Tuesday 21 November 2017

امرت کور ناول کا خلاصہ

امرت کور ناول

کہانی کا خلاصہ 
محبت میں اگر سچائی اور پاکیزگی ہوتو وقت اور حالات بھی انسان کا ساتھ دیتے ہیں ۔لمحوںکی خطا ہو یا ناسمجھی کی گئی غلطی ایک بڑی آزمائش بھی بن جاتی ہے ۔جس کا خراج بعض اوقات پوری زندگی بھی دینا پڑ جاتا ہے ۔یہی خراج زندگی اور محبت کی معراج بن جاتا ہے ۔” امرت کور“ کی کہانی انہی خیالات کے گرد گھومتی ہے ۔کہانی کا آ غاز یوں ہوتا ہے کہ ....
بریڈفورڈ یونیورسٹی ہاسٹل کے ایک کمرے میں پڑا بلال احمد اپنی ناکام محبت پر نوحہ کناں ہے ۔ اپنی محبت زویا علی کے پاکستان واپس چلے جانے پر انتہائی مایوس بہت زیادہ دلبرداشتہ ہو چکا ہے ۔ زویا اس کی کلاس فیلو تھی ۔بلال کے ساتھ زویا ان دنوں ملی تھی جب وہ دونوں ہی پاکستان سے نئے نئے آئے تھے۔ ان کی پہلی ملاقات یونیورسٹی کی ایک کنٹین پر ہوئی جب ایک برٹش لڑکا نے اس کے عبایہ اور سکارف پر تنقید کی تو اس نے اپنا رد عمل ظاہر کیا۔ دونوں کے درمیان سلسلہ دراز ہوااور دونوں ہی غیر محسوس انداز میں ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے۔ تعلیمی دورانیہ کے اختتام پر انہوں نے حقیقت کو تسلیم کیا۔ اور اس وعدے پر جدا ہوگئے کہ زویاکے والدین کی رضا کے مطابق ہی فیصلہ کریں گے ۔
بلال اور زویا کا مشترکہ دوست اور کلاس فیلو بھان سنگھ کو اس کی کیفیت کا علم تھا ۔ اس لئے وہ اسے تسلی اور دلاسا دینے کے لئے اس کے پاس آیا ۔ بھان سنگھ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ان کی شادی میں کیا رکاوٹیں ہو سکتی تھی۔زویا سید تھی اور بلال ارائیں تھا۔ دوسرا زویا نہیں چاہتی تھی کہ وہ اپنے والدین کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائے۔ انہیںخاندان کی باتیں سننا پڑیں۔ پاکستان لوٹنے سے قبل بلال اور زویا کی ملاقات ہوئی تھی۔ جس میں انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ اپنوں کا مان رکھیں گے ۔ انہوں نے اپنی محبت آزمانے کا فیصلہ کیا اور ایک دوسرے سے جدا ہو گئے۔ 
بھان سنگھ نے بلال کو مایوسی اور دکھ کی کیفیت سے نکالنے کی کوشش کی۔اس کے دکھ کو کم کرنے کے لئے کہا کہ اگر وہ اس کے ساتھ اس کے گاﺅں چلا جائے تو وہاں اس کی بات بن سکتی ہے۔ ان کے گاﺅں میں ایک گیانی عورت ہے ، اس کے بارے میںیقین ہے کہ وہ جس کے سر پر ہاتھ رکھتی ہے ، اس کی جائز خواہش ضرور پوری ہو جاتی ہے۔ بلال نے اپنے آ پ کو بہلانے ،پاکستان جانے سے پہلے خود کو سنبھالنے اور بھان سنگھ کا مان رکھنے کے لئے اس کے ساتھ ، اس کے گاﺅں جتھوال بھارت جانے کی حامی بھر لی ۔
٭....٭....٭
بلال اور بھان سنگھ امرتسر جا پہنچے۔ جہاں بھان سنگھ کی منگیتر پریت کور نے ان کاا ستقبال کیا۔ وہیں امرت کور کا غائبانہ تعارف ہواکہ اس کے معمولات کیا ہیں۔ بلال کوئی فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ کیاہے ؟ سادھو ، سنت ، گیانی یا پاگل۔ بھان سنگھ کے گھر میں بلال کو بہت عزت دی گئی ۔ سوائے دادی پرونت کور کے ، وہ اسے دیکھتے ہی چونک گئی تھی۔ اس کے چہرے پر اس نے حیرت ، تجسس اور تعجب دیکھا تھا۔ وہ یہی سمجھا کہ بوڑھی پرونت کور مسلمانوں کے بارے نفرت کے باعث ایسا رویہ رکھے ہوئے ہے ۔ بھان سنگھ کا والد پردیپ سنگھ ، چاچا امریک سنگھ ، ماں انیت کور اور چاچی جسمیت کور نے خوش آ مدید کہا۔ جب تھانے دار خود چل کر ان کے گھر آیا ور اس کی اطلاع لی تو بلال کو بھان سنگھ کے باپ پردیپ سنگھ کے گاﺅں میں اثر رسوخ کے بارے میںاحساس ہوا۔
دوسری طرف پاکستان میں دادا نور محمد کو بلال کے والدین پوچھتے ہیں کہ بلال کا کوئی اتہ پتہ نہیں ، دادا انہیں تسلی دیتا ہے کہ آ جاے گا ، وہیں کہیں اپنے دوستوں کے ساتھ ہوگا ۔زویا علی اپنی ماں کو بتاتی ہے کہ میں اییک پاکستانی لڑکے کو پسند کرتی ہوں ۔ جس پر والدہ اور والد صاف انکار کر دیتے ہیں ۔
اگلے دن بھان سنگھ بلال کو اپنے ساتھ لے کر گرودوارے چلاگیا۔ وہاں ان کے لئے ارداس تھی ۔ بھان سنگھ کو یقین تھا کہ وہیں آئے گی ۔ نہ آئی تو اس کے گھر چلے جائیںگے ۔ وہیں امرت کور آ گئی۔ بلال نے اس کی مذہبی عقیدت اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ وہیں بلال اور امرت کور کا سامنا ہوا ۔ اسے دیکھ کر وہ چونک گئی ۔ نہ صرف اس کے سر پر ہاتھ رکھا بلکہ اسے اپنے سینے سے لگا لیا۔امرت کور نے بھان سنگھ کو حکم دے دیا کہ اس کی اجازت کے بغیر بلال نہ جائے ۔ وہیں بلال کو معلوم ہوا کہ گاﺅں میں انہونی ہو گئی ہے ۔ امرت کور نے برسوں کی خاموشی کوتوڑ دیا تھا۔ 
اسی شام بلال سے ملنے کے لئے امرت کور کا بھائی سریندر پال سنگھ ، بھابھی ستنام کور اور بھتیجی گنیت کور آگئے۔ وہ اس کا شکریہ ادا کرنے آگئے تھے کہ اس کی وجہ سے امرت کور نے زبان کھولی تھی ۔ وہ اُسے اپنے ہاں مہمان رکھنا چاہتے تھے ۔
دادی پرونت کور کو اس کے خاندان کے بارے میںبڑا تجسس تھا۔ بلال نے اپنے لیپ ٹاپ میںموجود تصویروں سے اپنے خاندان کا تعارف کرایا۔ اس کا باپ ، ماں، بہن اور دادا نور محمد ، جس سے وہ بہت پیار کرتا تھا۔ دادیپرونت کور پہچان جاتی ہے کہ بلال احمد دراصل نور محمد کا پوتا ہے ۔وہ اس اتفاق کو رب کی رضا سمجھتی ہے ۔ اسی رات دادی پرونت کور نے امرت کور کی خاموشی اور اس کی خاموشی دور ہونے کا راز کھولا۔
٭....٭....٭
امرت کور اور پرونت کور دونوں گہری سہلیاں تھیں۔ امرت کور کو نور محمد پسند آ گیا تھا۔ لیکن نور محمد اس سے گریز پا تھا۔ وہ پاگلوں کی طرح اس کی محبت پانے کی کوشش میںلگ گئی تھی۔اس نے نور محمد کو پانے کا ہر جتن کر ڈالا ۔ اس کی راہوں میں آتی ، نور محمد کی بہن حاجراں کو اپنی سہیلی بنایا۔ گاﺅں سے بھاگ جانے کی صلاح دی ، دولت کا لالچ دیا مگر نور محمد کا انکار ، اقرار میں نہیں بدلا۔ امرت کور مایوس ہو گئی ۔ دادی پرونت کور نے بھی امرت کور کو چھوڑ دیا ۔ وہ اس کی بات نہیںسنتی تھی اور پھر اس کی اپنی شادی ہوگئی تھی۔
رگھبیر سنگھ شہر کے کالج میں پڑھتا تھا ۔ اور پال ذات ہی کالڑکا تھا۔ وہ شدت پسند تھا ۔ اس نے گاﺅں میں آتے ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت بھر دی ۔ یہاں تک کہ قیام پاکستان کا اعلان ہو گیا۔ گاﺅںمیںفساد ہوا ۔ نور محمد کا سارا گھر اور افراد جل گئے ۔ رگھبیر مارا گیا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ نور محمد نے اسے مارا ہے اور خود غائب ہو گیاہے۔امرت کور پاگل ہوگئی ۔ ۷۴ ءسے خاموش امرت کور اب بولی ہے ۔
٭....٭....٭
بلال کے دل میں امرت کور کے لئے نفرت ابل پڑی۔ اسی صبح سریندر سنگھ اسے اپنامہمان بنانے آ گیا۔بلال جانا نہیںچاہتا تھا لیکن دادی پرونت کور نے اسے جانے کاکہہ دیا۔ وہ انکے ساتھ چلاگیا۔ وہاں جا کر امرت کور کے روےے کی وجہ سے نفرت کاابال کم ہو گیا۔امرت کور اسے جانے نہیں دینا چاہ رہی تھی ۔ جبکہ وہ شاپنگ کے لئے امرتسرجانا چاہتے تھے ۔ بلال یہی سمجھا کہ امرت کور اب نور محمد کاا نتقام اس سے لے گی۔ وہ خوف زدہ ہوگیا۔ امرت کور ان کے ساتھ ہی امرتسر میں ہر مندر صاحب چلی گئی ۔ اس نے پریت کور اور بھان سنگھ کو شاپنگ کرنے بھیج دیا اور خود اسے لے کر ہر مندر صاحب کے اندر چلی گئی ۔ وہیں اس نے بیٹھ کر اپنی کہانی سنائی کہ اس مقدس جگہ پر وہ جھوٹ نہیںبول سکتی۔
٭....٭....٭
اس نے تسلیم کیا کہ جب اس نے پہلی بار نور محمد کو میلے پر دیکھا، تبھی سے وہ اس پر فریفتہ ہو گئی تھی ۔ وہ اپنے باپ بلوندر سنگھ کے ساتھ میلے میںتانگے پر گئی تھی ۔ نور محمد نے وزن اٹھا کر مقابلہ جیتا تھا۔ اس نے بہت کو شش کی کہ کسی طرح نور محمد اس کی طرف التفات کرے لیکن وہ نہیںمانا ۔ یہاں تک کہ وہ اس کے انکار کو اپنی ہتک ماننے لگی ۔ اس کی ضد جنونی کیفیت اختیار کر گئی۔ نور محمد یہی سمجھتا تھا کہ امرت کور اپنی ہوس کی وجہ سے اسے جیتنا چاہتی ہے ۔ جبکہ وہ سچے دل سے اس کے ساتھ محبت کرتی تھی ۔نہ وہ سمجھا اور نہ یہ سمجھا سکی ۔بلوندر سنگھ کو ان دونوں کی ملاقات کا پتہ چل گیا۔ بلوندر سنگھ ،نورمحمد کی شرافت کو جانتا تھا اس لئے اس نے اپنی بیٹی سے پوچھا۔اس نے مان لیا کہ وہ خود اسے چاہتی ہے ، نور محمد کاکوئی قصور نہیںہے ۔ بلوندر سنگھ نے اپنی ذات کے لڑکے رگھبیر سنگھ سے اس کی منگنی کر دی۔ امرت کور کی زندگی بدل گئی ۔ اس نے خود کو بابا بلھے شاہؒ کے کلام اور گرنتھ صاحب میں ڈبو دیا۔ ایک رات اسے رگھبیر سنگھ مسلمانوں کو ختم کرنے کے خوف ناک منصوبے کا علم ہوا ۔ امرت کور نے دھوکے سے نور محمد کو بلایا اور اسے بھاگ جانے کا کہا۔ لیکن اس نے امرت کور پر تھوک دیا۔ اس نے نومحمد کو دھوکے سے مارا اور بے ہوش کر دیا۔ نورمحمد کی بے ہوشی میںگاﺅں جل گیا ۔ اس کا گھر بار جل گیا۔ وہ اس کے سرہانے بیٹھی تھی کہ رگھبیر سنگھ آ گیا ۔ اس نے نور محمد کو قتل کرنا تو امرت کور نے کرپان سے رگھبیر سنگھ کو قتل کر دیا ۔ نور محمد اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ امرت کور ہارے ہوئے جواری کی طرح رہ گئی۔ تب سے وہ اپنے رَبّ سے یہی دعا کرتی رہی کہ ایک بار نور محمد سے ملا دے۔ 
٭....٭....٭
بلال اپنے ساتھ پرونت کور اور امرت کور کو اس جگہ لے گیا جہاں انکے اپنے آ بائی گھر تھے ۔ پھر وہاں لے گیا جہاں اس کے آباءدفن کئے گئے تھے ۔ وہاں فصلیںاُگی ہو ئیں تھیں۔ امرت کور کو بلال نے یہ احساس دلایا کہ یہ ہے آپ کا پیار، ان کی قبروںکا نشان تک نہیںہے۔ اس نے جذباتی انداز میں جتایا کہ جس سے محبت ہوتی ہے ، اس کی نسبت سے بھی محبت کی جاتی ہے ۔اُس نے خود اکیلے وہاںنماز جنازہ ادا کی۔ اس دوران امرت کور اپنی غلطی پر روتی رہی۔ بلال نے واپسی پر بھان سنگھ کو جتھوال سے امرتسر تک اسے ساری کہانی سنا دی۔
٭....٭....٭
بلال پاکستان میں آیا تو زویا اس کے انتظار میں تھی ۔ نیٹ پر دونوں کا رابطہ تھا۔ وہ اسے خوشخبری دی کہ اس کے والدین کافی حد تک مان گئے ہیں۔ وہ اسے خود اسے گھر چھوڑے آئی تو اس کی ملاقات دادا نور محمد سے ہو گئی ۔ نوجوان پارٹی کا آپس میں نیٹ کے ذریعے رابطہ ہو گیا۔
گذرتے دنوں میں پرونت کور اور امرت کور نے اس کے گھر والوںکی قبریں بنوا کر وہاں شھید پاکستان لکھ دیا۔ اور اس کی تصویریںبھان سنگھ نے بلال کو بھجوا دیں۔ تبھی بلال نے اپنے دادا کو بتایاکہ وہ جتھوال سے ہو آیاہے ۔ دادا نے امرت کور کے بارے کوئی اظہار کیا۔
٭....٭....٭
اچانک بھان سنگھ نے اپنے خاندان کے چند افراد کے ساتھ پاکستان آنے کی اطلاع دی۔ اس کے ساتھ امرت کور بھی پاکستان آ گئی ۔ نور محمد اور امرت کور کا آمنا سامنا ہو گیا۔ وہ سبھی ان کے مہمان بنتے ہیں۔ 
امرت کور کا حضرت میاںمیرؒ ، جنم استھان ننکانہ ، پنجہ صاحب حسن ابدال ، رنجیت سنگھ مڑھی لاہور ، بابا فرید گنج شکر ؒ پاک پتن اور بلھے شاہ ؒ قصور گئی ۔ نور محمد کے دل میں جو نفرت تھی وہ احترام میںبدل گئی ۔
٭....٭....٭
زویا اپنے گھر میں ان سب کو اپنے گھر میںدعوت دی تو بلال کی وجہ سے دادا بڑے طمطراق کے ساتھ وہاں گیا۔ وہ بہت متاثر ہوئے۔ دادا اور امرت کور کی ملاقات ہوئی ۔ اور وہ چلے گئے۔
نیٹ پر نوجوانوں میں یہ بحث چل پڑی کہ امرت کور اور دادا نور محمد کی شادی ہو جانی چاہئے۔ یہاں دو طرف سے کوشش کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بلال اور زویا دادا کو منائیںگے اور بھان سنگھ اور پریت امرت کور کو سے بات کریںگے ۔ یہ بحث چل پڑی تو سبھی حیران رہ گئے ۔ نوجوانوںکا موقف یہ تھا کہ جب دونوں نے ایک دوسرے سے گلے شکوے ختم کر لئے ہیںتو اب ان کاملن بنتاہے ۔ اس دوران زویا اور بلال کی ملاقاتیںچلتی ر ہیں۔ یہاں تک کہ بلال نے دادا سے بات کی ۔ دادا نے حیرت سے اس بات کو سنا اور انکار کر دیا۔ اس پر بلال نے بھی احتجاجاً زویا سے شادی کرنے سے انکار کر دیا ۔ زویا بھی اس سے متنفر ہو گئی کہ یہ کیا شرط ہوئی ۔ اس نے خود شادی سے انکار کر دیا ۔ دادا نے شرط عائد کردی کہ اگر امرت کور مسلمان ہو جاتی ہے تو میںشاد ی کرلوں گا۔ بلال اس پر بھی اڑ گیا ۔ یہاں تک کہ بھان سنگھ اور پریت کور کی شادی ہونے کی اطلاع آ گئی ۔ انہیں دعوت دی گئی ۔
٭....٭....٭
وہ دونوں دادا پوتا جھتوال چلے گئے ، جہاں ان کا استقبال بڑا جذباتی ہوا ۔ وہ بھان سنگھ کے گھر گئے ۔ وہیں امرت کور کے علاوہ سبھی موجود تھے ۔ بلال سمجھا کہ وہ ناراض ہے ۔ وہ اور بھان اسے تلاش کرتے ہوئے واپس گھر آ گئے ۔ امرت کور گھر تھی ۔ وہیں دونوں خاندانوں کے لوگ آتے ہیں۔ وہیں امرت کور سے جب نور محمد کا سامناہواتو وہ اس کی بانہوں میںدم توڑ گئی ۔ نور محمد اور بلال اس کی آخری رسومات میںشامل ہوئے تو امرت کور کی وصیت کے مطابق نور محمد اس کی چتّا کو آگ لگائی ۔ واپسی پر زویانے ان کا استقبال واہگہ پر کیا ۔ 
٭....٭....٭

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *