Monday, 2 October 2017

کیمپس... امجد جاوید... قسط نمبر14

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر14
میری آنکھ جب کھلی تو کمرے میں اچھی خاصی دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ میں نے اٹھ کر کھڑکی میں سے باہر کی تازہ ہوا میں گہرے گہرے سانس لیے۔ دن کا پہلا پہر ختم ہو جانے والا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ گھر میں سناٹا ہے۔ میں نے جندوڈا کو بلالیا۔اسے آنے میں تھوڑا وقت لگا۔ وہ میرے لیے چائے بنا کر لایا تھا۔ تبھی میں نے اس سے سناٹے کے بارے میں پوچھا۔
”سائیں....! تقریباً نو بجے کے قریب سارے لوگ چلے گئے تھے“۔
”تنویر بھی....“ میں نے حیرت سے پوچھا تو وہ جلدی سے بولا۔
”جی ہاں ، وہ بھی، کہہ گئے ہیں کہ تھوڑی دیر بعد واپس آ جائیں گے“۔
”اچھا، تم اخبار مجھے لادو اور پھر تھوڑی دیر بعد مجھے ناشتہ لادینا“۔ میں نے کہا اورسیل فون اٹھا لیا۔ میرے ذہن میں یہ بات کھٹک رہی تھی کہ وہ سب اچانک کیوں چلے گئے۔ ذرا سی دیر میں تنویر سے میرا رابطہ ہو گیا تو میں نے پوچھا۔
”او کہاں ہو تم....؟“
”میں ادھر اسد کے پاس ہوں۔ دوپہر کے بعد آجاوئں گا“۔ اس نے کہا تو مجھے حیرت ہوئی۔
”وہاں کیا کررہے ہو؟ مجھے بتا کر تو جاتے،یا پھر ہم اکٹھے ہی نکل جاتے“۔
”لو....یہ اسد سے بات کرلو“اس نے کہا اور چند لمحوں بعد اسد کی ہیلو سنائی دی۔
”اسد ....! یہ کیا ہے بھئی؟“
”معاف کرنا ابان،اب میں بہت سارے معاملات میں تم پر اعتبار نہیں کر سکتا اور اس کی وجہ صرف اور صرف ماہم ہے۔ وہ اب ناقابلِ اعتبار ہے“۔ اس کے لہجے میں شرمندگی تھی۔
”یہ تم لوگوں کو اچانک ہو کیا گیا ہے۔ یہ اعتبار اور نا اعتباری کی باتیں۔ مجھے سمجھ میں نہیں آرہا، یہ تم کر کیا رہے ہو“۔ میں نے پوری بات سمجھتے ہوئے بھی انجان بنتے ہوئے پوچھا۔
”بات یہ نہیں ہے کہ تم پر بھروسہ نہیں رہا یا تم اب ہمارے لیے مخلص نہیں ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارا اور ماہم کا آپس میں تعلق کیا ہے۔ یہ دلوں کے معاملات ہیں۔ اس میں دنیا داری کی گنجائش کہاں، لیکن....! ہم ماہم کو برداشت نہیں کر سکتے۔ چاہے وہ نقصا نہ بھی پہنچانا چاہے۔ مگر ممکن ہے کہ وہ بے قصور بھی ہواور الزام اس پر لگ جائے۔ ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں ٹوٹا اور نہ ہی رابطہ ختم ہوا ہے۔ بس یہ ہو گا کہ اس کے ہوتے ہوئے جو کیمپس کے معاملات ہیں انہیں زیر بحث نہیں لائیں گے“۔ اسد کہتا چلا گیا اور میں سنتا رہا۔ وہ کہہ چکا تو میں نے پوچھا۔
”اسد.... ! تم کیا سمجھتے ہو کہ میں ماہم کو چھوڑ نہیں سکتا، کیا وہ میری مجبوری بن گئی ہے؟“
”ہم نہیں چاہتے کہ تم اسے چھوڑو، تم اس سے تعلق رکھو۔ وہ ٹرمپ کارڈ ہے، کہیں بھی کام آسکتا ہے“۔ اسدنے پُرسکون انداز میں کہا۔
”اسد....! مجھے اب بھی تمہاری بات سمجھ میں نہیں آئی، آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“ میں نے بھی اسی لہجے میں پوچھا۔
”ابان....! جب تک کیمپس کے ان معاملات میں دخل اندازی نہیں تھی، کوئی ذمے داری نہیں تھی۔بس اس کی جان کی پروا تھی اور تم نے دیکھا، میں بے عزت ہوگیا۔ تیرے جیسے بندے کا سہارا لینا پڑا جو ان معاملوں میں کبھی پڑا ہی نہیں تھا۔ یقین جانو ابان، تم ہی وہ پہلے آدمی ہو جس کی وجہ سے میں نے حوصلہ پکڑا اور اب میں خود کیمپس پر حکومت کرنے جارہا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے غلط مت سمجھنا ابان، اب ذرا سی غلطی سے میں اپنی جان سے ہاتھ دھولوںگا۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ زندگی کو داﺅ پر لگا چکا ہوں۔ یہ بات تم بھی جانتے ہو۔ اب ایسے وقت میں تو اپنے سائے سے بھی محتاط رہنا ہو گا اور کہاں ماہم ، جس کے بارے میں واضح شک ہے کہ وہ کسی وقت بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتی ہے“۔ وہ مجھے سمجھانے والے انداز میں کہتا چلا گیا۔
”تم جس حکومت کی بات کر رہے ہو نا، وہ اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہو سکتی۔ یہ صرف تمہیں جھانسہ دیا جا رہا ہے، وہ سب استعمال کر رہے ہیں تمہیں محض ٹشو پیپر کی طرح، یہ ذہن میں رکھنا اور جب بھی تم بے بس ہو جاﺅ تو مجھے آواز دے لینا، مجھے اپنے قریب پاﺅ گے۔ دیکھنا محتاط ہو کر چلنا، مجھے تمہاری حکومت کی نہیں، تمہاری ضرورت ہے۔ جب جی چاہے بھروسہ کر کے دیکھ لینا“۔ میں نے حتمی لہجے میں اس سے کہا۔ 
”یہی بات تو میں تمہیں سمجھانا چاہ رہا ہوں، اب میری دنیا الگ ہو گئی ہے۔ مجھے اسی دنیا میں رہنے دو اور یہ میرا وعدہ ہے، جب بھی ضرورت پڑی، میں تمہیں ہی پکاروں گا“۔ اس نے بھی یوں کہا جسے اب وہ مجھ سے زیادہ بات نہ کرنا چاہتا ہو۔ تب میں نے چند الوداعی باتیں کیں اور اس سے رابطہ ختم کر دیا۔ فون بند کرتے ہوئے مجھے کافی حد تک دکھ محسوس ہو رہا تھا۔ کم از کم اسد کو ایسے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اگر وہ ماہم سے خائف تھے تو رہتے، میری ذات سے انہیں نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اب معاملہ ہی ایسا بن گیا تھا۔ وہ محتاط تھے اور میں بھی ان سے کوئی زبردستی کا تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا۔ مجھ پر کافی دیر تک دکھ، پریشانی اور مان ٹوٹ جانے والی کیفیت طاری رہی جس کے حصار سے میں نہیں نکل سکا، اس لیے اپنا فون بند کیا اور بیڈ پر لیٹ گیا۔ میں دوبارہ سو جانے کی کوشش کرنے لگا، مگر نیند تھی کہ نہ آئی۔ دوسرا جندوڈا بھی میرے لیے ناشتہ لے کر آگیا۔ میں نے منہ ہاتھ دھو کر ناشتہ کیا اور سوچنے لگا کہ اب مجھے کیا کرنا ہو گا، اب صرف ماہم کی ذات تھی جس کے اردگرد میرا مقصد گھوم رہا تھا۔
میں سارا دن اپنے بیڈ روم میں پڑا رہا۔ اس دوران میں مختلف پہلوﺅں سے آئندہ آنے والے حالات کو سوچتا رہا۔ اگرچہ میرا مقصد یہاں فقط ماہم کی ذات تک محدود تھا۔ اب اس سے میرا رابطہ ہو گیا تھا اور وہ میرے بہت حد تک قریب آگئی تھی۔ اب میں ہی تھا، جو تعلق کی اس سطح پر جانا چاہتا تھا جہاں پھل پک کر جھولی میں آگرے۔ اب کیمپس جانا یا نہ جانا میرے لیے بے معنی تھا۔ میری سب سے زیادہ توجہ اب ماہم ہی پر ہونی چاہئے تھی، لیکن میں نہیں سمجھتا تھا کہ کیمپس کو فوراً چھوڑ دینا چاہئے۔ ورنہ بنا بنایا کھیل ختم ہو کر رہ جاتا۔ اب میرے لیے کیمپس اتنا آسان نہیں تھا۔ بہت مشکل ہو گیا تھا۔ شک کی فضا میرے اردگرد ایسی تن گئی تھی کہ اگر میں ماہم کو چھوڑدوں تو میرا اپنا مقصد ختم ہو کر رہ جاتا تھا اور اگر اسے اپنے قریب کرتا ہوں تو وہ سارے مجھ سے دور ہو جاتے۔ دراصل کاشف ان لوگوں کے لیے کام کر رہا تھا جو اسلم چوہدری کے انتہائی مخالفیں میں سے تھے۔ وہ کون تھے، مجھے اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ وہ جو کوئی لوگ بھی تھے۔ وہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ فخرالدین اور اسلم چوہدری سیاسی طور پر ایک ہو جائیں۔ ان دونوں میں علیحدگی رہے، دونوں آپس میں شدید قسم کے دشمن بنے رہیں۔ ان کے درمیان اختلافات اس قدر زیادہ ہو جائیں کہ وہ کبھی ایک نہ ہوپائیں تبھی وہ میدانِ سیاست میں پوری طرح کا میاب ہو سکتے تھے۔ ورنہ وہ کبھی ابھر ہی نہیں سکتے تھے۔ یا پھر ان دونوں میں سے کوئی ایک ختم ہو جائے۔ تب ان کے لیے میدان صاف تھا۔ مجھے بہر حال ان کی یا ان لوگوں کی سیاست سے کوئی غرض نہیں تھی۔ یہ لوگ الگ ہو بھی جاتے ہیں تو مجھے کیمپس جانا تھا۔
سہ پہر ہو چلی تو بیڈ روم کے دروازے پر دستک ہوئی۔ میری آواز کے جواب میں سلیم اندر آگیا۔ مجھے پُرسکون بیٹھا دیکھ کر وہ مسکرا دیا۔ میں بیڈ پر سمٹ کر بیٹھا تو وہ میرے پاس ہی آ کر بیٹھ گیا۔ پھر خوشگوار لہجے میں بولا۔
”میں تو پریشان ہی ہو گیا تھا کہ اﷲ خیر کرے، آپ سارا دن کمرے سے ہی نہیں نکلے ویسے خیر تھی؟“
”بس، ویسے ہی، تمہیں تو معلوم ہی کہ کل کے واقعے کی وجہ سے آج کیمپس بند تھا اور ....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ جلدی سے بولا۔
”ممکن ہے کیمپس چند دن مزید بند رہے، ایک لڑکا ہلاک ہو گیا ہے اور شاید آپ کو نہیں معلوم“۔
”اُوہ....!یہ تو بہت برا ہوا“۔ میں نے واقعتاً دکھی دل سے کہا۔ ”پتہ نہیں بے چارا، کیا کیا امیدیں اور خواب لے کر یہاں آیا ہو گا۔ اس کے والدین نے اس کے بارے میں کیا کچھ سوچا ہو گا اور نہ جانے اس کے اردگرد لوگوں کے کیا خواب ہوں گے“۔
”کون کہتا ہے کہ وہ اپنی سمجھ بوجھ سے کام نہ لیں اور احمقوں کی طرح ان تنظیمی معاملات میں پڑ جائیں۔ کیمپس میں وہ پڑھنے کی غرض سے آتے ہیں۔ یہی ان کا فرض ہے۔ کیا علم حاصل کرنا فرض قرار نہیں دیا گیا؟ اصل میں ہمارے معاشرتی رویے میں جوناانصافی ہے نا، یہ ساری گڑبڑ وہیں سے ہوتی ہے“۔ وہ کافی حد تک جذباتی ہو گیا تھا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو یار“۔میں نے محسوس کیا ہے کہ یہاں ہر بندہ جیسے روایتی طور پر گھٹن کا شکار ہے۔ وہ خواہ مخواہ ہی پریشانیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ آگے بڑھنے اور مستقبل کو اندھیرے میں محسوس کر کے اس قدر ٹینشن کا شکار ہیں کہ وہ اپنی کتھارسس کے لیے اوٹ پٹانگ حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ انسانی وسائل کا ضیاع جتنا یہاں ہو رہا ہے، شاید ہی کسی اور خطے میں ہو رہا ہو۔ خیر، ہمیں کیا“۔ میں نے اکتاتے ہوئے لہجے میں کہا تو وہ بولا۔
”آپ تیار ہو جائیں ، ایسے میں لانگ ڈرائیور پر نکلتے ہیں۔ آج کھانا بھی باہر سے کھائیں گے“۔
”ٹھیک ہے، میں آتا ہوں کچھ دیر بعد“۔ میں نے کہا تو وہ اٹھ کر بنا کچھ کہے باہر چلا گیا۔ تب میں تیار ہونے لگا۔
اس وقت سورج مغرب میں جا چھپا تھا اور اندھیرا اپنی چادر پھیلا چکا تھا جب ہم سبزہ زار سے نکلے۔ سلیم دھیمی رفتار سے چلتا چلا جارہا تھا۔ گاڑی میں کافی حد تک خنکی تھی جس میں ائیرفسریشنز کی مہک رچی ہوئی تھی۔ جب ہم کافی دور آگئے اور ہمارے ارد گرد بھاگتی ہو ئی گاڑیاں آگے نکلتی چلی جارہی تھیں۔ تب میں نے اس سے پوچھا۔
”یہ ہم کدھر جارہے ہیں؟“
”سرجی....! اگر آپ برا نہ مانیں تو ایک بات کہوں“۔ وہ کافی حد تک جھجکتے ہوئے بولا۔
”بولو“۔ میں نے انتہائی اختصار سے کہا۔
”سرجی! کیمپس میں جو سیاست چل رہی ہے نا، میں اس سے پوری طرح باخبر ہوں۔ اس وقت اسد وغیرہ نے جو آپ کو ایک طرف کرنے کا فیصلہ کیا ہے، وہ بالکل درست ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ اسد آپ کے ساتھ انتہائی درجے کا مخلص ہے۔ اگر وہ احمق ہوتا تو نہ صرف آپ کو اپنے ساتھ جوڑے رکھتا، بلکہ خود بھی آپ کے ساتھ جڑا رہتا۔ حالات ہی اس ڈگر پر آگئے ہیں“۔
”سچ بات تو یہ ہے سلیم کہ مجھے تمہاری بات کی ذرا سمجھ نہیں آئی۔ آخر تم کہنا کیا چاہتے ہو؟“
”کاشف نے ماہم کو اس کھیل سے نکالنا تھا، ہر حال میں نکالنا تھا اور پھر جو فرخ نے کہا، اسے بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اسد ہی ہے جس نے آپ کو ایک طرف کر کے اس کھیل سے باہر نکال دیا ہے۔ کیونکہ اب کھیل اس مرحلے میں آگیا ہے جہاں زندگیاں داﺅ پر لگ چکی ہیں۔ اس نے اپنے تئیں آپ کو محفوظ کر دیا ہے تاکہ آپ پوری توجہ سے ماہم کے معاملے کو سلجھالیں“۔ اس نے دھیرے دھیرے سمجھانے والے انداز میں کہا تو میں نے تبصرہ کرنے والے انداز میں کہا۔
”یار ان حالات نے سب کو شک کی دلدل میں لا پھینکا ہے۔ کس پر اعتبار کریں“۔
”یہ ہونا ہی تھا سر، ایسا نہ ہو تو وہ لوگ اپنی بات کیسے منوا سکیں، جنہوں نے یہ سارا کھیل رچایا ہے۔ خیر....! آپ نے یہی پوچھا تھا نا کہ ہم کدھر جارہے ہیں؟“ اس نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”ہاں، وہی تو“۔ میں نے دھیمے لہجے میں کہا۔
”سرجی.... چھوٹے چھوٹے مفادات مل کر ایک بڑے مفاد کو جنم دیتے ہیں جیسے لبیر یونین ہوتی ہے۔ اپنی بقا کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے۔ اسی طرح کیمپس میں ایک الگ سی دنیا آباد ہے۔ کوئی آئے کوئی جائے، کس طلبہ تنظیم کی گرفت ہے کس کی نہیں، کون وی سی آیا، کون گیا۔ اس کا اثر ان لوگوں پر نہیں پڑتا، ان کی اپنی زندگی ہے اور اپنے مفاد، اس دنیا کو چلانے والا جو بندہ ہے، میں آپ کو اس سے ملوانے لے جارہا ہوں“۔سلیم نے آہستہ آہستہ اپنی بات کہہ دی ۔
”واﺅ....! بہت دلچسپ، ان لوگوں کے بارے میں پہلے کیوں نہیں بتایا، کیسے ہیں یہ لوگ؟“ میں نے انتہائی دلچسپی لیتے ہوئے کہا۔
”پہلے ضرورت نہیں تھی، آپ نے کیمپس آنا ہے اور یہاں رہتے ہوئے جو آپ کو ضرورت ہو وہ مہیا ہو گی، اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ آپ اب اپنے مقصد کو حاصل کرنے میں کتنا وقت لیں گے“۔
”یار تم نے دو باتیں کر دی ہیں۔ ایک میرے کیمپس میں رہنے کے بارے میں اور دوسرا مقصد کو حاصل کرنے میں وقت کے بارے میں۔ اگرچہ یہ دونوں باتیں ایک دوسرے سے گہرا تعلق رکھتی ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ کہا بھی نہیں جا سکتا، لیکن میں انہی کے بارے میں الجھن بھی رکھتا ہوں۔ مطلب، اب مجھے کیمپس میں آنا بھی چاہئے یا کہ نہیں اور دوسرا بظاہر مجھے میرا مقصد بڑا نزدیک دکھائی دے رہا ہے، فقط یہ یقین کرنا چاہتا ہوں کہ یہ منظر کہیںدھوکا تو نہیں“۔
”آپ کچھ بھی نہ سوچیں سرجی، صرف حالات پر نگاہ رکھیں، جیسے ہی وقت آپ کا ساتھ دے، اسے اپنے مطلب کے لیے استعمال کرلیں۔ باقی جس طرح چل رہا ہے ، اسی طرح چلیں، آپ اپنے معمول میں فرق نہ آنے دیں“۔
”اوکے....! میں سمجھ گیا کہ مجھے کیا کرنا ہے“۔ میں نے کیمپس کے بیرونی گیٹ کو دور سے ہی دیکھتے ہوئے کہا اور پھر ہمارے درمیان خاموشی چھا گئی۔ ہم سارا کیمپس پار کر گئے۔ اس کے بعد سٹاف کالونی شروع ہو جاتی تھی۔ بڑے بڑے گھر گزر گئے تو چھوٹے کوارٹر شروع ہو گئے۔ یہاں تک کہ ایک طرف سرے پر اکیلا ہی ایک کوارٹر تھا۔وہ نسبتاًکچھ بڑا تھا۔ سلیم نے گاڑی وہاں روک دی۔ ایک ٹیوب لائٹ اندھیرے کو دور کرنے کی کوشش میں ہانپ رہی تھی۔ سلیم نے سیدھے دروازے پر دستک نہیں دی۔ بلکہ کوارٹر کے دائیں جانب سے چل پڑا۔ پچھلی جانب کافی سرسبز لان تھا۔ پھول اور پودے لگے ہوئے تھے اور اس لان کے درمیان میں بڑی سی چارپائی پر ایک پتلاسا شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے اردگرد کافی سارے لوگ تھے۔ درمیان میں حقہ دھرا ہوا تھا۔ چارپائی پر بیٹھے ہوئے شخص کو میں نے غور سے دیکھا۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا، تیکھے نقوش، سفید داڑھی سفید بالوں کے درمیان چندیا، سفید دھوتی اور کرتہ پہنے ہوئے تھے۔ سلیم نے جاتے ہی اونچی آواز میں السلام علیکم کہا تو سبھی نے چونک کر ہماری طرف دیکھا۔ مجھ پر نگاہ پڑتے ہی اس نے حقے کی نّے ایک طرف کر دی اور احتراماً کھڑا ہو گیا۔ اس نے بڑے رسان سے مصافحہ کیا اور بڑے ہی مان سے ایک رنگین پیڑھے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہمارے بیٹھنے ہی کے دوران اس نے کچھ خاص اشاہ نہ جانے کس کو کیا۔ وہ سبھی بنا کچھ کہے ایک ایک کر کے وہاں سے چل دیئے۔ جب ہم تینوں رہ گئے تو سلیم بولا۔
”چاچا پیر بخش، یہ ہیں میرے صاحب، ان کے بارے میں آپ سے میں نے ذکر کیا تھا“۔
”اچھا اچھا، ہم نوکر تابعدار سائیں، یہ جیسا چاہیں گے، ویسا ہی ہو گا۔ ویسے کیا چاہتے ہو آپ؟“ پیر بخش نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، مگر میرے کسی جواب دینے سے پہلے ہی سلیم بول اٹھا۔
”فی الحال تو ذہن میں کچھ بھی نہیں ہے۔ بس آپ اپنا نمبر دے دو اور ان کا نمبر لے کر محفوظ کر لو، پھر باتیں ہوتی رہیں گی“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنی قمیص کی جیب سے بڑے نوٹوں کی ایک گڈی نکالی اور اسے دے دی۔
”اس کی کیا ضرورت تھی سائیں، پہلے کبھی آپ کو ناں کی ہے“۔ اس نے نوٹوں کی گڈی اپنی دھوتی کی ڈب میں رکھتے ہوئے کہا۔
”او چاچا، پیسوں کی کسے ضرورت نہیں ہوتی، تم بھی تو بال بچوں والے ہو۔ ہم ہی ایک دوسرے کا خیال نہیں کریں گے تو پھر کون کرے گا“۔ سلیم نے انتہائی رسان سے کہا تو وہ بے حد سنجیدگی سے بولا۔
”بائیس سال ہو گئے ہیں یہاں نوکری کرتے ہوئے، ہر سال یہاں نئے چہرے آتے ہیں ۔ لڑکے بھی، لڑکیاں بھی ، اب تو انہیں دیکھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ کس قماش سے تعلق رکھتے ہیں،لیکن یقین جانو سلیم پتر، غریب ہی غریب کے کام آتا ہے۔ باقی ہر بندہ مفاد پرستی کرتا ہے۔ خیر، نمبر میرا....“ یہ کہہ کر اس نے اپنا نمبر بتایا جیسے میں نے محفوظ کر لیا اور اس نے بھی میرا نمبر لے لیا۔ تب میںنے پوچھا۔
”چا چا، یہ جوآج کل کیمپس میں تبدیلی آرہی ہے، اس کے بارے میں آپ کیا کہو گے“۔
”یہ یہاں چلتا ہی رہتا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ ان کے پیچھے بہت مضبوط لوگ ہوتے ہیں اور وہ پورے کیمپس میں چند ایک ہی ہوتے ہیں۔ زیادہ نہیں، باقی سب ان کی چھاﺅں میں بیٹھنے والے ہوتے ہیں۔ وہ لوگ یہاں سے زیادہ فائدہ لے کر جاتے ہیں، جو بالکل خاموش رہیں اور چھپ کر کسی کی نگاہوں آئے بغیر اپنا کام کرتے چلے جائیں۔ کون سی قسم ہے جیسا بندہ یہاں موجود نہیںہے۔ ہر طرح کا ہے“۔ اس نے مجھے تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔
”خیر، چا چا، اب ہم چلتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ آپ اس وقت مصروف ہیں۔ یہ آپ کو کال کرلیں گے۔ پہچان تو جائیں گے نا آپ ....“ یہ کہہ کر سلیم ہلکے سے ہنس دیا۔
”او کیوں نہیں سائیں، اب تو یہ ہمارا بھی صاحب ہے نا....“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا۔ ہم نے مصافحہ کیا اور واپس پلٹ پڑے گاڑی تک آ کر جیسے ہی اس نے گاڑی بڑھائی تب میں نے پوچھا۔
”یار، میں نے اس سے کام کیا لینا ہے، کس مقصد کے لیے تم نے اتنے بڑے نوٹ دے دیئے۔ مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آیا“۔
”ہر ڈیپارٹمنٹ ، ہر کینٹین، چاہے وہ ہاسٹل کی ہو، کسی کی بھی ہو، اس کی رسائی ہر جگہ ہے، یہاں تک کہ وی سی آفس میں بھی آپ اس سے جیسی چاہیں معلومات لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کو اچانک کسی ریوالورکی، گولی کی، یا کسی بھی شے کی ضرورت پڑ جائے آپ نے اسے فون کر کے بتانا ہے اور وہ آپ کو مہیا ہو جائے گی“۔ اس نے پُرجوش لہجے میں کہا۔
”یہ سب کچھ تو تم بھی مجھے مہیا کر سکتے ہو، اس کی کیا ضرورت....؟“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”سرجی.... آپ کس دور میں جی رہے ہیں۔ یہ انفارمیشن کا دور ہے۔ معلومات ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ آپ اس بات کو کیوں نہیں سمجھ رہے “۔ سلیم نے سمجھانے والے انداز میں کہا تو میں خاموش ہو گیا۔ حالانکہ اس وقت مجھے خود سمجھ نہیں آرہی تھی کہ پیر بخش میرے کس کام آسکتا ہے۔ میری خاموشی کے بعد سلیم نے پھر کوئی بات نہیں کی۔ تبھی مجھے خیال آیا کہ سارا دن فون بند رہا، ممکن ہے ماہم نے کال کی ہو اور اسے فون بند ملا ہو اس لیے کوئی بات نہیں ہو سکی۔ اب تو کتنی دیر سے فون کھلا ہے اور اس نے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ یہ بالکل عجیب سی بات تھی۔
میں اس پر سوچنا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے میں نے میوزک لگا دیا۔ جسے میں سنتا رہا اور چلتی ہوئی گاڑی سے باہر کے نظاروں کو خالی الذہنی سے دیکھتا رہا۔ ہمارے سفر کا اختتام ایک اوپن ائیر ریستوران میں ہوا۔ جہاں ہم ایک نسبتاً نیم تاریک گوشے میں جا بیٹھے۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ میرے سامنے کھانا لا کرچن دیا گیا۔ کھانے کے بعد میری طبیعت خاصی بوجھل ہو گئی۔ تبھی میںنے سلیم کو واپس سبزہ زار چلنے کا کہا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم واپس آگئے۔ جہاں سناٹا ہمارے استقبال میں تھا۔ میں تھکے تھکے قدموں سے ڈرائنگ روم میں آیا تو جندوڈے کو اپنے انتظار میں پایا۔ کچھ دیر بعد سلیم بھی چابی گھماتا وہیں آگیا۔
”اب کیا پروگرام ہے، آپ سوئیں گے یا....؟“
”ابھی تو نیند نہیں آئے گی، کچھ دیر ٹی وی دیکھ کر یا فون پر کس سے بات کر کے ہی سوﺅں گا، تم چاہو تو سو جاﺅ“۔ میں نے کہا تو سلیم بولا۔
”سرجی.... اسد کی پریشانی مت لیجئے گا، وہ جو کرتا ہے کرنے دیں۔ آپ بس خود پر دھیان دیں۔ اچھا شب بخیر“۔ وہ یہ کہتا ہوا چابی مجھے تھما کر واپس چلا گیا۔ میںنے جندوڈ سے کی جانب دیکھا وہ مسکرا رہا تھا۔
”ہاں بھئی جندوڈا، تم بڑا مسکرا رہے ہو، خیریت تو ہے نا....؟“ میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا اور صوفے پر بیٹھ گیا۔
”کچھ نہیں سائیں، آپ اپنے کمرے میں جاﺅ، مجھے بھی سونے کے لیے جانا ہے“۔
”اتنی جلدی نیند آگئی، تم جاﺅ، میں چلا جاﺅں گا“۔ میں نے شرٹ کا بٹن کھولتے ہوئے کہا تو جندوڈا وہاں سے چلا گیا۔ میں کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا، پھر اٹھ کر اپنے کمرے میں میں چلا گیا۔میں نے کمرے کی لائٹ آن کی تو سامنے بیڈ پر ماہم بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ ہر طرح کے جذبات سے عاری تھا۔ جیسے اس کا بت وہاں رکھ دیا گیا ہو۔ اس نے آنکھیں نہ جھپکی ہوتیں تو شاید میں اسے مردہ ہی سمجھ لیتا۔ میں جندوڈا کی مسکراہٹ سمجھ گیا تھا۔
”تم....! یہاں.... میرے بیڈ پر....“
”اتنا حیران ہو کر مجھے بورمت کرو، آﺅ، بیٹھو، آج رات ہم نے بہت سارے فیصلے کرنے ہیں“۔ اس نے یوں کہا جیسے میری بات کی کوئی اہمیت نہ ہو اور وہ میرے انتظار میں بیٹھی ہو۔ تبھی میں نے بیڈ پر بیٹھ کر جوتے اتارے اور پھر پاﺅں پسار کر سکون سے بیٹھتے ہوئے بولا۔
”یار ماہم، ہم اب تک کتنے فیصلے کر چکے ہیں، سب ہوا میں اڑ گئے۔ میرے خیال میں ہم دونوں کو کچھ بھی یاد نہیں ہو گا“۔ نہ چاہتے ہوئے بھی میرے لہجے میں طنز کی آمیزش ہو گئی تھی۔ اس نے میری بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دور خلاﺅں میں گھورتے ہوئے کہا۔
”آج میری سارا دن اپنے پاپا سے بات ہوتی رہی ہے، لیکن اس سے پہلے رابعہ نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا، وہ سب کچھ جو آپ اور اسد کے درمیان ہوا ہے۔ میں سمجھتی ہوں، یہ ایک طرح سے ٹھیک ہی ہوا ہے۔ ہمیں کیمپس پر گرفت سے کیا لینا دینا“۔
”دیکھو، میں تو یہاں پڑھنے آیا ہوں۔ میں نے تو کیمپس میں رہنا ہے، تم ایک بڑے خاندان کی امیر لڑکی ہو، تم یہاں سے ڈگری نہ بھی لوگی تو کیا ہے، کچھ فرق نہیں پڑے گا تمہیں“۔ میں نے آہستگی سے کہا۔
”میں اچھا اس ضمن میں کہ رہی ہوں کہ آپ کی جان چھوٹی، وہ لوگ اس خوا مخواہ کی جنگ وجدل میں پڑے ہوئے ہیں، پڑے رہیں، اب ہمارا تو ان سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گانا....“
”امن اچھی بات ہے ماہم ....! ان کیمپس میں ان غنڈہ عناصر کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے لیکن ان سب امن پسندوں کو جکڑ کر رکھ دیتے جو یہ سب نہیں چا ہ رہے ہوتے۔ ضروری نہیں یہ مذہبی تنظیم ہی سب کچھ کرتی ہے، اس کی آڑ میں لوگوں کے ذاتی مفادات ہوتے ہیں، جیسے یہ فرخ چوہدری کرتا رہا ہے“۔ میں کافی حد تک پُر جوش لہجے میں کہا تو وہ تیزی سے بولی۔
”مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں، مجھے اگر غرض ہے تو آپ سے ، بس“۔
”اب پھر وہی پرانے ڈائیلاگ دہرانے مت بیٹھ جانا کہ ایسا اس لیے ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے اور میں آپ کے ....“
”یہ تو حقیقت ہے ابان.... آپ میرے آئیڈیل ہو۔ آپ مانو نہ مانو، اب میں آپ کو کیسے یقین دلاﺅں ، کیا ثبوت دوں.... میں یہ نہیں سمجھ سکتی“۔ اس نے الجھتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھا۔
”خیر....! یہ چھوڑو.... پاپا سے کیا بات ہوتی رہی ہے“۔
”یہی کہ فرخ چوہدری نے جو کچھ کیا وہ انتہائی غلط کیا ہے ، جبکہ پاپا کا یہ موقف ہے کہ اچھا ہے، یہ جو نئے لوگ کیمپس پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں، وہ اس کے مخالف ہیں۔ مجھے انہوں نے کیمپس جانے سے روک دیا ہے۔ فخرالدین کے ساتھ مل کر وہ اپنی سیاسی ساکھ بنانا چاہتے ہیں اور میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ جس دن بھی انہوں نے میڈیا میں یا کہیں عوام میں اپنے اور ان کے اتحاد وغیرہ کی بات کر دی، میں اسی دن فرخ چوہدری کو گولی مار دوں گی، پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا“۔ اس نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا اور پھر پوری آنکھوں سے میری طرف دیکھا ۔
”پھر انہوں نے کیا کہا؟“ میں نے پوچھا۔
”انہوں نے اسے میرا جذباتی پن کہہ کر ٹال دیا ہے کیونکہ ابھی الیکشن کون سا نزدیک ہیں۔ اتحاد وغیرہ تو کہیں الیکشن کے قریب جا کر ہی بنتے ہیں“۔ اس نے عام سے لہجے میں کہا تو میں نے پوچھا۔
”چائے پﺅ گی۔ جندوڈا سے کہوں؟“
”نہیں، فریج میں سے سوڈا لیتے ہیں“۔ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھی اور فریج میں سوڈا نکال کر لے آئی۔ چند سپ لینے کے بعد میں نے اس سے کہا۔
”ماہم....! میں نے مان لیا کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے اور میں بھی تمہیں پسند کرتا ہوں، ہمارے درمیان اچھی دوستی ہے اب کسی نئے فیصلے کی کیا گنجائش ہے، کیا چاہتی ہو تم....“
”ممکن ہے آپ میری بات کو جان بوجھ کر نہ سمجھتے ہو، لیکن ایک مشرقی لڑکی، جس سے محبت کرتی ہے، اس کی ہو کر رہنا چاہتی ہے۔ کیا آپ کو اس کا اندازہ نہیں“۔
”لیکن شاید ہم میں ایسا کچھ نہ ہوپائے“۔ میں نے کہا تو اس نے کچھ کہنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکتے ہوئے کہا۔ ”دیکھو، تمہارا اور میرا جوڑ ہی نہیں بنتا، میں کسی بڑے خاندان یا امیر کبیر فیملی جو آپ لوگوں کے ہم پلہ ہو، اس سے تعلق نہیں رکھتا، میرا باپ ایک معمولی انسان ہے جو ساری زندگی محنت کرتا چلا آرہا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ میری وجہ سے پریشان ہو۔ تمہارا باپ کیا ہے، مجھ سے زیادہ تم اچھی طرح جانتی ہو۔ وہ سہولیات جو تمہیں چاہئیں میرے ہاں نہیں مل سکیں گی، تو پھر ہم خواہ مخواہ مشکل میں کیوں پڑیں“۔
”میں نہیں سمجھتی کہ آپ اتنی جلدی ہار مان جانے والے بندے ہو۔ آپ اپنے دل کی بات کہہ دو، مجھے پسند نہیں کرتے، تعلق صرف دوستی کی حد تک رکھنا ہے۔ میں دل سے قبول نہیں ہوں، جو بھی ہے، وہ کھل کر کہہ دیں۔ میں وہ قبول کر لوں گی، آپ سے کوئی گلہ شکوہ نہیں کروں گی۔ رہی امیری غریبی کی بات، یا میرے پاپا کی بات ، شادی تو میں نے کرنی ہے۔ میری خواہش ہے، زندگی میں نے گزارنی ہے“۔
”ماہم یہ سب تمہارے جذباتی فیصلے ہیں، انہیں چھوڑ دو۔ تم اپنے باپ کا مقابلہ نہیں کر پاﺅ گی، ہماری دوستی چلتی چلی جارہی ہے، بس چلتی رہے“۔
”تو دوسرے لفظوں میں آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ہم میں تعلق فقط دوستی تک رہنا چاہئے“۔ اس نے حتمی انداز میں پوچھا۔
”فی الحال یہی، ابھی ہمارے پاس ایک سال پڑا ہے تم سکون سے امتحان وغیرہ دو، مجھے دیکھو، جانچو، پرکھو اور پھر کوئی فیصلہ کرو“۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ تیزی سے بولی۔
”میں آپ کی بات مان لیتی ہوں۔ ویسے ہی ہو گا، جیسا آپ چاہتے ہو، لیکن پھر میری ایک بات بھی آپ کو ماننا ہو گی؟“
”کیا ؟“ میں نے دھڑکتے دل سے پوچھا، پتہ نہیں وہ کیا کہہ دے۔
”آپ کہتے ہونا میں غریب ہوں، ہمارے جیسا خاندان نہیں، تو میں بزنس کے لیے رقم دیتی ہوں، خود کو اس شہر کا اچھا بزنس مین....“
”فضول سوچ ہے تمہاری.... ایک سال میں چاہے جتنا مرضی سرمایہ لگا لوں، جتنا بڑا مرضی بزنس مین خود کو شو کر لوں لیکن تمہارے جاگیر دار باپ کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہوں گا“۔
”آپ کسی طور مان کیوں نہیں رہے ہو؟“
”اس لیے میری جان، کہ تم اپنے باپ سے میرا ذکر کرو، میرے بارے میں سب بتادو۔ پھر اس کا ردِعمل دیکھ لو، اگر تم اس کے ردِعمل کو برداشت کر کے اپنی ضد منوالیتی ہو اور یقینا اس پر بڑا طوفان اٹھے گا، تو پھر مجھے شادی کرنے میں اعتراض نہیں ہو گا۔ کیونکہ اس میں تمہارے باپ کی مرضی شامل ہو گی“۔
”یہ آپ کیا دقیانوسی باتیں لے کر بیٹھ گئے ہو۔ میں جانتی ہوں میرے پاپا، میری کتنی بات مانتے ہیں، اور میں ان سے اپنی بات کیسے منوا سکتی ہو، اس بحث کو چھوڑو، اپنی کہو“۔
”تو پھر سنوماہم، میں تم سے شادی کروں گا، یہ تو پکی بات ہے؟ لیکن اگر ہم یہ کوشش کر کے دیکھ لیں کہ اس میں والدین کی مرضی شامل ہو تو کیا اچھا نہیں اور تعلیم بھی مکمل ہو جائے گی اور ....
”کب کرو گے شادی ، میرے ساتھ ابھی طے کرو....“ اس نے بے حد جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔
”جب تم چاہو؟“ میں نے حتمی انداز میں کہہ دیا۔ تو انتہائی جوش میں بولی۔
”تو پھر ہم کل صبح شادی کر رہے ہیں۔ ڈن....“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ میرے سامنے پھیلا دیا۔
”ڈن....! “ میں نے اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو وہ چند لمحے میری طرف یوں دیکھتی رہی جیسے سکتے میں ہو، پھر مسکرائی اور شرماتے ہوئے میرے کاندھے سے لگ گئی۔ میں نے اس کا سر تھپکتے ہوئے خود سے الگ کیا تو وہ شرماتے ہوئے بولی۔
”اب پتہ نہیں ان خوبصورت ترین لمحات کو کیسے سیلی بریٹ کیا جائے....“۔ یہ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ میرا فون بج اٹھا۔ میں نے اسکرین پر نمبر دیکھے تو وہ اجنبی سا تھا۔ میں نے فون اٹھایا اور کال ریسیو کرلی ، دوسری طرف سے کس نے بھاری سے لہجے میں کرخت انداز سے پوچھا۔
”تم ابان علی ہو....!“
”ہاں، میں ہی ہوں.... آپ کون....؟“ میں نے بھی لہجے کو سرد کرتے ہوئے پوچھا۔
”میں اسلم چوہدری بات کر رہا ہوں.... اور تم سے آج اور ابھی ملنا چاہتا ہوں....“
اس نے پہلے سے بھی زیادہ کرخت لہجے میں بات کی تو ایک لمحے کے لیے میں چکرا گیا۔ مجھے لگا جیسے میں بام تک پہنچ گیا ہوں اور اب جیسے ہی منڈھیر تک پہنچا ہوں، وہ ہلنے لگی ہے۔
اسلمچوہدری کی کرخت آواز میرے کانوں میں گونج رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے تو میرے جی میں آیا کہ اس ایسی زبان میں جواب دوں جو اس ے کبھی سنی بھی نہ ہو۔ چونکہ میرے سامنے ماہم موجود تھی، اس لیے بڑی مشکل سے میں نے خود پر قابو پایا۔ ماہم کے چہرے پر تجسس اور حیرت پھیلی ہوئی تھی۔ ممکن ہے میرے چہرے پر بدلتے رنگ دیکھ کر اس کی حالت بدل گئی تھی۔ 
”تم سن رہے ہو، میری بات؟“ دوسری طرف سے اسلم چوہدری کی پھر کرخت لہجے میں ڈوبی ہوئی آواز گونجی تو میں نے بمشکل خودپر قابو رکھتے ہوئے تحمل سے کہا۔
”دیکھیں، میں یہ سوال کرنے کا حق رکھتا ہوں کہ آپ ابھی اور اسی وقت مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں اور یہ سوال بھی کر سکتا ہوں کہ آپ کون ہوتے ہیں میرے سامنے اس طرح کرخت لہجے میں بات کرنے والے اور پھر میں آنے سے انکار بھی کر سکتا ہوں“۔
”دیکھو لڑکے، میں تمہیں پیار سے سمجھانے کے لیے اپنے ہاں بلا رہا ہوں۔ یہ کیا اور کیوں کا چکر میرے ساتھ مت چلاﺅ، بولو، تم آﺅ گے یا میں آجاﺅں“۔ دوسری طرف سے اسی طرح کرخت لہجے میں کہا گیا جس میں نفرت کا عنصر بھی شامل ہو گیا تھا۔
آپ دس منٹ بعد فون کریں تاکہ میں آپ کو بتا سکوں کہ میں آپ کو ملنے کے لیے وقت بھی دیتا ہوں یا نہیں؟“ باوجود کوشش کے میرے لہجے میں طنز اتر آیا تھا۔ پھر میں نے دوسری طرف سے کچھ سنے بغیر فون بند کر دیا۔ 
”کس کا فون تھا؟“ فطری تجسس کے تحت ماہم نے فوراً ہی پوچھ لیا تو چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر دلچسپی سے کہا ۔
”تمہارے پاپا کا فون تھا۔ وہ مجھے ابھی اور اسی وقت ملنے کا حکم دے رہے تھے۔ اب بوبو میں انہیں کیا جواب دوں، کیونکہ یہ حکم انہویں انتہائی غصے میں دیا ہے“۔
میں نے کہا تو وہ ایک دم حیرت زدہ ہو کر سوچ میں پڑ گئی۔ پھر بڑبڑانے والے انداز میں بولی۔
”اسی کیا بات ہو گئی.... انہوں نے ایسا کیوں....“ یہ کہتے ہوئے وہ چند لمحے سوچتی رہی پھر سر اٹھایا اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو مزید پھیلاتے ہوئے بولی۔ ”انہیں ابھی فون کر کے کہیں کہ آپ ابھی اور اس وقت ان سے ملیں گے، وہ بھی ان کے گھر جاکر ان سے ملیں گے“۔ یہ کہہ کر وہ میری طرف دیکھنے لگی۔ شاید میرا درعمل دیکھنا چاہتی تھی۔ پھر اگلے ہی لمحے اس نے میرا سیل بیڈ سے اٹھا کر مجھے دیتے ہوئے کہا۔ میں جانتا تھا کہ میرا یوں رات کے وقت ان کے گھر چلے جانا اپنی موت کو خود دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ممکن ہے ماہم ہی مجھے اپنے جال میں پھنسا کر قربان گاہ لے جائے اور وہاں جا کر اپنے باپ کی بھینٹ چڑھا دے۔ یا پھر یہ بھی ممکن تھا کہ یہی گھڑی فیصلہ کن ثابت ہو۔ سارا کھیل ہی ماہم کے محور پر آن رکا تھا۔ اس کا عمل ہی میری ہار اور جیت کا باعث بن سکتا تھا۔ میرے پاس یہی چند لمحے تھے۔ یہ رات مجھے موت کی اندھیری وادیوں میں دھکیل دیتی یا پھر میں زندگی کے نئے دور کا سورج طلوع ہوتے دیکھتا، میرے خیال تیسرا کوئی پہلو نہیں تھا۔ میں نے ماہم کے ہاتھ سے اپنا سیل فون پکڑ لیا۔ اس سے پہلے کہ میں اسلم چوہدری کے نمبر پش کرتا دوسری طرف سے اس کی کی کال آگئی۔ جسے میں نے پک کرتے ہوئے کہا۔
”میں ابھی اور اسی وقت آرہا ہوں۔ میرا انتظار کریں“۔
میں نے دوسری طرف سے ایک لفظ بھی نہیں سنا اور فون بند کر دیا۔ میں اپنی زندگی کو داﺅ پر لگانے کا رسک لے چکا تھا۔ میں نے سیل فون جیب میں ڈالا اور بیڈ سے اترتا ہوا بولا۔
”آﺅ چلیں ماہم ، دیکھیں تمہارا پاپا کیا کہتا ہے“۔
”نہیں، میں ہیں جاﺅں گی۔ آپ کے واپس آنے تک میں یہیں رہوں گی“۔ اس نے بیڈ س ٹیک لگاتے ہوئے سکون سے کہا تو میں نے پوچھا۔
”کیوں؟“
”تم اچھی طرح سمجھتے ہو کہ مجھے یہاں کیوں رہنا چاہئے۔ ان کا جو بھی آپ سے سوال ہو گا وہ میرے متعلق ہی ہو گا۔ میں یہ قطعاً برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ آپ کو ذرا سا بھی نقصان پہنچائیں۔ آپ بے خوف و خطر وہاں جائیں اور یہ ذہن میں رہے کہ ابھی کچھ دیر پہلے جو ہم نے فیصلہ کیا ہے وہ اٹل ہے، وہ تبدیل ہونے والا نہیں“۔ اس نے حتمی انداز میں کہا اور میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر کمرے سے نکلتا چلا گیا۔ میں جیسے ہی نیجے آیا تو جندوڈا ایک طرف سے نکل کر میرے سامنے آگیا۔ تب میں نے حیرت سے پوچھا۔
”تم ابھی تک سوئے نہیں جندوڈا؟“
”ناسائیں....! جب آپ جاگ رہے ہیں تو پھر ہمارا کام نہیں کہ ہم سو جائیں“۔
”اچھا....! سلیم کو جگاﺅ، اسے کہو کہ وہ گاڑی نکالے“۔
”وہ ابھی جاگ رہا ہے، سویا نہیں، اپنے کمرے میں ہے۔ میں اس سے کہتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ واپس پلٹ گیا۔ کچھ دیر کچھ بعد جب گیٹ کھلنے اور گاڑی کے سٹارٹے ہونے کی آواز آئی تو میں ڈرائنگ روم سے باہر آگیا۔ تبھی میں نے اپنے سامنے جندوڈا کو دیکھ کر کہا ۔
”جندوڈا....! بی بی اندار میرے کمرے میں ہیں، جب تک میں نہ آﺅں، وہ یہاں نہ جائے“۔
”جی سائیں، ایسے ہی ہو گا؟“
اس نے کہا تو میں پسنجرسیٹ پر جا بیٹھا۔ گاڑی روڈ پر ڈال کر سلیم نے میری طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
”کہاں جانا ہے اور جندوڈا سے جو کہا.... خیرت تو ہے نا؟“
اس کے پوچھنے پر میں نے ساری رد داد سے سنا دی۔ تاہم شادی کر نے کے فیصلے بارے میں بات گول کر گیا۔
”سر....! انسان جب بھی دھوکا کھاتا ہے، اپنے اعتماد والوں سے ہی کھاتا ہے۔ یہ ایک بات ہے کہ بااعتماد بندہ جو دھوکا دیتا ہے کس قدر گھٹیا اور ذلیل شخص ہوتا ہے یہ تو بعد کی باتیں ہیں۔ اصل بات تو یہ ہے کہ اس وقت تک نقصان ہو چکا ہوتا ہے“۔
”مشکل پڑنے پر ہی ایسے بے غیرت لوگوں کا پتہ چلتا ہے نا اور نہ عام حالات میں کیا خلوص اور اعتماد بارے معلوم ہو سکتا ہے؟“ میں نے سلیم سے پوچھا تو وہ چند لمحے رک کر بولا۔
”خیر....! آپ جس اسلم چوہدری کے پاس جارہے ہیں نا، اس کا گھر قلعہ نما ہے، اس کی سیکورٹی بھی بہت ہے۔ یہ میں آپ کو ڈرا نہیں رہا بلکہ صورتِ حال سے آگاہ کر رہا ہوں۔ بہت بڑا رسک ہے، موت کے منہ میں جانے والی بات ہے“۔
”تو پھر کیا کریں، یہ رتک تو اب لینا ہے“۔ میں نے اعتماد سے کہا۔
”کاش اس وقت ہم کاشف وغیرہ کو بتا سکتے“۔ اس نے میری طرف دیکھ کر کہا تو میں ہولے سے مسکراتے ہوئے بولا۔
”اب جو ہو گا وہ دیکھا جائے گا، تو چل میرے ساتھ.... تم باہر رہنا اور ....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ مجھے ٹوکتے ہوئے بولا۔
”ایسا مت کہیں.... گالی نہ دیں مجھے ....“ سلیم نے کہا اور پھر نہ جانے کس جذبے کے تحت گاڑی کی رفتار ایک دم تیز کر دی۔ پھر ہم دونوں میں کوئی بات نہیں ہوئی اور ہم کچھ دیر بعد ایک وسیع و عریض بنگلے کے سامنے آ گے، جس کے سیاہ گیٹ پر کافی ساری روشنی تھی۔ سلیم نے جیسے ہی ہارن دیا ایک ڈیل ڈول والے اسلحہ بردار شخص نے کھڑکی میں سے جھانک کر دیکھا، جس پر سلیم نے اسے باہر آنے کا اشارہ کیا، مگر وہ وہایں سے بولا۔
”کون ہیں آپ اور اس وقت کس سے ملنا ہے؟“
”چوہدری صاحب سے کہو، ابان علی ملنے آیا ہے“۔ سلیم نے کہا تو اس شخص نے اپنا اسلحہ لہرایا، پھر گھوم کر شاید انٹر کام پر پوچھنا چاہتا ہوگا۔ ذرا سی دیر بعد گیٹ کھل گیا اور سلیم گاڑی سمیت اندر چلا گیا۔ پورچ سے ذرا پہلے ہی چند اسلحہ بردار لوگ کھڑے تھے انہوں نے گاڑی کو روکا اور ہمیں باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ ہم باہر آگئے۔ تو انہوں نے تیزی سے ہماری تلاشی لے ڈالی، کچھ نہ پا کر ہمیں آگے جانے کا اشارہ کیا۔ جہاں کچھ فاصلے پر ایک ادھیڑ عمر شخص کھڑا تھا۔ جس نے سفید کرتا اور شلوار پہنی ہوئی تھی۔ سر کے بال برف کی مانند سفید تھے جبکہ مونچھیں ابھی خشخشی تھیں۔ درمیانے سے قد کا پتلا ساوہ شخص بڑے غور سے ہم دونوں کو دیکھ رہا تھا۔
”تم میں سے ابان علی کون ہے؟“ اس نے دونوں کو گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا تو میں نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔
”میں ہوں ابان علی“۔
میرے یوں کہنے پر وہ چند لمحے مخمعے کی کیفیت میں رہا۔ پھر میرے بڑھے ہوئے ہاتھ کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
”واقعی ہی تم ابان علی ہو یا پھر اس نے کسی اور کو قربانی کا بکرا بنا کر یہاں بھجوا دیا ہے“۔
”شیر کی کچھار میں گیدڑ نہیں آیا کرتا، ہاں مگر بہت سارے گیدڑوں کے پاس شیر ضرور چلا جاتا ہے، پھر اگر بہت سارے گیدڑ شیر کو زخمی بھی کر دیں تو یہ اجنبھے کی بات نہیں ہوتی چوہدری صاحب....!“ میں نے کافی حد تک طنزیہ لہجے میں کہا کیونکہ اس وقت میں اس کی آواز اچھی طرح پہچان گیا تھا کہ ہی اسلم چوہدری ہے جو میرے دادا دادی کا تاتل اور میرے باپ کے سنہرے ترین دور کا قاتل تھا۔ جس نے میرے باپ کو اسی زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا جس میں سوائے حسرت ویاس کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔
”بہت بڑی بات کرتے ہوئے لڑکے.... شاید تمہیں اپنی زندگی عزیز نہیں“۔
”دھمکی مت دیں چوہدری صاحب، بس کام کی بات کریں، کیا کہنا چاہتے ہیں آپ؟“
”تمہاری آواز سے تو ہی لگتا ہے کہ تم ہی سے بات ہوئی تھی، تم ابان علی اور تمہارے باپ کا نام زریاب.... ایسا ہو نہیں سکتا“۔ کیونکہ میں نے زریاب کے بیٹے ابان کو دیکھا ہوا ہے....اور .... تم کہاں کے ہو؟“ ا سنے تذبدب میں کہا تو میں سمجھ گیا کہ وہ کیوں الجھن میں ہے۔
”پتہ نہیں آپ کیا بات کر رہے ہیں، اصل بات کہیں جو کہنا چاہتے ہیں آپ مجھے چھوڑیں میں کہاں کا ہوں۔ اس بارے میں نے جان بوجھ کر اکتاتے ہوئے لہجے میں جواب دیا تو وہ چند لمحے حیرت سے میری طرف دیکھتا رہا، پھر فون نکال کر ہم سے ذرا فاصلے پر چلا گیا۔ وہ وہیں پر ٹہلتا رہا، یہاں تک کہ اندر سے ایک جواں سال لڑکی برآمد ہوئی۔ اس نے آتے ہی میری طرف دیکھا اور پھر تیزی سے اسلم چوہدری کی طرف بڑھ گئی۔ ان کی آوازیں مجھ سے آرہی تھیں۔
”جی انکل یہی ہے، یہی کیمپس میں پڑھ رہا ہے اس سے جھگڑا ہا تھا اور ماہم کی اسی کے ساتھ دوستی ہے“۔
یہ سب سن کر وہ ہمارے پاس آگئے۔ تب اسلم چوہدری بولا۔
”میری بیٹی ماہم کہا ں ہے!“
”آپ کی بیٹی ہے، آپ کو پتہ ہونا چاہئے۔ کیسے باپ ہیں۔ آپ کو اپنی بیٹی کے بارے میں نہیں معلوم“۔ میں اس کے زخموں پر نمک چھڑک دیا۔
”بکواس بند کرو اور بولو، کس نے تمہیں کہا ہے کہ میری بیٹی کو ور غلاﺅ، اس وقت کہاں ہے وہ....“ وہ بپھرتے ہوئے بولا۔
”یہ تو آپ نے کئی ساری باتیں کر دیں۔ ویسے بھی آپ کےس اتھ بڑی تمیز سے بات کر رہا ہوں“۔ میں نے اسے گول مول سا جواب دے دیا۔
”دیکھو، تم جو کوئی بھی ہو، جس کے ایماءپر یہ سب کچھ کر رہے ہو۔ یہ بہت اوچھا وار ہے، کسی کی بیٹی کو جذباتی کر ے اس سے عشق کی باتیں کر کے ....“
”آپ بہت الجھ گئے ہیں چوہدری صاحب....! آپ کو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپ نے کہنا کیا ہے جب آپ کو سمجھ آجائے تو مجھے دوبارہ کال کرلیں‘۔ یہ کہہ کر میں پلٹنے لگا تو وہ پوری قوت سے چلا کر بولا۔
”رک جاﺅ، ایک قدم بھی آگے بڑھایا تو تیرے جسم میں سوچھید ہو جائیں گے، تم کیا سمجھتے ہو تم یونہی فضول باتیں کر کے یہاں سے چلے جاﺅگے اور میں تمہیں جانے دوں گا“۔ اس نے جیسے یہ یہ کہا تو قریب کھڑے اسلحہ برادوں نے اپنی گنیں مجھ پر تان لیں۔
”کیا آپ کے ہاں مہمانوں کو بیٹھنے کا نہیں کہا جاتا“۔ میں نے جان بوجھ کر اسے چڑانے کے لیے کہا میرے یوں کہنے پر وہ چند لمحے میری جانب حیرت سے دیکھتا رہا۔ شاید اسے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں اس قدر بے خوف ہو کر کیوں اس سے بات کر رہا ہوں۔ پھر اچانک جیسے وہ ہوش میں آگیا۔ اس نے لان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”آﺅ؟ بیٹھے ہیں“۔ یہ کر وہ چل دیا۔
”چلیں!“ میں نے اس کی ؟؟؟ میں پیچھے ہو لیا۔ سلیم اور وہ لڑکی ہمارے پیچھے پیچھے ہی آگئے۔ میرے بیٹھتے ہی وہ بولا۔
”کیا پیﺅ گے ؟“
”فی الحال تو آپ کی بے سروپا باتیں سن کر غصہ پی رہا ہوں۔ آپ مطلب کی بات کریں“۔ میں نے کہا تو اس نے ایک طویل سانس لی، پھر اپنی طرف سے کوشش کر کے نرم لہجے میں بولا۔
”تم میری بیٹی کے پیچھے کیوں پڑے ہو؟“
”یہ غلط الزام ہے، میں نہیں وہ میرے پیچھے پڑی ہے، وہ تو مجھ سے شادی کرنا چاہتی ہے“۔
میرے یوں کہنے پر وہ ایک دم سے تڑپ اٹھا ، لیکن اپنے مصنوعی تحمل سے بولا۔
”تم ایسا نہیں کر سکتے ....؟“
”مجھے کوئی روک بھی نہیں سکتا، حالانکہ میں خود اس سے شادی نہیں کرنا چا ہتا۔ یہ بات آپ کی بیٹی کی سمجھ میں نہیں آرہی ہے تو میں کیا کروں“۔
”کیا تم واقعی اس سے شادی نہیں کرنا چاہتے؟“ اسلم چوہدری نے چونکتے ہوئے پوچھا۔
”میں کیسے یقین دلاﺅں آپ کو....“ میں کافی حد تک نرم لہجے میں کہا۔
”میرے معلومات کے مطابق،ابان علی ، یہاں کے ایک سرکاری آفیسر کا بیٹا ہے، میں اسے جانتا ہوں، تم کون ہو؟“
”میں بھی اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہوں۔ ضروری نہیں کہ ایک ہی نام کے دو بندے نہ ہو سکیں“۔
”لیکن ولدیت ایک نہیں ہو سکتی، اتنا بڑا اتفاق نہیں ہو سکتا، مجھے تو آج انکشاف ہوا ہے کہ تم نے میری بیٹی کو اپنے جال میں پھنسایا ہوا ہے“۔
”آپ مسلسل الزمات لگا رہے ہیں اور میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ آپ کھل کر بات کریں، کیا چاہتے ہیں آپ؟“ میں نے تحمل سے کہا تو وہ چند لمحے سوچتا رہا، پھر سرخ ہوتے ہوئے چہرے کے ساتھ بولا۔
”ماہم کہاں ہے؟“
”اسے گھر ہونا چاہئے“۔ میں نے پھر گول مول جواب دے دیا۔
”تم ابان علی ہو یا کوئی اور ہو، جو بھی ہو، میں تمہیں وارننگ دے رہا ہوں کہ میر ی بیٹی میرے حوالے کر دو، اور اس کی زندگی سے بہت دور چلے جاﺅ، اس میں تمہاری بھلائی ہے ، ورنہ میں تمہیں تمہاری زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا“۔ اس نے غراتے ہوئے کہا تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا اور اٹھتے ہوئے بولا۔
”آپ جو کہنا تھا کہہ دیا، میں جارہا ہو، اگر آپ روک سکتے ہو تو اپنی بیٹی کو روک لیں۔ جس دن اس نے میرے سامنے مجھے دھتکار دیا، اس دن میں اپنی زندگی آپ کے حوالے کر دوں گا“۔
”تو نے اس قدر میری بیٹی کو اپنے جال میں جکڑ لیا ہے؟“ اس نے کہا لیکن میں اس کی سنی ان سنی کرتا ہوئے چل دیا۔ میں اب مزید وہاں نہیں رکناچارہا تھا۔ وہ باتوں کے جال میں پھنسا کر مجھ سے اگلوانے کی کوشش کر رہا تھا کہ میں کون ہوں۔ میں ابھی چند قدم ہی آگے بڑھا تھا کہ اس نے اونچی آواز میں کہا۔
”اسے پکڑو اور باندھ لو، میں دیکھتا ہوں یہ کتنا بڑا غنڈہ ہے“۔
وہ چار اسلحہ بردار میری جانب تیزی سے بڑھے ابھی وہ چند قدم کے فاصلے پر تھے کہ میں نے تیزی سے کہا۔
”اپنی بیٹی سے بات کر کے دیکھ لو، مجھے خراش آئی تو اس کے گہرا زخ لگ جائے گا“۔
”کیا....؟“ یہ کہتے ہوءاس نے ان چاروں کو روک دیا۔ نہیں میں نے غراتے ہوئے کہا۔
”ہاں....! ممکن ہے تمہاری بیٹی ہی زندہ نہ رہے، یا پھر کچھ دیر بعد یہاں بہت سارے لوگ دھاما بول دیں۔ کیونکہ یہاں آنے سے پہلے میں نے انہیں وقت دیا تھا اور اس میں ؟؟؟ چند منٹ باقی ہیں۔ پھر مجھے مت الزام دیجئے گا کہ یہ سب کیا ہو گیا“۔
میرے یوں کہنے کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا۔ اس کے فوراً ہی اپنا سیل فون نکالا اور نمبر تلاش کرنے لگا، جلدی نمبر ملا کر دوسری طرف سے کال کا انتظار کرنے لگا۔
”تم کہاں ہوبیٹی؟“ اس نے تیزی سے پوچھا اور پھر اتنی ہی تیزی کے ساتھ ہم سے ذرا فاصلے پر چلا گیا۔ وہ کچھ دیر باتیں کرتا رہا۔ پھر مایوسانہ انداز میں فون بند کر کے میری طرف دیکھا، چند لمحے دیکھتا رہا اور پھر ہاتھ سے جانے کا اشارہ کر دیا۔ میں نے اسے غنیمت جانا اور گاڑی میں جا بیٹھا۔ ماہم نے مجھے فتح مندی سے ہمکنار کر دیا تھا۔ اب میں اس پر پوری طرح اعتماد کرسکتا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم گیٹ سے باہر تھے۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *