Friday, 29 September 2017

کیمپس ۔۔امجد جاوید۔۔ قسط نمبر11

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر11
فرخ چوہدری کو بھی اسی جگہ رکھا گیا تھا جہاں پہلے ہی دو لڑکے رکھے ہوئے تھے۔ وہ لڑکے جنہوں نے تعاقب کیا تھا، ان کی اچھی طرح گو شمالی کرنے کے بعد چھوڑ دیا تھا۔ وہ عام سے طالب علم تھے، جنہیں تنظیم میں آگے بڑھنے کا شوق ہوتا ہے۔ وہ کر تو کچھ نہیں سکتے لیکن استعمال ہو جاتے ہیں۔ فرخ نے بھی انہیں استعمال کیا تھا۔ اس وقت اندھیرا پھیل چکا تھا، جب کاشف کی کال مجھے ملی۔ وہ مجھے وہیں بلا رہا تھا۔ اس نے ماہم کو بھی وہیں بلا لیا ہوا تھا۔ اگرچہ مجھے ڈاکٹر نے ڈرائیونگ وغیرہ سے منع کیا ہوا تھا لیکن میں نے پھر بھی خود ہی گاڑی نکالی اور جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ تبھی سلیم وارد ہوا اور حیرت سے پوچھنے لگا۔
”کہاں جارہے ہیں آپ؟“
”کاشف نے جہاں فرخ کورکھا ہوا ہے؟“ میں نے اسے بتایا۔
”اکیلے....؟“ وہ پھر حیرت سے بولا۔
”اور کیا، تم نہیں تھے نا، اور پھر ماہم بھی وہاں ہو گی“۔ میں نے اسے وجہ بتائی۔
”اب میں آگیا ہوں نا، میں گاڑی چلاتا ہوں اور باہر ہی رہوں گا، چلیں....“ یہ کہتے ہوئے وہ ڈرائیونگ گیٹ کھول کر کھڑا ہو گیا۔
میں باہر نکلا اور پسنجر سیٹ پر جا بیٹھا۔ اس نے گاڑی بڑھا دی۔ تب میں نے پوچھا۔
”سلیم اگر تمہارا رابطہ کام نہ آتا تو یقین جانو فرخ کا پتہ بھی نہیں چلنا تھا۔ کیمپس کے کسی بندے کو معلوم نہیں ہے کہ میں نے کون سا ذریعہ استعمال کیا اور اس تک پہنچ گیا۔ وہ سب اتنی جلدی اس تک پہنچ جانے پر حیران ہیں“۔ میں نے فخریہ انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”سر جی، جس دن آپ کا حادثہ ہوا تھا، میں نے فرخ چوہدری کے بارے میں چھان پھٹک شروع کر دی تھی۔ اس کا ایک قریبی دوست میرے رابطے میں تھا، جس سے اس کے بارے میں معلوم ہوتا رہتا تھا کہ وہ کدھر جاتا ہے اور کیا کرتا پھرتا ہے“۔ اس نے بتایا۔
”تمہارے رابطے کو شک تو نہیں ہو گیا ہو گا کہ تمہارے فون کے بعد....“ میں نے جان بوجھ کر بات ادھوری چھوڑ دی۔
”نہیں، میں نے اس کو یہی بتایا ہوا ہے کہ میں بے روزگار ہوں، نوکری چاہتا ہوں، وہ مجھے کئی دنوں سے ٹالتا چلا آرہا تھا۔ آج جب میں نے اس سے رابطہ کیا تو اس نے فوراً یہ کہہ کر فون بند کر وا دیا کہ میں ایک میٹنگ میں ہوں۔ چوہدری صاحب کے ساتھ یہاں ریستوران میں.... بعد میں بات کرتے ہیں۔ اسے بھی معلوم نہیں ہے کہ میں وہاں پہنچا ہوں“۔ اس نے فخریہ انداز میں کہا تو میں نے پوچھا ۔ ”کیسے....؟“
”میں نے اس سے نہیں پوچھا کہ فرخ کہاں ہے، یہ اس نے ہی بتایا تھا۔ میں ریستوران میں داخل ہوا۔ وہ سب اس کی تقریر کی طرف مگن تھے۔ میں نے واش روم میں جا کر آپ کو فون کر دیا۔ اب اگر وہاں کوئی کیمرہ ہو گا، اس کی زد میں اگر میں آگیا ہوا تو الگ بات ہے، ویسے ان کو میری آمد کا کچھ معلوم نہیں“۔ اس نے حتمی انداز میں کہا۔
”اوکے....!“ میں نے سکون سے کہا اور سامنے دیکھنے لگا۔ ہم شہر سے باہر آگئے تھے پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد وہ بولا ۔ ”ویسے سر، میں ایک بات کیوں“۔
”بولو“۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا تو تشویش زدہ لہجے میں بولا۔
”یہ بندہ اگر آپ لوگوں کے ہاتھ آگیا ہے نا تو اسے آپ آسان مت سمجھئے گا، یہ لوہے کا چنا ہے۔ اس کا باپ اب تک متحرک ہو گیا ہو گا۔ پولیس اسے الگ تلاش کر رہی ہو گی۔ اس کے ساتھ جو کچھ بھی کریں، لیکن قتل نہیں کرنا اور نہ ہی آج رات سے زیادہ اسے اپنے پاس رکھنا۔ پھر اسے سنبھالنا مشکل ہو جائے گا“۔
”تم ٹھیک کہتے ہو، اب دیکھتے ہیں کاشف کی رائے کیا ہے“۔ میں نے اس کی بات کو سمجھتے ہوئے کہا۔ وہ ٹھیک کہہ رہا تھا اس کے بیٹے کو اغوا ہوئے تقریباًسات گھنٹے سے اوپر ہو چلے تھے۔ اب تک تو پولیس بھی ان کے ساتھ متحرک ہو گئی ہو گی۔ میں اس بارے میں سوچتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ڈیرہ آگیا۔ سلیم باہر ہی رک گیا۔ جبکہ میں اندر چلا گیا۔ سامنے ہی کاشف کے ساتھ عدنان تھا اور ماہم مجھ سے پہلے آ چکی تھی۔ وہ میرے ہی انتظار میں کھڑے تھے۔ میں نے جاتے ہی پوچھا ۔”فرخ کا باپ تو اسے تلاش کر رہا ہو گا؟“
”ہاں، پورے شہر کی پولیس تلاش کر رہی ہے۔ ہاسٹل پر بھی چھاپہ پڑا ہے ممکن ہے وہ سبزہ زار کی طرف بھی جائیں تمہارے بارے میں پتہ چل گیا ہے کہ تم نے اسے اغوا کیا ہے“۔
”یہ خبر کب ملی اور....“ میں نے پوچھنا چاہا تو ماہم تیزی سے بولی۔
”کچھ دیر پہلے اس کے باپ فخرالدین نے میرے پاپا سے بات کی ہے۔ چونکہ میں بھی وہیں تھی، انہوں نے مجھ سے پوچھا تو میں نے بتا دیا۔ میں نے ساری بات خود پر لے لی ہے۔ میں نے ہی بتایا ہے کہ وہ مجھے چھ ماہ سے تنگ کر رہا تھا۔ میں نے اسے اغوا کیا ہے اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ مل کر۔ وہ حادثے والی ساری بات بتا دی میں نے“۔
”تو پھر بھی تمہاے پاپا نے تجھے یہاں تک آنے دیا؟ تمہاری راہ پر چلتے ہوئے کوئی بھی یہاں پہنچ سکتا ہے“۔ میں نے کافی حد تک پریشان ہوتے ہوئے کہا۔
”میں کون سا انہیں بتا کر آئی ہوں۔ میں جس گاڑی پر آئی ہوں، وہ بھی میری فرینڈ کی ہے۔ انہیں معلوم ہی نہیں میں کہاں ہوں“۔ وہ اطمینان سے بولی۔
”تمہاے پاپاکا ری ایکشن کیا تھا“۔ میں نے پوچھا۔
”انہوں نے بہت غور سے میری بات سنی ہے۔ وہ کافی حد تک پریشان بھی ہو گئے تھے۔ اب ظاہر بات ہے کہ فخرالدین سے بات کریں گے۔ آگے کیا ہوا مجھے نہیں معلوم، میں نے اپنا فون بھی بند کیا ہوا ہے اور وہ گھر میں پڑا ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے کافی حد تک بے چینی سے کہا۔ ”کہاں بے وہ ؟“
” تہہ خانے میں....“ اس نے بتایا۔
”انہی لڑکوں کے ساتھ....“ میں نے پوچھا۔
”نہیں.... وہ کہیں اور پہنچ گئے ہیں۔ آﺅ چلیں“۔ اس نے کہا تو ہم تہہ خانے کی جانب بڑھ گئے۔ جہاں مدقوق سی پیلی روشنی پھیلی ہو ئی تھی۔ سامنے ہی فرش پر فرخ چوہدری بیٹھا ہوا تھا۔اس نے میری طرف دیکھ اور انتہائی مایوسانہ انداز میں اپنے سر کو جھکا لیا۔ تب میں نے اس کے پاس بیٹھتے ہوئے اپنی انگلی سے اس کا چہرہ اٹھایا اور اطمینان سے کہا ۔
”میں تم پر ذرا سا بھی تشدد نہیں کروں گا، اگر تم میری باتوں کا ٹھیک ٹھیک جواب دیتے رہے“۔
”کیا چاہتے ہو تم....؟“ اس نے کھنکھارتی ہوئی آواز میں کہا جس میں کافی حد تک لرزش تھی۔ تب میں نے کہا۔
”یہی سوال میں تم سے کرنا چاہتا ہوں کہ تم نے کیا سوچ کرشروعات کی تھیں.... حالانکہ میری تمہاری کوئی دشمنی نہیں تھی“۔
”میری تمہاری اب بھی دشمنی نہیں ہے۔ یہ تو سب اس کی وجہ سے ہوا“۔ اس نے ماہم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تو وہ گویا پھٹ پڑی۔
”آج تم ایک بے ضرر کیڑے کی طرح یہاں پڑے ہو۔ چھپ کر ہیجڑوں کی طرح وار کرتے رہے ہو۔ کہاں گئیں تمہاری بڑھکیں.... میں اب جتنا چاہوں تم پرتشدد کرلوں، میں ایک دو دن میں نہیں، اب میں تمہیں پوری زندگی کے لیے سبق دیناچاہوں گی۔ بہت ستالیا تم نے....“
”ٹھیک ہے تم جو چاہو کرو، اب میں تمہاری قید میں ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ وہ انتہائی مایوس دکھائی دے رہا تھا۔ انہی لمحوں میں کاشف کا فون بچ اٹھا۔ اس نے فون کی اسکرین پر دیکھا، پھر قہقہہ لگا کر ہنس دیا۔
”لو آگیا تیرے باپ کا فون.... پہنچ گیا وہ مجھ تک.... سنو تم سب بھی....“ یہ کہہ کر اس نے کال ریسیو کرلی اور اسپیکر آن کردیا۔
”تم کاشف بات کر رہے ہو....“ دوسری طرف سے بھاری آواز میں پوچھ گیا۔
”ہاں ....! میں ہی کاشف ہوں۔ تم کون ہو؟“ اس نے اکھڑ لہجے میں پوچھا۔
”تمیز سے بات کرو، میں فخر الدین بات کررہا ہوں۔ کہاں ہے میرا بیٹا؟“
”تم فخر دین ہو یا بے فخر دین، میرے ساتھ تمیز سے بات کرو گے تو میں تمہاری بات سن لوں گا۔ ورنہ میری زبان تم سے بھی بڑی ہے، سمجھے.... رہی تمہارے بیٹے کی بات تو وہ میرے پاس ہے۔ اب بولو....؟“ کاشف بھی ہتھے سے اکھڑ گیا۔
”تمہیں نہیں معلوم کہ تم نے کیا کر دیا ہے.... فوراً میرے بیٹے کو چھوڑ دو۔ میں تمہیں کچھ نہیں کہوں گا....“ دوسری طرف سے انتہائی رعب میں کہا گیا ۔
”ورنہ کیا کرو گے.... مجھے مار دو گے.... قتل کروا دو گے.... جس طرح پہلے تم نے چند طالب علموں کو مروایا ہے میں انہی میں سے ایک ہوں.... میں اب تک تمہارے بیٹے کو مار چکا ہوتا، لیکن یہ میرے پاس امانت ہے، میں اسے اپنی مرضی سے چھوڑوں گا.... جہاں تمہیں آسانی ہو۔ مجھے بتا دینا، میں وہیں اس کی لاش پھینک دوں گا....“ کاشف نے غراتے ہوئے کہا۔
”اتنی بڑی بات مت کہو جو تمہاری اوقات سے زیادہ ہو۔ میں جانتا ہوں تمہیں، ایک گھنٹے بعد میں تم تک پہنچ جاﺅں گا۔بلکہ تم اسے میرے پاس خود لے آﺅ گے ، ایک گھنٹہ ہے تمہارے پاس.... تم جو اس آوارہ لونڈیا کے بل پر....“ وہ کہہ رہا تھا لیکن آگے سمجھ نہیں آئی۔ کیونکہ ماہم نے چیختے ہوئے کہا۔
”اوئے بے غیرت عیاش بڈھے.... تیری اس بات پر میں نے کیا کہنا ہے ، چند لمحے ٹھہر میں تجھے بتاتی ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ فرخ چوہدری کی طرف بڑھی اور ایک لات اس کے منہ پر رسید کی، جس سے وہ بری طرح کراہا۔”سن.... سن لی اپنے بیٹے کی کر اہ یہ لات میں نے اس کے منہ پر نہیں ، تیرے منہ پر ماری ہے۔ میں ایک گھنٹے بعد تمہارے گھر پہنچنے والی ہوں.... اور تم میرا کچھ بھی نہیں کر سکو گے بے غیرت....“
میں حیران تھا کہ ماہم اس کے باپ کو گالیاں دے رہی تھی اور وہ سر نیہوڑے سن رہا تھا۔ بلاشبہ ان کے درمیان کوئی ایسی بات تھی۔ جس کے باعث وہ اس حالت میں بیٹھا ہوا تھا اور اب تک اس کا خون نہیں کھولا تھا۔ دوسری طرف فون پر خاموشی تھی۔ تبھی فرخ نے کراہتے ہوئے اونچی آواز میں کہا۔
”بابا....! آپ درمیان نہ پڑیں میں آجاﺅں گا۔ میری بات چل رہی ہے۔ ان کے ساتھ“۔
”تم ٹھیک تو ہونا....“
”ہا ں بابا میں ٹھیک ہوں، کسی نے مجھے کچھ نہیں کہا“۔ وہ بولا تو ماہم نے تیزی سے کہا۔
”اوئے سن بڈھے، تم اگر اپنے باپ کے ہوئے نا تو ایک گھنٹے تک پہنچو ورنہ میں آجاﺅں گی۔ سن لیا نا، کاشف فون بند کرو....“
”نہیں.... نہیں....سنو، میری بات، تم لوگ جو چاہتے ہو، میں وہی کرنے کو تیار ہوں، دولت.... کوئی مطالبہ یا پھر....“
”اوئے یہ بڈھا ڈرامہ کررہا ہے۔ ہمیں تلاش کررہا ہے۔ پولیس والوں کی مدد سے .... بند کرو فون، اب اسے کسی اور جگہ لے جانا ہو گا....“ ماہم نے کہا تو کاشف نے فون بند کر دیا۔
”کہاں لے جانا ہے اسے؟“ میں نے ایک خیال کے تحت پوچھا تو کاشف ہنستے ہوئے بولا۔
”بہت ٹھکانے ہیں.... میں نے تو سوچا تھا کہ اسے کچھ نہ کہوں.... لیکن اس کا باپ ہی اس کا دشمن ہے“۔
”تم کیا چاہتے ہو، بولو؟“ وہ جلدی سے بولا۔
”میں نے صرف یہ کہنا تھا کہ ہمارے راستے سے ہٹ جاﺅ اور ماہم کی طرف کبھی پلٹ کر بھی نہیں دیکھنا ۔ میں نے تمہیں چھوڑ دینا تھا لیکن اب ماہم نے ضد کرلی ہے تو میں کیا کروں.... ماہم بتادو.... کیا چاہتی ہو“۔
”میں اس کی لاش کے ساتھ اس کے گھر جاﺅں گی....“ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا تو فرخ کے چہرے پر پیلاہٹ مزید گہری ہو گئی۔ جس کی پروا نہ کرتے ہوئے بولی۔ ”یہ وڈیرے کیا سمجھتے ہیں کہ قتل کرنا صرف یہی جانتے ہیں ، اس بے غیرت کی ہمت کیسے ہوئی میرے نام کو اپنے نام کے ساتھ جوڑنے کی۔ اسے تو میں اپنے ہاتھوں سے قتل کروں گی“۔ ماہم بپھر گئی تھی۔ یہ ایک ایسا طوفان لگ رہی تھی جو تباہی کے بغیر نہیں ٹلتا۔ ایک ہی وقت میں کاشف اور میری نگاہیں ٹکرائیں۔ اس کی نگاہوں میں کچھ ایسا تھا کہ میں سمجھ گیا۔ تب میں نے اسے بازو سے پکڑا اور اپنے قریب کرتے ہوئے کہا۔
”جیسا تم چاہو گی، ویسا ہو گا، لیکن ذرا اس سے دو چار باتیں تو کرلیں“۔
”کیا باتیں کرنی ہیں اس سے“۔ اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”تیرے سامنے ہی پوچھتا ہوں“۔ میں نے اس کو تھپکی دیتے ہوئے کہا، پھر فرخ کی طرف متوجہ ہو کر کہا۔ ”بولو....! مگر یہ سوچ کر بولنا کہ سچ کہو گے تو ذرا آرام سے رہو گے۔ ورنہ بہت اذیت دوں گا....“
”ابان....! تم جو چاہو۔ میں وہی ماننے کو تیار ہوں۔ میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے ہار مان لی، اب تم جو چاہو پوچھو، جو مرضی کرو“۔ اس نے انتہائی مایوسی سے کہا تو ماہم انتہائی غصے میں لرزتے ہوئے بولی۔
”اس کی بات نہیں ماننا ابان۔یہ انتہائی درجے کا گھٹیا اور سازشی ہے۔ یہ رہے گا تو گند پھیلتا رہے گا۔ اس دنیا کو اس گند سے پاک کر دینا چاہئے“۔
”ماہم....! دشمنی تمہاری اور میری تھی، ٹھیک ہے تمہارے ساتھیوں نے تمہاری مدد کی، یقین کرو، اب میں تمہارے راستے میں نہیں آﺅں گا“۔ فرخ نے کافی حد تک اعتماد سے کہا۔
”اتنا نقصان پہنچا کر بھی.... کاش میرے پاس ریوالور ہوتا.... گن ہوتی.... میں تمہیں اب تک گولی مارچکی ہوتی“۔ وہ تلخی سے بولی۔
”ماہم پلیز.... ! تم ہی اسے مارنا، لیکن مجھے بات تو کرنے دو....“ میں نے کہا تو وہ میری طرف شاکی نگاہوں سے دیکھتی ہوئی ایک جانب ہٹ گئی اور میری جانب دیکھ کر بولی۔
”میں جارہی ہوں، لیکن اسے کوئی دوسرا نہیں مارے گا، صرف میں ہی ماروں گی اور اس کی لاش اس کے گھر خود لے کر جاﺅ گی....“ یہ کہتے ہوئے اس نے کچھ نہ سنا اور تہہ خانے سے نکلتی چلی گئی۔ تب فرخ نے رحم طلب نگاہوں سے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”پوچھو ابان، جو پوچھنا چاہتے ہو“۔
”تمہیں پتہ ہے یہ کاشف اتنی محنت کیوں کر ہا ہے؟ جانتے ہو تم ؟“ میں فرش پر اس کے پاس بیٹھتے ہوئے بولا۔
”ہاں، یہ کیمپس پر گرفت کرنا چاہتا ہے۔ ویسی ہی حکمرانی جیسے آج کل ہم کر رہے ہیں“۔ اس نے آہستگی سے کہا۔
”نہیں....! میں تمہارے جیسی حکمرانی نہیں چاہتا“۔ کاشف نے غصے میں کہا۔ تو میں نے کہا۔
”اوکے.... اوکے.... کیا میں فرخ سے یہ پوچھ لوں کہ وہ زندگی چاہتا ہے یا کیمپس پر حکمرانی....“
”ہاں، یہ پوچھو....“ وہ تیزی سے بولا تو فرخ نے امید کی کرن پاتے ہی فوراً کہا۔
”میں نے چھوڑی.... اب کیمپس یا پھر اس کے اردگرد کبھی نظر نہیں آﺅں گا۔ کسی معاملے میں مداخلت نہیں کروں گا۔ ا س کے لیے آپ جو چاہیں مجھ سے ضمانت لے لیں“۔
”ٹھیک ہے“۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا اور پھر کاشف کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔ ”اس سے کیمپس کے سارے رابطے پوچھ لو، اس کے جھوٹ سچ کا پتہ چل جائے گا، جھوٹ بولے تو قتل کر کے لاش ماہم کے حوالے کر دینا۔ اب میں دیکھتا ہوں، اس کا باپ کیا کرتا ہے“۔ پھر پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر تہہ خانے سے نکل کر اوپر آگیا۔
ماہم سامنے ہی صوفے پر بیٹھی ہوئی تھی۔ غصے میں اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے گال دمک رہے تھے۔ قریب ہی عدنان موجود تھا۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”جاﺅ کاشف کے پاس ، شایداسے تمہاری ضرورت پڑے....“
”یہ سنتے ہی وہ فوراً چلا گیا اور میں ماہم کے پاس، اس کے انتہائی قریب جا بیٹھا۔ پھر اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا۔
”تم ایک سمجھ دار لڑکی ہو۔ اسے قتل کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ کسی گھٹیا اور سازشی کو مارنا ایک عام سے کتے کو مارنا ایک برابر ہے۔ کیوں اس کا الزام اپنے سر لیں، تم لڑکی ہو۔ ایسے کام وہ کیوں نہ کرلیں، جن کے سر پر پہلے ہی کئی خون ہیں۔ تم ذرا سا صبر کرو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا“۔
”اس نے مجھے بہت ستایا ہے، میرے دن رات کا چین بربادکر دیا ہے اس نے .... میں اسے معاف نہیں کر سکتی اور پھر اس کے باپ نے جو گالی دی.... میں برداشت نہیں کر سکتی“۔
”یہ جووقت ہوتا ہے نا ماہم، یہ بڑا ظالم ہوتا ہے۔ عقل مند وہی ہے جو وقت سنبھال جائے۔ جو بھی ظلم کرتا ہے، ایک دن وہ مظلوم کے پاﺅں میں ضرور پڑا ہوتا ہے۔ صرف وقت کا انتظار کرو....“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے اپنے دل کی بات کہہ دی۔ کیونکہ مجھے پورا یقین تھا کہ ایک دن میں نے انہیں اپنے پاﺅں کے نیچے لانا ہے۔ بس وقت کا انتظار تھا۔ میرے یوں سمجھانے پر وہ کافی حد تک سنبھل گئی۔ میں نے اس کا ہاتھ تھپ تھپا کر چھوڑ دیا۔ وہ خاموش رہی۔شاید وہ اپنے آپ پر قابو پارہی تھی۔ اسی خاموشی میں کافی وقت بیت گیا۔ یہ خاموشی اس وقت ٹوٹی جب کاشف اور عدنان اوپر آئے۔ اس نے آتے ہی کہا۔
”اس نے سارے رابطہ دے دیئے ہیں۔ جس قدر مجھے معلوم ہے، وہ سب درست ہیں ۔ لگتا ہے اس کا وماغ ٹھکانے لگ گیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اب وہ ہمارے راستے میں نہیں آئے گا“۔
”اب کیا ارادہ ہے....“ میں نے پوچھا۔ ”فخرالدین کا دیا ہوا وقت تو کب کا ختم ہو چکا ۔ وہ تم تک نہیں پہنچا“۔
”جیسا ماہم چاہے“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ریوالور کا سیفٹی کیچ ہٹا یا اور اس کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا۔
”یہ لو....! اور کر دو اس کا کام ختم....“
”نہیں کاشف.... اگر اسے قتل کیے بغیر ہمارا مقصد حل ہو جاتا ہے تو پھر کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ ایک خون سوار کرنے کی .... اب میں چلتی ہوں، پاپا بہت پریشان ہوں گے....“
”اوکے....! تم جاﺅ“۔ کاشف نے سر ہلاتے ہوئے کہا تو وہ فوراً ہی اٹھی اور باہر نکلتی چلی گئی ۔ تبھی کاشف نے عدنان کو اشارہ کیا تو وہ بھی پیچھے لپک گیا۔ میرے پوچھے بغیر بولا۔ ”تاکہ اسے بحفاظت گھر پہنچا آئے۔ آخر عورت ذات ہے“۔
”ٹھیک ہے ، اب اس کا کیا کرنا ہے؟“ اس نے فرخ کے بارے میں پوچھا۔
”جو تمہارا دل چاہے، تیرا شکار ، جو منوانا ہے منوالے۔ میرے خیال میں اسے نہ ہی مارو تو اچھا ہے۔ ایویں خواہ مخواہ اس کی تنظیم اسے ہیرو بنالے گی۔ پھر اس کے نام پر جو ہنگامہ ہو گا، وہ الگ بہت سارے مفادپرست اس کا فائدہ اٹھائیں گے“۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ تب وہ بولا۔
”تم ٹھیک کہتے ہو۔ میں اسے کسی اور ٹھکانے پر لے جارہا ہوں۔ کل تک اس کے بارے میں تصدیق کر کے پھر چھوڑ دیں گے“۔
”میں نے کہانا، جیسے تمہارا دل چاہے۔ جتنا فائدہ حاصل کر سکتا ہے کرلے۔ اب میں چلتا ہوں“۔
”ٹھیک ہے، رابطہ رہے گا اور ہاں اپنا خیال رکھنا، سبزہ زار ان کی نگاہوں میں ہو گا“۔
”اوکے.... ! میں اپنا خیال رکھوں گا“۔ میں نے کہا اور باہر نکل گیا۔
میں گاڑی میں بیٹھا تو سلیم نے گاڑی بڑھا دی۔ میں نے اسے تفصیل بتائی تو وہ چپ چاپ سنتا رہا۔ پھر اطمینان سے بولا۔
”کاشف کی یہ بات درست ہے کہ آپ سبزہ زار نہ جائیں“۔
”تو پھر کہاں جائیں، رہنا تو وہیں ہے نا“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”ضروری نہیں کہ وہیں رہا جائے“۔ یہ کہہ کر اس نے فون نکالا اور نمبر ملا کر رابطے کا انتظار کرنے لگا۔ چند لمحے بعد وہ بولا۔
”سر....! ابان صاحب آج آپ کے ہاں رہیں گے، ہم آرہے ہیں“۔ یہ کہہ کر دوسری طرف سے کچھ سنا اور فون بند کر دیا۔
”کسے فون کیا تھا؟“ میں نے پوچھا۔
”زریاب صاحب کو....“ اس نے اطمینان سے کہا۔
”یار....! اتنی رات گئے انہیں کیوں تنگ کرنا ہے۔ ہم سبزہ زار ہی ....“
”وہ اب تک سوئے نہیں، مسلسل مجھے رابطے میں رکھا ہوا ہے“۔ اس نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
”اوکے....!“ میں نے سرہلاتے ہوئے کہا تو سلیم نے گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ تبھی میں نے ماہم کا نمبر ملایا۔ وہ بند تھا۔ ابھی تک وہ گھر نہیںپہنچی تھی۔ میں اس کا نمبر ٹرائی کرتا رہا۔ وہ مسلسل بند تھا۔ یہاں تک کہ میں زریاب انکل کے گھر پہنچ گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد تھا کہ جب میں برطانیہ سے آیا تو اس وقت سیدھا یہیں آیا تھا۔ گاڑی دیکھتے ہی چوکیدار نے گیٹ کھول دیا۔ سلیم نے گاڑی پورچ میں روکی ہی تھی کہ زریاب انکل باہر آگئے۔ بہت دنوں بعد میں نے انہیں دیکھا تھا۔ وہ مجھ سے گلے ملے اور میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولے۔
”سوری بیٹا....! میں سامنے آ کر تمہاری مدد نہیں کر پارہا ہوں“۔
”انکل، آپ کیسی بات کر رہے ہیں، اگر آپ کی مدد نہ ہو تو میں یہاں کیسے ٹھہر سکتا ہوں“۔ میں ان سے الگ ہوتے ہوئے بولا۔
”پھر بھی بیٹا....! مجھے ہر وقت تمہارا خیال رہتا ہے“۔ انہوں نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا۔
”انکل کوئی بات نہیں، آپ فکر مت کریں“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ بھی دھیرے سے ہنس دیئے۔
”میں جاتا ہوں سبزہ زار، صبح آپ کو لے جاﺅں گا....“ سلیم نے کہا تو انکل نے سر ہلا دیا۔ وہ واپس پلٹا اور گاڑی میں بیٹھ کر چل دیا۔ میں اور انکل اندر چلے گئے۔
ہم وہیں ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے ۔ ملازمہ کافی سارے لوازمات کے ساتھ چائے لے کر آگئی۔ ہم چائے بھی پیتے رہے اور ساتھ میں باتیں بھی کرتے رہے۔ میں نے انہیں تفصیل بتائی۔ وہ بھی سارے معاملے سے آگاہ تھے۔ میری باتیں سن کر انہوں نے کہا۔
”تم بیٹا، سکون سے آرام کرو۔ صبح دیکھیں گے کیا کرنا ہے۔ ماہم نے اگر معاملہ اپنے سر لے لیا ہے تو ہم نے اس کی بھر پور مدد کرنا ہے۔ پیچھے نہیں ہٹنا“۔
”اب ماہم کو چھوڑنا تو ممکن نہیں ہے نا“۔ میں نے کہا تو انکل نے معنی خیز نگاہوں سے میری جانب دیکھا۔ تب میں ہنستے ہوئے بولا۔ ”نہیں وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں“۔
”ٹھیک ہے، اب تم آرام کرو“ ۔انہوں نے سنجیدگی سے کہا اور اٹھ گئے۔ میں بھی اٹھا اور اوپری منزل میں اس کمرے کی جانب بڑھ گیا۔ جہاں میں پہلے دن ٹھہرا تھا۔
ٹوٹا بدن، گہری رات، پُرسکون ماحول، سناٹا اور سامنے بڑا بیڈ ہو تو سو جانے کے لیے جسم بے تاب ہو جاتا ہے۔ مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ میں نے بیڈ پر لیٹتے ہی پھر ماہم کو ٹرائی کیا۔ اس بار بیل چلی گئی۔ چند لمحوں میں ماہم کی آواز سنائی دی۔
”کہاں ہو ابان....؟“
”میں خیریت سے ہوں۔ مجھے تمہارے گھر پہنچ جانے کی فکر تھی“۔
”ہاں....! میں گھر ہی میں ہوں۔ عدنان واپس کاشف کے پاس چلا گیا ہے اور میری توقع کے مطابق، پاپا میرے لیے بہت پریشان تھے۔ وہ اب بھی جاگ رہے ہیں“۔
”وہ کیوں، اب کیوں....؟“ میں نے جلدی سے پوچھا۔
”وہ فخرالدین سے رابطہ میں ہے اور ڈی ایس پی ان کے پاس بیٹھا ہوا ہے وہ فرخ کا پوچھ رہے ہیں“۔ ماہم نے بتایا ۔
”فخرالدین نے ہی ان پولیس والوں کو بتایا ہے“۔ میں نے پوچھا۔
”ہاں ....!ابھی کچھ دیر پہلے میرے گھر آنے کے بعد“۔ اس نے بتایا۔
”تم سے پوچھا ان پولیس والوں نے....“ میں نے پوچھا۔
”ان کی جرا ¿ت کہ مجھ سے بات کر سکیں، پاپا نے صاف انکار کر دیا ہے کہ ہم فرخ کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہ کہیں اور تلاش کریں۔ اب دیکھیں کیا حل نکلتا ہے“۔ اس نے سکون سے کہا۔
”تم نے کاشف وغیرہ کو بتا دیا“۔ میں نے پوچھا۔
”ابھی نہیں....! ابھی انہیں بتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ یہاں کوئی معاملہ طے ہو جاتا ہے تو کوئی صورت ِ حال ہمارے سامنے آئے گی۔ تبھی بتا پاﺅں گی“۔
”اوکے.... ! ٹھیک ہے، تمہارا کیا خیال ہے، تمہارے پاپا کیا چاہیں گے“۔
”کہانا، میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، میں.... ایک منٹ ہولڈ کرو.... ہاں کیا بات ہے“۔ اس نے روانی میں کہا اور کسی کی بات سننے لگی۔ میں خاموشی سے سنتا رہا۔ ”اچھا ٹھیک ہے“۔
”کیا ہوا؟“ میں نے پوچھا۔
”پاپا بلا رہے ہیں۔ ملازمہ تھی۔ میں ابھی بتاتی ہوں۔ آپ یہی بات ان کو بتا دیں“۔ اس نے تیزی سے کہا اور پھر فون بند کر دیا۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے خون کی روانی تیز ہو گئی ہے۔ اب تمام تر کھیل ماہم کے پاپا اسلم چوہدری پر آن پڑا تھا۔ اب دیکھنا تھا وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔
میں اب سو نہیں سکتا تھا، مجھے ماہم کے فون کا انتظار تھا۔ اس سے مجھے معلوم ہونا تھا کہ اسلم چوہدری کیا کرتا ہے۔ میں نے فون کر کے کاشف کو اطلاع دے دی۔ وہ اپنی جگہ چھوڑ چکا تھا اور کہیں دوسری جگہ تھا۔ وہ مطمئن تھا کہ فیصلہ جو بھی، اس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ میں کمرے میں پڑا لمحہ لمحہ گزرتے ہوئے ماہم کے فون کا انتظار کر رہا تھا۔ میں سوچنے لگا۔ صورتِ حال اچانک ہی بدل گئی ہے، ان حالات میں ماہم اچانک ہی میرے نزدیک کیا، نزدیک ترین آگئی تھی۔ کچھ دیر پہلے میں نے اسے شدید غصے میں دیکھا تھا۔ نہ جانے وہ کب سے پلاننگ کر رہی تھی۔ ایک لڑکی ذات ہونے اور دوسرا کافی حد تک کمزور ہونے کے باعث وہ فرخ کا مقابلہ تو کرتی چلی آرہی تھی لیکن اسے زیر نہیں کر پائی تھی۔ اب جبکہ وہ اسے زیر کر چکی تھی۔ مجھے یہ لگتا تھا کہ وہ اسے معاف کرنے کے موڈ میں نہیں تھی۔ و ہ بلاشبہ اسے قتل کر دیتی، اگر میں اسے سنبھال نہ لیتا تو وہ کچھ نہ کچھ کر دیتی۔ کچھ دیر پہلے کی حالت کو دیکھتے ہوئے، میں اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ وہ اسلم چوہدری کے فیصلے پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتی ہے۔ وہ اگر اس کا باپ تھا تو ایک سیاست دان بھی تھا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کے حریف تھے، لیکن بظاہر ان میں رابطہ بھی تھا۔ بات کھل گئی تھی کہ فرخ کے اغوا میں ماہم ملوث ہے یہ فخرالدین کو بھی پتہ تھا اور اسلم چوہدری کو بھی۔ یہ بات تو طے تھی کہ وہ اپنے فیصلے میں سیاست کو ضرور مدِ نظررکھے گا۔ میں اب تک اسلم چوہدری سے نہیں ملا تھا اور نہ ہی کبھی اس سے بات ہوئی تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ اس کی ذہنیت کیا ہے اور خصوصاً معاملہ جب بیٹی کا ہو تو اس کا ردِعمل کیا ہو سکتا ہے۔ اب اس نے جو فیصلہ کرنا تھا ، اسی سے مجھے اندازہ ہو جانے والا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے اس کی ذہنیت کس رُح پر جھکتی ہے۔ مجھے معلوم ہو جانا تھا۔ گزرنے والا ہر لمحہ میری بے چینی بڑھانے کے لیے کافی تھا۔ مجھے شدت سے ماہم کے فون کا انتظار تھا۔ میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی، رات کا دوسرا پہر گزر جانے والا تھا۔ میں ماہم کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک خیال میرے دماغ میں رینگ گیا۔ فیصلہ جو بھی ہو۔ میرا اس میں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ مجھے اصل میں یہی سوچنا تھا ، حالات اور واقعات مجھے ماہم کے بہت زیادہ نزدیک لے آئے تھے، لیکن کیا واقعی وہ میرے نزدیک ہو گئی ہے یا پل پل رنگ بدلتی ماہم اپنی ہی کوئی گیم کر رہی ہے۔ کیا وہ مجھے استعمال کرکے الگ ہو جائے گی؟ کیا وہ کیمپس میں رہے گی؟ اگر وہ اپنی گیم کر کے کیمپس ہی میں نہ رہی تو پھر میرا مقصد کدھر جائے۔

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *