Saturday 2 December 2017

حصار۔۔ امجدجاوید۔۔۔ قسط نمبر 15


حصار
امجدجاوید
قسط نمبر 15

”ابھی تو اماں تم یہ کھانا کھاﺅنا، سوچتے ہیں
 کیا کرنا ہے ۔“ فرانہ نے کہا اور اٹھ گئی ۔ اسے اپنی مان کی بات سن کر کوئی خوشی نہیں ہوئی تھی ۔بلکہ ایک دُکھ کا احساس اس کے رگ و پے میں سرائیت کر گیا تھا ۔اس کی اپنی ذات، کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی بلکہ یہ ساز و سامان ہی اہم تھا ۔ کیا زندگی کی خوشیاں انہی چیزوں کے ساتھ ہے ؟کیا اس طرح اسلم کی ماں کے بارے میں محبت یا احترام ہوگا ؟ جو اس کی ذات سے زیادہ اس کے ساتھ آ نے والے سامان کو اہمیت دیتی تھی ۔ اسی لمحے اس نے اپنے دماغ سے یہ سب جھٹک دیا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ یہ جیسا معاشرہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرح رہنا ہے ۔
اس وقت وہ سو نے کی کوشش کر رہی تھی ، جب اسلم کا پیغام اسے فون پر ملا۔ اس نے لکھاتھا کہ وہ باہر گلی میں آ گیا ہے ۔ دروازہ کھولو، تاکہ میں اندر آ جاﺅں ۔ وہ اٹھی اور دروازے تک گئی ۔ باہر اسلم کھڑا تھا ۔ وہ اندر آ گیا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا مٹھائی کا ڈبہ تھا۔وہ اسے تھماتے ہوئے بڑے اشتیاق سے بولا
”آج تو میری امی نے خود ہی مجھ سے پوچھ لیا کہ اگر میں فرزانہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں تو وہ راضی ہے ۔“ 
 ” ہاں ، میری امی نے مجھے یہ بتایا ہے کہ وہ آ ج یہاں آ ئی تھی ۔“ فرزانہ نے اپنی دلی نفرت چھپاتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا
 ” تو پھر کیا خیال ہے ، میں دوں انہیں جواب ؟“ اسلم نے پوچھا
” اسلم میں نے کتنی بار تمہیں کہا ہے کہ میرا کوئی مطالبہ نہیں ہے ، سوائے ایک بات کے ، تمہاری امی آ ئے ، جس طرح اس نے منگنی توڑی تھی ، اسی طرح انہی لوگوں کے ساتھ دوبارہ آ ئے ۔ عزت کے ساتھ منگنی کرے ۔پھر جب چاہئے شادی ہو جائے ۔اس میں میری بھی عزت ہے اور آپ لوگوں کی بھی ۔“ فرزانہ نے اپنی بات دہراتے ہوئے کہا
” یہ تو میں جانتا ہوں ۔“ اس نے کہا
”تو بس پھر ، اس کے سوا ، میرا کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔“ وہ بولی 
”لیکن ایک بات میری تم بھی مانو گی ؟“ اس نے کہا
”بولو ، کون سی بات ؟“ اس نے پوچھا
” شادی کے بعد ، تم یہ کام نہیں کرو گی ۔کسی صورت میں بھی نہیں ۔“ اس نے کہا تو فرزانہ دکھ ی مسکان کے ساتھ بولی 
” مجھے کیا ضرورت پڑی ہے کہ میںلوگوں کے برتن مانجھوں۔ میں اپنے گھر میں رہوں گی سکون سے ۔“
” بس پھرٹھیک ہے ۔ایک دون میں اماں جائے گی ان کے گھر اور انہیں جواب دے آ گی ۔وہ بھی میری سرد مہری سے خوش نہیں ہیں ۔“ اسلم رسان سے بولا تو فرزانہ نے کہا
” میں تو آ ج بھی تمہاری ہوں ، کل بھی تمہاری ،بس تیرا انتظار کر رہی ہوں تم کیا کرتے ہو ۔“ ا س نے محبت بھرے لہجے میں کہا تو اسلم سرشار ہو گیا ۔
” اچھا جاﺅ ، جا کر سو جاﺅ ۔ میں بھی چلتا ہوں ۔“ اس نے کہا اور واپس جانے کے مڑ گیا۔ وہ بھی اپنے بستر پر آ گئی ۔ وہ اب سمجھ گئی تھی کہ اسلم کو کس طرح اپنے حصار میں رکھنا ہے ۔
اگلی صبح وہ اپنے معمول کے مطابق بیگم ثروت کے ہاں جا پہنچی ۔ شعیب اپنے آ فس چلا گیا تھا ، بیگم ثروت ابھی اپنے کمرے ہی میں تھی ، جبکہ پھوپھو فاخرہ کاریڈور میں بیٹھی مزے سے چائے پی رہی تھی ۔ اسے آ تاہوا دیکھ کر بولی
” سنا تیری اماں تونہیں پوچھا کہ رات کدھر رہی تھی ؟“
” پوچھا تو تھا لیکن میںنے آ پ کا نام لے دیا تھا کہ انہوں نے مجھے روک لیا تھا ۔“ فرزانہ نے صاف جھوٹ بولتے ہوئے کہا
” تو پھر ؟“ اس نے تشویش سے پوچھا
”پھر کیا، میںنے بتا دیا کہ آ پ کی طبیعت خراب تھی ۔اب آ پ بھی نہ پوچھنا ، کہیں شک ہی نہ پڑ جائے ۔“ یہ کہہ کر وہ کچن کی جانب بڑھ گئی ۔ پھوپھو فاخرہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بہت کچھ سوچنے لگی ۔
اس دن شعیب بہت خوش تھا۔ اس کی منگنی ثانیہ سے ہونے جا رہی تھی ۔وہ تیار ہو چکا تھا ۔ثروت بیگم کے ساتھ لاﺅنج میں چند مہمان بیٹھے تھے جنہوں نے ان کے ساتھ مراد علی کے گھر جانا تھا ۔پھوپھو فاخرہ بولائی بولائی سی پھر رہی تھی ۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وقت جلدی سے سرک جائے اور شعیب کی ثانیہ کے ساتھ منگنی ہو جائے ۔وہ سب تیار ہو کر پورچ میں آ گئے ۔ ایک کے بعد ایک کار بڑھتی گئی ۔چار کاروں کا یہ قافلہ گیٹ سے پار ہو گیا۔ فرزانہ نے انہیں کچن کی کھڑکی سے جاتا ہوا دیکھا تو ایک لمبی سانس بھر کر رہ گئی ۔وہ جانتی تھی کہ یہ سارا چمتکار کیسے ہو ا تھا ۔آخری کار میں پھوپھو فاخرہ تھی ۔ اس نے دیکھ لیا کہ فرزانہ بڑی حسرت سے دیکھ رہی ہے ۔ وہ کار میں بیٹھنے کی بجائے اس کی جانب چلی گئی ۔
” تم کیوں نہیں تیار ہوئی بھلا ؟“ پھوپھو فاخرہ نے پوچھا
”مجھے کہا ہی نہیں کسی نے ؟“ اس نے بے دلی سے مسکراتے ہوئے کہا
” چل جلدی سے تیار ہوجا، چلو میرے ساتھ ۔“ پھوپھو نے اسے کہا تو وہ بولی 
”کوئی بات نہیں آپ جائیں ، میں بارات والے دن چلی جاﺅں گی ۔“ اس نے کہا تو پھوپھو بولی 
” دیکھ لو ، میں تمہار ے لئے رُکی ہوں ۔“ 
” نہیں آ پ جاﺅ ،اگر مہمانوں کے لئے کچھ پکانا ہو تو مجھے پہلے فون کر دیں ۔“ اس نے کہا تو پھوپھو فاخرہ سر ہلاتی ہوئی پلٹ کر کار کی جانب چل دی ۔
تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہ ثانیہ کے گھر پہنچ گئے ۔ لاﺅنج میں مراد علی کے ساتھ چند اپنی فیملی کے ساتھ تھے ۔انہیں دیکھتے ہی بیگم طلعت آ گے بڑھی۔ان کے استقبال سے یوں لگ رہا تھا جیسے دنیا داری ہی نبھائی جا رہی ہے ورنہ اس میں کوئی جذبہ و جوش نہیں تھا ۔ شعیب کے ساتھ مراد علی نہیں بیٹھا بلکہ وہ اپنے ہاں آئے لوگوں کے ساتھ مصروف رہا ۔ جبکہ طلعت بیگم اپنی بہن اور اس کے مہمانوں کے پاس رہی ۔مہمانوں کی تواضع کے بعد خواتین ہی نے منگنی کی رسموں بارے کہنا شروع کیا ۔ ایسے میں ثانیہ بھی تیار ہو کر اندر سے آ گئی ۔
اس نے سرخ رنگ کا عروسی جوڑا پہنا ہوا تھا ۔وہ یوں لگ رہی تھی جیسے اس نے دلہن والے ملبوس میں ہے ۔اس کا بھاری میک اپ تھا ۔ بڑے بڑے جھمکے ، ، ناک میں بڑا چمکتا ہوا لونگ ۔کاندھوں کے ساتھ بڑا سارا آ نچل ، گلے میں سونے کا ہار ،وہ آ ہستہ آ ہستہ قدموں سے چلتی ہوئی صوفے کے پاس آ کر کھڑی ہوئی۔

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *