Friday 5 January 2018

سایہ ءدیوار .. امجد جاوید....نئے افق کراچی



سایہ ءدیوار
امجد جاوید

انسان ہر دور میں مجبوریوں کے ہاتھوں بے بس ہو جاتا ہے۔لیکن یہ بھی سچ ہے کہ انسان کی آ زمائش بھی ہوتی ہے ۔ جو آمائش میں کامیاب ٹھہرتے ہیں ، زندگی انہیں نوازتی ہے ۔ دوسروں کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والے لوگ بھی اسی جہاں میں ہیں اور اسی دنیا میں دوسروں کو سہارا دینے والے بھی موجود ہیں ۔اپنی ذات ، مجبوریوں اور دنیاوی مسائل سے لڑنے والی ایک لڑکی کی کتھا۔ 

وہ دونوں سڑک کنارے کھڑی ارد گرد پھیلا ہوا سنسان ویرانہ دیکھ کرششدر رہ گئی تھیں۔یوں جیسے کچھ کہنے کو لفظ ہی گم ہو گئے ہوں۔چند لمحے پہلے تک بس کا شور چند لمحے ہوا میں گھلا رہا پھر وہ بھی ختم ہو گیا۔ انہیںماحول میں سناٹے کا احساس تب ہوا،جب بس انہیں سامان سمیت اُتار کر آ گے بڑھ گئی۔ دونوں ہی اپنے چاروں طرف دیکھ رہیں تھیں۔دور دور تک کہیں فصلیں تھیں اور زیادہ ریتلی زمین تھی ۔چھوٹی چھوٹی خود رُو جھاڑیاں اوردرخت تھے۔ آدم ز اد نام کی کوئی شے انہیں دکھائی نہیںدے رہی تھی۔ فارحہ نے گھبرا کر اس طرف دیکھا، جدھر بس گئی تھی۔ سیاہ خالی سڑک نے اس کی گھبراہٹ مزید بڑھا دی۔ اس نے پہلے سے ٹھیک حجاب کو پھر سے درست کیااور ماورا کے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا ۔
” یہ کہاں آ گئے ہم ؟“ فارحہ کے لہجے میں احتجاج کے ساتھ ساتھ خوف پوری طرح عیاں تھا۔مائرہ نے ہوا سے اُڑتے ہوئے اپنے گیسو قابو میں کرتے ہوئے اعتماد سے کہا 
” ایسا ہونا تو نہیں چاہئے، ممکن ہے ہم غلط جگہ پر اتر آ ئی ہوں ۔“
” غلط جگہ ،کیا مطلب ؟“ فارحہ نے دہلتے ہوئے پوچھا
”حوصلہ رکھو ، کیا ہوگیا ہے تمہیں۔“ماورا نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے سکون سے کہا اور پرس میں سے اپنا سیل فون نکال کر نمبر دیکھنے لگی۔ چند لمحوں بعد اس نے نمبر پش کئے اور رابطے ہوتے ہی بولی
”بھئی کہاں ہو، یہاں تو کوئی سائین بورڈ نہیں لگا ہوا؟“ یہ کہہ کر وہ دوسری طرف سے کچھ سننے لگی، پھر اچھا کہہ کر کال بند کر دی ۔
” کیا ہوا ؟ “ تجسس سے بھر پور لہجے میں فارحہ نے پوچھا تو مائرہ اسے سمجھانے لگی 
” یہ جہاں ہم اترے ہیں، بس والے نے ہمیں غلط اتارا ہے ،وہ سٹاپ جہاں ہم نے اترنا تھا ، وہ یہاں سے دو کلو میٹر آ گے ہے ۔وہ شخص....“
” اب کیا ہوگا؟“اس نے مائرہ کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی
” ریلکس۔! ہونا کیا ہے ، وہ شخص ، جس نے ہمیں پک کرنا ہے ،بس اسے یہاں تک آنا ہے ، یہی کوئی پانچ سات منٹ میں اور ہم اس کے ساتھ چلے جائیں گے ۔وہ ہمارے انتظار میں وہاں کھڑا ہے۔“ 
 ” اوہ ، میں تو ڈر گئی تھی۔“ فارحہ نے طویل سانس لیتے ہوئے کہا تو مائرہ ہنستے ہوئے بولی
” اس میں تمہارا قصور بھی نہیں ہے میری جان ، تم پہلی بار یوںباہر نکلی ہو ۔ اور ہاں یہ بات بات پر ڈرنا چھوڑ دو ، ہم نے یہاں تین ماہ تک رہنا ہے ۔ بہادر بنو اور اپنا یہ ڈر اور خوف کسی پر بھی عیاں نہیں ہونے دو ، ورنہ تمہیں مزید ڈرایا جائے گا ۔“
” اوکے ۔“ فارحہ نے ادھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ چند لمحے بعد وہ بولی،” دیکھو، کتنا ویران علاقہ ہے ،دور دور تک کوئی آدم زاد دکھائی ہی نہیں دے رہا۔کچھ عجیب سا ماحول نہیں ہے کیا؟“
” اچھا ہے ۔ “ ماورا نے اپنی رو میں کہا
” کیا مطلب؟“ اس نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
” مطلب یہ کہ تھوڑی دیر ہی کے لئے سہی ، مرد کی آ نکھوں سے تو بچے رہیں گے ۔ آزادی سے سانس لو ، بے دھڑک ، کسی خطرے کے بغیر ،ورنہ پھر آ دم زاد سے چھپتی پھرو گی ۔“ مائرہ نے ہلکا سا قہقہ لگاتے ہوئے کہا تو فارحہ کو اس ویرانے میں بھی زندگی کا احساس ہوا ۔ اس لئے مسکراتے ہوئے بولی
” وہی نا ، تم اپنے فیمینسٹ ہونے کے اظہار کا موقعہ نہیں جانے دیتی،فٹ سے ....“
” اچھا ،اپنا سامان دیکھ لو ، کہیں کچھ بس میں تو نہیں رہ گیا۔“ مائرہ نے سڑک کنارے پڑے سامان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اس کی بات کاٹ دی ۔وہ اپنے فیمینسٹ ہونے پر بحث نہیںکرنا چاہتی تھی۔
” پورا ہی ہے ۔“ اس بار فارحہ نے ہنستے ہوئے کہا ۔ اس کے لہجے میں اعتماد تھا،وہ خود پر قابو پا چکی تھی۔
ماورا سڑک کے کنارے کھڑی ، کبھی ادھر کبھی اُدھر دیکھتے ہوئے باتیں کر رہی تھی۔ اس کے پاس کھڑی فارحہ بھی خاموش سے سن رہی تھی ۔ تبھی ایک طرف سے سفید کار آ تی ہوئی دکھائی دی ۔کچھ ہی دیر بعد وہ ان کے پاس آ رکی ۔ ادھیڑ عمر ڈرائیور نے تصدیق کرکے ان کا سامان رکھا۔ وہ پچھلی نشست پر بیٹھ گئیں تو ڈرائیور نے کار گھمائی اور چل پڑا۔
کافی سارا ویران راستہ تھا، اس کے بعد ہریالی آ نا شروع ہو گئی ۔پھر ایک نہر کے ساتھ ساتھ چلنے لگے ، یہاں تک کہ وہ ایک تجرباتی فارم میں آ گئے ، جس میں ایک ریسٹ ہاﺅس بھی تھا۔جس کے پورچ میں کار آن رکی ۔
” جگہ تو کافی شاندار ہے ۔“ ماورا نے کار سے نکل کر ایک طویل سانس لیتے ہوئے حیرت کہا تو فارحہ نے بھی یہی محسوس کیا۔کچھ دیر بعد وہ اپنے سامان سمیت دونوں لاﺅنج میں تھیں۔ ان کے پاس وہاں کی ملازمہ رجّاں آن کھڑی ہوئی تھی ۔اپنا تعارف کروانے کے بعد اس نے پوچھا
” آپ ایک ہی کمرے میں رہیں گی یا الگ الگ ؟“
”اگرکمرے ز یادہیںتوالگ الگ دے دو، ورنہ ایک ہی ٹھیک ہے ،لیکن پہلے کھانے کا کچھ کر دو۔“ ماورا نے تیزی سے کہا
” کھانا بن گیا ہوا ہے ، آپ فریش ہو کر آ جائیں ۔“ رجّاں نے کہا اور جتنا سامان اٹھا سکتی تھی وہ اٹھا کر چل دی ۔ باقی سامان لئے وہ اس کے پیچھے ہو لیں۔
ماورا اور فارحہ ،ایک این جی او کے لئے کام کر رہی تھیں ۔ اس این جی او کے عورتوں کے حقوق سے متعلق چند بڑے عالمی سطع کے پرا جیکٹس تھے ۔ این جی او کو اس دور افتادہ علاقے میں ایک سروے کرنا تھا۔ یہاں آنے پر کوئی تیار ہی نہیں ہو رہا تھا ۔ پہلے تو فارحہ خود بھی یہاں آنے پر راضی نہیں ہو رہی تھی۔ لیکن جب سیلری کے علاوہ ایک بڑے پیکج کی آفر ہوئی۔ یہ آفر اس کی زندگی میں کافی حد تک آسانی لا سکتی تھی۔سو یہ سروے کرنے کے لئے وہ یہاں آگئی تھی۔ماورا یہاں کیوں آئی تھی،اس بارے وہ کچھ نہیںجانتی تھی۔
اگرچہ وہ صحرائی علاقہ تھا۔ ان کے ذہن میں یہی تھا کہ جب وہ یہاں آئے گیں تو ریت ، ٹیلے اور ویرانی سے واسطہ پڑے گا۔ وہ خود کو اس کے لئے تیار بھی کر چکی تھیں مگر یہاں آتے ہی جس ریسٹ ہاﺅس میں انہیں رہنے کو جگہ ملی ، اسے دیکھ کر وہ دنگ رہ گئی تھیں ۔وہ سر سبز و شاداب ایک تجرباتی فارم تھا جہاں سیاہ ہرن اورتلیر پالے جاتے تھے۔اس میں مصنوعی جنگل کے ساتھ ایک پارک بھی تھا جو سو ایکڑ سے بھی زیادہ رقبے پر پھیلا ہو اتھا۔وسیع سرسبز و شاداب لان ، ہر طرح کے درخت، پھولوں بھرے پودے ، مصنوعی جھیل ،اور ان سب کے درمیان ایک خوبصورت، آرام دہ ، سہولیات کے ساتھ ریسٹ ہاﺅس ۔ ارد گرد کے علاقوں سے لوگ وہاں پر تفریح کے لئے آتے ۔ سارا دن موج مستی کر کے واپس لوٹ جاتے ۔ جیسے ہی شام پڑتی پارک میں سناٹا چھا جاتا۔ وہاں ریسٹ ہاﺅس کی دیکھ بھال کے لئے مالی، چوکیدار، خانساماں اور اس کی بیوی رجّاںسب تھے۔ وہ وہیں بنے کوارٹروں میں رہتے تھے ۔ اس ریسٹ ہاﺅس کا جو فاریسٹ آفیسر تھا، وہ وہاں سے تھوڑی دور اپنی مختصر سی فیملی کے ساتھ رہتا تھا۔ پارک کے لئے مخصوص ملازمین سر شام ہی چلے جاتے تھے ۔انہیں یہاں آ کر لگا جیسے شور شرابے والی زندگی سے نکل کر پر سکون مقام پر آ گئی ہوں ۔ ماورا بھی بہت خوش تھی ۔ این جی او کی طرف سے مہیا کی گئی گاڑی انہیں صبح لے جاتی ۔وہ دن بھر اپنا کام کرتیں شام کو گاڑی انہیںچھوڑ جاتی ۔ انہیں امید تھی کہ تین ماہ میں یہ کام مکمل ہو جائے گا ۔ یہی ان کا ٹارگٹ وقت تھا۔ وہ دونوں بہت خوش تھیں ۔
ایک شام ریسٹ ہاﺅس کے کاریڈور میں بیٹھی وہ باتیں کر رہی تھیں۔ تبھی ماورا نے خوشگوار لہجے میں کہا 
” یار ایک ہفتہ ہو گیا ہے یہاں آئے ہوئے ۔پتہ ہی نہیں چلا، کتنا سکون ہے یہاں پر ۔“
”میں دیکھ رہی ہوں ، تم بہت خوش ہو یہاں پر ۔“ فارحہ نے کہا تو وہ بولی 
” یار بات یہ ہے کہ ہم یہاں خوشی سے تھوڑا آ ئی ہیں،ہمارا مقصد پیسہ کمانا ہے ، ہماری ضرورتیں ہیں۔جنہیں ہم نے پورا کرنا ہے ۔ورنہ کون گھر کا سکون چھوڑ کر باہر دھکے کھاتا ہے ۔ اب کام تو کرنا ہے ، جس کے پیسے ملنے ہیں۔اب اتفاق یہ ہے کہ یہاں ہمیں رہنے کو اچھا مل گیا ،یہ قدرت کی طرف سے ہماری مدد ہے ۔“ ماروا نے تلخی سے کہا
” ہاں ، یہ تو ہے ، اگر ہماری ضرورتیں نہ ہوتیں ،تو شاید اس سے بھی بڑے پیکج پر بھی ہم یہاں نہ آ تیں ، یا پھر نوکری ہی نہ کرتیں ۔ “ فارحہ نے بے بسی سے کہا
” لیکن ایک بات ہے فارحہ ، زندگی جو ہمیں دے رہی ہیں، جہاں قدرت نے ہمیں رکھا ہوا ہے ، اس پر تو ہمارا اختیار نہیں لیکن یہ تو ہمارے بس میں ہے نا کہ ہم خوش رہیں، ان حالات کے ساتھ حوصلے اور صبر کے ساتھ لڑیں۔حالات کو اپنے حق میں کرنے کی کوشش کرتے رہیں ، بہتر سے بہتر کی تلاش میں رہیں۔“ماروا نے جذباتی لہجے میں کہا
” ہاں یہ تو ہے ، ورنہ حالات ہمیں دبا کے رکھ دیں گے ۔“ فارحہ نے اس کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا
” ہم انسانوں کے رویے کو حالات کہہ کر فرار لے لیتے ہیں۔ کتنی بے بسی ہے ۔“ ماروا نے تلخی سے ہنستے ہوئے کہا ۔ ممکن ہے فارحہ کوئی جواب دیتی ، انہی لمحات میں اس کا سیل فون بج اٹھا۔اس کے چہرے پر ایک دم سے خوشی آ گئی۔ اس نے آنکھوں ہی آ نکھوں میں فارحہ سے معذرت چاہتے ہوئے کہا
” ارباز ہے ۔“
یہ کہہ کر وہ وہاں سے تھوڑا دور چلے گئی ۔ فارحہ اس کے بارے میں سوچنے لگی ۔
ماورا ، ایک ایسے سرکاری افسر کی بیٹی تھی،جس نے کبھی کرپشن نہیں کی تھی ۔اس نے کبھی رشوت نہ لی ۔ سو وہ اس نظام میں ایک فالتو آفیسر کی طرح ہمیشہ ایسی جگہوں پر رہا جہاں مال بنانے کی گنجائش ہی نہیں ہوتی تھی ۔اس نے وہی سرکاری مراعات لیں ، جن پر وہ اپنا حق سمجھتا تھا ۔وہ اپنے بیوی اور چار بچوں کے ساتھ بہت خوش اور مطمئن زندگی گزار رہا تھا ۔ بچے پڑھتے لکھتے بڑے ہوتے چلے گئے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ضرورتیں بھی بڑھتی گئیں ۔ماورا سے بڑے دو بھائی اور ایک بہن تھی ۔ وہ سب سے چھوٹی تھی ۔ایک خاص طبقہ سے تعلق رکھنے ، خاندان کے دوسرے لوگوں کی امارت اور دنیاداری کے تقاضوں کے باعث ، وہ خواب بھی بڑے بڑے دیکھنے لگے تھے۔سبھی بہن بھائی محنت کرتے چلے گئے ۔انہیں اچھی نوکریاں مل گئی تھیں ۔ماورا بھی اسی راہ پر تھی اور کسی اچھے چانس کے لئے محنت کرتی چلی جا رہی تھی ۔
وہ اپنے بہن بھائیوں سے تھوڑا الگ تھی ۔اس کی سوچ ان سے ملتی ہی نہیںتھی ۔اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی کمپنی تھی ، جس میں ارباز بھی شامل تھا۔ وہ اس کا کزن تھا اور اسے بہت چاہتا تھا ۔ یونیورسٹی تک وہ اکھٹے پڑھے تھے ۔اس نے ہی ماورا کو بولڈ بنایا تھا ۔بہت زیادہ اعتماد دیا تھا ۔زندگی سے لڑنے اور جدوجہد کا درس اسی نے دیا۔ ماورا کی کمپنی ہی ایسی تھی ، جس میں عورت ہونے اور بااختیار عورت ہونے کا احساس ان میں بہت زیادہ تھا۔لڑکیوں کا وہ گروپ ” فیمینسٹ “ کے نام سے مشہور تھا ۔ارد گرد کے لوگ انہیں ’کھسکی ہوئی لڑکیاں ‘ سمجھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی پروا نہیں کی تھی ۔
 ارباز نے اپنا بزنس شروع کردیا تھا۔دونوں کے والدین کی رضامندی سے ان کی منگنی بھی ہو گئی تھی ۔ اس لئے اب اس کے فیصلوں میں سب سے زیادہ اثر ارباز ہی کا تھا ۔ وہ اس پر بہت زیادہ اعتماد کرتا تھا ۔وہ چاہتی تو بڑے آرام سے اس کے ساتھ شادی کر کے سکون سے زندگی گزار رہی ہوتی ۔لیکن خود کو منوانے کی جو خواہش اس کے اندر تھی ، وہ ابھی پوری نہیںہوئی تھی ۔ وہ محنت سے اکتائی نہیں تھی اور ارباز بھی اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہا تھا ۔ وہ اس کے سب معاملات میں اس کی مدد کرتا تھا ۔ منگنی ہوجانے کے باوجود وہ دونوں ابھی تک ایک دوسرے کے گہرے دوستوں کی طرح تھے ۔
فارحہ نے سوچا ، جو کچھ بھی ہے ، وہ ایک بولڈ ، حوصلہ مند اور زندگی سے لڑے والی لڑکی ہے ۔بندے کو ایسا ہی ہونا چاہئے ۔ وہ انہی سوچوں میں گم تھی ۔ ماورا فون پر باتیں کرتی چلے جا رہی تھی، تبھی دور ایک مسجد سے اذان کی آ واز بلند ہوئی ۔ فارحہ اٹھ گئی ۔ اسے مغرب پڑھنا تھی ۔
فارحہ ، اس سے تھوڑا مختلف لڑکی تھی ۔ ایک غریب گھر کی لڑکی، جس کے باپ نے ساری زندگی کولہو کے بیل کی طرح مزدوری کی تھی لیکن سوائے ایک گروی گھر کے ، وہ کچھ نہ بنا سکا تھا۔ایک بھائی ،بیمار ماں اور زندگی کا تھکایا ہوا باپ ، یہی اس کا کل سرمایہ تھا۔بھائی چھوٹا تھا ، پڑھنے کے ساتھ ساتھ مزدوری بھی کرتا تھا۔ بس بھلے وقتوں میں ایک مکان بن گیا تھا، جو ان دنوں کافی بہتر علاقے میں آ جانے سے تھوڑا قیمتی ہو گیا تھا ۔ مگر گروی ہونے کے باعث وہ بیچ بھی نہیں سکتے تھے ۔اتنی زیادہ رقم بھی نہیں تھی ۔ این جی او کا یہ پیکج ملا تو اس نے اپنا مکان چھڑوانے کا سوچ کرحامی بھر دی تھی ۔ مشکل تو تھی ، لیکن اس کے بعد ایک طویل سکھ تھا۔ اسے لگا یہ آ فر اس کے رَبّ کی طرف سے ہے ۔ وہ ہر نماز کے بعد اپنے اچھے مستقبل کا سوال اپنے رَبّ ہی کرتی تھی ۔ وہ مذہبی ذہن رکھتی تھی اور مذہب پر عمل کرنے کی پوری پوری کوشش کرتی تھی ۔
ماورا کے ساتھ میں اس کے دن بہت اچھے گذر رہے تھے ۔وہ جہاں کام اکھٹے کرتیں ، وہاں فارحہ نے زندگی کے بارے ماورا سے بڑا حوصلہ پایا ۔وہ سونے کے وقت الگ الگ کمروں میں چلی جاتیں ۔ ورنہ باقی وقت اکھٹے گذرتا۔ زندگی سے بھرپور ماورا کو دیکھ کر فارحہ میں بھی حوصلہ بڑھ گیا تھا۔پر سکون سے دن گذرتے چلے جا رہے تھے ۔وہ بہت اچھے انداز میں کام کر رہی تھیں کہ پر سکون جھیل جیسے حالات میں ایک بھاری پتھر آ ن پڑا۔
ماورا نے لندن کی کسی یونیورسٹی میں اپلائی کیا ہو ا تھا،اسے وہاں سے سپانسر مل گیا۔ماورا کے بہت سارے خوابوں میں سے ایک خواب یہ بھی تھا۔ وہ سپانسر کایہ چانس چھوڑ نہیں سکتی تھی ۔اس لئے اس نے فورا واپس جانے کی تیاری کر لی ۔ فارحہ اسے کسی بھی قیمت پر روک نہیں سکتی تھی ۔کوئی جواز نہیں تھا۔لیکن وہ گھبرا گئی تھی ۔ ماورا اس کی یہ حالت بھانپ گئی تھی ۔ اسی شام ارباز اسے لینے آ گیا۔ ماورا اپنا سامان اکھٹا کرنے لگی اور فارحہ نے لاﺅنج میں چائے کا بندوبست کردیا۔
”اچھا ، ارباز آپ کھانے میں کیا پسند کریں گے ، وہی میں بنوا لوں ۔“ فارحہ نے پوچھا
” شکریہ ۔ایک توسفر بھی رات کا ہے اور دوسرا طویل بھی ہے ، میں رات رُکوں گا نہیں، ابھی واپس نکلنا ہے۔“ ارباز نے کہا تو لاﺅنج میں داخل ہوتے ہوئے ماورا نے کہا
” میں تیار ہوں ۔ سامان سب پیک ہے ۔“
 تبھی اس کی نگاہ اداس اور گھبرائی ہوئی فارحہ پر پڑی ، وہ لمحہ بھر خاموش رہی پھر اس کے پاس بیٹھ کر بولی”ہم سدا ایک ساتھ تو نہیں رہ سکتے نا ، اس پراجیکٹ کے بعد بھی تو جدا ہونا تھا۔تم اداس مت ہو ، اپنے آپ کو آزماﺅ ۔ہاں جب بھی جہاں بھی میری ضرورت ہو ئی ،میں تمہاری مدد ضرور کروں گی ۔“
” تم ٹھیک کہتی ہو ماورا ، میری دعا ہے ، تم بہت ترقی کرو ،تمہارا شکریہ کہ تم میرا حوصلہ بڑھا رہی ہو۔“ فارحہ نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا توارباز نے کہا
”فارحہ ، جب بھی ہماری ضرورت ہو ، ہمیں کال ضرور کرنا،اور گھبرانا مت ، کوئی بھی مشکل ہو مجھے بتانا ، ٹھیک ۔“
” یار میں فارن جا رہی ہوں، یہ ارباز تو پاکستان ہی میں ہے۔کوئی مشکل ہو تو اسے بتانا،سمجھو میں ہی ہوں۔“ماروا نے مسکراتے ہوئے کہا
 اوکے ۔“ فارحہ دھیمے سے بولی ۔ 
وہ سمجھ رہی تھی کہ یہ سب وقتی باتیں ہیں۔
” گڈ گرل ۔“ ماورا نے اسے اپنے ساتھ لگاتے ہوئے کہا
 ریسٹ ہاﺅس کے پورچ میں وہاںکے ملازم بھی تھے۔ اس وقت سورج ڈوبنے کو تھا ، جب وہ وہاں سے چلے گئے ۔ماورا کو واپس جانا پڑا تھا۔ وہ اپنی اس واپسی پر پرجوش تھی۔
ژ....ژ....ژ
 ماورا چلی گئی تو یہ ریسٹ ہاﺅس میں اکیلی ہو گئی ۔ اکیلے پن کا احساس بڑھنے لگا۔ وہاں کے ملازمین اسے ناشتہ کروا دیتے،گاڑی آتی اور اسے لے جاتی، صحرائی علاقوں میںاکیلے سروے کرتے ہوئے ایک خوف اس پر چھایا رہتا۔ شام ہوتے ہی پلٹتی ، فریش ہو کر کھاتی پیتی، اپنی اماں کے ساتھ فون پر باتیں کرکے اپنی خیریت بتاتی ۔ رات گئے تک لیپ ٹاپ پر اپنے کام میں مصروف رہتی اور پھر سو جاتی ۔وہ ایک ایسی زندگی میں آگئی ، جس میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس اس سے لپٹ کر رہ گیا تھا۔
اس کی زندگی میںہلچل اس وقت ہوئی جب ایک شام وہ جلدی واپس آ گئی تھی ۔اس کادل چاہا کہ وہ کھانے کے لئے خود کچھ بنائے ۔ وہ کچن میں چلی گئی اور رجّاں کے ساتھ کوکنگ کر نے لگی ۔ تبھی باہر سے چوکیدار نے آ کر بتایا۔
” میڈم جی باہر ایک صاحب آئے ہیں، وہ آپ کا پوچھ رہے ہیں۔“ 
” مجھے ....؟ کون ہے ؟ نام پوچھا تم نے ؟“ اس نے تجسس سے پوچھا
”احمد جمال نام بتا رہے ہیں، کہہ رہے ہیں آپ کے کولیگ ہیں اور آپ ہی کی این جی او سے آئے ہیں۔“ چوکیدار نے بتایا تو وہ ایک ہی ثانئے میں پہچان گئی ۔ تبھی اس نے کہا
” اُو اچھا، انہیں لاﺅنج میں بٹھاﺅ ، پانی وغیرہ پلاﺅ ، میں آتی ہوں۔“
احمد جمال، انہی کے ساتھ کام کرتا تھا۔ بہت اچھا ، سمجھدار اور وجیہ نوجوان تھا۔ بہت کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا ۔ ہیڈ آفس میں کئی بار اس سے آمنا سامنا ہوا تھا۔ممکن ہے کبھی کوئی بات بھی ہوئی ہو ۔ماورا کے چلے جانے کے بعد اسے یقین تھا کہ اس کی جگہ کوئی دوسرا آئے گا ،لیکن یہ احمد جمال آ جائے گا ، یہ اس کے گمان میںبھی نہیںتھا۔ وہ کوکنگ چھوڑ کر فوراً ہی لاﺅنج میں چلی گئی ۔ اسے دیکھتے ہی جمال کھڑا ہوتے ہوئے خوشگوار لہجے میںبولا
” اسلام علیکم، مس فارحہ، کیسی ہیں آپ؟“
” میں بالکل ٹھیک ہوں، آپ سنائیں، آپ کیسے ہیں۔“ دھیمے لہجے میں کہتے ہوئے وہ سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی ۔ اسے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے ۔
” میں ٹھیک ہوں، اور میںمس ماورا کی جگہ آپ کو جوائین کرنے آیا ہوں ۔“ اس نے مسکراتے ہوئے اپنے آنے کی وجہ بیان کر دی ۔ شاید اس نے فارحہ کا چہرہ پڑھ لیا تھا ۔ جہاں پہ الجھنیں ایک دوسرے سے الجھ رہی تھیں۔
” اوہ ۔!“ اس نے بے ساختہ کہا یوں کہا جیسے اسے یقین کرنا ہی پڑا ہو ۔ نجانے کیوں وہ ایک دم سے خوف زدہ ہو گئی تھی ۔اسے سمجھ نہیںآرہی تھی کہ وہ اس کی آمد پر کیسا اظہار کرے ۔وہ محض اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی تھی، تبھی احمد جمال نے آہستگی سے کہا
”مس فارحہ ۔! کیا آپ کو میرا آنا اچھا نہیںلگا؟ ‘ ‘
” نن، نہیں، ایسی کوئی بات نہیں،آپ کو ہیڈ آفس نے بھیجا ہے ،تو میرا اچھا لگنا یا نہ لگنا، یہ کوئی معنی نہیںرکھتا۔ آپ پلیز فریش ہو جائیں۔میںکھانا لگواتی ہوں ، آپ کو بھوک لگی ہو گی ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ کر تیزی سے اندر کی جانب بڑھ گئی ۔ 
اگلی صبح تک وہ احمد جمال سے نہیں ملی تھی ۔وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ احمد جمال سے کیسا رویہ رکھے ؟ وہ اس کے ساتھ کیسے کام کر پائے گی ؟صبح سویرے جب رجّاں اس کے لئے چائے لے کر اس کے کمرے میں گئی۔ اس نے بتایا کہ احمد جمال کو اسی ریسٹ ہاﺅس میں کون سا کمرہ دیا گیا ہے ۔وہاں ان کا سامان سیٹ ہوگیا ہے ، جو بہت مختصر سا ہے ۔ یہ سب بتانے کے بعد رجّاںنے تجسس سے پوچھا
” میڈم ، یہ جو نئے صاحب آئے ہیں، کیا اب یہیں رہیں گے آپ کے ساتھ؟“
” نہیںمیرے ساتھ کیوںرہیں گے؟“ اس نے بے خیالی میں تیزی سے کہا۔ اسے رجّاں کا کہا ہوا لفظ”ساتھ“ بہت عجیب سا لگا تھا، جو اسے پسند نہیںآیاتھا۔ اسی لئے لہجہ بھی کافی حد تک عجیب تلخ ہو گیا تھا۔
 تب رجّاں نے کھسیاتے ہوئے جلدی سے صفائی دیتے ہوئے کہا 
” نہیں میرا مطلب ہے ، جس طرح وہ مس ماورا آپ کے ساتھ کام کرتی تھیں،یہیں اسی ریسٹ ہاﺅس میں رہتی تھیں،آپ دونوں رات گئے تک اکھٹے کام کرتی رہتی تھیں، ظاہر ہے اب یہ صاحب انہی کی جگہ آ ئے ہیں تو.... میں نے پوچھا۔“
” بہت بولتی ہو رجّاں، جاﺅ ناشتہ بناﺅ ۔“ اس نے اتناہی کہا اور رجّاں کو کوئی واضح جواب دئیے بغیر کچن میں بھیج دیالیکن اس کے لاشعور میں جو خوف تھا، وہ اس نے رجّاں کی زبانی سن لیا تھا۔کیونکہ فارحہ بھی رات بھر یہی سوچتی رہی تھی ۔ اس کے سامنے بہت سارے سوال آن ٹھہرے تھے ۔ کیا اب مجھے احمد جمال کے ساتھ ایک ہی چھت تلے رہنا پڑے گا ؟ کیا اسے اکیلے دور افتادہ علاقوں میں جمال کے ساتھ جانا پڑے گا؟ وہ لاکھ اس کی این جی او کا کارکن تھا لیکن یہاں اس کے ساتھ تنہائی میں نہیں رہ سکتی تھی ۔ ابھی تو محض ایک ماہ گذرا ہے ، وہ مزید دو ماہ اس کے ساتھ یہاں کیسے گزارسکے گی؟کئی سوال اس کے سامنے تن گئے تھے۔وہ انہی سوالوں سے نہ تو پیچھا چھڑا سکتی تھی اور نہ ہی انہیں نظر انداز کر سکتی تھی۔ اس کا کوئی حل تو نکالنا تھا۔ یہ اس لئے بھی تھا کہ ایک ہی رات کی صبح رجّاں اس کے سامنے ایسے سوال لے آ ئی تھی ، آئندہ آنے والی زندگی میں وہ کیسے کیسے سوالوں کا سامنا کر سکے گی ؟ رجّاں تو چلی گئی لیکن اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس بارے احمد جمال ہی سے بات کرے گی ۔وہ تیار ہو کر ناشتے کی میز پر آ گئی ۔ جہاں احمد جمال پہلے ہی سے موجود تھا ۔ رضیہ نے ناشتہ لگا دیا ہوا تھا۔ اس نے بیٹھتے ہی بڑے اعتماد کے ساتھ احمد جمال سے پوچھا
” کیسا لگا آپ کو یہاں کا ماحول ؟“
” بہت اچھا ہے ۔“ اس نے بے ساختہ کہا،پھر لمحہ بھر رُک کر بولا،” میری سوچ سے بھی کہیں اچھا،میں یہ سمجھ رہا تھا ، یہاںکوئی ویرانہ ہوگا، کوئی ٹوٹا پھوٹا گھر ، یا کوئی جھونپڑی ....“ 
” میںبھی ایسا ہی سمجھ رہی تھی، لیکن بہت اچھا ماحول ملا۔“وہ دھیمے سے بولی
”اب ٹارگٹ ایریا جیسا بھی ہو ، رہنے کو پر سکون جگہ توہے، یہاں کام کرنے کا لطف آ ئے گا ،میں تو آج ہی سے کام کی ابتدا کردوں گا۔“ اس نے پر جوش لہجے میں کہا
”کام کے بارے میں بتایا گیا ہے آپ کو؟ “ فارحہ نے یوں پوچھا جیسے بے خیالی میںہو۔
” ظاہر ہے اب آپ سینئر ہیں، یہاں پر جو میرا کام ہو گا اب آپ ہی نے بتانا ہے ۔مجھے میرا کام بتا دیں توشروعات کروں۔“احمد جمال نے اسی خوشگوار لہجے میں کہا جیسے اسے یہاں کا ماحول بہت پسند آ گیا ہو اوراس ماحول نے اس پر کافی اچھا اثر ڈالا ہو ۔اس پر فارحہ چند لمحے خاموش رہی ، پھر جمال کی طرف دیکھے بغیر بڑا حوصلہ کرتے ہوئے بولی
” اس سے پہلے مجھے آپ سے کچھ ضروری باتیں کرنا ہوں گی ۔ “
” جی ، جیسا آپ چاہیں۔“ جمال نے فورا کہہ دیا
” ٹھیک ہے ،ناشتے کے بعد بات کرتے ہیں۔“ اس نے حتمی انداز میںکہا اور ناشتہ کرنے لگی ۔ وہ جمال سے کس طرح بات کرے گی ، اس بارے وہ سوچ چکی تھی۔ 
وہ دونوں ریسٹ ہاﺅس کے کاریڈور میں آمنے سامنے کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے درمیان میں پڑی چھوٹی میز پر چائے کے دو سفیدکپ رجّاںرکھ کر جا چکی تھی ۔ ان دونوں کے درمیان خاموشی ٹھہری ہوئی تھی ۔ جمال کاریڈور میں بیٹھا ماحول کاجائزہ لے رہا تھا ۔ جہاں وہ بیٹھے تھے ، اس کے ساتھ ہی ایک سڑک تھی ۔ جس کے آگے کافی بڑا لان تھا۔ اس میں پھولوں کی کیاری اور پھر باﺅنڈری وال تھی ۔بہت زبردست ماحول تھا۔ لیکن اس ماحول میں بیٹھے ہوئے وہ دونوں ذہنی طور پر دباﺅ میں تھے ۔ سو اس کے لئے یہ ماحول اور اس کی خوشگواریت کوئی معنی نہیں رکھتی تھی ۔چند منٹ یونہی گذر گئے تو فارحہ نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے کہا
” جمال صاحب ، کیوں نہ ہم ایک دوسرے کے بارے میں جان لیں، میرا مطلب تعارف ....“
وہ اتنا ہی کہہ پائی تھی کہ وہ اس کی جانب متوجہ ہوتا ہوا تیزی سے بولا
”جی، جی بالکل ، میں بتاتا ہوں اپنے بارے میں۔“ اس نے کہا اور پھر سانس لے کر کہتا چلا گیا،” ایک برس پہلے میںنے ماسٹرز کیا تھا ۔ تب سے میںنے یہ این جی او جوائین کر لی تھی ۔ کیونکہ مجھے معاشی مسئلہ درپیش تھا۔ میں اپنے والدین کا ایک ہی بیٹاہوں ، میری ایک بہن ہے ، جو مجھ سے بڑی ہے ۔ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتا ہوں ، میرے والد چھوٹے سے سرکاری ملازم ہیں۔ اب جاب ملی ہے تو گھر والوں کا ساتھ دینے والا بن گیا ہوں ۔میری کوشش ہے کہ مس ماورا کی طرح کوئی سکالرشپ مل جائے اور میں باہر پڑھنے چلا جاﺅں۔ لیکن اس سے پہلے میں اپنی بڑی بہن کی شادی کر دینا چاہتا ہوں ۔ یہ میری ہی نہیںمیرے والدین کی بھی خواہش ہے۔ میرا تعلیمی کئیریر بہت اچھا ہے ۔ مجھے امید ہے کہ مجھے بھی کوئی نہ کوئی سپانسر مل جائے گا اور یہ جو مشکل دن ہیں، یہ ختم ہو جائیں گے ۔ “ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں نجانے کتنی امیدوں کے چراغ روشن تھے ۔وہ کہہ چکا تو فارحہ چند لمحے خاموش رہی پھر بڑے اعتماد سے بولی
” میں بھی کچھ ایسا ہی فیملی بیک گراﺅنڈ رکھتی ہوں ۔ میں بھی کام کرنے پر مجبور ہوں۔میں اگر کسی امیر کھاتے پیتے گھر سے ہوتی نا تو یہاں بالکل بھی نہ ہوتی، مجھے یہ کام نہ کرنا پڑتا اور میں سکون سے اپنے گھر میں ہوتی۔“
” دیکھیں یہ کام ....“ جمال نے کہنا چاہا لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے ٹوکتے ہوئے کہا
” پلیز ، میں جو کچھ کہنا چاہتی ہوں ، اُسے سنیں۔“ 
” جی ، جی بولیں۔“ اس نے کہا تو فارحہ نے ہمت کرتے ہوئے ایک طویل سانس لے کر کہا
”میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اور میرے والد ایک معمولی سے ملازم ہیں۔میرا بھی ایک ہی بھائی ہے ۔ میں اپنے والدین کی شکر گذار ہوں کہ انہوںنے ہمیں اچھی تعلیم دی ۔جس سے ہم تھوڑا بہت کمانے لگ گئے ہیں ۔ لیکن.... لیکن .... اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ ہم اپنے والدین کو دُکھ دیں۔“
” آپ کی بات میں سمجھ رہا ہوں ۔ مگر یہ بات کہ ....ہم دُکھ دیں، میں یہ دُکھ دینے والی بات، یہ سمجھا نہیں ۔“ وہ ہولے سے بولا تو فارحہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
” وہی بتانے جا رہی ہوں، آپ پلیز اسے سمجھنے کی کوشش کیجئے گا ۔ میرے یہاں آنے کی وجہ ایک اچھے پیکج کی آفر تھی اور دوسرا میرے ساتھ ماورا تھی ۔ وہ چلی گئی اور آپ آ گئے ، مجھے آپ کے ساتھ ویسے کوئی مسئلہ نہیں ،لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ....“ وہ کہتے کہتے رُک گئی 
” مسئلہ؟ وہ کیا ہے؟“ اس نے حیرت بھرے لہجے میںپوچھا تو وہ خود پر قابو رکھتے ہوئے بولی
” دیکھیں، ہم ایک چھت تلے رہیںگے،یہ ایک دو دن کی بات نہیں      ہے ۔ میں لڑکی ہوں ، کل میرے ساتھ سو باتیں بن سکتی ہیں۔اور یہ باتیں تو بلاشبہ ہوں گی ، جس کی باز گشت میرے ساتھ زندگی بھر بھی رہ سکتی ہے ۔“
” جی یہ تو آپ نے ٹھیک کہا؟“ جمال نے فارحہ کا پوائنٹ آف ویو سمجھتے ہوئے کہا
 ” لیکن اس کے علاوہ ایک بات جو سب سے اہم ہے ، اور وہ یہ کہ آپ میرے لئے نا محرم ہو ، میں آپ کے ساتھ ایک چھت تلے نہیں رہ سکتی ہوں ۔مجھے شفٹ ہونا پڑے گا یا آ پ کو ؟“ فارحہ نے سنجیدگی سے کہا تو جمال نے اس کی طرف غور سے دیکھا، پھر چند لمحے سوچنے کے بعد کہا
” تو اس کا حل کیا نکالتی ہیں آ پ؟“
” اس کا حل یہی ہے کہ مجھے واپس جانا ہو گا، یا پھر آپ کو ....“ فارحہ نے کہنا چاہا تو جمال سر ہلاتے ہوئے بولا
” یہ تو ہے۔“یہ کہہ وہ اس کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا،”ظاہر ہے اگر میں اپنے رہنے کا کہیں دوسری جگہ بھی بندو بست کر لوں تو پھر بھی کام کے لئے ساتھ جانا ہوگا،اکھٹے کام کرنا ہوگا۔ہمارا زیادہ وقت اکھٹے ہی گذرنا ہے ۔“
” جی ۔“ وہ بولی تو جمال نے بات سمجھتے ہوئے کہا
” دیکھیں آپ کو مجھ سے کوئی مسئلہ نہیںہوگا اور نہ پریشانی ہوگی ، میں ایک دو دن میں ہیڈ آفس بات کرتا ہوں ، کوئی حل نکل آ ئے گا ۔میں یہ ذمہ داری خود پر لے لوں گا۔“
” آپ بہتر سمجھتے ہیں۔“ فارحہ نے کہا ۔
” میںابھی واپس چلا جاتا لیکن میںہیڈ آفس کو یہ اطلاع دے چکا ہوں کہ میں یہاں پہنچ گیا ہوں ۔ اب انہیں سمجھانے کے لئے ایک معقول بہانہ تو بنانا ہوگا۔“ اس نے کہا
”بہانہ ،مجھے افسوس ہے کہ آپ کو ....“ فارحہ نے کہنا چاہا ، جس پر جمال نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” آپ کی بات معقول ہے ، لیکن میری مجبوری یہ ہے کہ مجھے ابھی یہ نوکری چاہئے، جس طرح آپ ایک اچھے پیکج کے لئے یہاں ہیں، ویسے ہی میں یہاں پر ہوں ۔میں کوشش کروں گا بہانہ بنانے کی تاکہ میری نوکری بچ جائے، اچھا پیکج نہ سہی ۔ لیکن، میں کوشش کرتا ہوں۔“
”دیکھیں اگر وہ نہ مانیں تو پھر مجھے کوئی کوشش کرنا ہوگی ۔“ فارحہ کو احساس ہو ا کہ وہ کس قدر خود غرض ہو کر یہ بات کہہ رہی ہے ۔ 
”آپ جائیں ، اپنے معمول کے مطابق کام کریں،جیسے روزانہ جا رہی ہیں۔میں یہاں رہتے ہوئے کچھ سوچتا ہوں، شام تک کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا ۔ “ جمال نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ اٹھی اور اندر کی طرف چل دی ۔اسے لینے گاڑی آ چکی تھی۔ 
 سرخ افق پر سرمئی بادلوں کی اوٹ میں سورج ڈھلنے کےلئے جھک گیا تھا۔ایسے میںفارحہ گاڑی میں واپس ریسٹ ہاﺅس آ گئی ۔ اس نے اپنا سامان کمرے میں رکھا اورکچھ دیر بعد فریش ہو کر کرسی پر آن بیٹھی ۔ اگرچہ صبح جمال سے ہونے والی باتوں کے بارے میں وہ سارا دن ہی سوچتی رہی تھی تاہم واپس آ کر وہ تھوڑا بد حواس ہو گئی تھی۔ اسے سمجھ میںنہیںآ رہا تھا کہ جمال کا سامنا کیسے کرے گی ۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی کہ جس قدر اسے نوکری کی ضرورت ہے ، اسی طرح جمال کو بھی ہے ، پرابلم اُس کا اپنا ہے ، جس کی سزا جمال کو کیوںملے ؟ وہ کچھ بھی ہیڈ آفس سے کہہ سکتا ہے۔یا پھر ہیڈ آفس سے کوئی بھی جواب آ سکتا ہے۔ظاہر ہے اس میںکوئی بات اچھی نہیںہوگی ۔انہیں ملازمین کے پرابلم سے کوئی غرض نہیں۔ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ رجّاں کمرے میںآگئی ۔ اس کے ہاتھ میںچھوٹا سا ٹرے تھا جس میں چائے کا مگ رکھا ہوا تھا۔ 
” میڈم چائے ۔“ اس نے ہولے سے کہا
”رکھ دو ۔“ فارحہ نے بے دلی سے بولی۔ 
” میڈم ایک بات پوچھوں ۔“ اس نے دھیمے سے پوچھا تو فارحہ نے بے خیالی میں کہا
”’ ہاں پوچھو۔“
” ایسا کیا ہوگیا ہے ، جب سے جمال صاحب یہاں آئے ہیں، آپ بھی پریشان ہیں اور وہ بھی سارا دن کمرے میں سوچتے رہے ہیں۔حالانکہ جب وہ کل آ ئے تھے تو بڑے خوشگوار موڈ میںتھے۔“
” اب میں تمہیں کیا بتاﺅں رجّاں ۔“ اس نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا اور چائے کا مگ اٹھا لیا۔
” مجھے کچھ کچھ اندازہ ہے ۔آپ اور وہ ایک جگہ نہیںرہ سکتے ہیں ، ظاہر ہیں لوگ باتیں کریں گے اور ....“ وہ کہتی چلی گئی تھی۔
”اب مجھے یا انہیں یہاں سے جانا پڑے گا۔“ اس نے دکھ سے کہا
”کہیں پہلے تو آپ اور ان کے درمیان کوئی ایسا تعلق تو نہیںہے ، جس کی وجہ سے یہ ....“ اس نے شک بھرے انداز میں کہا تو فارحہ کا مگ چھلک پڑا۔اس کا جیسا ذہن تھا ، ویسا ہی سوچنا تھا۔اس لئے تیزی سے بولی
” او خدا کی بندی ایسا کچھ نہیں ہے ، تم کہاں کے قلابے ملا رہی ہو ۔“
” میڈم ایک بات کہوں ، یہاں کچھ نہ ہونے سے لوگ بہت کچھ بنا لیتے ہیں، آپ کا مسئلہ اپنی جگہ ٹھیک ہے مگر اس کا کوئی حل بھی نہیں۔“ رجّاں نے اپنی طرف سے بڑی بات کہہ دی تھی ۔ اس لئے فارحہ نے جان چھڑانے والے اندازمیںکہا
”اچھا ، چھوڑو ان باتوں کو ، آج کیا بنا رہی ہو؟“
”وہی جو آپ کہہ رہی تھیں کل ،مٹن کری ۔“ رجّاں نے کہا تو فارحہ چائے کا سپ لے کر بولی
” ٹھیک ہے ، پھر بناﺅ جلدی سے ، مجھے بھوک لگی ہے ۔اور ہاں ، جمال سے کہو ، لاﺅنج میں آئے ۔“
” جی ٹھیک ہے ۔“ وہ سر ہلاتی ہوئی اٹھ گئی ۔
فارحہ لاﺅنج میں آ ئی تو جمال صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ بھی اس کے سامنے والے صوفے پر بیٹھ کر بولی
” آپ نے کی بات ؟“
” ہاں کی ، لیکن کسی ہیڈسے نہیں بلکہ اپنے دوست صائم سے بات کی ہے۔“ جمال نے پر سکون لہجے میں کہا تو اسے لگا، ساتھ رہنے کی جو بات وہ چھپانا چاہتی ہے وہ تو سامنے آگئی۔صائم سے پتہ نہیںکن کن کو....یہ سوچتے ہی اس نے حیرت سے گھبرا تے ہوئے پوچھا۔
” اس سے کیوں ، اور کیا بات کی آ پ نے ؟ یہ بھی بتایا ہوگا کہ میں ....“
”پلیز آپ پریشان نہ ہوں ، میں بتاتا ہوں بات کیاہوئی ،“ یہ کہہ کروہ رُکا ۔جس پر وہ خاموش رہی تب وہ کہتا چلا گیا،” میں نے اسے صرف یہ بتایا ہے کہ مجھے جگہ پسند نہیںآئی ، وہ اپنے طور پر ایک آدھ دن میںیہ معلوم کرے کہ کوئی لڑکی یہاں آنا چاہتی ہے تو اسے یہاں پر لایا جائے ، میری جگہ ۔“
” اور اگر کوئی لڑکی تیار نہ ہوئی تو ؟“ اس نے فوراً پوچھا، تب جمال نے حتمی لہجے میں کہا
” کل تک پتہ چل جائے گا ، پھر جو بھی ہو ،ورنہ میں ہیڈ آفس سے وہی کہہ دوںگا جو ہم میں طے ہو گیا ہوا ہے ۔“
” ٹھیک ہے ۔“ یہ کہہ کر وہ اُٹھ گئی ۔ اس کے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ اگر کوئی لڑکی نہ آئی ، اس کی جگہ کو دوسرا مرد آ گیا تو کیا یہ احمد جمال کے ساتھ زیادتی نہیں ہے ؟ یہ تو پھر بھی اچھے طریقے سے پیش آ یا ہے ، نیا آ نے والا کیسا ہوگا، اس کے بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے ؟
فارحہ ڈنر کے بعد اپنے کمرے میں چلی گئی ۔ اس کا دل نہیںچاہ رہا تھا کہ کام کرے ۔اس عجیب سی کشمکش نے اس نے اندر ہلچل مچائی ہوئی تھی ۔ایک بارتو اس نے سوچا کہ وہ خود ہی یہ سب چھوڑ کر چلی جائے ۔ لیکن اگلی ہی لمحے اسے ان ضروریات کا خیال آ نے لگا، جس کے باعث وہ یہاں تک آئی تھی ۔ گروی مکان اس کا سب سے بڑا مسئلہ تھا ۔ایک کے بعد ایک ضرورت اس کی آ نکھوں کے سامنے لہرا گئی ۔ یہ ضرورتیں بھی انسان کو بہت عجیب عجیب فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ہم نہ چاہتے ہوئے بھی آ بلہ پا ہو جاتے ہیں ۔اسے یہ بات اچھی طرح معلوم تھی کہ جس طرح وہ لوگ گذر بسر کر رہے تھے، جتنی آ مدنی تھی ، اس میں اس کا جہیز بننا تو بہت دور کی بات ،گھر کو بھی ٹھیک حالت میں نہیںکر سکتے تھے۔ اسے نوکری کرنا پڑی ۔ یہ اچھا پیکج ملا تو اسے یہ ُامید ہو گئی کہ گروی گھر چھڑوا لے گی، یا کم از کم وہ اپنے لئے کچھ نہ کچھ بنا لے گی ۔شاید اسی باعث اسے کوئی اچھا گھر مل جائے ؟اب اسے لگتا تھا کہ یہ بھی نہ ہوسکے گا ۔ جہیز بناتے کوئی ایسی بات اس کے ساتھ لگ جائے ، جس سے وہ ساری زندگی پیچھا نہ چھڑا سکے ۔
فارحہ کی یہ سوچ یونہی نہیںتھی۔ اس کی اماں ، ان دونوں سکول ہی میں پڑھتی تھیں، جب ان کے ابا سے انہیںمحبت ہو گئی ۔ابا کوئی غیر نہیںتھے ۔ ان کے کزن تھے ۔انہوں نے رشتہ بھیجا تو انکار ہوگیا کہ لڑکا کرتا توکچھ نہیں ،لڑکی کیسے دے دیں۔ اماں کا سب سے بڑا جرم یہ ہو گیا کہ اس نے اس رشتے کی حمایت کردی ۔ اپنے والدین سے کہہ دیا کہ یہیں شادی کروں گی ۔اسی بات پر خاندان میں وہ لے دے ہوئی کہ خدا کی پناہ ۔ ذرا سی بات کے وہ افسانے بنے کہ جن کی باز گشت آج تک سنائی دیتی تھی۔ شادی کے بعد ابا کو نوکری مل گئی ، انہوں نے پہلے اپنے خاندان کو پالا، پھر اولاد کی باری آئی ۔ اماں کے میکے سے اس کا ایک ہی ماموں تھا۔ کچھ عرصہ اس نے تھوڑا بہت پوچھا، پھر وہ بھی لندن سدھار گیا۔ پلٹ کر نہ پوچھا اور زندگی لشتم پشتم چلتی رہی ۔وہ نہیںچاہتی تھی کہ اس کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہو ۔سوچ سوچ کر اس کا دماغ دُکھنے لگا تھا۔ انہی لمحات میں اس کا فون بج اٹھا ۔اسکرین پر اس کی دوست ماورا کا نمبر تھا۔ اس نے جلدی سے کال رسیو کر لی ۔ تمہیدی باتوں کے بعد اس نے معذرت خواہانہ لہجے میںکہا 
” سوری فارحہ ، کل میں تمہیں کال نہیںکر سکی ۔ تم سمجھ نہیںسکتی یہاں میں کس قدر مصروف ہو گئی ہوں۔ میںنے تمہارے سارے میسج پڑھ لئے ہیں اور تمہارا پرابلم بھی سمجھ گئی ہوں۔میرے پاس اس کا حل ہے ، اگر تم تھوڑی سی ہمت کرو تو ۔“
” تھوڑی سی ہمت ، مطلب؟“ فارحہ نے تجسس سے پوچھا تو وہ بولی
”جہاں پر میں رہتی ہوں ،یہاں پر دوسرے لوگ توویسے ہی ایک ساتھ شیئر کر کے رہ رہے ہیں، انہیںکوئی مسئلہ نہیں۔ لیکن یہاں پر رہنے کے لئے ہم جیسی لڑکیاں بہت مشکل میں ہوتی ہیں۔یہاں ایک حل ہے ، اور وہ ہے کانٹرکٹ میرج ۔ ایک خاص وقت کے لئے وہ شادی کرلیتے ہیں ، اس میں ازدواجی تعلق ہو یا نہ ہو ،یہ طے کر لیتے ہیں اور وقت گذر جاتا ہے ۔“
” تمہارا مطلب ہے میں یہاں کانٹریکٹ میرج ، یہ کیا بات کر رہی ہو ۔“فارحہ نے انتہائی حیرت سے کہا تو ماروا سمجھاتے ہوئے بولی 
”نہ کرو کانٹریکٹ میرج ، ویسے ہی شادی کر لو ۔دیکھو،تم نے کہیں نہ کہیں تو شادی کرنی ہے ، اسی سے کرلو ، اگر نبھ گئی تو بہت اچھا، نہ نبھی تو بھی کوئی بات نہیں۔“
” ایسا کیسے ممکن ہے ؟شادی کے بعد جو معاملات ہیں ، میں انہیں کیسے افورڈ کر پاﺅں گی ابھی؟“ اس نے انتہائی پریشانی سے پوچھا
”ضروری نہیںکہ تم اس سے ازدواجی تعلق بھی رکھو ۔میری بات سمجھ رہی ہو نا ، پہلے ہی بات کرلیں گے نا ۔“ 
” یار یہ کیسے ممکن ہے، میں اسے کیسے سمجھاﺅں گی کہ اس طرح کی شادی ....“ وہ حیرت سے بولی
” تمہاری جیسی لڑکیوںکا یہی پرابلم ہے کہ اپنا حق بھی نہیںچھین سکتی ہو۔ میں جانتی ہوں جمال کو ، بہت اچھا لڑکا ہے ، بات مان جائے گا ، تم نہ کہو ، میں کہہ دیتی ہو۔“
” یوں کیسے مان جائے گا؟ تم کہو گی اور وہ مان جائے گا، کمال کرتی ہو ؟“فارحہ نے اکتاہٹ سے کہا
”میںجانتی ہوں اسے، بہت اچھا انسان ہے ۔میرا کچھ وقت گزرا ہے اس کے ساتھ ، اب یہ مت سمجھنا کہ میںنے کوئی کانٹرکٹ اس کے ساتھ کیا ہے ،ایک اچھے کو لیگ کے طور پر تھوڑا وقت ہم نے اکھٹے کام کیا ہے ۔بہت اچھا ہے وہ ۔“ ماورا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
” وہ کہیںیہ نہ سمجھے کہ یہی سب میں ....“
” میں کہہ رہی ہوں نا ساری بات میں کرلوں گی ۔جیسے ہی یہ پراجیکٹ ختم ہو گا ۔ مجھے یقین ہے کہ تم دونوں اپنے والدین کو راضی کر چکے ہوں گے ۔یہ کوئی بری بات نہیںہے۔“ ماورا نے سمجھایا ۔
” مجھے سمجھ میں نہیںآرہا کہ تم کیاکہہ رہی ہو۔یہ کوئی گڈے گڈی کا کھیل نہیںہے جو....“ فارحہ نے کہنا چاہا تو بات کاٹتے ہوئے بولی
” دیکھو ، میرے پاس یہی حل ہے اور اس کے لئے پہلے تمہارا رضامند ہونا ضروری ہے ، میں تبھی اس سے بات کر پاﺅں گی ۔اس سے بہتر آپشن کوئی نہیں ہے ، کل تک سوچ لو ، دو ماہ ہیں، یونہی گزر جائیں گے ، اگر جمال سے تمہاری انڈر سٹیندنگ ہو گئی تو ایک بڑا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا ،جس کے لئے تم اور تمہاری اماں پریشان رہتی ہیں۔“ ماورا نے اسے سمجھایا کیونکہ وہ فارحہ کی سب پریشانیاں جانتی تھی ۔ ان کے پاس کرنے کو یہی تو باتیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ لمحہ بھر بعد بولی
” لیکن یہ سب ....“ فارحہ نے کہنا چاہا تو ماورا نے طنزیہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا
”قدرت نے یہ بہت اچھا چانس دیا ہے تمہیں۔ پاگل مت بنو ، قدرت اگر تمہیں تحفہ دی رہی ہے تو اسے قبول کرو ۔میں تمہاری جگہ ہوتی نا تو اسے ویسے ہی پھنسا لیتی۔یار تم لڑکی ہو ، تمہیں شادی تو کرنا ہے نا ، کون سا تمہارا منگیتر انتظار کر رہا ہے ۔ یہ اچھا ہے ،دو ماہ ہیں،سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“ 
” تم اس سے بات کر کے دیکھو،اگر ....“ اس نے کہنا چاہا تو ماورا جلدی سے بولی
” وہ میں کر لیتی ہوں بات ، آج ہی کر لوں گی ، تم فکر نہ کرو ۔ٹھیک ہو جائے گا سب ۔“ 
وہ کچھ دیر باتیں کرتی رہیں اور پھر کال بند کر دی ۔
٭....٭....٭
تیسرے دن کی شام ریسٹ ہاﺅس کے لاﺅنج میں کافی رونق تھی ۔ احمد جمال کے ساتھ وہاں ریسٹ ہاﺅس کے فاریسٹ آفیسر بیٹھے ہوئے تھے، ان کے ساتھ وہاں کا کلرک ، رجّاں کا شوہر اور ایک نکاح خواں موجود تھے ۔سامنے کے صوفے پر فاریسٹ آفیسر کی بیوی کے ساتھ فارحہ بیٹھی ہوئی تھی۔ان سے ذرا فاصلے پر رضیہ کھڑی تھی۔
” بسم اللہ کیجئے مولانا صاحب ۔“ فاریسٹ آفیسر نے نکاح خواں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”دلہن کا وکیل کون ہے ؟“ نکاح خواں نے پوچھا
” پہلی بات تو یہ ہے کہ دلہا اور دلہن دونوں عاقل اور بالغ ہیں،دوسرا وکیل میں ہوں اور یہ دونوں گواہ ہیں ۔ آپ شروع کریں۔“ فاریسٹ آ فیسر نے کہا
” جی ٹھیک ہے ۔“ نکاح خواں نے کہا اور کچھ ہی دیر بعد ان میں ایجاب و قبول ہو گیا۔دونوں نکاح کے پاکیزہ رشتے میں بندھ گئے ۔
رات تک ہلچل رہی ۔ کھانا وغیرہ کھا کر سب لوگ چلے گئے ۔ رجّاں بھی برتن تک دھو کر چلی گئی ۔تب جمال اور فارحہ دونوں کاریڈور میں آ بیٹھے ۔ موسم کا فی اچھا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی ۔ان دونوں میں خاموشی تھی ۔ تبھی بات کرنے میں پہل جمال ہی نے کی ۔
” فارحہ ۔!آپ کو گھبرانے یا پریشان ہو نے کی ضرورت نہیں۔ایک دوسرے کو سمجھنے کے لئے ہما ر ے پاس یہ دو ماہ ہیں ۔میں آپ کو یقین دلاتا ہوں، میری طرف سے آپ کو پریشانی نہیںہوگی ۔جو ہم میں طے ہوچکا ، میں اس کی پوری پابندی کروں گا۔“
”دیکھیں، مجبوری نے ہمیں اس بندھن میں باندھ دیا ۔ ہمیں اپنی عزت کا خیال رکھنا ہوگا۔یہی ہماری سمجھدار ی ہوگی۔“ وہ دھیمے سے لہجے میںبولی
” ہاں ، ابھی ہمیں والدین کو بھی نہیںبتاناچاہئے ۔پھر دیکھا جائے گا ۔“ جمال نے سوچتے ہوئے کہا
” جی ، میں بھی یہی چاہتی ہو ں۔“ وہ بولی تو ان دونوں کے درمیان خاموشی چھا گئی ۔ کتنے سارے لمحے یونہی دبے پاﺅں گذر گئے ۔ 
” اوکے ،اب کل سے آپ مجھے اپنے ساتھ کام پر لے جائیں گی نا۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولا تو وہ بھی ہنس دی ۔ پھر پر سکون لہجے میںبولی
” جی بالکل ، کیوں نہیں۔“
” چلیں پھر آرام کریں ، صبح کام پر نکلنا ہے ۔“ جمال نے کہا اور اٹھ گیا۔وہ بھی کھڑی ہو گئی ۔ پھر دونوں دھیرے قدموں سے اپنے اپنے کمرے کی طرف چلے گئے ۔
فارحہ اپنے کمرے میں آ ئی تو عجیب قسم کی مختلف کیفیات میں الجھی ہوئی تھی ۔وہ شادی شدہ ہو کر بھی شادی شدہ نہیں تھی ، ایک ساتھی کی ہو جانے پر بھی تنہا تھی ۔ سہاگ رات میں اس نے خود اپنے کو کمرے تک پابند کر لیا تھا۔کسی کی ہوجانے کے باوجود وہ کسی کی نہیں ہو سکتی تھی ۔
ژ....ژ....ژ
دن بڑی تیزی سے گزرتے چلے جا رہے تھے۔ دو ہفتے گذرتے پتہ ہی نہیں چلا ۔جس طرح ماحول بدلتا ہے ، اسی طرح سوچ پر بھی اثر ضرور پڑتا ہے یا سوچ بدلنے سے ماحول بھی بدل جاتاہے ۔ فارحہ کی سوچ کیابدلی ، جذبات میں بھی تبدیلی آ گئی۔اجنبیت سے بے تکلفی کا سفر بڑی تیزی سے طے ہوگیا تھا۔ہر آنے والے دن کے ساتھ فارحہ کے دل میں جمال کی عزت بڑھتی گئی ۔ عورت کا دل بڑا موم ہوتا ہے ۔ وہ جب جمال کی جانب دیکھتی اور یہ احساس اس کے من میں آتا کہ یہ میرا شوہر ہے اور میں اس کی منکوحہ ہوں تو جذبات پگھلتے ہوئے محسوس ہوتے ۔ دوسرا جمال کا رویہ ایسا تھا کہ وہ نہ صرف اسے اہمیت دیتا، بلکہ دوستانہ رویے میںبھی احترام کا پہلو ضرور رکھتا۔ جمال چند دن بعد ہی ڈرائیور کی بجائے خود ہی فارحہ کو لے کر نکل جاتا ۔ فارحہ کو ایک تحفظ کا احساس ، پر سکون کر دیتا۔ جب ضرورت ہوتی وہ ڈرائیور کولے لیتا ۔ زیادہ تر سروے کے لئے وہ خود ہی نکل جاتا ۔باقی کام فارحہ گھر پر کر لیتی ۔ روزانہ ایک ساتھ جانے اور نکاح کے مضبوط بندھن کے باعث ، ان دونوں میں جھجک نہیں رہی تھی ۔ دونوں اچھے دوستوں کی طرح ہر بات شیئر کرنے لگے ۔ ایک دوسرے کو سمجھنے لگے تھے ۔ دوہفتوں میں وہ بہت قریب آ گئے تھے ۔
فارحہ جہاں الوہی کیفیات اور خوشگوار جذبات سے آشنا ہوئی تھی ۔ وہاں اس پر دباﺅ بھی بڑھ گیا تھا۔ ایک طرف جمال کی ذات تھی ،جس کی وہ منکوحہ ہو چکی تھی تو دوسری طرف اس کے گھر والے تھے ۔ دو ماہ بعد کیا ہوگا ؟ یہ سوال اسے چکرا کے رکھ دیتا تھا۔ یہ طے تھا کہ اگر وہ دوماہ بعد نکاح برقرار نہ رکھ پائے تو بلاجھجک جدا ہو جائیں گے ۔اور اگر حالات ان کے بس میں ہوئے تو ایک خوشگوار ازدواجی زندگی کی شروعات کریں گے ۔لیکن فارحہ کے اندر بھی ایک عورت بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس کے کئی مطالبات تھے ۔ وہ اپنی منوانا چاہتی تھی ۔ جس سے فارحہ کو بہت لڑنا پڑتا تھا۔لمس سے بہت پہلے ، قربت کا احساس ہی پاگل کر دیتا ہے ۔ وہ یہ بات اچھی طرح جانتی تھی ۔عورت میں بہت برداشت ہے ، لیکن اس برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے ۔
 ایک صبح وہ کچن میں گئی تو اس کے من میں خیال آیا ۔ کیوں نا وہ جمال کے لئے خود ناشتہ بنایا کرے ؟ وہ رجّاں کے ساتھ ناشتہ بنانے لگی ۔ناشتہ بناتے وقت اس نے شدت سے محسوس کیا کہ ایک الوہی جذبہ اس کے اندر موجود ہے ، جس میں موجود یہ چاہت اس سے سب کروا رہی ہے ۔ کسی اپنے کے لئے یہ سب کرنا ، کتنا خوشگوار ہوتا ، یہ تجربہ اسے اس صبح ہوا۔کومل جذبے جب پھوٹتے ہیں تو اپنا آ پ منوا لیتے ہیں۔ 
اس نے ناشہ ٹیبل پر لگوا اور خود بھی وہیں جا بیٹھی ۔ ناشتے کے دوران جمال نے خوشگوار حیرت سے پوچھا
” آج ناشتہ کس نے بنایا ہے ؟“
” کیوں کیا ہوا؟“ فارحہ نے تیزی سے پوچھا
” پہلے سے کہیں اچھا ہے ، اورذائقہ بھی بدلا ہوا ہے؟“ اس نے ہنستے ہوئے کہا
” میںنے بنایا ہے ۔“ اس نے ہلکی سی مسکان میں کہا، جس میں حیا گھلی ہوئی تھی ۔
” بہت اچھا بنا ہے ۔“ اس نے کہا اور ناشتے کی جانب متوجہ ہو گیا۔ اس ذرا سی تعریف پر اس کے من میں تسکین اُتر گئی۔وہ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی ۔ پھرلاشعوری طور پر فارحہ نے روزانہ خود ناشتہ بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ایسا کر کے اسے انجانی خوشی ہو ئی تھی ۔
 وہ جمال کے دیگر چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی دھیان دینے لگی۔ اس کے کپڑے خود پریس کر دیتی۔ اسے تیار ہونے میں مدد دیتی۔ 
وہ تیسرے ویک اینڈ کی شام تھی ۔وہ اپنے کام سے دوپہر ہی کے وقت لوٹ آ ئے تھے ۔ تبھی سہ پہر کے وقت چائے پیتے ہوئے جمال نے کہا 
” فارحہ ، کیا خیال ہے ،تھوڑا آﺅٹنگ کریں، اچھا سا کھانا کھاآئیں باہر سے۔“
”روزانہ سروے کے لئے باہر ہی جاتے ہیں۔کھانا بھی اچھا ملتا ہے ، اس ویرانے میں باہر سے کہاں ....“ اس نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بولا
” یار ، یہاں سے نزدیک ترین شہر آدھے گھنٹے کے فاصلے پر ہے ، وہاں کئی اچھے ریستوران ہیں، ابھی کچھ دیر بعد نکلتے ہیں ، جب دل کیا واپس آ جائیں گے ۔“ اس نے آ فر کی تو فارحہ نے اگلے ہی لمحے کہا 
” ٹھیک ہے چلیں ۔“
” تو پھر تیار ہو جاﺅ ، نکلتے ہیں۔“ اس نے پیار سے کہا تو وہ وہ اندر تک خوشی سے بھر گئی ۔
اگرچہ وہ تقریباً روزانہ ہی اس کے ساتھ باہر جاتی تھی ، کبھی کبھار ڈرائیور بھی ہوتا تھا لیکن اس شام اس کی کیفیات ہی عجیب تھیں۔ وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی مگر کہہ نہیں پارہی تھی ، وہ بہت کچھ سننا چاہتی تھی ، لیکن سن نہیں سکتی تھی ۔گد گداتا ہوا من بہت کچھ چاہ رہا تھا ، مگر اظہار نہیں کر سکتی تھی ۔ان کے درمیان خاموش تھی ۔ بس میوزک سے کار کی فضا بھری ہوئی تھی ۔جس وقت وہ شہر کے مضافات میں پہنچے تو جمال نے یہ خاموشی توڑی 
” بس اب پہنچ جانے والے ہیں۔آدھے گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں گذرا۔“
”ہوں ، مجھے تو یہ سفر بہت طویل لگا ۔“ وہ بے ساختہ بولی 
” ہاں ، ایسا ہوتاہے ، مشکل وقت اور مشکل سفر طویل ہی لگتے ہیں، خیر یہ وقت اور سفر بھی گذر ہی جائے گا ۔“ جمال نے کچھ اور ہی سمجھتے ہوئے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو اس کے اندر بیٹھی عورت گویا چیخ پڑی ۔ وہ کہنا چاہتی کہ تم غلط سمجھے ہو ، میں تو کچھ اور ہی کہنا چاہتی تھی ۔ فارحہ نے اپنے اندرکی عورت کا گلہ دبا دیا۔
ریستوران کی مدہم روشنی میں وہ آ منے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ جمال تھوڑا بجھ گیا تھا ۔پھر ڈنر کے دوران وہ کام ہی کے بارے میں باتیں کرتے رہے ۔ ایک بھی بات اپنی نہیںکی، جس سے کسی کومل جذبے کا کوئی خوشگوار احساس ان سے لپٹ جائے ۔ ڈنر کے بعد جب وہ ریستوران سے نکلے تو جمال نے دھیمے سے کہا
”آﺅ ، تھوڑی شاپنگ ہو جائے ، میں تمہارے لئے کچھ خریدنا چاہتا ہوں ۔“
” چھوڑو، کیا کرنا ہے فضول پیسے خرچ کے ،واپس چلتے ہیں۔ “ اس نے دل پر پتھر رکھ کر کہا تو جمال کاندھے اُچکا کر رہ گیا۔ وہ کار میں آ بیٹھے ۔ واپسی پر پھر وہی طویل خاموشی ان کے ہم سفر تھی ۔ فارحہ ان لمحات کو بہت محسوس کر رہی تھی ۔وہ چاہتی تو اپنی باتوں سے ، اپنی اداﺅں سے ، لفظوں سے جمال کو اسیر کر سکتی تھی ۔اس نے ایسا نہیں کیا۔شاید وہ خود کو اپنی ہی بنائی ہوئی سطع سے نیچے نہیںلانا چاہ رہی تھی ۔ 
 ژ....ژ....ژ
 وہ تیسرے ہفتے کی چوتھی رات تھی ۔ فارحہ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی ۔شام ہی سے اس کے سر میںدرد تھا ۔ اس نے پین کلر لے لی تھی ۔ مگر درد تھا کہ بڑھتا ہی چلا گیا ۔ یہاں تک کہ تکلیف سے وہ بے بس ہو کر لوٹ پوٹ ہو گئی ۔ رجّاں سونے سے پہلے ایک بار اس کے پاس آتی تھی ۔ اسے فارحہ کی طبیعت بارے پتہ چلا تو اس نے فوراً جمال کو بتایا ۔ اس نے کارنکالی، رجّاں کی مدد سے فارحہ کار میں ڈالا اور قریب ترین چھوٹے سے ہسپتال لے گیا۔ ڈاکٹر اپنے گھر سو رہا تھا ۔ اسے جگا کر لایا گیا ۔ اس کے پاس بھی سوائے پین کلر انجکشن کے دوسرا کچھ نہ تھا ۔ 
” انہیں تھوڑی دیر میں سکون آ جائے گا ، آ پ چاہیں تو انہیں لے جا سکتے ہیں۔“ ڈاکٹر نے انجکشن لگا کر کہا 
” یہ درد ہوا کیسے ؟“ جمال نے سوال کیا
”یہ تو مریضہ سے بات کر کے پتہ چلے گا ۔ خیر اگر آپ رکنا چاہیں تو رکیں ۔میں یہیں گھر پر ہوں ۔“ ڈاکٹر نے کہا اور واپس چلا گیا 
فارحہ نیند میں چلی گئی تھی ۔ جمال ساری رات اس کے پاس بیٹھا رہا۔صبح ہونے تک اس کی طبیعت سنبھل گئی۔ وہ جاگی تو بہت حد تک فریش تھی ۔ ڈاکٹر نے کافی دیر تک فارحہ سے باتیں کرنے کے بعد یہی بتایا کہ زیادہ کام کی وجہ سے اعصاب پر اثر ہوا ہے ۔ ایسا کسی بھی دباﺅ کی وجہ سے ہوتا ہے ۔فارحہ تو سمجھ رہی تھی کہ ڈاکٹر ٹھیک کہہ رہا ہے ۔ وہ نجانے خود پر ہونے والے کیسے کیسے دباﺅ برداشت کر رہی تھی۔ فارحہ جس حد تک اس دباﺅ کی شدت کو سمجھتی تھی ، جمال اس حد تک کا احساس کیسے کر سکتا تھا ۔ وہ صبح صبح واپس آ گئے ۔
اگلے دو تین دن تک جمال نے اسے کام نہیںکرنے دیا۔ سبھی کام خود کرتا رہا ۔یوں طبیعت خراب ہونے پر وہ اس کا ازحد خیال کر نے لگا تھا۔
اس رات بڑی تیز بارش برس ہو رہی تھی ۔موسم بہت خوش گوار ہو گیا تھا ۔گرمی کی شدت کے بعد بارشوں کا موسم شروع ہو گیا تھا۔بارش برسنے کے ساتھ ہی اس کے من میں ایک عجیب بے کلی سی جاگ اٹھی تھی۔ وہ بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی، اٹھ کر کھڑکی میں آ گئی ۔وہ کچھ بھی نہیں سوچ رہی تھی۔بس من چاہ رہا تھا کہ بارش میں جا کر بھیگ جائے۔وہ کاریڈور میں تو آ گئی لیکن بارش میں بھیگنے کی ہمت نہ پڑی ۔وہ ایک کرسی پر بیٹھ گئی ۔رات کے دوسرے پہر یوں خاموشی سے کاریڈور میں آ کر بیٹھنے پر وہ خود حیران تھی ۔جس طرح بارش پڑنے پر مٹی کی خوشبو پھیل جاتی ہے ، اسی طرح جذبات کی پھوار میں احساس کی خوشبو بھی من میں اپنا آ پ منوانے لگتی ہے ۔
گھر سے دور ، ریسٹ ہاﺅس کے اس کاریڈور میں بیٹھی فارحہ خود کو تنہا محسوس کر رہی تھی۔ فارحہ نے سوچا،اسی ریسٹ ہاﺅس کے ایک کمرے میں جما ل بھی خود کو تنہا محسوس کرتا ہوگا؟کیا مرد کے بھی ویسے ہی جذبات ہوتے ہیں جو ایک تنہا عورت کے ہوتے ہیں ؟اس ایک سوال نے اسے تصوراتی دنیا میں پہنچا دیا۔یہ ہوتا ہے ، ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے کہ وہ کھلی آ نکھوں سے خواب دیکھتا ہے ۔ ایسے خواب وہ اپنی مرضی سے دیکھتا ہے ۔وہ جو چاہتا ہے ان خوابوں میں دیکھتا ہے ، نا آسودہ خواہشیں ، بڑا رنگین پیراہن لے لیتی ہیں۔
” تم یہاں بیٹھی ہو ، خیریت ؟ طبیعت تو ٹھیک ہے نا ؟“ جمال کی آواز پر اس کا تصور چھناکے سے ٹوٹ گیا۔وہ چونک گئی ۔اس نے اپنے بدن میں واضح طور پر ایک نا سمجھ میں آ نے والی لہر کو محسوس کیا تھا ۔لیکن اگلے ہی لمحے اس نے خود پو قابو پایا اور مسکراتے ہوئے بولی 
” بس ایسے ہی نیند نہیں آ رہی تھی ، سوچا بارش ہی کا نظارہ کروں ۔“ 
”ویسے یہ بارش بھی کتنی بڑی نعمت ہے۔خاص طور پر اس صحرائی علاقے کے لئے ۔“ اس نے عام سے لہجے میں کہا تو فارحہ نے غور سے جمال کی چہرے پر دیکھا، وہاں کسی بھی جذبے کا کوئی دیّا روشن نہیںتھا۔وہ بجھ کر رہ گئی ۔پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولی 
” ہاں ،گرمی کچھ کم ہوگی تو ہم اپنا کام بھی جلدی سمیٹ لیں گے ۔“
”مجھے پورا یقین ہے کہ ہم دئیے گئے وقت تک کام پورا کر لیں گے ۔ویسے میرے ایک دوست نے بتایا ہے کہ اسی علاقے میں ایک مزید سروے بھی آ رہا ہے ۔وہ یا تو ہمیں ہی دے دیں گے یا پھر کوئی نئی ٹیم بھیجیں گے ۔“ جمال نے بتایا تو فارحہ گھبرا گئی ۔ اس نے حیرت اور گھبراہٹ میں تیزی سے پوچھا
 ” کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟“
”ہاں ، مجھے میرے دوست نے بتایا، یہ ہو بھی سکتا ہے یا نہیںبھی لیکن تم کیوں گھبرا گئی ہو ؟“ جمال نے پوچھا
”کیا تم نہیں جانتے ہم دونوں نکاح ....“فارحہ کہتے کہتے رُک گئی تو وہ سکون سے بولا
”ہاں ، اگر مزید لوگ آ گئے تو یہ بات انہیں پتہ چل سکتی ہے ۔مگر اس سے پہلے ہم کچھ نہ کچھ سوچ لیں گے ۔“
”ہاں اگر یہ بات سب کو پتہ چل گئی تو ....“ اس نے پھر کہتے کہتے خود کو روک لیا
”نہ گھبراﺅ ، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“ وہ اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولا پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا” ویسے ایک بات ہے ، ہم میں اجنبیت زیادہ نہیں ہو گئی ؟“
”اجنبیت ، میں سمجھی نہیں؟“ وہ حیرت سے بولی 
”سوچو، اگر ہم صرف کولیگ رہتے ، دوست ہوتے توزیادہ فرینک ہوتے ۔اب تو ہر بات ناپ تول کر کرتے ہیں، ہم لوگ تنہائی میں کس قدر گھبراتے ہیں ،حالانکہ تم میری منکوحہ ہو ۔کیا یہ اجنبیت نہیں ہے؟“اس نے کہا تو اس کے لہجے میں شکوہ اتر آ یا تھا
”آپ کیا چاہتے ہیں؟“ اس نے رکتی ہوئی سانس کے ساتھ پوچھا
” تعلق میں صرف جسم ہی نہیں ہوتا، اسے اگر ایک طرف رکھ دیں تو یہ چند دن ہمارے لئے خوشیوں سے بھرپور ہو سکتے ہیں۔یہ ڈر، خوف اور عدم اعتماد کو خود سے دور کر دو ۔دیکھنا اس میں سے کتنا خوشگوار ماحول سامنے آ تا ہے ۔“اس نے سمجھاتے ہوئے کہا تو فارحہ کا من بھر گیا ۔ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا
” کیوں نہیں، مجھے تم پر بورا بھروسہ ہے ۔“
” وعدہ ؟“ یہ کہتے ہوئے جمال نے ہاتھ بڑھا دیا۔فارحہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھا تولمس کا جادو اس کے پورے بدن میں پھیل گیا۔ وہ خود پر قابو رکھے رہی ۔ یہاں تک کہ جمال نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔تو وہ بولی
”وعدہ ۔“ 
” یہ ہوئی نابات ۔“ وہ ایک دم سے خوش ہو گیا۔
” چلیں ،اب ، رات کافی ہوگئی ہے ۔“ فارحہ نے اٹھتے ہوئے کہا۔ بارش بہت حد تک کم ہو گئی تھی ۔جمال نے باہر کی جانب دیکھا اور اٹھتے ہوئے بولا
”ہاں ، چلیں۔“
وہ دونوں چند قدم ساتھ ساتھ چلتے رہے ، پھر اپنے اپنے کمروں کی جانب بڑھ گئے ۔ 
اسی رفاقت میں وہ تیزی سے ایک دوسرے کے قریب آتے چلے گئے تھے ۔انہیں پتہ ہی نہ چلا کہ وقت کتنی تیزی سے بیت رہا ہے۔ایسا حسین وقت جو خوبصورت یادیں بن جایا کرتا ہے ۔ آنے والے دنوں سے بے نیاز وہ ایک دوسرے کا پہلے سے کہیں زیادہ خیال رکھنے لگے ۔
ژ....ژ....ژ
وہ فارحہ اور جمال کے نکاح کا بیالیسواں دن تھا۔
اس شام ویک اینڈ کی وجہ سے وہ دونوںجلدی واپس آگئے تھے ۔رجّاں انہیں چائے د ینے آ ئی توفارحہ نے بتایا
”رجّاں۔! ہم چائے پیتے ہی شہر نکل جائیں گے ۔ اس لئے رات کے کھانا ہم شہر سے کھا کر ہی آ ئیں گے ۔“
” ٹھیک ہے بی بی جی ۔“رجّاں نے سر ہلاتے ہوئے کہا اور چلی گئی ۔انہی لمحات میں فارحہ کا سیل فون بج اٹھا۔ اسکرین پر دیکھا،یہ اس کی امی کی طرف سے کال تھی۔ ایسا کبھی نہیںہوا تھا، وہ رات ہی کے وقت کال کرتی تھیں۔اس لئے اُس نے جلدی سے کال رسیو کی اور اپنا مگ اٹھا کر لاﺅنج سے نکل گئی ۔
” بولو اماں ،آج اس وقت ، خیریت تو ہے نا ۔“ فارحہ نے پریشانی میںپوچھا
” ارے بیٹا ، مجھ سے رہا نہیںگیا۔ مجھے خوشی ہی اتنی ہو رہی ہے کہ کیا بتاﺅں ۔میںنے سوچا تمہیں فوراً بتادوں ۔“ اماں نے چہکتی ہوئی خوشی سے لبریز آواز میں کہا تو اس نے حیرت سے پوچھا
” اماں ایسی کون سی خوشی مل گئی آپ کو ؟“
”آخر اپنا خون اپنا ہی ہوتا ہے۔میںساری زندگی اپنے بھائی ارسلان کو برا بھلا کہتی رہی ۔ لیکن آج اب آیا تو سمجھو میری ساری پریشانیاں ختم کر دی میرے بھائی نے ۔آخر ماں جایا ہی کام آیا ۔“اماں نے خوشی سے لہکتے لہجے میںکہا
” ایسا کیا کر دیا ماموں نے ، جو ساری زندگی نہیں پوچھا اور آج ایک ہی دن میں سب خوشیاں لٹا دیں ، مجھے بھی توکچھ پتہ چلے۔“ اس نے تجسس سے پوچھا تو وہ بولیں
”کیا بتاﺅں بیٹی ، یہ تو میرے رب نے مجھ پر کرم کیا ہے کہ اس کے دل میں میرا خیال ڈال دیا،اپنے بیٹے سہیل کے ساتھ سیدھا میرے پاس ہی آیا ۔تین دن سے میرے ہاں ہی ٹھہرا ہوا ہے ۔ کہہ رہا تھا کہ اب یہیں اس شہر میں اپناگھر لے گا ، اور باقی زندگی یہاں سکون سے رہے گا۔“
” تو اماں اس میں آپ اتنا خوش کیوں ہو رہی ہیں ؟ وہ جہاں ....“ فارحہ نے کہنا چاہا تو اماں اس کی بات کاٹتے ہوئے تیزی سے بولیں
” تو سنے گی نا ، تو بھی خوش ہوجائے گی ۔اپنا گھر گروی تھا نا ، وہ آج ہی تیرے ابا کے ساتھ جا کر اس نے بنک سے چھڑوا دیا ہے۔“
” واہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے ۔پتہ نہیںکیسے رحم آ گیا۔“ فارحہ نے اب بھی شک کے انداز میں کہا
” اور سن ،ارسلان اپنے بیٹے سہیل کو یہیں کاروبار کروانا چاہ رہے ، اور اس کے ساتھ تیرا بھائی محسن بھی شامل ہوگا۔کہاں دھکے کھا رہا تھا میرا بیٹا، اب اسے بھی کام مل جائے گا ۔“اماں نہال ہوتے ہوئے بولی 
” مجھے یہ سمجھ نہیںآ رہی وہ اتنے مہربان کیسے ہو گئے ہیں؟“ فارحہ نے حیرت سے پوچھا
”کہہ رہا تھا کہ باپ کی جائیداد میں سے مجھے کچھ نہیںدیا،ایک ہی بہن ہوں اس کی ، آخر میرا ماں جایا ہے ، درد آ گیا میرا۔“اماں کا لہجہ بھیگ گیا تھا ۔ فارحہ سمجھ رہی تھی کہ اماں نے یہ بات کہی ہے تو کیوں اس کا لہجہ بھیگ گیا ہے ۔لیکن اس وقت وہ ماضی میں کی ہوئی باتیں یاد کرنے کی بجائے اُس انہونی پر سوچ رہی تھی کہ ماموں ارسلان کے دل میں رحم کیسے آ گیا۔ جس نے کبھی انہیںپوچھا تک نہیںتھا۔
” خیر اماں ، اگر ماموں نے ایسا کر دیا ہے تو اس کے پیچھے کوئی اس کا پلان ہوگا ، ورنہ اتنی رحم دلی کون دکھاتا ہے ۔ اب تک انہوںنے ....“ فارحہ نے کہنا چاہا تو اماںنے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا
”اب تو سن ، میں نے تمہیں فون کیوں کیا ہے ۔“
” ہاں اماں بولو۔“ اس نے کہا
” تم ایسے کرو ،فوراً سب چھوڑ کرواپس گھر آ جاﺅ ،اب کوئی ضرورت نہیںہے تمہیںکام کرنے کی ۔“
” ایسا کیا ہوگیا اماں ؟ ایسے کیسے میں سب چھوڑ کر آ جاﺅں ۔بس تھوڑا سا وقت رہتا ہے ، اٹھارہ بیس دن ، کام ختم کرکے آ جاﺅ ںگی ، ورنہ مجھے میرا پیکج نہیں ملے گا، جس کے لئے اتنی محنت کی۔“
” ارے میرے بھائی نے تمہارے اکاﺅنٹ میںتیرے جہیز کے لئے روپیہ جمع کروا دیا ہے ۔“ اماں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
” اتنی رقم ،میرے اکاﺅنٹ میں ، مگر وہ کیوں ؟“ اس نے حیرت سے پوچھا
” تیرے جہیز کے لئے ، سمجھ نہیں آ رہی تجھے ؟ ارے خوش قسمت ہو تم ، بیٹھے بٹھائے گھر میں رشتہ آ گیا۔ہم نے مل کر سہیل سے تمہاری شادی طے کر دی ہے۔سارا خرچ تیرا ماموں کرے گا۔ اب تو جلدی سے واپس آ جا ۔ نہیں کرنی اب نوکری ۔“اماں کہہ رہی تھی اور وہ سن بھی رہی تھی ، لیکن اسے سمجھ کچھ بھی نہیںآ رہا تھا۔ اسے لگا کہ جیسے ایک بھونچال آ گیا ہے اور اس کے شور میں اسے کچھ بھی سنائی نہیں دے رہاہے ۔” ارے تو سن رہی ہے میری بات کہ نہیں، کچھ بولو بھی ۔“ اماں کی ڈانٹ نما آواز سنی تو اسے ہوش آیا ۔تبھی وہ جلدی سے بولی
” اماں ایسے نہیںہوسکتا،میںکام....“
” بھاڑ میں گیا تمہارا کام ، بس تم سب سمیٹو اور چلی آ ﺅ واپس گھر۔“اماں نے نخوت سے کہا
” ارے اماں وہی سمیٹنے ہی کی تو بات کر رہی ہوں ،ایسے ایک دم سے نہیںنکلا جانا، میری بات سمجھو۔“ فارحہ نے سمجھاتے ہوئے کہا
” مجھے کچھ نہیںپتہ ، بس تم ایک دو دن میں آ جاﺅ ۔ ورنہ میں تیرے باپ کو بھیج دوںگی تمہیںلینے کو ۔“ اماں نے حکم صادر کردیا 
” میں رات کو فون کروں گی ۔پھر بات کرتے ہیں ۔ ٹھیک ہے ؟“اس نے بحث کرنے کی بجائے کہا
” رات کو میں ہی کروں گی ۔پر جو کہا ہے وہی کرو، سمجھی تم ؟“ اماں نے تاکید کردی تو اس نے جلدی سے فون بند کر دیا ۔ 
یہ اچانک کیا ہو گیا؟ اسی سوال نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیںآ رہا تھا۔وہ بت بنی وہی کھڑی تھی کہ جمال وہیں آ گیا اس نے فارحہ کو یوں بدحواس ہوئی دیدے پھاڑے ایک ہی جانب دیکھتے ہوئے پایا تو پریشانی سے پوچھا
” کیا ہوگیا فارحہ ، خیریت توہے نا ، گھر میں کوئی پرابلم تو نہیں خدانخواستہ؟“
” آں ....ہاں ....وہ کچھ نہیں۔“ فارحہ کو سمجھ میں نہیںآ رہاتھا کہ وہ کیا کہے ۔
” تم ایسا کرو ، ادھرسکون سے بیٹھو، پھر بتاﺅ بات کیا ہے ۔“ اس نے فارحہ کو کاندھے سے پکڑ کر قریب پڑی کرسی پر بٹھاتے ہوئے کہا تو فارحہ کو یوںلگا، جیسے وہ اپنے ہمدرد سے دور کہیں بہت دور جا رہی ہے۔دُکھ کی ایک لہر نے اس کے اندر اذیت بھر دی ۔
” جمال، ہم شاید اب شہر نہ جا سکیں۔“ فارحہ بولی
” ٹھیک ہے نہیںجاتے ، لیکن اس فون میںایسا کیا تھا جو ....“ اس نے آرام سے پوچھا
” جمال، مجھے تھوڑی دیر کے لئے اکیلا چھوڑ دو ، میں بتاتی ہوں ، پلیز۔“ اس نے بے چارگی سے کہا تو وہ بولا
” ٹھیک ہے ، لیکن ابھی تم اپنے کمرے میں جاﺅ ، پھر بات کرتے ہیں ۔“ اس نے کہتے ہوئے اسے ہاتھ پھیلایا تو فارحہ نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا دیا اور اٹھ گئی ۔
جس وقت رجّاں نے اسے ڈنر کے لئے بلایا، تب تک وہ خود پر قابو پا چکی تھی۔اس نے سوچ لیا تھا کہ جمال سے کیا بات کرنی ہے ۔ ڈنر کے بعد جمال کاریڈور میں جا بیٹھا۔ فارحہ نے خود چائے بنائی اور ٹرے میں رکھ کر اس کے پاس چلی گئی ۔ رجّاں جا چکی تھی ۔بلاشبہ وہ بھی منتظر تھا کہ فارحہ کیا کہنا چاہتی ہے ۔چائے کاپہلا سپ لیتے ہی فارحہ نے فون پر ہونے والی ساری بات بتا دی ۔ جمال خاموشی سے سنتا رہا۔ 
” ہنہ ۔!“ اس نے خالی کپ میز پر رکھتے ہوئے ہنکارا بھرا، پھر سوچتے ہوئے لہجے میں بولا ،”یہ وقت تو آ نا تھا ، یوں اچانک آ جائے گا ، اس کے بارے ہم دونوں ہی نے نہیںسوچا تھا ۔ خیر،اب تم کیا چاہتی ہیں؟کیونکہ فیصلہ تم ہی نے کرنا ہے ۔ “
” مجھے جانا پڑے گا جمال ، ورنہ میرے گھر سے کوئی نہ کوئی یہاں آ جائے گا۔ ساری بات کھل جائے گی ،اور میں ....“وہ کہتے کہتے رُک گئی ۔جمال اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر بولا
”فارحہ ۔! ہمارا اتنے دنوں کا ساتھ،اتنا وقت اکھٹے بتا دینا ، اور پھر ایک ایسے بندھن میں بندھ جانا، میں نہیں سمجھتا کہ اس دوران مجھ سے کوئی ایسی بات ہو گئی ہو ، جو تمہیں ناگوار گذری ہو ۔میںنے وہی کیا جو تم نے چاہا۔اب بھی میں وہی کروں گا جو تم چاہو گی ۔اب بولو کیا کرنا ہے؟“
” جمال ، میں مانتی ہوں کہ تمہارے رویے نے میرا دل جیت لیا ہے ۔تم نے میرا مان رکھا،مجھے عزت دی ، احترام دیا۔ایک لڑکی جب ایسے بندھن میں بندھ جاتی ہے تو نہیںچاہتی کہ تعلق ٹوٹ جائے ۔تم بہت اچھے ہو ۔لیکن میرا ایک سوال ہے ، کیا اتنے دنوں کا یہ ساتھ ، یہ تعلق رائیگاں تھا ؟ اس نے اپنا ذرا سا بھی اثر نہیںدکھایا۔کوئی جذبہ ، کوئی احساس من میں نہیںاُترا؟“ فارحہ بہت مشکل سے کہتی ہوئی جذباتی ہو گئی تھی ۔
” میں سمجھ رہا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو۔یقین کرو، ہمارا یہ ساتھ رائیگاں نہیں ہے لیکن ۔! فیصلہ تم نے کرنا ہے ۔“ وہ سنجیدگی سے بولا
”میرا فیصلہ تو وہی ہے نا، جو ہم میں طے ہوا تھا ، میں تو اس کمٹمنٹ سے آگے پیچھے نہیںہو سکتی۔“وہ بھیگتے ہوئے لہجے کے ساتھ بولی 
” تو کیا یہ تعلق یونہی نہیں رہ سکتا؟“جمال نے ایک دم سے پوچھا تو خاموش رہی تبھی اس نے کہا ” میرے ذہن میں بھی تھا اور ہے ۔مگر یہ اچانک ،مجھے اپنے والدین سے بات کرنا ہوگی ۔کم ازکم انہیں تو اعتماد میں لینا ہوگا ۔ میںنہیں چاہتا کہ میرا جیون ساتھی میرے ہی گھر میںبے وقعت ہو جائے ۔ مجھے کچھ دن تو چاہئیں ہوں گے نا ۔“ اس نے اپنی مشکل بتا دی ۔
” تو پھر ، کیا کریں؟“اس نے حسرت سے پوچھا تو جمال چند لمحے سوچتا رہا ، پھر حتمی لہجے میںبولا 
” دو دن ، میں آج رات ہی نکلتا ہوں۔پرسوں رات یہاں ہوں گا،پھر جو بھی فیصلہ ہو، سب کچھ مجھے کرنا ہوگا، یا پھر میں تمہاری بات مان لوں گا ۔“
” ٹھیک ہے ۔ “ فارحہ ایک دم سے مان گئی ۔
”جاﺅ آرام کرو ،پریشان نہیں ہونا، ہماری قسمت میں ہوا تو کوئی ہمیںجدا نہیںکر سکتا۔دعا کرنا ، میں ابھی نکلتا ہوں ۔“جمال نے کہا اور اٹھ گیا۔ پھر وہ تیار ہو کر نکل گیا۔
ژ....ژ....ژ
وہ کھڑکی کے پاس کھڑی باہر ہونے والی طوفانی بارش دیکھ رہی تھی ۔ وہ ریسٹ ہاﺅس کے اس کمرے میں تھی ، جس میں وہ پچھلے ڈھائی ماہ سے مقیم تھی ۔ شدت سے برستے ہوئے پانی نے سارا منظر دھندلا دیا ہوا تھا۔بالکل اسی طرح جیسے اس کا اپنا مستقبل دھندلا ہوگیا تھا۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے ۔جس طرح باہر تیزشور ہو رہا تھا، اس سے کہیںزیادہ اس کے من میںشور مچ رہا تھا۔ سوچیں، خواہشیں، امیدیں اور نجانے کیسے کیسے جذبے آپس میں الجھے ہوئے تھے۔یوں جیسے باہر سر پٹختی ہوئی تیز ہوا کا پاگل پن، درختوں کا حواس باختہ ہنگامہ، ماحول کوخوف زدہ کر دینے والی دیوانگی،خوابوںکے ٹوٹتے ہوئے پتے کڑکتی بجلی جیسے آنے والے حالات کا خوف،اور نجانے کیا کیا کچھ .... 
باہر کا موسم اس کے اندر بھی اُتر اہو تھا۔وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پارہی تھی ۔انہی لمحات میں اُسے لگا نجانے وہ کتنی ہی ان دیکھی زنجیروں میں کس قدر جکڑی ہوئی ہے ۔اسے اندازہ تو تھا کہ فیصلہ کیا ہو جانا ہے، کوئی فیصلہ تو ہونا ہی تھا لیکن ایک موہوم سی امید تھی ، بالکل ایسے جس طرح تیز ہوا میں کوئی دِیّا جلانے کی آرزو رکھتا ہو کہ وہی فیصلہ ہو جو اس کا من چاہتا ہے۔ اس کا من کیا چاہتا ہے ؟، اس خواہش پر بھی اس کی اپنی دسترس نہیںتھی ۔ جس طرح آندھی اور بارش کا پتہ نہیں چلتا، اس کے حالات بھی ایسے ہی ہو گئے تھے ۔اس نے سوچا بھی نہ تھا کہ زندگی ایسے بھی کسی دوراہے پرلے آئے گی ۔ اسے کوئی ایسا فیصلہ کرنا تھا، جس کے بارے میں اسے خود بھی یقین نہیںتھا ۔ایسا نامعلوم فیصلہ جسے کرتے ہوئے وہ خود ہی خوف زدہ ہو رہی تھی۔
اسے احمد جمال کا انتظار تھا ۔ اس طوفانی بارش سے یوں لگ رہا تھا ، جیسے قدرت سوچنے کا اُسے تھوڑا سا وقت مزید دینا چاہتی ہے۔وہ کھڑکی کے پاس ہی پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئی ۔وہ پھر سے سوچنے لگی،تاکہ نامعلوم فیصلہ کرتے ہوئے وہ کہیںڈگمگا نہ جائے ۔ 
 طوفان تھم چکا تھا۔رات گہری ہوچکی تھی۔ان دو دنوں میں اس نے خود میں بھی ہمت کر لی تھی۔جو فیصلہ بھی ہوتا ، وہ اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہو چکی تھی ۔دراصل جمال اس کے دل میں اُتر گیا تھا۔جس دن وہ ریسٹ ہاﺅس میں آیا تھا، تب وہ اس کے لئے کچھ بھی نہیںتھا، سوائے پریشانی کے ۔لیکن جیسے ہی وہ نکاح کے بندھن میں بندھی ، وہ اس کے لئے کچھ سے کچھ ہوگیا ۔پہلی رات ہی سے جو اس نے کمٹمنٹ کی پاسداری کی تھی ۔
 اسی رات پیارکا بیج اس کے دل کی زرخیز زمین میں اُتر گیا۔پھر جمال کے بے لوث ہونے، احترام اور عزت دینے والے رویے اور اس کے نسوانی احساس نے اس بیج کی آ بیاری کی تو محبت کی کونپل نے پھوٹ کر اپنا آپ منوا لیا تھا۔ محبت کی اس خوشبو سے وہ دونوں ہی مہک اٹھے تھے ۔اب یہ ممکن نہیں تھا کہ اس کونپل کو جڑسے اکھاڑ پھینکیں، کیونکہ محبت جس من میں پھوٹ پڑتی ہے ، امربیل کی طرح پورے وجود ہی کو اپنی لپیٹ میں نہیںلیتی بلکہ روح تک بھی رسائی کر جاتی ہے ۔
پورچ میں کار رُکنے کی آواز آ ئی تو فارحہ کا دل لرز اٹھا۔آنے والے لمحے نجانے کیا فیصلہ لے کر آتے ہیں۔ وہ ہاں اور ناں کی صلیب پر لٹک گئی ۔اسے معلوم تھا کہ جمال اس کے کمرے میں نہیںآئے گا ۔ وہ اٹھی اور کچن میں چلی گئی ۔ اس نے پانی لیا اورلاﺅنج میں آگئی ۔ وہ تھکا ہوا صوفے پر بیٹھا تھا۔ فارحہ نے پانی اس کے پاس رکھتے ہوئے پوچھا
” کھانا لگاﺅں ؟“
” نہیں، میں نے راستے میں کھا لیا تھا۔بھوک نہیں اب ۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا
” چائے بناﺅں ۔“ اس نے پھر پوچھا
”ہاں ، چائے بنا لو ۔میں فریش ہو کر آ تا ہوں ۔“ اس نے تیزی سے کہا اور اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چل دیا ۔ نجانے کیوں فارحہ کا دل بجھ گیا تھا۔جمال کا رویہ اسے سمجھ میں نہیںآ رہاتھا۔
وہ چائے بنا کر کاریڈور میں آ گئی تو جمال وہاں پہلے ہی سے موجود تھا۔وہ میز پر ٹرے رکھ کرسامنے پڑی کرسی بیٹھ گئی تو جمال نے اس کی طرف دیکھا، پھر دھیمے سے لہجے میں بولا
”فارحہ ۔!میرے والدین نہیںمانے۔ ہماری کچھ مجبوریاں ہیں۔جن کی تفصیل میں جانے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ میں شرمندہ ہوں ۔ میں نے تمہیںدو دن روکے رکھا۔ اب وہی ہوگا ، جو تمہارے ساتھ کمٹمنٹ ہوئی تھی ۔“جمال کہتا رہا لیکن فارحہ کو یوں لگا جیسے وہ اندر سے ٹوٹ کر پگھلنے لگی ہے ۔ آنسو پلکوں پر آ کر مچلنے لگے ۔ وہ جمال کو کوئی دوش نہیں دے سکتی تھی ۔اب تک جو بھی ہوا تھا، اسی کی مرضی سے تھا۔ اس کے من میں محبت کی کونپل نے سر اٹھا لیا تھا ، اس میں بھی وہ جمال کو قصوروار نہیںٹھہرا سکتی تھی ۔اس لئے خود پر قابو پاتے ہوئے بولی
” ٹھیک ہے ۔اب مجھے صبح جانا ہوگا۔“
” ہاں ، طلاق کے کاغذات بن گئے ہیں۔ میں نے نکلتے وقت فون کر دیا تھا ۔صبح فاریسٹ آ فیسر آ ئیں گے تو ....“ وہ اتناہی کہہ سکا ۔ فارحہ نے ایک طویل سانس لی اور اٹھ گئی ، اب کہنے کو کچھ نہیںبچا تھا۔ وہ خود پر جبر کر کے اپنے کمرے تک گئی ۔ وہاں جاتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔وہ اسی وقت سارے آ نسو بہا دینا چاہتی تھی ۔
ژ....ژ....ژ
شام کے سائے پھیل گئے تھے جب فارحہ نے اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھا۔ ایک دم سے اس کا دل بھر آیا ۔کوئی بھی طلاق یافتہ لڑکی، اپنے میکے آتی ہے تو وہ اس کے لئے قیامت کی گھڑی ہوتی ہے ۔ اتنا بڑا طوفان آ کر گذر گیا،لیکن اس قدر خاموشی ؟وہ پوری جان سے لرز گئی ۔محسن اسے لینے گیا ہوا تھا۔گھر میں اماں اورابا اس کے انتظار میں تھے ۔ گھر میں ملنے ملانے سے لے کر رات گئے باتوں تک، اُسے کچھ سمجھ میں آیا ،کچھ نہیں۔ وہ تھکن کا کہہ کر اپنے اسی کمرے میں آ گئی جس میںبچپن سے لے کر جوانی تک کا وقت گذارا تھا۔وہ بیڈ پر لیٹ گئی ۔ اس کی آنکھوں کے سامنے پھر سے وہی منظر جاگ گیا، جب جمال نے اُسے الوداع کہا تھا۔ٹکٹ لے کر کوچ میں بٹھا نے تک وہ بالکل خاموش رہا تھا۔جیسے ہی کوچ چلنے لگی ،اس نے دھیمے سے لہجے میں اتنا ہی کہا
” میرا سیل نمبر آپ کے پاس ہے ۔ جب بھی میری ضرورت محسوس ہو، مجھے کال کر لیں۔ ایک اچھے دوست کی طرح میں آپ کو ہمیشہ یاد رکھوں گا ۔“
عام سے یہ لفظ نجانے کس جذبے میں بھیگے ہوئے تھے کہ سیدھے اس کے دل میں اُتر گئے ۔جیسے رائیگاں محبت کی دیوار پر جذبوں کے یہ نشاںکسی اعزاز کی طرح سج جائیں ۔
” میں بھی ۔“ اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ تبھی اس نے ایک نگاہ اس کی طرف دیکھا۔یہ دیکھنا بہت ظالم تھا ۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کچھ کہتی ، وہ پلٹ گیا تھا۔ فارحہ نے اسے دیکھنا چاہا ، مگر وہ یوں اوجھل ہو گیاتھا ، جیسے اس کی زندگی سے چلا گیا تھا ۔مایوس نگاہیں پلٹ آئیں ۔ اس نے آنسوﺅں کو روکنے کے لئے سختی سے آ نکھیں بند کرلیں تھیں۔ فارحہ کواس تلخ حقیقت کے ساتھ اپنی دنیا میں لوٹنا پڑا تھا کہ اب فقط یادیں ہی ہیں جو ساری زندگی اس کے ساتھ رہیں گی ۔
 اس کے ماموں ارسلان نے گھر کرائے پر لے لیا تھا۔وہ اپنے بیٹے سہیل کے ساتھ کر اُس میں شفٹ ہو گئے تھے۔ یہ بڑا غنیمت تھا۔ ورنہ جو فارحہ نے سوچا تھا ، وہ اس طرح اپنی ماں کو بات نہ سمجھا سکتی تھی ۔ جمال نے اسے طلاق دی تھی اور طلاق کے بعد اسے ابھی عدت گذارنا تھی ۔ یہ وقت گذرنے کے بعد ہی اس کا نکاح ہو سکتا تھا۔ فارحہ کو یہ وقت گذارنا تھا۔جس طرح اس نے اپنے نکاح کے بارے میں نہیںبتایا تھا، اسی طرح وہ اپنے عدت کے ان دنوں کو بھی چھپا کر رکھنا چاہتی تھی ۔ اس راز کو وہ راز ہی رکھنا چاہتی تھی ۔ اسے یہ اچھی طرح معلوم تھا، اگر اس کے ہونٹوں سے بات نکل گئی تو پھر وہ راز نہیں رہے گا۔ اسے اگر دنیاکی باتیں نہیں سننی، ساری زندگی کے لئے خود کو محفوظ رکھنا ہے تو اسے یہ سب راز ہی رکھنا تھا۔ سو اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ وقت کس طرح گزارنا ہے ۔ اسی لئے فارحہ ناشتے کے بعد اپنی اماں کے پاس بیٹھی ہوئی اسے یہ بات سمجھا رہی تھی کہ چند دن کے مزید کام کے بعد اسے اب تک کی ساری محنت کا معاوضہ مل جانے والا ہے۔
” نہ یہاں گھر میںرہ کر کیسے کر سکتی ہے کام ؟“ اماں نے پوچھا تو اس نے سمجھاتے ہوئے کہا
” یہ میرے پاس لیپ ٹاپ ہے،وہاں پر ابھی جو لوگ ہیں، میں ان کے ساتھ مل کر اس کام کو ختم کر لوں گی ۔ میں یہ سب طے کر کے آ ئی ہوں ان کے ساتھ ،یہ میرے لئے مشکل نہیںہے۔“
” لیکن ہمارے لئے تو ہے نا مشکل ، ہم تمہاری شادی کا سوچ رہے ہیں،انہی ایک دو ہفتوں میں ۔“ اماں نے اپنی رُو میں وہ بات کہہ دی جس کے بارے میں اس نے سوچا ہی نہیںتھا۔ وہ پوری جان سے لرز گئی ۔ اگر ان لوگوں نے زبردستی یہ سب کر دیا تو وہ کیا کرے گی ؟ وہ عدت میں کیسے شادی کر سکتی ہے ؟ یہ سوالیہ نشان اسے پاگل کر دینے کے لئے کافی تھا۔
”بولتی کیوں نہیںہو ، کیا سانپ سونگھ گیا تمہیں؟“ اماں کی تیز آواز اسے حقیقت کی دنیا میں لے آ ئی ۔
” اماں یہ کیا کہہ رہی ہو ۔ابھی مجھے یہ کام مکمل کرنے دو ، شادی بھی ہو جائے گی ، میں بھاگی جا رہی ہوں کہیں۔“ اس نے تلخی سے کہا، فطری طور پر اس کی آواز میں تلخی در آئی تھی۔اس سے پہلے کہ اماں مزید بات کرتی وہ وہاں سے اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔وہ سوچنا چاہتی تھی کہ اب اس مسئلے کا حل کیا ہو سکتا ہے ۔اسے کچھ سمجھ میں نہیںآ رہاتھا۔اچانک افتاد سے انسان کی سوچیں تک سلب ہو جاتی ہیں۔
یہ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ طلاق کے بعد عدت ہوتی ہے ۔ جب تک عدت کے دن پورے نہیںہو جاتے ، تب تک وہ دوسرا نکاح نہیں کر سکتی تھی ۔فارحہ نے سوچا تھا، دو تین ماہ گزر ہی جائیں گے شادی کو ۔ وہ یہی سمجھ رہی تھی کہ اتنی رقم آ جانے پر اماں نے جو اسے گھر بلا لیا تھا ، یہ اس کی فطری محبت تھی ۔ مگر اسے یہ معلوم نہیںتھا کہ گھر آتے ہی شادی رکھ دی جائے گی۔وہ بھی اتنی افرا تفری میں۔فارحہ کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ اس نے عدت کے دن گذارنے تھے، اس کے بعد ہی وہ سہیل کے ساتھ شادی کر سکتی تھی۔ وہ جس طرح اس مسئلے پر سوچتی جا رہی تھی ، کئی سوال اٹھنے لگے تھے۔ اسے ان سوالوں پر بہر حال سوچنا تھا۔
پہلا سوال یہی تھا کہ وہ اپنے نکاح کے بارے میں گھر والوں کو بتائے یا نہیں؟ دوسرا اس کی عدت کتنی ہے ؟ کتنے عرصے تک اسے رُکنا پڑے گا؟اگر ماموں نے جلدی کا شور مچا دیا تو وہ کیا کرے گی ؟جتنا اس نے جمال کے ساتھ نکاح کرناآسان سمجھا تھا، اب اسے بھی زیادہ گھمبیر صورت حال اس کے لئے پیدا ہو گئی تھی۔ اسے سمجھ میں نہیںآ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ؟ اس کا دماغ دُکھنے لگا تھا۔ کوئی ایسا بھی نہیںتھا جس سے وہ اپنے دل کی بات کہہ سکے ۔ وہ انہی سوچوں میں تھی کہ محسن نے ماموں اور سہیل کے آنے کی اطلاع دی ۔ اس لئے اماں اور ابا بلا رہے ہیں۔ ناچار اسے صحن میں جانا پڑا۔ بلاشبہ اس کا امتحان شروع ہو چکا تھا۔
ماموں ارسلان کافی بوڑھے دکھائی دے رہے تھے،جبکہ ان کا بیٹا کافی وجیہ نوجوان تھا۔ شکل صورت سے تو وہ اچھاہی تھا،دراز قد اور کا فی مضبوط جسم کا مالک ہونے کے ساتھ پہلی نگاہ میں اچھا تاثر دینے والا تھا۔ فارحہ نے سلام کیا ،ماموں اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑ ے ہوئے ، اور بڑی خوشی سے بولے
” ارے واہ ، میری بیٹی اتنی بڑی ہو گئی ہے ۔“ یہ کہتے ہوئے انہوں نے فارحہ کے سر پر ہاتھ پھیرا ،اور دعائیں دینے لگے ، اس نے اپنے کزن کو بھی سلام کی اور وہیں بیٹھ گئی ۔ ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد انہوں نے اس کی جاب کے بارے میں پوچھا۔ وہ بتاتی رہی ۔ بلکہ یہی زور دیا کہ کچھ عرصہ تک انہیںکام مکمل کر کے دینا ہوگا۔ تبھی ماموں نے کہا
” بس بیٹا۔! اب کام کرنے کی ضرورت نہیں۔ انہیں کہو وہ اپنا کام خود ہی مکمل کروا لیں۔ “
” نہیں ماموں ، میںنے انہیں بانڈ دیا ہے ، وہ مجھے کرنا ہوگا ۔“ اس نے جھوٹ بول دیا
” یہی ہیںنا وہ تمہارے پیسے نہیں دیں گے ، کوئی بات نہیں، چھوڑو بس ۔“انہوں نے لاپرواہی سے کہا
” نہیں ماموں ، مجھے کرنا ہوگا۔اب مجھے تو پتہ نہیں تھا کہ حالات یہ ہو جائیں گے ۔خیر میں جلد ہی اسے سمیٹ لوں گی ۔ “اس نے بحث سے بچنے کے لئے تیزی سے کہا
” اوکے ، چلو دیکھتے ہیں۔“ ماموں نے بھی وقتی طور پر بات ختم کر دی۔ وہ کچھ دیر بیٹھی اور پھر چائے بنانے کا بہانہ بنا کر اٹھ گئی ۔
ژ....ژ....ژ
فارحہ ساری رات نہیں سو پائی تھی ۔ اسے پورا ایک ہفتہ لگا۔ اس دوران اس نے یہ معلومات لے لیں تھیں کہ اسے اپنی عدت کے تقریباً تین ماہ دس دن گزارنا ہوںگے ۔ پھر اس کے بعد وہ شادی کر سکتی ہے ۔ان معلومات میں بہت ساری باتیں سامنے آئیں تھیں لیکن اس نے اپنے لئے اور اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اس بات کو ترجیح دی کہ چاہے رخصتی نہیں ہوئی ،اور میاں بیوی نے ازدواجی وقت نہیںگزارا لیکن انہیں خلوت میں رہنے کا وقت مل گیا تھا۔ لہذا اس کی عدّت ہے اور اسی پر اس نے صاد کرتے ہوئے یہ فیصلہ کیاکہ وہ خاموشی سے اپنی عدت پوری کرے گی ۔ پہلے تو وہ پوری کوشش کرے گی کہ کسی کو بتائے بغیر یہ مدت پوری کرلے ، بہت ضروری ہوا تو بتا دے گی ۔اگر کسی بھی طرح اس کی شادی سہیل سے نہیںہوئی تو کوئی بات نہیں، اسے اپنا ایمان زیادہ عزیز تھا۔ یہ فیصلہ کرتے ہوئے اس نے خود میں کہیں زیادہ اعتما د محسوس کیا۔
اس ایک ہفتے میں اس کے دماغ میں یہ بات بھی گھومنے لگی کہ ماموں ارسلان اچانک اپنا سب کچھ چھوڑ کر یہاں بسنے کیوں آ گئے تھے ؟ اور اگر کسی بھی وجہ سے یہاں آ بھی گئے تھے تو انہی پر اتنی مہربانیاں کیوں ہونے لگیں کہ پیسہ پانی کی طرح ان پر بہایا جانے لگا تھا؟ کوئی نہ کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی ورنہ صرف بہن کی محبت اتنا جوش نہیں مارتی، جو کچھ بھی تھا ، ان آئندہ آنے والے دنوں میں کھلنے والا تھا۔یہ اطمینان کر لینا بھی تو اس کا حق تھا۔
 دوسرے ہفتے میں فارحہ کا کام مکمل ہو گیا۔یہاں تک کہ اس نے جمال احمد کے ساتھ مل کر رپورٹ بھی تیار کر لی ۔ وہ اس کے ساتھ آن لائین رہا تھا۔اب وہ رپورٹ جمع بھی ہو نی تھی ۔جمال احمد وہاں سے سب کچھ کلوز کرکے نکل گیا تھا ۔ اب ایک دن کے لئے اسے ہیڈ آفس جانا تھا۔تاکہ نہ صرف اپنا کام دے دے بلکہ ریزائن بھی کردے ۔ اس شام جمال احمد نے اسے بتا دیا کہ وہ کل ہیڈ آفس جا رہا ہے ،وہ بھی آ جائے ۔یہ بات جب اس نے اپنی اماں کو بتائی تو اس نے حیرت سے پوچھا
” کیوںجا رہی ہو ؟“
” میں ریزائن دینے جا رہی ہوں ۔“ اس نے اطمینان سے کہا
” ارے جب نوکر ی چھوڑ دی تو بس چھوڑ دی ۔“ اس کی اماں کی سمجھ میں بات نہیںآ رہی تھی۔ تبھی اس کے ابا نے کہا
” نہیں اسے جانا پڑے گا ۔جانے دو ۔“
” کاہے کو ؟“اماں نے پوچھا
” تمہیں نہیں پتہ ، جب بندہ نوکری کرتا ہے تو یوں چھوڑ کر نہیںبیٹھ جاتا، سو معاملات ہوتے ہیں۔ورنہ کہیںلینے کے دینے ہی نہ پڑجائیں نیک بخت ، سمجھا کرو کچھ ۔“ اس کے ابّا نے کہا 
” ٹھیک ہے ، اب میں کیا کہوں ۔“ اس کی اماں نے گویا ہتھیار ہی پھینک دیئے ۔ورنہ تو جب سے ماموں نے آ کر اپنا پیار جتایا تھا ، اماں کے رویے میںبھی تبدیلی آ گئی تھی ۔بعض اوقات وہ ابا سے بھی سخت بات کر جایا کرتی تھی۔
اگلے دن دوپہر سے پہلے وہ ہیڈ آفس جا پہنچی ۔ جمال اس کا انتظار کر رہا تھا۔فارحہ کی جیسے ہی اس پر نگاہ پڑی تو اس کے من میں دکھ کی لہر پھیل گئی ۔ ایک انجان احساس اس کے رگ وپے میں سرائیت کر گیا۔ یہی وہ شخص تھا ، جسے وہ اپنا کہہ سکتی تھی ، جو کبھی اس کا اپنا تھا، اب اس کا نہیںرہا تھا۔کھو دینے کا احساس اذیت دینے لگا ۔وہ اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کی کیفیت کو جان گیا ، اس لئے بڑے نرم لہجے میں بولا
” خود پر قابو رکھو فارحہ ، خواب بھول جایا کرتے ہیں، وہ یاد رکھنے کے نہیں ہوتے ۔“
”لوگ خوابوں کو حقیقت بناتے ہیں اور تم حقیقت کو خواب بنا دینا چاہتے ہو ؟“ وہ دُکھ بھرے لہجے میں یوں بولی جیسے اس کے لفظ آنسوﺅںسے بھیگ گئے ہوں ۔
” میں اگرحالات پر قابو رکھ سکتا تو کبھی خواب نہ بننے دیتا ۔ ‘ ‘جمال نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے تاسف سے کہا تووہ مزید کچھ نہ کہہ سکی۔اس کی آنکھیں جلنے لگی تھیں۔وہ خود پر قابو پانے لگی۔ وہ نہیںچاہتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو اس کا راز کھول دیں۔وہ وہاں سے ہٹ گئی ۔ پھر جتنی دیر تک وہ وہاں رہی ، اس نے کوشش کی کہ جمال سے دوبارہ سامنا نہ ہو ۔ 
دو پہر کے بعد جب وہ ہیڈ آفس سے لوٹی سے اس کے دل پر بوجھ تھا۔ کھو دینے کا احساس اسے بے چین کر رہا تھا۔اسے سمجھ نہیں آرہاتھا کہ وہ وقت کو کیسے واپس لے آئے ۔ جمال سے شادی کرنے اور پھر طلاق لے لینے کے دونوں فیصلے جلد بازی میں کئے گئے تھے۔اس کامن رُونے کو چاہ رہا تھا لیکن بیچ سڑک میں وہ ا یسا نہیں کر سکتی تھی۔ جمال نے سچ ہی کہا تھا اب اسے خواب سمجھ کر بھولنا ہی ہوگا۔
اسی شام جب وہ کھل کر رُو چکی تھی۔ من کا بوجھ کسی حد تک کم ہو گیاتھا۔وہ کھلی فضا میں جانا چاہتی تھی۔ اس کا چھوٹا سا گھر ایسا نہیںتھا کہ جس میں کوئی کا ر یڈ و ر ہوتا اور وہ وہاںبیٹھ جاتی، کوئی بالکنی ہوتی، زیادہ سے زیادہ چھت تھی ، جہاں وہ کچھ دیر سکون سے بیٹھ سکتی تھی ۔ اس نے صحن میںبیٹھی اماں کو دیکھا، دو کپ چائے بنائی ، ایک کپ اسے دیا اور چھت پر چلی گئی ۔ ابھی اس کا کپ ختم نہیںہوا تھا کہ چھت پر اپنے لندن پلٹ کزن سہیل کو دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئی ، پھر خود میں سمٹ گئی ۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ اماں کی رضامندی کے بنا یہاں نہیںآیا ، ورنہ اسے کیا الہام تھا وہ کہاں پر ہے ؟ علیک سلیک کے بعد فارحہ ہی نے اس سے پوچھا
” سہیل بھائی ، چائے پئیں گے؟ لاﺅں بنا کے آپ کے لئے ؟“ اس نے جان بوجھ کر ایسا کہا تھا، جس کا ردعمل اس نے اگلے ہی لمحے دیکھ لیا۔ سہیل نے دھیمی سی مسکان کے ساتھ کہا
” نہیںمیںنے چائے نہیںپینی، میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رُکا ، پھر بولا،” اور یہ تمہیںبھی پتہ ہے کہ جلدی ہی ہماری شادی ہونے والی، اس لئے تم مجھے صرف سہیل کہہ سکتی ہو ۔“
” شادی سے پہلے توسارے ....“ اس نے کہنا چاہا لیکن سہیل نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” اب تمہیں پتہ چل گیاہے نا، اس لئے ۔“ 
” اوکے ، آپ کچھ باتیں کرنا چاہ رہے تھے؟“ فارحہ نے پوچھا
” یہاں کہاں ماحول ہے ، میں چاہتاہوں کسی پر سکون سی جگہ پر باتیں کی جائیں ، یہ کوئی ماحول تو نہیںہے۔“ اس نے ناک چڑھاتے ہوئے کہا
”وہ ماحول کیسا ہونا چاہئے ؟“ اس بار فارحہ نے بھی یونہی چھیڑنے کے لئے کہہ دیا۔
” کوئی پارک ، کوئی اچھاسا ریستوران ،یا کوئی لانگ ڈرائیو ، کہیںبھی ۔“ اس نے مسکراتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ فوراً مان جائے گی ۔
” ٹھیک ہے ، میں اماں سے پوچھ لوں گی ، آپ بتا دیجئے گا ، جب جانا ہو ۔“ اس نے دھیمی سی آواز میں کہا
” ہاں ہاں ، کیوں نہیں، ہم نے بتائے بنا تھوڑا جانا ہے ،ہم اپنے ہی گھر والوں سے کیا چھپائیں گے، کہو تو ابھی پوچھ لوں؟“ اس نے اعتماد سے پوچھا
” جیسے آپ کی مرضی ، لیکن میرے خیال میں یوں رات کو گھر سے باہر رہنا اچھاتو نہیںہے نا۔ابھی نکلے تو رات ہو جانی ہے ۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا 
” چلو اوکے ڈن ، کل دوپہر کو سہی ، میں فون کر دوں گا۔“ اس نے کہا اور لاپرواہی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔ فارحہ کو یہاں گھٹن محسوس ہونے لگی ۔اس نے تیزی سے کہا
” نیچے چلیں سہیل بھائی ، میرا مطلب سہیل صاحب۔“ اس نے کہتے کہتے جلدی سے تصیح کر ڈالی ، جس پر سہیل یوں مسکرا دیا جیسے اس نے کوئی فتح حاصل کر لی ہو۔ اس نے کندھے اُچکاتے ہوئے نیچے جانے کا یوں اشارہ کیا جیسے اسے اجازت دے رہا ہو ۔ وہ تیزی سے نیچے جانے کے لئے بڑھ گئی ۔ سیڑھیاں اُترے ہوئے اس کے ذہن میںتھا کہ یہ تو ابھی سے حکمرانی کا حق جتا نے لگا ہے۔
اگلے دن ابھی دوپہر بھی نہیںہوئی تھی کہ سہیل کی کال آ گئی ۔ وہی لہجہ ، وہی انداز حکمرانی والا،
” تیار ہو جاﺅ، میں لینے کے لیے آ رہاہوں ۔“
” لیکن میںنے تو ابھی اماں سے پوچھا ہی نہیں ۔“ فارحہ نے جلدی سے بتایا
” میں نے پوچھ لیا ہے ۔ بس تم انہیں بتادو کہ میرے ساتھ جا رہی ہو ۔“ سہیل نے تیزی سے کہا اور فون بند کر دیا۔پھر ہوا بھی وہی ، اماں نے اسے کوئی تبصرہ کئے بغیر جانے کی اجازت دے دی۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ اماں کی مرضی ہی نہیں وہ چاہتی ہی ایسا ہیں۔ فارحہ اگر کہیںمخالفت کر بیٹھی تو اس کا انجام اماں کی شدید مخالفت کی صورت بھگتنا پڑے گا۔بلاشبہ ایسی صورت میں تو اس نے جو اپنی عدت کے دن گذارنے ہیں وہ ناممکن ہو جائیں گے؟ عدّت سے پہلے شادی سے وہ کس طرح بچ پائے گی؟ یہ ابھی اس کی سمجھ میں نہیںآ رہاتھا۔
تقریباً دو گھنٹے بعد وہ سہیل کے ساتھ کار میں بیٹھی ہوئی جا رہی تھی ۔ وہ خاموش تھی ۔ اس کے دماغ میں جو مہیب مسئلہ چل رہا تھا، وہ خود اس سے خوف زدہ تھی ۔اس نے یہ بھی نہیںپوچھا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ؟ سہیل نے یونہی سر سری سی باتیں کی ، جس کا جواب اس نے ہوں ہاں میں دیا تھا، پھر اس نے بھی خاموشی اختیار کر لی ۔ ان کے سفر کا اختتام ایک پارک میں ہوا ، جہاں دن کے وقت اتنی رونق نہیںہوتی تھی ۔ وہ وہاں سکون سے بیٹھ کر بات کر سکتے تھے۔ وہ دونوں لکڑی کے ایک بینچ پر بیٹھ گئے ۔
” دیکھو فارحہ ۔!شادی کوئی گڈے گڈی کاکھیل تو ہے نہیں، میں صرف اتناپوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر تمھاری اور میری شادی ہو جاتی ہے تو کیا تم اس رشتے پر خوش ہو ؟“ سہیل نے سیدھے ہی سوال کر ڈالا
”ظاہر ہے لڑکے اور لڑکی کی رضا مندی کے بغیر شادی تو ہوتی ہی نہیں ہے ۔ میں ایک لڑکی ہوں ، میرے والدین نے میری کہیں تو شادی کرنی ہے ۔ وہ بہتر سمجھتے ہیں۔“ وہ پرسکون لہجے میں اعتماد سے بولی
” مطلب ، والدین کی رضامندی سے وہ جہاں کہیں بھی کر دیں؟“ اس نے پوچھا
” وہ میرے لئے اچھا ہی سوچیں گے۔“ وہ بولی
”دیکھو ، میں ایک کھلے ذہن کا بندہ ہوں ۔ میں نے بہت سارا وقت فارن میں گزارا ہے ۔شادی کے بعد میں کوئی ٹینشن نہیںلینا چاہتا، ایک بہتر زندگی گذارنا چاہتا ہوں۔ “سہیل نے کہا تو فارحہ کے دماغ میں الارم بج گیا۔یہی وہ بات ہے جو وہ کہنا چاہتا ہے اس لئے سکون سے پوچھا
” سبھی بہتر زندگی گذارنا چاہتے ہیں، اور آپ کی ٹینشن میں سمجھی نہیں؟“
” تمھاری کوئی پسند ہے ؟ تم کسی اور کو چاہتی ہو تو میں تم پر مسلط نہیںہوں گا۔خاموشی سے کسی دوسری لڑکی سے شادی کر لوں گا۔ایسا نہ ہونا کہ ....“
” ایساکچھ بھی نہیںسہیل صاحب جو آپ سوچ رہے ہیں ۔ “ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکی ، پھر بولی،” آپ کے ذہن میں اگر کوئی اور سوال بھی ہے تو کر لیں۔“
” نہیں کوئی خاص نہیں، بس یہی ایک بات تھی کیونکہ میں نے تمہارا رویہ دیکھا ، جس میںکوئی گرم جوشی نہیں ہے۔“ سہیل کے یوں کہنے پر وہ بہت کچھ کہہ سکتی تھی ، وہ سارے سوال کر سکتی تھی جو اس کے دماغ میں آئے تھے لیکن وہ خاموش رہی۔ تب وہ اپنی باہر گزاری ہوئی زندگی کے بارے میں بتانے لگا، وہ خاموشی سے سنتی رہی، یہاں تک کہ اس نے کہا ، ’ ’ میں چاہتا ہوں کہ شادی سے پہلے اپنا گھر ایک دم سیٹ ہوجائے، تم اس میں دلچسپی لو ، اور اپنے انداز میں اسے سجاﺅ ۔ جیسے ایک گھرکی ضرورت ہوتی ہے۔“ 
” ٹھیک ہے ، میں کوشش کرتی ہوں ۔“ اس نے حتمی لہجے میں کہا تو سہیل نے اٹھتے ہوئے کہا
” اب بتاﺅ ، شہر میں تمہاری پسند کا ریستوران کون سا ہے ، وہیں لنچ لیتے ہیں۔“
” میں کسی بڑے ریستوران کو نہیںجانتی ، میں کبھی گئی نہیں وہاںپر ۔“ فارحہ صاف مکر گئی ۔یہ ایک طرح سے سچ بھی تھا لیکن اس نے جو مسکراہٹ سہیل کے لبوں پر دیکھی ، اس پر وہ حیران رہ گئی ۔ ایسی مسکراہٹ ، جسے وہ کوئی نام نہ دے سکی، شاید طنزیہ، شاید اس کی غربت کا مذاق یا پھر اس کے لاعلم ہونے پرافسوس ۔جو کچھ بھی تھا، اس مسکراہٹ میں ایک تکبر ضرور تھا۔
” چلو آﺅ ، میں بتاتا ہوں۔“ اس نے کہا اور اٹھ گیا ۔فارحہ کو بھی اس کے ساتھ اٹھنا پڑا۔
٭....٭....٭
 فارحہ کی حالت بالکل پاگلوں جیسی ہو گئی تھی۔ دن کا سکون اور راتوں کی نیند اُڑ گئی تھی ۔اسے سہیل سے کوئی مسئلہ نہیں تھا،اور وہ اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی سوچنا نہیں چاہ رہی تھی ۔ اسے اگر فکر تھی تو اپنی عدّت کی ۔ اس کی عدّت کو ابھی چار ہفتے ہی گذرے تھے۔محض تیس دن، اور ابھی ستّر دن باقی تھے ۔وہ چکرا کر رہ گئی تھی کہ اگر اس کی شادی کا مطالبہ یونہی جاری رہا تھا تو باقی دن کیسے پورے کر پائے گی ؟ کیا وہ سب کچھ سچ سچ بتا دے ؟ یہ ایک ایسا خوفناک سوال تھا، جس کے بارے میں وہ جتنا سوچتی، نہ صرف اتنا اُلجھتی ، بلکہ خوف زدہ ہوجاتی۔
سب سے پہلے اسے اپنے گھر والوں کی ہی مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ۔اس کی ماں کی نگاہوں میں جو تھوڑی بہت عزت تھی ، وہ بالکل ختم ہو کر رہ جاتی ۔ اس کے بھائی کے لئے وہ تیسرے درجے کی ایک آوارہ لڑکی بن جاتی ،اور باپ سوائے نفرت کرنے کے اور کچھ نہیں کرسکتا تھا۔وہ شاید ان لوگوں کی نفرت برداشت کر لیتی لیکن یہی بات جب گھر سے نکل کر ارد گرد کے لوگوں کے کانوں تک پہنچتی تو نجانے کیا کیا افسانے بن جاتے ، ہر کوئی اپنے مطلب کی نئی نئی تعبیریں نکالتا۔یہاں تو کچھ نہ ہونے سے بہت کچھ بن جاتا ہے ، وہ تو پھر اس کا نکاح تھا۔اس کا یقین کون کرتا؟وہ جب سوچتی تو لرز کر رہ جاتی ۔
ہر آنے والے دن کے ساتھ فارحہ کی پریشانی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔کیونکہ ہر نئی صبح سے ہی اس کی شادی کی بات ہو نا شروع ہو جاتی تھی۔اسے کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ جہاں وہ پریشانی میں سوچتی وہیں اسے ماورا کا خیال آتا کہ اس سے مدد لے ، ممکن ہے وہ کوئی ایسا مشورہ دے سکے ، جس سے کم از کم یہ ستّر دن نکل جائیں ۔پچھلے تین دن سے وہ اسے سیل فون پر پیغام دے رہی تھی لیکن اس کا کوئی جواب ہی نہیں آیا تھا۔
پریشانی کے ان دنوںمیںوہ محسوس کر رہی تھی کہ جیسے اس کا کوئی پرسان حال نہیںہے۔وہ جو بھی سوچتی اسے ہر طرف سے دروازہ بند دکھائی دیتا تھا۔تب اسے لگا کہ جمال کے ساتھ شادی کا جو ایڈونچر تھا، وہ اس کی زندگی تباہ کر دینے والا تھا ۔
وہ مایوسی بھری کھردری دوپہر تھی۔وہ اپنی کمرے میں پڑی اپنی پریشانی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ اسی دن سہیل بھی آ گیا۔ وہ نئے گھر کے لئے آرکیٹیکچرسے ملنا چاہتا تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ فارحہ بھی اس کے ساتھ چلے تاکہ گھر کا نقشہ بنانے میں اس کی بھی رائے شامل ہو ۔اماں تو سہیل کی اس بات پر نہال ہو گئی ۔ اس نے فارحہ کو زبردستی تیار کر کے بھیج دیا۔وہ گھومتے ہوئے دماغ کے ساتھ اس کے ساتھ چل دی ۔وہ کافی دیر آرکیٹیکچرکے پاس بیٹھ کر اسے نئے گھر کے نقشے بارے بتاتا رہا ۔ وہ سنتی رہی اور ہوں ہاں میں مشورہ دیتی رہی ۔ تقریباً تین گھنٹے کی مغزماری کے بعد وہ آرکیٹیکچر کے آ فس سے نکلے تو سہیل نے کہا
” آ ﺅ فارحہ ، کوئی نئے ریستوران چلیں ۔“
” میری طبیعت خراب ہو رہی ہے سہیل ،ہم گھر نہ چلیں ۔“ فارحہ نے کہا تو سہیل نے طنزیہ انداز میں پوچھا 
” اگر طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے تو ڈاکٹر کے پاس چلتے ہیں اور اگر میرا ساتھ پسند نہ ہونے کی وجہ ہے توگھر واپس جاتے ہیں ۔“
” ایسی کوئی بات ، بس ایویں دل گھبرا رہا ہے ۔“ اس نے ایک دم سے ابھر آ نے والے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا تو سہیل دھیرے سے ہنس دیا۔پھر مسکراتے ہوئے بولا
” اچھا کھانا کھاﺅ گی نا ، تھوڑا ماحول بدلے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“ 
 وہ ایک مہنگے ریستوران میں آ بیٹھے جہاں واقعی ہی خوشگوار فضا تھی ۔اس نے چند طویل سانس لئے اور سکون سے بیٹھ گئی ۔ اس کے سوا چارا بھی نہیں تھا ۔
اس وقت وہ کھاناکھاچکے تھے۔سہیل اٹھ کر واش کی جانب گیا ہی تھا کہ فارحہ کا سیل فون بج اٹھا۔کوئی انجان نمبر تھا۔ اس نے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے ایک بھاری مردانہ آ واز ابھری 
” میں ارباز بات کر رہا ہوں ، آپ فارحہ ہیں نا؟
” جی ہاں ، میں ہی ہوں ، کیسے ہیں آ پ ؟“ اس نے بے دلی سے پوچھاتو وہ بولا
” میری ماورا سے ابھی بات ہو ئی ہے ،وہ کہہ رہی ہے آپ کو کوئی پرابلم ہے ، بولیں ، کیا پرابلم ہے ، میں کوشش کرتا ہوں اسے حل کرنے کی ۔“
” میں اس طرح فون پر کیا بتاﺅں آ پ کو بات ؟“ اس نے گھبراتے ہوئے دھیمی آ واز میں کہاتو ارباز نے سکون سے کہا
’ ’اگر آپ اس وقت نہیں بتا پارہی ہیں توکوئی بات نہیں،ویسے تھوڑ بہت تو ماورا نے مجھے بتا دیا ہے ، مگر مجھے تفصیل سے نہیں پتہ ۔ آ پ جیسا مناسب سمجھیں مجھے بتادیں۔ میرے آ فس آ جائیں ، یا جہاں آ پ کہو ، میں آ جاتا ہوں ۔“
”میں آ پ کو فون پر ہی بتا دیتی لیکن ابھی نہیں کچھ دیر بعد، ابھی میں ....“ اس نے کہنا چاہا تو وہ جلدی سے بات کاٹتے ہوئے بولا
” اوکے اوکے ، آپ جب چاہیں مجھے فون کر لیں اسی نمبر پر ۔“
” جی ٹھیک ہے ۔“ یہ کہہ کر اس نے فون بند کردیا۔ اس نے سہیل کو واپس آ تا ہوا دیکھ لیا تھا۔
وہ واپس گھر آ گئی تو کچھ دیر سکون کر لینے کے بعد اس نے ارباز کو فون کر دیا۔ اس نے فوراً ہی کال رسیو کر لی ۔
” سوری ارباز ، میں اس وقت اپنے سو کالڈ منگیتر کے ساتھ تھی ، جس کے سامنے میں بات نہیں کر سکتی تھی ۔“
” اوہ اچھا، میں نے آپ کو ریستوران ہی میں دیکھا تھا، اچھا تو اس بندے کے ساتھ آ پ کی شادیہونے والی ہے ؟“ارباز نے انتہائی دلچسپی سے پوچھا تو وہ بولی 
” ہاں ، وہی ہے میرا کزن اور میں نہیں چاہتی اس سے میری شادی نہ ہو ، بس تھوڑے عرصے کے لئے شادی رک جائے ۔“ 
” وہ کیوں ؟“ اس نے پوچھا تو فارحہ نے ساری تفصیل بیان کر دی ۔وہ سنتا رہا اور جہاں اسے سمجھ نہیں آتی تھی ، وہاں سے سوال کر کے پوچھ لیتا۔ساری بات سن اور سمجھ لینے کے بعد اس نے کہا
”معاملہ خاصا گھمبیر ہونے کے ساتھ ساتھ مشکل بھی ہے ، لیکن میں سوچتا ہوں ۔ایک دو دن میں ہی بتاتا ہوں ، کوئی حل نکال کے ۔لیکن اب آپ بالکل فکرنہ کریں ، کوئی نہ کوئی حل نکل آ ئے گا ۔“
فارحہ اپنی پریشانی شیئر کرکے کافی حد تک مطمئن ہو گئی۔اس نے شکریہ ادا کر کے فون بند کردیا۔وقتی طور پر اسے تھوڑا حوصلہ ہوا تھا ۔
 تیسرا دن بھی گزر گیا لیکن ارباز کی طرف سے کوئی جواب نہیں آ یا۔ وہ پریشان ہوگئی ۔ اس کی گھبراہٹ اس لئے بھی بڑھ گئی کہ کون دوسروں کے معاملے میں آ تا ۔ اسی دوپہر ارباز کا فون آ گیا ۔ اس نے فارحہ کو اپنے آ فس بلایا تھا ۔اگلا دن کا وقت طے ہوگیا تو اسے بڑا سکون محسوس ہوا ، اسے لگا کہ اس کی بہت بڑی پریشانی حل ہو جانے والی ہے ۔
 اگلے دن فارحہ اس کے آ فس جا پہنچی ۔ ارباز بڑے تپاک سے ملا۔ اس نے چند رسمی باتوں کے بعد اس سے کہا
” میں نے آ پ کے معاملے میں بہت سوچا،بہت سارے آ پسن ذہن میں آ ئے ،مثلاً ایک یہ کہ آ پ بیمار بن جاﺅ ،طبیعت خراب کا بہانہ بنا لو ، مگر کتنے دن ؟ یہ بات سامنے آ ہی جائے گی کہ آ پ بہانہ بنا رہی ہو ۔“
” ہاں ، میںنے بھی سوچا تھا ، لیکن یہ ممکن نہیں ، اس میں دوائیں الگ سے کھانی پڑیں گی ۔اگر کوئی اوٹ پٹانگ کھا لی تو کہیں ....“ اس نے خوفزدہ سے انداز میں کہا تو ارباز اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولا
” میں نے اس کا ایک بہترین حل نکالا ہے ، اس میں آ پ پینسٹھ دن کیا ، چار ماہ بھی نکال سکتی ہیں ۔“
” ایسا کیا حل ہے ؟“ اس نے تجسس سے پوچھا
” اس میں آ پ کو تھوڑا ساتعاون کرنا پڑے گا ،وہ تعاون ہوگا صرف خاموش ، نہ آ پ انکار کریں گی اور نہ اقرار ۔“ ارباز نے مسکراتے ہوئے کہا
” ایسا کیا ، مجھے بتائیں تو سہی ؟“ اس نے جلدی سے پوچھا
” ہوگا یہ کہ میں ، بذات خود اپنی امی کے ساتھ آ پ کے گھر میں اپنا رشتہ لے کر جاﺅںگا۔“وہ سکون سے بولا
” یہ کیا کہہ رہے ہیں آ پ ، یہ تو ....؟“ وہ حیرت سے بولی 
” سنیں آ پ ۔“اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہاپھر بولا،”ظاہر ہے آ پ کے گھر والے انکار ہی نہیں کریں گے بلکہ ہماری بے عزتی بھی کر سکتے ہیں ۔میں وہاں جو بھی اول فول بکوں ، مثلا میں یونیورسٹی ہی سے آ پ سے محبت کرتا رہا ہوں ، میں آپ کے ساتھ شادی کئے بغیر نہیں رہ سکتا ، فارحہ میری خاموش محبت ہے ، وغیر وغیرہ اس پر آ پ نے نہ انکار کرنا ہے اور نہ اقرار۔ یہ آ پ کے گھر والوں کے لئے ایک نئی افتاد تو ہوگی ۔اسی میں آ پ کے جوباقی پینسٹھ دن ہیں وہ نکل جائیں گے ۔میں ہار مان کر پیچھے ہٹ جاﺅں گا اور آ پ شادی کر لینا۔“ اس نے فارحہ کو اپنا پلان سمجھاتے ہوئے کہا۔
فارحہ یہ سب سن کر ایک دفعہ تو لرز گئی ۔ یہ کیا ہونے جا رہا ہے ۔وہ احمقوں کی مانند ارباز کو دیکھتے ہوئے بولی
” یہ سب کیسے ہوگا؟ کہیں ہم مزید مشکل میں نہ پھنس جائیں ۔“
اس پر ارباز نے مسکراتے ہوئے بڑے تحمل سے سمجھانے والے انداز میں کہا
” کچھ بھی نہیں ہوگا۔بس آپ نے نہ اقرار کرنا ہے اور انکار ،آپ پر بات آئے گی ہی نہیں ۔سب کچھ تو میں کروں گا ، سو جو بات بھی ہوگی ،میں ہی اس کا سامنا کروں گا، گویا آپ کو میرے بارے میں پتہ ہی نہیں کہ میں آ پ سے محبت کرتا ہوں ۔بس آ پ کو اتنا پتہ ہے کہ میں یونیورسٹی میں پڑھتا تھا، وہیں دیکھا تھا مجھے اور بس اس کے علاوہ کچھ پتہ نہیں،یہ بھی نہیں معلوم کہ میں کس شعبے میں پڑھتا تھا ، کیا نام ہے وغیرہ وغیرہ ۔“
” آ پ اتنا کچھ کیسے کر لیں گے ؟“ فارحہ نے دھیمی آ واز میں پوچھا
” یہ مجھ پر چھوڑ دو ۔میں جانوں اور میرا کام ، بس آپ کی اجازت ہو تو میں یہ سب کر گزروں گا ۔“ اس نے تحمل سے سمجھایا
” اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس سے مسئلہ حل ہو جائے گا تو ٹھیک ہے ۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے کہا تو ارباز نے ایک طویل سانس لے کرسی سے پشت لگا لی ۔اسی دوران ایک ملازم چائے کے ساتھ لوازمات رکھنے لگا ۔چائے پینے کے ساتھ وہ اسے بہت ساری مزید باتیں سمجھاتا رہا۔
ژ....ژ....ژ
 وہ ایک خوشگوار صبح تھی ۔فارحہ نے گھرسارے کام سمیٹ لئے تھے ۔وہ فریش ہو کر اپنے کمرے میں بیٹھی ایک میگزین پڑھ رہی تھی ۔ اس کی اماں اور ابا صحن میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔اس دن ماموں بھی آ یا ہوا تھا۔ ان کے درمیان ایسے ہی باتیں چل رہی تھیں کہ دروازے پر دستک ہوئی ۔ابا نے اٹھ کر دروازہ کھولا تو ان کے محلے ہی کی ایک خاتون کے ساتھ دو اجنبی خواتین تھیں۔ ان خواتین کے لباس اور زیوارت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ وہ کسی امیر خاندان کی خواتین ہیں۔ ابا نے انہیں اندر آنے کا راستہ دیا تو وہ تینوں صحن میں آ گئیں ۔ اطمینان سے بیٹھنے کے بعد محلے دار خاتون نے نووارد خواتین کا تعارف کراتے ہوئے کہا
”یہ مسز ظفر کیانی ہیں۔ اور یہ ساتھ میں ان کی بھابی ہیں۔یہ ادھر میرے میکے میں ہمارے ہی قریب رہتے تھے ۔ان سے بڑا اچھا تعلق ہے ۔ اب تو انہوں نے ماشا اللہ پوش علاقے میں بنگلہ بنا لیا ہے ۔ یہ سب ادھر رہتے ہیں ۔بہت اچھا بزنس ہے ان کا ۔ یہ آ پ سب سے ملنا چاہ رہی تھیں۔“
” بہت خوشی ہوئی جی آپ سے مل کر ۔ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ آپ کس سلسلے میں ہم سے ملنے آ ئی ہیں۔“ اماں نے ان سے مرعوب ہوتے ہوئے اپنا لہجہ حتح الامکان اچھا بناتے ہوئے پوچھا
” دیکھیں جی ، بات تو ہم کرنے آ ئیں ہیں ، اور کریں گے بھی ،لیکن کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں ، جنہیں بہت تحمل سے کرنا پڑتا ہے اور اور انہیںتحمل ہی سے سننا پڑتا ہے ۔چونکہ ہماری پہلی ملاقات ہے سو کہتے ہوئے ذرا عجیب سا لگ رہا ہے ۔“ مسز ظفر نے ٹھہرے ٹھہرے لہجے میں سکون سے کہا
” نہیں آ پ بات کریں ۔لیکن خیر، پہلے بتائیں ٹھنڈا یا چائے پئیں گی آ پ ۔“ بات کرتے کرتے اماں کو یاد آ یا تو اس نے پوچھا
” نہیں ، ا سکی ضرورت قطعاً نہیں ہے ۔ ان کے گھر سے ابھی چائے پی ہے ، آپ کے ہاں آ ئے ہیں تو مہمان دار ی بھی ہوتی ہے گی ۔“ مسز ظفر نے اسی سکون سے کہا 
”بتائیں ہم کیا خدمت کر سکتے ہیں، کیا بات کرنی ہے آ پ نے ؟“اماں کی بجائے اس بار ماموں نے پوچھ لیا 
”دیکھیں بیٹیاں سب کی سانجھی ہوتی ہیں ، اس میں کوئی دو رائے نہیںہیں ۔ہمیں آ پ کی بیٹی فارحہ میں دلچسپی ہے ۔ہم اسے اپنی بیٹی بنانا چاہتے ہیں۔“ مسز ظفر نے کہا ت وبالکل پرسکون لہجے میں لیکن لفظ تھے کہ سامنے بیٹھے ، اماں ، ابا اور ماموں کو حیرت زدہ کر گئے ۔
” یہ کیا کہہ رہی ہیں آ پ ؟“ اماں نے حیرت سے ششدر ہوتے ہوئے پوچھا تو مسز ظفر نے کہا
”وہی جو آ پ نے سنا۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکیں اور پھر بولیں۔” آ پ ہمارے بارے، ہمارے بزنس کے بارے ، ہماری پراپرٹی کے بارے ، جو چاہیں اور جیسا چاہیں ، معلومات لیں ۔ہمارے ساتھ تعلق جوڑ کر بہت خوشی محسوس کریں گے اور فارحہ بیٹی ہمارے ہاں پھولوں کی مانند رہے گی ۔“
” دیکھیں بہن ، فارحہ کی نہ صرف منگنی ہو چکی ہے ، بلکہ ہم ایک آ دھ ہفتے میں اس کی شادی بھی کررہے ہیں۔ ہمیں نہیںمعلوم کہ آ پ نے ہمارے گھر کا رخ کیسے کیا لیکن ہم معذرت خواہ ہیں ۔“ اماں نے بڑے نپے تلے لفظوں میں انکار کر دیا۔ دراصل وہ ان خواتین کے مہنگے لباس اور زیورات سے مرعوب ہو چکی تھی ۔ 
” ہم یوںنہیں نہیں آ گئے یہاں پر۔ ہمارا بیٹا، جس کے لئے رشتوں کی قطار لگی ہوئی ہے ، اور ہم جس بڑے گھر میں بھی چاہیں اس کی شادی کر سکتے ہیں ۔لیکن اس کی پسند فارحہ ہے ۔ہمیں اسی لئے تو آ نا پڑا کہ کہیں فارحہ کی شادی نہ ہو جائے ۔“ اس بار مسز ظفر نے کافی حد تک رعب دار انداز میں کہا
”کیا بات کرتی ہیں آ پ ،آپ کو پتہ ہے آ پ کیا کہہ رہی ہیں۔“ اس بار ماموں نے سخت لہجے میں کہا
” میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں کیا کہہ رہی ہوں ۔میرے بیٹے کی ضد نہ ہوتی تومیں کبھی نہ آ تی ۔وہ بہت ضدی ہے ۔کم ازکم اس معاملے میں ، اس نے ہمیں جھکا لیا ، اور میں یہاں آ گئی ۔ “
” دیکھیں، آ پ نے بہت کچھ کہہ لیا۔ اب آ پ جا سکتی ہیں۔“ ماموں نے پھر سختی سے کہا ت ومسز ظفر بھی رعب دار لہجے میں بولیں
”میں جانتی ہوں کہ آ پ میرے ساتھ بہت غلط سلوک بھی کر سکتے ہیں۔میں یہ بات ذہن میں رکھ کر آ ئی ہوں ۔لیکن اتنایاد رکھیں، مجھے کہا گیا ایک ایک لفظ قیمتی ہوگا۔اس لئے بہت سوچ سمجھ کر کوئی بھی بات کیجئے گا ۔“  
” یہ آ پ کس طرح بات کر رہی ہیں ؟کیوں فارحہ کو اپنی بیٹی بنا نا چاہتی ہیں ؟پہلے یہ ....“
” میرا بیٹا جس یونیورسٹی میں پڑھتا تھا ، فارحہ بھی ادھر ہی پڑھتی تھی ۔ میرے بیٹے کو وہ پسند ہے اور بس ۔“ مسز ظفر نے کہا تو ماموں نے سوچتے ہوئے پوچھا
” کیا ، فارحہ بھی آ پ کے بیٹے کو جانتی ہے ؟ میرا مطلب ہےان کے درمیان کوئی تعلق ....“
” اے ہے کیا بات کرتے ہو ۔“ اماں تڑپ اٹھی ۔
” ایسی کوئی بات نہیں ، فاحہ بیٹی کو تو شاید پتہ بھی نہ ہو ۔یہ میرے بیٹے ہی کی خاموش محبت ہے ۔“ یہ کہہ کر اس نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا،” کہان ہے فارحہ بیٹی ؟“
فارحہ اپنے کمرے میں بیٹھی یہ سب سن رہی تھی ۔ ارباز نے اپنا وعدہ پورا کر دیا تھا ۔یہی وہ وقت تھا جب اسے باہر ان کے پاس جانا تھا ۔ وہ اٹھی اور باہر صحن میں آ گئی ۔ اس نے آ تے ہی سب کو سلام کیا اور مسز ظفر سے بولی 
” جی میں ہوں فارحہ ، میںنے سب سن لیا ہے ۔آ پ کے بیٹے کا نام کیا ہے ؟“
” ارباز ،“ یہ کہ کر اس نے پرس میں سے ایک تصویر نکال کر اسے دکھاتے ہوئے پوچھا،” یہ ہے وہ ، کیا جانتی ہو اسے ؟“
” ارے ، یہ توہمارے ساتھ والے ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتا تھا ، میں جانتی تو نہیں ، لیکن آ منا سامنا ہو جایا کرتا تھا ۔“ فارحہ نے تصویر دیکھ کر واپس کرتے ہوئے کہا 
” تو بس پھر ،میری بات کو ذرا سوچئے اور سمجھئے گا ، میں دو چار دن میں دوبارہ آ ﺅں گی ۔“ یہ کہتے ہوئے مسز ظفر اٹھی ۔ اس کے ساتھ دوسری خواتین بھی اٹھ گئیں ۔اپنے پرس میں سے کافی سارے بڑے نوٹ نکالے اور فارحہ کی مٹھی میں دیتے ہوئے بولیں ،”یہ رکھو ، میری بیٹی ، حالات کچھ اور ہوتے تو میں بہت کچھ لاتی ۔“
” نہیں، میں یہ کیسے ....“ فارحہ نے انکار کیا ت ووہ زبردستی اسے تھما کربولیں 
” بس رکھو۔ “
یہی وہ لمحہ تھا جس سے وہ ارباز کو سہارا دے سکتی تھی ۔اگر وہ رقم پکڑ لیتی تو اس کا مطلب تھا کہ فارحہ کی ہاں ہے اور مسز ظفر کو اپنے گھر میں آ نے کا راستہ دے دیتی۔اس نے وہ رقم پکڑ لی ۔
مسز ظفر نے اس کی طرف دیکھا اور مسکرتے ہوئے باہر والے دروازے کی جانب چل دیں ۔ فارحہ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی ۔صحن میںخاموشی طاری ہو گئی تھی۔ چند منٹ بعد ماموں کوئی بات کئے بنا اٹھ کر چلے گئے ۔ ابا نے بھی کوئی بات نہیں۔یوںجیسے گھر پر سناٹا چھا گیا ہو ۔
تقریباً ایک گھنٹے بعد ارباز کا فون آ گیا۔ اس نے کسی بھی ممکنہ ردعمل کے بارے میں پوچھا اور چند منٹ باتیں کرکے فون بند کردیا۔ فارحہ مطمئن ہ وگئی تھی کہ اس کی عدّت کے دن اب سکون سے گزر جائیں گے ۔
اسی شام سہیل ان کے گھر آ گیا۔ اس وقت فارحہ صحن ہی میں بیٹھی ہوئی تھی ۔اس کے پاس اماں تھیں جبکہ ابا باہر کہیںگئے ہوئے تھے۔ اماں اس سے کرید کرید کر پوچھتی رہیں کہ اگر کوئی بات ہے تو بتا دو ۔ لیکن فارحہ وہی کہتی رہی جو اس نے ارباز کے ساتھ طے کیا تھا۔وہ ان کے پاس آ کر بیٹھ گیا ۔ اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی دیکھی جا سکتی تھی ۔ وہ کافی دیر خاموش بیٹھا رہا ، پھر اس نے فارحہ سے دبے دبے غصے میں پوچھا
” وہ جو عورتیں آ ج آ ئی تھیں، انہیں جانتی ہو ، کہاں رہتی ہیں وہ ، کون ہیں وہ ، کس خاندان سے تعلق ہے ان کا ؟“
 ” میں نہیں جانتی ہوں ۔ یہ انہوں نے ہی بتایا کہ ....“ فارحہ نے کہنا چاہا مگر وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
” ایسا ممکن ہی نہیںہے کہ وہ تمہاری مرضی کے بغیر یہاں پر قدم بھی رکھ لیں ، کیونکہ ا سکا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اتنی رقم دی اور تم نے فوراً پکڑ بھی لی ، جب تم جانتی ہی نہیں ہو، پہلی ملاقات ہے، تو پھر یہ کیا ہے ؟“ سہیل نے انتہائی غصے میں کہا ت ووہ سکون سے بولی 
” انہوں نے دئیے میں نے لے لئے ۔“ 
” تم اتنی بچی نہیں ہو کہ اس بات کو نہ سمجھ سکو ۔ سیدھے سیدھے بتاﺅ ، کیا چکر ہے تمہارا ان کے ساتھ ۔“وہ غصے میں بولا تو فارحہ نے بھڑک کر کہا
” بات سنو سہیل ۔! اب ایک لفظ بھی منہ سے نکلا تو بہت برا ہوگا۔تمہیں ہوش ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟شرم ہے تمہیں۔“ پہلی بار یوں سخت لفظ سن کر سہیل کے ساتھ اماں نے بھی پھٹی پھتی آ نکھوں سے اس کی طرف دیکھا۔
” یہ کیا کہہ رہی ہو ، تمیز سے بات کرو ۔“ اماں نے ڈانٹا
”اماں ، کوئی میری ذات اور کردار پر انگلی اٹھائے ، یہ مجھے برداشت نہیں ہے ۔ سہیل کو کوئی حق نہیں ہے کہ میرے کردار بارے ایسے سوال کرے ۔“ اس نے تیز لہجے میں کہا تو اماں ڈھیلی پڑتے ہوئے کہا
”تو پھر وہ کیسے آ گئیں ؟“ سہیل نے سنبھل کر پوچھا
” جو انہوں نے کہا، سب نے سنا، مجھے بھی وہی معلوم ہے ۔اب جاﺅ جا کر پتہ کر لو، وہ کون ہیں ؟“ فارحہ نے تحمل سے جواب دیا
” میں سب پتہ کر لوں گا ۔“ یہ کہہ کر اس نے اماں سے کہا،” وہ جو اپنے محلے سے خاتون ان کے ساتھ آ ئی تھی ، ذرا ان سے پتہ کرو کہ وہ کون ہیں ۔“
 ”میں کر آ ئی ہوں اس سے سارا پتہ ، اس نے لڑکے ہی کا فون نمبر دے دیا ہے ۔“ اماں نے کہا
” کہاں ہے دو مجھے ۔“ سہیل نے فوراً کہا تو اماں نے پہلو سے بندھا کاغذکا ایک ٹکڑا اسے تھما دیا۔ اس نے وہ نمبر پڑھا، اپنے سیل فون میں محفوظ کیا اور وہ کاغذ کا ٹکڑا واپس تھما دیا۔ وہ چند منٹ بیٹھا سوچتا رہا پھر اٹھ کر چلا گیا۔
 دو دن تک مکمل خاموش رہی تھی ۔ کسی سے فارحہ سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اماں نے بھی ا سکی شادی بارے کوئی بات نہیں کی تھی ۔وہ جو شادی کی بات پر اس کا دماغ بھاری ہو جایا کرتا تھا ، وہ بات ہی اس کے سامنے نہیں ہوئی تو وہ پرسکون تھی ۔ فارحہ نے حساب لگایا کہ اس کے ساٹھ دن باقی ہیں ۔ مطلب دوماہ اسے انتظار کرنا ہوگا۔ دو دن بڑھ کر ایک ہفتے پر محیط ہو گئے ۔ اس کی شادی بارے بات کرنے پہ گویا سناٹا چھا گیا۔ 
ایک دن دوپہر سے ذرا پہلے وہ اپنی اماں اور ابا کے ساتھ صحن ہی میں بیٹھی ہوئی تھی کہ ان کے محلے کی وہی خاتون ان کے گھر آ ئی ۔ اس کے ساتھ ایک دوسری ادھیڑ عمر عورت تھی ۔محلے والی خاتون نے اس کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ مسز ظفرکی ملازمہ ہے ۔
” کیسے آ نا ہوا ؟“ اماں نے انہیں بیٹھنے کی بجائے بے رخی سے پوچھا
” یہ مسز ظفر نے تھوڑا پھل بھیجاہے ۔“ مازمہ نے کہا
” پھل ، کہاں ہے پھل ؟“ اماں نے اس کے خالی ہاتھوں کی طرف دیکھتے ہوئے طنزیہ کہا 
” وہ باہر مزدور کھڑا ہے لے کر ۔ اگر کہیں تو آ واز دے لوں ۔“ملازمہ نے انتہائی تحمل سے کہا
” مزدور ، بلاﺅ ۔“ اماں نے اپنا آنچل درست کرتے ہوئے کہا تو ملازمہ نے آ واز دے ڈالی ۔ تبھی ایک مزدور اند ر آ یا ، اس نے باری باری چند پیٹیاں پھلوں کی ان کے صحن میں رکھ دیں ۔ اماں نے حیرت سے پوچھا
” یہ اتناکچھ ؟
اس پر ملازمہ نے کوئی تبصرہ کئے بنا کہا
” مسز ظفر نے پوچھا ہے کہ وہ آ پ کے ہاں کب آ ئیں ؟“
” مطلب ، وہ ....“ اماں نے تذبذب سے کہا تو اس کے ابا بولے 
” کوئی ضرورت نہیں آ نے کی ، یہ اپنا پھل اٹھاﺅ اور واپس لے جاﺅ ۔“
” یہ تواب میں لے جا نہیں سکتی ۔خیر آ پ کا پیغام دے دوں گی ۔“ یہ کہتے ہی وہ پلٹی اور دروازے کی جانب بڑھ گئی ۔اماں یوں دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے سکتے میں آ گئی ہو ۔ پھر پھلوں کی ان پیٹیوں کی جانب دیکھا اور حیرت زدہ سی چار پائی پر بیٹھ گئی۔فارحہ جانتی تھی کہ یہ ہی وہ لمحات ہیں جب ا سکی ماں کی سوچ بدلنے والی ہے ۔
دوسرے دن کی صبح سہیل اپنے باپ کے ساتھ آ گیا۔ انہوں نے نئے آنے والے رشتے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی بلکہ جو نئی پراپرٹی بنائی جا رہی تھی ، اسی کی بات کرنے لگے۔تھوڑی دیر بعد سہیل نے اماں سے کہا
” فارحہ سے کہیں تیار ہو جائے ،آرکیٹکچر کے پاس جانا ہے ۔ اس نے حتمی نقشہ بنانے سے پہلے ایک بار وزٹ کرنے کو کہا ہے ۔“
” اچھا کہہ دیتی ہوں ۔“ اماں نے کہا اور اٹھ گئی ۔وہ اپنے کمرے میں سن رہی تھی ۔ اماں نے اسے سہیل کے ساتھ جانے کا کہا ۔فارحہ نے سکون سے مان لیا ۔اب جبکہ سکون سے دن گذر رہے تھے ، وہ ان دنوں کو کسی طرح بھی ڈسٹر ب نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ 
سہیل اسے لے کر سیدھا ایک پارک میں چلا گیا۔فارحہ سمجھ گئی کہ وہ کوئی بات کرنا چاہتا ہے ۔وہ اسے لیکر ایک پرسکون سے گوشے میں پرے بینچ پر جا بیٹھا۔فارحہ انتظار کرنے لگی کہ وہ کچھ کہے ۔ سو کچھ دیر تک خاموش رہنے کے بعد انکشاف کر دینے والے انداز میں وہ بولا
”فارحہ ، یہ جو تمہارا رشتہ آ یا ہے ، وہ سب جھوٹ اور فراڈ ہے ۔وہ لڑکا، تم سے کوئی محبت وغیرہ نہیں کرتا۔اس سے بچ جاﺅ تو اچھا ہے ۔“
” پہلی بات تو یہ ہے سہیل ، میں اسے صرف اتناجانتی ہوں کہ وہ میرا یونیورسٹی فیلو ہے ، ساتھ کے ڈیپارٹمنٹ میں ہوتا تھا اور بس ، اس کے علاوہ میں اس کے بارے میں کچھ نہیںجانتی ہوں ۔ دوسری بات میں یہ بھی نہیں جانتی اور نہ ہی یہ کنفرم کرتی ہوں کہ اسے مجھ سے کوئی محبت ہے یا نہیں ہے ، تیسری بات ، میرا اس سے بچنا یا نہ بچنا اس وقت تک کوئی معنی نہیں رکھتا، جب تک میرے وادین نہیں چاہتے ، میں نے شادی وہیں کرنی ہے ، جہاں میرے والدین چاہیں گے ۔سو ۔! وہ فراڈ ہے ، جھوٹ ہے کیا ہے ، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔“ فارحہ نے بڑے اطمینان سے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے جواب دیا جہاں اس کی پریشانی ہویدا تھی ۔ 
” دیکھو، معاملہ وہ نہیں ہے جو سامنے دکھائی دے رہا ہے ،اس سارے عمل کے پیچھے کچھ دوسری باتیں ہیں۔اس لئے ان سے بچنا ہی ہوگا۔ “ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا توپریشانی میں بولی 
” میں نہیں جانتی کہ دوسری باتیں کیا ہیں ، اور مجھے ان سے کیسے بچنا ہے ؟ جبکہ میرا ان سے کوئی لینا دینا نہیں ۔“
” یہی میں کہنا چاہ رہا ہوں ، اگر وہ دوبارہ آ ئیں توتم انہیں صاف انکار کر دو ، انہیں بتاﺅ کہ تمہاری شادی ہو رہی ہے اور ....“ اس نے کہنا چاہا تو فارحہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا
” میں ہی کیوں جواب دوں۔ میرے بڑے بیٹھے ہیں۔یہ فیصلہ یا اس فیصلے پر انہوںنے عمل کرنا ہے۔ دیکھیں اب میرے والدین نے مجھے یہ کہا کہ میری شادی آپ سے ہو جائے تو میں نے اس پر ایک لفظ بھی نہیں کہا اور میں نے خاموشی سے ....“وہ کہہ رہی تھی کہ سہیل نے جھنجھلاتے ہوئے اس کی بات کاٹ کر بے بسی والے کہا
” تم سمجھ نہیں رہی ہو ، اب میں تمہیں کیسے سمجھاﺅں ۔میں تمہیں یہاں اس لئے لایا ہوں کہ تمہیں سمجھا سکوں۔“
” آ پ کھل کر بات کریں ، کیا کہنا چاہتے ہیں؟“اس نے پوچھا 
” اچھا ، میں تمہیں سمجھاتا ہوں ۔“ یہ کہہ کر اس نے پہلو بدلا اور پھر کہتا چلا گیا ،” یہ ان دنوں کی بات ہے ۔جب ہم کالج میں پڑھتے تھے ۔ وہ ارباز نامی لڑ کا بھی وہیں پڑھتا تھا ۔ وہ جیسے عام طور پر کالج میں سٹوڈنٹس کی آ پس میں مخالفت ہو جاتی ہے۔ میں جس گروپ میں تھا، یہ ارباز دوسرے گروپ میں تھا۔ایک دو بار ہماری لڑائی بھی ہو چکی تھی ۔یہاں تک کہ اس کے گروپ کا ایک لڑکا ہمارے ہاتھوں شدید زخمی ہو گیا۔میں انہی دنوں یہاں سے بھاگ گیا تھا ۔ ہم پر ارادہ قتل کا مقدمہ ہو گیا تھا ۔اب میں واپس آ یا ہوں تو پتہ نہیں ان لوگوں کو کیسے پتہ چل گیا۔ اب یہ میری مخالفت ہی میں سارا کچھ کیا جا رہا ہے ۔ وہ مجھے ہر حال میں پریشان کرنا چاہتے ہیں ۔“
” کیا آ پ ارباز سے ملے ہیں ؟“ فارحہ نے اس انکشاف پر پریشان ہوتے ہوئے پوچھا
” ہاں ، اسے ملا ہوں تو مجھے پتہ چلا ہے کہ وہ کون ہے ۔“اس نے بتایا
”میں بھی سمجھی یہ اتنے عرصے بعد اس کی محبت کیوں جاگ گئی ۔“ فارحہ نے اس سے جھوٹی ہمدردی جتاتے ہوئے کہا
” وہی نا ، میں یہی بات تمہیں سمجھانا چاہتا ہوں ۔اب انکار تمہیں ہی کرنا ہوگا ، ورنہ پھوپھو کا تو کوئی پتہ نہیں ہے ، وہ بہت بڑا خاندان دیکھ کر کہیں اپنا موڈ ہی نہ بدل لے ۔“ وہ تیزی سے بولا
” میرا خیال ہے ایسا نہیں ہوگا۔اماں ایسی لالچی نہیں ہیں ۔ ویسے بھی آپ نے ہم پر بہت انوسٹمنٹ کر دی ہے ۔“ فارحہ نے جان بوجھ کر یہ موضوع چھیڑ لیا تھا ۔
” نہیں فارحہ ، یہ انوسٹمنٹ نہیں ہے ۔تم لوگ میرے اپنے ہو ۔میری جتنی دولت تھی ، وہ سب میںنے تم لوگوں کو دے دی کہ کہیں تم لوگ ہمیں بیگانہ نہ سمجھو ۔اور پھر پاپا نے اتنا عرصہ اپنی بہن کو بھلا کر جو زیادتی کی اس کا بھی ازالہ اب میں ہی کر رہا ہوں ۔یہ جو نئی افتاد پڑ گئی ہے ، اس کا سامنا اب ہم دونوں ہی نے کرنا ہے ۔“ اس نے ملائمیت بھرے لہجے میں کہا
” میں آ پ کے ساتھ ہوں لیکن ایسا کیسے ہوگا، ہم کس طرح اس افتاد سے نکل پائیں گے ؟“ فارحہ نے پوچھا
”اس نے میرے گھر پر وار کیا ہے اس لئے ، میں اب تک خاموش ہوں ۔تم انکار کر دو تو وہ پھر نہیں آ ئیں گے ۔تب میں ان سے نمٹ لوں گا ۔“ اس نے کہا تو فارحہ کو یہی لمحہ لگا اپنی بات منوانے کا ۔ وہ تو ایک ایک کر کے اپنی عدّت کے دن گن رہی تھی ۔ اس لئے جلدی سے بولی 
” ٹھیک ہے ،آپ ان سے نمٹ لیں ۔سب کچھ ٹھیک کرلیں، اس کے بعد ہی ہم شادی کریں گے ۔ میں نہیں چاہتی میری گھریلو زندگی میں کوئی ایسا مسئلہ ہو ۔“
” ٹھیک ہے ، ایسا ہی کرتے ہیں ۔تم انہیں انکار کرو و۔ “ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا ۔
سہیل یہ سب طے پا جانے پر بہت خوش تھا۔ وہ دونوںوہاں سے اٹھ کر ریستوران کی جانب چل دئیے تاکہ لنچ لے سکیں ۔
فارحہ نے سہیل کی ساری باتیں سن لیں تھیں اور ان سے وقتی طور پر فائدہ بھی لے لیا تھا لیکن ،وہ حد درجہ پریشان ہو گئی تھی ۔ اس کے ذہن میں کئی سارے سوال پیدا ہوگئے ، جن کے جواب صرف ارباز ہی دے سکتا تھا ۔ اگلے ہی دن وہ ارباز کو کال کر کے اس کے آ فس جا پہنچی ۔ساری بات سن کر اس نے ہنستے ہوئے کہا
” مجھے پتہ تھا کہ بہت جلد آ پ یہ سارے سوال لے کر مجھے ضرور ملنے آﺅ گی ۔ “ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے رُکا، پھر کہتاچلا گیا،” سہیل نے جو کہا، وہ بالکل سچ ہے ۔ایسا ہی ہوا تھا ۔لیکن اسے یہ نہیں معلوم بعد میں کیا ہوا تھا ۔ خیر ، ماورا بہت دنوں سے مجھے کہہ رہی تھی کہ آپ کے مس ¾لے کا حل سوچوں ۔ مجھے کچھ سوجھ ہی نہیں تھا ۔ اس لئے آ پ سے رابطہ نہیں کیا ۔میںنے جس دن آ پ کو کال کی ، اس دن میں نے اسے آ پ کے ساتھ دیکھا تھا ۔سمجھ لیں یہ رَبّ تعالی کی طرف سے مسئلہ حل ہوا ہے ، مجھے وسیلہ بنا یاگیا،میں اسے پہچان گیا۔مزید تصدیق میں نے کر لی ۔“
” اب کیا ہوگا ؟“اس نے پوچھا
” کچھ بھی نہیں ۔جب تک آ پ چاہو میں اسے الجھا کر رکھوں گا ۔“ اس نے اطمینان سے کہا
”ہمارے درمیان طے پا گیا ہے ۔دو ماہ بعد ہماری شادی ہو جائے گی ۔“فارحہ نے کہا 
” ٹھیک ہے ۔ آپ کا مسئلہ حل ہو گیا، لیکن ....“ ارباز کہتے کہتے رک گیاتو فارحہ نے تجسس سے پوچھا
” لیکن کیا ؟“
” بس محتاط رہنا، اور رابطے میں رہنا۔“
’ جی بالکل کیوں نہیں ۔“ اس نے خوش ہوتے ہوئے کہا
 فارحہ کے من میں اطمینان پھیل گیا ۔ اسے پورا یقین ہو گیا تھا کہ اب اس کی عدّت کسی ذہنی اذیت کے بنا پورے ہو جائیں گے ۔ماورا گاہے بگاہے اس کے ساتھ رابطے میں رہنے لگی ۔ دوسرے تیسرے دن ارباز کا فون آ جاتا۔ وہ ان کا خلوص سمجھ کر خوش ہوتی ۔ اس دنیا میں اتنے مخلص دوست کسے ملتے ہیں۔ اس دوران اس نے ماورا سے بھی رابطہ رکھا۔ اس نے پھر بھی یہی کہتی کہ اگر کوئی پرابلم ہو کسی قسم کا مسئلہ ہو توارباز سے ضرور شیئر کرنا۔
ژ....ژ....ژ
 فارحہ کی عدّت ختم ہوئے دو دن ہو گئے تھے ۔ وہ خوش تھی ۔ ایک مسلسل ذہنی اذیت ختم ہو گئی تھی ۔اسے اپنے ہی گھر میں سکون محسوس ہونے لگا تھا ۔ایک صبح اس کے ماموں اور سہیل آ گئے ۔اس دن چھٹی تھی ۔ فارحہ کا بھائی بھی گھر پر تھا ۔ناشتہ کر لینے کے بعد جب وہ باتیں کرنے کے لئے صحن میں بیٹھے تو ماموں نے فارحہ اور سہیل کی شادی کی بات کرتے ہوئے کہا
” جتنا ہم جلدی یہ کر دینا چاہتے تھے ، اتنی ہی دیر ہو گئی ۔خیر، جو ہوا سو ہوا ، اب فوراً سے پہلے تاریخ رکھ لیں۔“
 ” مجھے توکوئی اعتراض نہیں ۔“ اماں نے کہا
” چلیں پھر کل ہی نکاح ہی رکھ لیتے ہیں ۔چند قریبی دوستوں کو بلواتے ہیں اور یہ فرض بھی ادا ہو جاتا ہے ۔“ ماموں نے صلاح دی ۔اماں ابا یا بھائی کو کیا اعتراض ہو سکتا تھا ۔ انہوں نے کسی جہیز وغیرہ کی تیاری بھی نہیں کرنا تھی ۔ اس لئے طے پا گیا۔ اس دوپہر کو فارحہ نے فون کر کے ارباز کو بتایا۔ اس نے مبارک باد دی اور نیک تمناﺅں کا اظہار کیا۔ سو اگلے دن کی شام فارحہ اور سہیل کی نکاح ہو گیا۔ ایک نزدیکی ریستوران میں انہوں نے مہمانوں کے لئے کھانا رکھا تھا ، فارحہ وہیں سے رخصت ہو کر سہیل کے گھر چلی گئی ۔
شادی کے دو ہفتے بہت سکون سے گزرے تھے ۔وہ تیسرے ہفتے کے اختتامی دن تھے ۔اس شام سہیل نے فارحہ کو خوب شاپنگ کروائی ۔ ایک اچھے ریستوران سے کھانا کھلایا اور گھر واپس آ کر اس نے خوشگوار موڈ میں کہا 
” بیوی ، جلدی سے ایک کپ گرما گرم چائے پلادو۔“
” ٹھیک ہے میں چینج کر کے ابھی بنا لاتی ہوں ۔“ فارحہ نے کہا اور بیڈ روم کی جانب بڑھ گئی ۔ اس وقت وہ کچن میں چائے بنا رہی تھی ، جب ارباز کا فون آ گیا ۔ اس نے پہلے اتنی رات کو فون نظر انداز کر دینا چاہا ، پھر کسی ایمر جنسی کا سوچ کر اس نے کال پک کر لی ۔ کیونکہ وہ اور ماورا اس کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے، جیسے دوست ہوتے ہیں ۔ارباز نے کسی تمہید کے بغیر پوچھا
” فارحہ ، سہیل نے کسی قانونی قسم کے کاغذات پر آپ کے دستخط لئے ہیں؟ یا ایسی کوئی بات کی ہے ؟“
” ابھی تک توایسا نہیں ہوا ، کیوں خیر ہے ؟“ اس نے بتا کر پوچھا 
” خیر ہی ہے ، اس کی تفصیل میں آ پکو بعد میں بتاﺅں گا ۔فی الحال ،مجھ سے مشورہ کئے بنا کسی بھی کاغذ پر دستخط مت کرنا۔“
” ٹھیک ہے ، پر مسئلہ کیا ہے ؟“اس نے پھر تجسس سے پوچھا
”سب کچھ سامنے آ جائے گا جب آپ انکار کرو گی یا پھرمجھ سے تفصیل سن لو گی ۔“ ارباز نے محتاط انداز میں کہااور پھر کال ختم کر دی ۔
وہ چائے بنا کر لاﺅنج میں گئی تو سہیل وہاں پر ایک فائل لئے اسے پڑھ رہا تھا۔ اس نے چائے رکھی اور اس کے قریب بیٹھ گئی ۔اس نے چائے کا کپ اٹھایا اور سپ لے کر بولا
” بیوی ، یہ اس فائل میں جہاں جہاں پنسل سے نشان لگے ہیں نا ، وہاں وہاں دستخط کردو ۔وہی جو تمہارے شناختی کارڈ پر ہیں۔“
سہیل نے یہ لفظ بڑی لاپرواہی سے یوں کہے تھے جیسے یہ کوئی عام سی بات ہو ۔اگر ارباز نے نہ بتایا ہوتا تو شاید وہ اسی وقت دستخط کر دیتی ۔ فارحہ اندر سے بے چین ہو گئی ۔ اس نے خود پر قابو رکھتے ہوئے لاپرواہی سے کہا
” ر کھ دیں ۔میں کر دوں گی دستخط۔“
” ارے نہیں بیوی ، یہ صبح میں نے لے کر جانے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہیں۔ لو یہ پین اور کردو ۔“ اس نے پین بڑھاتے ہوئے کہا
”اچھا کرتی ہوں ۔ یہ چائے پی لوں ۔ویسے یہ کاغذ ہیں کس بارے ۔“ اس نے فائل پکڑ کر پوچھا تو سہیل نے کہا
”وہ جو گھر تمہارے نام بنایا ہے نا اس کے بارے میں ہیں۔اس پر لون لینا ہے تاکہ بزنس شروع کیا جا سکے ۔“
یہ سنتے ہی دھچکا لگا۔ اس نے بے دلی سے چائے پی اور اٹھ کر جانے لگی تو سہیل نے کہا
” بیوی میںنے تمہیں کچھ کہا ہے ؟“
” میں فائل پڑھ کر ہی کوئی فیصلہ کروں بلکہ میرا خیال ہے آپ لون لینے کی بجائے اسے فروخت کر دیں ۔مجھے نہیں چاہئے ۔“ اس نے کہا اور بیڈ روم میں چلی گئی ۔فارحہ کو شک ہو گیا تھا۔
اگلے دن جب سہیل چلا گیا تو اس نے ارباز کو فون کر دیا۔ اس نے ساری تفصیل بتادی ۔تب اس نے کہا
” فارحہ ۔! میں یہ سمجھا تھا کہ شاید وہ اچھا ہو گیا ہے لیکن اس نے یہاں بھی فراڈ شروع کر دیا ہے ۔یہ غیر قانونی رقم لے کر پاکستان آ یا ہے ۔اس نے اپنے نام پر رکھنے کی بجائے ، تم سب گھروالوں کے نام پر وہ رقم محفوظ کی ۔اب اسے لون کی صورت میں واپس لے رہا ہے ۔“
” اوہ تو اسے اس لئے جلدی تھی میرے ساتھ شادی کرنے کی ؟“
” اس سے بھی آ گے کی بات سن لو ، تمہاری اماں کے حصے میں جو گھر تھا، وہ اس وقت اتنی مالیت کا ہے کہ جو تمہیں گھر بنا کے دے رہا ہے ، ویسے چار گھر آ جائیں ۔میں ابھی اس کے بارے میں مزید تحقیق کر رہاہوں۔ “
” آ پ کیوں تحقیق کر رہے ہیں میرا مطلب ،یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟“ فارحہ نے انتہائی پریشانی میں پوچھا
”صرف اپنی کالی دولت چھپانے کی خاطر وہ ایسا کر رہا ۔ مجھے صرف آپ کی وجہ سے دلچسپی تھی ۔ ورنہ جن کے بیٹے کو اس نے چھرا گھونپا تھا، وہ اسے معاف کرنے والے نہیں، میری ماما کے ساتھ جو خاتون آپ کے گھر آ ئی تھی ، وہ اسی لڑکے کی ماں تھی ۔ میںنے انہیں روک دیا تھا ، لیکن اب اس کا فراڈ سامنے آ نے والا ہے ۔محتاط رہنا۔“ ارباز نے جب بتایا تو فارحہ کو زمین گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ۔ اسے ساتھی بھی ملا ت وکیسا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔ 
اسی شام سہیل نے آ کر پوچھا
” وہ فائل پر سائن کر دئیے ہیں تو نے ؟“
” نہیں میں نہیں کروں گی ۔“ فارحہ نے صاف کہہ دیا 
 ” اس کا مطلب ہے کہ تمہارا رابطہ میرے دشمنوں سے ہے ، وہی تمہیںمیرے خلاف بھڑکا رہے ہیں ۔“
” تم فراڈ کر رہے ہو اور اگر ....“
” ہاں ، میں فراڈ کر رہا ہوں ۔“ یہ کہہ کر وہ صوفے پر بیٹھ گیا اور بڑے اطمینان سے بولا
” تم نے کون سا فراڈ نہیں کیا۔ایک شادی شدہ عورت کو میں نے اس لئے اپنایا کہ میرا ساتھ دے گی ۔“
” کیا کہنا چاہتے ہو تم ؟“ اس نے حیرت سے پوچھا
” مجھے سب پتہ چل گیا ہے ۔تم جو شادی کے نام سے بھاگتی تھی ، تب مجھے شک ہوا ۔ میںنے سب پتہ کیا اور تمہارا نکاح نامہ تک نکال لیا ۔اب میرے ساتھ نکاح نامے پر تم لوگوں نے ”کنواری“ لکھا۔ مطلب میرے ساتھ فراڈ کیا۔“ یہ کہہ کر اس نے فارحہ کی طرف دیکھا، پھر طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ بولا،”میں پاگل نہیں اپنی دولت تم لوگوں پر لٹاتا پھروں ۔ میںنے دولت دے کر پتہ نہیں کیا کچھ تم لوگوں سے لکھوا لیا ہے ۔اگر مجھے کچھ ہوا تو تیرا بھائی پکڑا جائے گا ، سارا دو نمبر کام اسی کے نام سے ہے ۔ اور تیرا باپ ، وہ سیدھا جیل میں ۔اس لئے چپ چاپ وہی کرو ، جو میں کہہ رہا ہوں ۔“ سہیل نے خباثت سے کہا تو فارحہ ہونقوں کی طرح اسے بس دیکھتی ہی رہ گئی ۔ اس کے ذہن میں بھی نہیںتھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے ۔ کافی دیر بعد جب اسے ہوش آیا تو وہ انتہائی دکھ سے روتے ہوئے بولی 
” میں تمہارے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ، تم نے دھوکا دیا۔“
” میں بھی تمہارے ساتھ کہاں رہنا چاہتا ہوں ، بلکہ میں رہ ہی نہیں سکتا۔بس اپنی دولت کو سمیٹ کر یہاں سے نکل جانا ہے ۔اور ہاں میں تجھے کبھی طلاق نہیں دوں گا ۔اگر تم نے خلع کا کیس کیا تو ایسا کچھ سامنے لاﺅں گا، تم لوگ نہیں بچو گے ۔یہ یادد رکھنا۔“
وہ کہتا چلا جا رہا تھ اور فارحہ کو زمین گھومتی ہوئی لگی ۔ وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گئی ۔ اس کے ساتھ قسمت نے یہ کیا مذاق کیا تھا۔وہ ہچکیوں میں رو رہی تھی ۔کچھ دیر بعد اس نے سہیل کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا
”تم جو چاہتے ہو لے لو ، مگر میرے گھر والوں کو بخش دو ۔ ہمیں کچھ نہیں چاہئے ۔ بس تم ہماری زندگی سے نکل جاﺅ ۔“
” توپھر جو کہتا ہوں وہ کرو ۔ میں اس وقت تک یہاںہوں جب تک یہاں سے اپنی دولت سمیٹ نہیں لیتا۔اب جاﺅ شاباش اور فائل لے آﺅ ۔ میرے سامنے دستخط کرو ، چلو ۔“ اس نے سرد سے لہجے میں کہا۔ ہچکیوں میں روتی ہوئی فارحہ اٹھ کر بیڈ روم میں چلی گئی ، جہاں اس نے فائل رکھی تھی ۔ وہ فائل اس نے اٹھائی اور کاﺅنج میں لا کر وہاں وہاں دستخط کرنے لگی جہاں سہیل اسے کہتا رہا ۔جب وہ سب کر چکی تو اس نے اپنے بیگ سےایک اور فائل نکال لی ۔ اس پر بھی اس نے دستخط لئے اور بڑی حقارت سے بولا ،” جاﺅ اب دفع ہو جاﺅ ۔ مجھے تمہاری کوئی ضرورت نہیں ۔جس کو چاہو بتاﺅ ، اب تمہاری اپنی تباہی خود تماہرے ہاتھ میں ہے ۔“ 
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور بیڈ روم میں چلا گیا ۔ فارحہ وہیں لاﺅنج میں بیٹھی روتی رہی ۔ اسے خود پر بڑا ترس آ رہا تھا ۔
اگلے دن کی شام تک فارحہ روتی رہی ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔زندگی اسے اس نہج پر بھی لے آ ئے گی یہ اس نے سوچا بھی نہیںتھا ۔ جو کچھ سہیل نے کہا تھا ، ایسا ممکن تھا ۔ اس کا بھائی پوری طرح اس کے جال میں آ چکا تھا۔شام سے پہلے اس نے سوچا ، یوں پڑے رہنے سے تو کچھ بھی نہیں ہوگا ، کم از کم اپنے والدین کو تو بتائے کہ ان سب پر کون سا طوفان گزر گیا ہے ۔وہ اٹھ کر جانے کو تیار ہو گئی ۔اس کی سوچوں میںبڑا خوفناک منظر تھا ۔ اسے اپنا سب اجڑتا ہوا دکھائی دے رہا تھا ۔
وہ لاﺅنج سے نکل کرباہر جانے کے لئے دروازے کی جانب بڑھی تو باہر پورچ میں سہیل کی کار آ ن رکی ۔وہ خوف زدہ ہوہ گئی ۔ کاش وہ چند لمحے پہلے نکل گئی ہو تی ۔وہ لمحہ بھر میں فیصلہ کر چکی تھی وہ پچھلے دروازے سے باہر نکل جائے گی ۔وہ سامنے دیکھتے ہوئے مڑنے ہی والی تھی کہ کار میں سے ارباز کو نکلتا ہوا دیکھ کر ٹھٹک گئی ۔سہیل کی کار میں وہ کیسے ؟ وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سہیل باہر نکلا ، اس کے ساتھ ہی دو آ دمی اور بھی تھے جنہیں وہ نہیںجانتی تھی۔ وہ رُک گئی ۔کچھ ہی لمحوں بعد وہ سبھی اندر آ گئے ۔ اسے یوں بیگ پکڑے تیار دیکھ کر وہ سمجھ گئے ۔ تبھی ارباز نے کہا
” فارحہ ابھی آ پ بیٹھو ، ابھی کہیں جانے کی ضرورت نہیں ۔“
فارحہ انہیں ہونقوں کی طرح دیکھتے ہوئے پلٹ گئی ۔وہ سبھی لاﺅنج میں آ بیٹھے ۔ان کی باتیں وہ صاف سن سکتی تھی ۔ سہیل نے کوئی بات کی تو ارباز نے انتہائی غصے میں کہا 
” تمہارے پاس صرف ایک چانس ہے اور وہ چانس تمہیں اس لئے دیا جا رہا ہے کہ تم فارحہ کے شوہر ہو ۔ ورنہ اب تک تمہارے ساتھ کیا ہوتا ۔ تم اس کا گمان بھی نہیں کر سکتے ہو ۔“
” کیا چاہتے ہو تم لوگ؟“ سہیل نے پوچھا
” تمہیں ہمارے سامنے فارحہ کو طلاق دینا ہو گی ، ہم گواہ ہوں گے اس کے۔ لیکن اس سے پہلے وہ تمام کاغذات جو تم نے اس غریب خاندان کو پھنسانے کے لئے تیار کئے ہیں ۔ وہ ہمارے حوالے کرنا ہوںگے۔ میرا وعدہ ہے میں تمہیں یہاں سے نکال دوں گا ۔“ ارباز نے دو ٹوک انداز میں کہا تو سہیل نے مجروع لہجے میں کہا
”اس کی کیا گارنٹی ہے کہ مجھے یہاں سے جانے دیا جائے گا ؟“
”میںخود تمہیں اس شہر سے باہر بھجواﺅں گا ۔ اس کے بعد تمہاری قسمت ۔رہی تمہارے باپ کی بات میں اسے نہیں جانتا۔جو اپنی بہن سے فراڈ کر سکتا ہے ، وہ کسی کا بھی سگا نہیں ہو سکتا۔“ اس بار ارباز نے نفرت سے کہا تھا ۔
” دوکاغذات، وقت نہیں ہمارے پاس ۔“ ایک اجنبی آواز میں کہا گیا تو سہیل وہاں سے اٹھ گیا ۔ وہ سیدھا بیڈ روم میں گیا۔ان نے الماری کھولی ، اس میں لگے لاک کے نمبرملائے اگلے ہی لمحے جب اس نے ہاتھ نکالا تو اس میں پسٹل تھا ۔اس نے وہ پسٹل ان تینوں پر تانتے ہوئے کہا
”مجھے نکل جانے دو، ورنہ گولی مار دوں گا۔ تمہارا کیا خیال ہے میں بیوی کو طلاق دے دوں اور تم اس سے شادی کرلو، ایسا ممکن ہی نہیں ہے ۔ہٹو میرے راستے سے ۔“ اس نے الماری میں سے سیاہ بیگ نکلا اور باہر نکلنے لگا۔وہ تینوں ایک طرف ہٹ گئے ۔ فارحہ نے اس سیاہ بیگ کو دیکھا، جس میں اس کی ہی نہیں اس کے گھر والوں کی بھی قسمت بند تھی ۔وہ چند لمحوں بعد لے کر فرار ہو جانے والا تھا ۔جیسے ہی وہ اس کے قریب آیا ، اس نے فارحہ کو ڈھال بنا لیا۔گھبرائی ہو ئی فارحہ نے منہ سے گھٹی گھٹی چیخ نکلی ۔ وہ اسے لے کر لاﺅنج میں آ گیا۔ارباز اسے بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔وہ فارحہ کو پکڑے باہر جا رہا تھا۔ شاید وہ دروازہ پار کر جاتا لیکن فارحہ نے اس کے پسٹل والے ہاتھ پر زور سے ہاتھ مارا۔اس کے ہاتھ سے پسٹل گر گیا۔ وہ لمحے کے ہزارویں حصے میں سمجھ گیا کہ اب اسے کیا کرنا ہے ۔ وہ انتہائی تیزی سے داخلی دروازے کی جانب بھاگامگر وہ تینوںاس تک جا پہنچے اور انہوں نے اسے قابو کر لیا۔ وہ ہانپتا ہوا ان کے قابو آ گیا۔
” بس اب تمہارا کھیل ختم ہو گیا۔“ ارباز نے اسے کہاتو وہ زمیں پر بیٹھتا چلا گیا۔ فارحہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی ۔
”مجھے چھوڑ دو ، میں یہاں سے ....“سہیل نے کہنا چاہاتو ارباز بولا
” ہماری بات مان لیتے تو شاید ہم بھی تمہاری مان لیتے ۔ اب نہیں ، اب تم پولیس کے حوالے ہو۔تم اب فارحہ کو طلاق نہ دو ، وہ خلع لے لے گی ۔“ یہ کہہ کر اس نے کچھ فاصلے پر پڑا وہ سیاہ بیگ اٹھایا، پھر فارحہ کے پاس آ کر بولا” یہ بیگ پکڑو اور واپس الماری تک جاﺅ ۔اس سے پہلے کہ لوگ یہاں آئیں ، جتنے بھی کاغذات تمہارے لوگوں کے متعلق ہیں جلا دو ۔“
اس نے ویسا ہی کیا۔ کچن میں ایک ایک کاغذ جلاتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی ۔یہ اس کا مستقبل جل رہا ہے یاماضی خاک ہو رہا ہے ۔
٭....٭....٭ 
ان دنوں سہیل سے خلع لے کر فارحہ اپنی عدّت پوری کر چکی تھی ۔ اس نے اب شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔دوران عدت اس نے پلان کیا کہ وہ خود اپنے بھائی کو ساتھ ملا کر کام کرے گی ۔ اس دوران وہ ماورا اور ارباز سے مشورہ کرتی رہی ۔ یہاں تک اس نے اپنا بزنس شروع کر لیا۔اور پوری محنت کے ساتھ اس نے وہ بزنس چلا بھی لیا۔
 انہی دنوں ماورا بھی واپس آ گئی ۔وہ اس سے اکثر ملنے آ جاتی تھی ۔شادی کے بعد ایک دن وہ ارباز کے ساتھ اس کے پاس آ ئی ۔کچھ دیر باتوں کے بعد ماورا نے مسکراتے ہوئے کہا 
” تمہیں اپنے کام کے لئے ایک اچھا، محنتی اور قابل ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مخلص قسم کا منیجر ضرور رکھنا چاہئے ۔“
” اتنی خوبیوں والا بندہ کہاں سے ملے گا ، وہ بھی اس دور میں ۔“ وہ ہنستے ہوئے بولی 
” اگر مل جائے تو رکھ لو گی ؟“ ماروا نے پوچھا 
” کیوں نہیں۔“ وہ سرہلاتے ہوئے بولی
” انکار کی گنجائش نہیں ہوگی ، ابھی سوچ لو ۔“ ماروا نے پھر کہا
” ڈن ، تم کہو گی تو انکار نہیں کروں گی ۔“ اس نے حتمی انداز میں کہا توماورا نے سیل فون پر کال کی ۔ اگلے لمحے اس کے سامنے جمال احمد کھڑا تھا ۔ فارحہ کا سانس رُک گیا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرا رہا تھا ۔پھر کرسی پر آ کر بیٹھتے ہوئے بولا
” میری نوکری پکی ہو گئی یا ابھی ....“
” بولو فارحہ ؟“ ارباز نے پوچھا تو وہ کئی لمحے بات ہی نہ کر سکی پھر لرزتی ہوئی آ واز میں بولی 
” پکی ۔“
 ا سکے ساتھ ہی اس کا آ فس قہقہے سے بھر گیا ۔
ژ....ژ....ژ

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *