Friday, 29 September 2017

کیمپس۔۔ امجد جاوید۔۔ قسط نمبر 12

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر 12
اسلم چوہدری نے اپنی بیٹی کو بچانے کے یہ سارا مدعا کسی اور پر ڈال دیا تو....؟ یہ اور ایسے ہی کئی سوال میرے ذہن میں گردش کرتے چلے گئے۔ میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ میں جو بڑے ٹھنڈے انداز سے اپنے مقصد کے حصول میں لگا ہوا ہوں اور دوسرے ہی معاملات میں پھنستا چلا جارہا ہوں، ان سے نکلنا ہو گا۔ میں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ میرا سیل فون بج اٹھا۔ دوسری طرف ماہم تھی۔ میں نے جلدی سے کال ریسیوکرلی۔
”ہاں لوبوماہم....!“
”پاپا کی پولیس والوں سے اور فخرالدین سے طویل بات ہوئی ہے۔ پاپا چاہتے ہیں کہ فرخ کو واپس کر دیا جائے لیکن اس کے لیے کچھ شرائط منوالی جائیں“۔
”وہ کیا شرطیں ہیں، کچھ کہا تمہارے پاپا نے ....؟“ میں نے پوچھا۔
”نہیں ، وہ چاہتے ہیں کہ میرے کیمپس فیلو ہی فیصلہ کریں“۔ اس نے جھجکتے ہوئے کہا۔
”میں سمجھ نہیں سکا تم کہنا کیا چاہتی ہو؟“ میں الجھتے ہوئے بولا۔
”پاپا چاہتے ہیں کہ آپ، کاشف اور عدنان جو فیصلہ کریں، انہیں وہی قبول ہو گا، لیکن وہ آپ سب سے پہلے ملنا چاہتے ہیں تاکہ پہلے خود میں یہ طے ہو جائے اور پھر فرخ کو فخرالدین کے حوالے کیا جائے، باقاعدہ کچھ معززین کے سامنے تاکہ انہیں احساس ہو کہ فرخ کیا کچھ بے غیرتی کرتا رہا ہے اور کس مقصد کے لیے اسے اغوا کیا گیا تھا“۔
’تو پھر....؟“ میں نے جلدی سے پوچھا۔
”یہی کہ صبح آپ سب یہاں پاپا کے پاس آئیں اور ان سے ملیں....“ ماہم پُر جوش لہجے میں بولی۔
”بس یہی بات یا کچھ اور....“
”یہی بات ہو ئی ہے اور اب میں اپنے کمرے میں“۔ اس نے اطمینان سے کہا۔
”ٹھیک ہے، میں صبح بتاﺅں گا، تم آرام کرو“۔ میں نے کہا اور چند الوداعی جملوں کے بعد فون بند کر دیا۔ میں نے جو سوچا تھا، وہی ہوا۔ اسلم چوہدری اس معاملے میں بھی اپنی سیاسی دکان چمکانے کی فکر میں تھا، اب مجھے کیا کرنا ہے یہ تو بعد کی بات تھی مگر میرے بدن میں سنسنی ہونے لگی تھی۔ وہی اسلم چوہدری جسے نیچا دکھانے کے لیے میں اتنی دور سے یہاں آن پہنچا تھا۔ وہ میرا منتظر تھا، میرا اس کے ساتھ رویہ کیا ہونا چاہئے، میں نے یہ بھی فیصلہ کرنا تھا۔ میں نے سیل فون ایک طرف رکھا اور اسی سوچ میں ڈوب گیا۔ میرے لیے وہ ابھرنے والی صبح بڑی سنسنی خیز تھی۔
میرااور اسلم چوہدری کا آمنا سامنا ہوجانے والا تھا، لیکن مجھے پہچان جائے گا یا پھر میں بھی اس کے لیے محض ماہم کا ایک کلاس فیلو ہوں؟ اگر وہ پہچان گیا؟ اگر اس نے نہ پہچانا.... یہ جو ”اگر“ تھا، اس سے بے شمار سوال میرے ذہن میں کلبلانے لگے۔ ہاں یا ناں سے متعلق دونوں طرح کی صورتِ حال میرے سامنے واضح ہونے لگی۔ ایک لمحے کے لیے تو مجھے یہ سب فضول لگا، لیکن بعد میں جب میں نے غور کیا تو مجھے اپنے لائحہ عمل کے لیے کئی پہلو دکھائی دینے لگے۔ ایک طرح سے اعتماد کے ساتھ ساتھ میرے اندر حوصلہ بھی در آیا۔ پہلی بار محسوس ہوا کہ اب مجھے کسی کے سہارے کی ضرورت نہیں، خود اپنے فیصلوں پر عمل کرنا ہو گا۔ یہ سب کیسے ہوتا۔ وقت اور حالات اس کا رخ متعین کر دینے والے تھے۔ رات گہری ہوتی چلی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ دوسرا پہر بھی گزر گیا اور میری آنکھوں میں نیند کا نشان تک نہیں تھا۔ میں سوچوں کے جال سے نکلا تو سونے کی کوشش کرنے کے لیے بیڈ پر لیٹ گیا۔ انہی لمحات میں کاشف کی کال آگئی۔ میں نے اس کال کو ریسیو کر لیا۔
”مجھے پورا یقین تھا کہ تم سوئے نہیں ہو گے“۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”ظاہر ہے معاملہ ہی کچھ ایسا ہے ، اس پر سوچنا تو ہے“۔ میں نے یونہی گول مول بات کر دی۔
”یہ جو ماہم کا باپ ہے نا اسلم چوہدری اور فخرالدین یہ دونوں سیاست دان ہیں۔ ان میں اچھا تعلق چاہے ہو یا نہ ہو لیکن ایک بات طے ہے کہ یہ لوگ اپنی سیاسی ساکھ بچانے کی خاطر کسی کو بھی رگید سکتے ہیں“۔ اس نے غصے والے لہجے میں کہا تو میں نے پوچھا۔
”میں سمجھا نہیں، تم کیا کہناچاہتے ہو؟“
”یہ سیاست دان جو ہوتے ہیں،عوام سے ہٹ کر ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ ان کی اپنی ایک دنیا ہے، جہاں وہ اپنے ہی حمام میں ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہیں۔ جب بات ان کی کمزوریوں کی ہوتی ہے تو یہ ایک دوسرے کو سہارا دے جاتے ہیں۔ خصوصاً جاگیردار عوام کے سامنے جتنے مرضی دشمن دکھائی دیں لیکن آپس میں نہ صرف ان کی رشتے داریاں ہوتی ہیں بلکہ اندر ہی اندر ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھتے ہیں“۔ وہ اسی لہجے میں بولا۔
”یار تم کہنا کیا چاہتے ہو، کھل کر کہو“۔ میں نے کسی حد تک اکتاتے ہوئے انداز میں کہا۔
”میرے کہنے کا مطلب یہ ہے ابان کہ ممکن ہے ان دونوں میں کوئی خاص معاملہ طے پا گیا ہو اور وہ اس میں ہمیں رگڑ دیں۔ اغوا برائے تاوان کا کوئی مقدمہ ہم پر ڈال دیا جائے اور ہم پھنس جائیں“۔ اس نے انکشاف کرنے والے انداز میں کہا تو میں نے اس کی رائے جاننے کے لیے پوچھا۔
”تو پھر کیا خیال ہے تمہارا، ہمیں کیا کرنا چاہئے“۔
”اب میں نہیں جانتا کہ تم نے کیا سوچا ہے مگر مجھے جو سمجھ میں آتا ہے، وہ میں تمہیں بتا دیتا ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لیے رکا، میں خاموش رہا تو وہ بولا۔ ”ہم یہ سارا معاملہ ماہم پر ڈال کر خود الگ رہتے ہیں۔ سامنے ہی نہیں آتے۔ ہمارا مقصد تو حل ہو چکا ہے۔ ماہم کے ذریعے ہی انہیں یہ باور کرا دیتے ہیں کہ فرخ دوبارہ کبھی کیمپس کے معاملات میں نہیں آئے گا“۔ اس نے فیصلہ کن لہجے میں کہا تو میں نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
”مگر میں کچھ اور سوچ رہا ہوں“۔
”وہ کیا ؟“ اس نے جلدی سے پوچھا۔
”وہ یہ کہ ہماری پشت پر بھی تو کوئی سیاسی پارٹی، یا کوئی سیاست دان ہونا چاہئے۔ ہم کیمپس کے اندر جتنی بھی طاقت رکھیں، ہمیں اپنی پشت پناہی کے لیے کوئی نہ کوئی تو چاہئے۔ کیوں نہ ہم یہ آفر اسلم چوہدری کے سامنے رکھ دیں، وہ ہماری ....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”اگرچہ تمہارا خیال بالکل درست ہے۔ تم صحیح ٹریک پر سوچ رہے ہو، لیکن تم کیا سمجھتے ہو کہ ہم یونہی اتنا کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ ہماری پشت پر بھی بہت سارے لوگ ہیں۔ اسلم چوہدری اس میں کوئی شے ہی نہیں ہے۔ اس سے بھی جگادری لوگ ہمارے سر پرست ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان لوگوں سے بچ کر ہمیں کام کرنا ہے۔ ان کے جال میں نہیں پھنسنا“۔
”اوکے....! جیسا تم چاہو، اب ایسا کرو، اسلم چوہدری کے ساتھ جو بھی معاملہ کرنا ہے، وہ تم ہی کر لو“۔ میں نے اسے بتایا۔
”نہیں....! ہمیں اسلم چوہدری کے ساتھ براہِ راست بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے اور نہ ہی اس نے ہم سے بات کی ہے، ہمارے ساتھ تو ماہم بات کر رہی ہے، وہی رابطے میں ہے۔ اب جو بھی ماہم کو سمجھانا ہے یا اسے بتانا ہے وہ تم ہی سمجھا سکتے ہو، کیونکہ وہ ہم سب سے زیادہ تمہاری بات مانتی ہے“۔ کاشف نے اس بار قدرے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”اسے کیا سمجھانا ہے اور کب ....؟“ میں نے حتمی انداز میں پوچھا۔
”ماہم کو یہاں اپنے پاس بلواﺅ یا فون پر ، جس طرح بھی تم مناسب سمجھو، باقی میں بتا دیتا ہوں کہ اس سے کیا کہنا ہے“۔ کاشف نے کہا اور پھر وہ مجھے اسلم چوہدری سے معاملہ کرنے کے پہلو سمجھانے لگا۔ ساری بات بتا کر اس نے فون بند کر دیا تو میں نے ماہم کو فون کر دیا۔ اس نے فوراً ہی فون ریسیو کر لیا۔
”تم ابھی تک جاگ رہی ہو“۔ میں نے حیرت سے پوچھا۔
” ان حالات میں نیند کیسے آسکتی ہے“۔ اس نے خمار آلود لہجے میں کہا۔
”نیند نہیں آرہی ، یا تم سونا ہی نہیں چاہ رہی ہو“۔ میں نے یونہی کہہ دیا۔
”ہاں.... آپ ٹھیک سمجھ رہے ہو۔ جب تک یہ فرخ کا معاملہ حل نہیں ہو جاتا، ذہنی دباﺅ تو رہے گانا....“ وہ تیزی سے بولی۔
”میرے خیال میں اسے اب طویل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ فرخ کو بہت سزا مل چکی ہے۔ میرے خیال میں دشمن کو زندہ رہنا چاہئے اس سے قوت ملتی ہے۔اس نے ایک بار اپنا گھٹیا پن دکھا دیا، دوسری بار دکھائے گا تو پھر اسے ختم کرنا پوری طرح جائز ہو گا“۔ میں نے اسے سمجھایا۔
”میرے خیال میں وہ ایسا نہیں ہے کہ دوبارہ ہمارے راستے میں نہ آئے، وہ کوئی نہ کوئی سازش کرنے کی ، ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش ضرور کرے گا“۔ ماہم نے اکتاتے ہوئے انداز میں کہا تو میں نے بڑے ملائم لہجے میں اس سے کہا۔
”دیکھو....! کتے کے بھونکنے یا کاٹ لینے پر اگرچہ وقتی طور پر درد ہوتا ہے، غصہ بھی آتا ہے لیکن کیا کریں کتے کا، ہاں اگر کتا باﺅلا ہو جائے تو اسے مارنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اس کے کاٹنے سے خود بچنا ہے اور اس کے بھونکنے کی پروا نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ اگر ہم اس کے بھونکنے پر توجہ دینا شروع کر دیں تو اپنا ہی وقت ضائع کریں گے“۔
”آپ کہنا کیا چاہتے ہو، مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے“۔ وہ اسی اکتائے ہوئے لہجے میںبولی۔
”غور کرو گی تو سمجھ جاﺅ گی، فرخ چوہدری بزدل لوگوں میں سے ایک ہے۔ وہ اپنی فطرت سے مجبور ہو کر بھونکے گا تو ضرور لیکن دوبارہ سامنے نہیں آئے گا اور اگر سامنے آگیا تو پھر اس کی موت ہی اسے گھیر کر لائے گی۔ میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کسی شرط شرائط کے بغیر اسے چھوڑ دیا جائے۔ مارنے سے خوف زدہ کر دینا بہتر ہے“۔
”لیکن اگر وہ قانونی چارہ جوئی میں پڑ جاتے ہیں تو....“ اس نے پوچھا۔
”پھر تو وہی سامنے آنے والی بات ہے نا....“ میں نے تیزی سے کہا۔
”اوکے....! میں پاپا سے بات کر کے کاشف سے کرتی ہوں۔ آپ سو جاﺅ۔ ”ماہم نے کہا اور الوداعی جملوں کے بعد فون بند کر دیا۔ میں نے سیل فون ایک طرف رکھا تو نہ جانے کیوں میرے اندر ایک اطمینان اتر آیا۔ شاید میں رولنگ سٹون بننے سے بچ گیا تھا۔
چند دنوں تک کیمپس میں خاصی ہنگامہ آرائی رہی۔ دوبار اچھی بھلی فائرنگ ہوئی۔ ہاسٹلوں پر پولیس کے چھاپے پڑے ۔ کئی لڑکے گرفتار ہوئے۔ اسد، عدنان اور کاشف نے اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کیمپس میں اپنی گرفت بنانا شروع کر دی ہوئی تھی۔ پڑھائی کا تو کہیں دور دور تک خیال نہیں تھا۔ دن رات یہی کوشش تھی کہ کم سے کم نقصان پر زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیا جائے۔ میں اسد پر حیران تھا۔ وہ اک عام سا دکھائی دینے والا لڑکا، جب اندر سے حوصلہ مند ہوا تو اس کی جرا ¿ت کیا سے کیا ہو گئی۔ بعض اوقات انسان کو اپنی صلاحیتوں کے بارے میں پتہ ہی نہیں چلتا۔ وہ خوابیدہ صلاحیتیں خود انسان سے مخفی رہتی ہیں ۔ جن کے بارے میں اگر انسان کو خود معلوم ہو جائے تو وہ حیرت انگیز کمالات دکھا سکتا ہے۔ انہیں بیدار ہونے کے لیے کسی بیرونی شاک کی ضرورت ہوتی ہے۔ کوئی طوفان، کوئی زلزلہ یا پھر سیلاب اسے جھنجھوڑ دے تو خوابیدہ صلاحیتیں خود آنکھوکھول دیتی ہیں۔ پھر کمزور انسان خود اپنے دشمن تلاش کرنے لگتا ہے۔ ان میں بھی وہ معیار چاہتا ہے یعنی سازشی، منافق اور گھٹیا دشمن اس کی نگاہ ہی میں نہیں جچتا۔ وہ انہیں کتے کی بھونک سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے۔ قلندرِ لاہوری حضرت اقبال نے جہاں دیگر فلسفے بیان کیے ہیں، وہاں ان کا ایک فلسفہ یہ بھی ہے کہ انسان کو خطرات میں گھرے رہنا چاہئے، یہی خطرات اسے عام انسان سے خاص بناتے ہیں۔ پھر گھٹیا دشمن اسے بونے دکھائی دیتے ہیں۔ اسد کو دیکھ کر مجھے یہی احساس ہوتا چلا گیا تھا۔ اس نے دن اور رات کو تج دیا تھا۔ وہ وقت کی قید سے آزاد تھا۔ وہ جو اپنی فیس کے لیے فکر مند رہتا تھا، اب ہر وقت گاڑی اس کے نیچے ہوتی تھی۔ وہ جدھر بھی جاتا، ایک قافلہ اس کے ساتھ روانہ ہوتا، کیمپس میں کوئی ایسا بندہ نہیں تھا، جو اسے نہیں جانتا تھا۔ ہنگامہ آرائی سے حالات کشیدہ ہوتے چلے جارہے تھے اور میں کسی بڑے طوفان کی بو سونگھ رہا تھا۔ کیونکہ فرخ چوہدری کو چھوڑ دینے کے بعد انتہائی خاموشی رہی تھی۔
وہ ایک روشن صبح تھی۔ جب میں چار دنوں بعد کیمپس گیا تھا۔ رات تنویر نے فون کر کے مجھے بتا دیا تھا کہ ڈاکٹر نے اسے صبح ڈسچارج کر دینا ہے۔ میں کیمپس اس لیے آگیا کہ وہیں سے اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ اسے لینے ہسپتال جاﺅں گا۔ میں ڈپیارٹمنٹ پہنچا تو چند ہی کلاس فیلو تھے یا پھر سینئر کلاس کے تھوڑے سے لوگ ۔ ذرا سے فاصلے پر ماہم چند لڑکیوں کے ساتھ دائرے میں کرسیوں پر بیٹھی ہوئی تھی۔ شاید انہوں نے اپنی گفتگو ختم کر دی تھی کیونکہ وہ سبھی میری طرف دیکھ رہی تھیں۔ ماہم میری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلانے لگی۔ میں اس کے قریب چلا گیا تو ایک لڑکی نے خوشدلی سے کہا۔
”آپ کو صحت مند دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے“۔
”لیکن ایک بیمار اب بھی ہسپتال میں پڑا ہمارا انتظار کر رہا ہے“۔ میں نے ماہم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا جو کافی حد تک شوخ دکھائی دے رہی تھی۔ میری بات سنتے ہی وہ کھڑی ہو گئی اور بولی۔
”چلو چلیں۔ ابھی کچھ دیر پہلے مجھے اس کا فون آیا تھا۔ میں انتظار کر رہی تھی کہ آپ آجاﺅ، تو پھر اکٹھے ہی چلتے ہیں“۔
”چلو....!“ میں نے واپس پلٹتے ہوئے کہا تو وہ بھی میرے ساتھ چل دی۔ ہم سیڑھیاں اتر کر پارکنگ میں آگئے۔ تبھی اسد کی کال آ گئی جسے میں نے ریسیو کر لیا۔
”ابھی آئے ہی ہو اور جا بھی رہے ہو“۔ اس نے تیزی سے کہا۔
”تم کہاں ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”میں ہاسٹل ہی میں ہوں، لیکن مجھے معلوم ہو گیا ہے کہ تم ڈپیارٹمنٹ میں آئے تھے اور واپس بھی....“
”بڑا تیز نیٹ ورک ہے تیرا....“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔ ”تنویر کو لینے جارہا ہوں ہسپتال سے“۔
”صرف پانچ منٹ رکو، میں بھی آرہا ہوں، اکٹھے چلتے ہیں“۔ اس نے تیزی سے کہا اور فون بند کر دیا۔ مجھے اس کی معلومات پر یا اس کے نیٹ ورک پر اتنی حیرت نہیں ہوئی۔ کیونکہ جو کچھ وہ کر رہے تھے، یہ تو اس کا لازمی حصہ تھا۔
ہم ایک قافلے کی صورت کیمپس سے نکلے تھے۔ ہمارا رخ ہسپتال کی طرف تھا۔ نہ جانے میں کیوں پریشان تھا کہ میرے اردگرد اتنا رش نہیں ہونا چاہئے۔ میں اپنی گاڑی میں اکیلا تھا اور اسی طرح ماہم بھی اکیلی تھی۔ ہم خیر سے ہسپتال پہنچ گئے۔ تنویر ڈسچارچ ہو چکا تھا اور سامان سمیٹ کر بیٹھا ہوا تھا۔ ہم اسے لے کر باہر آگئے۔ جب وہ میری گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اسد نے حیرت سے کہا۔
”اوئے تنویر کدھر، میرے ساتھ آﺅ۔ ہم نے سیدھے ہاسٹل جانا ہے“۔
”یہ میرے ساتھ سبزہ زار جائے گا، وہاں اس کی اچھی طرح دیکھ بھال....“ میں نے کہا تو اسدنے میری بات قطع کرتے ہوئے تیزی سے کہا ۔
”میں مانتاہوں کہ سبزہ زار میں اس کی بہت اچھی دیکھ بھال ہو گی، مگر وہاں اس کا دل نہیں لگے گا، ہاسٹل میں اتنی رونق ہے اور میرے خیال میں بہت سارے لوگ اس کی دیکھ بھال کو ہوں گے۔ تم پریشان نہ ہو“۔ اسد نے مجھے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا تو میں کاندھے اچکا کر خاموش ہو گیا۔ کیونکہ میرے کچھ کہنے سے پہلے تنویر آگے بڑھ کر اسد کی گاڑی میں جا بیٹھا تھا۔ تبھی ماہم نے آہستگی سے کہا ۔
”ٹھیک ہے ابان، اسے جانے دو تنویر کی مرضی اسی میں ہے“۔
”میں نے جانے دیا، اور کوئی حکم“۔ میں نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا تو وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔ یہی قافلہ پھر دوبارہ ہسپتال سے واپس اس شاہراہ پر تھا جو کیمپس کی طرف جاتی تھی۔ ڈپیارٹمنٹ کے پاس آ کر ماہم اس جانب مڑ گئی اور میں ہاسٹل کی طرف چلا گیا۔ تنویر کو سہارا دے کر ایک کمرے تک پہنچایا گیا۔ وہ کمرہ صرف اس کے لیے مخصوص کر دیا گیا تھا،جہاں بیڈ کے ساتھ کرسیاں میز اور اس پر کمپیوٹر، ایک کونے میں ٹیلی ویژن اور دیگر ضروریات کی تمام اشیاءوہاں سجادی گئیں۔ میں کچھ دیر وہاں بیٹھا گپ شپ کرتا رہا۔ پھر واپس ڈپیارٹمنٹ آگیا۔ جہاں ماہم میرا انتظار کر رہی تھی۔ ہم دونوں کا ریڈور میں آمنے سامنے کرسیاں دھر کر بیٹھ گئے۔ میں اسے ہاسٹل میں تنویر کی سہولیات کے بارے میں بتا چکا تو وہ بولی۔
”اب آپ کا کیا پروگرام ہے“۔
”جیسے تم کہو، کیونکہ میرا تو پڑھنے کا موڈ نہیں ہے“۔ میں نے جان بوجھ کر اکتاتے ہوئے انداز میں کہا۔
”تو چلو، پھر کہیں نکل چلتے ہیں“۔ ماہم نے تیزی سے کہا۔
”کہاں جانا ہے، یہیںبیٹھ کر گپ شپ کرتے ہیں۔ کچھ دیر“۔ میں نے اس کی رائے جاننے کے لیے کہہ دیا۔
”میں اصل میں آپ کو بتانا چاہ رہی تھی کہ وہ فخرالدین، پاپا کے پاس آیا تھا رات اور کافی دیر بیٹھنے کے بعد گیا ہے۔ ان کے درمیان کیا باتیں ہوئی ہیں، یہ تو میں نہیں جانتی، لیکن پاپا نے آج صبح مجھ سے یہ کہا ہے کہ میں کاشف اور ابان سے ملنا چاہتا ہوں“۔ وہ عام سے انداز میں کہہ گئی تو میں چوکنا ہو گیا۔ جب بات ہی ختم ہو گئی تھی تو بھر وہ ملاقات کیوں چاہتا ہے؟اب بات یہ تھی کہ اسلم چوہدری اور فخرالدین کی ملاقات کیوں ہوئی؟فطری طور پر ان دونوں میں مخالفت بڑھ جانی چاہئے تھی۔ میں نے یہ سب لمحوں میں سوچا اور بناکسی ردعمل کے عام سے لہجے میں کہا۔
”جب چاہے پروگرام بنا لینا، چلے جائیں گے“۔
”آپ کو نہیں لگتا کہ فخرالدین کوئی بھی سازش کر سکتا ہے،کوئی....“ ماہم نے کہنا چاہا تو میں نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
”جو بھی ہو گا، سامنے آجائے گا، ویسے بھی یہ سارا معاملہ تمہارا ہی تھا۔ حق تو یہی بنتا ہے کہ تم خود اس معاملے کو دیکھو، اب تمہارا پاپا ہی ہمارے خلاف سازش کرے گا، تو کل پھر کوئی بھی تمہارا ساتھ نہیں دے گا اور نہ ہی تمہارے کام کرے گا“۔
”وہ تو میں دیکھ لوں گی، بلکہ یہ سب دیکھ رہی ہوں“۔ اس نے تیزی سے کہا، پھر نہ جانے اس کو کیا ہوا، اس نے آہستگی سے میرا ہاتھ پکڑا اور اسے ہلکے سے دباتے ہوئے بڑے جذباتی انداز میں بولی۔ ”ابان....! اگر سب لوگ میرا ساتھ چھوڑ جائیں۔ تو پھر آپ کا رویہ کیا ہو گا؟“
”میں تب بھی تمہارا ساتھ دوں گا“۔ میں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فوراً کہہ دیا۔
”کیوں....؟“ اس نے جذباتی لہجے میں میں میرے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اس لیے کہ تم میری دوست ہو۔ میں تمہیں اپنا دوست مان چکا ہو۔ اب تمہارے دل میں کیا ہے؟ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں۔ میں گمان بھی نہیں کر سکتاکہ تم میرے لیے برا سوچ سکتی ہو۔ یا تمہارے دل میں میرے لیے کچھ غلط ہے“۔
”ابان....! تم بہت پیارے ہو“۔ اس نے جذبات میں پو ر پور بھیگتے ہوئے کہا۔
”میں پیارا اس لیے ہوں کہ تم بہت پیارا سوچتی ہو“۔ میں نے بھی اس کے جذبات کو ہوا دے دی۔ تب وہ تیزی سے اٹھتے ہوئے بولی۔
”چلو اٹھو، سبزہ زار چلتے ہیں۔ وہاں بیٹھ کر سکون سے باتیں کریں گے“۔
”چلو....“ میں بھی اٹھ گیا۔ ہم دونوں چلتے ہوئے ڈپیارٹمنٹ کے باہر آگئے۔سامنے رابعہ آتے ہوئے دکھائی دی۔ اس کی چال میں تیزی تھی۔ ہمیں دیکھتے ہی وہ رک گئی۔
”خدا خیر کرے....“ میں نے اسے یوں رکتے دیکھ کر بے ساختہ کہا۔ تبھی ماہم بولی۔
”لگتا نہیں ہے، اس کا چہرہ بتا رہا ہے کہ کوئی بات ہے ضرور“۔
”چلو بات کر کے دیکھتے ہیں“۔ میں نے کہا اور اسی کی طرف چل دیا۔ ہم اس سے چند قدم ہی فاصلے پر تھے کہ رابعہ نے ماہم کی جانب انتہائی غصے میں دیکھتے ہوئے میری طرف منہ کر کے کہا۔
”ابان....! مجھے نہیں لگتا تم اتنے بے وقوف ہو کہ ماہم کی چالوں کو نہیں سمجھ سکے۔ میں تمہیں خبردار کر رہی ہو، اس سے بچ جاﺅ اور چھوڑ دو اس کا ساتھ....“
”رابعہ ....! یہ تم کیا کہہ رہی ہو، ہوش میں تو ہو؟“ میں نے انتہائی حیرت سے پوچھا، کیونکہ مجھے توقع نہیں نہیں تھی کہ وہ اسے یوں لتاڑ دے گی۔
”تم نہیں جانتے ابان....! یہ تمہارے ساتھ ہی نہیں بلکہ یہاں کیمپس میں کسی کے ساتھ بھی مخلص نہیں ہے۔ اسے فقط اپنی غرض ہے جس کے باعث یہ ہم سب کو استعمال کرنے کی کوشش رہی ہے“۔ رابعہ نے بلا تردد بے خوفی سے اپنی بات کہہ دی۔
”تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟“ میں نے انتہائی تحمل سے پوچھا کیونکہ میں سرے سے رابعہ کی بات کو جھٹلا نہیں سکتا تھا۔ ایسے خیال تو مجھے بھی آتے رہے ہیں۔
”افسوس تو اس بات کا ہے ابان، یہ بات اس ماہم کو کہنی چاہئے تھی جبکہ تم اس کی وکالت کر رہے ہو“۔ اس نے انتہائی دکھی لہجے میں کہا تو مجھے ایک جھٹکا لگا، میں نے غور سے رابعہ کو دیکھا، پھر ماہم کے چہرے پر نگاہ ڈالی وہ ستے ہوئے چہرے سے مسلسل رابعہ کو حیرت سے تکے چلی جارہی تھی۔ میں نے انتہائی نرمی سے اس کا ہاتھ تھام کر تحمل سے کہا۔
”رابعہ آﺅ پلیز....! ہم کہیں بیٹھ کر سکون سے بات کرتے ہیں“۔ یہ کہتے ہوئے میں نے کیمپس کینٹین کی جانب اشارہ کیا وہ کچھ کہے بغیر میرے ساتھ چل دی۔ میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ ماہم ہمارے پیچھے پیچھے آرہی تھی۔ سبز لان کے ایک گوشے میں کرسیاں ڈلوا کر ہم بیٹھے تو وہ بھی ہمارے قریب آبیٹھی۔ میں نے رابعہ کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا۔ ”بولو، کیا کہنا چاہتی ہو“۔
”تمہارا سیل فون کہاں ہے؟“ اس نے سوال کیا تو میں نے اپنی جیبیں ٹٹولیں، پھر سوچتے ہوئے کہا۔
”ممکن ہے کار میں رہ گیا ہو“۔
”نہیں، تم اپنا سیل فون تنویر کے کمرے میں بھول آئے تھے۔ جسے ابھی تھوڑی دیر قبل اسد مجھے دے گیا ہے اور کہا ہے کہ میں تم سے بات کروں“۔ اس نے کہا تو میں نے فوراً ہی کئی سوال اس سے پوچھنا چاہے، لیکن اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکا اور میرا سیل فون اپنے پرس میں سے نکال کر کہا۔ ”اس پر ابھی کچھ دیر پہلے فرخ چوہدری کی کال آئی تھی۔ اسد نے فون ریسیو کیا۔ فرخ کو شاید پتہ نہیں چل سکا کہ دوسری طرف فون پر کون ہے۔ وہ باتیں کرتا رہا اور اسد نے وہ ساری باتیں ریکارڈ کرلیں۔ لو یہ سنو!“ یہ کہہ کر اس نے گفتگو سنوانا شروع کر دی۔
فرخ چوہدری یہ باور کرانا چاہا رہا تھا کہ اس کے باپ فخرالدین اور اسلم چوہدری میں طے پا گیا ہے کہ وہ آئندہ ماہم کے معاملے میں نہیں آئے گا۔ اگر پہلے معلوم ہو جاتا تو وہ سختی سے فرخ کو روک دیتے اور مل بیٹھ کر یہ مسئلہ حل کر دیتے۔ اس نے یہ یقین دلانے کی کوشش کی کہ اب وہ جو باتیں کر رہا ہے صرف اس لیے کہ آئندہ ماہم سب لوگوں کو استعمال کرے گی۔ اسلم چوہدری اور فخرالدین میں یہ طے پا گیا ہے کہ اگلا الیکشن وہ مل کر لڑیں گے۔ ایک چھوٹی سیٹ پر اور دوسرا بڑی سیٹ پر۔ جہاں تک کیمپس کا معاملہ ہے، وہاں کاشف وغیرہ کی گرفت نہیں ہونے دینی کیونکہ وہ مخالف پارٹی کے لوگ ہیں۔ فرخ سامنے نہیں آئے گا لیکن اب یہ ساری مہم ماہم چلائے گی۔ فرخ اس لیے سب کو خبر دار کر رہا تھا کہ وہ نہیں چاہتا کہ اب آپ لوگوں سے کوئی دشمنی ہو اس کو کیمپس کے معاملات میں نہ دلچسپی ہے اور نہ ہی تعلق۔ اس کی ساری بات کا مطلب یہ تھا کہ اب اسلم چوہدری اور فخرالدین تمام ترسیاسی کھیل اکٹھے کھلیں گے۔ فرخ چوہدری باہر کے معاملات دیکھے گا اور ماہم کیمپس کے معاملات کو اپنے انداز میں درست کرے گی۔ کل کلاں اگر ہمیں کوئی شکایت ہوتی ہے تو اس کی تمام تر ذمے دار ماہم ہو گئی۔ تقریباً سولہ منٹ کی گفتگو سن کر جب میں نے ماہم کی طر ف دیکھا تو وہ تیزی سے حتمی انداز میں بولی۔
”یہ فرخ کی صریحاً کوئی نئی چال ہے“۔
”اس کی یہ باتیں ہوا میں تو نہیں کی گئیں، تم دونوں کے والد نے طے کیا ہے“۔ رابعہ نے تیزی سے کہا جس میں کافی حد تک غصہ بھی شامل تھا۔ اس پر ماہم نے خلاف توقع بڑے نرم اور تحمل بھرے انداز میں کہا۔
”یہ ٹھیک ہے کہ میرے پاپا کی فخرالدین سے ملاقات ہوئی ہے، مگر اس میں کیا طے ہوا کیا نہیں، اس بارے میں بالکل نہیں جانتی کیا تم لوگوں کو یہ بات عجیب نہیں لگتی کہ وہ ایک ہی دن میں طے شدہ معاہدہ توڑ کر اپنی ساکھ محفوظ کر رہے ہیں ۔ میں اب بھی کوئی حتمی بات نہیں کروں گی، میں پہلے تحقیق کرلوں پھر یہ سارا ڈرامہ سامنے لے آﺅں گی“۔
”یہ تو اچھا ہوا کہ اسد نے یہ کال ریکارڈ کر لی، ورنہ تم کہاں مانتی، جیسے اب کال سن کر بھی نہیں مان رہی ہو۔ خیر....! تم ابان، اگر چاہو تو ماہم سے تعلق رکھو، مگر خدا کے لیے اسد لوگ زندگی اور موت کی بازی لگائے بیٹھے ہیں۔ میں جانتی ہوں کہ دشمن کبھی نہیں مارسکتا، جب تک دشمنوں کے ساتھ دوست نہ مل جائیں۔ جو جتنا گہرا دوست ہو گا، وہ سب سے بڑا دھوکا دے گا“۔ وہ تیزی سے کہتی چلی گئی تھی۔
”رابعہ.... دوست دھوکا نہیں دیتے۔ منافق دھوکہ دیتے ہیں۔ کیونکہ وہ کبھی دوست ہوتے ہی نہیں ہیں“۔ ماہم نے آہستگی سے کہا تو میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کسی منافق کے دھوکے کی وجہ سے جو نقصان ہو جائے یا کوئی بندہ اذیت سے گزرے تو میرا خیال ہے وہ ٹھیک ہے۔ اس کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ وہ کیوں نہیں اپنے اردگرد منافق لوگو ںکو پہچان سکا۔ اسے سزا ملنی چاہئے کہ اس نے منافق اور بے غیرت لوگوں کو اپنے قریب ہی کیوں بیٹھنے دیا۔ بندے کو اتنی تو پہچان ہونی چاہئے“۔
”یہی میں کہہ رہی ہوں“۔ رابعہ نے تیزی سے کہا۔ ”اگر کسی منافق کے بارے اشارہ مل جائے تو فوراً اس سے تعلق ختم کر لیاجائے، اس میں بھلائی ہے“۔
رابعہ کے یوں کہنے پر ماہم نے ایک گہری سانس لی اور پھر تیزی سے اٹھ کر چل دی۔ہم اسے دیکھتے رہے۔ وہ سیدھی پارکنگ میں گئی، وہاں سے گاڑی نکالی اور تیزی رفتاری سے نکل گئی۔ تب میں نے ایک طویل سانس لے کر کہا۔
”شکریہ رابعہ....! لیکن یہ ممکن ہے کہ یہ بھی توفرخ کی چال ہو۔ ہمیں بہت دیکھ بھال کر قدم اٹھانا چاہئے“۔
”میں سمجھتی ہوں۔ اسی لیے میں نے ماہم کو تھوڑی چبھن دی ہے۔ اگر اس نے اس چبھن کی تکلیف محسوس کی تو وہ یقینا اس کا حل خود ہی نکال کر لائے گی، ورنہ ہم سے دور ہو جائے گی۔ کوئی چاہے دشمن بن کر سامنے رہے ، لیکن یہ معلوم تو ہونا کہ وہ شمن ہے۔ منافق برداشت نہیں ہوتا“۔ وہ تیزی سے کہتی چلی گئی۔
”اوکے....! میں اس سے بات کر لوں گا۔ اگر وقت ملے تو سبزہ زار آجانا اسے لے کر“۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولی۔
”تم خود ہی کہہ دینا ، اسے میں آجاﺅں گی“۔
یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔ ہم دونویں کینٹین سے اٹھ گئے۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *