Saturday, 30 September 2017

حصار۔۔۔ امجد جاوید ۔۔۔قسط نمبر6

حصار
امجد جاوید
قسط نمبر6

مگر اس نے بات تو کی لیکن اس قدر روکھے انداز میں جیسے میں اس کے لئے اجنبی ہو گیا ہوں ۔“ ذیشان نے دکھ سے کہا
” آنٹی کو بتایا؟“ ظہیر نے پوچھا
” وہ تو ، میں اب اسی الجھن میں ہوں ، کیا کروں ، ماما کو بتاﺅں یا نہ بتاﺅں ؟“ وہ پریشانی میں بولا
” بتانا تو پڑے گا ، ورنہ آنٹی کیا سوچیں گی۔“ عشناءنے سوچتے ہوئے کہا
” اسی لئے تو تم دونوں سے بات کر رہا ہوں ۔“ وہ بے بسی میں بولا
”مسئلہ وہی ہے ،اتنی جلدی شادی ہو جانے پر وہ کمپرومائیز نہیں کر پارہی ۔ ہرلڑکی کے خواب ہوتے ہیں۔اس نے بہت کچھ سوچا ہوتا ہے۔ کیوں عشنائ؟“ظہیر نے اسی سکون سے وضاحت کرتے ہوئے رائے لی 
”بالکل ، وہ ان خوابوں کے ٹوٹ جانے پر ڈسٹرب ہوتی ہے ۔ بلکہ خود ٹوٹ جاتی ہے۔اس وقت ثانیہ کو بہت زیادہ محبت اور کیئر کی ضرورت ہے۔عشناءنے کہا توذیشان اسے مخاطب کرتے ہوئے بولا
”پھر تم ہی اس سے بات کرو،اسے سمجھاﺅ۔اگر وہ اتنی جلدی شادی پر کمپرو مائیز نہیں کر پارہی تو شادی لیٹ کر لیںگے۔“
”اس میںکوئی حرج بھی نہیں ہے۔ثانیہ جسمانی طور پر صحتمند ہے۔ لیکن اس کا پرابلم نفسیاتی ہے۔اس بات کا خیال رہے۔“ظہیر نے بتایا
”ٹھیک ہے ۔ میںبات کرتی ہوں اس سے ۔ آج ہی جا کر اسے سمجھاتی ہوں ۔“ اس نے سرہلا کر کہا جیسے وہ بات کو سمجھ رہی ہو ۔ 
”اچھا یار ، میںچلتا ہوںمجھے ہاسپیٹل پہنچنا ہے۔“
یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گیا ۔ تبھی ذیشان نے عشناءکی طرف دیکھ کر کہا 
” تم ابھی چلی جاﺅ ثانیہ کی طرف اور مجھے آ کر بتاﺅ ، تاکہ پھر ماما سے بات کی جا سکے ۔“
” اوکے میں جاتی ہوں ۔“
 اس کے ساتھ ہی عشناءبھی آفس سے باہر نکل آ ئی ۔ 
 تقریباً ایک گھنٹے بعد وہ ثانیہ کے گھر میں ان کے لاﺅنج میں صوفے پر بیٹھی ہوئی ثانیہ کے آ نے کا انتظار کر رہی تھی ۔ کافی دیر بعد جب وہ لاﺅنج میں آئی تو ثانیہ کاچہرہ ذرا تنا ہوا تھا۔ اس نے سامنے والے صوفے پر آ کر بیٹھتے پوچھا 
” بولوکیسے آ ئی ہو آپ ؟“
”مجھے تمہاری طبعیت کے بارے میں پتہ چلتا رہا ہے، لیکن دفتر کے کام ہی اتنے تھے۔ آ ہی نہ سکی۔ آج وقت ملا تو پہلی فرصت میںآگئی ۔ سناﺅ اب کیسی ہو؟“ وہ خوشگوار لہجے میں بولی تو ثانیہ نے کافی حد تک طنزیہ لہجے میں کہا
”لیکن مجھے نہیںپتہ چلا تمہارے بارے میں؟ کیا کر رہی ہو تم ،خیر اچھا کیا تم آ گئی ۔“
”ماشا اللہ ، تم بالکل صحت مند ہو ،ڈاکٹر ظہیر آج آفس ہی آ گیا تھا۔ میری اور ذیشان کی تمہارے بارے میںتفصیل سے بات ہوئی ۔ وہ کہہ رہا تھا .... ‘ ‘ عشناءاس کی بات بالکل بھی نہ سمجھتے ہوئے اپنی رو میں کہتی چلی گئی تھی کہ ثانیہ اس کی بات کاٹ کر بولی 
” تم اور ذیشان ، دونوں۔“ یہ کہہ کر وہ رکی جیسے اس وقفہ میں وہ خود پر قابو پا رہی ہو ، پھر طویل سانس لے کر بولی ،” جب تمہیں ڈاکٹر ظہیر سے میرے ٹھیک ہو جانے کے بارے میں پتہ چل گیا تھا، پھر تم نے یہاں آنے کی زحمت کیوں کی؟“
” میں سمجھی نہیں، یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟“عشناءنے چونکتے ہوئے پوچھا تو طنزیہ لہجے میں بولی 
” اب بھی سمجھ جاﺅ ،تو اچھا ہے۔ میری بیماری کا ناجائز فائدہ مت اٹھاﺅ۔“
” جو تم سمجھ رہی ہو ، وہ بالکل نہیںہے۔ میں تمہیںیہ سمجھانا چاہ رہی تھی کہ تم بالکل ٹھیک ہو۔“عشناءمسکراتے ہوئے بولی اس پر ثانیہ نے چیختے ہوئے غصے میں بے قابو ہو کر کہا
”یہ تو مجھے پتہ ہے ۔تم کیا سمجھانا چاہتی کیا ہو مجھے،میرے مر جانے کا انتظار کر رہی ہو۔ جاﺅچلی جاﺅ یہاں سے۔“
” ثانیہ ، کیا ہو گیا ہے تمہیں؟“عشناءمسکراتے ہوئے کہا
”میںکہہ رہی ہوں ، چلی جاﺅ یہاں سے۔ میری حالت کا تماشا کرنے آئی ہو ۔ ہنستی ہو مجھ پر، نکل جاﺅ ۔“ثانیہ نے چیختے ہوئے کہا اس کے ساتھ ہی اس کے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی ۔ وہ اپنا سر پکڑ کے زور زور سے دبانے لگی ۔ شدید درد کا احساس سے وہ چکرا کر گر گئی ۔ عشناءہونقوں کی طرح اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔
شاید نوکرانی نے ثانیہ کو چیختے ہوئے سنا تھا، اس لئے وہ تیزی سے لاﺅنج میں آ ئی تھی۔مگر جب اس نے ثانیہ کو صوفے پر گرے ہوئے دیکھا تو بھاگتی ہوئی اس کی جانب بڑھی ۔ عشناءکی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔ اسے کچھ سمجھائی نہ دیا تو وہ ذیشان کو کال کرنے لگی ۔
ژ.... ژ.... ژ
شعیب اپنے آفس میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے اس کا دوست صوفے پر بے ترتیب بیٹھا ہوا تھا ۔سامنے میز پر چائے پڑی ہوئی تھی ، جس کے ساتھ کافی سارے لوازمات دھرے ہوئے تھے ۔ شعیب بہت افسردہ اور پریشان دکھائی دے رہا تھا ۔ ان کے درمیان خاموشی کافی طویل ہو گئی تو دوست نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
”یار شعیب۔! تم کس طرح مایوس بیٹھے ہوئے ہو ۔ابھی تو ثانیہ کی ذیشان سے شادی میںبڑا وقت پڑا ہے،بلکہ کہاں ہونی ہے یہ شادی ، ہم تو نہیںہونے دیں گے ۔اگر تم کچھ نہیں کر سکتے ہو تو پھر ہمیں بتا دو۔“
”کیاکرو گے تم ؟“شعیب نے قدرے غصے میں پوچھا تو دوسرا دوست بڑی سنجیدگی سے بولا
” کچھ بھی ۔ ثانیہ کو اغوا کر لیتے ہیں۔اپنے فار م ہا ﺅس پر لاکر ا س کی شادی تم سے کروا دیتے ہیں۔پھر دیکھتے ہیں وہ مراد علی کیا کرتا ہے ۔ اسے بھی دیکھ لیں گے، لگے ہاتھوں۔یا پھر....ذیشان ہی کو ....جب وہ ہی نہیںرہے گا تو ثانیہ بھابی کی شادی کس ہو گی؟یہ اپنے یار شعیب سے ۔ سات دن تو بہت ہیں، ارے صرف دو دن....صرف دو دن۔“ دوست اپنی گردن پر انگلی پھیرتے ہوئے قتل کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں،میں ایسا کچھ نہیںکروں گا۔“شعیب نے سوچتے ہوئے کہا تو دوست نے حیرت سے پوچا
”تو پھر تم کرنا کیا چاہتے ہو،یار ثانیہ بھابی تمہارے بچپن کی منگیتر ہے،اسے کیسے چھوڑ دو گے تم ؟“
”چھوڑ نہیںرہا یار۔ میں اسے چھوڑ سکتا ہی نہیں۔وہ میری محبت ہے لیکن اب .... وہ میری اَنا بن گئی ہے ۔“شعیب نے کہا
”مان لیا،لیکن کیسے حاصل کرو گے ؟“ دوست نے پوچھا
”میں ثانیہ کو اس کی مرضی سے حاصل کرنا چاہتاہوں۔“ وہ پر سکون لہجے میں بولا
”تو پھر تم خواب دیکھ رہے ہو۔جھوٹا خواب ۔ایسا کبھی نہیں ہو گا ۔ ناممکن .... “ دوست نے سر پھیرتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا
”مجھے ایک بار کوشش کر لینے دو۔“ شعیب نے کہا تودوست نے گہری سنجیدگی سے پوچھا
” باس ، اب تک تم نے یہ نہیںبتایا کہ کرنا کیا ہے، اور دن پر دن گزرتے جا رہے ہیں۔“
”یار، ایک تو میری ماما مجھے کچھ نہیںکرنے دے رہی ہیں۔ بات بات پر خود کشی کی دھمکی دے دیتی ہیں۔“ وہ بے پسی سے بولا
”اور وہ جوتمہاری پھوپھو ہے ، وہ کیا کہتی ہے۔“ دوست نے پوچھا
”وہ تو حوصلہ دیتی ہے، کہتی ہے کہ کچھ دن صبر کرو۔“ شعیب نے پتایا تو دوست نے مایوسی سے کہا
”تجھ سے کچھ نہیںہو گا، یہ مجھ سے لکھوا لو۔“
”لیکن میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔“شعیب نے کہا 
”وہ کیا؟“ اس نے پوچھاتوشعیب نے خیالوں میںکھو کر، گہرے لہجے میں کہا
”یار یہ جو منگنی کے فوراً بعد ثانیہ ہسپتال جا پہنچی ہے،ڈاکٹر کہتے ہیں ٹینشن لی ہے ، مجھے لگتا ہے ، یہ ٹینشن ایویں نہیں ہے ، ثانیہ دل سے مجھے چاہتی ہے، محبت کرتی ہے مجھ سے ۔ مجھے یقین ہے وہ میرے بغیر نہیںرہ سکتی۔“
دوست اس کی طرف حیرت سے شعیب کی طرف دیکھتے مسکرا دیا پھر بولا
 ”دیکھ لے، کہیں دھوکا نہ کھا جانا۔“
”او نہیں یار،میرا دل کہتا ہے ۔“ شعیب یہ کہتے ہوئے ہنس دیا تو دوست نے کہا 
” خیر ، جو تم چاہو ، ہم تو تو تمہارے لئے ہر طرح سے حاضر ہیں۔ ہمیں جو بھی کرنا پڑا، کر دیں گے ، بس تم نے حکم کرنا باقی ہمارا کام ہے ۔“
” تمہیں ہی کہوں گا ۔“شعیب نے خیالوں میں کھوجاتے ہوئے کہا اور چائے کے کپ کی جانب ہاتھ بڑھا دیا۔
سہ پہر کے بعد جب شعیب گھر پہنچا تو لاﺅنج میں کوئی بھی نہیں تھا۔ وہ اندر چلا گیا۔ دوسری طرف لان میں اس کی ماما کے ساتھ پھوپھو فاخرہ بیٹھی ہوئیں تھیں ۔ شعیب نے صاف دیکھ لیا کہ اس کی ماما رو رہی ہے ۔ اسے دیکھتے ہی اپنے آ نسو صاف کرتے ہوئے بولیں 
”آ گئے بیٹا۔“ان کا لہجہ بھیگا ہوا تھا۔ شعیب ان کی بات نظر انداز کرتے ہوئے دبے دبے غصے میں پوچھا
”مجھے صرف یہ جاننا ہے کہ آ پ رو کیوں رہی ہیں؟“
” کچھ نہیں۔“ بیگم ثروت اس سے نگائیں چراتے ہوئے بولی تو شعیب نے پھوپھو فاخرہ کی طرف دیکھا۔وہ چند لمحے خاموش رہی پھر اس نے مراد علی کے رویے کے بارے میں ساری بات کہہ دی ۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر خود پر قابو پا کر بولا
” پلیز ماما مت روئیں ۔ آپ کو جانا ہی نہیںچاہئے تھا،میںانکل مراد علی کو بڑا سمجھ کر نظر انداز کر رہا تھا۔ لیکن اب مجھے لگتا ہے۔ اس کا دماغ ٹھیک کرنا ہی پڑے گا۔ اسے دولت کا جو خمار ہے نا ، وہ میں ہی اتار وں گا ۔ اسے اس کی اوقات سمجھانا ہی پڑے گی۔“
”شٹ اپ شعیب، کیا تم تمیز سے بات کرنا بھول گئے ہو ؟“بیگم ثروت روتے ہوئے کہا توشعیب بھنّاکربولا
 ”ماما۔! جب وہ شخص آپ کی تذلیل کر رہا تھا، تب اسے کسی رشتے ناطے کی شرم نہیںآ ئی ۔اب مجھے مت روکیں۔صرف آپ کے کہنے پرمیں نے اس بندے کو بہت برداشت کر لیا،اب نہیں چھوڑوں گا۔“
”مراد علی کے دیدوں میں تو پانی ہی نہیںرہا۔ کہتا ہے اس گھر میں برداشت نہیںکر سکتا ،کوئی پوچھے ، وہ گھر کس نے دیا اس ناہنجار کو ۔مجھے تو بہت غصہ آرہا ہے اس پر ۔“پھوپھو فاخرہ یوں بولی جیسے اس سے برداشت نہ ہو رہا ہو ۔ تب بیگم ثرو ت نے بے بسی میں کہا
”بس کر فاخرہ،ختم کروغلطی ہماری تھی۔ہم کیوں گئے اس کے گھر۔نہ جاتیں تو ایسا نہ ہوتا۔“
”لیکن اس مراد علی کو اب میںچھوڑنے والا نہیں،ماما جب تک اس نے آپ سے معافی نہ مانگی، تب تک، وہ بہت پچھتائے گا۔ “
”تم کچھ نہیں کروگے شعیب،میںکہہ رہی ہوں۔“بیگم ثروت نے خوف زدہ ہو کر کہا
”نہیںماما، بہت مان لی آپ کی ،اس معاملے میںکوئی سمجھوتہ نہیں،میں اسے بتانا....“شعیب نے غصے میں کہا توپھوپھو فاخرہ نے چونکتے ہوئے کہا
” نہیںبیٹا۔!صبر کرو۔ ابھی کچھ نہیں کرنا۔ میںنے پہلے بھی تمہیں سمجھایا تھا۔ تم سمجھ رہے ہو نا میری بات۔“
” مگر کیوں ، اب میں آپ کی بھی نہیں مانوں گا ۔ میںاس سے بدلہ ....“
” پہلے بات تو سنو ۔ “ ماما نے جھڑکتے ہوئے کہا
” سنائیں ۔“ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا 
” ثانیہ پھر سے ہاسپیٹل جا پہنچی ہے ۔ اس وقت وہ وہ وہیں ہے ، مجھے فون کیا تھا طلعت نے ، معافی مانگ رہی تھی بے چاری ،“ ماما نے کہا اور گہری سانس لے کر رہ گئی ۔شعیب اس اطلاع پر چونکا اور کچھ کہے بنا وہاں سے اٹھ کر چلا گیا۔ وہ دونوں خوف زدہ سے انداز میں اسے دیکھتی رہ گئیں ۔
شعیب نے اپنی کار ہاسپیٹل کی پارکنگ میں روکی ۔ سیٹ پر پڑا ہوا پھولوں کا بوکا اٹھایا ۔ پھر اپنی جیب کو ٹٹولا ، جس میں پسٹل پڑا ہوا تھا۔ وہ سوچ کر آ یا تھا کہ آ ج وہ کچھ نہ کچھ کر کے جائے گا ، چاہئے کچھ ہو جائے ۔ وہ گاڑی سے اترا اور تپتے ہوئے دماغ کے ساتھ اندر کی جانب بڑھ گیا ۔ اس کے ذہن میں یہی بات تھی کہ وہ مراد علی اس کے ساتھ چاہئے جیسا مرضی سلوک کر لے ، وہ برداشت کیا جاسکتا تھا لیکن اس کے ماما کے ساتھ کوئی بد تمیزی کرے یہ اس سے برداشت نہیں ہو سکتا تھا ۔اس کے دماغ میں جو آ یا تھا، وہ اسی سوچ کے تحت وہاں جا پہنچا ، جہاں سامنے ثانیہ بیڈ پرلیٹی ہوئی تھی۔ اس کی آ نکھیںبند تھیں۔اس کے گیسو تکیے پر بکھرے ہوئے تھے ۔ گیسوﺅں کے ہالے میں اس کا چہرہ دمک رہا تھا۔ شعیب کمرے میںداخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں پھول تھے۔ بیگم طلعت نے اس کی طرف چونک کر دیکھا ۔ شعیب نے اس کی جانب نہیں دیکھا بلکہ ثانیہ پر نگاہیںٹکائے آگے بڑھتا چلا گیا ۔ وہ ثانیہ کے قریب جا کر کھڑا ہوگیا ۔چند لمحے اسے دیکھتا رہا ۔ پھر اس کے پاس سائیڈ ٹیبل پر پھول رکھ دئیے ۔ چند لمحے کھڑا ثانیہ کے چہرے پر بہت جذباتی انداز میںدیکھتا رہا پھر واپس پلٹ گیا۔ پلٹے ہی اس کا سامنا بیگم طلعت سے ہوگیا ۔ شعیب اس کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ وہ چند لمحے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے ۔ بیگم طلعت کا تنا ہوا چہرہ نرم ہو گیا تو شعیب نے دھیمے سے لہجے میں کہا
” بتا دیں مراد علی کو ، میں آیا تھا۔یہ اس کی قسمت اچھی نکلی جو وہ یہاں نہیں ملا۔اب اگر اس میں ہمت ہے تو میرا سامنے کرے ۔ میں سب کچھ قربان کرسکتا ہوں لیکن اپنی ماما کی آ نکھوں میں آ نسو برداشت نہیں کر سکتا ۔میں اپنی ماما کے ایک ایک آ نسو کا حساب اس سے لینے والا ہوں ۔ بتا دیجئے گا اسے ۔“
یہ کہہ کر شعیب وہاں سے چلتاچلا گیا۔ بیگم طلعت ایک تبدیل ہوئے شعیب کو دیکھتی ہی رہ گئی اس کے منہ سے ایک لفظ بھی نہیںنکلا تھا ۔اسے کمرے سے گئے چند لمحے ہی ہوئے تھے کہ ثانیہ نے آ نکھیں کھول دیں۔ اس نے پھولوں کو دیکھا اور بڑی نرماہٹ سے اس پر ہاتھ پھیرنے لگی ، تبھی بیگم طلعت نے جھجکتے ہوئے بتایا
” وہ .... شعیب آیا تھا۔“
” پتہ ہے ۔“ثانیہ مسکراتے ہوئے بولی توبیگم طلعت حیران رہ گئی۔ثانیہ نے پھول اپنے ساتھ رکھ لئے تھے اور وہ خیالوں میں کھو گئی تھی ۔
 ژ.... ژ.... ژ
پھوپھو فاخرہ بہت زیادہ ہی خوف زدہ ہو گئی تھی ۔ جیسے ہی شعیب گھر سے نکلا ، وہ بھی بہانہ کر کے سڑک پر آ گئی ۔ اس نے جلدی میں ایک ٹیکسی پکڑی اور سیدھی کرامت شاہ کے پاس جا پہنچی ۔ وہ اپنے کمرے میں آنکھیں بند کئے ہوئے بیٹھاتھا۔ اس کے لب ہولے ہولے ہل رہے تھے۔پھوپھو فاخرہ کمرے میںداخل ہو کر بیٹھ گئی تو اس نے آنکھیںکھول کر اسے دیکھا۔ پھرخباثت سے مسکراتے ہوئے مزہ لینے والے انداز میںپوچھا
”بول فاخرہ....خوش خبری سنا، ٹوٹ گئی منگنی کیا؟“
” نہیں بابا۔! منگنی کیا ٹوٹنی ہے اس بچی کا تو بہت برا حال ہو گیا ہے۔ بے چاری کو پھر ہسپتال لے گئے ہیں۔بابا، میرا مقصد اسے مارنا تو نہیں ہے ۔وہ پھول سی بچی....“پھوپھو فاخرہ نے ڈرتے، جھجکتے ہوئے بتایا
”ارے نہیں، میں کون سا اسے مار رہا ہوں، یہ کالا جادو ہے،اس کا اپنا طریقہ ہے، جس میںکسی کا بھلا نہیںہوتا۔ تم نے کہا منگنی ٹوٹ جائے تو وہ ٹوٹ جائے گی، فکر نہ کر ۔“ اس نے خباثت سے مسکراتے ہوئے کہا 
”بابا، صرف منگنی ہی نہیںتڑوانی ، اس بچی کی شادی شعیب سے کروانی ہے ،بہو بنانا چاہتی ہوں میں اُسے، کہیں وہ پاگل ہو گئی تو؟مر گئی تو؟ اور .... وہ شعیب ....“ اس نے کہنا چاہا تو کرامت شاہ اس کی بات کاٹ کر مسکراتے ہوئے بولا
” ارے ، کچھ نہیںہوتا۔ایک طرف جلدی بھی کر رہی ہو ،ایک طرف ڈر بھی رہی ہو ،اب کچھ نہیںہوتا اسے۔ ٹھیک ہوجائے گی ۔“
” بابا بات تو سن نا ، وہ شعیب تو مرنے مارنے پر اتر آ یا ہے ، وہ گیا ہے مراد علی سے جھگڑنے تبھی میں آ ئی ہوں اس وقت ۔“ پھوپھو فاخرہ نے تیزی سے کہا
” کچھ نہیں ہوتا ۔ تم فکر نہیں کرو ۔سب ٹھیک ہو جائے گا “ اس بار وہ سنجیدگی سے بولا تھا 
” میں چاہتی ہو اشعیب سے اس کی شادی بھی ہوجائے ،وہ....“پھوپھو فاخر نے کہا تو کرامت شاہ بولا
” ہو جائے گی ۔ بالکل ہو جائے گی۔فکر نہ کر ، لیکن .... اگر تو بہت جلد یہ سب کچھ کروانا چاہتی ہے تو پھر یہ عمل بڑا ہی بھاری ہے۔اس لئے چڑھاوا بھی بڑا ہی دینا پڑتا ہے۔“
” پہلے میں نے کبھی ایک روپیہ بھی کم دیا ،چڑھاوا دوں گی جو بولو،میں کب انکار کر رہی ہوں؟ پہلے کبھی انکار کیا ہے۔ بولو۔“ پھوپھو فاخرہ نے کہا
” تو سنو پھر ۔! جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر اپنے ہدف پر لگتا ہے نا ، اسی طرح تمہاری خواہش کے مطابق کا م ہوگا مگر چڑھاوا ذرا مختلف قسم کا ہے ۔“ وہ انتہائی خباثت سے مسکراتے ہوئے بولا 
” آ پ بولو تو بابا، کیسا ہے یہ چڑھاوا ؟“
” چڑھاوے کی رقم تو ہوگی لیکن اس کے علاوہ ایک کنواری لڑکی کا بندو بست کرنا ہوگا۔“ اس نے اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا
”کنواری لڑکی....؟“پھوپھو فاخرہ نے حیرت سے پوچھا توکرامت شاہ نے کہا
”کنواری لڑکی پر عمل کرنا ہوگا،پھر یہ دیکھنا، چند دن میںہی تیرے بھتیجے کی شادی کیسے ہو تی ہے۔ جتنی جلدی لے آ ، اتنی جلدی عمل کر دوں گا، پھر اتنی جلدی شادی بھی ہو جائے گی ۔ ہتھیلی پر سرسوں جما دوں گا ، آ زمائش شرط ہے ۔‘

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *