حصار
امجد جاوید
قسط نمبر11
” اب تو پر سکون ہو نا ؟“ اس نے پوچھا
” ہاں ، بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں۔“ وہ مسکراتے ہوئے بولی ، تب شعیب نے سنجیدگی سے کہا
” دیکھو ثانیہ ، ایسی بات نہیں ہے کہ ذیشان سے تمہاری منگنی ختم ہو نایا نہ ہونا میرے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ مجھے یہ سب قبول ہی نہیں تھا۔اور اب اگر تمہارے ساتھ بیٹھا تو اس کی وجہ یہ حالات نہیں ۔میںنے تمہیں پہلے بھی بتایا ہے اور اب ددہرا رہا ہوں کہ مجھے تمہاری خوشی چاہئے ۔ جیسے تم خوش رہو۔کیونکہ مجھے تم سے محبت ہے ۔“
” یہ محبت بھی نہ جانے کیا چیز ہے ؟“ اس نے کہا اور طویل سانس لے کر رہ گئی
” میرے نزدیک محبت دوسرے کی خوش میں خوش رہنے کا نام ہے اور بس ۔“ شعیب نے مخمور نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو وہ بولی
” یہ محبت زندگی بھی دیتی ہے اور مار بھی جاتی ہے ۔“
” اچھا ، چھوڑو ان باتوں کو ، اب تم نے خود کو بالکل پر سکون رکھنا ہے ۔ تم جو کرنا چاہو کرو ۔ تم شاید امتحان دینا چاہتی تھی ، سکون سے دو ۔بس صحت مند ہو جاﺅ۔ باقی سارے مسئلے ، سارے معاملے بعد کے ہیں ۔“ شعیب نے بہت جذباتی لہجے میں کہا تو وہ دھیرے سے مسکرا دی ۔وہ اس کی طرف دیکھتی ررہی پھر ہنستے ہوئے بولی
” اتنے دن ہو گئے مجھے یوں پر ہیزی کھانے کھاتے ہوئے ، کوئی اچھا سامصالحے دار کھانا نہیں کھلا ﺅ گے یا باتوں سے ٹر خاتے رہو گے ۔“
اس پر شعیب نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا
” آ ﺅ چلیں ۔“
وہ دونوں اٹھ کر چل دئیے ۔
٭....٭....٭
رات کا پہلا پہر ختم ہونے کو تھا ۔فرزانہ اپنے بستر پر پڑی سوچوں میں گم تھی ۔ اسے یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ ان چند ہی دنوں میں اس کے ساتھ ہو کیا گیا ہے ۔ کیا دنیا اس قدر ظالم ہے کہ جیسے ہی اس نے گھر سے قدم نکالا، وہ ظلم کا شکار ہو گئی ۔ کس طرح اس کی خواہشوں اور مجبویوں کو استعمال کیا گیا ۔ ایک جھٹکے ہی میں اس سے سب کچھ چھین لیا گیا۔ کیا کبھی وہ اپنا بدلہ لے پائے گی یا یونہی سسک سسک کر اس دنیا سے چلی جائے گی ؟ کیا کبھی یہ معاشرہ اسے عزت دے گا؟ یا یونہی کیڑے مکوڑوں کی مانند زندگی بسر کر کے مر جائے گی ؟وہ اچھی طرح سمجھتی تھی کہ اسے کس طرح استعمال کر لیا گیا ۔ وہ اگر احتجاج بھی کرے گی تو اس کی آ واز دبا دی جائے گی۔ اور اگر کسی نے ا س کی کسی نے آواز سن بھی لی تو کوئی کان نہیں دھرے گا ۔ ہر کسی کو اپنی پڑی ہوئی ۔ شاید اب وہ معاشرہ نہیں رہا ، جس میں رحم دلی ،ہمدردی یا بے غرض ہو کر دوسروں کی مدد کی جاتی ہے ۔وہ انہی خیالات میں کھوئی ہوئی تھی کہ باہر دروازے پر دستک ہوئی ۔ وہ اس مخصوص دستک کو جانتی تھی ۔ ایسی دستک صرف اسلم دیتا تھا ۔ اس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا۔فرزانہ نے دیکھا کہ ایک بار تو ماں نے بھی دستک سنی لیکن پھر یوں سوئی ہوئی بن گئی ، جیسے اس نے دستک سنی ہی نہ ہو ۔ وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ فرزانہ باہر جا کر اسلم سے بات کرے ۔اس نے تلخی سے سوچا، غربت کیا کیا تماشے دکھاتی ہے ۔ عام حالات میں اگر کوئی لڑکا یوں رات گئے دروازے پر دستک دیتا، وہ چاہئے اسلم ہی کیوں نہ ہوتا تو اس کی ماں شیرنی کی طرح گرج پڑتی ۔دوسری دستک پر وہ اٹھی اور دروازے تک گئی ۔ تب تک اسلم نے تیسری بار دستک دے دی تھی ۔ اس نے دروازہ کھولا تو سامنے اسلم ہی کھڑا تھا۔ وہ فوراً اندر آ گیا۔ اس نے آ تے ہی ہولے سے پوچھا
” خالہ کہاں ہے ؟“
” وہ اندر سو رہی ہے۔“ فرزانہ نے خمار آ لود لہجے میں کہا تو اسلم نے کھسیانے سے انداز میں کہا
” وہ میں خالہ ہی کا پتہ کرنے آ یا تھا۔ کیسی ہے وہ ؟“
” ٹھیک ہے ۔“ اس نے مختصر سے کہا
”وہ میں تمہارے لئے ایک چیز لایا ہوں ۔ “ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور سستا سا سیل فون نکال کر اس کی جانب بڑھا کر بولا،” یہ لو ،میں تم سے باتیں کر لیا کروں گا ۔“
وہ چند لمحے سیل فون کی طرف دیکھتی رہی پھر اکتائے ہوئے لہجے میں بولی
” کس لئے اسلم ، ہم کس لئے باتیں کریں گے ۔ان باتوں اکانجام کیا ہے ؟“
” دیکھوفرزانہ ، میںنے اپنی امی سے کہہ دیا ہے کہ جہاں وہ میری منگنی کرنا چاہتی ہے ۔ میںوہاں نہیں کرنا چاہتا۔ وہ رُک گئی ہے ۔اب وہاں میری منگنی نہیںہوگی ۔ کچھ دنو ں تک میں امی سے بات کرلوں گا ۔“اس نے تیزتیز انداز میں دھیرے سے کہا
” اسلم ، میںنے کہا ہے نا کہ جب تمہاری ماں مان جائے ، تب مجھ سے بات کرنا۔میری شادی اب مسئلہ نہیںرہی ۔ میں اب خود کمانے لگی ہوں ۔ اور یاد رکھنا، جس جہیز کی وجہ سے تمہاری ماں نے مجھے حقارت سے دیکھا تھا، وہ میں چند ماہ میں بنا کر دکھاﺅں گی ۔“ فرزانہ نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا
” تم ناراض ہو رہی ہو ۔ میں تو ایسا نہیں چاہتا نا ، میں آ گیا ہوں نا تمہارے لئے ۔تم جو کہو گی وہی ہوگا۔“ اسلم نے اسے منانے والے انداز میں کہا
”یہ راتوں کو چھپ چھپ کر ملنا، کیا یہ ٹھیک ہے ؟“ اس نے پوچھاتو وہ کھسیانے لہجے میں بولا
”ٹھیک تو نہیں ہے پرکیا کروں، مجھ سے رہا نہیں جاتا، مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں نے تمہارے ساتھ بہت زیادتی کی ہے ۔ میں برداشت نہیں کر پا رہا ہوں ۔“
” تو جاﺅ ، اسی دن آ نا ، جب تمہاری اور میری منگنی ہو جائے ۔ “ اس نے پھر اکتائے ہوئے انداز میں کہا
” نہیں فرزانہ ، ایسے نہ کہو ،میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔“ وہ بے چارگی سے بولا
” دیکھو ، میں پھر کہہ رہی ہوں ، اب شادی میرا مسئلہ نہیں ہے ، کوئی بھی مجھ سے شادی کر لے گا۔اب اگر میں تم سے شادی کرتی ہوں تو عزت کے لئے ۔ احترام کے لئے ،اس گھر میں مان کے لئے ۔ کیونکہ تمہاری ماں نے مجھے ٹھکرایا ہوا ہے ، میں کس منہ سے وہاں پر جاﺅں گی؟“ وہ پھر جذباتی انداز میں بولی تو اسلم نے تڑپ کر کہا
” میں دوں گا تمہیں عزت ۔“
” ہاں تمہی دے سکتے ہو ۔مجھے اب تم سے محبت نہیں عزت چاہئے ، وہ اگر دے سکتے ہو تو۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہاتو اسلم نے محبت بھرے لہجے میں کہا
No comments:
Post a Comment