کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر4
وہ ایک اُلجھی ہوئی صبح تھی۔ میں کیمپس جانے کے لیے تیار ہو چکا تھا، لیکن نیند کا خمار ابھی تک میری آنکھوں میں تھا۔ میں رات گئے تک مسلسل سوچتا رہا تھا۔ میرے ذہن میں جہاں ماہم تھی، وہاں سینئرز کے ساتھ ہونے والی وہ چخ چخ بھی تھی جس نے میرا دماغ خراب کر کے رکھ دیا تھا۔ اگر چہ ایسا ہوتا ہی رہتا ہے، لیکن اس حد تک نہیں کہ اسے انا کا مسئلہ بنا لیا جائے۔ میں بہت خاموشی سے اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس طرح ان کے ساتھ اَن بَن مزید پڑھی تو میں بہت ساری نگاہوں کا مرکز بن سکتا تھا۔ سب سے پہلے میرے جعلی ابان © ہونے کاپول کھل سکتا تھا۔ خاموشی سے اور کس کی نگاہوں میں آئے بغیر میں وہاںرہناچاہتاتھا، دو سال کا عرصہ گزارنے کے لیے میں نے توحق حاصل کر لیا تھا لیکن اگر کہیں بھی میرے بارے میں یہ معلوم ہو جائے کہ میں ابان علی نہیں ہوں تو بے چارے اصل ابان کی ڈگری بھی منسوخ ہو سکتی تھی،جو اس نے اسی یونیورسٹی سے لی ہوئی تھی ۔ممکن ہے مجھے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جاتا۔ سینئرز کے ساتھ دشمنی مول لینے کا مطلب یہی تھا کہ میں رسک لے رہا ہوں۔ نگاہوں میں آنے کا دوسرا بڑا نقصان یہ ہو سکتا تھا کہ اسلم چوہدری میرے بارے میں سب کچھ جان سکتا تھا اور پھر کڑی سے کڑی ملانا اس کے لیے کوئی اتنا مشکل کام نہیں تھا۔ میرے لیے خاموشی سے کسی کی نگاہوں میں آئے بغیر، کسی جاسوس کی زمین دوز کارروائی کی طرح اپنا مقصد حاصل کرنا تھا۔ نہ کہ وہاں کسی جنگ وجدل میں حصہ لینا میرا کام تھا۔ میرے لیے بہتر یہی تھا کہ میں ڈیپارٹمنٹ کے ماحول کو ٹھیک کر لوں۔ مگر میرے آڑے دو باتیں آرہی تھیں۔ ایک تو میری اپنی انا تھی۔ میں کہیں بھی گر کر ان سے کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتا تھا۔ یہ میری سرشت ہی میں نہیں تھا۔ اسی وجہ سے میںنے اب تک کی زندگی میںبہت سے نقصان اٹھائے تھے، لیکن ان کے عوض تجربہ بھی بہت حاصل کیا تھا۔ دوسرا ماہم کی ذات تھی۔ اس نے بالکل میری طرح ہی مزاحمت کی تھی۔ میں اگر کوئی سمجھوتہ کرتا ہوں، یا سینئرز کے معاملے میں کنی کترا کر خاموش ہو جاتا ہوں یا ان کا سامنا نہیں کرتا ہوں تو ماہم کی نگاہوں میں میری کیا حیثیت رہ جاتی ہے، یہی سوچ کر مجھے شدید قسم کی الجھن ہو رہی تھی۔ میں کسی تھرڈ ریٹ غنڈے کی طرح بڑک مار کر بزدلی نہیں دکھانا چاہتا تھا۔ میں یہ بات اچھی طرح جانتا تھا کہ عورت مرد میں وجاہت ، اس کی مضبوطی میں لپٹا ہوا دیکھنا چاہتی ہے۔ مضبوط مرد ہی عورت کی کمزوری بن جایا کرتا ہے۔ میں نے اگر کمزوری دکھائی تو مجھے پورا یقین تھا کہ ماہم مجھے نظر انداز کر دے گی۔ ایک بار میرا تاثر کھو گیا، دوبارہ اپنا تاثر بنانے میں کامیاب ہو بھی پاتا ہوں یا نہیں یہ میں یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا۔ رات بھی میں کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا، اس لیے کسی نتیجے پر پہنچے، بغیر میں سو گیا ۔ اس وقت میں کیمپس جانے کے لیے تیار بیٹھا تھا لیکن مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ مجھے کیا کرنا چاہئے، جند وڈا مجھے چائے کا کپ تھما کر چلا گیا تھا۔ جو میں سوچتے رہنے کے دوران ختم کر چکا تھا۔ میں نے خالی کپ میز پر کھا اور اچانک ہی اٹھ کھڑا ہوا۔ جس طرح کسی گھونسلے سے کسی پرندے کا پر ہوا کے دوش پر آہستہ آہستہ زمین پر آکر ٹک جاتا ہے، اسی طرح ہوا میں سے ہی ایک خیال دھیرے دھیرے میرے ذہن میں واضح ہو گیا۔ آج سے کچھ عرصہ پہلے تک میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ میں یوں پاکستان آ کر ابان علی بن کے کیمپس جوائن کروں گا۔ وقت نے مجھے لا پھینکا اور حالات میرے ارد گرد تن گئے ہیں۔ اب جو ہونا ہے، ہوتا رہے،مجھے فقط اپنامقصد حاصل کرنا ہے۔ اس میں بے شمار رکاوٹیں بھی ممکن ہو سکتی ہیں۔ میں ان حالات کو اپنے سامنے پاتا ہوں جو میرے موافق بھی ہو سکتے ہیں اور مخالفت میں بھی ممکن ہو سکتے ہیں۔ مجھے خود کو حالات پر ڈال دینا ہو گا۔ پھر جو ہوتا ہے ہونے دیا جائے مجھے بس حالات سے نبرد کرنا ہے۔ باقی جو میری قسمت میں ہے ہے، وہی ہو گا۔ اس سوچ نے مجھے بے حدحوصلہ دیا اور میں نے چابی اٹھا کر باہر کی راہ لی مجھے کیمپس تو ہر حال میں جانا ہی تھا۔
میں ڈیپارٹمنٹ کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے پُرسکون انداز میں بڑھتا چلا گیا۔ سیڑھیوں کے پاس ہی مجھے اسد دکھائی دیا۔ پہلی ہی نگاہ میں وہ مجھے کافی حد تک پریشان دکھائی دیا۔ اس کا چہرہ اُڑا اُڑا ہوا تھا مگر وہ پوری کوشش کر رہا تھا کہ اپنی پریشانی کو چہرے پر سے ظاہر نہ ہونے دے۔وہ بظاہر گرم جوشی سے مگر بڑی پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے ملا تو میں ٹھٹک گیا۔ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے میں نے اُس سے پوچھا۔
”اسد....! اگر تم مجھے ایک اچھا دوست خیال کرتے ہو تو پلیز اپنی پریشانی مجھ سے شیئر کر لو، میں پوری....“
”نہیں....! مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے“۔ اس نے فوراً ہی میری بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
”تو پھر کیا بات ہے۔ اتنے پریشان کیوں دکھائی دے رہے ہو؟“ میں نے آخری زینہ پار کرتے ہوئے پوچھا۔
”اﷲ کرے یہ افواہ ہی ہویا پھر کوئی جھوٹی بات.... تمہارا معاملہ اس کیمپس کی تنظیم میں زیر بحث آ گیا ہے اور انہوں نے تمہارے بارے میں کوئی فیصلہ بھی دے دیا ہے، وہ فیصلہ کیا ہے، میں نہیں جانتا“۔ اس نے الجھے ہوئے لہجے میں کہا تو میں نے بڑے سکون سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”اسد....! میرے دوست جو رات قبر میں آنی ہے، وہ باہر نہیں آسکتی۔ یہ تو طے ہے نا.... اس کیمپس پر جس بھی سیاسی جماعت کی طلبہ تنظیم نے قبضہ کررکھا ہے۔ بظاہر وہ مذہبی طلبہ تنظیم ہے، لیکن تم نہیں جانتے ہو کہ ان کے اصل مفادات کیا ہیں۔ مجھے ان کے فیصلے کی کوئی پروا نہیں۔ جب کوئی فیصلہ سامنے آئے گا۔ تب سوچیں گے، آﺅ“۔ یہ کہہ کر میں کلاس روم کی جانب قدم بڑھا دینے چاہے تو وہ کھڑا رہا۔ میری جانب حیرت اور افسوس سے دیکھتے ہوئے بولا۔
”دو دن نہیں ہوئے تمہیں کیمپس میں آئے ہوئے اور تم ان کے اصل مفادات کے بارے میں بھی جانتے ہو۔ تمہارا رویہ تو ایسے ہے جیسے کہ ہم کسی کرکٹ میچ کے بارے میں بات کررہے ہو۔ تم نہیں جانتے ہو۔ یہ تنظیم والے کس قدر ظالم ہیں۔ تمہاری بات سے تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے تم ان کے بارے میں الف بے بھی نہیں جانتے ہو“۔
”کتنے ظالم ہوسکتے ہیں اور کیا ان کی الف بے جاننا بہت ضروری ہے“۔ میں نے ایک خیال کے تحت اس سے پوچھا۔
”میں ہاسٹل میں رہتا ہوں اور روزانہ کوئی نہ کوئی نیا قصہ سننے کو مل رہا ہے۔ کل ایک لڑکے کو اتنا مارا ہے انہوں نے کہ بے چارہ کا بازو لگتا تھا ٹوٹ گیا ہے اس کا قصور صرف اتنا تھا کہ ناظم کے آنے سے پہلے کھانا کیوں شروع کر دیا تھا“۔ اسد نے وحشت زدہ لہجے میں کہا۔
”میں یہ کہتا ہوں.... کسی قصور کے بغیر بھی وہ مارپیٹ کر سکتے ہیں۔ ایسا وہ ایک حق سمجھ کر بھی کر سکتے ہیں، لیکن میرا تم سے یہ سوال ہے، کیا ان کی ایسی پرتشدد کارروائیوں سے ہم ڈر کر، دُبک کر بیٹھ جائیں۔ نہیں، میرے یار جہاں تک ممکن ہو سکا سامنا کریں گے۔ بے بس ہو گے تو چھوڑ کر چلے جائیں گے“۔ میں نے حتمی انداز میں کہا تو وہ چند لمحے میری جانب دیکھتا رہا اور پھرکاندھے اچکا کربولا۔
”ٹھیک ہے جیسا تم چاہو“۔
”مسکراﺅ، اس وقت تک پریشانی کو نزدیک نہ آنے دو، جب تک وہ تمہارے گلے نہ پڑ جائے اور اگر وہ تمہارے گلے پڑ ہی گئی ہے تو پھر مردانگی سے مقابلہ کرو، ہار جیت کا فیصلہ وقت خود کر دیتا ہے“۔ میں نے یونہی بے خیالی میں کہا تو اسی لمحے مجھے خود اپنے لفظوں پر غور کرنا پڑا۔ اسے حوصلہ دیتے ہوئے میں وہ بات کہہ گیا تھا، جس بات کو میں خود سمجھنا چاہ رہا تھا۔ شاید رات سے دماغ میں پڑی ہوئی الجھن کومیرے دماغ نے خود سلجھا کر رکھ دیا تھا۔ میں پورے دل سے مسکرا دیا تو میری جانب دیکھ کر اسد بھی ہنس دیا۔ پھر ہم کوئی لفظ کہے بنا اپنی کلاس کی جانب چل دیئے۔
کچھ لوگ کلاس روم کے باہر کھڑے تھے اور کچھ اندر تھے۔ فطری طور پر میں ماہم کو دیکھتا چلا رہا تھا مگر وہ مجھے دکھائی نہیں دی۔ شاید وہ آج نہ آئے، یہی سوچ کر میں کلاس روم میں چلا گیا، میں اور اسد ساتھ ساتھ ہی آخری رُومیں بیٹھ گئے۔ چند لمحوں بعد تنویرگوپانگ بھی آگیا۔ اس نے میری جانب دیکھا اور تیزی سے آ کر میرے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا، حال احوال کے بعد اس نے کہا۔
”کلاس ختم ہو جائے تو میری بات سننا“۔
”اتنا سسپنس پھیلانے کی ضرورت نہیں، جو بات ہے ابھی بتا دو“۔ اسد نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔
”نہیں، وہ سکون سے بیٹھ کر تنہائی میں بات کرنے والی ہے“۔ وہ انتہا ئی سنجیدگی سے بولا۔
”چلیں، کرلیں گے اس بے چینی کا ہے کوئی حل “۔ اسدنے سکون سے دیکھا تو میں ہنس دیا۔ ممکن ہے وہ اس لیے بھی تنویرکی بات سے اکتا گیا ہو کہ ابھی کچھ دیر پہلے ہم ایک پریشانی سے اپنے طور پرچھٹکاراپا کر یہاں بیٹھے ہیں اور یہ نئی افتاد سنانے آگیا۔ انہی لمحات میں سرریحان آگئے تو سب اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ گئے۔ ایسے میں کلاس روم کے دروازے سے ماہم اندر آتی ہوئی دکھائی دی۔ ہلکے کاسنی رنگ کے شلوار سوٹ میں سفید آنچل گلے میں ڈالے، سیاہ پرس اور سفید سلیپر پاﺅں میں پہنے وہ دھیرے دھیرے شاہانہ انداز میں آئی ، کس کی طرف بھی توجہ کیے بغیر سکون سے اپنی مخصوص نشست پر آن بیٹھی، جہاں وہ کل بیٹھی تھی، ممکن ہے وہ شروع دن سے وہیں بیٹھ رہی ہو۔ وہ بیٹھ چکی تھی اور کلاس بھی شروع ہو چکی تھی۔ میرا ذرا سا دھیان بھی کلاس کی طرف نہیں تھا۔ مجھے بس یونہی کچھ کمی سی محسوس ہو رہی تھی۔ وہ کیا تھی، اس کی مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی۔ اس لیے بے نام سی بے چینی میرے من میں در آئی تھی۔ تب اچانک مجھے خیال آیا کہ رابعہ کہیں دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ جسے کل دیکھ کرمیں خود حیران رہ گیا تھا۔ ظاہر ہے اب اس کے بارے میں ہاسٹل کی لڑکیاں ہی بتا سکتی تھیں ۔ میں کلاس میں بیٹھا، ماہم کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ پوری توجہ سے لیکچر سننے میں مصروف تھی۔ تب میں نے اسد کی کہی ہوئی بات پر سوچنا شروع کر دیا۔ آخر وہ ایسی کون سی بات ہے جس کا فیصلہ تنظیم نے کر لیا تھا؟ بہر حال جو تھا، اس کا سامنا تو کرنا ہی تھا۔بات سینئرز سے نکل کر تنظیم کے لوگوں تک جا پہنچی تھی۔ یہ تو ایسے ہی تھا کہ جیسے ہمارے ہی سینئرز ہمارے مقابلے پر آن کھڑے ہوئے ہوں۔ یونہی اوٹ پٹانگ خیالوں میں لیکچر ختم ہو گیا۔ سرریحان کلاس روم سے نکلے تو ہم سب باہر جانے لگے۔ ماہم دروازے سے باہر نکل کر کھڑی تھی، میں اس کے قریب گیا تو اس نے میری جانب دیکھا اور ذرا سی مسکرا دی۔ میں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے سلام کہا اور مزید کوئی بات کئے بغیر آگے بڑھ گیا۔ میں، اسد اور تنویر آگے پیچھے کینٹین کے لان میں بچھی کرسیوں پرجا بیٹھے۔ تبھی میرے کہے بناءتنویر نے وہی بات کہہ دی جو اسد کہہ چکا تھا۔
”جو ہو گا، دیکھا جائے گا۔ تو غم نہ کر، کوئی ٹھنڈا منگوا“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا۔
”یار، تم اس معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے ہو، تمہیں نہیں معلوم کر تنظیم کی غنڈہ گردی کس حد تک ہے“۔
تنویر نے پریشانی کے عالم میں کہا تو اسد نے اکتاتے ہوئے انداز میں کہا۔
”تو پھر کیا کریں، بتا پاﺅں پکڑ لیں ان کے جا کر، اب ایسی بھی بات نہیں ہے، جو ہونا ہے وہ ہو جائے یار“۔
”چلیں، پھر، میں تو تم لوگوں کے ساتھ ہی ہوں۔ اچھا برا جو ہو گا، بھگتیں گے....“ وہ آہستگی سے بولا۔ اتنے میں ویٹر آ گیا تو تنویر نے اسے جوس لانے کو کہہ دیا۔ انہی لمحات میں، میری نگاہ ڈیپارٹمنٹ کے داخلی دروازے پر پڑی، وہاں ماہم چند لڑکیوں کے جلو میں آرہی تھی۔ اس کا انداز ایسے ہی تھا، جیسے مہارانی کا ہو۔ میں ان کی طرف دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ہم سے کافی فاصلے پر پڑی کرسیوں پر جا بیٹھیں۔ میری توجہ انہی کی طرف تھی۔ اتنے میں ہمارا ایک کلاس فیلو ابرار آگیا۔ وہ بھی ہمارے پاس آن بیٹھا۔ اس نے آتے ہی کہا۔
”یار....! آج تم لوگوں نے ایک بات نوٹ کی؟“
”کون سی بات؟“ میں نے پوچھا۔
”آج سینئرز کی کلاس نہیں ہے، کوئی بھی بندہ دکھائی نہیں دے رہا ہے“۔ اس نے کہا تو مجھے احساس ہوا۔ یقینا میں نے بھی ان میں سے کس کو نہیں دیکھا تھا۔
”ہاں، یار واقعی ، یہ تو ہم نے دھیان ہی دیا“۔ تنویر نے حیرت سے کہا۔ تو پھر ہم یونہی گپیں ما ر تے رہے۔ یہاں تک کہ میڈم کا پیریڈ ہونے والا ہو گیا۔ اسد کے احساس دلانے پرہم اٹھ کھڑے ہوئے۔ اس بار ڈیپارٹمنٹ کی ویرانی کا کچھ زیادہ ہی احساس ہوا۔ میڈم کا لیکچر شروع ہوا اور پھر ختم ہو گیا۔ وہ چلی گئیں تو ہم کلاس روم سے باہر نکلے۔ راہداری میں ماہم کھڑی تھی۔ میں جیسے ہی اس کے پاس پہنچا تو اس نے بھی قدم بڑھا دیئے۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بولی۔
”ابھی پتہ چلا ہے کہ ہمارے سینئرز نہیں آئے، کیا ان کے بارے میں معلوم ہے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا“۔
”ہو سکتا ہے انہوں نے کل طے کر لیا ہو،تا کہ چھٹی کرلیں“۔ میں نے اختصار سے جواباً کہا اور آگے بڑھتا گیا۔ وہ میرے ساتھ تھی۔
”نہیں ! ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین نے کسی متوقع ہو جانے والے خراب حالات کی صورت میں سینئرز سے بات کی تھی۔ وہ نہیں مان رہے تھے۔ ان کی ضد تھی کہ وہ اپنی بات منوا کر ہی چھوڑیں گے۔ چیئر مین نے انہیں ڈانٹا تو وہ آج احتجاجاً نہیں آئے“۔ ماہم نے بڑے سکون سے مجھے اطلاعاً بتایا۔
”احتجاجاً؟ کس کے خلاف احتجاج اور پھر تمہیں یہ اطلاع کہاں سے ملی....؟“میں نے ایک دم سے چوکتے ہوئے کہا۔
”اطلاع دینے کے ذرائع تو بہت سے ہیں.... اِسے چھوڑیں، باقی رہا ان کا احتجاج.... ان کا خیال ہے کہ صرف دو لوگوں کی وجہ سے پوری کلاس ہاتھ سے نکل گئی ہے، مستقبل میں تو وہ ذرا سی بات بھی نہیں مانیں گے۔ لہٰذا ان دولوگوں کو وہ اچھی طرح سبق سکھاناچاہتے ہیں، تاکہ آئندہ کلاس پر پوری طرح گرفت رہے“۔ ماہم نے تفصیل سے بتایا۔ اس وقت تک ہم ڈیپارٹمنٹ کے باہر آگئے تھے۔
”وہ دو لوگ تو ہم دونوں ہی ہیں، اس کا مطلب ہے اب ہمارے لیے خطرہ ہے، کسی بھی وقت ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا، اسی لمحے میں سمجھ گیا کہ حالات مجھے اپنے راستے پر ڈال چکے ہیں۔
”ہمارے لیے نہیں، صرف آپ کے لیے“۔ اس نے رکتے ہوئے کہا تو میں بھی رک گیا۔ وہ میری طرف دیکھ کر بولی۔” وہ چاہیں بھی تو میرے خلاف کچھ نہیں کر سکتے؟ کیونکہ انہیں معلوم ہے میرے خلاف جائیں گے تو پھر ان کا کچھ نہیں بچے گا اور سوری ابان....! میں آپ کے بارے میں نہیں جانتی، آپ کیا پس منظر رکھتے ہیں، ان کا مقابلہ کر بھی پائیں گے یا نہیں“۔
”کوئی بھی آفت پس منظر دیکھ کر نہیں آتی، وہ سامنے سے آتی ہے اور اس کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے، اگر انہوں نے ایسے حالات مجھ پر مسلط کر دیئے تو بلاشبہ ان کا مقابلہ کروں گا....“ میں نے آہستگی سے کہا۔
”اتنا حوصلہ ہے آپ میں....“ اس نے مسکراتے ہوئے عجیب سے لہجے میں کہا تو مجھے یوں لگا جیسے وہ مجھے تول رہی ہے یا پھر کسی بھی طرح کے غیر متوقع حالات کے لیے تیار کر رہی ہے۔ میں اس لمحے میں کوئی فیصلہ نہیں کر پایا۔
”ماہم....! میں فیصلہ ہار یا جیت پر نہیں کرتا بلکہ میں تو ہتھیار ڈالنے پر یقین رکھتا ہوں کہ کب دشمن ہتھیار ڈال کر تابع ہو جاتا ہے، اس دوران مسلسل ہارتے رہنا، جیتتے ہی رہنا....میرے لیے کوئی معنی نہیں رکھتا“۔ میں نے اسے اپنا نکتہ نظر سمجھانا چاہا۔
”عجیب فلسفہ ہے آپ کا....“ وہ کافی حد تک حیرت بھرے لہجے میں بولی۔
”اب یہ عجیب ہے، غلط، یا صحیح، میں نہیں جانتا، میں تو دشمن کی بے بسی تک لڑتے رہنے کو ترجیح دیتا ہوں“۔
میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا جہاں ایک دم سے طنزا ُبھر آیا تھا۔
”اور اگر سامنے والا آپ جیسے ہی خیالات رکھتا ہو تو پھر....؟“ اس نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”تو میں بے بسی نہیں،موت کو گلے لگانا پسند کروں گا....“ میں نے انتہائی سنجیدگی سے کہا تو وہ چونک کر میری طرف دیکھنے لگی۔پھر جو بولی تو اس کے لہجے میں خوشی بھری حیرت تھی۔
”خیر....! آپ اتنی شدت سے مت سوچیں، اور مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ آپ میں حوصلہ ہے ۔ایک کلاس فیلو ہونے کے ناطے میں تو ہر حال میں آپ ہی کا ساتھ دوں گی ۔ اب چلیں“۔
”چلیں....!“ میں نے کہا اور ہم پارکنگ کی جانب بڑھ گئے۔ ماہم کی سیاہ ہنڈا میری گاڑی سے پہلے ہی کھڑی تھی۔ جیسے ہی ہم پارکنگ ایریا میں پہنچے تو میں چونک گیا۔ میری گاڑی کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے اور ان کی کرچیاں اردگرد پھیلی ہوئی تھیں۔ کوئی ایک شیشہ بھی نہیں بچا تھا۔
”ماہم.... ! وہ دیکھو، انہوں نے ابتداءکر دی ہے“۔ میں نے اس طرف اشارہ کرتے ہو ئے کہا تو وہ حیرت سے بولی۔
”یہ آپ کی گاڑی.... اُوہ.... یہاں پر ڈیوٹی دینے والا گارڈ....وہ کدھر ہے“۔
”وہ تو کہیں دور دور تک نظر نہیں آرہا ہے“۔ میں نے اردگرد دیکھا۔
”اب کیا ہو گا؟“ وہ پریشان لہجے میں بولی، اس وقت تک میں اسد کو کال ملا چکا تھا۔ چند لمحوں بعد رابطہ ہو گیا۔ میں نے اسے صورت حال سے آگاہ کیا اور فون بند کر دیا۔ وہ ابھی ڈیپارٹمنٹ ہی میں تھا۔کچھ ہی دیر میں اسد، تنویر اور چند کلاس فیلو وہاں جمع ہو گئے۔ ہر کوئی اپنے طور پر تبصرہ کررہا تھا۔
”میرے خیال میں چیئرمین صاحب کے نوٹس میں یہ واقعہ لاتے ہیں“۔ تنویر نے صلاح دی۔
”ہم سب ایسے ہی چلتے ہیں“۔ کسی نے کہا تو سب چیئرمین کے آفس کی جانب چل دیئے۔ ماہم بھی ہمارے ساتھ تھی۔ چیئرمین کے پاس ہمارے دونوں ٹیچر بھی ہوئے تھے۔ اتنے سارے لوگوں کو دیکھ کر اس نے حیرت سے پوچھا تو میں نے انہیں ساری بات بتا دی۔ تب وہ چند لمحے سوچتے رہے، پھر بولے ۔
”مجھے ایسے ہی کسی ناخوشگوار واقعے کی توقع تھی، میں اس کے خلاف ایکشن لیتا ہوں، فوری طور پر تو کچھ نہیں ہوپائے گا، پہلے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہ حرکت....“
”سوری سر....! میں نے آپ سے کسی ایکشن کے لیے نہیں کہا.... آپ انہیں سمجھا دیں اور آپ ہی سے سوری کر لیں.... میرے خیال میں یہ بہتر ہو گا....“ میں اپنے لہجے کو انتہائی مو ¿دب بناتے ہوئے کہا۔
”ورنہ....! ورنہ پھر کیا کر لو گے تم....“ میڈم نے تیزی سے کہا۔
”میں سمجھا نہیں میڈم، آپ ایسا کیوں کہہ رہی ہیں.... میں تو بات یہیں ختم کر دینا چاہ رہا ہوں“۔ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تو انتہائی طنزیہ لہجے میں بولیں۔
”نہیں، تمہارے بات کرنے کا انداز کیا ہے۔ جب سر کہہ رہے ہیں کہ وہ ایکشن لیں گے تو پھر اپنا بہتر خیال کیوں پیش کرنے پر تلے ہوئے ہو“۔
”سوری میڈم.... میںنے کوئی غلط بات تو نہیں کی، میںنے تواُن کی یہ غلطی درگزر کرنے کی بات کی ہے“۔ میں نے ادب سے کہا تو وہ فوراً ہی پینترا بدلتے ہوئے بولیں۔
”آج انہیں معاف کر دیا جائے تو ان کا حوصلہ مزید بڑھ جائے گا۔ سر اگر کوئی ایکشن لینا چاہتے ہیں تو انہیں لینے دیں“۔
”میں نہیں چاہتا میڈم.... میں بات کو یہیں ختم کرنا چاہتا ہوں“۔ میں پھر ادب ہی سے کہا۔
”ڈر گئے ہو؟“ انہوں نے طنزیہ انداز میں پوچھا۔
”کیا خیال ہے میڈم، میرے اس طرز عمل کو ڈر جانا کہتے ہیں یا تحمل اور برداشت؟“ میں نے اس بار کافی حد تک سخت لہجے میں کہا۔ میرے لہجے میں ایسا کچھ تھا کہ میڈم گڑبڑا گئی اور متذبذب لہجے میں بولی۔
”میں نے یونہی بات کہی ہے باقی جو سر چاہیں“۔
”ابان....! تمہارا مشورہ ٹھیک ہے، میں دیکھتا ہوں“۔ انہوں نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا تو ماہم نے میڈم کی طرف دیکھ کر کہا۔
”میڈم....! ضروری نہیں کہ سینئرز ہی اچھے طالب علم ہوتے ہیں یا وہ زیادہ سمجھ دار ہوتے ہیں۔ جونیئرز بھی سمجھتے ہیں کہ انہیں کہاں پر کیا کرنا چاہئے۔ اس بات پر غور کیجئے گا“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے سب کی جانب دیکھا اور بولی۔ ”آﺅ چلیں....“
میں میڈم کی طرف ہی دیکھ رہا تھا ۔ اس کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ بلاشبہ ماہم نے کہیں ان کی دکھتی رگ پر ہاتھ رک دیا تھا۔ ورنہ میڈم کا ردعمل یوں نہ ہوتا۔انہوں نے بے تابی سے پہلو بدلا مگر خاموش رہیں ۔ ہم سب چیئرمین کے کمرے سے نکل کر ڈیپارٹمنٹ سے بھی باہر آگئے۔ اس دوران میں نے سلیم کو فون کر دیا اور اسے صورتِ حال بتا دی اس نے فوراً ہی پہنچ جانے کا کہا تو میں مطمئن ہو گیا۔
”اب یہ گاڑی کو کیسے ورکشاپ تک لے جائیں؟“ تنویر نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”آپ سب کا بہت شکریہ کہ آپ....“ میں نے رسمی طور پر کہنا چاہا تو اس وقت تنویر ہتھے سے اکھڑ گیا۔
”کیا بکواس کرتا ہے تو.... اس میں شکریے والی کیا بات ہو گئی بھلا، آئندہ ایسی کوئی فارمیلٹی نہیں چلے گی.... میں نے تو صرف یہ پوچھا تھا کہ اب گاڑی کیسے جائے گی اور تم....“ وہ کہہ رہا تھا کہ ماہم نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
”ابان کو میں ڈراپ کر دوں گی۔ گاڑی بھی ورکشاپ پہنچ جائے گی۔ مسئلہ حل ہو گیا نا....“ یہ کہہ کر اُ س نے سیل فون نکالا ۔
”کسے فون کرنے لگی ہو؟“ میں نے پوچھا۔
”گیراج والے کو....، آکے لے جائیں گے“۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا۔
”اس کی فکر نہ کرو، گاڑی چلی جائے گی، میں نے فون کر دیا ہے“۔ میں نے کہاتو اس کے ہاتھ وہیں رک گئے۔ اس نے سیل فون واپس پرس میں ڈالتے ہوئے میری جانب دیکھا۔ تبھی تنویر نے کہا۔
”تو پھر آئیں چلیں، وہاں لان میں بیٹھتے ہیں، جب تک کوئی آنہیں جاتا“۔
”ان سینئرز کا کوئی علاج بھی تو سوچنا ہو گا“۔ اسد نے دبے دبے غصے میں کہا۔
”میرے خیال میں اس وقت ہمیں یہاں سے چلے جانا چاہئے۔ یہاں ہم تماشہ بن رہے ہیں۔ ان کے ساتھ کیا کرنا ہے۔ یہ کل آکر ہی فیصلہ کریں گے“۔ ماہم نے سوچتے ہوئے لہجے میں کہا اور ایک دم سے گاڑی کی طرف بڑھ گئی۔ جب تک اس نے گاڑی پارکنگ سے نکال کر میرے پاس لاکے کھڑی کی، سیلم بھی ایک دوسری گاڑی میں وہیں آن پہنچا۔ اس کے ساتھ دو آدمی بھی تھے۔ وہ سیدھا میرے پاس آیا اور گاڑی کی چابی میری طرف بڑھا کر کہا۔
”سرجی، لائیں، چابی دیں اور یہ لیں، آپ سبزہ زاد چلیں، میں دیکھ لیتا ہوں سب“۔
میں نے اس سے چابی لی اور ماہم کی طرف دیکھا۔ تب اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ گاڑی بڑھا دی، میںنے سب کے ساتھ ہاتھ ملایا اور سلیم کی لائی ہوئی گاڑی میں بیٹھ کر چل دیا۔
میں کیمپس کے مین داخلی دروازے تک پہنچا۔ وہاں ماہم گاڑی روکے کھڑی تھی۔ مجھے قدرے حیرت ہوئی کہ یہ یہاں پر کیوں؟ میں نے گاڑی روکی اور باہر نکلنا چاہتا تھا کہ وہ میرے قریب آ کر اتنا بولی۔ ”ابان....! ٹھیک دو گھنٹے بعد اس ریستوران میں ملو، میں بھی وہیں آتی ہوں“۔
”خیریت ....؟“ میں نے پوچھنا چاہا۔
”وہیں باتیں ہوں گی“۔ یہ کہہ کر وہ مڑ گئی۔ گاڑی میں بیٹھی اور چل دی۔ میں سوچتاہی رہ گیا کہ اس نے مجھے وہاں کیوں بلایا ہے۔ ظاہر ہے اب یہ بات وہی بتا سکتی تھی۔ میں نے سب کچھ ذہن سے نکالا اور سبزہ زار کی جانب بڑھ گیا۔
l l l
No comments:
Post a Comment