Wednesday 30 August 2017

اُلٹی لکیر

اُلٹی لکیر

امجد جاوید

رات کا اندھیرا بہت گہرا تھا۔ سناٹے کو چیرتی ہوئی جھینگروں کی آواز بڑی بھیانک لگ رہی تھی۔ ایسے میں ایک سیاہ ہنڈا اکارڈ شاہراہ سے ذیلی سڑک پر مڑی اور پھر تیزی سے بڑھتی چلی گئی۔ کار کے اندر بھی اندھیرا تھا۔ صرف دو ہیولے دکھائی دے رہے تھے، جوغور سے دیکھنے پر بھی پہچانے نہیں جا رہے تھے۔ مگر ان کے ہیولے سے یہ ظاہر ہو رہا تھاکہ وہ دونوں لڑکیاں ہیں۔ وہ دونوں کس عمر کی ہیں؟ یہ اندازہ بھی نہیں ہو پا رہا تھا۔ذیلی سڑک پر دُور دُور تک کوئی ذی روح دکھائی نہیں دیا تھا۔ انہوں نے اپنی کار ایک گاﺅں سے پہلے ہی آنے والی عالیشان حویلی کے سامنے روک دی، جو اندھیرے میں جگمگا رہی تھی۔ سامنے کی کھڑکیاں روشن تھیں۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے کار یونہی اسٹارٹ رہنے دی تھی۔ اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی نے ڈیش بورڈ پر پڑاسیل فون اٹھایا، پھر نمبر پش کرتے ہوئے کان سے لگا لیا۔فوراً ہی کال رسیوکرلی گئی۔ اس نے اسپیکر آن کرتے ہوئے کہا
” جہاں زیب ۔! میں پہنچ گئی ہوں اورگیٹ کے باہر ہوں۔“
” اُو، رئیلی، مجھے یقین نہیں آرہا۔“ جہاں زیب کی اشتیاق بھری آواز گونجی، جیسے اسے واقعتا یقین نہ آ رہا ہوپھر اگلے ہی لمحے بولا” تم بس ایک منٹ ٹھہرو ، میں ابھی ڈرائیور بھیجتا ہوں، وہ گیٹ کھول کر تمہیں اندر لے آتا ہے۔“
”وقت کیا ہوا ہے جہاں زیب؟“ اس نے بہت پیار سے پوچھا
” واہ،تم نے وعد ہ پورادکھایا، بارہ بجنے میں ابھی پورے نو منٹ پڑے ہیں، تم پہلے آگئی ہو۔“ اس نے خوش کن لہجے میں کہا
” کیاتم نے میرے دئیے گفٹ ابھی کھولے تو نہیں ہیں؟“ اس لڑکی نے خمار آلود لہجے میں پوچھا
” نہیں یار، جب میں نے تم سے وعدہ کیا تھا کہ تمہارے دئیے گفٹ ہم اکھٹے کھولیں گے تو میں پہلے کیسے کھول سکتا ہوں۔ ابھی تو میری سالگرہ کا دن شروع ہونے میں پورے آٹھ منٹ پڑے ہیں۔“ جہاں زیب نے ہنستے ہوئے کہا
” مجھے یقین نہیں آرہا، تم ایسا کرو کہ میرے گفٹ کھڑکی میں لا کر دکھاﺅ، پھر اپنے ڈرائیور کو گیٹ کھولنے کے لئے بھیجنا، سمجھے۔“ اس کے رومانٹک لہجے میںسے نخرہ ٹپک رہا تھا ۔ 
” اوکے جانِ من، میں دکھاتا ہوں۔“ اس نے کہا اور سیل فون کے اسپیکر میں خاموشی چھا گئی ۔ آوازوں سے معلوم ہو رہا تھا کہ وہ پیکٹ اٹھا رہا ہے۔ کچھ دیر بعد کھڑکی کھلی اور جہاں زیب کا چہرہ دکھائی دیا ۔ تبھی اُس لڑکی نے پاس رکھی ٹیلی اسکوپ اُٹھائی اور اسے آنکھوں سے لگاکر دیکھنے لگی ۔ جہاں زیب نے مسکراتے ہوئے ایک ایک کرکے پیکٹ دکھائے اور انہیں کھڑکی میں رکھتا گیا۔ سارے پیکٹ رکھ چکا تو بولا،” کیا تم کار میں ہو ،اگر تم یہاں سے دیکھ سکتی ہو تو دیکھو، سارے پیکٹ بند ہیں، اسے ہم دونوں ہی نے کھولنا ہے۔جس طرح ذراذرا کر کے میںتمہیں کھولوں گا۔“
” یہاں سے پوری طرح دکھائی تو نہیں دے رہا لیکن پھر بھی میں آ جاتی ہوں۔ لیکن دیکھو میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ، میں نے جلدی واپس جانا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا۔ پھر کار سے باہر نکل کر اس نے سیل فون پوری قوت سے حویلی کی جانب پھینک دیا۔ اس کے ساتھ بیٹھی ہوئی لڑکی یہ سارا تماشہ سکون سے دیکھ رہی تھی۔وہ لڑکی واپس پسنجر سیٹ پر آکر بیٹھتے ہوئے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھی ہوئی لڑکی کو مخصوص اشارہ کرتے ہوئے ڈیش بورڈ سے ریموٹ نکالا، تب تک ڈرائیونگ کرنے والی کار کو پیچھے کی طرف لے جا نے کے لئے تیار ہو چکی تھی۔ پسنجر سیٹ پربیٹھی ہوئی لڑکی نے لرزتی ہوئی آواز کے ساتھ کہا
” فور۔۔۔ تھری۔۔۔ ٹو۔۔۔ ون“ اس کے ساتھ ہی اس نے ریموٹ کا بٹن دبا دیا۔ اگلے ہی لمحے ایک خوف ناک دھماکا ہوا ، جس سے وہ گاڑی میں بیٹھی ہوئیں لرز گئیں۔ انہوں نے لمحہ بھر کے لئے سامنے دیکھا۔ جس جگہ جہاں زیب کھڑا تھا، وہاں اب آگ پھیلی ہوئی تھی، جو لمحہ بہ لمحہ بڑھ رہی تھی۔ ریمورٹ دبانے والی لڑکی ان بھڑکتے ہوئے شعلوں کو یوں دیکھ رہی تھی جیسے اس کے اپنے اندر بھڑکتے ہوئے شعلے ماند پڑ رہے ہوں۔ ڈرائیونگ کرنے والی لڑکی نے وقت ضائع نہیں کیا۔ وہ چند لمحوں ہی کچھ دور تک کار بیک لے کر گئی، پھر بڑی مہارت سے موڑا، اور تیز رفتاری سے کار بھگاتی چلی گئی۔ حویلی میںآگ بھڑکتی چلی جا رہی تھی۔اس کے ساتھ نجانے کتنی چیخیں فضامیں گھل رہی تھیں۔ پسنجر سیٹ پر بیٹھی لڑکی آنکھیں بند کئے خود پر قابو پا رہی تھی۔ 
٭....٭....٭
 فروا کی تیز اور گرم سانسوں کو وہ اپنے چہرے پرمحسوس کر رہا تھا۔ وہ اس کے ساتھ بیڈ پر یوں چپکی ہوئی پڑی تھی کہ جیسے اس کے گم ہو جانے کا اُسے خوف ہو۔اس کی بھاری پلکوں والی بھنورا آنکھیں بند تھیں۔ شدتِ جذبات سے فروا کا شہد ملے گورے رنگ والاچہرہ سُرخ ہو چکا تھا۔منہ زور جوانی کی لگامیں ڈھیلی ہو چکی تھیں ۔اس کی انگلیاں حسن کی گردن پر تیزی سے گردش کر رہی تھیں۔ اچانک سیل فون کی تیز آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔ سائیڈ ٹیبل پڑے سیل فون کی اسکرین پر ایس پی سکندر حیات کے نمبر جگمگا رہے تھے۔ اسے وہ فون سننا ہی تھا۔ اس نے دھیرے سے فروا کو خود سے الگ کرنا چاہا تو فروا نے حسن کو بھنچتے ہوئے مخمور لہجے میں پوچھا
” کس کا فون ہے؟“
” تمہارے پاپا۔۔۔اور میرے باس کا۔۔۔ یا پھر یوں کہہ لو کہ میرے ہونے والے سُسر کا اور اگر۔۔۔“ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے مزاحاً کہا تو فروا ایک دم سے آنکھیں کھول کر تیزی سے بولی
” پاپا کا فون؟۔۔۔ تو پھر سُنونا۔“ 
اس نے فروا کے اوپر سے ہاتھ بڑھا کر فون اٹھایا اور اسپیکر آن کرتے ہوئے، کال ریسیو کرلی۔ دوسری طرف سے ایس پی سکندر حیات انتہائی منتشر لہجے میں بولے
” کہاں ہو اور کیا کر رہے ہو؟“
اس پر حسن نے اپنی اور فروا کی حالتِ زار کو دیکھا اور بمشکل ہنسی روکتے ہوئے بولا
”ابھی تک تو کچھ نہیں کیا۔اپنے فارم ہاﺅس پر ہوں اور ۔۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے خاصے پریشان لہجے میں بولے
”تم ایسے کرو،فوراً میرے پاس آﺅ، میں گھر پر ہی ہوں۔ مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔“
ان کے لہجے پر وہ چونک گیا تھا۔ اس نے فوراً پہنچ جانے کا کہا اور فون بند کر دیا۔ اس پرفروا نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا
” پاپا کو اس قدر کون ساضروری کام آن پڑا ہے؟“
تبھی اس نے مسکراتے ہوئے شوخ لہجے میں کہا
” فی الحال مجھے تو نہیں معلوم، ہو سکتا ہے انہیں پتہ چل گیا ہو کہ میں اُن کی بیٹی اور اپنے ہونے والی بیوی کے ساتھ، شادی سے قبل ہی رنگ رلیاں منا رہا ہوں۔آخر وہ ایس پی کرائم ہیں۔ ان کے لئے یہ جان لینا کوئی نئی یا انوکھی بات نہیں ہے۔ان کا ہمارے پیچھے چھوڑا ہوا کوئی بھی کارندہ، انہیں یہ اطلاع دے سکتا ہے۔“
یہ سن کر وہ لبوں میںمسکرائی، اور زور سے اس کے ساتھ لگتے ہوئے بولی
” میں بھی اُن کی بیٹی ہوں۔ اگر میں چاہوں تو ان کا کارندہ تو کیا، انہیں بھی میری ہوا نہیں لگ سکتی۔یہ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ ان رنگ رلیوں کے بارے میں بات نہیں ہوگی۔“
” تو چلو پھر اٹھو، پتہ کریں وہ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔“ میں نے اٹھتے ہوئے کہا
”بس چند منٹ، میں اٹھ جاتی ہوں۔“ اس نے خمار آلود لہجے میں کہا اور آنکھیں بند کر لیں۔ حسن نے اسے پڑا رہنے دیا ۔ اُ س کی سانسیں اب بھی اس کے لباس کی طرح بے ترتیب تھیں۔ نیلی جین اور سفید دھاری دار شرٹ میں سے اس کا بھر پور مستی بھری جوانی لئے تراشیدہ بدن جھلک رہا تھا۔ گول چہرہ،تیکھے نقوش، ستواں ناک، پتلے لب اور لانبی گردن پہلی ہی نگاہ میں توجہ حاصل کر لیتے تھے۔وہ جانتا تھا کہ اسے خود پر قابو پانے میں کتنی مشکل پیش آ رہی ہوگی،کیونکہ ایسا ہی حال کچھ اس کا بھی تھا۔
وہ حسن کی آزادی کا پہلا دن تھا۔اس نے ایک دن پہلے ہی پو لیس ڈیپارٹمنٹ سے استعفی دیا تھا۔ اب درمیان میں فقط پانچ دن تھے۔ چھٹے دن حسن اور فروا کو لندن فلائی کر جانا تھا۔ ساتویں دن ان کی شادی ہونا تھی۔ اس کے بعد ان کی نئی زندگی کا آغاز تھا۔ سب کچھ طے تھا اور ساری تیاریاں مکمل تھیں۔شادی ہو جانے تک ایک خاص حد میں رہنے کی پابندی انہوںنے خود اپنے آپ پرلگائی ہوئی تھی۔ آزادی کا وہ پہلا دن منانے کے لئے فروا دوپہر کے وقت اس کے پاس فارم ہاﺅس آگئی تھی۔ انہوںنے دن کا بیشتر حصہ اکھٹے ہی گذارا تھا۔ شام ہونے والی تھی۔ وہ دن بھر کی تھکن اتارنے بیڈ روم میں آگئے۔شاید پابندی ٹوٹ جاتی، اگر سکندر حیات کا فون نہ آگیا ہوتا۔انہیں واپس پلٹنا پڑا۔
٭....٭....٭
سورج غروب ہوئے کافی وقت ہو گیا تھا، جب اس نے اپنے سسرالی بنگلے کے پورچ میںاپنی کار روکی۔ فروا پہنچ چکی تھی۔ وہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوا تو سامنے ہی صوفے پر ایس پی سکندر حیات کے ساتھ چوہدری شہاب الدین کو دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا۔ وہ حکومتی وزیر تھا اور ان دنوں میڈیا کے زیرِ عتاب تھا۔ حالانکہ کچھ دنوں پہلے وہ ایک بڑے سانحے سے گذرا تھا۔ حسن سلام کر کے بیٹھ گیا تو ان کے درمیان چند لمحوں تک خاموش چھائی رہی ۔ شاید معاملہ اتنا ہی گھمبیر تھا کہ ایس پی سکندر حیات جیسے آفیسر کو اپنا مدعا کہنے کے لئے لفظ تلاش کرنا پڑ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد وہ بولے تو ان کے لہجے میں دبا دبا غصہ تھا
” حسن۔! یہ چوہدری شہاب ہیں، کیا تم ان سے پوری طرح متعارف ہو؟“
” جی“ اس نے اختصار سے جواب دیا
” اور ان کے ساتھ جو سانحہ ہوا، کیا تم اس سے بھی بخوبی واقف ہو؟“انہوں نے پوچھا تو وہ کہتا چلا گیا
” جی، کچھ عرصہ پہلے ان کا بیٹا جہاں زیب چوہدری اپنی ہی رہائشی حویلی میں بم دھماکے سے اُڑ گیا۔ دھماکے کے ساتھ آگ اس طرح پھیلی تھی کہ اس کے وجود کے ساتھ سب کچھ جل کر خاکستر ہو گیا۔ دفنانے کے لئے بھی ان کے پاس کچھ نہیں بچا تھا۔ میرا خیال ہے کچھ راکھ ہی انہوں نے دفنائی تھی۔ ان کی بیوی اپنے اکلوتے بیٹے کا یہ غم برداشت نہ کرتے ہوئے فوت ہوچکی ہیں، غالباً وہ دھماکے والی رات ہی سے ہسپتال میں ایڈمٹ تھیں۔“
” ٹھیک۔“ انہوں نے کہا اور پھر لمحہ بھر بعد بولے“ اور تمہیں یہ بھی معلوم ہو گا کہ یہ اپنی ساری سیاسی زندگی میں پوری طرح دہشت گردی کے خلاف رہے ہیں۔ یہ پوری شدت سے دہشت گردی کے خلاف کام کر رہے تھے کہ یہ سانحہ پیش آگیا۔ بیٹے اور بیوی کا جاں گسل صدمہ سہنے کے بعد،اب جو سب سے بڑی اذیت انہیں برداشت کرنا پڑ رہی ہے، وہ میڈیا اور ان کی اپنی پارٹی کا رویہ ہے۔ دونوں ہی ان کی ذات پر سوالیہ نشان لگا رہے ہیں۔ وہ یہ ثابت کر رہے ہیں کہ یہ دہشت گرد ہیں۔“ سکندر حیات نے کہا تو پہلی بار چوہدری شہاب الدین زبان کھولتے ہوئے بولا
دیکھو انسپکٹر حسن۔! وہ کئی سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیا ہمارا تعلق دہشت گردوں سے ہے؟ کیا جہاں زیب دہشت گردی میں ملوث تھا؟ اگر ایسا نہیں ہے تو کیا وہ دہشت گردی کا شکار ہوا؟ اگر یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں تو بارود اس کی خواب گا ہ میں کیسے پہنچا؟ اوروہ بھی اتنی مقدار میں کہ سب کچھ بھسم ہو گیا۔“ آخری لفظ کہتے ہوئے اس کا لہجہ بھرا گیا تھا۔
 ” آپ کے پاس ان سوالوں کا کوئی تو جواب ہو گا؟“ اس نے چوہدری شہاب سے پوچھا تو سکندر حیات بولے
” نہیں ان کے پاس تو کیا پولیس کے پاس بھی ان سوالوں کا جواب نہیں ہے۔ یہی سوال پولیس سے بھی کئے جا رہے ہیں۔ وازارتِ داخلہ ہم سے جواب طلب کر رہی ہے۔ میری پوزیشن داﺅ پر لگ چکی ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ پولیس کچھ نہیں کر سکی، جبکہ سب کچھ جل جانے کے باعث پولیس کو ابھی تک کوئی ایسا سراغ نہیں ملا جس سے تفتیش ذرا سی بھی آگے بڑھ سکے۔ ہم کوئی بھی ایسی رپورٹ نہیں دے پارہے تھے کہ جس سے کسی کو بھی مطمئن کیا جا سکے ۔ مگر آج، ابھی کچھ دیر پہلے ایسا ہی دھماکا ہوا ہے، جس میں رکن اسمبلی کا اکلوتا بیٹا مارا گیا ہے۔ وہ بھی پوری طرح جل گیا ہے، اور اس کے ساتھ سارے ثبوت بھی۔ پولیس ٹیم کو وہاں سے کچھ نہیں ملا، سو،یہ میرے لئے آزمائش آ گئی ہے ۔ “ سکندر حیات نے تشویش سے کہا تو حسن نے پوچھا
” آپ نے اتنے قابل آفیسر لگائے، لیکن۔۔۔“
” لیکن یہ میری خواہش ہی نہیں میری پرسٹیج کا مسئلہ بن چکا ہے۔ پہلے ہی ہر طرف سے دباﺅ ہے۔ حکومت، میڈیا ، عوام ۔۔۔ سب کا؟ اب تووہ جینا حرام کر دیں گے۔“ وہ انتہائی غصے میں بولے
” سر۔! میں اس کے لئے کیا کر سکتا ہوں“ اس نے اُن کی بات سمجھتے ہوئے پوچھا تو وہ جھجھکتے ہوئے بولے
” میںجانتا ہوں تم نے رئیزائن کر دیا ہے اور تم میری اکلوتی بیٹی سے شادی کرنے والے ہو۔صرف چھ دن بعد، تم نے ملک میں بھی نہیں رہنا۔ لیکن اگر یہ مسئلہ رہا تو میں ملک سے باہر نہیں جا سکوں گا۔ اس سے میری پوزیشن مزید خراب ہو جائے گی۔“
” سر ،کیاآپ فقط ایسی رپورٹ چاہ رہے ہیں جس سے سب مطمئن ہوجائیں یا۔۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو ایس پی تیزی سے اس کی بات کاٹتے ہو ئے بولا
” یہ جو آج دھماکا ہوا ہے تم اِسے چھوڑو، میں اسے خود دیکھ رہا ہوں۔ میرا تجربہ کہہ رہا ہے کہ اسی بندے کا کام ہے جس نے چوہدری صاحب کی حویلی پر دھماکا کیا ہے۔“ 
” تو آپ جہاں زیب والا کیس حل کرنا چاہتے ہیں؟“ اس نے سمجھتے ہوئے پوچھا
”میں اصل صورت حال جاننا چاہتا ہوں کہ یہ کیس کیوں نہیں حل ہو سکا ۔ تم میری بات سمجھ رہے ہو نا،جس کی وجہ سے میں تمہارے ذمے یہ کام لگارہا ہوں۔“ یہ کہہ کر انہوں نے فائل اس کے سامنے رکھ دی پھر کہا ، ” کیس سٹڈی کرو اور جتنی جلدی ممکن ہو سکے مجھے رپورٹ دو۔“
” ٹھیک ہے سر۔! میں دیکھتا ہوں“ حسن نے کہا تو وہ بولے
” سنو،! میں نے تمہارار ئیزائن منظور نہیں کیا۔ تم یہ آفیشیلی کرو گے“ 
” ٹھیک ہے سر۔“اس نے کہااور فائل اٹھا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ فائل ہاتھ میں لے کر عجیب سی الجھن محسوس کرنے لگا۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ اب اس کااور فروا کا معاملہ کھٹائی میں پڑ جائے گا۔ وہ وہاں سے آگیا۔ حسن کے خیال میں وہ یہ جاننا چاہتے تھے کہ کہیں پولیس کی کالی بھیڑوں نے تو یہ کیس خراب نہیں کیا؟ 
٭....٭....٭
صبح کا سورج ابھرے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔ حسن، چوہدری شہاب کے گاﺅں میں اس جلی ہوئی حویلی کے باہر کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔ حویلی کا سامنے والا حصہ بہت زیادہ متاثر ہوا تھا۔ باقی حویلی کو دھماکے نے ہلا کر رکھ دیا تھا۔آگ کی وجہ سے سامنے والا حصہ بالکل سیاہ ہو گیا تھا۔ وہ حویلی کے اندر بھی گیا اور کافی دیر تک دیکھتے رہنے کے بعد ایک اجڑے ہوئے لان میں آکر بیٹھ گیا۔اس نے حویلی کے سارے ملازمین وہیں بلا لئے تھے۔ تقریباً دو گھنٹے کی مغز ماری کے بعد کوئی قابلِ ذکر معلومات نہیں ملی تھی۔ بس وہی تھا جو اس نے رات فائل میں پڑھا تھا۔
گل زیب اُس رات حویلی میں نہیں، شہر ہی میں تھا۔ اس کی بیوی زنان خانے میں تھی۔ حویلی کے اندر صرف دو میاں بیوی ملازم تھے، جو زنان خانے ہی کے پاس سوتے تھے۔ دو چوکیدار تھے۔ ایک مین گیٹ کے اندر اور دوسرا چھت پر کتوں کے ساتھ تھا۔ باقی ملازمین شام ہی کو بستی میں اپنے گھروں کو چلے گئی تھے۔ صرف جہاں زیب کا منہ چڑھاڈرائیور تھا ، جو پورچ کے پاس چار پائی پر لیٹا ہوا تھا۔ اس رات اسے گھر نہیں جانے دیاگیا تھا۔ جہاں زیب اپنے کمرے میں تھا۔ اس کا کمرہ رُوشن تھا۔ آدھی رات سے کچھ پہلے اس نے گیٹ پر موجود چوکیدار کو ڈیرے پر جانے کے لئے کہا۔ اسے یہی بتایا کہ اس کے کچھ مہمان آنے والے ہیں، وہاں جا کر شراب اور کھانے کا بندوبست کرے۔ چوکیدار کو گئے زیادہ وقت نہیں گذرا تھا کہ شدید دھماکا ہوگیا۔گل زیب کی بیوی اور اس کے پاس والے ملازمین ہی بچے تھے۔ باقی سب لوگ مارے گئے تھے۔ وہاں کوئی ایسا فرد نہیں تھا جو یہ بتا سکے کہ دھماکا کیسے ہوا تھا۔حسن کے ذہن میں وہی دو آپشن تھے، جو فائل ہی میں درج تھے۔ جہاں زیب عورتوں کا رسیا اور عیاش طبع نوجوان تھا۔ نجانے کیوں اس کے دماغ میں یہ نکتہ بیٹھ گیا تھا کہ ، زر، زن اور زمین میں سے زن ہی وہ وجہ ہو سکتی ہے، ورنہ پیسہ اور زمین کی اسے کبھی پروا ہ نہیںرہی تھی ۔ 
حسن نے ڈیرے پر جانے والے اسی چوکیدار کو بلایا اور پوچھا
” جہاں زیب کے وہ مہمان کون تھے، اس بارے کوئی اندازہ ہے تمہیں۔میرا مطلب ہے وہ مرد تھے یا عورتیں؟“
” میں کچھ کہہ نہیں سکتا، لیکن اکثر وہ عورتوں کو بلالیتا تھا اور اس کا ڈرائیور ہی زیادہ تر ڈیرے پر جا کریہ کام کرتا تھا۔ اس رات جہاں زیب نے مجھے کہہ دیا۔ “ چوکیدار نے جھجھکتے ہوئے بتایا
” مطلب تم یہ کہہ سکتے ہو کہ اس رات عورتیں ہو سکتی تھیں۔“ اس نے بحث کرتے ہوئے کہا
” ہو سکتا ہے، اور نہیں بھی۔“ اس بار وہ کافی حد تک اعتماد سے بولا تو حسن، اُس سے مزید اسی حوالے سے بات کرتا رہا کہ جہاں زیب کس حد تک عورتوں کا رسیا تھا۔ کافی دیر تک سر کھپانے کے بعد جب کچھ نہیں ملا تو اس نے سب ملازمین سے کہا
” دیکھو۔! یہاں پہلے بھی بہت سارے لوگ آکر تفتیش کر گئے ہیں۔ انہوں نے بہت سارے سوال کئے ہوں گے۔تاہم تم سب میں سے کسی نے بھی کوئی نئی بات محسوس کی ہو یا سنی ہو تو وہ بتائے؟“
کسی نے بھی کچھ نہیں بتایا ، سوائے ان افواہوں کے جو اس دھماکے کی وجہ سے پورے علاقے میں پھیل چکی تھیں۔ حسن زیادہ دیر وہاں بیٹھ نہیں سکتا تھا۔اسے ان پولیس آفیسران سے بھی ملنا تھا جو اس کیس کو دیکھ چکے تھے۔ اس لئے وہ وہاں سے جانے کے لئے اٹھا ۔ اس وقت وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا تھا، جب ایک بوڑھے ملازم نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا 
” میں یہاں کا مالی ہوں۔ کل ہی یہاں کام کرتے ہوئے مجھے یہ ایک فون ملا ہے۔ممکن ہے آپ کے یہ کام آجائے۔“ یہ کہہ کر اس نے مٹی میں اٹا ہوا ایک سیل فون اس کی جانب بڑھا دیا۔ اس نے وہ سیل فون پکڑا اور غور سے دیکھا۔ وہ کافی مہنگا فون تھا مگر اس وقت بند تھا۔ اس نے فون آن کرنے کی کوشش کی تو وہ نہیں ہوا۔ اس نے فون پر زیادہ محنت نہیں کی اور پچھلی نشست پرپھینک کر خود ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔
حسن گاﺅں سے نکل کر ذیلی سڑک پر اپنی کار لئے جا رہاتھا۔ جیسے ہی وہ شاہراہ سے کچھ فاصلے پر تھا کہ اچانک ا س کے سامنے ایک ہائی ایس وین آرکی، جس نے اس کا راستہ روک لیا۔ اس نے پورا زور لگا کر بریک لگائے ورنہ اس کی کار وین سے ٹکراجانا تھی۔ اس نے غصے میں بھناتے ہوئے باہر کی طرف دیکھا ہی تھا کہ پیچھے سے کسی نے اس کی گردن پر زور سے گھونسہ مارا۔ ایک دم سے اس کی آنکھوں کے سامنے ستارے ناچ گئے۔اس کادماغ گھول گیا۔ اس سے پہلے اُسے سمجھ آتی، ایک نقاب پوش نے اس کی سائیڈ والادروازہ کھولا اور اسے اپنی طرف جھٹکا دیا۔ وہ سڑک پر سر کے بل آن گرا تو اس کے ماتھے پر چوٹ لگ گئی۔ خون نکل کر اس کی ایک آنکھ میں آ پڑا۔وہ حواسوں میں نہیں آیا تھا کہ دونقاب پوش اس پر پل پڑے ۔ اس کے جبڑے کے نیچے زور دار گھونسہ پڑا، تو اسے لاشعوری طور پر اپنی بقا کا احساس ہوا کہ اس طرح تو وہ چند لمحوں میں اسے ختم کرسکتے تھے۔ اس کے پاس سوچنے کے لئے زیادہ وقت نہیں تھا۔اِس لئے اُس نے مزاحمت کرتے ہوئے ایک کو پکڑ لیا اور اسے اپنی بغل میں لے کر اس کے منہ پر گھونسہ مارا پھر اسی پر سارا بوجھ ڈالتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔تب اسے احساس ہوا کہ وہ تین ہیں۔ اسی لمحے انہوں نے اس پرحملہ کردیا۔ ایک نے اس کی پسلیوں پر ٹھوکر ماری تو دوسرے نے گردن پر کلائی سے ضرب لگائی ، تیسرے پر اس کی گرفت کمزو رہوئی تو وہ اس کی بغل سے نکل گیا۔ 
وہ تینوں نقاب پوش اس کے سامنے تھے۔ حسن کی ساری توجہ ان کی طرف تھی۔ وہ تینوں ہی ایک دم اس کی طرف بڑھے ، لیکن اس وقت تک وہ اپنی جگہ چھوڑ کر ایک قدم آگے بڑھ گیا اور درمیان والے کو قابو کر لیا۔ اس نے نقاب پوش کے پیٹ میں لات ماری، وہ دہرا ہو گیا، تبھی اس نے اپنی کہنی نقاب پوش کی گردن کے نیچے ماری ، وہ اُوخ کی آواز کے ساتھ گر گیا۔ تب تک باقی دونوں نے اس کی دُھنائی شروع کر دی، یہاں تک کہ اسے موقعہ ہی نہیں مل سکا کہ وہ ان میں سے کسی کو قابو کر سکے۔ بلا شبہ وہ فائیٹر تھے۔ وہ بے دم ہو کر گر گیا۔ تبھی ایک نے اپنا پاﺅں اس کے سینے پر رکھتے ہوئے کہا۔
” تمہاری تفتیش یہیں پر ختم ہو گئی ہے انسپکٹر۔۔۔ ہم تمہیں گولی بھی مار سکتے ہیں، لیکن اس وقت صرف سمجھا رہے ہیں، آگے تم خود سمجھ دار ہو۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنا پاﺅں ہٹایا اور بڑی تیزی سے پلٹ کر اس کی کار کے پیچھے کھڑی ایک جیپ میںجا بیٹھا۔ یہ اس کی غلطی تھی کہ اس نے پیچھے آنے والی جیپ پردھیان نہیں دیا تھا۔ جس کا اس نے خمیازہ بھگت لیا تھا۔ وہ صرف اسے دھمکانے آئے تھے۔ وہ بمشکل اٹھا اور اپنی گاڑی تک پہنچا۔ ماتھے کے زخم کے لئے اُسے پہلے ہسپتال جانا تھا۔
٭....٭....٭
فروا اپنے بیڈ روم میں پڑی مسلسل سوچ رہی تھی۔وہ انتہائی پریشان تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ حسن کو کس طرح اس کیس سے دور رکھے۔ اس کے خوابوں اور خیالوں میں بھی یہ نہیں تھا کہ اس کے پاپا اسے انہی دنوں میں ایسا کیس اسے دے دیںگے۔ جو اس کی زندگی اور موت کا مسئلہ بن جانے والا تھا۔ اگرچہ اسے کیس بارے رات ہی معلوم ہو گیا تھا لیکن اس نے سوچا وہ صبح جا کر اسے سمجھائے گی اور یہ کیس واپس دلوا دے گی۔ لیکن دوپہر سے پہلے ہی اس نے حسن کے بارے بُری خبر سن لی تھی ۔ وہ سیدھی ہسپتال گئی۔ پھر وہیں سے اس کے ساتھ حسن کے گھر آگئی تھی۔ اس نے ہسپتال ہی میں سوچا تھا کہ گھر جا کر اطمینان سے بات کرے گی۔ 
” جب تم نے رئیزائن کر دیا تھا ، پولیس ڈیپارٹمنٹ سے اب تمہارا کوئی لینا دینا نہیں تھا تو پھر کیوں یہ کیس اپنے ہاتھ میں لیا؟“ فروا نے انتہائی غصے میں کہا۔ اس کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ اس وقت میں ہسپتال سے آنے کے بعد اپنے بیڈ روم میں بیڈ پر تھا۔ اس کی ڈریسنگ ہو چکی تھی۔ زخم اتنا گہرا نہیں تھا۔ حسن نے اس کے چہرے پر دیکھا اور اطمینان سے کہا
” تمہارے پاپا اور میرے باس کا حکم ہی نہیں یہ ان کی پرسٹیج کا مسئلہ ہے۔ اس لئے مجھے یہ کیس لینا ہی تھا۔“
” کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ تم اگر ان سے نہیں کہہ سکتے تو میں کہہ دیتی ہوں ۔ غضب خدا کا ۔ چھ دن بعد ہماری شادی ہے اور۔۔ “ اس نے اسی غصے میں کہنا چاہا تو حسن اس کی بات کاٹتے ہوئے بولا
” میں نے کہا نا کہ یہ ان کی پرسٹیج کا معاملہ ہے ۔ شادی تو کچھ دن بعد بھی ہو سکتی ہے ۔“
” کیا پولیس میں سارے لوگ نااہل ہو چکے ہیں، دوسرا کوئی بھی اس کیس پر کام نہیں کر سکتا ہے۔ جس طرح وہ دوسرے ہونے والے دھماکے پر کام کر رہے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہ یہ ہمارے خلاف سازش ہو رہی ہے،جو میں قطعاًکامیاب نہیں ہونے دوںگی۔ تم ابھی اور اسی وقت یہ فائل پاپا کو واپس کرو۔ ہمیں یہاں رہنا ہی نہیں ہے۔ ہم آج ہی لندن جانے کی۔۔۔“وہ غصے میں بولتی چلی جا رہی تھی
” پلیز فروا۔! مجھے یہ کیس حل کر نا ہے ۔ چاہے جتنے دن لگ جائیں۔ یہ میرا فیصلہ ہے۔“ اس نے اطمینان سے کہا تو وہ چند لمحے بڑے جذباتی انداز میں دیکھتی رہی پھر خاموشی سے ایک طرف پڑی کرسی پر جا بیٹھی۔ حسن کو اس کی ضد بارے معلوم تھا۔ وہ اس وقت ضرور کوئی نہ کوئی اوٹ پٹانگ سوچ رہی تھی۔ اس کا سُوجا ہوا منہ اور خاموشی یہی بتا رہی تھی۔ وہ اس سے مزید بات نہیں کرنا چاہتا تھا، وہ آنکھیں بند کر کے سو جانے کی ایکٹنگ کرنا چاہتا تھا کہ حسن کی ماما اس کے کمرے میں آگئی ۔ فرو اس کی طرف دیکھ کر بولی
” ماما ، آپ ہی اس کو سمجھائیں۔“
” بیٹا یہ تم دونوں کا معاملہ ہے۔میں اس میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ میں تو یہ پوچھنے آئی ہوں کہ باہر حسن کا کولیگ انسپکٹر نعیم آیاہے ۔ کیاکہوں اُسے؟ اور دوسری بات کہ سوپ تیار ہے ابھی پیوگے یا بعد میں؟“
” ماما، بعد میں پیتا ہوں، پہلے اُس سے مل لوں۔“ یہ کہہ کر وہ بیڈ سے اٹھ گیا۔ فروا اس کی طرف غصے سے دیکھتی رہ گئی۔ وہ باہر نکل گیا تو اس نے ماما کی طرف دیکھا۔ تب انہوں نے کہا
” یہ بالکل اپنے باپ پر گیا ہے ، وہ بھی اپنی ہی مرضی کرتے تھے ، چاہے جتنا سمجھا لو۔ حسن کو میں بھی بہت سمجھانے کی کوشش کی تھی، لیکن وہ نہیں مانا۔ “ یہ کہہ کر انہوں نے فروا کا کاندھا تھپتھپیایا اور باہر کی جانب چل دیں ۔ تب وہ بھی ماما کے ساتھ کمرے سے باہر آگئی۔
”سر۔! آپ کا فون مسلسل بند جا رہا ہے۔ ورنہ میں فون پر بات کر لیتا۔ مجھے آپ کی معاونت کرنے کا حکم ملا ہے۔ اب آپ کی طبعیت کیسی ہے؟“ حسن کو دیکھ کر نعیم نے اٹھ کر کہا
” اُو، میں نے سیل فون دیکھا ہی نہیں، ٹھیک ہوں اب۔“ حسن نے کہا اور پھر اسے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے خود بیٹھ گیا۔ نعیم بیٹھا تو اس نے کہا،” میں دوسرے آفیسرز سے نہیں مل سکا،خیر، انہیں پھر مل لیں گے۔ مجھے ایک سیل فون ملا ہے۔ وہ میں آپ کودے رہا ہوں۔ اس کے بارے جتنی جلدی ہو سکے ، معلومات لیں، دیکھیں یہ ہماے کام کا ہے یا نہیں۔ “
”ٹھیک ہے سر۔! مزید کوئی حکم؟“ نعیم نے پوچھا تو وہ بولا
” فی الحال تو یہی ہے، جتنی جلدی اس بارے معلومات مل جائیں مجھے بتاﺅ، ان لوگوں کے بارے بھی پتہ لگانا ہے کہ وہ کون لوگ تھے جنہوں نے مجھے وارننگ دی ہے۔“حسن نے اپنی جیب سے سیل فون نکال کر اُسے دیتے ہوئے کہا۔ اس دوران فروا ڈرائینگ روم میں آگئی۔ نعیم اس سیل فون کو الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا، پھر دھیمے لہجے میں بولا
” سر میں یہی بات کرنا چاہ رہا تھا آپ سے۔ آپ نے شاید دیکھا نہیں مختلف چینلز پر آپ پہ ہونے والے حملے بارے خبر چل رہی ہے۔ ساتھ میں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ تفتیش نئے سرے سے شروع ہو گئی ہے اور اس کے ساتھ مرچ مصالحہ ۔۔۔“ نعیم نے انتہائی سنجیدگی سے کہا
” اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ ہمارے کہیں ارد گرد ہی ہیں۔ سکندرصاحب کا شک ٹھیک ہی ہے۔“ وہ سوچنے والے انداز میں بولا تو نعیم نے کہا
” ٹھیک ہے سر میں چلتا ہوں، ااپ کو جلد از جلد رپورٹ دیتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور سلوٹ کر کے باہر کی طرف چل دیا۔تبھی فروا نے غصیلے لہجے میں کہا
” مطلب، تم اس کیس پر کام کرو گے؟“
” یار، تم تو خواہ مخواہ ناراض ہو رہی ہو، چلو مجھے سوپ دو، مجھے آفس بھی جانا ہے۔“ حسن نے مسکراتے ہو ئے کہا تو تیزی سے اٹھ گئی۔ پھر اس نے حسن سے کوئی بات نہیں کی اور اسے سوپ پلا کر گھر آگئی۔
 وہ اس سے مزید کوئی بات کر ہی نہ سکی تھی۔ اس سیل فون نے اس کا دماغ گھما کر رکھ دیا تھا۔ وہ اپنی بیڈ روم میں پڑی مسلسل سوچے جا رہی تھی کہ اچانک اس کا فون بول اٹھا۔ اس نے چونک کر اسکرین پر دیکھا تو وہ رافعہ کا تھا۔ اس نے کال رسیو کی 
” وہ مان گیا ہے کہ نہیں؟“ رافعہ نے تشویش بھرے انداز میں پوچھا
” نہیں، بلکہ اسے وہ سیل فون بھی مل گیا ہے ، جسے تو نے حویلی کے اندر پھینک دیا تھا کہ جل جائے اور اس کے ساتھ ہی کہانی ختم ہو جائے۔ مگر وہ سیل فون کسی جن کی طرح بوتل سے باہر آگیا ہے۔“ فروا نے فکرمند لہجے میں کہا
” کیا وہ جلانہیں تھا؟“ اس نے تیزی سے پوچھا
” نہیں۔ وہاں کے مالی کو کیاری میں سے ملا ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے تفصیلات بتا دیں۔ وہ دونوں ہی فکر مند ہو گئیں تھیں۔ تبھی رافعہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
”پلیز فروا، اس سے ناراض ہو کر دور نہ ہونا۔ بلکہ اس کے قریب رہو، تاکہ معلومات ملتی رہیں۔“
”جہاں زیب کی حد تک تو ٹھیک تھا۔ یہ جو تم نے دوسرا کام کیا ہے نا، یہ غلط ہے ، اسی وجہ سے پاپا نے وہ کیس حسن کو دیا ہے۔“ فروا نے انتہائی غصے میں کہا
” فروا، میں کم از کم تم سے جھوٹ نہیں بول سکتی، یہ دوسرا دھماکہ میں نے نہیں کیا، میں نے تمہیں رات بھی بتایا تھا۔میں خود پریشان ہوں۔“ رافعہ روہانسا ہوتے ہوئے اس یقین دلایا
” وہ تو ہے، مگر خیر،تم پریشان نہیں ہونا، میں سنبھال لوں گی۔“ اس نے رافعہ کا حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ پھر کچھ دیر اسی موضوع پر بات کر کے فون بند کر دیا۔ اس نے فون ایک طرف رکھتے ہوئے کروٹ لی اور اس وقت کو سوچنے لگی، جب ایک دن لٹی پٹی سی رافعہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی تھی۔
رافعہ کا تعلق ایک متوسط گھرانے تھا۔ اس کا باپ ایک سرکاری محکمے میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر کام کرتا تھا۔ فروا اورر افعہ کی ملاقات یونیورسٹی میں ہوئی تھی۔ دونوںکامرس پڑھ رہی تھیں۔ ان کا اپنا لڑکے لڑکیوں کا ایک گروپ تھا جو خوب موج مستی کیا کرتا تھا۔
فروا نے تو اس لئے کامرس پڑھی تھی کہ اسے لندن جانا تھا، جہاں اس کے بھائی نے پہلے ہی اپنا کاروبار جما لیا ہوا تھا۔ ایس پی سکندر حیات نے یہ طے کر رکھا تھا کہ ریٹائیرڈ ہونے کے بعد لندن شفٹ ہو جائے گا۔ کیونکہ اس نے بھی وہیں سے تعلیم پائی تھی اور اپنا گھر بنا چکا تھا جو اب اس کی اولاد کے کام آرہا تھا۔جبکہ رافعہ نے نوکری کے لئے پڑھا تھا کہ کہیں جاب لگ جائے گی۔ 
وہ یونیورسٹی کے بعد بھی دوست رہیں۔ ان کا گروپ ایک دوسرے کے رابطے میں تھیں۔ اس نے سنا تھا کہ رافعہ کو سکول ٹیچر کی جاب مل گئی تھی اور اس نے اسے قبول بھی کر لی تھی ۔ فی الحال اسے قریبی گاﺅں کے سکو ل میں جاب ملی تھی۔ وہ وہاں پر جا رہی تھی۔اس کے والد اپنے تعلقات آزما رہے تھے ۔ انہیں اُمید تھی کہ کچھ ہی دنوں میں اس کا تبادلہ شہر میں ہو جائے گا۔ دن بدن ان کا رابطہ کم تو ہوگیا لیکن ختم نہیں ہوا ۔ اچانک ایک دن صبح ہی صبح اسے کسی خاتون کا فون ملا کہ رافعہ ہسپتال میں ہے اور اُسے فوراً بلا رہی ہے۔ فروا نے تفصیل پوچھنے کی کوشش کی لیکن اس خاتون کو کچھ پتہ نہیں تھا ۔ تاہم اس کی حالت زار کے بارے میں بتایا تو اسی وقت وہ اپنی کارمیں اس ہسپتال میں جا پہنچی جہاں کے بارے میں اس اجنبی خاتون نے بتایا تھا۔سورج طلوع ہوئے زیادہ وقت نہیں ہوا تھا۔
رافعہ لاوارثوں کی مانند ایمر جنسی میں پڑی تھی۔ اس کی حالت بہت خستہ تھی ۔اس کا چہرہ کئی جگہ سے کٹا پھٹا تھا ۔ یوں جیسے کسی نے چاقویا خنجر کی نوک سے چھیدا ہو۔ یہی حال اس کے کپڑوں کا بھی تھا۔ چہرے اور گردن پر سوکھے ہوئے خون کی وجہ سے وہ بہت بھیانک دکھائی دے رہی تھی۔وہ حقیقی طور پر مَسلی ہوئی نظر آ رہی تھی۔وہ سہمی ہوئی ، خوف زدہ تھی۔ جسے دیکھ کر اُس کا دل بھر آیا۔ وہ پاگلوں کی طرح اس کی جانب بڑھی اور تیزی سے پوچھا
” رافعہ کیا ہو تجھے، یہاں ایسے۔۔۔ تمہاے ماما ، پاپا۔۔۔؟“ اس کے پوچھنے پر وہ ایک دم سے پھوٹ پھوٹ کر رُو دی۔ اس سے بات نہیں ہو پارہی تھی۔ ،” بولو رافعہ پلیز۔۔۔ کیا ہوا ہے؟“
” میں مرنا چاہتی ہوں۔“ وہ ایک دم سے کہہ کر یوں ہوگئی جیسے اتنے لفظ کہنے کے لئے اسے اپنی پوری قوت صرف کرنا پڑی ہو
”کیوں ۔۔۔ کیوں مرنا چاہتی ہو تم ؟ ہوا کیا ہے تمہارے ساتھ“ یہ کہتے ہوئے اسے خیال آیا کہ اسکی ٹریٹمنٹ تو ہونی چاہئے۔” اچھا ٹھیک ہے اس پر بعد میں بات کرتے ہیں ابھی تمہاری ٹریٹمنٹ ۔۔۔“
” نہیں فروا۔! بس تمہارا یہی مجھ پر احسان ہوگا، تم میری لاش میرے گھر والوں تک پہنچا دینا، کم از کم میری لاش ہی کی بے حرمتی تو نہ ہو۔ میں نے اسی لئے ماما پاپا کو نہیں بتایا۔ میرے ساتھ وہ ہو گیا ہے کہ میں کسی کو بھی نہیں بتا سکتی۔“
” نہیں رافعہ ۔! مجھے بتانا ہوگا، کیا ہوا ہے تمہارے ساتھ؟ لیکن اس سے پہلے تمہاری ٹریٹمنٹ ضروری ہے“ اس نے گہری تشویش سے کہا۔یہ کہہ کر اس نے رافعہ کو اٹھایا اور چل دی۔اس کی کار پارکنگ میں کھڑی تھی۔ وہ اس تک گئی ۔ وہ تیزی سے شہر کے مشہور ترین نجی ہسپتال میں اُسے لے جا کر ایڈمٹ کروادیا ۔ٹریٹمنٹ کے بعد جب وہ سکون سے بیڈ پر لیٹی ہوئےی تھی تو فروا نے کہا
” تم نے بہت اچھا کیا رافعہ کہ اپنے بارے میں کسی کو نہیں بتایا۔ اب جیسے میں کہوں ویسے کرتی جانا، اور یہ مرنے ورنے کی فضول بات میرے سامنے مت کرنا۔“ فروا نے اپنے انتہائی غصے کو دباتے ہوئے کہا
” لیکن میں اپنے ماما اور پاپا کوکیا کہوں گی؟‘ اس نے کہنا چاہا تو وہ بولی
” انہیں بھی میں سنبھالوں گی۔“ یہ کہہ وہ چند لمحے رکی پھر کہتی چلے گئی۔“ دیکھو۔! اگر تم یا تمہارے والدین اس حادثے کے بارے میں شور ڈالیں گے تو کیا ہوگا، یہی نا کہ تم کہیں بدنام ہو کر کہیں کی نہ رہو گی۔ میں مانتی ہوں کہ میرا باپ پولیس آفیسر ہے ۔ لیکن کیا ہوگا؟وہ اسے سازش قرار دے کریاکوئی ایسا ثبوت دے دیںگے کہ سارا کیس ہی ختم ہو جائے گا۔“
” تو پھر میرا مر جانا ہی بہتر ہے ۔ تم جاﺅ۔میں آسانی سے خود کشی کر لوں گی۔“ رافعہ نے انتہائی بے بسی سے کہا جس پر وہ بھنا گئی
”چلو مرو۔ میں بھی دیکھوں تم کیسے مرتی ہو۔ یہ جو الیکڑک شاک ہوتی ہے نا اس سے بندہ جلدی مر جاتا ہے ۔ جاﺅ کسی الیکڑک پول پر چڑھ جاﺅ اور کہو کہ دنیا والو میرے ساتھ یہ ظلم ہوا ہے۔ گدھی کہیں کی۔“
” میں نے۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو فروا نے ڈانٹ دینے والے انداز میں کہا
” خاموش۔!“ یہ کہہ کر وہ بولی” اب تمہیں وہی کرنا ہوگا، جو میں تمہیں کہوں گی۔ “ اس نے کہا اور اسے تسلی دلاسے دیتی رہی۔
 جس وقت رافعہ سکون سے سوگئی تو فروا وہاں سے اٹھ کر اُس کے گھر کی طرف چل دی۔ اسے رافعہ کے والدین کو نہ صرف بتانا تھا بلکہ انہیں سمجھانا بھی تھا۔
فروا کے کمرے کے باہر اندھیرا چھا چکا تھا۔ وہ اٹھی اور حسن کے پاس جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔ وہ خود کو اس کے غیر بے سکون محسوس کر رہی تھی۔ 
٭....٭....٭
رافعہ کا اسکول گاﺅں سے ذرا باہر تھا۔ وہ چھٹی کے وقت وہاں سے نکلی اور پیدل ہی چل پڑی تھی۔ اُسے تقریباً دو فرلانگ چلنے کے بعد پکی سڑک تک جانا تھا۔وہاںسے شہر جانے کے لئے اسے بس کی صورت میں سواری مل جاتی تھی۔ وہ اپنے دھیان کھیتوں کے درمیان بنے کچے راستے پر جارہی تھی کہ اچانک اس کی راہ میں کار آن رُکی۔ اس میں سے جہاں زیب باہر آیا۔ کچھ دن پہلے وہ ان کے اسکول میں تعمیراتی کام کروانے کے سلسلے میںآیا تھا ۔ تبھی اسے معلوم ہوا کہ وہ کون ہے۔اس کے تو خوابوں اورخیالوں میں بھی نہیں تھا کہ وہ اس کی راہ یوں روک کر کھڑا ہو جائے گا۔وہ اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا
” استانی صاحبہ۔! آﺅ تجھے شہر چھوڑ دوں میں بھی ادھر ہی جا رہا ہوں۔“
” آپ کی بہت مہربانی، میں چلی جاﺅں گی۔“ رافعہ نے کہا اور وہاں سے نکل جانے کے لئے قدم بڑھائے ۔ تب اس نے اپنا بازو اس کے آگے پھیلاتے ہوئے کہا
” نہ استانی جی نہ۔۔۔ اس طرح غصہ نہیں کرتے۔ ہم نے تو جب سے تجھے دیکھا ہے تمہارے دیوانے ہو گئے ہیں۔ قسم سے تمہارے حسن کی تعریف سن کر ہی تیرے سکول جا پہنچے تھے۔ آج تو تمہیں ہمارے ساتھ جانا ہو گا۔ ویسے بھی آج ہماری سالگرہ ہے۔ اس کے جشن پر کوئی نئی اور تازہ چیز تو ہونی چائیے نا۔“ جہاں زیب نے سوقیانہ انداز میں کہا تو اس نے درشت لہجے میں کہا
”تم جانتے نہیں ہو مجھے، اس لئے میرا راستہ چھوڑو اورمجھے جانے دو۔“ وہ انتہائی غصے میں بولی
” جانتا ہوں، ایک معمولی سرکاری ملازم ہے تیرا باپ۔زیادہ سے زیادہ کیا کرے گا، چند روپے لینے کے بعد خاموش ہو جائے گا۔لڑوہ سکتا نہیں، یہ تم بھی جانتی ہو، میں۔۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو وہ سڑک سے اُتر کر آگے بڑھ گئی۔ اس نے جہاں زیب کی پوری بات ہی نہیںسنی۔ اس پر اس نے پیچھے سے اس کا بازو پکڑ لیاتو رافعہ نے بھنا کر اس کے منہ پر زوردار تھپڑ مار دیا۔
” بھونکنا بند کرو کتّے۔“ رافعہ نے چلا کر کہا تو جہاں زیب کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔اس نے رافعہ کو پکڑا اور کار کی طرف لے جانے لگا۔ اس کے ڈرائیور نے جلدی سے دروازہ کھول دیا تھا۔وہ چیخنے چلانے لگی۔ مگر اس کی کسی نے نہیں سنی۔ وہ قابو میں نہیں آرہی تھی۔ تبھی ڈرائیورنے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی ۔ اس نے رافعہ کو پاﺅں کی طرف سے پکڑا اور ایک جھٹکے سے کار میںڈال لیا۔ وہ مچلتے ہوئے دوسری طرف سے دروازہ کھول کر باہر نکلی اور بھاگ کھڑی ہوئی۔ ابھی وہ چند قدم ہیبڑھی تھی کہ وہ اس کے پیچھے پہنچ گئے۔ انہوں نے اسے پیچھے جکڑ لیا۔وہ اُن سے بچنے کے لئے مچھلی کی مانند مچلتی رہی۔وہ دو تھے اور یہ ایک ۔ پھر بھی وہ ان کے قابو میں نہیں آ رہی تھی۔اچانک ڈرائیور نے ریوالور نکالتے ہوئے کہا
” چپ چاپ ہمارے ساتھ چلو، ورنہ گولی مار دوں گا۔“
” چلاﺅ گولی۔میں مرنے کے لئے تیا رہوں۔“ رافعہ نے پوری قوت سے کہا تو اس نے رافعہ کے سر پر ریوالور کا دستہ دے مارا۔ اگلے ہی لمحے اسے اپنا ہوش نہیں رہااور وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر زمیں پر گرنے لگی۔ اسی وقت انہوں نے اسے قابو کر لیا۔ جہاں زیب نے اسے اپنے ہاتھوں پر اٹھایا اور سیدھا کار میں لے گیا۔
رافعہ کی آنکھ جہاں زیب کے ڈیرے پر کھلی۔اس نے خود کو ایک جہازی سائز بیڈ پر پایا۔ اس سے ذرا فاصلے پر جہاں زیب صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے شراب کی بوتل کھلی ہوئی تھی۔ جام بھرے ہوئے تھے۔ ڈرائیور نیچے قالین پر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ دونوں اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اسے ہوش میں آتا دیکھ کر جہاں زیب کھلکھلا کر ہنس دیا پھر بولا
” تم ابھی مزید آرام کر لو ۔ مجھے جلدی نہیں ہے۔ ابھی تو شام ہوئی ہے۔ رات ہونے میں بڑا وقت پڑا ہے۔“
” خدا کے لئے مجھے جانے دو۔میں نے تم لوگوں کا کیا بگاڑا ہے۔ رحم کرو مجھ پر۔“ وہ اپنے دونوں ہاتھ ان کے سامنے جوڑتے ہوئے بولی تو جہاں زیب نے اسی طرح مذاق اڑانے کے انداز میں بولا
 ” اﺅئے اتنی قیامت بھری جوانی لئے پھرتی ہو ،ابھی تم نے ہمارا کچھ بگاڑا ہی نہیں۔یہ ہم نے تم پہ رحم ہی تو کیا ہے کہ تمہیں اٹھا کر یہاں لے آئے ہیں۔وہیں گولی نہیں مار دی ہوتی۔“
” بے غیرت تم نے میرے مالک پر ہاتھ اٹھایا، اس کی سزا تو تجھے ملے گی۔“ ڈرائیور نے نمک حلالی کرتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا تو وہ بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی
” کہاں جا رہی ہو؟“ جہاں زیب نے غصے میں پوچھا
” میں جا رہی ہوں۔ “ رافعہ نے اعتماد سے کہا اور باہر کی جانب تیزی سے نکل گئی۔ باہر اندھیرا تھا۔ اسے فورا پتہ نہ چلا کہ باہر نکلنے لے لئے دروازہ کدھر ہے۔ وہ بھاگ کر باہر نکلی تھی، مگر اسی لمحے وہ دونوں اٹھے اور اس کے پیچھے لپکے ۔ تب تک وہ دروازہ پار کر گئی تھی۔ وہ بھی تیزی سے اس کے پیچھے بڑھے اوراسے پھر سے قابو میں کر لیا۔ دونوں نشے میں تھے ۔ وہ دونوں ہی اسے مارنے لگے۔ وہ چیخنے لگی، مگر اس کی فریاد سننے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ اسے پیٹتے رہے۔ تھپڑوں اور مکوں سے اسے بے حال کر دیا۔ وہ بے دم ہو کر زمین پر گر گئی۔ تب انہوں نے کمرے میں لا کر رسی سے اس کے پاﺅں باندھے اور بیڈ پر پھینک دیا۔ اس میں ہلنے کی بھی سکت نہ رہی تھی۔اس لگ رہا تھا کہ جیسے اس میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے۔“
” رات تو ہو ہی گئی ہے۔ کیوں نا اب اس کا مزہ لے ہی لیا جائے۔“ جہاں زیب نے انتہائی خباثت سے کہا تو ڈرائیور ہنستے ہوئے کمرے سے باہر نکل گیا۔ پھر رات گئے تک وہ ان کے ظلم کا نشانہ بنتی رہی۔ وہ شراب کے نشے میں دھت تھے۔ رافعہ نے بھر پور مزاحمت کی ۔ اس کے چہرے پر نفرت بھرا احساس دیکھ کر جہاں زیب اُس کے چہرے پر اپنے خنجر سے نقش ونگار بناتا رہا۔ یہاں تک کہ اسے کچھ ہوش نہیں تھا ۔ وہ بے ہوش ہو گئی تھی ۔ وہ اس احساس سے عاری ہو چکی تھی کہ وہ کیا کر رہے ہےں۔
جہاں زیب اُسے کپڑوں سے بے نیاز ہی چھوڑ کر سو گیا۔ صبح صادق تک وہ دونوں اس پر ظلم کرتے رہے ۔ صبح ہونے میں ذرا سا ہی وقت تھا کہ ڈرائیور نے اسے اٹھایا اور کار کی پچھلی نشست پر لا کر پھینک دیا۔ اسے دھندلا سا بس اک احساس تھا۔ اس کے بعد وہ کار لے کر ڈیرے سے نکلتا چلا گیا۔ تقریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد اس نے شہر جانے والی شاہراہ پر آگیا۔ اس وقت وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ ڈرائیور نے اسے کار سے نکال کر سڑک پر پھینکا تو اس کا سر سڑک پر لگا۔ پھر اسے کوئی ہوش نہیں رہااور جبکہ ڈرائیور فوراً ہی کار موڑ کر واپس چلا گیا تھا۔
رافعہ کو جب ہوش آیا تو وہ سڑک کنارے پڑی ہوئی تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ایک ریڑھے رُکا ہوا تھا۔ وہ اسے غور سے دیکھ رہا تھا۔ جیسے یہ سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو کہ وہ زندہ ہے یا لاش پڑی ہے۔ جیسے ہی وہ کسمسائی وہ ریڑھے سے اتر کر اس کے قریب آگیا اور آتے ہی پوچھا
” کون ہو تم اور یہاں کیسے؟“یہ سوال ہی ایسے تھے کہ ان کے جواب کے بارے سوچتے ہی وہ خود کو زندہ درگور سمجھنے لگی۔ وہ کچھ بھی نہ کہہ پائی بس بے بسی سے رو دی۔ ریڑھے والے نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنا سوال دہرایا۔ چند لمحوں تک جواب نہ پا کر بولا
” تم کون ہو اور کہاں جانا ہے تمہیں۔“ شاید وہ اس کی حالت دیکھ کر پسیج گیا تھا۔ اس نے شہر کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کیا تو وہ بولا” اگر تم چاہو تو میں تجھے شہر چھوڑ دیتا ہوں،آﺅ“یہ کہتے ہوئے اس نے رافعہ کو سہارا دیا۔ اور اسے ریڑھے پر چڑھنے میں مدد دی۔
 وہ شہر تک کچھ نہ بولی ۔ بس یہی سوچتی رہی کہ وہ اپنے گھر والوں کو کیا بتائے گی؟ اسے یہ اچھی طرح احساس تھا کہ وہ جہاں زیب کا کچھ بھی نہیں بگاڑ پائے گی۔بلکہ ہر طرف مشہور ہو کر بدنام ہو نا تھا۔ کیا وہ اپنے والدین کا سامنا کر پائے گی؟ وہ انہیں کیا کہے گی۔ اسی سوچ میں سارا سفر بیت گیا۔ اسے ہوش اس وقت آیا جب ریڑھے والے نے اس سے پوچھا۔” تم نے کہاں اترنا ہے؟“
” ہسپتال ۔“ اس نے کہا تو کچھ دیر بعد وہ اسے ہسپتال کے سامنے چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔ ہسپتال آکر اسے کوئی اور نہیںفقط فروا کے بارے میں سوجھا تھا۔
 ٭....٭....٭
شام ڈھل چکی تھی۔ حسن لان میں بیٹھا ہوا نعیم کا انتظار کر رہا تھا۔وہ اس کیس کے بارے میں سوچ رہا تھا اور فروا کے باے بھی۔ اُسے معلوم تھا کہ چاہے کچھ ہو جائے فروا اس سے نارض نہیں ہو سکتی۔ یہ اس کا وقتی غصہ تھا، جو دُور ہو ہی جانا تھا۔ فروا اور حسن آپس میں کزن تھے۔ حسن کے والد کافی عرصہ سے لندن میں تھے۔ اس کی ماما کبھی وہاں ہوتی اور کبھی پاکستان۔ فروا کی ماما بچپن ہی میں فوت ہوگئی تھی۔ ان دونوں کی منگنی بچپن ہی میں ہوگئی تھی۔ اب ان کا اور ان کے خاندان کا یہ فیصلہ تھا وہ دونوں شادی کر کے وہیں رہیں۔ فروا کا غصہ بھی جائز تھا۔ کہاں شادی کی تیاریاں اور کہاں وہ کیس لے کر اس پر کام کر رہا تھا۔ مگر اسے یہ کیس نمٹانا ہی تھا۔ آخر یہ اس کے ہونے والے سُسر اور ماموں کی پرسٹیج کا معاملہ تھا۔اس لئے حسن کا زیادہ دھیان کیس کی طرف تھا۔ اب تک اسے یہی معلوم تھا کہ جہاں زیب عورتوں کا رسیا تھا۔ جبکہ فائل میں زیادہ زور یہی تھا کہ وہ دہشت گرد ہو سکتا ہے۔ حویلی سے واپسی پر جو فوری حملہ کر کے یہ باور کرانا کہ وہ اس کیس سے پیچھے ہٹ جائے؟ یہ ایک تکون تھی اور آگے کا راستہ یہیں سے نکلنے والا تھا۔ اس نے اپنے ذرائع سے ان حملہ آوروں کے بارے میں جاننے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ جس کا جواب اسے ابھی تک نہیں ملا تھا۔
وہ اسی ادھیڑ بُن میں تھا کہ اسے انسپکٹر نعیم کی کار آتے ہوئے دکھائی دی۔ کچھ ہی دیر بعد وہ اس کے سامنے تھا۔ اسے کے چہرے پر دبا دبا سا جوش تھا۔اس نے کاغذوں کا ایک چھوٹا سا پلندہ اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا
” سر۔! وہ سیل فون ہمارے بہت کام کا نکلا ہے۔کیونکہ اس میں جو سم کارڈہے وہ جہاں زیب کے ہی نام کا ہے ۔“
” گڈ۔! تو پھر اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا ہوگا کہ اس نے کہاں کہاں کال کی تھی اس رات؟“ حسن ایک دم سے چونک گیا
” جی ، اس سے بھی زیادہ انکشاف ہوئے ہیں۔ دھماکے والی اس رات اس نمبر سے جس دوسرے نمبر پر زیادہ کال ہوئی ہے، وہ بھی جہاں زیب ہی کا ہے ۔ جب آخری بات ہوئی تو یہ دونوں نمبر ایک ہی ٹاور کی رینج میں تھے۔ ورنہ یہ نمبر زیادہ ترشہر ہی سے استعمال ہوتا رہا ہے۔ میں نے ان دونوں نمبرز کا ریکارڈ لے لیا ہے۔ کب اور کس وقت کال کی گئی اورکس ٹاور سے بات ہوئی۔“ اس نے کاغذوں کے اُس چھوٹے سے پلندے کی طرف اشاہ کرتے ہوئے کہا
” ویل انسپکٹر نعیم، کیاریکارڈ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بات چیت کب سے جاری ہے؟“
”جی ۔!اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان پچھلے تقریباً چھ ماہ سے بات چیت جاری ہے۔ اس رات کے بعدسے دونوں طرف سے بات نہیں ہوئی۔ آخری بات گیارہ بج کر ترپین منٹ پر ہوئی تھی،جب وہ دونوںایک ہی ٹاور کی رینج میں تھے۔“
” مطلب، وہ جو کوئی بھی تھا، حویلی میں تھا یا اس کے پاس آیا اور اسی نے دھماکا کیا یا کم از کم اس کا اس دھماکے سے تعلق ضرور ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون ہو سکتا ہے۔“ حسن نے سوچتے ہوئے کہا تو انسپکٹر نعیم تیزی سے بولا
” سر۔! آپکا خیال بالکل ٹھیک ہے۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس دھماکے کا سراغ وہیں حویلی یا اس گاﺅں سے ہی نکلے گا۔“
 ”یہ تو میں دیکھ لوں گا۔لیکن ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ مجھ پرحملہ کرنےوالے کون ہوسکتے ہیں؟ میں حیران ہوں کہ اب تک کہیں سے بھی ان کے بارے میں پتہ نہیں لگا۔“
” وہی لوگ، جو نہیں چاہتے کہ آپ اس کیس کو دیکھیں،مگر سر آپ فکرنہیں کریں، بلکہ یہ جو کاغذوں کا پلندہ ہے اس میں بہت کچھ سامنے آ جانے کا امکان ہے۔“ نعیم نے کہا تو سر ہلا کر رہ گیا۔ایسے میں فروا کی گاڑی پورچ میں آرُکی تو نعیم نے اٹھتے ہوئے کہا،” سر میں اب چلتا ہوں، فون پر رابطہ رہے گا۔“
” کیوں نہیں، مگر اس بارے میں کوئی بھی نئی بات سامنے تو مجھے فورا بتانا،یہ بھی خیال مت کرنا کہ میں سو رہا ہوں یا کیا کر رہا ہوں۔“ حسن نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو وہ سلام کر کے چلتا چلا گیا۔ اس وقت فروا اس کے قریب آ گئی تھی۔ فروا نے آتے ہی فکر مند لہجے پوچھا
” کیسی طبعیت ہے؟“
”ٹھیک ہوں۔“ حسن نے کہا اور کرسی پر بیٹھ کر سامنے دھرے کاغذوں کا پلندہ دیکھنے لگا۔ فروا کچھ دیر بیٹھی اسے دیکھتی رہی پھر بولی
” تم مجھے نظر انداز کر کے ثابت کیا کرنا چاہتے ہو؟“
” کچھ نہیں یار، ایک اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا بنتا ہے۔ اور جو کچھ تم سوچ رہی ہو، ویسا کچھ نہیں ہے۔“ حسن نے انتہائی تحمل سے کہا تو پیار سے بولی
” کیا میں تمہاری کچھ مدد کر سکتی ہوں۔“
” مجھے اکیلا چھوڑ دو۔“ اس نے فروا کی طرف دیکھے بغیر کہا اور پلندہ اپنی گود میں رکھ لیا۔ فروا اٹھی اور اندر چلی گئی۔ حسن پوری توجہ سے ان نمبرز کو دیکھنے لگا۔
٭....٭....٭
فروا اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ دھیمی سی روشنی میں وہ جاگ رہی تھی۔ وہ حسن کے گھر تھوڑی دیر رہی پھر واپس پلٹ آئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اس کی ہوئی نیکی اس کے گلے تو نہیں پڑنے والی ہے۔ جس طرح حسن کو ایک ہی دن میں کافی کامیابی مل گئی تھی، سیل فون سے بہت حد تک مجرم کے قریب پہنچنے کے امکانات پیدا ہو گئے تھے۔وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ ساری بات حسن کو بتا دے یا پھر خاموشی سے دیکھتی رہے۔اگر رافعہ پکڑی گئی تو وہ بھی ساتھ میں دھری جاتی۔ وہ جہاں زیب کے قتل میں برابر کی شریک تھی۔ ایک بار اس کے ذہن میں آیا کہ وہ حسن کو غلط ٹریک پر ڈال دے۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔اب یہ تو یقینی تھا کہ یہ کیس حل ہوئے بغیر اس کی شادی نہیں ہونے والی تھی۔
رافعہ کے ساتھ اس نے نیکی یہ کی تھی کہ اسے لندن علاج لے لئے بھجوا دیا تھا۔ سمجھانے بجھانے پر اس کے والدین خاموش ہو گئے تھے۔ ارد گرد کے لوگوں کو یہی بتا یا کہ اس کا روڈ ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔ ایک عشرے کے اندر اندر فروا نے رافعہ کو لندن بھجوا دیا۔ جہاں وہ تین ماہ تک زیرِ علاج رہی۔ اس کا زخمی چہرہ پلاسٹک سرجری سے بالکل بدل گیا تھا۔ تین ماہ بعد جب وہ واپس آئی تو پہچانی نہیں جا رہی تھی۔ اس کے والدین نے وہ علاقہ ہی بدل لیاتھا۔رافعہ کا چہرہ کیا بدلا، اس کی سوچ بھی بدل گئی۔ یہ فروا کواس دن پتہ چلا جب اس نے رافعہ کو صلاح دیتے ہوئے کہا
اب تم ایسے کرو،چپ چاپ شادی کروا کے اپنا گھر بساﺅ اور بھول جاﺅ ماضی کو۔“ فروا نے اسے سمجھایا
” فروا ، تم نے میری بہت مدد کی ہے، اس لئے میں آج زندہ ہوں، مگر میں اندر سے مر چکی ہوں، مجھے جہاں زیب سے بدلہ لینا ہے چاہے مجھے اپنا آپ ختم کرنا پڑے۔ میں اسے بھول نہیں سکتی۔“
” کیسے کرو گی یہ؟ “ فروا نے حیرت سے پوچھا
” یہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔جہاں مجھے کہیں ضروت پڑے میری مدد کر دینا۔“ اس نے گھمبیر لہجے میں کہا
” کیا تم نے اس بارے کوئی پلان بنا لیا ہے یا۔۔۔“ فروا نے تشویش سے پوچھا
” ابھی تک میں نے کچھ نہیں سوچا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ میں کوئی نہ کوئی راہ نکال لوں گی۔ بہت ساری ”مچھلیاں“ میری نگاہ میں ہیں، وہ یا تو مجھے کھا جائیں گی یا میں انہیں نگل جاﺅں گی۔ “ اس کے لہجے میں اعتمادتھا۔
” مچھلیاں،مطلب؟“ اس نے نہ سمجھتے ہوئے پوچھا
”تیرے اس شہر کے امیر ترین مگر عیاش لوگ۔۔۔ مچھلیاں ہی تو ہیں۔“ اس نے طنزیہ لہجے میںکہا
” مجھے تم سے ڈر لگنے لگا ہے۔“ فروا نے سرسراتے ہوئے کہا
” ہاں، لاش سے ڈرناہی چاہئے، اور وہ بھی زندہ لاش،جو کسی بلا سے کم نہیں ہوتی۔“ 
پھر وہ اس سے گاہے بگاہے ملتی تو رہی۔ لیکن رافعہ بہت حد تک بدل گئی تھی۔ جس طرح کی وہ زندگی گذار رہی تھی، اس کے باعث اُس کا نہ ملنا ہی بہتر تھا۔ وہ اس کے سا تھ کسی کی بھی نگاہ میں نہیں آنا چاہتی تھی۔ 
٭....٭....٭
وہ شہر کا معروف فائیو سٹار ہوٹل تھا۔ رات کافی بیت چکی تھی۔رافعہ ہوٹل کی چھت پر اپنی ” نئی مچھلی “کے ساتھ تھی۔وہ ادھیڑ عمر، ایک بڑا بزنس مین تھا، جس کا کئی ملکوں میںکاروبار تھا۔رافعہ نے ٹاپ لیس سیاہ لباس پہنا ہوا تھا۔ ہلکے ہلکے چلتی ہوئی ہوا سے اس کی ریشمی زلفیںاُڑتے ہوئے کچھ اس کے چہرے اور کچھ اس ادھیڑ عمر کے کاندھوں پر پھیلی ہوئیں تھیں۔ ادھیڑ عمرایزی چیئر پر تھا اور وہ اپنی کرسی چھوڑ کر اس کے اوپر چھائی ہوئی تھی۔تیز سانسوں کے ساتھ دھیمی دھیمی مخمور آوازیں ہوا میں تحلیل ہو رہی تھیں۔ ادھیڑ عمر اگرچہ شراب کے نشے میں دھت تھا، مگر کافی حد تک بے چین بھی تھا۔کچھ دیر یونہی ایک دوسرے سے لپٹے رہنے کے بعد ادھیڑ عمر نے کہا
” سوئیٹی۔! کیا بات ہے ، آج تم وہ نہیں ہو ، جو مجھے پہلے ملتی رہی ہو، تمہارا نشہ مجھ پر کیوں نہیں چھا رہا۔“
” تمہیں نہیں معلوم، تم نے زیادہ پی ہے۔ میں تو وہی ہوں۔“ اس نے خمار آلود لہجے میں اس کی گردن پر گرم سانسیں چھوڑتے ہوئے کہا۔
” نہیں، سوئیٹی، آج تم وہ لطف نہیں دے رہی ہوں، خیر ،چلیں کمرے میں چلتے ہیں۔“
رافعہ جانتی تھی کہ وہ ادھیڑ عمر ٹھیک کہہ رہا تھا۔ اس کا دماغ حاضر ہی نہیں تھا۔ فروا نے جو باتیں اسے بتائیں تھیں، اس سے رافعہ بے حد پریشان ہو گئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ سیل فون کے مل جانے کا مطلب یہی ہے کہ حسن اس کی راہ پر لگ سکتا ہے۔ اسے یہ خوف نہیں تھا کہ وہ پکڑی جائے گی لیکن اسے یہ ڈر ضرور تھا کہ اس کی وجہ سے فروا پر شک نہ ہو جائے۔ ممکن ہے اسی نمبر سے انجانے میں کوئی کال فروا کو ہو گئی ہو۔ ایک موہوم سی امید تھی کہ فون اس کے نام پرنہیں تھا۔ مگر فروا تو سب جانتی تھی ۔ وہ ایک دم سے پریشان ہو گئی تھی۔ اس سے زیادہ سوچا بھی نہیں گیا، اسی وقت اس کی ”مچھلی “کا فون آ گیا تھا کہ وہ آ رہا ہے۔ جس کے ساتھ اس کی بزنس ڈیل فائنل ہونا تھی۔رافعہ چاہ رہی تھی کہ وہ جلد از جلد یہ ملک چھوڑ کر کہیں چلی جائے۔اسی مقصد کے لئے اس نے یہ مچھلی پھنسائی تھی۔ اسے پوری امید تھی کہ وہ اس مچھلی سے اپنا مقصد حاصل کر لے گی، کیونکہ پچھلے دو ہفتوں سے وہ اسے اس ہو ٹل میں رکھے ہوئے تھا۔
وہ ادھیڑ عمر ڈیل فائنل کرکے اور اس کے حسن کا خراج لے کر سو چکا تھا۔ وہ ہوٹل کے شاندار بیڈ روم میں، اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھی ہوئی اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی۔ وہ لندن ہی میں تھی کہ اس نے اپنی زندگی کے بارے میں سوچ لیا تھا۔ وہ فروا کی ممنون تھی کہ اس نے زندگی بچائی، مگر وہ اپنے اندر سے مر چکی تھی۔ جس وقت اس کی پلاسٹک سرجری کے بعد چہرہ بدل گیا، اسی دن اس کے ذہن میں جو خیال آیا۔ اور اس نے اس خیال پر فوراً عمل کر ڈالا۔ اس نے سب سے پہلے اپنے والدین کو ایک طویل خط لکھا ، جس میں اس نے اپنی خود کشی کے بارے میں بتا دیا۔ اس نے یہ تک لکھ دیا کہ وہ اس کا انتظار نہ کریں۔ وہ اپنی تذلیل کا بوجھ برداشت نہیں کر پائی۔ اس کے ساتھ ہی وہ لندن میں گم ہوگئی۔ فروا کے بھائی نے بہت تلاش کیا، مگر وہ نہ ملی۔گھر والوں نے اسے مردہ تصور کر لیا۔مگر وہ پاکستان آگئی۔اس نے آتے ہی ایک فلیٹ کرائے پر لیا اور مچھلیوں کا شکار کرنے لگی۔اس نے اپنے آپ کو عام نہیں کیا۔عام لوگوں کی پہنچ سے دور ، خود کو اس طرح رکھا کہ صرف دو ماہ میں تین مچھلیاں اس کی کنڈی میں آلگیں، تینوں ہی ادھیڑ عمر عیاش لوگ تھے۔ اس نے بے دردی سے پیسہ لوٹا۔ جس کازیادہ حصہ وہ خود کو بنا سنوار کر رکھنے میں خرچ کرتی۔
 ایک دن راحیل سے اس کی ملاقات ہو گئی۔ وہ اس کا یو نیورسٹی میںکلاس فیلو تھا۔ یونیورسٹی میں اس کی سر گرمیاں ہمیشہ مشکوک رہی تھیں۔ رافعہ اس کے بارے میں اچھی طرح جانتی تھی لیکن وہ اس کے بارے میں بالکل نہیں جان پایا۔رافعہ نے اپنا تعارف ہی کچھ ایسا کرایا کہ راحیل کے ذہن میں بھی نہیں آیا کہ یہ رافعہ بھی ہو سکتی ہے، جو ذرا سی بات پر شرما جایا کرتی تھی۔اس پہلی ملاقات ہی میں رافعہ نے اسے یہ باور کرا دیا کہ وہ اس پر مرمٹی ہے۔ پہلی ملاقات ہی سے ان میں دوستی ہو گئی کیونکہ ایسا وہ خود چاہتی تھی۔ تیسرے ہفتے کی ایک رات وہ اس کے ٹھکانے پر چلی گئی ۔وہ شہر کا بہترین رہائشی علاقہ تھا۔وہیں اسے پتہ چلا کہ راحیل خود کوشش کر کے اسے اپنے دام میں لایا ہے۔ شراب کے دو دو پیگ جب ان کے اندر گئے تو راحیل نے کہا
” دیکھو صبا۔! یہ محبت وغیرہ سب فضولیات ہیں، اگر میرے ساتھ سیدھی سیدھی ڈیل کرو تو تمہارا بھی فائدہ ہے اور میرا بھی۔ اپنے تعلق کے مزے اپنی جگہ، کیوں نا بزنس بھی ساتھ میں کر لیں۔“
” میں سمجھی نہیں تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟“ رافعہ نے اسے کھولتے ہوئے پوچھا
” دیکھو میں کوئی شریف آدمی تو ہوں نہیں۔ اور وقت گذارنے کے لئے بازار میں بہت ساری لڑکیاں ہیں۔ جتنے پیسے تم لیتی ہو، اس میں کئی آجائیں، تم میری بات کا برا مت ماننا۔ میں ڈرگز اور اسلحے کا کام کرتا ہوں۔ میرے ساتھ شامل ہو جاﺅ، بہت کمائیں گے۔“ راحیل نے کہا اور تیسرا پیگ بھی اندر انڈیل لیا۔تبھی رافعہ نے دھیمی سی مسکراہٹ سے کہا
” ہم تو مرمٹے ہیں تجھ پر ، اب جو مزاجِ یار میں آئے۔“ 
” تو پھر ڈن،“ یہ کہتے ہوئے اس نے ہاتھ بڑھایا تورافعہ نے اپنا ہاتھ اسے تھما دیا، اس نے ہلکا سا اپنی طرف کھنچا تو پوری کی پوری اس پر آگری۔
پھر زیادہ وقت نہیں گذرا، وہ کرائے کے فلیٹ سے نکل کر پوش علاقے میں آگئی۔ راحیل نے اسے دکھاوے کے لئے ایک امپورٹ ایکسپورٹ کے بزنس والا آفس بنا دیا اور بزنس وویمن کے سارے لوازمات اُس کے پاس آگئے۔اس کے پَر لگ گئے تو وہ فضاﺅں میں اُڑنے لگی تھی۔ مگر وہ جہاں زیب کو نہیں بھولی تھی، جس نے اس کی زندگی تباہ کر دی تھی اور جرم کی اس دنیا میں لاپھینکا تھا۔
 وہ پوری کوشش میں تھی کہ اسے جہاں زیب مل جائے۔ اسے تلاش کرنے کے لئے رافعہ نے پوری توجہ لگا دی تھی۔ اور ایک شام وہ اسے شہر کے مشہور فائیو سٹار ہوٹل میں مل گیا۔وہ کسی پارٹی میں آیا تھا۔رافعہ اپنی پوری جولانیوں اور بے باکیوں کے ساتھ وہا ں موجود تھی۔اس نے جہاں زیب کو پوری طرح نظرانداز کرتے ہوئے اپنی اداﺅں کے تھوڑے سے تیر چلائے تھے کہ جہاں زیب گھائل ہو گیا۔ رافعہ سمجھ گئی کہ وہ اس کی طرف متوجہ ہو گیا ہے۔ وہ سارا ہجوم چھوڑ کر سوئمنگ پول کی جانب چل دی۔
اس وقت رافعہ سوئمنگ پول کنارے کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ گہرے نیلے رنگ کی اسکرٹ میں سے اس کی گوری اور سفید پنڈلیاں جھانک رہی تھیں۔ شام کی سنہری روشنی میں اس کے گاگلز چمک رہے تھے۔ سیاہ گیسو اس کے کاندھوںپر پھیلے ہوئے تھے لیکن کھلے گریبان کی بے باکی کو نہیں ڈھانپ سکے تھے۔ وہ اپنے آپ میں مست بیٹھی ہوئی تھی کہ جہاں زیب اس کے پاس آکر بولا
” کیا میں یہاں بیٹھ سکتا ہوں؟“
اس پر رافعہ نے اسے سر سے پاﺅں تک یوں دیکھا جیسے وہ کوئی بہت ہی حقیر مخلوق ہو۔ پھر اپنے ہونٹوں پر طنزیہ مسکان لاتے ہوئے بولی
” بیٹھ جائیں ، مگر لگتا نہیں ہے کہ زیادہ دیر بیٹھ پائیں گے۔“
” ایسا کیوں کہہ رہی ہیں آپ؟“ وہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھتے ہوئے بولا
” کیونکہ میرا سامنا کرنے کی لوگ ہمت تو کر لیتے ہیں، مگر ٹکتے بہت کم ہیں، ویسے آپ کا تعارف۔۔۔؟
رافعہ نے اس کی مردانگی پر وار کرتے ہوئے نفسیاتی حملہ کر دیا۔ پھرزیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اس نے جہاں زیب کو گھائل کر لیا۔ وہ اس کی کمزوری اور مجبوری جانتی تھی۔جہاں زیب سے آمنا سامنا ہو گیاتھا۔ 
اچانک وہ ادھیڑ عمر ایک دم سے جاگ گیا۔ شاید اس کا نشہ اتر گیا تھا۔ رافعہ چونک کراپنے خیالوں سے باہر آ گئی۔وہ وہاں سے جانا چاہ رہا تھا اور رافعہ اسے الوادع کہنے پر مجبور تھی۔ کچھ دیر بعد وہ چلا گیا تو رافعہ دیر تک آنسو بہاتی رہی۔ شاید اپنی قسمت پر۔
٭....٭....٭
روشن صبح میں حسن آفس پہنچ چکا تھا۔ جہاں انسپکٹر نعیم اس کا انتظار کر رہا تھا۔ اس کے بدن میں اٹھتا ہوا درد، کل کے واقعہ کی یاد دلا رہا تھا۔ مگر اس نے پرواہ نہیں کی۔ وہ اپنے کیبن میں کاغذوں کا پلندہ رکھے انسپکٹر نعیم کو سمجھا رہا تھا۔
” میں نے اسے رات پھر سٹڈی کیا ہے۔“ یہ کہہ کر وہ ایک کاغذ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا،” یہ وہ علاقے ہیں جہاں سے یہ فون کال زیادہ ہوئی ہے۔ وہ جو کوئی بھی ہے ،اس کا سراغ یہیں کہیں ہے۔ میں جہاں زیب کے گاﺅں جا رہا ہوں۔اسے ذرا دیکھو۔“
”اوکے سر۔!لیکن آپ بغیر نفری کے مت۔۔۔“ نعیم نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات کاٹ کر بولا
” اب میں چاہتا ہوں کہ وہ دوبارہ مجھ پر حملہ کریں۔“ حسن کے لہجے میں کچھ ایسا تھا نعیم سر ہلا کر رہ گیا۔تبھی چلتے ہوئے اسے یاد آیا،” کیاتم نے اس نمبر والی سم دوباہ چالو کروا لی ہے؟‘ ‘
” جی سر میں ابھی اُدھر ہی جا رہا ہوں۔ یہاں سے کچھ آڈرز لینے تھے۔“ وہ تیزی سے بولا
” ٹھیک ہے میرے آنے تک یہ کر لینا۔“ حسن نے کہا اور باہر نکلتا چلا گیا۔
دوپہر سے ذرا پہلے وہ گاﺅں میں کچھ دیر تک چوہدری شہاب الدین کے ساتھ رہا ۔ اس دوران اس نے حویلی کے چوکیدار اور بوڑھے مالی کو بلا لیا۔جس وقت وہ تینوں رہ گئے تو حسن نے ان دونوں کی طرف دیکھ کر پوچھا
” جہاں زیب عورتوں کا رسیّا تھا،یہ بات پولیس کو معلوم ہے، اس کا ساتھ وہ رشید ڈرائیور دیتا تھا، کیا وہ صرف اسی وجہ سے اس کا منہ چڑھا تھا یا کسی اور جرم میں بھی ملوث ہونے کا شک تھا ؟“
” وہ ہمیشہ ہی جہاں زیب کے ساتھ رہتا تھا۔ مہنگی سے مہنگی چیزیں وہ خرید لیتا تھا۔ جتنا چاہے وہ جہاں زیب کا پیسہ خرچ کرتا، وہ اسے روکتا نہیں تھا۔ باقی ملازمین پر وہ بہت رعب جھاڑتا تھا۔ مطلب جہاں زیب اس کی ہر بات مان لیتا تھا۔ اب آگے نہیں معلوم کہ وہ کسی جرم میں ملوث تھا یا نہیں۔“ چوکیدار نے کہا تو حسن کو اس کی بات میں کسی حد تک دلچسپی محسوس ہو ئی۔
” کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو ، جس میں انہوں نے کسی لڑکی یا عورت کے ساتھ زور زبردستی کی ہو ، اوراس کا تعلق شہر کے ساتھ ہو ؟“ حسن نے بوڑھے مالی کی طرف دیکھ کر پوچھا
” دیکھیں جی ، ہم یہاں کے ملازم ہیں، ایسی بات کیسے بتا پائیں گے۔ “ بوڑھے نے کہا
” آپ فکر نہ کریں، میں سمجھتا ہوں ان باتوں کو۔“اس نے تسلی دی
”سچی بات تو یہ ہے صاحب ، اس سے کسی کی عزت محفوظ نہیں تھی۔ جہاں تک شہر سے تعلق کی بات ہے تو ایک اڑتی اڑتی بات سنی تھی کہ اسکول کی ایک استانی کوانہوں نے ساری رات ڈیرے پر ر کھا تھا، اس دن کے بعد وہ دکھائی نہیں دی ۔ ہو سکتا ہے انہوں نے مل کر اسے قتل کر دیا ہو، لوگوں میں یہی افواہ ہے۔“
” اتنی بڑی بات آپ لوگوں نے ابھی تک نہیں بتائی کسی کو؟“ حسن نے پوچھا
”یہ افواہ ہی ہے، کوئی یقینی بات تو نہیں۔ اور ویسے بھی ہم سے کسی نے پوچھا ہی نہیں، نہ ہی اس حوالے سے کوئی بات ہوئی۔“ بوڑھے مالی معذرت خواہانہ انداز میں کہا
” اس اُستانی کے بارے میں کوئی معلومات؟“ اس بار اس نے چوکیدار سے پوچھا 
” مجھے تو پتہ نہیں، یہی سنا ہے کہ وہ شہر سے آتی تھی، پھر ایک دم سے غائب ہو گئی۔“
” چلو اس کے اسکول چلتے ہیں۔“ حسن نے ایک دم سے کہا اور اٹھ گیا۔ اس نے چوکیدار کو ساتھ لیا اور کچھ ہی دیر بعد گاﺅں سے باہر اسکول میں چلے گئے۔اسکول لگا ہوا تھا۔ بچیاں پڑھ رہی تھیں۔ وہ سیدھا ہیڈ مسٹرس کے پاس چلا گیا۔تمہیدی باتوں کے بعد اس نے بتایا
”رافعہ نام تھا اس کا۔ یہاں سے چھٹی کے وقت گئی، پھر لوٹ کر نہیں آئی۔ میں نے اس کا دو تین دن انتظار کیا۔ پھر محکمے کو انفارم کر دیا۔پھر اس کے آگے مجھے نہیں معلوم۔“
” اس کا کوئی ایڈریس؟“ حسن نے پوچھا
”وہ میںدے دیتی ہوں، مزید معلومات دفتر سے مل جائیں گیں۔“ ہیڈمسٹرس نے کہا، پھر کچھ دیر بعد رافعہ کا پتہ اور آخری دن حاضر ہونے کی تاریخ لکھ کر اسے دے دی۔ جسے دیکھتے ہی وہ چونک گیا۔ وہ تاریخ وہی تھی، جس کے ٹھیک ایک سال بعد اسی تاریخ کو جہان زیب قتل ہو گیا تھا۔ یعنی اس کی سالگرہ کا دن۔اس نے اپنے جذبات پر قابو رکھا۔اسکول سے میں ہی اس نے چوکیدار کو چھوڑا اور شہر کی طرف نکل گیا۔
واپسی پر اس کا کسی سے سامنا نہیں ہوا اور وہ اپنے دفتر پہنچ گیا۔نعیم واپس آچکا تھا۔ اس نے نعیم کو ضروری معلومات کے ساتھ وہ ایڈریس اُ سے دیتے ہوئے کہا
” کسی بندے کو لگاﺅ اور معلومات لو،ارد گرد سے بھی۔“
” جی، ٹھیک ہے،“ یہ کہ کر اس نے ایک سیل فون اس کی جانب بڑھاتے ہوئے کہا،” سر یہ فون، وہی نمبر دوبار چالو ہو گیا ہے۔“
اس نے سیل فون لے جیب میں ڈال لیا اور کہا
 ” یہ جو دوسرا دھماکا ہوا ہے، اس کی فائل لاﺅ، اسے ذرا دیکھ لیں پھر ایک چکر ادھر کا لگا آئیں۔“ حسن نے کہا تو نعیم سر ہلاتے ہوئے چلا گیا۔
اس وقت وہ فائیل میں کھویا ہوا تھا کہ اس کا نیاسیل فون بج اٹھا۔ وہ چونک گیا۔ اسے کال ریسو کرتے ہوئے خاموش رہاتو دوسری طرف سے کسی نے دھاڑتے ہوئے کہا
” بے غیرت عورت۔! کہاں چھپی ہوئی ہو، تجھے پتہ ہے کہ میں تجھے پاتال سے بھی نکال لوں گا۔شام سے پہلے مجھے ملو، ورنہ۔۔۔“
” آپ کون ہیں اور کس سے بات کرنا چاہتے ہیں؟“ اس نے محتاط انداز میں پوچھا
” ابے تُو کون ہے، دے اپنی ماں کو فون۔۔۔سالا پوچھتا ہے کہ میں کون ہوں۔“ اس کے لہجے انتہائی درجے کی حقارت تھی۔
” جی وہ تو نہیں ہیں، آپ نے جو پیغام ۔۔۔“ حسن نے کہا تو بات کاٹ کر بولا
” شام سے پہلے مجھے ملے ، بس۔۔۔“ دوسری طرف سے سختی کے ساتھ کہا گیا اور اس کے ساتھ ہی فون بند کردیا گیا۔
سیل فون جیب میں ڈالتے ہوئے حسن کو یہ یقین ہو گیا کہ دھماکا کرنے والی عورت ہی ہو سکتی ہے۔اک سرا اس کے ہاتھ لگ گیا تھا۔
٭....٭....٭
رافعہ کی جہاں زیب سے ملاقاتیں طویل ہونے لگیں۔دوہفتوں ہی میں اسے اندازہ ہو گیا کہ اگرچہ وہ گھاگ بندہ ہے لیکن جب کسی عورت کے پاس ہو تو ساری عقل سمجھ ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔ یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری تھی۔ رافعہ نے اس کے سامنے اپنا تاثر یوں بنا لیا جیسے وہ انتہائی امیر کبیر گھر کی لڑکی ہے۔ جسے فقط دوستی سے غرض ہے اس کے آگے ایک حد ہے جسے وہ پار نہیں کرتی۔یہاں تک کہ اس نے اپنا فون نمبر بھی نہیںدیا۔ جہاں زیب کو یہی معلوم تھا کہ اس کی رافعہ سے اچانک ملاقات ہوتی ہے مگر رافعہ اسے کے بارے میں پوری معلومات رکھنے لگی تھی۔وہ جب بھی اس سے ملتی، اس کی خواہش کو مذید ہوا دے دیتی۔ ایسے ہی ایک دن وہ شہر کے مہنگے ریستواران میں ملے۔رافعہ نے حسب ِ معمول یہی ظاہر کیا کہ یہ ملاقات اچانک ہوئی ہے۔وہ کسی سے ملنے آئی ہے۔ ضہاں زیب نے اصرار سے اسے کھانے کی آفر کی۔جو تھوڑی پس وپیش کے بعد اس نے قبول کر لی۔کھانے کے دوران جہاں زیب نے کہا
” ہم اتنے اچھے دوست بن چکے ہیں، لیکن یہ کیسی بے اعتمادی ہے کہ آپ نے مجھے اپنا فون نمبر نہیں دیا؟“
اس پر رافعہ نے اٹھلا کر کہا
” کیا کریں گے میرا فون نمبر لے کر؟“
” بہت دل کرتا ہے آپ سے بات کرنے کے لئے۔“ جہاں زیب نے زمانے بھر کا پیار اپنے لہجے میں سمیٹتے ہو ئے کہا
” تو آپ مجھے اپناسیل فون دے دیں۔میں اسی سے رابطہ کر لیا کروں گی۔“ اس نے کہا تو جہاں زین چند لمحے ہکا بکا رہ گیا ،پھر فون اسکی طرف بڑھاتا ہوا بولا
” یہ لیں۔“
رافعہ نے وہ فون اٹھایا۔ اس میں موجود سارے نمبر ختم کردئے او پھر اسے اپنے پر میں رکھتے ہو ئے قاتل ادا سے بولی
”میں دو گھنٹے میں آنے والی ہر کال پک کروں گی ، آپ نے نہ کی تو میں یہ سیل فون پھینک دوں گی۔“ 
”اوکے۔“ وہ گھائل لہجے میں بولا تو وہ اپنی فتح مندی پرمسکرا دی۔
رافعہ اسے روزانہ گھنٹوں فون کرنے لگی۔ وہ اس کے بارے میں زیادہ سے زیاد ہ معلو مات لیتی جبکہ جہاں زیب کی انتہائی کوشش یہ تھی کہ وہ اس کے ساتھ تنہائی میں وقت گذارے۔ کہتے ہیںکہ جو چیز نہ ملے، اس میں کشش زیادہ ہوتی ہے۔ رافعہ نے بھی یہی کیا۔ اسے لبھاتی اور لجھاتی رہی۔ مگر اس کے ہاتھ نہیں آئی۔یہی تاثر دیتی رہی کہ وہ اس پر مر مٹی ہے، مگر اظہار نہیں کر رہی ہے۔ جہاں زیب اس کا دیوانہ ہونے لگا تھا۔رافعہ منتظر تھی کہ کوئی ایسا موقعہ ہاتھ لگے جہاں وہ اُسے سسکا سسکا کر مارے۔اسی کشمکش میں دن گزرتے چلے جارہے تھے۔ کیونکہ جہاں زیب کے ساتھ اس کا ڈرائیور اور گارڈ ہمہ وقت رہتے تھے۔
راحیل کے ساتھ اس کا کام عروج پرتھا۔اسلحہ اور ڈرگز کاپورا ایک نیٹ ورک تھا۔ راحیل کے ساتھ اس قدر وقت گزارنے کے باوجود اسے پوری طرح یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ اس کے ساتھ کون کون شامل ہیں۔اس کا جو کام تھا وہ وہی کرتی تھی۔ اسے یہ احساس ضرور تھا کہ اس کا نیٹ ورک برھتا چلا جا رہا ہے ۔ نوٹ تھے کہ بارش کی طرح برس رہے تھے ۔
ایسے ہی ایک دن راحیل سے ملنے کے کچھ غیر ملکی لوگ آئے تھے۔ انہوں نے ایک بہت بڑی ڈیل اس کے سامنے رکھی تھی۔انہیں مقامی طور پر دھماکہ خیز مواد کی ضرورت تھی۔ رافعہ بھی اس وقت وہیں تھی۔ وہ غیر ملکی کہہ رہا تھا
”ہمیں یہ مواد مل جائے تو تم لوگوں کو نہال کر دیں گے۔لیکن اگر بم بنانے کو جگہ بھی مل جائے تو ہمارے لوگ یہاں سب کچھ تیار کر لیں گےجس کا آپ لوگوںکو دوگنا فائدہ ملے گا۔“
”اور تم لوگ یہ دھماکے یہاںکروگے؟“ راحیل نے پوچھا
”یہ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ جہاں ضرورت ہوئی، مگر تم لوگوں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہونا چاہئے۔“ اس غیرملکی نے کہا تو راحیل بولا
” ٹھیک ہے ڈن، لیکن معاملہ ڈالر میںہو گا۔“
” ڈن۔“ غیر ملکی نے کہا اور معاملہ طے ہو گیا۔
راحیل نے ایک محفوظ جگہ دے دی اور وہاں پر بم بننے لگے۔ چونکہ وہ بھی اس ڈیل میں شامل تھی اس لئے وہ بم کیسے اور کس طرح کے تھے ، یہ رافعہ کو معلوم ہونے لگا۔تقریباً دو ہفتے کے بعد اس بم کا تجربہ کیا جا ناتھا۔ وہ ایک چھوٹا بم تھا۔ جسے ایک کار میں لگایا گیا۔ وہ کار ایک کاروباری مرکز کے باہر کھڑی تھی۔دو لڑکوں بڑے محتاط انداز میں بم لگا کر وہاں سے رفو چکر ہوگئے۔ ان کا اتنا ہی کام تھا اور وہ چاروں اس کار سے ذرا فاصلے پر اپنی کار میں بیٹھے منتظرتھے۔ ان چاروں میں وہ ،بم بنانے والا، راحیل اور غیر ملکی تھا۔ کافی دیر انتظار کے بعد دو لوگ آئے اور اس کار میں بیٹھ گئے۔ وہ کار آگے آگے جا رہی تھی۔ان کا آپس میں تقریباً دو سو گز کا فاصلہ تھا۔ بم بنانے والے نے اپنے ہاتھ میں ریمورٹ لے لیاتھا۔ اس نے کوشش کی جو بار آور ثابت نہ ہوئی۔ جیسے ہی وہ تقریباً سو گز کے فاصلے پر آئے ، بم بنانے والے نے ریمورٹ دبایا تو سامنے جانے والی کار ایک دھماکے سے پھٹ گئی۔ کئی کاریں اس کی زد میںآگئی تھیں۔ وہاں پر چیخ و پکار مچ گئی جبکہ ان درندوں کے چہروں پر خوشی ناچ رہی تھی۔ وہ اپنے تجرے پو خوش دکھائی دے رہے تھے۔رافعہ کے لئے یہ بڑا خوفناک منظر تھا۔
اسی شام ٹی وی پر اس حادثے کی خبر دیکھتے ہوئے اچانک خیال سوجھا ۔ وہ جہاں زیب کو بم سے اس طرح اڑائے کہ اس کا نام و نشان تک نہ رہے۔ وہ ایسا کر سکتی ہے۔ وہ جو بھی نیا بم بنائیں گے۔ وہ لے اڑے گی۔ اس طرح نہ صرف وہ اپنا انتقام لے لے گی، بلکہ اس بم سے بہت سارے بے گناہ لوگ بھی بچ جائیں گے۔وہ سوچنے لگی۔ اس کا پورا دھیان ادھ لگ گیا۔ بہت سوچنے پر اُسے پورا پلان سوجھ گیا۔ وہ اب اس تاک میں رہنے لگی کہ بم کیسے حاصل کیا جائے کہ جہاں زیب پر استعمال کرسکے۔
جہاں زیب کے ساتھ اس کی باتیں بڑھ گئی تھیں۔ راتوں کو لمبی لمبی باتوں میں وہ نجانے کہاں سے کہان جا پہنچتے۔ وہ اس کے ساتھ ایک رات گذارنے کی خواہش میں پاگل ہو رہا تھا۔ یہاں تک کہ ایک دن فون پر جہاں زیب نے بتایا کہ اس کی سالگرہ کا دن آ رہا ہے۔ رافعہ جنونی ہو گئی۔ ایک برس پہلے کے سارے زخم ہرے ہو گئے۔ اس نے فیصلہ کر لیاکہ وہ اسی رات اسے ختم کرے گی۔
 جہاں زیب کی سالگرہ والے دن اس نے وہ بم اُڑا لیا، جو کسی بندے کو اُڑانے کے مقصد کے لئے انہوں نے تیار کیا ہوا تھا۔رافعہ کو معلوم تھا کہ اسے کیسے چلایا جانا ہے۔ اسے سارا منصوبہ معلوم تھا۔ اس نے وہ بم وہاں سے لیا اور اپنے بنگلے پر آگئی۔ وہاں آکر اس نے جہاں زیب کو فون کیا۔
” جان من۔! میں تمہاری سالگرہ پر تمہیں تحفہ دینا چاہتی ہوں۔ کیا تم یہاںشہر میں آسکتے ہو؟“
” ایک شرط پر، کہ وہ تحفہ ہم اکھٹے کھولیں گے۔“ جہاں زیب نے کہا تو کچھ ہچکچاتے ہوئے کہنے لگی
” تم آﺅ تو، پھر یہاں آ کر فیصلہ کرتے ہیں۔“
”میں آرہاہوں۔ اس شرط پر کہ میری سالگرہ میں صرف تم ہو گی اور فقط میں۔“ اس نے کہا تو رافعہ تھوڑے پس وپیش کے بعد مان گئی۔
 تقریباً دو گھنٹے بعد وہ شہر کے مشہور ترین شاپنگ مال پر اس سے آ ملا۔ جہاں سے رافعہ نے بہت سارے گفٹ پیک تیار کروا کے اپنی کار کی پچھلی نشست پر رکھے ہوئے تھے۔ انہی میں وہ پیکٹ بھی تھے جن میں موت بند تھی۔ اس وقت وہ شاپنگ مال کے باہر اس کا انتظار کر رہی تھی،جب جہاں زیب وہاں آ پہنچا۔
” سوری جان۔! مجھے ذرا سی دیر ہو گئی۔“
” کوئی بات نہیں، یہ تحفے اب سرپرائز ہیں تمہارے لئے، جسے ہم نے اکھٹے کھولنا ہیں۔“رافعہ کے اشارے پر ڈرائیور رشید نے وہ تمام پیکٹ اٹھائے اور اپنی کار میں رکھ لئے۔ تو رافعہ نے کہا،” آﺅ۔! تمہیں ٹریٹ دوں۔“
” نہیں جان۔! ٹریٹ میری طرف سے ،رات وقت پر پہنچ جانا، میں تمہارا شدت سے انتظار کروں گا۔ “ اس نے خمار آلود نگاہوں سے دیکھا اور کچھ دیر بعد وہ واپس چلا گیا۔
رافعہ کو سورج ڈوب جانے کا شدت سے انتظار تھا۔اس نے فروا کو سب بتا دیا تھا۔ جیسے ہی رات کا اندھیرا پھیلا۔ وہ دونوں حویلی کی طرف چل پڑیں تھیں۔اور اس نے جہاں زیب کو اس طرح اڑا دیا تھا کہ اس کا نام و نشان تک نہ رہے۔ یہاں تک کہ اس کے باپ کو تھوڑی بہت راکھ ہی دفنا کر اپنی عزت بچانے کی کوشش کی ، جو نہیں بچ پائی تھی۔ وہ حیران تھی کہ میڈیا ایک دم سے اس کے باپ کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔مگر یہ اس سر درد نہیں تھا۔ اس ایک بم سے اس نے ڈرائیور کو بھی مار دیا تھا۔ وہ کافی حد تک آسودہ ہو گئی تھی۔
اس رات کے بعد رافعہ غائب ہو گئی۔ وہ راحیل سے نہ ملی۔جرم کی دنیا میں اس نے جہاں زیب کے نام والا فون ہی استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ فون ضائع کرنے کے بعد،اس کا سب سے رابطہ کٹ گیا تھا۔ وہ اب خود بھی یہی چاہتی تھی۔ وہ اپنے خفیہ ٹھکانے پر چھپی ہوئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اب وہ جس قدر ممکن ہو سکے پاکستان چھوڑ جائے۔لیکن اسے یہ نہیں سوجھ رہا تھا کہ اب وہ کہاں جائے ،جہاں اُسے زندگی کے باقی دن گذارنا تھے۔ اچانک اسے ایک مچھلی میں یہ کشش دکھائی دی۔ اس کا دوبئی میں بڑا بزنس تھا ، اس کے ساتھ اس کی ڈیل ہو چکی تھی۔ وہ ایک دودن بعد دوبئی جانے والی تھی۔ جہاں وہ ایک نئے نام اور نئی شخصیت سے نئی زندگی کا آغاز کرنے والی تھی۔
٭....٭....٭
حسن اس جگہ سے واپس آرہا تھا، جہاں دوسرا دھماکا ہو ا تھا۔ اس کے ساتھ نعیم بیٹھا ہوا تھا۔ان دونوں کا ہی خیال تھا کہ یہ دونوں دھماکے نہ صرف ایک ہی طرز کے ہیں بلکہ ان میں جو دھماکا خیز موداستعمال کیا گیا ہے وہ بھی، ایک ہی طرح کا ہے۔حسن بہت زیادہ دباﺅ میں تھا۔اسے یہ کیس سانپ کی زبان کی مانند لگ رہا تھا، جو لپلپاتی ہوئی آگے سے دو سروں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اسے سمجھنا صرف یہ تھا کہ دونوں سرے ایک ہو جاتے ہیں ، یا ایک ، دو حصوں میں بٹ جاتی ہے۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں شاہراہ پر جا رہا تھا ۔ جیسے ہی اس کی کار ذیلی سڑک کی طرف مڑی، جہاں کافی حد تک رش کم تھا۔ اچانک اس کی گاڑی پر فائرنگ ہو گئی۔ سامنے ہی ایک فوروھیل جیپ سے دو بندے گولیاں برسا رہے تھے۔حسن کی کار کا ٹائر ایک دھماکے سے پھٹ گیا تھا اور کار لڑکھڑانے لگی تھی۔ جب تک اس نے کار پر قابو پایا ، وہ لوگ وہاں سے غائب ہو چکے تھے۔ وہ صرف انہیں دھمکانا چاہ رہے تھے۔وہ ابھی وہیں تھے کہ حسن کے سیل فون پر کال آگئی۔ وہ اجنبی نمبر تھے۔ اس کے کال ریسو کی تو دوسری طرف سے کہا گیا
” انسپکٹر حسن ۔! تمہیں منع کیا تھا نا کہ اس جھنجھنٹ میں مت پڑو۔ لیکن تم باز نہیں آرہے ہو۔“
” کون ہو تم ۔سامنے آﺅ“ حسن نے چونکتے ہوئے کہا
”ابھی ضروت نہیں ہے مجھے، جب ہوئی تو سامنے بھی آجاﺅں گا۔سنو۔! یہ دوسری وارننگ اس لئے دینا پڑی کہ ہماری تم سے کوئی دشمنی نہیںہے۔ پاکستان چھوڑو اور جا کر شادی کرو۔ “
” میں تمہارے تیسرے حملے کا انتظار کروں گا۔ لیکن سن لو ، وہ تم نہیں کر پاﺅ گے، میں تم تک پہنچ جاﺅں گا۔“ حسن نے اس کی آواز پر غور کرتے ہوئے کہا
” یہ بھول ہے تمہاری،تیرے جیسے کئی پولیس والے میری جیب میں پڑے ہیں۔تم سن لو ، تیسری بار موقعہ نہیں دوںگا۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔ 
حسن سوچنے لگا کہ اس نے یہ آواز کہاں سنی ہے؟اچانک وہ سانپ کی لپلپاتی ہوئی زبان کے اس اتصال پر آگیا جہاں سے دو نوںسرے مل جاتے ہیں۔یہ وہی آواز تھی، جس سے تھوڑی دیر قبل کسی نے عورت سے بات کرنا چاہی تھی۔
وہ آفس میں تھا اور اسے نعیم کی کال کا شدت سے انتظار تھا جو اس فون نمبر کے ڈیٹا کے لئے گیا ہوا تھا۔اس دوران وہ بندہ جو استانی کے ایڈریس پر معلومات لینے گیا تھا واپس آگیا۔
” سر،وہ استانی روڈ ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہو گئی تھی۔اس علاج کچھ دن یہیں کے ایک مہنگے ہسپتال میں چلتا رہا۔پھر اس کے بعد کوئی پتہ نہیں چلا۔ کیونکہ اس کے والدین وہ علاقہ ہی چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ کہاں گئے اس بارے وہاں کے کسی بندے کو نہیں معلوم۔“
”اس مہنگے ہسپتال کا پتہ چلا۔ وہاں کا ریکارڈ کیا کہتا ہے۔“
”وہاں اس نام کی کوئی لڑکی نہیں آئی سر۔“
”اوہ۔!خیر، اس کے بارے میںمزید معلومات لینے کی کوشش کرو،خاص طور پر اس کے والدین تک پہنچا جا سکتاہو۔ اسے آسمان کھا گیا یا زمین، کچھ نہ کچھ تو ہوا ہوگا۔اب جاﺅ“
”یس سر۔“اس بندے نے سلیوٹ مارا اور چلا گیا۔ حسن کے ہاتھ آنے والا یہ سراغ بھی تاریکی میں گم ہو گیا تھا۔ 
٭....٭....٭
شام ہو گئی تھی ۔شہر کی روشنیاں جگمگا اٹھی تھیں۔فروا دھیمی رفتار سے کار لئے جا رہی تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ، جیسے کسی کی تلاش میں ہو۔اچانک ایک شاپنگ مال سے رافعہ نمودار ہوئی ۔ وہ کچھ ہی فاصلے پر تھی۔ فروا نے اس کے پاس جا کرایک دم سے بریک لگادئیے۔ رافعہ نے ایک نگاہ فروا پر ڈالی اور دروازہ کھول کر پسنجر سیٹ پر آن بیٹھی۔ تبھی فروا نے اجنبی سے لہجے میں پوچھا
” بولو، کیوں ملنا چاہتی تھی؟ ایسی کیاضروری بات ہے کہ جو فون پر نہیں ہو سکتی تھی؟“
” فروا ۔!تم ناراض کیوں ہو؟“ رافعہ نے رو دینے والے انداز میں پوچھا
” کیا تمہیںیہی بات پوچھنا تھی بے وقوف؟“ وہ غصے میں بولی
” نہیں،میں بس تمہیں یقین دلانا چاہتی تھی کہ دوسرا دھماکا میں نے نہیں کیا۔ “
”چلو میں نے مان لیا، پھر؟“ فروا نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا
 اب میرے پاس دو آپشن ہیںپہلایہ کہ میں اپنے آپ کو پولیس کے حوالے کرکے اپنا جرم تسلیم کرلوں۔ دوسرا یہ کہ میں اب یہ ملک چھوڑ کر چلی جاﺅں ، ہمیشہ کے لئے۔“
” تم اتنی بات تو سمجھتی ہو کہ اگر پولیس کے سامنے اعتراف کیا تو میرا نام ضرور آئے گا۔ مجھے کسی کی نہیں پروا،مگر پاپا اور حسن فوراً پہچان جائیں گے۔میں ان کے سامنے نہیں آنا چاہتی کہ میں تمہارے اس جرم میں شامل ہوں۔“
” کیا کروں، باہر چلی جاﺅں؟“‘ رافعہ نے گویا اجازت لی
” ظاہر ہے اس کے علاوہ تمہارے پاس آپشن ہی کیا ہے؟ اب تمہیں کوئی مدد چائیے؟“ فروا نے اپنا دھیان ڈرائیونگ پر رکھتے ہوئے پوچھا
” نہیں، سمجھ لو میری اور تمہاری یہ آخری ملاقات ہے۔ اگلے یو ٹرن سے واپس لو، اور مجھے وہیں اتار دو۔“ رافعہ نے کہا اور پھر ایک دم سے رو دی۔فروا نے اسے رونے دیا۔ واپس اسی جگہ آ جانے پر رافعہ نے اسے بھیگی پلکوں سے دیکھا اوراتر گئی اور فروا نے یوںکار آگے بڑھا دی،جیسے وہ اب اپنے ماضی کو نہیں دیکھنا چاہتی ہو۔
٭....٭....٭
 اکثر ایسا ہوتا کہ انسان اپنے کام میں ڈیڈ لاک محسوس کر کے جھنجھلاہٹ کا شکار ہونے لگتا ہے۔ جبکہ اسے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسی ڈیڈ لاک میں ہی اس کامیابی پوشیدہ ہے۔ دوپہر تک حسن کہ کیفیت یہی تھی،مگر شام ہوتے ہی وہ پر جوش ہو چکا تھا۔وہ بہت ساری معلومات اکھٹی کر چکا تھا۔اس میںسب سے اہم بات ،وہ آواز تھی، اور دوسرا ان دونوں سیل فون نمبرز پر بہت زیادہ رابطہ رہ چکا تھا۔اسے صرف یہی کھوج نکالنا تھا کہ یہ کس کا فون ہے اور وہ فون والا ہے کدھر؟ تب یہ معاملہ حل ہو جانے والا تھا۔ وہ اب تک کی ساری تگ ودو سمیٹ کر ایس پی سکندر حیات کے سامنے بیٹھا تھا۔ وہ سب کچھ دیکھ اور سن کر خوشی سے بولے
” ویل حسن، ان دو دنوں میں جو تم نے خاصی کامیابی حاصل کی ہے، بلا شبہ وہ تحسین کے لائق ہے ، لیکن مجھے مجرم چائیے۔“
” میری انتہائی کوشش یہی ہے ، بہت جلد وہ مل جائیں گے۔“ حسن نے مودب ا نداز میںکہا تو سکندر حیات نے کہا
” تمہاری ساری بات سن کر کچھ منظر واضح ہوا ہے۔لگتا ہے یہ منظم انداز سے اپنا کام کر رہے ہیں۔ان کی ہم پر نگاہ ہے، یہ تو واضح ہے، میں نے میڈیا پر سب سے زیادہ شور مچانے والے صحافیوں میں سے تین کو الگ کر لیا ہے، انہیں دیکھا جا رہا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ وہ کہیں نہ کہیں سے فیڈ ہو رہے ہیں۔اس پر دو ماہر بندے کام کر رہے ہیں، جیسے ہی کچھ سامنے آیا تمہارے ساتھ شئیر کریں گے۔“
” میں انتظار کروں گا۔“ حسن نے دھیمے لہجے میں کہا تو سکندر حیات نے اٹھتے ہوئے کہا
” مجھے ابھی ایک میٹنگ میں جانا ہے، صبح بات ہوگی،“ یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف نکلتا چلا گیا، انہی لمحات میں فروا اندر آ گئی۔ وہ اس کی طرف ناراض نگاہوں سے دیکھ کر بولی
” اگر اتفاق سے یہ ملاقات نہ ہوپاتی ، پھرتم تو نہیںملنے والے تھے۔“
تب حسن نے انتہائی سنجیدہ لہجے میں کہا
” دیکھو۔! فرہاد نے شیریں کے نہر کھودی، رانجھے نے ہیر کی بھینسیں چرائیں، یہاں تو پھر بھی تیرے باپ نے محض یہ کیس حل کرنے کی شرط لگائی ہے۔“
اس پر فروا منہ بسورتے ہوئے بولی
”اچھا، آﺅ میرے ساتھ، میں نے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔“ فروا نے اسے ٹائی سے پکڑا اور اپنے ساتھ لے بیڈ روم کی طرف چل دی۔ سکون سے بیٹھنے کے بعد اس نے پوچھا
” بتاﺅ،کیا بتانا چاہتی ہو ۔“
” بتانا نہیں، باتیں کرنا چاہتی ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے حسن کی گردن میں اپنا بازو ڈالا اور اسے لے کر بیڈ پر پھیل گئی۔ حسن کا چہرہ اس کے سامنے تھا۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولی۔” نا مجھے یہ بتاﺅ، کیا تم مجھے پاگل، بے وقوف، احمق یا بونگی، کیا سمجھتے ہو؟“
” ان میں سے کچھ بھی نہیں، بلکہ سب کا مکسچر۔۔۔“ حسن نے آرام سے کہا تو وہ مسکراتے ہوئے اپنا ماتھا اس کے ماتھے پر رکھتے ہوئے بولی
”میںسمجھتی ہوں کہ میں اس کیس میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں، ہمارا ساتھ بھی رہے گا اورمیں۔۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو حسن نے اس اپنے پہلو پر لٹاتے ہوئے کہا
” میں نے کب کہا کہ تم میرے ساتھ نہ رہو۔لیکن میرے خیال میں شادی کی تیاریاں زیادہ ضروری ہیں، اور سب سے بڑھ کر تمہارا تحفظ،میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان ہو۔“حسن نے کہا تو وہ چند لمحے اس کی طرف عجیب سی نگاہوں سے دیکھتی رہی پھر اسے اپنے ساتھ بھینچ کر بولی
”ٹھیک ہے۔اپنا خیال رکھنا۔“ 
” وہ باس تو اپنی افسری دکھا کر چلا گیا۔تم میری بھوک ہی کا خیال کر لو۔“ حسن نے کہا تو وہ ہنستے ہوئے اٹھ گئی۔
اس وقت وہ کھانا کھا کر فروا کے بیڈ روم میں چائے پی رہا تھاکہ جہاں زیب والے سیل فون پر کال آگئی۔ سامنے بیٹھی فروا کو دیکھ کر اسے خیال آیا۔ اس نے فون رسیو کیا تو دوسری طرف سے اسی آواز میں غرا کر کہا گیا
” صبا۔ ! کتے کی بچی، میں نے کہا تھا کہ مجھے ملو، نہیں ملی نا، میں تمہارا وہ برا حشر کروں گا۔ اور تم۔۔“
” بھونکو مت۔! میڈم کسی سے نہیں ملنا چاہتیں، وہ بیمار ہیں، بار بار فون کر کے تنگ مت کرو۔“ حسن نے کافی حد تک اپنی آواز بدل کر کہا
” چلو ،بتاﺅ، تم لوگ ہو کہاں، میں آجاتا ہوں۔“ وہ غرایا
” کہا نا وہ کسی سے نہیں ملنا چاہتیں۔“ وہ بھی غصے میں بولا
”اگر یہ بات ہے تو میں اس کتیا کوچوبیس گھنٹے کے اندر اندر اپنے سامنے لے آﺅں گا۔ بتا دینا اسے۔“
” کہا نا بھونکو مت، تم میں اتنا دم ہوتا نا تو اب تک میڈم کو تلاش کر چکے ہوتے۔گھنٹے کیا سا ل بھی لگے رہو گے تووہ نہیں ملیں گی۔سمجھے۔“ اس نے سخت لہجے میں کہا
” تم صرف اس کی مجھ سے بات کراﺅ، پھر میں تجھے بھی دیکھ لیتا ہوں۔“
” اگر تم تمیز سے بات کرو تو میں ایک کوشش کر لیتا ہوں، کچھ دیر بعد فون کرنا۔“ اس نے کافی حد تک سکون سے کہا تو دوسری طرف سے فون بند کردیا گیا۔ حسن نے فون بند کر کے فروا کی طرف دیکھا اور کہا،” میں تمہیں اب بتاتا ہوں کہ یہ کہانی کیا ہے ، تم اس کے مطابق اس سے بات کرنا، ہوا یوں کہ ۔۔۔“
”میں بات کرلوں گی ، مجھے کیا کہنا ہے میں سمجھتی ہوں۔“ فروا نے کہا اور فون اپنی طرف کر لیا۔ وہ حسن کو بتا نہیں سکتی تھی کہ اسے تو ساری کہانی معلوم ہے۔ وہ چائے پی چکے تو فون آگیا۔فروا نے کال رسیو کرتے ہوئے بیمار سے لہجے میں کہا
” بولو، کیا ہو گیا ہے تمہیں؟“
” تم ہمارا نقصان کر کے غائب کدھر ہو؟اور یہ تیری آواز کو کیا ہوا ہے؟“اس نے انتہائی تلخی اور حقارت سے کہا
” مجھے دو گولیاں لگی ہیں، اور میں کس طرح زندہ بچ پائی ہوں ، میں خود نہیں جانتی، چار دن بعد ہوش آیاہے ،بولو،کس لئے ملنا چاہتے ہو تم؟“
”تیرا ڈانس دیکھنے کے لئے۔بے غیرت عورت تیری وجہ سے وہ لوگ میری جان کے دشمن بن گئے ہیں ۔ان سے ملنے والے ڈالر بھی لے کر ، میری ساری دولت صاف کر کے ،مجھے کنگال کردیا اور خود غائب ہو گئی ہو، پولیس کھوج میں لگ چکی ہے ۔ میرا ساراکام ٹھپ ہو گیا، اب بھی بتاﺅں کہ میں تجھے کیوں تلاش کر رہا ہوں، تم کدھر ہو اورمال کدھر ہے؟“
”اتنے الزام مت دو، اور اب مجھے فون مت کرنا،ورنہ میں یہ فون ہی بند کر دوں گی۔“ فروا نے بیمار آواز میں کہا
” دیکھو۔! مجھے تم سے کوئی سروکار نہیںہے۔میری دولت واپس کرو اور جدھر چاہو دفعہ ہو جاﺅ۔“ وہ تیزی سے بولا
” دیکھو، اگر تم یہ زعم رکھتے ہو کہ طاقت سے میری دولت چھین لوگے تو یہ تمہاری بھول ہے، اصل حقیقت یہ ہے کہ میرے پاس تمہاری دولت نہیں ہے، تم اس کا یقین کرو۔“ اس نے بے چارگی سے کہا
”میں اب بھی تمہیں سمجھا رہا ، کہ جھوٹ مت بولو، “ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر لے لئے رکا اور پھر بولا،” تو پھ میی دولت کدھر گئی، میں یہ مان ہی نہیں سکتا کہ تمہارے سوا اسے۔۔۔“
” اس بحث میں کچھ نہیں رکھا، بولو کہاں ملنا ہے لیکن یہ یاد رکھنا اگر تم نے ذرا سی بھی چالاکی دکھانے کی کوشش کی تومیں تمہیں معاف نہیں کروں گی ۔“ فروا دھیمے سے بولی تو کچھ دیر بعد یہ طے پا گیا کہ کل دوپہر شہر کے معروف ہوٹل کی لابی میں ملاقات ہو گی۔ فون بند کر دیا گیا۔ حسن کے چہرے پر انتہائی درجے کی سنجیدگی پھیل چکی تھی۔ اس نے زیادہ بات نہیں کی اور وہ فوراً ہی اٹھ کر چلا گیا۔
٭....٭....٭ 
رات کا پہلا پہر گزر جانے کو تھا۔ رافعہ ہوٹل کے کمرے سے نکلی اور اپنے اکلوتے بیگ کے ساتھ ریسپشن پر آ گئی ۔ وہیں اس کی ادھیڑ عمر مچھلی کے دو لوگ اس کے انتظار میں کھڑے تھے۔اس کا بیگ ایک آدمی نے پکڑا تو وہ سکون سے ہوٹل کے باہر آگئی ۔ باہرڈرائیور اس کے لئے کار لئے کھڑا تھا ۔ وہ اس میں بیٹھ گئی۔ وہ دو لوگ بھی اس کے ساتھ بیٹھے اور کار ائیر پورٹ کی طرف چل دی ۔ وہ مغموم تھی ۔ اسے اپنا شہر چھوڑ جانے کا بہت دکھ تھا۔ اچانک ان کی کار کے آگے پیچھے کاریں اس طرح سے آ گئیں جیسے وہ انہیںر وکنا چاہتے ہوں۔ پہلے تو اسے سمجھ میںنہیں آیا لیکن جب ساتھ بیٹھے ہوئے لوگ ایک دم سے الرٹ ہو کر اپنے اپنے پسٹل نکال چکے تو اسے سنگینی کا احساس ہوا۔ سامنے والی کار ان کی سائیڈ دبا ہی تھی۔
” میڈم لگتا ہے کوئی گڑ بڑ ہے ۔ آپ پریشان نہیں ہونا ہم دیکھتے ہیں۔“ایک بندے نے کہا اور ڈرائیور کو ہدایت دینے لگا۔اسی دوران ایک کار نے انہیں سائیڈ ماری تو کار لرز کر رہ گئی۔انہیں یا تو کار روکنا تھی یا پھر ان کے ساتھ مقابلہ کرنا تھا۔پسنجر سیٹ پر بیٹھے ہوئے بندے نے غصے میں آگے والی کار پر فائر جھونک دیا۔ تبھی پیچھے والی سے کئی فائیر ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی ان کی گاڑی کا ٹائر پھٹ گیا۔مجبوراً انہیں کار روکنا پڑی۔ کار بت قابو ہو کر فٹ پاتھ پر چڑھ گئی تھی۔ وہ ایک ایک کرکے سب کار سے باہر آگئے ۔ اس دوران ان کا تعاقب کرنے والے بھی دونوں کاروں سے باہر نکل آئے تھے۔ رافعہ نے وہاں سے بھاگنے کے لئے جیسے ہی قدم اٹھائے، سامنے سے چار لوگ اس کی جانب بڑھے۔رافعہ تب تک انہیں پہچان چکی تھی۔وہ راحیل کے لوگ تھے۔وہ انہیں دیکھتے ہی گھبرا گئی تھی۔فرار کا کوئی راستہ نہیں تھا۔اس کے ساتھ آنے والوں نے اپنے پسٹل ان پر تان لئے۔
” کون ہو تم اور کیا چاہتے ہو؟“ اس کے ساتھ کھڑے ایک بندے نے غراتے ہوئے پوچھا
” تیرے ساتھ کھڑی اس لڑکی کو لے جانا ہے ، آرام سے دے دو تو ٹھیک ورنہ خواہ مخواہ جان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔“ سامنے کھڑے موٹے سے شخص نے کہا
” تم مجھے ایسے نہیں لے جا سکتے ہو ۔چلے جاﺅ یہاں سے ورنہ بہت برا ہوگا تم لوگوں کے لئے۔“ رافعہ نے کہا تو سامنے کھڑے موٹے نے اس کی کلائی پکڑنا چاہی، اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ ڈالتارافعہ کے باڈی گارڈ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا اور ایک دوسرے ہاتھ کا گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا۔ اسی لمحے اس کے دوسرے ساتھی ان پر پل پڑے۔اگرچہ ان کے ہاتھ میں اسلحہ تھا، لیکن وہ جانتے تھے کہ بغیر گولی چلائے رافعہ کو چھین کر لے جا سکتے ہیں۔روڈلائیٹ میں وہ ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔ سامنے والے اچھے خاصے فائیٹر تھے۔ اسی لمحے اس کے پیچھے ایک کار آ رکی۔فوراً ہی اس کے دروازہ کھول دیا گیا۔
” چپ چاپ ، کار میں بیٹھ جاﺅ، ورنہ ۔۔۔“ سامنے والے نے سرد لہجے میں کہتے ہوئے پسٹل نکالا۔ وہ بری طرح پھنس چکی تھی۔اس نے ادھر اُدھر دیکھا۔کوئی بھی اس کی مدد کو نہیں آسکتا تھا، اور اگر کوئی آ بھی جاتا تب تک اس کی روح پرواز کر جانا تھی۔وہ یہ سوچ ہی رہی تھی کہ اس کے دائیں جانب کھڑے ایک بندے نے اسے ہلکا سا دھکا دیا ۔ وہ کار میں گر گئی۔اس کے ساتھ ہی وہ تین بندے کار میں بیٹھے تو وہ چل دی۔
رافعہ کے سامنے راحیل کھڑا تھا۔ اس نے رافعہ کو سر سے پاﺅں تک دیکھا اور دیر تک ہنستا رہا ، پھر انتہائی طنزیہ لہجے میں بولا
” میرے ساتھ کل دوپہر کی ڈیل کر کے تم بھاگ جانا چاہ رہی تھی۔تم کیا سمجھتی ہو کیا میں ایسا ہونے دوں گا۔ “
” کون سی ڈیل؟“ رافعہ نے کہا تو راحیل ایک دم سے چونک گیا، اس نے غور سے اس کی جانب دیکھا اور کہا
” بولو۔۔۔ بولو۔۔ ذرا یہی بات پھر سے کہنا، تمہاری تو آواز خراب تھی۔“
راحیل کے یوں کہنے پر رافعہ کانپ کر رہ گئی۔ وہ سمجھ چکی تھی کہ حسن نے اس سیل فون کی وجہ سے اسے ٹریپ کرنے کی کوشش کی ہوگی۔ اب حسن ہی انجانے میں اسکے دام میںآگیاتو۔۔۔ وہ اس سے زیادہ نہ سوچ سکی۔ اس نے دیکھا راحیل پاگلوں کی طرح آگے بڑھا اور ہذیانی انداز میں اس کے کپڑے پھاڑتے ہوئے بولا
” دکھاﺅ ۔! کہاں ہیں تمہارے زخم، کہاں لگی ہے تیرے گولی، جھوٹ بولتی ہو تم۔۔۔ یا پھر وہ کون ہے جو مجھے ٹریپ کر رہا ہے؟“ راحیل نے کہا اور رافعہ کا چہرہ اپنے ہاتھ میں لے جھٹکا دیا۔پھر ایک زناٹے دار تھپڑ مارتے ہوئے بولا،” بول، کس کے پاس ہے تیرا فون؟ کسے دیا ہے تو نے؟“ وہ کچھ نہیں کہہ سکتی تھی۔ اس کی آنکھوں میں سے خوف چھلک رہا تھا۔ یہ خوف اس کے اپنے لئے نہیں بلکہ حسن اور فروا کے لئے تھا۔ بلا شبہ انہی کے پاس اس کا فون تھا اور وہی اسے ٹریپ کر سکتے تھے۔اس کی خاموشی پر راحیل نے غصے میں آکر ایک تھپڑ اس کے منہ پر دے مارا۔وہ گھوم کر گر گئی۔
” تممجھے جان سے بھی مار دو گے نا، تو میں پھر بھی نہیں بتاﺅں گی۔“
” تو اس کا مطلب ہے تم پولیس والوں سے ملی ہوئی ہو۔ تم نا بتاﺅ، اب میں تمہیں بتاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ اپنے قریب کھڑے بندوں سے بولا،” لے جاﺅ اسے اور پھینک دو تہہ خانے میں، صبح تک یہ خود بھونکنے لگ جائے گی۔“
تبھی دو بندے آگے بڑھے اور اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے۔
٭....٭....٭
 حسن ہوٹل کی لابی میں تھا۔وہ اپنی پوری تیاری کے ساتھ آیا تھا۔ وہ اکیلا بیٹھا داخلی دروازے کی سمت دیکھ رہا تھا۔مقررہ وقت قریب آگیا تھا۔ مگر ابھی تک اسے کوئی ایسا چہرہ نہیں ملا تھا جسے وہ مشکوک کہہ سکے۔ وہ بظاہر پر سکون انداز میں بیٹھا ہوا تھا ، لیکن گذرتے وقت کے ساتھ اس کے اندر بے چینی شروع ہو گئی تھی۔کوئی ہلچل توکیا ، فون تک نہیں آیا تھا۔ وہ ایک دم سے پریشان ہو گیا۔ مقررہ وقت سے آدھا گھنٹہ زیادہ ہو گیا تھا۔ اس وقت وہ اٹھ کر جانے کی سوچ رہا تھا کہ جہاں زیب والا فون بج اٹھا۔ اس نے جلدی سے کال رسیو کی تو دوسری طرف سے بڑے طنزیہ انداز میں کہا گیا۔
” انسپکٹر حسن۔! تم ابھی چوہے بلی کا کھیل نہیں سکتے۔ میں نے کہا تھا نا کہ تیسری وارننگ نہیں دوں گا۔ اور وہ میں نے نہیں دی۔یہاں پر وقت ضائع نہ کرو اور اپنی محبوبہ اور منگیتر فروا کو تلاش کرو۔ تمہارے لئے اتنا ہی کافی ہے۔“
” بکواس نہیں کرو،ہمت ہے تو سامنے آﺅ۔“ اس نے غصے میں کہا
” وہی کہا ہے نا کہ تم چوہے بلی کا کھیل نہیں کھیل سکتے۔ابھی تھوڑا صبر کرو، سامنے بھی آجاﺅں گا اور پھر تم کچھ بھی نہیں کرپاﺅ گے۔“ راحیل نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا
” اگر تم نے ۔۔۔ “ حسن نے کہنا چاہا لیکن اس نے فون بند کر دیا۔ حسن نے ایک لمحے کے لئے بند فون کو کسی ہارے ہوئے جواری کی مانند دیکھا۔ پھر اپنی جیب میں ڈالتے ہوئے وہ تیزی سے ہوٹل لابی سے باہر نکلا۔ وہ سیدھا پارکنگ میں گیا۔ اس نے اپنی گاڑی لی اور ہوٹل سے نکلتا چلا گیا۔ وہ تیزی سے سوچ رہا تھا۔اسے یقین نہیں ہو رہا تھا کہ فروا اغواءبھی ہو سکتی ہے۔ہوٹل سے نکل کر اس نے فروا کا فون ملایا تو دوسری جانب سے راحیل ہی نے فون رسیو کیا۔ تبھی وہ قہقہ لگاتے ہوئے بولا
” میں انتظار کر رہا تھا تمہارے فون کا۔ تم ضرور تصدیق کرو گے، یہ لو بات کرو۔۔“ اس نے کہا تو ایک لمحہ کے لئے خاموشی چھا گئی، پھر اسپیکر آن پر فروا نے چیخ کر کہا،” حسن تم میرے لئے مجبور نہ ہونا،میںمرتی ہو ں تو مر جاﺅں یہ بزدل۔۔۔“ اس اتنا ہی کہا تھا کہ فون راحیل نے لے لیا،” سنو۔!اگر تم دو گھنٹے کے اندر اندر یہاں سے کسی بھی ملک فلائی کر جاﺅ، اور تمہارا ہونے والا سسر کسی بھی چینل پر بیٹھ کر یہ اعتراف کر لے کہ وہ مجرم نہیں پکڑ سکا اور اپنا استعفی دے رہا ہے تو میں تمہاری محبوبہ کو چھوڑ دوں گا۔ دو گھنٹے کا مطلب دو گھنٹے، دو گھنٹے ایک منٹ نہیں۔“ اس نے کہا اورفون بند کر دیا۔حسن نے بے چینی سے فون بند کر دیا۔ 
اس نے ایک لمحے کو سوچا اور اپنا فون نکالا اور ایس پی سکندر حیات کو فون ملانا چاہتا تھا کہ ایک دم سے فائر کی آواز آئی جو اس کی کار میں لگی۔ اس نے فون وہیں چھوڑ دیا اور بیک مرر میں دیکھا۔ ایک سیاہ رنگ کی کار اس کے پیچھے تھی،جس میں سے ایک شخص نے پسٹل والا ہاتھ باہرنکالا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا فائر کرتاحسن نے اپنی کار کی رفتار تیز کر دی۔ اس نے دیکھا وہ سیاہ کار اسی فاصلے سے اس کے پیچھے آ رہی تھی ۔وہ تیز رفتاری سے کاربھگاتا لے جا رہا تھا۔اسکی نگاہ سامنے بھی تھی اور تعاقب کرنے والی کار پر بھی۔وہ کار اسی کے پیچھے آ رہی تھی۔ وہ سڑک پر تیزی سے جاتے ہوئے ایک جانب مڑگیا۔ سامنے شہر کے اسٹیڈیم کا بڑا سا پھاٹک کھلا ہواتھا۔ اس کے پختہ روڈ پر وہ اپنی کار لے جاتا چلا گیا۔اس کے پیچھے وہی سیاہ کار بھی آگئی۔ تبھی اس کارسے یکے بعد دیگرے فائر ہونے لگے۔ اس کار کے پیچھے ایک فور وہیل جیپ تھی۔حسن اپنی گاڑی گراونڈ میں لے گیااور درمیان میں جاکر یو ٹرن لیا اور سامنے کی سمت کر کے کار روک دی۔ وہ دونوں گاڑیاں اس کے سامنے تھیں۔حسن نے چشم زدن میں اپنا پسٹل نکالا او ر فائر کرنے لگا۔ آمنے سامنے کی فائرنگ شروع ہو چکی تھی۔ ایسے میں اسٹیڈیم کے بڑے پھاٹک سے کئی ساری سرکاری گاڑیاں اندر آگئیں۔انہوں نے ان دونوں گاڑیوں کو گھیرے میں لے لیا۔ 
”تم لوگ گھیرے جا چکے ہو۔ میرے دس گننے تک ،ہتھیار پھینک کر گاڑیوں سے باہر آجاﺅ، ورنہ ہم فائر کھول دیں گے۔ ایک۔۔۔“ سرکاری گاڑیوں میں آنے والے ایک آفیسر نے اسپیکر میں اعلان کیا اور اس کے ساتھ ہی وہ دس تک گنے لگا۔ ابھی گنتی مکمل نہیں ہوئی تھی کہ ان دونوں گاڑیوں کے دروازے کھلے اور ان میں سے ایک ایک کرکے چھ بندے باہر آگئے۔ ان کے ہاتھ اوپر تھے۔ اس وقت پولیس ان لوگوں کو قابو کررہی تھی کہ حسن کا سیل فون بج اٹھا۔
” مجھے پتہ تھا، تم نے فیلڈنگ کی ہوئی ہوگی۔ یہ فقط میرے چند مہرے ہیں۔ لیکن یہ بھی میرے لئے بہت اہم ہیں۔انہیں اگر ذرا سی بھی خراش آئی تو سمجھو، تمہاری محبوبہ کاکیا حال ہوگا۔“ اسے شخص نے ہنستے ہوئے کہا
” کوئی بات نہیں، میں انہیں مہمان بنا کر رکھوں گا۔ اب زیادہ وقت نہیں، تم بھی میرے مہمان بن جاﺅ گے۔“ حسن نے طنزیہ لہجے میں کہا
” یہ تمہاری بھول ہے انسپکٹر حسن، اور ہاں، دوگھنٹوں میں تم کافی وقت ضائع کر چکے ہو۔“ راحیل نے کہا اور فون بند کر دیا۔حسن نے ایک نگاہ فون اسکرین پر ڈالی، پھر اسے جیب میں ڈال لیا۔ ایک دم سے مایوسی اس پر چھا گئی تھی۔ وہ تھکے ہوئے قدموں سے اپنی کار کی جانب بڑھ رہا تھا کہ انسپکٹر نعیم کا فون آ گیا۔
” سر۔! آپ کہاں ہیں؟“وہ تیز اور پر جوش لہجے میں بولا
” خیریت، بات کیا ہے۔“ اس نے پوچھا 
” سر آپ نے جو مجھے نمبر دیا تھا، اس کی لوکیشن کا اندازہ ہو گیا ہے۔ میں نے ایس پی صاحب کو بھی انفارم کر دیا ہے اور میں پولیس پارٹی ترتیب دے رہا ہوں، باقی آپ۔۔۔“
” گڈ۔! وقت ضائع نہیںکرنا، میں پہنچ رہا ہوں۔“ حسن نے تیزی سے کہا اور نکل پڑا۔
٭....٭....٭
رافعہ اپنے گھٹنوں میں سر دئیے ننگے فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ اس طرح راحیل کے نرغے میں آجائے گی۔ وہ بھوکی پیاسی رات سے وہیں پڑی مسلسل سوچے جا رہی تھی کہ اس قدر احتیاط کے باوجود راحیل کو اس کے بارے میں کیسے پتہ چل گیا کہ وہ اس ہوٹل میں ہے اور اس نے وہاں سے نکل کر ائیرپورٹ کی طرف جانا ہے۔سوچ سوچ کر اس کا دماغ پک گیا تھا۔ اس بارے صرف فروا کو معلوم تھا یا پھر اس مچھلی کو جس کے پاس وہ دوبئی جا رہی تھی۔ جہاں زیب کو ختم کرنے کے بعد وہ اسی ہوٹل میںتھی۔ اس نے اس قدر احتیاط کی تھی وہ صرف اپنے کمرے تک محدود تھی۔اس کا زیادہ تر رابطہ فون پر رہتا تھا اور وہ بھی انہی دو لوگوں کے ساتھ۔ اس کے بارے میں اگر راحیل کو معلوم ہوا ہوگا تو صرف انہی دو لوگوں میں سے کسی ایک نے بتایا ہوگا۔ یہ سوچ اپنی جگہ ، لیکن جیسے ہی اسے حسن اور فروا کا خیال آتا، اس کا کلیجہ منہ کو آجاتا، وہ اسے سیل فون کی وجہ سے ٹریپ ہو گئے ہوں گے۔ نجانے وہ بچ بھی پائیں ہوں گے یا نہیں۔ اسے وقت کا اندازہ ہی نہیں تھا۔ بھوک اور پیاس سے وہ نڈھال ہو رہی تھی۔ ایسے میںتہہ خانے کا دروازہ کھلا اور دو بندے آگئے۔
” چلو اٹھو، باس بلا رہا ہے۔“ان میں سے ایک نے کہا تو وہ بہ مشکل اٹھی اور باہر کی جانب چل دی۔وہ اسے ایک کمرے میںلے گئے ۔جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی، سامنے دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے فروا فرش پر بیٹھی ہوئی تھی۔ دونوں ہی ایک دوسری کودیکھ کر بری طرح چونک گئی تھیں، تاہم اگلے ہی لمحے رافعہ کی نگاہوں میں اجنبیت آگئی۔اس کے اندر جوار بھاٹا اٹھ گیا تھا۔وہی ہوا جس کا اسے ڈر تھا۔سیل فون کی وجہ سے وہ ٹریپ ہو گئے تھے۔ اس کے اندر شدید غصہ اٹھنے لگا۔ جسے وہ مچھلی سمجھ کر اپنے کانٹے میں پھنسایا تھا، وہی اسے نگل گئی تھی۔
” آئےے آئےے مہارانی جی آئےے۔! کیا کچھ سمجھ میں آیا کہ تم نے اپنا سیل فون کس کو دیا تھا اور کون میرے ساتھ بات کرتا رہا ہے۔“ راحیل نے انتہائی طنزیہ لیجے میں کہا
” میں نہیں جانتی ۔“ اس نے غصے میں کہا تو وہ استہزایہ لہجے میں بولا،” چلو نہ سہی، میں تمہیں بتاتا ہوں،تمہارا فون حسن نامی ایک پولیس والے کے پاس ہے، جس نے آج مجھے ٹریپ کرنے کی کوشش کی ، وہ تو کر سکا، سوائے چند مہروں کے ، لیکن شطرنج کی اس بساط کی ملکہ میں اٹھا لایا ہوں۔ جو یہ تمہارے سامنے بیٹھی ہے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے فروا کی جانب اشارہ کیا۔ جو پوری بات سمجھنے کے لئے بڑے غور سے ان کی باتیں سن رہی تھی۔
” تو مجھے کیا، یہ تممجھے کیوں بتا رہے ہو؟“ رافعہ نے نخوت سے کہا
” اس لئے مہارانی صاحبہ کہ تم فوراً میری رقم کے بارے بتاﺅ اورمیں یہاں سے چلا جاﺅں۔ تم دونوں کو آزاد کر کے۔کیونکہ مجھے تم دونوں کو مارنے میںکوئی دلچسپی نہیں ہے، ہاں اس وقت ضرور ہو جائے گی، جب تم اور اس کا باپ میری بات نہیں مانو گے۔ تب مجھے مارنا پڑے گا۔ مجبوری ہے نا یار۔۔“ آخری لفظ اس نے مذاق اڑانے والے انداز میں کہے۔تب رافعہ نے گہری سنجیدگی سے کہا
” تو پھر سنو۔! ساری رقم اسی کے پاس ہے ، جس نے تمہیں میرا پتہ دیا ہے۔کل شام وہ رقم میں اس کے اکاﺅنٹ میں ٹرانسفر کر چکی ہوں۔ میں یہ سمجھ گئی ہوں کہ اس نے رقم ہڑپ کرنے کے لئے مجھے تمہارے حوالے کر دیا، تاکہ تم مجھے مار دو۔ قصہ ختم، اب چاہو تو تو مجھے مار دو۔ رقم تجھے پھر بھی نہیں ملنی۔“
” تم جھوٹ بول رہی ہو۔“ اس نے غصے میں کہا
چاہو تواسی سے پوچھ لو، ہو سکتا ہے اب وہ تیرا فون ہی نہ پک کرے۔ تو پھر اس کا چینل والا گہرا صحافی دوست، سلمان باجوہ اس سے پوچھ لو، وہ بھی تو اسی گینگ کا ہے ، ہے ہمت تو کر لو بات، مجھے تو تم نے مار ہی دینا ہے۔“یہ کہتے ہوئے رافعہ ہنس دی۔ وہ اپنا پیغام فروا کو دے چکی تھی۔ کیونکہ یہ سن کر وہ بھی چونک اٹھی تھی۔ راحیل چند لمحے کھڑا سوچتا رہا، پھر اس نے اپنا فون نکالا اور نمبر پش کرنے لگا۔ رابطہ ہونے میں چند لمحے لگے۔ راحیل نے اسپیکر آن کر دیا۔
” ہیلو۔!“ دوسری طرف سے کہا گیا۔ آواز خاصی اونچی تھی۔
” صرف اتنا بتا دو کہ صبا کی رقم تیرے اکاﺅنٹ میں ۔۔۔“
” ہاں ، میرے پاس ہے، اور میرے ساتھ تمیز سے بات کر ۔“دوسری طرف سے کہا گیا
” تم نے مجھے دھوکا دیا۔۔ میں تجھے ۔۔۔“ راحیل نے کہنا چاہا تو وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا
” تو ابھی بچہ ہے یار، بڑے کہہ گئے ہیں کہ اڑنے سے پہلے اپنے پَر گن لو۔ تو بہت اونچی اڑان اڑنا چاہتا تھا نا،تیرے پَر ہی نہیں تھے۔تُو کیسے اُڑ سکتا ہے۔ترس آتا ہے مجھے تم پر۔ بے چارہ ، چلو شاباش ہمارا باقی کام بھی تم کرو، انہیں ماردو، جو لڑکیاں اس وقت تیرے پاس ہیں۔ مفت میں۔“
” ابے بھڑوے تو میرے سامنے آ۔۔ میں تجھے۔۔“ر احیل نے چیخ کر کہا تو وہ بولا
” کچھ بھی نہیں کر سکتا تو، ان دونوں کو ہر حال میں تجھے مارنا ہوگا۔ کیونکہ ابھی کچھ دیر میں پولیس تجھ تک پہنچنے والی ہے۔ وہ تمہیں مار دے گی۔ تم لاکھ چیخو کہ دھماکے تم نے نہیں کئے، مگر وہ تو نہیں مانیں گے۔ بے چارہ ٹشو پیپر کی مانند استعمال ہو گیا۔ تیرے جیسے کئی بھڑوے ہم نے استعمال کئے ہیں۔“ یہ کہہ کر اس نے قہقہ لگا دیا
” دیکھو تم ایسا نہیں کر سکتے، میں تمہارے سارے رابطے بتا دوںگااور۔۔“ راحیل نے کافی حد تک خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا
” او بے وقوف۔! تیرے جیسے کئی ہیں وہ کام کر رہے ہیں ہمارے لئے، تیرے ساتھ ہی کہانی ختم ، سارے رابطے ختم۔ اس لئے تجھے بھی ہر حال میں مرنا ہوگا ، پولیس والے نہیں تو میرے بندے تجھے مار دیں گے، جو اب بھی تیرے ارد گرد ہیں۔“ اس نے مزہ لینے والے لہجے میں کہا تو وہ سرسراتے ہوئے بولا تو راحیل نے ایک دم سے ہنستے ہوئے کہا
” اس طرح فون پر تم مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتے ،خیر۔! دیکھتے ہیں، پولیس مجھے تک پہنچتی ہے یا میں تم تک پہلے ۔۔۔“
” میرے بندے تیرے ارد گرد نہیں ہیں، نہیں یقین آتا ناتو سنو۔!میں نے ایک چھوٹا سا ڈرامہ کیا ہے۔ آج تم نے انسپکٹر حسن سے ملنا تھا نا۔ تم نہیں گئے ، مگر تمہارے آدمیوں نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا اور پکڑے بھی گئے ہیں۔ وہی اب تیرے اس ٹھکانے کا پتہ بتا کر انہیں یہاں لا رہے ہیں۔تھوڑا انتظار کرو۔ مرنے والے بندے کے ساتھ اتنی تو ہمدردی کی جاسکتی ہے نا۔“ یہ کہہ کر اس نے ایک طویل قہقہ لگایا اور فون بند کر دیا۔
راحیل غصے میں پیر پٹخنے لگا۔ اس نے رافعہ کی طرف دیکھا اور دانت پیستے ہوئے بولا
” تم ، تمہاری وجہ سے یہ سب ہوا ، بم سے اڑانے گئی تھی، سب کچھ ختم ہو گیا۔“
”یہ کوئی نئی بات نہیںہے۔ بڑی مچھلی ، چھوٹی مچھلی کو کھا گئی۔“ یہ کہہ کر اس نے ناز بھرے انداز میں کہا،” دیکھ راحیل، رقم میں نے ضائع کی ہے نا، تو واپس بھی میں ہی لا سکتی ہوں، اگر تم میرا ساتھ دو اور مجھ پر یقین کرو تو۔۔۔“ یہ کہہ کر وہ اس کے سینے سے جا لگی۔ پھر اس کے ہونٹوں پر اپنی انگلی کی پور پھیرتے ہوئے بولی،”وہ اسی شہر میںہیں اور ابھی انہوں نے یہاں اور کئی دھماکے کرنے ہیں۔تم جانتے ہو کہ وہ غیر ملکی ایجنٹ بنے ہوئے ہیں۔ کر لیں گے تلاش انہیں۔ فی الحال یہاں سے نکلو۔“یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی بانہیں اس کے گلے میں ڈال دیں۔راحیل چندلمحے اس کی بات پر غور کرتا رہا پھر اس اپنے سینے سے لگا کر اس کے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دئیے، چند لمحے ایسے ہی رہنے کے بعد اس خعد سے الگ کرتے ہوئے بولا
” ٹھیک ہے، نکلو یہاں سے۔۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے فروا کی جانب دیکھا اور اپنا پسٹل نکالتے ہوئے بولا،” اب اس کا قتل بھی بڑی مچھلی کے کھاتے میں جائے گا۔۔۔ میں اس کی گیم اسی پر الٹا دوں گا۔“
” یہ کیا کہہ رہے ہو تم، اسے جانے دو ، یہی تو پولیس کو بتائے گی کہ اصل بات کیا ہے،کوئی بڑی مچھلی بھی ہے ، جس نے پولیس کے ساتھ ڈرامہ کر دیا۔ اسے چھوڑو اور نکلو۔“ رافعہ نے کہا اور باہر کی سمت لپکی تو راحیل نے سوچتے ہوئے کہا۔
” نہیں صبا۔!اس لڑکی کا مرنا ضروری ہے۔بڑی مچھلی کو یہ پیغام جانا چاہئے کہاانہوں نے جو چاہا وہ ہو گیا۔ یہاں پولیس چھاپہ مارے اور ہامرے بندوں کو بھی پکڑ کر لے جائے، سمجھ رہی ہو نا میری بات، ہم گم ہو جائیں گے توانہیںآسانی سے تلاش کر پائیں گے۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے پسٹل کوبولٹ مارا اور اس کا رخ فروا کی جانب کر دیا۔اس لمحے رافعہ میں نجانے کہاں سے اتنی قوت آگئی، اس نے اپنے دائیں ہاتھ سے اس کی کلائی کوایک جھٹکا دیا اور دوسرے ہاتھ سے اس سے پسٹل چھین کر راحیل پر تانتے ہو بولی
” کہا نا اسے کچھ نہیں کہنا،اب تم بھگتو۔ یہ کہتے ہوئے اس نے الٹے قدموں باہرکی جانب جانے لگی۔ اس نے فروا کو اشارہ دیا کہ اٹھ آئے ۔ فروا تیزی سے اٹھی اور اس کے پیچھے آ گئی۔ راحیل اس کی طرف دیکھتا رہا۔ اگلے ہی لمحے اس نے اپنا دوسرا پسٹل نکالنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو رافعہ نے ٹریگر دبا دیا۔
 ” بھاگو فروا۔“ رافعہ نے کہا تو وہ دونوں کمرے سے نکل کر کاریڈور تک آ گئیں۔فروا آگے تھی اور رافعہ پیچھے، اچانک عقب سے گولیاں برسنا شروع ہو گئیں۔رافعہ بھی فائر کرتے ہوئے بھاگ رہی تھی۔ ایک دم سے کئی آدمی ان کے پیچھے بھاگے۔اسی لمحے باہر سے فائرنگ ہونے لگی۔ پولیس پہنچ چکی تھی۔فائرنگ کی آواز سے ماحول جھنجھنا اٹھا تھا۔وہ دونوں ایک کار تک پہنچ گئیں تھیں۔ فروا بیٹھ چکی تھی کہ اسی وقت رافعہ کی دلدوز چیخ بلندہوئی۔فروا نے مڑ کر دیکھا، گرتے گرتے راحیل نے اس پر گولیاں برسا دی تھیں۔ اس کے ساتھ ہی وہ گر گیا۔فروا نے صورت حال دیکھی اور رافعہ کو پسنجر سیٹ پرکو گھسیٹ لیا۔انکے اوپر سے گولیاں برس رہی تھیں۔ تبھی اسے حسن کا چہرہ دکھائی دیا۔ تب اس نے اونچی آواز میں کہا 
” حسن ، اپنے لوگوں سے کہو، مجھے راستہ دیں۔“
اس نے اشارہ کیا اور فروا کار لے کر ان کے درمیان سے نکلتی چلی گئی۔ اس کا رخ ہسپتال کی طرف تھا۔جبکہ آنکھیں بند کئے رافعہ بڑبڑا رہی تھی۔ 
”اب مجھے مر جانے دو فروا، بہت ذلت بھگت لی۔ جی کر کیا کروں گی۔ خوشی اس بات کی ہے کہ تو مجھے کفن دے کر قبر میں اتار دے گی ۔میری لاش ذلیل نہیں ہوگی۔“
” بکو مت ۔! اور خود کو سنبھال کر بیٹھی رہو، ابھی ہسپتال پہنچ جاتے ہیں۔“ اس نے تیزی سے کہا اور کار کی رفتار مزید بڑھا دی۔
٭....٭....٭
 شام ہو رہی تھی۔ مغربی اُفق پر ابھی لالی تھی۔ ایسے وقت میں ایس پی سکندر حیات کے ڈرائینگ روم میں ایک صوفے پرچوہدری شہاب بیٹھا ہوا تھا، دوسرے پر حسن جبکہ تیسرے پر فروا برجمان تھی۔وہ تینوں خاموش تھے، تبھی سکندر حیات نے لب کھولے
” سلمان باجوہ پر مجھے پہلے ہی شک تھا، اور اب بھی ہے کہ اس میں سے بہترے راز نکالے جا سکتے ہیں۔“
” لیکن اس نے میڈیا کی دھمکی دے دی اور پولیس کچھ نہیں کر پا رہی ہے۔“ چوہدری شہاب نے تیزی سے کہا
” بات دھمکی کی نہیں شہاب،ثبوت کی ہے، اس کے خلاف کوئی ثبوت نہیں، اس پر کیسے ہاتھ ڈالوں۔“ سکندر حیات نے دھیمے لہجے میں کہا تو حسن بولا
”دُکھ تو اس بات کا ہے کہ کوئی تیسرا بساط پر دھرے مہروں کی طرح ہمیں چلاتا رہا اور ہم چلتے رہے۔“
” ایسا اس وقت ہوتا ہے ، جب کو ئی اندر کا آدمی کسی دوسرے کے ساتھ شامل ہو جائے۔“ ایس پی نے دکھ بھر لہجے میں کہا
” لیکن ہوا تو کچھ بھی نہیں ہے نا، ہم وہیں کھڑے ہیں، جہاں سے ہم چلے تھے۔ الزام اسی طرح ہم پر ہیں۔تم بھی کوئی رپورٹ نہیں دے پاﺅ گے۔اتنی بھاگ دوڑ کا کوئی فائدہ تو نہ ہوا نا۔“ چوہدری شہاب نے کہاتو فروا نے شدت سے سوچا کہ اس کے بیٹے کے سارے کرتوت ایک ہی سانس میں بیان کردے اور پھر اسے اپنے گھر سے دھکے دے کے نکال دے۔ لفظ اس کے ہونٹوں پر آگئے تھے کہ اسے رافعہ کا خیال آگیا۔ وہ ایک دم سے خاموش ہو گئی۔
” ہاں یہ تو ہے شہاب۔! اس کیس کی وجہ سے میری بیٹی کی شادی رک گئی ہے۔ لیکن آفرین ہے حسن پر کہ اس نے ان تین دنوںمیںاتنی معلومات نکال لی ہیں کہ اب سب کچھ واضح ہو گیا ہے، ہم بہت جلد ان لوگوں تک پہنچ جائیں گے۔“ سکندر حیات نے کہا
” خدا کرے ایسا ہی ہو۔“ چوہدری شہاب نے مایوسانہ لہجے میں کہا تو حسن اٹھتے ہوئے بولا
” مجھے اجازت؟“
ہاں بیٹا۔! تمہاری کار کردگی بہرحال متاثر کن ہے ، تم نے اپنا فرض نبھایا، اب اگر تم چاہو تو لندن چلے جاﺅ۔میں ایک دو دن کے لئے آجاﺅں گا۔ تم دونوں کی شادی نہیں رکنی چاہئے۔“ سکندر حیات نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا
”ہاں ہو سکتا ہے اب یہ کیس لمبا ہو جائے۔“ چوہدری شہاب نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔ تبھی حسن نے کہا
” ٹھیک ہے سر۔! جیسا آپ کہیں، میں اب چلتا ہوں۔“ حسن نے اٹھتے ہوئے کہا اور باہر کی جانب چل دیا۔ فروا بھی اٹھی اور اس کے پیچھے چلی گئی۔ پورچ میں اس نے حسن کو جا لیا۔
” کہاں جا رہے ہو ، پھوپھو تو ادھر ہیں ، تم بھی آج ادھر ہی رہ لو؟“ وہ اس کا بازو تھام کے بولی
” نہیں ، میں سکون سے سونا چاہتا ہوں، دو راتوں سے میں سو نہیں سکا۔“ اس نے دھیرے سے کہا
” اگر تم کہو تو میں آج کی رات تمہارے پاس آجاﺅں، سکون۔۔“ فروا نے کہنا چاہا تو اس نے بات کاٹتے ہو کہا
” دو دن بعد ہم نے لندن کے لئے فلائی کر جانا ہے ۔ پھر ہم نے اکھٹے ہی رہنا ہے۔تم تیاری کرو۔“ حسن نے فروا کے نرم لبوں پر انگلی پھیرتے ہوئے کہا تو وہ ایک دم سے مرجھا گئی۔ حسن نے ایک بار اس کے چہرے پر دیکھا اور پھر کار میں بیٹھ کر چل دیا اور وہ دیکھتی ہی رہ گئی۔ 
اگلے دن فروا نے صبح سویرے حسن کو فون کیا کہ وہ آجائے، اسے ناشتے کی ضرورت ہو گی۔ اگرچہ گھر میں ملازم تھے۔ وہ اسے ناشتہ دے سکتے تھے۔تاہم وہ چاہتی تھی کہ وہ خود حسن کے کام کرے۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ہسپتال سے سیدھی اس کے پاس جائے گی۔ رافعہ ای سی یو میں تھی اور اسے ہوش نہیں آیا تھا۔ مگر اس کا فون بند تھا۔ اس نے یہی سوچا کہ وہ ابھی تک سو رہا ہوگا۔ وہ ہسپتال جا پہنچی۔ وہاں اس کے پاس کرنے لے لئے کچھ نہیں تھا، سوائے تھوڑی تھوڑی بعد فون پر حسن کو کال کرنے کے، فون ہنوز بند تھا اور وہ کوشش کرتی رہی، یہا ں تک کہ دوپہر ہو گئی۔ وہ ایک دم ہی پریشان ہو گئی۔ اس نے گھر کا نمبر ملایا اور ایک ملازم سے حسن کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ وہ رات ہی سے گھر پر ہے اور اپنے کمرے میں آرام کر رہا ہے۔ 
” ناشتہ کیا، کھانا کھایا اس نے؟“ فروا نے تشویش سے پوچھا تو ملازم نے کہا
” جی ، کیا تھا اور ان کا آپ کے لئے یہ پیغام ہے کہ پریشان نہیں ہونا، وہ آج شام آپ کو فون کریں گے۔“
یہ سنتے ہی اس نے فون بند کر دیا پھر غصے میں بڑبڑاتے ہوئے بولی” یہ بات وہ خود نہیں بتا سکتا تھا ڈفر کہیں کا ۔“ 
اسے حسن ایک دم سے پر اسرار لگنے لگا تھا۔
 شام ہونے کو آگئی تھی لیکن اس کا فون نہیں آیا تھا۔اس وقت وہ اپنے بیڈ روم میں پڑی اس کے فون کا انتظار کر رہی تھی کہ شہر کے معروف بازار میں ایک بم دھماکا ہو گیا۔ٹی وی پر اس کی تفصیلات بتائی جا رہی تھیں۔اس کے اندر غصہ بڑھنے لگا تھا۔ 
٭....٭....٭
ساحلِ سمندر ہو یا صحرا، دونوں شام کے وقت بہت حسین اور پر اسرار دکھائی دیتے ہیں۔حسن اس وقت ساحلِ سمندر پر کھڑا دور کسی غیر مرئی نکتے پر توجہ جمائے کھڑا تھا۔ کچھ دیر پہلے اس نے فروا کو فون کیا تھا کہ وہ اسے یہاں ساحل پر ملے۔یہ ساحل سمندر پروہ جگہ تھی ، جو بہت ہی مخصوص لوگوں کے لئے مختص تھی۔اب وہ یہاں اسی کے انتظار میں تھا۔وہ سیل فون بجنے چونکا۔اسکرین پر فروا کا نمبر تھا۔اس نے کال پک کی اور ہیلو کہا تو حیرت زدہ لہجے میںبولی
” میں پہنچ چکی ہوں، تم کہاں ہو؟“
” تم وہیں ٹھہرو، میں آرہا ہوں۔“ اس نے کہا اور فون بند کردیا۔ وہاں سے سڑک تقریباً پندرہ منٹ کے فاصلے پر تھی۔وہ تیز تیز چلتا ہوا وہاں پہنچ گیااور پسنجر سیٹ پر بیٹھتے ہوئے بولا،” چلو۔“
فروا نے کار بڑھا دی۔ وہ اشارے سے راستہ سمجھاتا رہا۔ یہاں تک کہ ان کے سفر کا اختتام لکڑی کے ایک چھوٹے سے کاٹج پر ہوا۔ وہ ویران ساتھا۔فروا کاٹج کے اندر چلی گئی اور حسن کار گیراج میں کھڑی کرنے چلا گیا۔
” اتنی ویران جگہ ہے کہ وحشت ہو رہی ہے۔یہاں کیوں بلایا تم نے؟“ ڈرائینگ روم میں موجود ایک صوفے پر بیٹھتے ہوئے فروا نے تبصرہ کیا۔
” جگہیں ویران نہیں ہوتیں،۔“ وہ اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا تو فروا نے چونک کر اسے دیکھا۔ اسے حسن بدلاہوا محسوس ہو رہا تھا۔وہ اس کی بات کو سمجھ کر تیزی سے بولی 
” ہاں۔! محبت کرنے والے تو ایسی ویرانیاں تلاش کرتے ہیں۔“
” گڈ گرل۔“ اس نے ہنستے ہوئے کہا اور اپنا ہاتھ اس کے جانب بڑھا دیا۔
بیڈ روم کی دھیمی روشنی میں فروا سرخ شارٹس اور اسی رنگ کے بلاﺅز میں تھی، جبکہ حسن نے بلیک شارٹس کے ساتھ گرے ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔دونوں بیڈ پر ایک دوسرے کے اس قدر قریب پڑے ہوئے تھے کہ ان کی سانسیں ایک دوسرے کو محسوس ہو رہی تھیں۔اس قدر گہری تنہائی میں فروا پگھلتی چلی جا رہی تھی کہ اچانک حسن اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے فریج میں سے گریپ جوس کی بوتل نکالی، ایک گلاس خود بھرا اور دوسرا فروا کو تھماتے ہوئے کہا 
”فروا۔!تم سو جاﺅ۔“اس نے عجیب سے لہجے میں کہا
” کیا تم نے مجھے یہاں سو جانے کے لئے بلایا ہے۔“ وہ طنزیہ انداز میں بولی
”ہاں، کیونکہ ابھی مجھے یہاں سے باہرجانا ہے ۔ دو گھنٹے بھی لگ سکتے ہیں، یا تین بھی، یا پھر میں کبھی لوٹ کر واپس نہیں آﺅںگا۔“
”یہ کیا کہہ رہے ہو ، کیا ہوگیا ہے تمہیں، ایسے کیوں کہہ رہے ہو؟“ اس نے سرسراتے ہوئے لہجے ایک ہی سانس میں کئی سوال کر دئیے۔
” تو سنو۔!ہمارے ساتھ کھیلنے والا جو بھی ہے ،میں اسے معاف نہیں کر سکتا۔جس دن راحیل کا فون مجھے ملا تھا، میں اسی دن سمجھ گیا تھا کہ جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ نہیں ہے۔اب سے لیکر صبح طلوع ہونے تک یا تو سب کچھ واضح ہو جائے گایا پھر ہمیشہ کے گم ہو جائے گا۔ اور اس کھیل میںکامیابی یا موت دونوں میں ایک کسی ایک کے ملنے کا پورا پورا چانس ہے۔“اس نے یوں کہا جیسے وہ سب کچھ سامنے دیکھ رہا ہو۔فروا اس کے اندرونی کیفیات کا اندازہ کر چکی تھی۔ اس لئے سمجھانے والے اندازمیں بولی
” لیکن میںکہتی ہوں کہ سب کچھ بھو ل جاﺅ۔ پاپا نے بھی تو کہہ دیا ہے۔ کل شام ہم نے یہاں سے نکل جانا ہے تو پھر کیوں زندگی اور موت کے اس کھیل کو کھیلنا چاہتے ہو۔“
” شاید تم نہیں جانتی، مہرے کچھ بھی نہیںہوتے، انہیں کھلاڑی چلتا ہے۔میں اس کھلاڑی کو بے نقاب کرنا چاہتا ہوں۔کھیل میں ہار جیت تو ہوتی ہے نا۔ “
”مگر ا ب کیوں؟“
”اس لئے کہ یہ اب میری انا کا مسئلہ ہے۔تم یہاں رہو، میں آگیا تو واپس اکھٹے جائیں گے۔ ورنہ تم خاموشی سے۔۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو فروا تڑپ کر بولی
”نہیں ، میں اکیلی یہاں نہیں رہوں گی، میں تمہارے ساتھ جاﺅں گی۔“
” تم یہاں پر اکیلی نہیں ہو۔تمہاری حفاظت کے لئے کافی لوگ ہیں، یہاں پر۔اوکے، چلتا ہوں۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے گلاس سائید ٹیبل پر رکھا ، جوتے پہنے اور باہر کی جانب چل دیا۔فروا اُسے دیکھتی رہ گئی۔
اندھیری رات کا پچھلا پہر تھا۔حسن کے کاندھے پر بیگ تھا۔ وہ اندھیرے میں چلتا چلا گیا۔ سمند کی لہروں کا شور سنائی دے رہا تھا۔ ساحل پرپہنچ کر اس نے اپنا جیب سے ٹارچ نکالی اور ایک جانب روشنی سے مخصوص اشارہ کیا۔اسے چند منٹ بعد ایک بوٹ کے انجن کی ہلکی ہلکی آواز سنائی دی،جو لمحہ بہ لمحہ بڑھتی چلی جا رہی تھی۔سمندر کے اندر ذرا فاصلے پر ویسا ہی روشنی کا اشارہ اسے ملا تو وہ تیز قدموں سے چلتا ہوا پانی میں چلا گیا۔اسے تیرنا نہیں پڑا اور وہ بوٹ کے نزدیک پہنچ گیا۔ اس بوٹ میں دو بندے موجود تھے۔حسن بھی اس میں بیٹھ گیا اور بوٹ چل دی۔ تقریباً بیس منٹ کے سفر کے بعد انہیں ایک اسٹیمر کا ہیولادکھائی دیا۔ اس کی روشنیاں بجھائی ہوئیں تھیں، تاہم کیبن سے چھن کر آنے والی روشنی سے کافی حد تک واضح تھا۔حسن نے اسے تائید غیبی سمجھا ۔ انہوں بوٹ کا انجن بند کر دیا۔وہ چپو سے بوٹ کو اس اسٹیمر کے پاس لے جاتے چلے گئے۔ جیسے جیسے وہ قریب ہوتے گئے ، ہلکی روشنی میں وہ واضح ہو گیا۔ یہاں تک کہ وہ اس کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ میوزک کی تیز آواز انہیں یہاں بھی سنائی دے رہی تھی۔روشنی سے زیادہ میوزک کی آواز ان کی رہنمائی کر رہی تھی۔ حسن تھوڑی دیر سنتا رہا ۔پھر اس نے اپنے بیگ میں سے کچھ چیزیں نکالیں اور سمندر میں کودنے کے لئے تیار ہوگیا۔
” وش یو گڈ لک سر۔“ ایک شخص نے ہولے سے کہا تو حسن سمندر میں کود گیا۔
ہلکی سی چھپاک کی آواز آئی، پھر وہی سمندر کا شور تھا۔وہ تیرتا ہوا اسٹیمر کے قریب ہوتا چلا جا رہا تھا۔ میوزک کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ وہ دیکھ رہاتھا کہ اسٹیمر پر سیکورٹی کے لوگ بس ایک دو ہی دکھائی دئےے تھے۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا، یہاں تک کہ وہ اسٹیمر کے ساتھ جا لگا۔پھر اس سے ذرا فاصلہ رکھ کے وہ اسٹیمر کے ساتھ ساتھ بڑھنے لگا۔اس کی توقع کے مطابق ایک رسہ لٹک رہا تھا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے رسے کو ہلکے سے کھینچ کر جانچا پھر اس پر چڑھنے لگا۔تقریباً پانچ منٹ کی کوشش میں میں وہ ریلنگ تک پہنچ گیا۔ اس نے ذرا سا سر اوپر کر کے سامنے دیکھا، وہاں پر کوئی بھی نہیں تھا۔کافی دور کیبن کے پاس ایک سیکورٹی والا کھڑا تھا۔ اس نے اچھی طرح ادھر ادھر دیکھا اور انتہائی سرعت کے ساتھ اسٹیمرمیںآگیا۔ وہ چند لمحے یونہی دبک کر بیٹھا رہا۔پھر آگے بڑھ کر سیکورٹی گارڈز کو دیکھنے لگا۔ وہ مسلسل ایک ہی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ دبے پاﺅں اس طرف بڑھتا گیا۔جیسے ہی وہ اس کے سر پر پہنچا، سیکورٹی گارڈ کو خطرے کا احساس ہوا۔اس نے پلٹ کر دیکھا تب تک حسن اس پر پسٹل کے دستے سے وار کر چکا تھا۔وہ ڈگمگاتا ہوا گرنے کو تھا کہ اس نے سنبھال لیا اور پھر آرام سے فرش پر لٹا کر دیا۔وہ ابھی کافی دیر تک بے ہوش رہنے والا تھا۔حسن نے اس جانب دیکھا جدھر سیکورتی گارڈ دیکھ رہا تھا ، ایک جوڑا نشے میں دھت، ہر طرف سے بے نیاز ایک دوسرے میں اس طرح کھویا ہوا تھا کہ انہیں ہوش ہی نہیں تھی۔ دوسرا سیکورٹی گارڈ کیبن میں جھانک رہا تھا۔اب اسے دوسری جانب سے گھوم کر آنا تھا۔ وہ واپس پلٹا اور اسی جگہ آگیا جہاں سے وہ اسٹیمر میں آیا تھا۔ وہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے سر پر پہنچ گیا۔ وہ اس سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا کہ اسے احساس ہو گیا۔ سیکورٹی گارڈ نے جلدی سے الرٹ ہو کر اپنی گن سیدھی کر لی۔اس سے پہلے کہ وہ فائر کرتا، حسن نے فائر کر دیا۔ ٹھک کی آواز آئی اور سیکورٹی گارڈ اوخ کی آواز کے ساتھ دھپ سے فرش پر گر گیا۔ اس وقت تک حسن اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا۔وہ کیبن کی پچھلی طرف آیا اور کچھ دیر بیٹھا رہا۔ کوئی بھی ہلچل نہ پا کر وہ رینگتا ہوا اسی جگہ آگیا جہاں سے وہ سیکورٹی گارڈ اندر جھانک رہا تھا۔ اندر کا منظر اس کی توقع کے مطابق ہی تھا۔
چھ، سات لڑکیاں، انتہائی مختصر لباس میں محو رقص تھیں۔میوزک اور شباب نے وہاں پر موجود چار لوگوں کو مست کیا ہوا تھا۔ وہ شراب کے نشے میں دھت تھے۔صرف ایک آدمی اسے دکھائی نہیں دے پا رہا تھا، اس کا چہرہ اس کے سامنے نہیں تھا۔ حسن فوراً ہی پیچھے ہٹا اور سیکورٹی گارڈ کو گھسیٹتا ہوا پلٹ گیا ۔ اس نے کیبن کے پیچھے جا کر پہلے کمپاس نکالی ، اس سے رخ متعین کیا۔ پھرٹارچ کی روشنی سے اشارہ دے دیا۔ اگلے ہی لمحے اسے دوسی طرف سے جوابی اشارہ مل گیا۔وہ مطمئن ہو گیا ۔اس نے مرنے والے سیکورٹی گارڈ کی پہلے قمیض اتاری، پھر رسہ اوپر کھنچا اور اسے باندھ کر سمندر میں لٹکا دیا۔ بے ہوش سیورٹی گارڈ کی وردی اتار کر اس نے خود پہنی پھر اس کے ہاتھ اس نے قمیص سے باندھے اور اس کے منہ میں کپڑاٹھونس دیا۔ 
حسن گن اٹھا کر ریلنگ کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔ اس کے دماغ میں ابھی تک وہ شخص گھوم رہا تھا ، جس کا وہ چہرہ نہیںدیکھ پایا تھا۔ باقی سب کے بارے میں اسے یقین تھا کہ یہی لوگ ہو سکتے ہیں۔اس نے محتاط انداز میں دوسری جانب سے جب کیبن میں جھانکا تو اس کا دماغ چکرا گیا۔سامنے نشے میں دھت چوہدری شہاب ایک لڑکی کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ اس نے بہت کوشش سے خود پر قابو پایا اور انتظار کرنے لگا کہ پولیس فورس کب پہنچتی ہے۔ وہ بے نیاز جوڑا اپنی تسکین کے بعد بے ہوشی کی حالت میں پڑا ہوا تھا۔اس نے ان سے نگاہیں ہٹائیں اور دور سمندر میں گھورنے لگا، جہاں اچھی خاصی ہلچل ہو چکی تھی۔
اسٹیمر کے ساتھ چاروں طرف کشتیاں آچکی تھیں۔کافی نوجوان سمندر میںکود کر آگے بڑھ رہے تھے۔تھوڑی دیر بعد اسٹیمر کے ریلنگ کے ساتھ ہک لگنے لگے۔اگلے چند منٹ میں نوجوان اسٹیمر پر تھے۔انہوں نے چاروں طرف سے کیبن کو گھیر لیا۔جس کی شیشوں والی کھڑکیوں سے اندر کا سارا منظر صاف نظر آرہا تھا۔ حسن نے چند لمحے انتظار کیا اور انہیں اشارہ دے دیا۔ کیبن کی کھڑکیاں ٹوٹنے لگیں۔اندر سبھی ساکت ہوگئے۔ حسن داخلی دروازے میں جا کھڑا ہوا۔ اسے دیکھتے ہے میوزک بند کر دیا گیا۔اس نے اپناپسٹل لہراتے ہوئے اونچی آواز میں کہا
” تم سب لوگ گھیرے جا چکے ہو۔جس نے بھی بہادری دکھانے کی کوشش کی وہ مارا جائے گا۔ جو جہاں ہے وہیں فرش پر لیٹ جائے۔“
 لڑکیوں سمیت سبھی فرش پر لیٹ گئے ۔اس کے ساتھ ہی وہ کیبن میں چلا گیا ۔ اس کے پیچھے کافی سارے نوجوان اندر داخل ہو گئے۔انہوں نے جاتے ہی نچلی منزل کا دروازہ کھولا اور احتیاط سے نیچے اترنے لگے۔ کچھ نوجوانوں نے انہیں قابو کرنا شروع کر دیا۔ان میں دو غیرملکی ، صحافی سلمان باجوہ، چوہدری شہاب ، اور ایک پولیس آفیسررفیق افضل تھا۔ وہ سبھی نشے میں دھت تھے۔ وہ چاہتے بھی تو مزاحمت نہیں کر سکتے تھے۔ نچلی منزل میںچند لوگ تھے ، جن میں اسٹیمر کا عملہ اور تین سیکورٹی گارڈ تھے جو ان کے لئے کھانے پینے کا بندو بست کر رہے تھے۔حسن نے انہیں پولیس والوں کی حراست میں دیا اور اسٹیمر کو ساحل کی طرف لے جانے کا حکم دیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد وہ ساھل پر پہنچ گئے، جہاں ایس پی سکندر حیات ان کا منتظر تھا۔ حسن نے ان سب کو اس کے حوالے کیا۔
” ویل ڈن حسن، اب انہیں۔۔۔“
” نو سر۔!یہ آپ کے حوالے، ابھی مجھے کہیں جانا ہے ، باقی میں اافس میں آکر رپورٹ کروں گا۔“ اس نے تیزی سے کہا
 ” اوکے۔ “ ایس پی نے کہا اور ان مجرموں کی طرف متوجہ ہو گیا۔حسن وہاں سے نکلا۔ باہر ایک ڈرائیور کار لئے کھڑا تھا۔ وہ اس میں بیٹھا تو کار چل دی اس کا رخ لکڑی کے اس کاٹج کی طرف تھا ، جہاں وہ فروا کو چھوڑ کر آیا تھا۔
مشرقی افق پر لالی آگئی تھی، جس اس کی کارکاٹج کے سامنے رکی۔ وہ اندر بڑھا اور سیدھا بیڈ روم میں چلا گیا۔فروا آنکھیں بند کئے بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی۔ اس نے بھر پور نگاہوں سے اسے دیکھا۔ وہی سرخ شارٹس اور بلاﺅز میں اس کا چمکتا ہوا بدن، حسن نے اسے اٹھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں۔دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے اور پھر ایک دم سے ہنس دئیے۔
” چلو چلیں۔“ حسن نے کہا تو اٹھ کر باہر جانے کے لئے وہ تیزی سے تیار ہونے لگی۔اسے ہسپتال پہنچنے میں دیر ہو گئی تھی۔رافعہ آئی سی یو میں تھی اور اسے ہوش نہیں آیا تھا۔
٭....٭....٭
وہ ایک ہال نما کمرہ تھا۔ ا س میں جا بجا گندگی پھیلی ہوئی تھی۔حسن ایک کرسی پر بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سامنے فرش پر وہی دونوں غیرملکی ، صحافی سلمان باجوہ، چوہدری شہاب ، اور پولیس آفیسررفیق افضل پیٹھے ہوئے تھے ۔ کمرے کے اندر اور باہر سیکورٹی کےلئے کافی سارے نوجوان تھے۔دن کا پہلا پہر ختم ہونے کو تھا کہ ایس پی سکندر حیات، وزارت داخلہ کا نمائندہ اور چندپولیس حکام تھے۔ ان کے آتے ہی حسن کھڑا ہوگیا۔
” بہت خوب حسن،سکندر حیات بتا رہے تھے کہ ایک وقت میں وہ مایوس ہو چکے تھے، پھر یہ کیسے سب۔“ ایک پولیس آفیسر نے پو چھا تو وہ بولا
” سر۔! ایس پی صاحب کو پہلے ہی سے شک تھا کہ ہمارے اندر ہی کوئی کالی بھیڑ ہے، اور ان کا شک ٹھیک تھا۔ میرے اپنے ذہن میں بھی تھا کہ دیانت دار پولیس آفیسر سے زیادہ راشی اور بددیانت پولیس والا جرم اور جرائم کی ماں بارے زیادہ معلومات رکھتا ہے۔ کیونکہ اس کی اپنی دلچسپی ہوتی ہے۔ ایسے ہی ایک راشی پولیس افسر نے میری راہنمائی کی ، یہ جو رفیق افضل ہے، یہی وہ بندہ ہے۔ جو اس کیس پر پہلے تعینات تھا۔“
” اس نے ساری معلومت دیں؟“ حیرت سے پوچھا گیا
” نہیں، بلکہ یہ معلومات لیتا تھا اور دوسری طرف ان اس صحافی کو دیتا تھا۔ یہ صحافی اسکرین پر اپنی دیانت داری دکھاتا تھا، تنقید کر کے۔“
” ان تک پہنچے کیسے ہو ؟“ نمائندے نے پوچھا
” سر۔! بزدل اور سازشی لوگ اس وقت ہی اپنا آپ دکھا سکتے ہیں جب تک وہ سامنے والے کے بارے میں یقین نہ کرلیں کہ وہ کمزور ہیں۔ تب وہ پوری طرح کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ بظاہر کیس ختم ہو گیا اور ہم نے ہتھیار ڈال دئیے، اورانہوں نے وہی کیا ، جو میں چاہتا تھا۔ وہ خوش تھے کہ انہوں نے مات دے دی، جبکہ وہ سب میری سوچ کے مطابق عمل کر رہے تھے۔ کل انہوں نے بازار میں دھماکا کر کے اپنی فتح کا اعلان کیا ۔ مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ انہوں نے اپنی موجودگی بارے بتا دیا کہ یہ دو غیرملکی یہاں موجود ہیں۔“ یہ کہہ کر حسن لمحہ بھر کو رکا اور پھر کہتا چلاگیا،” میں نے ایک سیک فون کے نمبر کو اپنا مرکز بنا لیا اور پھر اس سے سب کچھ واضح ہو گیا۔ ویسے تو یہ لوگ اکثر سمندر میں عیاشی کے لئے جاتے رہتے ہیں لیکن رات یہ اپنی فتح کا جشن منانے گئے تھے، میں نے انہیں گفتا کر لیا اور یہ آپ کے سامنے ہیں۔“
” بات تو پھر وہی رہ گئی کہ کس بات نے ان کا سارا پلان تم پر کھولا۔“
” میرے اسسٹنٹ انسپکٹر نعیم کے فون سے، اصل میں کالی بھیڑ یہ ہے۔ جو ان غیر ملکیوں کے ساتھ رابطے میں تھا۔ مجھے اس دن اس پر شک ہوا جب وہ چند گھنٹوں میں تمام ڈیٹا لے آیا، وہ سب غلط تھا، کیونکہ اس سے پہلے میں لے چکاتھا۔ یہ مجھے اسی راستے پر ڈالتا رہا۔یقین مجھے اس وقت ہو گیا جب مجھ پر ہوٹل سے نکلتے ہی حملہ ہو گیا تھا۔ کل شام ہی سے میں نے اسے حراست میں لے لیا اور اس سے سب اگلوا لیا۔وہ اب بھی زیر تفتیش ہے۔یہی وہ اُلٹی لکیر تھی جس نے مجھے مجرموں تک پہنچنے کی نشاندہی کی۔ “
” واﺅ۔!“ پولیس آفیسر نے کہا
”سر میں نے یہ سب تفصیل اپنی رپورٹ میں لکھ دی ہے۔ اور ہاں، یہ چوہدری شہاب،اپنی ہار تسلیم کرکے ان کے آگے جا کر جھک گیا تھا۔ ان کا یہ نشانہ اسی لئے بنا تھا کہ یہ دھشت گردی کے بارے میں متحرک تھا۔ اب یہ مجرم ہے۔“
” شکریہ بیٹا۔! تم جاﺅ ، تمہارا کام ختم ہوا۔تم جا کر جانے کی تیاری کرو۔“
حسن نے سیلوٹ کیا اور تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا۔
٭....٭....٭
فروا اور حسن ویمبلی لندن جانے لے کئے تیارتھے۔ ان کے گھر والوں نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ شادی ہر حال میں کل رات ہی ہوگی۔چاہئے انتہائی سادگی ہی سے سہی۔سہ پہر ہو چکی تھی اور اس وقت فروا پارک میں حسن کا انتظار کر رہی تھی۔ اس نے حسن کو فون کر کے بلایا تھا۔ وہ بہت پوچھتا رہا لیکن اس نے نہیںبتایا تبھی اس نے آنے کا کہہ دیا۔فروا نے حسن کو آتے ہوئے دیکھاتو فوراً اپنے آنسو پوچھ لئے۔ وہ اس کے قریب آکر بیٹھا، ایک نگاہ اسکے چہرے پر ڈالی اور پوچھا
” ہاں کیا بات ہے، یہاں کیوں بلایا۔“
”حسن ۔! کچھ باتیں ہی جو تم سے شیئر کرنا چاہتی ہوں، وہ میں نے اب نہ کیں تو ممکن ہے بعد میں ہمارے درمیان غلط فہمیوں کی بنیاد بن جائے۔“
” بولو۔“ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا
” تم نے ساحل سمندر کے کاٹج پر مجھے اکیلا کیوں چھوڑا؟“
” سچ پوچھو نا فروا، مجھے تم پر بھی شک تھا کہ کہیں تم دھشت گردوں کے ساتھ تو نہیں ملی ہوئی ہو، اگر نہیں ملی ہوئی ہو تو تمہاری حفاظت ہو جاتی۔“
” کب شک ہوا مجھ پر؟“ اس نے سرسراتے ہوئے لہجے میں پوچھا
جب حویلی پر دھماکے کے بعد تم پہلی بار رافعہ سے ملی تھی، میں نے اپنے ذرائع اس بارے معلومات لے لیں تھیں۔ اور پھر لند ن سے تمہارے بھائینے اس کی تصویر بھیجی تھی مجھے پتہ کرنے کے لئے۔“ اس نے عام سے لہجے میں کہاتووہ شدتِ حیرت سے سکتے میں آگئی، چند لمحے وہ اسی سکتے میں رہی پھر آہستگی سے پوچھا
”کیا تم رافعہ کے بارے میں جانتے ہو؟“
” ہاں جانتاہوں۔ ابھی کچھ دیر پہلے وہ اس دنیا کو چھوڑ چکی ہے۔ سو اس کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں۔“حسن نے دکھ بھرے لہجے میں کہا تو فروا کی آنکھیں بھیگ گئیں۔پھر اس نے دھیرے سے پوچھا
” اب کیا فیصلہ ہے تمہارا؟“
” یہی کہ وقت پر ائیر پورٹ پہنچ جانا،رافعہ کی تدفین عزت و احترام سے ہوگی۔ میں خود اس کی نگرانی کر رہا ہوں۔“ حسن نے کہا اور اٹھ گیا۔ فروا بھی اٹھ گئی، وہ حسن کے چہرے پر دیکھتی رہی اور پھر اسے سینے سے لگا اپنے لب اس کے لب پہ ر کھ دئیے۔
٭....٭....٭

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *