کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر15
میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کی کینٹین کے باہر باہر اکیلا بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے ماہم کے علاوہ اپنے چند دوستوں کا بھی انتظار تھا۔ رات جب میں واپس اپنے گھر لوٹا تو ماہم شدت سے میرے انتظارمیں تھی۔ میرے پہنچتے ہی اس نے وہاں سے چلے جانے کا کہا تھا۔ اس نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ میری اس کے پاپا کے ساتھ کیا باتیں ہوئیں۔ میں نے بہت پوچھا کہ وہ کہاں جا رہی ہے مگر اس نے نہیں بتایا۔ بس جاتے ہوئے اتنا کہا کہ صبح ڈیپارٹمنٹ کی کینٹین پر ملاقات ہوگی ۔ میں دیکھتا رہ گیا اور وہ چلی گئی۔
میں بقیہ تمام رات اس کے رویے کے بارے میں سوچتا رہا۔ آخر وہ چاہتی کیا ہے۔ اگر وہ یہ سب میرے ہی عشق میں کر ہی ہوتی نا تو اس کا رویہ یکسر مختلف ہوتا۔ جب سے کاشف لوگوں نے اس کے بارے میں شکوک کا اظہار کیا تھا، وہ بولائی بولائی سی تھی، گھڑی میں تولہ، گھڑی میں ماشہ، چلتے چلتے اچانک راستہ بدل جانا، لمحوں میں اجنبی بن جانا، یہ سب کیا ہے؟ کیا چل رہا ہے اس کے دماغ میں؟ صرف رات ہی کے رویے بارے میں سوچ لیا جائے تو کوئی ختمی نتیجہ نظر نہیں کیا جا سکتا تھا۔وہ میرے انتظار میں میرے ہی گھر میں تھی۔ پھر جب میں واپس لوٹ کر آیا تو جانے کے لیے تیار تھی۔ میں سوچتے سوچتے اچانک میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ اسلم چوہدری کو اچانک اس وقت ہی میرے بارے میں پتہ کسے چلا جب وہ میرے پاس تھی؟ پھر ماہم کا ہی مجھے یہ مشورہ دینا کہ میں اسلم چوہدری کے پاس جاﺅں اور پھر میری ضمانت کے طور پر میرے گھر میں رہی۔ مجھے ان سوالوں کا جواب قطعاً نہیں سوجھ رہا تھا۔ رات کے آخری پہر میری آنکھ لگی تھی، پھر صبح ہی صبح ماہم کی فون کال پر ہی میری آنکھ کھلی تھی کہ میں اس کا ڈیپارٹمنٹ کی کینٹین انتظار کروں اور ممکن ہو تو اپنے دوستوں کو بھی بلالوں اور اس وقت تک میں ان سب کا منتظر تھا مگر اب تک کوئی بھی وہاں نہیں پہنچا تھا۔
اس وقت ویٹر میرے سامنے جو شاندہ نما چائے کا دوسرا کپ رکھ کرجا چکا تھا جب کینٹین سے ذرا فاصلے پر فوراً گاڑی رکی اور اس میں سے اسد نمودار ہوا۔ اس کے ساتھ ہی یکے بعد دیگرے کئی گاڑیاں رکتی چلی گئیں اور کایف، تنویر، رخشندہ اور رابعہ چلتے ہوئے میرے اردگرد پڑی کرسیوں پر آن بیٹھے۔ وہ کچھ دیر خاموش میرے پاس بیٹھے رہے۔ پھر اسد نے ہولے سے کہا۔
”بولو ابان، ہمیں کس لیے بلایا ہے؟“
”میں نے تم لوگوں سے ایک مشورہ کرنا ہے۔ کیونکہ میں اب بھی تم لوگوں کو اپنا دوست خیال کرتا ہوں“۔ میں نے کافی حد تک خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”کہو، کیا کہنا چاہے ہو؟“ تنویر نے پہلو بدلتے ہوئے کہا۔ تو میں نے سب کی طر ف دیکھا اور بولا۔
”میں ماہم سے شادی کرنا جارہا ہوں، آپ لووگں کیا کیا خیال ہے؟“
”اوہ....!“ اسد نے سیٹی بجانے والے انداز میں کہا پھر مسکراتے ہوئے بولا۔ ”یار، یہ تمہارا مسئلہ ہے اور خالصتاً نجی معاملہ ہم سے اس بارے کیا مشورہ کرنا، ہم پہلے ہی جانتے تھے کہ تم اس سے محبت کے چکر میں ہو اور ایک دن اس نے یا اس کے باپ نے ہمارے راستے میں آنا ہے، وہ وقت ہمارے ایسے کمزوری بن جائے، اس لیے پہلے ہی ہم نے تم سے کنارہ کشی کرلی“۔
”اس میں ہم سے مشورہ لینے کی کوئی ضرورت نہیں، ہاں اگر تم یہ چاہتے ہو کہ یہاں رہ کر تم ہمارے تحفظ میں رہویا پھر ماہم کے باپ سے بچائے رکھیں تو اس پر سوچا جا سکتا ہے“۔ کاشف نے کچھ اس انداز میں کہا کہ ناچاہتے ہوئے بھی میرے تلخی گھل گئی۔
”دیکھو کاشف....! تم لو گجو کچھ سوچ رہے ہونا، ایسا کچھ نہیں ہے۔ مجھے ت لوگوں کی ایسی مدد نہیں چاہئے، جس میں تم لوگ مجھ پر کوئی احسان کرو یا مجھ پر ترس کھاﺅ، شاید تم لوگوں نے میری بات نہیں سمجھی، میں اب بھی تمہیں دوست کہہ رہا ہوں“۔
”چلو، ہم نہیں جانتے تمہیں اپنا دوست، پھر تم کیا کر لو گے....؟“ کاشف نے براہِ راست میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے غرا کر کہا جس میں اس کے اندر کی نفرت بھی چھلک رہی تھی۔
”ٹھیک ہے، آﺅ تم لوگ اب بھی مجھے شک کی نگاہ سے دیکھتے ہو اور ایسا فقط ماہم کی وجہ سے ہے تو مجھے تم لوگوں سے کوئی شکوہ نہیں ہے“۔ یہ کہہ کر میں اٹھنے لگا تو رخشندہ فوراً بول اٹھی۔
”کاشف غلط کہہ رہا ہے ابان، ضروری نہیں کہ اس کی رائے سب لوگ مان لیں“۔
”رخشی، تم کیسے غلط کہہ سکتی ہو کاشف کو....“ اسد نے تیزی سے پوچھا۔
”اس لیے کہ اسے ماہم سے نہیں، اس کے باپ سے پر خاش ہے، اس کی نفرت میں وہ ماہم کو پسند نہیں کر رہا حالانکہ چند دن پہلے تک ہی ماہم اس کے لیے ایک سیڑھی تھی، جن کے ذریعے وہ اس مقام تک پہنچا ہے کہ کیمپس پر اپنی گرفت کر سکے۔ حقیقت یہی یہ، اب آگے جو تم سب کا فیصلہ ہے“۔
”تم نے کوئی نئی بات نہیں رخشی، ماہم نے ہمیں استعمال کیا اور ہم نے اسے .... لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ ہمارے مقصدی کو ہائی جیک کرے.... میں ایسا نہیں ہونے دوں گا“۔ کاشف نے شدت سے کہا۔
”دیکھو جب ابان اور ماہم کے معاملات میں ہم مداخلت نہیں کر رہے۔ و ہ جو چاہیں سو کریں۔ انہیں بھی کوئی ق نہیں پہنچتا کہ وہ تنظیم کے معاملات میں دخل اندازی کریں“۔ رابعہ نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”یہی تو میں انہیں بتا رہا ہوں۔ اس کے ساتھ ہماری ڈیل تھی، وہ ختم ہو گئی۔ اب ہمارے معاملات میں اسے دخل اندازی نہیں کرنا چاہئے اور ایسی صورت میں بھی جب اس کا تعلق دشمنوں سے ہو“۔ اس بار کاشف نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا تو میں نے سب کی طرف دیکھا اور پھر کاشف کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”اوکے.... تم لوگوں کی اب اپنی راہ ہے اور میری اپنی اب جبکہ ماہم میری ہو جانے والی ہے تو میں بھی یہ برداشت نہیں کروں گا کہ کوئی اس کے معاملات میں حائل ہو۔ میرے بازوﺅں میں ابھی اتنی قوت ہے کہ میں نے صرف تم لوگوں کی بلکہ اسلم چوہدری کی بھی مخالفت کا مقابلہ کر سکتا ہو۔ جب بھی چاہو آزما لینا“۔میرے یوں کہنے پر اچانک سب خاموش ہو گئے۔ پھر رخشندہ نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔
”فضول بحث ہے یہ سب ، تم لوگ خود غلط راستے پر جارہے ہو۔ میں اب بھی یہی کہتی ہوں کہ ابان غلط نہیں ہے، یہ اب بھی ہماری قوت ہے۔ ہم خواہ مخواہ اس پر شک کرتے چلے جارہے ہیں۔ ماہم ہمارے کبھی خلاف نہیں گئی۔ لہٰذا میں ان کی ....“
”اسد جو فیصلہ کرے گا، ہمیں منظور ہو گا“۔ کاشف نے اچانک کہا تو سب اس کی طرف دیکھنے لگے۔ میں سمجھ چکا تھا ۔ کاشف سدا بوجھ اس پر ڈالنا چاہتا تھا۔ اس دوران کوئی بھی سازش اس کے خلاف کی جا سکتی تھی۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ اسد کس طرح بھی کمزور ہو۔ وہ ساری گفتگو میں تنویر ایک بار بھی نہیں بولا تھا۔ وہ خاموشی سے ساری گفتگو سنتا چلا گیا تھا۔ اس نے اپنی کوئی رائے نہیں دی تھی۔ یقینا وہ الجھن میں تھا یا پھر تذبذب کا شکار ہو گیا ہوا تھا۔ اس سے پہلے وہ بولتا، میں نے حتمی لہجے میں کہا۔
”مجھے اسد کے فیصلے کی نہیں، مشورے کی ضرورت تھی، تم سب کی باتیں سن کر اب مجھے بھی کوئی ضرورت نہیں رہی۔ اب یہ میری مرضی ہے کہ میں اب کیا کرتا ہوں۔ اﷲ حافظ ....“ یہ کہہ کر میں اٹھا اور اپنی گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ ماہم نے یہیں آنا تھا لیکن وہ ابھی تک پہنچ نہیں سکی تھی۔ مجھے اس کا انتظار کرنا تھا مگر اب میں ان لوگوں کے پاس بھی نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ میں سمجھ چکا تھا منافق لوگوں کی سازشیں اپنا بھرپور کام کر رہی تھیں۔ میں نے فون نکالا اور ماہم نے نمبر پش کردیئے۔ اس نے فوراً ہی فون پک کرتے ہوئے کہا۔
”میں بس قریب ہی ہوں، ابھی پہنچ رہی ہوں، چند منٹ میں....“
”تم اب کینٹین تک نہیں آﺅ گی۔ بلکہ ڈیپارٹمنٹ آﺅ۔ وہیں ملتے ہیں“۔
”اوکے....!“ اس نے بے ساختہ کہا اور فون بند کر دیا۔ میں نے پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھا بلکہ اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ڈیپارٹمنٹ چلا گیا۔ میں نے گاڑی پارکنگ میں نہیں لگائی، بلکہ ڈیپارٹمنٹ کے باہر کھڑی کر کے ماہم کا انتظار کرنے لگا۔ چند منٹ بعد پہنچ گئی۔ اس نے میرے برابر گاڑی روکی اور باہر نکل آئی۔اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔ میرے قریب آ کر بولی۔
”ابان....! خیرت تو ہے نا....؟“
تب میں نے کینٹین پر ہونے والی گفتگو کی ساری رو داد اسے سنا دی۔ وہ خاموشی سے سنتی رہی۔ پھر مسکراتے ہوئے بولی۔
”مجھے یقین تھا کہ ایسے ہو گا۔ میں چاہتی تھی کہ ہماری شادی میں وہ سب لوگ شریک ہوتے، مگر میں کاشف کو بہت حد تک سمجھ گئی ہوں۔وہ فقط مجھے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ کیمپس پر جو وہ گرفت کر چکا ہے، اس کے کو جانے کا ڈر ہے اسے ، دل تو کرتا ہے“۔ وہ دانت پیستے ہوئے بولی، پھر کہتے کہتے رک گئی۔
”کیا دل کرتا ہے....“ میں نے دلچسپی سے پوچھا۔
”یہی کہ اس کا ڈرختم ہی کر دوں۔ وہ جن کے لیے کام کر رہا ہے ، انہیں بتادوں کہ میں کسی خوف سے نہیں صرف ابان کی محبت میں پیچھے ہٹ کر اس کھیل میں سے اہر ہو گئی ہوں.... خیر....! ہمیں کیا، اب ہم اپنی ایک نئی زندگی کی ابتداءکرنے جارہے ہیں تو ہمیں ان سب الجھنوں کو نظر انداز کر دینا ہو گا“۔ آخر لفظ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں کافی حد تک رکناہٹ بھرگئی تھی۔
ماہم، تیرے اور میرے قانونی اور مذہبی بندھن میں بند ھ جانے میں اتنا وقت نہیں لگے گا، ہم ابھی کورٹ میں جا کر ایک ہو سکتے ہیں، لیکن کیا یہ اچھا نہیں ہے کہ ہم اپنے فیصلے پر ایک دفعہ پھر غور کرلیں“۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو میرے لفظوں نے اس کے چہرے پر حیرت بکھیر دی، وہ تیزی سے بولی۔
”مگر کیوں؟“
”کیونکہ جن الجھنوں کو تم اور میں نظر انداز کر رہے ہیں، وہ حقیقت ہیں، امنڈتے ہوئے خطرے کو خرگوش کی مانند آنکھیں بند کر کے دور نہیں کیا جا سکتا۔ ہم نے یہ فیصلہ تو کر لیا کہ ہم ایک ہو جائیں، محض چند گھنٹوں میں اس پر عمل درآمد بھی ہو جائے گا، لیکن اس کے بعد کیا وہ گا....؟ یہ شاید ہم نے نہیں سوچا“۔ میرے کہنے پر وہ چند لمحے میرے چہرے پر دیکھتی رہی۔ خاموش میں کتنے ہی لمحے گزر گئے۔ تب وہ آہستگی سے بولی۔
”تم ٹھیک کہتے ہو، ہم یہ بھی سوچ لیتے ہیں۔ آﺅ سبزہ زاد چلتے ہیں“۔ یہ کہہ کر میری رائے جانے بغیر وہ اپنی گاڑی کی طرف چل دی۔ جس وقت وہ ڈیپارٹمنٹ سے نکلی، اس وقت میں بھی گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔ ہم دونوں ہی اکٹھے کیمپس سے نکلے تھے۔ اس دن مجھے یقین تھا کہ آج کوئی نہ کوئی اہم فیصلہ ضرور ہو جانا ہے۔
l l l
میں اور ماہم سبزہ زاد کے ٹی وی لاﺅنج میں آنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم اب تک کی ہونے والی ساری باتیں زیر بحث لا چکے تھے۔ یہاں تک کہ خاوشی ہمارے درمیان آٹھہری تھی۔ کتنے ہی لمحے دبے پاﺅں گزر گئے تو ماہم ہی نے اس خاموشی کو توڑا۔
”ابان....! ہم اب تک جو باتیں کر چکے ہیں ان کا نچوڑ یہی ہے کہ ناکہ آپ کی اور میری شادی کے بعد ہمیں پاپا کی مخالفت کا بہر حال سامنا کرناپڑے گا اور آپ اس کے لیے تیار نہیں ہو۔ کیونکہ آپ کے دوست آپ کو میری وجہ سے چھوڑ چکے ہیں۔ یہی بات ہے نا“۔
”بالکل....! تم ٹھیک سمجھی ہو۔ اصل میں تمہارے پاپا کو جو سیاسی پس منظر ہے نا، میں اسے کمزوری بنا سکتا ہوں، جسے وہ اپنی طاقت گردانتے ہیں اور یہی سیاسی پس منظر ہی کی وجہ سے سارے دوست متنفر ہوئے ہیں“۔ میںنے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”اوکے....! یہ ساری باتیں ہو گئیں، حالات جو بھی ہیں اور جیسے بھی ہیں، ہمارے سامنے ہیں کیا ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہم اپنا رادہ ترک کر دیں یا پھر جو فیصلہ کر لیا ہے اس پر عمل کریں“۔ اس نے ختمی انداز میں پوچھا۔
”بالکل تمہارا یہ سوال بنتا ہے۔ میں کبھی بھی نہیں کہوں گا کہ حالات سے شکست کھا کر ہم اپنا ارادہ تبدیل کردیں۔ ہم اپنے فیصلے پر عمل کریں گے“۔ میں نے پُر سکون لہجے میں کہا۔
”مگر کب.... اور کیسے؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”دیکھو ماہم ہمارا ابھی اور اس وقت شادی کرلینا بہت آسان ہے۔ تمہارے پاپا کی مخالفت سے بچنے کے لیے ہم یہاں سے بھاگ کر کہیں اور بھی جا سکتے ہیں، لیکن ذرا یہ سوچو، یہ کوئی بہادری تو نہیں ہے۔ یہ ہم نے اپنی بات نہیں سنوائی بلکہ بغاوت کی ہے۔ تمہارے پاپا کی عزت کیا رہ جائے گی“۔ میں نے پھر اسے سمجھایا۔
”وہ تو ٹھیک ہے، لیکن اب ہم کریں کیا؟ چند دوستوں کی ناراضگی اور پاپا کے نہ ماننے کی وجہ سے آپ ہمت ہار گئے جبکہ میں ضد کر چکی ہوں اور اپنی ضد پوری کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے غصے میں پھنکارتے ہوئے کہا تو میں چونک گیا۔
”ماہم ، کیا تم یہ شادی اپنی ضد کی وجہ سے کر رہی ہو؟“
”شاید میں غلط کہہ گئی، شادی تو میں اپنی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کے کر رہی ہوں، لیکن !.... ہر طرف مخالفت کی وجہ سے میں ضد پر اتر آگئی ہوں اور میں نے ضد پوری کرنی ہے“۔ اس نے پورے اعتماد سے کہا۔
”پھر سوچ لو، بعد میں ہمیں بڑی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا“۔ میں نے اسے مزید جانچا تو پھر ختمی انداز میں بولی۔
”ابان....! میں اب ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ کیونکہ میں نے پاپا سے کہہ کہ میں نے آپ ہی سے شادی کرنا ہے“۔
”ٹھیک ہے آﺅ چلیں، کورٹ چلتے ہیں اور شادی کر لیتے ہیں“۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”ایک منٹ....! تمہارے ذہن میں کیا ہے، اگر کوئی تجویز ہے تو بتاﺅ؟“ وہ اسی تیزی سے بولی۔
”میرا مشورہ تب بھی یہی تھا اور اب بھی یہی ہے کہ تم اپنے پاپا کو مجبور نہیں ، قائل کرو اور جب وہ اجازت دے دیں تو ہم شادی کر لیں گے.... ویری سمپل ....“ میں نے عام سے لہجے میں کہا۔
”یہ اتنا سمپل نہیں ہے جتنا آپ نے کہہ دیا۔ وہ تب مانیں گے جب انہیں مجبور کیا جائے گا۔ وہ پائل ہونے والوں میں سے نہیں ہیں“۔ ماہم نے میری طرف گہری نگاوہں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
”ہاں، یہ ہوئی نابات، وقت لے کر انہیں قائل کیا جائے، یہاں تکہ وہ اپنی مرضی کے خلاف نہیں بلکہ اپنی مرضی سے ہماری شادی کر دینا چاہئیں۔ ظاہر ہے، وہ میرے بارے میں جاننا چاہیں گے، میرا خاندان پوچھیں گے، میرے مستقل کو پرکھنا چاہیں گے، ماہم تو اکلوتی ہو۔ وہ تمہارے بارے میں جو جذبات رکھتے ہیں، اسے کوئی دوسرا نہیں سمجھ سکتا، انہیں تمہاری شاید کہیں نہ کہیں کرنی ہے۔ صرف تمہاری پسند ہی ان کے اطمینان کے لیے کافی نہیں ہے“۔ میں نے اسے ایک دوسرے پہلو سے سمجھانا چاہا۔
”میں جانتی ہوں اور سمجھتی بھی ہوں۔ اصل میں وہ مجھے اپنے خاندان میں بیاہ دینا چاہتے ہیں، وہ انتہائی اجڈ ہیں۔ اب یہ بات نہیں کہ ان میں تعلیم یافتہ نہیں ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ ہو کر بھی اجڈ ہیں“۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے چونک کئی پھر میری طرف دیکھ کر بولی۔ ”ویسے ابان....! نہ میں نے آپ کے بارے جاننے اور پرکھنے کی کوشش کی اور آپ نے کبھی میرے بارے میں پوچھا۔ ہم اچانک ایک دوسرے کے اتنا قریب آگئے“۔ اس کے لہجے میں حیرت تھی۔
”میں تمہیں ایک بات بتاﺅ ماہم حالات کے باعث ایک دوسرے کے قریب آگئے۔ اس میں محبت کم اور ضد زیادہ شامل ہے۔ یہ تم مانو گی“۔ میرے یو کہنے پر وہ کئی لمحوں تک میری جانب دیکھتی رہی۔ پھر دھیرے دھیرے سر ہلاتے ہوئے بولی۔
”ہاں....چ میں اعتراف کرتی ہوں کہ حالات ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آئے ہیں لیکن جہاں تک محبت کی بات ابان، میں اپنا آپ تمہارا چکی ہوں آپ کے سامنے.... آپ اسے میری کمزوری بھی کہہ سکتے ہو“۔
”میں تمہاری کس کمزوری سے نہیں کھیلنا چاہتا ہوں ماہم۔ میں تمہیں اپنے بارے میں بتاﺅں گا اور پوری تفصیل سے بتاﺅں گا اور اس طرح میں تمہارے بارے میں بھی نہیں پوچھوں گا، میں صرف ایک بات ، ایک پہلو واضح کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہے محبت! ہم محبت کی کس سطح پر ہیں محبت خود غرض نہیں ہوتی کیونکہ وہ اپنا آپ منوا لینا جانتی ہے ۔ تمہارے پاپا یہ نہ سمجھیں کہ میں نے تمہیں ورغلایا، تمہیں چھیلنا یا بہکایا، بلکہ وہ اعتراف کریں کہ تمہاری محبت اور میری محبت ہم دونوں کو اس مقام تک لے آئی ہے کہ ہم ایک ہونا چاہتے ہیں۔ میرا یہی مو ¿قف ہے، اب جیسے تم چاہو، ہو گا تو وہی نا....“ میں نے اپنی وضاحت اس کے سامنے رکھ دی اور فیصلہ بھی اس پر چھوڑ دیا۔ وہ چند لمحے سوچتی رہی۔ پھر سکون سے بولی۔
”ٹھیک ہے ابان، میں اپنے پاپا کو قائل کروں گی۔ سا کے بعد ہم پورے مان کے ساتھ ایک دوجے ہو جائیں گے تاکہ کسی کو بھی شرمندگی نہ ہو “۔
”یہی میں چاہتا ہوں“۔ میں نے اطمینان کی ایک طویل سانس لے کر کہا۔
”یہ طے ہو گیا، لیکن مجھے دکھ اپنے ان دوستوں پر آرہا ہے جو اچانک آنکھیں پھیر گئے۔ کم از کم ....“ اس نے کیا چاہا کہیں میں نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”تم اپنا مسئلہ حل کرو، ان لوگوں کو میں دیکھو لوں گا“۔
”نہیں، میں آپ کے ساتھ ہوں۔ کم از کم انہیں یہ احساس تو ہو کہ ہم ہیں۔ خاص طور پر کاشف.... اسے معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ہمارے ساتھ کے بغیر کچھ بھی نہیں“۔
”دیکھ لیں گے.... اس میں اتنا پریشان ہونا کی ضرورت نہیں ہے۔ اب پلیز، اس موضوع کو چھوڑ دو۔ وہ ہمارے دوست ہیں اور ہم نے انہیں نقصان نہیں پہنچانا“۔ میں نے کہا تو وہ بھڑک کر بولی۔
”میں انہیں نقصان نہیں پہنچانا چاہتی لیکن انہی احساس دلانا چاہتی ہوں کہ جو کچھ وہ سوچ رہے ہیں،و ہ غلط ہے میں سمجھتی ہوں کہ کاشق انہیں گمراہ کررہ اہے۔ پاپا کی سیاست ہی کی وجہ بناتے ہیں جبکہ میرا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے“۔
”ہم نے اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا ہے کہ ہم اور ہماری مٹی اچھی ہے۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو کہ ہم ان کے خلاف نہیں جائیں گے بلکہ آڑے وقت میں ان کی مدد کریں گے“۔ میں نے اسے سمجھانا چاہا تو وہ جوش جذبات میں کہتی چلی گئی۔
”ابان....! میں تمہیں ایک اپنے انداز سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، یہاں اتنی منافقت ہے کہ میں تمہیں بتا نہیں سکتی، ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں بلکہ جس کا کھاتے ہیں اس کے خلاف سازش کرتے ہیں۔ صرف اپنے اندر کے حسد کی خاطر.... آپ نے شاید حق باہوؒ کا کلام سنا ہے کہ نہیں ایک جگہ وہ کہتے ہیں ک؟؟؟ اُتے.... یہ کیوں کہا۔ اشرف المخلوق کو ایسا کیوں کہا، یہی ناکہ ایک کتا اگر ایک دن کسی کا کھالے.... تو وہ اس کی وفاداری کرتا ہے، لیکن وہ گھٹیا لوگ جو کسی کا کھاتے بھی ہیں اور ان کے خلاف سازش بھی کرتے ہیں۔ وہ کتوں سے بھی بدتر ہیں، کتے ان سے بہتر قرار پاتے ہیں۔ برسوں ساتھ رہنے کے بعد بھی اپنا آپ کتوں سے بدتر ثابت کر دیتے ہیں“۔
”میں تمہاری بات سے اختلاف نہیں کرتا، لیکن تمہاری بات میری رائے ہی کی تصدیق ہے۔ ہم اپنا آپ کیوں گنوائیں وہ کتے ثابت ہو گئے یا کتوں سے بھی بدتر ہمیں تو ایسا نہیں کرناچاہئے“۔ میں ے کہا تو اس نے چونک کر میری طارف دیکھا، پھر اپنا سر ہلاتے ہوئے بولی۔
”آپ ٹھیک کہتے ہو۔ جیسا آپ چاہیں لیکن ایک بات اب بھی میری سمجھ بھی نہیں آئی کہ جب کوئی مدد ہی نہیں لینا چاہتا تو ہم ان کی مدد کیسے کریں گے؟“
”یہ وقت آنے پر تمہیں معلوم ہو جائے گا“۔ میں نے بحث کو سمیٹنے کے لیے کہا تو وہ میرا غصہ سمجھ گئی۔ اس لیے بولی۔
”بہت وقت ہو گیا۔ پتہ نہیں جندوڈا نے کچھ بنایا ہو گا بھی یا نہیں، میں پوچھوں اس سے ....“
”ہاں....! اگر نہیں بنایا تو کسی ریستوران سے لے آئے۔ بلاﺅ اسے....“ میں نے کہا تو وہ اٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی اور میں نے سکون کا سانس لیا۔
ماہم بہت تیز حل پڑی تھی اور ایسا اس نے محض جذبات میں کیا تھا۔ اس ساری بحث میں اس نے یہ تسلیم کیا تھا کہ اگرچہ وہ مجھ سے محبت کرتی ہے لیکن اس میں ضد کا عنصر بھی شامل تھا۔ میں چاہتا تو اپنے مقصد کے لیے ابھی اس وقت اسے استعمال کر لیتا لیکن میرے نزدک ماہم کا احترا م لازم تھا۔ وہ کوئی شے نہیں تھی کہ اس کا استعمال کر لیا جاتا اور بعد میں کسی ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا جاتا۔ لوگ ایسا کرتے ہیں لیکن ان کا شمار انتہائی گھٹیا لوگوں میں ہوتا ہے۔ جن کو اپنی اوقات نہیں ہوتی اور نہ ہی حیثیت، ماہم اگر میرا ذریعہ تھی تو میں اسے اسی قدر اہمیت، عزت اور حکام بھی دینا چاہتا تھا اور یہ مجھے پر لازم بھی تھا۔
l l l
میں نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کی پارکنگ میں گاڑی روکی اور اپنا بیگ ٹھایا کر باہر آگیا۔ اس وقت میں گاڑی لاک کر رہا تھا جب میری نگاہ کافی فاصلے پر ڈیپارٹمنٹ کے دروازے کے قریب کھڑی رخشندہ اور رابعہ پر پڑی۔ نہ جانے کیوں مجھے اس وقت یہ احساس ہوا۔ یہ دونوں میرے ہی انتظار میں کھڑی ہیں۔ میں نے جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کیا اور ڈیپارٹمنٹ کی طرف چل پڑا۔ لامحالہ مجھے اس دروازے میں سے گزرنا تھا۔ جیسے ہی میں ان کے قریب پہنچا تو رابعہ نے مجھے ہلکے سے آواز دی۔ میں نے ان کی طرف دیکھا اور روک گیا۔ وہ میرے قریب آگئیں۔ سلام و دعا کے بعد رخشی نے کہا۔
”میرے خیال میں آج آپ کی کلاس نہیں ہو گی“۔
”یہ تمہارا خیال ہے یا حقیقت میں بھی ایسا ہے، کیا تم نے یہ معلومات لے لیں ہیں؟“ میں نے جان بوجھ کر اس سے پوچھا۔
”جی، میں نے معلوم کر لیا ہے، لیکن اگر آپ تصدیق کرنا چاہیں تو کرلیں“۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھا۔
”آپ نے ایسی زحمت کیوں کی؟“
”اس لیے کہ ہمیں آپ سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ جو بہت ضروری ہیں“۔ وہ اسی مسکراہٹ میں تحمل سے بولی۔
”چلیں میں آپ کی معلومات سے متفق ہوں کریں باتیں....“ میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا۔
”کہیں بیٹھتے ہیں، یہاں کھڑے کھڑے تو تھک جائیں گے“۔ وہ ہکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولی۔ اس کا اشارہ کینٹین کے لان کی طرف تھا۔ ہم تینوں ادھر بڑھ گئے۔ نائبر کی کرسیوں پر ایک گوشے میں براجمان ہوتے ہی رخشندہ نے کہا۔
”ابان....! کل جو آپ کہنا چاہ رہے تو دوستوں نے محض جذبات میں آ کر اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ حالانکہ آپ اپنی جگہ درست تھے اور میں سب دوستوں نے اس پر بہت بات کی۔ بڑی بحث ہوئی۔ جس کے نتیجے سے ہم آپ کو آگہ کر ناچاہتی ہیں“۔
”رخشی....! میں وہ ضرور سننا چاہوں گا“۔ میں نے تحمل سے کہا۔
”دیکھیں ابان.... یہ محبت، پیار اور عشق اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہمارے معاشرے میں جنس مخالف کے درمیان چلے ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے۔ میں یہاں محبت پیار اور عشق کی مائیت پر یا سا کے ہونے یا نہ ہونے کی وجوہات پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی اور نہی مجھے یہ آتا ہے مگر....! اتنا ضرور سمجھتی ہوں کہ حیون ساتھی کے انتخاب میں بندے کو کم از کم بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرناچاہئے۔ سب دوستوں کا خیال یہ ہے کہ ماہم آپ کو محض ورغلارہی ہے اور صرف استعمال کرنے کی حد تک محبت کا ڈھونگ رچا رہی ہے۔ اس طرح وہ ....“ وہ کہنا چاہتی تھی کہ میں نے پوچھا۔
”سوری، میں تمہاری بات کاٹ رہا ہوں۔ تمہارا اپنا ذاتی خیال کیا ہے؟“
”دیکھیں....! محبت ہو جانا بھی کوئی بڑی بات نہیں، آپ ما شا اﷲ؟؟؟ہیں۔ اﷲ نے آپ کو رنگ ، روپ اور وجاہت سے نوازا ہے۔ آپ کس بھی لڑکی کے دل کی دھڑکن بن سکتے ہیں۔ ایک لڑکی کے لیے آپ میں بہت زیادہ کشش ہے۔ اگر ماہم آپ پر واقعی مر مٹی ہے تو یہ نئی یا انوکھی بات نہیں اور نہ ہی غیر فطری ہے، لیکن محبت ہو جانے اور محبت کی اداکاری کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ بندے کا اندا بتا دیتا ہے کہ وہ کس کیفیت سے گزر رہا ہے۔ ہم فرض کر لیتے ہیں کے ماہم کو آپ کے ساتھ واقعی محبت ہے تو پھر بھی وہ آپ کے لائق نہیں ہے“۔آخری لفظ کہتے ہوئے رخشندہ کے لہجے میں بھاری پن اتر آیا تھا جیسے یہ کہتے ہوئے اسے بہت مشکل ہو رہ ہو۔
”کل بحث بھی اس بات پر ہو ئی تھی“۔ رابعہ نے دھیرے سے کہا۔
”پھر....!“ میں نے اختصار سے پوچھا۔
”یہ یکہ سبھی کا خیال تھا کہ ابان سے اگر ماہم محبت کا دعویٰ کرتی بھی ہے تو ابان کو اس سے شادی نہیں کرنی چاہئے“۔ رابعہ گویا ہوئی۔
”مگر کیوں....؟ وہ وجوبات تو بتائی جائیں“۔ میں نے اس کی بات سے دلچسپی لیتے ہوئے تجسس سے پوچھا تو رابعہ بولی۔
”دیکھیں، ہمارے ہاں ایک بیوی کا تصور یہ ہے کہ وہ گھر چلائے شوہر کی ہو کر رہے، ہر معاملے میں نہ صرف اس کی تابعداری کرے بلکہ اس کا حکم مانتے ہوئے اس کے ماتحت ہو کر چلے، لیکن ماہم کے معاملے میں یہ بات الٹ ہو جاتی ہے۔ وہ اکلوتی ہے۔ اس کے والدین بلکہ پاپا.... والدہ تو بے چاری کی وفات ہو چکی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا داماد جو بھی ہو گھر داماد ہو۔ ماہم کی تربیت بھی چھ ایسے ہوئی ہے کہ وہ حکم چلانا جانتی ہے۔ ایک بیوی نہیں دست راست تو ہو سکتی ہے۔ آپ کا ساتھ مل کر نشانہ بازی تو کر سکتی ہے، لیکن کچن میں کھانا بنا کر نہیں دے سکتی“۔
”اور دوسری بات ابان یہ ہے کہ یہاں وہ کوئی تعلیم حاصل کرنے نہیں آتی۔ محض وقت گزاری ہے یہ اس کی۔ وہ جو لڑکا اس کے پیچھے پڑا ہوا تھا۔ ہاں وہ فرخ چوہدری.... اس سے انتقام کا چکر تھا، وہ یہاں آتی، اس نے اپنے طور پر لوگوں کو استعمال کر کے استے شکست دی اور اب ابان کی محبت میں جال میں پھنسا کر ہمیشہ کے لیے اپنا بنا لینا چاہتی ہے۔ حالانکہ اس کے اپنے خاندان میں بہت سے نوجوان ایسے ہیں جو اس کے شایانِ شان ہیں“۔
”تم دونوں کی باتیں میں سچ مان لیتا ہوں، لیکن....!“ میں نے کہا اور ان دونوں کے چہروں پر دیکھا جہایں تجسس پھیل چکا تھا کہ نہ جانے میں کیا کہنے جارہا ہوں“۔ لیکن یہ کہ اگر وہ کل میرے ساتھ کورٹ میں شادی کر لیتی اور میرے ساتھ رہنے لگتی تو .... وہ تو تیار تھی، آج بھی وہ تیار ہے۔ میں اسے ابھی فون کر کے کہوں کہ وہ کورٹ پہنچے تو وہ وہاں آجائے گی۔ ہم شادی کر لیں گے۔ ماہم کے اس مسئلے کے تناظر میں بتاﺅ۔ تمہاری یہ ساری باتیں میں کہاں فت کروں....“
”وہ ایسے کہ اس کے پاپا کی لٹکتی ہوئی تلوار بھی تو تم لوگوں پر مسلط رہنی تھی نا.... اور آخر کار یہ ؟؟؟ ہونا ہے گھر داماد پر.... کیونکہ اس کے خاندان میں کوئی بھی لڑکا گھر دامادی پر راضی نہیں ہے اور یہ ماہم بھی اس لیے ضد میں آئی ہوئی ہے۔ یہ انہیں بھی نیچا دکھانا چاہتی ہے۔ یہی تو باپ بیٹی میں اختلاف چل رہا ہے کہ اور میری طلاع کے مطابق فرخ چوہدری کے باپ نے بھی رشتے کی بات کی تھی جسے رد کر دیا گیا تھا اور ان میں وجہ تنازع بھی یہی بنی تھی“۔ رابعہ نے اپنی معلومات بتائی۔
”اسلم چوہدری نے یہ سیٹ اور اپنا مضبوط بنانے میں بہت محنت کی ہے۔ فطری سی بات ہے کہ وہ حلقہ اور سیٹ کسی دوسرے کو نہیں دینا چاہتا۔ وہ اسے اپنے گھر ہی میں رکھنا چاہتا ہے ۔ وہ کیسے رکھے، یہی اس کے لیے سب سے بڑا اور اذیت ناک مسئلہ ہے“۔ رخشندہ نے سمجھانے والے لہجے میں کہا تو میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
” اس بحث کا فیصلہ یہ تھا کہ مجھے ماہم سے شادی نہیں کرنا چاہئے“۔
”بالکل....! اس سے ایک خاص حد تک تعلق رکھیں بلکہ سیدھے لفظوں میں یہ کہوں گی کہ آپ اس کے ہاتھوں استعمال نہ ہوں“۔ اس نے ختمی انداز میں کہا۔
”رخشی اور رابعہ....! تم دونوں سمجھ دار ہو، کسی بھی مسئلے کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہو۔ میں مانتا ہوں کے میرے دوست میرے لیے اچھا ہی سوچتے ہیں۔ میں صرف ایک بات پوچھتا ہوں۔ ماہم کے معاملات فقط میری ذات تک محدود رہتے ہیں۔ کیمپس یا اس کی سیاست میں ایک ذرہ بھی عمل دخل نہیں تو پھر کیا خیال ہے؟“ میں نے انہیں اس نکتے کی طرف لانا چاہا جو وجہ تنازع تھا۔ اس پر رخشندہ بولی۔
”میں سمجھ رہی ہوں کہ آپ کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ کاشف کا یہ موقف ہے کہ اس کے پاپا، اس کے ذریعے یہاں اپنی مرضی مسلط کرنا چاہتے ہیں جو کہ ان کی سیاسی مجبوری ہے تو وہ میں نے کل بھی تردید کی تھی۔ ماہم کی مخالفت ہو بھی تو کیا۔ کیا اگر کوئی دوسرا مخالفت کرے۔ اس کا پاپا کس دوسری سمت سے یہ انہیں متاثر کرے تو بھی تو اس کا سامنا کرنا ہے۔ بات یہ نہیں ہے ابان، وہ آپ کی زندگی کو اذیت ناک مرحلے میں داخل ہنے سے بچانا چاہتے ہیں۔ ہم یہاں کتنی دیر رہیں گے، محض دو سال، جس سے آدھا سال تو گزر بھی گیا ہے۔ پھر کس نے کہاں ملنا ہے دوبارہ“۔
”تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ میرے اور ماہم کے تعلق سے کیا کیمپس کی سیاست پر کوئی فرق پڑتا ہے؟“
”نہیں....! وہ لوگ اتنی گرفت کر چکے ہیں کہ کسی بھی مخالفت کا سامنا کر سکیں“۔ رخشندہ تیزی سے بولی۔
”تو پھر انہیں ہمارے معاملات میں بحث نہیں کرنی چاہئے“۔ میں نے پُرسکون انداز میں اپنا مو ¿قف بتایا۔
’دیہ تو آپ ان کے خلوص کو یکسر رد کر رہے ہیں“۔ رخشندہ نےاسی تیزی سے کہا۔
”نہیں ردنہیں کر رہا۔ حقیقت بیان کر رہا ہوں، چلیں، ہم اسے دوسرے تناظر میں دیکھ لیتے ہیں۔ کاشف نے کل ایک وجہ بتائی اور آج تم دونوں اس کی ذات میں کسی کوتاہی کے بارے میں بتا رہی ہو۔ میں کہتا ہوں میری ذات کے لیے اس میں یہ نہ ہو ، تو....؟“
”تو پھر آپ بہت بڑی بھول کا شکار ہیں“۔ رخشندہ نے ختمی انداز میں کہا۔
”اگر وہ ثابت کر دے کہ جو کچھ تم لوگ سوچ رہے ہو، ویسا نہیں ہے تو....“ میں نے اپنی بات بڑھائی۔
”تو کرے.... اگر اس میں تبدیلی آجاتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن ماضی اور فطرت.... انہیں آپ کس خانے میں رکھیں گے....“ رابعہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔
”آپ دونوں کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ اپنی ہی بات کی وکالت کرتی چلی جارہی ہیں، لیکن دوسرے کے نکتہ نگاہ کو سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہی ہیں۔ میں کہتا ہوں وہ سب کچھ سرے سے ہی ہی نہیں ہے جس پر آپ نے فرض کر کے اسے لائن کے دوسری طرف کھڑا کر دیا ہے“۔
”چلیں آپ بتائیں، آپ کس بناءپر اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں ہماری باتوں کو غلط کہہ رہے ہیں۔ میں مان لیتی ہوں کہ کاشف کی سوچ سیاست کا معاملے میں غلط ہے، لیکن باقی تو حقیقت ہے۔ اسے کیسے جھٹلا سکیں گے“۔ رخشندہ نے کافی حد تک غصے میں کہا۔
”دیکھو تم خود کہہ رہے ہو کہ اس کا اپنے پاپا کے ساتھ اختلاف ہے۔ وہ اسے سیاست میں کیوں لارہا ہے۔ خاص طور پر کیمپس کی سیاست میں“۔ میں نے پوچھا۔
”یہی تو بات ہے جسے آپ کو سمجھنا چاہئے۔ ہم تو اسے اختلاف نہیں کہتے۔ کل وہی ماہم ایم این اے یا ایم پی اے بن جاتی ہے تو اس کا شوہر کس کھاتے میں جائے گا۔ سیاست کی عمل ترتیب کیسے پائے گی؟ آپ جیسا شخص جسے ابھی دوسروں کے سہارے کی ضرورت ہے۔ وہ ان کے لیے بہترین داماد ثابت ہو سکتا ہے۔ خدارا اسے سمجھنے کی کوشش کریں“۔
”چلیں آپ نے مجھے معلومات دے دیں اور میں نے لے لیں۔ آپ کا بہت شکریہ۔ میں اگر گھر داماد بن بھی جاتا ہوں تو مجھے کوئی مسئلہ نہیں۔ یہ ایک بات ہے۔ میں ساے چھوڑ دیتا ہوں اور پھر وہ کیمپس کی سیاست میں حصہ لیتی ہے اور بہت مضبوط ہاتھوں کے ساتھ کیمپس میں کاشف اور اسد کے مدمقابل آن کھڑی ہوتی ہے تو پھر.... “ میں نے ایک دوسرے انداز سے ان کی سوچ پڑھنا چاہی۔
”پھر تو وہ کھل کر سامنے آجائے گی نا.... تب جوہو سکے گا اس کے ساتھ سلوک وہ گا۔ اب اگر اسے برداشت کیا جارہا ہے تو صرف آپ کی وجہ سے۔ ورنہ وہ کیمپس میں قدم نہ رکھ سکتی“۔ اس بار رخشندہ کافی حد تک برہم ہو گئی تھی۔
”آپ لوگ اسے نہیں روک سکتے۔ نہ ہی کاشف میں ابھی اتنی ہمت ہے ۔ یہ ٹھیک ہے میں ان کے معاملات سے الگ رہا ہوں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پرانے دوستوں کو اس لیے پیچھے دھکیل دیا جائے کہ کہیں وہ ان کی راہ میں اوڑھ نہ اٹکا دیں۔ انہیں من مانی کرنے سے روکیں۔ ایسے نہیں کرتے۔ یہ بات اپنے دوستوںکو سمجھا دینا۔ ماہم چاہے تو کیمپس پر گرفت کر سکتی ہے“۔
”اس کا مطلب یہ ہوا ابان کہ جو کچھ کاشف سوچ رہا ہے وہ غلط نہیں “۔ رخشندہ نے کافی حد تک حیرت سے کہا۔
”اب اس کا جو بھی مطلب نکالیں آپ لوگ.... میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ خواہ مخواہ کسی کی مخالفت مت کرو، رخشی میں اسے بہت قریب سے جانتا ہوں۔ وہ میری محبت میں اپنا سب کچھ قربان کر سکتی ہے“۔ میں نے یونہی ایک بات پھینک دی تاکہ اس کا ردعمل دیکھوں۔
”یہ آپ کی بہت بڑی بھول ہے کہ وہ اپنا سب کچھ آپ کے لیے قربان کر سکتی ہے“۔ رخشندہ نے ختمی انداز میں کہا۔
”چلو، تمہیں ایسا کون سا ثبوت چاہئے کہ جس سے یہ بات ثابت ہو جائے ، بلکہ میرا یہ دعویٰ سچ ثابت ہو“۔ میں نے پوچھا تو وہ ایک لمحے کے لیے سوچ میں پڑ گئی۔ شاید میرے لہجے میں معصود اعتماد نے اسے ڈگمگا دیا تھا۔ پھر وہ سوچ کر بولی۔
”آپ کی ذات پر اس کا اور اس کے پاپا کا اختلاف سامنے آجائے“۔
”بس اتنی سی بات....“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”ایسا ہو گا نہیں۔ شاید آپ کو نہیں معلوم ، یہ اختلاف اگر عوام میں گیا۔ تو اس کی سیاسی ساکھ ٹوٹ کر رہ جائے گی۔ اس کا سارا فائدہ فرخ چوہدری کو ہو گا۔ جو ان کے سب سے بڑا سیاسی مخالفین ہیں“۔
”مجھے اس سے غرض نہیں کہ کس کو فائدہ ہوتا ہے اور کس کو نقصان۔ مجھے تو فقط یہ ثابت کرنا ہے کہ اس کا اور اس کے پاپا کا میری ذات کے لیے اختلاف ہو گیا اور میرا وعدہ رہا رخشی کہ میں اس معاملے میں ایک لفظ بھی ماہم سے نہیں کہوں گا“۔ میں نے اعتماد سے کہا تو رابعہ نے جذباتی ہوتے ہوئے لرزتی آواز میں کہا۔
”اگر ایسا ہے نا ابان تو میں سب سے پہلے آپ کی طرف دار ہوں گی۔ چاہے کچھ بھی ہو جائے“۔
”چلیں یہ معاملہ اب ہم تینوں کے درمیان ہے۔ دو ہفتوں میں اگر یہ ثابت ہو گیا تو پھر تم سب کو میری بات ماننا پڑے گی، ورنہ میں تم لوگوں کی بات مان لوں گا اور ماہم کا سب سے بڑا مخالف میں ہوں گا، میں اسے اس کیمپس میں قدم نہیں رکھنے دوں گا۔ چاہے جتنی مرضی مخالفت ہو جائے اور تم لوگ بھی میرا ساتھ نہ دو....“ میں نے یوں اعتماد سے کہا کہ ان دنوں کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ وہ چند لمحے یونہی بیٹھی رہیں۔ پھر رخشندہ ھیرے سے بولی۔
”ٹھیک ہے۔ ڈن ہو گیا۔ رابعہ ہی نہیں، میں بھی آپ کے ساتھ ہوں گی۔ چاہے کاشف میرے خلافت ہوجائے“۔
”چلو، ہماری بحث ختم، اب اس پرکوئی بات نہیں ہو گی۔ بولو، کیا کھاﺅ پیﺅ گی۔ خاپی پیٹ بحث بھی بری لگتی ہے۔ میں نے کہا تو کھل کر ہنس دیں۔ تب میں نے ویٹر لڑکے کو اشاہ کر دیا اور ہماری باتیں کیمپس کے تازہ ترین حالات پر ہونے لگیں۔
l l l
No comments:
Post a Comment