Saturday, 23 September 2017

کیمپس۔۔۔۔ امجد جاوید۔۔۔ قسط نمبر5

کیمپس

امجد جاوید
قسط نمبر5
ماہم میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں اس کی نگاہوں کو پڑھنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ہمارے درمیان میں میز تھا ۔ جس کی دوسری طرف وہ اپنی پوری جو لانیوں سمیت بیٹھی ہوئی تھی۔ میں چاہ رہا تھا کہ وہ خود ہی کوئی بات چھیڑے۔ اس لیے منتظر تھا۔ تب وہ چند لمحوں کے بعد بولی۔
”آپ کے خیال میں یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے، کچھ سمجھ آئی آپ کو؟“
”میرے خیال میں صرف اتنی سی بات ہے کہ انہوں انا کا مسئلہ بنا لیا ہوا ہے“۔ میں نے وہ ہی کہہ دیا جو میں سمجھتا تھا۔
”نہیں....! اصل میں بات کچھ اور ہے“۔ اس نے سکون سے کہا اور پھر میری خاموشی پا کر کہتی حل گئی۔ ”اصل میں یہ اس ڈیپارٹمنٹ کے ٹیچرز کی سیاست ہے۔ وہ چیئرمین کو ہٹانا چاہتے ہیں۔ اس لیے ڈیپارٹمنٹ میں سکون نہیں دیکھنا چاہتے۔ میڈم اس کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ اس نے سینئرز کو اپنے ہاتھوں میں کیا ہوا ہے۔ جو اس کے اشارے پر سب کچھ کر رہے ہیں“۔
”مطلب....! ڈیپارٹمنٹ میں گڑبڑ پر چیئرمین کو ہٹا کر میڈم کو لائے جانے کی سیاست ہو رہی ہے۔ مان لیتے ہیں،اگر یہی بات ہے تو سوال یہ ہے کہ تمہیں یہ اطلاع کس نے دی کہ ....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ جلدی سے بولی ۔
”اس بات کو چھوڑیں آپ.... ہماری کم از کم پانچ کلاسیں لگناچاہئے تھیں، مگر اب تک فقط دو لگتی ہیں، دوسرے ٹیچرز صرف اس لیے نہیں آرہے ہیں کہ وہ چیئرمین کو ناکام کریں۔ وہ لوگ سٹوڈنٹس کو استعمال کر کے اپنی بات منوانا چاہا رہے ہیں“۔
”تمہارا کیا خیال ہے، ہمیں چیئرمین کا ساتھ دینا چاہئے“۔ میں نے پوچھا۔
”ظاہر ہے۔ اب یہ رسک تو ہمیں لینا ہی ہو گا، اگر ان کے مقابلے پر آنا ہے تو.... ورنہ چپ چاپ وہی مان لیں جو سینئرز کہتے ہیں۔ پھر جو ہوتا ہے، ہوتا رہے“۔ ماہم نے باقاعدہ میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ تم ایک دم سے مایوس کیوں ہو جاتی ہو“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”نہیں، میں مایوس نہیں ہو رہی ہوں۔ مجھے کوئی دکھائی نہیں دے رہا ہے جو میرا ساتھ دے۔ یہ جو میڈم گندی سیاست کر رہی ہے.... مجھے بہت بری لگی ہے۔ سٹوڈنٹس کو استعمال کر کے انہیں بے خوف کررہی ہے۔ اب اسے ہی ڈیپارٹمنٹ سے نکلنا ہو گا“۔ اس نے ایک عزم سے کہا تو میں نے ایک لمحے میں سوچ لیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ 
”ماہم....! مجھے نہیں معلوم کہ تم کیا کرناچاہتی ہو، وہ غلط ہے یا درست، مجھے اس سے بھی غرض نہیں، میں تمہارا ساتھ دوں گا، جو بھی تم کرنا چاہو“۔ میرے یوں کہنے پر وہ خوشگوار حیرت سے میری طرف دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک در آئی تھی۔ اس لیے جب وہ بولی تو اس کی آواز میں بھی کھنکھناہٹ تھی۔
”ابان....! اب دیکھنا میں کیا کرتی ہوں“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے میری جانب مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ میں نے بھی مسکراہٹ سے اس کا جواب دیا تو وہ کہنے لگی۔ ”ویسے یہ بڑی بات ہے، یہ جانے بغیر کہہ میں کیا کرنا چاہتی ہوں“۔
”جب کس پر بھروسہ کیا جاتا ہے نا تو پھر کیا اور کیوں کے چکر میں نہیں پڑتے، بولو، کیا کھانا پسند کروگی“۔ میں نے ہولے سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”جو آپ چاہو“۔ اس نے ایک ادا سے کہا اور پھر اپنا سیل فون نکال کر نمبر ملانے لگی۔ میں اس وقت ویٹر کو اشارہ کر چکا تھا، جب اس کی فون پر بات ہو گئی۔
”جی، سر، میں ماہم بات کر رہی ہوں.... جی سر بات ہو گئی.... ابان سمجھ گیا ہے، میں نے اے صورتِ حال بتا دی ہے۔ جی بالکل وہ میرا ساتھ دے گا.... جی باقی کو وہ خود سمجھالے گا.... آپ فکر نہ کریں سر.... جی کل وہ خود آپ کو درخواست دے گا.... جی سر، میں سمجھ گئی.... اوکے.... اﷲ حافظ....“
یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کرے میری طرف دیکھا۔ ویٹر میرے قریب کھڑا تھا، میں نے اسے بڑے سکون سے آرڈر دیا اور ماہم کی طرف دیکھا۔ تب وہ بولی۔ ”میں چیئرمین سے بات کر ہی تھی.... باقی بات آپ سمجھ ہی گئے ہو“۔
”ہاں، میں سمجھ گیا۔ مجھے تم جیسی لیڈر پا کر بہت خوشی ہوئی۔ میرے اس طرح کہنے پر وہ ایک دم سے خوش ہو گئی۔ پھر اگلے ہی لمحے خود پر قابو پاتے ہوئے بولی۔
”اب سنیں، مجھے یہ کہانی کہاں سے معلوم ہوئی، سینئرز میں ایک لڑکی ہمارے حلقہ احباب میں شامل ہے، سمجھ لیں فیملی تعلقات ہیں۔ یہ ساری باتیں اس نے مجھے بتائیں ہیں“۔
”اور کار توڑنے میں کون ملوث ہے؟“ میں نے آہستگی سے پوچھا۔
”وہ میں کل بتاﺅں گی، ابھی مجھے خود نہیں معلوم“۔اس نے الجھتے ہوئے کہا تو میں نے اس موضوع کو یوں ختم کر دیا جیسے کچھ لمحے پہلے اس پر بات ہی نہ ہو رہی ہو۔ میں نے موضوع بدلا اور پھر ماہم ہی کو سنتا رہا۔ وہ اپنے بارے میں بتاتی رہی۔ میں نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بس اس کی طرف دیکھتے ہوئے، اسے سنتا رہا۔ میں نے ایک چیز محسوس کی، وہ جب خاصی شدت میں بات کررہی ہو تو دائیں جانب کے نچلے ہونٹ کو دانت سے کچلتی تھی۔ اس کی یہ معصومانہ لاشعوری ادا مجھے بہت اچھی لگی۔ ویٹر ہمارا مطلوبہ کھانا رکھ گیا تھا۔ ہم کھاتے رہے اور باتیں کرتے رہے۔ ہم میں ڈیپارٹمنٹ، کلاس فیلو اور ٹیچر ہی زیر بحث رہے۔ کافی حد تک اس نے اپنے بارے میں بھی بتایا۔ پھر ہم اٹھ گئے ۔ اس وقت مجھے خاصی حیرت ہوئی، جب میں نے یہ محسوس کیا کہ سارے وقت میں اس نے میرے بارے میں ایک بھی ذاتی نوعیت کا سوال نہیں۔ میں نے بل دیا اور ریستوران سے باہر آگیا۔ اس وقت تک ماہم گاڑی میں بیٹھ کر جا چکی تھی۔
l l l
میں سبزہ زاد کے لان میں بیٹھا ہوا تھا۔ رات خاصی ہو گئی تھی۔ جندوڈا مجھے وہیں کافی دے گیا تھا۔ میں ذرا ذرا سپ لیتے ہوئے، آج دن میں ہونے والے واقعات اور ماہم کے رویے کے بارے میں سوچتا چلا جارہا تھا۔ میں دراصل کے انتظار میں تھا۔ وہ دوپہر کے بعد مجھے نہیں ملا تھا، لیکن فون پر اس سے رابطہ تھا۔ وہ تھوڑی دیر میں آنے والا تھا۔ بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ غیر متوقع واقعہ یا حالات نہ صرف پریشان کر دیتے ہیں، بلکہ الجھا بھی دیتے ہیں۔ ماہم کا ایک دم سے اتنا قریب آجانا میرے لیے غیر متوقع ہی تھا۔ میں تو اس کے بارے میں یہ سوچ رہا تھا کہ اس سے تعارف اور ایک کپ چائے پینے تک میں کئی دن لگ جائیں گے، لیکن یہاں معاملہ ہی الٹا ہوا تھا، حالات یوں بن گئے تھے کہ ملاقات کے پہلے ہی دن ہم آنے سامنے بیٹھ کر کھاناکھا چکے تھے۔ یہ بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔ اصل میں مجھے الجھا دینے والا اس کا رویہ تھا، اس میں میرے لیے اتنا بھی تجسس نہیں تھا کہ میں کون ہوں؟ اور اس کا بھروسہ اتنا کہ اچانک ہی مجھے وہ بات کہہ دی جو کم از کم کسی اجنبی سے نہیں کہی جا سکتی اور نہ ہی یوں تنہائی میں اس کے ساتھ کھانا کھایا جا سکتا ہے۔ کیا وہ میرے بارے میںپہلے ہی سے جانتی ہے؟ یہ سوچتے ہی مجھے بے چینی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ ظاہر ہے میں بھی تو اس کے بارے میں جانتا تھا، لیکن وہ میرے بارے میں کیسے جانتی ہے؟ یہی بات میرے لیے تجسس کا باعث تھی۔ میں بہر حال ماہم کے بارے میں کافی حد تک الجھ گیا تھا۔ اگر اسے میرے بارے میں یہ معلوم ہوا کہ میں کون ہوں تو پھر میرے لیے بہت مشکلات ہی نہیں، ناممکن ہو جانا تھا کہ میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاﺅں۔ تب پھر اس راہ پر چلنا خود کشی کے مترادف تھا۔ میں انہی خیالوں میں کھویا ہوا تھا کہ آگیا۔ اس نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور سیدھا میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ میں گاڑی کی طرف دیکھا رہا تھا، جو بالکل نئی تھی۔
”یہ....؟“ میں نے گاڑی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
”آپ کے لیے ہے۔ اسے ٹھیک ہونے میں چند دن لگ جائیں گے۔ ویسے اب آپ ہی گاڑی استعمال کریں، اس پرانی گاڑی کو بھول جائیں“۔ نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”کتنا نقصان ہو گیا ہو گا....“ میں نے یونہی سرسری سے انداز میں پوچھا۔
”جتنا بھی ہو گیا، اسے چھوڑیں، اب آپ کو کرنا یہ ہے کہ اس بندے کو تلاش کریں۔ جس کے دماغ میں یہ بات آئی تھی کہ یوں گاڑی کا نقصان کرنا ہے۔ باقی پھر دیکھ لیں گے“۔ اس نے سنجیدگی سے کہا۔
”یار، وہ تو تلاش ہو جائے گا، مگر میرے لیے فکر مندی کی بات کچھ اور ہے“۔ میں نے اسے اپنی پریشانی بتانے کے لیے تمہید باندھی ۔
 ”وہ سر بتائیں“۔ وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔
”مجھے یوں احساس ہوا ہے کہ جیسے ماہم میرے متعلق جانتی ہے“۔ میں نے فکر مندی سے کہا۔
”یہ احساس آپ کو کیسے ہوا؟“ اس نے چونکتے ہوئے پوچھا تو میں نے انتہائی سنجیدگی سے اسے بتا دیا تو وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”آپ کو وہم ہو گیا ہے، ایساکچھ نہیں ہے“۔
”یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”میں پیچھے دو سال سے اس کی نگرانی رہا ہوں“۔ اس نے پُرسکون لہجے میں انکشاف کیا میں حیران رہ گیا“۔ وہ ایک ایسی لڑکی ہے جس کے کردار پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے بہت لاڈلی ہے لیکن اس نے اپنے والدین کا بہت اعتماد جیتا ہے۔ کار چلانے سے لے کر ریوالور چلانے تک اس نے سیکھا ہے۔ بہت اعتماد ہے اس میں، نرم و نازک دکھائی دینے والی لڑکی میںبڑا جگرا ہے“۔
”یہ تم اس کی تعریف کر رہے ہو یا اس کی صلاحیتوں کے بارے میں آگاہ کررہے ہو، مگر یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے“۔ میں نے اکتاتے ہوئے انداز میں کہا۔
”وہی کہہ رہا ہوں نا، اس کے دوستوں میں کوئی لڑکا نہیں ہے، میں نے کبھی تنہا اسے کسی لڑکے ساتھ نہیں دیکھا اور ....“
”پھر وہی بات کررہے ہو“۔ میں نے تیزی سے اسے ٹوکا تو اس نے ایک دم میری جانب دیکھا اور بولا۔
”میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اسے آپ کے بارے میں کس طرح کا بھی علم نہیں ہے، ورنہ وہ یوں آپ کا ساتھ تنہانہ بیٹھتی۔ معاملہ کچھ اور ہے، آپ اسے سمجھنے کی کوشش کریں، ممکن ہے وہی آپ کے لیے آسانی کا باعث بن جائے“۔اس بار اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔ میں خاموش ہو گیا۔ مجھے لگا کہ وہ یونہی ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے اور وہ بھی فقط مجھے حوصلہ دینے کی غرض سے، ورنہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں تھی اپنی بات ثابت کرنے کے لیے۔ تب میں اٹھ گیا۔ اب میں سب کچھ بھول کر سو جانا چاہتا تھا۔
l l l
 میں ڈیپارٹمنٹ دیر سے پہنچا تھا۔ میں نے گاڑی پارکنگ میں لگائی اور وہاں سے پیدل ڈیپارٹمنٹ کی عمارت کی جانب بڑھا۔ تب نہ جانے کس طرف سے نیلی وردی میں ملبوس گارڈتیزی سے میرے سامنے آگیا۔ اس کے چہرے پر حددرجہ بے چارگی اور خوف پھیلا ہوا تھا۔ وہ بڑی لجالت سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولا۔
”سر جی، آپ کا جو کل نقصان ہوا، میرا اس میں کوئی قصور نہیں ہے، میں تو .... میں تو....“ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے خاموش ہو گیا۔ میں اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا اور دھیرے سے بولا۔
”تو پھر یہ کیسے ہو گیا؟“
” سر،میں کل یہاں ڈیوٹی پر تھا۔ کینٹین کا ویٹر یہاں میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ کچھ لوگ مجھے وہاں بلا رہے ہیں، میں فوراً وہاں پہنچوں۔ میری غلطی یہ ہے کہ میں ادھر چلا گیا۔ واپس آیا تو یہ معاملہ ہو چکا تھا۔ میں نے فوراً ہی اپنے آفس میں رپورٹ کر دی۔ میری جتنی غلطی ہے، وہ میں میں مانتا ہوں“۔ اس نے التجائیہ انداز میں کہا۔
”لیکن تم نے یہ نہیں بتایا کہ کینٹین میں تمہیں کس نے بلایا تھا؟“ میں نے تجسس سے پوچھا۔
”سر! وہ ویٹر خود حیران تھا۔ جب وہ واپس گیا تو وہاں پر کوئی نہیں تھا۔ وہ چلے گئے تھے۔ میں نے وہاں جا کر اس سے پوچھا تو اس نے مجھے یہی بتایا.... اب وہ ویٹر بھی کل کا دکھائی نہیں دے رہا ہے“۔ گارڈ نے کہا تو میں نے اس سے مزید بات کرنا مناسب خیال نہیں کیا۔ اس کا یوں مجھے راستے میں روک کر اپنی صفائی بیان کرنا، شک پیدا کر رہا تھا۔
”چلوٹھیک ہے، دیکھتے ہیں اصل معاملہ کیا ہے“۔ میں نے کہا اور آگے کی طرف بڑھ گیا۔ میں ڈیپارٹمنٹ پہنچا تو کلاس ہو رہی تھی۔ میں کمرے میں داخل ہوا تو لاشعوری طور پر میں نے ماہم کو دیکھا۔ وہ نہیں تھی۔ اس کی نشست خالی پڑی ہوئی تھی۔ اس کے اردگرد لڑکیاں تھیں۔ سر ریحان لیکچر دے رہے تھے۔ میں خاموشی سے پچھلی قطار میں جا کر بیٹھ گیا۔ لیکچر ختم ہوا تو میں بھی دوسروں کے ساتھ باہر جانے لگا۔ مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی تھی کہ نہ تو تنویر ہے اور نہ اسد، اس کے ساتھ رابعہ بھی غائب تھی۔ میری نگاہ فریحہ پر پڑی۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اس کے قریب گیا۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے سب لوگوں کے بارے میں پوچھتا، کلاس روم کے دروازے پر مجھے اسد دکھائی دیا۔ جیسے ہی نگاہیں ملیں، اس نے باہر آنے کا اشارہ کیا۔ میں فوراً ہی اس کے پاس جا پہنچا، 
”جلدی آﺅ....!“ اس نے تیزی سے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ راہداری کے سرے پر ماہم سمیت سبھی کھڑے تھے اس نے میری طرف دیکھا اور ایک کاغذ میری جانب بڑھاتے ہوئے بولی۔
”یہ لو، اس پر دستخط کر دو“۔
میں نے وہ کاغذ پکڑا، بنا دیکھے اس تحریر کے آخر میں دستخط کردیئے۔ ایک نگاہ میں مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ وہ ایک درخواست تھی جو کل والے واقعہ سے متعلق تھی۔ اس دوران رابعہ آگے بڑھ کر سارے کلاس فیلوز کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی۔
”آپ سب یہاں رکیں ہم نے کل والے واقعے بارے میں چیئر مین صاحب سے بات کرنی ہے“۔
”لیکن جسے جانا ہے،ہمارا ساتھ نہیں دینا، وہ جا سکتا ہے“۔ ماہم نے اونچی آواز میں کہا۔ وہاں چند لمحے خاموشی رہی کوئی بھی نہیں گیا تو سب چیئرمین کے کمرے کی طرف چل دیئے۔ میں، ماہم اور اسد اندر گئے، میڈم اور سر ریحان وہیں تھے۔ میں نے خاموشی سے درخواست چیئرمین کے سامنے رکھ دی۔ انہوں نے پہلے درخواست کو اور پھر میری جانب دیکھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتے میڈم بولیں۔
”ابان، یہ معاملہ تو تمہارا ہے، لیکن یہ لوگ تمہارے ساتھ کیوں ہیں۔ ایک درخواست دینے کے لیے اتنے لوگ؟“
”میڈم ابھی پوری کلاس باہر کھڑی ہے، وہ اس کمرے میں نہیں آسکتے، ورنہ انہیں بھی ساتھ لے لیتے، ویسے ہم ”لوگ“ نہیں ابان کے کلاس فیلو ہیں“۔ ماہم نے دھیمے لہجے میں کہا تو بھڑک گئیں۔ تیز لہجے میں بولیں۔
”تمہارا کیا خیال ہے، اب چیئرمین صاحب تمہاری ذاتی لڑائیاں بھی نمٹاتے رہیں گے۔ یہاں آپ لوگ پڑھنے آتے ہیں یا لڑنے....؟“
”میڈم....! جس نے بھی ابان کی گاڑی کو نقصان پہنچایا ہے،آج وہ آپ کے لیکچر سے پہلے تک سامنے نہیں آیا تو ممکن ہے ہم یہ معاملہ خود اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے“۔ ماہم نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”یہ تم نے ابان کی وکالت کب سے شرع کر دی ہے، وہ ایک لفظ نہیں بولا اور تم....“ وہ شدت میں کچھ نہ کہہ سکیں۔ اس پر ماہم نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔
” آپ اسے بھی سوچیں اور یہ بھی کہ اب ایک گھنٹے کے اندر اندر اس کو ہمارے سامنے لے آئیں، تب میں نہ صرف وکالت والے سوال کا جواب دوں گی، بلکہ یہ بھی کہ آپ نے یہ بات کیوں کی ہے....“ یہ کہہ کر اس نے چیئرمین کی طرف دیکھا اور بولی۔ ”سر....! کیا کہتے ہیں آپ“۔
”میں دیکھتا ہوں۔ ویسے میرے ذرائع نے مجھے بتا دیا کہ وہ کون تھے۔ آپ لوگ نے جائیں ، میں دیکھتا ہوں“۔ چیئرمین صاحب نے بھی کھل کر ہماری طرف داری کا اشارہ دے دیا تو ہم لوگ واپس پلٹ آئے۔ پھر کینٹین تک جاتے ہوئے اندر والی بات سے سبھی آگاہ ہو گئے۔
کینٹین پر بیٹھے ہوئے ایک گھنٹہ گزر گیا۔ اس دوران ماہم غصے میں بھری رہی۔ میں اس سے تنہائی میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ کئی سارے سوال تھے۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ آخر وہ میڈم کے ساتھ کیا مخالفت رکھتی ہے کہ اسی کی مخالفت کیے جارہی ہے۔ دوسری بات یہ تھی کہ کیا اسے معلوم ہو گیا ہے کہ وہ کون تھے جنہیں ایک گھٹنے کے اندر اندر وہ سامنے لانا چاہتی تھی۔ چونکہ چیئرمین صاحب نے بھی ان کے بارے میں معلوم ہونے کا عندیہ دے دیا تھا۔ اس لیے ماہم میں شدت کچھ زیادہ ہی آگئی تھی۔ دراصل وہ میڈم کے ”وکالت“ کہنے پر چڑ گئی تھی۔ وہیں کینٹین پر باتیں کرتے ، کھاتے پیتے ایک گھنٹہ گزر گیا۔ میڈم کے پیریڈ شروع ہونے میں بھی تھوڑا سا وقت تھا، ہم سب اٹھ کرڈیپارٹمنٹ کی طرف بڑھ گئے۔ انہی لمحات میں سر ریحان سینئرز کی کلاس لے کر واپس آرہے تھے اور سینئرز اپنے کلاس روم میں سے نکل رہے تھے۔ صورتِ حال کچھ اس طرح کی ہو گئی کہ ہم آمنے سامنے آ گئے۔ سر ریحان نے دونوں کلاسزکی طرف دیکھا، پھر فوراً ہی مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے۔
”ابان....! تم میرے ساتھ آﺅ، میں نے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے“۔
”چلیں سر....!“ میں نے فوراً ہی کہہ دیا۔
”لگتا ہے گاڑی تڑوا کر تھوڑا سیدھا ہو گیا ہے“۔ سینئرز ہی میں سے کسی نے کہا تو سر ریحان ایک دم سے بھڑک اٹھے۔
”یہ کون ہے....؟ کیا چاہتے ہو تم لوگ.... اپنے ڈیپارٹمنٹ کی بدنامی چاہتے ہو۔ سارے کیمپس کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں وحشی لوگ موجود ہیں۔ میں گڑبڑ کرنے والوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ان کی یہاں ایک نہیں چلے گی“۔
”سر....! ان میں ہمت ہی نہیں ہے کہ سامنے آسکیں.... ان میں اتنی جرا ¿ت ہی نہیں ہے۔ یہ صرف باتیں کرنا جانتے ہیں، مگر میں بتا دوں.... اب اس ڈیپارٹمنٹ میں وہی ہو گا، جو ہم چاہیں گے....“ ماہم نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
”کیا کرلو گی تم....“ ایک سینئرز لڑکی نے آگے بڑھ کر غصے میں کہا۔
”چیئرمین صاحب کا فیصلہ.... اس کی منتظر ہوں میں.... میں کیا کر سکتی ہوں.... ابھی پتہ چل جاتا ہے کہ میں کیا کرسکتی ہوں، ہمت ہے ناتو یہیں اس ڈیپارٹمنٹ میں رہنا، ابھی دکھاتی ہوں.... آﺅ ابان....“ ماہم نے تیزی سے کہا اور میرا بازوپکڑ کر چیئرمین کے کمرے کی جانب پلٹ گئی۔ وہ اپنے کمرے میں اکیلے ہی بیٹھتے ہوئے تھے۔ ہمیں دیکھتے ہی بولے....
”جنہوں نے آپ کی گاڑی کو نقصان پہنچایا ہے۔ وہ سینئرز کی کلاس سے تعلق نہیں رکھتے، باہر کے لوگ تھے وہ .... لیکن جس نے انہیں یہاں بلوایا تھا وہ صفدر ملک ہے، اس سے میری بات ہو گئی ہے، وہ معذرت کرنا چاہتا ہے اور جو نقصان ہوا ہے وہ بھی دے گا اور آئندہ کچھ بھی نہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ اب آپ کہو کیا کہنا چاہتے ہو“۔
”آپ کیا کہتے ہیں؟“ ماہم نے گیندان کے کورٹ میں پھینک دیا۔
”میرے خیال میں ان کا منصوبہ فلاپ ہو گیا ہے۔ جو وہ کرنا چاہ رہے تھے۔ میڈم یہ ڈیپارٹمنٹ چھوڑ کر لمبے عرصے کے لیے چھٹیوں پر جا چکی ہے،کیونکہ اس کے سامنے صفدر ملک نے سازش کو بے نقاب کر دیا ہے۔ اب ڈیپارٹمنٹ میں سکون ہو جائے گا۔ باقی آپ لوگوں کا فیصلہ ہے ، جو کرنا چاہیں۔ صفدر اپنی اس حرکت پر یونیورسٹی سے نکالا بھی جا سکتا ہے“۔ چیئرمین صاحب نے کہا تو ماہم چند لمحے سوچتی رہی پھر میری جانب دیکھ کر بولی۔
”ابان.... کیا کرنا چاہئے....؟“
”میرے خیال میں امن زیادہ بہتر ہے، اگر وہ ہم سے معذرت کر لیتے ہیں اور آئندہ یہاں کوئی گڑبڑ نہیں ہوتی ۔ تو ٹھیک ہے....“ میں نے پُر سکون انداز میں کہا تو چیئرمین نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”مجھے تمہاری بات بہت اچھی لگی ابان.... امن ہو جانے سے دوسرے شعبہ جات سے اساتذہ یہاں پڑھانے آئیں گے۔ نئے اساتذہ کا تقرر ہو گا اور سب سے بڑی بات کہ تنظیم کا وہ زور جو یہاں تھا، وہ ٹوٹ جائے گا۔ کم از کم یہاں ہمارے اس ڈیپارٹمنٹ تک آپ لوگ ان پر حاوی ہو جائیں گے.... ورنہ لڑائی تو بڑھتی چلی جائے گی“۔
”اوکے....! صفدر سے کہیں وہ دونوں کلاسز کے سامنے اپنی غکطی کا اعتراف کر کے معذرت کرلے.... ہم اس سے نقصان بھی نہیں لیں گے“۔ ماہم نے ایک دم سے کہہ دیا اور باہر جانے کے لیے پلٹنے لگی۔
”ٹھہرو، ہم اکٹھے ہی جاتے ہیں“۔ چیئرمین صاحب نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ہم تینوں وہاں سے نکل کر راہداری میں آئے تو سر ریحان کی موجودگی میں وہاں پر اچھی خاص تکرار شروع تھی۔ وہ لوگ زور زور سے باتیں کر رہے تھے۔ چیئرمین صاحب کو دیکھتے ہی وہ خاموش ہو گئے۔ انہوں نے سب کی طرف دیکھ کر کہا۔ ”یہا موجود سب لوگ فسٹ ائیر کلاس روم میں چلیں“۔
سارے لوگ وہیں جمع ہو گئے تو چیئر مین نے روسٹروم پر کھڑے ہو کر لیکچر دینا شروع کر دیا۔ اس میں یونہی اخلاقی تقاضے نبھانے کی بات تھی۔ پھر حالیہ واقعات کے بارے میں بات کر کے کہا۔ ”جس نے بھی ابان کا نقصان کیا ہے، وہ یہاں آ کر اعتراف کرے اور معذرت کرے۔ ساری بات ختم ہو جائے گی“۔ اتنا کہہ کر وہ قریب پڑی کرسی پر بیٹھ گئے۔ جہاں ایک کرسی پر سرریحان تھے۔ کلاسز پر سناٹا چھا گیا۔ کچھ لمحوں تک کوئی بھی سامنے نہیں آیا۔ پھر صفدر ملک اٹھا اور روسٹرم تک آگیا۔ وہی ان سب کا لیڈر تھا۔ وہ بڑی شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔ 
”ابان کا نقصان میں نے کیا ہے۔ میں اس سے معذرت چاہتا ہوں۔ وہ جو بھی مجھے سزا دینا چاہئے، میں اس کے لیے تیار تھا“۔ یہ کہہ کر وہ روسٹرم سے اتر کر نیچے ایک کرسی پر جا بیٹھا۔ تب میں آگے بڑھا اور روسٹرم تک گیا اور وہاںجا کرکہا۔
”میں صفدر ملک کو معاف کرتا ہوں اور اس کے لیے کسی قسم کی کوئی سزا نہیں ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ اب وہ بڑے بھائیوں جیسا رویہ رکھے گا“۔ یہ کہہ کر میں نیچے آیا اور آتے ہی صفدر کو گلے لگا لیا۔ اس پر پورا کلا س روم تالیوں سے گونج اٹھا۔ تب میں نے ماہم کی جانب دیکھا، وہ تالیاں بجاتے ہوئے میری طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں جو چمک تھی اور اس کا جوتاثر تھا، وہ میں پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے چہرے کے تاثر کے ساتھ میرے اس عمل کو سراہا تو مجھے بے حد خوشی ہوئی۔ ماحول ایک دم سے خوشگوار ہو گیا تھا۔ اسد ، تنویر اور رابعہ بھی مجھے بے حد خوش دکھائی دیئے۔ صفدر مجھ سے الگ ہو کر انتہائی شرمندگی سے میری جانب دیکھ رہا تھا۔ چیئرمین صاحب خوش خوش وہاں سے چلے گئے تو ہم سب بھی وہاں سے نکل کر کینٹین پر آگئے۔ میڈم تو تھیں ہی نہیں۔ اس لیے اب کوئی کلاس نہیں ہونے والی تھی۔ وہاں کچھ دیر تبصرہ آرائی ہوتی رہی اور پھر ہم سب وہاں سے چل دیئے۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *