عشق کا قاف
امجد جاوید
قسط نمبر 04
مہرو ی سب کچھ دیکھ رہی تھی اور سن بھی رہی تھی۔ لیکن نجانے کیوں اسے علی کے بارے میں یہ باتیں ٹھیک نہیں لگ رہی تھیں۔ اس کا دل مان ہی نہیں رہا تھا کہ علی ایسا ہو سکتا ہے یا پھر علی کی حوصلہ افزائی سے سانول کو ہمت ہوئی تھی۔ اس نے علی کو ایک سرسری نگاہ سے دیکھا تھا۔ اسے تو علی کاچہرہ بھی یاد نہیں رہا تھا۔ مگر حقائق یہی ثابت کر رہے تھے کہ ایک وہی ہے جو سانول کا بدلہ لے سکتا ہے، چاہے خود لے یا پھر وہ اماں فیضاں کی مدد کرے۔ ورنہ وہ یونہی تو نہیں پڑا اس گھر میں۔ سارا دن ریوڑ چرانے کے بعد اسے تو ہوش نہیں رہتا ہو گا۔ مگر سننے والوں سے اس نے سنا تھا کہ وہ راتوں کو بھی جاگتا ہے اور کئی بار اسے علی الصبح سانول کی قبر پر بھی دیکھا گیا ہے۔ علی کے بارے میں یہ ساری باتیں اپنی جگہ لیکن اس واقعے کے بعد مہرو کی زندگی بدل کر رہ گئی تھی۔ وہ جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیا کرتی تھی آج گلیوں کے تنکے سے بھی ہلکی ہو گئی تھی۔ اس کے مسلسل بہتے ہوئے آنسو بھی اس کی بے گناہی ثابت کر سکتے تھے۔ آئندہ آنے والے دنوں میں قسمت اس کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے، اسے قطعاً احساس نہیں تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔ میاں جی امامت کے لئے کھڑے ہو چکے تھے۔ چند نمازی بھی ان کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ عین اس وقت جب میاں جی نے تکبیر کہی، علی مسجد میں داخل ہوا۔ وہ بھی صف میں شامل ہوا اور نیت باندھ لی۔ فرض نماز کی ادائیگی کے بعد میاں جی نے ایک نگاہ علی پر ڈالی اور پھر باقی نماز پڑھنے لگے۔ علی نے بھی سنت اور نفل کی ادائیگی کی ا ور سکون سے بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد تک نمازی چلے گئے تو میاں جی نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔
’’میرا خیال ہے تم نے یہ پہلی نماز اس مسجد میں ادا کی ہے۔‘‘
’’جی، ایسا ہی ہے۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا اور ان کے چہرے کی طرف پرشوق نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ میاں جی خاموش رہے تو وہ بولا۔ ’’آج گھر سے اسی نیت کے ساتھ کلا تھا کہ نماز مسجد میں ہی پڑھوں گا۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے۔‘‘ میاں جی نے کہا اور پھر خاموش ہو گئے۔ ان کی یہ خاموشی قدرے طویل تھی۔ علی بھی چپ رہا جیسے وہ ان کی طرف سے بات کا نتظار کر رہا ہو۔ پھر وہ گویا ہوئے۔
’’علی۔۔۔ خواجہ سائیں نے اپنی ایک کافی میں کہا ہے کہ روہی رنگ رنگیلڑی جہیڑی یار ملاوے۔ مطلب۔۔۔ یہ رنگوں بھری روہی ایسی ہے جو یار ملا دیتی ہے۔ کیا تمہیں ایسا لگتا ہے؟‘‘
’’جی میاں جی۔۔۔ ایسا ممکن ہے لیکن یار تو اسے ہی ملتا ہے نا جس کے پاس ایسی نگاہ ہو جو اس ویران اور بد رنگ روہی کو دیکھے تو یہ رنگوں بھری معلوم ہو۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
پچھلے چند دنوں سے ایسا ہی ہو رہا تھا۔ علی مغرب یا عشاء کی نماز کے بعد میاں جی کے پاس آ جاتا اور پھر دونوں مسجد کے پرسکون ماحول میں بیٹھ کر ایسی ہی باتیں کرتے۔ علی کو ان باتوں میں بہت لطف اور سکون ملنے لگا تھا۔ اس لئے وہ سارا دن انہی باتوں کو سوچتا اور پھر شام ڈھلتے ہی میاں جی کے پاس جانے کے لئے بے قرار ہو جاتا۔ پہلے وہ نماز نہیں پڑھتا تھا۔ لیکن اس شام جب میاں جی نے اسے نمازیوں کی صف میں دیکھا تو ان کے چہرے پر خوشگواریت پھیل گئی تھی۔ پھر آج جب انہوں نے بات چھیڑی تو اس کے رنگ ڈھنگ ہی نرالے تھے۔ علی کا خواب سن کر میاں جی نے اس کی طرف دیکھا اور بولے ۔
’’ہاں میاں۔۔۔ بات تو کچھ ایسے ہی ہے لیکن تم اپنی نگاہ کو بلند کیوں نہیں کرتے ہو۔ اس پوری دنیا پر نظر ڈالو اور دیکھو کیا یہ روہی کی مانند ہے۔۔۔؟ میں اسی تناظر میں تمہیں ایک بات سمجھنا چاہ رہا ہوں کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے ،ویرانے میں بیٹھ جانے سے بات نہیں بنتی اور تیرے جیسا نوجوان ، جو نہ بھی چاہے لیکن دنیا اس کی جانب کھنچی چلی آئے۔ اس کے لئے مزید مشکل ہو جائے گا۔ میں تمہیں روہی کے رنگ تلاش کرنے سے منع نہیں کرتا، بلکہ میں چاہتا ہوں کہ تم رنگ تلاش کرو، انہیں دیکھو، قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو۔۔۔ ایسے میں یار سے ملو تو اس کی بہار ہی کچھ اور ہے۔‘‘
’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ علی نے قدرے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’اس میں نہ سمجھنے والی بات تو کوئی نہیں ہے، ہاں اگر تفصیل جاننا چاہتے ہو تو الگ بات ہے۔‘‘ میاں جی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس پرعلی خاموش رہا اور دھیرے سے مسکرا دیا۔ وہ چاہ رہا تھا کہ میاں جی مزید بات کریں۔ تب وہ بولے۔ ’’دیکھو۔۔۔ نئی آخر الزماں ﷺنے ہمیشہ یہ دعا مانگی کہ میری دنیا اور آخرت دونوں اچھی ہو جائیں۔ سوہمیں بھی نہ صرف اپنی آخرت اچھی بنانی ہے بلکہ دنیا بھی۔ ہم ایک قوم ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ ہم دنیا میں رہتے ہیں۔ ہمیں اپنی بقا بھی چاہیے اور دوسروں کا تحفظ بھی کرنا ہے۔ اس لئے اس دنیا کو اپنے لئے اور دوسروں کے لئے پرامن بنانا۔ دنیا بنانے کامطلب یہ نہیں ہے کہ ہم اس کے وسائل پر قابض ہو جائیں۔ دوسروں کا حق چھین کر یا ایسی غلیظ قسم کی سرگرمیوں میں ملوث ہو جائیں۔ بلکہ اللہ کی زمین پر، اللہ کے حکم سے نیک اعمال کے ساتھ اپنی آخرت سنوار لیں۔‘‘
’’لیکن یار ملنے کی بات پھر وہی رہ گئی۔‘‘ علی نے سنجیدگی سے پوچھا۔
’’کون کہتا ہے کہ یار نہیں ملتا۔۔۔ یار تو ہمارے پاس ہے، ہمیں دیکھ رہا ہے، ہماری نیتوں سے واقف ہے۔ لیکن یہ ہم ہیں کہ اس کی طرف نہیں بڑھتے۔ یار ملنے کے بے تحاشا راستے ہیں۔ مگر سب سے بہترین راستہ خلق خدا سے ہو کر جاتا ہے۔یہی سب سے افضل ہے۔‘‘
’’مطلب۔۔۔میں جو اماں کی خدمت کر رہا ہوں، کیا یہ خدمت خلق کے زمرے میں نہیں آتا؟‘‘ علی نے تیزی سے پوچھا۔
’’بیشک۔۔۔ مگر اس سے بھی پہلے تمہاری اپنی ماں موجود ہے، کیا تم اس کے فرائض سے پہلو تہی کرو گے؟‘‘
’’میاں جی۔۔۔ یہ مجبور ہیں، لیکن میری والدہ مجبور نہیں۔ اس کے پاس دوسرے ہیں جو ان کی دیکھ بھال کر رہے ہیں اور پھر اماں فیضاں کا تو بیٹا اس دنیا میں نہیں، اس کا زخم بھی تازہ ہے۔ اس وقت اور ان حالات میں۔۔۔ انہیں میں کیسے چھوڑ سکتا ہوں۔‘‘ علی نے سمجھنے والے انداز میں کہا۔
’’تمہارا جذبہ قابل قدر ہے علی۔۔۔ تمہارا یہ عمل بھی احسن ہے۔ یہی خدمت خلق ہے کہ،خونی رشتہ نہ ہونے، کسی لالچ اور طمع کے نہ ہونے کے باوجود آپ کسی کے لئے کچھ کریں۔ یہ تمہاری مرضی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ تمہارے اس فیصلے میں ضمیر کی آواز بھی شامل ہے۔ خیر۔۔۔ تم جو چاہو کرو۔۔۔ لیکن کچھ فیصلے کہیں اور ہو چکے ہوتے ہیں۔ جنہیں بہرحال ماننا پڑتا ہے۔‘‘ میاں جی نے دھیرے سے اسے سمجھایا۔ تو علی نے تذبذب بھری نگاہوں سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیسے فیصلے میاں جی۔۔۔؟‘‘
علی کے یوں کہنے پر میاں جی خاموش رہے اور پھر بات اس انداز سے شروع کی جیسے وہ علی کے سوال سے پہلو تہی کر رہے ہوں۔
’’دیکھو۔۔۔ اللہ رب العزت نے انسان کو فکر و شعور کی اس معراج سے نوازا ہے جو شاید دیگر مخلوق میں سے کسی کو میسر نہیں۔ ہمیں نہ صرف اس معراج کی قدر کرنا چاہیے بلکہ جس فکرو شعور کی و جہ سے ہمیں یہ مقام نصیب ہوا ہے اس کی بھی قدر افزائی ہمارا فرض ہے۔ یہ کیسے ہو گا۔۔۔؟‘‘یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کے لئے رکے اور پھر کہتے چلے گئے۔ ’’اصل میں فکرو شعور ہی وہ بنیادی بات ہے جس سے انسان اپنے عمل کا راہیں متعین کرتا ہے۔ فکرو شعور سے عمل تک کے درمیان میں ایک شے ایسی ہوتی ہے۔ جو نہ صرف فکرو شعور کے لئے اطمینان کا باعث بنتی ہے بلکہ عمل کی مضبوطی کی وجہ بھی ہوتی ہے۔اور وہ ہے یقین۔۔۔ بنیادی نکتہ یقین ہے۔ آپ اللہ رب العزت کو واحد تصور کرتے ہیں تو کیا اس کا آپ کو یقین ہے؟ آپ کے تصور کی آبیاری کن خیالات اور احساسات نے کی؟ یہاں اگر ہم اپنے آپ کو، اپنے تصور کو اور آبیاری کرنے والے خیالات و احساسات کو ٹٹولیں۔ انہیں فکر و شعور کی کسوٹی پر پرکھیں تو ہمارا عمل بھی ہم پر واضح ہو جائے گا۔ تصور، یقین اور عمل کی اس مثلث میں آلائشیں جو ہیں وہ بالکل سامنے آ جائیں گی۔ اب یہ انسان کا اپنا اختیار ہے کہ وہ خود کو معراج پر لے جائے گا یا پھر پستیوں میں خود کو گرا دے۔‘‘ میاں جی بڑے دھیمے اور شگفتہ لہجے میں بات کہتے رہے جس کا ایک ایک لفظ سماعتوں سے ہو کر علی کے من میں راسخ ہوتا چلا گیا۔ وہ خاموش رہا شاید اس کے اندر جذب کی بے پناہ صلاحیت تھی۔ اس لئے وہ اس بات پرلرزا نہیں بلکہ اس کے فکرو شعور میں ایک حشر برپا ہو گیا تھا۔ اسے ایک راستہ مل گیا تھا جس پر چلتے ہوئے وہ اپنے تصور کو نئے سرے سے پرکھ سکے۔علی کے من کی خاموش جھیل میں نئی سوچ کا پتھر گرا تو خیالات کی لہریں بڑی دور تک دائرے بناتی چلی گئیں۔ دونوں کے درمیان ایک طویل خاموشی اتر آئی۔ وہ اپنے اپنے طور پر بہت کچھ سوچتے رہے۔ کافی وقت گزر جانے کے بعد علی نے سر اٹھایا اور میاں جی سے پوچھا۔
’’یہ ساری باتیں اپنی جگہ ٹھیک ہیں اور بہت اچھی ہیں۔ میرے دل کو لگی ہیں۔ لیکن ایک بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی ہے؟‘‘
’’وہ کیا؟‘‘ میاں جی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’سانول۔۔۔ میں سانول کی بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ اس نے قصور کیا ہے۔ جرم ہوا ہے اس سے لیکن اسے اتنی بڑی سزا دی گئی۔ اسے ختم کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ اس کے قتل کے بعد بھی اسے سزا دی گئی۔ اتنی کڑی سزا۔۔۔؟‘‘
’’بیٹا۔۔۔ یہاں ہم اپنے آپ کو تو سنوار سکتے ہیں۔ لیکن کسی دوسرے کو سنوارنا بہت مشکل ہے۔ میں بھی مانتا ہوں۔ سانول کو بہت زیادہ سزا دی جا رہی ہے اور میں بھی اس میں شامل ہوں کیا کریں، اس کے لئے حکم ہی ایسا تھا۔‘‘
’’مجھے نہیں معلوم میاں جی کہ یہ حکم کہاں سے آیا اور کیوں آیا مگر انسانیت اس قدر۔۔۔‘‘ علی نے جذبات میں کہنا چاہا تومیاں جی نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔ اور متانت سے بولے۔
’’کبھی پانی میں چاند دیکھا ہے؟‘‘
’’کئی بار دیکھا ہے ۔‘‘ علی نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
’’وہ اصل تو نہیں ہوتانا۔۔۔ اسی طرح بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو حالات کے پس منظر میں کچھ اور دکھائی دے رہی ہوتی ہیں لیکن ان کی اصل کچھ اور ہوتی ہے۔ منظر بدلنے کے لئے ، موسم تبدیل ہونے کے لئے ہوائیں چلتی ہیں۔ ان میں بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ جاتا ہے۔ بس تحمل سے دیکھتے رہو کہ ہو کیا رہا ہے؟‘‘ میاں جی نے بہت پیار سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’میں آپ کی بات سے اختلاف نہیں کر رہا، لیکن اماں فیضاں ایک غریب عورت ہے، اس کی شنوائی نہیں تو کیا وہ اپنے بیٹے کے لئے انصاف بھی نہیں مانگ سکتی۔۔۔ آپ خود بتائیں رب نواز کو کیا حق حاصل تھا کہ وہ سانول کو ختم کر دے۔ آپ بھی اور سب بسی والے بھی یہ جانتے ہیں کہ یہ حادثہ اچانک نہیں ہوا تو پھر۔۔۔؟‘‘
’’علی۔۔۔ میں نے کہا نا، خاموش رہو اور دیکھتے رہو۔۔۔ ہم اگر بحث میں پڑے تو بات نجانے کہاں تک جا پہنچے گی۔ وقت بتائے گا تمہیں سارے سوالوں کے جواب دے گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے اور پھر چونکتے ہوئے بولے۔ ’’میرا خیال ہے عشاء کا وقت ہونے کو ہے، اذان دے دوں۔‘‘ یہ کہہ کر میاں جی اٹھ گئے تو علی بھی کچھ نہ سمجھتے ہوئے اٹھ گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دن نکلنے میں ابھی تھوڑا وقت تھا۔ مشرقی افق نارنجی ہو رہا تھا۔ ہلکا ہلکا اندھیرا بھی تھا۔ نیلگوں سے ماحول نے خوشگواریت طاری کی ہوئی تھی۔ ایسے میں کچی بستی سے دور مہرو اس راستے پر کھڑی تھی جہاں سے علی واپس آنے والا تھا۔ مہرو کو پورا یقین تھا کہ وہ واپس لوٹے گا تو اسی راستے سے۔ وہ تین دن سے یونہی اسے سانول کی قبر پرجاتے ہوئے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ اس دن مہرو نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ وہ علی سے ضرور ملے گی اور وہ سب کچھ کہہ دے گی جو وہ کہنا چاہتی تھی۔ اس کی نگاہیں اسی راستے پر تھیں جہاں سے علی نے آنا تھا۔ اس کا انتظار اتنا طویل نہیں ہوا، کچھ ہی دیر بعد علی آتا ہوا دکھائی دیا۔ مہرو اس کے راستے میں آ کھڑی ہوئی اور اسے آتا ہوا دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ اس کے قریب سے ہو کر آگے بڑھ گیا۔ تبھی مہرو نے کہا۔
’’علی۔۔۔ رکو، میں نے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں اک دردناک استد عا تھی۔ علی کے بڑھے ہوئے قدم رک گئے۔ پھر اس نے گھوم کر مہرو کو دیکھا اور چند لمحے خاموشی سے دیکھتا رہا اور پھر دھیرے سے بولا۔
’’کیا کہنا ہے تمہیں۔ کون ہو تم، میرا نام کیسے جانتی ہو؟‘‘
’’میں نے۔۔۔ بہت کچھ کہنا ہے، لیکن شاید کہہ نہیں پاؤں گی۔‘‘ اس نے براہ راست علی کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد بولی۔ ’’میرا نام مہرو ہے اور میں۔۔۔‘‘
’’اچھا تم ہو۔۔۔‘‘ علی نے ا س کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری و جہ سے ہی سانول اس دنیا میں نہیں رہا۔ اتنا کیا ظلم کر لیا تھا اس نے کہ اسے جان سے ہی مار دیا جائے۔‘‘ اس کے لہجے میں بس دکھ گھلا ہوا تھا۔
’’یہ تم کہہ رہے ہو علی۔ لیکن ہماری روایت میں یہ ایسا ہی جرم ہے اور پھر اسے کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ مجھے میری مرضی کے خلاف اپنی بات منوا لے۔‘‘ مہرو نے دبے ہوئے لہجے میں احتجاجاً کہا۔
’’میں تم سے بحث نہیں کروں گا مہرو۔ کیونکہ تم سمجھ ہی نہیں پاؤ گی کہ سانول کی کیفیات کیا تھیں۔ وہ تمہارے بارے میں کیا جذبات رکھتا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے ایک طویل سانس لیا اس کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ ہرنی جیسی آنکھوں میں دبا دبا خوف اور قدرے غصہ چھلک رہا تھا۔ ستوان ناک میں پڑی ہوئی نتھلی اس کے حسن کا کرو فر کچھ اور بڑھا رہی تھی۔ پتلے گلابی ہونٹ وہ بری طرح مسل رہی تھی جیسے وہ لفظ کہنا چاہتی جو ہونٹوں پر تھے لیکن کہہ نہ پا رہی ہو۔ کانوں میں پڑے جھمکے ہلکورے لے رہے تھے اور لانبی گردن میں رنگین دھاگہ نمایاں دکھائی دے رہا تھا۔ روایتی آنچل سے اپنا سر ڈھانپے وہ یوں اعتماد سے کھڑی تھی کہ جیسے علی پر کوئی حق جتانے آئی ہو۔ مہرو نے اپنے کشادہ ماتھے پر ہلکی سی تیوریاں لاتے ہوئے کہا۔
’’سانول کو میں اس وقت سے جانتی ہوں جب ہم دونوں کوہوش نہیں تھا۔ ہم ایک ساتھ پلے بڑھے ہیں۔ جوان ہوئے ہیں۔ میں یہ جان گئی ہوں کہ اسے مجھ سے محبت تھی، وہ عشق کرتا تھا مجھ سے لیکن عشق کو یوں سرِ بازار رسوا تو نہیں کیا جاتا۔ اس نے تو مجھے مٹی میں رول دیا۔‘‘
’’تم چاہتی تو اسے واپس لا سکتی تھی، اسے تم پر بڑا مان تھا، تم مانو یا نہ مانو؟ اس کی اصل قاتل تم ہو۔ جس کی سزا تمہیں ملے گی۔ ساری زندگی تم اس کے لئے تڑپو گی۔‘‘علی نے دکھے ہوئے من سے کہا۔
’’میری نیت صاف ہے علی۔۔۔ اس لئے مجھے پورا بھروسہ ہے کہ میں ایسے کسی حالات سے نہیں گزروں گی۔‘‘
مہرو نے انتہائی اعتماد سے کہا۔
’’خیر۔۔۔ یہ آنے والے دنوں کی باتیں ہیں۔ انہیں چھوڑو، بتاؤ کیاکہنا چاہتی ہو تم؟‘‘ علی نے اس بحث سے بچتے ہوئے کہا تو مہرو نے اس کی طرف دیکھا اور قدرے دھیمے لہجے میں بولی۔
’’علی۔۔۔ تم یہاں سے چلے جاؤ تو اچھا ہے۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر وہ چند لمحے حیرت میں رہا، پھر بہت ساری باتیں سمجھتے ہوئے اس نے کہا۔
’’میں نہیں جانتا کہ تمہیں میرے یہاں رہنے سے کیا مسئلہ ہے لیکن میں اماں فیضاں اوربھیرے کو یہاں تنہا چھوڑ جاؤں۔ میں ایسا نہیں کر سکوں گا۔‘‘
’’کیوں۔۔۔ تم ایسا کیوں نہیں کر سکتے؟‘‘ مہرو نے احتجاجاً کہا۔
’’یہی بات اگر میں تم سے پوچھوں کہ تم کیوں چاہ رہی ہو تو پھر۔۔۔؟‘‘ علی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’دیکھو۔۔۔ میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گی۔ میرا بھائی رب نواز یہیں ہے پیر سیدن شاہ کی پناہ میں ہے اور شاید تمہیں پتہ نہیں پولیس بھی اس کے سامنے بے بس ہے۔ یہاں تک کہ اماں فیضاں بھی کچھ نہیں کر پائے گی۔ تمہارے بارے میں باتیں ہورہی ہیں کہ تم شاید اس لئے یہاں پر ہو کہ تم سانول کے معاملے میں۔۔۔‘‘
’’تو کیا تمہارا بھائی، یا وہ پیر سیدن شاہ مجھے قتل کروا دیں گے۔۔۔؟‘‘
’’ممکن ہے ایسا ہو جائے، میں نہیں چاہتی کہ تم خواہ مخواہ مارے جاؤ۔‘‘ مہرو نے تیزی سے کہا۔
’’میرا خون رائیگاں نہیں جائے گا اور تم یہ جان لو کہ سانول کا خون بھی اتنا بے وقعت نہیں ہے۔ وہ بھی رائیگاں نہیں جائے گا۔ اماں اگر مجبور اور بے بس ہے تو کوئی بات نہیں۔ لہو خود بولتا ہے۔‘‘
’’مگر تم۔۔۔ تم کیوں ایساسوچتے ہو، تم اپناآپ کیوں ختم کرنے پر تلے ہو۔ کیا لگتا ہے وہ تمہارا۔‘‘ مہرو نے یوں کہا جیسے وہ ابھی پھٹ پڑے گی۔
’’میں نے کہانا تم نہیں سمجھ سکوں گی۔ خیر۔۔۔تم ان دھمکیوں کو چھوڑو۔ اگر کوئی اور بات کرنی ہے تو بتاؤ۔‘‘
’’تم اگر یہ سوچ رہے ہو کہ تم رب نواز کو نقصان پہنچا سکو گے یا پیر سیدن شاہ سے ٹکر کا سوچ رہے ہو تم بہت سخت غلطی پرہو۔ ایسا کچھ بھی نہیں ہوگا۔ تم خود کو یہاں ضائع نہ کرو، واپس چلے جاؤ۔‘‘
اس پر علی اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر ایک طویل سانس لے کر بولا۔
’’مہرو۔۔۔ جو کچھ بھی ہو جائے، میں یہیں رہوں گا۔ سانول میرا محسن تھا۔ اس نے میری جان بچائی تھی۔ یہ زندگی اسی کے لئے ہے تم کیا جانو۔۔۔محسن کیا ہوتاہے۔ مجھے اپنا فرض نبھانا ہے۔ حالات چاہیے جیسے بھی ہوں۔ میں ان سے لڑوں گا۔ مگر مجھے تم پر افسوس ہے۔ تم میاں جی سے پڑھتی بھی ہو لیکن تم نے کچھ بھی نہیں جانا، کچھ بھی نہیں سمجھا، سنو۔۔۔ یہ سب کچھ توفیق سے ملتا ہے۔‘‘
اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ مہرو ایک لفظ بھی مزید نہیں کہہ سکی۔ وہ بت بن گئی تھی۔ جیسے وہ سب بھول گئی ہو جو وہ علی سے کہنے کے لئے آئی تھی۔ علی کی بات اس کے دل کو چھو گئی تھی۔ وہ سو بھی نہیں سکتی تھی کہ علی اندر سے کیا چاہتاہے۔ وہ آئی تو اس مقصد کے لئے تھی کہ علی کو یہاں سے چلے جانے کے لئے کہے۔ اسے باور کرائے کہ اس کا بھائی اور پیر سیدن شاہ بہت ظالم ہیں وہ خوف زدہ ہو جائے گا لیکن یہاں توعزم ہی ایسا تھا کہ جس کے سامنے خوف گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ علی اس کی بدلتی ہوئی کیفیات کو دیکھتا رہا اور پھر آگے بڑھ گیا۔ مہرو کو ہوش اس وقت آیا جب علی ا س سے چند قدم دور جا چکا تھا۔ اس نے پوری شدت سے اسے روک لینا چاہا مگر اس کے ہونٹوں سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ اس کے بارے میں لفظ بے جان ہو چکے تھے۔ وہ اسے یہاں سے چلے جانے کا کہنے آئی تھی مگر اسے لگا جیسے وہ اب خود علی کو روکے گی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
پیر سیدن شاہ کی حویلی کے اس حصے میں جہاں وہ اپنے مریدوں سے ملاقات کیا کرتا تھا، اس وقت سنسان ہو چکا تھا۔ سیدن شاہ کے مرید خاص پیراں دتہ نے وہ کمرہ خالی کروا لیاتھا اور جتنے بھی لوگ وہاں آئے ہوئے تھے انہیں باہر بیٹھنے کا حکم صادر کر دیا گیا تھا۔ وہاں صرف ایک شخص بیٹھا تھا جو کچھ دیر پہلے حویلی کے باہر آ کر رکا تھا۔ وہ سادہ کپڑوں میں ملبوس ڈی ایس پی تھا جس کے ساتھ آئی ہوئی نفری بھی سادہ لباس میں تھی۔ ابھی تک پیر صاحب ملاقات کے کمرے میں نہیں آیا تھا۔ انہیں یہی معلوم تھا کہ پیر سیدن شاہ اسی کمرے میں مریدوں سے بات کرتا ہے،سو کچھ دیر بعد پیراں دتہ سے رابطہ ہوا۔ اس نے پیر صاحب سے اجازت لے کرانہیں وہیں بٹھایا اور لمحوں میں وہ کمرہ خالی کرا لیا۔ اس میں بھی ڈی ایس پی کے لئے پیغام تھا۔ کہ لوگ پیر سائیں کا حکم کیسے مانتے ہیں۔ ڈی ایس پی بے چینی کے ساتھ اس طرف دیکھ رہا تھا جدھر سے پیر سیدن شاہ کی آمد متوقع تھی۔ اس کو ملنے کی اجازت اس شرط پر دی گئی تھی کہ وہ اکیلا اندر آئے گا۔ باقی نفری باہر ہی رہے گی۔ ڈی ایس پی نہ صرف سمجھ رہا تھا بلکہ اس سارے عمل میں چھپے ہوئے مفہوم سے بھی آگاہ ہو چکا تھا۔ یہاں آنے سے پہلے وہ پیر سیدن شاہ کے بارے میں پوری معلومات لے کر آیاتھا۔ وہ کافی طاقتور اور رسائی رکھنے والا با اثر آدمی تھا۔ یوں اس کمرے میں اسے بیٹھے ہوئے کافی دیر ہو چکی تھی جس سے اس کے اندر قدرے بے چینی جنم لے چکی تھی۔ صاف ظاہر تھا کہ سیدن شاہ اسے اہمیت نہیں دے رہا تھا۔
کافی دیر انتظار کے بعد سیدن شاہ اس کمرے میں نمودار ہوا۔ اس کے انداز میں تفاخر اور کروفر تھا۔ اس نے ڈی ایس پی کی طرف نہیں دیکھا بلکہ سیدھا اپنی مسند پرآ کر بیٹھ گیا اور پھر بڑی بے نیازی سے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’ہاں بھئی ڈی ایس پی۔۔۔ بتاؤ کیا کام ہے؟‘‘
سیدن شاہ کے لہجے، انداز اور علیک سلیک نہ کرنے سے ڈی ایس پی سمجھ گیا کہ وہ اسے بری طرح سے نظر انداز کرناچاہتا ہے۔ سواس نے بھی کھردرے لہجے میں کہا۔
’’پیر صاحب۔۔۔ کچھ دن پہلے علی نامی ایک لڑکا شہرسے اغواء ہوا ہے۔ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ وہ آپ ہی کے علاقے میں موجود ہے اور آپ کے قید خانے میں بھی رہا ہے۔ ہمیں وہ لڑکا چاہیے۔‘‘ ڈی ایس پی کے لہجے اور بات سے سیدن شاہ نے غور سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ڈی ایس پی۔۔۔ جس نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ وہ میرے قید خانے میں رہا ہے، اس نے تمہیں یہ نہیں بتایا کہ وہ اگلی صبح ہمارے پاس نہیں تھا۔‘‘
’’یہی تو جاننا چاہتے ہیں ہم کہ وہ آپ کی قید میں کیوں آیا اور پھر وہ چلا بھی گیا؟ یہ کیا معمہ ہے اور اب کہاں ہے۔‘‘ ڈی ایس پی نے اکھڑے لہجے میں کہا تو سیدن شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میرا قید خانہ کوئی آپ کی حوالاتوں اور جیلوں جیسا تو ہے نہیں۔ میرے پاس تو کئی لوگ آتے ہیں۔ بدنظمی سے بچنے کے لئے یا تھوڑی بہت سزا دینے کے لئے اپنے پاس رکھتے ہیں اور پھر انہیں جانے دیتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ قدرے خاموش ہو ا اور پھر بولا۔ ’’آپ لوگ محنت کریں اور تلاش کر لیں کہ وہ کہاں ہے۔ میرے پاس اس لڑکے کے بارے میں پوچھنے کے لئے آنا فضول ہے۔‘‘
’’کیاآپ کو نہیں معلوم کہ وہ کہاں ہے۔‘‘ڈی ایس پی نے پیر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہر بندہ اپنی مرضی کا مالک ہے۔ مجھے کیا معلوم؟‘‘
’’وہ تو ہم اسے تلاش کر ہی لیں گے۔ لیکن آپ نے اسے اپنے پاس کیوں رکھا؟‘‘ ڈی ایس پی نے پھر سے وہی سوال کر دیا۔
’’ڈی ایس پی۔۔۔ تم نئے آئے ہو۔ تمہیں کچھ نہیں پتہ، اس لئے تمہارے سوال میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتے اور نہ ہی میں جواب دینا پسند کرتا ہوں۔ تم نے اچھا کیا کہ سادہ کپڑوں میں آئے ہو ورنہ میں تمہیں اپنی حویلی میں قدم نہ رکھنے دیتا۔‘‘ سیدن شاہ نے قدرے غصے میں کہا۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ کی حویلی ہے اور میں اس وقت سرچ ورانٹ کے ساتھ نہیں آیا۔ میں آپ سے تعاون چاہتا ہوں۔ لیکن لگتا نہیں ہے آپ میرے ساتھ تعاون کرنے والے ہیں۔‘‘ ڈی ایس پی نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’تم نے جو بھی کہا، میں اس کا جواب دینا پسند نہیں کرتا، اب جاؤ۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا اور پھر اپنا رخ پیراں دتہ کی جانب کر کے کہا۔ ’’یہ چلے جائیں تو مریدین کو اندر بھیجو۔‘‘ اس نے ڈی ایس پی کو بری طرح نظر انداز کر دیا تھا۔ اس لئے ڈی ایس پی نے ایک نگاہ پیر سیدن شاہ پر ڈالی اور تیزی سے واپس پلٹ گیا۔ اسے اپنے شک کی تصدیق ہو گئی تھی۔
جیسے ہی ڈی ایس پی حویلی سے باہر آیا تو اس کے ساتھ آئی ہوئی نفری میں سے انسپکٹر نے آگے بڑھ کر پوچھا۔
’’سر۔۔۔ ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ وہ لڑکا کدھر ہے۔ یہاں آ کر شاید ہم نے اپنا وقت۔۔۔‘‘
’’ضائع نہیں کیا۔‘‘ ڈی ایس پی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی جیپ میں بیٹھا تو انسپکٹر بھی اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا۔ تب اس نے حکم دیا۔ ’’کچی بستی چلو۔۔۔ علی کا پتا وہیں سے ملے گا۔‘‘ اس کے حکم کی تعمیل ہوئی اور گاڑیوں کا یہ قافلہ وہاں سے چل دیا۔ کچھ دیر بعد وہ سانول کے گھر کے سامنے تھے۔
اس وقت شام ڈھل رہی تھی۔ جب ڈی ایس پی جیپ سے نیچے اترا اس کی نفری پہلے ہی اتر چکی تھی۔ وہ دیکھ رہا تھاکہ گوپے کے نزدیک ایک نوجوان اور ایک لڑکا بکریاں باندھ رہے تھے اور ان کے آنے سے انہی کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ڈی ایس پی نے اشارے سے انہیں بلایا تو نوجوان ان کی طرف آ گیا۔ اس نے پہلے جیپ اور پھر ڈی ایس پی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’جی فرمائیے۔۔۔‘‘
’’علی تمہارا ہی نام ہے۔۔۔؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرا ہی نام ہے۔ آپ کون۔‘‘
’’ڈی ایس پی رفاقت باجوہ، تمہارے اغواء کی ایف آئی آر ہمارے پاس درج ہے، چلو ہمارے ساتھ۔‘‘
’’مگر میں آپ کے ساتھ نہیں جا سکتا۔‘‘ علی نے عام سے لہجے میں کہا۔
’’کیوں۔۔۔؟‘‘ رفاقت باجوہ نے تیزی سے پوچھا۔
’’میری مرضی۔۔۔‘‘ علی نے اسی لہجے میں کہا تو رفاقت باجوہ نے طنزیہ انداز میں کہا۔
’’ادھر تمہارا باپ اغوا کا پرچہ درج کروا کے ہمارا سر کھا رہا ہے اور تم میاں اپنی مرضی سے بیٹھے ہوئے ہو۔ یہ مرضیاں بعد میں کرتے رہنا، پہلے ہمارے ساتھ چلو۔‘‘ رفاقت نے کہا اور جیپ کی طر ف اشارہ کیا۔
’’ہاں پتر علی۔۔۔ جاؤ تم، میں نے پہلے ہی تمہیں کہا تھا۔ تیرے والدین پریشان ہوں گے۔‘‘ اماں فیضاں نے کہا جو نجانے کب وہاں آ کھڑی ہوئی تھی۔
’’لیکن اماں میں آپ کو اکیلے چھوڑ کر کیسے جا سکتا ہوں۔‘‘
’’میرا اللہ سائیں میرے ساتھ ہے۔ تم جاؤ۔‘‘ اماں فیضاں نے کہا اور رفاقت باجوہ سے بولی۔ ’’اسے لے جائیں۔ یہ احسان کا مارا یہاں پڑا ہوا ہے۔ ہماری تو زندگی برباد ہے۔ یہ تو نہ کرے۔‘‘
’’ٹھیک ہے اماں۔۔۔ اگر آپ کہتی ہو تو چلا جاتا ہوں۔ لیکن واپس ضرور آؤں گا۔‘‘ علی نے دکھی لہجے میں شکوہ بھرے انداز سے کہا اور جیپ کی طرف بڑھ گیا۔ شدتِ جذبات سے اس کاچہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ وہ سیٹ پرجا کر بیٹھا تو سبھی بیٹھ گئے اور جیپ چل دی۔ باقی گاڑیاں اس کے پیچھے تھیں۔
کچی بستی سے جب وہ دور نکل آئے تو رفاقت باجوہ نے بیک مرر میں علی کو دیکھتے ہوئے کہا، اس کے لئے میں حقیرانہ تحکم تھا۔
’’ہاں تو میاں علی۔۔۔ اصل معاملہ کیاہے۔ فوراً شروع ہو جاؤ۔‘‘
’’اور اگر میں نہ بتا پاؤں تو۔۔۔؟‘‘ علی نے اس کے لہجے سے چڑتے ہوئے کہا تو رفاقت ہنس دیا۔ اور پھر بولا۔
’’تم شاید پولیس کے بارے میں نہیں جانتے ہو۔ وہ تو مردوں سے بھی راز اگلوا لیتے ہیں اور تم تو ابھی سانس لے رہے ہو۔‘‘
’’ٹھیک ۔۔۔ آپ کوشش کر لو۔۔۔‘‘ علی نے لاپرواہی سے کہا تو انسپکٹر نے ایک غلیظ سی گالی دی جس پر علی تڑپ اٹھا۔ اس نے اپنی ہی جونک میں ہاتھ اٹھایا اور شاید وہ انسپکٹر کے تھپڑ رسید کر دیتا، رفاقت باجوہ نے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ تم لوگ اسے کچھ مت کہو۔ میں دیکھ لوں گا اسے۔‘‘ اس کے کہنے پر انسپکٹر بولا۔
’’آپ ایک بار اسے میرے حوالے کر کے تو دیکھیں میں اس کی ساری گرمی نکال دیتا ہوں۔‘‘
’’شٹ اپ۔۔۔ تمہیں سمجھ نہیں آئی میں نے کیا کہا ہے۔‘‘ رفاقت نے کہا تو انسپکٹر نے منہ بستورتے ہوئے قہر آلود نگاہوں سے علی کی طرف دیکھا اور خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ پھر ان کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ وہ ایک بستی میں داخل ہوئے۔ اس وقت تک اندھیرا پھیل چکا تھا۔
’’وہ کسی بڑے زمیندار کا ڈیرہ تھا جہاں پر وہ رکے تھے۔ ان کے بیٹھتے ہی ان کی دودھ سے تواضح کر دی گئی تھی اور نوکر چاکر کھانا لگانے کی فکر میں تھے۔ علی ایک جانب بیٹھا خاموش تھااسے ان لوگوں سے کوئی سروکار نہیں تھا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ایک نوکر سیدھا رفاقت کے پاس گیا اور آہستگی سے کچھ کہا تو وہ فوراً ہی اٹھ گیا اور چند قدم کے فاصلے پر بیٹھے علی کے پاس آیا اور کہا۔
’’اٹھو۔ چلو میرے ساتھ۔‘‘
علی نے ایک نظر اس کے چہرے پر دیکھا اور خاموشی سے اٹھ گیا۔ وہ دونوں نوکر کے پیچھے پیچھے ڈیرے سے نکلے اور پھر تھوڑے سے فاصلے پر حویلی میں داخل ہو گئے۔ تو سامنے ہی سفید کپڑوں میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر شخص نے ان کا استقبال کیا۔
’’آئیے آئیے رفاقت باجوہ صاحب۔۔۔ میرا نصیب کہ آپ یہاں میرے غریب خانے پر تشریف لائے۔ معذرت خواہ ہوں کہ مجھے یہاں پہنچنے میں دیر ہو گئی۔ آئیے تشریف لائیں۔‘‘ اس نے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور پھر علی کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ یہی ہے وہ نوجوان علی؟‘‘
’’ہاں جی یہی ہے۔۔۔ خان محمد صاحب۔۔۔‘‘ رفاقت باجوہ نے کہا تو علی چونک گیا اور پھر بولا۔
’’سانول آپ کے پاس پناہ لینے آیا تھا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرے پاس ہی آیا تھا مگر۔۔۔‘‘ خان محمد نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑا تو علی بولا۔
’’اور تم۔۔۔ اس کی حفاظت نہیں کر سکے۔۔۔میں اسے کیا سمجھوں، تمہاری بزدلی، مصلحت یا لاپرواہی۔۔۔؟‘‘ جوش جذبات میں علی آپ سے تم پر اتر آیا۔
’’علی تم۔۔۔ نہیں جانتے ہو کہ کیا ہوا تھا۔ یہ سب اچانک ہوا۔‘‘
’’میں نہیں مانتا، تم بھی اتنے ہی مجرم ہو، جتنا اس کا قاتل مجرم ہے۔ تم مانو کہ تم اس کی حفاظت نہیں کر سکے ہو، تم بزدل ہو۔‘‘
’’نہیں علی۔۔۔ میں بزدل نہیں ہوں۔‘‘ خان محمد نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’اگر تم بزدل نہ ہوتے تو اس کے جنازے میں ضرور شامل ہوتے۔ تم میں اور کچی بستی کے ایک عام شخص میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرا یہ جرم ہے کہ میں اس کے جنازے میں شامل نہیں ہوا، اس میں بھی مصلحت تھی۔‘‘
مصلحت یا منافقت۔۔۔‘‘ علی نے نفرت سے کہا اور رفاقت کی جانب دیکھ کر کہا۔ ’’آپ چاہیں تو اس کی میزبانی قبول کریں۔ میں باہر آپ لوگوں کا انتظار کر رہا ہوں۔ مجھے منافقوں سے نفرت ہے۔‘‘
’’علی۔۔۔ تم بہت بول رہے ہو۔ تمہیں خیال کرنا چاہیے کہ وہ تم سے عمر میں بڑے ہیں۔‘‘
’’منافق بس منافق ہوتا ہے۔‘‘ علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے قہر آلود لہجے میں کہا۔
’’علی۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ تم کون ہو یا کون نہیں ہو، مجھے اس سے سروکار بھی نہیں ہے۔ لیکن میں نے تمہاری باتیں صرف اس لئے سن لی ہیں کہ تمہاری نسبت سانول سے ہے۔ تم جو کچھ بھی کر رہے ہو، وہ میرے لئے محترم ہے، تمہاری نفرت جائز ہے لیکن۔۔۔ میری بات سن لو، اس کے بعد جو چاہے فیصلہ کر لینا۔‘‘ خان محمد نے انتہائی تحمل سے ا سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ ذرا سن تو لیں۔‘‘ رفاقت نے کہا تو علی نے دھیرے سے سر ہلا دیا۔ وہ تینوں ایک کمرے میں جا بیٹھے۔ تب خان محمد نے کہا۔
’’سانول سے میرا تعلق صرف شکار کی و جہ سے تھا، میرا دوست تھا۔ میں نے اسے کہا تھا کہ وہ لڑکی کو جہاں چاہے لے جا سکتا ہے، میرے بندے اسے چھوڑ آئیں گے، چاہیں تو زور زبردستی سے ہر بات منوا لیتے ہیں مگر وہ نہیں مانا۔۔۔ وہ مہرو کی رضامندی چاہتا تھا۔ وہ اسے منا لینا چاہتا تھا اور نہ ماننے کی صورت میں اسے باعزت طور پر واپس بھیج دینا چاہتا تھا۔ اسی لئے وہ باہر والے ڈیرے پر رہا۔ مجھے واہر کا پتہ اس وقت چلا جب سانول قتل ہو چکا تھا۔‘‘
’’پھر تم اس کے جنازے میں نہیں آئے؟‘‘ علی نے تیزی سے پوچھا۔
’’یہی بات میں تمہیں بتانے جا رہا ہوں۔ پیر سیدن شاہ کا مرید خاص پیراں دتہ اسی شام میرے پاس آیا تھا۔ وہ مجھے قتل میں ملوث کرنا چاہتا تھا۔ اگر میں ملوث ہو جاتا تو پھر میں سانول کے لئے کچھ بھی نہیں کر پاتا۔ اس پورے علاقے میں فقط میں ہی ان کی مخالفت کرتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحے علی کی طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا۔ ’’علی۔۔۔ تمہارا بہت شکریہ کہ تم نے وہ کچھ کیا، جو مجھے کرنا چاہیے تھا۔ اب تم جا رہے ہو۔ لیکن یاد رکھنا کہ میں سانول کے قتل کا بدلہ ضرور لوں گا۔ اس کی گواہی تمہیں رفاقت باجوہ صاحب دیں گے۔‘‘ خان محمد اتنا کچھ کہہ کر یوں ٹیک لگا کر بیٹھ گیا جیسے یہ سب کہتے ہوئے اس کا کتنا زور لگا تھا۔
’’ہاں علی۔۔۔ اس سلسلے میں خان محمد صاحب نے بہت کچھ کیا ہے۔ لیکن مدعی اور گواہ نہ ہونے کی و جہ سے قانون بھی بے بس ہے لہٰذا۔۔۔ یہ سب کچھ بہت سوچ سمجھ کر ، بہت تحمل سے کرنا ہے۔ میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ تم یہاں کیسے پہنچے ہو، اگر تم بتانا چاہو۔ یہ تجسس مجھے اس لئے ہے کر سردار امین خان تمہارے لئے بہت فکر مند ہے اور میرا انسپکٹر اس کا نمک خوار ہے۔ اس کے سامنے میرا رویہ تمہارے ساتھ بہت برا ہو گا۔‘‘ رفاقت نے کہا تو علی کتنی دیر تک خاموش رہا اورپھر سر اٹھاتے ہوئے بولا۔
’’میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔‘‘ علی کے لہجے میں انتہائی درجے کا کرب تھا۔
’’آؤ۔۔۔ کھانا کھا لو، پھر ہمیں شہر بھی پہنچنا ہے۔‘‘ رفاقت نے اٹھ کر اس کے کاندھے پر تھپکی دیتے ہوئے کہا۔ تو وہ اٹھ گیا۔ اسے میاں جی کی بہت ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات دبے پاؤں گزرتی چلی جا رہی تھی۔ صحن میں بچھی چارپائی پر پڑی ہوئی مہرو مسلسل سوچتی چلی جا رہی تھی۔ اسے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ علی کو پولیس والے پکڑ کے لے گئے ہیں۔ دو دن پہلے جب وہ اس سے ملی تھی۔ تب اس نے کتنے یقین سے کہا تھا کہ وہ یہاں سے نہیں جانے والا۔ مگر یہ اچانک کیاہو گیا تھاکہ اب وہ کچی بستی میں نہیں رہا تھا۔ جب وہ علی سے ملی تھی، اس سے پہلے اس کی سوچ کا انداز کچھ اور تھا ۔ مہرو وہی سمجھ رہی تھی جو سب کہہ رہے تھے۔ لیکن اس سے ملنے کے بعد اس کی سوچ بدل گئی تھی۔ اس وقت کے بعد سے وہ اپنے اندر سے اٹھنے والوں سوالوں کا جواب دے رہی تھی۔ سب سے اہم بات یہ تھی کہ سانول سے لاکھ نفرت کرنے کے باوجود۔ اس کے دل میں س انول کے لئے ایک ہمدردی، پیار اور بچپن کا معصوم تعلق بھی تھا۔ جب علی نے کہا کہ سانول نے اس کی جانب بچائی تھی تب اس نے غور کیا۔ دوسروں سے پوچھا کہ علی اور سانول کیسے ملے۔ اس کا سب سے بڑا گواہ بھیرا تھا۔ جس نے لوگوں کو بتایا ہوا تھا کہ علی صحرا میں بے ہوش پڑا ملا تھا۔ اتنی جلدی تو بندہ کسی اجنبی سے بے تکلف نہیں ہوتا کہ اپنے دل کے راز بھی اس کے سامنے کہہ دے۔ تب مہرو نے ماضی میں پلٹ کر دیکھا تو اسے سانول کی بہت ساری باتیں ایسی ملیں، جن کی و جہ سے کہا جا سکتا تھا کہ وہ اس کے ساتھ شدت سے محبت کرتا تھا، بہت ساری باتیں خود سانول نے اسے بتائیں تھیں۔ مگر اس وقت تو اسے اپنی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ وہ اس کی کہانی سن رہی تھی۔ اب اسے احساس ہو رہا تھا کہ ساانول کو اتنی بڑی سزا نہیں دی جانی چاہئے تھی۔
ممکن تھا کہ سانول اس کی بات مان جاتا، اسے لے کر بحفاظت گھر آ جاتا لیکن خود اس نے سانول کی سنی کب تھی۔ ، پیار سے سمجھایا کب تھا، اب جبکہ سانول اس دنیا میں نہیں رہا تھا، منوں کی مٹی تلے دفن تھا۔ اتنی بڑی سزا پا لی تو کیا پھر بھی لوگوں نے اسے معصوم خیال کیا، کیا وہ لوگوں کے طعنوں، مہنوں سے بچ گئی ہے۔ اب تو وہ طنز، طعنوں اورتمسخر کے تیروں سے زیادہ چھلنی ہو رہی ہے۔ آج اگر سانول زندہ ہوتا تو وہ اس کی پناہ میں جانا چاہتی کیونکہ اس کی عزت کا سب سے بڑا گواہ تو وہی تھا۔ اسے مار دینے سے تو شک و شبہات اور افواہوں نے جنم لے لیا تھا اور بات نجانے کس کس انداز میں پھیلتی چلی جا رہی تھی۔ سانول اس کے بچپن کا ساتھی، وہ تو اسے جانتی تھی لیکن اس پر ذرا برابر اعتماد نہ کیا اور وہ اجنبی۔۔۔ جس کا محض ساتھ چند دنوں کا تھا، سانول کو اپنا محسن مان کر پوری زندگی تیاگ دینے کا عزم کئے بیٹھا تھا۔
کیا وہ ساری زندگی یہاں گزار دیتا؟ یہ ایک اور اہم سوال تھا، جس پر وہ جتنا سوچتی اور زیادہ الجھ جاتی۔ ا س کا صحیح جواب تو علی ہی دے سکتا تھا۔ لیکن حالات اور واقعات نے اب تک تو یہی ثابت کیاتھا کہ وہ ایسا کر سکتا ہے۔ لوگوں نے اس کی حالت دیکھی تھی۔ پاؤں اور ہاتھوں میں چھالے۔گرم ہواؤں میں صحرا کے درمیان ریوڑ چراتا اور نہایت مستقل مزاجی سے اماں فیضاں کی خدمت میں لگ جانا ایسے شواہد تھے جو اس کے پختہ عزم کا اظہار تھے۔ اتنی سختیاں جھیلنے کے ساتھ ساتھ وہ تو پیرسیدن شاہ اسے کسی بھی وقت ختم کرواسکتا ہے، اس کی اس نے پروا نہیں کی تھی۔ یہاں تک کہ اسے یہاں سے پولیس پکر کر لے گئی۔ مہرو کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ پولیس سب سے پہلے پیر سیدن شاہ کی حویلی گئی تھی اور پھر انہوں نے آ کر علی کو پکڑا تھا۔ اس سے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ علی کو یہاں سے نکالنے میں پیر سیدن شاہ کا ہاتھ ہے۔ ورنہ اس کے حکم کے بغیر تو یہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ کیا پیر سیدن شاہ کو اچھا نہیں لگا کہ علی یہاں پر نہ رہے؟ یہی وہ سوال تھا جس پر وہ مسلسل سوچ رہی تھی اور اسے جواب نہیں مل رہا تھا کہ اسے اچھا نہیں نہیں لگ رہا تھا اس نے تو کوئی ایسا کام نہیں کیا تھا کہ جس سے یہ پتہ چلے کہ وہ رب نواز سے انتقام لینے کی سوچ رہا ہے۔ وہ بہت دیر تک سوچتی رہی۔ یہاں تک کہ چند مغرب کی جانب جھک گیا۔ تبھی اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا۔ کیا کوئی ایسا شخص ہو گا جو مجھے بتا سکے؟ سوچتے ہی اس کے ذہن کے پردے پر میاں جی کا نورانی چہرہ ابھرا۔ وہ چونک گئی۔
’’ہاں۔۔۔ وہی میری راہنمائی کر سکتے ہیں۔‘‘ وہ دھیرے سے بڑبڑائی اور پرسکون سی ہو کر نیند میں کھو گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
نگہت بیگم کے گھر کا آنگن پھر سے خوشگوار ہو چکا تھا ورنہ جتنے دن تک علی اس گھر میں نہیں تھا نگہت بیگم کو وہ صحن بالکل ویران دکھائی دیتا رہا تھا۔ علی کو گھر میں آئے دو دن ہو چکے تھے۔ ان دو دنوں میں وہ ایک لمحے کے لئے بھی گھر سے نہیں نکلا تھا۔ اس دوران وہ بہت کم اپنے کمرے سے باہر آیا تھا۔ نگہت بیگم نے بھی اس سے زیادہ پوچھ تاچھ نہیں کی تھی۔ جس رات وہ واپس آیا تھا۔ پہلی نظر میں وہ اسے پہچان نہیں پانئی تھی۔ بڑھی ہوئی شیو، اجنبی لباس دہکتا ہوا رنگ۔ سیاہی مائل ہو کر بجھا ہوا تھا۔ وہ آنکھیں۔ وہ یوں لگ رہا تھا جیسے بجھ کر رہ گیا ہو۔ نگہت بیگم نے یہی سمجھا کہ اتنے دن گھر سے باہر رہنے اور حادثہ ہو جانے کے باعث اس پر ان حالات کا اثر ہے۔ سب نے ہی ان گزرتے ہوئے دنوں کی روداد پوچھنے کی کوشش کی مگر اس نے چند فقروں سے زیادہ کچھ بھی نہ کہا۔ یوں جیسے وہ سب کچھ دہراتے ہوئے ا سے اذیت محسوس ہو رہی ہو۔
اس دن اسے گھر آئے ہوئے تیسرا دن تھا۔ غلام نبی سمیت دونوں بچے کالج جا چکے تھے۔ نگہت بیگم برآمدے میں بچھے تخت پر بیٹھی ہوئی تسبیح کر رہی تھی۔ اسے انتظار تھا کہ علی اٹھ جائے تو اسے ناشتہ دے کر ہی گھر کے کاج شروع کرے۔ ا س کا دھیان علی کے کمرے کی جانب ہی تھا۔ دن کافی چڑ ھ آیا تو علی اپنے کمرے سے نکلا۔ اس کی نگاہ اپنی ماں پر پڑی تو اس نے سلام کیا۔ جس کا جواب دینے کے بعد نگہت بیگم بولی۔
’’بیٹا۔۔۔ اب بس بہت آرام کر لیا۔ سب سے پہلے اپنا یہ حلیہ درست کرو۔ پھر تیار ہو کر میرے پہلے والے علی بن کر آؤ۔ میں تمہارے لئے ناشتہ بناتی ہوں۔‘‘
اس پر وہ چند لمحے خالی خالی نگاہوں سے اپنی ماں کی جانب دیکھتا رہا اور پھر کسی بھی جذبے سے بے نیاز سپاٹ لہجے میں بولا۔
’’امی۔۔۔ میں اپنا حلیہ تو درست کر لوں گا۔ لیکن میں آپ کا پہلے والا علی شاید نہ بن پاؤں۔‘‘
’’اللہ خیر کرے بیٹا۔۔۔ یہ تم کیسی باتیں کر رہے ہو؟‘‘ نگہت بیگم نے حیرت سے پوچھا۔
’’اللہ خیر ہی کرتا ہے امی۔۔۔ یہ ہم انسان ہیں جو اپنی کمی کوتاہیوں کو اپنے ہی انداز میں سوچتے ہیں۔‘‘
’’بہکی بہکی باتیں مت کرو۔۔۔‘‘ نگہت بیگم نے خوف زدہ ہوتے ہوئے کہا، اس کے منہ سے بے ساختہ یوں نکل گیا تھا، پھر جیسے ہی اسے اپنے کہے کی سمجھ آئی تو فوراً بولی۔ ’’اچھا۔۔۔ تم منہ ہاتھ دھو کر آؤ۔ میں تمہارے لئے ناشتہ بناتی ہوں۔ جاؤ۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔ اس کے دل میں ہول اٹھنے لگے تھے۔ یہ وسوسے بھی کتنے عجیب ہوتے ہیں۔ اچھے بھلے مضبوط انسان کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔ اور اپنے آپ کو مضبوط سمجھنے والا انسان وسوسوں کے ریلے میں یوں بہہ جاتاہے جیسے کوئی تنکا ہو۔ نگہت بیگم بھی کچھ ایسی ہی کیفیت میں تھی۔ وہ جلدی جلدی ناشتہ بنا کر واپس آئی تو دھک سے رہ گئی۔ علی ایک ٹک زمین کی جانب گھورے جا رہا تھا۔ جیسے کوئی پوری یکسوئی سے عقدہ حل کر رہا ہو۔ اسے اپنے اردگرد کا کوئی ہوش نہ رہا ہو۔ وہ جب بالکل اس کے قریب پہنچ کر بولی۔
’’یہ لو بیٹا ناشتہ۔۔۔‘‘
علی نے نگاہ اٹھا کر دیکھا۔
’’ٹھیک ہے۔‘‘ علی نے کہا اور اپنے سامنے پڑا ہوا پراٹھا کھانے لگا۔ اس نے بڑی نفاست سے ناشتہ کیا چائے کاکپ لے کر بولا۔
’’امی۔۔۔ بہت اچھا ناشتہ تھا۔‘‘
اس کے یوں کونے پر نگہت بیگم نے خوف ملے لہجے میں سنجیدگی سے کہا۔
’’بیٹا۔۔۔ تم پہلے والے علی کیوں نہیں ہو۔ اس قدر کیوں بدل گئے ہو کو مجھے تم سے خوف آنے لگا ہے۔ کہیں خدانخواستہ۔۔۔‘‘ وہ اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکی اس کا گلا رندھ گیا تھا۔ جس پر اس نے بڑی مشکل سے قابو پایا علی نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور قدرے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ امی۔۔۔ ہم انسان کتنے لاپرواہ ہیں۔ کچھ سوچتے ہی نہیں ہیں۔ اپنے اچھے، برے کا خیال ہی نہیں کرتے۔ میں لاپرواہ تھا، لیکن پچھلے دنوں میں نے موت کو بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اتنا قریب سے کہ سمجھیں ایک بار مر کے دوبارہ زندہ ہوا ہوں۔ اچھا۔۔۔ آپ کیا سمجھتی ہیں۔ جو بندہ موت کو اپنے قریب سے دیکھ لے تو کیا وہ پھر بھی لاپرواہ رہے؟‘‘
’’اللہ پاک نے تمہیں زندگی دی ہے۔ اس کا شکر ادا کرو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تم بالکل یوں ہو جاؤ کہ جیسے دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں رہی۔‘‘ نگہت بیگم کو کچھ کونے کے لئے سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اس دوران علی نے چائے کا کپ ایک جانب رکھ دیا۔
’’دنیا۔۔۔ اور اس کی حقیقت۔۔۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ہاں۔۔۔ آپ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ اب مجھے اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے اور اب بس یہی کروں گا۔‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘
’’کچھ نہیں امی، آپ پریشان نہ ہوں۔‘‘ علی نے اٹھتے ہوئے کہا تو نگہت بیگم نے تحکمانہ انداز میں کہا۔
’’ادھر بیٹھو۔۔۔ اور مجھے صاف صاف بتاؤ۔ تم کیا چاہ رہے ہو۔‘‘
’’امی۔۔۔ آپ تو خواہ مخواہ پریشان ہو رہی ہیں۔ میں جو کچھ بھی چاہوں گا، اچھا ہی چاہوں گا۔ اس میں کسی کا بھی نقصان نہیں ہو گا۔‘‘ علی نے کھڑے کھڑے کہا تو نگہت بیگم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر خاموشی سے سر جھکا لیا۔ اس پر علی نے اپنی ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے بڑے پیار سے پوچھا۔
’’امی۔۔۔ آپ بتائیں۔ آپ کیا سوچ رہی ہیں۔ میرے متعلق آپ کے ذہن میں کیا ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں بیٹا۔۔۔ تم جاؤ ابھی، میرے پہلے والے علی بن کر آؤ پھر میں تمہارے ساتھ ڈھیر ساری باتیں کروں گی۔ ابھی جاؤ۔‘‘ نگہت بیگم نے لرزتی آواز میں کہا تو علی دھیرے سے مسکرا دیا۔ پھر اپنی ماں کے چہرے کی طرف بڑے پیار سے دیکھا اور اٹھ گیا۔
اسی رات جب وہ سارے کھانا کھا کر صحن میں بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے تو فائزہ نے علی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’بھائی۔۔۔ ویسے آپ پہلے سے زیادہ سنجیدہ سے نہیں ہو گئے۔؟‘‘
’’تمہیں یہ کیسے محسوس ہوا۔؟‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’میں نے سوچا تھا کہ آپ کا حلیہ درست ہو گا تو آپ پھر سے پہلے والے علی بھائی بن جائیں گے، لیکن یہ سب ہونے کے بعد بھی آپ کے چہرے پر وہی سنجیدگی ہے۔ ایسا کیوں؟‘‘ فائزہ کہتے کہتے آخر میں زور دے کر بولی۔
’’ویسے علی بھائی، آپ بہت کچھ چھپا رہے ہیں۔‘‘ احسن نے شکوہ بھرے انداز میں کہا۔ ’’آپ کو شاید اندازہ نہیں ہے کہ ہم یہاں کتنے پریشان تھے۔‘‘
’’کیا سنو گے۔‘‘ علی نے براہ راست احسن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’بس سمجھ لو۔ ان تھوڑے دنوں میں زندگی کی ایک طویل مسافت طے کر لی ہے۔ اتنی لمبی مسافت کہ جہاں سے لوٹ کر آنا اب بہت مشکل ہے۔‘‘ اس نے کہا تو نگہت بیگم جیسے پھٹ پڑی۔
’’تمہاری یہی الجھی ہوئی باتیں مجھے بہت خوف زدہ کر رہی ہیں علی۔۔۔ تم بتا کیوں نہیں دیتے ہو کہ تمہارے ساتھ کیا بیتی ہے اور تم ایسے۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے خاموش ہو گئی، اس کا گلا رندھ گیا تھا۔
’’امی۔۔۔ جو ہونا تھا وہ ہو گیا۔ آپ سنیں گی تو آپ کو بہت دکھ ہو گا۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’لیکن بیٹا۔۔۔ اس سے بہت سارے شک پیدا ہو رہے ہیں۔‘‘ غلام نبی نے نہایت سنجیدگی سے کہا۔ ’’شاید تم اس اذیت کو نہ سمجھ سکو جو ہم تھانے جا کر برداشت کر چکے ہیں۔ انہوں نے تمہارے بارے میں اتنی باتیں کی تھیں کہ شاید ہم تمہیں غلط سمجھنا شروع کر دیتے اگر ہمیں تم پر یقین نہ ہوتا تو۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میں سمجھتا ہوں اس بات کو۔‘‘ علی نے خیالوں میں کھوئے ہوئے کہا اور پھر جیسے ہوش میں آ گیا ہو۔ ’’آپ اب بھی یہ یقین رکھیں کہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا اور نہ آئندہ کروں گا۔‘‘
’’تم بتا کیوں نہیں دیتے ہو۔‘‘ غلام نبی نے الجھتے ہوئے کہا تو علی نے اغواء ہونے سے لے کر واپس آ جانے تک کی ساری روداد مختصر انداز میں سنا دی۔ اس میں صرف ایک بات نہیں بتائی جب وہ قید خانے سے بھاگا تھا اور اسے رہنمائی کرنے والا کوئی ملا تھا۔ اس دوران سب کی طرف سے کوئی نہ کوئی سوال کیا گیا۔ جب وہ کہہ چکا تو غلا م نبی نے پوچھا۔
’’کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ اغواء کس نے کیا تھا اورکیوں کیا تھا؟‘‘
اس کے یوں پوچھنے پر علی چند لمحے خاموش رہا جیسے تذبذب میں ہو کہ انہیں کیا بتائے، پھر سر اٹھاتے ہوئے بولا۔
’’میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتا ابا جی۔۔۔ وہ جو کوئی بھی تھے میں نے انہیں پہلی دفعہ دیکھا تھا، دوبارہ اگر ان میں سے کوئی سامنے آئے تو میں پہچان لوں گا۔‘‘ اس کے لہجے میں بے یقینی گھلی ہوئی تھی۔
’’اب اس بے چاری اماں فیضاں کا اور اس کے بچے کا کیا بنے گا۔ مرنے والا تو مر گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس کا کوئی قصورتھا یا نہیں۔‘‘ نگہت بیگم نے افسوس بھرے انداز میں کہا تو علی دھیرے سے مسکرا دیا اور پھر بولا۔
’’میں رکھوں گا خیال ان کا۔ میں ہوں گا ان کے پاس۔‘‘
’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔ پاگل ہو گئے ہو کیا۔ پہلے ہی موت کے منہ سے آئے ہو اور اب پھر ان کا خیال رکھنے کی بات کر رہے ہو؟‘‘ نگہت بیگم تیزی سے بولی۔
’’امی۔۔۔ مجھے تو جانا ہے۔۔۔‘‘ علی نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی علی۔۔۔ تمہیں پتہ ہے، کیا تم اندازہ کر سکتے ہو کہ تمہارے جانے کے بعد ہم نے یہ دن کس اذیت اور پریشانی میں گزارے ہیں۔‘‘ غلام نبی نے تحمل سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ مجھے اندازہ ہے ابو۔۔۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ کس اذیت سے گزرے ہوں گے۔ اس وقت آپ کو اندازہ نہیں تھا کہ میں کہاں ہوں۔لیکن اب تو میں آپ کو بتا کر جاؤں گا اور یہاں آتا جاتا رہوں گا۔‘‘
’’کیا آپ مستقل وہیں رہیں گے بھیا۔؟‘‘ فائزہ نے حیرت سے پوچھا۔
’’میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا۔ کب حکم آ جائے اور میں واپس آ جاؤں۔‘‘ علی نے خلا میں گھورتے ہوئے کہا تو نگہت بیگم تو جیسے تڑپ ہی گئی۔ فوراً بولی۔
’’یہاں اپنی ماں کا خیال نہیں ہے اور وہاں کسی کی ماں کے لئے تڑپ رہے ہو۔ جس کا ساتھ محض چند دن رہا ہے۔ خبردار اگرکہیں جانے کا سوچا تم نے۔‘‘
’’امی۔۔۔ آپ تو خواہ مخواہ ناراض ہو رہی ہیں۔ آ پ کے پاس ابو ہیں، فائزہ اور احسن ہیں۔ لیکن ان کے پاس تو کوئی بھی نہیں۔‘‘ علی نے انتہائی تحمل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ میں اب تمہیں اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دوں گی۔‘‘ نگہت بیگم نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
’’امی۔۔۔ آپ یہی سمجھیں کہ آپ کا بیٹا، یورپ یا مڈل ایسٹ کے کسی ملک میں کمانے چلا گیا ہے۔ مائیں انہیں بھی تو برداشت کرتی ہیں۔‘‘ علی نے ایک کمزور سی دلیل دی۔
’’مگر وہ کمانے جاتے ہیں۔‘‘ نگہت بیگم نے تیزی سے کہا۔ ’’تمہاری طرح خود کو موت کے منہ میں نہیں دھکیلتے۔‘‘
’’موت کیا ہے، وہ تو کہیں بھی آ سکتی ہے۔ کیا باہر جانے والوں کو موت نہیں آتی۔؟ اور باقی رہی کمانے کی بات تو امی۔۔۔ یقین مانیں جتنا کوئی باہر سے کما کے لاتا ہے۔ اس سے کہیں زیادہ آپ کو ملنے والا ہے۔‘‘
’’کیا آسمان سے گرے گا، یا کوئی خزانہ تمہیں مل گیا ہے۔ بس میں تیری کوئی اور بات نہیں سنوں گی۔‘‘
’’اچھا چلو اس بحث کو ختم کرو۔‘‘ غلام نبی نے کسی خیال سے چونکتے ہوئے کہا۔ پھر علی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم جو چاہو کرنا علی بیٹے۔۔۔ لیکن ایک درخواست ہماری مان لو۔‘‘
’’ابو ۔۔۔ آپ حکم دیجئے۔‘‘ علی نے جلدی سے کہا۔
’’تم جانا چاہو چلے جانا، لیکن بیٹا۔۔۔ تمہارا فائنل امتحان شروع ہونے میں چند دن رہتے ہیں۔ امتحان دینے کے بعد تم جو چاہے کرنا، ہم تمہیں منع نہیں کریں گے۔‘‘ غلام نبی نے کہا تو نگہت بیگم نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا مگر غلام نبی کے اشارے سے وہ فوراً ہی خاموش ہو گئی۔ علی سوچ میں پڑ گیا، پھر چند لمحوں بعد اس نے کہا۔
’’ٹھیک ہے ابو۔۔۔ جیسا آپ کہیں۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر سب کے چہروں پر جیسے خوشی دوڑ گئی۔
’’اچھا رات بہت ہو گئی ہے اب سوئیں۔‘‘ غلام نبی نے اٹھتے ہوئے کہا تو سبھی اٹھ گئے۔ اپنے کمرے میں آ کر نگہت بیگم نے غلام نبی سے پوچھا۔
’’یہ آپ نے کیا کہہ دیا ہے علی سے؟‘‘
’’فی الحال اسے امتحان دینے دو۔ تقریباً ایک مہینہ تو لگے گا ہی اس میں۔ اس دوران اس کا ذہن بدل لیں گے۔ تم اب اس سے فضول قسم کی بحث نہیں کرنا، مجھے لگتا ہے اس کے دماغ پر کچھ اثر ہو گیا ہے۔‘‘
’’ہائے میں مر گئی۔‘‘ نگہت بیگم نے پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
’’یہ اس کے سامنے بھی نہ کہہ دینا۔ بس تم اسے اس کے حال پر چھوڑ دو۔ وقت کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ غلام نبی نے اسے سمجھایا۔
’’ٹھیک ہے، جیسا آپ کہیں۔‘‘ نگہت بیگم نے کہا تو غلام نبی اپنے بستر پر لیٹ گیا۔ وہ بہت کچھ سوچنا چاہ رہا تھا۔ وہ جس سوچ کو بھی پکڑتا، اس کے آخر میں اسے یونہی لگتا۔ جیسے اس کے مسئلے کا حل وقت ہے۔ فوری طور پر وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ دوسری طرف نگہت بیگم کو اپنے شوہر کی باتیں ٹھیک معلوم ہو رہی تھیں۔ اسے بہت محتاط ہونا تھا۔ اپنی اپنی جگہ دونوں سوچتے ہوئے نیند میں کھو گئے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
ڈیپارٹمنٹ کے کاریڈور میں فرزانہ خاں بڑے بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ اس کے چہرے پر پریشانی ، ندامت اور خوف کے آثار تھے۔ وہ بار بار لیکچرار کے کمرے کی جانب دیکھ رہی تھی جس میں علی موجود تھا۔ وہ کچھ دیر پہلے ہی ڈیپارٹمنٹ آئی تھی اور اسے آتے ہی معلوم ہو گیا تھا کہ علی آیا ہے۔ وہ اسی وقت سے کاریڈور میں ٹہل رہی تھی کہ جیسے ہی وہ باہر آئے۔ وہ علی کو لے کر کہیں تنہائی میں چلی جائے اور بہت ساری باتوں کے بعد اس سے معذرت بھی کر لے۔ اسے پوری طرح احساس تھا کہ اس نے علی کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ وہ اس خیال سے کانپ جایا کرتی تھی کہ علی اگر اس حادثے میں زندہ نہ رہتا تو۔۔۔؟ اتنے دنوں میں اس کے ضمیر نے اسے رگید کر رکھ دیا تھا، وہ پورے دل کے ساتھ علی سے معافی مانگ لینا چاہتی تھی۔ یہی سوچتے سوچتے اس کی آنکھوں میں رات کٹ جایا کرتی تھی کہ وہ اس سے معافی کیسے مانگے گی۔
فرزانہ خاں پوری طرح باخبر تھی کہ علی روہی سے آ چکا ہے۔ پولیس نے اپنی کارکردگی بتانے کے لئے اس کے باپ کو بہت کچھ بتایا تھا۔ ڈی ایس پی رفاقت خود ان کے ہاں آیا تھا اور اس نے پیر سیدن شاہ کے حوالے سے بہت ساری باتیں کی تھیں۔ اسی دن سے سردار امین خاں نے اپنے طور پر منصوبہ بنا لیا تھا کہ وہ پیر سیدن شاہ کو نیچا دکھانے کے لئے کیا کچھ کرے گا۔ جبکہ فرزانہ خاں کا سارا وقت اسی سوچ میں گزرا تھا کہ وہ علی سے سامنا کیسے کر پائے گی۔ وہ اسی آس پر روزانہ ڈیپارٹمنٹ آتی کہ علی آئے گا۔ مگر وہ کئی دن تک نہیں آیا۔ وہ لڑکے کے جواس سے مل کر آئے تھے انہوں نے کچھ ایسی باتیں بتائیں تھیں کہ جیسے علی کے دماغ کو کچھ ہو گیا ہے۔ وہ بہکی بہکی باتیں کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ اب وہ دوبارہ ڈیپارٹمنٹ نہ آئے۔ لیکن اسے اک آس تھی کہ وہ ضرور آئے گا۔ کئی بار اس کا دل چاہا کہ ان کے گھر چلی جائے مگر اس طرح اس کا سارا پول کھل جاتا اور بات اس کے باپ تک پہنچ جاتی۔ اس کی ہمت ہی نہیں پڑی کہ وہ اس کے گھر جائے۔ بس یہیں انتظار کرتی رہی۔ آج جب وہ آیا تو اس کے دل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو گئی تھیں۔ ذہن ماؤف ہو چکا تھا۔ یوں جیسے کہ اچانک کوئی افتاد پڑ جائے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ سیدھے اس سے سامنا نہیں ہو گیا۔ ورنہ پتہ نہیں کیا ہو جاتا۔ کاریڈور میں ٹہلتے ہوئے وہ بہت دیر تک خود پر قابو پا چکی تھی۔ اس نے بہت ساری ایسی باتیں بھی سوچ لی تھیں کہ علی سے کیا کہے گی۔ جبکہ علی تھا کہ لیکچرار کے کمرے سے باہر ہی نہیں آ رہی تھا۔
انسان کا ضمیر بھی عجیب شے ہے۔ یہ اگر سو جائے تو انسان پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرتا ہے۔ اسے یہ احساس ہی نہیں رہتا کہ وہ اس کائنات کا مرکز ہے۔ وہ جو کچھ کرتا چلا جا رہا ہے وہ اس کے شایات شان نہیں۔ اسے یہ بھی احساس نہیں رہتا کہ وہ خود کیا ہے؟ اس کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ لیکن اگر یہی ضمیر بیدار ہو تو انسان کو خود بخود دان راہوں پر لے جاتا ہے جہاں انسانیت کے اعلیٰ معیار ہیں۔ اسے شعور ہوتا ہے کہ کائنات کا اور اس کا تعلق کیا ہے اور وہ کس مقصد کے تحت اس کائنات میں موجود ہے۔ ضمیر کا یہ عمل بڑی حد تک لاشعوری ہوتا ہے، انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس وقت کیا ہے۔
فرزانہ خاں کو اس کاریڈور میں ٹہلتے ہوئے جب کافی وقت ہو گیاتو اس کا دل چاہا کہ وہ خود اندر کمرے میں چلی جائے۔ ایک لمحے کے لئے اس نے عمل کرنے کا ارادہ بھی کر لیا مگر اس کی ہمت نہیں پڑی اور وہ کاریڈور کے سرے پر جا کر کھڑی ہو گئی۔ تقریباً اسی لمحے علی کمرے سے باہر آ گیا۔ اتنے دنوں بعد فرزانہ نے سے دیکھا تھا۔ پہلی نگاہ پڑتے ہی وہ چونک گئی۔ بلاشبہ علی وہ پہلے والا علی نہیں رہا تھا۔ وہ بہت بدلا ہوا تھا، اس میں کیا تبدیلی تھی، فوراً ہی وہ نہ سمجھ سکی۔ اس نے علی کی جانب قدم بڑھائے تو اس کے ساتھ کمرے سے چند اور کلاس فیلو باہر آگئے۔ فرزانہ رک گئی۔ وہ اسی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ چند قدموں کا فاصلہ تھا۔ لمحوں میں وہ سارے اس کے قریب آ گئے۔ تبھی فرزانہ نے علی کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔
’’کیسے ہو علی۔۔۔؟‘‘ اس کے لہجے میں تذبذب اور لرزش تھی۔ تبھی علی نے اس کی جانب چند لمحے غور سے دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’پہلے سے بہت اچھا ہوں۔‘‘ علی نے دھیمے سے انداز میں مسکراتے ہوئے کہا تو اسی کے ایک کلاس فیلو نے پوچھا۔
’’ہائیں۔۔۔ یہ کیابات ہوئی۔ پہلے سے اچھا ہوں۔ مطلب اگر تمہیں پھر سے اغواء کر لیا جائے تو تم بہت زیادہ اچھے ہو جاؤ گے۔؟‘‘
’’ممکن ہے ایسا ہی ہو جائے، حقیقت یہی ہے کہ میں پہلے سے بہت اچھا محسوس کر رہا ہوں۔ دعائیں دے رہا ہوں انہیں جن لوگوں نے مجھے اغواء کیا تھا۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہاتو فرزانہ کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔
’’ہاں یار۔۔۔ تم نے یہ تو بتایا نہیں کہ تمہیں اغواء کن لوگوں نے کیا تھا، کچھ پتہ چلا۔‘‘ ایک اور کلاس فیلو نے پوچھا تو علی نے فرزانہ کی جانب دیکھا۔ وہ حد درجہ نروس ہو چکی تھی۔ سو علی بولا۔
’’میں خود نہیں جانتا وہ کون تھے۔ وہ جو بھی تھے اللہ انہیں معاف کرے۔‘‘
مطلب، تم کوئی کارروائی نہیں کرو گے ان کے خلاف۔۔۔‘‘ ایک لڑکی نے پوچھا۔
’’میں نے انہیں معاف کر دیا ہے اور وہ بھی دل سے معاف کیا ہے۔‘‘ علی نے کہا اور اس سے پہلے کہ کوئی اور اس سے متعلق بات کرتا علی نے کہا۔ ’’اب پلیز اس موضوع پر مزید بات نہیں ہو گی۔‘‘
’’او کے۔۔۔‘‘ اس لڑکی نے کہا اور چل دی تبھی فرزانہ بولی۔
’’علی۔۔۔ میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتی ہوں۔ کیا تم مجھے تھوڑا وقت دو گے؟‘‘
فرزانہ کے لہجے میں وہی تذبذب ، لرزش اورلجالت تھی۔ علی نے اس کی طرف دیکھا اور چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعد کہا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘
’’توآؤ۔۔۔ باہر کھلی فضا میں بیٹھتے ہیں۔‘‘ فرزانہ نے فوراً ہی کہا اور چل دی۔ تب علی بھی اس کے پیچھے دھیرے دھیرے قدموں سے چلتا چلا گیا۔
دونوں کینٹین کے باہر لان میں درخت کے تلے بیٹھے ہوئے تھے۔ جہاں گھنی چھاؤں تھی۔ فرزانہ بیٹھتے ہی ویٹر کو جوس کا آرڈردے چکی تھی۔ اتنے میں علی اس کے پاس آ کر بیٹھ گیا تھا۔ وہ تب سے خاموش تھا۔ اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا جبکہ فرزانہ اسی تذبذب میں تھی کہ وہ کوئی بات کرے تو اس کے جواب میں اپنی کہے۔ مگر وہاں تو ہونٹ سلے ہوئے تھے۔ یوں کتنا ہی وقت خاموشی سے گزر گیا تھا، یہاں تک کہ ویٹر ان کے سامنے جوس بھی رکھ گیا۔ جسے ان دونوں نے چھوا بھی نہیں۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے ان دونوں کے درمیان کوئی اعصابی جنگ ہو اور دونوں ہی اس جنگ کو جیتنا چاہتے ہوں اورپھرفرزانہ کے اعصاب جواب دے گئے۔ اس نے بمشکل کہا۔
’’علی۔۔۔ میں بہت شرمندہ ہوں تم سے معافی چاہتی ہوں۔‘‘
تم نے کچھ دیر پہلے سنا نہیں۔ میں نے ان سب کو معاف کر دیا ہے جو بھی اس حادثے کے ذمہ دار تھے۔ اس میں کوئی بھی تھا۔‘‘ علی نے دھیمے لہجے میں اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’پھربھی میں بہت۔۔۔‘‘
’’بھول جاؤ فرزانہ۔۔۔ کچھ بھی کہنے سننے کی ضرورت نہیں۔‘‘ علی نے تحمل سے کہا۔
’’لیکن علی۔۔۔ میں۔۔۔ اب بھی تم سے پیار کرتی ہوں۔ میرے دل میں اب بھی تمہارے لئے کہیں زیادہ محبت ہے۔ میری سمجھ میں جو آیا تھا۔ میں نے ویسے ہی بے وقوفی کی۔۔۔ کیا تم مجھے سزا نہیں دو گے۔ میں تمہاری زندگی سے کھیلی ہوں علی۔۔۔‘‘ فرزانہ ن ے بے تربیت سے انداز میں الجھتے ہوئے کہا۔
’’محبت۔۔۔‘‘ علی نے کہا اور ایک طویل سانس لی۔ پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد اور اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔
’’مجھے محبت سے انکار نہیں ہے، نہ پہلے تھا، نہ اب ہے اور نہ کبھی ہو گا۔ مگر کیا ہم اس کے اہل ہیں کہ کسی سے محبت کر سکیں؟‘‘
’’کیا مطلب۔۔۔؟‘‘ فرزانہ نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
’’ سمپل سی بات ہے فرزانہ۔۔۔ میرے خیال میں اس کی مزید تشریح کی ضرورت نہیں ہے۔ اور میرے ہی خیال میں تم اگر مجھ سے محبت کرتی ہو تو مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ تمہیں روک دوں کہ مجھ سے محبت نہ کرو اوراس طرح مجھے بھی یہ حق ہے کہ میں کسی سے محبت کروں یا نہ کروں۔‘‘
’’ مگر محبت تو ایک فطری جذبہ ہے، یہ کسی پلاننگ سے تو نہیں ہوتا، یہ تو بس ہو جاتا ہے کیا کسی کا بس ہے اس میں۔۔۔؟‘‘فرزانہ نے احتجاجاً کہا۔
’’ وہی نا۔۔۔ تو اس کو بھی سمجھنے کی کوشش کرو کہ ہم اگر محبت کا جواب چاہتے ہیں تو یہ جواباً محبت بھی تو فطری بات ہے۔ ہو گی تو ہو گی، نہ ہوئی تو نہ سہی۔‘‘
’’ لیکن کیا میری محبت رائیگاں جائے گی۔۔۔؟‘‘ فرزانہ نے انتہائی مایوسی کے عالم میں دھیرے سے کہا۔
’’ محبت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اسی لئے تو میں نے کہا ہے کہ خود پر نگاہ ہی نہیں کرتے۔ کیا ہم اتنی ہمت،اتنا حوصلہ رکھتے ہیں کہ نتائج کوکھلے دل سے قبول کر لیں۔ ہجر، وصال دونوں ہی ہیں اور پھر یہ نصیب کی بات ہے۔ کس کے حصے میں کیا آتا ہے۔ محبت کے لئے اہل ہونا ہی سب سے بڑی منزل ہے۔‘‘
علی۔۔۔ پہلے تو مجھے شک تھا لیکن اب یقین ہو گیا ہے کہ تم بہت بدل گئے ہو۔ کیا ہو گیاہے تمہیں۔۔۔؟‘‘ فرزانہ نے دبی دبی حیرت سے پوچھا تو علی نے اس کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا، اب میں چلتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھ گیا۔ تو فرزانہ تیزی سے بولی۔
’’ یہ۔۔۔ اچانک۔۔۔ ابھی تو میں نے تم سے ڈھیر سا ری باتیں کرنی ہیں تم۔۔۔‘‘
’’ مجھے چھوڑو۔۔۔ بس اپنے آپ پر غور کرو۔ یہ سمجھنے کی کوشش کروہ کہ تم کسی سے بھی محبت کرنے کی اہل ہو۔۔۔؟‘‘ علی نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا اور وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ فرزانہ کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے اور کیا کرے۔ وہ ہونقوں کی طرح علی کو دیکھ رہی تھی۔ پھر جس وقت اسے ہوش آیا تو وہ بہت دور جا چکا تھا۔ وہ آخری فقرہ ایک تازہ گلاب کی طرح اسے تھما گیا تھا جس کی خوشبو سے وہ پوری جان سے مسحور ہو کر رہ گئی تھی۔ یوں جیسے ساری سوچیں تحلیل ہو گئی ہوں اور وہاں فقط اس کی بات کی خوشبو پھیل گئی ہو۔
No comments:
Post a Comment