم کرو۔خصوصاً اگر زاری بیگم والے تفتیشی سے واقفیت نکل آئے تو ۔اس سے وہ نمبر معلوم کرنے کی کوشش کروجس سے فون کیا جائے گا۔یا کیا گیا ہے۔تبھی ہمارے لیے کوئی رستہ نکل پائے گا۔“میں نے اسے سمجھایا۔
”نمبر سے۔۔۔۔“ اس نے سوچتے ہوئے کہا۔
”ہاں۔!ایک سمت مل جائے گی نا یار۔!صرف نمبر چاہیے۔“ میں حتمی انداز میں کہا۔
”تو یہ کون سی بات ہے ۔پولیس کو درمیان سے نکالیں۔میں سیدھے ٹیلی فون والوں سے نمبر لے لوں گا۔اپنا شہزاد ہے وہاں پر۔اب مسئلہ یہ ہے کہ دھمکی دینے والا فون کرے تو۔۔۔۔“ وہ آخری فقرے میں بہت مایوسی سے بولا۔
”میرے ذہن میں ایک خیال ہے ۔اگر ویسا ہوا تو وہ فون بھی کرے گا۔تب ہم نمبر کے ذریعے اس تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔“میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”کیسا خیال۔؟“ اس نے تجسس سے پوچھا۔
”وہ میں پھر بتاﺅں گا۔پہلے تم اپنا کام کرو۔اور یہ بھی یقین رکھنا کہ زاری بیگم کے حوالے سے ساری سٹوری تمہارے نام ہی سے ہو گی۔فکر نہیں کرنا۔“میں نے ہنستے ہوئے کہا تو ایک دم خوش ہو گیا اور بولا۔
”میں آج ہی جاتا ہوں،شام تک کوئی نہ کوئی بات تو بتاہی دوں گا۔“یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کر چلا گیا۔تو میں نے اپنی فوٹوگرافر کو فون کر دیا۔
کچھ عرصہ قبل زاری بیگم نے ادھیڑ عمر خواتین کے سنگھار پر ایک ماڈلنگ کی تھی۔اس کا اہتمام میری فوٹوگرافر ہی نے کیا تھا۔اس میں اگرچہ زاری بیگم بہت خوبصورت دکھائی دے رہی تھی،تاہم میں نے اس کی وہ خاص ”لک“ کو برقرار رکھا تھا کہ وہ سن اسی کی دہائی والے فیشن ہی میں دکھائی دے ۔ساتھ میں جدید بھی تھی۔لیکن دوسری ماڈلنگ اتنی پڑی ہوئی تھی کہ زاری بیگم کا نمبر نہیں آ رہا تھا۔یوں ادھیڑ عمر ماڈل ہونے کی بناءپر نظر انداز ہو گئی تھی۔میں نے وہ ماڈلنگ منگوالی۔پھر ان میں سے تصاویر منتخب کر کے شائع ہونے کے عمل میں ڈال دیںاور خود اس پر ایک چھوٹا سا مضمون لکھ دیا۔تین دن بعد میگزین نے منظر عام پر آنا تھا۔اس کے بعد ہی کوئی نتیجہ سامنے آنے والا تھا۔اس دوران گوندل کے ذریعے بہت سارے معلومات ملتی رہیں۔پولیس نے اپنءطور پر شوبز کے حلقوں میں پوچھ تاچھ کی،لیکن کوئی سراغ نہیں ملا۔انہیں خود اس بات پر حیرت تھی کہ دوبارہ فون ہی نہیں آیا۔اب انتظار یہی تھا کہ دھمکی والا فون موصول ہو تو وہ اسے پکڑ سکیں۔تفتیشی آفیسر نے خود گوندل میں دلچسپی لی تھی کیونکہ دونوں کا مقصد ایک ہو چکا تھا۔
تیسرے دن میگزین شائع ہو گیا۔زاری بیگم کی تصاویر بڑے اہتمام سے شائع ہوئیں تھیں،ساتھ میں مضمون کی سرخی جمائی تھی کہ میں اداکاری کے نئے پہلو متعارف کراﺅں گی۔حسب معمول گوندل میرے پاس آیا اس نے سرورق اور اندرون صفحات پر ماڈلنگ دیکھی اور پھراس پر تبصرہ کرنا چاہتا تھا کہ میںنے کہا۔
”ان باتوں کو چھوڑو،بلکہ جیسے بھی کہنا ہے کہو آج دھمکی آمیز فون آنے کا بہت قوی امکان ہے۔اس موقعہ کو ضائع نہ کیا جائے۔“
”آپ کو کیسے یقین ہے؟“ اس نے غور سے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”بس ہے نا،تم فون کر کے کہہ دو بلکہ زاری بیگم سے بھی کہہ دو کہ وہ ہوشیار رہے اور زیادہ سے زیادہ بات کر کے اس بندے کا لہجہ ،گفتگو کا انداز اور ایسی کوئی خاص بات نوٹ کر نے کی کوشش کرے۔پہلے کی طرح غصہ یا ناراضگی کا اظہار نہ کرے۔بلکہ اسے سمجھائے اور نہ سمجھنے پر دھمکی دے دے۔“یہ اور اس طرح کی باتیں میں نے گوندل کو سمجھائی۔اس نے میرے سامنے ہی دو تین فون کر دیئے۔
”پھر وہی ہوا جس کا مجھے یقین تھا۔مغرب سے ذرا پہلے ،میں ابھی دفتر میں تھا کہ گوندل کا مجھے فون ملا۔وہ خاصا پر جوش تھا۔“
”آپ کا اندازہ بالکل ٹھیک نکلا،زاری بیگم کو فون پر دھمکی ملی ہے۔“
”یہ بات تمہیں کس نے بتائی؟“میں نے جلدی سے پوچھا۔
”یہ میں زاری بیگم کے پاس ہی بیٹھا ہوا ہوں۔لیں انہی سے بات کریں۔“پھر ذرا سی دیرمیں وہ لائن پر تھی۔اس کے کھردرے لہجے میں سے پریشانی جھلک رہی تھی۔اس نے مجھے وہیں اپنے پاس بلا لیا۔کیونکہ وہیں پولیس آفیسر بھی آ رہا تھا۔میں بھی وہیں چلا گیا۔سہولت سے بیٹھنے تک پولیس آفیسر بھی آ گیا۔
”اس بار تو فون پر اس نے بڑی سنگین دھمکیاں دی ہیں کہ اب اگر اخبار میں تصویر تو کیا اداکاری کی بھی خبر شائع ہوئی نا تو وہ اب فون نہیں براہ راست قتل کرنے آجائے گا۔یہ آخری وراننگ ہے۔“زاری بیگم نے بتایا۔
”آپ نے اس سے لمبی بات کی تھی؟“ میں نے پوچھا۔
”ہاں کی تھی۔مجھے تو وہ کوئی نوجوان سا جذباتی لڑکا لگتاہے۔اس کا لہجہ اور زبان ٹھیٹ پنجابی تھی۔بہت غصے میں تھا یوں جیسے گنوار بات کر رہے ہو۔اس نے میری ایک نہیں سنی،بس اپنی سنائے گیا تھا۔پھر بند کر دیا۔“وہ بولی۔
”تو اس کا نمبر معلوم ہوا؟“ میں نے عام سے انداز میں پولیس آفیسر سے پوچھا تو گوندل فوراً بولا۔
”نمبر بھی معلوم ہو گیا ہے او ر علاقہ بھی جہاں سے فون اہواہے۔یہ نیو کیمپس کے پبلک بوتھ کا نمبر ہے۔“
”تو ا س کا مطلب ہے یہ کوئی طالب علم ہو سکتاہے یا پھر کوئی بھی۔“میں نے پولیس آفیسر سے پوچھا۔
”ہاں۔!اب یہی تو سب سے بڑا مسئلہ ہو گا۔اتنے زیادہ سٹوڈنٹس میں سے کسی بندے کو تلاش کرنا،پھر درمیان میں انتظامی امور کی بھی پیچیدگی ہو گی۔اور پھر ردعمل کا بھی چانس ہے۔“وہ دھیرے سے بولا تو زاری بیگم فوراً بولی۔
”یہ تو وقت طلب مرحلہ ہو گا۔اس میں وہ اپنا کام دکھا سکتا ہے اگر وہ واقعتا جذباتی ہے ،دیکھیں رسک تو ہے نا،جس طرح اس نے دھمکی دی ہے۔میں شوبز والوں سے نہیں گھبراتی،لیکن اب تو یہ بہت پریشانی والی بات بن گئی ہے۔مجھے تو اب واقعی سنجیدگی سے اوپر بات کرنا پڑے گی۔“اس نے تشویش زدہ لہجے میں کہا۔
”لیکن آپ کی رپورٹ کے بعد کیا ہو گا؟“ میں نے پوچھا۔
”اب یہ تو میرے آفیسر ہی بتا سکتے ہیں نا۔“اس نے بالکل ہی جان چھڑالی۔اور پھر چند الوداعی باتوں کے بعد وہ چلا گیا۔زاری بیگم اوپر بات کر نے کے لیے بے چین ہو رہی تھی۔سو ہمارا وہاں بیٹھنا فضول تھا،اس لیے ہم وہاں سے اٹھ گئے۔
اس تھوڑی سی پیش رفت کے بعد یوں ہوا کہ جیسے مزید کوئی بات ہی نہ ہوئی ہو۔زاری بیگم کو دوبارہ فون نہیں ملا اور نہ ہی کسی اخبار وغیرہ میں اس کی کوئی تصور آئی۔کیونکہ زاری بیگم اندر سے بالکل خوف زدہ ہو گئی تھی۔اس لیے اس نے شوبز کی سرگرمیوں میں حصہ لینا بند کر دیا تھا۔تا ہم اندر ہی اندر اس متوقع لڑکے کی تلاش جاری تھی۔جو کہ خفیہ والے کر رہے تھے۔میں شاید اس بات کو بھول جاتا مگر گوندل اپنی ہٹ کا پکا نکلا۔وہ اپنی خبر کے منطقی انجام کے لیے سرگرداں رہا۔یہاں تک کہ اس نے کبھی کبھار اس موضوع پر بات کرلی تو کر لی،ورنہ وہ بھی خاموش ہو گیا تھا۔اس نے اپنا معمول بنالیا ہوا تھا کہ وہ سٹوڈیو جانے سے قبل نیو کیمپس ضرور جاتا۔وہاں اس نے اپنے علاقے سے تعلق رکھنے والے طالب علموں سے دوستی کر لی ۔ان کے ساتھ مارکیٹ جاتا اور وہاں سے چائے ضرور پیتا۔وہیں مارکیٹ کے پبلک بوتھ سے فون وغیرہ کرتا۔اب اس کے معلومات لینے کا طریقہ کار کیا تھا،اس کا مجھے نہیں علم لیکن تقریباً ایک مہینے بعد اس نے بڑے ہی پر جوش اندازمیں مجھے یہ خبر سنائی۔
”وہ زاری بیگم کو دھمکی دینے والا لڑکا ،آپ کو یاد ہے نا۔“
”ہاں،یاد ہے ،کیا ہوا؟“میں نے چونکتے ہوئے کہا۔
”میں نے اسے تلاش کر لیا ہے۔“گوندل نے انتہائی جوش بھرے لہجے میں دھیرے سے کہا۔
”کیا واقعی؟“میں یہ سن کر گویا اچھل پڑا۔
”ہاں۔!“یہ کہہ کر اس نے پوری روداد سنا دی۔
اس کا وہاں جانا تو معمول بن ہی گیا تھا ۔دھیرے دھیرے اس کی کوشش سے دوسرے لڑکی بھی دوست بن گئے۔چند شوقین لڑکوں کو وہ سٹوڈیو کی سیر بھی کروا لایا۔کسی کے ساتھ فلم یا ٹی وی میں کام دلانے کا وعدہ بھی کر لیا۔شوبز دنیا کی جھوٹی سچی پس پردہ کہانیاں بھی چلتی رہیتیں۔پھر ایک دن اسے معلوم ہوا کہ فیضان ملک نامی لڑکا ایک اداکاراہ زاری بیگم سے شدید نفرت کر تاہے۔یوں اسے گوہر مقصود ہاتھ لگ گیا۔ایک ہفتے کی کوشش کے بعد اس کا شک یقین میں بدل گیا ۔بلا شبہ فیضان ملک ہی وہ لڑکا تھا۔جس نے زاری بیگم کو دھمکیاں دیں۔
”مگر کیوں دیں اس نے دھمکیاں ؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”یہ تو بالکل نہیں معلوم ہو سکا۔“اس نے مایوسی سے کہا۔”میں نے بہت کوشش کی لیکن نہیں پتہ نہیں چلا،ہاں اسے شدید نفرت ہے۔“
”نفرت کی کوئی تو وجہ رہی ہو گی میری جان،اس طرح تو تمہاری رپورٹ بالکل پھیکی رہ جائے گی۔“ میں نے اس کی پیشہ و رانہ صلاحیتوں کو چیلنج کر ڈالا۔
”اس لیے تو میں آپ کے پاس آیا ہوں کہ کیا کروں،اگر وہ لڑکا پکڑا گیا تو میں اپنے علاقے ہی میں نہیں،یہاں بھی طلبہ کی نفرت کا شکار ہو جاﺅں گا۔اور عین ممکن ہے مجھے نقصان بھی پہنچے ۔دوسری بات یہ ہے کہ سارا کریڈٹ پولیس لے جائے گی اور اس لڑکے کا مستقبل تاریک ہو جائے گا۔اس پر تشدد بھی۔۔۔“گوندل یوں کہتا چلا گیا۔جیسے سارے نتائج اس نے پہلے ہی سوچ رکھے ہوں۔ایسا ہی کچھ میرے دماغ میں بھی چلنے لگا تھا۔
”تو پھر بھول جاﺅ اس سارے معاملے کو،اپنی ایک رپورٹ کے لیئے کسی کا مستقبل داﺅ پر مت لگاﺅ۔“میں نے افسوس سے کہا۔
”لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے“ اس نے پوری سنجیدگی سے کہا۔
”بولو کیا؟“ میں نے بھی پوری دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا
”جس قدر اس لڑکے میں زاری بیگم کی خلاف نفرت ہے،اسی قدر ممکن ہے کہ وہ کسی بھی وقت اپنی دھمکیوں پر عمل کر جائے۔تب پھر کیا ہو گا؟“
”یہ بھی درست ہے تو پھر کیا کیا جائے؟“ میں نے ا سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ کوئی اس کا حل سوچو،مجھے اس لڑکے فیضان ملک سے ہمدردی ہے۔میں چاہتا ہوں کہ وہ زاری بیگم کو بھول کر اپنی پڑھائی کو ختم کرے اور یہاں سے چلا جائے۔“گوندل نے خاصا جذباتی ہوئے کہا۔
”لیکن کیسے میری جان۔ہمیں یہ تک معلوم نہیں ہے کہ اس کی نفرت کیوں ہے۔اس سے بات کریں گے تو نجانے اس کا ردعمل کیا ہو۔خوف زدہ ہو گیا تو بھی غلط ہے۔چڑگیا تو بھی ٹھیک نہیں۔میرے خیال میں ہمیں اس بات کو بھول جانا چاہیے۔“میںنے جان چھڑاتے ہوئے کہا۔
”نہیں ۔!آپ سے نہیں پر فیضان ملک سے،وہ بہت اچھا لڑکا ہے۔شریف النفس قسم کا۔۔۔“
”پھر تو زیادہ خطرناک بات ہے۔یہ جو شریف آدمی ہوتے ہیں نا،یہ اگر اپنی آئی پر آ جائیں ناتو اتنے دھماکے سے پھٹتے ہیں کہ ہر جانب تباہی ہو جاتی ہے۔“ میںنے تشویش سے کہا۔
”پھر بھی،کوئی بات،کوئی خیال۔۔کوئی معاملہ،ویسے بھی خفیہ والے کبھی کبھار دکھائی دیتے ہیں ،میں مانتا ہوں کہ وہاں ان کے اور بہترے کام ہیں لیکن اگر فیضان ان کے ہتھے چڑھ گیا۔۔تو کسی اور کیس میں پھنسا دیں گے۔“گوندل نے نجانے کیا سوچ رکھا تھا۔
”یار،تم تو خوف زدہ ہی کرتے چلے جا رہے ہو۔کوئی خوش گمانی والا پہلو سوچو،چلو خیر،کچھ سوچیں گے۔“ میں نے واقعتا اپنی جان چھڑاتے ہوئے کہا۔کچھ دیر بعد گوندل چلا گیا لیکن میرے دل میں کھدبد شروع ہو گئی۔گوندل کے دل میں اگر فیضان ملک کے لیے کوئی نرم گوشہ ہے تو کوئی نہ کوئی بات ضرور ہو گی۔ویسے اگر ہماری کوششوں سے دونوں زندگیوں کو لاحق خطرات کم ہو جائیں تو یہ کوشش کر لینی چاہیے۔اور پھر۔! ایک صحافی کا تجسس بھی تو اہمیت رکھتاہے جواپنے طور پر بہت بڑی دلیل ہے۔میں اگر نہ بھی چاہتا تو میرا دماغ ادھر ہی گھومتا رہتا تھا۔
اگلے دن تک میرے دماغ میں ایک مہم کا خیال آ ہی گیا۔میں نے اس پر پوری توجہ سے سوچا تو وہ مزید نکھر کر واضح ہو گیا،یہاں تک کہ وہ روشن ہو کر ایک منصوبے کی صورت اختیار کر گیا۔تا ہم اس میں جہاں کامیابی کے بہت زیادہ امکانات تھے،وہاں کسی بھی غیر متوقع ردعمل کی صورت میں ناکامی بھی اتنی شدت سے ہونا تھی میں نے گوندل کو بلایا اور اس سے بات کی۔وہ فوراً راضی ہو گیا۔
”بس ٹھیک ہے ۔کامیابی، ناکامی ایک طرف،ہماری نیت ٹھیک ہے۔اللہ ہماری مدد ضرور کرے گا۔یہ میرا یقین ہے۔“گوندل نے پورے جذب سے کہا تو پھر ہم نے طے کر لیا۔پھر دیر تک اس موضوع پر بات کرتے رہے کہ ہمیں کب اور کیا کرنا ہے۔یہاں تک کہ مطمئن ہو گئے۔
تیسرے دن کی شام میں زاری بیگم نے ساتھ اس کی کار میں نکلا۔ہماری منزل سٹوڈیو تھی۔جہاں اس نے مجھے چند لوگوں سے ملوانا تھا۔اس کے پاس تھوڑی دیر کے لیے وقت تھا۔کیونکہ ایک لمبے عرصے تک دھمکیاں نہ ملنے کے باعث اس نے ایک سیریل کی شوٹنگ میں حصے لینے کا فیصلہ کر لیا ہوا تھا۔اس کی کوشش یہی تھی کہ پریس والوں سے دور رہے۔سیریل مکمل ہو جانے تک،اس حوالے سے کوئی تصویر یا خبر کہیں پر بھی شائع نہ ہو۔ممکن ہے ان دنوں میں ،وہ دھمکیاں دینے والا اس کے سامنے آ جائے یا پکڑا جائے،تا ہم سیریل تو مکمل ہو ہی جائے گی۔پھر دیکھا جائے گا۔انہی باتوں کے دوران جب وہ میری مطلوبہ جگہ کی کالونی سے گذرنے لگی تو میں نے چند منٹ کا کہہ کر گاڑی اس جانب موڑنے کا کہا۔ اس نے گاڑی موڑ دی۔
”آپ جائیں اور جلدی سے آ جائیں۔“زاری بیگم نے دھیرے سے کہا۔
”اچھا نہیں لگتا ہے آپ یوں سڑک پر کھڑی رہیںآپ بھی آ جائیں پلیز۔وقت کا کوئی اندازہ تو نہیں ہوتا۔“میں نے لجالت سے کہا تو وہ بھی گاڑی سے باہر نکل آئی اور پھر میرے ساتھ اندر آنے کے لیے گیٹ کراس کر لیا۔
وہ میرے ایک بہت قریبی دوست کا گھر تھا جو ان دنوں خالی تھا۔طے شدہ منصوبے کے تحت گوندل کے ساتھ،فیضان ملک وہیں موجود تھا۔
ہم ڈرائنگ روم میں داخل ہو گئے تو سامنے ہی صوفے پر گوندل کے ساتھ فیضان ملک ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔میں نے پہلے اسے نہیں دیکھا تھا۔اونچا لمبا قد،بھر پور جوان رعنا،چھوٹی چھوٹی سیاہ داڑھی والا بڑے ڈیل ڈول کا تھا۔زاری بیگم پر نگاہ پڑتے ہی وہ حیرت سے اس کی جانب دیکھتا رہ گیا۔یہی نازک ترین مرحلہ تھا ۔جس کے لیے گوندل پوری طرح تیار تھا۔ممکن ہے وہ اسے ذہنی طور پر تیار کر چکا ہو۔ اس لیے وہ نفرت اُبلتی نگاہوں سے ہماری جانب دیکھتا رہا۔جبکہ زاری بیگم کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ سامنے بیٹھا ہوا وجہہ لڑکا کون ہے۔
”گوندل صاحب آپ یہاں؟“زاری بیگم نے چہکتے ہوئے کہا۔
”جی ہاں۔!آئیے بیٹھیں۔تشریف رکھیں۔“گوندل نے کہا تو وہ بے نیاز سی سامنے والے صوفے پر برا جمان ہو گئی۔میں بھی بڑے محتاط انداز میں ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گیا۔میں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کسی غیر متوقع خطرے کے پیش نظر بندوبست کے بارے میں پوچھ لیا تواس نے ا ثبات میں اشارہ دے دیا۔تب میں نے زار ی بیگم سے مخاطب ہو کر کہا۔
”آپ کو میں یہاں اس لڑکے فیضان ملک سے ملوانے کے لیے لایا ہوں۔“
”وہ کیوں؟“اس نے عام سے انداز میں پوچھا،پھر فیضان ملک کی جانب دیکھا جس کی نگاہوں میں سے نفرت ابل رہی تھی۔
”اس لیے کہ یہی وہ لڑکا ہے،جو آپ کو فون پر دھمکیاں دیتا رہا ہے۔“میرے اتنا کہنے کی دیر تھی کہ زار ی بیگم ایک دم سے خوف کے ساتھ پیلی ہو گئی۔اس کی نگاہوں میں وحشت پھیل گئی اور سارا طنطنہ کافور ہو گیا۔
”کک۔۔کک۔۔۔کیوں۔۔آپ کو ایسا نہیں۔۔کرنا چاہئے۔مجھے کچھ ہو گیا نا تو آپ اس کے ذمے دار ہوں گے۔۔سب کو معلوم ہے کہ میں آپ کے ساتھ۔۔۔۔“ اس کی آواز میں لکنت کے ساتھ لرزش بھی تھی۔تب گوندل نے سنجیدگی سے کہا۔
”حوصلہ رکھیں زاری بیگم۔!یہاں آپ کو کسی قسم کا بھی کوئی خطرہ نہیں ہے۔فیضان ملک بڑا سمجھ دار اور خاندانی آدمی ہے۔یہ میرے ساتھ وعدہ کر چکا ہے اوریہ وعدہ نبھائے گا بھی۔خیر۔! آپ دونوں کو اس طرح بغیر بتائے ملانا اگرچہ غیر اخلاقی عمل ہے اور ایک بڑارسک بھی لیکن اس میں کوئی برائی بھی نہیں،بلکہ بھلائی ہے۔“
”کیا بھلائی ہو سکتی ہے جو دشمن قتل کی دھمکیاں ۔۔۔“زاری بیگم نے تھوڑا حوصلہ پکڑتے ہوئے پوچھا تو میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”یہی بات پوچھنے کے لیے کہ آخر فیضان ایسا کیوں کرتا رہا ہے اور آئندہ کبھی ایسا نہ کرے۔“یہ کہہ کر میں نے فیضان ملک کی جانب دیکھا اور پھر پوچھا۔”کیوں فیضان،آپ ان سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں کہ فون پر دھمکیاں تک دے ڈالیں۔“میرے پوچھنے پر اس نے پہلے زاری بیگم کی طرف نفرت سے دیکھا اور پھر میری جانب دیکھ کر دھیرے سے بولا۔
”مجھے اس عورت سے کوئی نفرت نہیں،لیکن اس کی اداکاری سے نفرت ہے۔یہاں تک کہ مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتا۔آپ کو شاید معلوم نہیں،گوندل بھائی کو پتہ ہے ۔میرا خاندانی پس منظر کیا ہے۔قتل ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں،اب اگر اس کی کہیں کوئی تصویر دکھائی دی ، تو میں واقعتا اسے قتل کر دیتا۔“اس نے گھمبیر لہجے میں اپنا مدعا کہہ دیا۔
”دیکھیں فیضان۔!آپ ایسا کیوں کرنا چاہتے ہو،اس کی وجہ جو بھی ہو۔لیکن آپ کا مستقبل تو داﺅ پر لگ جائے گا نا۔ہم نے بہت سوچ کر اتنا بڑا رسک لیا ہے ۔اگر یہ اداکاری کرتی ہے تو آپ کا کیا جاتاہے۔ دوسرے کئی اداکاری کر رہے ہیں۔“ میں نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”گوندل صاحب سے اس موضوع پر بڑی بات ہو چکی ہے۔لیکن میں جانتا ہوں کہ آپ وجہ ضرور جاننا چاہیں گے۔لیکن۔! جو وجہ ہے وہ اتنی مقدس ہے کہ میں اس طوائف کے سامنے کہتے ہوئے بھی توہین محسوس کرتا ہوں۔“ اس نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا۔
”ممکن ہے ،آپ کی وجہ اتنی مضبوط ہو کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ہو جائیں ۔یا یہ اداکاری چھوڑ دیں۔میرے بھائی کوئی نتیجہ تو نکلے۔“ میرے یوں کہنے پر وہ سوچ میں پڑ گیا۔وہ چند لمحے سوچتا رہا۔دھیرے دھیرے اس کا چہرہ سرخ ہونے لگا۔اس نے آہستہ سے اپنی جیب میںہاتھ ڈالا تو میں حد درجہ محتاط ہو گیا۔زاری بیگم بھی تن گئی۔لیکن اگلے ہی لمحے اس کے ہاتھ میں پرس تھا۔اس نے اسے کھولا پھر اس میں سے ایک تصویر نکال کر میری جانب بڑھا دی۔میں نے اسے پکڑا تو اس نے کہا۔
”دیکھیں۔!یہ تصویر دیکھیں۔“
میں نے اس تصویر کو دیکھا تو حیرت کے پہاڑ مجھ پر ٹوٹ پڑے۔وہ زاری بیگم سے مشابہہ ایک خاتون کی تصویرتھی۔جس کے کاندھے پر فیضان نے سر رکھا ہوا تھا۔وہ کسی بڑی تصویر میں سے کاٹی گئی ہوئی تھی۔تبھی میرے منہ سے نکلا۔۔”یہ تو۔۔زاری بیگم ۔۔۔“
”نہیں۔۔!“وہ چیخ اٹھا۔”نہیں۔یہ اس کی نہیں ہے۔یہ میری والدہ کی تصویر ہے جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔اس کی شبہات اس عورت سے ملتی ہے۔جب میں سے طوائف کے روپ میں دیکھتا ہوں نا تو مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔یہ منظر عام پر نہ آئے تو میری اس سے کوئی دشمنی نہیں ہے۔“فیضان نے یوں کہا جیسے یہ سب کہتے ہوئے اسے بہت دکھ ہو رہا ہو۔میں نے تصویر زاری بیگم کے سامنے کر دی تو وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے تصویردیکھتی رہی۔پھر اس نے فیضان ملک کی جانب دیکھا۔اس کی آنکھوں سے اشک رواں ہو گئے تھے۔
”مجھ میں تم اپنی ماں دیکھتے ہو۔“زاری بیگم نے یوں تڑپتے ہوئے کہا جیسے اس پر حیرت ٹوٹ پڑی ہو۔
”ہاں۔!تم میں مجھے اپنی والدہ کی شبہہ دکھائی دیتی ہے۔جو میرے لیے بہت مقدس ہے۔“ فیضان نے نرم لہجے میںکہا۔
”بیٹا۔!آ ج کے بعد،تم مجھے کبھی اداکاری کرتے ہوئے نہیں دیکھو گے۔اس لیے نہیں کہ میں خوف زدہ ہو ں بلکہ اس لیے کہ میری شبہہ کسی ایسی ماںسے بھی ملتی ہے جسے کوئی بہت مقدس جانتا ہے۔“ یہ کہہ اس نے بھیک مانگنے والے انداز میں کہا۔”بیٹا۔!ایک بار،فقط ایک بار تم مجھے اپنی ماں جیسی کہہ دو۔پھر چاہے مجھے گولی مار دینا۔مجھے کوئی دکھ نہیں ہو گا۔“یہ کہتے ہوئے اس نے فیضان کی جانب دیکھا۔
”ہاں۔!یہ حقیقت ہے کہ تم میری ماں جیسی ہو۔“وہ انتہائی جذباتی لہجے میں بولا تو زاری بیگم بلک بلک کر رو پڑی۔وہ بہت دیر تک روتی رہی یہاں تک کہ فیضان ملک اٹھا اور باہر نکل گیا۔کافی دیر بعد زاری بیگم کو ڈھارس ملی تو ہم بھی اٹھ گئے۔اگلے دن زاری بیگم نے شوبز کی دنیا سے لا تعلقی کا اعلان کر دیا۔
ززز

1 comment:

  1. سر بہت خوب ایک بات پوچھ سکتا اپ سے کیا اپ کی کہانی ہم فیس بک پر پوسٹ کر سکتے اپ کا نام لکھ کر یا اس کی اجازت نہیں

    ReplyDelete

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *