Sunday 14 January 2018

حصار ۔۔ امجد جاوید۔۔ قسط نمبر 19

حصار
امجد جاوید 
قسط نمبر 19
بابا کرامت شاہ کے یوں کہنے پر پھوپھو فاخرہ دہل کر رہ گئی ۔وہ دہشت زدہ انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگی، جس کے چہرے پر ذرا سی بھی پریشانی نہیں تھی ۔وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتی رہی پھر حیرت زدہ لہجے میں بولی
” یوں کیسے مر جائے گی وہ ،کون کرے گا قتل اسے ؟“
” ایک عمل کی مار ہے وہ ، بس تم اس سے پوچھ لو ، مان لے گی تو ٹھیک ورنہ مجھے بتا دینا ، میں جانوں اور میرا کام ۔“ بابا نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا تو پھوپھو فاخرہ سمجھ گئی کہ اب اس سلسلے میںمزید کوئی بات نہیں ہوگی ۔تبھی اٹھتے ہوئے بولی 
” اچھا ، میں چلتی ہوں ، بات کرتی ہوں اس سے ۔“
” ٹھیک ہے جاﺅ ۔“ بابا کرامت نے کہتے ہوئے اسے ہاتھ کا اشارہ کیا۔ پھوپھو فاخرہ وہاں سے اٹھی اور باہر کی چل دی ۔ اس کے ذہن میں تو یہی تھا کہ بابا کوئی چمتکار دکھائے گا اور اس جان سے چھٹکارا مل جائے گا جو ابھی اس دنیا میں آ ئی ہی نہیں۔ یہ گمان بھی نہیں تھاکہ بابا تو مرنے مارنے والی باتوں پر اتر آ ئے گا ۔ وہ اندر سے دہل گئی تھی ۔وہ نہیں چاہتی تھی کہ ایک قتل اس کے ذمے پڑے ۔ یہ تو سچ تھا نا کہ پھوپھو فاخرہ نے ہی فرزانہ کو اپنے مقصد کے لئے بابا کرامت کے پاس بھیجا تھا ۔اب اس کا خمیازہ توبھگتنا تھا ۔ لیکن اس صورت میں نہیں کہ وہ اسے قتل ہی کر دے ۔ پھوپھو فاخرہ تو یہ دھمکی فرزانہ سے بھی نہیں کہہ سکتی تھی ۔شاید وہ پیار سے مان جائے لیکن دھمکی کی صورت میں وہ ہتھے سے بھی اُکھڑ سکتی ہے ۔ وہ انہی سوچوں میں غلطاں گھر جانے کے لئے ٹیکسی میں بیٹھ گئی ۔ 
٭....٭....٭
دوپہر ہونے کو تھی ۔ ذیشان بڑی شدت سے ڈاکٹر ظہیر کا انتظار کر رہا تھا ۔اس کے سامنے لیپ ٹاپ کھلا ہوا تھا ۔ مگر اس کا دھیان ادھر نہیں تھا ، وہ اپنی ہی سوچ میں گم تھا ۔اسے ڈاکٹر ظہیر کی آ مد اک بھی اس وقت پتہ چلا جب وہ اس کے سامنے آ کر بیٹھ گیا ۔
” کن خیالوں میں گم ہو ؟“ اس نے پوچھا توذیشان نے چونکتے ہوئے کہا 
”اوہ ، آ گئے تم ۔ “ 
” میں آ گیا ہوں ، مگر یوں سوچوں میں گم ہو جانے سے ، کسی مسئلے کو خود پر طاری کر لینے سے مسئلہ حل نہیں ہو جاتا۔تم ....“ ڈاکٹر ظہیر نے کہنا چاہا ، مگر ذیشان نے اس کی بات کاٹتے ہوئے عجیب سے لہجے میں کہا 
”تم بھی ٹھیک کہتے ہو لیکن جب صورت حال ہی وہ نہ رہے جو دکھائی دے رہی ہو ،تو سوچنا بنتا ہے میرے یار ۔“ 
” میں سمجھا نہیں ۔“ اس نے غور سے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا
” یہ ٹھیک ہے کہ پھوپھو فاخرہ کو تم نے ہسپتال میں دیکھا، لیکن اس کے ساتھ ثانیہ نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ ثانیہ اور شعیب ہنی مون کے لئے گئے ہوئے ہیں ۔“ یہ کہتے ہوئے ذیشان کے لہجہ بدل گیا تھا ، جس میں یاس اور چبھن دونوں عیاں تھیں۔
” ہنی مون ، تو وہ ....“ ڈاکٹر ظہیر نے حیرت سے کہا 
”یہی سوال کہ وہ کون تھی ، جسے پھوپھو ہسپتال لے کر گئی اور اس کا نام ثانیہ بتایا۔ اس سے ظاہر کیا ہوتا ہے کہ پھوپھو ، اس لڑکی کو چھپانا چاہتی تھی ، اتنی قریبی ہے کہ اس کے لئے ثانیہ کا نام بھی استعمال کر سکتی تھی ۔ یہ اور ایسے ہی کئی سوال پیدا ہوئے ۔ “ ذیشان نے کہا تو ڈاکٹر بولا
” بات تو ٹھیک ہے تمہاری ، جب ثانیہ یہاں ہے ہی نہیں تو وہ کسے لے کر گئی تھی ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ چونک کر بولا،” ہاں یار ، اگر ثانیہ یوں ہسپتال جاتی تو کیا وہ کسی رکشے پر سفر کرتی ؟ اس کے پاس تو اپنی گاڑی ہے ۔“
” میرا خیال ہے اب سمجھ آ رہی ہے تمہیں ۔“ اس نے کہا، اس دوران عشناء آ فس میں آ ئی اور ان کے پاس خاموشی سے بیٹھ گئی ۔
” اورجس طرح وہ لڑکی لپٹی لپٹائی تھی ، ثانیہ کو ایسی کیا مجبوری تھی ؟ یار کچھ ایسا ہے جو ہم سے چھپ رہا ہے ، مگر جو کچھ بھی اسی چھپے ہوئے ہی میں ہے ۔“ ڈاکٹر ظہیر نے سوچتے ہوئے کہا 
”بالکل اسی ٹریک پر میںنے سوچا ، تو مجھے شک ہوا کہ ممکن ہے ان کے ارد گرد کوئی ایسی لڑکی ہو ۔ میں نے کوشش کی اور میں نے اس لڑکی کو تلاش کر لیا ہے ۔“ ذیشان نے بتایا تو ڈاکٹر ظہیر نے بے ساختہ پوچھا
” کون ہے وہ اورکیسے.... ؟“
”وہ شعیب کے گھر میں کام کرنے والی لڑکی ہے ۔اس کا نام فرزانہ ہے ۔“ ذیشان نے بتایا تو ڈاکٹر ظہیر نے اس بار سکون سے پوچھا 
” یہ تمہیں کیسے پتہ چلا؟“
”بتا رہا ہوں نا،میں نے اس بار عشناءسے مدد لی ۔ جو میرے ذہن میں شک تھا، اس بابت اِسے سمجھایا ۔ اِسے کہا کہ جاﺅ ،اور سب معلوم کر کے آ ﺅ ۔“
” کیسے پتہ کیا تم نے ؟“ اس نے عشناءکی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ سنجیدگی سے بولی 
” میں ان کے ہاں گئی تو ثانیہ کی ساس ملی ۔ اسی نے بتایا کہ ثانیہ اور شعیب تو ہنی مون پر گئے ہوئے ہیں ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں ثانیہ کی سہیلی ہوں ، اس کی شادی پر نہیں آ سکی اب ملنے آ ئی ہوں ۔گھر میں فقط دو ہی عورتیں تھیں ۔ شعیب کی امی اور ایک ملازمہ فرزانہ ۔ ان کی ایک پھوپھو بھی ہے جو کہیں گئی ہوئی تھی۔ وہ کہیں دکھائی نہیں دی ۔ میں اس ملازمہ کی تصویر بنا لائی ہوں ، آپ دیکھیں یہی ہے ۔‘ ‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا سیل فون ڈاکٹر ظہیر کے سامنے رکھ دیا۔ اس نے پہلی نگاہ میں ہی پہچان لیا ۔ 
”یہ لڑکی وہی ہے ۔ “ اس نے شناخت کرتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا 
” یہ تو کنفرم ہوگیا کہ وہ ثانیہ نہیں تھی جو ہسپتال گئی تھی ۔وہ فرزانہ تھی ۔ وہ امید سے ہے ۔ اس کی شادی بھی نہیں ہوئی ۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ کوئی درست معاملہ نہیں ۔لہذا ہمیں اس لڑکی سے بہت کچھ پتہ چل سکتا ہے ۔“ ذیشان نے کہا تو ڈاکٹر ظہیر کچھ دیر خاموش رہا پھر سر اٹھا کر بولا
” دیکھو ، ذیشان ، بات اتنی سادہ نہیں کہ ہم جائیں اس لڑکی فرزانہ کے پاس اور وہ ہمیں سب بتا دے گی ۔وہ اپنی کسی بھی غلطی بارے کسی کو کیوںبتائے گی ۔ دوسرا، اس کا ثانیہ سے کیا تعلق ، میرا خیال ہے ثانیہ ایک دو دن ہی رہی ہے اس گھر میں ۔وہ نوکرانی کیا جانتی ہوگی اور ہم نے اس سے کیاپوچھنا ہے ۔“
” یار ، یہ جو نوکر پیشہ لوگ ہوتے ہیں نا ، یہ سب کچھ جانتے ہوتے ہیں، ان گھروں کے بارے میں جہاں یہ کام کرتے ہیں ۔یہ سوال تو اپنی جگہ ہے نا کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ میرے ساتھ کی ہوئی منگنی اس نے آناً فاناً توڑ دی اور دنوں میں شعیب سے شادی کر لی ۔ یار گھر میں کوئی بات تو ہوتی ہوگی ؟“ ذیشان نے اپنی دلیل دی تو ڈاکٹر ظہیر نے کہا 
” میں تمہاری بات سے اتفاق کرتا ہوں ۔لیکن میرا سوال اب بھی وہی ہے کہ اب ایسا کیوں ؟وہ شادی شدہ ہے اور ....“ 
” ظہیر بس، ہم اس پر بہت بات کر چکے ہیں ۔ میں اس بحث میں نہیں الجھنا چاہتا ۔پلیز ....“ ذیشان نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا تو وہ چند لمحے خاموش رہا پھر کاندھے اچکاتے ہوئے بولا
” تو پھر میں یہی مشورہ دوں گا کہ جو کچھ بھی کرنا ، بہت احتیاط سے کرنا ۔“
” وہ احتیاط تو ہے ہی ، میںنے یہی سوچا ہے کہ پہلے اس لڑکی کے بارے میں پوری معلومات لی جائیں ۔اسے کسی ڈاکٹر کی مدد تو چاہئے نا ، کیونکہ اس کی شادی نہیں ہوئی ۔میرا دل کہتا ہے کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور نکلے گی ۔“ ذیشان نے جذباتی لہجے میں کہا
” وہ کیسے کرو گے ؟“ ڈاکٹر ظہیر نے پوچھا 
” وہ میں کر لوں گا ۔ بہت سارے لوگ ہیں ، جو پیسے کے عوض بڑے بڑے کام کر دیتے ہیں ۔ یہ تو صرف معلومات لینی ہیں ۔“ اس نے چٹکی بجاتے ہوئے کہا ۔ وہ کچھ دیر اس معاملے پر مزید بات کرتے رہے ۔ انہیں ایک اُمید لگ گئی تھی۔ 
 ٭....٭....٭
اس شام جب فرزانہ اپنے گھر پہنچی تو تھک کر چور ہو چکی تھی ۔ وہ کس مشکل سے اپنے گھر تک پہنچی تھی ، یہ وہی جانتی تھی ۔وہ آ تے ہی چار پائی پر گر گئی ۔اس کی ماں نے یوں اس کی حالت دیکھی تو بولی 
” کیا بات ہے بیٹی ، بہت تھک گئی ہو ۔“
” ہاں ، اماں ،میرا سر چکرا رہا ہے ، یوں لگتا ہے جیسے بدن میں جان ہی نہ رہی ہو ۔ “ اس نے نقاہت سے کہا تو روہانسا لہجے میں بولی 
” بہت کام کرواتی ہوںگی نا تم سے ۔ میری پھول سی بچی ۔“
” ہاں اماں ، میں تھک جاتی ہوں ۔“ اس نے پھر نقاہت سے کہا تو صفیہ نے اپنے ہونٹوں پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے کہا
”بس بیٹی چند دن اور ہیں ، آج آ ئی تھی اسلم کی ماں ، کہہ رہی تھی ، وہ منگنی کا کہہ گئی ہے ۔اسی جمعہ کی شام ۔“ 
” کیا کہا ، اسی جمعے ....“ ایک بار تو فرزانہ ڈر گئی ۔ پھر اس نے سوچا جتنی جلدی یہ شادی ہو جائے ، اتنا ہی اچھا ہے ۔
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *