Saturday 25 November 2017

حصار ۔۔امجد جاوید ۔ قسط نمبر 14


حصار 
امجد جاوید 
 قسط نمبر 14

” میری بہن کے بارے میں آپ کی یہ نفرت میری سمجھ سے بالا تر ہے ، حالانکہ یہ وہی عورت ہے ، جس نے آ پ کی ہر طرح سے مدد کی ۔اس کے شوہر نے آپ کو ....“ وہ کہہ رہی تھی کہ مراد علی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا
” انہوں نے مجھ پر کوئی احسان نہیں کیا، میں وہاں کام کرتا تھا ، میں نے یہ سب اپنی محنت سے بنایا، لیکن یہ وقت اب ان باتوںکا نہیں ہے ۔ مسئلہ ثانیہ کے مستقبل کا ہے ، کیا وہ اس گھر میں رہ پائے گی ؟ “ اس نے پوچھا
” کیا کمی ہے ان کے ہاں ، ایک اکلوتا بیٹا ہے ۔ جو خود اپنے پیروں پر یوں کھڑا ہوا کہ اب آ پ سے کہیں زیادہ اثاثے رکھتا ہے ۔ ثروت خود اتنی جائیداد والی ہے کہ اسے شعیب کے پیسوں کی ضرورت نہیں پڑتی۔اب یہ ثانیہ کا کام ہوگا نا کہ وہ اپنے گھر کو کس طرح بناتی ہے ۔میرے خیال میں سوائے آپ کی نفرت کے اس گھرانے میں کوئی کمی نہیں ۔“بیگم طلعت نے سچ بات کہی تو وہ خاموش ہو گیا۔کچھ دیر تک یونہی خاموش رہنے کے بعد بولا
” تم ثانیہ کی مرضی اچھی طرح معلوم کرو ، پھر حتمی فیصلہ کر لیتے ہیں ۔“
” ٹھیک ہے میں بات کر لیتی ہوں ، لیکن آپ نے تو اپنا ارادہ بتایا ہی نہیں کہ آ پ کیا چاہتے ہیں ؟“ وہ طنزیہ اندازمیں بولی
” میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہہ رہا ہوں کہ جو ثانیہ کی مرضی ، وہی میں چاہتا ہوں ۔“ اس نے کہا تو وہ بولی
” چلیں ٹھیک ہے ، میں آ ج ہی بات کرتی ہوں ۔شام تک آ پ کو بتا دوں گی ۔اب تو اس کے پیپر بھی بس ختم ہی ہو گئے ہیں ۔ ایک آ دھ رہتا ہے شاید ۔“ 
 ” جیسے تمہاری مرضی ۔“ اس نے کہا اور ٹہلتا ہوا واپس اندر کی جانب بڑھ گیا۔ بیگم طلعت بھی اس کے پیچھے پیچھے چل دی ۔
دن کا چڑھ آ یا تھا ۔بیگم طلعت لاﺅنج میں بیٹھی ہوئی تھی ۔ ایسے میں ثانیہ چائے کا مگ تھامے وہیں آ گئی ۔ وہ صوفے پر آ لتی پالتی مار کر بیٹھ گئی ۔ تب ماما نے نے اس کی متورم آ نکھیں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” اب جاگی ہو ؟“
” نہیں ، میں توصبح سویرے اٹھ گئی تھی ۔ تب سے پڑھ رہی تھی ۔کل میرا آخری پیپر ہے نا۔“ اس نے بتایا پھر ایک سپ لے کر بولی ،”میںنے دیکھا تھا ، آپ اور پاپا لان میں ٹہل رہے تھے ۔“
” ٹہل کیا رہے تھے ، تیرے بارے ہی بات کر رہے تھے ۔“ بیگم طلعت نے کہا اور پھر ساری بات اسے بتا دی ۔ 
” ماما، میں تو شادی شعیب ہی سے کروں گی ۔ ذیشان میرے دل ہی سے اتر گیاہے ۔“ ثانیہ سوچتے ہوئے دکھی لہجے میںبولی تو اس نے تیزی سے پوچھا
” مجھے تو نے آج تک یہ نہیں بتایا کہ وہ تمہارے دل سے اُتر اکیوں؟“
”ذیشان جو سامنے ہے ، وہ ویسا نہیں ہے ۔خیر آپ اس کا ذکر ہی مت کریں ۔ آپ پاپا کو بتا دیں ، میرا یہی فیصلہ ہے کہ میں شعیب ہی سے شادی کروں گی ۔“ اس نے حتمی انداز میں کہا اور چائے کا ایک لمبا سپ لے لیا ۔
” ٹھیک ہے بیٹی جیسا تم چاہو ۔“ طلعت بیگم نے کہا اور سوچ میں پر گئی ۔ اب اس پر بہت بھاری ذمہ داری پڑنے والی تھی ۔
شام کے سائے پھیل چکے تھے ۔ مراد علی تی وی لاﺅنج میں بیٹھا ہوا تھا۔ طلعت بیگم اس کے پاس جا بیٹھی اور پھر کچھ دیر ادھر اُدھر کی باتوں کے بعد اس نے ثانیہ سے بات ہونے اور اس کے فیصلے سے آ گاہ کر دیا ۔ مراد علی نے سنا اور کافی دیر تک خاموش رہا ۔ پھر بولا
” بس پھر اب سوچنا کیا ہے ۔شعیب کے ساتھ ہی کر دیتے ہیں شادی ، تم کہو ثروت سے وہ باقاعدہ رشتہ مانگنے آ جائے ۔“
” میں کہہ دیتی ہوں ۔“ طلعت بیگم نے کہا۔
 ان دنوں میں خاموشی چھا گئی ۔ بیٹی کی مرضی سے شادی کر دینے کا فیصلہ شاید ایسا تھا ، جس پر نہ انہیں خوشی ہوئی اور نہ ہی دکھ ۔ بس ایک عجیب سی گو مگو کی کیفیت تھی ، جسے وہ خود بھی سمجھ نہیں پا رہے تھے ۔
٭....٭....٭
فرزانہ شام کے وقت گھر میںداخل ہوئی تو رضیہ صحن میں چار پائی پر بیٹھی ہوئی تھی ۔ اس نے کھانا اپنی ماں کو تھمایا اور سلام کر کے دوسری چار پائی پر بیٹھ گئی ۔ رضیہ نے کھانا ایک طرف رکھ کر اپنی بیٹی سے کہا
”آج آ ئی تھی ، اسلم کی ماں اور سارا سامان دیکھ کر گئی ہے ۔“
” اچھا کب آ ئی تھی ؟“ فرزانہ نے بے دلی سے پوچھا
” یہی تیرے جاتے ہی آ گئی ۔ کسی نے بتا دیا تھا اسے کہ اتنا سامان آ یا ہے ، اس تواس وقت تک چین نہیں آ یا جب تک سارا سامان دیکھ نہیں لیا۔ اس کی تو آ نکھیں ہی پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔“ رضیہ نے بڑے جوش سے بتایا
” پوچھا نہیں کہ یہ سامان کہاں سے آ یا ؟“ فرزانہ نے لرزتے ہوئے لہجے میں پوچھا تو وہ بولی 
” کوئی ایک بار پوچھا، میں نے اسے یہی بتایا کہ جہاں پر پہلے میں کام کرتی تھی ، انہی جگہوں پر کام کرنے جاتی ہے فرزانہ ، ان میں ایک گھر تو اتنا اچھا ہے کہ مجھے کہہ دیا کہ وہ انہی کے ہاں کام کرے گی کسی دوسرے گھر میں نہیں ۔ وہ اتنے دریا دل لوگ ہیں کہ فرزانہ کے جہیز کا سامان بھی دے رہے ہیں ۔ ابھی تو آ دھا سامان دیا ہے صاحب لوگوں نے ، ابھی مزید دینے کا کہا ہے ۔“ 
” اور کیا کہا اس نے ؟“ فرزانہ نے پوچھا
” کہنا کیا تھا ، یہی ایک جہیز کی کمی تھی ، تب اس کا چہرہ دیکھنے والا تھا جب میںنے اسے جتایا ۔کہنے لگی غلطی ہو گئی میںنے منگنی توڑی ۔ فرزانہ اتنی اچھی ہے کہ میرا تو دل چاہتا ہے اسے ہی اپنی بہو بناﺅں ۔“ رضیہ نے بتایا
” اسے میرا نہیں سامان دیکھ کر اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے ۔“ فرزانہ نے کہا تو رضیہ نے جلدی سے بتایا 
” ہاں یہی تو، کہنے لگی ، فرزانہ سے بات کر لو ، اگر وہ اب بھی راضی ہے تو میں ادھرسے منگنی توڑ دوں ، اسلم بھی کئی بار اسے کہہ چکا ہے کہ وہ فرزانہ کے ساتھ ہی شادی کر ے گا ۔اب بیٹی ، جیسے تم چاہو گی ، ہونا توویسے ہے ۔ اگر تمہیں اسلم پسند ہے تو بات آ گے بڑھا لیتے ہیں ورنہ اسے جواب دے دیں گے ۔“ رضیہ نے کہا
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *