Saturday 28 October 2017

حصار۔۔۔ امجد جاوید۔۔۔ قسط نمبر 10

حصار
امجد جاوید
قسط نمبر 10


” نہیں آ نٹی میں نے تو کچھ بھی نہیں سوچا۔ مجھے کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا، مجھے سمجھ نہیں آ رہی، کیا کروں کیا نہ کروں ۔“چند لمحوں بعد وہ الجھتے ہوئے بولی
یہ کہہ کر وہ چند لمحے بے چین سی وہاں بیٹھی پہلو بدلتی رہی اور پھر اٹھ کر اندر کی جانب چلی گئی ۔گویا اس نے یہ بتادیا تھا کہ اسے وہاں بیٹھنا، اس موضوع پر بات کرنا یا سننا بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔ وہ سب اس کی طرف دیکھتے رہے ، پھرچوہدری نذیر نے مراد علی کی طرف دیکھ کر سوالیہ انداز میں پوچھا
” مطلب ، ثانیہ ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے ؟“
” اب میں کیا کہہ سکتا ہوں ۔“ اس نے شرمندہ سے لہجے میں کہا
” تو چلیں ٹھیک ہے ، ہم ثانیہ کے بالکل تندرست ہو جانے کا انتظار کر لیتے ہیں۔میں لندن سے واپس آ جاﺅں تو پھر پورے چاﺅ سے یہ شادی کر لیں گے ، کیا خیال ہے آ پ کا ۔“چوہدری نذیر نے دبے دبے غصے میں کہا اور ذیشان کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ مراد علی یا کوئی جواب دیتا، وہ جھجکے ہوئے بولا
” میں اگر ایک منٹ ثانیہ سے بات کرلوں تو ....“
” جاﺅ ، جا کر بات کر لو۔“ بیگم طلعت نے جلدی سے کہا تو وہ اٹھ کر ثانیہ کے کمرے کی جانب بڑھ گیا۔
ثانیہ اپنے کمرے میں ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ہلکی سی دستک دے کر ذیشان اندر آ گیا تو ثانیہ نے اس کی جانب دیکھا بھی نہیں۔
” تمہیں یوں وہاں سے اٹھ کر نہیں آ جانا چاہئے تھا۔“وہ ہولے سے بولا
”میں جانتی ہوں ،تم لوگ اپنے گھرہی سے یہ سوچ کر آ ئے تھے کہ اس شادی سے انکار کرنا ہے ۔تمہارے پاپا نے بات ہی اس طرح کی ہے ۔پھر میں وہاں کیا کرنے بیٹھی رہتی ؟“ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا تو وہ حیران رہ گیا۔اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے سکون سے کہا
”ایسا نہیں ہے ، میں اور ماما تو آ ج شاپنگ ....“ 
” غلط کہہ رہے ہو تم ، جھوٹ بولتے ہو ۔میں کسی جھوٹے شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی ۔“ اس نے انکار میں سر مارتے ہوئے کہا
” ثانیہ یہ تم کیا کہہ رہی ہو، شاید تمہیں کوئی غلط فہمی ہو گئی ۔ مجھے بتاﺅ ، بات کیا ہے ۔“ ذیشان نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے سکون سے پوچھا
”میں کچھ نہیں جانتی ، مجھے بس اکیلا چھوڑ دو ۔“ اس نے انتہائی غصے میں کہاتو ذیشان اس کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ اس قدر وہ آ پے سے باہر ہو رہی تھی ۔اس کے ساتھ جتنا تحمل اور سکون سے بات کر رہا تھا، وہ اسی قدر غصے میں آ تی چلی جا رہی تھی ۔ تبھی ذیشان کو خیال آ یا کہ معاملہ کافی سیریس ہے ۔ ان دنوں میں اگر ان کی شادی ہو بھی گئی تو ان کے درمیان ذرا سی بھی خوشگواریت نہیں ہوگی۔ جس طرح پاپا نے کہاکہ کچھ دیر انتظار کر لینا چاہئے تو ویسا ہی ٹھیک ہے۔ ممکن ہے اچھا ہونے کی بجائے بالکل ہی غلط ہوجائے ۔ اس نے اپنے تئیں فیصلہ کرتے ہوئے دھیمے سے کہا
” ثانیہ میں تمہیں بہت چاہتا ہوں۔ یہ تمہیں بھی پتہ ہے ۔ میں تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔تم کیسے یہ سوچ سکتی ہو کہ میں تمہارا خیال نہیں کرتا۔خیر ، اب جو بھی تمہارا فیصلہ ہو میں اسے مان لوں گا۔ہم اس شادی کو موخر کرتے ہیں۔پاپا جب واپس آ جائیں گے تو پھر ہو جائے گی یہ شادی بھی ۔ تم پر سکون ہو جاﺅ۔اب خوش ہو ؟“
” ہاں ، میں خوش ہوں ۔ہمیں ایسا ہی کرنا چاہئے ۔“ اس نے پرسکون لہجے میں کہا تو ذیشان فوراً ہی اٹھ گیا۔وہ اپنے تئیں مسئلہ سمجھ چکا تھا کہ کیا ہو سکتا ہے ۔ 
وہ واپس لاﺅنج میں آ یا تووہ سب چائے پی رہے تھے ۔ وہ سکون سے صوفے پر آ بیٹھا۔ سب کی نگاہیں اس پر تھیں ۔ اس لئے وہ بولا
” میرا خیال ہے ، پاپا لندن سے واپس آ جائیں تو ہی شادی کرنا بہتر ہوگا۔“
اس کے یوں کہنے پر ان سب کے درمیان جیسے ماحول ساکت ہو گیا ہو ۔ کچھ دیر انہوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا۔ پھر چوہدری نذیر ہی نے کہا
” چلیں اچھا ہوا ، ہمیں شادی کی تیاری کے لئے کافی وقت مل جائے گا۔دھوم دھام سے کریں گے شادی۔“
”ہاں ایسا ہی ہونا چاہئے ۔“ مراد علی نے بے دلی کہا تو ذیشان اٹھتے ہوئے بولا
” پاپا، میں آ فس جاتا ہوں ، آپ ماما کے ساتھ گھر چلے جائیں۔“
” چائے تو پی لو بیٹا۔ کچھ لیا بھی نہیں تم نے ....“ بیگم طلعت نے دکھی لہجے میں کہا تو وہ سنی ان سنی کرتا ہوا باہر کی جانب چل دیا۔
٭....٭....٭
اس وقت بیگم ثروت اور پھوپھو، باہر کاریڈور میں بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھیں۔کچھ دیر پہلے ہی شعیب آ فس کے لئے نکلا تھا ۔ وہ دونوں خاموشی سے یوں چائے پیتی چلی جارہی تھیں جیسے ان کے پاس بات کرنے کے لئے کوئی موضوع ہی نہ ہو ۔ چائے پینے کے بعد بیگم ثروت نے اٹھتے ہوئے کہا
” میں تو چلی اندر ، تھوڑا آ رام کر لوں ۔پھر مجھے مارکیٹ بھی جانا ہے۔“
اس پر پھوپھو نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ اندر چلی گئی۔ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ فرزانہ گیٹ پار کر کے اندر آتی ہوئی دکھا ئی دی ۔ وہ معمول سے کچھ پہلے ہی آ گئی تھی ۔وہ سیدھی پھوپھو کے پاس آ کر فرش پر بیٹھ گئی ۔
” آج اتنی جلدی آ گئی ہو ؟“ پھوپھو نے شک بھرے لہجے میں پوچھا
”میں گھر سے نہیں آئی ۔“اس نے افسردگی سے کہا
” توپھر کہاں سے آ ئی ہو؟“ پھوپھو نے تیزی سے پوچھا
” میں کرامت شاہ کے گھر سے آئی ہوں، رات وہیں تھی عمل کے لئے ۔“ اس نے دکھی لہجے میں منہ پھیرتے ہوئے کہا تو پھوپھو کی آ نکھیں چمک اٹھیں ۔اس نے جلدی سے سیدھی ہوتے ہوئے ارد گرد دیکھا، پھر ہولے سے پوچھا
”کیسے کیا عمل ؟“
اس پر فرزانہ کچھ نہیںبولی ، بلکہ اس کی آنکھوں میں آ نسو آ گئے ۔وہ لمحوں میں نڈھال دکھائی دینے لگی تھی ۔پھوپھو نے سب کچھ سمجھتے ہوئے فقط تصدیق کے لئے اپنا سوال دہرایا تو وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی 
” میرا سب کچھ لٹ گیا ہے پھوپھو۔ انہوں نے مجھے نشہ دیا تھا۔پھر پتہ نہیں میرے ساتھ کیا کچھ ہوتا رہا۔ مجھے کچھ سمجھ ہی نہیں آئی ۔ دوگھنٹے پہلے مجھے ہوش آ ئی تو میں گندگی میں لپٹی ہوئی تھی۔“
” اوہ ، ....“ پھوپھو کے منہ سے سرسراتے ہوئے بس یہی نکلا، پھر چند لمحوں بعد تجسس سے پوچھا،” رات ، اپنی ماں کو کیا بتایا؟“
اس پر فرزانہ نے ساری روداد پھوپھو کو سنادی ۔یہاں تک کہ اس نے نوٹوں کی ایک گڈی پھوپھو کے سامنے پھینکتے ہوئے بولی 
” یہ دئیے ہیں انہوں نے مجھے اور ساتھ میں دھمکیاں بھی دی ہیں۔کہا ہے کہ میں دوبارہ آ تی جاتی رہوں ورنہ وہ میرا سب کچھ ختم کر دیں گے اور میں کسی کو بتاﺅں بھی نہ ۔“ یہ کہتے ہوئے وہ رُو پڑی ۔
” اچھا ، صبر کر ، میں بات کروں گی ان سے ۔میں کہوں گی ان سے کہ تیری شادی جلد ازجلد اسلم سے ہو جائے ۔ اب اگر ہم یہ بات منہ سے نکالتے ہیں تو ہماری کوئی نہیں مانے گا ۔اب میں ہی بات کروں گی ان کے ساتھ، عقل مندی یہی ہے کہ بس خاموش رہا جائے ، واویلا کرنے سے کچھ نہیں ہوگا ۔“ یہ کہہ کر اس کی نگاہ نوٹوں پر پڑی ۔وہ اٹھا کر اس نے فرزانہ کو دیتے ہوئے کہا،” یہ رکھ لے اپنے پاس ، کام ا ٓئیں گے ۔“ 
” اپنے پاس ہی رکھ لو ، میں لے لوں گی پھر ۔“ فرزانہ نے کہا اور جلدی سے اٹھ کر اندر کی جانب چلی گئی ۔ پھوپھوچند لمحے سوچتی رہی ، پھر اس کے لبوں پر شیطانی مسکراہٹ رینگ گئی ۔ پھوپھو کو اسی لمحے یہ بے چینی ہونے لگی کہ ثانیہ کے بارے میں پتہ کرے ۔ وہاں کوئی نہ کوئی خبر ضرور ہو گی ۔
دن کا پہلا پہر گزر چکا تھا ۔ پھوپھو کچن میں جا کر فرزانہ کو زبردستی دودھ پلا کر نکلی تھی۔ بیگم ثروت مارکیٹ جانے کے لئے لاﺅنج میں آ کر بیٹھ گئی ہوئی تھی ۔ وہ ڈرائیور سے گاڑی نکالنے کا کہہ کر انتظار میں تھی ۔ انہی لمحات میںبیگم ثروت کا فون بج اٹھا۔ وہ دوسری طرف سے سنتی رہی ۔ وہ کچھ دیر تک فون سنتی رہی ۔ پھر فون بند کرتے ہوئے پھوپھو کو آواز دے ڈالی۔پھوپھو اس کے پاس جا کر بیٹھتے ہوئے بولی ۔
” کیا بات ہے ، بڑی پریشان لگ رہی ہو ؟“
” بات ہی ایسی ہے ۔“ وہ افسردگی میں بولی 
” بتاﺅ تو ۔“ پھوپھو کا تجسس عروج پر تھا
” وہ ثانیہ اور ذیشان کی شادی ہو رہی تھی چار دن بعد ، اب نہیں ہو رہی ۔“ بیگم ثروت نے بتایا تو پھوپھو کا دل بلیوں اچھل پڑا۔ بڑی مشکل سے خود پر قابو پاتے ہوئے بولی
” کیوں کیا ہوا ؟“
” وہی ثانیہ کی بیماری ، انہوں نے سوچا ، ٹھیک ہو جائے تو پھر دیکھتے ہیں ۔ ثانیہ کا سسر بھی تو لندن جا رہا ہے نا ۔“یہ کہہ کر اس نے نمبر پش کرتے ہوئے کہا
” میں شعیب کو بتادوں ۔“
پھوپھو اپنی کامیابی پر جھوم گئی تھی جبکہ دور کھڑی فرزانہ اسے غور سے دیکھ رہی تھی۔
٭....٭....٭
فرزانہ انہی لمحوںمیں سمجھ گئی تھی کہ وہ استعمال ہوگئی ہے۔ اسلم سے شادی کرنے کی خواہش اُسے بہت مہنگی پڑی تھی ۔ جس کی بہت بڑی قیمت چکانا پڑی تھی ۔جو ہونا تھا ، اب ہو چکا تھا۔ وہ کچن میں آ کر بیٹھ گئی ۔اس کی سوچ اسی محور پر گھومنے لگی ۔اسلم کو پانے کے لئے وہ اپنی عزت کھو چکی تھی ۔اگر وہ غریب نہ ہوتی تو شاید اس کے ساتھ یہ ظلم نہ ہوتا۔ یہ پھوپھو فاخرہ نے اپنے بھتیجے کی شادی کا مقصد حل کرنے کے لئے اسے بھینٹ چڑھا دیا۔اس کے اندر غصہ سر اٹھانے لگا ۔ اس کا جی چاہا کہ وہ پھوپھو فاخرہ کا گلا دبا دے ۔مگر اگلے ہی لمحے اس کے دماغ میں یہ سوچ ابھری ، پھر کیا ہوگا؟کیا اس طرح اس کی عزت واپس آ جائے گی ؟ ابھی تک تو سوائے چند لوگوں کے کسی کو معلوم نہیں، پھوپھو فاخرہ کے قتل کے بعد تو سب کو پتہ چل جائے گا ؟ کیا پھر وہ زندہ رہ پائے گی ؟کیا موت صرف اسی کا مقدر ہے ؟ ان سب کو موت کیوں نہ آ ئے ، جنہوں نے اس پر ظلم کیا ہے ؟ اس میں پھوپھو فاخرہ ، کرامت شاہ ، اسلم اور اسلم کی ماں کے ساتھ اس کی اپنی غربت بھی شامل تھی ۔ ایک کو اگر قتل کر بھی دے گی تو باقی بچ جائیں گے ، کوئی اور فرزانہ ان کے بھینٹ چڑھے گی ۔تو پھر مجھے کیا کرنا چاہئے ؟ اس کے اندر کی کیفیات پل پل بدلتی چلی جا رہی تھیں ۔اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے ۔اسے احساس اس وقت ہوا جب اسے اپنے گالوں پر نمی محسوس ہوئی ۔اس نے اپنی ہتھیلی کی پشت سے اپنے گال پونچھے اور اٹھ گئی۔ اس نے سوچ لیا تھا ، جو کچھ وقت نے، اس زمانے نے اسے دیا ہے ، وہ وہی کچھ وقت اور زمانے کو لوٹائے گی ،کیسے ؟ یہ اس نے وقت پر ہی چھوڑ دیا۔
٭....٭....٭
شعیب اس وقت اپنے آ فس میں تھا۔ اس کے پاس اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا۔دونوں میں خاموشی تھی ۔خاموشی کا یہ وقفہ کافی طویل ہوگیا تو دوست نے کہا
”مجھے نہیں پتہ تم کیا سوچ رہے ہو ، کیا کررہے، کیوں اس کام میں اتنی دیر لگا رہے ہو۔ لیکن میں ہر وقت حاضر ہوں ، میں نکاح ہونے سے پہلے تک سب کچھ کرنے کو تیار ہوں ۔ بس تم ایک بار ہاں کر دو ۔“
”یار میںنے تم سے کوئی بات نہیں چھپائی ، مجھے ایک بار ، صرف ایک بار ثانیہ کی ہا ں مل جائے ، چاہے معمولی سا اشارہ ہی کیوںنہ ہو۔“
”شادی کو دن کتنے رہ گئے ہیں ،محض دو ، پرسوں شادی ہے ۔کب ملے گا تمہیں اشارہ ؟“
اس سے پہلے کہ شعیب جواب دیتا، اس کا سیل فون بجا۔ اس نے اسکرین پر پھوپھو فاخرہ کے نمبر دیکھے تو کال رسیو کر لی ۔ پھوپھو نے کسی تمہید کے بنا تیزی سے کہا
” لوبیٹا، دو اپنی پھوپھو کو دعائیں ، تمہارا آ دھے سے زیادہ کام تو ہوگیا۔ “
” مطلب، میں سمجھا نہیں۔“ اس نے الجھتے ہوئے کہا
” ارے مبارک ہو ، ثانیہ کی شادی رُک گئی ہے ۔بلکہ یوں سمجھو کہ اب ہو گی ہی نہیں۔“ پھوپھو فاخرہ نے جوشیلے انداز میں کہا تو اس نے حیرت سے پوچھا
” کیسے پھوپھو، یہ کیسے ہوا ، اطلاع ٹھیک توہے نا؟“
” بالکل درست اطلاع ہے ، یقین نہ آ ئے تو اپنی ماں سے پوچھ لو ۔ایک طرح سے جواب ہو گیا ہے ۔“ پھوپھو نے کہا تو اس نے کہا
” پوری بات بتائیں ۔“
پھوپھو نے اپنے انداز میں ساری بات اسے بتا دی ۔وہ خوشگوار حیرت میں سب سنتا رہا ۔ساری بات سن کر بولا
” ٹھیک ہے ۔ میں کچھ دیر میں آ تا ہوں ۔“فون بند کر دینے کے بعد اس نے اپنے دوست سے کہا،” وہی ہوا نا ، جس کے بارے میں تجھے کہہ رہا تھا۔“ 
” کیا ہوا ؟“
اس پر اس نے وہ سب بتا دیا جوابھی پھوپھو نے اسے فون پر بتایا تھا ۔اس کا دوست حیرت سے سار ی بات سنتا رہا،پھر سمجھ آ جانے والے انداز میں سر ہلاتے ہوئے بولا
”یار ، اب اس سے بڑی کیا ہاں کیا ہوگی ۔مجھے تو یہی سمجھ آ یا ہے کہ وہ تمہیں چاہتی ہے ۔ بس کوئی وجہ تھی جو یہ سب ہوا، میری صلاح یہی ہے کہ تم خود اس کی طرف بڑھو، اسے اپنی محبت جتاﺅ، یہی وقت ہے۔“
” ہاں ، یہی وقت ہے ۔“ شعیب نے سوچتے ہوئے کہا اور اپنا سیل فون اٹھا لیا۔پھر ثانیہ کے نمبر پش کرنے کے بعد رابطہ ہو جانے کا انتظار کرنے لگا۔ 
” ہیلو ۔“ دوسری طرف سے ثانیہ کی منمناتی ہوئی آ واز آ ئی تو شعیب نے کہا
”میں تم سے یہ نہیں پوچھوں گا کہ تم کیسی ہو ؟ لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کوئی دکھ کوئی سوگ منانے کی بجائے ،گھر سے نکلو ، کسی پر سکون اور خوشگوار جگہ پر بیٹھتے ہیں ۔باتیں کرتے ہیں ۔جس میں آ ج کے کسی واقعہ کا کوئی ذکر نہیں ہوگا۔“ 
” میں خود بہت ڈسٹرب ہوں ، مجھے یہاں اکیلے میں بہت وحشت ہو رہی ہے ۔میں خود کسی کھلی جگہ جانا چاہتی ہوں۔“ اس نے یوں کہا جیسے وہ بہت پریشان بیٹھی ہوئی ہو 
” ایسا کرو ، تیار ہو جاﺅ ، میں تمہیں لینے کے لئے آ رہا ہوں ۔“ شعیب نے تیزی سے کہا
”ہاں ، پاپا ، آ فس چلے گئے ہیں ، تم آ جاﺅ ۔“ وہ بولی 
” میں اندر نہیں آ ﺅں گا ، بلکہ گیٹ ہی سے پک کر لوں گا ۔ بس تم جلدی سے تیار ہو جاﺅ ۔“ اس نے کہا اور فون بند کر دیا ۔
شعیب یوں خاموش ہو کر بیٹھ گیا جیسے یہ سب خواب میں ہو رہا ہو ۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ثانیہ یوں اس کے ساتھ جانے پر راضی ہو جائے گی ۔یا پھر اس قدر اچھے انداز میں بات ہی کرلے گی ۔وہ کچھ دیر ساکت سا بیٹھا رہا ، پھر اس نے کھل کر قہقہ لگادیا ۔ اسے لگا جیسے اس نے ثانیہ کو جیت لیا ہو ۔
” کیا ہوا ؟“ اس کے دوست نے حیرت سے پوچھا
”یار ، وہ میرے ساتھ کہیںباہر جانے پر راضی ہو گئی ہے ۔وہ میری کمپنی چاہ رہی ہے ۔“ شعیب نے یوں کہا جیسے ایک جہان فتح کر لیا ہو ۔
” اب دیر مت کرو ، جاﺅ اسے لو جا کر ۔“اس نے کہا تو شعیب اٹھتا چلا گیا۔
شعیب نے ثانیہ کے گھر کے قریب پہنچ کر اسے کال کی کہ میں پہنچ گیا ہو ، آ جاﺅ ۔ وہ کچھ دیر بعد گیٹ پر آ گئی ۔ثانیہ نے ہلکے کاسنی رنگ کا شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اس کی گیسو ہوا سے اُڑ رہے تھے ۔اس نے سیاہ چشمہ پہنا ہو ا تھا ، وہ آئی تو شعیب نے جلدی سے اتر کر ا کے لئے پسنجر سیٹ کا دروازہ کھولا تو وہ بڑے سکون سے بیٹھ گئی ۔ شعیب نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا
” کہاں چلیں؟“
اس کے ساتھ ہی اس نے کار بڑھا دی ۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد اس نے کہا
” جہاں تمہارا دل چاہے ۔“ 
” میرا دل بھی وہی چاہے گا ، جو تمہارا دل چاہتا ہے ۔“ شعیب نے کچھ اس طرح دل سے کہا کہ ثانیہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا پھر بڑے مان سے بولی 
” چلو ، آج کا دن تمہارے نام ، جو تم چاہو ۔“ 
” اوکے ۔“ اس نے کہا اور سامنے دیکھتے ہوئے رفتار بڑھا دی ۔شعیب کو یوں لگ رہا تھا جیسے وہ یہ سب خواب میں دیکھ رہا ہے ۔
وہ ریزارٹ میں موجود خوبصورت لان کے پر سکون گوشے میں آ منے سامنے سفید کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ثانیہ کا چہرہ گلابی گلابی لگ رہا تھا ۔ ویسا بالکل نہیں تھا ، جیسے چند دن پہلے اس نے ہسپتال میں دیکھا تھا۔ابھی تک ان کے درمیان ذیشان کے شادی موخر ہو جانے کی بات نہیں ہوئی تھی ۔شعیب خود بھی ذکر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اور شاید وہ بھی نہیں بات کرنا چاہتی تھی ۔ ان کے درمیان موسم ، پرسکون جگہ اور خوشگوار ماحول بارے باتیں چلتی رہیں جو بلاشبہ بہت پھیکی اور اوپری اوپری سی تھیں ۔تبھی فریش جوس کا ایک سپ لے کر گلاس رکھتے ہوئے ثانیہ نے کہا
” مجھے یہ آ زادی کے لمحے بہت اچھے لگ رہے ہیں۔“
” آ زادی ؟ مطلب تمہیں کسی نے قید کیا ہوا تھا؟“ شعیب نے ساری بات سمجھتے ہوئے بھی انجان بنتے ہوئے پوچھاتو وہ مسکراتے ہوئے بولی 
”پتہ نہیں کیوں ، ذیشان سے منگنی ہوتے ہی مجھے یوں لگا جیسے میں قید کر لی گئی ہوں ۔ کوئی میرے اندر بیٹھا ، مجھے مسلسل یہ باور کرا رہا ہے کہ میں قید ہو نے جا رہی ہوں ۔ذیشان ایسا نہیں ہے جیسا وہ دکھائی دے رہا ہے ۔ “
’ ’ کیا تم اسی لئے پریشان تھی ؟ یہی وجہ تھی کہ تم ہسپتال جا پہنچی ہو ؟“ اس نے پوچھا
” میں کچھ نہیں جانتی ، شاید میں نے بہت سوچا ، یا جوکچھ بھی تھا، میں پاگل ہو گئی تھی ۔“ وہ الجھتے ہوئے بولی 

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *