Wednesday 30 August 2017

مہرو


مہرو

امجد جاوید

سرخ اشارہ آتے ہی فروا نے اپنی کار روک لی۔اس دن اس کا موڈ اچھا تھا اور حسبِ معمول اپنے آفس سے لیٹ بھی نہیں تھی۔وہ مقامی چینل کی رپورٹر تھی۔ اس کا شماران رپورٹرز میں ہوتا تھا، جو اپنی کارکرگی کی وجہ سے باس کی نگاہوں میںاپنا بہترین تاثر بنا چکے تھے۔ وہ تھوڑی منفرد تھی۔ اپنی مرضی سے کام کرنے والی، جو کرتی اچھا ہی کرتی۔ فروا کا باپ بزنس کر رہا تھا اور یہ محض اپنے شوق کی خاطر صحافت میں تھی۔ وہ ایک اچھی رپورٹر تو تھی ہی ،لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذہین اور حسین بھی تھی۔ وہ اپنے حسن کی وجہ سے بھی لوگوں کی نگاہوں میں رہتی تھی۔ حالانکہ وہ اپنے آپ سے لاپرواہ لڑکی تھی۔ خود پر توجہ نہ دینے کے باوجود،بہت سارے اس پر فریفتہ تھے۔ مگر وہ اپنے کام سے کام رکھنے والی لا ابالی لڑکی تھی۔
 اس وقت بھی وہ میک اپ سے بے نیاز چہرے کے ساتھ ، ڈھیلی سی سفید شرٹ اور گہری نیلی جین پہنے ہوئے تھی۔ وہ پر سکون تھی اور اشارہ کھلنے کا انتظار کر ہی تھی۔ ایسے میں اس کا سیل فون بج اٹھا۔ اس نے اسکرین پر نگاہ ڈالی۔ وہ اس کے باس کا فون تھا۔ کال رسیو کرتے ہوئے اس نے اسپیکر آن کر دیا۔ کیونکہ اسی لمحے سبز اشارہ ہو گیا تھا۔
”بھئی فروا کدھر ہو تم؟“ باس نے تیزی سے کہا
” سر۔! میں بس چینل پہنچنے والی ہوں ، دس یا پندرہ منٹ ....“ فروا نے کہناچاہا تو باس نے اس کی بات کاٹ کر جواب دیا
” تم ایسے کرو، چینل مت آﺅ، بلکہ سیدھے ہسپتال جاﺅ،میں کیمرہ مین ادھر بھیج رہا ہوں۔“
” اوکے میںادھر ہی چلی جاتی ہوں ،مگر ایشو کیا ہے ؟ کچھ بتائیں گے آپ؟“ فروا نے عام سے انداز میںپوچھا کیونکہ ایسی سنسنی روزانہ ہی ہوتی تھی۔
”سنو۔! یہاں سے بارہ کلومیٹر کے فاصلے پر روہی کے صحرا میں موجود بستی نور دین میں ایک دلہن دو دن سے ایک ہی جگہ پر بیٹھی اپنے دلہاکا انتظار کر رہی ہے۔ اور اس کا دُلہا شہر کے ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں ہے ۔“
” ہاﺅ۔! کیا بات ہے؟“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو باس نے کہا
 سنو۔! دُلہا کوتم نے بس ایک نظردیکھنا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ دلہن کیوں دو دن سے ایک ہی جگہ پربیٹھی ہوئی ہے ؟اصل بات کیا ہے ؟ کیونکہ وہ دلہن روہی کی معروف شخصیت ملک خدا بخش کی بیٹی ہے۔“
” واﺅ۔! یہ تو اچھی خاصی سٹوری نکلتی ہے باس۔“ اس نے تیزی سے ہسپتال والی سڑک پر مڑتے ہوئے کہا
”بس شاباش، یہ سٹوری بنا کو لاﺅ۔“ باس پُرجوش ہوتے ہوئے بولا تو اس نے تیزی سے کہا 
” اوکے باس۔“ 
اس کے ساتھ ہی فون بند ہو گیا ۔ اوروہ تیزی سے کار بھگاتی ہوئی ہسپتال جا پہنچی۔
وہ سیدھی متعلقہ ڈاکٹر کے پاس گئی ۔ وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ دُلہا، انتہائی نگہداشت وارڈ میں ہے۔اس کی حالت بارے ڈاکٹر نے بتایا
”کافی سیریس حالت ہے اس کی، ویسے ہم دیکھ رہے ہیں۔ اُ مید ہے بچ جائے گا، اگر اس کی مناسب دیکھ بھال ہو گئی تو۔۔۔“
” مناسب دیکھ بھال ،مطلب؟“ فروا نے پوچھا
” آپ کو پتہ ہے کہ یہ سرکاری ہسپتال ہے، اس بندے کے ساتھ جو مقامی لوگ ہیں، میرے خیال میں وہ کب تک اور کتنا خرچ کریں گے اس پر، اس کا خون بہت ضائع ہو چکا ہے۔“ ڈاکٹر نے افسردگی سے کہا
”اسے خون کی بھی ضرورت ہے؟“ اس نے تشویش سے پوچھا
” جی، مگرپتہ نہیں وہ لوگ بندوبست کر بھی پائیں گے یا نہیں۔ خون نہ ملنے کی وجہ سے ہمیں بھی مشکل ہو رہی ہے۔“ ڈاکٹر نے دبے لفظوں میں اپنی مشکل بتائی تو اسے حالات کی نزاکت کا احساس ہوا۔ایک دم سے اس کے دل میں خیال آیا کہ اگر تھوڑی سی رقم اوردیکھ بھال کے عوض اگر کسی کی زندگی بچ سکتی ہے تو اسے یہ فرض سمجھ کر نبھانا چائیے۔ 
” ڈاکٹر۔! آپ پلیز، اس کی مناسب دیکھ بھال کریں۔ میں کرتی ہوں اس کے لئے کچھ۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنی ایک این جی او والی دوست مسز نورین کو فون ملایا۔
” ہائے فروا، کیسی ہو ، بڑے دنوں بعد یاد کیا تم نے۔“ دوسری طرف سے چہک کر پوچھا کیا تو وہ تمہیدی باتوںکو نظر انداز کرتے ہوئے بولی
”دیکھو ، میں اس وقت ہسپتال میں ہوں، اور سمجھ لو ایک لاوارث مریض کی دیکھ بھال کرنی ہے ، ہر طرح سے، بولو کیا کہتی ہو؟“ 
” ارے، یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے۔ میں ابھی بھجتی ہو ں دو بندوں کو۔“ 
” اسے خون کی بھی ضرورت ہے۔“ اس نے بتایا
” یار تم فکر نہ کرو، میں خود ان کے ساتھ آرہی ہوں۔ سب سنبھال لیتی ہوں۔“ اس نے یقین دلایا تو بولی
” دیکھو نورین ،مجھے ابھی یہاں سے نکلنا ہے، کیا میں تمہارا انتظار کروں؟“
” کہا نا میں آ رہی ہوں، تم چاہو تو میرا انتظار کر لو۔“ نورین نے تیزی سے کہا تو اس نے خدا حافظ کہہ کر فون بند کر دیا۔ پھر ڈاکٹر سے کہا،
” وہ میں نے کہہ دیا ہے، کیا میں اسے ایک نگاہ دیکھ سکتی ہوں؟“اس نے انتہائی سنجیدگی سی پوچھا
” کیوں نہیں، آئیں۔“ ڈاکٹر نے کہا اور اُٹھ گیا، وہ بھی اس کے ساتھ اٹھ کر باہر کی جانب چل دی۔ کیمرہ مین آچکا تھا۔ وہ اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے انتہائی نگہداشت وارڈ کی جانب چل دی۔ 
اس کا سر اور چہرہ پٹیوں میں لپٹا ہوا تھا۔ وہ بے ہوش تھا۔ڈاکٹر اس کے بارے میں تفصیل بتاتا رہا اور اس دوران کیمرہ مین نے مختلف زاویوں سے اس کی شارٹس لے لئے۔ وہ مسز نورین کے آنے تک وہاں رہی۔ جیسے ہی وہ آگئی، وہ کیمرہ مین کے ساتھ بستی نور دین کی طرف چل پڑی۔
٭....٭....٭
فروا بستی نور دین کی راہ پر تھی ۔ شہر سے نکلنے کے بعد صحرائی علاقہ شروع ہو چکا تھا۔ایک پتلی سیاہ سڑک سیدھی جاتی ہوئی ٹیلوں میں گم ہو رہی تھی۔ اور وہ تیزی سے گاڑی بھگائے چلی جا رہی تھی۔ پچھلی نشست پر بیٹھا کیمرہ مین ادھر اُدھر کے شاٹس لے رہا تھا۔اچانک مشرق کی طرف ایک سڑک نکلتی ہوئی دکھائی دی۔ اس پر ایک چھوٹا سا بورڈ لگا ہوا تھا جو کسی پیر صاحب کے آستانے کی اطلاع دے رہا تھی۔ اسی آستانے کے قریب ہی وہ بستی تھی ،جو اُسی بزرگ کے نام پر تھی۔ وہ اس جانب مڑ گئی ۔ کافی آگے جانے کے بعد اسے درباردکھائی دیا، جو بستی سے پہلے تھا ، جس کی نشان دہی اس بورڈ سے ہو رہی تھی۔ زمین سے کافی اونچائی پر سفیدمسجد تھی ، جس کے میناردُور ہی دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مزار کا گنبد تھا۔ دھیرے دھیرے وہ سب واضح ہوتا چلا گیا۔ لق و دق صحرا میں اس آستانے سے ذرا فاصلے پر بستی دکھائی دے رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ دربار کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ دربار کافی اونچائی پر تھا، دس پندرہ سیڑھیاں چڑھنا پڑتی تھیں ۔
 وہاںدربار کے باہر ہی سیڑھیوں کے پاس کافی سارے لوگ جمع تھے۔ فروا اُن سے اس دلہن کے بارے میں پوچھنا چاہ رہی تھی۔تبھی چند لوگ تیزی سے ان کی طرف بڑھے۔ ان میں سے ایک نوجوان نے آگے بڑھ کراپنا تعارف کراتے ہوئے کہا
” جی میرا نام ظفر دلدار ہے ، میں نے ہی چینل والوں کو اطلاع دی تھی۔“ فروا نے اسے دیکھا اور کار سے اتر آئی۔ یہ یقین کرنے کے بعد کہ یہ وہی لوگ تھے، جنہوں نے چینل والوں کو اطلاع دی تھی ۔ اس نے کیمرے والے کو مخصوص اشارہ کیا اور ظفر سے پوچھا
” یہ معاملہ کیاہے؟ کیا وجہ ہے ؟وہ لڑکی کیوں بیٹھی ہوئی ہے دودن سے ؟“
” اس کا نام تو مہرین ہے ، لیکن سب اسے مہرو ہی کہتے ہیں۔ ہوا یہ ہے کہ وہ ایک لڑکے سے پیار کرتی ہے۔ اور مہروکے ماں باپ نہیں چاہتے کہ اس لڑکے سے اس کی شادی ہو۔خیر اس کی ضد کے سامنے ماں باپ ہار گئے یا انہوں نے مصلحت سے کام لیا، انہوں نے ہاں کر دی۔ لڑکے والے بارات لے کر جا رہے تھے کہ ان کا حملہ ہو گیا اور حملہ آوروں نے صرف اسی لڑکے کو اس قدر بے دردی سے مارا کہ اب وہ ہسپتال میں موت وحیات کی کشمکش میں پڑا ہے۔ شاید آپ اسے دیکھ کر آئی ہوں گی۔“
” ہاں میں نے دیکھا ہے ، ابھی تک اسے ہوش نہیں آیا ہے۔“ فروا نے بتایاتو بولا
” یہ واقعہ اسی جنڈ کے پاس ہوا ہے جہاں اب مہرو بیٹھی ہوئی ہے۔“
” کہاں ہے وہ جنڈ کا درخت؟“ فروا نے ایک طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
 ”اس آستانے کی پچھلی طرف بستی ہے ، بس اسی آستانے اور بستی کے درمیان ایک بڑا سا جنڈ کا درخت ہے، مہرو وہاں بیٹھی ہے۔“
” ماں باپ کو لڑکا پسند کیوں نہیں تھا، اس کے والدین کہاں ہیں؟“ فروا کے اندر تجسس پھیل گیا۔ 
” اصل میں وہ لڑکا ادھر آستانے پر ہی رہتا تھا۔ سوائے بابا سائیں کے کوئی بھی اس کے بارے میں نہیں جانتا ۔ اس کے ماں باپ کے بارے میں بھی کسی کو نہیں معلوم۔“ اس نے پر جوش انداز میں بتایا
” کسی کو نہیں معلوم، تو کیا اسی وجہ سے مہرو کے والدین....“ وہ کہتے کہتے رُک گئی تو طفر نے تیزی سے کہا
” جی جی، یہی وجہ ہی ہو سکتی ہے۔ کیونکہ اس کے بارے میں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ وہ کون ہے ، کہاں سے آیا ہے، حتکہ بابا سائیں نے بھی کچھ نہیں بتایا۔“
” یہ بابا سائیں کون ہیں؟“
” اس آستانے کے متولی ہیں۔ وہ یہیں ہوں گے ہمیشہ سفید کپڑے پہن کر رکھتا ہیں۔پورا علاقہ ان کی عزت کرتا ہے۔
” کب سے ہیں وہ بابا سائیں یہاں پر؟“ اس نے تجسس سے پوچھا
” بابا سائیں کی جوانی ہی نہیں، بچپن بھی یہیں گذرا ہے۔ وہ یہیں کے ہو کر رہ گئے ہیں اور دربار کی نسبت سے اس کا پورے علاقے میں اثر بھی ہے۔“ اس نے بتایا
 ”وہ لڑکا جو ہسپتال میں ہے، انہی بابا سائیں کے پاس رہتا تھا۔ کیا نام ہے اس کا؟“ فروا نے پوچھا
 جی ، انہی کے پاس رہتا ہے ۔ہم لوگوں کو تو اس کا صحیح نام ہی نہیں معلوم، بس سارے اسے چُپ سائیں کہتے ہیں، وہ کسی سے کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا۔“ طفر نے اسے بتایا
” کیا میں بابا سائیں سے مل سکتی ہوں؟“ 
” کیوں نہیں۔ لیکن پتہ نہیں وہ آپ سے ملتے بھی ہیں یا نہیں۔“ اس نے پر یقین انداز میں کہا۔
” کیوں؟ وہ کیوں نہیں ملیں گے؟“ اس نے تیکھے انداز میں پوچھا
” یہ تو میرا خیال ہے نا، پتہ کر لیتے ہیں، اگر آپ نے ان سے ملنا ہو تو۔”
” میں ان سے مل لوں گی۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر لے لئے خاموش ہوئی پھر بولی،” اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی گئی؟“
” جی ، لوگ گئے تھے پوکیس کے پاس ، لیکن کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔“
” کیوں نہیں ہوئی ، کوئی وجہ؟“ اس نے پوچھا
” کیوں نہیں ہوئی اس کا ہمیں نہیں پتہ، اسی لئے آپ چینل والوں کو بلایا ہے کہ آپ دیکھیں کہ یہ مسئلہ کیا ہے۔“ ظفر نے کہا
” کیا یہ پکی بات ہے کہ وہ لڑکی دو دن سے وہیں بیٹھی ہے؟“ اس نے پھر سے تصدیق کی تو ظفر بولا
” آپ خود جا کر اس سے پوچھ لیں۔“
 فروا کو اس مہرو سے ایک دم ہمدردی ہونے لگی تھی۔شاید یہ آستانے والے اس لڑکی کو بہکا رہے تھے، یا وہ مہرو خود بہک گئی تھی۔ ممکن ہے اسے محبت ہو گئی ہو، کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس نے سوچا وہ بابا سائیں سے بعد میں مل لے گی پہلے اسے مہرو سے ملنا چائیے۔ بابا اگر فراڈہوا تو اس کی آمد کے بارے میں سن کر بھاگ جائے گا۔وہ فوراً مہرو کو دیکھنا چا ہتی تھی، اس لئے وہ ادھر بڑھ گئی۔
فروا نے جنڈ کے درخت سے کچھ دور کار روک دی۔ اس نے کار سے اُترتے ہوئے دیکھا، تنے سے ٹیک لگا کر سر جھکائے ایک پتلی سی لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ارد گرد کافی ساری مختلف عمر کی عورتیں موجود تھیں۔ وہ پر سکون انداز سے چلتے ہوئے اس کے پاس جا پہنچی اور اسے غور سے دیکھتے ہوئے آہستگی سے بیٹھ گئی۔
 لڑکی نے قیمتی پوشاک پہنی ہوئی تھی، جو دھول اور یت سے اَٹ چکی تھی۔عمر یہی بیس بائیس سال رہی ہوگی۔اس نے کافی سارا زیو ر پہنا ہوا تھا۔ نین نقش میں حسین تھی۔ بڑی بڑی بھنورا آنکھوں میں حیرت کے ساتھ انتظار پھیلا ہوا تھا۔ پتلے پتلے لب یوں بند تھے جیسے سِلے ہوئے ہوں۔ ستواں ناک میں سونے کی کیل تھی ، جس میں سرخ نَگ جڑا ہوا تھا۔ اس کے گلابی چہرے پر پیلاہٹ پھیلی ہوئی تھی۔فروا کو پہلی ہی نگاہ میں وہ بہت معصوم اور پیاری لگی۔ اس کے لباس میںچولستان کے روایتی ملبوسات کی جھلک تھی۔ سر پر بڑا سی چادر سے نکلی ہوئی زلف ہلکے ہلکے ہوا سے لہرا رہی تھی۔ فروا کوایک دم سے ہی بلاوجہ اس سے ہمدردی محسوس کرنے لگی تھی۔ لیکن ساتھ میں ہلکا ہلکا غصہ بھی امنڈ آیا تھا۔ایک اجنبی کے لئے، اپنے ماں باپ کا نام وہ یوں بدنام کر رہی تھی۔ اس کے بیٹھتے ہی مہرو نے سر اٹھا کر دیکھا تو فروا نے پوچھا
” کیوں بیٹھی ہو یہاں؟“ نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے لہجے میں تلخی در آئی۔ مہرونے شاکی نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا اور زہر خند لہجے میں پاگلوں کی طرح کہا
” تم کیوں پوچھ رہی ہو، اور تم آئی کیوں ہو یہاں پر؟ تماشہ دیکھنے، جو میں نے یہاں لگایا ہوا ہے؟“
مہرو کے لہجے کچھ ایسا تھا کہ فروا نے سنجیدگی سے کہا
” نہیں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ میں یہ دیکھنے آئی ہوں کہ تمہارا یقین کس قدر پختہ ہے۔“ 
”کیا مطلب؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”مطلب ، یہ کہ تم ایسا کس لئے کررہی ہو؟ ظلم کے خلاف احتجاج کر رہی ہو، کوئی چلّہ کاٹ ہی ہو یا کوئی ڈرامہ کر ہی ہو؟“فروا کے لہجے میں عجیب قسم کی تیزی تھی جیسے وہ طنز کر رہی ہے یا پھراُسے یہ سب بہت برا لگا ہو یا پھر جیسے بہت زیادہ ہمدردی ہونے پر کوئی بندہ غصے میں بولتا ہے۔ ایسا ہی کچھ ملا جلا تاثر تھا جس کی خود فروا کو بھی سمجھ نہیں آئی تھی۔ مہرو نے اس کی طرف دیکھا اور انتہائی دکھی لہجے میں بولی
” تم نے کسی سے محبت کی ہے؟ ٹوٹ کر چاہا ہے کسی کو، وہ جسے تم اپنا سب کچھ سمجھ چکی ہو؟ بولو جواب دو؟“ مہرو نے پوچھا تو فروا کو لگا جیسے وہ اپنی عمر سے زیادہ بڑی بات کر گئی ہے، کیا یہ کچھ پڑھی لکھی بھی ہے؟ کیا اس کے اندر موجود محبت نے اسے اس قدر طاقت ور بنا دیا ہے؟
” دیکھو۔! میں تمہارے سوالوں کے جواب دینے نہیں آئی،میں صرف یہ پوچھنے آئی ہوں کہ تم ایسا کیوں کر رہی ہو؟ “
” میں اگر تمہیں جواب دے بھی دوں تو پھر کیا ہوگا، میرا جنید آجائے گا، صحیح سلامت ، جیسے وہ یہاں تھا۔ تمہاری توایک خبر بننی ہے سنسنی خیز سی، اور بس ۔جبکہ میں احساس دلارہی ہوں ان ظالموں کو ، جنہوں نے ظلم کیا۔“ مہرو نے کہا
” خبر بنائی نہیں جاتی، تمہارے جیسے لوگ ہوتے ہیں ،جن کی وجہ سے خبر بن جاتی ہے۔ اور جہاں تک خبر کی بات ہے وہ تو بن چکی ہے۔“
” تو پھر جاﺅ اور جا کر چلاﺅ اپنے چینل پر،یہاں بیٹھی کیا کر رہی ہو۔“ مہرو نے غصے میں کہا
” وہ تو میں جاﺅں گی ، اور جو کرنا ہوگا میں کر لوں گی خیر۔! کیاتم کچھ پڑھی لکھی بھی ہوں؟“ فروا نے اچانک ایک دوسری قسم کاسوال کر دیا، مہرو کے لبوں پر ہلکی سی طنزیہ مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر طنزیہ انداز سے بولی
” میٹرک کیا ہے ۔اور آگے پڑھنے نہیں دیا کہ لڑکیاں پڑھ کر کیا کریں گی.... “
” مطلب پڑھی لکھی ہو .... پھر بھی تم....“
 ” کیا پڑھی لکھی عورت کے ساتھ ظلم نہیں ہو سکتا۔کیا یہ تعلیم کوئی ڈھال ہے ، جو ایسے کسی ظلم سے بچا لیتی ہے؟“ وہ تیکھے لہجے میںبولی
فروا حیران تھی۔ روہی کی لڑکی، بھی پڑھی لکھی ہو سکتی ہے، یہ اس کے ذہن میں نہیں تھا۔ تبھی وہ آہستگی سے بولی
”لیکن میرا سوال اب بھی وہی ہے کہ تم کیوں....“
” جواب میں نے دے دیا ہے۔“ مہرو نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
” کیا تمہارا یہی بیان ہم شوٹ کر لیں؟“ فروا نے اجازت چاہی۔
” نہیں، میں قطعاً نہیں چاہوں گی۔ یہ میرا احتجاج ہے، میرے اپنوں کے خلاف ۔میں اسے دنیا کے سامنے نہیںلانا چاہتی۔ مجھے افسوس ہے کہ تمہیں یہا ںسے مایوس جانا پڑے گا۔“ مہرو نے سرد سے لہجے میں کہا
” کیا تمہیں یقین ہے کہ اس طرح کرنے سے، وہ چُپ سائیں یا میرا مطلب جنید واپس آ جائے گا۔ اور تمہاری شادی اس کے ساتھ ہو جائے گی؟ “ فروا نے پوچھا
” دیکھو۔! تم جو کوئی بھی ہو، یہ میرا یقین ہے کہ موت اور زندگی، رَبّ کے ہاتھ میں ہے۔ اگر جنید کی زندگی ہوئی تو وہ ضرور لوٹ کے آئے گا۔“ مہرو نے پُریقین لہجے میں کہا
” کیا تم اس جنید کے انتظار میں یہاں بیٹھی ہو؟“ اس نے پوچھا
”ہاں، میں اس وقت تک یہاں بیٹھی رہوں گی ، جب تک مجھے اس کے یہاں آ جانے کا یقین نہیں ہو جاتا۔“ اس نے عزم سے کہا
” مہرو۔! میں تمہیں سمجھانے نہیں آئی ، لیکن تھوڑا ُلجھ ضرور گئی ہوں، ایک طرف تم چینل پر خبر نہیں دینا چاہتی ہو ، اور دوسری طرف یہاں بیٹھ کر کیا ماں باپ کا نام روشن کر رہی ہو ، کیاوہ اس طرح علاقے میں بد نام نہیں ہوں گے؟“ فروا نے واقعتاً الجھتے ہوئے پوچھا
” انہی علاقے والوں کو احساس دلانے کے لئے یہاں بیٹھی ہوں۔ لیکن تمہیں اس سے کیا؟ یہ میرا مسئلہ ہے ، میں خود اسے حل کر لوں گی۔“ مہرو نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا۔ فروا سمجھ گئی کہ صدمے کی وجہ سے ممکن ہے اس وقت وہ اپنے حواسوں میں نہ ہو۔ وہ چند لمحے سوچتی رہی پھر بولی
” میں وہ ہوں، جو اس وقت تیرے جنید کا علاج اپنی نگرانی میں کروا رہی ہے۔ دیکھنا چاہتی ہو کہ وہ اب کیسا ہے؟“ فروا نے ایک نفسیاتی حربہ آزمایا
” کیسا ہے وہ ؟“ اس نے تیزی سے پر اشتیا ق لہجے میں پوچھا تو فروا نے کیمرہ مین کو اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا کہ کیا کرنا ہے۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنے کیمرے کی چھوٹی سی اسکرین پر اسے وہ ساری فلم دکھا دی جو انہوں نے ہسپتال میں بنائی تھی۔ ان کے درمیان جو باتیں بھی ہوئی تھیں، پاس بیٹھی ہوئی کسی عورت نے مداخلت کرتے ہوئے کوئی بات نہیں کی تھی۔ سب خاموش تھیں۔ ان کی آنکھوں میں محض تجسس تھا۔
” جب میں وہاں سے آئی تھی تواسے خون کی سخت ضرورت تھی، وہ بے ہوش تھا۔ اسے دوا....“ فروا نے کہنا چاہا مگرمہرو اس کی بات کاٹ کر بولی
” کوئی نہیں تھا اس کے پاس؟“
” یہاں کے کچھ لوگ تھے۔ لیکن وہ بے چارے کیا کرتے، خیر۔! میں نے سارا بندوبست کر دیا تھا، انشا اللہ وہ بہت جلد ٹھیک ہو جائے گا۔“ اس نے کہا تو مہرو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ وہ بھیگے ہوئے لہجے میں بولی
”بہت شکریہ، “ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہی پھر غصے میں بولی،” تم نے اسے دیکھا ہے نا، کتنا ظلم کیا گیا ہے اس پر، پھر بھی کہتی ہو کہ میں یہاں کیوں بیٹھی ہوں۔ اب تو تمہیں سمجھ جانا چاہئے۔“
” تو اس کا مطلب ہے جنید پر حملہ تمہارے والدین نے کروایا؟“ فروا نے پوچھا
” تم خود سمجھ سکتی ہو۔“ وہ دھیمے لہجے میںبولی۔لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ اس کے پاس ایک کار آ کر رکی۔ سبھی اس طرف دیکھنے لگے۔ فروا نے دیکھا، کار میں سے ایک فربہ مائل ادھیڑ عمر عورت باہر نکلی۔ وہ آہستہ قدموں سے چلتی ہوئی ان کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ اس نے فروا کی طرف دیکھا اور پھر مہرو کے آگے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
” چل میری دِھّی، چل گھر، یوں دنیا کے سامنے تماشا نہ بنا، اپنے پیﺅ کی کچھ تو لاج رکھ۔“
مہرو نے اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا تو فروا نے کہا
” آپ کون ہیں؟“
” میں کرماں ماری اِس کی بیوہ پھوپی ہوں۔“ اس نے بے چارگی سے کہا
” اوہ۔! اس کا تو کہنا یہ ہے کہ اس کے باپ یعنی آپ کے بھائی نے جنید پر قاتلانہ حملہ کروایا، اور یہ اسی لئے یہاں بیٹھی ہے۔“
” بیٹی۔! جب قسمت بندے کو رُولنے پر آئے نا ، تو کچھ نہیںسوجھتا ۔ یہ مہرو بھی نہیں سوچ رہی ہے۔ میں منّت کرتی ہوں اس کی، یہ میرے ساتھ چلے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
”کیا آپ مجھے دیکھ کر ہی اسے منانے آگئی ہیں؟ پہلے کیوں نہیں خیال آیا؟“
” اُ ونہیں پتر۔! میں تو دن میں کئی بار آتی ہوں۔ رات اسی کے پاس گذاری ہے۔ پر یہ ہے کہ میری مان ہی نہیں رہی۔ تو ہی کچھ کوشش کر لے ، اس نے تو کچھ کھایا پیا بھی نہیں ہے۔“ اس نے درد بھرے لہجے میں یوں کہا، جیسے ابھی رُو دے گی۔فروا نے ایک نگاہ مہرو کی طرف دیکھا اور چند لمحے سوچنے کے بعد بولی
” مہرو۔! کیا تم میری بات مانو گی، چلو گی میرے ساتھ اپنے گھر؟“
” کیا میں اسی گھرمیں چلی جاﺅں، جنہوں نے مجھ پر ظلم کیا۔“ مہرو نے تلخی سے کہا تو پھوپھی تیزی سے اکتا دینے والے لہجے میںبولی
” تو یقین کیوں نہیں کرتی ہے مہرو، بھائی خدا بخش نے ایسا کچھ نہیں کیا۔ تو مانتی کیوں نہیں۔“
 ” ان کے علاوہ ہمارا کوئی دشمن نہیں ہے۔“ مہرو نے لاپرواہی سے کہا
” دیکھو ، اب ماں باپ دشمن ہو گئے۔“ پھوپھی روتے ہوئے بولی تو فروا نے کہا
” چلو۔! اٹھو، گھر چلو، میری بات مان لو، کیونکہ وہ کم از کم ایک ہفتے سے پہلے نہیں آسکتا، تم گھر بیٹھ کر دعا کرو اس کے لئے۔ اب کوئی تیرے ساتھ ظلم نہیں کر سکتا۔ تم جو چاہو گی وہی ہوگا۔“ فروا کی یقین دہانی تو کروا دی لیکن اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ وہ یونہی سر جھکائے بیٹھی رہی۔ فروا سوچ رہی تھی کہ اب کیا کیا جائے۔ وہ مایوس ہونے والی نہیں تھی۔ اسے بہر حال ایک سٹوری نکالنا تھی۔ وہ چاہ رہی تھی کہ کسی طرح مہرو پر اس کا اعتماد بحال ہو جائے تو اندر کی کوئی بات نکلے۔ 
وہ انہی خیالوں میں تھی کہ اسے سامنے سے ایک بزرگ سا بندہ آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ سفید لمبی ریش، بھاری سفید مونچھیں، لمبے بال جو اس کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ سر پہ سیاہ پگڑی باندھی ہوئی تھی، ہاتھ میں عصا تھا۔ وہ قریب آ کر بولا
” مہرو دھی۔! اب تو پتر، گھر چلی جا، یا پھرمیرے حجرے میں جا کر بیٹھ جا، وہاں بھی نہیں تو جنید کے اس گھر میں چلی جا ، جہاں اس نے تجھے لے کر جانا تھا۔“ اس کی آواز بڑی بھاری اور گونج دار تھی۔ مہرو نے ایک نگاہ اسے دیکھا اور بولی
” بابا سائیں۔! کیا میں اب جنید کا انتظار چھوڑ دوں؟“
” میں نے کب کہا ہے کہ تو اس کا انتظار چھوڑ دے۔ میں نے تو یہاں سے اٹھ جانے کا کہا ہے، پتہ ہے اب دشمن اب اور طرح سے وار کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ میری دھی میری بات مان لے۔ مجھے اب شہر بھی تو جانا ہے نا جنید کے پاس۔۔یہاںاب تیرا کون خیال رکھے گا۔ تو اس طرح ویرانے میں نہ بیٹھ۔ جا میری دھی تو جا گھر....میں آ کر سب دیکھ لوں گا.... “ بابا سائیں نے پیار سے کہا تو مہرو چند لمحے بیٹھی رہی پھر اٹھ گئی۔وہاں موجود ہر چہرے پر خوشی کا تاثر پھیل گیا۔
” بابا سائیں تو جنید کے پاس جا رہا ہے نا؟“ مہرو نے حسرت سے پوچھا ۔ بابا سائیں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا،
” میں شہر جا رہا ہوں، جنید کے پاس ، تو کسی قسم کا فکر نہ کرنا۔ جا میرا پتر جا ۔“ بابا سائیں نے کہا اور واپس پلٹنے لگا تو فروا نے جلدی سے کہا
”بابا جی ۔! اگر آپ کی بات یہ اتنی ہی مانتی تھی تو آپ نے اسے کل ہی یہاں سے کیوں نہیں اٹھا دیا۔“
بابا سائیں اس کی بات سن کے رک گیا، پھر اس کی طرف دیکھے بغیر بولا
” تو نہیں سمجھے گی، اور نہ ہی ابھی تمہیں سمجھانے کی ضرورت ہے۔ یہ سمجھنا سمجھانا پھر سہی، اس وقت مجھے جلدی ہے۔“ انہوں نے کہا اور پر سکون انداز میں چلتے چلے گئے۔فروا اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی ۔ مہرو اٹھ چکی تھی۔ فروا آگے بڑھی اور اپنی کار میں بیٹھ گئی۔ تب تک پھوپھی مہرو کو اپنی کار میں بیٹھا چکی تھی ۔ دوسری عورتیں پیدل ہی بستی کی جانب چل دی تھی۔
ان کا سفر ایک بڑے سارے گھر کے سامنے ختم ہوا۔ وہ گھر بستی سے ذرا ہٹ کر تھا۔ جس کے ساتھ ایک وسیع باڑہ تھا۔ ابھی بھی کچھ گائے، اونٹ اور بھیڑ بکریاں وہاں موجود تھیں۔ ڈیوڑھی پار کرنے کے بعد بڑا سارا صحن تھا، اس کے آگے لمبے دالان اور پھر کمرے۔ دو کمرے اوپر بنے ہوئے تھے۔ وہ ایک کمرے میں چلی گئی، جو مہرو کا تھا۔
” مہرو۔! تم نے اچھا کیا کہ بات مان کر گھر آگئی ہو۔ “ فروا نے کہاتو وہ بولی
” کیسے بات نہ مانتی ، میں بابا سائیں کی بات ٹال ہی نہیں سکتی تھی۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہی پھر بولی،” ویسے تُو نے جنید پر نہیں مجھ پر احسان کیا ہے۔“
” تم جنید کو اتنا چاہتی ہو، کیا تم جانتی ہو وہ کون ہے ، کہاں سے آیا ہے، اور تجھے کہاںلے جاتا؟“ فروا نے پوچھا،انسانی ہمدردی سے ہٹ کر اسے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داری بھی تو نبھانا تھی۔
”شاید میں اسے صدیوں سے جانتی ہوں۔ اور ۔۔“ اس نے کہنا چاہا تو فروا نے اسے ٹوک دیا
” میں جذباتی باتیں نہیں سننا نہیں چاہتی، وہ جو حقیقت ہے۔ مجھے وہ بتاﺅ۔“
” میں نہیں جانتی لیکن وہ مجھے بہت اپنا سا لگتا ہے، اتنا کہ میں خود کو اس سے جدا تصور بھی کر سکتی ہوں۔“
” اچھا مجھے شروع سے بتا سکتی ہو کہ یہ سب کیسے ہوا ؟“
” ہاں۔! بتاتی ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے پانی کا وہ گلاس اٹھایا جو نوکرانی رکھ گئی تھی۔ وہ پانی پی چکی تو خیالوں میں کھو گئی۔
٭....٭....٭
 مہرو اپنے باپ کی اکلوتی تھی۔ صرف ایک بھائی فرید تھا، جو تعلیم کے لئے لندن گیا ہوا تھا۔مہر خدا بخش،کا آبائی پیشہ گلہ بانی ہی تھا۔ وہ کئی نسلوں سے چولستان میں آباد تھے۔ روہی کا صحرا اُن کا مسکن تھا۔مہر خدا بخش پر رَبّ کی بڑی رحمت تھی۔ سینکڑوں چھوٹے بڑے جانور اس کے گلہ میں شامل تھے۔ کئی نوکر تھے جو انہیں سارا دن چرانے کے بعد واپس لے آتے تھے۔ دھن دولت کی فروانی نے اس علاقے میں زمین بھی خریدلی، چارا کے علاوہ اناج اگتا اور دودھ کی وجہ سے وہ خوشحال ہی نہیں پورے صحرا چولستان میں مشہور کر دیا تھا۔ اس نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا تھا، لیکن اس کے بغیر اس علاقے کی سیاست مکمل نہیں ہوتی تھی۔ اٹھنا بیٹھنا اس علاقے کے بڑے لوگوں میں تھا۔ سو اسے اولاد کو پڑھانے لکھانے کا شعور آگیا۔پہلے پہل کار صرف انہی کے لئے خریدی گئی۔ سکول اور پھر کالج کے بعد اس کا بیٹا فرید تو لندن چلا گیا اور مہرو صرف قریب کے ایک سرکاری سکول تک پڑھ سکی۔ بستی نور دین سے شہر کا فاصلہ یہی کو ئی بارہ کلومیٹر بنتا تھا۔ مہرو گھر میں رہتی جبکہ فرید شہزادوں کی طرح روزانہ کار میں جاتا اور واپس آ جاتا ۔ وقت یونہی چلتا چلا گیا۔
مہرو کو گھر کے چھوٹے چھوٹے کام ہی کرنا پڑتے تھی، ورنہ نوکرانیاں تھیں۔ اسے فراغت ہی فراغت تھی ۔ وہ ٹی وی دیکھ لیتی یا پھر ناول اور افسانے ہی پڑھتی رہتی تھی۔ مہر خدا بخش کسی بڑے گھر میں اس کی شادی کرنے کی فکر میں تھا۔ کئی رشتے تھے،مگر وہ کسی ایک کو ہاں اس لئے نہیں کر رہا تھا کہ اسے اپنے بیٹے فرید کا انتظار تھا ۔ اس کے واپس آنے میں چند ماہ رہ گئے تھے۔ یہ فیصلہ اس نے اپنے بیٹے کی آمد تک ٹال رکھا تھا۔ انہی دنوں ایک جمعرات مہرو قریبی دربار نور دین شاہ پر گئی۔ جمعرات ہو اور وہ بستی میں ہو، وہ دربار پر ضرور جاتی تھی، یہ اس کا بچپن سے معمول تھا۔
شام ہونے کو تھی، جب وہ اپنی نوکرانی کے ساتھ دربارپہنچی۔ ہوا بند ہونے کی وجہ سے کافی حد تک گھٹن ہو رہی تھی۔ وہ دربار کے سرہانے کی طرف کھڑی تھی۔ اس کے سامنے پتھر کی جالی تھی، جس میں سے اندر مرقد کا سارا منظر صاف دکھائی دیتا تھا۔ عورتیں اسی طرف جا کر دعا اور مَنّت مانگتی تھیں۔جالی پر بے شمار رنگین دھاگے بندھے ہوئے تھے۔ وہ اکژاُن بندھے دھاگوں کو دیکھتی۔ اُسے لگتا کہ یہ رنگین دھاگے نہیں بلکہ خواہشیں لٹک رہی ہیں۔ رنگین دھاگوں میں بندھیں ہوئی خواہشیں۔ اس شام وہ دعا مانگ چکی تو اس کی نگاہ ایک نوجوان پر پڑی، تب وہ خود پتھر ہو گئی۔ اسے اپنا آپ یاد ہی نہیں رہا۔ سیاہ شلوار قمیض میں ملبوس وہ نوجوان مرقد کے سرھانے دیّا جلا رہا تھا۔ سرخ و سپید چہرے پر ہلکی ہلکی کالی سیاہ داڑھی اور مونچھیں، چوڑی پیشانی، لمبا ناک ، پتلے پتلے ہونٹ، بڑی بڑی مخمور سی گہری بھوری آنکھیں، لمبی زلفیں، سرپر سفید ٹوپی بہت سج رہی تھی۔ وہ کھڑا ہوا تو لمبے قد پر چوڑا سینہ۔ وہ پہلی ہی نگاہ میں اس پر مر مٹی۔ شاید اس کے لاشعور میں ایسا کوئی آئیڈیل تھا یا کیا تھا، اس کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا تھا۔ سامنے کھڑا نوجوان ہر طرف سے بے نیاز دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے ہوئے تھا۔ اسے خبر ہی نہیں تھی کہ کوئی اس پر پوری جان سے مر مٹی ہے۔ وہ اسے مسلسل دیکھے چلی جارہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ نوجوان وہاں سے چلا گیا۔ وہ نگاہوں سے اوجھل ہو ا تو اسے احساس ہوا کہ جیسے اس کا بہت کچھ گم ہو گیا ہو۔ وہ کتنی ہی دیر تک وہیں ساکت کھڑی رہی۔ وہ جاننا چاہتی تھی کہ وہ کون ہے؟
” مہرو بی بی چلیں؟“اس کی نوکرانی نے اس سے پوچھا تو جیسے اسے ہوش آ گیا۔
” ہاں چلیں۔“ نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے کہا، اور یہ کہہ کر وہ پلٹنے لگی تو نہ جانے اسے کیا خیال آیا۔ وہ رُک گئی۔ اس نے اپنی پراندے میں سے ایک سیاہ دھاگہ نکالا اور جالی پر باندھ دیا۔اُن رنگین دھاگوں کے ساتھ ،سفید جالی پرسیاہ دھاگا باندھتے ہوئے اس کے دل میں یہی مَنّت تھی کہ وہ نوجوان اُس کا ہو جائے۔یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس کے ذہن میں دور دور تک یہ بات نہیں تھی۔
پوری رات وہ سو نہ سکی تھی۔ اسی کا چہرہ نگاہوں میں گھومتا رہا۔ وہ کون تھا؟ اسے یہ بھی نہیں معلوم تھا۔بس اس کا چہرہ نگاہوں سے نہیں ہٹتا تھا۔اس نے واضح طور پر محسوس کیا کہ وہ اس کے من میں اتر گیا ہے۔ ہر لڑکی کے من میں ایک خواب ہوتا ہے، اور اس خواب میں بکھری ہوئی لاتعداد خوہشیں، اگر ان میں سے ایک بھی حقیقت میں مل جائے تو وہ دیوانی ہو جاتی ہے۔ ایسا ہی حال کچھ مہرو کا بھی تھا ۔ اسکی زندگی میں بہت سارے لڑکے آئے تھے،کسی ایک کو بھی دیکھ کر دل یوں نہیں دھڑکا تھا، جس طرح اسے پا کرمچلتا ہی چلا جا رہا تھا۔ اسے لگا جیسے اس کا دل وہیں سفید جالی میں کہیں اٹک گیا ہے اور وہ سانس لینا بھول گئی ہے۔
وہ اگلی جمعرات کا انتظار نہ کر سکی۔ دو دن بعد ہی دربار چلی گئی۔ مہروکی نگاہیں اس کی متلاشی تھیں۔ وہ آستانے کے احاطے میں اسے دیکھتی رہی، مگر وہ کہیں دکھائی نہ دیا۔ وہ مایوس ہو گئی۔ وہ سفید جالی کے پاس جا ٹھہری اور اپنی مَنّت والے دھاگے کی گرہ دیکھتی رہی۔ساری دنیا میں ایسی ہی خواہشوں کی گرہیں لگائی جاتی ہیں۔ انداز مختلف ہوتا ہے۔ کوئی کپڑے سے ، کوئی دھاگے سے ، کوئی تالے سے اور نجانے کیا کیا۔ وہ ان سب باتوں سے بے خبر اسی نوجوان کے بارے سوچتی ہوئی سفید جالی کے پاس سے پلٹ کر واپس جا رہی تھی کہ دربار کے احاطے میں درخت کے پاس، اسے وہ دکھائی دے گیا۔ اس نے وہی سیاہ شلوار سوٹ پہنا ہوا تھا۔ سر پہ سفید جالی دار ٹوپی تھی۔ وہ ایک دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اور نجانے وہ کس خیال میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ دل سے مجبور ہو کر اس کے پاس چلی گئی۔ اس نے اپنے قریب کسی کا احساس کر کے آنکھیں کھول دیں ۔ وہ نوجوان اسے دیکھ کر ایک دم سے چونک گیا تھا، جیسے اسے امید نہ ہو کہ وہ اس کے سامنے آ سکتی ہے۔ وہ سیدھا ہو کر بیٹھ گیا تو مہرو نے جلدی سے ہاتھ میں پکڑا ہوا ایک بڑا نوٹ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا” یہ لو،؟“
اس نے پہلے نوٹ کی طرف دیکھا اور پھر مہرو کی طرف اور دھیمے سے لہجے میں پوچھا” یہ کیوں؟“
” تم یہاں دربار پر خدمت کرتے ہو نا، یہ رکھ لو۔“ مہرو نے کہا تو ایک دم سے مسکراتے دیا، پھر اپنی جیب سے ویسے ہی دو بڑے نوٹ نکال کر بولا
” میں دربار کا خدمت گار ضرور ہوں مگر۔! بھکاری نہیں ہوں۔یہ نوٹ اس کے ساتھ ملا لو، اور سامنے پڑے صندوق میں ڈال دو، مجھ سے زیادہ دربار کو اس کی ضرورت ہے۔“ اس کے یوں کہنے پر وہ حیران رہ گئی۔
” تو کیا تم اتنے امیر ہو کہ مدد قبول نہیں کرتے؟“ اس کے یوں پوچھنے پر مہرو کو ایک طرح سے خوشی بھی ہو رہی تھی، تب وہ بولا
”نہیں ، امارت اورغربت کی بات نہیں،کہا نابھکاری نہیں ہوں۔ تمہارا شکریہ۔“ 
” تمہارا نام کیا ہے؟“ مہرو نے دھڑکتے ہوئے دل سے پوچھ لیا۔ اس نے چونک کر اسے غور سے دیکھا اور پھر نگاہیں جھکا کر بولا
” مجھے جنید کہتے ہیں۔“
” اور میرا نام مہرو ہے۔میں ہر جمعرات کو یہاں آتی ہوں۔“ اس نے تیزی سے کہا
” مگر آج تو جمعرات نہیں ہے۔“ اس نے نیچی نگاہ سے کہا تو مہرو کا دل چاہا کہ کہہ دے کہ میں تو فقط تیری تلاش میں یہاں تک آئی تھی۔ لیکن وہ کہہ نہ پائی ۔ اس نے وہ نوٹ اپنے پاس کھڑی نوکرانی کو دئیے تاکہ وہ صندوق میں ڈال آئے ۔ وہ چلی گئی تو مہرو اپنے دل کی بات چھپاتے ہوئے بولی
” ایک مَنّت ہے ، رَبّ کرے وہ پوری ہو جائے۔اسی لئے یہاں آئی ہوں۔“ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کے لئے کی پھر جھجھکتے ہوئے پوچھا،” کیا تم یہیں ہوتے ہو؟ پہلے کبھی نہیں دیکھا تمہیں یہاں؟“
میں،“ ایک لفظ کہہ کر وہ چپ ہو گیا، پھر جیسے سوچ کر بولا،” میں بس ایک راستے کا راہی ہوں، اوراپنی منزل کوپالینا چاہتا ہوں، پتہ نہیں وہ کب ملتی ہے۔“
مہرو اس سے پوچھنا چاہتی تھی کہ اس کی منزل کیا ہے، اس نے کچھ کہنے کے لئے لب وا ہی کئے تھے کہ جنید نے ہاتھ بڑھا کر کچھ بھی نہ کہنے کا اشارہ کر دیا، پھر اٹھا اور اندر حجرے کی طرف چلا گیا۔ مہرو اسے جاتا ہوا دیکھتی ہی رہ گئی تھی۔ وہ چلا گیا تو اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا
” اُس کی منزل ، کون ہے اس کی منزل؟“
” بی بی جی آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟“ پاس کھڑی نوکرانی نے پوچھا تو وہ اپنے حواسوں میں آگئی۔
” نہیں ، کچھ نہیں۔ آﺅ چلیں۔“
وہ دونوں دربار کی سیڑھیاں اترتی چلی گئیں۔ مہرو کو لگا آج وہ اپنا دل ہی نہیں حواس بھی یہاں کھو چلی ہے۔
اس نے آنے والی جمعرات کا بہت انتظار کیا۔ وہ صبح ہی سے شام ہو جانے کا انتظار کرنے لگی۔ ابھی سہ پہر ہی تھی کہ وہ اپنی نوکرانی کو لے کر دربار کی طرف چل دی۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی اس کی پہلی نگاہ ہی وہیں دیوار کے پاس پڑی، جہاں وہ اس دن بیٹھا ہو اتھا۔ آج بھی وہ وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نگاہیں سیڑھیوں کی طرف ہی تھیں۔ اسے دیکھتے ہی جنید کا چہرہ تن گیا۔مہرو کو نجانے کیوں لگا کہ وہ اسی کا انتظار کر رہا ہے۔ رَبّ تعالی نے عورت کو کہ اس وصف سے نوازا ہوا ہے کہ مرد کی آنکھ کو پڑھ لیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ اس کا اظہار نہ کرے۔
وہ اس کے قریب چلی گئی اور جا کر پوچھا،” کیا تم یہیں بیٹھے رہتے ہو؟“
” ہاں۔! یہاں کی خدمت سے جو وقت بچ رہتا ہے ، میں یہیں بیٹھا رہتا ہوں۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں جواب دیا تو اس نے بے ساختہ پوچھا
” کیوں؟“
” یہ تو بالکل ایسا ہی سوال ہے کیسے کہ میں یہ پوچھ لوں کہ تم یہاں کیوں آتی ہو۔“
”ہاں تم پوچھ سکتے ہو ،میں تو اپنے کسی مقصد سے آتی ہوں، بتایا تھا نا کہ میری ایک منت ہے۔“ اس نے تیزی سے کہا تو انتہائی سنجیدگی سے بولا
” اور میں بھی اپنے مقصد کے لئے یہاں بیٹھا رہتا ہوں۔“
” کہیںہم دونوں کا مقصد ایک ہی تو نہیں ہے؟“ مہرو نے یوںپوچھا جیسے وہ اپنے دل کی بات کہہ رہی ہو۔ 
” نہیں ایسا نہیں ہے۔“ اس نے سختی سے کہا تو مہرو دل مسوس کر رہ گئی۔
”کون ہو سکتی ہے اسکی منزل۔۔۔ اس کا مقصد؟ “ اس نے سوچا اور پھر یہ سوچ بگولے کی طرح اس کے دماغ میں اٹھ گئی۔ کہیں یہ کسی دوسری لڑکی سے تو محبت نہیں کرتا، جیسے میں نے مَنّت مانی ہوئی ہے ، اس نے بھی کسی کو پانے کی مَنّت مانی ہو؟ یہ سوچا تو نجانے کیا کچھ اس کی لپیٹ میں آیا۔ وہ کچھ دیر آستانے میں رہی اور پھر واپس گھر لوٹ گئی۔مہرو کا چین لٹ گیا تھا۔
٭....٭....٭
مہرو ، دربار پرر وزانہ جانے لگی تھی۔ وہ ہوتی اور اس کے ساتھ اس کی نوکرانی، دونوں سرشام وہاں جا پہنچتی تھیں۔ جنید ان کا انتظار کرنے لگا تھا۔اب وہ صحن کی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا کر نہیں بیٹھتا تھا،بلکہ وہ بابا سائیں کے حجرے میں ہوتا۔ مہرو نے کبھی بابا سائیں کو حجرے میں نہیں دیکھا تھا۔ مہرو اور جنید، کچھ فاصلے پر بیٹھے رہتے اور ان کے درمیان کچھ دیر باتیں ہوتیں۔ پیاس بجھتی بھی نہ تھی کہ اگلے دن کا انتظار شروع ہو جاتا تھا۔پیاس تھی کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔
جنید کی دید اور قرب کی شدید پیاس مہرو کے اندر بڑھتی ہی چلی جا رہی تھی۔ ایک رات جب کہ چاندنی اپنے مسحور کن جادو کے ساتھ ہر شے پر چھائی ہوئی تھی۔ اس کی آنکھوں سے نیند تو نجانے کتنے دنوں سے اُڑ چکی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ ابھی اٹھے اور سیدھی دربار چلی جائے جہاں اس کا جنید تھا۔ اس سے ملنے کی خواہش اس کے دل میں شدید تر ہوتی چلی گئی۔ وہ نجانے اس وقت کیا کر رہا ہوگا۔ اس کی آنکھوں میں بھی نیند ہوتی ہے یا نہیں، کیا وہ بھی میری طرح محبت کو محسوس کرتا ہے؟ وہ ایک دم ہی سے بے چین ہو گئی۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ سب سو رہے تھے۔ وہ اٹھی اور گھر سے نکلتی چلی گئی۔ سنسان راستہ اور بستی میں ہو کا عالم تھا۔ اسے ذرا بھی خوف محسوس نہیں ہوا۔ اور ہوتا بھی کیسے؟ اس تو تمام تر دھیان جنید کی طرف لگا ہوا تھا۔ اسے کسی دوسری شے کی پروا ہی نہیں تھی۔ خواجہ گلام فرید سرکار نے ایسے ہی کسی وقت کے لئے بہت خوبصورت شعر کہے ہیں کہ وِچ روہی دے راہندیاں.... نازک نازو جٹیّاں.... راتیں کرن شکار دِلیں دے....ڈیہنہ َولّوڑں مٹیّاں۔(روہی میں ایسی نازک اور ناز والی لڑکیاں رہتی ہیں کہ دن کے وقت تو دودھ سے مکھن نکالتی ہیں اور رات کو وہ دلوں کا شکار کرنے نکل پڑتی ہیں)
 وہ دربار پہنچ گئی۔ آستانہ خالی تھا۔ صحن میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ہاں مگر جنید اسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگائے ہوئے تھا۔ وہ کسی ہیولے کی مانند دکھائی دے رہا تھا، جبکہ مہرو نے تو اسے ایک نگاہ ہی میں پہچان لیا تھا۔ وہ اس کے قریب چلی گئی۔ وہ آنکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔ اچانک ہی کسی کے قرب کا احساس پاکر اس نے آنکھیں کھول دیں۔ مہرو پر نگاہ پڑتے ہی وہ چونک گیا۔ پھر ایک دم سے سیدھا ہو کر بیٹھتے ہو ئے پوچھا
” مہرو۔! خیر تو ہے ، تم اس وقت یہاں؟“
” بس، میرا دل کیا تھا تمہیں دیکھنے کو، چلی آئی۔“ مہرو نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے دھیمے سے لہجے میں یوں کہا ،جیسے وہ خود نہ کہہ رہی ہو بلکہ ٹرانس میں ہو۔جنید کچھ دیرخاموش رہا،پھر بڑے گھمبیر لہجے میں بولا
” مہرو۔! مجھے یہ بتاﺅ، کیا ہمارے من میں کوئی کھوٹ ہے؟“
” نہیں تو، ہمارا تعلق تو بہت پاک اور صاف ہے؟“ مہرو نے سارے جہان کا پیاراپنے لہجے میں سمیٹتے ہوئے کہا
” تو پھر ہمیں یوں راتوں کو چھپ کر نہیں ملنا چاہئے۔ ہمارے من میں اُجالا ہے، روشن اور چمکتے ہوئے دن کی طرح۔ ہمیں دن ہی میں ایک دوسرے کو ملنا چاہئے۔“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا
” میں تو اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر ۔۔۔“ مہرو نے کہنا چاہا ، مگر اس نے بات کاٹتے ہوئے کہا
” میں اپنی محبت کو دنیا والوں کی آنکھ سے میلا ہوتا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا۔ اپنے دل پہ قابو رکھو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“ وہ دھیرے سے بولا
” جنید۔! یہ میں ہی جانتی ہوں کہ میرے دل میں تمہارے لئے کتنی محبت ہے۔ یہ تم پر احسان نہیں ہے۔ یہ میرے دل کی لگی ہے اور میںچاہتی ہوں کہ تم اپنے والدین کو ایک بار ہمارے گھر بھیج دو۔“ اس نے آہستگی سے کہا تو تیزی سے بولا
” اور جس کے والدین ہی نہ ہوں تمہیں مانگنے کے لئے تو پھر؟“ جنید نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہو ئے کہا۔اس پر مہرو نے چونک کر اسے دیکھا اور تیزی سے پوچھا۔
” کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے؟“
” ہاں ہے، شاید تم سے بھی زیادہ۔“ جنید نے یوں کہا جیسے یہ لفظ اس کے دل سے نکلے ہوں۔بہت اثر تھا ان میں۔ مہرو پُور پُور بھیگ گئی تھی۔تبھی و ہ بولی
”تو پھر ، کیا کیا جائے جنید، میں اب تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔“
” دیکھومہرو۔! تمہیں حاصل کرنے کے لئے ،میںکوئی غلط راستہ تو اپناﺅں گا نہیں، لیکن مجھے اتنا یقین ہے کہ اگر تو میری قسمت میں ہوئی نا تو میں تجھے پا لوں گا۔“اس نے شائستگی سے اسے سمجھایا تو وہ دھیمے لہجے میں بولی
” قسمت ہم خود بھی بنا سکتے ہیں، یہ قسمت تو ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم چاہیں تو ۔۔۔“یہ کہتے ہوئے وہ خاموش ہو گئی ۔ کچھ لمحے بعد وہ بولا
” بے شک کوشش ہی سے انسان کو ملتا ہے، لیکن اٹل فیصلے اوپر بھی ہوتے ہیں، جیسے یہ کوشش کرنے والا فیصلہ بھی۔ ہم کوشش کریں گے۔ ضرور کریں گے ، لیکن یہ کوشش ایسی ہوگی ، جو میرے رَبّ اور دنیا کے نزدیک درست ہوگی۔باقی رَبّ جانے۔“ جنید نے اس کے چہرے پر اپنی نگاہیں جماتے ہوئے کہا
” تم پھر کیا کرنا ہوگا جنید؟“ مہرو نے جذباتی لہجے میں پوچھا
” میں بابا سائیں سے بات کروں گا۔ انہیں تمہارے گھر بھیجوں گا،پھر دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔“ اس نے حوصلہ دیا۔
” میں انتظار کروں گی جنید۔“ اس نے پر سکون ہوتے ہوئے کہا اور اٹھنے لگی ، تب وہ آہستگی سے بولا
” مہرو۔! ممکن ہے اب تم دربار پر دوبارہ نہ آسکو۔ بابا سائیں نے اگر بات کی تو ساری بات ہی کھل جائے گی۔“
” ہاں میں سمجھتی ہوں۔“ مہرو نے خود پر جبر کرتے ہوئے کہا۔ یہ کہہ کر اس نے اپنی بڑی ساری چادر سمیٹی اور باہر کی جانب چل دی۔
اگلی صبح بابا سائیں ان کے گھر اکیلے ہی آگئے۔ وہ سبھی دالان میں بیٹھے ہوئے تھے۔ مہرو کا باپ مہر خدا بخش، اس کی شرماں مائی ، پھوپھی پیروزاںمائی اور وہ خود۔ سبھی نے حیرت اور خوشی سے اس کا استقبال کیا۔ وہ حیران اس بات پر تھے کہ بابا سائیں کبھی کسی کے گھر نہیں گئے، یہ آج ان کے گھر کیسے آگئے ہیں۔ مہرو اس لئے حیران تھی کہ باباسائیں اس قدر جلدی اس کے گھر آجائیں گے۔ وہ اٹھ کر وہاں سے چلی گئی۔ انہوں نے بڑی عزت اور احترام سے بابا سائیں کو بٹھایا۔
” آج تو بڑا بھاگاں والا دن ہے کہ آپ ہمارے گھر آگئے ہیں۔“ مہر خدا بخش نے خوشی اور احترام سے کہا
” ہاں خدا بخش ، آج میں جس کام کے لئے آیا ہوں، اس کے لئے مجھے تیرے گھر آنا ہی تھا۔“با با سائیں نے گہری سنجیدگی سے کہا
” ایسا کیا کام ہے باباسائیں۔مجھے بلوا لیا ہوتا۔“اس نے الجھتے ہوئے کہا
” خدا بخش۔! تو نے مجھے دیکھا، اپنے بچپن سے دیکھا ، کیسا پایا ہے تو نے مجھے؟“ بابا سائیں نے گہری سنجیدگی سے پوچھا
” یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ، کون عزت نہیں کرتا آپ کی۔ سب جانتے ہیں کہ آپ بہت اچھے ہیں۔ کسی کو دُکھ نہیں دیا آپ نے۔“ اس نے الجھتے ہوئے کہا
” تو پھرتو نے صرف میری ذات کودیکھنا ہے، میں تم سے ایک سوال کرنے لگا ہوں۔ فوراً جواب نہیں دینا،بہت سوچ سمجھ کر جواب دینا۔“ بابا سائیں گھمبیر لہجے میںبولے
” ایسی کیا بات ہے بابا سائیں؟“ خدا بخش نے پوچھا
” میں بیٹی مہرو کو جنید کے لئے مانگتا ہوں۔“ بابا سائیں نے کہا تو یوں لگا جیسے وقت رُک گیا ہو۔ وہ اس سوال پر سبھی ساکت ہو گئے تھے۔ کافی دیر بعد پیروزاں مائی نے جھجھکتے ہوئے پوچھا
” بابا سائیں۔! یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ، یہ جنید وہی لڑکا نہیں ہے جو کچھ عرصے سے آستانے پر پڑا رہتا ہے؟“
” ہاں وہی ہے۔“ بابا سائیں نے آہستگی سے کہا
” کون ہے وہ ، اس کا کوئی اتہ پتہ ، کس کا بیٹا ہے وہ، کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے؟“ پیروزاں نے شک بھرے لہجے میں کہا تو بابا سائیں نے حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھا اور اسی دکھ بھرے لہجے میں بولا
” بیٹی، تو نے تو ایک ہی سانس میں اتنے سوال کر دئیے کہ میری بات یاد ہی نہیں رہی تمہیں، وہ کون ہے، سوال یہ نہیں ہے ، جنید کے لئے میں یہاں پر آیا ہوں، تم لوگوں نے مجھے دیکھنا ہے۔“
” یہ ہماری بیٹی کی زندگی کا سوال ہے بابا سائیں، اُسے کیسے دے دیں۔ کیا پتہ وہ کہاں لے جائے ہماری بیٹی کو۔“ پیروزاں نے تیزی سے کہا
” وہ یہیں رہے گا، میرے پاس ، کہیں نہیں جائے گا۔“ بابا سائیں نے اطمینان سے کہا
” بابا سائیں ، کچھ تو خیال کریں، وہ پڑھی لکھی اور ہماری اکلوتی ہے، اس کے لئے بڑے بڑے گھرانوں سے رشتے آرہے ہیں، بھائی خدا بخش کی چار لوگوں میں عزت ہے، پورا علاقہ جانتا ہے انہیں، ہم کس طرح ایک مفلس اور بھکاری کو اپنی بیٹی دے دیں ۔ کیا منہ رہ جائے گا ہمارا علاقے میں۔“ وہ درد مندانہ لہجے میں بولی
” بہت افسوس ہوا بیٹی تمہارے منہ سے یہ بات سن کر، کیا کبھی کسی نے اسے بھیک دی ۔۔۔یا کسی سے اس نے کچھ مانگا۔۔۔بلکہ پتہ کرو علاقے میں ، اس نے بہت ساروں کی مدد کی ہے۔ اور سنو۔!میرا سب کچھ اسی جنید کا ہے۔ جتنا مال چاہو، میں دوں گا، اور یہ جان لو کہ وہ بھکاری نہیںہے، پڑھا لکھا لڑکا ہے۔ اورمیں یہ بھی بتا دوں کہ مہرو بیٹی کی بھی خوشی اسی میں ہے۔اب آگے تم لوگ سوچو۔“ بابا سائیں نے کہا تو ان پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ 
یہ کیا ہو گیا؟
” کیا ہماری مہرو۔۔۔“پیروزاں نے اٹکتے ہوئے کہا اور اس کی طرف دیکھا۔ وہ دالان میں ستون کے ساتھ کھڑی تھی۔ اس نے اقرار میں سر ہلا دیا۔ تو اُن کو جیسے دنیا گھوم کر رہ گئی۔
” دیکھو خدا بخش، اب سوچنا تمہارا کام ہے۔ تم جو کوئی بھی شرط رکھو گے، میں وہ پوری کروں گا، میں چاہوں گا کہ تم مجھے ناامید نہ کرو۔“ بابا سائیں نے کہا اوراٹھنے لگا۔ تبھی خدا بخش نے کہا
” مجھے سوچنے کا وقت دو بابا سائیں۔“
” ہاں کیوں نہیں۔ اور ایک بات اور یاد رکھنا، تم اگر مہرو کو میری بیٹی نہ بنانا چاہو، تو دباﺅ نہیں ہے۔ تم جو فیصلہ بھی کرو، بہت سوچ سمجھ کر کرنا، میں تیرے فیصلے کا احترام کروں گا۔“ بابا سائیں نے کہا اور اٹھ گیا۔ خدا بخش کی بیوی جو بابا سائیں کے لئے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کرنے کے لئے اٹھ گئی تھی، وہ ابھی تک واپس نہیںآئی تھی ۔ جس وقت وہ واپس آئی ، بابا سائیںجا چکا تھا۔ جب اسے بابا سائیں کی آمد بارے پتہ چلا تو وہ غصے میں آگئی۔
” وہ کون ہوتا ہے میری بیٹی کے بارے میں ایسی بات کرنے والا۔تم لوگوں نے اسے سیدھے سیدھے جوب دے کر کیوں نہیں بھیجا۔ اس نے ایسی بات کرنے کی جرات کیسے کی ؟“
” یہ تیری مہرو، اس کی وجہ سے اسے یہ بات کرنے کا حوصلہ ملا ہے۔ پوچھ اس سے کیوں کیا ہے اس نے ایسا؟“ پیروزاں نے بھی غصے میں کہا تو خدا بخش بولا
” بس۔! تم دونوں ہی اس سے پوچھ لو، یہ کیا چاہتی ہے۔ کیونکہ اسی کی وجہ سے بابا سائیںکو حوصلہ ہوا کہ وہ مجھ سے اتنی بڑی بات کہہ سکے۔“ یہ کہہ کر اس نے غصے بھری نگاہوں سے پیروزاں کی طرف دیکھا اور پھر بولا،” اور خاص طور پر تم پیروزاں ۔۔تم سن لو۔۔۔“ 
” لیکن سائیں تم کیا جواب دو گے بابا سائیں کو؟“ شرماں مائی نے تیزی سے پوچھا
” خاموش۔! منہ سے ایک لفظ نہیں نکالنا۔ اسی نے بتانا ہے کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔“ خدا بخش نے کہا اور اٹھ کر باہر چلا گیااور وہ دونوں مہرو کی طرف بڑھ گئیں۔
” تو نے ہمارے اعتماد کا خون کر دیا ہے مہرو۔“ اس کی ماں نے روتے ہوئے کہا۔
” اب بھی سنبھل جاﺅ، اپنے باپ سے معافی مانگ لو، ابھی تو بات گھر ہی میں ہے۔ جو ہو چکا سو ہو چکا ۔“ پیرروزاں پھوپھی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
” میں جان تو دے سکتی ہوں، مگر اسے بھول نہیں سکتی۔“
” تو پھر تمہیں جان ہی دینا ہوگی۔“ اس کی ماں نے کہا اور اسے دھکیل کر کمرے میں پھینک دیا۔
دودن تک وہ دونوں مہرو کو سمجھاتی رہیں۔ مگر اس کی ایک ہی رٹ تھی کہ اس کی شادی ہوگی تو جنید کے ساتھ ورنہ وہ ساری عمر شادی نہیں کرے گی۔ تم لوگ مجھے مارنا چاہو تو مار سکتے ہو۔اس کی ضد دیکھ کر ان کے دل میںخوف بیٹھ گیا کہ کہیں یہ مہرو اس اجنبی کے ساتھ بھاگ ہی نہ جائے ۔ان دو دونوں میں خدا بخش نے کوئی بات نہیں کی تھی۔ وہ بالکل ہی خاموش ہو گیا تھا، جیسے وہ کسی بڑے صدمے سے گزر رہا ہو۔
تیسرے دن اُس نے پیروزاں اور شرماں کو اپنے سامنے بٹھا کر پوچھا
” کیا کہتی ہے مہرو؟“
دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور خاموش رہیں تو خدا بخش نے اپنا سوال دہرا دیا۔ اس کے لہجے میں نجانے ایسا کیا تھا کہ وہ سہم گئیں تھیں۔ تبھی پیروزاں نے ہمت کر کے کہا
” بھائی ، نجانے اس نے مہرو پر کیا جادو ٹونہ کر دیا ہے ، وہ تو بالکل ہی پاگل ہو گئی ہے۔“
” مطلب، وہ جنید ہی سے شادی کرنا چاہتی ہے؟“ اس نے تصدیق چاہی۔
”وہ یہی کہہ رہی ہے ۔میری مانو تو۔۔۔“ پیروزاں نے کوئی صلاح دینا چاہی تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روک دیا اور بولا
” بس، مہرو کی شادی اب اسی سے ہوگی۔“ 
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور سیدھا دربار چلا گیا۔ بابا سائیں اس وقت اپنے حجرے میں تھا اور جنید کنویں سے پانی نکال کر حوض بھر رہا تھا۔ وہ حجرے میں چلا گیا۔ باباسائیں اسے دیکھتے ہی اٹھ بیٹھا۔ بڑے تپاک سے ملا اور اسے اپنے سامنے بٹھاتے ہوئے پوچھا
” بول خدا بخش ، کیا کہتا ہے؟“
” مجھے آپ کی بات منظور ہے ۔ میںنے مہرو آپ کو دی ۔“
” رَبّ تیرا بھلاکرے۔ تم دیکھنا بیٹی اس کے ساتھ بہت خوش رہے گی۔“
” آپ بس چار لوگوں کے ساتھ آجائیں اور اس کا نکاح لے لیں۔“ خدا بخش نے کسی بھی جذبے سے عاری لہجے میں کہا تو باباسائیں چند لمحے اس کے چہرے پر دیکھتا رہا، پھر بڑے سکون سے پوچھا
” خدا بخش، کیا تو یہ ناطہ خوشی سے نہیں جوڑ رہا؟“
” اس میں اب خوشی یا غمی کی کیا بات رہ گئی ہے باباسائیں، میری بیٹی کا فیصلہ ہے، میں اب کیا کہہ سکتا ہوں۔ میں نے اس کی شادی کہیں نہ کہیں تو کرنا تھی، اس جنید کے ساتھ سہی۔“
” اگر تم چاہوخدا بخش، وہ تمہارا بیٹا بن کر تیرے پاس رہے گا، تیرا بازو بن جائے گا۔“
” نہیں باباسائیں ، اس کا جہاں دل چاہے رہے، مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔“ خدا بخش نے اکتائے ہوئے انداز میں کہا 
” کب آئیں؟“ باباسائیں نے پوچھا
” جب آپ چائیں۔ میری طرف سے کل آجائیں۔“ اس نے حتمی لہجے میں کہا
” ٹھیک ہے ہم کل ہی آجاتے ہیں۔“ باباسائیں نے کہا تو خدا بخش وہاں سے مزید کوئی بات کئے اُٹھ کر آ گیا۔
دربار سے ذرا ہٹ کر اور بستی سے پہلے ہی ایک ڈیرہ تھا۔ کافی کھلا تھا اور اس میں تین بڑے بڑے کچے کوٹھے تھے۔ وہاں دربار پر لائے گئے منّت کے جانور باندھے جاتے تھے۔ باباسائیں نے وہ صاف کروایا۔ اسی کو ایک گھر بنانے کی کوشش میں کچھ سامان لا رکھا۔ نیا مکان بن جانے تک جنید کو وہاں رہنا تھا، مہرو کے ساتھ۔ اوراگلے دن جنید کی بارات وہاں سے ہی نکلنا تھی۔
باباسائیں صبح صبح ہی خدا بخش کے گھر پہنچ گئے تھے۔ وہاں سوگ کا سا ماحول تھا۔ مہرو اپنے کمرے میں پڑی رو رہی تھی۔ اس کی کچھ سہیلیاں آگئی تھیں، جنہیں پیروزاں نے ہی بلوایاتھا۔ وہ اسے تیار کر رہی تھیں۔ بستی کے کچھ لوگ باہر کھلے صحن میں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سبھی خاموش تھے اور بارات کا انتظار کر رہے تھے۔
جنید کی بارات کیا تھی۔ اس کے ساتھ پانچ بندے تھے۔ وہ سبھی پیدل چلے جارہے تھے۔ ان کے درمیان بھی خاموشی تھی۔ اس وقت وہ بستی سے ذرا فاصلے پر تھے، جب اچانک ایک طرف سے سیاہ فور وہیل کیبن آیا ۔اس میں کافی سارے لوگ تھے۔ انہوں نے بارات کے پاس گاڑی روک دی۔ تبھی گاڑی میں سے بندے باہر نکلے اورتیزی سے انہیں گھیرے میں لے لیا۔ ان میں سے چند لوگوں کے ہاتھ میں اسلحہ تھا۔ ان بندوں میں سے ایک نے جاتے ہی جنید کو پکڑ لیا اور اونچی آواز میں بولا
”تم سب واپس پلٹ جاﺅ، ہمیں تم میں سے کسی کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں، بھاگ جاﺅ یہاں سے۔“
” کیا چاہتے ہو تم؟“ جنید نے کڑکتے ہوئے کہا
”حکم صرف اتنا ہے کہ تمہیں بس جان سے نہیں مارنا، باقی دیکھو کیا ہوتا ہے تیرے ساتھ۔“ یہ کہہ کر اس نے پوری قوت سے گھونسہ اس کے منہ پر دے مارا۔ بارات کے لوگ ایک طرف ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ گاڑی میں آئے ہوئے پانچ چھ بندے اس پر پل پڑے۔ جنید نے اگرچہ خاصی مزاحمت کی مگر اس کی ایک نہ چلی۔ انہوں نے گن کے بٹ اس کے سر پر مارے، اس کی ٹانگیں اور بازو توڑنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ جب وہ نڈھال ہو کر زمین پر گر گیا تو انہوں نے ہاتھ روک لیا۔ جب انہیں یہ یقین ہو گیا کہ وہ بے ہوش ہو چکا ہے تو واپس گاڑی میں بیٹھے اور جس طرف سے آئے تھے ادھر نکل گئے۔
ایک دم ہی شور مچ گیا ۔ مہرو کے کان میں یہی آواز پڑی کہ جنید کو مار دیا گیا ہے۔ اس نے جیسے ہی سنا تو اس سے رہا نہیں گیا۔ وہ بھاگ کر باہر نکل آئی۔ اس وقت تک صحن میں موجود سارے لوگ باہر جا چکے تھے۔ بستی کے لوگ بھی اسی طرف جا رہے تھے۔ وہ تیز تیز قدموں سے اس سمت جا رہی تھی کہ مہرو کو اس کی ماں شرماں مائی نے پکڑ لیا ۔
” مجھے جانے دو، میں جنید کے پاس جانا چاہتی ہوں۔“ اس نے خود کو چھڑاتے ہوئے کہا
” اسے شہر کے ہسپتال لے گئے ہیں۔ وہ اب وہاں پر نہیں ہے۔“ اس نے بتایا ۔ 
” کیا وہ ابھی زندہ ہے ؟“ اس نے تصدیق چاہی۔ کچھ دیر بعداسے یقین ہو گیا کہ لوگ اسے شہر کے ہسپتال لے گئے ہیں، ابھی وہ زندہ ہے۔ وہ اپنے گھر تو واپس آگئی لیکن وہ سمجھ چکی تھی کہ اس کے باپ نے کیوں اس شادی کی اجازت دے دی تھی۔ وہ اپنے کمرے میں آئی، اس نے دلہن والا لباس پہنا اور اسی سمت چل دی جہاں جنید کو مارا گیا تھا۔ سبھی حیران تھے کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہے۔ بہت سارے لوگ دربار پر جمع تھے ، جن میں اس کا باپ خدا بخش بھی تھا۔ ان لوگوں کو بھی پتہ چل گیا کہ مہرو دلہن والا لباس پہن کر جا رہی ہے تو وہ بھی بھاگے۔
باباسائیں اپنے حجرے میں تھے۔ انہیں جب پتہ چلا تو وہ بھی باہر نکل آئے۔ وہ چلتے ہوئے وہاں آگئے جہاں جنڈ کے درخت تلے مہرو بیٹھی ہوئی تھی اور خدا بخش کچھ فاصلے پر کھڑا تھا اور اس کی پھوپھی پیروزاں اسے گھر چلے جانے پر مجبور کر رہی تھی۔ مگر وہ خاموش تھی۔، ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔ تبھی باباسائیں اس کے پاس جا کر کھڑے ہو گئے اور بولے
” مہرو کو چھوڑ دو اور پرے ہو جاﺅ۔“ ان کی آواز فضا میں گونجی توسبھی ایک طرف ہو گئے۔باباسائیں کچھ دیر مہرو کو دیکھتا رہا ، پھر اس نے خدا بخش کی طرف دیکھ کر کہا،” تمہیں ایک موقعہ دیا تھا، مگر لگتا ہے تم نہیں سمجھو گے۔ جاﺅ اب چلے جاﺅ، مہرو،میری بیٹی کو تنگ مت کرو، جو اس کا جی چاہتا ہے وہی کرنے دو،جاﺅ۔“
” بابا سائیں۔! ایسا مت کہو۔۔۔یہ میرا نہیں میری برادری کا فیصلہ ہے۔“
” پھر تم بھی سن لو۔۔۔ تم نے خودمہرو کو میری بیٹی بنانے کا فیصلہ کیا، اورمیرے ساتھ وعدہ کیا۔۔۔ اس وقت برادری کہان تھی۔اب میں دیکھتا ہوں۔۔۔ کون مہرو کو یہان سے اٹھاتا ہے۔۔۔ خدا بخش۔۔ اب تم اپنی بیٹی پر سے اپنا حق کھو چکے ہو۔۔“
خدا بخش نے غصے میں پہلے مہرو کو پھر بابا سائیں کو دیکھا اور سر جھٹکتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ پیروزاں اس کے پاس بیٹھ گئی۔ باباسائیں نے عورتوں سے کہہ دیا کہ یہ جب تک یہاں ہے اس کے پاس رہو۔ کسی کے بھی گمان میں نہیں تھا کہ مہرو دودن اور دو راتیں وہاں بیٹھی رہے گی۔ پہلے دن وہ گم سم رہی۔ کسی سے بات تک نہ کی ۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے اندر غصہ ابلنے لگا۔ وہ جنید کی آمد تک وہیں بیٹھنے کا ارادہ رکھتی تھی۔اسے معلوم تھا کہ اس کا یہ احتجاج دے گا کہ وہ جنید کے لئے کس قدر مخلص ہے۔
٭....٭....٭ 
” تو اس کا مطلب ہے یہ تمہاے باپ نے کیا ہے، تم اس کے خلاف احتجاج بھی کر رہی ہو اور مجھے یہ خبر چلانے کی بھی اجازت نہیں دے رہی ہو۔“ فروا نے اس سے الجھتے ہوئے کہا
” دیکھو میں تمہیں روک نہیں سکتی، تم جو چاہو سو کر سکتی ہو، لیکن وہ پھر بھی میرا باپ ہے،باقی رہا میرا احتجاج، وہ میرا اور میرے باپ کا معاملہ ہے۔ اور پھر تم نے مجھ سے وعدہ بھی کیا ہے۔“
” ٹھیک ہے، میں پوری کوشش کروں گی کہ خبر نہ چلے۔“ یہ کہتے ہوئے فروا نے اٹھتے ہوئے اپنا کارڈ اسے دیا اور بولی۔” یہ میرا رابطہ نمبر ہے، کوئی بھی بات ہو مجھے اطلاع کر دینا۔ فون تو ہوگا نا تمہارے پاس؟“
” فون تو نہیں ہے اور نہ رکھنے کی اجازت ہے۔ لیکن اگر بہت ضروری ہو ا تو کال کر لوں گی،“ اس نے کارڈ پکڑتے ہوئے کہا۔ پھر ایک دم سے بولی،” ٹھہرو۔! ایک منٹ“ یہ کہہ کر وہ کوئی بات سنے بغیر ایک الماری کی طرف گئی، جلدی جلدی میں اس نے کچھ اٹھایا اور پلٹی تو اس کے ہاتھ میں کافی سارے نوٹ تھے۔وہ اس کی طرف بڑھا کر بولی،” یہ لو، میرے جنید کے علاج پر یہ سارے خرچ کردینا۔ یہ کم ہیں تو میں یہ زیور۔۔۔“
”تم یہ نوٹ اپنے پاس رکھو، اس کے علاج کا بندوبست ہو گیا ہوا ہے۔ اور پھر میں ہوں وہاں پر۔“یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف لپکی۔ 
فروا وہاں سے نکل پڑی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ خدا بخش سے ملے، اس سے بات کرے، اس کا بھی پوائنٹ آف ویو جانے۔مگر اسے یہ خبر چلانا ہی نہیںتھی۔ اگرچہ اس خبر کو بہت سارے رنگ دے کر سنسی خیز مواد بنایا جا سکتا تھا، لیکن نجانے کیوں وہ اسے نظر انداز کر دینا چاہتی تھی۔ شاید وہ خدا بخش سے بات کر لیتی، وہ گھر آیا ہی نہیں اور نہ ہی اس سے ملا۔ وہ بستی سے نکل پڑی تھی۔ راستے ہی میں دربارپڑتا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ ایک نگاہ ان جگہوں کو تو دیکھ لے جہاں ان دو دلوں میں محبت پروان چڑھی تھی۔ اور پھر لگے ہاتھوں وہ باباسائیں سے بھی مل لے۔ وہ کیا کہتا ہے۔ ہو سکتا ہے اسے معلوم ہو کہ آخر جنید کون تھا؟ وہ تو اس کے بارے میں جانتا ہوگا، ورنہ کون اس قدر اعتماد کرتا ہے۔اس نے دربار کے سامنے کار کوائی اور سیڑھیاں چڑھ کر آستانے کے احاطے میں آگئی۔ اسے وہاں کئی فقیر اور ملنگ نما لوگ دکھائی دئیے ، اس نے ایک کو بلوایا اور اس سے باباسائیں کے بارے میں پوچھا
” وہ تو یہاں نہیں ہیں۔“
اس فقیر نما ملنگ نے اس کی توقع کے مطابق جواب دیا تو فروا نے پوچھا 
” کہا ں گئے ہیں؟“
” شہر گئے ہیں جنید کے پاس۔“
” اوہ اچھا، “ اس نے کہا اور ایک نگاہ چاروں طرف ڈالی۔ کیمرہ مین نے اس ساے منظر کو قید کرنے لگا تھا، وہ منظر کشی کر چکا تو فروا واپس کار کی جانب چلی گئی۔ سہ پہر سے پہلے وہ اپنے آفس پہنچ گئی۔ وہ سیدھی اپنے باس کے کمرے میں گئی۔ وہ اس کا منتظر تھا۔ اس نے تجسس سے پوچھا
” ہاں ، تو کیسی رہی وہ سٹوری؟“ 
 ” سر۔! وہ واقعہ تو سچ ہے، لیکن اس میں کوئی چارم نہیں ہے۔ میرے خیال میں اس پر آدھے منٹ کی خبر بھی نہیں دی جاسکتی۔“ اس نے لا پرواہی سے کہا
” تم ، فروا یہ تم کہہ رہی ہو؟“ باس نے حیرت سے پوچھا
” ہاں سر میں کہہ رہی ہوں۔ اور پھر یہ خبر ادھوی ہے سر، اہم بندہ ابھی ہسپتال میں ہے، اس کا موقف کیا ہے۔ بالکل ادھ کچری سی خبر ہوگی۔ لڑکی کا باپ بھی نہیں ملا اور وہ لڑکی خود نہیں چاہتی کہ اس کے بارے میں کوئی خبر چلائی جائے۔“ فروا نے تھکے ہوئے انداز میں کہا تو باس بولا
” لوگ کچھ نہ ہونے سے بہت کچھ بنا لیتے ہیں، یہاں تو بہت کچھ تھا، اصل بات کیا ہے؟“
” میں خود اس لڑکی کی جگ ہنسائی نہیں چاہتی۔ پھسپھسی خبر سے اچھا ہے کہ اس کا ذکر ہی نہ کیا جائے سر۔ ہا ں ممکن ہے بعد میں کوئی اچھی سی کوئی نئی چیز بن جائے۔“ فروا نے کہا تو باس چند لمحے سوچتا رہا پھر ایک دم سے بولا
” اوکے، جیساتم چاہو مس فروا۔“
گویا اس نے بات ہی ختم کر دی۔ فروا واپس پلٹی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اس کے دماغ میں وہ سب گھوم رہا تھا کہ اچانک اسے باباسائیں کا خیال آیا۔ اس نے فوراً ہی مسز نورین نے نمبر ملا دئیے، وہ اس کے بارے میں پوچھنا چاہتی تھی۔ کچھ ہی لمحوں بعد فون اٹھا لیا گیا
” ہیلو فروا، کیسی ہو؟“
” میں ٹھیک ہوں، تم سناﺅ مریض کیسا ہے؟ “ اس نے پوچھا
” اچھا ہی ہوگا۔ میں تو آگئی تھی وہاں سے۔“ مسز نورین نے بتایا
” اچھا چلو، اپنے اس بندے کا نمبر دو ، جو وہاں موجود ہے، میں اس سے پوچھ لیتی ہوں۔“ اس نے کہا تو وہ ہنستے ہوئے بولی 
” لگتا ہے ، تمہیں معلوم نہیں۔ میں اورمیرے لوگ کوئی دو گھنٹے بعد ہی واپس آگئے تھے۔ کیونکہ اس مریض کا والد وہاں آ گیا تھا۔ اس نے شکریے کے ساتھ۔۔۔“
” مریض کا والد؟“ اس کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ شاید وہ بابا سائیں کو مریض کا والد سمجھ ہی تھی۔ اس نے بابا سائیں کی نشانیاں بتا کر پوچھا
” کیا وہ اس قسم کا بندہ تھا؟“
” اے نہیں، وہ تو کلین شو، کوٹ پتلون پہنے، بڑا ڈیسنٹ سا بندہ تھا۔“ نورین نے کہا تو اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا، کہیں یہ بہت بڑی سازش نہ ہو اور بابا سائیں اس میں پوری طرح ملوث ہو، ایک دم ہی سے اس کے دماغ میں کئی سارے خیال آتے چلے گئے۔اسے پتہ ہی نہ رہا کہ مسز نورین کیاکہہ رہی ہے ، وہ ایک دم سے حیرت میں ڈوب گئی تھی۔ اس نے نورین کو احساس نہیں ہونے دیا۔ فروا نے فون بند کیا اور ہسپتال جانے کے لئے اٹھ گئی۔
وہ ہسپتال پہنچی اور سیدھے آئی سی یو وارڈ میں چلی گئی۔ وہاں پر جنید نہیں تھا۔ وہ واپس پلٹ کر ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹر کے پاس آئی اور اس سے جنید کے بارے میں پوچھا تو ڈاکٹر نے بتایا
”مس، وہ اس کا یہاں علاج کروانے پر مطمئن نہیں تھے۔ انہیں یہ گمان تھا کہ یہاں علاج ٹھیک نہیں ہو رہا، اس لئے وہ مریض کو لے گئے ہیں۔“
” کون لے گیا ہے اسے، میرا مطلب، اس کے ساتھ آئے دیہاتی لوگ، یا دوسرا کوئی؟“ فروا نے بڑے تحمل سے پوچھا تو ڈاکٹر نے سوچ کر بتاتے ہوئے کہا
” اس کے ساتھ تو کئی سارے لوگ تھے۔ لیکن آج جب آپ آئیں تھیں تو اس سے کچھ ہی دیر بعد ایک ادھیڑ عمر شخص آیا تھا، غالباً وہ خودکو مریض کا باپ بتا رہا تھا۔ بہت پریشان تھا وہ۔۔۔“ ڈاکٹر مزید کہنا چاہ رہا تھا کہ فروا نے ہاتھ کے اشارے سے اسے روکتے ہوئے تیزی سے پوچھا
” سوری سوری ڈاکٹر پلیز، یہاں مجھے یہ بتائے گا کہ وہ یہاں جو دیہاتی لوگ تھے، انہوں نے اس بندے کو پہچان لیاتھا، کہ وہ ہی جنید کا والد ہے یا جنید کو ہوش آ گیا تھا اور اس نے اپنے باپ کو پہچان لیا تھا؟“
اس پر ڈاکٹر نے کہا
” نہیں مریض کو ہوش نہیں آیا تھا، اسی لئے وہ بندہ پریشان تھا، اس کی میرے خیال میں ان دیہاتی لوگوں سے کافی بحث ہوئی تھی۔ وہ دیہاتی اس مریض کو یہاں سے لے جانے نہیں دے رہے تھے۔“
” اس کا مطلب ہے وہ دیہاتی اس بندے کو پہچانتے نہیں تھے۔“ فروا نے تصدیق کی 
” جی ، میرے خیال میں ایسا ہی تھا۔“ ڈاکٹر نے محتاط انداز میں بتایا
” تو پھر وہ یہاں سے کیسے گئے؟“ فروا نے پوچھا
”اصل میں ایک بابا سایہاں آیا، وہ اس بندے کے ساتھ کافی دیر تک باتیں کرتا رہا، پھر وہ مریض کو یہاں سے لے گئے۔“ ڈاکٹر نے بتایا تو فروا نے اسے بھی بابا سائیں کی نشانیاں بتائیں تو ڈاکٹر نے تصدیق کر دی۔
” یہ معلوم ہے کہ وہ اسے کہاں لے گئے ہوں گے؟“ فروا نے بے چینی سے پوچھا تو داکٹر نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا
” نہیں، میں نہیں جانتا۔“
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گیا اور فروا وہاں ساکت سی کھڑی رہ گئی۔ نجانے کیوں اسے احساس ہونے لگا تھا کہ جنید کھو گیا ہے۔
 ٭....٭....٭
شہر پر سے سورج اپنی کرنیں سمیٹ کر مغربی اُفق میں غروب ہو گیا تھا۔ فروا اپنے آفس میں بیٹھی فون پر مصروف تھی۔ شہر کا کون سا ہسپتال تھا جس سے اس نے جنید کے بارے معلومات نہیں لیں تھیں۔پہلی بار اس نے ہسپتالوں کے بارے میں معلوم کیا تھا ۔تب اسے پتہ چلا کہ شہر بھر میں کتنے نجی ہسپتال بن چکے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ آخر اس کی تلاش ختم ہو گئی۔ شہر کے پوش علاقے میں ایک معروف سرجن نے حال ہی میں اپنا ہسپتال بنایا تھا۔ وہاں کے استقبالیہ سے اطلاع ملی کہ ایک مریض سرکاری ہسپتال سے یہاں آج ہی شفٹ ہوا ہے۔ اور اس کا نام جنید ہے۔ یہ سنتے ہی وہ آفس سے باہر نکلی اور اس طرف کار بھگاتی چلی گئی۔
استقبالیہ سے معلوم کرکے وہ سیدھی آئی سی یو میں چلی گئی۔ وہاں جنید ہی تھا۔ وہ اب تک بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ اس نے شیشے کی دیوار کے پار ہی اسے پڑے دیکھا تھا۔ اس وقت وہ متعلقہ ڈاکٹر کے پاس جانے کے لئے پلٹی ہی تھی کہ اس کے سامنے ایک بردبار اور متحمل مزاج شخصیت والا ایک ادھیڑ عمرشخص کھڑا اسی کی جانب متوجہ تھا۔اسے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر وہ ٹھٹک گئی تو اس ادھیڑ عمر شخص نے ذرا آگے بڑھ کر بڑے نرم لہجے میں کہا
” بیٹی، آپ ہی وہ جرنلسٹ ہو جس نے جنید کے لئے کچھ بندوں کو دیکھ بھال کے لئے چھوڑا تھا۔“
” جی میں ہی ہوں۔ اور آپ۔۔۔؟“ اس نے سوالیہ لہجے میں جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔ تبھی وہ بولا
” میرا نام عظیم چوہدری ہے اور جنید میرا بیٹا ہے۔ میں آپ کا بہت شکر گذار ہوں کہ آپ نے میرے بیٹے کا خیال کیا۔ بلا شبہ آپ کا دل بہت اچھا ہے، جس نے محض انسانیت کے ناطے مدد کی۔ بیٹا تم کسی اچھے اور سلجھے گھر کی لگتی ہو۔“ اس نے احسان مندانہ انداز میں کہا تو وہ اس کی بات نظر انداز کرتے ہوئے بولی
” عطیم صاحب۔! کیا ہم تھوڑی دیر کے لئے بات کر سکتے ہیں۔ “
” کیوں نہیں، بولو؟“
” یہاں نہیں، باہر لان یا کوریڈور میں پلیز۔“ اس نے عاجزانہ انداز میں کہا تو عظیم چوہدری نے سر ہلایا اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیئے۔
 وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے باہر لان میں آگئے۔ وہاں سنگی بنچ پڑے تھے۔ وہ دونوں وہاں بیٹھ گئے ۔ وہ اس کی طرف دیکھنے لگا۔فروا کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ بات کا آغاز کہاں سے کرے۔ وہ اس بندے کے بارے بات کرنے جا رہی تھی جو موت و حیات کی کشمکش میں تھا۔ تبھی اسے خیال آیا تو اس نے پوچھا
” آپ کو میرے بارے میں کیسے پتہ چلا کہ میں نے جنید کی مدد کی تھی؟“
”آپ نے شاید غور نہیں کیا، میرے ساتھ دو لوگ اور بھی ہیں۔ وہ وہیں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ دیہات کے ہیں۔“ اس نے بتایا
”دیکھیں عظیم صاحب۔! میں روہی سے ہی ہو کر آئی ہوں، وہاں سے مجھے کافی حد تک صورت حال بارے پتہ چلا ہے ۔ وہاں پر تو کوئی بھی جنید کے والدین کو نہیں جانتا۔ اورآپ۔۔؟“ اس نے پھر سے سوال چھوڑ دیا، جس پر وہ طویل سانس لیتے ہو ئے بولا
” بیٹی۔! آپ کا تجسس بجا ہے، ہونا بھی چائیے، لیکن میرا خیال ہے کہ آ پ اس سوال کو یہیں چھوڑ دیں کہ روہی میں جنید کے والدین کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ یہ میرا وعدہ رہا کہ میں پھر کسی وقت تفصیل سے آپکو اس بارے بتا دوں گا۔جہاں تک میرے جنید کے والد ہونے کا سوال ہے تو یہ یقین رکھو کہ میں ہی اس کا باپ ہوں۔“
” میں سمجھی نہیں۔“ اس کے لہجے میں اصرار تھا، جیسے وہ پوچھنا چاہ رہی ہو۔ تب وہ ذرا پہلو بدل کر بولا
” میں آج سے تقریباً پچیس برس پہلے لندن چلا گیا تھا۔ اور آج میری عمر پچاس کے لگ بھگ ہے۔ میں نے لندن میں اپنا کاروبار شروع کیا تو چل نکلا۔ اور آج میں مختلف ملکوں کے لوگوں سے بزنس کر رہا ہوں۔ یہاں پاکستان میں ، آپ کے اسی شہر میں، میرے بہت سے جاننے والے موجود ہیں۔ یہ سب لوگ گواہی دیں گے کہ جنید میرا بیٹا ہے۔ میرے تمام تر بزنس کا اکلوتا وارث۔اب اس سے زیادہ میں آپ کو کیسے یقین دلا سکتا ہوں، وہ آپ بتا دیں بیٹی؟“
” چلیں، میں یہ مان لیتی ہوں کہ وہ آپ ہی کا بیٹا ہے لیکن اسے روہی میں اپنا آپ چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ لندن کو چھوڑ کر یہاں کیوں پڑا ہوا تھا، کیا وہ پہلے ہی سے مہرو کو جانتا تھا؟ یا پھر اس کا کوئی مقصد تھا؟“ فروا نے ایک دم سے کئی سوال کر ڈالے تو عظیم چوہدری کے چہرے پر تکلیف دہ آثار ابھر آئے۔ وہ چند لمحے خاموش رہا پھر دھیمے لہجے میں تحمل سے بولا
” بیٹی۔! میں نے کہا نا، اس ذکر کو چھوڑو، پھر سہی، جنید کو ہوش آلینے دو، پھر اس پر بھی بات کر لیں گے۔ یہ ذہن میں رکھو، جنید کوئی مجرم نہیں ہے اور نہ ہی وہ کوئی ایسی ذہنیت رکھتا ہے ۔“
” کیا آپ کے علم میں تھا کہ وہ یہاں ہے؟“ فروا نے پوچھا
” ہاں۔! پتہ تو تھا، لیکن میں رابطے میں نہیں تھا۔ اسی لئے تو مجھے یہاں آتے ہوئے دودن لگ گئے۔“ اس نے دھیمے لہجے میں کہا 
”اوکے ۔!“ یہ کہہ کر اس نے اپنا کارڈ نکالتے ہوئے اسے دے دیا اور بولی،” یہ میرا رابطہ نمبر ہے، اگرکوئی ضرورت ہو تو پلیز مجھے فون کیجئے گا۔“ یہ کہتے ہوئے وہ اٹھ گئی۔ تو عظیم چوہدری بھی اٹھ گیا۔ اس نے کارڈ لیتے ہوئے کہا
” میں چاہوں گا کہ آپ اس معاملے کو نظر انداز کر دیں، اگر بہت ضروری ہے تو میں یہ درخواست کروں گا کہ جنید کے ہوش میں آنے تک اسے موخر کر دیں۔“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا تو فروا نے محض اپنا سر ہلا دیا اور وہاں سے چلتے ہوئے پارکنگ کی طرف چل دی۔ اس کے ذہن میں ایک ہی وقت میں کئی کچھ چل پڑا تھا۔
جب تک وہ اپنے گھر پہنچی، اس نے سب کچھ اپنے ذہن سے نکال دیا ہوا تھا۔ وہ ایسا ہی کیا کرتی تھی۔ گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی وہ باہرکی باتیں بھول جاتی تھی۔ تب وہ اپنے گھر کی ہو جاتی۔ و ہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی تھی۔ اگرچہ اکلوتے ہونے کا ایج اسے حاصل تھا، مگر اس نے اس کا کبھی فائدہ نہیں اٹھایا تھا۔ وہ گھر میں داخل ہوئی تو اس کی ماما ڈرائینگ روم میں بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ اسے دیکھتے ہی بولی
” آج اتنی دیر کر دی بیٹا؟“
” بس ماما، تھوڑی مصروفیت تھی۔ پاپا آ گئے ہیں۔“ اس نے پوچھا
” نہیں، وہ اپنے کسی دوست سے ملنے گئے ہیں۔ دیر سے آئیں گے۔“اس کی ماما نے بتایا
” تو پھر اس کا مطلب ہے آپ نے کھانا بھی نہیں کھایا ہوگانا؟“ اس نے تشویش سے پوچھا، پھر اپنے کمرے میں جاتے ہوئے ملازمہ کو آواز دینے لگی کہ کھانا فوراً لگا دے۔
رات گئے، جب وہ سونے کے لئے اپنے بیڈ پر لیٹی تو اسے ایک دم سے مہرو یاد آگئی۔ بے چاری مہرو، اسے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ جنید ایک بہت بڑے بزنس مین کا بیٹا ہے۔ اس کا مطلب ہے وہ اپنے من میں پر خلوص تھی۔ اس نے محض جنید کو اور اس کی محبت کو دیکھا تھا۔ اسے مہرو پر ترس آنے لگاتھا۔ اس نے سوچا، اگرچہ یہ کہانی ختم ہو گئی ہے، وہ اس معاملے کی سٹوری نہیں بنائے گی، لیکن اگر کبھی مہرو کو اس کی ضرورت پڑی تو وہ ضرور اس کی مدد کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور احساس اس کے چاروں طرف پھیل گیا کہ کیا محبت کسی کو اس قدر بھی پاگل بنا دیتی ہے کہ وہ ساری دنیا کو بھول جائے اور صرف اپنی محبت کے بارے میں سوچے۔ یہ کیسا جذبہ ہے، کیا واقعتا یہ کوئی جذبہ ہے یا کچھ اور ہے، کوئی الوہی قوت، پھر اسے احساس ہی نہ رہا ۔ وہ نیند کی وادیوں میںکھو گئی۔ 
فروا تیار ہو چکی تھی۔ اس نے اپنا ہینڈبیگ اٹھایا اور اپنے کمرے سے باہر آگئی۔ اسے یہ اچھی طرح احساس تھا کہ اس کی ماما اور پاپا ناشتے پر اس کا انتظار کر رہے ہوں گے۔ یہ اس کا معمول تھا کہ وہ ناشتہ کم ازکم اپنے والدین کے ساتھ کرتی تھی۔وہ تیزی سے ڈرائینگ روم میں آئی۔ حسبِ عادت اس نے اونچی آواز میں اسلام علیکم کہا تو اسی دوران اس کی نگاہ ایک تیسرے فرد پر بھی پڑی، جو اس کی جانب پشت کئے بیٹھا تھا۔ تبھی اس کے پاپا نے مسکراتے ہوئے کہا
” لو فروا بھی آ گئی ہے، اس سے ملو۔ اور فروا یہ میرے بہت اچھے دوست عظیم چوہدری۔“
فروا ایک لمحے کے لئے تو ساکت ہو کر رہ گئی۔ پھر سلام کرتے ہوئے اس کی سا منے والی کرسی پہ بیٹھ گئی۔ عظیم چوہدری نے سلام کا جواب دیتے ہوئے کہا
” میں اپنی اس بیٹی سے پہلے ہی مل چکا ہوں۔ یہ وہی رپورٹر تو ہے۔ مجھے فخر ہے کہ یہ میرے دوست کی بیٹی ہے۔ تم نے بہت اچھی تربیت کی ہے حسن اس کی۔“
” پاپا، آپ انہیں جانتے ہیں، یہ کب سے آپ کے دوست ہیں؟“ فروا نے پوچھا
” تب سے بیٹا، جب ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ پھر اسے لندن جانا پڑا۔ ہمارے درمیان رابطہ تو تھا، لیکن یہ اس دوران یہاں نہیں آیا۔“اس کے پاپانے بتایا
” کیا آپ ان کے بیٹے جنید سے ملے ہوئے ہیں؟“
” ہاں۔! میں اس سے ملا ہوں اور اسے اچھی طرح جانتا ہوں۔“پاپا نے کہا تو عظیم چوہدری دھیمے لہجے میں بولا
” آپ کا تجسس بجا ہے بیٹی۔ کیونکہ آپ کے سامنے جو تصویر ہے، وہ مکمل نہیں ہے۔ وہ سوال ، میں نے جن کے بارے میں کہا تھا کہ اس پر بعدمیں بات کریں، اب میں وہ ساری بات آپ کو بتا دوں گا۔ اور دوسری بات بیٹا۔! جنید کو رات ہوش آ گیا تھا۔ اب وہ خطرے سے باہر ہے۔“
” کرم ہے رَبّ کریم کا۔“ فروا کے منہ سے بے ساختہ نکلا تو پاپا نے کہا
” فروا، میرا خیال ہے کہ اب ناشتہ کیا جائے۔ ناشتے کے بعد میں تمہارے ذمے ایک کام لگانا چاہ رہا ہوں، اگر تم کرو تو۔۔“
” پاپا۔! آپ کیسی بات کر رہے ہیں، آپ کہیں اور میں نہ کروں۔ بولیں کیا بات ہے۔“
پہلے ناشتہ کرو، پھر بتاتا ہوں۔“ انہوں نے کہا اور وہ سب ناشتے میں مصروف ہوگئے فروا کے اندر تجسس سمندر کی لہروں کی مانند اٹھنے لگا تھا۔
ناشتے کے بعد فروا، عظیم چوہدری اور حسن باہر آکر لان میں بیٹھ گئے۔ تبھی فروا نے پوچھا
” پاپا وہ آپ کاکام ؟“
” ایسا کرو، سب سے پہلے اپنے چینل والوں سے کم ازکم اتنی چھٹی لے لوکہ تم اپنے انکل عظیم کی ہیلپ کر سکو، جب تک جنید بالکل تندرت نہیں ہو جاتا۔“
” اوکے پاپا، میںلے لوں گی چھٹی، لیکن ایک مسئلہ ہو سکتا ہے؟“
”وہ کیا؟“
” پاپا ابھی یہ جنید اور مہرو والا معاملہ میرے پاس ہے ، مین نے چھٹی لے لی تو کسی دوسرے رپورٹر کی ڈیوٹی لگ جائے گی۔۔۔ لیکن میں سب دیکھ لوں گی ، جو آپ چاہتے ہیں۔“ اس نے سمجھاتے ہوئے کہا
” نہیں بیٹا پھر تم وہی کرو جو مناسب سمجھتی ہو، اصل میں تمہارے انکل اپنے بزنس سے بھی دور نہیں رہ سکتے اور یہاں سے جانا بھی نہیں چاہتے۔ اس وقت تک جب تک جنید یہاں سے جانے کے قابل نہیں ہوجاتا۔ یہ میرے ساتھ آفس جایا کریں گے، وہیں ان کا بھی سیٹ اپ بنا دیں گے۔“
” اوکے ، میں دیکھ لو ں گی پاپا، آپ فکر نہ کریں۔“ اس نے کہا پھر عظیم چوہدری کی طرف دیکھ کر بولی،” انکل میرے سوالوں کا جواب؟“
” میں ساری بات بتاتا ہوں آپ کو۔“اس نے سنجیدگی سے کہا توپاپا نے اٹھتے ہوئے کہا 
” چلو، پھر میں چلتا ہوں ، تم چینل سے ہو کر ہسپتال آجانا۔“ 
” میں انہیں ہسپتال لے جاﺅں گی۔ “وہ جلدی سے بولی تو اس کا پاپا چلا گیا ۔ تبھی عظیم چوہدری اپنے بالوں میں ہاتھ پھر کر بولا۔
” بیٹی شاید یہ حالات اس طرح کبھی سامنے نہ آتے اگر جنید پاکستان آنے کی ضد نہ کرتا۔“
” وہ کیوںآیا؟“اس نے پوچھا تو وہ بتاتا چلا گیا
٭....٭....٭
عظیم چوہدری،صحرائے چولستان کے سرے پر آباد شہر بہاول پورمیںرہتا تھا۔ اس کا گھرانہ متوسط طبقے سے تھا۔باپ ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھا۔ اسے اپنے بیٹے سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ اگرچہ عظیم شروع ہی سے لا ابالی تھا۔ گھومنے پھرنے اور سیرسپاٹے کا شوقین تھا، لیکن پڑھنے میں ٹھیک تھا۔ اس کا تعلیمی کئیریر مایوس کن نہیں تھا۔ان دنوں وہ یونیورسٹی کے دوسرے سال کے آخر میں تھا۔ چند دن بعد وہ سیشن ختم ہو جانے والا تھا۔ اس کے چند دوست تھے جوسبھی ملک کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ انہی دنوں اس کے دوستوں کو ہرن کا شکار کرنے کی سوجھی۔عظیم نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا
” یار اب وہ دن نہیں رہے جب یہاں روہی میں ہرن کا شکار مل جایا کرتا تھا۔ اب تو یہاں ہرن دیکھنے کو نہیں ملتا۔“
” یار یہ جو شہزادے آتے ہیں یہ کہاں شکار کرتے ہیں؟“ اس کے ایک دوست نے کہا
” یار وہ شہزادے ہیں، ان کی اپنی شکار گاہیں ہیں۔“ اس نے سمجھایا
” چل یار اگر ہرن نہ بھی ملا تو کیا ہوا، صحرا ہی دیکھ آئیں گے۔ سنا ہے صحرا کی رات بھی بڑی ماورائی ہوتی ہے ،بندے پرجادو کر دیتی ہے۔ یہ حسرت تو نہ رہے گی کہ ہم نے رات کو صحرا نہیں دیکھا۔“ اس کے ایک دوسرے دوست نے صلاح دی۔
” یہ تو ہے، صحرا کی صبح اور شام کا نظارہ ہی دل فریب ہو تا ہے۔ اور رات چاندنی ہو تو وہ واقعتا جادو کر دیتی ہے۔“ تیسرے دوست نے کہا تو ان کے درمیان طے ہو گیاکہ ایک رات وہاں جا کر دیکھتے ہیں۔ اچھا لگا تو پھر امتحانوں کے بعد کیمپ لگا کر چند راتیں گذاریں گے۔
یونیورسٹی کی جنوبی سمت میں کافی آگے جا کر نہر بہتی تھی ۔ جیسے خاصا سرسبز کر کے پارک بنا دیا گیا تھا اور وہ جگہ گرین بیلٹ کے نام سے مشہور ہو گئی تھی۔ یونیورسٹی کے لڑکے لڑکیاں وہاں روزانہ بڑی تعداد میں جاتے تھے۔ اسی نہر سے آگے جنوب کی جانب صحرا چولستان شروع ہو جاتا تھا۔ جو آگے میلوں تک پھیلا ہوا تھا۔ایک شام وہ چاروں فوروہیل جیپ پر، بہت پر جوش اور خوش کن انداز میں صحرا کی طرف نکل گئے ۔ ان کے ساتھ کھانے پینے کا سامان اور اپنی حفاظت کے لئے اسلحہ بھی تھا۔ انہیں معلوم تھا کہ ہرن تو انہیں کیا ملنا تھا۔ ویسے ہی اِدھر اُدھر پھرتے رہے۔ انہیں چاندنی میں صحرا جادوئی لگ رہا تھا۔
وہ ایک کھلی سی جگہ تھی اور اس کے چاروں طرف ٹیلے تھے، جہاں انہوں نے جا کر ڈیرا لگایا۔ جیپ کی ہید لائیٹس میں انہوں نے کھانے پینے کا سامان نکالا اور گپ شپ، ہنسی مذاق کے ساتھ کھانے پینے لگے۔ ہر طرف سناٹے کاوہ بالکل منفرد تجربہ تھا۔ آدھی رات کے وقت ،اچانک انہیں اپنی مشرقی جانب سے فائرنگ کی آواز سنائی دی۔ انہیں تجسس ہواکہ یہ کیا ہوا ہے؟ وہ اٹھ کر ادھر دیکھنے لگے۔ بہت دور انہیں ہیولوںکی مانند اونٹ دکھائی دئیے جو بھاگتے چلے آرہے تھے۔
” یہ کیا ہو سکتا ہے یار؟“ان میں سے ایک دوست نے ایک دم سے خوف زدہ ہو تے ہوئے کہا
 ” ممکن ہے یہ صحرائی ڈاکو ہوں۔“ ایک دوسرے نے تیزی سے کہا تو باقی بھی خوف زدہ ہو گئے
” نہیں یار یہ کیسے ممکن ہے؟“ اس نے کہا
” وہ اگر نہ بھی ہوں تو ان کے پاس اسلحہ ہے، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔“ تیسرا بولا
” یار اسلحہ تو ہمارے پاس بھی ہے۔“
” مگر ہم ان کی طرح نہیں ہیں۔ جلدی سے اپنا سامان سمیٹنا شروع کرو۔“ ایک نے صلاح دی تو وہ سامان سمیٹ کر بھاگنے کے لئے تیار ہو گئے۔ انہی لمحات میں ایک اونٹ ان کے بہت قریب آ گیا تھا۔ وہ سارے اپنی جیپ میں بیٹھ چکے تھے۔ جس وقت وہ گئیر لگا کر جانے لگے تو اونٹ پر سے کسی مرد نے چلّا کر کہا
” ٹھہرو، ٹھہرو خدا کے لئے ٹھہرو، ہمار ی جان بچاﺅ،“
اس کے یوں کہنے پر جیپ کو بریک لگائے تو کسی نے کہا
” او نکلو نکلو۔! یہ کہیں ان کا ڈھونگ ہی نہ ہو۔“
جبکہ اونٹ والا مسلسل چلّا رہا تھا ۔ تبھی ایک نے کہا
” چھوڑ یار ایسی بھی کیا بزدلی، تو گن نکال، میں دیکھتا ہوں۔ “
جیپ رُک گئی۔ وہ بہت قریب آگئے تھے۔ تبھی انہو نے دیکھا، اونٹ پر دو لوگ تھے، مرد کے پیچھے عورت بیٹھی ہوئی تھی۔وہ مسلسل چلّا رہا تھا۔ تبھی وہ ان کے قریب آگئے۔اونٹ بٹھانے سے پہلے ہی وہ مرد اونٹ کے ساتھ گھسٹتا ہوا اُترا اور ان کے قریب آگیا۔ انہوں نے دیکھا وہ اجنبی شدید زخمی تھا۔
” کیا ہوا تمہیں؟“عظیم نے پوچھا
” میرے فائر لگ گیا ہے۔“ اس نے کراہتے ہوئے کہا
” کس نے مارا اور کیوں؟“ عظیم نے تیزی سے پوچھا 
” یہ ان سوالوں کا وقت نہیں ہے۔خدا کے لئے۔۔۔“ 
”آﺅ،آﺅ۔۔۔ تجھے ہسپتال لے چلیں، آﺅ جلدی۔“ عظیم نے کہا تو وہ اجنبی کراہتے ہوئے بولا
” نہیں، مجھے پتہ ہے کہ میں بچ نہیںپاﺅں گا، لیکن اگر تم ایک زندگی بچا لو۔“اس نے دور آتے ہوئے اونٹو ںکو دیکھا
” کس کی زندگی؟“ ایک دوست نے پوچھا
” یہ میرے ساتھ، میری ہونے والی بیوی ہے ، ہم بھاگ کر آرہے ہیں، ہمارے پیچھے لگے بندے ہمیں مارنا چاہتے ہیں، خدا کے لئے اسے لے کر نکل جاﺅ۔“ اس نے بہ مشکل کہا اور چکرا کر زمیں پر گر گیا۔ اس وقت تک وہ لڑکی اونٹ کو بٹھا کر اُتر چکی تھی۔ وہ بھاگ کر اس مرد کے پاس آئی۔
” نہیں ، تم مجھے چھوڑ کر نہیں جا سکتے ؟“ وہ دھاڑ مار کر بولی
” جاﺅ، ان کے ساتھ چلی جاﺅ، تمہاری زندگی بچ جائے گی، ورنہ وہ تمہیں ابھی مار دیں گے۔ جاﺅ۔۔۔“ اس نے زور لگا کر کہا اور بے ہوش ہوگیا۔ عظیم نے جلدی سے پانی کی بوتل نکالی اور اس کے منہ میں پانی ڈالا، اسے ہوش آیا تو کہنے لگا،” جاﺅ ، جلدی چلے جاﺅ۔۔۔“
یہ کہتے ہوئے اس نے بوتل عظیم سے چھین لی۔ تبھی نجانے اس کے دوست کو کیا سوجھا، اس نے گن سے فائر نکال دیئے۔ لڑکی زارو قطار رو رہی تھی۔ اجنبی سے بولا نہیں جا رہا تھا۔ اس نے اسے جیپ میں بیٹھے کے لئے ہاتھ کااشارہ کیا ۔ اور پھر ایک دم سے اس کی گردن ڈھلک گئی ۔ وہ لوگ ان سے تھوڑی دور آ کر رُک گئے تھے۔ کچھ دیر بعد سامنے سے بھی فائرنگ ہونے لگی ۔ وہ لڑکی بلکتے ہوئے ان کے ساتھ جیپ میں آ بیٹھی اور انہوں نے جیپ بھگا لی۔
صحرا بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ گرین بیلٹ بھی پار کر آئے تھے۔ تھوڑا سکون ہوا تو ان کے سامنے یہ سوال تن گیا کہ اس لڑکی کا کیا کریں۔ وہ سبھی جیپ سے اتر کر مشورہ کر کے اس سوال کا جواب تلاش کرنے لگے۔
” یار ہم اسے اپنے ساتھ ہوسٹل میں تو نہیں رکھ سکتے، اور اس وقت کسی لڑ کی کی مِنت بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کم از کم اسے ایک رات ہی اپنے ساتھ رکھ لے۔“
” تو پھر کیا کریں؟“ اس نے پوچھا
” ظاہر ہے، تو اسے ساتھ اپنے گھر لے جا، پھر دیکھتے ہیں۔“ دوست نے مشورہ دیا
” نہیں میں اسے ابھی گھر لے گیا تو اس کے ساتھ ہی گھر سے نکال دیا جاﺅں گا ، کچھ اور سوچ؟“
” یہ تو کرنا پڑے گا۔ وہاں جھوٹ بولنے کی ضرورت نہیں۔ گھر والوں کو سچ سچ بتا دیں گے ، ہم بھی چلتے ہیں تیرے ساتھ۔ اگر وہ نہ رکھیں گے، تو میں ایک دو دن میں اسے اپنے گاﺅں لے جا کر چھوڑ دوں گا۔“
یہ طے کر کے وہ سیدھے عظیم کے گھر چلے گئے۔ رات کا پچھلاپہر تھا۔ دروازہ اس کے ابو نے کھولا۔ ان کے ساتھ ایک چولستانی لباس میں کھڑی لڑکی کو دیکھ کر وہ چونک گیا۔ وہ سمجھ دار آدمی تھا۔ اس نے تحمل سے ان سب کی بات سنی۔ تب تک عظیم کی ماں بھی وہیں آگئی تھی۔ اس نے بھی ساری کہانی سن لی تھی۔ جب وہ کہہ چکے تو عظیم کے والد نے اس لڑکی کو اپنی بیوی کے ساتھ اندر بھیج دیا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے سوچتے ہوئے کہا
” تم لوگوں نے اسے اپنے ساتھ لا کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔“
” وہ کیسے انکل، صبح ہم اسے کسی بھی تھانے میں۔۔۔“ ایک دوست نے کہنا چاہا تو اس کے والد نے بات کاٹتے ہوئے کہا
” نہیں بیٹا، اب یہ اتنا آسان نہیں ہے، کنویں میں گری اینٹ کبھی سوکھی باہر نہیں آتی۔ وہ لوگ دشمن ہی تو تھے جنہوں نے اس لڑکی کے ساتھی کو مارا ہے، وہ قتل کا مقدمہ تم لوگوں پر ڈال کر خود بری الذمہ ہو جائیں گے۔ وہ مقتول اب زندہ ہو کر تمہاری گواہی تو نہیں دے سکے گا نا۔ اور تھانے والے خواہ مخواہ ذلیل کریں گے، چاہے یہ لڑکی تم لوگوں کے حق میں گواہی بھی دے دے۔اور پھر عورت کا کیا اعتبار، وہ اپنوں کو بچانے کے لئے، قتل تم لوگوں پر دال دیں۔“
” یہ تو آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں، اس وقت ہمیں یہ خیال ہی نہیں آیا۔“ دوست نے حیرت سے کہا
” میں اگر یہاں اب ایسی باتیں کر رہا ہوں، اُس وقت میں وہاں ہوتا تواس صورتِ حال میں شاید وہی کرتا جو تم لوگوں نے کیا ہے۔“ اس کے باپ نے تحمل سے کہا
” انکل اب کرنا کیا ہے؟“ ایک نے کافی حد تک خوف زدہ لہجے میں پوچھا
” یہی کہ غلطی کے بعد غلطی نہیں دہرانی، بھول جاﺅ کہ یہ لڑکی تم لوگوں کے ساتھ آئی ہے۔ کچھ دنوں تک میں علاقے کے بندے درمیان میں ڈال کر اسے واپس اس کے گھر بھیج دوں گا۔ اب تم لوگوں نے اس لڑکی کا ذکر تک نہیں کرنا۔“
” ٹھیک ہے انکل، اب آپ اسے کسی طرح اس معاملے کو سلجھا لیں۔“
” ہو جائے گا ، پریشان نہیں ہونا، کوئی پوچھے بھی تو ذکر نہیں کرنا، میں سنبھال لوں گا سب۔“ انہوں نے ان سب کو حوصلہ اور تسلی دی۔ وہ چلے گئے تو وہ اس لڑکی پاس چلے گئے۔ ماں نے اس کے سامنے کچھ فروٹ رکھے تھے ، جسے اس لڑکی نے ہاتھ تک نہیں لگایا تھا۔ وہ مسلسل رو رہی تھی۔ ابو اس کے پاس بیٹھ گئے اور پیار سے پوچھا
” بیٹی۔! تو کون ہے اور کہاں رہتی ہے؟“
اس پر لڑکی نے خود پر قابو پایا اور دھیمے سے انداز میں بھیگے ہوئے لہجے میں بولی
” میں بستی نوردین سے ہوں، میرا نام پیروزاں ہے۔ میں مہر اللہ داد کی بیٹی ہوں۔“
” وہ لوگ کون تھے جو تجھے مارنا چاہتے تھے؟“ ابو نے پوچھا
” وہ ، میرا بھائی خدا بخش اور اس کے ساتھی تھے۔ وہ لڑکا جو قتل ہو گیا ہے، اس کا نام جند وڈا ہے، وہ میری خالا کا بیٹا ہے ۔ میں اس کے ساتھ شادی کرنا چاہتی تھی۔ مگر میرا بھائی نہیں چاہتا تھا۔ ہم نے وہاں سے بھاگ کر شادی کرنا چاہی تو انہوں نے ہمیں مار دینے کی منصوبہ بنا لیا۔ وہ آج ہم دونوں کو مار دینا چاہتے تھے اگر یہ لوگ نہ ملتے ۔ جند وڈا تو ۔۔“ یہ کہتے ہوئے وہ ایکدم سے رونے لگی۔
” اچھا تو ایسے کر ، سکون سے سو جا۔ صبح بات کریں گے۔“ابو نے کہا اور اسے ایک کمرے میں سو جانے کو کہا۔ وہ چارپائی پر لیٹ گئی تو ابو نے بہت ساری باتیں ماں کو سمجھائیں۔ وہ اس کے ساتھ ہی کمرے میں دوسری چارپائی پر لیٹ گئی۔
عظیم صبح دیر سے بیدار ہوا۔ اس کے ساتھ ہی رات ہونے واقعہ نے اس کے ذہن پر قبضہ جما لیا۔ وہ تیار ہو کر یونیورسٹی جانا چاہتا تھا۔ جب وہ ناشتہ کرنے لگا تو اس کے ابو گھر آگئے۔انہوں نے آتے ہی پوچھا
” وہ لڑکی کہاں ہے؟“
”اندر ہے۔“ ماں نے بتایا تو ابو نے کہا
” اسے باہر لاﺅ۔“
ماں اندر سے پیروزاں کو باہر لے آئی۔ وہ آکر بیٹھ گئی تو ابو نے عظیم کو سمجھاتے ہوئے کہا
” دیکھو بیٹا۔! یہ جن لوگوں کی بیٹی ہے، وہ بہت خطرناک لوگ ہیں، روہی کے یہ لوگ خاصے اثر ورسوخ والے بھی ہیں۔یہاں تمہاری بہنیں بھی ہیں اور تیرا چھوٹا بھائی بھی، میں نہیں چاہتا کہ ان پر کوئی اثر پڑے۔“
” یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں ابو، وہ اثر والے ہیں تو کیا ہوا، اس لڑکی کو انہیںواپس کر دیتے ہیں، ہمیں اس سے کیا۔“ عظیم نے لا پرواہی سے کہا
” اب یہ اتنا آسان نہیں ہے بیٹا۔ و ہ جو قتل ہوا ہے وہ کس کے کھاتے میں جائے گا۔ میں نے پتہ کر لیا ہے، لاش تھانے میں پڑی ہے۔ اور ان لوگوں نے بڑے سکون کے ساتھ قتل کا مدعا ان لڑکوں پر ڈال دیا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ لڑکی کے اغوا کا پرچہ بھی ہو گیا ہے۔ پولیس اس جگہ سے ہو آئی ہے۔ جہاں رات تم لوگ تھے۔“ ابو نے منتشر لہجے میں کہا
” ہائے ربا۔! یہ بیٹھے بیٹھائے کیا ہو گیا۔ اب کیا ہو گا؟“ ماں نے روہانسا ہوتے ہوئے پوچھا
” تم سب کو پتہ ہے کہ میں ان سے لڑ نہیں سکتا۔ اگر لڑوں گا تو مجھے اپنی ساری توانائی اسی دشمنی پر لگانا پڑے گی۔ نوکری بھی ہاتھ سے جائے گی اور میرے دوسرے بچے بھی ہیں ، وہ سب ڈسٹرب ہو جائیں گے۔“ ابو نے خود پر قابو رکھتے ہوئے کہا
” تو پھر کیا کریں ابو؟“ عظیم کو بھی حالات کی نزاکت کا احساس ہو گیا۔
” دیکھو بیٹا، میں تم پر چیخوں چلاﺅں گا نہیں کہ تم نے یہ کیوں کیا، کیوں کہ ایسا کرکے معاملہ حل نہیں ہونے والا۔ جس طرح تم اِسے رات کے اندھیرے میں یہاں لائے ہو، اسی طرح یہاں سے نکال کر لے جاﺅ۔“
” مگر کہاں ابو؟“ اس نے تیزی سے پوچھا
” میرا ایک دوست لاہور میںہے، اس کے پاس۔ وہ تمہیں اپنے پاس رکھ لے گا۔ تم وہاں اپنے امتحان کی تیاری کرنا۔ میں بھی تمہیں پیسے بھیجتا رہوں گا۔“ ابو نے تحمل سے کہا تو اس نے حیرت سے پوچھا
” تو کیا یہ بھی میرے ساتھ رہے گی۔؟“
” ہاں۔! یہ بھی تیرے ساتھ رہے گی۔“ ابو نے کہا تو وہ سنجیدگی سے سوچتے ہو ئے بولا
” اس طرح مسئلہ حل نہیں ہو گا ابو، وہ دوسرے لڑکے بھی تو میرے ساتھ تھے۔ میں اگر اکیلا بھاگ گیا توسارا مدعامجھ پر پڑ جائے گا۔“
” تو پھر کیا کرو گے تم؟“ ابو نے زچ ہوتے ہوئے پوچھا
” میں یہیں رہوں گا، کہیں نہیں جاﺅں گا۔ اس لڑکی کو آپ اس وقت چھپا کر رکھیں جب تک، معاملہ ٹھنڈا نہیں پڑ جاتا۔ بعد میں کسی دارلامان میں اسے دے دیں گے، بلکہ یہ خود ہی چلے جائے گی۔“ اس نے سکون سے کہا تو سب نے پیروزاں کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے تو خاموش رہی ، پھر بولی
” میںجب بھی ان کے سامنے گئی، وہ مجھے قتل کر دیں گے۔ ان کے نزدیک میرا یہ بہت بڑا جرم ہے۔“
” تو پھر یہیں پڑی رہو، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔“ ابو نے طے کیا اور پھر اسے وہیں رہنے کی اجازت مل گئی۔
عظیم اس دن دیر سے یونیورسٹی پہنچا۔ اس کے پہنچتے ہی اس کے دوستوں نے اسے گھیر لیا۔
” کیا بنا، ابو نے کچھ کہا تو نہیں۔“
” شکر کرو ہم سب بچ گئے ہیں۔ وہ لڑکی صبح صبح ہی کہیں بھاگ گئی ہے۔ اب نجانے کہاں ہوگی۔“ عظیم نے ایک نئی کہانی انہیں سنا دی
”کہاں گئی ہوگی؟“ ایک نے سوال کیا تو دوسرے نے کہا
” جدھر بھی جائے ہمیںاس سے کیا۔وہ خود ہی جان چھوڑ گئی۔“ 
” جان ہی تو نہیں چھوٹی باس، وہ کسی لٹکتی ہوئی تلوار کی طرح اب بھی ہمارے سر پر مسلط ہے۔“ عظیم نے انہیں خوف زدہ کر دیا
” وہ کیسے؟“ سبھی نے یک زبان ہو کر پوچھا
” وہاں ایک قتل ہوا ہے، اور ہمارے سامنے ہوا ہے۔ اور۔۔۔آج کا اخبار پڑھو۔۔۔ نامعلوم لڑکوں کے خلاف قتل اور اغوا کا پرچہ ہوچکا ہے۔“ عظیم نے کہنا چاہا تو ایک نے کہا، تو وہ سبھی سہم گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا
” یار کیا کریں اب؟“
” صرف ایک بات ہمارے حق میں جاتی ہے اوروہ ہے اندھیرا، اسے ہماری صورتیں نہیں یاد ہوں سکتیں، اور میرے گھرسے بھی وہ اندھیرے میں نکلی ہے۔ ہمیں صرف ایک شے بچا سکتی ہے۔“ عظیم نے ڈرامائی انداز میں کہا
” وہ کیا؟“
” یہیں کہ ہم بھول جائیں کہ ایسا کوئی واقعہ ہوا تھا۔ ہم صحرا میں گئے تھے۔ اپنی زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ ہمیں پھانسی کے پھندے تک لے جائے گا۔“ اس نے کہا تو وہ سبھی خوف زدہ ہو گئے۔ اس کے دوست ایسے خوف زدہ ہوئے کہ اگلے ہی دن وہ اپنا بور یا بستر سمیٹ کر چلے گئے۔ اب صرف انہوں نے امتحان دینے کے لئے آ نا تھا۔ 
ایک طرح سے ماحول میں ٹھہراﺅ آگیا تھا۔ پیروزاں ان کے گھر میں رہی۔ اگلے دو ماہ کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ ان تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔عظیم کی لاہور میں جاب ہوگئی۔ وہ وہاں چلا گیا۔ اس دوران اس کے والدین نے یہی صلاح کی کہ عظیم کی شادی پیروزاں سے کر دی جائے۔ بڑی سادگی سے ان کا نکاح ہو گیا اور وہ اسے لے کر لاہور آباد ہو گیا۔دن بہت خوبصورتی سے گذرتے چلے جا رہے تھے۔ عظیم ایک ماہ بعد ضرور اپنے والدین سے ملنے آتا۔ پھر پیروزاں امید سے ہو گئی۔ عظیم نے اسے اپنے والدین کے پاس چھوڑ دیا۔ یہاں تک کہ اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔ انہوں نے بڑے پیار سے اس کا نام جنید رکھا۔
 وہ سب خوش تھے۔ اس کے والدین چھوٹے بہن بھائیوں کی شادی بارے سوچ رہے تھے ۔ اچانک ایک دن ان پہ افتاد پڑ گئی۔ وہ دونوں اور عظیم کا چھوٹا بھائی بازار گھوم رہے تھے۔ اس وقت وہ ایک شاپنگ سنٹر سے باہر نکلے تھے کہ ایک دم سے ہوائی فائرنگ ہونا شروع ہو گئی۔ فائرنگ کرنے والے ایک گاڑی میں تھے۔ یہ ہوائی فائرنگ انہوں نے ڈرانے کے لئے کی تھی۔ وہ چھ سات آدمی تھے۔ پیروزاں انہیں پہچان گئی۔ وہ اسی لڑکے کے بھائی اور کزن تھے، جو اس کے ساتھ صحرا میں قتل ہو گیا تھا۔ انہوں نے آتے ہی پیروزاں پر ہاتھ ڈالا۔ عظیم اور اس کے چھوٹے بھائی نے مزاحمت کی تو انہوں نے اس طرح فائرنگ کی کہ وہ مریں بھی نہ اور شدید زخمی ہو جائیں۔ وہ سڑک پر گر کر بے ہوش ہو گئے تھے۔ انہوں نے پیروزاں کو گاڑی میں ڈالا اور فرار ہوگئے۔
عظیم کو دوسرے دن ہسپتال میںہوش آیا۔پھر تقریباً اسے ٹھیک ہونے میںایک ہفتہ لگ گیا۔ اس دوران اس کے ابو نے شہر سے شفٹ ہو جانے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اس کے ٹھیک ہوتے ہی وہ شہر چھوڑ گئے۔ پھر۔!پیروزاں قصہءپارینہ بن گئی۔ انہوں سے اسے تلاش نہیں کیا۔ انہوں نے تو یہ تک معلوم نہیں کیا کہ وہ ہے کہاں؟ عظیم چاہتا تھا کہ وہ پیروزاں کو تلاش کرے لیکن اس کے باپ نے ایسا نہیں کرنے دیا۔ عظیم دل برداشتہ ہو گیا۔ اس نے جنید کو اپنی ماں کے پاس چھوڑا اور لندن چلا گیا۔
وقت گزرتا گیا۔ وہ لندن میں پہلے تو ہر طرح کی نوکری کرتا رہا ، پھر اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا، جو چل نکلا۔ جنید اس وقت پانچ سال کا تھا جب اس نے اسے وہاں بلوا لیا۔ پھر وہ دونوں باپ بیٹا پلٹ کر پاکستان نہیں آئے۔ جنید وہاں پڑھا اور جوان ہوا۔ ایک دن اس نے کہا
” پاپا۔! میںآپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں۔“
” بولو، کیا بات ہے؟“
” پاپا میں پاکستان جانا چاہتا ہوں ، اپنی ماں کے پاس۔ اسے لانے کے لئے۔“ جنید نے دھیمے سے انداز میں کہا تو وہ ششدر رہ گیا۔
” تم جانتے ہو وہ کہاں ہے ، زندہ ہے ؟“
” ہاں پاپا ، وہ زندہ ہے، اور میں جانتا ہوں کہ وہ اس وقت کہاں ہے۔“ اس نے سکون سے کہا
” تم نے ۔۔۔ یہ سب کیسے ؟“ حیرت کے باعث اس سے بولا نہیں جا رہا تھا۔
” آپ کے کاروباری تعلق ہیں نا وہاں پر؟ چاچو اور پھوپھو کو ماں کے بارے سب پتہ تھا کہ وہ کہاں کی رہنے والی ہے ۔آ ٓٓپ کو بھی معلوم ہے
” ہاں، اس کا تو پتہ تھا۔“ اس نے تجسس سے کہا
” تو بس میں نے وہاں اپنے تعلقات پیدا کئے ہیں۔ دو سال کی محنت کے بعد مجھے سب معلوم ہو گیا ہے۔ میں اب چاہتا ہوں کہ اپنی ماں کو یہاں لے آﺅں۔“
” کیا تم ایسا کر پاﺅ گے۔ کیا وہ تمہیں پہچان لے گی؟ اور کیا وہ لوگ تمہیں نقصان نہیں پہنچائیں گے؟“ عظیم نے حیرت سے پوچھا
” پاپا۔! یہ میں دیکھ لوں گا سب۔“ اس نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
تقریباً دو ماہ تک ان کے درمیان یہ بات چلتی رہی۔ جنید اپنی ضد کا پکا نکلا، اورایک دن وہ پاکستان آگیا۔عظیم اس کے بارے میں معلومات رکھتا تھا۔ رابطہ بھی تھا۔ پھر اچانک اسے جنید کے شدید زخمی ہو جانے کی اطلاع ملی اور وہ پاکستان آپہنچا۔
٭....٭....٭
” تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ پیروزاں مائی، آپ کی بیوی اور جنید کی ماں ہے۔“ فروا نے سر ہلاتے ہوئے کہا
” ہاں بیٹی، زندگی نے نجانے ہم سے کتنے امتحان لینے ہیں۔“ عظیم نے مایوسانہ لہجے میں کہا
” تو اب کیا خیال ہے آپ کا، پیروزاں کے بارے میں ۔“ فروا نے پوچھا
” میں جانتا ہوں کہ جنید کے دل میں اپنی ماں کے لئے کتنی محبت ہو گی جو وہ سب کچھ چھوڑ کے پاکستان آ گیا۔ یہاں آ کراس کے ساتھ کیا ہوا، میں نہیں جانتا۔ یہ تو اب وہی بتا سکتا ہے نا، وہ اب ہوش میں آ گیاہے ، اب ہم سوچتے ہیں کہ کیا کرنا ہے۔“عظیم نے کہا تو وہ یوں سرہلانے لگی جیسے حالات کو سمجھتے ہوئے کسی فیصلے تک پہنچنے کی کوشش کر رہی ہو۔
” تو چلیں پھر ہسپتال چلتے ہیں۔“ فروا نے اٹھتے ہوئے کہا تو بھی اٹھ گیا۔
عظیم چوہدری کو لے کرفروا ہسپتال جا پہنچی۔ جنید اب ہوش میں تھا۔ وہ فروا کے بارے میں بالکل نہیں جانتا تھا کہ وہ کون ہے۔
” ان سے ملو جنید، یہ میرے دوست کی بیٹی فروا ہے۔ بہت اچھی ہے،اس نے تمہاری بہت مددکی اور مزے کی بات ہے وہ بھی انجانے میں۔“
 ” میں بہت شکر گذار ہوں ان کا۔“ جنید نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا تو فروا نے اس سے پوچھا
” اب کیسی طبعیت ہے ، آپ کی؟“
” اب بہتر محسوس کر رہا ہوں۔“ اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو فروا بولی
” انکل آپ اس کے پاس بیٹھیں، میں ذرا ڈاکٹر سے مل کر آتی ہوں کہ وہ کیا کہتا ہے۔“
انکل نے مسکرا کر جانے کا اشارہ کیا تو باہر کی جانب چکی گئی۔وہ ڈاکٹر کے پاس گئی اور چند تمہیدی باتوں کے کے بعد جنید کے بارے میں پوچھا
” میں ابھی ذرا دیر پہلے اس کے پاس سے ہو کرآیا ہوں۔ اسے آج روم میں شفٹ کر دیں گے۔وہاں اس کا علاج ہونا شروع ہو جائے گا۔“ ڈاکٹر نے بتایا
” آپ کے خیال میں اسے بالکل ٹھیک ہونے میں کتنے دن لگ جائیں گے۔ “ اس نے سوچتے ہوئے پوچھا
” اس کے زخم بھرنے میں کم از کم دو ہفتے تو لگ ہی جائیں گے ، لیکن آپ مریض کو دو تین دن بعد گھر لے جا سکتے ہیں ہمارے پاس ایسا انتظام ہے کہ فو ن کال پر مریض کو دیکھ سکتے ہیں۔“
” تھینک یو ڈاکٹر۔“ فروا نے ممنونیت سے کہا اور اس کے پاس سے اٹھ آئی۔ دوپہر تک اسے ایک کمرے میں منتقل کر دیا گیا۔ جو بھی چیز چائیے تھی، فروا نے فون کال پر منگوا لی۔ خطرہ ٹل جانے سے وہ سکون محسوس کر رہے تھے۔ فروا کچھ دیر کے لئے چینل جانا چاہتی تھی۔ انکل نے بھی اسے جانے کی اجازت دے دی۔
رات کا اندھیراہر طرف پھیل گیا تھا۔ سورج غروب ہوئے کافی دیر ہوگئی تھی۔ ایسے میں فروا اور کے ماما، پاپا آگئے۔ ان کے پاس جنید کے لئے کافی کچھ تھا۔ وہ جنید سے ملے، پھر کچھ دیر بیٹھ کر بولے
” بھئی عظیم تم تو چلونا میرے ساتھ، یہاں فروا رہے گی ، اور اس کی مدد کے لئے یہاں گارڈ ہیں۔تم تھک گئے ہو گے، آرام کر لو۔“
” ہاں پاپا، آپ کافی تھک گئے ہوں گے۔ آپ آرام کریں۔“
 جنید کو کھلانے پلانے کے کچھ دیر بعدوہ چلے گئے۔ فروا نے دو پیالیوں میں چائے ڈالی اور ایک پیالی جنید کو دیتے ہوئے بولی
” جنید۔! میں آج صبح سے پہلے تمہیں نہیں جانتی تھی۔ ہاں مگر مہرو کے ۔۔۔“ وہ کہنا چاہتی تھی کہ جنید نے اس کی بات قطع کرتے ہوئے حیرت سے پوچھا
” تم مہرو کو جانتی ہو؟“
” ہاں،بلکہ میں پیر وزاںمائی کو بھی جانتی ہوں جو تمہاری ماں ہے۔“ وہ سکون سے بولی تو وہ خود پر قابو پاتے ہوئے بولا
” یہ تم سب کیسے جانتی ہو؟ “
” تم سکون سے چائے پیﺅ، میں بتاتی ہوں۔“اس نے چائے کا سپ لیا اور اختصار سے ساری بات بتا دی۔ وہ خاموشی سے سنتا رہا، جب وہ کہہ چکی تو جنید بولا
”یہ بابا سائیں نے اچھا کیا کہ مہرو کو گھر بھیج دیا ہے، مگر اس پر خطرہ تو اب منڈلائے گا، وہ اسے مار دیں گے۔“
” ممکن ہے،“ فروا نے چونکتے ہوئے کہا پھر لمحہ بھر خاموش رہ کر بولی،”پہلے مجھے احساس نہیں تھا کہ وہ اس قدر خطرناک لوگ بھی ہو سکتے ہیں، لیکن آج انکل کی بات سن کے مجھے اب احساس ہوا ہے۔“
” مجھے وہاںپر ہونا چائیے فروا۔“ وہ ایکدم سے بے چین ہو گیا۔
”اپنی حالت دیکھی ہے تم نے؟“ فروا نے حیرت زدہ انداز میں کہا
” تو پھر کیا کروں؟“ وہ بے بسی سے بولا
” کیا تمہیں مہرو سے اتنی محبت ہے۔“ فروا نے پوچھا
” مجھے اس سے محبت ہے یا نہیں، لیکن اپنی ماں تک پہنچنے کاوہ میرا ایک راستہ تھی ۔“
” یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟“ اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا تو جنید کہتا چلا گیا۔
”دوسرے لوگوں کی طرح مجھے بھی اپنی ماں بہت شدت سے یاد آتی تھی۔مجھے یہی بتایا گیا تھا کہ میری ماں ناراض ہو کر چلی گئی ہے۔ بچپن کی کچھ یادیں بھی ان کی اس بات کی تائید کرتی تھیں۔ بہرحال میرے اندر وہ بچہ زندہ رہا ، جو اپنی ماں کے لئے بلکتا رہتا تھا۔میں جب اس قابل ہوا کہ خود کچھ کر سکوں تو سب سے پہلے اپنی ماں کی تلاش ہی شروع کی، جو چار برس کے بعد ختم ہوئی، جانتی ہو ،میری اس تلاش میں کس نے مدد کی؟“
” نہیں۔“ فروا نے انکار میں سر ہلاتے ہوئے کہا
” تمہارے پاپانے، وہ ہمارے ساتھ بزنس کر رہے ہیں، جب میں نے ان سے مدد چاہی تو انہوں نے میری مدد کی۔ انہوں نے میری دی ہوئی تھوڑی بہت معلومات پر آخر کار چار برسوں کے بعد میری ماں کو تلاش کر لیا۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحوں کے لئے خاموش ہو گیا۔پھر بولا” میں فوراً پاکستان آ گیا۔ تب یہاں آ کر مجھے معلوم ہواکہ میری ماں کو یہی بتایا گیا ہے کہ اس کا شوہر اور بیٹا دونوں قتل کر دئےے گئے ہیں۔ وہ اب دنیا میں زندہ نہیں ہیں۔میری ماں بیوگی کی زندگی گزار ہی ہے۔“
” پھر تم نے بتایا نہیں ؟“فروانے پوچھا
”یہ تم بھی سمجھ سکتی ہو کہ یہ اتنا آسان نہیں تھا، سب سے پہلی مشکل یہ ہی تھا کہ میں ان تک رسائی کیسے حاصل کرتا، بالفرض محال میں ان تک پہنچ بھی جاتا تو،انہیں یہ کیسے یقین دلاتا کہ میں ہی ان کا بیٹا ہوں۔“
” ڈی این اے ٹیسٹ۔۔۔“ فروا نے اچانک کہا
” یہ پڑھے لکھے اور سمجھ دار لوگوں یا وہ لوگ جو ڈی این اے کے بارے سمجھتے ہیں ، یہ ان کے لئے دلیل ہے، نا کہ ان پڑھ اور جاہل لوگوں کے لئے، اور اس بندے کو تم کیا منا سکتی ہو جو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی نہ ماننا چاہتا ہو۔ یہ فضول دلیل تھی۔“اس نے اکتائے ہوئے لہجے میںکہا
” اچھا تو پھر۔۔۔“ اس نے پوچھا
”پھر ایک خیال یہ بھی تھا کہ پتہ نہیں میری ماں کے خیالات اب کیسے ہوں،کیا وہ سب کچھ بھول بھال کر اک نئی زندگی شروع کر چکی ہے یا ابھی تک اس کے دل میں اپنی اولاد کی تڑپ موجود ہے؟ میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا تھا۔“
” جنید ایک ماں اپنی اولاد کو کیسے بھول سکتی ہے، یہ ناممکن تھا اور اب بھی میرا یہی خیال ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں بھولی ہوگی۔“ فروا نے سرسراتے ہوئے کہا تو وہ دھرے سے بولا
” میری ماں میری بات کا یقین کر بھی لیتی تووہاں سے اُسے نکالنا ہی ایک مشکل مرحلہ تھا۔ پھر وہی چھپنے چھپانے کا سلسلہ دوباہ شروع ہو جاتا۔اوریہ سب کچھ میں نے بابا سائیں کے پاس رہ کر جانا۔“
” اچھا تم بابا سائیں کے پاس کیسے؟“ اس نے تیزی سے پوچھا
” تمہارے پاپا کو وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں، وہ اس قتل سے بھی واقف تھے جس کی وجہ سے میرے پاپا میری ماں کے ساتھ ملے تھے۔ ان سے درخواست کی گئی کہ ہم پولیس یا کسی بھی فورسز کو درمیان میں نہیں لانا چاہتے ، ہو سکتا ہے کوئی پرانا کھاتہ کھل جائے۔ یہاں دربار پر رہ کر کوئی ایسا موقعہ تلاش کیا جائے جس سے میری ماں کو ہمارے زندہ ہونے کا ثبوت مل جائے۔“
” تو پھر کیا کوئی موقع نہیں ملا؟“ فروا نے پوچھا
” میں نے سوچا کہ جب میں یہاں آ ہی گیا ہوں تو بہت صبر اور تحمل سے سارے ماحول کو دیکھوں، ان سب کو ، ایک ایک فرد کو جانوں ، انہیں پرکھوں، پھر اس کے بعد کوئی قدم اٹھاﺅں۔ میں اس میں کامیاب رہا تھا۔ میں نے اپنے ماما اور اس کے خاندان کو جانا، ان کے بارے میں پوری معلومات لیں۔ وہ سامنے سے جتنے سادہ، شریف اور ملنسار دکھائی دیتے ہیں، وہ ویسے نہیں ہیں۔ وہ بہت ظالم ہیں۔“ جنید نے انتہائی دکھ سے کہا
” کیا ظلم دیکھا تو اُن کا۔“ اس نے تیزی سے پوچھا
” فروا۔! تم یہاں رہتی ہو، تمہیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ یہاں قبیلہ سسٹم ہے۔ اور یہ قبیلہ سسٹم جہاں بھی ہو تا ہے ، وہاں ان کااپنا قانون اور اپنی سزا جزا ہوتی ہے۔“ جنید نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا
” وہ تو ٹھیک ہے لیکن، تمہارے مقصد میں یہ قبیلہ سسٹم تو حائل نہیں ہوا؟ یا ہوا ہے؟ یا تم نے کچھ کیا ہی نہیں؟“ اس کا تجسس بڑھ گیا تھا۔ اسی لئے وہ جلدی جلدی سب جاننا چاہ رہی تھی۔
” میںسارے ما حول کو سمجھ گیا تھا ۔ اب وہ پہلے والی روایات بھی نہیں رہیں تھیں۔ میں چند دنوں میں ہی اپنی ماں سے بات کرنے والا تھا۔ انہی دونوں مہرو ایک دم سے میرے سامنے آگئی۔ میں نے اس کے بارے میں سنا ضرور تھا کہ خدا بخش کی ایک بیٹی مہرو بھی ہے لیکن اسے دیکھا نہیں ہوا تھا۔ میں نے اسے تائید غیبی سمجھا۔ میں نے سوچا کہ یہ میرے رَبّ کا مجھ پر کرم ہو گیا ہے۔“
” کیسے ۔۔۔ یہ کیسے سمجھ لیا؟“ فروا نے پوچھا
” میں نے پہلے بابا سائیں سے بات کی۔ میں نے انہیں بتایا کہ اس طرح مہرومیرے لئے یہاں آنا شروع ہو گئی ہے۔ کہیں یہ کوئی سازش تو نہیں ہے۔ مگر ایسا کچھ نہیںتھا۔ وہ واقعتا میں محبت میں ڈوب گئی تھی۔ یہاں تک کہ میں خود اس کی محبت کی شدت سے خوف زدہ ہو گیا۔ اس قدر ٹوٹ کرچاہے گی، اس کا مجھے اندازہ نہیں تھا۔خیر، میں اور بابا سائیں نے یہی سوچا کہ مہرو کے ساتھ شادی کرکے میں اس خاندان کا حصہ بن جاﺅں۔ ان کے درمیان رہ کرپھر میں سب ٹھیک کر لوں گا۔مجھے نہیں معلوم تھا کہ مہر خدا بخش اب بھی اپنے دل میں کدورت رکھے ہوئے ہے۔ بابا سائیں نے میرا بھرپور ساتھ دیا، اب تم بتا رہی ہو کہ مہرو جنڈ کے درخت تلے بیٹھی رہی۔“ آخری لفظ کہتے ہوئے وہ ایکدم سے بے چین ہو گیا۔
” تو اس کا مطلب ہے ، جس مقصد کو تم حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ حاصل نہیں ہو پایا۔“ فروا نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا پھر اس کی آنکھوں میں دیکھ کر پوچھا،” اب کیا چاہتے ہو؟“
” وہی، جو میں سوچ کر یہاں آیا ہوں۔“ اس نے مضبوط لہجے میں کہا تو فروا نے پریقین لہجے میں کہا،
”تم بس جلدی سے ٹھیک ہو جاﺅ۔ اب یہ مجھ پر چھوڑ دو۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔“
اس کے یوں کہنے پر جنید نے غور سے اسے دیکھا۔ پھر اپنا سر تکیے پر ٹکا دیا۔
٭....٭....٭
فروا کے ذہن سے یہ بات نہیں نکل رہی تھی کہ جیند مہرو سے محبت نہیں کرتا وہ محض ایک راستہ تھی۔ اس نے خود اعتراف کیاتھا کہ” مجھے اس سے محبت ہے یا نہیں، لیکن اپنی ماں تک پہنچنے کاوہ میرا ایک راستہ تھی ۔“ اسے جب بھی یہ بات یاد آتی نجانے ایک خوشی کا احساس کیوں ہوتا۔فروا کی توجہ اب اپنے چینل کے کاموں پر اتنی زیادہ نہیں رہی تھی۔ بلکہ اس کا زیادہ وقت جیند ہی کے ساتھ گذرتا تھا۔وہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے اسی کے پاس جاتی، اسے فریش ہونے میں مدد دیتی۔ خود اس کے پاس بیٹھ کر اسے ناشتہ کرواتی، اسے وقت پر دوائیں دیتی۔ اس کے ساتھ باتیں کرتے اسے وقت گذرنے کا احساس تک نہ ہوتا۔ چند ہی دنوں میں اسے لگا جیسے جنید بھی اس کا عادی ہو گیا ہے۔فروا ک بھی وہ بہت اچھا لگتا۔ اس کے کام کرکے اسے خوشی محسوس ہوتی تھی۔جیسے اس کی خدمت وہی کر سکتی ہے، اور یہ اس کا فرض ہے۔
ایک دن اسے چینل سے واپسی پر کافی دیر ہوگئی۔ واپس آتے ہوئے وہ بے حد بے چین تھی، جیسے اس کا بہت کچھ کھو گیا ہو۔ وہ جلدی میں گھر پہنچی اور سیدھی جنید کے پاس گئی۔ وہ بھی جیسے اس کی راہ تک رہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی جنید کے چہرے پر خوشی کہ لہر آگئی۔ اس نے بے ساختہ پوچھا
” فروا ، آج تم نے بہت دیر کر دی؟“
اس کے پوچھنے کے انداز پر وہ چونک گئی۔ کس قدر اپنائیت سے اس نے پوچھا تھا، وہ اپنے لہجے کی بے تابی نہیں چھپا پایا تھا۔انہی لمحات میں فروا کو لگا جیسے کسی انجانی قوت نے اسے جکڑ لیا ہو۔اسے لگا جیسے اس کا اپنا آپ رہا ہی نہ ہو۔ایک دم سے نجانے اتنا پیار کہاں سے آ گیا تھا۔ وہ بے تابی سے آگے بڑھی اور اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر بولی
” جنید۔! کیسے ہو؟ دوا لی ، کچھ کھایا تم نے؟“
” دوا بھی لی ہے ، کھایا بھی ہے ، لیکن ویسا نہیں جیسے تم کھلاتی ہو۔“ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ پر رکھ تو فروا کو لگا جیسے آگ اس کے بدن کو چھو گئی ہے۔ یہ کیسی آگ تھی ، جس نے اسے پورے وجود سے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس سے وہاں کھڑا ہی نہیں ہوا گیا۔ وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگی، اور پھر کتنی دیر تک یہی سوچتی رہی کہ یہ کیا ہو گیا۔ تب اس پر انکشاف ہو گیا کہ وہ جنید سے محبت کرنے لگی ہے۔ ایسا کب اور کس ہو گیا ۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا ، شاید وہ لاشعوری طور پر اس کے نزدیک ہوتی چلی گئی تھی۔ اس نے اپنے حواسوں پر قابو پایا اور جنید کے پاس چلی گئی اور پھر رات گئے تک وہ اس سے باتیں کرتی، جب وہ سویا تو ہی وہاں سے اٹھ کر آئی۔ اسی رات اس کے سپنے رنگین ہو گئے اور وہ ایک انجانی دنیا میں جا پہنچی۔ اور پھر یہ سپنے رنگین سے رنگین تر ہوتے چلے گئے اور وہ اپنی دنیا میں کھو گئی تھی۔ 
٭....٭....٭
اس دن صبح کا سورج چمک رہا تھا۔فروا تیار ہو کر پورچ میںآئی۔ ڈرائیور کار کے قریب ہی کھڑا تھا۔ وہ اسے اشارہ کر کے پچھلی نشست پر بیٹھنے لگی تو ڈرائیور نے مودب انداز میں کہا
” بی بی جی، صاحب نے کہا ہے کہ کہیں بھی جانے سے پہلے ان سے مل کر جائیں ۔“
” کب کہا تھا۔“ فروا نے پوچھا
” ابھی، تھوڑی دیر پہلے، جب وہ واک پر جانے لگے تھے، وہ ابھی آتے ہوں گے۔“ ڈرائیور نے کہا تو ایک دم سے سست ہو گئی۔ وہ چند لمحے وہیں کھڑی رہی، پھر جیسے ہی پلٹ کر واپس جانے لگی تو گیٹ میں سے اس کے پاپا اور انکل عظیم آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ وہ رک گئی۔ وہ قریب آئے تواس کے پاپا نے پوچھا
” بیٹی، میںنے سنا ہے تم روہی جا رہی ہو؟“
” جی ، وہیں جا رہی ہوں۔“ اس نے جواباً بتایا
” نہیں تم وہاں نہیں جاﺅ گی۔اب تمہارے لئے وہاں خطرہ ہے۔ کیونکہ مہر خدا بخش کو پتہ چل گیا ہے کہ یہ سب میری وجہ سے ہوا ہے۔ جنید کو میں ہی بابا سائیں کے پاس بھیجنے والا ہوں۔ اوریہ بھی پتہ چل گیا ہے ، حقیقت میں جنید کون ہے۔“ پاپا نے بتایا
” تو پھر پیروزاں مائی کو بھی معلوم ہو گیا ہوگا کہ وہ جنید کی ماں ہے۔ اور انکل عظیم کے بارے میں بھی کہ وہ یہاں پر ہیں؟“ فروا نے تیزی سے پوچھا
”بلا شبہ سب کچھ معلوم ہو گیا ہوگا۔ جو لوگ جنید کے ساتھ ہسپتال میں تھے، ان لوگوں نے سب بتا دیا ہوگا اور میرے خیال میں اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی ہو گی۔“
” تو پھر میرے لئے خطرہ کیوں؟“ اس نے پوچھا تو عظیم چوہدری سمجھاتے ہوئے بولا 
”ظاہر ہے بیٹا اب وہ ہمیں اپنا دشمن تصور کر رہے ہیں ۔ اب بہت احتیاط کی ضرورت ہے، وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔“
” اوکے۔! میںمیں اپنا خیال رکھوں گی، میں اب جنید کے پاس ہسپتال چلی جاتی ہوں۔“
” نہیں۔! ادھر کچھ بندے ہیں اس کے پاس ، آج اسے وہاں سے گھر لے آئیں گے۔ اب جنید کا ٹریٹمنٹ ادھر گھر میں ہی ہوگا اب کوئی رسک نہیںلینا ہمیں۔“ آخری لفظ ابھی عظیم چوہدی کے منہ ہی میں تھے کہ فروا کا فون بج اٹھا۔ اس نے اسکرین پر نمبر دیکھے، جو چینل کے تھے۔ اس نے فون رسیو کیا تو دوسری طرف باس تھا۔وہ کافی پرجوش انداز میں بول رہا تھا
” بھئی فروا ، کہاںہو تم؟“
” میں گھر پہ ہوں سر، خیریت؟“ اس نے پوچھا
” ایک خاتون آئی ہے روہی سے، وہ تمہارا پوچھ رہی ہے، کہہ رہی ہے کہ وہ صرف تم ہی سے بات کرے گی۔“ باس نے اسے بتایا تو فروا نے تیزی سے پوچھا
” خاتون۔! مطلب وہ کوئی ادھیڑ عمر خاتون ہے یا ....“
” ادھیڑ عمر ہے، ہم نے اس کا نام پوچھا تو بھی نہیں بتا رہی، کہہ ہی ہے تم ہی سے ملنا ہے، اب کیا کہیں اسے ؟، تم آ رہی ہو یہاں پر یا اسے....؟“
” میں آتی ہوں۔ آپ اُسے بٹھائیں۔“ فروا نے کہا اور فون بند کر دیا۔ پھر سامنے کھڑے اپنے پاپا اور انکل کوبتایا
” کون ہو سکتی ہے وہ؟“ پاپا نے بڑبڑاتے ہوئے کہا
” میں ابھی دیکھ لیتی ہوں۔“ وہ مڑتے ہوئے بولی
” بیٹی میں نے ابھی تمہیں کہا ہے کہ اپنا خیال....“ اس کے پاپا نے کہنا چاہا تو وہ بڑے تحمل سے بولی
” ڈونٹ وری پاپا.... صحافت نے مجھے بہت سکھا دیا ہے۔ میں وہاں جا کر صورتِ حال سے آگاہ کرتی ہوں آپ کو۔“ اس نے کہا اور کار میں جا بیٹھی۔ ڈرائیور نے کار سٹارٹ کی اور وہ چل دئیے۔
چینل میں جیسے ہی وہ اپنے کمرے میں گئی، سامنے ایک کرسی پر پیروزاں مائی بیٹھی ہوئی تھی۔ اس نے بڑی ساری چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اسے دیکھتے ہی جلدی سے کھڑی ہو گئی اور دل دوز لہجے میں بولی
” میری دھی ، خدا کے واسطے مجھے میرے پتر کے پاس لے چل۔۔۔ کہاں ہے میرا جنید؟“
” آپ بیٹھو۔! میں لے جاتی ہوں اس کے پاس ۔ابھی ہم فوراً اس سے ملنا بھی چائیں تو نہیں مل سکتے ۔“ فروا نے کہا اور اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ پیروزاں زارو قطار رہ رہی تھی
” مجھ کرماں ماری کو کیا پتہ تھا کہ میرا پتر میرے اتنے قریب رہا ہے اور میں اسے پہچان نہ سکی ۔ کیسی ماں ہوں میں .... وہ کہاں سے میر ی خاطر یہاں آیا اور میں اسے پہچان نہ سکی۔ کیسا ہے اب وہ ۔“
” ٹھیک ہے اب وہ۔“ فروا نے کہا پھر انٹر کام پر چائے اور پانی لانے کا کہہ کر اس نے روتی ہوئی پیروزاں مائی کی طرف دیکھا اور محض بات بڑھانے کی غرض سے پوچھا
” آپ کو کیسے پتہ چلا کہ میں آپ کو جنید سے ملوا سکتی ہوں؟“
” بابا سائیں نے بھیجا ہے مجھے تیرے پاس۔ کل جب مجھے پتہ چلا جنید ہی میرا بیٹا ہے اور وہ زندہ ہے تو میں کل سے بے چین تھی۔ میں نے کسی سے اظہار نہیں کیا۔ بابا سائیں کے پاس چلی گئی اور اس نے مجھے تیرے پاس بھیج دیا۔“ وہ رندھے ہوئے گلے سے بولی
” اگر مہر خدا بخش کو پتہ چل گیا کہ تو اپنے بیٹے سے ملی ہے تو اس کا ردعمل کیا ہوگا؟“ فروا نے پوچھا
” جو بھی ہو، مجھے کون روک سکتاہے اپنے بیٹے کے ساتھ ملنے سے۔۔۔“ اس نے غصے میں کہا
” کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے شوہر عظیم چوہدری بھی یہیں ہیں؟“
” کیا؟ وہ۔۔۔ وہ بھی۔۔؟“ وہ حیرت زدہ رہ گئی۔ شدت حیرت سے وہ گنگ ہو گئی اور ہونقوں کی طرح اسے دیکھنے لگی۔وہ کتنے ہی لمحے یونہی ساکت رہی ۔ جیسے اسے یقین نہ آرہا ہو۔ پھر جیسے اسے ہوش آگیا، اوروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ فروا نے اسے رونے دیا، نجانے کب کے رکے ہوئے آنسو اس کی آنکھوں سے رواں تھے۔ تبھی وہ یکلخت بولی،” میرے اپنوں نے یہ بھی ظلم کیا مجھ پر۔۔۔“
” کیسا ظلم، یہی کہ آپ کے شوہر اس دنیا میں نہیں رہے۔“ فروا نے پوچھا
” ہاں۔! یہی کہا میرے بھائی نے مجھے۔اور میں نے مان لیا۔“
” کیوں مان لیا تھا۔“ اس نے زور دے کر پوچھا
” حالات ہی ایسے تھے۔“ وہ ماضی میں ڈوبتے ہوئے بولی
” کیسے تھے حالات، یہ سب کیسے ہوا؟“ فروا نے پوچھا تو وہ دھیرے دھیرے بتانے لگی۔
٭....٭....٭
جند وڈا ،رشتے میں پیروزاں کا چاچا زاد تھا، جسے مقامی زبان میں” پتریر“ کہتے ہیں۔اسکی اٹھتی ہوئی جوانی ہر کسی کی نگاہ میں تھی۔ گورا چٹا رنگ ، گلابی ہونٹ اور بھورے مائل سیاہ بال، دیکھنے والے کو اس کی طرف متوجہ کرلیتے تھے۔ وہ دنوں ہی میں ہر طرف مشہور ہو گیا۔وہ کئی برسوں سے اونٹ ریس جیتتا آیاتھا۔ وہ جب اپنا ریوڑ چراتا وہاں سے دور نکل جاتا تو اس کی بانسری کی آواز اس کے ہونے کا احساس دلاتی رہتی۔ نجانے کب اور کس وقت اس کی نگاہ پیروزاں پر پڑی ۔ وہ اسے پسند کرنے لگا۔ اس نے اپنے باپ سے رشتہ لے کر جانے کو کہا تو اس کے باپ نے انکار کر دیا۔ 
اسے انکار کرنا ہی تھا۔ ایک تو اس کے پاس ”وَٹّہ“ نہیں تھا۔ وہ اگر پیروزاں کا رشتہ مانگتا تو بدلے میں اس کے پاس دینے کے لئے رشتہ نہیں تھا ۔ دوسرا ان دونوں بھائیوں کے درمیان کافی عرصے سے رنجش چل رہی تھی۔ باپ مرنے کے بعد ان دونوں بھائیوں میں جائیداد کا تنازعہ تھا جو حل ہونے ہی میں نہیں آ رہا تھا۔ جبکہ جند وڈا اور پیروزاں کے درمیان محبت بڑھتی ہی چلی گئی۔ وہ ان بھائیوں کے جھگڑوں سے بے نیاز اپنی الگ سے دنیا بسانے کی فکر میں تھے۔
جند وڈا کا باپ مان ہی نہیں رہا تھا۔ جب بھی جندوڈا اپنے باپ سے کہتا، اس کا یہی جواب ہوتا کہ میںکس منہ سے جاﺅں،وہ نہیں مانے گا ۔ اس کا انکار سننے سے بہتر ہے کہ اس سے رشتہ مانگا ہی نہ جائے۔ اسے کوئی ایسا راستہ بھی تو دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ اُن دونوں بھائیوں کے درمیان صلح کو کوئی راستہ نکل آئے۔ اب کوئی ایسا فرد ہوتا جو ان دونوں کے لئے قابل احترام ہوتا اور ان کے درمیان صلح کرواتا اور رشتے کی یہ بیل منڈھے چڑھتی۔ ایسا کوئی شخص ان کے درمیان نہیں تھا۔
ایک دن پیروزاں کے باپ کو بھنک مل گئی کہ اس کی بیٹی اپنے پتریر جندوڈا میں دلچسپی رکھتی ہے۔ تب اس نے آﺅ دیکھا نہ تاﺅ، فوراً ہی اس کے رشتے کی بات طے کردی۔ انہوں نے نہ صرف وَٹّہ دینا تھا بلکہ زمین بھی پیروزاں کے نام لگوانے کا عندیہ دے دیا۔ کیونکہ ایسا ہی کچھ انہوں نے اپنی بیٹی کے لئے بھی چاہا تھا۔ پیروزاں کا رشتہ دے کر مہر خدا بخش نے ان کی بیٹی لینا تھی۔ بات دنوں میں ہو ئی اور شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ وہ سب اس بات سے بے خبر رہے کہ جند وڈا اور پیروزاں نے اپنا فیصلہ کر لیا ہے۔
شادی سے تین دن پہلے، رسمیں شروع ہونا تھیں۔ اس رات چاندنی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ پیروزاں آدھی رات کے قریب اٹھی اور باڑے میں چلی گئی۔ وہاں سے اس نے اونٹ کھولا اور اس پر بیٹھ کے اس جانب چل دی، جہاں جندوڈا سے ملناطے ہوا تھا۔ وہ تیزی سے اونٹ بھگاتی اس طرف چلی جا رہی تھی۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کی نگرانی بھی ہو رہی ہے۔ اس کے پیچھے لوگ لگ گئے۔ مخصوص مقام پر جند وڈا اس کا منتظر تھا۔ وہ پہلے ہی اپنے اونٹ پر تھا۔ اس نے پیروزاں کو اپنے اونٹ پر بٹھایا اور شہر کی جانب چل دیا۔ جندوڈا نے سارے انتظام کر لئے تھے۔ شہر میںاس کا دوست تھا۔ ان دونوں نے وہاں جانا تھا، وہیں انہوں نے شادی کرنا تھی اور پھر وہ کراچی نکل جانے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جو ان دونوں پرسکون اور غریب پرور شہر تھا۔ جو ہر طرف سے آئے لوگوں کو اپنے آپ میں سمو لیتا تھا۔اس وقت انہیں اپنے تعاقب کا پتہ چلا جب اچانک ہی کافی سارے اونٹ آتے ہوئے دکھائی دئیے۔بھاگنے کے سوا ان کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا۔ جندوڈا اونٹ ریس کا ماہر تھا ، اسے یقین تھا کہ وہ کچھ ہی دیر میں ان کی دسترس سے باہر چلا جائے گا۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے تعاقب میں آنے والے اسلحہ بھی ساتھ لے کر نکلے ہیں۔ جیسے ہی تعاقب کرنے والوں کو یہ احساس ہوا کہ وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے، انہوں نے فائرنگ شروع کر دی۔ وہ دونوں ممکن حد تک پہلے ہی اونٹ بھگا رہے تھے، اس سے زیادہ نہ اونٹ بھاگ سکتا تھا نہ وہ بھگا سکتے تھے۔ اگر کہیں اونٹ گر جاتا تو ان کی موت یقینی تھی۔ وہ دونوں اپنی محبت کی بازی جیتنے کے لئے ان سے بہت دور چلے جانا چاہتے تھے۔ جبکہ تعاقب کرنے والے بھی انہیں جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ اچانک ایک فائر جند وڈا کو آ لگا۔ اس کے حلق سے اونچی اور درد ناک کراہ نکلی ۔ اسے یوں لگا جیسے کسی نے اس کے بدن میں انگارے بھر دئیے ہوں۔ باوجود خود پر قابو پانے کے کچھ دیر ہی میں اس کے حواس جواب دینے لگے ۔اسے اپنی موت یقینی دکھائی دینے لگی۔
” پیروزاں۔! میرے بچنے کی امید نہیں رہی۔“ اس نے کراہتے ہوئے کہا
” اب کیا کریں جندوڈا؟“ اس نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا 
” میں تجھے ان کے حوالے کر تو دوں، مگر انہوں نے تجھے بھی مار دینا ہے، میں تو مر رہا ہوں، تجھے نہیں مرنے دوں گا۔ “ جندوڈ انے کہا اور اپنی ساری توجہ اونٹ بھگانے پر لگا دی۔اچانک انہیں دور سے روشنی دکھائی دی۔ جندوڈا کی تیز نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ وہاں ضرور کوئی نہ کوئی پڑاﺅ ہے۔ اسے کافی حد تک حوصلہ ہوا کہ شاید زندگی بچ جائے۔ وہ ان کے پاس جا پہنچا۔
وہ نوجوان تھے اور وہ بھی مقابلہ کے لئے تیار تھے۔ ان کے پاس بھی اسلحہ تھا۔ انہوں نے شاید یہی سمجھا تھا کہ کچھ لوگ ان پر حملہ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مزاحمت کے لئے تیار تھے۔ جندوڈا نے پیروزاں کو ان کے حوالے کیا اور وہیں جان دے دی۔ وہ لڑکے پیروزاں کو لے کے شہرآگئے۔ 
 جن حالات میں بھی ہوئی، عظیم چوہدری اور پیروزاں کی شادی ہو گئی۔ اسے اچھا گھر مل گیا تھا۔ اس نے قسمت کا لکھا قبول کیا اور وہیں رہنے لگی۔ اس نے پلٹ کر روہی جانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ اسی دوران وہ ماں بننے والی ہو گئی۔ دن گذرتے گئے اور اس کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا ۔ وہ اپنی زندگی سے خوش اور مطمئن تھی۔لیکن شاید قسمت کو ایسا منظور نہیں تھا۔ ایک شام وہ شاپنگ کے لئے بازار میں تھے کہ اسے اغوا کر لیا گیا۔ اُسے یوں بے دردی سے گاڑی میں پھینکا گیاتھا کہ وہ دہشت سے بے ہوش ہو گئی۔ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ لوگ کب اسے بستی میں لے آئے ہیں۔اسے جب ہوش آیا تو وہ اپنے باپ کے گھر کے ایک کمرے میں فرش پرپڑی تھی۔ وہ ساری رات اسی کمرے میں بھوکی پیاسی بیٹھی رہی۔کوئی اُسے پوچھنے تک نہیں آیا۔
اگلی صبح جو اسے پہلا چہرہ دکھائی دیا ، وہ اس کی ماں کاتھا۔وہ دونوں چند لمحے تو ایک دوسرے کو دیکھتی رہیں، پھر ایک دوسرے کے گلے لگ کر رونے لگیں۔ وہ بہت ساری باتیں اس سے کرنا چاہتی تھی لیکن کر نہیں پائی۔ماں کو خوف ہی لگا رہا کہ کہیں اس کا شوہر نہ آجائے۔ وہ اسے ویسے ہی کمرے میں چھوڑ کر پلٹ گئی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ اس کے باپ اور بھائی کے ساتھ اس کے منگیتر کا باپ بھی اسی کمرے میں آگئے۔ اس کے باپ نے کھڑے کھڑے ہی کہا
” پیروزاں۔! تم نے میری عزت گنوا کر اچھانہیں کیا۔ پوری روہی میں ذلیل وخوارکر کے رکھ دیا ہے۔ پر جندوڈا کہ موت سے تھوڑا ازالہ ہو گیا تھا۔“ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہا پھر کہتا ہی چلا گیا،” تیرے بھائی خدا بخش کی شادی تیرے منگیتر کی بہن سے ہو گئی ہے، اس کا ایک بچہ بھی ہے۔ تو نے اپنے بھائی کے وٹّے پر جانا تھا، اور اب تو جائے گی، تیری شادی تیرے منگیتر ہی سے ہوگی۔“ 
اس کے باپ نے فیصلہ سنا دیاتو وہ تڑپ اٹھی۔
” بابا آپ کو بھی پتہ ہے کہ میں شادی شدہ ہوں، میرا بھی ایک بیٹا ہے۔ میں نکاح پر نکاح کیسے کر سکتی ہوں۔“ اگرچہ اس نے یہ غصے میں کہا تھا لیکن اس کا لہجہ مودب تھا۔
” تو چلو ٹھیک ہے، یہ جھنجھنٹ بھی ختم کر دیتے ہیں۔ لیکن یاد رکھو، تجھے اپنے منگیتر کے ساتھ شادی کرنا ہوگی۔“
” نہیں بابا، مجھے جانے دو، میں اب یہاں نہیں رہ سکوں گی ، میں اپنے گھر میں خوش ہوں، میرا بیٹا تڑپ رہا ہوگا۔“ پیروزاں نے درد مندانہ لہجے میں منّت کرتے ہوئے کہا، وہ ہاتھ جوڑتے ہوئے کھڑی ہوگئی ،جسے اس کے باپ نے ایک نگاہ بھی دیکھنا گورا نہیں کیا اور باہر نکل گیا۔ وہ اپنا فیصلہ سنا چکا تھا۔کچھ دیر بعد ملازمہ کے ہاتھ کھانا بھجوا دیا گیا۔ پھرشام تک اس کے کمرے میں کوئی نہیں آیا۔
اس وقت سورج ڈھل چکا تھا جب اس کی ماں کھانا لے کر آئی۔ صبح کا کھانا ویسے ہی پڑا ہوا تھا اور وہ نڈھال سی فرش پر پڑی تھی۔
” تو نے کھا نا ہی نہیں کھایا،کھانا تو کھا لے بیٹی۔“ ماں نے کہا تو تڑپ کر اٹھی اور عجیب سے لہجے میںبولی۔
” کیوں کھا لوں، کیوں لائی ہو میرے لئے کھانا؟“
” بیٹی تو نے کل سے کچھ نہیں کھایا، صبح کو بھی ویسے ہی پڑا ہے ، میں برداشت نہیں کر پا رہی ہوں کہ تو بھوکی رہے میری بیٹی۔“ ماں نے دُکھے ہوئے دل سے کہاتودھاڑتے ہوئے بولی
” اور وہ معصوم جو میری راہ تک رہا ہے، اس کا کیا ہوگا، تیرا کیا خیال ہے ماں ، اس نے کچھ کھا لیا ہوگا، نہیں اس کا تو رُو رُو کے بڑا حال ہو گیا ہوگا۔ ماں مجھے جانے دے، میرا بیٹا تڑپ رہا ہوگا۔“ پیروزاں نے فریاد کرتے ہوئے کہا۔ اس کے یوں کہنے پر اس کی ماں ایک دم سے پھوٹ پھوٹ کر رو دی، پیروزاں اسے حیرت سے دیکھنے لگی، اسے اچانک کیا ہوگیا، تبھی اس نے اپنی ماں سے پوچھا
” کیا ہو گیا ہے ماں تجھے، مجھے یہاں سے جانا ہے، کچھ کر۔“
تب اس کی ماں نے اپنی آنسوبھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور بڑی ہمت کرکے بولی 
” پیروزاں، میں کیسی بدقسمت ماںہوں، میںتیرے ملنے پر خوشی کا اظہار کروں یا تیرے شوہر او ر بچے کے قتل ہو جانے کا ماتم کروں؟“
اس نے کہا تو پیروزاں کے حواس مختل ہو گئے۔ وہ ہونقوں کی طرح اپنی ماں کو دیکھنے لگی۔ جیسے اسے سمجھ ہی نہ آئی ہو کہ اس نے کہا کیا ہے، یا پھر وہ سراسر جھوٹ بول رہی ہے ،وہ جو کچھ بھی کہہ ہی ہے اس کا ذہن قبول ہی نہیں کر رہا تھا۔ اچانک وہ چیخ کر بولی 
” نہیں اماں، ایسا نہیںہو سکتا؟“
” ایسا ہو گیا ہے پتر، ان ظالموں نے انہیں قتل کر دیا ہے، ابھی ذرا دیر پہلے تیرے بھائی نے مجھے بتایا ہے۔“ اس کی ماں نے دلدوزانداز میں کہاتو نہایت غصے میں بولی
” کیوں، ایسا کیوں کیا انہوں نے، میں اِن کی مجرم ہوں، اُن بے چاروں کا کیا قصور تھا، اس لئے کہ انہوں نے مجھے پناہ دی، ان درندوں کے ہاتھوں سے بچایا۔ چلو مان لو کہ میرے شوہر کا بھی قصور تھا، لیکن میرے معصوم بچے کاکیا قصور تھا، بولوماں کیوںکیا انہوں نے ایسا؟“ وہ جگر پاش آنسو روتے ہوئے سوال کرتی رہی، مگر اس کا جواب دینے والا کوئی نہیں تھا۔ وہ خاموش تھی۔ خدا بخش نے ہی اپنی ماں سے کہا کہ پیروزاں سے جا کر کہہ دو کہ اس کے شوہر اور بچے کا مار دیا گیا ہے۔ کتنی ہی دیر تک وہ پاگلوں کی طرح بیٹھی رہی، پھر وہ ساری رات اپنوں کے بچھڑ جانے کا ماتم کرتی رہی مگرکوئی اس کا پرسانِ حال نہیں تھا۔
 اگلی صبح اس کمرے میں اس کا باپ ، بھائی، بھابی، اور ماں گئے۔ جاتے ہی باپ نے کہا
” پیروزاں۔! مرنے والے مرگئے، یہ ان کی قسمت تھی۔ ہم نے انہیں سزا دے دی ہے۔ اب وہ تو اس دنیا میں نہیں ہے، چاہو تو جا کر دیکھ سکتی ہو، ان کے جنازے میں شریک ہو سکتی ہو۔“ اس کے باپ نے بے رحمی سے کہا تو وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔ تبھی اس کے باپ نے کہا،” چاہو تو اس گھر میں رہو، عدت پوری ہونے کے بعد تیری شادی کر دیں گے۔“
ایک بار پھر اس کا باپ اپنا فیصلہ سنا کر چلا گیا۔ وہ ایک لفظ بھی نہ کہہ سکی۔اسے روایات بھری اس دنیا سے نکل جانے کی کوشش پر اتنی بڑی سزا ملے گی، یہ اس نے سوچا بھی نہیں تھا ۔
’ تقریباً ایک ماہ کے بعد تک پیروزاں پر پہرے رہے، لیکن وہ خود بھی بے حال تھی۔ جب پیروزاں سوچنے سمجھنے کے قابل ہوئی تو اس نے سوچا، ایک اس پر عدت مسلط کی گئی تھی ، جس کی وجہ سے میں کہیں جا بھی نہیں سکتی تھی۔ اس پر پہرا بھی تھا۔ وہ معلو م ہی نہ کر سکی۔ بہت بعد میں ،جب وہ خود شہر گئی تو اسے پتہ چلاکہ وہ لوگ تو اسی دن وہاں سے چلے گئے تھے،کہاں گئے یہ کسی کو معلوم نہیں تھا، کسی محلے والے نے اس دن کے بعدسے اس کے بیٹے اور شوہر کو نہیں دیکھا تھا۔ پیروزاں نے اسے رب کی رضا سمجھا اور اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کرخاموش ہو گئی۔
وہ بستی نور دین ہی میں رہنے لگی۔وقت گزرتا گیا لیکن اس کے منگیتر کی طرف سے کبھی ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ وہ اس سے شادی کرے۔ دونوں طرف سے خاموشی رہی اور برس ہا برس گذر گئے۔ اس دوران اس کے ماں باپ چل بسے۔ بظاہر وہ آزاد تھی ،لیکن اب اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
پیروزاں پر تو اس وقت حقیقت کھلی، جب لوگوں کے درمیان چہ میگوئیں ہونے لگیں تھیں۔ لوگوں نے جا کر بتایاکہ جنید کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ بہت امیر آدمی ہے ۔ تب نجانے کیوں وہ بے چین ہو گئی۔ اس نے بہت سوچا کہ اس کی حقیقت کیا ہے ۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ بابا سائیں کے سوا کوئی دوسرا بندہ جنید کے بارے میں جانتا ہوگا وہ سیدھی بابا سائیں کے پاس چلی گئی۔اس نے سوال کیاتو بابا سائیں نے اس سے پوچھا
” کیا تو جانتی ہے جنید کون ہے؟“
” یہی تو آپ سے پوچھنے کے لئے آئی ہوں۔“ پیروزاں نے کہا
”ہاں۔! میں جانتا ہوں کہ جنید کون ہے۔“
” تو بتاﺅ نا، سائیں بابا وہ کون ہے،کس خاندان سے ہے۔“
” تو پھر دلپر ہاتھ رک کر سنو، وہ تیرا ہی بیٹا ہے، اور وہ یہاں صرف تیری خاطر ہی آیا ہوا تھا۔تجھے لینے کے لئے۔“ 
سائیں بابا کے لفظ سن کر وہ حیرت سے بت بن گئی۔ کتنی دیر تک تو اسے یقین ہی نہیں آیا لیکن یہ ایسی خبر تھی جس نے اس کی دنیا بدل کر رکھ دی تھی۔ اسے یہ سمجھ ہی نہیں آئی کہ وہ خوشی کا اظہار کرے یا اپنی قسمت پر پھوٹ پھوٹ کر رو دے ۔ بابا سائیں سے سن لینے کے بعد اب یقین نہ کرنے کی کنجائش رہی ہی نہ تھی۔
” بابا سائیں میرا پتر۔!“ برسوں بعد جب اس کے لبوں پر پتر کا لفظ آیا تو مامتا اندر تک ٹھنڈک سے بھیگ گئی۔ 
” تیرے بیٹے اور شوہر کو کسی نے نہیں مارا تھا۔ ہاں مگر خدا بخش وغیرہ ایسا چاہتے تھے کہ اگر پیروزاں نہ مانی تو انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ لیکن بعد میں تو نے کو ئی مزاحمت نہیں کی اور نہ ہی وہ اس شہرمیں ملے، اسلئے خاموشی چھا گئی۔ تیرے منگیتر نے بھی اس لئے تم سے شادی نہیں کی کہ نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتاتھا۔“
” تو اس کا مطلب ہے جنید میرا بیٹا ہے؟“ پیروزاں نے بھابھی سے پوچھا
” ہاں ۔! اب یہ بات واضح ہو گئی ہے۔ جاﺅ، یہ تو تجھے خوشیاں نہیں دے سکے، تو اپنے بیٹے کو ہی خوشیاں دے دے۔“ بابا سائیں نے اسے سمجھایا تو وہ اس کے لئے سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ انہیں تلاش کہاں کرے۔
”بابا سائیں۔! میرے ساتھ چلو،مجھے بتاﺅ میرا پتر کہاںہے؟“ پیروزاں بے تاب ہو گئی۔تبھی اس نے ہی اسے فروا کے پاس جانے کو کہا اور اس کے ساتھ ایک بندہ بھیج دیا۔ وہ سیدھی چینل آ گئی۔
٭....٭....٭
” خدا کے لئے ، میرا بیٹا مجھے ملوا دو۔ وہ اب ٹھیک تو ہے نا؟“ پیروزاں نے یوں کہا جیسے اس کی مامتا اندر سے بلک رہی ہو۔
’ ہاں وہ ٹھیک ہے۔اورہم ابھی چلتے ہیں۔ میں اس سے ملوادیتی ہوں۔اب فکرنہ کرو۔“فروا نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا تو وہ کافی حد تک پر سکون ہو گئی۔ کچھ دیر بعد فروا اپنے ساتھ پیروزاں کولئے اپنے گھر کی طرف جار ہی تھی۔ اسے فون پر بتا دیا گیا تھا کہ جنید کو ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا گیا ہے۔ 
وہ اپنے گھر پہنچی تو اسے ملازمین سے پتہ چلا کہ جنید کس کمرے میں ہے۔ وہ پیروزاں کو لئے سیدھی اس کمرے میں چلی گئی، جہاں اس کی ماما اور نرس پہلے ہی سے موجود تھے۔ جنید کو معلوم ہو گیا تھا کہ اس کی ماں فروا کے ساتھ آرہی ہے۔ وہ اسی کے انتظار میں تھا۔ پیروزاں کمرے میں داخل ہوئی اور بیڈ پر پڑے جنید کو یوں دیکھنے لگی جیسے پہلی بار دیکھ رہی ہو۔جنید نے تڑپ کر اٹھنے کی کوشش کی تو بدن سے اٹھنے والی ٹیسوں کی وجہ سے بے ساختہ اس کے منہ سے کراہیں نکل گئیں۔
” ماں صدقے پتر۔۔۔“ پیروزاں تڑپ کر آگے بڑھی اور اسے سنبھالتے ہوئے ،گلے سے لگا لیا پھر جو آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگی تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ جنید بھی رُو رہا تھا۔ جب کچھ دیر بعد یہ طوفان تھما تو پیروزاں اس کی آنکھیں صاف کرتے ہو ئے بولی 
” تو نے مجھے آتے ہی کیوں نہیںبتا دیا کہ تم میرے پتر ہو ، تجھے دیکھ کر دل تو دھڑکتا تھا، مگر کیا کرتی ، میرے اپنوں ہی نے مجھے دھوکا دیا میرے بیٹے۔“ پیروزاں انتہائی جذباتی انداز میں کہہ ہی تھی۔ تبھی جنید نے کہا
” جو کچھ ہونا تھا وہ ہو گیا ماں، اب بس آپ نے کہیں نہیں جانا، میرے پاس رہنا۔“
” میں تیرے پاس رہنے ہی کو تو آئی ہوں میرے بیٹے۔ اب ہمیں کوئی الگ نہیں کر سکتا۔“ اس نے روتے ہوئے کہا تو جنید اسے دلاسہ دینے لگا۔ فروا آگے بڑھی اور پیروزاں کو ایک کرسی پر بٹھا دیا۔ پھر نرس کو باہر آنے کا اشارہ کر کے وہ اپنی ماما کے ساتھ کمرے سے چلی گئی۔ وہ چاہتی تھی کہ ماں اور بیٹا کھل کر باتیں کر لیں۔
وہ اک الوہی شام تھی۔ فضا میں ایسی خوشی کا تاثر تھا ، جیسے کسی کے زخموں پر مسکراہٹ کا پھاہا رکھاجا چکاہو۔جنید ،پیروزاں اور عظیم چوہدری کئی برسوں کے بعد پھر سے مل گئے تھے ۔وہ جنید ہی کے کمرے میں تھے۔ فروا اور اس کے ماما پاپا بھی وہیں چلے گئے۔ پھر باتوں کا سلسلہ تھا کہ دراز ہوتا چلا گیا۔ اک سکون ان کی زندگی میں اتر آیا تھا۔لیکن جنید کو پوری طرح سکون نہیںتھا،اسے مہرو شدت سے یاد آ رہی تھی، جس کا وہ اظہار نہیں کر رہا تھا۔
٭....٭....٭
 پیروزاں کو روہی سے آئے ہوئے ہفتہ گذر چکا تھا۔ وہ جنید کی دیکھ بھال میں ہی الجھی ہوئی تھی، اسی لئے زیادہ ادھر ادھر توجہ نہیں دی تھی۔ اس کے علاوہ کوئی دوسرا اسے دکھائی ہی نہیں دے رہا تھا۔عظیم چوہدری اب واپس لندن جانے کے لئے پر تول رہا تھا۔وہ چاہ رہا تھا کہ پیروزاں اور جنید کو بھی اپنے ساتھ ہی لیتا چلا جائے۔ فروا اب معمول کے مطابق اپنے چینل جانے لگی تھی۔ماحول میں ایک طرح کی خاموشی آ گئی تھی۔
 اس دن فروا اپنے آفس میں تھی کہ اس کا فون بج اٹھا۔ اس نے فون رسیو کیا تو دوسری طرف سے کسی اجنبی کی آواز میںپوچھا گیا۔
کیا تم فروا ہی ہو؟“
” جی، آپ کون؟“ اس نے پوچھا
” میں خدا بخش بات کر رہا ہوں۔ پیروزاں کا بھائی اور مہرو کا باپ۔ پہچان گئی ہو نا کہ میں کون ہوں؟“
” جی ، جی میں پہچان گئی، آپ بات کریں۔“ فروا نے تیزی سے کہا تو وہ ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا
” تم یہاںر وہی میں اور میرے گھر میں آئی تھی۔ تمہیں اس طرح آنے کی اجازت صرف اس لئے دی گئی تھی کہ تم ایک صحافی کی حیثیت سے آئی تھی۔ اس لئے تمہیں عزت بھی دی گئی۔لیکن اب تمہاری وہ حیثیت نہیں رہی۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔“
” میں سمجھی نہیں کہ آپ کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔“ فروا سمجھ تو گئی کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے لیکن پھر بھی بنتے ہوئے کہا
” تم ہر بات اچھی طرح سمجھتی ہو۔پیروزاں اپنے بیٹے اور شوہر کے پاس چلی گئی کیونکہ وہ تمہاری وجہ سے گئی اور اب وہ تمہارے گھر میں ہے۔ اس سارے معاملے میں تم اور تمہارا باپ شامل ہو،کیا میں غلط کہہ رہا ہوں؟“ دوسری طرف سے خدا بخش نے خود پر قابو پاتے ہوئے غصے میں پوچھا
” وہ میرے پاس خود آئی اور میں نے ہی اسے جنید سے ملوایا، اور اب وہ میرے گھر ہی میں ہے۔ “ فروا نے صاف لفظوں میں کہہ دیا تو وہ بولا
” تو پھر سن لو۔! آج شام تک پیروزاں واپس روہی اپنے گھر آ جائے تو ٹھیک، میں سب بھول جاﺅ گا۔ لیکن اگر وہ نہ آئی تو اس کی ذمے دار تم ہو گی یا پھر تمہارا باپ۔ اب فیصلہ تم کر لو یا تمہارا باپ کر لے۔ ہمارے مجرم تم لوگ ہو۔“
” آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں، کیا آپ نہیں سمجھتے تھے کہ آپ قانون کی نظر میں مجرم ہیں، آپ نے کل بھی جرم کیا تھا اور آج بھی جرم کی راہ پر چل رہے ہیں۔ ہوش کریں اور....“
” زبان کو لگام دو لڑکی، میں تمہیں پیار سے سمجھا رہا ہوں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم مجھے سبق پڑھانا شروع کر دو۔ ہمای اپنی روایات ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ اپنی عزت کی حفاظت کیسے کی جاتی ہے۔ میں نے تمہیں فون اس لئے کیا کہ ایک بار تم لوگوں کو پیار سے سمجھا دوں، ورنہ تم نہیں جانتی کہ ہماری دشمنی کیسی ہو تی ہے۔ اپنے باپ کو بتا دینا کہ میرے ساتھ دشمنی مہنگی پڑے گی۔“
” آپ ایسا کچھ نہیں کر سکیں گے، ہم کوئی جنگل میں نہیں بستے ، قانون سب کے لئے ایک جیسا ہوتا ہے۔“ فروا نے کسی خوف سے بغیر کہا تو اسی لہجے میں بولا
” لیکن بندوق سے نکلی ہوئی گولی کوئی قانون نہیں جانتی، وہ تو صرف نشانے پر لگتی ہے۔ تم اپنے خاندان کے فقط تین لوگ ہو ، اور صرف تین گولیاں، ہمیں نہ قانون پڑھنے کی ضرورت ہے او نہ سیکھنے کی، اور اگر تم لوگوں نے بھی قانون دکھانے کی کوشش کی تو اس کا خمیازہ بھی بھگت لو گے۔ اس لئے آج کا دن غنیمت جانو اور پیروزاں کو واپس بھیج دو۔ میں انتظار کروں گا۔ ورنہ میں سمجھ لوں گا کہ تم لوگ ہم سے دشمنی چاہتے ہو۔ “ خدا بخش نے کہا اور فون بند کر دیا۔ 
فروا ایک دم ہی سے ڈسٹرب ہو گئی۔ وہ تو اپنے تئیں یہ سوچ بیٹھی تھی کہ جنید کو اپنی ماں مل گئی اور وہ اسے لے کر چلا جائے گا۔ لیکن خدا بخش کی دھمکی سارے معاملات بگاڑ دینے کے لئے کافی تھی۔ اس نے چند لمحے سوچا اور اپنے پاپا کو فون کر کے خدا بخش کے فون کے بارے میں بتایا تو اس کے پاپا نے اسے فوراً گھر بلالیا۔ 
 وہ اسی وقت اپنے گھر پہنچی ۔ سبھی جنید کے کمرے میں موجود تھے۔ اسے پاپا کافی پریشان دکھائی دئیے ۔ عظیم چوہدری بھی وہیں موجود تھا۔ اور اس کا بھی یہی حال تھا۔ وہ بیٹھی تو اس کے پاپا نے الجھتے ہوئے کہا
” فروا۔! بیٹا اب ذرا تفصیل سے بتاﺅ کہ خدا بخش سے تمہاری کیا بات ہو ئی ہے۔“
پاپا کے کہنے پر اس نے تفصیل سے بتایا، جیسے پیروزاں اور اس کی ماما نے بھی سنا۔ ساری بات سن کرجنید بولا
” کیا خیال ہے انکل، ہمیں قانون کا سہارا لینا ہو گا؟ “
” نہیں بیٹا۔! یہ ماحول ویسا نہیں جیسا تم سمجھتے ہو۔ جس وقت تم یہ ثابت کرو گے کہ پیروزاں تمہاری ماں ہے، اسی وقت تمہیں جندوڈا کے قتل کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اس فائل کو کھلنے میں اتنا زیادہ وقت نہیں لگے گا۔“ پاپا نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو عظیم چوہدری نے کہا
 ” ہم لوگ جو لندن جانے کے بارے میں سوچ رہے ہو۔پھر بہت مشکل ہو جائے گی۔ ہم ابھی یہاں سے چلے بھی جائیں تو ان کی دشمنی تمہارے انکل کے ساتھ ہو جائے گی۔ اور میں ایسا کبھی نہیں چاہوں گا۔“
” تو پھرمیرے خیال میں یہ مسئلہ آنکھیں چرانے سے حل نہیں ہوگا۔ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہو گی۔“ جنید نے کہا تو فروا بولی
”صرف قانون کا سہارا لینے سے بھی یہ معاملہ حل ہونے والا نہیں۔ وقتی طور پر تو سب ٹھیک ہو جائے گا لیکن بات ختم نہیں ہوگی۔ اور پھر آپ مہرو کو کیسے بھول سکتے ہیں جو روہی میں جنید کے انتظار میں ہے۔ کیا آپ لوگ خود غرض نہیں ہوں گے کہ اسے بھول جائیں۔“
” فروا، میں مہرو کوکبھی بھی نہیں بھول سکتا ہوں۔ میں نے یہی سوچا تھا کہ ماں اور پاپا کو لندن بھیج دوں اور خود پھر بابا سائیں کے پاس دربار پر رہوں۔ میں اسے لئے بغیر نہیں جا سکتا۔“ جنید نے کہا تو سبھی اس کی طرف دیکھنے لگے۔ 
” تو اس کا مطلب ہے ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہی ہوگا اور اس کے لئے اب ہمیں بہت سوچنا پڑے گا۔“ پاپانے کہا تو عظیم چوہدری نے پیروزاں کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا
” خدا بخش نے جوتمہارے شام تک روہی میں پہنچنے کے بارے میں کہا ہے۔ اس میں وہ کہاں تک سنجیدہ ہو سکتا ہے ۔کیا یہ محض دھمکی ہے یا وہ اس پر کچھ کر بھی کر سکتا ہے۔“
”وہ بہت ضدی ہے، وہ اپنی پوری کوشش کرے گا کہ میںروہی میں ہی   ر ہوں ،اب وہ میری اس وقت تک حفاظت کرے گا ، جب تک میں اسے اپنی وراثت میں آنے والی جائیداد لکھ کر نہ دے دوں۔ اسے مجھ سے نہیںمیری نام جائیدادسے دلچسپی ہے۔ جو میرے باپ کی طرف سے مجھے مل چکی ہے۔“
عظیم چوہدری اس کی بات سن کر چونک گیا اور ایک دم سے بولا
” وہ اگر جائیداد کے عوض ، تمہیں آزادی دے سکتا ہے تو یہ سودا مہنگا نہیں۔ ہم اسے سب کچھ دے دینے کا کہہ دیتے ہیں۔ پھر تو میرا خیال ہے اسے پیروزاں سے کوئی دلچسپی نہیں ہوگی۔“
” ممکن ہے ایسا ہی ہو، لیکن کیا وہ مہرو کے بارے میں بھی مان جائے گا۔“ فروا نے پوچھا
” ظاہر ہے لالچی بندہ اور کیا چاہے گا۔ مہرو کے بارے میں جب ایسا ہی رویہ ہوگا تو مان جائے گا، پہلے بھی تو وہ جنید کے ساتھ مہرو کی شادی بارے مان گیا تھا۔“ عظیم نے کہا تو پیروزاں بولی
” ہم یہاں بیٹھ کر صرف سوچ سکتے ہیں، خدا بخش کے من میںکیاہے، وہ ہمیں نہیں معلوم ، میں صرف ایک بات جانتی ہوں،مہرو میرے جنید سے بہت محبت کرتی ہے۔ ہم اس کی طرف سے آنکھیں نہیں پھیر سکتے۔اتنے خود غرض نہیں ہو سکتے۔“ اس کے لہجے میں دردمندی کے ساتھ ایک التجا بھی تھی۔ تبھی پاپا نے تیزی سے کہا
” تو پھر کیا کریں۔ میں نہیںکہتا کہ مہرو کو چھوڑ دیا جائے، اس بے چاری کا کیا قصور،لیکن تم وہاں چلی گئیں تو معاملہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، ایک بار تو انہوں نے تمہیں معاف کر دیا پیروزاں، اس بار شاید۔۔۔“ یہ کہتے ہوئے پاپا نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی ۔ تو ان کے درمیان ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔
” یار سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔نہ قانون کا سہارا لے سکتے ہیں اور نہ ان سے دشمنی مول لے سکتے ہیں۔“ عظیم چوہدری نے کہا تو پاپا نے گہری سنجیدگی سے کہا
” تم فکر نہ کرو، میں اس شہر میں بیٹھا اتنا کمزور نہیں ہوں کہ خدا بخش جیسے شخص کا مقابلہ نہ کر سکوں، اگر ایسا ہوتا تو اب تک لُٹ گیا ہوتا۔ اب تم لوگ سکون سے رہو، میں دیکھتا ہوں کیا کرنا ہے۔“
” کیا کرو گے تم؟“ عظیم نے تیزی سے پوچھا
” میں وقت آنے پر بتا دوں گا۔“ پاپا نے سکون سے کہا اور اٹھ گیا۔ 
شام آئی اور گذر گئی۔ ماحول میں انتہائی قسم کا سکوت طاری تھا۔ پاپا کیا کر رہے ہیں، فروا کو اس کی خبر نہیں تھی۔ہر کوئی اپنی جگہ چپ تھا۔ فروا کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ جنید سے بہت ساری باتیں کرے۔ وہ اپنے طور پر کوئی حل نکالنا چاہ رہی تھی، مگروہ فقط سوچ کر رہ گئی۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کسی اور اہ پر لگ جائے۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ پاپا کیا کرتے ہیں۔وہ رات یونہی گذر گئی اوراگلی صبح ناشتے کی میز پر پاپا نے بتایا ۔ 
” فروا آج تم چینل تو جاﺅ گی، لیکن آج کے بعد بیٹا بہت محتاط ہو کر رہنا ۔ آج ہم اور ہمارے ساتھ کچھ لوگ روہی جا رہے ہیں۔“
” ہمارے ساتھ ، روہی۔۔۔مطلب؟“ فروا نے پاپا کے اچانک یوں کہنے پر بے ساختہ پوچھا
” بیٹا۔! میں ،اور تمہارے انکل عظیم کے ساتھ کچھ دوسرے لوگ بھی ہوں گے، وہ وہاں پہنچ رہے ہیں، ہم بھی چلتے ہیں۔“
”لیکن کیا کرنے؟“ فروا نے پوچھا
” میں نے سوچا ہے کہ ایک بار ان سے بات کر لی جائے۔ اگر وہ ہماری بات سمجھ جاتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ پھر وہ جس زبان میں بھی بات کریں گے، ہم کر لیں گے۔“ پاپا نے سخت لہجے میں کہا تو فروا ایک دم سے بے چین ہو گئی۔ 
” پاپا اس طرح تو ہم بھی انہی کی طرح لڑائی جھگڑے والی بات کریں گے۔“
” جب بات چیت سے مسئلہ حل نہ ہو تو مجبوری بن جاتی ہے۔ ہمیں ایسا کرنا ہی پڑے گا۔“ پاپا نے کہا تو جنید نے گہری سنجیدگی سے کہا
” میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گا۔“ 
” بیٹا ابھی تم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے، تم ابھی آرام کرو۔“ پاپانے کہا تو وہ دوٹوک انداز میں بولا
” انکل ،پلیز،ایسے وقت میں آپ مجھے منع نہ کریں پلیز، میں ٹھیک ہوں اور آپ کے ساتھ جا سکتاہوں۔“ اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ وہ منع نہ کر سکا ۔ کچھ دیر بعد وہ تینوں روہی کی طرف گامزن تھے۔
٭....٭....٭
دربار کے صحن میں سایہ دار درخت کے تلے دریاں بچھی ہوئی تھیں۔ درخت کے تنے کے ساتھ بابا سائیں گہری سوچ میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے روہی کے چند سرکردہ افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ ان سے ذرا ہٹ کر دائیں جانب خدا بخش اور اس کے رشتے دار موجود تھے۔ ان کے بالکل بائیں طرف پاپا ، عظیم اور جنید جا کر بیٹھ گئے۔ ان کے ساتھ شہر سے جو لوگ تھے ان میں ایک رکن قومی اسمبلی اور انتظامیہ کا ایک بندہ بھی تھا۔ وہ سنجیدہ لوگوں کی پنچائیت تھی، جس میں وہ حتمی بات کرنا چاہتے تھے۔تبھی بابا سائیں نے سر اٹھایا اوراپنے سامنے بیٹھے روہی کے سرکردہ بندوں کی طرف مخاطب ہو کر کہا
” بھائیو۔! آپ سب جانتے ہیں کہ یہاں ایک گھمبیرمسئلہ پیدا ہو گیا ہوا ہے۔ ہمیں اس مسئلے کو حل کرنا ہے، اسے الجھانا نہیں، مجھے پورا یقین ہے کہ یہ دونوں طرف سے آئے ہوئے لوگ بھی مسئلہ الجھانا نہیں چاہتے،ہم لوگ ان کی بات سنیں اور کوئی فیصلہ کر دیں۔ آپ میں سے تین لوگ چن لیں، مجھے یقین ہے ان بندوں کے فیصلے پر سب ہی آمین کہہ دیں گے۔“
ان کے یوںکہنے پر روہی کے تین سرکردہ افرد کو چن لیا گیا کہ یہ لوگ فیصلہ کریں گے۔ پھر دونوں طرف سے باتیں چلتی رہیں۔ وہی سارے واقعات دہرائے گئے۔ وہاں کوئی بندہ جھوٹ نہیں بول پایا کیونکہ ان واقعات کو سبھی جانتے تھے۔ ساری بات سن لینے کے بعد ثالث میں سے ایک بندے نے کہا
” پہلی بات پیروزاں کی ہے، وہ اپنے گھر چلی گئی، اور وہ اپنی مرضی سے گئی، اس پر زور زبردستی نہیں کی گئی۔ جند وڈا کا قتل جس نے بھی کیا، وہ اب ماضی کا حصہ بن گیا۔ میرا خیال ہے کہ اب نفرت کو بھلا دیا جائے اور اسے اپنے شوہر اور بیٹے کے ساتھ رہنے دیا جائے۔اس کے عوض وہ اپنے جائیداد کے حق کو چھوڑ دیتی ہے، کیا یہ فیصلہ خدا بخش تمہیں منظور ہے؟“
ثالث کے اس طرح پوچھنے پر سبھی نے خدا بخش کی طرف دیکھا۔ وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا
” مجھے جائیداد کا لالچ نہیں ہے، وہ پیروزاں کا حق ہے اسی کا رہے گا۔ مجھے یہ فیصلہ صرف ایک شرط کے ساتھ منظور ہے۔“
” وہ کیاشرط ہے؟“ ثالث نے پوچھا
”وہ شرط بھی نہیں ہے، بلکہ ہم سب روہی والوں کی روایات ہے اور یہ صدیوں سے چلی آ رہی ہے، ہم میں سے کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا۔ یہ مطالبہ ہے وَٹّے کا، پیروزاں کا وَٹہ کون دے گا؟“خدا بخش کے یوں کہنے پر ساری پنچائیت خاموش ہو گئی۔ کوئی بھی وَٹّے سٹّے کی روایت سے انکار نہیں کر سکتا تھا۔ سبھی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔تبھی کچھ دیر بعد دوسرے ثالث نے اس خاموشی کو توڑا
” خدا بخش اگر تمہارا یہ مطالبہ بات کو الجھانے کی کوشش ہے تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا ، لیکن اگر بات کو سلجھانا ہے تو یہ کوئی مطالبہ بنتا ہی نہیں ہے۔“
” وہ کیسے؟“ خدا بخس نے پوچھا
” وہ ایسے کہ پیروزاں کا وَٹہ تم نے لے لیا تھا۔ مگر تم نے اس کی شادی کہیں بھی نہیں کی۔ اس سے تمہارا جھوٹ کھلتا تھا۔ کیونکہ اس کا نکاح عظیم سے ہو چکا تھا، اور تم نے پیروزاں سے کہا کہ عظیم اور بچہ مر چکے ہیں۔پھر اس نے خود شادی کی ہے عظیم کے ساتھ۔اب بھی وہ خود گئی ہے ، اسے کوئی یہاں سے لے کر نہیں گیا۔ اس لئے یہ بھی روایت ہے کہ جو بھاگ جائے تو اسے قتل کردو یا پھر اس کے حال پر چھوڑ دو ، اس کا وَٹہ نہیں مانگتے۔ تم نے پیروزاں کا قتل نہیں کیا، اب اگر تم کوئی بات کرو تو قصور وار تم ہو۔ خدا لگتی تو یہی ہے۔“ دوسرے ثالث کی بات ختم ہوتے ہی وہا ں پر موجود ہر بندے کے چہرے پر یہ امید بر آئی کہ یہ معاملہ حل ہو جائے گا۔ خدا بخش کچھ دیر سوچتا رہا پھر سر اٹھا کر بولا 
” ٹھیک ہے میں آپ کی بات مان لیتا ہوں، پیروزاں کے وَٹے کا مطالبہ نہیںکرتا ۔ وہ اپنے گھر چلی گئی۔ لیکن یہ جو انہوں نے میری بیٹی مہرو کی عزت خراب کی ہے ۔ اسے پورے علاقے میں مشہور کر دیا۔ اسے اس حد تک پاگل بنا دیا کہ وہ احتجاج پر اتر آئی۔ کیا اس کا کسی کو احساس نہیں ہے؟“
اس کی بات سن کر دوسرے ثالث نے تحمل سے کہا
” ہے کیوں نہیں ہے۔لیکن اس میں بھی تو تم نے ہی رکاوٹ ڈالی، جنید اسے بھگا کر نہیں لے کر گیا تھا۔ بابا سائیں نے رشتہ مانگا تھا۔ بارات گئی تھی۔ اگر ایک دلہن، اپنے دلہا کے لئے احتجاج کرتی ہے تو یہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔“
” بابا سائیں نے غلط بیانی سے کام لیا تھا، اسے معلوم تھا کہ یہ جنید کس کا بیٹا ہے، پھر بھی اس نے مجھے نہیں بتایا۔ کیوں؟“ خدا بخش نے سوال کیا تو اس کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا، بابا سائیں کی طرف سب کی نگاہ اٹھ گئی۔ 
” ہاں۔!میں نے نہیں بتایا، آپ اسے میری غلطی مان لیں، جو مجھ سے ہوئی ،میں نے یہی چاہا تھا کہ یہ ان میں رہے گا، بہت اچھا لڑکا ہے، وہ ان میں جگہ بنا لے گا اور یہ خاندان ایک ہو جائے گا کسی خون خرابے بغیر۔“ بابا سائیں نے اعتراف کر لیا۔
” چلو رشتہ ہو گیا تھا۔ بارات بھی جا رہی تھی پھر تم نے جنید پر تشدد کیوں کروایا؟“ پہلے ثالث نے پوچھا
” ہاں اسکا جواب میں دیتا ہوں اور آپ سب سے اس کا جواب بھی چاہوں گا، پھر جو فیصلہ بھی ہو مجھے قبول ہوگا۔“
” ہاں ٹھیک ہے کرو بات۔“ ثالث نے کہا
” جس دن بابا سائیں نے اس لڑکے کے لئے مجھ سے رشتہ مانگا تھا، اسی دن سے مجھے اس پر شک ہو گیا تھا۔ میں نے اس کے بارے پتہ کروایا، تو مجھے مزید شک ہوا، اس کا رابطہ شہر سے تھا۔ اس کی ڈاک لانے والے بندے کو میں نے پکڑا اور اس سے مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ یہ کس کا بیٹا ہے۔ میرے پاس کوئی اور طریقہ نہیں تھا کہ ان لوگوں کو سامنے لاﺅں، اور یہ سب لوگ سامنے آگئے۔ اس وقت یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔اب میرا مطالبہ یہ ہے، میری بیٹی کو جان بوجھ کر کیوں ورغلایا گیا؟ اسے اس حد تک کیوں پاگل کیا گیا کہ وہ بھاگ کر شادی بھی کرسکتی تھی، جانتے بوجھتے ہوئے مجھے اس لڑکے کے بارے نہیں بتا یا گیا، کیوں؟“ خدا بخش نے شدت جذبات سے کہا اور پنچائت کے سب حاضرین کی طرف یوںدیکھا، جیسے ان سے جوب مانگ رہاہو۔ خدا بخش کے اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ خاموشی پھر سے چھا گئی۔ تبھی بابا سائیں اٹھے اور سب حاضرین کے سامنے کھڑے ہو گئے اور بولے
” یہ میری غلطی ہے اور میں اس کی معافی چاہتا ہوں۔ اس کی جو سزا ہو مجھے دی جائے اور میں وہ سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں، جبکہ میری نیّت ٹھیک تھی، جس کے بارے آپ سب کو بھی معلوم ہے۔“
اس کے یوں کہنے پر پاپا نے بابا سائیں کا ہاتھ پکڑا اور نہایت دردمندی سے کہا
” نہیں بابا جی آپ کیوں سزا بھگتے گے۔ ہم جو ہیں۔ خدا بخش ہم تمہارے ساتھ صلح کے لئے آئے ہیں، ہم خون خرابہ نہیں چاہتے۔ پنچایت سامنے ہے جو فیصلہ دے۔“ یہ کہہ کر وہ بابا سائیں کو لے کر بیٹھ گیا۔ تو پہلے ثالث نے پوچھا
” بولو خدا بخش کیا چاہتے ہو، یا ان کے لئے معافی ہے۔“
” نہیں، ان کے لئے معافی نہیں ہے۔ جس کی بیٹی کے ساتھ کوئی معاملہ ہوتا ہے وہی اس کادکھ جانتا ہے ،آپ میں سے کسی کی بیٹی کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا تو وہ جانتا کہ کسی باپ پر کیا بیتتی ہے۔ میرا ایک ہی مطالبہ ہے۔ میری ان سے ایک ہی صورت میںصلح ہے کہ میری بیٹی کا نام اس لڑکے جنید کے ساتھ آگیا ہے، مہرو نے بھی یہ باور کرا دیا ہے کہ وہ اسی کے ساتھ شادی کرے گی۔ لہذا یہ جنید، مہرو سے شادی کرے اور.... اس کے عوض وَٹّہ دے۔“ خدا بخش نے کہا تو رکن قومی اسمبلی نے بڑے عاجزانہ انداز میںکہا
” بھائی، ان کے پاس کونسا وَٹّہ ہے، جنید کی کوئی بہن نہیں ہے۔وہ کیسے....“
” تو جنید اپنی ماں دے دے۔اس کا باپ اسے طلاق دے، جس دن اس کی عدت ختم ہو آکر مہرو کو لے جائے۔“خدا بخش نے حتمی انداز میں کہا
” دیکھو خدا بخش یہ اب کیسے ممکن ہے، پیروزاں کو بھی جینے کا حق دے دو، وہ تمہاری بہن ہے۔ اس عمر میں تو اسے سکون لے لینے دو۔“ رکن اسمبلی نے پھر سمجھایا تو بولا
” ٹھیک ہے اس کی مرضی، وہ پیروزاں کا وٹّہ نہ دے، یہ جو اس کے ساتھ سب سے بڑے ہمدرد ہیں، یہ اپنی اس بیٹی کا وَٹّہ دے دیں، جو صحافی بن کر یہاں آئی تھی۔“ خدا بخش نے پاپا کی طرف اشارہ کر کے کہا تو وہ ایک لمحہ کے لئے کانپ گیا۔ جنید کے دماغ میں بھی خون جوش مار گیا۔ عظیم کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ تبھی اس نے غصے میں کہا
” میں اب تک خاموش تھا، لیکن تم حد سے بڑھ رہے ہو ، تم نے اس لڑکی کانام لیا ہی کیوں۔۔۔“
” میری بیٹی کا نام لینے والے تم لوگ کون ہوتے ہو ، اب کیوں خون جوش مار رہا ہے؟ دوسرے کی بیٹی ، بیٹی نہیں ہوتی۔ جاﺅ بھری پنچائت کے سامنے میرا یہی مطالبہ ہے۔ یا پھر مجھے جھٹلا دو یا پھر مجھے میرا حق دو۔“ خدا بخش نے انتہائی غصے میں کہا تو خاموشی طاری ہوگئی ، کسی کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ تلخ لمحے گذرے تو ثالثوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر اب تک خاموش ثالث نے کہا
” خدا لگتی تو یہی ہے کہ خدا بخش سچا ہے۔ اگر یہ لوگ پیروزاں کی معافی چاہتے ہیں تو اس کا مطالبہ ماننا ہوگا۔ مہرو کو بیاہ کر لے جانا ہوگااور اس کے عوض وَٹہ دینا ہوگا۔ ہمارا فیصلہ یہی ہے۔“ تیسرے ثالث نے کہا تو باقی دو نے بھی اس کے فیصلے کو مانتے ہوئے توثیق کر دی۔ پنچائےت نے اپنا فیصلہ دے دیا تھا۔سب کی نگاہیں عظیم پر جم گئیں تھیں۔ پاپا کا چہرہ سرخ ہو چکا تھا۔ انہیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کریں۔ تبھی ایک ثالث نے کہا
” ہمارا فیصلہ مانتے ہو یا نہیں؟“
” میں مانتا ہوں۔“ خدا بخش نے کہا تو انہوں نے عظیم چوہدری کی طرف دیکھ کر پوچھا
” اور تم لوگ؟“
”ہم بھی مانتے ہیں۔“
” تو بس پھر اب طے یہ کرنا ہے کہ آپ لوگ وَٹّہ کس کا دے رہے ہو اور کب مہرو کو بیاہنے آ رہے ہو۔“
” یہ ہم چند دن تک بتائیں گے۔“ عظیم نے یوں کہا جیسے وہ کوئی فیصلہ کر چکا ہو۔ پنچائت نے بابا سائیں کو ضمانتی مان لیا اور وقت دے دیا۔ساری بات بابا سائیں پر آگئی تھی۔ وہ ضمانتی تھے۔ایک ہفتہ مقرر ہو گیا تھا ۔جس میں انہوں نے بتانا تھا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔
٭....٭....٭
شام کے وقت وہ گھر لوٹے تو جنید سب سے زیادہ ڈسٹر ب تھا۔وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ صورت حال ایسی بن سکتی ہے۔پیروزاں ، ماما اور خود فروا شدت سے انتظار منتظر تھیں کہ وہاں پر کیا فیصلہ ہوا ہے۔وہ گھر آ کر سکون سے بیٹھ گئے تو فروا نے پوچھا
” پاپا ۔! بتائیں، پھر کیا فیصلہ ہوا ہے وہاںپر؟“
” بیٹا،وہ جو خدا بخش ہے، وہ صرف اپنی ضدپر اڑا ہوا ہے، اس کے علاوہ کچھ نہیں۔“پاپا نے دھمیے لہجے میں کہا تو جنید ایک دم سے بھڑک اٹھا
” نہیں انکل، وہ لوگ اگر اس طرح دھونس سے اپنی بات منوانا چاہتے ہیں تومیں ایسانہیں ہونے دوں گا۔“
” انہوں نے جو اپنی روایات کا سہارا لے کربات کی ہے نا، ہمیں اسے ضرور مدنظر رکھنا پڑے گا، اگر ہم نے یہ مسئلہ بات چیت سے حل کر نا ہے تو....ورنہ تو پھر لڑائی ہے، وہ لڑ لیں گے۔“ پاپا نے جوش سے کہا تو فروا نے پوچھا
” ایسی کون سی روایات ہیںان کی، کیا بات کی ہے انہوں نے؟“
فرو ا کے یوں پوچھنے پر پاپا نے ساری بات تفصیل سے بتا دی تو فروا ایک دم ٹھٹھک گئی، لیکن اسی لمحے پیروزاں بھڑک اٹھی 
” آج تک،میں خاموش رہی ، میں نے ہر ظلم سہے ہیں، لیکن اب میں خدا بخش کو ایسا کچھ بھی نہیں کرنے دوں گی۔“
اس پر عظیم چوہدری نے غصے میں کہا 
” کیا کرو گی تم؟ ہم نے وہاں پنچائیت میں بات کی ہے۔ انہیں صرف یہی بتا نا ہے کہ ہم کس کا وٹہ دے رہے ہیں۔ تمہیں طلاق دے روہی بھجوا دیں یا پھر مہرو کے بدلے ہمیں فروا کا رشتہ دینا ہوگا، بولو کیا کرو گی؟.... فروا کو تو ہم کہہ بھی نہیں سکتے ، یہ تو ممکن ہی نہیں ہے ۔ اور پھر یہ تو سرا سر تیرے بھائی کی خباثت ہے۔ وہ لوگوںمیں بھی اچھا بننا چاہتا ہے اور اپنی ضد بھی پوری کرنا چاہتا ہے۔۔ مجھے یہ شرط منظور نہیں۔ کسی بھی حالت میں.... میں اب تجھے واپس نہیں جانے دوں گا۔۔ اب یہ میری انا کا مسئلہ ہے۔“
” لیکن اس میں بے چاری مہرو کا کیا قصور؟“ فروا نے کہا
” تو بھگتے، مہرو کے باپ کو بھی پتہ چلے کہ بیٹی کس طرح تڑپتی ہے یا پھر وہ بھاگ کر آجائے۔پھر میں دیکھتا ہوں اسے قتل کرنے کون آتا ہے۔“ عظیم چوہدری نے غصے میں کہا
” انکل بات تو پھر لڑائی کی ہو گئی نا“ فروا نے تیزی سے کہا
” تو پھر ہو جائے،“ اس نے حتمی لہجے میں کہا
” سائیں۔! میں جانتی ہوں کہ مہرو اپنے جنید کے ساتھ کس قدر محبت کرتی ہے، وہ پاگل ہو جائے گی۔ وہ معصوم اور بھولی ہے۔ خدا کےلئے اب آپ ضد نہ کریں۔۔ میری زندگی تو تباہ ہو چکی ہے۔ مجھے اب یقین آ گیاہے کہ میرا بیٹا اور میرے سر کا سائیں زندہ ہے تو آس رہے گی کہ میں ان سے مل لوں گی۔ مجھے واپس جانیں دیں۔۔ مجھے آزاد کر دیں۔۔۔میں مہرو کی زندگی برباد نہیں کرنا چاہتی۔ کم از کم یہ تو اپنی زندگی....“
” نہیں ماں۔! وہ تو میرے لئے تڑپے گی تو کیا میں آپ کے لئے نہیں تڑپوں گا.... میں جو بچپن سے تڑپتا آیا ہوں ،اس کا حساب کون دے گا.... آپ، پاپا یا پھر میرا ماما؟“
” میں تمہارے جذبات سمجھتی ہوں میرے پتر، پر مہرو بے چاری کا کیا قصور؟“ پیروزاں نے انتہائی دکھ اور بے چارگی سے کہا
” میں نے اسے نہیں کہا تھا کہ وہ مجھ سے محبت کرے۔ اور پھر میری ماں پر ایسی کئی محبتیں قربان کر سکتا ہوں۔“ جنید نے کہا تو پیروزاں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا اور بولی
” جنید۔! اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہو ، کیا تجھے اس سے محبت نہیں ہے؟“
” اگر ہوگی بھی تو میں اپنی ماں کے عوض یہ سودا کبھی قبول نہیں کروں گا۔“ جنید نے واضح انداز میں کہا
’ ’ تو پھر کیا کریں جنید؟“ عظیم چوہدری نے حتمی لہجے میں پوچھا تو وہ بولا
” اماں سے پوچھ لیں۔ وہ کیا چاہتی ہیں۔ یہیں سے ہمارے ساتھ لندن جانا چاہتی ہیں یا پھر وہ مہرو کو لینا چاہتی ہیں، فیصلہ ان پر ہے؟“
پیروزاں ایک دم سے چکرا گئی۔ اس کے بیٹے نے اسے کس امتحان میںڈال دیا ہے۔سبھی کی نگاہیں اسی پر جمی ہوئیں تھیں۔وہ چند لمحے سوچتی رہی۔ اس کے سامنے ترازو کے دونوں پلڑے تھے۔ ایک طرف مہرو تھی۔ مہرو کے دل میں جو محبت کی شدت جنید کے بارے میں تھی، وہ نہ صرف اسے معلوم تھی بلکہ وہ اسے اپنی آنکھوں سے بھی دیکھ چکی تھی۔ وہ ساری زندگی کا پچھتاوا نہیں لے جا سکتی تھی۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ اس کے بیٹے کا دل مہرو میں ہے۔ وہ ساری زندگی کی کسک اسے بھی نہیں دینا چاہتی تھی۔ تبھی اس نے ایک دم سے فیصلہ کر تے ہوئے کہا
” مجھے روہی جانے دیں.... میں مہرو کو لے آﺅں گی۔“
اس نے کہا تو جنید نے حتمی انداز میں کہا 
”سب سن لیں کوئی کچھ نہیں کرے گا۔ میں واپس دربار جاﺅں گا ادھر رہوں گا اور مہرو کو حاصل کروں گا۔ اب یہ میری ماں کی خواہش ہے۔“
” یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔ وہ تمہیں قتل کر دیں گے۔“ عظیم چوہدری نے تیزی سے کہا تو اس نے ہاتھ اٹھا کر کہا
” کر دیں۔ میں اب نہیں ڈرتا۔ “ یہ کہتے ہوئے وہ وہاں سے اٹھ گیا۔
سبھی جنید کے فیصلے سے نہ صرف حیران رہ گئے تھے بلکہ ایک انجانے خوف نے سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔فروا نے سب سے زیادہ محسوس کیا تھا۔ وہ اس سارے معاملے میں اپنی اور اپنے پاپا کی شکست دیکھ رہی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس معاملے کو کس طرح حل کرے۔ پیروزاں ایک دو راہے پر کھڑی تھی۔ ایک راستہ اس کے بیٹے اور شوہر کی طرف جاتا تھا، جہاں ایک آسودہ زندگی اس کی راہ تک رہی تھی۔ جبکہ دوسری طرف اس کی بھتیجی تھی ۔ جسے گویا وہ خود اپنے ہاتھوں زندہ درگور کردے گی۔ وہ ساری اس پچھتاوے کی آگ میں جھلستی رہے گی کہ اس نے اپنے بیٹے اور بھتیجی کو جدا کرنے کا باعث بنی ہے۔اور اب اگر اس کے بیٹے کو کچھ ہو گیا تو اس کی ذمے دار وہ خود ہوگی۔ وہ کانپ کر رہ گئی ۔ عظیم کے سامنے ایک اور دریا آ گیا تھا۔ پیروزاں کے مل جانے سے وہ سمجھا تھا کہ شاید اس نے دکھوں کا دریا عبور کر لیا ہے، لیکن شاید اس کی زندگی میں بھی آسودگی نہیں تھی۔ صرف خدا بخش کی ضد اس کی راہ میں رکاوٹ تھی۔ اور پاپا اس بات سے اپنی ہتک محسوس کر رہا تھا کہ بھری پنچائیت میں خدا بخش نے اس کی بیٹی کا نام کیوں لیا، اور وہ بھی ہتک آمیز انداز میں، وہ اندر ہی اندر کھول رہا تھا۔ اسے اس وقت تک چین نہیں ملنا تھا جب تک وہ خدا بخش سے اس بات کا بدلہ نہ لے لیتے۔ ماما ان سب کی حالت دیکھ کر خوف زدہ تھی کہ پتہ نہیں اب کیا ہو جانے والا ہے۔
شام ڈھل رہی تھی جب جنید اپنا بیگ لئے آ گیا۔ سب نے حیران ہو کر اسے دیکھا۔ تبھی پیروزاں نے کہا
”پتر، نہ جا تُو نہیں جانتا کہ وہ کتنے ظالم ہیں۔۔ “
” میں اب ان کا ظلم دیکھنا چاہتا ہوں ، وہ کیا کرتے ہیں اور میں انہیں کیا کر کے دکھاتا ہوں۔“ یہ کہہ کر اس نے فروا کی طرف دیکھا اور بولا،” فروا۔! اپنی گاڑی کی چابی دو۔“
فروا نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اپنی کار کی چابی اسے دے دی۔ اس نے اپنا بیگ سنبھالا اور باہر جانے لگا تو پیروزاں تڑپ کر بولی
” بیٹا ۔! میں بھی تیرے ساتھ چلتی ہوں۔دیکھتی ہوں خدا بخش میرا کیا کرتا ہے؟“ یہ کہہ کر وہ اٹھی اوراس کے ساتھ چل دی ۔ جنید نے ایک لمحے کے لئے سوچا اور اسے ساتھ لیتا ہوا باہر کی جانب چل پڑا۔
فروا اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔جیسے ہی اسکی کار نے گیٹ پار کیا وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اس نے کیا کرنا ہے۔
٭....٭....٭
 رات کا پہلا پہر ختم ہو گیا تھا جب جنید دربار پر پہنچ گیا ۔ بابا سائیں اس کا منتظر تھا۔ وہ لوگ بھی تھے جو چند دن کی رفاقت کے باعث اس سے خوش تھے۔ وہ بھی وہاں موجود تھے۔بابا سائیںانہیں لے کر اپنے حجرے میں چلے گئے۔ وہاں کافی دیر تک باتیں کرتے رہنے کے بعد بابا سائیں کو جنید کے ارادوں کے بارے میں احساس ہوا تو اس نے کہا
” دیکھو جنید میں تمہاری مدد اس لئے نہیںکر رہا ہوں کہ مجھے شہر کے لوگوں نے کہا ہے یا مجھے ان کی طرف سے کوئی لالچ ہے، یا اس لئے بھی نہیں کہ تم کوئی امیر کبیر باپ کے بیٹے ہو، میں تمہاری مدد اس لئے کر رہا ہوں کہ یہاں جو ان لوگوں نے ظلم کیا ہے ۔ اس کا نہ صرف ازالہ ہو بلکہ آئندہ آنے والے دنوںمیں ایسا نہ ہو ۔“
” بابا سائیں۔! یہ تو ہو نہیں سکتا کہ میں روہی میں یہاں دربار پر رہوں اور خدا بخش مجھے معاف کر دے وہ تو ضرور۔۔۔“
اس نے کہنا چاہا لیکن بابا سائیں بات کاٹتے ہوئے بولے
”بیٹا، خون خرابہ نہیں کرنا،اور نہ ہی کبھی یہ سوچنا۔خدا بخش سے بدلہ لینے کا خیال بھی تمہارے ذہن میں نہ ہو۔ مہرومیری بھی بیٹی ہے، میں اب اس پر ظلم نہیں چاہتا، اسے حاصل کرنا ہے۔ جوش سے نہیں ہوش سے کام لینا ہے۔“
” جیسے آپ حکم کریں بابا سائیں۔“ جنید نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہا تو وہ بولے
” جنید بیٹا ، تم اپنی والدہ کے ساتھ، اسی ڈیرے پر رہو، جو میں نے تمہیں گھر کے طور پر دیا تھا۔ باقی میں دیکھتا ہوں کیا ہوسکتا ہے۔“
بابا سائیں نے کہا تو وہ اپنی ماں پیروزاں کو لے کرڈیرے پر چلا گیا۔
 اگلی صبح تک بستی اور اس کے آس پاس جنگل کی آگ کی مانند یہ خبر پھیل گئی کہ جیند عرف چُپ شاہ واپس دربار آ گیا ہے اور اس کے ساتھ پیروزاں بھی ہے۔ یہ خبر ہر کسی نے حیرت کے ساتھ سنی کہ پیروزاں ہی اس چُپ شاہ کی ماں ہے۔ یہ کیسے ماں ہے۔ راکھ میں دبی ہوئی چنگاریوں کی مانند اس راز کی تلاش کی جانے لگیں۔ دوپہر ہو جانے سے قبل بستی میں سے بہت ساری عورتیں ڈیرے پر آ کر پیروزاں سے مل کر اس بات کی تصدیق کر چکی تھیں۔
 ٭....٭....٭
خدا بخش کا بس نہیں چل رہا تھا ورنہ وہ جنید سمیت پیروزاں کو مار کر کسی گڑھے میں پھنک دیتا۔ اسے سب سے زیادہ غصہ بابا سائیں پر آ رہا تھا، مگر وہ اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا تھا۔ اس لئے وہ گھر کے اندر سہمی ہوئی فاختہ کی مانند پڑی مہرو پر دھاڑ رہا تھا۔
” جا اب چلی جا، وہ آ گیا تیرا دلہا، جا اب جنڈ کے تلے بیٹھ کر احتجاج کر، پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہ یہاںسے واپس جاتے کیسے ہیں۔ تم تینوں کو قتل کر دوں گا۔“
” بابا۔! مجھے آپ کی عزت کا پاس ہے، میں اس وقت تک کہیں نہیں جاﺅں گی ، جب تک آپ مجھے کسی کے ساتھ جانے کا نہیں کہیں گے۔“ مہرو نے سہمی ہوئی آواز میں کہا
” یہ تو اب ڈر سے کہہ رہی ہے نا، تجھے ذرا بھی موقعہ ملا تو اپنے باپ کے خلاف ہی جائے گی۔ جا اب کر وہ ڈرامہ، بیٹھ جا جنڈ کے نیچے۔۔۔“
” نہیں بابا ، میں اب ایسا نہیں کروں گی۔ اس گھر سے میری ڈولی جائے گی یا پھر جنازہ۔۔“
” مجھے لگتا ہے کہ یہاں سے تیرا جنازہ ہی جائے گا۔میں اب ویسے بھی تیرا وجود اس گھر میں برداشت نہیں کر سکتا۔ تو بہت ذلیل کر لیا.... پیروزاں سمیت تیرا جنازہ بھی اٹھے گا۔۔ اور لڑکے کا بھی.... آج ہی، مجھے بس برادری کے اکھٹے ہونے کا انتظار ہے۔“
” بابا آپ پھوپی اور جنید کو کچھ نہیں کہیں گے۔ آپ کی ضد میں ہوں نا، میں ہی انہیں جا کر انکار کر دیتی ہوں۔ یا آپ کہیں تو میںاس دنیا میں ہی نہیں رہتی۔ مار دیں مجھے یا میں خود زہر کھا لیتی ہوں۔“ مہرو نے دلدوز انداز میں کہا تو خدا بخش نفرت سے بولا
” یہ تو ہونا ہی ہے۔۔ اگر تو خود مر جائے تو میں سرخرونہ ہو جاﺅں۔“
یہ کہہ کر وہ باہر کی طرف چلا گیا، جہاں اس کی برادری کے لوگ اکھٹے ہو رہے تھے۔ دوپہر ہونے تک وہاں سب برادری کے لوگ آگئے۔ ان کے درمیان طے تھا کہ کیا کرناہے۔ وہ سیدھے دربار چلے گئے۔ اس دوران بستی کے لوگوں کو بھی معلوم ہو گیا تھا۔ ان میں بہت سارے لوگ تماشائی کے طور پر ساتھ ہولئے ۔دربار پر جنید اور بابا سائیں موجود تھے۔
” بابا سائیں۔!آپ ضمانتی ہو، پیروزاں کو یا اس صحافی لڑکی کے وٹے کے بارے میں بتانا تھا۔ پھر یہ لوگ پہلے ہی کیوں ادھر آ گئے ہیں۔“
” سن لو خدا بخش۔! وہ لوگ یہی بتانے آئے ہیں کہ انہیں یہ وٹے سٹے کی شرط منظور نہیں ہے۔“ بابا سائیں کسی خوف کے بغیر کہا 
” اس کا مطلب ہے انہوں نے پنچائیت کا فیصلہ نہیں مانا؟“
” پنچائیت کے فیصلے کے مطابق ہی انہوں نے جواب دیا ہے۔اب آگے تمہاری مرضی، تم جو چاہو سو کرو۔ مہرو کا رشتہ نہ دو۔ وہ نہیں مانگتے۔“
” اب اگر ان کے ساتھ کچھ ہو گیا تو ....“ خدا بخش نے کہنا چاہا تو جیند نے کہا
” نہیں ۔! اب نہیں ماما جی، اب کوئی دھمکی نہیں۔ اس وقت ایک فقیر نے رشتہ مانگا اور میں بارات لے کر گیا۔تم لوگو ں نے جو کچھ کیا۔ میں نے اسے معاف کیا کہ فقیر کسی سے بدلہ نہیں لیتا۔اب اگر تم لوگو ںنے میری طرف یامیری مان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو میں آنکھیںنکال لوں گا۔“ جنید نے غصے کی شدت سے کہا تو حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگے، جو کبھی بولا ہی نہیں تھا۔
” تو پھر خبردار رہنا۔“ خدا بخش نے اٹھتے ہوئے کہا تو اسی وقت پیروزاں بولی جو نجانے کب وہاںآ کر کھڑی ہو گئی تھی۔
” سن خدا بخش.... میں نے تمہارے ظلم اس لئے سہے کہ میں تیری بہن تھی اورمہر اللہ داد کی بیٹی تھی.... اب میں عظیم چوہدری کی بیوی اور جنید کی ماں ہوں۔ تو میرے بیٹے کو ہاتھ لگا کر دیکھ۔“
” کیا کر لے گی تو....؟“
” دیکھ یہ میری شرافت ہے کہ میں دربار کے ڈیرے میں آ گئی ہوں۔ ورنہ مہر اللہ داد کی بیٹی کا جائیداد میں جو حق ہے میں اس میں بھی جا کر رھ سکتی ہوں اور تو مجھے نہیں روک سکتا۔ اس گھر میں جا کر رہ سکتی ہوں، جو میرے باپ مہر اللہ داد کا ہے اور جس میں تو رہ رہا ہے۔ لیکن نہیں، میں ایسے نہیں رہوں گی۔“
” دیکھ پیروزاں تو کچھ نہیں کر سکے گی۔“ خدا بخش نے غصے کی شدت میں کہا
” کیوں نہیں کر سکوں گی۔ کل تیری بیٹی جنڈ کے درخت تلے بیٹھی تھی۔ تیرے ظلم کے خلاف، آج میں اپنے حق کے لئے بیٹھوں گی اسی جنڈ کے نیچے، اپنے حق کے لئے، ساری روہی دیکھے گی۔“
” میں اس سے پہلے ہی تجھے مار دوں گا۔“
” زبان کو لگام دے ماما۔ تو میری مان کو ابھی ہاتھ لگا کر دکھا۔“ جنید نے کہا
” بہت بولتا ہے تو....“ یہ کہتے ہوئے خدا بخش خود پر قابو نہ رکھ سکا ، وہ تھپڑ مارنے کے لئے لپکا توبابا سائیں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔
” بس خدا بخش ....بس تو اپنے وعدے پر قائم نہیں رہا۔ اب ان کا جو دل چاہے گا، وہ کریں گے، اب خیریت اسی میں ہے کہ اپنی برادری سمیت یہاں سے چلا جا۔“ 
خدا بخش انہیں قہر آلود نگاہوں سے دیکھتا ہوا وہاں سے جانے لگا تو پیروزاں نے ہانک لگائی، 
”دیکھ خدا بخش ۔!اگر مہرو کو کچھ ہو گیا تو اس کا ذمے دار تو ہوگا۔ وہ میرے بیٹے کی امانت ہے۔“
خدا بخش نے پیروزاں کی بات سن تو لی مگر خود پر جبر کرکے وہ وہاں سے چلا گیا۔
٭....٭....٭
فروا اپنے آفس میں بیٹھی ہوئی تھی۔اس کا دل پریشان تھا، وہ کسی طور بھی جنید کا نقصان نہیں چاہتی تھی۔اس کا دل گواہی دے رہا تھا کہ جنید اب صرف اپنی انّا کے ہاتھوں مجبور ہو کر روہی گیا ہے۔ وہ مہرو کی محبت سے زیادہ، اپنا بدلہ لینے کے لئے وہاں پر موجودہے۔ وہ جب سے روہی گیا تھا، اس کا سارا دھیان ہی ادھر تھا۔ وہ انہی خیالوں میں گم تھی کہ اسے اسے ایک فون کال ملی ۔
” آپ فروا ہیں ۔“ دوسری طرف سے کسی لرکی نے روتے ہوئے کہا
” ہاں میں فروا ہی ہوں۔ تم کون ہو؟“
” میں مہرو بات کر رہی ہوں۔“ 
” او تم مہرو۔! کیا بات ہے تم ٹھیک تو ہو۔“ اس نے چونکتے ہوئے کہا
” میں جانتی ہوں کہ پھوپی پیروزاں اور جنید تمہیں بتائے بغیر یہاں نہیں آسکتے۔ خدا لے لئے انہیں واپس بلوا لو، انہیں کچھ بھی ہو سکتا ہے، اگر انہیں کچھ نہ ہوا تو میرا باپ مجھے مار دے گا، یا مجھے خود کشی کرنا پڑے گی۔“
” یہ کیا کہہ رہی ہو تم؟“ اس نے تیزی سے پوچھا
” میں ٹھیک کہہ رہی ہوں، میرا باپ اپنی برادری کے ساتھ دربار پر گیا تھا، وہاں ان کی بہت تلخ کلامی ہو گئی ہے۔ اب یہی صلاح بنائی جا رہی ہے کہ مجھے مار دیں یا پھر جنید کو قتل کر دیں، ایک بندہ پولیس کے سامنے پیش ہو جائے گا۔“
” انہوں نے اس حد تک سوچ لیا ہے۔“ فروا حیران رہ گئی۔
” جی، شاید شام تک آپ کے چینل کو کوئی چٹ پٹی خبر مل جائے، بچا سکتی ہیںتو بچا لیں۔“ مہرو نے کہا اور روتے ہوئے فون بند کر دیا۔ فروا کتنی ہی دیر تک گم سم بیٹھی رہی پھر اچانک اٹھ گئی ۔ اس نے روہی جانے کا ارادہ کر لیا تھا۔
٭....٭....٭
خدا بخش غصے میں پاگل ہو رہا تھا۔ وسایا نامی ایک نو جوان تیار ہو گیا تھا کہ وہ مہرو سے شادی کرے گا لیکن اس کے عوض وہ جنیداور پیروزاں کو قتل کردے گا۔ تب وہ دونوں کا الزام اپنے سر لے لے گا۔ وہ خود پولیس کے سامنے اعتراف کرے گاکہ یہ قتل اسی نے کئے ہوئے تھے۔ خدا بخش اور اس کی برادری کیس لڑیں گے۔ پھر جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ وسایا نے پہلے ہی کئی قتل کئے ہوئے تھے لیکن اس پر کوئی قتل ثابت نہیں ہوا تھا۔ اسے دوسرے شہر سے بلوایا گیا تھا۔ برادری کے سامنے اس نے حامی بھر لی تھی۔ مہرو تک یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ برادری نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ اس لئے وہ خود چل کر صحن میں آگئی، جہاں اس کے سارے رشتے دار بیٹھے ہوئے تھے۔اسے آتا دیکھ کر خدا بخش کی آنکھوں سے شعلے ابل رہے تھے۔ اس نے سب کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے باپ سے کہا
” بابا۔! میں جانتی ہوں کہ اب آپ میرے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں، تو کیوں اس وساےے کی زندگی جیل میں برباد کرتے ہیں۔ میں خود مر جاتی ہوں۔ لیکن جنید اور پھوپی کو کچھ نہ کہیں، انہیں جانے دیں۔“
” دفعہ ہو جا یہاں سے۔ یہ سارے تیرے ہی کانٹے ہیں جو ہم چن رہے ہیں۔ وہ یہاں تیرے لئے ہی تو ہیں ادھر، اب نہ وہ رہیں گے اور نہ تم۔“
” بابا۔ !میری منت مان لیں، ایک بار انہیں میرے کہنے پر معاف کر دیں۔ کہیں تو میں خود انہیں سمجھا دیتی ہوں۔ “
” یہی تو تم چاہتی ہو ، ان کے پاس چلی جاﺅ.... اور ان کے ساتھ فرار ہو جاﺅ۔ ابھی کرتے ہیں تیرا بندوبست،جا اب دفعہ ہو جا۔“ خدا بخش نے نفرت سے کہا تو مہرو نے انتہائی دکھ بھری نگاہوں سے دیکھا اور واپس اندر کمرے کی طرف پلٹ گئی۔ وہ اب مایوس ہو چکی تھی۔اسے اپنا مرنا تو قبول تھالیکن اس کا دل نہیں مان رہاجنید اور پھوپی پیروزاں کو کچھ ہو جائے۔ وہ کمرے میں جا کر پلنگ پر گر گئی۔ تبھی اس کی ماں شرماں مائی روتی ہوئی اس کے پاس آ گئی۔ وہ زارو قطار رو رہی تھی۔
” ماں اب کیوں روتی ہے۔ تیری بیٹی اب گھڑی پل کی مہمان ہے۔ میرا باپ مجھے مار دے ، یہ مجھے قبول ہے ، لیکن میری شادی کر دینے کے بعد جنید اور پھوپی....“
” یہ ظالم ایسا ہی کریں گے میری دھی.... وہ وسایا گیا ہے اپنے گھر، جس نے تجھ سے شادی کرنی ہے، ابھی وہ آئے گا اور .... میں کہتی ہوں تُو بھاگ جا، تو جنید کے پاس چلی جا، اپنی پھوپی کے پاس چلی جا۔ پر چلی جا۔“
” نہیں ماں۔! میں نہیں جاﺅں گی۔بس تُو مجھے میرا دلہن والا وہ لباس دے دے، میںوہ پہن لوں، میں جنید کی دلہن بن گئی تھی اور اسی کی دلہن رہوں گی۔“ اس نے کہا تو اس کی ماں دھاڑیں مار مار کر رونے لگی۔تبھی مہرو نے اپنی ماں کے آنسوصاف کئے اور کہا،” یہی ہوگا نا کہ میرا باپ مجھے قتل کردے گا، کوئی بات نہیں۔میرا باپ تو ہے۔ اگر اس طرح اسے عزت مل جاتی ہے تو ایسی ہی سہی۔ دیر مت کر۔ میرا دلہن والا جوڑا دے دے۔“
” بس کر میری دھی بس کر....“ ماں روتے ہوئے باہر نکل گئی۔ مہرو نے صندوق میں سے وہی دلہن والا جوڑا نکالا، اور اسے پہن لیا۔ پھر تیار ہو کر صحن میںجا بیٹھی جہاںاب کوئی نہیں تھا، سب باہر چلے گئے تھے۔
 گھر کے باہر فروا اپنی پوری ٹیم کے ساتھ آچکی تھی۔ وہاںموجود لوگ اسے مہرو سے نہیںملنے دے رہے تھے۔ اور وہ اس سے ملنے پر بضد تھی۔ بڑی مشکل سے اسے گھر میںآنے دیا گیا وہ اندر آ کر اسے دلہن کے لباس میں دیکھ کر چونک گئی۔
” یہ کیا؟“
” میں نے سوچا ، وسایے سے تو میں نے شادی نہیں کرنی ۔مرنا قبول ہے ، توکیوں نا خود کو جنید کی دلہن بنا کر مروں۔ وہ چاہے مجھے حاصل نہیں کر سکا۔“
” اسے الزام مت دو مہرو....اپنے اس یقین کی بات کرو ، جس کے بارے تو نے مجھے جنڈ کے نیچے بیٹھ کر کہا تھا، یاد ہے تمہیں، شاید اب تیرا یقین ٹوٹ گیا ہے۔ وہ تو آ گیا ہے تجھے لینے۔ اور تو اسے جنڈکے نیچے نہیں ملی۔“ فروا نے طنزیہ لہجے میں کہا تو مہرو چونک گئی۔اس نے مہرو کی طرف دیکھا اور بولی
” میں اپنے باپ کی عزت کا تماشا نہیںکرنا چاہتی۔“
” تو کہو نا تمہارا یقین ٹوٹ گیا؟“ فروا نے اس کے چہرے پر دیکھ کر کہا۔” تجھے اگر اپنے باپ کی عزت کا اتنا ہی پاس ہوتا تو جنڈ کے درخت تلے جا کر احتجاج نہ کرتی۔ اور کرتی تو جنید کے آنے کا انتظار کرتی۔پر تو نے تو اپنا یقین توڑ دیا۔ اگر مرنا ہے تو وہاں مرو۔ تاکہ جنید کو احساس ہو کہ تو اس کے انتظار میں جان دے چکی ہو ۔“
” یہاں اور وہاں مرنے میں فرق ہے فروا“ مہرو نے دھیمے لہجے میں کہا
” ہاں مانتی ہوں بہت فرق ہے۔ تو اپنے باپ کے ہاتھوں مر رہی ہے تو مر جا، پھر جنید پر کوئی الزام نہیں ہوگا، وہ تو اب بھی وہاں تیرا انتظار کر رہا ہے۔“
اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتی کافی سارے لوگ گھر کے اندر داخل ہوئے۔ ان میں وسایا نامی وہی جوان بھی تھا جس کے ذمے برادری نے اس سے شادی کرنا اور ان دونوں کے قتل کی ذمے داری دی تھی۔ وہ آتے ہی ایک چارپائی پر بیٹھ گیا۔اور سرد سے لہجے میں بولا
” یہ مہرو اس طرح زمین پر کیوں بیٹھی ہے۔ ادھر لاﺅ میرے پاس، اس سے میرا نکاح ہونے والا ہے۔ ابھی مولوی آتا ہے۔“
یہ سن کر مہرو نے غضب ناک نگاہوں سے اسے دیکھا اور کڑک کر بولی
” وسایا۔! جن پیروں سے چل کر یہاں آیا ہے انہی سے واپس چلا جا۔ میں کل بھی جنید کی دلہن تھی۔ آ ج بھی اسی کی ہوں۔میں مر تو سکتی ہوں لیکن کسی دوسرے کی نہیںہو سکتی۔“
” یہ تیرا آخری فیصلہ ہے؟“ وہ غراتے ہوئے بولا
” آخری اور ہمیشہ کے لئے۔“ اس نے اونچی آواز میں کہا تو وسایا غصے میں کھڑا ہو گیا اور بولا
” تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جا۔“
” میں موت سے نہیںڈرتی۔“ مہرو نے اعتماد سے وسایا نے اپنی شال کے نیچے سے گن نکالی اور اس کی نال مہرو کی طرف سیدھی کر دی۔ تبھی فروا آگے بڑھی اور مہرو کے سامنے ہو گئی۔
”اسے مارنے سے پہلے مجھے مار سکتے ہو تو مارو۔“
” اے لڑکی ۔پاگل مت بن، ہٹ جا سامنے سے، تین کی جگہ چار کی گنتی بھی ہو سکتی ہے۔“
” لیکن یہ بہت بھاری ہو سکتی ہے۔“
وساےے کے جواب دینے سے پہلے ہی مہرو آگے بڑھی اور زور سے یوں بولی جیسے پاگل ہو گئی ہو۔
” دیکھ وسایا۔! میں نے صرف اپنے باپ کے ہاتھوں مرنا ہے، تو نے اگر گولی چلائی تو تیرا کوئی زندہ نہیں رہے گا۔ جا بُلا میرے باپ کو مجھے مارے۔“
” وہ نہیں آئے گا۔“ اس نے یہ کہا اور گن کو بولٹ مارنا ہی چاہتا تھا کہ فروا کے ساتھ آئے ایک بندے نے اس کے سر پر گن کا بٹ مارا ، اس کا ذرا سا دھیان بٹا تو گن اس سے چھین لی گئی۔ تبھی مہرو نے کہا
” چل فروا۔! وہیں جنڈ کے نیچے، اب دیکھ میرا یقین، میرا باپ مجھے گولی مارے گا، یا جنید کے حوالے کرے گا۔“ یہ کہہ کر اس نے اپنا بڑا سا آنچل خود پر پھیلایا اور باہر کی جانب چل دی ۔ وہاں موجود کسی بندے کی جرات نہیںہوئی کہ اسے روک سکیں۔ 
بستی سے ایک قافلہ نکلا تھا۔ مہرو سب سے آگے تھی۔ اس کے ساتھ فروا تھی۔ اور اس کے پیچھے بستی کے لوگ جس میں عورتیں بھی شامل تھیں۔ وہ چلتی ہوئی آ کر جنڈ کے درخت تلے بیٹھ گئی۔ وہیں اس کے ساتھ فروا بھی جا بیٹھی۔
٭....٭....٭
خدا بخش کے سونے آنگن میں شرماں مائی بیٹھی رو رہی تھی۔ ایسے میں گھر کے پھاٹک کو پار کرتی کار اُن کے صحن کے پاس آ رکی۔ اس میں سے فرید تیزی سے باہر نکلا۔ وہ اپنی بے حال ماں کو دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس کی ماں حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔اس کے منہ سے سرسراتے ہوئے نکلا
” تو فرید پتر تو....؟“
” ہاں میں ماں، بتا مہرو کدھر ہے؟ کہیںاسے....“
” نہیں، وہ جنڈ کے نیچے بیٹھی ہے۔ تیرے باپ کے انتظار میں ۔“
” اور میرا باپ کدھر ہے؟“ اس نے غصے میں کہا
” اندر ہے گن لینے گیا ہوا ہے.... پر مہرو کو بچا لے۔ وہ اسے مار دیں گے۔“
” نہیں ماریں گے، میں آگیا ہوں نا۔“ فرید نے کہا پھر اپنی ماں کو سہارا دے کر چارپائی پر بٹھاتے ہوئے کہا،” تو بیٹھ میں دیکھتا ہوں۔“
فرید نے کہا اور اندر کی جانب دیکھنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد خدا بخش باہر آیا تو اس کے ہاتھ میں پسٹل تھا۔ خدا بخش نے اپنے بیٹے فرید کو دیکھا تو ایک دم سے پریشاں ہو گیا۔ اس کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ فرید بھی یہاں آ سکتا ہے۔ 
” تو یہاں کیسے ، کب آیا؟“
” میں اپنی بہن کو بچانے آیا ہوںاور آپ بھی اسے کچھ نہیں کہیں گے۔“ فرید نے اعتماد سے کہا تو خدا بخش نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر پوچھا
” تو جانتا ہے کہ میں اسے کیوں مار دینا چاہتا ہوں .... پتہ ہے اس نے کیا کیا ہے؟“
 ”مجھے سب پتہ ہے۔وَٹے کی آپ نے صرف ضد کی ہوئی ہے۔ کب تک اس روہی کے لوگ اس فضول رسم کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر رکھیں گے۔ جو انہی کے بچوں کا خون پی رہی ہے۔ کیوں ہمیں تعلیم دلواتے ہیں ،انہی فضول رسموں میں جھونکھنے کے لئے.... بس کریں، اپنی ضد کی بھینٹ اپنی اولاد کو چڑھائیں۔“
” میں اب برادری کو کہہ چکا ہوں۔ مہرو کو تو مرنا ہے۔“
” تو پھر اس کے ساتھ میں بھی مروں گا۔ میں جا رہا ہوں اس کے پاس۔ کیا لڑکی اولاد نہیں ہوتی ۔ کیا وہ انسان نہیں ہے۔اولاد چاہئے تو تو مہرو کو جنید کے نکاح میں دینے کے لئے جنڈ تلے آ جائیں۔“ فرید نے کہا اور کار کی جانب چلا گیا۔ اس نے گھر سے کار نکالی اور جنڈ کے درخت کے پاس چلا گیا۔ وہ لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا۔ جیسے ہی اس کی کار وہاں رکی، لوگ اس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ پیروزاں، فروا اور جنید وہیں تھے۔
اس وقت فرید اپنی بہن کے سر پر ہاتھ رکھ کر اسے اپنے ساتھ لگائے ہوئے تھا ۔ جب خدا بخش وہیں آگیا۔ اس کے ساتھ بستی کے چند لوگ تھے۔ اس نے آتے ہی مہرو کے سر پر ہاتھ رکھا اور روتے ہوئے کہا
” جیسے تیری مرضی پتر، میں تیری خوشی میں راضی ہوں۔“
اس کا اتنا ہی کہنا تھا کہ پیروزاں،، مہرو، فرید اور جنید اس کے ساتھ لگ گئے۔ ایک دم سے ماحول میں خوشی رچ بس گئی۔
” میں سارے دکھ بھول گئی ہوں بھائی، تیرے اس فیصلے سے۔“ پیروزاں نے کہا
” تو انہیں لے کر دربار پر آ جا، ابھی ان کا نکاح ہوگا۔ باقی باتیں پھر کر لیں گے۔“ خدا بخش نے کہا اور دربار کی طرف چل دیا۔ تبھی فرید نے فروا کی طرف دیکھ کر کہا
” آپ فروا ہو؟“
” ہاں۔! میں ہی ہوں۔“
” آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے وقت پر بتا دیا، آ ج اگر میں نہ آ پاتا تو....“ یہ کہتے ہو ئے اس نے جھر جھری لی اور آ گے بڑھ گیا۔دوسروں کے ساتھ فروا بھی آہستہ آہستہ دربار پر پہنچ گئی۔ بابا سائیں جیسے ان کے منتظر تھے۔ انہوں نے سب کو بٹھایا۔مہرو کا جنید کے ساتھ نکاح ہو گیا تھا۔میٹھی شیرینی بانٹ دی گئی تھی۔ جب پاپا اور عظیم چوہدری وہاں پہنچے۔ وہاں کا ماحول بالکل بدل گیا تھا۔ وہیں ایک طرف فروا کھڑی تھی۔ جنید چلتا ہوا اس کے پاس چلا گیا۔
” تھینک یو فروا۔“
” وہ تو ٹھیک ہے جنید، کیا تم نے سوچا تھا کہ ایسا ہو جائے گا، ہم تو بہت کچھ سوچ رہے تھے۔ ایسا کیسے ہو گیا۔“
” ایک ہی بات میری سمجھ میں آتی ہے۔“ جنید نے ہنستے ہوئے کہا تو فروا نے سنجیدگی سے پوچھا
” وہ کیا؟“
” یہ جو میم ہے نا، اس کی وجہ سے۔ میم سے مہرو۔ میم سے ماں اور میم سے محبت۔۔“
فروا یہ سن کر چند لمحے اس کے لفظوں پر غور کرتی رہی۔ پھر سر ہلاتے ہوئے بولی
” ہاں ۔ تم ٹھیک کہتے ہو ۔ اب چلیں، یا ابھی یہیں رہنے کا ارادہ ہے۔“
” دلہن تو لے کر جاﺅں گا۔ ابھی چلتے ہیں۔“ جنید نے کہا اور اپنی دلہن کو دیکھا جو سر جھکائے اپنے باپ کے گلے لگ کر روئے چلی جا رہی تھی۔ خدا بخش نے اسے خود سے جدا کیا اور دولہا کی گاڑی میں بٹھا دیا۔
٭....٭....٭

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *