عشق کا قاف
امجد جاوید
قسط نمبر07
ابھی سورج نہیں نکلا تھا لیکن صبح کی روشنی چاروں جانب پھیل چکی تھی۔ صحرائی وسعتوں میں دھیرے دھیرے چلنے والی ہوا مدہوش کر رہی تھی۔ ایسے میں کچی بستی سے باہر جنڈ کے درخت سے پرے ، جہاں میاں جی ابدی نیند سو رہے تھ ے۔ وہیں علی اور احمد بخش مصروف تھے۔ نماز پڑھتے ہی دونوں اپنے اپنے کام میں لگ گئے تھے۔ علی نے پانی لانا شروع کر دیا جو قریب ہی ایک ٹوبے میں جمع تھا۔ چولستان میں بارشوں کا پانی ایک بڑے سے زیریں زمین کے ٹکڑے میں جمع ہو جاتا ہے۔ جہاں سے اگلی بارشوں تک جانور اور انسان اکٹھے ہی پانی پیتے ہیں۔ عموماً بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ اس لئے ٹوبوں کا ذخیرہ شدہ پانی کام آتاہے۔ اگر یہ توبھی سوکھ جائیں تو روہی کے لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ٹوبے میں سے علی پانی لا رہا تھا۔ اس دوران احمد بخش نے گارا بنانے کے لئے مٹی اکٹھی کر لی تاکہ اس نے اینٹیں بنائے۔ جب تک سورج نکلا اور اس نے اپنی تپش صحرا پربکھیرنا شروع کی۔ دونوں نے مل کر اچھا خاصا کام کر لیا تھا۔ علی پانی بھرتے ہوئے نہیں تھک رہا تھا، جبکہ احمد بخش مشینی انداز میں ہاتھ چلا رہا تھا۔ اماں فیضاں نے آ کر انہیں کام سے روکا تاکہ وہ کھانا کھا لیں۔ یوں شام ڈھلنے تک انہوں نے اچھا خاصا کام کر لیا تھا۔ مغرب کی نماز جب وہ پڑھ چکے تو بھیرا ان کے لئے کھانا لے کر آ گیا۔
’’یار بھیرے تو میرے لئے خواہ مخواہ کھانا لے آئے ہو۔ میں نے گھر سے جا کر کھا لینا تھا۔‘‘ احمد بخش نے کہا تو بھیرا بولا۔
’’اماں نے دے دیا اور میں لے آیا۔ اب بھالا علی بھی تو میرے ساتھ جائے گا۔‘‘
’’نہیں بھیرا۔۔۔ میں نہیں جاؤں گا۔ اب میں نے یہیں رہنا ہے۔‘‘
’’وہ کیوں بھالا۔۔۔ جب گھر ہے تو پھر یہ کیا بات ہوئی۔‘‘ بھیرے نے قدرے حیرت سے کہا۔
’’نہیں اب ہم گھروں میں نہیں رہ سکتے۔ تم اب جاؤ۔‘‘ علی نے بھیرے سے کہا اور اٹھ کر ایک جانب چل دیا۔ وہ چند لمحے تو علی کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اٹھ گیا۔ اس کے چہرے پر سوالیہ نشان تھا جیسے اسے علی کی بات سمجھ میں نہ آئی ہو۔
قدرت اور انسان کے درمیان جو پردہ ہے وہی راز ہے۔ قدرت نے بہت سارے راز کھول کر بیان کر دئیے ہیں اور بذات خود انسان کو اپنی نشانیوں کی طرف متوجہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ دیکھو اسے غور سے یکھو، یہ اللہ کی نشانیاں ہیں۔ کچھ راز مخصوص بند گانِ خدا کے لئے ہیں۔ وہ انہی پر کھلتے ہیں۔ اصل میں یہ بھی اک امتحان ہے۔ جس میں جذب نہیں ہوتا۔ وہ پھٹ پڑتا ہے۔ اناالحق کا نعرہ کبھی منصور لگاتا ہے اور کبھی بلھے شاہ بھی یہی باتیں کرنے لگاتا ہے اور جن میں جذبہ ہوتاہے۔ وہ خود ایک راز بن جاتے ہیں، وہ اس تماشا گاہ ہستی میں سب کچھ دیکھتے ہیں اور اپنے رب کی بندگی میں ہل من مزید کی خواہش کرتے رہتے ہیں اور کچھ راز قدرت نے کھولے ہی نہیں۔ پتہ نہیں وہ قیامت کے بعد کھلیں گے یا نجانے کب؟ بہرحال راز اور کھوج کی اس کشمکش میں انسان صدیوں سے کھویا ہوا ہے اور نجانے کب تک اسی تگ و دو میں لگا رہے گا۔ ممکن ہے اسی معاملے کو کھیل تماشا کہا گیا ہو۔ جس کی تھوڑی بہت سمجھ بوجھ یا بہت زیادہ رسائی مادھولعل حسین ؒ نے حاصل کر لی ہو۔ اس نے بھی یہیں پرآ کر اپنی کتابیں کنویں میں پھینک دیں تھیں اورپھر اس کھیل تماشے کا حصہ بن گیا۔ بات پھر وہیں آ جاتی ہے کہ آخر اس کارخانہ قدرت کی تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ اس پر غور و فکر کو عبادت کا درجہ دے دیا گیا۔ ان رازوں پر جو پردے ہیں۔ ان کے کھوج کی جوتگ و دو ہے۔ اصل میں وہی’’شے‘‘ وہی’’توانائی‘‘ ہی اس تگ و دو میں زندگی بھرتی ہے۔ وہ شے، وہ توانائی صرف اور فقط عشق ہے۔ اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ جو اپنے عشق میں جتنا پر خلوص ہو گا۔ اپنے معشوق کے لئے جتنی تڑپ رکھتا ہو گا۔ اتنے ہی راز اس پر آشکار ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کی منزل قریب سے قریب تر ہوتی چلی جاتی ہے۔
رات کا دوسرا پہر شروع ہو چکا تھا۔ صحرائے چولستان میں کھلے آسمان کے نیچے علی صف بچھائے تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ اسے اپنے اردگرد کا کوئی ہوش نہیں تھا۔ نہ تو اسے میٹھی مد ہوش کر دینے والی ہوا کی پروا تھی اور نہ ہی تنہائی کا خوف تھا۔ وہ خود کو تنہا محسوس بھی نہیں کر رہا تھا۔ اس کے ساتھ اللہ کی ذات تھی، جس کی بندگی میں وہ مصروف تھا۔ ایک خاص وقت تک وہ یاد الٰہی میں مصروف رہا اور پھر وہیں صف پرکمر سیدھی کرنے کے لئے لیٹ گیا۔ میاں جی نے جو سبق اسے روزانہ پڑھنے کے لئے دیا تھا۔ وہ سبق وہ دھرا چکا تھا۔ اس لئے ذکر ختم ہونے پر وہ پرسکون ہو گیا۔
وہ کھلے صحرا میں چلتا چلا جارہا تھا۔ اگرچہ اس کی رفتار کم تھی مگر قدموں کے حساب سے وہ زیادہ فاصلہ طے کرتا چلا جا رہا تھا۔ یوں جیسے وہ کسی ہوا کے تحت پر سوار ہے۔ اسے چلنے کی ذرا سی مشقت کا احساس بھی نہیں ہو رہا تھا۔ اسے اپنے پاؤں کے نیچے ریت نہیں پھول کی پتیاں محسوس ہو رہی تھیں۔ اگرچہ سورج اپنی آب و تاب کے ساتھ آسمان پر چمک رہا تھا مگر اس کی ذراسی تپش بھی نہیں تھی۔ اس کے لئے سورج تمازات دینے والا نہیں بلکہ روشنی کا منبع ثابت ہو رہا تھا۔ وہ مد ہوش تھا اور اسی عالم میں چلتا چلا جا رہا تھا۔ اچانک اس کے سامنے ایک بڑا سا ٹیلہ آ گیا جو اس کے قدر سے بھی اونچا تھا۔ وہ اس پر چڑھنے لگا۔ چند منٹ چڑھتے رہنے کے بعد جیسے ہی وہ چوٹی پر پہنچا۔ دوسری جانب دور سے اسے ایک نخلستان دکھائی دیا۔ کھلے صحرا میں نخلستان دکھائی دے جانے پر طمانیت کا احساس اس کے من میں اتر گیا۔ وہ ٹیلے سے اتر کر اس نخلستان کی جانب بڑھ گیا۔ جیسے ہی وہ سرسبز درختوں میں گھرے ہوئے قطعے تک پہنچا، ٹھنڈی ہوائیں اس کے بدن سے ٹکرانے لگیں۔ اس کی روح تک میں فرحت کا احساس گھل گیا۔ وہ چلتا چلا گیا یہاں تک کہ درختوں کے جنڈ میں بنے ہوئے تالاب کے کنارے میاں جی کو بیٹھا دیکھ کر چونک گیا۔ وہ سرخ قالین پر سنہری مسند پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کا لباس بیش قیمت تھا، جس میں جڑے ہوئے ہیرے موتیوں کی چمک سے آنکھیں ،خیرہ ہو رہی تھی۔ وہ انتہائی ادب سے ان کے پاس گیا تو انہوں نے نہایت شفقت سے کہا۔
’’آؤ علی آؤ۔۔۔ ادھر آؤ میرے پاس بیٹھو۔‘‘
علی نے حکم کے تابع مسند کے دوسرے کنارے پر ٹیک لگالی۔ تو میاں جی نے اس کی طرف دیکھا جیسے وہ علی کے بولنے کے منتظر ہوں۔
’’آپ اتنی جلدی کیوں مجھے تنہا چھوڑ کے آ گئے ہیں۔‘‘
’’اس لئے کہ میرا وقت ختم ہو چکا تھا اور تمہاراوقت شروع تھا۔ مجھے آنا ہی تھا۔ یہی رضائے الٰہی ہے۔‘‘
’’اور میں۔۔۔‘‘ علی نے کچھ کہنا چاہا لیکن میاں جی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’نہیں، میرے بیٹے نہیں، تم تنہا نہیں ہو، تمہارے ساتھ تمہارا یقین ہے۔ اسی کو مضبوط رکھنا تم کبھی تنہا نہیں رہو گے۔ کیا تمہیں پتہ نہیں ہے کہ انسان کے درجات کیوں بلند ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اس کی بندگی مقام قبولیت پر فائز ہو جاتی ہے۔ اپنے آپ کو فنا کر و تبھی بقا کے مقام رضا تک پہنچ پاؤ گے میرے بیٹے۔‘‘
’’یہ فنا اور بقا کا فلسفہ۔۔۔‘‘ علی نے پوچھنا چاہا مگر فوراً ہی خاموش ہو گیا۔
’’میں نے آج تمہیں بلایا ہی اس لئے ہے کہ تمہیں سب کچھ بتا دوں۔ پھر شاید ہماری ملاقات کبھی ہو بھی سکے گی یا نہیں۔ بس یہ بات ذہن میں رہے کہ اس دنیا سے چلے جانے کے بعد، بدن کی قید سے آزادی کے بعد روحانی تصرف میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے۔ اتنا اضافہ کہ جس کا تم اندازہ نہیں لگا سکتے۔ لیکن۔۔۔ یہ ہوتا میرے رب کی مرضی سے ہے۔ آؤ اٹھو۔ میں تمہیں سب کچھ دے دوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے میاں جی اٹھ گئے۔ علی اٹھا تو انہوں نے اسے گلے لگا لیا۔ علی خوشبو کے احساس سے مد ہوش ہو گیا۔ چند لمحے یونہی ساتھ لگے رہنے کے بعد میاں جی نے علی کو خود سے الگ کیا اور کہا۔
’’فنافی الشیخ کے بعد فنافی الرسول کا درجہ ہے اور پھر فنافی اللہ ہے۔ ابھی تمہیں بہت ساری منزلیں طے کرنا ہے۔ فنافی الشیخ کی راہ پر چل نکلے ہو۔ میری دعا ہے کہ تم ثابت قدم رہو۔‘‘ میاں جی نے کہا اور علی کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ علی مد ہوش ہوتا چلا گیا۔ میاں جی نے اسے مسند پر لگایا۔ وہ گہری نیند سو گیا۔ میاں جی نخلستان میں کہیں غائب ہو گئے اور پھر اس کی آنکھ کھل گئی۔ علی نے حیرت سے اپنے اردگرد دیکھا۔ وہاں نہ مسند تھی اور نہ ہی نخلستان مگر ٹھنڈک اور خوشبو اس کے ارد گرد پھیلی ہوئی تھی۔ چند لمحوں تک اسے سمجھ ہی نہ آئی کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے پھر دھیرے دھیرے وہ سمجھ گیا کہ یہ معاملہ کیا ہو سکتا ہے۔ اس نے زیر لب درودِ پاک کا ورد شروع کر دیا۔ وہ کافی دیر تک مسحور سا بیٹھا رہا۔ پھر تہجد کے لئے اٹھ گیا۔ اسے آج پھر دن بھر کام کرنا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت دن اچھا خاصا چڑھ آیا تھا جس کی روشنی میں پیر سیدن شاہ کی محل نما حویلی چمک رہی تھی۔ اس وقت سیدن شاہ اپنے کمرہ خاص میں بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سامنے اس کا مرید خاص پیراں دتہ کسی مجرم کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا۔ سیدن شاہ کا چہرہ غیظ و غضب سے سرخ ہو رہا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ اپنے سامنے آنے والی ہر شے کو اڑا دے۔ اس نے پیراں دتہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’وہ بڈھا تو مر گیا اور تمہارے خیال میں وہ اپنا چیلہ چھوڑ گیا ہے یہاں پر۔۔۔ مطلب، اتنا بڑا معاملہ ہو گیا اور تم مجھے اب بتا رہے ہو۔‘‘
’’یہ تو ہمارے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ شہری لڑکا اس طرح یہاں صحرا میں بیٹھ جائے گا۔‘‘ پیراں دتہ نے دبی ہوئی آواز میں کہا۔
’’وہ جس دن دوبارہ یہاں آیا تھا۔ تم نے اسی دن اس کا بندوبست کیوں نہیں کر دیا۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے انتہائی غضب سے کہا اور پھر چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ ’’خیر، اب بھی کچھ نہیں ہوا۔ پتہ چلا کر وہ یہاں پر کیوں بیٹھا ہے۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ اس کا انداز تو وہی ہے جیسے کسی مرید کا ہوتا ہے۔‘‘ پیرادتہ نے یوں کہا جیسے وہ سیدن شاہ کو یاد دلا رہا ہوں کہ یہ بات وہ پہلے بھی کہہ چکا ہے۔
’’پیراں دتہ۔۔۔ یہ اور بھی غلط بات ہے۔ ہمارے ہوتے ہوئے کسی اور کی پیری مریدی کیسے چل سکتی ہے۔ یہ لڑکا لوگوں کی نفسیات سے کھیلے گا اور۔۔۔‘‘ سیدن شاہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’سائیں۔۔۔ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ یہاں وہ پیری مریدی کے چکر میں ہی بیٹھا ہے۔‘‘ اس نے دھیرے سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ میں اس لڑکے کے پیچھے اور بہت کچھ بھی دیکھ رہا ہوں۔ وہ جو بھی ہو گا خود بخود سامنے آ جائے گا۔ تم آج ہی جاؤ اور انہیں کام سے روک دو۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے انہیں یہاں بھگا دو۔ جو بھی سامنے آئے گا۔ میں دیکھ لوں گا۔‘‘ سیدن شاہ نے حکم صادر کر دیا۔
’’جیسے حکم سائیں کا؟‘‘ پیراں دتہ نے قدرے جھکتے ہوئے کہا اور پھرویسے ہی کھڑا رہا۔
’’اب کیا بات ہے؟‘‘ سیدن شاہ نے قدرے حیرت سے اس کی طر ف دیکھتے ہوئے کہا تو پیراں دتہ نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ ایک خبر اوربھی ہے۔ مجھے امید نہیں تھی کہ ایسا ہو گا، مگر ہو گیا۔‘‘
’’یہ کیا تم پہلیاں ڈال رہے ہوپیراں دتے۔ سیدھی بات کیوں نہیں کہتے۔‘‘ سیدن شاہ نے جھنجھلاتے ہوئے کہا۔
’’سائیں اصل میں اسی بات کی وجہ سے ہی مجھے معلوم ہواتھا کہ وہ علی یہاں پر کیا کر رہا ہے، ورنہ شاید چند دن بعد یہ مجھے پتہ چلتاکہ علی مسجد اور مدرسہ بنا رہا ہے۔‘‘ پیراں دتے نے تیزی سے کہا جس پر سیدن شاہ اس کی طرف دیکھتا رہا تو وہ تیزی سے بولا۔ ’’سائیں۔۔۔ وہ مہرہ ہے نا، جس کے بھائی رب نواز نے سانول کو قتل کر دیا تھا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ کیا ہے، اسے۔‘‘ سیدن شاہ نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
’’سائیں آپ نے فیصلہ کیا تھا کہ اس کی شادی سانول کے چھوٹے بھائی۔ بھیرے سے کر دی جائے۔ مگر اس نے بھیرے کے ساتھ شادی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔‘‘ پیراں دتے نے کہا اور کسی سخت قسم کے رد عمل کے لئے وہ ذہنی طور پر تیار تھا لیکن بات سنتے ہی سیدن شاہ پر تو جیسے حیرت چھا گئی۔ چند لمحے اس سے بات ہی نہ ہو سکی۔ سیدن شاہ نے وحشت زدہ انداز میں اسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہماری رعایا ہو کر ہماری حکم عدولی کرے، یہ کیسے ہو گیا پیراں دتہ۔ ایسی انہونی تو پہلے کبھی نہیں ہوئی۔ کیا ہو گیا ہے؟‘‘
’’مہرو پہلے میاں جی سے ملتی تھی۔ اس کے لئے کھانا لے کر جاتی رہتی تھی، اب وہ علی سے ملنے بھی گئی تھی۔ اسی نے ہی ورغلایا ہے۔‘‘ پیراں دتے نے تیزی سے کہا۔
’’مجھے حیرت اس بات پر ہو رہی ہے پیراں دتہ کہ علی کو اب تک ہمارے بارے میں پتہ ہی نہیں چلا، اسے خبر نہیں کہ میں اسے لمحوں میں تہہ تیغ کر سکتا ہوں۔ پیراں دتہ پتہ کرو۔ آخر اس کے پیچھے کون ہے۔ کس کی یہ جرأت ہوئی ہے کہ ہمارے علاقے میں اتنی ہمت دکھائے۔‘‘
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘اس نے کہا اور پلٹ گیا اور سیدن شاہ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
سیدن شاہ نے اس معاملے کو معمولی سا لیا تھا۔ جیسے آئے دن کوئی نہ کوئی چھوٹا موٹا معاملہ ہوتا رہتا تھا۔ اس نے جس قدر اس معاملے کو ڈھیل دی تھی۔ یہ اتنا ہی گمبھیر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ سو اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اب اس کوختم کر دینے کا قت آ گیا ہے۔ اس کے پیچھے جو بھی ہو گا۔وہ خود بخود سامنے آ جائے گا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
دوپہر کے وقت جب سورج نصف النہار پر تھا اور تپش سے پورا صحرا انگارہ بنا ہوا تھا، ایسے میں علی اوراحمد بخش دونوں اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ وہ دونوں خاموش تھے مگر اپنی پوری توانائی سے اینٹیں بناتے چلے جا رہے تھے۔ علی پانی لاکر گارا بنا دیتا اور احمد بخش اینٹیں ۔ نجانے ان دونوں میں اتنا جوش اور توانائی کہاں سے آ گئی تھی کہ وہ کئی آدمیوں سے زیادہ کام نمٹا رہے تھے۔ ایسے میں علی نے آسمان کی طرف دیکھا اور احمد بخش سے کہا۔
’’اب بس کر و۔ تھوڑی دیر سستالیں، پھر نماز پڑھ کر ہی کام شروع کریں گے۔‘‘ علی نے اتنا ہی کہا تھا کہ اس نے وہیں کام چھوڑ دیا۔ دونوں جنڈ کے نیچے بچھی صف پر آ کر بیٹھ گئے۔ اس وقت جب وہ نماز پڑھ چکے تھے اور دوبارہ کام کرنے کے لئے اٹھنا ہی چاہ رہے تھے کہ ان کے قریب ایک فوروہیل جیپ آ کر رکی۔ اس میں سے پیراں دتہ اور چند دوسرے لوگ باہر آگئے۔ تبھی پیراں دتے نے آگے بڑھتے ہوئے کہا۔
’’یہ تم دونوں کیا بنا رہے ہو یہاں پر؟‘‘ اس کے لہجے میں حد درجہ حقارت تھی۔
’’مسجد اور مدرسہ۔‘‘ علی نے انتہائی مختصر جواب دیا تو اس نے بپھرتے ہوئے کہا۔
’’کس کی اجازت سے بنا رہے ہو۔ تم لوگوں کو پتہ نہیں کہ اس پورے علاقے کے مالک حضر پیر سیدن شاہ ہیں۔ ان کی اجازت کے بغیر یہاں کچھ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’ہمیں سیدن شاہ کی اجازت نہیں چاہیے۔ باقی رہی مالک کی بات تو یہ ساری زمین اللہ کی ہے۔ سیدن شاہ کی نہیں اور نہ اس کا کوئی حکم ہم پر لاگو ہوتا ہے۔‘‘ علی نے انتہائی تحمل سے کہا۔
’’علی تم جانتے نہیں ہو کہ تم کیا کہہ رہے ہو تمہارا اگر کوئی منصوبہ ہے تو وہ یہاں نہیں چلنے والا، تم لوگوں کو ورغلا تو سکتے ہو لیکن ہمارے خلاف نہیں کر سکتے۔ اس لئے ہم تمہیں ایک دن کی مہلت دیتے ہیں کہ یہاں سے دفعان ہو جاؤ۔ ورنہ بے موت مارے جاؤ گے۔‘‘ پیراں دتے نے غصے میں کہا تو علی مسکرا دیا پھر سنجیدگی سے بولا۔
’’ہاں۔۔۔ تم مجھے گولی تو مار سکتے ہو لیکن مجھے میرے ارادے سے نہیں ہٹا سکتے۔ یہاں ہر حال میں مسجد بنے گی، مدرسہ بنے گا اور اس کچی بستی کے بچے تعلیم حاصل کریں گے۔ میں نہ سہی کوئی اور کرے گا یہ کام۔۔۔ اب یہ کام رکنے والا نہیں ہے۔‘‘
’’میں دیکھتا ہوں کیسے نہیں رکے گا۔‘‘ پیراں دتے نے کہا اور پھر جیپ کے ڈرائیور کو اشارہ کیا۔ یقیناًوہ پہلے ہی ایسا کرنا طے کر چکے تھے۔ اس لئے ڈرائیور نے جیپ بڑھائی اور جو کچی اینٹیں بن چکیں تھیں۔ جیپ کے نیچے لا کر انہیں توڑنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد وہاں گارا اور مٹی پڑا ہوا تھا۔ ان کی ساری محنت برباد ہو چکی تھی۔ تب اس نے علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’لو۔۔۔ بن گیا جو تم بنانا چاہتے تھے۔‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے اتنی ذراسی محنت برباد ہو جانے پر ہمیں افسوس ہو گا۔ یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ تم روزانہ آؤ اور روزانہ ہی ہماری محنت برباد کر کے چلے جایا کرو۔ ہم تمہیں اف تک نہیں کہیں گے۔‘‘ علی نے انتہائی تحمل سے کہا تو وہ غضب سے بولا۔
’’تم محنت کر پاؤ گے تبھی نا۔ تم دونوں میں سے اگر کوئی بھی ٹوبے کی سمت آیا اور وہاں سے پانی بھرنے کی کوشش کی تو ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ آج فقط وارننگ دے کر جا رہے ہیں۔ کل تمہارے ہاتھ بھی توڑ دیں گے۔‘‘ پیراں دتے نے کہا اور جیپ میں جا بیٹھا۔ اس کے بیٹھتے ہی اس کے دوسرے ساتھی بھی جیپ میں سوار ہوئے، کچھ ہی لمحوں بعد وہ وہاں سے چلے گئے۔ علی نے گہری سانس لی اور پھر وہیں صف پر بیٹھ گیا تو احمد بخش بولا۔
’’علی بھائی۔۔۔ آپ فکر نہ کریں۔ میں ٹوبے سے پانی لایا کروں گا۔ اگر لڑائی ہوتی ہے تو ہو جائے۔ میں بھی تو کچی بستی کا رہنے والا ہوں۔ میرا بھی اس ٹوبے پر اتنا ہی حق ہے۔‘‘ احمد بخش نے محض اسے تسلی دینے کو کہا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا کہ لوگ انہیں پانی بھرنے نہیں دیں گے۔ تب علی نے کہا۔
’’نہیں احمد بھائی۔۔۔ ہم نے لڑنا نہیں ہے۔ ہم جانور تھوڑی ہیں، ہم تو انسان ہیں۔ اللہ پاک مہربانی فرمائیں گے، وہ بڑا کارساز ہے۔ تم حوصلہ نہ ہارنا، اپنا یقین مضبوط رکھنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے علی بھائی جیسا تم کہو۔‘‘ احمد بخش نے فوراً ہی تھیار ڈال دئیے۔دونوں ہی کو معلوم تھا کہ اگر وہ لڑیں گے تو اس کا انجام کیا ہو گا۔ بستی کے لوگ سیدن شاہ کے آگے دم نہیں مار سکتے تھے۔
مغرب تک احمد بخش وہیں رہا اور پھر وہ بھی اپنے گھر چلا گیا اور علی اپنے معمولات میں مشغول ہو گیا۔ بھیرا اسے کھانا کھلا کر واپس چلا گیا تھا۔ علی نے عشاء کی نماز پڑھی اور میاں جی کی قبر کے پائنتی آ کر بیٹھ گیا۔ اس رات پہلی بار پورے دل سے رو کر اللہ کے حضور دعا کی۔
’’اے اللہ۔۔۔ تو ہی شرم رکھتا ہے، اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے، مجھے اس منزل سے سرخرو کرنا، تجھ سے بڑا کوئی کارساز نہیں ہے۔ نبی آخر الزماں ﷺ کے صدقے، میری مشکل حل کر دے اور مجھے استقامت عطا فرما۔‘‘ وہ مسلسل یہی دعا کرتا چلا جا رہا تھا۔ وہ سر جھکائے آنکھیں بند کئے خود کو رب کے حضور پیش کئے بیٹھا تھا۔ اسے یہ خبر ہی نہ ہوئی کہ تاریک آسمان پر تارے بادلوں نے چھپا لئے ہیں۔ بجلی چمکنے لگی ہے۔ اسے تو اس وقت ہوش آیا جب پہلی بوند اس کے چہرے پر پڑی۔ پھر اس کے بعد لگا تار بوندیں پڑنا شروع ہو گئیں۔ یہاں تک کہ موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ علی نے سر گھٹنوں میں دبا لیا اور ویسے ہی بیٹھا رہا۔ یہاں تک کہ بارش دھیرے دھیرے کم ہوتی چلی گئی اور پھر بند ہو گئی۔ علی سر نہوڑے بیٹھا رہا۔ جب کافی دیر ہو گئی اور ٹھنڈ کی وجہ سے اس کا بدن کپکپانے لگا تو وہ اٹھا، اپنے کپڑے نچوڑے اور جنڈ کے درخت تلے پڑی ہوئی صف کو سیدھا کیا۔ اس کی آنکھوں میں نیند بھر گئی تھی۔ اس لئے وہ لیٹا اور سو گیا۔
معمول کے مطابق فجر کے وقت سے ذرا پہلے اس کی آنکھ کھل گئی۔ وہ اٹھا، اس نے گھڑے کے پانی سے وضو کیا اور تہجد کے لئے کھڑا ہو گیا۔ پھر اس نے اکیلے ہی فجر کی نماز ادا کی اور وہیں اپنے معمولات میں مشغول ہو گیا۔ دھیرے دھیرے رات کی سیاہی چھٹی، نیلگوں آسمان واضح ہونے لگا اور سورج نے سر نکالا تو ہر طرف روشنی ہو گئی۔ احمد بخش نے آ کر جب سلام کیا تو وہ اس کی طرف متوجہ ہوا۔
’’علی بھائی یہ سب کیا ہے؟‘‘ احمد بخش نے حیرت سے پوچھا جس کی علی کو سمجھ نہ آئی۔
’’مطلب، کیا، تم کیا کیا کہنا چاہ رہے ہو؟‘‘ علی نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’یہاں ہر طرف جل تھل ہے۔ وہ ایک گڑھے میں پانی بھی اچھا خاصا جمع ہو گیا ہے لیکن۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’لیکن کیا۔۔۔؟‘‘ علی نے تیزی سے پوچھا۔
’’غور سے دیکھو، اس جنڈ سے آگے کچی بستی کی طرف، وہاں ایک قطرہ بھی بارش کا نہیں برسا۔‘‘ احمد بخش نے حرت سے کہا تو علی نے کھڑے ہو کر غور سے دیکھا۔ ایک ذرا سا قطعہ اراضی پر بارش ہوئی تھی اور خوب ہوئی تھی۔ ایک بڑے سے گھڑے میں پانی جمع ہو گیا تھا اور سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ جبکہ جنڈ کے درخت سے آگے کچی بستی کی طرف زمین خشک تھی۔ ایسی خشک کہ لگتا تھا وہاں بارش کا ایک قطرہ بھی نہیں پڑا۔ ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ دھول اڑ رہی تھی۔ علی چند لمحوں تک یہ منظر دیکھتا رہا۔ پھر وہیں سجدہ شکر میں گر گیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو گیا ے جن کی اللہ کے ہاں سنی جاتی ہے۔ دو نفل نماز ادا کرنے کے بعد اس نے احمد بخش کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’کوئی بھی پوچھے تو یہی کہنا، یہ اللہ کی مرضی ہے۔ ساون میں بھی تو بارش ایسے پڑتی ہے کہ ایک کھیت جل تھل ہو جاتا ہے اور دوسرا سوکھا رہتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھ گیا ہوں علی بھائی کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ آپ بے فکر رہیں اور ایک بات بھی مانیں۔‘‘ احمد بخش نے علی کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا تو علی نے عام سے لہجے میں پوچھا۔
’’کیا منوانا چاہتے ہو۔‘‘
’’یہی کہ آپ مجھے اپنی بیعت میں لے لیں۔‘‘ احمد بخش نے اتنا ہی کہا تھا کہ علی کو یوں لگا جیسے اس کے پورے بدن میں برقی رو دوڑ گئی ہو۔ چند لمحوں تک ساکت سا وہ احمد بخش کی طرف دیکھتا رہا اور پھر دھیرے سے بولا۔
’’احمد بخش۔۔۔ تم میرے بہت اچھے ساتھی ہو۔ میں اس قابل نہیں ہوں میرے بھائی، اللہ نے اگر ہم پر رحم کیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں یہاں پیری مریدی کا ڈھونگ رچا کر بیٹھ جاؤں۔ اس طرح تو ہم پر مزید ذمہ داری آ گئی ہے۔ اس وقت سے ڈرنا چاہیے کہ جب ہم اپنی ذمہ داری نہ نبھا سکیں۔‘‘
’’لیکن یہ سب کرم یونہی تو نہیں ہو جاتا علی بھائی۔‘‘ احمد بخش نے ایک مضبوط دلیل دی۔
’’بے شک یونہی نہیں ہو جاتا۔ اللہ کے پیارے بندوں سے محبت کا انعام ہے یہ۔ مگر ہم اس اہل نہیں ہیں میرے بھائی۔ عشق کا تقاضہ یہی ہے کہ بس عشق کرتے چلے جاؤ۔ کوئی دکھ آئے، کوئی انعام ملے اس سے بے نیاز ہو کر بس عشق کرتے جاؤ۔ ہم فقیروں کو پیری مریدی سے کیا لینا دینا۔‘‘ علی نے انتہائی تحمل سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’مگر آپ کا مرتبہ اور مقام۔۔۔‘‘ احمد بخش نے کہنا چاہا تو علی نے فوراً ٹوکتے ہوئے کہا۔
’’نہ۔۔۔ نہ میرے بھائی، مرتبہ اور مقام صرف اللہ کا ہے اور اس کے بعد حبیب ﷺ کا۔ ہم تو کسی کھاتے میں نہیں۔ بس تم دعا کیا کرو کہ ہمارے جو ٹوٹے پھوٹے اعمال ہیں رب تعالیٰ انہیں قبول فرمائے۔‘‘ علی نے دھیمے انداز میں کہا تو وہ خاموش رہا۔ تب علی نے ہی کہا۔ ’’چلو آؤ۔۔۔ کام شروع کریں۔‘‘
احمد بخش خاموش رہا اور اٹھ گیا۔ وہ دونوں پھر سے کام میں مشغول ہو گئے۔ اس بار انہوں نے اینٹیں نہیں بنائیں بلکہ گیلی مٹی سے دیواریں بنانا شروع کر دیں۔ صبح سے دوپہر ہوئی۔ پھر عصر کا وقت بھی قریب آ گیا۔ دونوں نے وضو کیا اور نماز کے لئے کھڑے ہو گئے۔ اس وقت وہ دعا مانگ چکے تھے اور چاہتے تھے کہ اٹھ کر پھر سے کام کریں۔ تبھی ان دونوں کی نگاہ ایک جیپ پر پڑی جو تیزی سے ان کی طرف آ رہی تھی۔ احمد بخش کے چہرے پر ایک رنگ آ کر گزر گیا۔ علی نے اس کی جانب دیکھا اور پھر کہا۔
’’احمد بخش، تم نے کوئی بات نہیں کرنی، میں انہیں سنبھال لوں گا۔‘‘ لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ جیپ ان سے قدرے فاصلے پر آن رکی۔ پھر اس میں پیراں دتہ کے علاوہ چند لوگ مزید بھی اتر آئے جن کے ہاتھوں میں اسلحہ تھا۔ وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا آ رہا تھا۔ علی اس طرح خاموش بیٹھا رہا۔ پیراں دتہ عین سر پر آ کے بولا۔
’’اوئے تو کون سی زبان سمجھتا ہے۔ تجھے کل سمجھایا تھا کہ یہ سب بند کرو اور یہاں سے دفعان ہو جاؤ۔‘‘
’’دیکھو، ہم تمہارا کوئی نقصان نہیں کر رہے، پھر تم کیوں ہمیں تنگ کر رہے ہو۔‘‘ علی نے کمال تحمل سے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تم ہمارا کیا نقصان کر سکتے ہو، کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ۔۔۔ ہونہہ۔۔۔ چلو جاؤ یہاں سے ورنہ بے موت مارے جاؤ گے۔‘‘ پیراں دتے نے انتہائی نخوت اور غضب سے کہا۔
’’میرے بھائی۔۔۔ اللہ تم پر رحم کرے، میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ میں نے یہاں مدرسہ بنانا ہے اور مسجد بھی بنے گی۔ اب تمہاری جو مرضی ہے وہ کرو۔‘‘ علی نے کہا تو پیراں دتے نے گن سیدھی کی۔
’’دیکھو علی۔۔۔ لمحوں کا کھیل ہے، میری انگلی کی ایک جنبش سے تمہاری زندگی ختم ہو سکتی ہے؟ لیکن تمہاری موت سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا، جتنا تمہیں یہاں سے بھگا دینے کا فائدہ ہے۔ تم یہ مت سمجھنا کہ ہم تمہاری شعبدہ بازی سے مرعوب ہو جائیں گے۔ عقل کرو اور یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘ پیراں دتے نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’زندگی اور موت میرے اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ جو ہونا ہے اس کی مرضی سے ہو گا۔ تم جو چاہو کرو، میں تمہیں نہیں روکنے والا۔‘‘ علی نے کہا اور اٹھ گیا۔ احمد بخش بھی اس کے ساتھ ہی اٹھ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کام کی طرف بڑھتے، جیپ آگے بڑھی اور تازہ مٹی سے بنی ہوئی دیوار کو توڑنے لگی۔ ڈرائیور نے جیپ کے آگے لگے ہوئے ہیڈ رالک سے تھوڑی دیر میں وہ ساری دیوار مسمار کر دی۔ پیراں دتہ ڈرائیور کو اشارے سے سمجھاتا رہا جبکہ علی اور احمد بخش خاموشی کے ساتھ وہ سارا نظارہ کرتے رہے۔ انہیں روکنے کے لئے ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ جب وہ ساری دیوار مسمار کر چکے تو پیراں دتے نے علی کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہاری آج کی مزدوری تو گئی۔ میں کل پھر آؤں گا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مڑ گیا۔ چند قدم چلنے کے بعد وہ رک گیا جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو۔ وہ چلتا ہوا اس چھوٹے سے تالاب تک گیا جس میں بارش کا پانی جمع ہو چکا تھا۔ اس نے اپنا تہبند ہٹایا اور وہاں بیٹھ کر پیشاب کر دیا۔ فراغت کے بعد وہ اٹھا اور انتہائی نخوت کے ساتھ بولا۔ ’’لو۔۔۔ تمہارا یہ پانی بھی گیا۔ اب کہیں اور سے ڈھونڈ کر لانا پانی اور مزدوری کرنا، تاکہ میں کل پھر گرادوں۔‘‘ اس نے کہا اور قہقہہ لگاتے ہوئے جیپ میں جا بیٹھا۔ پھر چند لمحوں میں وہ وہاں سے چلے گئے۔
ان کے جاتے ہی احمد بخش نے روہانسی آواز میں کہا۔
’’علی بھائی۔۔۔ یہ سب کیا ہے کیوں ہمیں تنگ کر رہے ہیں۔‘‘
’’صبر۔۔۔ میرے بھائی صبر۔۔۔ یہی ہمارا زادراہ ہے۔‘‘
’’مگر کب تک ہم یہ ظلم برداشت کرتے رہیں۔‘‘
’’جب تک وہ خود اپنے ظلم سے تنک نہیں آ جائیں گے۔‘‘ علی نے جواباً کہا اور پھر اسے سمجھاتے ہوئے بولا۔ ’’دیکھو۔۔۔ ہمارا فرض تو کوشش ہے نا۔ وہ ہم پورے خلوص سے کر رہے ہیں۔ آگے میرے اللہ سوہنے کو جو منظور ہے، ہونا تو وہی ہے نا۔ بس اس کی رضا میں راضی رہو۔‘‘ علی نے اس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔ تو احمد بخش نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسو پونچھ ڈالے۔ تو علی ن ے اسے گلے لگا لیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سیدن شاہ کے قہقہے سے کمرہ گونج گیا۔ اچھی طرح ہنس لینے کے بعد وہ خوشی سے بولا۔
’’تم نے بہت اچھا کیا، جو بھی کیا بہت اچھا کیا پیراں دتہ، میں خوش ہوا۔ واقعی اسے مار دینا عقل مندی نہیں، بلکہ اسے ذلیل و رسوا کر کے اس علاقے سے نکالنا ہی ہمارے حق میں اچھا ہے۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ وہ زیادہ دن نہیں ٹک سکے گا۔ اس نے جو شعبدہ بازی دکھائی تھی۔ میں وہ بھی غارت کر آیا ہوں۔‘‘ پیراں دتے نے مسکراتے ہوئے کہا تو سیدن شاہ پھر کھلکھلا کے ہنس دیا جیسے یہ بات اسے بہت مزہ دے گئی ہو۔ سو اس نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’اب کہاں سے لائے گا وہ پانی ، ٹوبے سے تو لوگ نہیں بھرنے دیں گے، وہ پانی میں نے پلید کر دیا۔ اتنے اس کے پاس وسائل نہیں کہ وہ کنواں نکال لے اور اگر وہ وہاں پر کنواں بھی نکال لے تو میٹھا پانی نہیں نکلے گا۔ اب آسمان سے بادل پکڑ کر تو لانے سے رہا۔ بھاگ جائے گا ایک دو دن میں۔‘‘
’’چلو اچھا ہے کہ وہ بھاگ جائے۔ ہمیں اس کی جان نہ لینا پڑے۔‘‘ سیدن شاہ نے قدر سنجیدگی سے کہا اور پھر یوں چونکتے ہوئے بولا۔۔۔جیسے اسے کوئی بات یاد آ گئی ہو۔
’’ارے ہاں۔۔۔ وہ مہرو والے معاملے کا کیا بنا۔ مانی ہے کہ نہیں وہ۔‘‘
’’نہیں سائیں۔۔۔ وہ ابھی نہیں مانی اور پھر لڑکے والے بھی کون سا دلچسپی لے رہے ہیں پیر سائیں۔‘‘ پیراں دتے نے انتہائی ادب سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ وہ تو چاہیں گے کہ ایسا نہ ہو، معاہدہ ختم ہو جائے۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ تو پھر کیا حکم ہے ان لوگوں کے لئے۔‘‘پیراں دتے نے پوچھا۔
’’پھر کیا ہے، رب نواز کو پولیس کے حوالے کرو اور وہ مہرو اگر اچھی ہے تو اسے حویلی میں لے آؤ، وہ یہیں رہے اور ہماری خدمت کرے۔‘‘
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘ پیراں دتے نے لرزتے لہجے میں کہا اور واپس پلٹ جانا چاہا جیسے اسے سیدن شاہ کا یہ فیصلہ اچھا نہ لگا ہو۔
پیراں دتہ ،سیدن شاہ کی حویلی سے نکل آیا تھا۔ اب اس کا رخ کچی بستی کی طرف تھا۔ اس کے ذہن میں مہرو چھائی ہوئی تھی۔ وہ آج اسے آخری بار سمجھانا چاہتا تھا۔ وہ جیپ دوڑائے چلا جا رہا تھا اور اس کے دماغ میں خیالات بھی اسی تیزی سے چل رہے تھے۔ اس نے مہرو کے بارے میں جو سوچا تھا۔ اب تک ویساہی ہوتا چلا آیا تھا۔ اب اس کی پوری کوشش تھی کہ آئندہ آنے والے دنوں میں وہی کچھ ہو جو وہ چاہتا تھا۔ یہی سوچتے ہوئے وہ کچی بستی میں مہرو کے گھر کے سامنے جا رکا۔ پھر جیپ سے اترا اور گھر کے اندر چلا گیا۔
صحن کے درمیان میں درخت کے نیچے گامن اور جنداں بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ سیدھا ان کے پاس چلا گیا اور علیک سلیک کرتے ہوئے چارپائی پر بیٹھ گیا۔ پھر اس نے سیدھے سبھاؤ بنا کسی تمہید پوچھا۔
’’ہاں تو چاچا گامن، بتا پھر کیا سوچا ہے تم لوگوں نے ، کب آ رہی ہے بارات؟‘‘
’’پتر۔۔۔ ہم تو عاجز آ گئے ہیں اس لڑکی سے، ہماری سنتی ہی نہیں ہے۔ مسلسل انکار کرتی چلی جا رہی ہے۔ اب بتاؤ ہم کیا کریں؟‘‘ گامن نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا۔
’’پھر تم لوگ کچھ بھی نہیں کر سکو گے، رب نواز جیل چلا جائے گا اور مہرو۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کو روکا اور پھر پرتجسس انداز میں بولا۔ ’’اور مہرو کو پیر سائیں کی حویلی میں جانا پڑے گا۔‘‘ پیراں دتے نے تیزی سے کہا تو گامن اور جنداں کا تو جیسے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ جنداں کے منہ سے تو کراہ بھی نکل گئی۔ یہ ایک کھلا راز تھا۔ جو لڑکی پیر سیدن شاہ کی حویلی میں چلی جاتی تھی۔ اس کی حیثیت لونڈی جیسی ہو جاتی تھی۔ اس پر سیدن شاہ کا پورا تصرف ہوتا۔ اگرچہ وہ وہاں پراچھا کھاتی اور اچھا پہنتی لیکن پوری زندگی اس حویلی کے لئے وقف ہو جاتی۔ یہ الگ بات ہے کہ جب کبھی سیدن شاہ کا دل بھر جائے تو وہ اسے اپنے کسی مرید کو بخش دے۔ جو اس کے ساتھ تبرک کے طور پرنکاح بھی کر لیتا۔ سیدن شاہ نے اپنی بیوی اور بچوں کو کبھی پاکستان نہیں رہنے دیا تھا۔ وہ کبھی کبھار آتے اور پھر واپس لندن چلے جاتے۔ پورے سال میں چند ماہ سیدن شاہ بھی وہاں گزار کے آتا۔ یہ محل نما حویلی تو اس کا ڈیرہ تھی جہاں مریدین کے ساتھ روحانی معاملات بھی چلتے اور آسودگی کے لئے تمام ہتھکنڈے اپنائے جاتے۔ کوئی بھی نہیں بول سکتا تھا، کیونکہ جو آواز بھی خلاف سمجھی جاتی، اسے ہمیشہ کے لئے دبا دیا جاتا تھا۔
اگرچہ بھیرے کے ساتھ شادی زندگی خراب کرنے والی بات تھی لیکن سیدن شاہ کی حویلی میں رہنا بھی زندگی کو بدترین حالات کے حوالے کر دینے والا فیصلہ ہوتا۔
’’تم لوگوں نے کوئی جواب نہیں دیا؟‘‘ پیراں دتے نے انہیں ہوش کی دنیا میں لانے کی کوشش کی۔ وہ کوئی جواب نہیں دے سکتے تھے۔ اس لئے پیراں دتے نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’میں جا رہا ہوں ، کل تک اپنا فیصلہ سنا دینا، ورنہ پرسوں آکر مہرو کو لے جائیں گے۔‘‘
’’پیراں دتہ۔۔۔ ہماری بات تو سنو، ہم پراتنا بڑا ظلم نہ کرو، ہم تمہارے سامنے ہاتھ جوڑتے ہیں۔‘‘ گامن نے کھڑے ہو کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔
’’میری منت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں چاچا گامن۔۔۔ یہ تو پیر سائیں کا حکم ہے جو میں نے تم لوگوں کو سنا دیا ہے۔ اب تم جانو اور پیر سائیں جانے۔‘‘ اس نے کہا اور تیزی سے دروازے کی سمت بڑھ گیا۔ وہ جیپ میں بیٹھا تو اس کا رخ ٹوبے کی طرف تھا۔ جہاں لڑکیاں پانی بھرنے کے لئے گئیں ہوئی تھیں۔ پیراں دتے نے اندازہ لگا لیا تھا کہ مہرو ضرور اس وقت پانی بھرنے گئی ہوگی۔
اس کا اندازہ درست نکلا۔ مہرو سر پر گھڑا رکھے اکیلی چلتی چلی آ رہی تھی۔ اس نے جیپ اس کے قریب روک دی اور اتر کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ مہرو سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ کسی قدر خوف بھی مہرو کی نگاہوں میں اتر آیا تھا کہ نجانے یہ شخص اس کا راستہ روک کر کیوں کھڑا ہو گیا ہے۔ چند لمحوں تک ان میں کوئی بات نہیں ہوئی۔ تب مہرو بولی۔
’’کیا بات ہے۔۔۔ کیوں میرا راستہ روک کر کھڑا ہو گئے ہو؟‘‘ اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا جیسے پیراں دتہ کی یہ حرکت اسے قطعاً پسند نہ آئی ہو۔
’’یوں تیرا راستہ نہ روکوں تو پھرتم سے بات کیسے کروں، میں جب بھی تیرے گھر گیا ہوں تم سے بات ہی نہ ہو سکی۔ میں نے سوچا آج اکیلے میں تم سے ضرور بات کر کے رہوں گا۔‘‘
’’کیا بات کرنی ہے تم نے۔‘‘ مہرو کے لہجے میں حیرت گھلی ہوئی تھی۔
’’مہرو۔۔۔ تم جانتی ہو کہ اگر تم نے بھیرے کے ساتھ شادی نہ کی تو پھر تمہیں پیر سائیں کی حویلی میں جانا پڑے گا اور رب نواز کو پھانسی کے پھندے سے کوئی نہیں بچا سکتا؟‘‘
پیراں دتے نے اپنے لہجے کو گمبھیر بناتے ہوئے کہا۔ تو مہرو نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’تم کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘
’’میں جو کہنا چاہتا ہوں۔ اسے تم خوب سمجھتی ہو۔ ‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے مہرو کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ بلاشبہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھتی تھی کہ آخر وہ کیا کہنا چاہتا ہے اس کا مطلب کیا ہے۔
’’صاف بات کہو، تم کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ وہ بولی اور پھر ایک لمحہ توقف کے بعد کہا۔ ’’یہ تو جانتی ہوں، کہ تم مجھے ڈرانا چاہتے ہو۔ دھمکانے آئے ہو؟‘‘
’’نہیں میں تمہیں حالات سے باخبر کرنے آیا ہوں۔ ایسا ہو جائے گا۔ لیکن اگر تم چاہو تو بہت کچھ بدل بھی سکتا ہے بلکہ سب کچھ ہی بدل سکتا ہے۔‘‘
’’میں نے کہا نا صاف بات کرو۔‘‘ مہرو نے اکتاتے ہوئے کہا۔
’’تو سنو۔۔۔ اگر تم میری بات مان لو، تو نہ تمہاری شادی بھیرے سے ہو گی، تمہیں پیر سائیں کی حویلی میں بھی جانا نہیں پڑے گا اور رب نواز بھی بچ جائے گا۔‘‘
’’یہ اتنے سارے احسان مجھ پر کیوں ہو رہے ہیں۔ یہ میں پوچھ سکتی ہوں۔‘‘ مہرو نے اس سے پوچھا۔
’’دیکھو مہرو۔۔۔ تو مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔ پتہ نہیں کب سے تو میرے دل میں بس چکی ہے۔ میں تمہیں تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا، تو میری ہو جا۔ میں سب دیکھ لوں گا۔‘‘
’’تم ہوش میں تو ہو پیراں دتہ۔۔۔‘‘ مہرو نے حیرت سے کہا۔
’’میں تمہارے لئے کب کا ہوش کھو چکا ہوں۔ مجھے معلوم تھا کہ سانول تم سے بہت پیار کرتا ہے، عشق کرتا تھا تم سے، اس لئے جب تک وہ رہا میں تم سے کوئی بات نہیں کہہ سکا، اس نے تمہیں بھگانے کی بے وقوفی کی اور بے موت مارا گیا۔ رب نواز اسے نہ مارتا تو کوئی اور مار دیتا۔اسے تو مرنا ہی تھا۔
’’مطلب۔۔۔ تم نے۔۔۔‘‘ مہرو نے کہنا چاہا لیکن شدت حیرت سے لفظ ہی اس کے منہ سے نہ نکل سکے۔
’’ہاں میں نے۔۔۔ میں نے چاہا تھا کہ وہ قتل ہو جائے، وہ ہو گیا۔ اب پیر سائیں نے جو فیصلہ کیا وہ بھی میرے کہنے پر کیا۔‘‘
’’تم نے ایسا کیوں کیا پیراں دتہ۔۔۔؟‘‘ مہرو روہانسی ہوتے ہوئے بولی۔
’’بھیرا تو بچہ ہے۔ تمہاری شادی اس سے رہتی اور تم میرے لئے۔۔۔‘‘ پیراں دتے نے خباثت سے ہنستے ہوئے کہا تو مہرو کے بدن میں جان ہی نہ رہی تھی۔
’’تم بہت بے غیرت ہو پیراں دتہ۔۔۔‘‘ مہرو نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’بے غیرت ہوں تو کتوں کی طرح پیر سائیں کی چوکھٹ پر پڑا ہوں نا، رب نواز نے غیرت دکھائی ہے تو کیا ہوا، وہ بھی تو کتوں کی طرح پیر سائیں کی چوکھٹ پر پڑا ہے نا، ان کے رحم و کرم پر، کیا غیرت اور کیا بے غیرتی۔۔۔ اسے چھوڑ اور چپ چاپ بھیرے سے شادی کر لے، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ شہزادیوں کی طرح رکھوں گا تمہیں۔‘‘
’’مجھے مرجانا قبول ہے پیراں دتہ لیکن میں اپنے آپ کوکتوں کے آگے نہیں ڈالوں گی۔‘‘
’’تو پھر مر جاؤ۔‘‘ پیراں دتے نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’لیکن سنو۔۔۔ تم اکیلی نہیں مرو گی، تیرا بھائی، تیرے ماں باپ سب دفن ہو جائیں گے۔ تیرے خاندان کا نام و نشان تک نہیں رہے گا۔ میں تمہارے خاندان کو لوگوں کے لئے عبرت کا نشان بنادوں گا۔‘‘
’’میرے سامنے سے ہٹ جاؤ پیراں دتہ۔۔۔‘‘ مہرو نے غراتے ہوئے کہا۔
’’مجھے تیری یہی ادائیں تو پسند ہیں مہرو، خیر۔۔۔ تم خوب سوچ سمجھ لو، میری بات مان لے گی تو سب ٹھیک ہو جائے گا، عیش کرے گی عیش، ورنہ میں تمہیں ذلیل کر کے رکھ دوں گا۔‘‘
’’جو خود ذلیل ہو وہ کسی کو کیا ذلیل کر سکتا ہے۔ آج تو تم نے مجھ سے بات کرلی ہے، آئندہ اگر میرے ساتھ ایسی بے غیرتی کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔‘‘ مہرو نے کہا اور اپنا آپ بچاتے ہوئے ایک پہلو سے نکل گئی۔ تب پیراں دتے نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے بھی منظور ہے۔‘‘
مہرو جا چکی تھی پیراں دتہ مسکراتے ہوئے جیپ میں بیٹھا اور خوش کن خیالوں میں گنگناتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
گرمیوں کی راتیں بڑی چھوٹی ہوتی ہیں۔ اس وقت ر ات کا دوسرا پہر چل رہا تھا جب نگہت بیگم اپنی چارپائی سے اٹھی۔ اسے پیاس محسوس ہو رہی تھی۔ اس نے اپنے بچوں کو دیکھا جو صحن میں سوئے ہوئے تھے۔ ان سے ذرا ہٹ کر غلام نبی کی چارپائی تھی۔ وہ اٹھی اور صحن کے کونے میں دھرے کولر تک گئی جس میں ٹھنڈا پانی بھرا ہوا تھا۔ تھوڑا سا کھٹکا ہوا تو غلام نبی نے گردن گھما کے دیکھا اور دھیمی سی آواز میں کہا۔
’’بیگم۔۔۔ مجھے بھی پانی دینا۔‘‘
’’جی اچھا۔‘‘ نگہت بیگم نے بھی اسی طرح دھیمی آواز میں جواب دیا اور پھر خود پانی پی کر اپنے شوہر کے لئے پانی لے آئی۔ غلام نبی نے پانی پیا اور گلاس واپس کرتے ہوئے بولا۔
’’ارے نیک بخت ذرا بیٹھو۔ میں نے تم سے ایک مشورہ کرنا ہے۔‘‘ اس نے کہا تو نگہت بیگم بیٹھ اور بولی۔
’’ایسی کیا بات ہے۔‘‘
’’بات یہ ہے نگہت کہ ہمارے شہر میں ایک بہت بڑا اور امیر آدمی رہتا ہے۔ بہت لمبا چوڑا کاروبار، جائیداد وغیرہ ہے ان کی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکااور پھر بولا۔ ’’شاید تم نے بھی اس کا نام سنا ہوگا، سردار امین خاں ہے اس کا نام۔‘‘
’’وہی ہے نا جو الیکشن لڑتا ہے۔ پچھلی بار ہم نے انہیں ووٹ دیئے تھے۔‘‘ نگہت بیگم نے بتایا۔
’’ہاں۔۔۔ بالکل وہی۔‘‘ غلام نبی نے کہا تو نگہت بیگم اس کی بات سننے کی منتظر رہی۔ ’’اس کی بیٹی ہے فرزانہ خاں اس نے آج مجھے بلوایا تھا اور میں اس سے ملنے چلا گیا۔‘‘
’’اللہ خیر کرے، بات کیا تھی۔‘‘
’’بات ہمارے فائدے کی ہے۔‘‘ غلام نئی نے دھیرے سے کہا۔
’’اچھا اب بتا بھی دیں۔‘‘ نگہت بیگم نے تجسس میں بے تابی سے کہا۔
’’بیگم۔۔۔ میں پریشان تھا کہ اس سال جب میں ریٹائر ہو گیا تو پھر کیا کروں گا۔ پنشن سے تومیں بیٹی بیاہ دوں گا اور اگلے دو سالوں میں احسن کی تعلیم بھی مکمل ہو جائے گی۔ وہ لڑکی تو میرے لئے فرشتہ بن گئی ہے۔‘‘
’’اچھا وہ تو بتائیں کہ اس نے بلایا کیوں تھا۔‘‘
’’اس نے مجھے نوکری کی آفر کی ہے۔ اس نے کہا ہے کہ جب تک میں ریٹائر نہیں ہو جاتا، شام کے وقت اس کے اکاؤنٹ وغیرہ دیکھ لیا کروں۔ پھر بعد میں دن کے وقت ، حیرت والی بات یہ ہے کہ وہ مجھے اچھی خاصی تنخواہ دے رہی ہے، جس کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا۔‘‘ غلام نبی کے لہجے میں واقعتاً حیرت چھلک رہی تھی۔
’’وہ کیا کرتی ہے، جس کا اکاؤنٹ۔۔۔‘‘ نگہت بیگم نے پوچھا۔
’’اس نے کوئی فلاحی تنظیم بنائی ہے ظاہر ہے کوئی بہت بڑا سیٹ اپ ہو گا۔ مجھے حیرت اس لئے ہے کہ اس نے مجھے کیوں چنا، وہ تھوڑی تنخواہ پر کسی اور نوجوان کو بھی رکھ سکتی تھی۔‘‘ غلام نبی نے کہا تو نگہت بیگم بولی۔ اس کے لہجے میں دکھ اور اعتماد ملا جلا تھا۔
’’میں ایک بات کہوں غلام نبی۔۔۔ یہ تو کچھ بھی نہیں ہے۔ آگے آگے دیکھنا کتنی چیزیں ہماری منتظر ہیں۔‘‘
’’یہ کیاکہہ رہی ہو تم؟‘‘ غلام نبی نے حیران ہوتے ہوئے کہا۔
’’تم نے میرے بچے علی کی باتیں نہیں سنی تھیں اس وقت تو مجھے کسی بات کی سمجھ نہیں آئی تھی لیکن اب مجھے بڑی سمجھ آ رہی ہے۔ تم نے دیکھا نہیں غلام نبی۔ ہم اپنی بیٹی کے رشتے کے لئے کتنے پریشان تھے۔ لیکن ہوا کیا، بیٹھے بٹھائے ایک اچھا خاندان اور اچھا لڑکا مل گیا۔ ہم نے کیا کوشش کی تھی اس کے لئے اور دیکھنا جب وہ بیاہی جائے گی تو بھی روپے پیسے کی فکر نہیں ہو گی۔‘‘
’’تیرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری آسانیاں علی کی و جہ سے ہیں جو گھر چھوڑ کر نجانے کہاں چلا گیا ہے؟‘‘ غلام نبی نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ اغواء ہونے سے پہلے وہ کچھ اور چیز تھا لیکن اس کے بعد وہ علی رہا ہی نہیں۔ میں اس آزاد پنچھی کو گھر میں قید کر ہی نہیں سکتی تھی۔ وہ چاہے تو ابھی آ جائے اور چائے تو کبھی نہ آئے۔‘‘ نگہت بیگم نے اداس ہوتے ہوئے کہا۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘ غلام نبی بھی اداس ہو گیا۔
’’میں ماں ہوں، اس کی جدائی کو برداشت کر رہی ہوں۔ دکھ تو ہے لیکن میری مامتا کو تسلی بھی ہے۔ وہ کچھ بھی غلط نہیں کر رہا ہو گا۔ بلکہ اس کی اپنی کوئی مرضی رہی نہیں ہو گی۔‘‘ اس نے خود کلامی کے سے انداز میں کہا اور پھر اپنے شوہر کی جانب دیکھ کر بولی۔ ’’میرا بیٹا، مجھے ملے یا نہ ملے مگر تم سے اب دولت سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔ میرا یقین رکھو۔‘‘ نگہت بیگم نے کہاا ور اٹھ گئی۔ غلام نبی نے اس کی پلکوں پر اشکوں کو دیکھ لیا تھا۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ فرزانہ کی آفر قبول کر لے گا۔ لیکن دولت کہاں سے آئے گی، اس کی اسے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سورج طلوع ہوئے کافی وقت ہو گیاتھا۔ علی جنڈ کے درخت کے تلے بیٹھا ہواتھا۔ احمد بخش ابھی تک نہیں آیاتھا جبکہ بھیرا روٹی کھلا کر چلا گیا تھا۔ پچھلے تین دن سے وہ کوئی کام نہیں کر سکے تھے۔ ٹوبے سے پانی بھرنے کی اجازت نہیں تھی اور بارش کاپانی جو گڑھے میں جمع ہو گیاتھا ا سے وہ استعمال نہیں کر نا چاہتے تھے۔ کوئی اور ذریعہ ان کے پاس نہیں تھا۔ جس سے وہ پانی حاصل کر سکیں۔ ان کے پاس صرف ایک ذریعہ اور تھا جس سے پانی حاصل کر سکتے تھے اور وہ تھا کنواں۔۔۔ مگر اس ویرانے میں جہاں زیرزمین پانی سینکڑوں فٹ گہرائی پر تھا، ان دونوں کے لئے کنواں کھودنا ناممکن سی بات تھی۔ اگر کنواں کھودنے کے لئے انہیں افراد میسر آ بھی جائیں تو وہاں ہر طرف کھارا پانی تھا۔ اس قدر کھارا پانی کہ زبان پر نہ رکھا جا سکے۔ اگر آسانی سے کنواں کھودا جا سکتا ہو اور وہاں میٹھا پانی ہو تو روہی آباد نہ ہو جاتی۔ یہ ساری معلومات احمد بخش نے دی تھی۔ علی نے سب کچھ تحمل سے سن لیا تھا۔ اگرچہ صورت خال خاصی مخدوش ہو چکی تھی لیکن علی کا حوصلہ پھر بھی بلند تھا۔ کل شام تک وہ یہی سوچ رہاتھا کہ کیا کرے۔ جب اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو عشاء کے بعد اس نے تمام تر معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا کہ توہی کارساز ہے، توہی کوئی ذریعہ بنائے گا۔ علی منتظر تھا کہو پردہ غیب سے کیا ظہور ہوتا ہے۔
اس وقت احمد بخش کو آئے ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ کچی بستی کی مخالف سمت سے ایک غبارسا اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ جو دھیرے دھیرے واضح ہوتا چلا گیا اور پھر انہیں صاف دکھائی دینے لگا کہ ایک جیپ ہے اور اس کے پیچھے ٹریکٹر ٹرالی۔ ٹرالی میں کافی سارے لوگ تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ سارے لوگ ان کے پاس آ گئے۔ جیپ میں سے خان محمد برآمد ہوا، جس کے ساتھ چار گن مین تھے۔ ٹرالی میں سے اترنے والے چند لوگوں کے پاس بھی اسلحہ تھا۔ خان محمدسیدھا علی کے پاس آیا۔ قدرے جھک کر اور بڑے تپاک سے ملا۔ یہاں تک کہ باری باری لوگوں نے مصافحہ کیا اور وہیں جنڈ کے درخت تلے ریت پربیٹھ گئے۔
’’علی بھائی مجھے معلوم ہی نہیں تھا کہ آپ دوبارہ یہاں آ گئے ہیں۔‘‘ خان محمد نے اپنی بات کا آغاز کیا تو علی نے دھیرے سے پوچھا۔
’’کیا آپ کومیاں جی کی رحلت کے بارے میں بھی علم نہیں ہوا؟‘‘
’’ہوا تھا، لیکن میں آ نہیں سکا۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ یہ میراعلاقہ نہیں، سیدن شاہ کے بندے کسی وقت بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جنازے پر کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے۔‘‘ اس نے تفصیل سے اپنی مجبوری کہہ دی۔
’’تو پھر آج۔۔۔‘‘ علی نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’مجھے پرسوں پتہ چلا ہے کہ آپ یہاں پر کوئی مسجد اور مدرسہ بنانا چاہ رہے ہیں، لیکن سیدن شاہ کے لوگ آپ کو بنانے نہیں دے رہے ہیں۔ آج پھر میں اس لئے آیا ہوں کہ میں خود آپ کے ساتھ کھڑا ہو کر یہ بناؤں۔‘‘
’’میری ہمدردی میں یا سیدن شاہ کی مخالفت میں۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’علی بھائی۔۔۔ میں منافقت نہیں کروں گا، سچ کہتا ہوں، میرے سامنے دونوں ہی باتیں ہیں۔‘‘ خان محمدنے صاف گوئی سے کہا۔
’’توگ تو ڈرتے ہیں سیدن شاہ سے۔‘‘ علی نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’اس میں کوئی شک نہیں، لیکن مجھے اس کا خوف نہیں ہے۔ لوگ تو اس لئے ڈرتے ہیں کہ وہ کمزور ہیں۔ خیر۔۔۔ آپ بتائیں، میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں۔‘‘ خان محمد نے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’کیا کر سکتے ہیں آپ؟‘‘ علی نے بڑبڑاتے ہوئے کہا جیسے خود سے بات کر رہا ہو۔ پھر اس نے خان محمد کی طرف دیکھا اور کہا۔
’’آپ لوگ یہاں کنواں کھود سکتے ہو؟‘‘ علی نے کہا تو خان محمد چونک گیا اور پھرسمجھانے والے انداز میں بولا۔
’’علی۔۔۔ یہ جگہ ایسی نہیں ہے کہ پانی جلد نکل آئے اور اگر پانی نکل بھی آئے تو وہ کھارا ہوگا، اس لئے ساری محنت بے کار۔۔۔‘‘
’’نہیں جائے گی۔۔۔ جہاں میں کہوں، وہاں سے کنواں کھودیں۔‘‘ علی نے انتہائی اعتماد سے کہا تو ایک لمحہ کے لئے خان محمد نے سوچا اور پھر بولا ۔
’’ٹھیک ہے۔ آپ جگہ بتائیں، میں کنواں کھدوانے کا بندوبست کرتا ہوں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ علی نے اتنا کہا اور کسی معمول کی طرح وہاں سے اٹھ گیا۔ وہ پہلے میاں جی کی قبر پر گیا اور پھر تھوڑی دیر وہاں رکے رہنے کے بعد ادھر ادھر ٹہلنے لگا۔ سب لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔ پھر ایک جگہ وہ رک گیا۔ وہاں کافی دیر تک رکا رہا۔ وہیں کھڑے ہو کر اس نے آنکھیں بند کر لیں چند لمحے اس حال میں رہا۔ پھر اس نے تکبیر کہہ کر ہاتھ باندھ لئے۔ دو نفل نماز ادا کی اورکھڑا ہو گیا۔ ا س نے دعا کے لئے ہاتھ پھیلا لئے۔ اسی طرح کافی وقت گزر گیا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ پھر یوں ہوا کہ جیسے اسے قرار آ گیا۔ اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے اور مسکراتے ہوئے خان محمد کو اشارہ کیا۔ وہ اٹھ کر اس کی جانب بڑھ گیا۔ وہ قریب پہنچا تو علی نے کہا۔
’’اس جگہ، جہاں میں کھڑا ہوں، اس جگہ کنواں کھودیں۔ اللہ کے حکم اور نبی ﷺ کے صدقے یہاں شیریں پانی ملے گا۔‘‘
خان محمد نے سنا اور اپنے ساتھ آئے سارے لوگوں کو آنے کا اشارہ کیا۔ وہاں ایک ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ تب اس نے کہا۔
’’سنو۔۔۔ یہاں کنواں کھودنا ہے۔ آج اورابھی سے، جس کے پاس کوئی ا وزار ہے تو ٹھیک ہے ورنہ لے آئیں، جتنے دن بھی لگیں۔ یہ کنواں ہرحال میں کھودنا ہے۔‘‘
یہ سنتے ہی چند لوگ ٹریکٹر ٹرالی پر بیٹھے اور واپس چل دئیے۔ وہ اوزار لانے گئے تھے۔ احمد بخش نے کسی علی کے ہاتھ میں دے دی۔ علی نے پہلے زمین پر کسی ماری۔ یوں ابتداء ہو گئی اور ایک ہفتے تک سینکڑوں آدمی آتے جاتے رہے اور پانی نکل آیا۔ خان محمد روزانہ وہاں آتا رہا اور جس دن صاف پانی نکل آیا۔ سب سے پہلے ا س نے چکھا۔ شریں پانی دستیاب ہو چکاتھا جس کا اس صحرا میں تصور بھی نہیں تھا۔ علی سجدہ شکر میں گر گیا۔ اس کی دعا قبول ہو گئی تھی۔
شیریں پانی کیا ملا، وہاں تو جشن کا سا سماں بن گیا۔ جس چیز کا وہ تصور ہی نہیں کر رہے تھے، وہ مل جائے توخوشی کی حالت کیاہوتی ہے۔ اس کیفیت کا اندازہ ان لوگوں کے چہروں سے لگایا جا سکتا تھا جنہوں نے محنت کی تھی۔ آناً فاناً یہ خبر کچی بستی تک پہنچ گئی۔ جس نے بھی سنا، وہ ہی دوڑتا چلا آیا۔ ان کے تو گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا ممکن ہو جائے گا۔ ایک جہان حیرت ان پر وا ہو چکا تھا۔ وہ سب حیران تھے۔ ذرا سی بات ایک افسانے کی صورت اختیار کر گئی۔ عصر کا وقت ہوا تو علی نے خان محمد سے کہا۔
’’نماز کا وقت ہو رہا ہے، نماز پڑھ لی جائے۔‘‘
پھر دیکھتے ہی دیکھتے صفیں سیدھی ہوئیں۔ تب علی نے احمد بخش کا ہاتھ پکڑ کر امامت کے لئے آگے کر دیا۔ اور کہا۔
آج سے یہ ذمہ داری آپ کی ہے۔‘‘ احمد بخش نے امامت کروائی۔ نماز پڑھی جا چکی تو علی اٹھ کر لوگوں سے مخاطب ہوا۔
’’میرے محترم ساتھیوں۔۔۔ تمام تر تعریفیں اللہ رب العزت کے لئے ہیں۔ کروڑوں دوردو سلام نبی آخر الزماںؐپر جو وجہ تخلیق کائنات ہیں۔ اس کائنات میں جو کچھ بھی ظہور ہوتا ہے وہ تمام تر اللہ کی مرضی و منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ یہاں پر اگر مسجد تعمیر کی جا رہی ہے تو اس کا مقصد یہ نہیں کہ ہم خود کو الگ تصور کرتے ہیں بلکہ یہاں اس کی ضرورت اس لئے ہے کہ یہاں پر ایک مدرسہ بھی قائم کیا جا رہا ہے۔ یہاں بچے تعلیم حاصل کریں گے۔ میرے دستو۔۔۔ یہ علاقہ پس ماندہ صرف اور صرف اس لئے ہے کہ یہاں تعلیم کی روشنی نہیں پہنچی۔ انسانوں نے ہی انسانوں کو حقوق دینے ہیں اور وہی فرائض کے ذمہ دار ہیں۔ یہ دین اسلام ہی ہے جس میں علم کے حصول پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آپ سب جانتے ہیں نبیﷺنے علم کو فرض قرار دیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہاں پریہ کام بہت کٹھن ہو گا، لیکن میں تو اس کام کا آغاز کر چکا ہوں، آپ بھی میری مدد کیجئے، یہاں بچوں کو پڑھنے کے لئے بھیجئے گا، ہم سب نے مل کر دین کے اہم ترین فرض کو نبھانا ہے۔ کیا میں آپ سے امید رکھوں؟‘‘ علی نے کہا اور پھر خاموش ہو کر تمام مجمع پر نگاہ ڈالی۔ اسے زیادہ تر لوگوں کی آنکھوں میں حیرت دکھائی دی کہ یہ بندہ کیاانہونا کام کرنے لگا ہے ایسا کام جس کی و جہ سے وہ یہاں کے طاقتور لوگوں سے ٹکر لینے کی بات کر رہاہے۔ کئی سارے لوگوں نے تو ہاں کر دی۔ کئی خاموش رہے۔ یوں مجمع چھٹ گیا۔
شام ڈھل گئی تھی۔ خان محمد جانے کے لئے تیار کھڑا تھا۔ دوسرے لوگ جا چکے تھے۔ تب وہ علی کے پاس آیا اور بولا۔
’’علی بھائی۔۔۔ آپ فکر نہیں کرنا، کل سے یہاں مزدور آنا شروع ہو جائیں گے۔ مدرسہ اور مسجد کی تعمیر کی تمام تر ذمہ داری میری، میں دیکھ لوں گا آپ بے فکر ہو جائیں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مصافحہ کیا اور چلا گیا۔ علی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آ گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سوئی ہوئی مہرو ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی تھی۔ چند لمحوں اسے ہوش ہی نہیں رہا کہ وہ اچانک یوں کیسے بیدار ہو گئی ہے۔ وہ تو گہری نیند میں تھی۔ دھیرے دھیرے اس کے اوسان بحال ہوئے تو اس نے اپنے چاروں جانب دیکھا، چاندی کی ہلکی سی روشنی میں اس کا باپ گامن اور ماں جنداں اس کے پاس اپنی چارپائی پر گہری نیند سو رہے تھے۔ اس کا بھائی رب نواز تو گھر آیا ہی نہیں تھا۔ اسے اچھی طرح احساس تھا کہ وہ کسی خواب میں نہیں تھی بلکہ گہری نیند میں تھی اسے لگا جیسے اس کا بازو کسی نے پکڑا ہے اور اسے اٹھا کر بیٹھا دیا ہے۔ ایسا پہلی بار اس کے ساتھ ہوا تھا، حالانکہ وہ پچھلے ایک ہفتے سے اپنی ہی سوچوں کی و جہ سے بڑی بے چین تھی۔ یہاں تک کہ اسے اپنا وجود بھی برا لگنے لگا تھا۔ اسے لگا جیسے زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ سانول کی موت محض حادثاتی نہیں بلکہ سازش کی و جہ سے ہوئی تھی۔ وہ محض اس لئے قتل ہو گیا کہ پیراں دتہ کو وہ اچھی لگتی تھی۔
جس وقت پیراں دتہ نے اس پر انکشاف کیا تھا، اس لمحے سے اس کی سانول کے بارے میں سوچ بدل کر رہ گئی تھی۔ وہ اک نئے انداز سے اس کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ اسے یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا تھا کہ سانول اس سے کس قدر محبت کرتا تھا لیکن یہ احساس ضرور ہو گیا تھا کہ وہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔ اتنی محبت کرنے والا کون تھا؟ پیراں دتہ۔۔۔ جو محض اپنی ہوس کے لئے نجانے کب سے سازش کر رہا تھا۔ وہ اسے کس قدر بھیانک ترغیب دے رہا تھا کہ وہ بھیرے کی بیوی بن جائے اور اس کی بات مانتی رہے۔ کس قدر گھناؤنا شخص تھا وہ۔ اور سانول۔۔۔ اس کی معصوم محبت، کیا وہ اس کی محبت محسوس ہی نہیں کر سکتی تھی، کیا وہ اس قابل ہی نہیں تھی، اس میں اتنی اہلیت ہی نہیں تھی سانول کے عشق کو محسوس کر سکے۔ وہ جو اسے اپنی جان سے بھی زیادہ چاہتا تھا۔
کیا محبت انسان کو اتنا بے خود کر دیتی ہے؟ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ پہلے تو وہ سانول کے جرم کو ہی سوچتی تھی۔ سانول کا قتل ا س کے جرم کی سزا مانتی تھی لیکن اب اس کا زاویہ نگاہ ہی تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ اس کیفیت، اس لہر اور اس جذبے کو سوچ سوچ کر پاگل ہو رہی تھی جس نے سانول کو مجبور کیا کہ وہ مہرو اٹھا کر لے جائے اور زندگی ساتھ نبھانے کی التجاء کرے۔ اگر اس پر انگلیاں اٹھیں تھیں تو کیا سانول نے ساری دنیا کو اس کے لئے نہیں چھوڑ دیا تھا۔ وہ سانول جو اپنے دل میں اس کی محبت سمیٹے قبر کی گہرائی میں اتر گیا تھا، کیا اس میں سچائی نہیں تھی، اس میں خلوص نہیں تھا؟ کیا محبت یہ ہوتی ہے، جیسے پیراں دتہ نے کہا؟ اس نے تو سیدھے سبھاؤ اسے غلاظت میں اترنے کو کہہ دیا تھا۔ وہ مر جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں کرے گی۔
اگر وہ مر بھی گئی تو کیا ہو گا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔ لیکن سانول کی موت رنگ لائی ہے، علی کی صورت میں نہ صرف سانول نے ایک نیا روپ لیا تھا بلکہ اس میں میاں جی کی پوری صورت دکھائی دینے لگی تھی۔ وہ مر جائے گی تو کیا ہو گا، کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔ مہرو کے دماغ میں یہ خیال آیا تو وہ چونک گئی۔ یہ صحیح تھا کہ اس کی موت کوئی تبدیلی نہیں لا سکتی تھی۔ تو کیا اسے زندہ رہنا چاہیے۔ کیوں زندہ رہنا چاہیے؟ اس سوال نے اسے بری طرح جھنجھوڑ کے رکھ دیا، اس سوال کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ مایوس ہو گئی، اسے اپنی زندگی بھی اندھیروں میں دکھائی دی۔ یہاں امید کی کوئی کرن نہیں تھی۔ اس کا جینا بھی عذاب اور مرنا بھی بے معنی۔ ایسے ہی بے وقعت لمحوں میں اسے علی کی باتیں یاد آنے لگیں۔
’’کیوں، ڈرتی ہو مر جاؤ گی، مرنا تو ہے، آج نہیں تو کل۔ تم ڈنگر رہنے پر راضی ہو، اس لئے تمہیں ڈنگر رکھا جاتا ہے اور پھر محبت وہی کر سکتا ہے جو محبت کی لاج رکھتا ہے۔ سانول تیری لئے مر گیا، کبھی سوچا وہ تم سے کس قدر محبت کرتا تھا۔‘‘
’’یوں سانول کو بدنام نہ کرو۔ اس کی محبت کو گھٹیا ثابت م ت کرو۔ جاؤ جا کر پوچھو کہ سانول کی تم سے کتنی محبت تھی۔ رفا کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس کے نام پر اپنی زندگی گزار دو اور سنو۔۔۔ مجھے سمجھانے مت آنا۔ میں اپنی زندگی کسی اور کے لئے وقف کر چکا ہوں۔‘‘
علی کا لہجہ اور آواز اس کے ذہن میں گونجتا رہا۔ وہ ایک ایک لفظ پر غور کرنے لگی۔ وہ ان لفظوں پر جس قدر سوچتی چلی جا رہی تھی، لمحہ بہ لمحہ وہ نئی دنیا میں پہنچ رہی تھی۔ اس نے واضح طور پر اپنی اندر کی دنیا کو بدلتے ہوئے محسوس کیا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کے من میں سانول کی محبت سمندر کی طرح موجزن ہے، جس کی لہریں اس کے وجود کے ساحل سے سر پٹخ رہی ہیں۔ تبھی ایک عجیب سی خواہش اس کے من میں ابھری، وہ چونک گئی کہ کیا ایساممکن ہے؟ کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ اس سوال کاجواب اس کے پاس نہیں علی کے پاس تھا۔ وہ ہی اس کا جواب دے سکتاتھا۔ وہ کسی معمول کی طرح اٹھی اور چارپائی سے اتر کر دروازے کی جانب بڑھی۔
ہلکی ہلکی پھیکی سی زرد چاندنی میں اس کا وجود کسی ہولے کی طرح لگ رہا تھا، ایسے میں علی کے پاس جانا کس قدر خطرناک ہو سکتا ہے، اس با ت کا اسے ہوش ہی نہیں رہا تھا۔ وہ کسی معمول کی مانند چلتی چلی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ جنڈ کے درخت کے پاس پہنچ گئی۔
علی اس وقت تہجد پڑھ رہا تھا۔ سو مہرو اس سے کافی فاصلے پررک گئی۔ ابھی اسے وہاں کھڑے ہوئے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ اسے اپنے قریب ذرا سے فاصلے پر دو لوگ دکھائی دیے جو دبکے ہوئے تھے اور ان میں سے ایک نے ہاتھ میں گن پکڑی ہوئی تھی۔ جس کا رخ علی کی جانب تھا۔ مہرو لمحے میں سمجھ گئی کہ وہ کیاکرنا چاہ رہے ہیں۔ شاید وہ اس بات کا انتظار کر رہے تھے کہ علی سکون سے تشہد میں بیٹھے تو وہ اس کا نشانہ لگائیں وہ علی پر برسٹ بھی مار سکتے تھے لیکن برسٹ کی آواز اس پرسکون سناٹے میں کہاں تک جاتی۔ علی تشہد میں بیٹھ چکا تھا اور گن والے نے اس کا نشانہ لے لیا تھا کہ مہرو کی چیخ نکل گئی۔ وہ اپنے تصور میں علی کو خون میں لت پت دیکھ چکی تھی۔ چیخ کی بازگشت میں فائر ہوا، مہرو کو ہوش نہیں رہا کہ وہ کیا کرو۔ اس نے پوری قوت سے علی کو پکارا،مگر وہ بے حس و حرکت وہیں بیٹھا رہا، جبکہ وہ دونوں وہیں جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوئے اسی طرف گم ہو گئے یکدم سناٹا چھا گیا تب مہرو نے دھیرے دھیرے آنکھیں کھولیں، وہ خوف سے لرز رہی تھی۔ اس نے علی کی طرف دیکھا جو سلام پھیر رہا تھا۔ پہلے تو اسے خود پر یقین نہیں آیا۔
’’کون ہے۔۔۔؟‘‘ جیسے ہی علی نے کہا تو مہروپر طاری طلسم ٹوٹ گیا۔
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ ہوں۔۔۔ مہرو۔‘‘ اس نے اٹکتے ہوئے خوشی بھرے لہجے میں کہا اور اس کے قریب چلی گئی۔
’’کوئی تمہیں مارنے آیا تھا۔ فائر اس نے کیا تھا، میں اگر نہ چیختی تو اس کا نشانہ تم تھے۔ لگتا ہے اس کانشانہ چوک گیا۔‘‘
’’مجھے کوئی مارنا چاہتا تھا۔‘‘ علی نے حیرت سے کہا اور پھر مہروکے خوف زدہ چہرے پردیکھا تو وہ بولی۔
’’ہاں۔۔۔ میں ادھر آئی تو وہ وہاں جھاڑی کی آڑ میں تھے، ان کا نشانہ تمہاری طرف تھااور میں۔۔۔ ڈر گئی اور۔۔۔‘‘ مہرو نے لرزتے لہجے میں کہا، تب تک علی خود پر قابو پا چکا تھا۔ اس نے ساری صورت حال کو سمجھا اور پھر نرم لہجے میں بولا۔
’’مگر تم یہاں کیوں آئی ہو اس وقت؟‘‘
علی کے لہجے میں حیرت چھلک رہی تھی۔
’’میں۔۔۔ میں کیوں آئی ہوں یہاں۔‘‘ مہرو نے یوں کہا جیسے وہ سب کچھ بھول گئی ہو۔ وہ ہونقوں کی طرح علی کے چہرے پر دیکھ رہی تھی جیسے اس کے چہرے پر ہی سب کچھ لکھا ہو۔ وہ کتنے ہی لمحے یونہی اس کی طرف دیکھتی رہی۔ پھر اچانک اسے خیال آگیا کہ علی نے کیا پوچھا ہے۔ یہ خیال آتے ہی اسے یاد آ گیا کہ وہ یہاں کیوں آئی ہے۔ تب وہ لرزتے ہوئے لہجے میں بولی۔
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔ تم سے ایک بات پوچھنے آئی ہوں۔‘‘
’’کون سی بات؟‘‘ علی نے پوچھا۔
’’میں تو جان گئی ہوں کہ سانول مجھ سے کتنی محبت کرتا تھا، میں اس کے خلوص کو بھی سمجھ گئی ہوں۔ وہ لمحے جوتم نے ساتھ گزارے۔ اس بات کے گواہ ہیں کہ وہ میرے بدن سے نہیں، مجھ سے ، میری ذات سے عشق کرتا تھا۔ میں سانول کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں۔ اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں اس سے معافی کی طلب گار ہوں۔ خدا کے لئے مجھے سانول سے ملا دو۔۔۔ ورنہ میں سسک سسک کر مر جاؤں گی۔ مجھے یہ احساس جینے ہی نہیں دے گا کہ سانول مجرم نہیں تھا، میں ہی بیوقوف تھی۔‘‘ مہرو نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ علی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ مہرو کے اندر سے جو سیلاب امنڈ آیاتھا، اس کی طغیانی ذرا کم ہوئی تو علی نے کہا۔
’’تمہاری اس وقت آمد کو میں کیا سمجھوں۔ اگر یہ فقط تمہاری بے چینی اور ندامت تمہیں یہاں تک لے آئی ہے تو یہ ایک الگ بات ہو گی اور اگر میری زندگی بچانے کے لئے تمہیں وسیلہ بنایا گیا ہے تو یہ دوسری طرح کی بات ہو گی۔‘‘
’’میں کچھ نہیں جانتی، کون سی بات کیا ہے، بس میں سانول کو دوبارہ دیکھنا چاہتی ہوں، اس سے معافی مانگنا چاہتی ہوں۔‘‘ مہرو نے یوں کہاں جیسے وہ اپنے آپ میں ہی نہ رہی ہو۔ اس کا اندر نہ صرف پاگلوں جیسا تھا، بلکہ اس کے منہ سے لفظ ہذیانی انداز میں ادا ہو رہے تھے۔ علی اس کی حالت دیکھ کر ایک لمحے کے لئے گھبرا گیا۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے، رات کا وقت۔ اندھیرا ایسا کہ جس میں مدقوق چاندنی تھی، تھوڑی دیر قبل اس کے قتل کی کوشش کی گئی تھی۔ ایسے حالات میں وہ اسے کیا ڈھارس دے اور پھر اس کی ضد ایسی انہونی تھی کہ جس کا جواب اس کے پاس نہیں تھا۔ وہ چند لمحے سوچتا رہا پھر تحمل سے بولا۔
’’دیکھو مہرو۔۔۔ جو بھی اس جہان سے چلا جاتا ہے نا، دوبارہ لوٹ کر نہیں آتا۔ یہ قانون فطرت ہے۔ سانول تمہارے سامنے قتل ہوا تھا اور میں نے اسے قبر میں اتارا تھا۔ ہم اس حقیقت کو کیسے جھٹلا سکتے ہیں۔‘‘
’’تو کیا میں ساری زندگی اس دکھ کا بوجھ اٹھائے پھرتی رہوں گی۔‘‘ مہرو نے تیزی سے کہا۔
’’ہم قانون فطرت کے خلاف نہیں جا سکتے جو ممکن نہ ہو اسے اگر ہم ممکن بنائیں گے تو بہت ساری ٹوٹ پھوٹ ہو جائے گی۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کروں؟‘‘ مہرو نے گہرے دکھ میں کہا۔
جاری ہے
No comments:
Post a Comment