لہو بول اٹھا ہے
امجد جاوید
اس صبح میں ندیم کو دیکھ کرچونک گیا۔ دھند پھیلی ہوئی تھی،وہ کلاس روم سے باہر برآمدے کے ستون کے ساتھ لگا کھڑا تھا ، سردی سے بے نیاز نجانے کیاسوچ رہا تھا۔ میں اسے ایک نگاہ ہی دیکھ پایا تھا۔ میں اس کے قریب سے گذرا اور سٹاف روم کی جانب بڑھ گیا۔لیکن ندیم کا چہرہ میری نگاہوں سے نہیں ہٹ رہا تھا۔میں نے کبھی بھی اسے یوں سوگوار نہیں دیکھا تھا۔ اس کے چہرے پر ایک عجیب طرح کا تاثر تھا، جسے میں سمجھ نہیں پایا تھا اور اسی تاثر نے مجھے ندیم کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ندیم میری کلاس کا سب سے زیادہ شرارتی بچہ تھا۔ وہ نویں کلاس میں تھا۔ لمباقد، مضبوط جسم، گندمی رنگ، تیکھے نقش، سیاہ بال، خاص طور پر ذہانت بھری آ نکھیں۔ میں تو اس سے تنگ تھا ہی ، میری طرح دوسرے اساتذہ بھی اس سے نالاں ہی رہتے تھے۔ جس دن اس کی شکایت نہ آتی، اس دن حیرت ہوتی ۔ کلاس پر اس نے رعب جمایا ہوا تھا اور مانیٹر بے چارہ اس سے ڈرتا رہتا تھا۔ لیکن۔! ان ساری باتوں کے باوجود ہم سبھی اساتذہ اسے نظر انداز کر دیا کرتے تھے۔ کیونکہ وہ شرارتی تو تھا لیکن بدتمیز نہیں تھا۔ شرارت اور بدتمیزی میںبڑا فرق ہوتا ہے۔ دوسرا اس کا شمار ذہین ترین طلبہ میں ہوتا تھا۔ میں بھی اور دوسرے اساتذہ بھی اسے ہمیشہ یہی تلقین کرتے کہ اگر وہ دل لگا کر پڑھے تو بہت زیادہ مارکس لے سکتا ہے۔ کتابوں پر اس کی توجہ کم اور دیگر کاموں پر اس کی توجہ زیادہ ہوتی تھی۔ وہ بہت اچھا کھلاڑی تھا۔ کچھ دنوں پہلے انٹر سکول ٹورنامنٹ میں اس نے کئی کھیلوں میں انعامات جیتے تھے۔ اس کے والد صاحب سے میری مسجد میں اکثر ملاقات رہتی تھی ۔ وہ ندیم کے بارے یہی خواب دیکھتے تھے کہ اسے ڈاکٹر بنائیں گے۔ وہ یہی کہتے تھے کہ وہ پوری توجہ پڑھائی کی طرف لگائے گا تو ہی ڈاکٹر بن سکے گا۔
ندیم کے چہرے پر ہمیشہ ایک خوشگوار مسکراہٹ رہتی تھی۔ اس کی ذہانت بھری آ نکھوں میں زندگی کی بھر پور چمک رہتی تھی۔ لیکن اس صبح جب میں نے اسے مر جھایا ہوا دیکھا، تو فطری طور پر میں چونک گیا کہ اسے کیا ہوا ہے؟
سکول بیل بج گئی۔اسمبلی شروع ہو گئی۔ ندیم اپنی کلاس کی قطار میں یوں کھڑا تھا، جیسے اسے اپنے ارد گرد کا ہوش نہ ہو۔تلاوت اور نعت جب پڑھی جا رہی تھی، وہ پورے جذب میں تھا۔ جیسے ایک ایک لفظ اپنے اندر اتار رہا ہو۔ اس کے بعد جب قومی ترانہ پڑھا جا نے لگا تو وہ ایک دم سے یوں سیدھا کھڑا ہوگیا ، اس کے اندر جوش اور جذبہ نجانے کہاں سے امنڈ آیا۔ میں نے خاص طور پر نوٹ کیا کہ سارے اسکول کے بچوں کے ساتھ وہ قومی روانہ پڑھ رہا تھا،لیکن اس کی نگاہیں لہراتے ہوئے سبز ہلالی پرچم پر تھیں۔ اور اس وقت تو میں بری طرح جھنجھلا گیا، جب ترانے کے آ خر میں اس کی آ نکھوں میں آنسو چمک رہے تھے۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مجھے یقین ہو گیا کہ ندیم کے ساتھ کوئی معاملہ ضرور ہے۔ میرے ذہن میں بہت ساری باتیں گونجنے لگیں۔ کئی خیال آنے لگے کہ ممکن ہے اس کے والد صاحب نے ڈانٹا ہو یا ایسے ہی کئی خیال آتے چلے گئے۔ میں سوچتا رہا ۔ اسمبلی کے بعد بچے اپنی اپنی کلاسوں میں چلے گئے۔
میں کلاس روم میں گیا۔ حاضری لگانے کے بعد پڑھائی شروع ہوگئی۔ اس دوران بھی ندیم ایسے ہی رہا۔ اس کا سارا دھیان کتاب کی طرف تھا۔تبھی ایک دم سے مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے یہ بھی اس کی کوئی نئی شرارت ہو۔ لیکن اگلے ہی لمحے یہ سوچ میرے دماغ سے نکل گئی۔ اس کی آنکھوں میں چمکتے ہوئے آنسوﺅں نے اس سوچ کو ایک لمحہ سے بھی زیادہ دیر تک میرے دماغ میں نہیں رہنے دیا۔میںنے فیصلہ کر لیا کہ کلاس کے بعد ندیم سے بات کروںگا۔
کلاس تم ہوگئی تو میں نے اسے بلایا اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ میرے ساتھ چلتا ہوا سٹاف روم میں آ گیا۔ میںنے الماری میں اپنا سامان رکھا اور اسے لیکر ایک خالی کمرے میں آ گیا۔ میں چند لمحے اس کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا، پھر پوچھا
” ندیم ۔! کیا بات ہے، تم اس قدر مرجھائے ہوئے کیوں ہو؟“
اس نے چونک کر میری جانب دیکھا،جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو۔ پھر میری طرف دیکھ کر بھرائے ہوئے لہجے میں بولا
” سر۔! کل آپ نے ٹی وی نہیں دیکھا، کوئی خبر نہیں سنی؟“
تبھی شدید دکھ کی لہر نے مجھے جکڑ لیا۔ مجھے پشاور آرمی پبلک اسکول کے بدترین سانحے کا درد پھر سے جاگ اٹھا۔ ٹی وہ دیکھے گئے مناظر، پھول سے بچوں کو دہشت گردی کا شکار ہونے کی خبر نے ایک دفعہ تو جگر پاش پاش کرکے رکھ دیا۔ دل تھا کہ پھٹا جا رہا تھا۔ آنسو بے ساختہ آ نکھوں سے رواں تھے۔ میں ساری رات نہیں سو پایا تھا۔ مجھے یہی خیال آ تا رہا تھا کہ ان ماﺅں کا حال اس وقت کیا ہے ، جن کے سامنے اس کے بچوں کا جسم خون آلود پڑا ہوگا۔ اپنے ہی جگر کے ٹکڑوں کو خون میں نہایا دیکھ کر والدین پر کیا گذری ہوگی۔ اگر اس سانحے میں میرا بچہ ہوتا تو میں کیا کر رہا ہوتا۔ مجھے یہی احساس ہونے لگا کہ وہ میرے بچے تھے۔ میرے وطن میں کھلنے والے وہ پھول تھے، جنہیں دنیا کی ذلیل ترین مخلوق نے دہشت گردی کا نشانہ بنا کر مسل ڈالا۔ ان بچوں کا کیا قصور تھا؟ میں نے جو خود کو بڑی مشکل سے قابو کیا تھا، تاکہ اسکول کے بچوں کے سامنے میرے آ نسو نہ نکل پائیں، ندیم کے ایک سوال سے نجانے کب میری آ نکھوں سے آ نسو رواں ہو چکے تھے۔
” ہاں بیٹا۔! میں نے دیکھا۔“ میں اتنا ہی کہہ پایا تو وہ درد انگیز لہجے میں بولا
” سر، وہ کیسے درندے ہوں گے ، جنہوں نے اتنی سفاکی سے ان بچوں پر گولیاں چلائیں۔ وہ انسان نہیں ہو سکتے ۔کسی بچے کی چیخ نے ان کا دل نہیں پھاڑا؟“
” نہیں بیٹا۔ وہ انسان نہیں تھے۔ درندے تھے، سفاک درندے، وحشی، جن کا انسانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا، پھر سر جھٹک کر پوچھا” کیا تم اسی وجہ سے افسردہ ہو؟“
” سر ، میں افسردہ ہی نہیں، اور بہت کچھ سوچ چکا ہوں۔“ وہ ایک عزم سے بولا
” کیاسوچ چکے ہو؟“ میں نے تجسس سے پوچھا
” یہی کہ میں نے ان دہشت گرودں سے بدلہ لینا ہے۔“ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا
” بدلہ لینا ہے؟ تم نے ، کیا کروگے؟“ میں نے ایک دم سے چونکتے ہوئے پوچھا
” ہاں سر، میںنے بدلہ لینا ہے۔“ اس نے پھر اسی مضبوط لہجے میں جواب دیا
” کیسے۔ ابھی تو تم بہت چھوٹے سے لڑکے ہو، تم کیا کرو گے؟“ میں نے پوچھا
” سر میں نے بہت سوچ کر یہ فیصلہ کیا ، کیسے ہوگا ، یہ بھی میں اب سمجھتا ہوں اور میں آج ہی سے بدلہ لینے کا آ غاز کر رہاہوں۔“ اس نے یوں کہا ، وہ اب کسی کی بات بھی نہیں ماننا نہیں چاہ رہا ہو۔ میرے دماغ میں ایک دم سے کئی ایسے خیال گردش کرنے لگے ، جو بہت خطرناک بھی ہو سکتے تھے ۔تبھی میں نے تحمل سے پوچھا
” پھر بھی بیٹا، مجھے تو بتاﺅ، شاید میں تمہاری مدد کر سکوں۔“
” سر آپ تو ہماری بہت مدد کر رہے ہیں، میں ہی نادان تھا کہ سمجھ نہیں سکا تھا۔“ اس نے کہا، پھر شاید اسے میرے چہرے پر پھیلی بے چارگی کر کہا،” سر فرض کریں یہی دہشت گرد میرے اسکول میں آ جاتے ، اور یہی کچھ کرتے تو کیا ہوتا۔ آج میرے کئی کلاس فیلو میرے ساتھ نہ ہوتے ، یا میں ان کے ساتھ نہ ہوتا۔ میرے والدین پر کیا گذرتی ۔ وہ باپ جو مجھے ڈاکٹر بنتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیا ہوتا ان سب کا؟میں جانتا ہوں کہ میں ابھی بہت چھوٹا ہوں ۔ میں گن لے کر انہیں مارنے کے لئے نہیں نکلوں گا۔“
” تو پھر کیا کرنا چاہتے ہو؟“ میں نے پوچھا
” میں اپنے فرض کو پہچان گیا ہوں سر، وقت آ گیا ہے کہ سبھی اپنے فرض کو پہچان جائیں۔ ایک طالب علم ہونے کے ناطے تمام فضولیات کو چھوڑ کر میرا پہلا فرض یہ ہے کہ میں پڑھوں۔ میرا علم حاصل کرنا ہی ، ان دہشت گردوں سے بدلہ لینا ہے ۔ وہ نہیں چاہتے کہ پاکستانی قوم پڑھے اور میں ان درندوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہم پڑھیں گے، اتنا پڑھیں گے کہ ان دہشت گردوںکی سوچ تک مار دیں گے۔“ اس نے اس قدر پر عزم اور مضبوط لہجے میں کہا کہ میرا حوصلہ جوان ہو گیا۔
” وہ چاہتے ہیں کہ ہم ڈر جائیں، ہم نہیں ڈریں گے۔ یہی ہمارا ان سے بدلہ ہے۔ ہم انہیں ڈرائیں گے۔ اپنے ارد گرد ان لوگوں پر نظر رکھیں گے جو بے غیرت دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں، یہاں تک کہ ان کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔“
” بیٹا پہلی بات تو ٹھیک ہے ، لیکن جب تم ادھر ادھر دیکھو گے تو تمہاری توجہ بٹ جائے گی۔“ میں نے کہا تو وہ بولا
” نہیں سر۔! جب میں پڑھوں گا ، اچھے مارکس لوں گا تو دہشت گردوں سے ہمددری رکھنے والے سہولت کار کسی کو آ لہ نہیں بنا پائیں گے۔ وہ ڈریں گے ہم سے۔“
” یہ تمہارا بہت اچھا فیصلہ ہے کہ تم علم حاصل کرکے ان دہشت گردوں سے بدلو گے۔“
” جی سر ، میں اپنی ساری صلاحتیں اپنے وطن کی ترقی اور اسے مضبوط بنانے پر لگاﺅں گا تو بھی میں ان دہشت گردوں سے بدلہ لوں گا۔ جو نہیں چاہتے کہ میرا ملک پاکستان مضبوط ہو۔“ اس نے پھر بے خوفی سے کہا ۔ تب مجھے احساس ہوا کہ یہ اتنی باتیں یہ بچہ سوچ سکتا ہے؟
” کیا یہ فیصلہ تم نے اکیلے ہی کیا ہے؟“ میں نے پوچھا
”رات میںنے اپنی امی سے بہت باتیں کیں۔ انہوںنے مجھے اپنی گود میں لے کر بہت پیار کیا تھا۔ میں ان کا پیار رائگاں نہیں جانے دوں گا۔ میں اب کسی ماں کو نہیں رونے دوںگا۔“
” ہاں بیٹا۔! تم خوب پڑھو، لکھو اور باصلاحیت بن کر اپنے والدین اور اپنے ملکی کی تعمیر و ترقی میںلگ جاﺅ ، یہی ان دہشت گردوں کی سفاکی کا جواب ہے ۔ ان کی گھٹیا اور گھناﺅنی سوچ کو دفن کرنے کا زبردست بدلہ ہے۔‘تم اپنے والد صاحب کے خواب پورے کرو، وہ تمہیں ڈاکٹر دیکھناچاہتے ہیں۔“ میں نے اس کا ارادہ دیکھ کر بڑے حوصلے اور مان سے کہا
” نہیں سر۔! میں نے اب ڈاکٹر نہیں بننا؟“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
” تو پھر کیا بننا ہے؟“ میں نے تجسس سے پوچھا
” میں نے فوجی بننا ہے، آرمی آفیسر۔“
” یہ کیوں؟“ میں نے پوچھا
” میں نے ان دہشت گردوں سے بدلہ لینا ہے۔ اب کسی ماں کو نہیں رونے دینا ہے،اور سر ، یہ بات میرے ابو نے بھی مان لی ہے۔ اب آپ کو مجھ سے کبھی شکائیت نہیں ہوگی۔“
وہ کہہ رہا تھا اور میرا حوصلہ بلند ہو رہا تھا۔ میں نئی نسل سے پر امید ہوگیا۔
” سر جاﺅں؟“ اس نے مجھ سے اجازت چاہی ،تو میں اسے سے ہلا کر جانے کی اجازت دے دی۔ اس بچے نے مجھے پھر سے جوان بنا دیا۔ یہ سانحہ جہاں پوری قوم کو یکجا کر گیا تھا، وہاں ایک نئی نسل تیار کر گیا۔ بے شک شہیدوں کا لہو اللہ پاک کے ہاں قبولیت رکھتا ہے ۔ اور میرے وطن کی بنیادوں میں شھیدوں کا خون ہے۔ جو اب بول اٹھا ہے۔
وہ آنسو، جو رات سے تھم نہیں رہے تھے، یوں لگا جیسے میری آ نکھوں میں حوصلے کی ٹھنڈک اتر آ ئی ہے۔ زخموں پر عزم کا مرہم رکھا گیا۔ میں ایک نئے ولولے اور عزم کے ساتھ کلاس روم کی جانب چل پڑا۔
No comments:
Post a Comment