Friday 1 September 2017

حصار قسط نمبر 2

حصار

قسط نمبر 2


”پھوپھو، یہ ماما کیا کر رہی ہیں؟ ایسا کیوں کہہ گئی ہیں؟“ اس نے پھوپھو کی بات کاٹتے ہوئے دکھی لہجے میں پوچھا توپھوپھو فاخرہ نے کہا       
”تم بیٹاپریشان مت ہو ، اپنے کمرے میں جاﺅ ، دیکھتی ہوں میں اسے۔ سمجھاتی ہوں۔“
” دیکھیں پھوپھو، کہیں ان کی طبیعت نہ خراب ہو جائے، ہم پھر اس پر بات کر لیں گے ۔“ شعیب نے بے چارگی اور دکھ سے کہا
” دیکھتی ہوں ۔“ پھوپھو بولی اور اندرکی جانب چلی گئی ۔ شعیب بہت زیادہ اذیت محسوس کرنے لگا تھا۔ وہ سمجھ رہا تھا کہ اس کی ماما نے ایسا کیوں کہا تھا، وہ بے بسی محسوس کر رہی تھی ، وہ یہ بھی نہیںچاہتی تھی کہ ضد اور غصے میں آ کر کچھ غلط کر بیٹھے ۔ اُسے خود پر غصہ آ رہا تھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے؟ایک طرف اس کی بیمار ماں اور دوسری جانب اس کی محبت جو اب ضد اور انا بن چکی تھی ۔
 ژ.... ژ.... ژ
روشن دن کی دھوپ لاﺅنج کی کھڑکی سے اندر آرہی تھی ۔ ثانیہ علی ایک صوفے پر بیٹھی بظاہر ایک کتاب میں مگن تھی ، لیکن اس کے ذہن میں رات ہونے والی منگنی چھائی ہوئی تھی ۔ ایک ایک لمحہ اسے خوبصورت لگ رہا تھا، جسے یاد کرتے ہوئے وہ سرشار ہو رہی تھی۔انگھوٹھی پہناتے ہوئے جب ذیشان نے اس کی طرف دیکھا تھا، وہ نگاہوں کی تاب نہ لا سکی تھی ۔ نجانے اتنی حیا کہاں سے آ گئی تھی کہ وہ اسے نگاہ بھر کے بھی نہ دیکھ پائی تھی۔ورنہ عام حالات میں وہ تو پتہ نہیں کتنی کتنی دیر تک آ نکھوں میں آ نکھیں ڈال کر اس سے بحث کرتے نہیں تھکتی تھی ۔اس وقت تو وہ ذیشان سے کوئی بات نہ کرپائی تھی لیکن جاتے ہی اس نے فون کیا تو ثانیہ کو لگا جیسے اس کے لہجے میںاتناپیار گھلا ہوا ہے کہ وہ چھوئی موئی بن گئی تھی۔
 ”آج تم بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔“ذیشان نے بڑے ہی رومانوی لہجے میں کہا تھا ۔گویا اس کے کانوں میں رس گھل گیا ۔ تبھی وہ اپنے سارے جذبے اور کیفیات کو چھپاتے ہوئے شوخی سے بولی تھی
” تو اس کا مطلب ہے ، میںپہلے خوبصورت نہیںلگتی تھی، آج ہی ....“
”ارے ، اسی معصوم حسن پر تو ہم فدا ہوئے ہیں۔ہم تو اسی دن آپ پر مر مٹے تھے ، جب پہلی بار یونیورسٹی میں آپ کو دیکھا تھا۔یہ بھنورا آنکھیں، یہ گلاب کے جیسا کھلا کھلا چہرہ، یہ خوابوں ....“ ذیشان نے کہنا چاہا مگر وہ تاب نہ لا سکی فورا ہنستے ہوئے بولی
” بس بس ، تم نے تو شاعری ہی شروع کر دی۔“
”تمہارا حسن ہی ایسا ہے ،شاعری کرنے کو جی چاہتا ہے۔ اسی لئے تو اتنی کوشش کرکے پاپا کو منایا۔“ اس نے ہنستے ہوئے بتایا
”ویسے یہ اتنی جلدی منگنی کا خیال کیسے ....؟“اس نے پوچھا
”ارے میرا تو دل کرتا ہے ، کل ہی ہماری شادی ہو جائے، ابھی تو مجھے تمہارے آدھے حقوق ملے ہیں، سچ پوچھو نا ثانیہ، میں اب تمہارے بنا نہیںرہ سکتا۔بس اب جلدی سے شادی ہو جانی چاہئے ۔“
”اور تمہارا کیا خیال ہے ، میں ایسا نہیںچاہتی؟“ وہ شرماتے ہوئے بولی
”تمہاری یہی ادائیں تو مار دیتی ہیں، اچھا یہ بتاﺅ، ہنی مون کے لئے کہاں کا پلان کیاجائے؟“ اس نے پوچھا
”ابھی صرف منگنی ہوئی ہے ، ہنی مون کے لئے شادی کے بعد جاتے ہیں۔جب شادی ہوئی تو پلان بھی کر لیں گے۔“ اس نے تیزی سے کہا
”یار وہ دن کب آئے گا۔“ وہ حسرت سے بولا توثانیہ نئے خوابوں میں جا گری ۔ تبھی اس نے کہا                              
”وہ دن جب آئے گا سو آئے گا، اس وقت مجھے نیند آ رہی ہے، میں سونے لگی، بہت تھک گئی ہوں۔ خدا حافظ۔“
ذیشان ہیلو ہیلو کرتا ہی رہ گیا اور اس نے فون بند کر دیا تھا ۔ وہ کتنی دیر ان خوابوں جیسے لمحوں میں گھری رہی تھی اور پھر سو گئی ۔ اب وہ یہ سارے لمحات سوچتے ہوئے انجانی کیفیات سے سرشار تھی ۔
ثانیہ ہاتھ میںکتاب پکڑی ہوئے صوفے پر آلتی پالتی مارے سہانے خیالوں میں گم تھی ۔ یوں جیسے ارد گرد کا ہوش ہی نہ ہو ۔ اسے احساس ہی نہیں ہوا کب داخلی دروازے سے شعیب آگیا ۔ وہ اس کے قریب آیا تو ثانیہ نے چونک کر اسے دیکھا پھر خود پر قابو پا تے ہوئے دوسری جانب دیکھنے لگی ۔ تبھی شعیب نے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا
”ہائے ثانیہ ، کیسی ہو ؟“
ثانیہ کو اس کا آنا بہت برا لگا تھا۔تاہم اس نے لمحوں میں خو د پر قابو پالیا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو،تمہیں اس گھر میں آ نے کس نے دیا۔ اور ....“اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہنا چاہا توشعیب نے اس کی بات کاٹتے ہوئے سکون سے کہا
” میں تم سے ملنے آیا ہوں ۔“
”کیوں ، مجھ سے ملنے کیوں آئے ہو تم ؟“ اس نے اجنبی لہجے میں پوچھا
” میری بات سنو، میں تمہارے بغیر نہیںرہ سکتا۔ میںنے بچپن سے تمہارے خواب دیکھے ہیں، بہت چاہتا ہوں تمہیں۔ میں ،تمہیں کسی اور کا ہوتا ہوا نہیںدیکھ سکتا ۔ میں برداشت نہیںکر سکتا۔“ اس نے بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں اسے اپنا حال دل سنا دیا لیکن ثانیہ نے اجنبیت بھرے لہجے میں کہا               
”یہ کیا پاگل پن شعیب، جہاں میرے پیرنٹس نے ٹھیک سمجھا، وہاں میرا رشتہ کر دیا۔ تم کیوں مجھے ڈسٹرب کر رہے ہو ۔ مجھے سمجھ میں نہیںآ رہا ، تم ایسا کیوں کر رہے ہو ؟“
”میں جانتا ہوں ، تمہارے پاپا، تمہاری مرضی کے بغیر یہ رشتہ نہیں کر سکتے ، اور ....“ اس نے کہنا چاہا تو وہ اس کی بات قطع کرتے ہوئے بولی
”تو پھر تمہیں سمجھ جانا چاہئے۔تمہارا س طرح یہاں آنا ٹھیک نہیںہے۔“
” تمہارے بچھڑ جانے کا احساس مجھے پاگل کر رہا ہے ، تم نہیں جانتی ہو محبت کیا ہوتی ہے ، پلیز میرے جذبات سمجھنے کی کوشش کرو، چھوڑ دو اسے اور....“ شعیب بے بس ہو کر بولاتوثانیہ اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے نرمی سے سمجھاتے ہوئے بولی
”جس طرح تم اپنی محبت جتانے کا حق رکھتے ہو ، اسی طرح مجھے یہ حق کیوں نہیںدیتے ہو کہ میں تم سے شادی کروں یا نہ کروں، یہ محبت ہے یا مذاق؟“
” یہ جو محبت ہے نا،جب یہ کھو جائے نا تو.... پلیزثانیہ“ وہ سمجھاتے ہوئے کہنا چاہتا تھا لیکن ثانیہ انتہائی غصے اور بے بسی میں بولی
”چلے جاﺅ یہاں سے ، مجھے میری زندگی جینے دو ، چلے جاﺅ ، میرے پیرنٹس نے میرا نام ذیشان کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔اب مجھے اسی کے ساتھ زندگی گزارنی ہے ۔“
” اور اگر ذیشان ہی زندہ نہ رہا تو، اورتم .... تم کیا سمجھتی ہو ، کیامیری زندگی برباد نہیںہوگی،میں تمہیںبھی نہیںچھوڑوں گا۔“ وہ بھڑکتے ہوئے بولا۔ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ اسی دوران بیگم طلعت لاﺅنج کے اندر آ گئی ۔وہ یہ سب سن کر حیرت سے بت بن گئی۔
 ”شعیب، یہ تم کیا بکواس کر رہے ہو ، میری بیٹی کو دھمکیاں دے رہے ہو؟“وہ پریشان ہو تے ہوئے بولی
”آنٹی آپ بھی جانتی ہیں کہ میںایسا کیوں کہہ رہا ہوں۔ میں ثانیہ اور ذیشان کی شادی نہیںہونے دوں گا۔ یہ میری منگیتر ہے۔“ وہ ادب سے بولا توبیگم طلعت انتہائی غصے میں بولی
” ہے نہیں، منگیتر تھی ....“ یہ کہتے ہوئے اس نے خود پر قابو پایا اور سکون سے بولی ،”شعیب، فورا یہاں سے چلے جاﺅ، ابھی اور اسی وقت، چلے جاﺅ۔“
” آ نٹی میں ....“ اس نے کہنا چاہا لیکن بیگم طلعت نے اس کی بات سنے بنا کہا
” میںنے کہا نا فوراً یہاں سے چلے جاﺅ ۔اور آئندہ کبھی مت آ نا ۔ چلے جاﺅ ۔“
یہ توہین کی انتہا تھی۔ شعیب نے پہلے اپنی آ نٹی کی طرف اور پھر ثانیہ کی جانب دیکھا۔ وہ یونہی کتاب پر دیکھنے لگی تھی ۔ وہ یہی ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ اسے شعیب سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ شعیب نے ایک طویل سانس لی اور پلٹ کر اس گھر سے نکلتا چلا گیا۔
 ژ.... ژ.... ژ                          
 اس وقت بیگم ثروت کاریڈور میں اخبار پڑھ رہی ہے ۔ ایسے میں گیٹ سے کار اندر آکر اس کے پاس رک گئی ۔ اس میں سے بیگم طلعت اور مراد علی باہرآگئے ۔ بیگم ثروت خوشگوارحیرت سے دیکھتے ہوئے اٹھ گئی ۔ کتنے عرصے بعد وہ ان کے گھر آ ئے تھے ۔ اس کا دل خوشی سے بھر گیا۔ وہ دونوں میاں بیوی چلتے ہوئے اس کے قریب آئے تو بیگم ثروت خوشی بھرے لہجے میں کہا
”او ہ ہو ، خیر سے آج کہاں راستہ بھول گئی ہو، بہرحال خوش آ مدید،آﺅ بیٹھو۔“
 ” سور ی ثروت، میں یہاں بیٹھنے کے لئے نہیں آئی ۔ صرف یہی ایک بات سمجھانے آئی ہوں،اپنے بیٹے کو سنبھال لو، ورنہ اس کے ساتھ بہت برا ہوگا، یہی بات کہنے آ ئی ہوں ۔“ بیگم طلعت نے اپنے غصے کو دباتے ہوئے اجنبیت سے کہا توبیگم ثروت بوکھلائے ہوئی بولی
” کیا ہوگیا ، کیا کردیا اُس نے؟“
اس پر مراد علی نے نفرت بھرے لہجے میں کہا
”وہ میرے گھر میں غنڈہ گردی کرے گا ، ہمیں دھمکائے گا، مرنے مارنے کی دھمکیاں دے گاتو کیامیں یہ بر داشت کر لوں گا۔ یہ بات میںفون پر بھی کہہ سکتا تھا، لیکن خود آیا ہوں سمجھانے،آئندہ اس نے کوئی ایسا کمینہ پن کیا ، تو میںاسے شوٹ کر دوںگا۔“
” کیا ہو کیا گیا، ایسا کیا کر دیا شعیب نے؟“بیگم ثروت نے حیرت اور گھبراہٹ میں پوچھا
 ”اسی سے پوچھنا لینا جو میرے گھر میں گھس کر مرنے مارے کی دھمکیاں دے کر آ یا ہے ۔ میں گھر پر نہیںتھا، ورنہ بتاتا کیسے دھمکیاں دیتے ہیں۔تم ماں بیٹایاد رکھنا،میںاپنی بیٹی کی خوشیوں پر ایسے کسی بھی منحوس کا سایہ نہیں پڑنے دوں گا۔یہ تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو۔“مراد علی نے نفرت سے کہا تو بیگم ثروت ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی
”معاف کر دو بھائی ، میں تمہارے ہاتھ جوڑتی ہوں، اگر اس نے کچھ کیا ہے تو.... خدا کے لئے طلعت، میں اسے سمجھا لوں گی ۔“
 ”ہم سے معافی مانگنے کی بجائے اسے سمجھاﺅ،جو کچھ اس نے کیا، وہ کوئی بھی ماںباپ برداشت نہیںکر سکتا، میری جگہ تم بھی ہوتی نا تو بھی نہیں۔ “بیگم طلعت نے منہ پھیرتے ہوئے کہا
”چلو طلعت، آخری بار سمجھا لیا۔“مراد علی نے پلٹے ہوئے کہا تو بیگم ثروت نے تیزی سے کہا
”طلعت ، مراد علی بھائی، بات تو سنیں۔ میں ....
”بس ، پہلے ہی تمہیں منگنی پر بلا کر میری بیوی نے غلطی کی، اب کچھ نہیں بچا ۔ کوئی تعلق ، کوئی رشتہ نہیںبچا۔اب میں اسے معاف کرنے والا نہیں شوٹ کر دوں گا اسے ۔“مراد علی نے نخوت سے کہا اور کار کی جانب بڑھ گیا ۔ بیگم طلعت بھی اس کے پیچھے گئی ۔
انہی لمحات میں پھوپھو فاخرہ بھی اندر سے باہر آ گئی ۔ اس نے مراد علی کی باتیں سن لیں تھیں۔ وہ تو پہلے ہی مراد علی پر بھری پڑی تھی ، تیزی سے آ گے بڑھتے ہوئے حقارت بھرے لہجے میںبولی
”ہائے ،کیا ہو گیا، کیا کر دیامیرے بچے نے، کسے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہو؟تمہاری یہ جرات ہے ہمارے بیٹے کو مرنے مارے کی دھمکی دینے والے“
ان دونوں نے پھوپھو فاخرہ کی بات سنی ان سنی کردی جیسے وہ اسے اہمیت ہی نہ دے رہے ہوں ۔کوئی جواب دئیے بغیر کار میںبیٹھے اور وہاں سے چلے گئے ۔
بیگم ثروت یوں کرسی پر بیٹھی ، جیسے اسے اب تک سمجھ نہ آ ئی ہو کہ ہوا کیا ہے ۔اس نے دکھ سے آنکھیں بند کرلیں جن سے آنسو ٹپک پڑے۔ پھوپھو فاخرہ حیرت زدہ سی کھڑی کی کھڑی رہ گئی ۔ وہ چند لمحے یونہی کھڑی رہی پھر اندر کی جانب پلٹ گئی ۔
کافی دیر بعد جب پھوپھو فاخرہ ہاتھ میں ٹرے پکڑے دوبارہ کاریڈور میں آ ئی تو بیگم ثروت یونہی گم سم سی بیٹھی ہوئی تھی ۔پھوپھو فاخرہ نے ٹرے میز پر رکھتے ہوئے حیرت زدہ لہجے میں بولی
”ارے یوں کیسے بیٹھی ہو ،مجھے تو لگتا ہے کہ تم نے مراد علی کی بات دل کو ہی لگا لی ہے۔ کچھ نہیںکر سکتا وہ ۔اب سوچنا چھوڑ بھی دو، بھول جاﺅ ۔ لو یہ تم اپنی دوا کھاﺅ ۔“
اس نے ٹرے میں پڑی ہوئی دوا اٹھا کر دی ۔
”کیسے بھول جاﺅں فاخرہ ، میںنے پوری زندگی میں کبھی کسی کی اتنی باتیں نہیں سنی ، جتنی مجھے شعیب کی وجہ سے سننی پڑی ہیں، مجھے ذرا سی بھی بھنک مل جاتی نا تو میں اسے وہاں جانے ہی نہ دیتی ۔“بیگم ثروت نے دوا پکڑ کر کھوئے ہوئے لہجے میں کہا ۔پھر دوا پھانک کر گلاس سے پانی پیا تو پھوپھو فاخرہ نے اسے چائے کا مگ تھماتے ہوئے کہا            
”سچی بات تو یہ ہے ثروت ، شعیب نے کچھ غلط نہیںکیا، آخر اس کے بچپن کی منگیتر ہے ، وہ کیوں چھوڑے اسے ، پہلی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے انکار ہی کیوں کیا۔ یہ گڈی گڈے کا کھیل ہے بھلا۔ میں توکہوں، شعیب نے جو کیا ٹھیک کیا۔میرا بس چلے تو میں ثانیہ کو شعیب کی دلہن بنا دوں۔“
” لیکن اب تم یہ کیوں گڑے مردے اکھاڑ رہی ہو ، کیوں جلتی پر تیل ڈال رہی ہو، ثانیہ اب شعیب سے شادی نہیںکرنا چاہتی ۔ تم شعیب کو یہ سمجھانے کی بجائے۔ اپنی ہی رٹ لگا ئی  ہو ئی ہے۔“بیگم ثروت بھنا کر بولی
 ”میں تو سیدھی بات کرتی ہوں ، بھلے کسی کو بری لگے ۔ غلط کہہ رہی ہوں کیا؟پھوپھو فاخرہ نے ٹرے سے چائے کا مگ اٹھاتے ہوئے سکون سے کہا
”خبردار فاخرہ ، میرے گھر کے معاملات میںدخل دینا بند کردو۔ اگر تم نے یہاں رہنا ہے تو۔ خدا کی پناہ، کوئی سمجھتا ہی نہیں، کیا کروں میں۔ “بیگم ثروت نے غصے میں کہا، ہاتھ میںپکڑا ہوا مگ واپس ٹرے میں رکھا اور غصے میںاٹھ کر اندر چلی جاتی گئی ۔ پھوپھو فاخرہ چند لمحے بیٹھی رہی پھر طنزیہ انداز میں مسکردی۔ مگ اٹھا کر چائے کا سپ لیا اور بڑبڑاتے ہوئے بولی
”اونہہ ، بڑی آئی دھمکی لگانے والی، اری بنّو، اس گھر میںہوگا وہی جو میںچاہوں گی۔ تم جو مرضی کر لو۔“
وہ سکون سے چائے پینے لگی تھی ۔
 ژ.... ژ.... ژ          
 مراد علی سائیڈ ٹیبل کی روشنی میں بیڈ پر نیم دراز پڑا میگزین دیکھ رہا تھا ۔بیگم طلعت دھیمے قدموں سے آکر خاموشی سے بیڈ کے ایک طرف اپنے بال سنوارتے ہوئے لیٹ گئی ۔ مراد علی نے میگزین ایک جانب رکھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا
”بیگم، میں دیکھ رہا ہوں، تم بہت ڈسٹرب ہو۔“
” اتنا کچھ ہو گیا،اب بھی مجھے ڈسٹرب بھی نہیں ہونا چاہئے۔ اس دنیا میںمیری ایک ہی بہن ہے، اب اس سے بھی تعلق نہیںرہا۔“
یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم سے رو پڑی۔مراد علی چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر نرم سے لہجے میںبولا       
”میں سمجھتا ہوں، میں ثروت آپا کی بہت عزت کرتا ہوں ،کیا کروں ، میں شعیب کو برداشت نہیں کر سکتا، وہ مجھے ویسے ہی بہت برا لگتا ہے۔“
”کیا یہ حقیقت نہیں ؟ کیاثانیہ اس کی منگیتر نہیںرہی ؟ دونوں کی ہم نے منگنی کی تھی، اب ذیشان سے منگنی کا فیصلہ آپ نے کیا یا ثانیہ نے ،یہ الگ بات ہے، لیکن شعیب سے منگنی توڑنے کا بھی کوئی جواز نہیںہے آپ کے پاس ، ہمیں حقیقت....“ وہ دُکھ سے کہتی چلی گئی لیکن مراد علی اس کی بات کاٹ کر لاپرواہی سے بولا
”ہمیں اپنی بیٹی کی خوشیاں چاہئیں، میں نے یہ فیصلہ ثانیہ کی خواہش پر کیا۔ تم بھی جانتی ہو۔ یہ جواز کیا کم ہے؟ تمہیں اس قدر دُکھی نہیں ہونا چاہئے ۔“
”جس طرح ثانیہ ہماری اکلوتی ہے ، شعیب بھی ایسا ہی اکلوتا ہے۔ اگر اسے کچھ ہوگیا، میری بہن تو جیتے جی مر جائے گی ، کیا کچھ نہیںکیا اس نے ہمارے لئے اور ہم اسے دُکھ دیںگے۔ آپ نے ثروت کے ساتھ اس قدر اجنبیت دکھائی، اورمجھے دکھ بھی نہ ہو ۔“بیگم طلعت نے بھیگے ہوئے لہجے میںکہا تومراد علی بولا         
”دیکھو، اگر میںسختی نہ دکھاتا تو....“
”اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم ثروت کو اذیت دیں؟اور پھر شعیب،آپ اس کے بارے میںاچھی طرح جانتے ہیں، وہ کس قدر سر پھرا ہے،وہ ضد میںآ کر کچھ بھی کر سکتا ہے،نقصان کسی کا بھی ہو ، وہ نقصان تو ہمارا ہی ہے نا۔وہ بھی اپنا ہی خون ہے۔“ وہ روہانسا ہوتے ہوئے بولی
”وہ خون ہوگا تمہارا، اور تم مجھے یہ جذباتی بلیک میل نہ کرو۔تم کچھ زیادہ ہی اوٹ پٹانگ سوچ رہی ہو۔“ وہ زچ ہوتے ہوئے اکتا کر بولا
”میںاپنی بہن کو دکھ نہیں دینا چاہتی۔“ وہ حتمی لہجے میںبولی تومراد علی مفاہمانہ انداز میں بولا
”خیر، میں نے سوچ لیا ہے ۔اس معاملے کا کوئی بہتر حل نکالتا ہوں ، تم فکر نہ کرو، سکون سے سو جاﺅ۔“
”کسی کا نقصان نہیںہونا چاہئے ۔“بیگم طلعت نے یاد دہانی کے انداز میں کہا
”ٹرسٹ می ، کچھ نہیںہوتا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ اب تم سو جاﺅ۔“مراد علی نے یہ کہتے ہوئے وہ سائیڈ ٹیبل کی لائیٹ بجھادی ۔ بیگم طلعت بھی سونے کےلئے پہلو میں لیٹ گئی لیکن اس کے آ نسو رواں تھے جو اس کا شوہر نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔
اسی شام مراد علی اور بیگم طلعت نے چوہدری نذیر احمد کو اطلاع کرکے ان کے ہاں جا پہنچے۔ ان کا استقبال دونوں میاں بیوی نے کیا۔ کچھ دیر تک وہ سبھی آمنے سامنے بیٹھے ہوئے باتیں کر تے رہے ، پھر مراد علی نے ہی بڑے سکون سے کہا              
”یہ باتیں تو ہوتی رہیں گی ، میں آپ سے ایک مشورہ کرنے آیا ہوں۔“


No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *