Saturday, 9 September 2017

حصار۔۔ قسط نمبر 3

حصار

قسط نمبر 3
  جی،جی کہیں ۔“ نذیر احمد نے تیزی 
 کہا ، وہ تب سے یہی سننے کو بے چین تھا۔  چند لمحے رک کر مراد علی بولا
”میں چاہتا ہوں کہ ثانیہ اور ذیشان کی شادی جلدی کر دی جائے، اس کی وجہ شعیب ہے۔ جس کے بارے ،میں آپ کو تفصیل سے بتا چکا ہوں۔میں نہیںچاہتا میرے ہاتھوں کچھ بھی ایسا ہو جائے ۔“
”اوہو!....میں سمجھ رہاہوں آپ کی بات، عقل مندی تویہی ہے ۔ویسے اگر آپ چاہیں توکئی طریقے ہیں، اسے ہر طرح سمجھایا جا سکتا ہے۔ کوئی پرابلم نہیںہوگا۔“ نذیر احمد نے معنی خیز انداز میں کہا توبیگم طلعت یہ سب سمجھتے ہوئے جلدی سے بولی
” نہیںبھائی ، ایسا کرنے سے پرابلم بڑھیں گے ۔وہ میری بہن کا اکلوتا بیٹا ہے،اسے اگر کوئی نقصان ہوتا ہے تو....اگر ہم بچوں کی شادی ہی جلد کردیں ؟“
 ”ہاں مگرمیں تو یہی کوئی نو دس دن ہوں یہاں پاکستان میں ۔ مجھے لندن جا نا ہوگا ، اتنی جلدی، اور ایسے میں کیا ہو سکتا ہے۔“نذیر احمد نے حیرت سے کہا
”ہم انہی نو دس دنوں ہی میں یہ فرض ادا کر دیں“، یہ کہتے ہوئے الماس کی طرف دیکھ کر بولی،” کیا خیال ہے الماس ، تم بھی تو کچھ کہو۔“
”مجھے تو کوئی اعتراض نہیں، بس یہی ہو گا کہ شادی بھی سادگی سے ہوگی، ہماری اکلوتی اولاد ہے ، کس طرح سے.... “بیگم الماس کہتے کہتے رُک گئی ۔ اس نذیر احمد نے سوچتے ہوئے کہا
”اگر انہی چند دنوں میںشادی کر کے ہم سب کسی بھی حادثے سے بچ جائیں تو میرا خیال ہے ، شادی کر دیں۔کافی دن ہیں، ہم اپنے سب دوستوں کو بلا سکیں گے۔ ٹھیک ہے ، میرے خیال میںیہی بہتر ہے، ورنہ لندن سے میری واپسی ہوگی یہی کوئی دو ڈھائی ماہ بعد۔ “
 ”بہت شکریہ ، بہت بڑا بوجھ اتر گیا میرے دماغ سے ۔“ مراد علی نے سکون بھرے لہجے میں کہا تو نذیر احمد نے الماس اور طلعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا
”اب تو ان دونوں خواتین پر ہے، کتنی جلدی تیاریاں کرتی ہیں۔“
”باقی باتیں پھر کرتے ہیں، پہلے ڈنر لے لیں۔“بیگم الماس یہ کہتے ہوئے اٹھ گئی ۔ تو وہ بھی اٹھنے لگے ۔ کھانے کے دوران بہت ساری باتیں کرنے کے لئے ۔
اسی رات ثانیہ اپنے کمرے میںبیٹھی پڑھ رہی تھی ۔ بیگم طلعت کمرے میں آ کر اس کے پاس بیٹھ گئی پھر بڑے پیار سے بولی
”چھوڑو بیٹا، اب یہ کتابیں اور میری بات سنو ۔“
اس کے یوں کہنے پر ثانیہ نے خوشگوار حیرت سے اپنے ماما کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” کوئی Importanat بات ہے ماما ؟“
”ہاں ، تمہاری شادی آج سے آٹھ دن بعد ہو رہی ہے ۔“بیگم طلعت نے لاڈ سے کہا تو ثانیہ ایک دم سے پریشان ہو کر بولی 
” کیوں ماما، اتنی جلدی ، یہ کیسے ممکن ہے ۔ میںنہیںکروں گی اتنی جلدی شادی ، آٹھ دن بعد تو میرے Exame ہورہے ہیں، میں کیسے کر سکتی ہوں شادی ؟ میری پڑھائی ادھوری رہ جائے گی ۔“
”ہم یہ شادی طے کرچکے ہیں۔اس لئے اب کوئی امتحان نہیں ،تم ایسے کرو....“ بیگم طلعت نے کہنا چاہا تو ثانیہ نے انکار میں سرہلاتے ہوئے کہا
” نو ،نہیںماما آپ کیا کہہ رہی ہیں۔ میرے امتحان ہیں اور میں اس کے بعد ہی ....“
”دیکھو، یہ منگنی تمہاری مرضی سے ہوئی ، تم نے کہا ہم نے فوراً کر دی ، لیکن اب ہم تمہاری شادی چاہتے ہیں، اب یا تو شادی کر لو یاپھر امتحان دے لو ؟“بیگم طلعت نے سختی سے کہا تو اس نے سوچتے ہوئے پوچھا
” کیا آپ نے فیصلہ شعیب کی وجہ سے کیا ہے ؟“
”ہاں ، ہم نہیں چاہتے ، کوئی بھی ایسی ویسی بات ہو جائے ، تمہیں اپنے پاپا کا توپتہ ہی ہے۔اب یہ پڑھائی چھوڑو اور اپنی شادی کی شاپنگ بارے سوچو۔“ بیگم طلعت نے کہا اور کچھ سنے بغیر کمرے سے باہر نکلتی چلے گئی ۔
 ثانیہ حیران و پریشان سی جاتی ہوئی اپنی ماما کو دیکھتی رہی ، پھر سوچتے ہوئے اس نے فون اٹھایا اور نمبر پش کرنے لگی ۔دوسری طرف بیل جارہی تھی ۔
”بولو سویٹ ہارٹ، ذیشان ہیئر۔“ ذیشان نے بڑے رومانوی انداز میںکہا تو ثانیہ منتشر لہجے میں بولی
”میں اتنی پریشان ہوں اور تمہیں رومانٹک ڈائیلاگ سوجھ رہے ہیں۔“
”میرے ہوتے ہوئے تم پریشان ہو ، ایسا ہو تو نہیںسکتا ۔“ وہ سکون سے بولا 
”یہ جوآٹھ دن بعد میری شادی رکھ دی گئی ہے ، پتہ ہے انہی دنوںمیرے Exames شروع ہوں گے۔میں کیسے....“ اس نے کہا چاہا مگر ذیشان نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے سکون اور پیار سے کہا
” سنو۔! شادی صرف تمہاری نہیں، میری بھی ہو رہی ، تمہارے ساتھ، مجھے پتہ ہے کہ ایگزام ہوں گے ، پر تم کیوں فکر کرتی ہو ۔ تم ایگزام دو گی، چاہئے اس دن میری بارات ہو یا ولیمہ۔“
” مطلب شادی ہونی ہے چاہئے ایگزام ہو ، تم بھی یہی چاہتے ہو ، سب کی طرح....“ وہ پریشانی اور دبی دبی خوشی میں بولی
”جب حالات ہمیں اتنی جلدی ملا دینا چاہتے ہیں تو ہمیں اعتراض نہیںکرنا چاہئے۔“ اس نے شوخی سے کہا
”تم بھی نا....“ وہ حیا بار لہجے میں بولی
”اور ہاں ....سکون سے ، جو تھوڑی بہت شاپنگ کرسکو تو کر لینا،باقی ہم ساری شاپنگ وہاں سے کریں گے جہاں ہنی مون کے لئے جائیںگے۔“ اس نے پھر اسی شوخی میں کہا توثانیہ نے تیزی سے کہا
”اوکے، میں پھر بعد میںفون کرتی ہوں۔“ 
 یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کر دیا۔ پھر کتاب ایک طرف رکھتے ہوئے خوشگوار خیالوں میںکھو گئی۔اس کے خواب بھی رنگین ہو گئے تھے ۔
 ژ.... ژ.... ژ
دن کافی چڑھ آ یا تھا۔شعیب ابھی تک بیڈ کے ساتھ لگا سوچ رہا تھا ۔ اس کے چہرے پر سختی اور غصہ تھا ۔ وہ نجانے کیاکچھ سوچ چکا تھا۔اس کے لئے مراد علی سے ٹکر لینا کوئی مشکل نہیںتھا۔ کب سے وہ اپنے دل میں یہی خواہش لئے بیٹھا تھا۔لیکن ہر بار اس کے سامنے ماما کا چہرہ آ جاتا تھا۔ اس کا بس نہیںچل رہا تھا کہ کیا کرے ۔ وہ کوئی ایسا راستہ سوچنا چاہتا تھا، جس سے وہ مراد علی کو جھکا سکے۔بزنس کی دنیا میں ایسا بہت کچھ تھا کرنے کے لئے ، مگر یہ ایک لمبا راستہ تھا۔ ممکن ہے وہ اس طرح ثانیہ کو کھو دیتا؟اس کی سمجھ میں اس مسئلے کاکوئی حل آ رہا تھا۔ ایسے میں کمرے کا دروازہ کھلا اور پھوپھو فاخرہ اندر داخل آگئی۔ اس نے شعیب کو حیرت زدہ نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا
”اے بیٹا۔! یوں کیسے پڑا ہواہے ،آفس نہیںجانا کیا؟“
”نہیںپھوپھو، میرا دل نہیں کر رہا جانے کو۔“شعیب نے بیزاری سے کہا
 ”دیکھ بیٹا۔!تیری ماں تو مانتی نہیں، ماننا تودرکنار ، وہ بات بھی نہیںکرنا چاہتی ثانیہ کے بارے میں۔ لیکن ۔!اگر تجھے مجھ پر بھروسہ ہے نا توپھرفکر مت کر.... میرے ہوتے ہوئے تیری ہار نہیں ہو سکتی ۔“ پھوپھوفاخرہ نے انکشاف کر دینے والے انداز میں کہا تو شعیب نے اس کی جانب دیکھا کر کہا
”میری تویہ ضد ہے ، میں یہ شادی نہیںہونے دوںگا، چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن ماما ....“
”وہی توکہہ رہی ہوں،تم حوصلہ کیوں ہارتے ہو، میں تیرے ساتھ ہوں ۔ میں ....“ لفظ ابھی پھوپھوفاخرہ کے منہ ہی میں تھے کہ بیگم ثروت نے کمرے میںداخل ہوکر خشمگیں نگاہوں سے پھوپھوفاخرہ کو دیکھا۔ اس نے یہ سب سن لیا تھا۔ اس لئے وہ طنزیہ لہجے میں بولی
”اے فاخرہ ، میرے بیٹے کو الٹی پٹیاں نہ پڑھا، اس کے دماغ سے ثانیہ کا خیال کیوں نہیںنکلنے دے رہی ہو تم، کیوں ہماری دشمن بنی ہوئی ہے ۔ جو بات اب ناممکن ہے ، تم اسے کیسے ممکن بنا دو گی ؟“
”اپنے بیٹے کی حالت دیکھ۔ تم کیوں اس کی دشمن بنی ہو ئی ہو ۔ کم از کم ان لوگوں سے بات تو کریں،وہ کیوں....“ پھوپھو فاخرہ نے بے چارگی سے کہا توبیگم ثروت ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے بولی 
”اب میں کیا کروں گی بات ان سے ، اور کیا دیکھوں میں اس کی حالت؟ تم دونوں سن لو ، آج سے آٹھویں دن بعد ثانیہ کی شادی ذیشان سے ہورہی ہے۔“ 
یہ اطلاع کسی دھماکے سے کم نہیںتھی ۔ اتنا مختصر وقت؟ یہ سن کر شعیب تڑپ کر اٹھتے ہوئے بولا
”شادی ،میںیہ شادی نہیںہونے دوں گا۔ چاہے مجھے کسی کی جان بھی لینا پڑی۔“
وہ دونوں ششدر رہ گئیں ۔

بیگم ثروت ماں تھی ۔وہ اندر تک دہل گئی۔سو اس نے وارننگ دیتے ہوئے کہا
” بکواس بند کرو ،اور میری بات غور سے سنو،انہوں مجھے یہ پیغام خودبھیجا ہے۔اگر تم نے کچھ بھی کرنے کی کوشش کی تو اس کا انجام بہت برا ہوگا۔“ 
”مجھے کسی انجام کی پروا نہیںہے، میں یہ شادی نہیں ہونے دوں گا۔ یہ اچھا ہوا کہ انہوں نے خود پیغام بھجوا دیا۔اب میں دیکھتا ہوں انہیں۔“ شعیب غصے میں بولا
”تو پھر سن لو ، جتنا میں ذلیل ہو چکی ہوں ، اتنی ذلت میںنے کبھی نہیں دیکھی ، اگر تم نے کچھ بھی کیا تو نہ میں انہیںکہہ سکتی ہوں اور نہ تمہیںکہوں گی ، میں خود مر جاﺅں گی ، مجھ میں اب ذلتیں سہنے کی سکت نہیںہے ۔نہیں ہے سکت....“ یہ کہتے ہوئے بیگم ثروت رو پڑی ۔ پھر اس نے حسرت آمیزنگاہوں سے شعیب کو دیکھا اور باہر کی طرف چلی گئی ۔ شعیب اور پھوپھو اسے ہونقوں کی طرح دیکھتے رہے۔ شعیب نے یوںکرب سے آ نکھیںبند کرلیں جیسے اسے خود پر قابو پانے میں بہت مشکل ہو رہی ہو۔پھوپھو خاموشی سے کمرے سے باہر نکل آ ئی ۔
پھوپھو فاخرہ لاﺅنج میںصوفے پر بیٹھی ہوئی چائے پی رہی تھی۔ وہ اس قدر اپنے خیالوں میں کھوئی ہوئی تھی کہ ُاسے بیگم ثروت کے آنے کا احساس ہی نہیںہوا ۔ وہ کہیں جانے کو تیار ہو کر آ ئی تھی ۔ اس نے قریب آ کر پھوپھو فاخرہ سے پوچھا
”یہ ماسی رضیہ آج پھر نہیںآئی کیا؟“
”ابھی تک تو نہیںآئی ، شاید آجائے ابھی تھوڑی دیر میں۔“پھوپھوفاخرہ نے چائے کا لمبا سا سپ لے کر کہا
”یہ بھی نا ، آئے دن بنا بتائے کام پر نہیںآتی۔“ اس نے کافی حد تک اکتائے ہوئے لہجے میں کہا، پھر لمحہ بھر رُک کر ہلکے سے لہجے میں پوچھا،” شعیب نے ناشتہ کر لیا ؟“
”وہ بے چارہ تو ابھی تک کمرے میںہے۔“پھوپھوفاخرہ نے سارے جہان کا دُکھ اپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا تو بیگم ثروت نے اکتاکر بولی
”بے چارہ ....میں ذرامسز فارحہ کے ہاں جا رہی ہوں، اسے ناشتہ کروا دینا، اور اسے کہو آفس چلا جائے ، کب تک یوں گھر میںبیٹھا سوگ مناتا رہے گا۔اسے سمجھاﺅ۔“
”تم جاﺅ خیر سے، میں کرادوں گی ناشتہ اور سمجھا بھی دوں گی۔“پھوپھوفاخرہ نے اطمینان سے جواب دیا اور خالی مگ ایک جانب میز پر رکھ دیا توبیگم ثروت کو کچھ یاد آ گیا۔
”اور ہاں وہ ماسی رضیہ آجائے نا تواسے کہنا.... “
”تم تو یوں کہہ رہی ہو جیسے مجھے پتہ ہی نہیںگھر کے کاموں کا، تم جاﺅ ۔“وہ ایک جانب سر مارتے ہوئے بولی تو بیگم ثروت اس کی طرف گھور کر دیکھتے ہوئے باہر کی جانب چل دی ۔ تبھی پھوپھو یوں اٹھی جیسے اس کے جانے کا انتظار کرہی ہو ۔ وہ شعیب کی کمرے کی جانب لپکی تھی ۔
وہ ہنوز بیڈ پر پڑا تھا۔ اس کی حالت خستہ ہو رہی تھی ۔ اس کی آ نکھیںسرخ تھیں، جن میں نمی تیر رہی تھی ۔ گال بھی آ نسوﺅ ںسے تر تھے۔ایسے میں پھوپھو فاخرہ اسکے کمرے میں کر ٹھٹک گئی۔ اسے یوں دیکھ کر پھوپھو فاخرہ نے ابتہائی طنزیہ لہجے میں کہا
”واہ واہ واہ .... کیسا مرد ہو تم، بجائے کچھ کرنے کے یہاں بیٹھے آ نسو بہا رہے ہو ۔ ادھر تمہاری اماں کہہ رہی ہے ، کب تک گھر میںبیٹھا سوگ منائے گا۔ نہ تیری سمجھ آتی ہے اور نہ تیری اماں کی ۔“
 اس پر شعیب نے انتہائی غصے اوربے بسی میں دیکھتے ہوئے کہا
”تو پھر اور کیا کروں پھوپھو، میری ماما نے جو اتنی قسمیں دے دی ہیں، خود کشی کی دھمکی دے کر میرے ہاتھ پاﺅں باندھ دئیے ہیں،تو بولو کیا کروں؟“
 ” یہاں پڑے رہنے سے ، اور اس طرح آنسو بہانے سے کیا کچھ ہو جائے گا؟“ پھوپھو فاخرہ نے طنزیہ لہجے میں کہا توشعیب انتہائی غصے میںاُکتا کر بولا
”میں اب اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتاہوں۔کیا مجھے اپنی بے عزتی کا دکھ نہیںہے ، مگر ماما ہے کہ ....“ یہ کہتے ہوئے وہ دانت پیستے ہوئے بولا۔” میں ان کا وہ حشر کر سکتاہوں، پر کیا کروں یہ میری ماما....“
”ارے بیٹا ، جب وہ ثانیہ ہی تم سے شادی نہیںکرنا چاہتی ، اسے کیسے مناﺅگے؟ پھر وہ مراد علی، اس کاتو ویسے ہی دماغ ساتویں آسمان پر ہے۔“ وہ نفرت سے بولی
”اس کے باپ نے ثانیہ کا دماغ خراب کیا ہوا ہے ، اس کاباپ بچپن ہی میرے ساتھ دشمنی رکھتا ہے ۔ جب پاپا تھے تو کس طرح آگے پیچھے پھرتا تھا۔“ شعیب نے غصے میں کہا تو پھوپھو فاخرہ حتمی لہجے میں بولی
” اچھا میری ایک بات سنو غور سے ۔!“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر رک کر سسپنس بھرے لہجے میں بولی،” بھلے ثانیہ کی منگنی ہوگئی ہے، لیکن اگر میں تمہاری شادی اسی ثانیہ سے کروا دوں تو؟“
پھوپھو نے کچھ ایسے اعتماد سے کہا کہ شعیب نے حیرت سے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے پوچھا
 ”پھوپھو، کیا کہہ رہی ہو؟ کیسے ہوگا یہ ؟“
 ”تمہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے،میں جو کہوں گی ، تم نے وہی کرتے جانا ہے،خود سے کچھ نہیں کرنا۔ میرا نام بھی فاخرہ نہیں اگر ثانیہ کو اس گھر کی بہو نہ بنایا تو۔ یہ مراد علی بھی کیا یاد کرے گا۔“ آخر پھوپھو نے وہ زہر اگل دیا ، جو اس کے من میں نجانے کب سے تھا۔ اس پر شعیب پرجوش انداز میں بولا
” اگر ایسا ہو جائے نا پھوپھو، تو میں ساری عمر تمہارا غلام بن کر رہوںگا۔“
 ”نہ نہ میرا بیٹا۔ ایک تم ہی تو ہو میرے بھائی کی نشانی ، ہماری اولاد ہو، مجھ نگوڑی کی تو اولاد نہ ہو ئی ، تجھے ہی تو بیٹا مانتی ہوں۔ تیرا غم مجھ سے دیکھا نہیںجاتا۔میں کراﺅں گی تمہاری شادی ثانیہ کے ساتھ۔“ اس نے پتہ نہیں کیا سوچتے ہوئے مضبوط لہجے میں کہا  
”پھوپھو پھر تو کمال ہو جائے گا ۔ایسا کیا....“ اس نے خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے پوچھا تو پھوپھو فاخرہ بولی
” تم یہ سب مجھ پہ چھوڑ دو ۔چل اب اٹھ کے تیار ہو جا، میںناشتہ لگاتی ہوں، پھر آفس جاﺅ ، کسی کو احساس مت ہونے دو کہ تمہیںکوئی دکھ ہے۔ اٹھ جا میرا بیٹا۔“پھوپھو نے چاپلوسی سے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔ شعیب چند ثانئے سوچتا رہا ۔ اس کے ذہن میں کچھ اور چلنے لگا تھا۔
 ژ.... ژ.... ژ
مین روڈ سے وہ سڑک اندر ایک کالونی کی طرف جاتی تھی ۔کانولی ختم ہوگئی تو ایک بنگلہ نما بڑا سا دو منزلہ گھر بنا ہوا تھا۔ پہلی نگاہ میں وہ ایک اکیلا ہی لگتا تھا ، تاہم اس کے ساتھ پچھلی طرف کافی کوراٹر نما گھر تھے۔اس گھر کا بڑا سا آ ہنی گیٹ سیاہ رنگ کا تھا۔جس کے اندر کی جانب ایک چوکیدار بیٹھا رہتا تھا۔یہی کوئی سہ پہر کا وقت تھا ، جب ایک ٹیکسی اسی گیٹ پر آ ن رُکی ۔ اس میں سے پھوپھو فاخرہ باہر نکلی ۔ ٹیکسی آ گے بڑھ گئی تو وہ گیٹ کے اندر داخل ہو گئی ۔ اند رکی دنیا ہی نرالی تھی ۔ ایک بڑا سارا برآمدہ تھا، جہاں چند خواتین اور مردبیٹھے ہوئے تھے ۔ ایک طرف کمرے بنے ہوئے تھے ۔جس کے ساتھ راستہ اندر کی جانب جاتا تھا۔کافی بڑا سا صحن پار کرنے کے بعد پھر برآمدہ تھا۔ اس کے ساتھ کمرے تھے ۔اندر سے وہ گھر یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی پرانا قلعہ ہو ۔ کچھ پرانا طرز تعمیر کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا اور کچھ جان بوجھ کر ایسا بنایا ہوا تھاکہ وہ پراسرار لگے ۔ کیونکہ وہ شہر کے مشہور جادو گر، کالے علم کے ماہر بابا کرامت شاہ کا گھر تھا۔ برآمدے میں کھڑی ایک ادھیڑ عمر عورت آ گے بڑھی ، وہ پھوپھو فاخرہ سے یوں ملی جیسے وہ اسے برسوں سے جانتی ہو ۔اسے دیکھتے ہی بولی
” آجاﺅ ، تمہارے فون کرتے ہی میں نے وقت لے لیاتھا، جلدی آ جاﺅ ۔“ 
پھوپھو فاخرہ کچھ نہیںبولی بلکہ لمبے لمبے قدم اٹھاتی اس کے ساتھ اندرونی کمرے میں چلی گئی ۔ ایک چھوٹی سی راہدری پار کرنے کے بعد سامنے والا کمرہ بابے کرامت شاہ کا تھا۔ وہ اندر کمرے میں چلی گئی ۔بابے کرامت شاہ کا کمرہ ایسا تھا ، جس کی دیواریں سیاہ تھیں۔ مدہم سرخ مائل روشنی میں وہ آنکھیں بند کئے یوں بیٹھا ہے، جیسے گہرے مراقبے میں ہو ۔ اس کا لباس بھی سیاہ تھا ۔ گلے میں سرخ منکوں والا ہار تھا۔ہاتھوںمیںکئی ساری رنگ برنگی انگھوٹھیاں، چھوٹی چھوٹی سرخ آنکھیں ، جن میں گہرا کاجل ڈالا ہوا تھا۔ سر اور داڑھی کے بال برف کی مانند سفید تھے۔ اس کے چہرے سے خباثت ٹپک رہی ہے۔ پھوپھو فاخرہ اندر آ ئی تو اس نے آنکھیںکھول کر دیکھا پھر گونج دار آواز میں بولا
”آﺅ ....فاخرہ آﺅ.... بیٹھو۔“

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *