عشق کا قاف
امجد جاوید
قسط نمبر 03
رات دھیرے دھیرے گزرتی چلی جارہی تھی۔ ہر جانب سناٹا طاری تھا۔ شہر کے لوگ سکون میں ڈوبے ہوئے تھے۔ ایسے میں غلام نبی کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی۔ وہ بہت ساری سوچوں کی آماہ جگاہ بنا ہوا تھا۔ ایک علی کیا اغواء ہوا تھا اس کی تو دنیاہی بدل کر رہ گئی تھی۔ اسے سب سے زیادہ دکھ اپنی بیوی نگہت کو دیکھ کرہوتا تھا۔ پچھلے تین دنوں میں وہ برسوں کی بیمار دکھائی دے رہی تھی۔ آج شام تو اس کی حالت اچھی خاصی غیرہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ اسے ڈاکٹر کے پاس لے جانا پڑا تھا۔ اس وقت وہ سکون آور دوا کے زیر اثر سو رہی تھی۔ اس کے دونوں بچے کسی انجانے خوف سے سہم کر رہ گئے تھے۔ وہ کالج جانا تو کیا، کھانا پینا تک بھول گئے تھے اور وہ خود تھانے اور با اثر لوگوں کے پاس جا جا کرتھک چکا تھا۔ ا نہیں یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ اگر علی نے کچھ بھی نہیں کیا تو وہ اغواء کیوں ہو گیا؟ اگر اغواء کاروں کاکوئی مقصد تھا تو وہ اب تک سامنے کیوں نہیں آیا۔ ایک ذرا سی امید بندھی تھی جب وہ ملک صاحب کے ساتھ تھانے گیاتھا۔ وہاں سے بنیادی معلومات لے کر وہ دونوں ڈی ایس پی کے دفتر میں گئے تھے۔ پہلی بار غلام نبی کو محسوس ہوا کہ پولیس والے بھی نرم مزاج اور بات سننے والے ہوتے ہیں۔ ڈی ایس پی رفاقت باجوہ بہت تپاک سے ملا تھا۔ علیک سلیک کے بعد اس نے معاملہ پوچھا تو ملک صاحب نے کہا۔
’’یہ غلام نبی صاحب ہیں اور ان کا بیٹا علی اغواء ہوا ہے۔ آپ کے جو ایس ایچ او صاحب ہیں ہیں وہ ان سے کوئی تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آپ ان کے ساتھ خصوصی تعاون کریں تاکہ ان کا بیٹا انہیں مل جائے۔‘‘
’’ملک صاحب۔۔۔ آپ کے فون آنے کے بعد میں نے پوری تفصیل معلوم کی ہے۔ دراصل وہ بھی اندھیرے میں ہیں۔ اکثر ہوتا یوں ہے کہ پولیس کو پوری بات نہیں بتائی جاتی۔ جس سے بہت ساری غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اورتحقیقات درست سمت میں نہیں ہو پاتیں۔‘‘
’’لیکن باجوہ صاحب۔۔۔ میں نے تو وہ ساری باتیں گوش گزار کر دی تھیں جو مجھے معلوم ہیں۔‘‘ غلام نبی نے تحمل سے کہا۔
’’ممکن ہے کوئی بات ایسی سامنے نہ آئی ہو جس سے کوئی سرا مل سکتا ہو۔ اور وہ بہت اہم ہو۔ دیکھیں۔۔۔ بعض دفعہ اصل واقعہ کچھ اور ہوتا ہے لیکن ہمیں دکھائی کچھ دیتا ہے۔ آپ نئی جنریشن کے بارے میں جانتے ہی ہوں گے۔ ان کے پاس کیسے مقاصد ہیں۔ آپ اس سے بھی واقف ہوں گے۔ ممکن ہے علی کے بارے میں جو کہانی ہمیں سننے کو ملی ہے وہ نہ ہو۔ آپ کسی دباؤ کے تحت یا کسی اور وجہ سے کوئی اہم بات نہ بتا پا رہے ہوں۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ علی خود ایسے معاملے میں ملوث ہو جس کے بارے میں آپ کو علم ہی نہ ہو۔ اگر ہے تو آپ ظاہر نہیں کر رہے ہیں۔‘‘
’’دیکھیں جناب۔۔۔ میں اچھی طرح سمجھ گیا ہوں کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں ہمیں پورا یقین ہے کہ میرا بیٹا کسی بھی اسی غلط طرح کی سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہے اور نہ ہی ہم کسی دباؤ کے تحت کوئی بات چھپا رہے ہیں۔ مجھے جو معلوم تھا وہ ایف آئی آر میں درج ہے۔‘‘ غلام نئی نے بھی پوری تصیل سے اپنی بات کہہ دی۔
’’اچھا۔۔۔ کسی نے رابطہ کیا ہو۔۔۔؟‘‘ ڈی ایس پی نے پوچھا۔ وہ براہ راست غلام نئی کے چہرے پر دیکھ رہا تھا۔ جس پر اس نے فوراً ہی جواب دیا۔
’’نہیں۔۔۔ کسی نے بھی رابطہ نہیں کیا، کوئی بھی اطلاع تک نہیں ہے۔‘‘
’’اب سنیں غلا نبی صاحب۔۔۔ آپ کو شاید معلوم بھی نہیں ہو گا۔ لیکن آپ کے بیٹے والے معاملے میں سردار امین جیسا بندہ دلچسپی لے رہا ہے، پوچھ سکتا ہوں کیوں؟‘‘ ڈی ایس پی نے انکشاف کیاتو ملک صاحب سمیت غلام نبی بھی چونک گیا تھا۔ پھر اس نے بمشکل کہا تھا۔
’’مجھے اس بارے میں کچھ معلوم نہیں۔‘‘
’’بہرحال۔۔۔ ہم اپنے فرائض سمجھتے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہیں۔ آپ کو اگر ذرا سی بھی معلومات ملے تو پلیز ہمیں بتائیے گا۔‘‘ ڈی ایس پی نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔ پھرادھر ادھر کی باتوں کے بعد وہ وہاں سے اٹھ آئے تھے۔ اس ملاقات کے بعد غلام نبی کسی اور ہی نہج پر سوچنے لگا تھا۔ یہی سوچ اسے چین نہیں لینے دے رہی تھی کہ آخر سردار امین خان کو اس کے بیٹے سے کیا دلچسپی ہو سکتی ہے؟ وہ یہ بات اپنی بیوی کو بھی نہیں بتا سکتا تھا۔ ورنہ وہ بھی اس کی طرح پریشان ہو جاتی۔ یہ دکھ اس نے اکیلے ہی سہنا تھا اور اپنے گھر والوں کو حوصلہ دینا تھا۔ اس پر دوہری ذمہ داری آن پڑی تھی جسے اس نے بہرحال نبھانا تھا۔ یہ سوچ کر اس نے کروٹ بدلی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
صبح کا اجالا پھیل چکا تھا۔ چولستان میں موجود اس کچی بستی پر وہ صبح بہت سوگوار تھی۔ سانول ایک مہرو کو لے کر ہی نہیں بھاگا تھا۔ بلکہ اس نے کئی رشتوں کو ایک جھٹکے میں توڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس بستی میں موجود شماں کا گھر جو رات تک خوشیوں سے بھرا ہوا تھا، اب وہاں کی فضا ماتم کناں تھی۔سانول کا گھر جہاں خوشیوں بھرے گیت گائے جا رہے تھے۔ وہاں سانول کی ماں آنکھوں میں آنسو لئے شرم سے سر جھکائے بیٹھی تھی۔ چند عورتیں اس کے گرد جمع تھیں۔ جن کی نگاہوں میں دکھ کی بجائے حیرت، طنز اور نفرت تھی۔ جن کا سامنا اماں فیضاں نہیں کر پا رہی تھی اور مہرو کا گھر ویران تھا۔ صحن میں بندھے ہوئے جانوروں کے سوا کوئی انسان نہیں تھا۔ وہ سب پیر سیدن شاہ کی حویلی میں گئے ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ بستی کے چند لوگ بھی تھے۔
پیر سیدن شاہ کی حویلی کسی محل سے کم نہیں تھی۔ وہ سب ایک ہال نما کمرے میں موجود تھے اور ان کے درمیان رسیوں سے بندھا ہوا علی پڑا تھا۔ وہ بے بس تھا اور کچھ بھی نہیں کہہ پا رہا تھا۔ ان سب کو پیر سیدن شاہ کا انتظار تھا۔ کچھ ہی دیر بعد اندرونی کمرے سے وہ نمودار ہوا اور بڑے ہی کروفر اور شاہانہ انداز میں ایک طرف دھری ہوتی سفید مسند پر بیٹھ گیا۔ لمبا قد، کالاکرتا، سفید شلوار، گلے میں موتیوں کی مالا اور سونے کی موٹی زنجیر، سر پر سبز پگڑی، چھوٹی چھوٹی کھچڑی ڈاڑھی اور آنکھوں میں خمار بھرا جلال۔۔۔ اس نے سب کی طرف دیکھا اور پھر اس کی نگاہ اپنے مریدخاص پیراں دتہ پرآ رکی۔ وہ ایک قدم آگے بڑھااور نہایت ادب سے بولا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ رات ان کی بستی میں ظلم ہو گیا ہے یہ سامنے گامن کھڑا ہے، اس کی بیٹی کو سانول اغوا کر کے لے گیا ہے۔‘‘
’’اور یہ کون ہے۔۔۔؟‘‘ سیدن شاہ نے نگاہ کا اشارہ کرتے ہوئے علی کے بارے میں پوچھا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ تین دن پہلے یہ سانول کو اسی صحرا میں ملا تھا۔ وہ ہی اس کے بارے میں جانتا ہے کہ یہ کون ہے اورکدھر سے آیا ہے۔ یہ باندھ کر آپ کی خدمت میں اس لئے لایا گیا ہے کہ اس نے سانول کوبھاگنے میں مدد دی ہے۔ اس کے پاس سے ریوالور بھی برآمد ہوا ہے۔‘‘
کیوں۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے ہنکارہ بھرا اور پھر اس کی نگاہ رب نواز پر ٹک گئی تو وہ بولا۔
’’تم مہرو کے بھائی ہو نا رب نواز۔۔۔‘‘
’’جی سائیں ۔۔۔‘‘ وہ قدرے جھکتے ہوئے بولا۔
’’تو یہاں کیا کر رہے ہو۔۔۔ جاؤ واہر لے کر جاؤ ساونل کے پیچھے۔ وہ یہاں سے کہاں جا سکتا ہے۔ اسے تلاش کرو اور مہرو کو لے آؤ۔‘‘
سیدن شاہ نے جیسے ہی کہا رب نواز کے چہرے پر یوں رنگ بدلے جیسے اسے اب کھلی اجازت مل گئی ہے۔ وہ بے چین ہو گیا ۔ وہ کوئی لمحہ ضائع کئے بغیر پلٹ کر واپس جاناچاہتا تھا۔ لیکن وہاں کھڑے رہنے پر مجبور تھا۔ سیدن شاہ کہہ رہا تھا۔
’’اسے قید خانے میں ڈال دو۔۔۔ اس کے معاملے کو بعد میں دیکھیں گے۔ اب جاؤ۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا تو سب الٹے قدموں واپس جانے لگے۔ پھر جیسے ہی حویلی سے باہر آئے تو رب نواز نے کہا۔
’’میں سانول کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
گامن نے چونک کر اپنے بیٹے کو دیکھا جس کے ارادے بہت خطرناک دکھائی دے رہے تھے۔ کچھ بھی تھا بہرحال سانول اس کی بہن کا بیٹا تھا اس سے پہلے کہ وہ کوئی بات کہتا۔ اندر سے سیدن شاہ کے چند لوگ آ گئے۔ گامن اس کی بیوی اور چند لوگ بستی کی طرف چل پڑے جبکہ کھوجیوں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ واہر نکل پڑی۔ پیراں دتے نے اپنے آدمیوں کو اس کے ساتھ خصوصی طور پر بھیجا تھا۔
اگرچہ صحرا میں ہوائیں راست تک بدل دیتی ہیں۔ لیکن صحرائی باشندوں کو قدموں کے نشانات سے کسی کا سراغ لگانے میں بہت مہارت ہوتی ہے۔ بعض لوگوں میں یہ مہارت تو اس قدر ہوتی ہے کہ وہ میٹھے پانی کا سراغ لگا لیتے ہیں۔ پیر سیدن شاہ کی حویلی سے انہیں بڑی آس تھی۔ وہ شخص ہی اس علاقے کا بے تاج بادشاہ تھا۔ روہی میں انسان تو کیا جانور تک اس کی نگاہ میں رہتے تھے۔ ذرا ذرا معاملات سے لے کر بڑے سے بڑے مسائل تک کا فیصلہ اس کی حویلی میں ہوا کرتا تھا۔ اس حویلی میں ایسے ماہر سراغ رساں موجود تھے۔ جن کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ سانول اور مہرو کا سراغ اس صحرا میں لگا لیں گے۔ وہ لوگ تیزی سے آگے نکل گئے۔ ہر کسی کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی ہتھیار تھا۔ کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں تھا۔ رب نواز بھی ان میں شامل تھا جس کے ہاتھ میں کلہاڑی پکڑی ہوئی تھی۔
صحرائے چولستان کے دور افتادہ علاقے میں وہ جگہ بستی سے خاصی دور تھی۔ وہ خان محمد کا ڈیرہ تھا، جہاں وہ کبھی کبھی شکار کے لئے نکلتا تو چند دن بسیرا کرتا تھا۔ وہاں پر اس کا ایک ملازم کبھی کبھی آتا اور صفائی ستھرائی کر کے چلا جاتا تھا۔چند کمرے۔ دو گوپے اور کافی کشادہ صحن جس کی دیواریں نہیں تھیں۔ وہاں سے دور تک دیکھا جاسکتا تھا۔ لیکن ٹیلوں کی اونچ نیچ میں وہ جگہ کافی حد تک چھپی ہوئی بھی لگتی تھی۔ خان محمد اس علاقے کا بااثر آدمی تھا۔ وہ شکاریوں اور بہادروں کی بہت قدر کرتا تھا۔ سانول کی اس سےدوستی صرف اس لئے تھی کہ وہ اونٹوں کے معاملے میں خاصا ہنر مندسمجھا جاتا تھا۔ سانول رات کے پچھلے پہرخان محمد کی بستی میں چلا گیا تھا۔ وہ اسی وقت بیدار ہوا اور سانول کی ساری روداد سنی۔ مہرو نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا اور جس وقت وہ خان محمد کی بستی میں داخل ہوئے تھے۔ اس وقت تک مہرو بے ہوش ہو چکی تھی۔ اس نے سانول کو ڈیرے پر چلے جانے کے لئے کہا تھا۔ جہاں نہ صرف وہ کئی دن تک محفوظ رہ سکتا تھا بلکہ اتنے دنوں میں کسی کو خبر بھی نہیں ہو سکتی تھی۔ سو اسی وقت سانول خان محمد کے ڈیرے پر چلا گیا۔ جہاں پر مہرو کو ہوش آیا۔
دوپہر ہونے کو آ گئی تھی لیکن ان دونوں میں ایک لفظ کا تبادلہ بھی نہیں ہوا تھا۔ مہروکا رو رو کر برا حال ہو گیا تھا اور وہ مسلسل رو رہی تھی۔ جبکہ سانول ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا یہی سوچتا چلا جا رہا تھا کہ اس نے مہرو کو یوں لا کر اچھا کیا ہے یا غلط۔۔۔ مگر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آ رہا تھا۔ اسے یہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ مہرو اس قدرآرزدہ اور بے حال کیوں ہو رہی ہے۔ ان دونوں کا ساتھ تو بچپن کا ہے۔ وہ ایک ساتھ پلے بڑھے اور جوان ہوئے۔ کوئی دن ایسا نہیں ہو گا جب وہ مہرو کی کسی بات، شوخ جملے یا شرارت سے محفوظ رہا ہو۔ وہ اس کے ساتھ بدتمیزی کی حد تک مذاق کر جایا کرتی تھی اور سانول نے کبھی برا نہیں منایا تھا۔ نجانے کتنی یادیں اس کے دماغ میں آ کر چلی گئی تھی۔ وہ مسلسل سوچتا چلا جا رہا تھا لیکن اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ مہرو کو چپ ہی کرا دے۔ اور مہرو تھی کہ مسلسل آنسو بہائے چلی جا رہی تھی۔ پھر سانول کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔ وہ اٹھا اور دھیرے دھیرے سے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’اب بس کر۔ رو مت۔‘‘
اس کا اتنا وی کہنا تھا کہ مہرو تڑپ کر اٹھی اوربھیگے چہرے کے ساتھ اس کی طرف انتہائی نفرت سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم کیا سمجھتے ہو، مجھے یوں لا کر بستی سے اٹھا کر یہاں لائے ہو تو بہت بڑا کام کر دیا ہے۔ سانول تمہیں احساس نہیں ہے کہ تم نے کیا کر لیا ہے۔‘‘ مہرو کے لہجے میں نفرت تھی۔ جس پر سانول نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے زخمی لہجے میں کہا۔
’’احساس۔۔۔ ہاں مجھے احساس ہے کہ میں اپنی آگ میں خود ہی جل گیا ہوں۔ میں تیرے عشق میں نجانے کب سے جل رہا ہوں۔۔۔ میں۔۔۔ تم سے محبت کرتا ہوں مہرو۔۔۔‘‘
’’ تم محبت کرتے ہو مجھ سے ، یہ ہے تمہاری محبت۔‘‘مہرو نے تلخی سے کہا۔
’’کہا نا ۔۔۔ میں خود پر قابو نہیں رکھ سکا۔ تو میری ہے، تمہیں مجھ سے کوئی جدا نہیں کر سکتا۔ میں اپنی محبت کا اظہار تم سے کر دیتا لیکن۔۔۔ تم۔۔۔ تمہیں یاد ہے تو میرے ساتھ کتنی شرارتیں کرتی تھیں، میرے ساتھ۔۔۔ میں تیرے ہر شرارت کو تیرے پیار کی ادا ہی سمجھتا ہوں مہرو۔۔۔ پر میری اماں، میرے اماں نے میری زندگی برباد کر دی۔ میں نے اپنے آپ کو مار لینا چاہا مگر۔۔۔‘‘
’’پر اب میرا بھائی رب نواز تجھے زندہ نہیں چھوڑے گا۔ میرا بس چلے تو میں ابھی تجھے مار دوں گی۔‘‘ مہرو نے اس کی طرف دیکھ کر دانت پیستے ہوئے کہا تو سانول مسکرا دیا اور پھر محبت بھرے لہجے میں بولا۔
’’تو مجھے مار دے تو اور کیا چاہیے۔ بس تو میری ہو جا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مہرو کے چہرے پر دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں محبت کے ہزاروں چراغ روشن تھے۔ پھر اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔
’’دیکھ۔۔۔ ہم خان محمد کے ڈیرے پر ہیں۔ وہ میرا بہت اچھا دوست ہے۔ اس نے ہمیں پناہ دی ہے۔ تو میرے ساتھ شادی کر لے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
نہیں۔۔۔‘‘ مہرو نے خوف زدہ ہو کر پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
’’میں تیرے ساتھ شادی نہیں کر سکتی۔‘‘
’’کیوں نہیں کر سکتی؟‘‘ سانول نے حیرت سے کہا۔
’’کیونکہ میں تجھ سے نفرت کرتی ہوں۔ نفرت۔۔۔‘‘ مہرو نے تقریباً چیختے ہوئے کہا تو سانول انتہائی بے چارگی سے بولا۔
’’مگر میں تیرے ساتھ انتہائی محبت کرتا ہوں۔‘‘
’’نہیں۔۔۔تم خود غرض ہو۔ تم نے کسی کا خیال نہیں رکھا۔ بس اپنے ہی بارے میں سوچا، کیا حال ہوتا ہو گاشماں کا، اس کے گھر والوں کا، میرے ماں باپ کا، میرے بھائی کس قدر نیچی نگاہیں کر کے پھرتا ہو گا اور میں۔۔۔ میری کیا عزت رہ گئی ہو گی بستی میں؟‘‘
’’کون ہے جو تیری طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھے۔میں جو ہوں تیری عزت بنانے والا۔ میں تجھے اپنی آنکھوں میں سجا کر رکھوں گا۔ میں تم سے محبت کرتا ہوں اور تم سے شادی۔۔۔‘‘
’’بس بہت ہو گیا سانول۔۔۔‘‘ مہرو نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے کہا۔ ’’تیری محبت نے سب کچھ جلا کر راکھ کر دیا ہے۔ سب کچھ ختم ہو گیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ زارو قطار ونے لگی تو سانول اس کی طرف دیکھتا رہ گیا۔ اس سے کچھ بولا ہی نہیں گیا۔ کافی دیر تک وہ یونہی بیٹھا رہا اور پھر اٹھ کر واپسی اسی جگہ آ بیٹھا، جہاں سے اٹھا تھا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ ابھی کچھ دیر ہوئی تھی کہ اسے کچھ ہی فاصلے سے پکارا گیا۔ وہ اپنا نام سن کر چونک اٹھا۔ پھر بڑے ہی محتاط انداز میں اٹھ کر اس جانب بڑھا جدھر سے آواز آئی تھی۔ ذرا سے فاصلے پر خان محمد کا ملازم اونٹ کو بٹھا رہا تھا۔ وہ اس کے پاس چلا گیا۔ ملازم اونٹ سے بندھی ہوئی پوٹلی اتارنے لگا۔
’’خان سائیں نے یہ کھانا بھیجا ہے۔‘‘ اس نے پوٹلی سانول کو تھماتے ہوئے کہا۔ پھر بولا۔ ’’اور ہاں، خان سائیں نے یہ بھی کہا ہے کہ لڑکی اگر مان گئی ہے تو اسے لے آؤ، نکاح کا بندوبست ہے اور اگر نہیں مانی ہے تو اسے مناؤ۔ چاہے جتنے دن لگ جائیں۔‘‘
’’چاہیں جتنے دن لگ جائیں۔‘‘ سانول نے یوں کہا جیسے اپنے آپ سے سوال کر رہا ہو۔ لہجہ اتنا دھیما تھا کہ وہ ملازم سن ہی نہیں سکا۔ وہ اپنی رو میں کہتا چلا گیا۔
’’میں تمہیں کمروں کی چابیں دے دیتا ہوں، جس میں مرضی رہنا۔ کنویں سے پانی نکالنے کے لئے بالٹی اور رسی اندر پڑے ہیں۔ آرام سے رہو۔ میں روزانہ اسی وقت کھانا دے جایا کروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ سانول نے کہا تو ملازم نے اندرونی جیب سے چابیاں نکال کر اسے دے دیں۔’’اگر کوئی خطرہ محسوس کرو تو خان سائیں نے کہا ہے کہ سیدھا بستی میں آ جانا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ اس نے پھر اسی طرح جواب دیا تو ملازم چند لمحے اس یک جانب دیکھتا رہا اور پھر اسی طرح اونٹ پر سوار ہو کر واپس لوٹ گیا۔ سانول اسے کافی دور تک جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ پھر پلٹ کر ڈیرے کے اندر آیا تو دھک سے رہ گیا۔ مہرو وہاں نہیں تھی۔ اس نے پوٹلی چارپائی پر رکھی اور ادھر ادھر تلاش کیا۔ تب اسے کافی دور بھاگتی ہوئی مہرو دکھائی دی۔ سانول کے تو جیسے حواس گم ہو گئے۔
’’رک جاؤ مہرو۔۔۔‘‘ سانول نے پوری قوت سے آواز دی۔ لیکن مہرو نہیں رکی۔ وہ بے تحاشا بھاگتی چلی جا رہی تھی۔ وہ جب اونچے ٹیلے سے نیچے اتری تو ایک لمحے کے لئے سانول کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ اسے دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ سانول پوری قوت سے بھاگتا چلا گیا۔ پھر وہ اسے دکھائی دے گئی۔ لمحہ بہ لمحہ ان میں فاصلہ کم ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ سانول اس کے پاس جا پہنچا۔ اس نے مہرو کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ، پھولے ہوئے سانسوں میں کہا۔
’’م۔۔۔مم۔۔۔ مہرو۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو تم۔۔۔ کہاں جا رہی ہو۔۔۔؟‘‘
’’سانول۔۔۔ مت ر وکو مجھے، جانے دو میرا راستہ نہ روکو۔۔۔ تم نے شماں کی زندگی تو برباد کر دی ہے اب۔۔۔ اب میری زندگی بھی برباد کرے گا۔‘‘
’’نہیں مہرو۔۔۔‘‘ سانول نے یہ کہتے ہوئے ایک گہراسانس لیا۔ ’’ہم دونوں کی زندگی بہت اچھی گزرے گی۔ بس تم ہاں کر دو۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ سب کو منالوں گا۔ ہم آج ہی نکاح کر لیتے ہیں۔‘‘
’’تم جو سوچ رہے ہو، ویسا کچھ نہیں ہونے والا میں مر جاؤں گی، مگر تم سے شادی نہیں کروں گی۔‘‘ مہرونے چیختے ہوئے کہا اور اپنا ہاتھ چھڑانے لگی تو سانول نے روہانسے انداز میں کہا۔
’’کیوں نہیں کرو گی شادی۔۔۔ آخر میں۔۔۔‘‘
’’ثابت ہو جائے گا سانول۔۔۔ کہ میں تیرے ساتھ جان بوجھ کر بھاگی ہوں۔ بس مجھے جانے دو۔‘‘ مہرو نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ آؤ کھانا کھا لو۔ تھوڑی دیر سوچ لو۔۔۔ پھر تم جو فیصلہ بھی کرو، مجھے منظور ہو گا۔ آؤ۔۔۔‘‘ سانول نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا اور واپس لے جانے کے لئے زور لگایا۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ مجھے جانے دو۔۔۔‘‘ مہرو نے مزاحمت کرتے ہوئے کہا۔ بالکل انہی لمحات میں ٹیلے کی دوسری جانب سے آوازیں آنا شروع ہو گئیں، جیسے بہت سارے لوگ چلے آ رہے ہوں اور پھر چند لمحوں بعد، بستی سے آنے والی واہران کے سروں پر پہنچ گئی۔ سب سے آگے کھوجی اور پھر بستی کے لوگوں کے درمیان کھڑا رب نواز جو تیر کی سی تیزی سے ان لوگوں کے درمیان سے نکلا اور سانول کی جانب بڑھا۔ اس کے ہاتھ میں کلہاڑی تھی جسے اس نے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا۔ رب نواز کی نگاہ یوں سانول پر جمی ہوئی تھی جیسے شکار کرنے سے پہلے شکاری کی نگاہ شکار پر ہوتی ہے۔
’’سانول۔۔۔ چھوڑ دے اسے۔‘‘ رب نواز کے لہجے میں قہر تھا۔
’’رب نواز میں اسے۔۔۔‘‘
’’چھوڑ دے اسے۔‘‘ رب نواز نے پاگل ہوتے ہوئے کہا اور پوری قوت سے کلہاڑی سانول کے ماری۔ سانول نے کافی مہارت سے کلہاڑی کو پکڑ لیا تو ان دونوں کی زور آزمائی ہونے لگی۔ ۔ تبھی مہرو نے جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ لمحے کے ہزاروں حصے میں سانول کی توجہ مہرو کی طرف ہوئی، تبھی رب نواز نے کلہاڑی اس سے چھینی اور پھر زور سے اس کے سر پر دے ماری۔ سانول کی چیخ تک بلند نہ ہوئی۔ وہ چکرا کر ریت پر گر گیا تو رب نواز نے جنونی انداز میں پہ در پہ وار کردئیے۔ مہرو نے چیختے ہوئے رب نواز کا ہاتھ روکا۔ واہر کے سارے لوگ خاموش تماشائی کی طرح کھڑے دیکھتے رہے۔ رب نواز نے ان سب کی طرف دیکھا اور مہرو کا ہاتھ پکڑ کر چل دیا۔ وہ چند قدم آگے چلا گیا تو انہی میں سے کسی نے کہا۔
’’ہمیں سانول کی لاش بستی میں لے جانی چاہیے۔‘‘
سانول مر چکا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات کے گہرے سناٹے میں علی کچے سے کمرے کے ایک قید خانے میں تھا۔ اس کے قریب دونوں جوان بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک بوڑھا سا شخص کونے میں لیٹا ہوا تھا۔ وہ دونوں نوجوان کچھ دیر پہلے تک علی سے باتیں کرتے رہے تھے جبکہ بوڑھا شخص بے زار سا ان سے الگ تھلگ ہی پڑا رہا۔ شاید وہ باتیں کر کے تھک چکے تھے۔ اس لئے اب خاموش تھے۔ علی مسلسل پیر سیدن شاہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ان دونوں نے اس کے متعلق بہت ساری باتیں بتائیں تھیں۔
پیر سیدن شاہ اس علاقے میں پیر ہی نہیں۔ ایک بڑا جاگیردار بھی تھا۔ چولستان میں چند بستیوں کے علاوہ شہر کے قریب ترین علاقے تک اس کی عمل داری تھی۔ جبکہ مریدین کا سلسلہ بہاول پور شہر اور اس کے باہر بھی تھا۔ پیری مریدی کے روحانی سلسلے سے ہٹ کر اس کا ایک سیاسی قد بھی تھا۔ وہ ہمیشہ اس علاقے میں سے ممبر منتخب ہوتا آیا تھا۔ یہ سارے سلسلے یونہی نہیں چل رہے تھے بلکہ اس کو چلانے کے لئے بہت سے افراد منظم تھے۔ کسی بھی علاقے پر گرفت رکھنے کے لئے جہاں سیدھے سادھے اصولوں کو اپنایا جاتا ہے وہاں پر کچھ ایسے کام بھی کئے جاتے ہیں جو اخلاق اور قانون سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان کی کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ ایسے لوگ طاقت کی حکومت پرزیادہ یقین رکھتے ہیں اور صرف یقین ہی نہیں رکھتے بلکہ پوری طرح عمل بھی کرتے ہیں۔ پیر سیدن شاہ صحیح معنوں میں اس علاقے پر حکومت کرتا تھا۔ چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ ہوا یا بڑے سے بڑا مسئلہ اس کے علم میں لایا جاتا تھا اور وہ اسے اپنے انداز میں حل کرتا تھا۔ علی نے وہاں پر قید ہونے کے بعد دو چار بندوں کو ہی پہرہ دیتے ہوئے دیکھا تھا۔ جن میں صرف ایک کے پاس اسلحہ تھا۔ باقی یونہی نہتے تھے۔ اس بارے میں جب اس نے تجسس سے پوچھا تو ایک نوجوان نے کہا تھا۔
’’کہاں جائیں گے بھاگ کر۔۔۔ ہمیں یہیں رہنا ہے، یہ پھر پکڑ لیں گے اور اگر ان کا دل کرے تو مار بھی دیں گے ہمیں، اس لئے ہم خود یہاں سے بھاگنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔ سو اس لئے پہرے دار بھی نہیں ہوتے، یہ آج سے نہیں برسوں سے ایسا ہی چل رہا ہے۔‘‘
علی کا ذہن اس طرف بالکل نہیں گیا کہ آخر یہ کیا ظلم ہے۔ پیر سیدن شاہ نے جو اپنی نجی جیل بنائی ہوئی ہے۔ یقیناًاس میں ظالموں سے زیادہ مظلوموں کی تعداد ہوتی ہو گی۔ وہ تو مسلسل سوچ رہا تھا کہ پیر سیدن شاہ کی روحانیت کیا ہو گی۔۔۔؟ کیا یہ اعمال بھی روحانیت کا حصہ ہوتے ہیں؟ اسے چونکہ روحانیت وغیرہ کے بارے میں اتنی معلومات نہیں تھی اس لئے وہ اس بارے میں زیادہ سوچ ہی نہیں سکا اور نہ ہی خود کو مطمئن کرلینے کے لئے کوئی حتمی فیصلہ کر سکا۔ لہٰذا جب کچھ سمجھ میں نہیں آیا تو وہ سانول کے بارے میں سوچنے لگا۔ نجانے وہ اور اس کی محبوبہ کہاں ہوں گے۔؟
انہی لمحوں میں کمرے سے باہر قدرے ہلچل سی ہوئی۔ وہ سبھی اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ چند لمحوں میں دوپہرے دار وہیں اندرآ گئے، ان کے پاس کھانا تھا جو ان قیدیوں کے سامنے رکھتے ہوئے خاموشی سے واپس جانے لگے تو انہیں دو نو جوانوں میں سے ایک نے پوچھا ۔ اس کے انداز میں طنز تھا۔
’’آج روٹی بہت دیر سے لائے ہو کیا پیر سائیں کا لنگر پکانے والا بھاگ گیا ہے۔‘‘
’’چپ کر اوئے بکواس نہ کر۔۔۔ خاموشی سے کھاؤ مرو۔۔۔ کہیں تمہیں مار ہی نہ کھانی پڑ جائے۔۔۔‘‘ پہرے دار نے انتہائی غصے میں کہاتو علی کو بہت عجیب لگا۔ اس نے بڑے تحمل سے کہا۔
’’اس نے ایسی کیا بات کہہ دی ہے یار تم اتنا غصہ کر رہے ہو۔‘‘
’’یہ تمہاری وجہ سے ہی دیر ہوئی ہے ساری۔‘‘ پہرے دار نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو علی حیرت زدہ رہ گیا۔ اس لئے بولا۔
’’میری و جہ سے۔۔۔ وہ کیسے؟‘‘
’’وہ تیرا یار سانول جو مہرو کو لے کر بھاگ گیا تھا، قتل ہو گیا ہے رب نواز کے ہاتھوں، اس کی لاش بستی میں پڑی ہے۔ اس کو لے کر آئیں ہیں تو دیر ہو گئی ہے ہمیں۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہو۔۔۔؟‘‘ علی نے بدحواس ہوتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔
’’ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ اب پتہ نہیں اسے دفنانا بھی ہمیں ہی پڑے گا۔‘‘
تم پاگل ہو گئے ہو۔ کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ علی نے غصے میں کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ تو پہرے دار نے عام سے انداز میں کہا۔
’’بندہ ایسا کام ہی نہ کرے جو اس طرح لاش ہی پڑی رہے۔ بستی کا کوئی بندہ ان کے ہاں نہیں گیا۔ اس کی ماں اور بھائی وہیں بیٹھے لاش کے پاس بین کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کسی کی غیرت ۔۔۔‘‘
وہ نجانے اور کیا کچھ کہتا جا رہا تھا کہ علی کا دماغ ایک دم سے پاگل پن کی حد تک چلا گیا۔ اس کا محسن یوں لاوارثوں کی مانند اپنے گھر میں بے جان پڑا ہے کوئی اسے دفنا نے والا نہیں۔۔۔؟ ٹھیک ہے اس نے جرم کیا لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ اسے جان سے ہی مار دیا جائے۔۔۔ اور پھر اس پر ظلم یہ کہ اس کی لاش۔۔۔ وہ اس سے آگے کچھ نہ سوچ سکا۔ کسی معمول کی مانند کمرے سے باہر جانے لگا تو پہرے دار نے اس کا بازو پکڑتے ہوئے کہا۔
’’میرا راستہ نہیں روکنا، سمجھے تم؟‘‘ علی نے انتہائی سرد لہجے میں کہا تو پہرے دار نے ایک لمحے کے لئے اس کی طرف دیکھا اور طنزیہ انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ پیر سائیں کی اجازت کے بغیر تم نہیں جا سکتے۔‘‘
’’اور مجھے کوئی روک بھی نہیں سکتا۔‘‘ علی نے غراتے ہوئے کہا اور قدم آگے بڑھا دئیے تو پہرے دار نے اس کے کالر سے پکڑ کر اسے واپس کھینچا۔ اس پر علی نے پوری قوت سے مکا اس کے منہ پر مارا، تبھی دوسرا پہرے دار بھی اس پر پل پڑا۔ نجانے علی میں جنون کہاں سے آ گیا تھا۔ وہ اتنی شدت سے لڑا کہ چند لمحوں میں ہی ان پہرے داروں کو بے بس کر دیا اور اس کمرے سے باہر آ گیا۔ وہ بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ اب علی کے سامنے کھلا میدان تھا اور اس کے پاس محض دو آپشن تھے، یا تو وہ بھاگتا اور ان کے ہاتھ نہ آتا، یا پھر سامنے پڑی چارپائی پہ گن کو اٹھا کر ان پہرے داروں کو وہیں کھڑے رہنے پر مجبور کر دیتا۔اس نے لمحے میں فیصلہ کیا اور آگے بڑھ کر گن اٹھا لی اور ان کی طرف کر کے بولا۔
’’تم لوگ مجھے مجبور مت کرو۔۔۔ مجھے جانے دو، مجھے اپنے محسن کو دفن کرنا ہے۔‘‘ علی نے کچھ اس طرح سرد لہجے میں کہا کہ وہ دونوں پہرے دار وہیں رک گئے۔ علی پلٹا اور وہاں سے بھاگتا چلا گیا۔ اسے اندھیرے میں یہ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا کہ بستی کدھر ہے۔ پھر بھی اندازے سے وہ ایک طرف منہ کر کے چل دیا۔ جہاں اسے بستی میں پہنچ جانے کی جلدی تھی وہاں وہ بدحواس بھی ہو رہا تھا کہ وہ کبھی بستی میں پہنچ بھی پائے گا یا نہیں۔۔۔؟ روہی کے اس ویرانے میں اسے اندھیرے میں کوئی راستہ بھی ملے گا یا نہیں۔۔۔؟ وہ یہ سب کچھ سوچتا رہا اور تیزی سے چلتا چلا گیا۔ اس قید خانے سے کافی دور آ کر اسے احساس ہوا کہ گن تو اس نے یونہی اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ہے، تب اسے قدرے آسرا ملا۔ دل کو تسلی ہوئی اور جس رخ پر وہ جا رہا تھا اس طرف بڑھتا چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچی بستی کے دوسرے گھروں کی طرح اماں فیضاں کا گھر بھی اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ رات کے پچھلے پہر کی چاندنی اس اندھیرے کو دور کرنے میں ہلکان ہو رہی تھی۔ لیکن اندھیرے کا راج یونہی تھا۔ زرد چاندنی سے اتنا ضرور ہو رہا تھا کہ ہیولے دکھائی دے رہے تھے۔ اماں فیضاں کے گھر میں تو چراغ تک روشن نہیں تھا کہ اس کے بیٹے سانول کی زندگی کا چراغ بجھ چکا تھا، ایسے میں تو اسے دیا جلانے کا بھی ہوش نہیں تھا۔صحن کے درمیان چارپائی پر سانول کی نعش سفید کپڑےسے ڈھکی ہوئی تھی جس پر خون کے دھبے سیاہ ہو چکے تھے۔ اماں فیضاں کے پاس ہی اس کا چھوٹا بیٹا بیٹھا ہوا تھا۔ جسے اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ سانول ہمیشہ کے لئے اس سے جدا ہو گیاہے۔ لیکن جب وہ اپنی ماں کی حالت کی طرف دیکھتا تو اسے محسوس ہوتا کہ کچھ ایسا ہو گیا ہے جس سے اس کی ماں کی زندگی اجڑ گئی ہے۔ ایک لمحے کے لئے بھی اس کی آنکھوں سے آنشو خشک نہیں ہوئے تھے۔ اماں فیضاں کے رونے کی آواز یوں تھی کہ جیسے کوئی خنجر اس کے دل میں پیوست ہو گیا ہو اس کی اذیت سے نہ انسان مر رہا ہو نہ زندوں میں اس کا شمار ہو۔ ان سے ذرا فاصلے پر میاں جی سرہانے بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ یوں ساکت تھے جیسے ان کا دم نکل چکا ہو۔ کسی بت کی مانند ساکت و جامد ۔۔۔ سانول کی نعش کے پاس یہی تین افراد تھے۔ جبکہ رات تھی کہ گزر جانے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ ایک ایک لمحہ بھاری ہو رہا تھا۔
پچھلی رات اس آنگن میں عورتوں کے گیت گونج رہے تھے، ہر ہونٹ پر مسکراہٹ تھی، مستقبل کی باتیں، ہنسی مذاق اور نجانے کیا کچھ جس سے زندگی ٹپکتی تھی اور وہ رات بھیانک تھی۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی لاش پر بیٹھی نوحہ کناں تھی اور بستی میں سے کوئی بھی ان کے گھر کا رخ نہیں کر رہا تھا۔ سانول کا اتنا بڑا جرم تھا کہ لوگ اس کی لاش کو دفن کرنے بھی نہیں آئے تھے، یہ کیا تھا سنگ دلی یا پھر خوف۔۔۔؟ کسی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔
وہ تینوں اپنی اپنی جگہ پر خاموش بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک میاں جی نے آنکھیں کھول کر آسمان کی جانب دیکھا، صبح کا تارہ روشن ہو چکا تھا۔ میاں جی کے چہرے پر جوسکوت تھا وہ ٹوٹ چکا تھا۔ چند لمحے ہی گزرے ہوں گے۔ علی ان کے گھر کے باہر آن کھڑا ہوا۔ میاں جی نے گھوم کر اس کے ہیولے کو دیکھا اورپھر قدرے اونچی آواز میں کہا۔
’’آ جاؤ علی۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔ آؤ تیرے دوست کے آخری سفر کا اہتمام کریں۔‘‘ میاں جی کے یوں کہنے پر اماں فیضاں پر تو جیسے یہ بات بجلی بن کر گری۔ اس کے حلق سے دلدوز چیخ بلند ہوئی۔ بلاشبہ یہ اس کے بس میں نہیں رہا تھا اس لئے وہ دل خراش انداز میں بین کرنے لگی۔ جس پر میاں جی نے اسے صبر کرنے کے لئے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ علی دھیرے دھیرے قدموں سے چلتا ہوا صحن میں آ گیاتھا۔ اس کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ وہ چادر اٹھا کر سانول کا آخری دیدار ہی کر لے۔ وہ چارپائی کے پائینتی آ کر کھڑا ہو گیا۔ اسے بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ وہ کتنی ہی دیر تک یونہی کھڑا رہا۔ تبھی میاں جی نے کہا۔
’’علی۔۔۔ شاید بستی میں سے کوئی نہیں آئے گا۔ ا س لئے سانول کو دفنانے کے لئے جو کچھ بھی کرنا ہے، ہمیں ہی کرنا ہے۔‘‘ اماں فیضاں کی کراہیں کچھ اور بڑھ گئیں تو علی نے اس کی طرف دیکھا اور پھر میاں جی کی طرف منہ کر کے بولا۔
’’فرمائیں میاں جی۔۔۔مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’میرے ساتھ چلو، ہمیں قبرستان جانا ہے۔ وہاں سانول کی آخری آرام گاہ تیار کرنی ہے، پھر واپس آ کے اسے لے جانے کی تیاری کرتے ہیں۔‘‘
چلیں۔۔۔‘‘ علی نے کہا تو میاں جی اٹھ گئے۔ انہیں بستی سے قدرے فاصلے پر قبرستان جانا تھا۔
اس وقت سورج کی روشنی تیز ہو چکی تھی، جب علی اور میاں جی نے سانول کی میت کو غسل دے کر کفن پہنادیا تھا۔ بے حس بستی میں سے کوئی شخص وہاں تک نہیں آیا تھا۔ اور نہ ہی کسی عورت کے دل میں سانول کے آخری دیدار کی خواہش پیدا ہوئی تھی۔ میت قبرستان لے جانے کے لئے بالکل تیار تھی۔ اماں فیضاں مسلسل رو رہی تھی۔ تبھی میاں جی نے دھیرے سے کہا۔
’’بہن فیضاں۔۔۔ بہت رو لیا تم نے۔ اب ہمت کرو۔۔۔ سانول کو اس کی آخری منزل تک لے کر جانا ہے۔ ہم تین تو ہیں، چوتھا کاندھا تمہیں دینا ہو گا۔ کیا تم اس کے لئے تیار ہو؟‘‘
میاں جی کے یوں کہنے پر اماں فیضاں تڑپ کر رہ گئی۔ اس نے دھیرے دھیرے اپنا سر ہلایا اور ہمت کر کے اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے سانول کے چہرے کو دیکھا اور اپنے آنسو پونچھتی ہوئی اس کی طرف دیکھتی رہی، پھر اس کا چہرہ دھک دیا۔ اماں نے ایک لمبی سانس لی اور پھر بڑی ہمت سے کہا۔
’’ اشھدان لا الہ اللہ واشھد ان محمد رسول اللہ۔۔۔‘‘ آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آواز میں اس نے پورے جذب سے یہ کلمہ پڑھا اور پھر میت کو دونوں ہاتھ سے اٹھاتے ہوئے بولی۔
’’کلمہ شہادت۔۔۔‘‘
میاں جی، بھیرے اور علی نے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئی میت کو اٹھایاا ور گھر سے چل پڑے ابھی کچھ ہی فاصلے پر گئے تھے ، ایک بوڑھا لاٹھی ٹیکتا ہوا ن کے ساتھ ہو لیا۔ اس میں اتنی سکت نہیں تھی کہ وہ میت کو کاندھا دے سکتا۔ لمحہ لمحہ اس میں اور جنازے میں فاصلہ بڑھتا چلا گیا۔ اور پھر چار لوگوں کے کاندھے پر سوار میت بستی سے باہر آ گئی۔ انہوں نے مڑ کر نہیں دیکھا تیزی سے قبرستان کی طرف رواں دواں رہے۔ یہاں تک کہ وہ تازہ تیار قبر کے پاس جا کر رک گئے۔ بڑے احتیاط سے انہوں نے میت کو زمین پر رکھا۔ تو میاں جی نے علی اور بھیرے سے پوچھا۔
’’تم دونوں کا وضو ہے نا۔۔۔؟‘‘
’’جی۔۔۔‘‘ دونوں نے ایک زبان میں کہا۔ تبھی انہیں بستی کی طرف سے چند لوگ آتے ہوئے دکھائی دئیے جو تیز تیز قدموں سے انہی کی جانب بڑھ رہے تھے۔ علی کے چہرے پر ایک لمحے کے لئے پریشانی آئی تو اس نے میاں جی کے چہرے کی طرف دیکھا جہاں اطمینان تھا۔ انہوں نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’وہ لوگ جنازہ پڑھنے آئیں تو ایک لفظ بھی نہیں کہنا۔‘‘
جس وقت میاں جی نے سانول کا جنازہ پڑھانے کے لئے اللہ اکبر کہا تو صفیں باندھے چند لوگوں نے بھی نیت باندھ لی۔ ان میں وہ بوڑھا بھی تھا جو لاٹھی ٹیکتا ہوا پیچھے رہ گیاتھا۔ جنازہ پڑھنے کے بعد انہوں نے دعا کی، سانول کا آخری دیدار کیا اور پھر اسے سپرد خاک کر دیا۔ علی کو یہ سب کچھ خواب کی مانند لگ رہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت سورج نکل آیا تھا جب اماں فیضاں اور بھیرا دونوں ہی ریوڑ لے کر نکل رہے تھے۔ علی کب کا جاگ گیا تھا۔ وہ گوپے میں پڑا بہت کچھ سوچ چکا تھا۔ اتنا کچھ کہ اسے اپنی زندگی بدلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ علی نے آوازوں سے یہ اندازہ لگایا تھاکہ اماں فیضاں اور بھیرا ریوڑ لے کر نکلے ہیں۔ اس لئے وہ تیزی سے اٹھا اور گوپے سے باہر آ گیا۔ اس کے سامنے بالکل وہی منظر تھا جو وہ سوچ چکا تھا۔ اماں اور بھیرا ریوڑ کو گھر سے نکال کر لے جا رہے تھے۔ وہ سیدھا اماں کے پاس چلا گیا اور قریب جا کر بولا۔
’’اماں۔۔۔ آپ کہاں چلی ہیں۔۔۔ میں ہوں نا ادھر۔۔۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر اماں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر دھیمے سے لہجے میں بولی۔
’’پتر۔۔۔ ان بے چارے بے زبانوں کا کیا قصور ہے۔ جانے والا تو چلا گیا۔ میں انہیں بھوکا تو نہیں مارسکتی، ان کا خیال تو مجھے ہی رکھنا ہے نا۔‘‘
’’ٹھیک ہے اماں انہیں بھوکا نہیں رکھا جا سکتا، آپ گھر پر ہی رہیں، میں انہیں لے کر جاؤں گا۔‘‘
علی نے کہا تو اماں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا، چند لمحوں تک وہ مبہوت رہی پھرحتمی لہجے میں بولی جس میں سمجھانے والا انداز زیادہ تھا۔
’’نہیں پتر۔۔۔ تم ایسا کب تک کرو گے، پھر یہ تیرے بس کی بات بھی نہیں ہے۔ ہماری زندگی تو اس کام میں گزر گئی ہے۔ سانول جب چھوٹا تھا، اس وقت میں ہی۔۔۔‘‘
’’آپ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ میں دعویٰ تو نہیں کرتا لیکن میں جب تک یہاں ہوں، میرے ہوتے ہوئے تو آپ یہ سب نہیں کر سکتیں۔ آپ گھر بیٹھیں اور مجھے جانے دیں۔‘‘ علی نے بات کاٹ کر اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’ابھی تو سانول کا زخم تازہ ہے۔ اس کی قبر کی مٹی بھی خشک نہیں ہوئی۔ تم بھی سمجھتے ہو اور میں بھی سمجھتی ہوں۔ لیکن پھر بھی تجھے واپس تو جانا ہے۔۔۔‘‘ اماں نے اسے سمجھایا تو علی نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا۔
’’پتہ نہیں۔۔۔ میں اب جا بھی سکوں گا یا نہیں؟‘‘
’’نا میرا پتر۔۔۔ شہر میں تیری ماں ہے، بہن بھائی ہیں، باپ ہے، وہ سب تیرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ تو ان کے پاس جا۔۔۔ ان پر نہ جانے کیا گزر رہی ہو گی۔ میری جو تھوڑی بہت زندگی ہے۔ میں اسے گزار لوں گی۔ میں بوڑھی ضرور ہوں مگر میری ہمت ہے اتنی ۔ تیرے سامنے تو ابھی زندگی پڑی ہے۔‘‘
’’اماں۔۔۔میں جانتا ہوں کہ آپ کیاکہہ رہی ہیں لیکن شاید آپ وہ نہیں جانتی جو مجھ پر گزر رہی ہے۔‘‘ علی نے اپنے ہی خیالوں میں کھوئے ہوئے کہا اورپھر فوراً ہی چونکتے ہوئے بولا۔ ایک شرط ہے۔۔۔ آپ میرے ساتھ شہر چلیں، بھیرا بھی چلے، میرے ساتھ رہیں۔ تو میں فوراًیہاں سے چلا جاؤں گا۔ میں یہاں آپ کو اکیلا تو نہیں چھوڑ سکتا؟ کون خیال کرے گا آپ کا۔‘‘
’’اللہ سائیں ہیں نا خیال کرنے والا۔۔۔ وہی سب کا خیال رکھتا ہے۔ ساری زندگی یہیں گزر گئی ہے۔ اب میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گی، تو مجھے میرے حال پر چھوڑ دے علی۔‘‘ اماں نے انتہائی دکھ سے کہا تو وہ چند لمحے اماں کی طرف دیکھتا رہا اور پھر دھیمے لہجے میں بولا۔
’’میں آپ کو اس بے حس بستی میں چھوڑ دوں۔۔۔؟‘‘ وہ جواب کامنتظر تھا لیکن اماں نے بجائے کوئی لفظ کہنے کے اس کی جانب دیکھا اور اس کی آنکھوں سے آنسو ٹپک پڑے۔
’’میں آپ کو تنہا نہیں چھوڑ پاؤں گا اماں۔۔۔ آپ بیٹھیں، میں ریوڑ لے جاتا ہوں۔‘‘
’’میں اب بھی یہی کہوں گی پتر۔۔۔ چند دن لے جائے گا تو ریوڑ اس کے بعد۔۔۔؟‘‘
’’میں نہیں جانے والا، میں ادھر ہی رہوں گا۔‘‘ علی نے انتہائی مضبوط لہجے میں کہا تو ماں نے دکھی انداز میں کہا۔
’’تو ادھر رہنا بھی چاہے گا نا تو رہ نہیں پائے گا۔ سیدن شاہ کے لوگ تمہیں رہنے نہیں دیں گے۔۔۔وہ بہت ظالم ہیں۔۔۔‘‘
’’آپ گھبراؤ مت اماں۔۔۔ جب وہ وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ آپ جاؤ۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اماں کے ہاتھ سے چھڑی پکڑ لی۔ پھر اونچی آواز میں بھیرے کی جانب منہ کر کے کہا۔
’’چل بھیرے۔‘‘
اماں وہیں کھڑی رہی اور وہ دونوں ریوڑ لے کر نکل گئے۔
علی اور بھیرا سارا دن ریوڑ چراتے رہے۔ دو دن سے بھوکے جانور جب کھلے میں آئے تو انہیں چرنے سے غرض تھی۔ بھوک کسی بھی ذی روح کو کس قدر مجبور کر دیتی ہے۔ علی سارا دن یہی سوچتا رہا۔ بھیرے نے اسے بہت ساری باتیں بتائیں تھیں۔ وہ سانول کے بارے میں اتنا نہیں جانتا تھا لیکن جب اس نے بھیرے سے بہت کچھ سنا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ کتنا اچھا، معصوم اور ہمدرد انسان تھا۔ اسے بستی کے لوگوں سے، ان کی بے حسی پر اس قدر گلہ تھا کہ اگر کوئی اس بارے میں بات کرتا تو شاید وہ پھٹ پڑتا۔ بھیرا ریوڑ کے پیچھے رہا اور وہ سارا دن سوچتا رہا۔ عصر کے بعد جب وہ ریوڑ لے کر واپس بستی کی طرف پلٹے تو اس وقت تک علی اپنے طورپر بہت کچھ سوچ چکا تھا۔ بہت ساری پریشان سوچوں کو وہ ایک نکتے پر لا چکا تھا۔ اب وہ میاں جی سے ملنے کے لئے بے تاب تھا۔
ریوڑکو باندھ کر جب وہ ہاتھ منہ دھو کے صحن میں آیا تو ا ماں چولہے کے پاس بیٹھی کھانا بنا رہی تھی۔ علی کو بڑا عجیب سا لگا۔ میت والے گھر میں ، تین دن بھی نہیں ہوئے تھے اور انہیں چولہا جلانا پڑ گیا تھا۔ وہ تھکے ہوئے انداز میں چارپائی پر بیٹھا تو اماں نے کہا۔
’’پتر علی۔۔۔ یہاں میرے پاس آ کر کھانا کھا لو۔۔۔ مجھے معلوم ہے تم دو دن سے بھوکے ہو۔‘‘
’’آپ نے کھا لیا۔۔۔؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’میں بھی کھاتی ہوں۔۔۔ آؤ۔۔۔ آ جاؤ میرے پاس۔‘‘ اماں نے کہا تو وہ چولہے کے پاس چلا گیا۔ تبھی بھیرا بھی آگیا۔ اماں نے روٹیاں اور دودھ ان کے سامنے رکھ دیا۔ جسے بسم اللہ پڑھ کر انہوں نے کھانا شروع کر دیا۔ کھانے سے فراغت کے بعد علی نے پوچھا۔
’’اماں۔۔۔ یہ میاں جی مسجد میں ہی ملیں گے نا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ وہیں ہوتے ہیں۔ ان کا اپنا کوئی گھر بار یا ٹھکانہ تو ہے نہیں۔ مسجد یا پھر جنڈ کے نیچے سارا دن گزار دیتے ہیں۔ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘
’’میں نے ان سے ملنا ہے۔ میں ان کی طرف جا رہا ہوں؟ علی نے اٹھتے ہوئے کہا تو اماں خاموش رہی۔ وہ میاں جی سے ملنے کے لئے چل دیا۔
وہ جب بستی کی واحد کچی مسجد میں داخل ہوا تو میاں جی مصلے پر بیٹھے ہوئے دروازے کی سمت ہی دیکھ رہے تھے۔ وہ مغرب کی نماز پڑھ چکے تھے اور شاید کوئی وظیفہ کر رہے تھے۔ علی ان کے پاس جا بیٹھا۔ چند منٹ اسی حالت میں گزر گئے۔ میاں جی نے جلدی سے وہ وظیفہ ختم کیا اپنے آپ پر پھونکا اور علی سے مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا دئیے۔ علیک سلیک اور احوال کے بعد وہ مسکراتے ہوئے بولے۔
’’ہاں بھئی علی۔۔۔ کیسے آنا ہوا؟‘‘
’’میاں جی۔۔۔ میں آپ سے بہت ساری باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔ کیا آپ میری باتوں کا جواب دے پائیں گے۔ میرا مقصد کوئی علمی مباحثہ نہیں بلکہ اپنی حیرتوں کو ختم کرنا ہے۔‘‘ علی نے تذبذب سے کہا تو میاں جی مسکرا دئیے اور پھر نہایت شفقت سے بولے۔
’’علی میاں۔۔۔جو مجھے معلوم ہو گا وہ بتا دوں گا ، جو معلوم نہیں ہو گا تو اس سے معذرت کر لوں گا۔ میں کون سا عالم فاضل ہوں جو سارے سوالوں کا جواب دے پاؤں گا۔ اب مجھے نہیں معلوم کہ تم میرے جواب سے اپنی حیرتوں کو ختم کر پاؤ گے یا نہیں۔‘‘
انہوں نے کہا تو علی چند لمحوں تک سوچتا رہا جیسے یہ فیصلہ کر رہا ہو کہ وہ کوئی بات کرے یا نہ کرے۔ پھر اس نے سر اٹھایا اور بولا۔
’’میاں جی۔۔۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ سانول کو قتل کر دیا ہے تو میں نے اسی لمحے شیدن شاہ کے قید خانے سے فرار کا فیصلہ کر لیا تھا۔ یہ فیصلہ لاشعوری تھا اور پھر جب پتہ چلا کہ اس کی لاش یونہی پڑی ہے، بستی کا کوئی شخص نہیں آیا تو نجانے ایسی کون سی طاقت تھی جس نے مجھے وہاں سے بھاگ آنے کے لئے مجبور کر دیا۔‘‘ علی نے کہا اور ایک لمحے کے لئے رک گیا کہ جیسے آگے وہ کوئی بہت اہم بات کہنا چاہتا ہو۔ میاں جی خاموش رہے تو وہ بولا۔ ’’میں وہاں سے نکل تو آیا لیکن مجھے قطعاً معلوم نہیں تھا کہ بستی کس سمت میں ہے۔ میں وہاں تک پہنچ بھی پاؤں گا یانہیں۔ میرے دل میں یہ پختہ ارادہ تھاکہ میں بستی تک ضرور پہنچوں گا اور اپنے محسن کی خود جا کر آخری رسومات میں شریک ہوں گا۔ میں جب کھلے صحرا میں آیا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کہاں ہوں اور جانا کدھر ہے۔ تب اچانک میرے سامنے ایک بزرگ سا آدمی آ گیا۔ میں اسے دیکھ کر فوراً سمجھ گیا کہ یہ کوئی غیبی مدد ہے۔‘‘
’’کیسے پتہ چلا تمہیں۔۔۔؟‘‘ میاں جی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’وہ ایک ہیولا تھا۔ اگر چہ سفید براق کپڑے پہنے ہوئے تھے لیکن میں اس کے پار بھی دیکھ سکتا تھا۔‘‘ علی نے تفصیل سے بتایا۔
’’اچھا پھر۔۔۔؟‘‘ میاں جی نے کہا۔
’’پھر کیا ہونا تھا۔ اس نے کوئی ایک لفظ بھی نہیں کہا، بس اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ میں چل دیا اور پھر چلتا ہی چلا گیا۔ یہاں تک کہ میں بستی میں آ پہنچا۔ سیدن شاہ کی حویلی، اس کا قید خانہ اور یہ کچی بستی۔۔۔ آپس میں خاصا فاصلہ رکھتے ہیں۔‘‘
علی کی بات کر میاں جی چند لمحے اس کی طرف دیکھتے رہے اور پھر بڑے سنجیدہ انداز میں بولے۔
’’علی کیا تمہیں احساس ہو گیا تھا کہ کوئی تمہاری رہنمائی کرنا چاہتا ہے؟‘‘
’’جی بالکل۔۔۔ اسی لئے تو میں اس کے پیچھے چل دیا، میں نے اس پر یقین کر لیا تھا۔ اور ان سے چھینی ہوئی گن بھی وہیں پھینک دی تھی۔‘‘ علی نے قدر مضبوط لہجے میں کہا۔
’’ممکن ہے وہ راہنمائی غلط بھی ہوتی، مطلب کوئی شیطانی قوت تمہیں اپنے ساتھ۔۔۔ میاں جی کہتے کہتے رک گئے تو علی کے چہرے پر ایک دم سے رنگ آ کر گزر گیا۔ وہ الجھتے ہوئے بولا۔
’’میرے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا۔ میرے ذہن میں تو بس سانول تھا۔‘‘ علی نے صاف انداز میں کہا تو میاں جی مسکرا دئیے۔
’’علی۔۔۔ ایک نکتے کی بات سمجھ لو۔۔۔ انسان کی حیثیت اور اہمیت بہت اعلیٰ وارفع ہے۔۔۔ اور یہ انسان ہی ہے جو اپنی حیثیت اور اہمیت کو خود گھٹاتا بھی ہے اور بڑھاتا بھی ہے۔ لیکن جس کی روح پاکیزہ ہوتی ہے شیطانی قوتیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔‘‘
’’میں نے یہ بات تو سمجھ لی میاں جی، لیکن وہ کیا راز تھا۔۔۔؟‘‘
راز۔۔۔‘‘ میاں جی نے دھیرے سے کہا۔ ’’علی۔۔۔ اس کائنات اور دیگر جہانوں میں کوئی راز، راز نہیں ہے۔ کیونکہ راز فقط اللہ کی ذات ہے۔ باقی ساری چیزیں اوجھل ہیں۔ انہیں دیکھا جا سکتا ہے۔‘‘
’’میاں جی۔۔۔ کیا آپ مجھے کچھ بتانا نہیں چاہتے یا۔۔۔‘‘علی نے فقرہ جان بوجھ کر ادھورا چھوڑ دیا تو میاں جی مسکرا دئیے اور پیار سے بولے۔
’’علی کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں، انہیں اگر واضح کر دی جائیں تو نئی راہیں سامنے آ جاتی ہیں۔ بندہ خود کو ایک نئی دنیا میں پاتا ہے۔ میرے چاہنے یا چاہنے کی بات نہیں۔ لیکن تم نوجوان ہو۔ تمہاری دلچسپیاں۔ تمہارے خواب اور بہت کچھ ، یہاں صحرا میں نہیں ہیں ۔ شہر کی گہما گہموں میں ہے۔ میں نے اگر تمہیں کوئی بھی راہ دکھا دی تو ممکن ہے تم بھی میری طرح صحرا نشین ہو جاؤ۔‘‘
’’میاں جی۔۔۔ آپ کی باتوں نے تو میری الجھنیں مزید بڑھا دی ہیں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘علی نے تذبذب میں کچھ کہنا چاہا تو اچانک چونکتے ہوئے حیرت سے میاں جی کی طرف دیکھنے لگا اور پھر دھیرے سے کہا۔
’’میاں جی۔۔۔ آپ ۔۔۔ کیا آپ نے مجھے اس قید خانے سےبلوایا تھا۔ میری رہنمائی آپ نے۔۔۔‘‘
’’ہاں بیٹا۔۔۔ سانول کی میت کو کاندھا دینے والا چوتھا فرد نہیں تھا۔ اس لئے مجھے تمہیں بلانا پڑا۔۔۔ تم سمجھ دار ہو۔۔۔اس لئے تمہیں اب معلوم ہونا چاہیے کہ تم نے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’ہاں میاں جی۔۔۔ رہنمائی کا سلسلہ تو آپ شروع کر چکے ہیں اب مزید۔۔۔‘‘ علی نے جھجکتے ہوئے کہا تو میاں جی نے کہا۔
’’حکم تو آ گیا ہے۔ لیکن مرضی تمہاری ہو گی۔ میرے پاس جو کچھ ہے وہ میں تمہیں دوں گا، لیکن صبر، ظرف اور ادب کی ضرورت ہے۔‘‘
’’آپ مجھے استقامت پر پائیں گے۔۔۔‘‘ علی نے فوراً کہا تو میاں جی کے چہرے پر ذمہ داری کے چراغ جل اٹھے۔
’’جاؤ۔۔۔ ابھی فیصلہ کرو۔۔۔ ابھی وقت ہے کہ دنیا میں جا سکو۔۔۔ اور یہی وقت ہے کہ جب عشق مقتل میں خود کو قربان کر دو۔۔۔ فوری فیصلہ نہ کرنا۔ یہی میری نصیحت ہے۔‘‘
علی کافی دیر تک ان کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا۔ اسے محسوس ہوا کہ میاں جی کے چہرے پر ایک خاص قسم کا احساس اتر آیا ہے۔ ایسا احساس کہ جس کو دیکھتے رہنے سے جی نہ پھرے۔ کافی وقت یونہی گزر گیا۔ وہ دونوں خاموش بیٹھے رہے۔ پھر میاں جی نے کہا۔
’’اب جاؤ۔۔۔ جا کر آرام کرو صبح پھر جانا ہے تمہیں۔‘‘
یہ سنتے ہی علی پر سے جیسے سحر ٹوٹ گیا۔ وہ چونکا اور دھیرے سے سلام کہتے ہوئے ہاتھ ملایا اور پھر وہاں سے اٹھ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات کا آخری پہر بھی گزر چکا تھا اور صبح کے آثار واضح ہو چکے تھے۔ لیکن فرزانہ خاں کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔ یوں جیسے نیند اس کی آنکھوں کے لئے اجنبی ہو چکی ہو۔ اس کی بے چینی اپنے عروج پر تھی اور اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ رات کٹے اور وہ علی تک پہنچ جائے۔ اسے نہ صرف یہ معلوم ہو چکا تھا کہ علی زندہ ہے بلکہ یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ وہ روہی میں کہیں ہے۔ اس کا صحیح اندازہ تو اس کے باپ امین خاں کو تھا یا پھر امین خاں کے دست راست اللہ بخش کو۔ وہ کبھی روہی میں نہیں گئی تھی۔ شاید اسے یہ بات معلوم نہ ہوتی لیکن اتفاق سے وہ اپنے باپ کے پاس بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھی جب اللہ بخش اس کے باپ سے ملنے کے لئے آ گیا۔ اللہ بخش وہ واحد ملازم تھا جو ان کے ہاں زنانے تک میں چلا جاتا تھا ورنہ کسی کو جرأت نہیں تھی کہ گھر کے اندرقدم رکھ سکے۔ وہ ان کے وفادار ملازمین میں سے ایک تھا۔ اللہ بخش کاچہرہ ستا ہوا تھا۔ اس لئے امین خاں نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’خیریت تو ہے نا اللہ بخش۔۔۔؟‘‘
’’جی سائیں خیریت ہی ہے۔‘‘ اس نے ممنویت سے کہا تو امین خاں بولا۔
’’تو پھر بات کیا ہے؟‘‘
’’سائیں۔۔۔ روہی سے خان محمد کا ایک بندہ خبر لے کر آیا ہے۔۔۔‘‘ اللہ بخش نے راز دارانہ انداز میں کہا جیسے بہت اہم خبر ہو۔
’’بولو۔۔۔ کیا خبر ہے۔۔۔‘‘ امین خاں نے تجسس سے پوچھا۔
’’روہی میں لالہ بھوہڑ کے نام سے ایک ٹوبہ ہے۔ کچی بستی ہے وہاں پر۔ وہاں ایک لڑکے سانول کا قتل ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے ہی خاندان کی لڑکی کو اغوا کیا تھا کہ لڑکی کے بھائی نے اسے قتل کر دیا ہے۔‘‘
’’اس میں اہم بات کیا ہے؟‘‘ امین خاں نے پوچھا۔
’’قاتل رب نواز اس وقت پیر سیدن شاہ کی تحویل میں ہے۔ پیر سیدن شاہ کے ڈر سے بستی کے لوگوں نے سانول کا جنازہ بھی نہیں پڑھا۔ اسے دفنانے بھی چند لوگ ہی گئے۔‘‘
’’یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے، پیر سیدن شاہ نے ایسے نجانے کتنے قتل کروائے ہیں۔ جن کے بارے میں کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔‘‘ امین خاں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’سائیں اس سارے پس منظر میں اہم بات یہ ہے کہ مقتول کے گھر میں ایک اجنبی لڑکا موجود ہے، جس نے نہ صرف سانول کی آخری رسومات ادا کی ہے بلکہ اب وہ اس کی جگہ اس کا ریوڑ چرا رہا ہے۔ میں نے اپنی حد تک تسلی کی ہے، مجھے وہ فرزانہ بی بی کا کلاس فیلو علی ہی لگتا ہے۔‘‘
اللہ بخش نے کہا تو سردار امین خاں چونکا، وہاں فرزانہ کا دل اچھل کر حلق میں اٹک گیا۔ اس پر جیسے شادی مرگ کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ وہ فوراً ہی بہت کچھ پوچھ لینا چاہتی تھی لیکن اس کی زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ وہ ہونقوں کی مانند اللہ بخش کی طرف دیکھے چلے جا رہی تھی۔
’’اللہ بخش۔۔۔ تجھے کیسے یقین ہے کہ وہ علی ہو سکتا ہے؟‘‘
’’سائیں اس نے نام بتایا ہے، یہ بھی بتایا ہے کہ سانول کو وہ چند دن پہلے زخمی حالت میں ملا تھا اور اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ پیر سیدن شاہ نے اس کو اپنے قید خانے میں رکھا لیکن وہ لڑکا علی اس کے قید خانے سے فرار ہو گیا۔‘‘
’’او۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے امین خاں سوچ میں پڑ گیا۔ پھر چند لمحوں بعد بڑبڑانے والے انداز میں بولا۔ ’’وہ اسے مروادے گا۔ اس بے وقوف کو تو وہاں سے نکل جانا چاہیے۔ اسے نہیں معلوم کہ پیر سیدن شاہ کتنا ظالم انسان ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ سوچنے والے انداز میں اضطراری حالت کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور ٹہلتے ہوئے بولا۔ ’’کہانی واقع ہی کچھ اور لگتی ہے۔ تمہارا کیا خیال ہے اللہ بخش۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ بہت ہی الجھی ہوئی بات ہے۔ اس کا سرا پتہ اسی وقت چلے گا جب علی ملے گا۔‘‘
’’تو پھر فوراً ڈی ایس پی سے کہو کہ وہ وہاں جائے اور پتہ کرے، اسے کہنا کہ میں نے کہا ہے۔‘‘ امین خاں نے تیزی سے کہا پھر اچانک ہاتھ کے اشارے سے اللہ بخش کو روکتے ہوئے بڑے تحمل سے کہا۔ ’’نہیں۔۔۔ ڈی ایس پی ضرور جائے گا لیکن سیدھا پیر سیدن شاہ کے پاس اس سے علی کے بارے میں پوچھے۔ وہ کوئی نہ کوئی تو جواب دے گا۔ مگر اسے یہ یقین ہو جائے گا کہ بات ہم تک پہنچ چکی ہے۔ اللہ بخش۔۔۔ اگر یہ کوئی کھیل نا تو ہم بھی اس میں برابر کے شریق ہیں۔ کیا سمجھے ہو۔‘‘
’’سمجھ گیا سائیں۔۔۔ میں ابھی خود ڈی ایس پی کے پاس جاتا ہوں تاکہ اسے اچھی طرح سمجھا آؤں۔‘‘
’’ہاں ایسے ہی کرنا۔‘‘ امین خاں نے کہا تو اس وقت تک فرزانہ خود پر قابو پا چکی تھی۔ اس لئے دھیرے سے کہا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ کے کھیل میں کہیں علی کا نقصان نہ ہو جائے۔ اس کے والدین بہت پریشان ہیں۔‘‘
’’کسی کا بھی نقصان ہو، ہمیں اس سے غرض نہیں، دیکھا یہ جاتاہے کہ ہمارا کتنا فائدہ ہے۔ اس کے والدین پریشان ہیں تو ہمیں کیا۔ ہم نے تو انہیں پریشان نہیں کیا۔‘‘ امین خاں نے یوں کہا جیسے وہ جواب تو فرزانہ کو دے رہا ہو مگر اپنے تئیں کچھ اور بھی سوچ رہا ہو۔ اپنے باپ کے ،خیالات سن کر وہ ایک لمحے کے لئے تو جیسے کانپ کر رہ گئی۔ اسے گمان بھی نہیں تھا کہ اس کا باپ اتنا ظالم بھی ہو سکتا ہے۔ اللہ بخش جا چکا تھا۔ فرزانہ کی ہمت نہیں پڑی کہ وہ اپنے باپ سے کوئی مزید یہ سوال کر سکے۔ اس لئے وہ بھی اٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
اس کا دل بے تحاشا رونے کو چاہ رہا تھا۔ اس لئے وہ خوب دل بھر کے روئی تھی۔ وہ خود کو علی کا گنہگار سمجھ رہی تھی۔ اس پر اپنے باپ کے خود غرضانہ خیال سن کر تو جیسے زخموں پر نمک چھڑک دیا گیا ہو۔ جی بھر کے رو چکی تو علی کی زندگی کے لئے دعائیں کرنے لگی تھی۔ رات بھر وہ بے چین رہی تھی۔ یہاں تک کہ صبح کی اذان ہو گئی۔ اس نے بہت مشکل سے خود کو بستر سے الگ کیا اور بالکونی میں آ کھڑی ہوئی۔ باہر ابھی سناٹا تھا۔ نیلگوں روشنی کے آثار واضح ہونے لگے تو اسے اچانک خیال آیا۔ وہ جلدی سے واپس اپنے بیڈ تک گئی، وہاں سے فون اٹھایا اور عامر کا نمبر ڈائل کر دیا۔ کافی دیر تک بیل جانے کے بعد اس کی خمار آلود آواز ابھری۔
’’کیا بات ہے کوئی طوفان آ گیا ہے، ابھی تو سویا تھا۔‘‘ عامر کے لہجے میں شدید جھنجھلاہٹ تھی۔
’’عامر۔۔۔ یہ میں ہوں فرزانہ۔۔۔‘‘ اس نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں تو بولو، کیا آسمان ٹوٹ پڑا ہے؟‘‘ اس نے پہچان کر قدرے سکون سے کہا لیکن اکتاہٹ اس کے لہجے میں نمایاں تھی۔
’’سنو۔۔۔ علی کو واپس لے آؤ، میں تمہیں دو گنا۔۔۔‘‘
’’تم بھی کمال کرتی ہو۔ مجھے تمہاری سمجھ نہیں آتی۔ کبھی چھوڑ آؤ، کبھی لے آؤ، یہ کیا مذاق ہے۔‘‘
’’جو کہہ رہی ہوں، وہ کرو۔۔۔ معاوضہ دوگنا۔۔۔‘‘
’’یہ کام اب میرے لئے بہت مشکل ہے۔ وہ ہمیں پہچان چکا ہے، یہ کام میں نہیں کروں گا۔‘‘
’’کچھ بھی کرو۔۔۔ اسے لے کر آؤ۔۔۔‘‘ فرزانہ نے اصرار کرتے ہوئے کہا۔
’’سوری۔۔۔ میں اسے لا تونہیں سکتا۔ ہاں اگر تم اتنا ہی معاوضہ دو تو اسے وہاں جا کر اوپر پہنچا دیتا ہوں۔ قصہ ختم، نہ کوئی جان نہ پہچان۔‘‘ عامر نے صاف جواب دیتے ہوئے کہا۔
’’دیکھو، میری بات سنو۔۔۔ میں۔۔۔‘‘ فرزانہ کی بات ادھوری رہ گئی اور فون کال بند ہو گئی۔ اس نے انتہائی غصے میں فون کی طرف دیکھا اور پھر دوبارہ کال ملائی۔ دوسری طرف فون بند تھا۔ وہ پیر پٹختی ہوئی واپس ا پنے بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچے کمرے کے اندر چارپائی پر بیٹھی ہوئی مہرو مسلسل رو رہی تھی۔ اسے یہ سب بھیانک خواب کی مانند لگ رہا تھا۔ اس نے توکبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا ہو جائے گا۔ یہ تو اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ سانول اس کے عشق و محبت کے سحر میں گرفتار ہو گا اور اتنی شدت سے ہو گا کہ اپنا آپ ختم کرنے میں اس نے ذرا سا بھی نہ سوچا۔ وہ یہ مان ہی نہیں سکتی تھی کہ سانول کی دماغی حالت پر کوئی شک ہو گا۔ وہ سادہ اور معصوم تھا مگر اس میں اتنی عقل ضرور تھی کہ اپنا اچھا اور برا سمجھ سکے، کیا اسے اپنے آپ پر اختیار ہی نہیں رہا؟یہی وہ سوال تھا جس نے اسے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا۔ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے آنکھیں چرا رہی تھی کہ سانول اس سے محبت کرتا ہے، کس قدر کرتا ہے، اس شدت کی عینی شاہد تھی۔ خان محمد کے ڈیرے پر وہ دونوں تنہا تھے، وہ اس کی دسترس میں تھی۔ اگر وہ فقط اس کے جسم کا طلب گار ہوتا تو جو چاہے کر سکتاتھا۔ لیکن سارا وقت وہ اسے مناتے ہوئے، اس کی منتیں کرتا رہا۔ اس کے لئے سارے زمانے سے لڑنے کا ارادہ رکھتا تھا لیکن اس نے اس کی ایک بھی نہ مانی اور وہ چراغ بھڑک کر ہمیشہ کے لئے بجھ گیا تھا۔
مہرو لاشعوری طور پر سانول کے عشق کو مان چکی تھی۔ مگر اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ اس کے عشق میں گرفتار ہو اور پھر اس نے کبھی اظہار بھی نہیں کیا؟ ایسا اس نے کیوں کیا؟ اسے اگر ذرا سا بھی احساس ہوتا کہ سانول سے اس کی معصوم شرارتوں کانتیجہ اتنا بھیانک ہو گا تو وہ کبھی اس کے پاس بنی نہ پھٹکتی۔ خان محمد کے ڈیرے پر ا س نے بہت ساری باتیں کی تھی۔ جنہیں وہ خود سمجھنا نہیں چاہ رہی تھی۔ اسے تو بس اپنی اور اپنے خاندان والوں کی عزت کا احساس تھا۔ وہ جانتی تھی کہ بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا اور ایسا ہو گیا تھا۔ اسے ذرا ذرا یاد آ رہا تھا کہ سانول نے اس سے اظہار کیوں نہیں کیا تھا۔ وہ اس پر جتنا سوچتی اسے سانول بے قصور دکھائی دیتا لیکن پھر وہ وہیں پرآ کر رک جاتی کہ اتنا سب کچھ اگر اس نے برداشت کیا۔ اپنے آپ کو روکے رکھا تو پھر یہ کیا تھا؟ یہی الجھن اسے منتشر کر کے رکھ دیتی۔
اصل میں ہر معاشرے میں بسنے والے انسانوں نے اپنے لئے کچھ ضابطے اور اصول وضع کیے تاکہ وہ ایک خوشگوار ماحول میں اپنی زندگی بسر کرتے چلے جائیں۔ ایسا وہ اپنی بہتر زندگی اور ترقی کے لئے کرتے ہیں اور کرتے چلے آ رہے ہیں۔ معاشرے میں کچھ انسان ان اصول اور ضابطوں کی سختی سے پابندی کرتے ہیں اور کچھ کو یہ اصول اور ضابطے اچھے ہی نہیں لگتے۔ وہ انہیں اپنی مرضی سے استعمال کرتے ہیں۔ یہیں سے الجھن اور کشمکش پیدا ہوتی ہے۔ یہی الجھن اور کشمکش ضابطوں اور اصولوں کو بہتر سے بہتر بناتے رہنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں یا پھر ان ضابطے اور اصولوں کو متروک قرار دے کر چھوڑ دئیے جاتے ہیں۔ یہی کسی انسانی معاشرے میں زندگی کا احساس ہوتے ہیں۔ اور ایسے معاشرے ہی ترقی کرتے ہیں اور اپنی زندگی کو خوشگوار بناتے ہیں۔ لیکن۔۔۔ کچھ معاشرے اپنے ہی وضع کر دہ اصولوں اور ضابطوں کو اس طرح سینے سے لگا کے جنون کی شاہراہ پر چلتے رہتے ہیں کہ انہیں تبدیل کرنے پا ان پر نظر ثانی کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتے۔ نسل در نسل یہ اصول وضابطے۔ روایات یک صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ تب پھر یہ روایات جب طاقتوروں کے ہاتھ میں آتیں وہیں تو وہ اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ انسانی زندگی سے زیادہ ان روایات کا حترام کیا جائے تو وہ معاشرے ترقی کی بجائے وہیں کھڑے رہ جاتے ہیں اور وقت بہت آگے نکل جاتا ہے۔ ایسے میں انسانی زندگی کی کوئی اہمیت رہتی ہے اور نہ ہی کوئی وقت۔ روایات کی پاسداری کے لئے انسان خون تک بہا دیا جاتا ہے۔
سانول اور مہرو کی زندگی میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ جس ماحول اور معاشرے سے تعلق رکھتے تھے اس میں وٹہ سٹہ ایک ایسی روایات تھی جس پر سختی سے عمل کیا جاتا تھا۔ اگرچہ کسی دور میں یہ اصول انسانی بہتری کے لئے بنایا گیا ہو گا لیکن گزرتے وقت کے سا تھ۔ یہ اصول جب روایت کی حیثیت اختیار کر گیا تو اس میں انسانی زندگی کی اہمیت کم ہو گئی۔ سانول کی کوئی بہن نہیں تھی۔ ظاہر ہے اس کی شادی کے لئے وٹہ سٹہ کی روایت آڑے تھی۔ وہ کسی ایسی لڑکی کو ہی دلہن بنا سکتا تھا جس کا کوئی بھائی نہ ہو۔ سانول کی ماں، اماں فیضاں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ اس گھر میں جھانک ہی نہیں سکتی جہاں کہیں کسی لڑکی کا بھائی ہو۔ اس نے جب اپنے بیٹھے کو بتایا کہ اس کا رشتہ ا س نے شماں سے کر دیا ہے۔ تو وہ بہت تڑپا۔ اس نے اپنی ماں کو بتایا کہ وہ تو لڑکپن سے مہرو کو چاہتا ہے۔ تب ماں نے اسے مجبوری سمجھائی اور اسے بتایا کہ وہ شماں سے اس کی شادی طے کر چکی ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی بھائی نہیں ہے۔ وہ ماں کی ممتا کے سامنے تو خاموش ہو گیا لیکن اپنے اندر بھڑکتی ہوئی آگ پر قابو نہ پا سکا۔ وہ آگ لمحہ بہ لمحہ بھڑکتی رہی۔ مہرو سے جدئی کا تصور سانول کے اندر ایک زخم کی صورت بن گیا۔ جو دن بہ دن بڑھتا گیا اور اس کے ہونٹوں پر مستقل ہی رہنے لگا۔
عشق اولڑی پیڑوو
لوکاں خبر نہ کائی۔
وہ آتش عشق میں جل گیا اور مہرو کو سوچنے پر مجبور کر گیا کہ آخر یہ آتش عشق ہوتی کیا ہے؟ مہرو مسلسل سوچتی چلی جا رہی تھی۔ سانول کی آتش عشق نے اس کا سب کچھ جلا کر خاکستر کر دیا۔ سانول نے جب اسے اونٹ پر زبردستی بٹھایا، اس سے ایک لمحہ پہلے تک اس کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ایسا کرے گا۔ بلاشبہ وہ بے قصور تھی لیکن عورت تھی نا، اس لئے اس کا قصور یہ بن گیا کہ وہ ایک رات تنہا سانول کے ساتھ رہی ہے۔ شک کے ناگ نے ہر کسی کو ڈس لیا اور وہ اس زہر سے بچ نہ سکے۔ مہرو کی جہاں منگنی ہوئی تھی۔ وہ لوگ آئے اور انہوں نے کسی فرد جرم کی طرح یہ فیصلہ سنا دیا کہ مہرو کی منگنی ختم کرتے ہیں۔ انہوں نے صفائی تک کا موقع نہیں دیا۔ وہ سمجھتی تھی کہ اس کا قصور شاید کم ہو لیکن وہ اپنی بیٹی کی زندگی برباد نہیں کر سکتے تھے۔ رب نواز نے ایک جیتی جاگتی زندگی کوختم کر دیا تھا۔ اس نے سانول کا قتل کیا تھا۔ وہ کسی بھی وقت پولیس کے ہتھے چڑھ سکتا ہے۔ پھر ان کی بیٹی کا مستقبل کیا ہو گا، شاید یہی خوف تھا جس نے یہ منگنی توڑنے پر انہیں مجبور کیا۔ مہرو پوری بستی کی نگاہوں میں آ چکی تھی۔ کوئی قصور نہ ہونے کے باوجود قصور وار گردان دی گئی تھی۔
رب نواز غائب تھا۔ کسی کو اس کے بارے میں معلوم نہیں تھا کہ وہ کہاں گیا۔ مگر ان کے گھر والوں کو پتہ تھا کہ وہ پیر سیدن شاہ کی پناہ میں ہے۔ اور وہ محفوظ ہے پولیس وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی۔ یہ احساس بستی والوں کو بھی تھا کہ رب نواز جہاں بھی ہے۔ اس پر پیر سیدن شاہ کا ہاتھ ہے۔ کیونکہ اس کی ایماء پر سانول کے پیچھے واہر گئی تھی اور اس واہر میں اس کے بندے تھے۔ سانول کے قتل کے عینی شاہد بھی انہی میں سے تھے ۔ یہی و جہ تھی کہ سانول کی میت کو دفنانے بستی میں سے کوئی نہیں گیا تھا۔ان سب کو پیر سیدن شاہ کے عتاب کا خوف تھا۔ اس لئے سب کے ہونٹ سلے ہوئے تھے۔ وہ سب جانتے تھے لیکن ظاہر یہی کر رہے تھے کہ انہیں کچھ بھی پتہ نہیں ۔ لیکن۔۔۔ ایک شخص کو سب کو کھٹک رہا تھااور وہ تھا علی۔۔۔ انہیں یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ وہاں پر کیوں ہے۔ کہاں سے آیا ہے اور اب تک واپس کیوں نہیں چلا گیا۔۔۔؟ انہیں یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ محض چند دنوں کا ساتھ اتنی گہری دوستی میں کیسے تبدیل ہو سکتا ہے کہ وہ اپنا سب کچھ چھوڑ کر روہی کو مسکن بنالے۔۔۔؟ اگر وہ سانول کا اتنا گہرا دوست ہے تو پھر وہ اس کا انتقام ضرور لے گا۔ خود کچھ نہ کر سکا تو پولیس کو ضرور یہاں لائے گا۔ اس خیال کے ساتھ ایک اور شک بھی ان لوگوں میں گردش کر رہا تھا۔ ممکن ہے علی کی حوصلہ افزائی پر ہی سانول نے مہرو کو اغواء کیاہو۔ ورنہ پہلے کبھی اس کی ہمیت نہیں پڑی؟اس سارے واقعہ کا اصل محرک علی ہی ہے۔
)جاری ہے(
No comments:
Post a Comment