حصار
قسط نمبر 4
امجد جاوید
پھوپھو سلام کرتے ہوئے بیٹھ گئی تو وہ اس کے چہرے پر دیکھ کر طنزیہ سے انداز میں ہنستے ہوئے بولا
” بڑی بے چارگی ٹپک رہی ہے تیرے چہرے پر، کچھ زیادہ ہی پریشان لگ رہی ہو ۔“
” کیا کہوں بابا جی۔ کوئی ایک پریشانی ہو توبتاﺅں۔ ایک بہت بڑی مہم آن پڑی ہے ، اسی لئے تو آپ کے پاس آئی ہوں۔“ پھوپھو نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا
”اب کیا ہو گیا تجھے، کیا پریشانی ہے؟ مسئلہ کیا ہے؟“ بابے کرامت نے پوچھا توپھوپھو فاخرہ دکھی لہجے میں بولی
”مجھ اکیلی جان کو بھلا کوئی ایک مسئلہ ہے ۔اپنا بھی اور دوسروں کا بھی ۔ یہ مسئلہ ہے میرا نہیں، میرے بھتیجے شعیب کا ہے۔ میں ....“
”وہی ۔! جسے تو نے اپنے قابو میںرکھنے کے لئے عمل کروایا تھا۔ کیا اب وہ قابو میں نہیںرہا؟“بابے کرامت نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا
”نہیںبابا، وہ بے چارہ تو قابو میںہے ،اب بھلاآپ ہی بتائیں، میں اسے اگر قابو میں نہ رکھوں تو کہاں جاﺅں،میں بیوہ عورت ہوں،اکیلی کہاں دھکے کھاتی پھروں۔اس کی ماں کا بس چلے تو مجھے کھڑے کھڑے گھر سے نکال دے۔وہ ایک لمحہ برداشت نہ کرے مجھ کو ۔“ پھوپھو دیدے نچاتے ہوئے بولی تو بابا کرامت اکتاہٹ سے بولا
”یہ رونا دھونابند کر ، مسئلہ بتا کیا ہے؟“
تبھی پھوپھو فاخرہ نے انتہائی اختصار میں ساری روداد سنا دی ۔جب سارا کہہ چکی تو اپنی بات یہ کہتے ہوئے ختم کی
”....بس ثانیہ کی منگنی ٹوٹ جائے اور اس کی شادی شعیب سے ہو جائے۔ اور یہ منگنی ختم ہو جانے والا کام تو فوراً ہو جائے نا، بس آناً فاناً ۔ ہتھیلی پر سرسوں جما دو بابا۔“
بابا کرامت ساری بات سن کربڑا خوش ہوا ، پھر ذراجھوم کر ، خوش کن لہجے میں بولا
” معاملے محبت کے ہیں ۔“ یہ کہہ کر وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بولا،”مسئلہ تو بہت بڑا ہے لیکن....ہو جائے گا، جتنی لمبی رقم دوگی ، اتنی جلدی کام ہو جائے گا، ہتھیلی پہ سرسوں جما دیں گے۔“
”بابا جی، رقم کی تو آپ فکر نہ کریں۔جتنی چاہیں لے لیں،جو کہیں گے وہ کروں گی ، بس یہ کام جھٹ پٹ میں ہو جائے۔ وقت نہ لگے ذرا بھی۔“یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے پرس سے نوٹوں کی گڈی نکال کر بابا کرامت کے سامنے رکھ دی نوٹ دیکھ کر بابا کی آنکھیں کھل گئیں۔بابا کرامت گڈی اٹھاتے ہوئے خوش ہو کر بولا
” سمجھو ٹوٹ گئی منگنی.... جم گئی ہتھیلی پہ سرسوں.... جھٹ پٹ.... لو پھر....“
یہ کہہ کر وہ ساتھ میں پڑا صندوق کھولا ۔ اس میں سے کپڑے کی بنی ایک گڑیا نکالی۔ اسے اپنے سامنے رکھا پھر ایک پن سوئی لے کر زیر لب پڑھتا چلا گیا۔جب وہ کافی دیر پڑھ چکا تو اس نے دھیرے دھیرے وہ پن سوئی گڑیا کے ماتھے میں گڑ دی۔پھوپھو فاخرہ اس کے سامنے بیٹھی رہی ۔ وہ اپنا جاپ مکمل کر چکا تو اس نے ماتھے میں پن سوئی لگی گڑیا کو اٹھا کر پھوپھو کو دیتے ہوئے تیزی سے کہا
” اس کے ساتھ بھی وہی کر ، جو پہلے گڈے کے ساتھ کیا تھا، جا ، سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے کر ،جا اب ۔“
پھوپھو نے وہ گڑیا پکڑی اسے اپنے پرس میں رکھا اور اٹھ کر کمرے سے نکلتی چلے گئی۔
سورج غروب ہونے کو تھا۔پھوپھو قبرستان میں سہمی ہوئی ایک درخت پاس کھڑی تھی۔ وہ جگہ سنسان تھی۔ اس نے احتیاط سے اِدھر ُادھر دیکھا۔ وہاں آ س پاس کوئی نہیںتھا۔ پوری طرح اطمینان کر لینے کے بعد اس نے پرس میں سے وہی گڑیا نکالی اور انتہائی تیزی سے گڑیا درخت پرپھندے کی صورت میں لٹکانے لگی ۔ چند منٹ میں اس نے وہ گڑیا لٹکا دی ۔ پھر اسی گڑیا کو پھندے پر لٹکتے ہوئے ایک گہری نگاہ سے دیکھا اور تیزتیز قدموں کے ساتھ قبرستان سے نکلتی چلی گئی ۔
ژ.... ژ.... ژ
شام کا اندھیرا ابھی رات میں پوری طرح نہیں بدلا تھا۔ثانیہ اپنے بیڈ پر بیٹھی ہوئی کتاب پڑھ رہی تھی ۔ اس کی نگاہیں تو کتاب پر تھیں مگر وہ حد درجہ بے چینی محسوس کر رہی تھی۔ وہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اپنا ماتھا بھی مسل رہی ہے ۔وہ بے چین ہوتی چلی جا رہی تھی۔اس کے چہرے پر ایسے تاثرات ہونے لگے جیسے وہ درد سہہ رہی ہو ۔ درد کی لہر ٹیس بن کر اٹھی اور وہ اس کی شدت سے کراہتے ہوئے دہری ہوتی چلے گئی ۔وہ بے بسی میںمدد کے لئے پکارنے لگی۔
”ماما.... ماما....ماما....“
ثانیہ چند لمحوں ہی میں تڑپنے لگی تھی۔ بیگم طلعت اور نوکرانی آگے پیچھے ہی کمرے میں تیزی سے اندر آئی تھیں ۔ بیگم طلعت نے اپنی بیٹی کو لوٹتے ہوئے دیکھا توبد حواسی میں پوچھنے لگی
”ثانیہ .... ثانیہ کیاہو ا بیٹا۔ کیا ہوا تجھے؟“
”ماما.... میرا سر،بہت درد ہو رہا ہے۔پھٹ رہا ہے ۔ “ثانیہ نے اپنا ماتھاپکڑے درد کی شدت سے کراہتے ہوئے دھیمے سے یوں کہا جیسے اس سے بولا نہ جا رہا ہو۔یہ کہتے ہوئے اس کی آ نکھیںبند ہونے لگیں اور وہ لمحوں میںبے ہوش ہو تی چلی گئی۔تبھی بیگم طلعت نے چیختے ہوئے زور سے کہا
”ثانیہ ، ہوش کرو۔ ہوش کرو بیٹا۔ کیا ہو گیا میری بچی کو ۔آنکھیںکھولو ثانیہ ۔ اللہ میری بیٹی کو کیا ہو گیا،“ پھر بے بسی میںنوکرانی کی طرف دیکھ کر کہا،”جلدی ڈاکٹر کوبلاﺅ۔ چوہدری صاحب کو فون کرو جلدی۔“
” بیگم صاحبہ میں ڈرائیور کو بلاتی ہوں ، بی بی کو ہسپتال ....“
” جلدی کرو ،“ بیگم طلعت نے تونوکرانی تیزی سے پلٹ گئی اور وہ ثانیہ کو سنبھالنے لگی ۔
بے ہوش ثانیہ اسٹریچر پر پڑی تھی۔نرس اور ڈاکٹرز اسے ٹریٹمنٹ دیتے ہوئے ہوش میںلانے کی کوشش کر رہے تھے۔ان سے ذرا فاصلے پر بیگم طلعت اورمراد علی انتہائی پریشانی میں کھڑے تھے۔ تبھی بیگم طلعت بے چینی سے بولی
”ڈاکٹر کیاہوا ہے میری بیٹی کو .... خدا را ، آپ بتاتے کیوں نہیںہیں۔“
تبھی سینئر ڈاکٹر نے سر اٹھا کر ڈاکٹر ظہیر کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر ظہیر اس کی نگاہوں کا مقصد سمجھتے ہوئے پیچھے ہٹا ، بیگم طلعت اور مراد علی کے پاس آکر انہیںایک طرف لے جا کے بولا
”آنٹی۔! میںفقط ایک ڈاکٹر ہی نہیں، ذیشان کا بہت قریبی دوست بھی ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت بزنس میٹنگ کے لئے لاہور میںہے ۔اسی نے مجھے ثانیہ کے بارے بتایا ہے ۔ہم دیکھ رہے ہیں،آپ پریشان مت ہوں ، سب ٹھیک ہو جائے گا ۔“
” ٹھیک ہے بیٹا۔“ مراد علی نے سمجھتے ہوئے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
”آپ میرے کمرے میںبیٹھیں، میںابھی آپ کے پاس آ تا ہوں ۔ پلیز ،“ اس نے منت بھرے انداز میں کہا توبیگم طلعت نے تڑپ کر پوچھا
” یہ ہوش میںکیوں نہیںآ رہی ہے۔“
”ابھی ....ابھی آ جائے گی ہوش میں .... انکل پلیز۔“ اس نے باہر جانے کا اشارہ کیا۔
مراد علی سر ہلاتے ہوئے اور آنکھوں کے اشارے سے اس کی بات سمجھ جانے کا عندیہ دیتے ہوئے اس نے اپنی بیوی کا ہاتھ نرمی سے پکڑا اور کمرے سے باہر نکلتا چلا گیا۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی باہر کی جانب مڑتی چلی گئی ۔ ڈاکٹر ظہیر نے انہیںباہر جاتے ہوئے دیکھا اور واپس اپنے سینئر ڈاکٹر کے پاس چلا گیا ۔
کوئی دو گھنٹے کے بعد جب ڈاکٹر ظہیر اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اس کا سیل فون بج رہا تھا۔ وہ فون نکالتے ہوئے اپنی میز تک گیا۔ اپنا اسٹیتھواسکوپ رکھا اور کرسی پر بیٹھتے ہوئے کال رسیو کرلی۔
”ہاں ذیشان،سب ٹھیک ہے۔پریشانی والی کوئی بات نہیں،ثانیہ ٹھیک ہے اب۔انکل اور آنٹی اس کے پاس ہیں۔“ اس نے اطمینان سے بتایا
”ہوا کیا تھا؟ کیوں اسے ہوسپیٹل آنا پڑا؟“ ذیشان نے پریشانی میں پوچھا تو وہ بولا
” سینئرڈاکٹرز کا خیال ہے کہ اس نے کوئی شدید قسم کی ٹینشن لے لی ہے ۔ یہ اسی کا ری ایکشن تھا۔ ساری رپورٹس نارمل ہیں۔ ویسے خطرے والی کوئی بات نہیں۔“
”ہاں ٹینشن تولی ہوگی اس نے۔لیکن اس قدر شدید .... ؟ اب کیسی ہے وہ ؟“ ذیشان نے پوچھا
”اب وہ نارمل ہے ۔اسے ڈسچارج کر دیا گیا ہے۔ بس وہ ابھی گھر جانے کے لئے نکل جائیں گے ۔“ اس نے بتایا
”چلو اچھا ہوا ۔میںآج رات کی فلائیٹ سے واپس آ رہا ہوں۔ ملتے ہیںصبح ، پھر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔“
”ٹھیک ہے، میںآ جاﺅں گا تمہاری طرف۔ اب مجھے تھوڑا کام کرنا ہے اورتم بھی اپنے معاملات دیکھو۔ اللہ حافظ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے کہا اور کال بند کر دی ۔
ژ.... ژ.... ژ
دن کا پہلا پہر ختم ہونے کو تھا۔بیگم ثروت لاﺅنج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی اپنی سوچوں میںگم تھی۔اس کے چہرے پر اداسی پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے پاس تازہ اخبار دھرا ہوا تھا جسے وہ پڑھنے کو اٹھاتی اور پھر رکھ دیتی۔ایسے میں پھوپھو فاخرہ داخلی دروازے سے اندر داخل ہوئی ۔ وہ صوفے پر بیٹھ کر بڑبڑاتے ہوئے ا کتا کر بولی
”آئے ہائے۔!اب تو بازار جانا بھی مشکل ہو گیا۔خدا کی پناہ ، رستہ ہی نہیں ملتا کہیں سے۔اتنی ٹریفک، اتنا شور ، دماغ خراب ہو جاتا ہے۔ تو بہ تو بہ۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو خاموش ہوئی ۔ اس نے بیگم ثروت کا کوئی ریسپانس نہ پا کرپو چھا ، ’ ’ خیریت توہے نا ثروت، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟“
”میں تو ٹھیک ہوں۔پر ثانیہ ٹھیک نہیںہے؟“بیگم ثروت نے اداسی اور دکھ سے بتایا توپھوپھو فاخرہ نے انتہائی تجسس سے پوچھا
” کہا ہوا اُسے؟“
”پتہ نہیںکیا ہو ا، بس بیٹھے بٹھائے سر میں شدید درد ہوا ، لوٹ پوٹ ہی ہو گئی بچی بے چاری۔ ہسپتال لے جانا پڑا۔“ بیگم ثروت نے دکھی لہجے میں کہا تو پھوپھوایک دم سے خوش ہوگئی ، اتنی جلدی کام ہو جانے پر وہ حیرت زدہ رہ گئی ۔ پھر اسی لمحے خود پر قابو پاتے ہوئے حیرت بھرے لہجے میں کہا
”ہائے میری بچی،اسے تو نظریں کھا گئی ہیںلوگوںکی ۔منگنی والے دن کتنی خوبصورت لگ رہی تھی ۔اب کیسی طبیعت ہے اس کی؟“
”طلعت بتا رہی تھی اب ٹھیک ہے۔میری بہن کتنی پریشان ہوگی اس وقت۔ اس شعیب نے تو میری بہن ہی مجھ سے جدا کر دی۔میںثانیہ کو دیکھنے بھی نہیںجا سکتی۔‘یہ کہتے ہوئے وہ رو دی ۔ تبھی پھوپھو فاخرہ نے اسے دلا سہ دیتے ہوئے کہا
’ اس میں شعیب کا کیا قصور ، وہ موا تیرا بہنوئی ہی پھوٹ ڈالتا ہے ۔ وہی نفرت کرتا ہے ۔ خیر تومت رو ، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ ہم چلیں گے اسے دیکھنے ۔“ وہ بڑے سنجیدہ لہجے یوں بولی جیسے اسے ثانیہ کا سن کر بڑا دُکھ ہوا ہو ۔ ان دونوں کے درمیان خاموشی آ ن ٹھہری تھی۔ پھوپھو اندر ہی اندر سے بے انتہا خوش تھی ۔ اس کے من میں اپنی کامیابی کا احساس پھیل گیاتھا۔
پھوپھو اپنی کامیابی سے سرشار تھی ۔لیکن بیگم ثروت ایک ماں تھی ، اس نے دکھی دل سے کہا
” شعیب کی حالت بھی اچھی نہیں ہے۔ اب اس کے لئے کوئی لڑکی تلاش کرنا ہو گی ورنہ میرا بیٹا کہیں یہ بات اپنے دل کو ہی نہ لگا لے ۔اس طرح اس کا دھیان تو بٹ جائے گا ۔“
”اس کا دل تو ثانیہ ہی میںہے۔“ پھوپھو آ نکھیں مٹکاتے ہوئے بولی توبیگم ثروت نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا
”اب کیا کروں ، میرا بس چلے تو اپنے بیٹے کی خوشیاں خرید کر لے آﺅں ۔ ثانیہ میری بھانجی ہے۔وہ مجھے بھی پیاری ہے، میری خواہش ہے وہ میری بہو بنے ، لیکن تم نے ان کا رویہ دیکھا؟میں کوشش کر بھی لوں ، مگر ثانیہ کا من نہیں ہے شعیب کی طرف ، پھر بعد میں وہی جھگڑے فساد ہونے ہیں۔“
”سچی بات تو یہ ہے ثروت، اگر تم نے اپنی بہن اور بہنوئی کے ساتھ رویہ ٹھیک رکھا ہوتانا تو آج یہ دن دیکھنا نہ پڑتا، جب بھائی تھا تب تم بھی ناک پر مکھی نہیںبیٹھنے نہیں دیتی تھی۔“ پھوپھو فاخرہ نے اسے یاد دلانے والے انداز میں کہا تو وہ بھڑک کر غصے میں بولی
”میں نے کیا کر دیا ان کے ساتھ ،میں نے کبھی ان کا برا تونہیںچاہا، جیسا وہ سلوک رکھتے تھے، ویسا میں ان کے ساتھ رکھتی تھی۔“
”اب دیکھا، یہ مراد علی جو ہے، کیسی بڑھ بڑھ کے باتیں کر رہا تھا، بھائی جب تھا تو اس کی جرات نہیںہوتی تھی۔“ پھوپھو نے پینترا بدلتے ہوئے کہا تو وہ دُکھ سے بولی
”کیا یاد دلا رہی ہو فاخرہ۔ وہ تو وہ ہی تھے۔آج وہ ہوتے تو یہ ہماری چوکھٹ نہ چھوڑتے ،منہ سے بات نکالتے تویہ .... چل چھوڑ، کیا باتیںلے کر بیٹھ گئی ہو ۔ چل جا ، اب تُو بھی آرام کر۔“
”ہائے ہائے ، کیا وقت آ گیا۔“پھوپھو فاخرہ نے اٹھتے ہوئے کہا، جس پر بیگم ثروت نے کوئی جواب نہیں دیا ۔ وہ پھر سے خیالوں میںکھو گئی ۔ جاتے جاتے پھوپھو فاخرہ اسے ماضی میںدھکیل گئی ۔
ژ.... ژ.... ژ
دوپہر سے پہلے کا وقت تھا ۔ثانیہ بیڈ کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے بیٹھی ہوئی تھی ۔ ذیشان اس کے پاس کرسی پر بیٹھا ہوا تھا،سائیڈ ٹیبل پر پھول پڑے تھے۔وہ اس کی عیادت کو آ یا ہوا تھا ۔ ثانیہ کے چہرے پر پیلاہٹ پھیلی ہوئی تھی ۔ ان دونوں کے بیچ خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ذیشان کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیسے بات کرے ، تبھی اس نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
”یہ تم نے کیا حالت بنا رکھی ہے ثانیہ ،اب تم ٹھیک ہو ۔ ساری رپورٹس بالکل کلیئر ہیں، کوئی خطرے والی بات نہیں ہے۔“
” میں جس کرب سے گذری ہوںنا ذیشان ،اس کا بس مجھے ہی پتہ ہے۔یہ دردمیری برداشت سے باہر تھا۔مجھے نہیںپتہ یہ اچانک کیوں ہو گیا۔“ ثانیہ دھیمے لہجے میں بولی
”تم نے صرف ایگزام کی ٹینشن لی ہے ۔جب میںنے کہہ دیا تھا، تم پریشان نہ ہو۔ تو پھر تمہیںٹینشن لینے کی ضرورت نہیںتھی۔“ اس نے شکوہ بھرے لہجے میںکہا توثانیہ دبے دبے غصے میں بولی
”لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں۔ ایسا کیا ہو گیا۔ اتنی جلدی شادی؟ میرے ایگزام ہو جائیںتو.... کیا سارے لوگ شعیب سے اتنا ہی ڈر گئے ہیں؟“
اس پر ذیشان نے کچھ کہنا چاہا لیکن اگلے ہی لمحے خود پر قابو پاکر سمجھاتے ہوئے کہا
” بات شعیب سے ڈرنے کی نہیں۔ ہماری پیرنٹس یہ چاہتے ہیں کہ....“
”کچھ بھی نہیںہونے والا۔اورنہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔اور ہمارے پیرنٹس کا فیصلہ؟ تم نے بھی مجھ سے نہیںپوچھا، بس فیصلہ دے دیا؟ چاہے بارات یا ولیمہ .... جیسے میری کوئی اہمیت ہی نہیںہے؟“ثانیہ نے اس کی بات کاٹ کر غصے میںکہا تووہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بولا
”یہ تم کیا کہہ رہی ہو ؟ ہمارے پیرنٹس تو ہمارا اچھا ہی چاہیں گے۔ اور پھر.... اتنی جلدی شادی کی خواہش تمہارے پیرنٹس کی تھی ، میرے پیرنٹس کی نہیں۔“
”میں کہاں ہو ں؟ تم کہاں ہو ؟تمہاری اور میری کوئی اہمیت نہیںاس فیصلے میں؟“ اس نے پوچھا
تبھی ذیشان ایک دم سے چونک کر سمجھتے ہوئے بہلانے والے انداز میں بولا
”ریلکس۔!تم آرام کرو۔ہم اس پر پھر بات کریں گے ۔ ابھی میں آ فس جا رہا ہوں ، وہاں کچھ لوگ انتظار کر رہے ہیں۔تم تیار رہنا۔شاپنگ کے لئے جائیںگے۔کچھ چیزیں ایسی ہیں جو صرف تم ہی پسند کر سکتی ہو ۔“
” نہیں میں شاید کہیں نہ جا سکوں۔“ اس نے اکتائے ہوئے اندا ز میں کہا
” اوکے ، اگر طبیعت چاہے تو مجھے فون کر دینا ۔ اب میںچلتا ہوں۔“یہ کہہ کر وہ کھڑا ہو گیا ۔ اس پر ثانیہ نے اسے رُکنے کے کے لئے ایک لفظ بھی نہیںکہا ۔ ذیشان نے اسے ہاتھ سے اشارہ کیا اور گہری سنجیدگی کے ساتھ باہر کی جانب چل دیا ۔ ثانیہ کے چہرے پر عجیب سے تاثرات پھیل گئے تھے جیسے اسے کچھ اچھا محسوس نہ ہو رہا ہو ۔ اس نے آ نکھیں بند کر کے بیڈ سے ٹیک لگا لی ۔
اسے ذیشان پر سب سے زیادہ غصہ آ رہا تھا۔ وہ ایک شعیب سے خوف زدہ ہوگئے تھے۔اس کی وجہ سے یہ سب آ ناً فاناً ہو رہا تھا ۔وہ کل کوئی اور دھمکی دے دے گا تو کیا ہوگا ؟اس ایک کی وجہ سے اتنے سب لوگ ڈسٹرب ہو گئے تھے ۔ کیا مسئلے کا حل یہی ہے ؟وہ کون ہوتا ہے ان کی زندگی زہر گھولنے والا،کیا وہ اپنی مرضی سے جی بھی نہیں سکتے ؟ پھر کیا فائدہ ایسا سب کرنے کا ۔سو چتے ہوئے اس کی آ نکھ لگ گئی ۔
یہی کوئی سہ پہر کا وقت ہوگا ۔ وہ پر سکون سی کمرے سے باہر آ کر کاریڈور میں کر سی پر بیٹھ گئی ۔وہ کافی فریش دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے ہاتھ میںکتاب تھی مگر وہ پڑھنے کی بجائے اپنے خیالوں میںکھوگئی ہوئی ہے اسے بیٹھے وہاں ذرا دیر ہی ہوئی تھی کہ اس کے پاس بیگم طلعت آ گئی۔ وہ اس کے قریب آ کر بڑے پیار سے بولی
”آج تومیری بیٹی بہت فریش لگ رہی ہے۔“
No comments:
Post a Comment