Saturday 21 October 2017

حصار ۔۔۔امجد جاوید۔۔ قسط نمبر9


حصار
امجد جاوید
قسط نمبر9
مجھے بتایا تھا چوہدری صاحب نے ،آج ان کے کوئی مہمان آ گئے تھے ۔اس لئے وہ نہیں آ پائیں ہیں ۔ میںنے تمہیں بتانا تھا ، لیکن بس مصروفیت میں یاد ہی نہیں رہا۔“ مراد علی نے ٹی وی پر نگاہیں جمائے کہا
”مہمان کون کون سے ہوں گے ، انہیں کیا بتا دیا آ پ نے ؟“ بیگم طلعت نے پوچھا تو مراد علی نے طنزیہ لہجے میں کہا
”بس تمہاری بہن صاحبہ کو نہیںبلایا،باقی میںنے اپنے بہت قریبی دوستوں کی لسٹ بنا لی ہے ، انہیں کل فون کروں گا ۔تم چاہو تو اپنی بہن کو فون کر دینا تاکہ شادی میں کوئی نہ کوئی بد مزگی ہو جائے ۔“
” مراد علی یہ آپ اچھا نہیں کر رہے ، اس طرح ....“ بیگم طلعت نے کہنا چاہا مگر مراد علی نے بات کاٹتے ہوئے نفرت سے کہا
” میں اسے برداشت نہیں کرسکتا ہوں ۔ میںنے کہہ دیا ، وہ مجھے وہاں دکھائی نہ دے ۔ اور ہاں اس کے علاوہ جسے بھی بلانا چاہو ، ثانیہ سے بھی پوچھ لو ، اس کی کوئی قریب ترین سہیلی ہو تو اسے بھی بلا لو ۔“
بیگم طلعت نے دکھی دل کے ساتھ اپنے شوہر کی ساری بات سنی۔ اس کے آ نسو پلکوں پر آ گئے تو وہ وہاں سے اٹھ گئی ۔
وہ بیڈ روم میں جا کر کھل کے رُو دی ۔ایک ہی بہن تھی ، اس سے بھی ناطہ چھوٹ رہا تھا ۔ اب یہ اس کی مجبوری تھی ۔ وہ اپنے گھر بار ، اپنے شوہر کے لئے بہن کو چھوڑنا ہی تھا ۔ کافی دیر بعد اس نے خود پر قابو پایا۔ پھر ثانیہ کے کمرے کی جانب چل دی ۔
ثانیہ بیڈ پر لیٹی ہوئی کوئی کتاب پڑھ رہی تھی ۔ طلعت بیگم کمرے میں داخل ہوئی تو اس نے کتاب ایک طرف رکھتے مسکرا کر کہا
” آئیں ماما،ادھر میرے پاس بیٹھیں ۔“
یہ کہہ کر وہ اٹھ کے بیٹھ گئی ۔ بیگم طلعت اس کے پاس بیڈ پر بیٹھ گئی ۔ثانیہ نے اپنا سر ماما کے کاندھے سے لگا دیا۔تبھی بیگم طلعت نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا
” بیٹی ، تمہاری شادی کو چار دن رہ گئے ہیں۔اپنی کسی سہیلی کو شادی پر بلایا ہے تم نے ؟“ 
” ماما، میں نے کسی کو بھی نہیںبلانا۔کوئی سہیلی نہیں ہے میری ۔“ ثانیہ اکتائے ہوئے انداز میں بولی 
”ایسا کیوں کہہ رہی ہو ؟مانا کہ جیسے تمہیں رخصت کرنا چاہئے تھا ، ویسا سب کچھ نہیں ہو رہا، لیکن اس میں ہم نے تو نہیں چاہا۔ تمہاری اور ذیشان کی مرضی تھی ۔اس لئے ....“ وہ کہہ رہی تھیں کہ ثانیہ نے انہیںٹوکتے ہوئے کہا
”میرا دل نہیں چاہ رہا۔شاید وہ سب وقتی اُبال تھا ۔ شاید جذبات اور حقیقت میں بڑا فرق ہوتا ہے ۔جس کی سمجھ مجھے اب آ رہی ہے ۔“
” لیکن بیٹی اب تو سب کچھ طے ہو گیا ہے ۔سب کچھ تمہاری مرضی سے ہوا ہے ۔ “یہ کہہ کر اس نے وہ ساری باتیں ثانیہ کو بتا دیں جو تھوڑی دیر پہلے مراد علی نے اس سے شادی کی تیاریوںکے بارے میں کہیں تھیں ۔ وہ چپ چاپ سنتی رہی ۔اس نے کوئی تبصرہ نہیں کیا۔یونہی باتیں کرتے رہنے کے بعد بیگم طلعت اسکے پاس سے اٹھ کر چل دیں ۔ نجانے کیوں وہ اپنے دل پر بھاری بوجھ محسوس کر رہی تھی ۔
٭....٭....٭
اس وقت سورج ڈھلنے کو تھا جب فرزانہ اپنے گھر میں داخل ہوئی ۔اس کی ماں کمرے سے اٹھ کر باہر صحن میں بیٹھی ہوئی تھی ۔وہ نہ صرف صحت مند دکھائی دے رہی تھی بلکہ نہا دھو کر کپڑے بھی بدلے ہوئے تھے ۔اس نے کھانا لے جا کر رکھا تو اس کی ماں نے کہا
” ادھر آ بیٹھ تجھے ایک بات بتاﺅں ۔“
” ایسی کیا بات ہے اماں ۔“ اس نے تجسس سے ماں کے پاس بیٹھتے ہوئے پوچھا تو اس کی ماں نے خوشگوار لہجے میں بتایا
”تیرے جانے کے تھوڑی دیر بعد ہی اسلم آ یا تھا۔ اس نے مجھے کافی ساری رقم دی ہے اور منّت کر کے کہا ہے کہ اب میں تجھے کام پر نہ بھیجوں ۔“
” تو پھر کیا کہتی ہو تم ؟“ فرزانہ نے ماںسے پوچھا
”دیکھ اگر اب وہ تیری طرف مائل ہو رہا ہے تواب تم بھی اس کی بات مان لو ۔ کہیں وہ غصے میں آ کر اپنا ارادہ ہی نہ بدل دے ۔“اس کی ماں نے ڈرتے ہوئے کہا۔تب اس نے حتمی لہجے میں کہا
”اماں ، میرا کام کرنا ہی اگر اسے برا لگتا ہے تو پھر اپنی ماں کو لے کر آ جائے ۔پہلے کی طرح منگنی کرے اور میں اسی دن سے کام چھوڑ دوں گی ۔ “ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر خاموش رہی پھر سمجھاتے ہوئے بولی،” اماں شاید اسلم تو اب بھی مجھے چاہتا ہوگا لیکن اس کی ماں کا کیا کرو گی ۔ میں کام کرتی رہوں گی نا تو وہ جلدی ہی اپنی مان کو راضی کر لے گا ۔“
” چل بیٹی ، جیسے تمہاری مرضی ۔“ اس کی ماں نے دھیمے سے لہجے کہا تو وہ چولہے میں آ گ جلانے لگی ۔اسے جلتی ہوئی آ گ میں راکھ پھینکنا تھی ۔ اس نے ماں کو اندر جانے کا کہا۔وہ چلی گئی تو کھانا گرم کرنے سے پہلے اس نے راکھ چولہے میں ڈال دی ۔ فرزانہ کے ذہن میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ کرامت شاہ کے عمل نے ایک ہی دن میں اپنا چمتکار دکھا دیا تھاتو اب اسلم اس کا ہو کر رہے گا ۔ جیسے وہ چاہے گی ایسا ہی اب اسلم کرے گا ۔ شاید اس سوچ کے پیچھے انتقام بھی تھا۔ یہی سوچتے ہوئے اسے کرامت شاہ کی باتیں یاد آ نے لگیں۔اگر وہ آ ج ہی عمل کے لئے چلی جائے تو کیسا ہو ؟ لیکن اپنی ماں سے بہانہ کیا کرے گی؟ کھانا گرم کرتے اور مان کو کھلاتے ہوئے آ خر بہانہ سوجھ ہی گیا ۔ اس وقت فرزانہ دوا پلا چکی تھی جب اس نے اپنی ماںسے کہا 
” اماں ، وہ بیگم ثروت ہیں نا ، وہ بڑی بیمار ہیں ۔ “
” اوہ کیا ہو گیا بیگم صاحبہ کو ؟“ ماں نے تشویش سے پوچھا
”پتہ نہیںکیا ہوا ہے انہیں، مجھے تو پھوپھو نے کہا تھا کہ اگر میں رات ان کے پاس رک جاﺅں تو انہیں تیمار داری میں میں انہیں سہولت ہو گی ۔مگر میں تو انہیں یہ کہہ کر آ گئی اگر اماں نے اجازت دی تو آ جاﺅںگی ۔“
” تو بیٹی تم وہاں رک جاتی۔ وہ بڑی اچھی خاتون ہے ۔انکا خیال کرنا چاہئے تھا تمہیں۔“اماں نے تشویش سے کہا 
فرزانہ کو اندازہ نہیں تھا کہ ماں اتنی جلدی مان جائے گی ۔ اس نے چند لمحے سوچا اور اوپری دل سے بولی 
” اگر تم کہتی ہو تو چلی جاتی ہوں ۔“
” ہاں بیٹی اگر اب بھی تم جا سکتی ہو تو چلی جاﺅ۔ اس عورت کے مجھ پر بڑے احسان ہیں ۔آج ان کے کام آ ﺅ گی تو کل وہ تیرا خیال کریں گے ۔“ اماں نے سمجھایا تو وہ جانے کے لئے تیار ہونے لگی ۔
 اس وقت رات ڈھل چکی تھی جب فرزانہ ایک ٹیکسی لے کر کرامت شاہ کے گھر جا پہنچی ۔جیسے ہی اس کی آ مد کے بارے میں کرامت شاہ کو بتایا گیا، اسے فوراً اندر بلا لیا گیا۔کرامت شاہ اس وقت اپنے کمرے میں تھا۔ اس نے بھوکی نگاہوں سے اس کے بدن کو دیکھتے ہوئے پوچھا
” تم آج ہی میرے عمل میں میرا ساتھ دو گی ؟“
” جی میں تیار ہوں ۔“ اس نے آ ہستگی سے کہا
” ٹھیک ہے ، عمل کی تیاری کرتے ہیں ۔“ یہ کہہ کر اس نے باہر کسی کو آواز دے دی ۔

کرامت شاہ کی آواز دینے کی بازگشت میں وہاں کی خادمہ خاتون اندر آ گئی ۔اس نے پہلے فرزانہ کو دیکھا، پھر کرامت شاہ کی طرف دیکھ کر کہا
” جی بابا جی حکم ۔“
”یہ لڑکی آج کے عمل میں میرا ساتھ دے گی ، جاﺅ اسے تیار کرکے ، عمل والے کمرے میں لے کر آ ﺅ ۔“ اس نے حکم دیا تو خاتون نے ذرا سا جھک کر کہا
” جیسے آپ کا حکم بابا جی ۔“
یہ کہہ کر اس نے فرزانہ کو باہر آ نے کا اشارہ کیا۔وہ اس خاتون کے ساتھ چل دی ۔
عمل والے کمرے کی دیواریں سیاہ رنگ کی تھیں ۔سرخ روشنی نے اسے مزید خوفناک بنا دیا دیا۔ کرامت شاہ کمرے کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا ۔ اس کے آ گے چھوٹے سے برتن میں آگ جل رہی تھی ۔وہ منہ میں تیزی سے کچھ پڑھتا جا رہا تھا ۔ تھوڑی تھوڑی دیر کا وقفہ کر کے وہ آگ میں کئی چیزوں سے بنایا برادہ پھینکتا، جس سے ایک دم سے سڑاند اٹھتی تھی اور دھواں کمرے میں پھیل جاتا تھا ۔ وہ اور زور زور سے منتر پڑھنے لگتا تھا۔ ایسے میں وہ خاتون ،فرزانہ کو کمرے میں چھوڑ کر فوراً ہی پلٹ گئی۔ فرزانہ کے گرد ایک مختصر سی سیاہ چادر تھی ۔اس کے بال یوں کھلے ہوئے تھے جیسے چھوٹے چھوٹے سانپوں نے اس کی گردن کو گھیرا ہوا ہو ۔وہ کرامت شاہ کو دیکھ کردھیرے دھیرے آ گے بڑھ رہی تھی جیسے اس پر سکتہ طاری ہو گیا ہو یا پھر کسی ربورٹ کی مانند بے حس ہو چکی ہو ۔اسے دیکھتے ہی کرامت شاہ نے زور زور سے منتر پڑھتے ہوئے آگ میں برادہ پھینکا تودھویں کے ساتھ سڑاند اٹھی ۔ کرامت شاہ کے پاس آتی ہوئی فرزانہ کو ابکائی آئی اور خود پر قابو پاتے ہوئے اس نے قے کر دی ۔اس کے ساتھ ہی وہ دہری ہوتی چلی گئی ۔ سیاہ چادر پر اس کی قے بکھر گئی تھی ۔ تیز بدبو کمرے میں پھیل چکی تھی ۔اس پر کرامت شاہ کی آ نکھوں میں ایسی چمک در آ ئی جیسے اس کا عمل کامیاب ہو گیا ہو ۔ وہ زور زور سے منتر پڑھنے لگا۔فرزانہ اس کے سامنے دہری ہو کر فرش پر گر گئی تھی ۔تیز سڑاند اور بدبو سے وہ نیم پاگل سی ہو گئی ۔کرامت شاہ کی ہوس بھری شیطانی آ نکھیں اسے دیکھ رہی تھیں ۔جبکہ فرزانہ فرش پر بے بس پڑی ہوئی تھی ۔ کمرے میں شیطان پوری طرح ناچنے لگا تھا۔
٭....٭....٭
ناشتے کی میزپر چوہدری نذیر اخبار پڑھ رہا تھا ۔ ملازمہ ناشتہ لگا رہی تھی ۔ایسے میں بیگم الماس آگئی ۔ وہ میز پر بیٹھی ہی تھی کہ ذیشان بھی اپنا بیگ لئے آ گیا۔ وہ ماں ساتھ بیٹھا تو چوہدری نذیر نے اخبار تہہ کر کے ایک طرف رکھتے ہوئے ذیشان کی طرف دیکھ کر پوچھا۔
” کیسے ہو بیٹا؟“ 
’ ’میں ٹھیک ہوں پاپا۔“ اس نے لبوں پر مسکراہٹ سجاتے ہوئے کہا
” وہ تو تمہاری شکل سے دکھائی دے رہا ہے کہ تم کتنے ٹھیک ہو ، خیر ، تمہیں پتہ ہے کہ تمہاری شادی کو کتنے دن رہ گئے ہیں۔“ پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا
” یہی تین دن ۔“ وہ انجان بنتے ہوئے بولا
”اور میرے لندن جانے میں چار دن باقی ہیں ۔تمہیں معلوم ہے کہ میں کتنا مصروف ہوں ۔لیکن تم ماں بیٹے نے بھی شادی کی کوئی تیاری نہیںکی ، اور نہ کوئی شاپنگ کی ، اور میرے خیال میں تو تم لوگ دوبارہ ثانیہ کے گھر بھی نہیں گئے ۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے ؟“ پاپا نے پوچھا تو ذیشان نے خود پر قابو پاتے ہوئے اپنی ماں کی طرف دیکھا ، پھر ہلکے سے مسکراتے ہوئے بولا
” ایسی تو کوئی بات نہیں پاپا، بس آج جائیں گے ان کی طرف ،شام تک شاپنگ ہو جائے گی جو بہت ضروری ہے ۔میں اور ماما آج انہی کے گھر جا رہے ہیں ۔“
” لیکن تم تو بیگ اٹھائے ہوئے ہو ؟“ پاپا نے کہا تو ذیشان ایک دم سے پریشان ہوگیا ، وہ کچھ کہنے کو سوچ ہی رہا تھا کہ پاپا نے کہا،” دیکھو بیٹا، والدین ہی وہ رشتہ ہے ، جو بنا کسی لالچ کے اپنی اولاد سے پیا ر کرتا ہے ۔ ان کی جائز ناجائز سبھی مانتا ہے ۔اور یہ بھی یاد رکھو وہ اپنی اولاد سے غافل نہیں رہتا۔تمہیں جو پریشانی ہے ہمیں بتاﺅ ۔“
” پریشانی کی ایسی کو ئی بات تو نہیں ہے ۔“ اس نے سرجھکاتے ہوئے کہا
” نہیں بیٹا تم پریشان ہو ۔ہم نے تمہارے کہنے پر ثانیہ سے تمہاری بات طے کر دی ۔شادی کے اس کے والدین نے کہا ، ہم نے وہ بھی مان لیا۔ لیکن مجھے لگتا ہے اب ان کے روئیے میں کہیں سرد مہری ہے ، جو تم ہم سے شیئر نہیں کر رہے ہو، جو بات بھی ہے بیٹا وہ ہم سے کہو ۔ ا س طرح خاموش رہنے سے معاملہ حل نہیں ہوگا۔“
ذیشان نے اپنے پاپا کی بات بڑے تحمل سے سنی پھر چند لمحے سوچتے رہنے کے بعد الجھے ہوئے لہجے میں بولا
”پاپا منگنی تک وہ بالکل ٹھیک تھی ۔ ہم میں انڈر سٹینڈنگ تھی۔جیسے ہی یہ شعیب والا معاملہ درمیان میں آ یا ، اسی وقت سے ثانیہ کا رویہ بدل گیا۔اس کی بیماری کی بھی کوئی سمجھ نہیں آ رہی ۔ میں ڈاکٹر ظہیر سے ....“
”بیٹا، میںنے بھی اس سے تفصیل کے ساتھ بات کی تھی ۔اسے بھی کسی بیماری کی سمجھ نہیں آ رہی۔ سوائے نفسیاتی بیماری کے دوسرا کچھ نہیںکہا جا سکتا ہے ۔اچانک ایسی کسی نفسیاتی بیماری کا سامنے آ جانا ،نارمل نہیں ہے ۔ اسے سمجھنا بہت ضروری ہے ۔“ پاپا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس کی ماما بولیں 
” دیکھو بیٹا، میں کوئی ثانیہ پر الزام تراشی نہیں کر رہی ہوں بلکہ عورت کی ایک نفسیات بتانا چاہتی ہو،اور وہ یہ ہے کہ جس مرد کے ساتھ عورت کا نام جڑ جائے وہ اسی کے ساتھ رہنا پسند کرتی ہے ۔“
” کیا کہنا چاہ رہی ہیں آپ ؟ مطلب شعیب سے وہ اب بھی ....“ اس نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا ۔
”اس کے رویے سے ، ا س کے اچانک بیمار ہو جانے سے ،اندازہ تو یہی لگایا جا سکتا ہے ۔ورنہ اور کیا بات ہو سکتی ہے ۔“ ماما نے سکون سے کہا 
” ایک بات اور بھی ممکن ہے ، وہ شاید شعیب سے ڈر گئے ہوں ؟“ ذیشان نے کہا تو پاپا نے بولے 
” ہو سکتا ہے ایسا ہی ہو ، لیکن مراد علی کے پاس ایسے بہت سارے حل ہیں جن سے وہ استفادہ کر سکتا ہے ، میں نے بھی اسے آ فر کی تھی ۔میرا نہیںخیال کہ وہ ڈر گئے ہیں ۔اصل معاملہ صرف اور صرف ثانیہ ہی کا ہے ۔“
”میرے خیال میں آج ہم ان سے حتمی بات کر لیں ۔“ ماما نے دوٹوک انداز میں کہا تو پاپا نے پوچھا 
” مثلاً کیا کریں گی یہ بات ؟“
”یہی کہ شاپنگ کے لئے جانا ہے ، چلیں ہمارے ساتھ ۔ خوش خوش ہمارے ساتھ چل دیں تو ٹھیک ۔ ورنہ سیدھی سی بات ہے ، وہیں پتہ چل جائے گا کہ ان کے دل میں کیا ہے ۔ “ماما نے کہا
” اور اگر وہ خوش خوش نہ گئیں تو ؟“ پاپا نے پوچھا
” میرا خیال ہے پھر ہمیں ان سے وقت لے لینا چاہئے کیا خیال ہے بیٹا؟“ پاپا نے پوچھا حالانکہ وہ اپنی بیگم کے ساتھ پہلے ہی طے کرچکا تھا کہ کرنا کیا ہے ۔ اس پر ذیشان خاموش رہا ۔ کچھ لمحوں بعد بولا
” پاپا جیسا آ پ اور ماما چاہیں ۔میرا بھی وہی فیصلہ ہوگا ۔“
” ٹھیک ہے بیٹا، تم یہ بیگ واپس رکھو، ہم کچھ دیر بعد تینوں ہی ان کے ہاں جاتے ہیں ۔“
” جی ٹھیک ہے ۔“ ذیشان نے سرہلاتے ہوئے کہا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گیا ۔
 مراد علی اور بیگم طلعت دونوں لاﺅنج میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ ان کے درمیان خاموشی طاری تھی۔کچھ ہی دیر پہلے انہیں چوہدری نذیر کا فون آیا تھا کہ وہ تینوں ان سے ملنے کے لئے آ رہے ہیں۔دونوں ہی کو معلوم تھا کہ وہ کس مقصد کے لئے آ رہے ہیں۔مگر ان کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہیںتھا۔وہ اپنی اپنی جگہ بیٹھے سوچ رہے تھے کہ وہ تینوں لاﺅنج میں آگئے ۔ دونوں نے مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔ سکون سے بیٹھ جانے پر بیگم طلعت نے پوچھا
” کیا لیں گے آپ ، کافی چائے یا ٹھنڈا؟“
” کچھ بھی نہیں،ابھی ناشتہ کیا ہے ، کچھ دیر بعد چائے پی لیں گے ۔“ چوہدری نذیر نے سنجیدگی سے کہا تو بیگم الماس نے پوچھا
” یہ ثانیہ دکھائی نہیں دے رہی ، کہاں ہے ؟ اسے ہماری آ مد کے بارے میں نہیں بتایا؟“
” اپنے کمرے میں ہے ۔ میں نے سوچا آ پ آ جائیں تو بتاتی ہوں۔“
” اوہ ، ہم نے تو اسے اپنے ساتھ لے کر جانا تھا ، کیا شاپنگ نہیں کرنی ، شادی میں بھلا دن کتنے رہ گئے ہیں ۔ ‘ ‘ بیگم الماس نے حیرت سے کہا
”میں بلاتی ہوں اسے۔“ یہ کہتے ہوئے بیگم طلعت اٹھ گئیں۔تبھی چوہدری نذیر نے اپنا رُخ مراد علی کی جانب موڑتے ہوئے پوچھا
”بچوں کی خوشی کے لئے انتہائی جلدی میں منگنی کر لی ، پھر فوراً شادی کا بھی کہہ دیا ، دن بھی طے کر لئے لیکن اب آپ کی طرف سے سرد مہری کیوں؟“
” دراصل ، وہ ثانیہ اچانک بیمار ہو گئی ،اس لئے کوئی سمجھ ہی نہیں آ رہی ہے کہ کیا کریں اور کیا نہ کریں ۔انتہائی پریشانی میں یہ دن گزر رہے ہیں۔ورنہ سرد مہری والی ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“مراد علی نے تحمل سے کہا
” تو پھر کیا کہتے ہیں آپ ؟شادی اسی دن ہونا ہے ، جس دن ہم نے طے کی ہے یا آپ کا کوئی خیال بدل گیا ہے ؟“چوہدری نذیر نے بھی سکون سے پوچھاتو مراد علی نے جھجکتے ہوئے کہا
” اب دیکھیں ، ثانیہ کی حالت ایسی نہیں ہے، آپ کو بھی پتہ ہے ۔مجھے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا ، کیا کروں اور کیا نہ کروں۔“
” بات تو آپ کی بالکل ٹھیک ہے ، میں اگر آپ کی جگہ ہوتا تو میری حالت بھی آ پ کے جیسی ہونا تھی ۔ خیر ، ثانیہ سے بھی مشورہ کر لیں ۔ اگر وہ خود کوٹھیک سمجھتی ہے تو شادی میں کو ئی تاخیر بھلا کیوں کریں۔“چوہدری نذیر نے کہا تومراد علی خاموش ہو گیا
زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ بیگم طلعت کے ساتھ ثانیہ آ گئی۔ اس کی حالت ایسی تھی جیسے کئی دنوںکی بیمار ہو ۔ اس نے سب کو سلام کیا اور اپنی ماما کے ساتھ صوفے پر بیٹھ گئی ۔ اس نے ایک بار بھی ذیشان کی طرف نہیں دیکھا۔بیگم الماس نے یہ رویہ بہت غور سے نوٹ کیا تھا ۔
” اب کیسی طبیعت ہے بیٹی ؟“چوہدری نذیر نے ثانیہ سے پوچھا
” ٹھیک ہوں ۔“ اس نے سرہلاتے ہوئے دھیمے لہجے میں کہا
”شاپنگ کے لئے کچھ سوچا، کہاں جانا ہے ، کب جانا ہے ، کیا کچھ لینا ہے ؟“ بیگم الماس نے پوچھا تو ثانیہ کے چہرے پر ہلکی سی ناگواریت پھیل گئی ۔ 

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *