Saturday 16 December 2017

حصآر۔۔۔ امجد جاوید ۔۔۔قسط نمبر 16

حصار
امجد جاوید
قسط نمبر16
 اس نے شعیب کی طرف دیکھا۔ وہ ایک جانب صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ گھر والوں میں سے کسی نے یہ احساس ہی نہیں کیا تھا ۔ ایسے میں پھوپھو فاخرہ آ گے بڑھی ۔ اس نے شعیب کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور ثانیہ کے پہلو میں لا کھڑا کیا ۔ سبھی ان دونوں کی طرف متوجہ ہو گئے ۔ 
بیگم طلعت اپنی بیٹی ثانیہ کے پاس جا کھڑی ہوئی ۔ ایسے میں بیگم ثروت بھی اپنے بیٹے کے ساتھ کھڑی انگوٹھی نکالنے لگی ۔اس نے ہیرے کی انگوٹھی نکالی اور شعیب کو تھما دی ۔ شعیب نے وہ انگوٹھی پکڑی ، ثانیہ کے چہرے پر دیکھا ، جہاں دھیمی دھیمی سی مسکان مچل رہی تھی ۔اس نے ثانیہ کا ہاتھ پکڑا اور اسے انگوٹھی پہنا دی ۔ یہ وہ لمحے تھے ، جس کے لئے شعیب بے حد تڑپا تھا ۔یہی ثانئے اس کی زندگی کا حاصل بن گئے تھے ۔وہ اس وقت آ سودگی کی انتہا پر تھا ۔
” کہاں کھو گئے ؟“ ثانیہ نے دھیرے سے کہا تو وہ چونک گیا ۔ ثانیہ اپنے ہاتھ میں انگوٹھی تھامے اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا
” ثانیہ ، مجھے یقین نہیں آ رہا ، تم میری ہو گئی ہو ۔“
” ہاں، میں تمہاری ہوں شعیب ۔“ اس نے یوں کہا جیسے اس کی آ واز کہیں دور سے آ رہی ہو ۔
” لیکن یہ یاد رکھیں ، منگنی آ دھی شادی ہوتی ہے ، پوری تو اس وقت ہو تی ہے جب نکاح ہو جائے ۔“ وہیں قریب کھڑی ایک خاتون نے کہا تو ثانیہ نے ایک بار شعیب کے چہرے پر دیکھا،جہاں خوشی دمکنے لگی تھی ۔تبھی پھوپھو فاخرہ نے کہا 
”جب ثانیہ کی منگنی ہو گئی شعیب سے تو بس سمجھو نکاح بھی ہو جائے گا ۔“ 
” منگنی تو پہلے بھی ہوئی تھی ، وہ نہیں رہی ۔“ وہی خاتون مسکراتے ہوئے بولی۔یہ ایک فقرہ نہیں تھا، مراد علی خاندان کو احساس دلا دیا گیا تھا کہ وہ کیا ہیں ۔ ان کی بات ، ان کی زبان ، ان کا وعدہ اور ان کی ساکھ کیا ہے ۔ مراد علی کا سر شرم سے جھک گیا۔ اسے اپنی بیٹی پرکم اور خود پر زیادہ غصہ آ رہا تھا ۔ وہ مجبوری اور بے بسی کے ایسے مقام پر تھا جہاں اس کی ہر بات جھوٹ تھی ۔اس کی انا ، وقار اور تمکنت سب مٹی میں مل گیا تھا ۔صور ت حال عجیب کھردری ہو گئی تھی ۔ تبھیطلعت بیگم نے کہا
”بات تو ٹھیک ہے ، ہم شادی بہت جلد کر لیں گے ۔“ 
” ہم نے تو مراد علی سے کہا تھا کہ منگنی کیا کرنی سیدھے نکاح ہی کرتے ہیں ۔ اب دیکھیں ان کا کیا فیصلہ ہے ؟“ پھوپھو فاخرہ آخر کہا ں پیچھے رہنے والی تھی ۔ اس نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک دم سے کہہ دیا۔ اس پر ثانیہ نے سب کی جانب یوں دیکھا جیسے وہ اپنے حواسوں میں ہی نہ ہو ۔اس کے دیکھنے کا انداز ایسا تھا جیسے وہ کسی ٹرانس میں ہو ۔ تبھی اس نے اپنی ماما کو دیکھا، پھر دھیرے سے بولی 
” نکاح ابھی ہو گا ۔“
” یہ.... یہ .... تم کیا کہہ رہی ہو ؟“ وہ حیرت سے بے ساختہ اونچا بولی 
” میں ٹھیک کہہ رہی ہوں ۔میں یہ طعنہ برداشت نہیں کر سکتی ۔“ وہ انتہائی غصے میں بولی 
” بیٹی ، یہ طعنہ نہیں میںنے تو ویسے ہی مذاق میں کہا ، بخدا میرا ایسا طنز یا طعنے والا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔“ وہ خاتون روہانسا انداز میں بولی 
” کوئی بات نہیں ، نکاح میں کتنا وقت لگے گا ، دو بو ل ہی پڑھے جائیں گے نا ۔وہ پڑھ لیتے ہیں ۔“ ثانیہ نے یوں کہا جیسے کسی جذبے سے عاری روکھے سوکھے لفظ کہے جا رہے ہوں ۔مراد علی اپنی بیٹی کی بات سن رہا تھا ۔ اس کی تیوریوں پر بل پڑ گئے ۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ثانیہ ایسا بھی کہہ دے گی ۔طلعت بیگم اتنے لوگوں کے سامنے کسی سے کچھ کہہ بھی نہیں سکتی تھی ۔ اس نے پریشانی میں مراد علی کی طرف دیکھا۔ اسی لمحے مراد علی نے فیصلہ کر لیا۔
”ثانیہ ٹھیک کہہ رہی ہے ۔ اس کا نکاح بھی آ ج ہی ہے ۔ “ اس نے کہا تو ثروت بیگم سمیت شعیب نے بھی حیرت سے اسے دیکھا ، وہ سب سے بے نیاز کہہ رہا تھا ۔ ” ابھی تو منگنی کی رسم ہوئی ہے ، ابھی سب لنچ لیتے ہیں ۔ اس کے بعد نکاح اور پھر رخصتی بھی ہو جائے گی ۔“اس نے گویا فیصلہ ہی سنا دیا ۔ثانیہ نے پہلے حیرت سے اپنے پاپا کو پھر پیار بھری نگاہوں سے شعیب کو دیکھا ، جس کی آ نکھوں میں حیرت بھری ہوئی تھی ۔ اس نے نرمی سے ثانیہ کا ہاتھ پکڑلیاتو ثانیہ نے پیار بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔تبھی شعیب نے محبت بھرے لہجے میں خوشی سے کہا
” وقت اور حالات بھی یہی چاہتے ہیں کہ جلد از جلد مل جائیں ۔ ہے نا ۔“ 
” آ ئیں پلیز لنچ کے لئے ۔“ مراد علی نے کہا تو سبھی ڈائنگ ہال کی جانب چل دئیے ۔
نجانے کب مراد علی نے نکاح خواں کا بندو بست کیا تھا ۔ لنچ کے بعد وہ ایک صوفے پر بیٹھا ہوا تھا ۔ ثانیہ اور شعیب کو ساتھ ساتھ بٹھا دیا گیا ۔ مہمانوں کو لاﺅنج میں اکھٹا ہوتے ہوئے کچھ وقت لگا ، جیسے ہی سب اکھٹے ہوئے گئے ۔مراد علی نے نکاح خواں کو اشارہ کرتے ہوئے کہا 
” مولانا صاحب ، بسم اللہ کریں ۔“
ایجاب وقبول کے بعد ثانیہ ، شعیب کے عقد میں آ گئی ۔پھوپھو فاخرہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔ وہ فتح مندی کے احساس سے سرشار تھی ۔نکاح کے فوراً بعد اس نے ثروت بیگم سے کہا
” دیکھ میں نہ کہتی تھی ، میں اس مراد علی کا منہ توڑ جواب دوں گی ۔دے دیا جواب اسے ۔“
” مجھے توا ب تک یقین نہیں آ رہا کہ شعیب کی شادی ثانیہ سے ہو گئی ہے ۔“ ثروت بیگم نے کہا تو پھوپھو فاخرہ نے فاتحانہ لہجے میں کہا
”ابھی سے یقین کر لو تو اچھا ہے ۔“
” کیا مطلب ....“ثروت بیگم نے الجھتے ہوئے پوچھا
” یہ مطلب ، میں تمہیں بیٹھ کر سمجھاﺅںگی ۔ ابھی تو میں جا رہی ہوں گھر ۔“ پھوپھو فاخرہ نے کہا
” سبھی چلتے ہیں تم کیوں ....“
” اری بنّو ، دلہن ابھی گھر آ ئے گی ، اس کے استقبال کو تو کچھ تیاری کروں جا کر ، تم آجانا دلہن کو لے کر ۔“ اس نے کہا اور اٹھ گئی ۔
ثانیہ دلہن بنی شعیب کے کمرے میں بیٹھی ہوئی تھی ۔اس کا بیڈ وم دیکھ کر اس کے ذوق کا اندازہ ہو رہا تھا ۔وہ ہر شے میں سے شعیب کو دیکھ رہی تھی ۔اسے یہ خبر ہی نہیں تھی کہ وہ کبھی ذیشان کے ساتھ اپنی محبت کا دعوی کر چکی ہے ۔وہ شعیب سے نفرت کرتی تھی ۔ اس کے ساکت چہرے سے یوںدکھائی دے رہا تھا کہ جیسے وہ سب کچھ بھول گئی ہو۔اسے کچھ بھی یاد نہ رہا ہو ۔ اسے اگر یاد تھا تو صرف شعیب ۔وہ اس کی دنیا میں آ گیا تھا ۔ اگر اس کے ذہن میں ماضی نہیں تھا تو مستقبل کی کوئی بات بھی اس نے نہیں سوچی تھی ۔ بس اسی کی ذات تھی ، اس کے علاوہ کوئی سوچ اس کے دماغ میں نہیں تھی ۔یوں جیسے کسی نے اسے صرف شعیب بارے سوچنے پر ہی مجبور کر دیا ہو ۔
رات کا دوسرا پہر شروع ہونے کو تھا کہ شعیب کمرے میں آ گیا ۔ اس نے ثانیہ کو اپنے بیڈپر بیٹھے دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا ۔جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *