عشق کا قاف
امجد جاوید
قسط نمبر06
سورج سارا دن اپنی آب و تاب دکھا کر مغرب کی آغوش میں چھپ رہا تھا۔ اس کی تپش ماندپڑ چکی تھی اور شاید اسی جلال میں اس نے مغربی افق کو سرخ کیا ہوا تھا۔ ہوا بند تھی، اس لئے دور تاحد نگاہ تک سنہری ٹیلے یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے ساکت ہو، یہ ٹیلے ریت کے نہیں پختہ مٹی کے ہوں۔ وہ جون کے ابتدائی دن تھے اور ان دنوں روہی گرم ترین ہوا کرتی ہے۔ ایسے ماحول میں علی تیز تیز قدموں سے چلتا چلا جا رہا تھا۔ وہ خالی ہاتھ تھا۔ بس ایک اضافہ تھا، اس نے اپنا چہرہ ایک بڑے سارے رومال میں لپیٹا ہوا تھا۔ وہ مغرب ہو جانے سے پہلے کچلی بستی پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ دیر ہو جائے گی۔ بڑی سڑک سے چھوٹی ذیلی سڑک تک اس کا ایک دوست اسے گاڑی میں چھوڑ گیاتھا۔ اسے خوف تھا کہ اس کی گاڑی کہیں صحرا میں پھنس نہ جائے اس لئے وہ علی کو ڈراپ کر کے واپس چلا گیا تھا، جبکہ علی وہاں پیدل کچی بستی کی جانب چل پڑا تھا۔
اس کے فائنل امتحان کب کے ختم ہو چکے تھے اور یہ سب اس نے اپنے والد کی خوشی کے لئے کیا تھا۔ اسے اب نتیجے کا انتظار نہیں تھا، امتحان کے بعد جو چند دن اس نے شہر گذارے تھے، یہی سوچتے ہوئے کہ وہ اپنے والدین کو بتا کر کچی بستی جائے یا بالکل ہی نہ بتائے۔ اسے معلوم تھا کہ اگر اس نے بتایا تو ایک بحث شروع ہو جائے گی، اسے روکنے کے لئے ہزار دلائل دئیے جائیں گے۔ ممکن ہے اسے جذباتی طور پر بلیک میل کیا جائے۔ لیکن اگر وہ نہیں بتاتا تو پھر وہ پریشان ہوں گے۔ وہ اپنے والدین کو خواہ مخواہ کی پریشانی نہیں دینا چاہتا تھا۔ پھر آج صبح اس نے ایک کاغذ پر اپنے جانے کے بارے میں اطلاع دی۔ اسے اپنے سرہانے پر رکھا اور گھر سے نکل گیا۔ پھر دوست کے انتظار میں، یہاں تک آتے ہوئے اسے مغرب ہو چلی تھی۔ اس کے قدم اور تیز ہو گئے اسے کچی بستی دکھائی دینے لگی تھی۔ اس نے شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور وہ روہی کا باشندہ لگ رہا تھا۔ وہ سیدھا مسجد میں گیا، جہاں جماعت کھڑی ہو چکی تھی۔ اس نے جلدی سے وضو کیا اور جماعت کے ساتھ شامل ہو گیا۔ وہ تیسری رکعت تھی۔ میاں جی امامت کر رہے تھے۔ جیسے ہی انہوں نے سلام پھیرا یہ بقیہ نماز کے لئے کھڑا ہو گیا۔ وہاں موجود چند نمازیوں نے اسے دیکھا اور ان میں حیرت بھری منمناہٹ شروع ہو گئی۔ میاں جی نے علی کی طرف بغور دیکھا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دئیے۔ جب علی نے نماز ختم کی دوسرے نمازی جا چکے تھے۔ بلاشبہ اس کی آمد کے با رے میں کچی بستی میں اطلاع ہو جانے والی تھی۔ میاں جی اس کی طرف دیکھتے چلے جا رہے تھے۔ وہ نماز سے فارغ ہوا تو اس نے میاں جی کی جانب دیکھا۔ وہ کھڑے ہو گئے۔ علی ان سے گلے ملا۔ انہوں نے اس کا کاندھا تھپتھپاتے ہوئے کہا۔
’’مجھے یقین تھا جوان تم ضرور آؤ گے۔‘‘
تب اس نے الگ ہوتے ہوئے علی نے کہا۔
’’کیا میری پیاس شہر میں دور ہو سکتی تھی۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ تم جس راہ کے راہی ہو چکے ہو، وہاں پیاس ہمیشہ شدید رہی ہے۔ بجھتی نہیں بلکہ بڑھتی رہتی ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے علی کا ہاتھ پکڑا اور وہیں صف پر بیٹھ گئے اور بولے۔
’’تم بیٹھو، میں تمہارے لئے پانی لے کر آتا ہوں۔‘‘
’’میں لے لیتا ہوں میاں جی۔‘‘
’’نہ علی نہ۔۔۔ مجھے مہمان نوازی کی سعادت حاصل کر لینے دے۔‘‘ یہ کہہ کر اٹھے کونے میں پڑے ہوئے گھڑے میں سے پیالہ بھرا اور اس کی جانب بڑھادیا۔ علی نے پیالے میں سے سارا پانی پیا اور اسے ایک طرف رکھ دیا اور دھیرے سے پوچھا۔
’’یہاں پر سب خیریت ہے۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ جیسے پہلے چل رہا تھا، ویسے ہی ہے، بہن فیضاں سے ملوگے تو ساری باتیں تجھے معلوم ہو جائیں گی۔ تم بتاؤ، کتنے دنوں کے لئے آئے ہو؟‘‘
’’ہمیشہ کے لئے۔ ارادہ تو یہی ہے، باقی جو مالک کو منظور ہے۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’اگر اردے میں یقین شامل ہے تو مالک کائنات خواہش پوری کر دیتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ چند لمحے سوچتے رہے جیسے مراقبے میں ہوں، پھر سر اٹھا کر بولے۔ ’’ابھی تم جاؤ۔ بہن فیضاں سے ملو کل باتیں ہوں گی۔ چاہو تو عشاء کے بعد آ جانا۔‘‘ میاں جی نے کہا تو علی سعادت مندی سے اٹھ گیا۔ میاں جی اسے مسجد سے باہر تک چھوڑنے کے لئے آئے۔
علی جیسے ہی اماں فیضاں کے دروازے پر جا کے رکا ایک لمحے کے لئے اس کا دل بھر آیا۔ اسے شدت کے ساتھ سانول کی یاد آئی تھی۔ وہی پہلا شخص تھا، جو روہی میں اسے ملا تھا، چند دنوں کے ساتھ نے دوستی کا کتنا لمبا سفر طے کر لیا تھا اور پھر یہ سانول ہی تھا جس نے اس کی زندگی کا زاویہ نگاہ ہی بدل دیا تھا۔ نجانے وہ کتنی دیر تک وہیں کھڑا رہتا کہ اچانک اس کے سامنے اماں فیضاں آن کھڑی ہوئی۔ وہ دروازے میں کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔
’’اسلام علیکم اماں۔۔۔‘‘ علی نے نہایت ادب سے کہا تو اماں سلام کا جواب دیتے ہوئے سسک پڑی۔
’’آجا پتر۔۔۔ آ جا۔۔۔ اندر آ جا۔‘‘ اماں فیضاں نے راستہ دیتے ہوئے کہا تو علی بولا۔
’’اماں۔۔۔ ابھی تو میں آ کے کھڑاہوا ہوں۔ آپ۔۔۔‘‘
’’مجھے لگا جیسے میرا سانول دروازے کے باہر کھڑا ہے۔ مجھے بلا رہا ہے۔ پتہ نہیں کیوں اور کیسے یہاں تک آ گئی ہوں۔‘‘ اماں نے کھوئے ہوئے لہجے میں کہا اور علی کے سر پر پیار دیا۔ شاید بھیرے نے آواز سن لی تھی۔ اس لئے وہ تیزی سے آیا اور آتے ہی علی کے گلے لگ گیا۔
’’بھالا علی۔۔۔ آ گیا تو۔۔۔ میں بڑا اداس ہو رہا تھا مجھے بڑی یاد آ تی تھی تیری۔ اب میں تمہیں نہیں جانے دوں گا۔‘‘ وہ اپنی ہی دھن میں کہے چلا جا رہا تھا۔
وہ تینوں چلتے ہوئے صحن میں بچھی چارپائیوں پر آ کر بیٹھ گئے۔ اماں فیضاں نے اس کے گھر کا حال احوال پوچھا اور کھانا لانے کے لئے اٹھ گئی۔
’’سناؤ اماں کیسے گزاری؟‘‘ علی نے پوچھا جب اماں کھانے کے خالی برتن واپس رکھ کے آ گئی۔
’’کیا سناؤں پتر۔۔۔ ہم سیدن شاہ کے حکم پر مجبور لوگ ، اسی کی مانتے ہیں۔‘‘ اماں نے روہانسے لہجے میں کہا اور پھر ساری روداد سنا دی۔ اس دوران بھیرا نجانے کب سو گیا۔
’’اماں۔۔۔ یہ تو ظلم ہے نا، ایک طرف اس نے قاتل کو پناہ دے رکھی ہے۔ پھر قتل معاف کروا رہا ہے اور دوسرا انسانوں کی زندگی بھی برباد کر رہا ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔‘‘
’’تو پھر میں کیا کرتی بیٹا۔۔۔ میں اپنا دوسرا بیٹا بھی گنوا دوں۔‘‘ اماں فیضاں نے لاچاری سے کہا۔
’’نہیں، کچھ نہیں ہو گا، آپ نے اگر معاف کر دیا ہے تو کر دیا، چاہے دل پر پتھر رکھ کے ہی سہی لیکن اب بھیرے اور مہرو کی زندگی تو تباہ نہیں کرنی چاہیے نا۔‘‘
’’تم بتاؤ نا۔ میں کیا کروں۔۔۔؟‘‘اماں نے پھر بے بسی میں کہا۔
’’کچھ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں آ گیا ہوں نا، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ آپ نے فکر مند نہیں ہونا۔‘‘
علی نے کہا اور پھر وقت کا اندازہ کیا گیا۔ رات کا دوسرا پہر ختم ہونے کو تھا۔ تب اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’اماں۔۔۔ میں جا رہا ہوں سونے کے لئے، ابھی میں نے نماز بھی پڑھنی ہے۔ آپ آرام کریں صبح باتیں ہوں گی۔‘‘
’’میں تمہارا بستر بچھا۔۔۔‘‘ اماں نے کہنا چاہا تو علی نے ٹوک دیا۔
’’نہیں، میں خود کر لوں گا۔ آپ آرام کرو۔‘‘ علی نے جلدی سے کہا اور باہر گوپے کی سمت چل دیا۔
علی نے فجر مسجد میں ادا کی۔ نماز کے بعد وہ میاں جی سے باتیں کرنا چاہتا تھا اسے انتظار تھا کہ باقی نمازی چلے جائیں تو وہ اپنی بات کہے۔ لیکن اس سے پہلے ہی ایک ادھیڑ عمر نمازی نے اس کی طرف غورسے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’اوئے نوجوان تو پھر یہاں آ گیا ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں طنز بھری حقارت تھی۔
’’جی، میں پھر آ گیا ہوں۔‘‘ علی نے اس کے لہجے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔
’’مگر تمہیں پتہ ہے کہ پیر سیدن شاہ تمہیں پسند نہیں کرتے اور تیری وجہ سے ہی پہلے یہاں فساد ہوا تھا، تمہارے لئے اچھا یہی ہے کہ تم یہاں سے چلے جاؤ۔ ورنہ بہت پچھتاؤ گے۔‘‘ اس کا لہجہ ہنوز ایسا ہی تھا، جس پر علی نے اس کی جانب دیکھا اور نہایت تحمل سے کہا۔
’’بزرگ وار۔۔۔ آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں۔ فساد میری وجہ سے نہیں ہوا تھا۔ یہ آپ اچھی طرح جانتے ہیں اور رہی پیر سیدن شاہ کی بات، مجھے اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ وہ کسے پسند کرتا ہے اور کسے نہیں۔ اسکی اپنی مرضی ہے او ر رہی پچھتانے کی۔۔۔‘‘
’’علی۔۔۔ خاموش ہو جاؤ۔۔۔‘‘ میاں جی نے اسے ٹوکا تو وہ خاموش ہو گیا۔ تب میاں جی نے اس ادھیڑ عمر شخص کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’تم خواہ مخواہ پریشان ہو رہے ہو۔ تم اپنے کام سے کام رکھو۔ یہ میرا مہمان ہے۔‘‘
’’تو میاں جی۔ اگر اس کی وجہ سے۔۔۔‘‘ ایک اور بزرگ سے شخص نے کہا۔
’’کچھ نہیں ہوتا۔ اس نے اگر کچھ کیا بھی تو یہ خود ہی بھگتے گا تمہیں مدد کے لئے نہیں پکارے گا۔‘‘
اس کا مطلب ہے آپ بھی اس کے ساتھ شامل ہیں۔‘‘ اس ادھیڑ عمر شخص نے حاکمانہ لہجے میں کہا۔
’’ایسا ہی سمجھ لو۔۔۔‘‘ میاں جی نے کسی گھبراہٹ کے بغیر کہا۔
’’سوچ لو میاں، کہیں اس مسجد کی امامت سے بھی جاؤ۔‘‘ اس نے دھمکی دیتے ہوئے کہا۔
’’جاؤ میاں۔ اپنا راستہ لو۔ اللہ کے گھر میں بیٹھ کر ایسی باتیں کر رہے ہو۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے مجھے نماز پڑھنی ہے، یہاں نہ سہیں وہاں پڑھ لوں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے، ہم بات کرتے ہیں اور اپنا فیصلہ سناتے ہیں۔ لگتا ہےکہ تم اب امامت کے قابل نہیں رہے تمہارے یہاں فسادی لوگ آتے ہیں جو پیر سائیں کی عزت نہیں کرتے۔ تمہیں پتہ ہے نا کہ پیر سائیں کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والا شخص ہمارا دشمن ہے۔‘‘
’’یار۔۔۔ تم نے کیا فیصلہ سنانا ہے میرے بھائی، میں خود ہی یہ مسجد چھوڑ دیتا ہوں۔‘‘ میاں جی نے کہا اور اٹھ گئے۔ اپنا رومال کاندھے پر رکھا اور علی سے کہا۔ ’’آؤ بیٹا۔۔۔ اللہ کی زمین بہت بڑی ہے۔ کسی درخت تلے جا کر ڈیرہ لگاتے ہیں۔‘‘
علی نے ایک لفظ بھی نہیں کہا اور اٹھ کر میاں جی کے سا تھ چل دیا۔ اس وقت سورج طلوع ہو کر روئے زمین پر اپنی کرنیں نچھاور کر رہا تھا جب وہ دونوں مسجد سے نکل اکر ایک گلی میں چل پڑے پھر وہ دونوں بستی میں سے نکلتے چلے گئے۔ دونوں کے درمیان خاموشی طاری تھی۔ علی کے دل میں بہت ساری باتیں اٹھ رہی تھیں لیکن وہ میاں جی کی خاموشی کی و جہ سے کچھ بھی نہیں کہہ رہا تھا۔ دونوں چلتے چلے جا رہے تھے۔ بستی سے نکلنے کے بعد جب میاں جی ایک خاص راستے پر ہو گئے تو علی سمجھ گیا۔ وہ سانول کی قبر پر جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ وہ دونوں سانول کی قبر تک آ گئے۔ میاں جی نے سرہانے کی جانب کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھی۔ علی نے بھی ایسے ہی کیا۔ فاتحہ پڑھنے کے بعد میاں جی نے مسکراتی آنکھوں سے علی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’علی بیٹا۔۔۔ تمہیں کوئی گھبراہٹ تو محسوس نہیں ہو رہی ہے؟‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ زمین پر بیٹھ گئے تو وہ بھی بیٹھ گیا۔
’’نہیں میاں جی۔۔۔ بس یہ لوگوں کا رویہ اچانک۔۔۔؟‘‘ علی نے جان بوجھ کر فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ایسا ہونا ہی تھا بیٹا، مگر اتنی جلدی ہو جائے گا، اس کی مجھے توقع نہیں تھی۔ خیر۔۔۔ یہ اوپر والے کے معاملات ہیں۔ ہم اس میں دخل انداز نہیں ہو سکتے۔ جو کچھ ہوتا ہے اس کی مرضی سے ہوتا ہے۔‘‘
میاں جی۔۔۔ مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ آپ نے اب تک اپنے رہنے کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں بنایا۔ آج ایسے انہوں نے مسجد۔۔۔‘‘
’’میرے جیسے لوگ اپنا ٹھکانہ بناہی نہیں سکتے، ہمیں تو جہاں کہیں جانا ہے وہیں چلے جاتے ہیں۔ ٹھکانہ تو بندے کا ایک ہی ہوتا ہے۔ تم ان چکروں میں مت پڑو اور میری بات غور سے سنو۔۔۔‘‘ میاں جی نے گہری سنجیدگی سے کہا تو علی ہمہ تن گوش ہو گیا۔ تب وہ بولے۔ ’’اب اگر تم آ ہی گئے ہو تو پھر تمہارے ذمے ایک بہت بڑا کام لگ گیا ہے۔ وہ کام کیاہے، یہ میں نہیں جانتا، وہ خود بخود تیرے سامنے آ جائے گا اور تجھے بڑی جرأت اور حوصلے سے کام لینا ہو گا۔‘‘
’’میں آپ کی بات سمجھ تو رہاہوں لیکن اس کی روح سمجھنے سے قاصر ہوں۔‘‘ علی نے صاف لفظوں میں کہا تاکہ بات اس پرکھل جائے۔
’’اوئے۔۔۔ بات کی روح۔۔۔ علی تم کیاجانتے ہو روح کے بارے میں۔‘‘ میاں جی نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے کہا لیکن انداز ایساہی تھا جیسے دھیان کسی اور جانب ہو۔
’’آپ ہی بتائیں گے میاں جی۔‘‘ علی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
’’میں کیا بتا پاؤں گا۔ اس شے کے بارے میں جسے رب نے پوشیدہ رکھا، جس کا بھید اس نے کسی کونہیں دیا۔ ہاں۔۔۔ مگر یہ گواہی موجود ہے کہ روح ہے، اپنا وجود رکھتی ہے، اس کا احساس ہمیں ہوتا ہے، لیکن کیسے۔۔۔؟ کسی بھی بدن میں زندگی کی رمق سے، روح کا ہونا ثابت ہو جاتا ہے لیکن اس کی ماہیت کے بارے میں غور و فکر کرنالا حاصل اور فضول کوشش ہے، ہمیں روح کا پتہ اس وقت چلتا ہے جب اس کا اظہار ہوتا ہے، جب بدن پر موت طاری ہو جاتی ہے تو ہم بے ساختہ کہہ دیتے ہیں کہ روح پرواز کر گئی ہے۔ اب یہ جسم بے روح ہے۔‘‘ میاں جی نے بہت تحمل سے علی کو سمجھاتے ہوئے کہا۔ پھر چند لمحے توقف کے بعد کہا۔ ’’میں روح کی ماہیت پر بحث کر کے تمہارا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ لیکن میں اس سے تمہیں ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں۔ جس طرح تم روح کو دیکھ نہیں سکتے، اس کی ماہیت کو نہیں جان سکتے، بالکل اسی طرح تم اپنے رب کی دی ہوئی نعمتوں کو تو جان سکتے ہو، ان کی گنتی اور شمار کر سکتے ہو لیکن کیا اس کے رحم کی ماہیت کو جان سکتے ہو۔ اس تک تمہاری رسائی ممکن ہے؟‘‘
’’بلاشبہ نہیں میاں جی۔۔۔‘‘
’’لیکن تم اللہ کے رحمان ہونے اور اس کے رحم کا احساس کر سکتے ہو۔ انسان جب اللہ کی راہ پر چلتا ہے نا تو اسے اس کی مزدوری کی اجرت ملتی ہے۔ انسان کو سمجھ نہیں آتی کہ یہ سب کہاں سے اور کیسے ہو رہا ہے، لیکن اسے مزدور ملتی ضرور ہے۔ اب مزدور کا کام یہ ہے کہ وہ خلوص نیت سے محنت کرتا چلا جائے۔ یہ مت سوچے کہ مجھے اجرت اورانعام کیسے ملے گا، یہ اللہ کا بھید ہے، جیسے روح ایک بھید ہے۔ انسان اپنی عقل کے گھوڑے دوڑاتا ہے مگر کہاں تک؟ خود ہی ہانپ جاتا ہے۔ تو پھر لاحاصل ہانپنے سے مزدوری کرنا بہتر نہیں ہے۔‘‘
’’بے شک میاں جی۔‘‘ علی نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
’’تو بیٹا۔۔۔ اس سارے معاملے کی کنجی یقین ہے، تم دعا یہ کیاکرو کہ جو مزدوری تم نے کی ہے، اسے قبولیت مل جائے۔ اب تمہیں نہیں پتہ کہ قبول کیسے ہو گی، ہاں قبول ہو جانے کے بعد جو تمہیں اجرت ملے گی یا تمہارے یقین اور خلوص کی بنیاد پر جو تمہیں انعام ملے گا، تب تمہیں اندازہ ہو گا اور سن لو۔۔۔ یقین تبھی آتا ہے جب انسان عشق کرتا ہے۔‘‘
’’میاں جی۔۔۔ آپ جو مجھے سمجھانا چاہ رہے ہیں وہ یہی ہے نا کہ میں جو اللہ کی راہ پر چل را ہا ہوں مجھے پورے یقین کے ساتھ مزدوری کرنا ہے، اجرت یا انعام کی فکر نہیں کرنا چاہیے۔ یہاں تک تو بات ٹھیک ہے سمجھ میں آتی ہے، لیکن۔۔۔ یہ جو عشق کا معاملہ ہے۔ یہ میری سمجھ میں آنے والے شے نہیں ہے۔ میں عشق کیسے کروں؟‘‘
’’میں نے بتایا ہے نا کہ یقین کنجی ہے۔ اور سنو۔۔۔ عشق بھی روح کی مانند ہے، جس طرح روح کو اپنے اظہار کے لئے مادی جسم کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح عشق کو بھی ایسے دل کی ضرورت ہوتی ہے، اسی طرح عشق و بھی ایسے دل کی ضرورت ہوتی ہے جو درد برداشت کرنے کی قوت رکھتا ہو۔ یہ عشق جب ہو جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے، دکھائی نہیں دیتا۔ تم عشق کو نہ سمجھنے کی بات کر رہے ہو جبکہ تم سرتاپا عشق میں ڈوب گئے ہو۔ اچھا چلو مجھے بتاؤ۔۔۔ کیوں اس صحر میں ریت پھانکنے تم آ گئے ہو۔۔۔؟ کس نے بھیجاہے تمہیں۔ کیازور زبردستی ہوئی ہے تمہارے ساتھ؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ لیکن میں تو ان بے چاروں۔۔۔‘‘
’’وہ بے چارے تمہارے کیا لگتے ہیں، تمہارے اندر جذبہ ہمدردی کیوں جاگا؟ یہی ابتدائے عشق ہے۔ اب ہوتا یوں ہے، عشق تو ہمارے اندر بسیرا کر لیتا ہے۔ لیکن اسے ہم سمجھ نہیں پاتے، اور اسی نا سمجھی میں اس خالص عنائت کو اپنی نفسانی خواہشات کے ساتھ نہ صرف گدلا کر لیتے ہیں بلکہ اسے زہر آلود بھی بنا دیتے ہیں۔ اللہ تک رسائی کا راستہ خدمت انسانیت ہے۔ جس کی ابتداء تم کر چکے ہو۔ اب جس قدر تمہارا اللہ پر یقین ہو گا، اتنا ہی تمہارا عشق گہرا ہوتا چلا جائے گا۔‘‘
’’کیا آپ مجھے عشق کے بارے میں۔۔۔‘‘ علی نے کہنا چاہا لیکن میاں جی نے ہاتھ کے اشارے سے اسے منع کرتے ہوئے کہا۔
’’علی۔۔۔ وقت بہت کم ہے اور کرنے والی باتیں بہت زیادہ ہے۔ تم لفظوں میں نہ الجھو، بلکہ تمہارا دل ہی تمہارا مرشد ہے، اس کی سنو وہ کیا کہتا ہے، تمہیں بہت ساری باتیں رہیں سے معلوم ہو جائیں گی۔ میں جو کہہ رہا ہوں ا سے غور سے سن لو۔‘‘ انہوں نے کچھ اس طرح سے کہا کہ علی چونک گیا۔ ایک خوف کی لہر اٹھی جس نے اسے پورے بدن سے لرزا کر رکھ دیا۔ وہ یہ بات پوچھنا چاہتا تھا کہ میاں جی نے کہا۔ ’’آؤ چلیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر میاں جی چل پڑے تو علی بھی ان کے ساتھ ہو لیا۔ چند قدم چلنے کے بعد کہا۔ ’’میں ۔۔۔میں تمہیں بتاؤں گا کہ عشق کیا ہوتا ہے۔ وہ سب بھی بتاؤں گا جو تم جاننا چاہتے ہو، لیکن اس سے پہلے تمہیں حوصلہ ، عزم اور جذب کی ضرورت ہوگی، اپنے اندر کو وسعت دو۔۔۔ اتنی وسعت کے بہت کچھ سما جائے۔ جتنا برتن ہو گا وہ اتنا ہی بھرے گا نا۔۔۔ اور اب یہ مت پوچھنا کہ یہ کیسے ہو گا۔۔۔ اب بچو جیسے سوال پوچھنا چھوڑ دو میرے بچے۔‘‘
’’میاں جی۔۔۔ آپ کچھ ایسی باتیں نہیں کر رہے جس سے میں جو سمجھ رہا ہوں۔ کہیں وہ۔۔۔‘‘
’’اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہونے والا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گئے۔ بستی میں آ کر انہوں نے کہا۔
’’اب جاؤ بہن فیضاں کے گھر۔ وہ تمہارا انتظار کر رہی ہو گی۔‘‘
اس پر علی نے کوئی سوال نہیں کیا۔ بلکہ اپنا رخ بدل کر اماں کے گھر کی جانب چل دیا۔ اس کے ذہن میں میاں جی پوری طرح سوار تھے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آج میاں جی اتنے بدلے ہوئے کیوں ہیں؟
اماں فیضاں واقعی اس کاانتظار کر رہی تھی۔ اس کی نگاہیں دروازے کی طرف تھیں اسے دیکھتے ہی چارپائی سے اٹھ گئی۔ بھیرا ریوڑ لے جاچکا تھا۔
’’بیٹھ پتر۔۔۔ میں تیرے لئے کھانا لے کر آؤں۔‘‘
’’ٹھیک ہے اماں۔۔۔ جلدی سے لے آ، پھر میں بھیرے کے پاس جاؤں وہ بے چارہ اکیلا ہو گا۔‘‘ اس نے چارپائی پرسیدھے ہو کر بیٹھتے ہوئے کہا۔
’’کوئی ضرورت نہیں ہے جانے کی۔ اول تو وہ اکیلا ہی ریوڑ چرا لیتا ہے لیکن میں نے ایک آدمی کا بندوبست کر دیا ہے۔ وہ اس کے ساتھ ہوتا ہے تو کھانا کھا کے آرام کر۔‘‘
’’نہیں اماں۔۔۔ میں نے جانا ہے اس کے پاس۔ بس آپ جلدی سے مجھے کھانا دے دو۔‘‘ علی نے اصرار کیا۔ تو اماں بھی خاموش ہو گئی۔
اس وقت علی کچی بستی سے باہر آ گیا تھا اور قدرے تیز قدموں سے اس جانب چلا جا رہا تھا جہاں بھیرا ریوڑ چرانے کے لئے نکلا ہوا تھا۔ وہ چارجانب سے بے نیاز چلتا جا رہا تھا۔ اس کا سارا دھیان میاں جی کی باتوں کی طرف تھا۔ وہ ایک ایک بات کو بڑی توجہ سے سمجھنا چاہ رہا تھا جس میں اس کے لئے بہت سارے اشارے تھے۔ وہ انہی باتوں میں الجھتا ہوا بھیرے تک جا پہنچا۔ ریوڑ پھیلا ہوا تھا اور بھیرے کے ساتھ ایک شخص دور ایک درخت کے نیچے بیٹھے نگرانی کر رہے تھے۔ یہ بھی ان کے پاس چلا گیا اور پھر دوپہر ڈھل جانے تک علی ان کے پاس بیٹھا رہا۔ اس دوران بہت ساری باتیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ بھیرے اور مہرو کی شادی بھی زیر بحث آئی، بھیرے کو اس بات پر حیرت تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ وہ اپنے بھائی کے قاتلوں کو کس طرح برداشت کر پائے گا؟
ظہر کا وقت ہوا تو علی وہاں ان کے پاس سے اٹھ گیا۔ اس کا رخ مسجد کی طرف تھا مگر چند قدم چلنے کے بعد ہی اسے خیال آیا کہ صبح کی نماز کے بعد نمازیوں کا اس کے کے ساتھ کیسا رویہ تھا۔ اس کے قدم بجائے مسجد کے اس جنڈ کے درخت کی طرف اٹھ گئے جہاں میاں جی بیٹھا کرتے تھے۔ علی وہاں پہنچا تو میاں جی موجود نہیں تھے۔ ان کی بچھائی ہوئی صف ویسے ہی پڑی تھی اور ایک شخص وہاں پر بیٹھا ہوا تھا۔ سلام دعا کے بعد اس نے پوچھا۔
’’میاں جی کدھر گئے؟‘‘
’’وضو کرنے گئے ہوئے ہیں، میں نے کہا تھا کہ پانی لا دوں مگر وہ خود چلے گئے ٹوبے کی طرف۔‘‘
’’کیا انہوں نے نماز پڑھ لی ہے؟‘‘
’’ابھی نہیں، کہہ رہے تھے کہ ایک بندے کا انتظار ہے، وہ آ جائے تو جماعت کروائیں۔‘‘ یہ کہہ اس نے پوچھا۔ ’’اگر آپ نے وضو کر لیا ہے تو۔۔۔‘‘
علی نے جلدی سے وضو کیا اور آ کر صف پہ کھڑا ہو گیا۔ اس کا رخ بستی کی طرف سے آنے والے راستے پر تھا۔ چند لمحے گزرے ہوں گے کہ میاں جی آتے ہوئے دکھائی دئیے۔
’’میاں جی اذان دوں۔۔۔‘‘ اس شخص نے پوچھا۔
’’ہاں دو۔۔۔ لیکن ٹھہرو۔۔۔ احمد بخش، یہاں نہیں، وہاں۔۔۔‘‘ میاں جی نے جنڈ سے قدرے دور اشارہ کرتے ہوئے کہا، پھر علی کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’یہ صف ادھر بچھاؤ۔‘‘
علی نے حکم کی تعمیل میں صفیں بچھائیں۔ احمد بخش نے اذان دی اور میاں جی نے امامت کروائی۔ بقیہ نماز سے فراغت کے بعد صفیں دوبارہ جنڈ کے درخت تلے بچھا دی گئیں۔ چند لمحے خاموشی کے بعد میاں جی نے کہا۔
’’علی۔۔۔ اب مسجد یہاں بنے گی اور اس کے ساتھ مدرسہ بھی بنانا ہے اور اگر میں نہ رہوں تو میرا وجود خاکی یہاں دفن کرنا، یہ میری وصیت ہے۔‘‘ ان کے لہجے میں کچھ ایسا تاثر تھا کہ علی کے بدن میں پھر سے ایک انجانی لہر سرائیت کر گئی۔ تبھی اس نے دھیمے سے لہجے میں کہا۔
’’یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں، میں صبح سے آپ کی باتوں پر غور کر رہا ہوں اور آپ۔۔۔‘‘
’’میری باتوں پر غور کرنا، بس حوصلہ نہیں ہارنا، وہ ذات رب کریم کی بہت عظیم ہے۔ وہ مختار کل ہے اور نبی ﷺ کی ذات تمام انسانوں میں افضل ترین ہے۔ اللہ رب العزت اور نبی آخر الزماں ﷺ کے درمیان ایک تعلق عشق کا بھی ہے۔ جس کی سمجھ نہ لفظوں میں آ سکتی ہے، نہ تفسیروں میں، اگر اللہ چاہے تو یہ ممکن ہو جاتا ہے کہ ساری باتیں سمجھ میں آ جائیں۔ سارے راز آشکار ہو جائیں، اور ایسا ہوتا ہے علی۔۔۔ جب قبولت ہو جائے۔ یہ قبولیت صرف اور فقط نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کے واستے اور وسیلے سے ملتی ہے، اس کے علارہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ بس یہ جان لو کہ عشق فنا بھی ہے اور بقا بھی۔۔۔ وقت کے ساتھ ساتھ تمہیں اس فنا و بقا کے فلسفے کی سمجھ آ جائے گی۔‘‘
’’میاں جی، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک چیز فنا بھی ہے اور پھر وہ بقا بھی ہو؟‘‘ علی نے باتوں کا رخ ایک خاص جانب موڑنا چاہا۔
’’ممکن ہے، بلکہ یہ عین فطرت ہے، جب تک فنا نہیں ہے اس وقت تک بقا بھی نہیں ہوتی۔‘‘ میاں جی نے کہا اور صف پر لیٹ گئے۔ احمد بخش انہیں دبانے لگا۔ میاں جی نے اپنی پگڑی کھولی اور چہرے پر لے لی۔ علی ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور بے چین ہو رہا تھا۔ جیسے کسی انہونی ہو جانے کا اسے یقین ہو۔ کافی دیر تک جب میاں جی ساکت رہے توعلی نے گھبرا کر میاں جی کو آواز دی لیکن اسے جواب نہیں ملا۔ علی نے ڈرتے ڈرتے انہیں ہلایا، پھر پگڑی کا پلو ان کے چہرے پر سے ہٹاا تو وہ گہری نیند سو رہے تھے۔ ایسی نیند جس کی بیداری فقط روز قیامت ہونے والی ہے۔ کچھ دیر بعد علی اور احمد بخش کو یقین ہو گیا کہ میاں جی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔
’’انا للہ وانا الیہ راجعون۔‘‘ علی نے زیر لب کہا اور پگڑی کا پہلو ان کے چہرے پر ڈال دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سورج طلوع ہونے میں ابھی خاصا وقت تھا۔ چاندنی شہر بھر کی چھتوں پر کسی چادر کی طرح پڑی ہوئی تھی۔ پہلے پہر کا چاند مغرب کی جانب محو سفر تھا۔ ایسے میں فرزانہ خاں اپنے کمرے میں پرسکون چاندنی کو تکتی چلی جا رہی تھی لیکن اس کا دماغ کہیں اور تھا۔ نجانے اتنی سوچیں اس کے دماغ میں کہاں سے آ گئی تھیں۔ شام ڈھلتے ہی عجیب سی بے چینی اس کے من میں سرائیت کر گئی تھی۔ جیسے کوئی چیز اس کے ہاتھ سے پھسل کر چکنے فرش پر ٹوٹ گئی ہو۔ یا شاید اس کا اپنا وجود دھیرے دھیرے پگھل رہا ہو اور یہ دھیرے دھیرے گھلتا ہوا وجود ہوا میں تحلیل ہوتا چلا جا رہا ہے، جیسے وہ کوئی خوشبو ہے۔ یا پھر جیسے اس کی بہت ہی قیمتی شے کھو گئی ہو۔ کون سی شے اور کس طرح کھو گئی ہے، اس کی اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی اور یہی نہ سمجھ میں آنے والی کیفیت اسے بے چین کر رہی تھی۔ بے سکونی اپنی انتہا کو پہنچی تو کھڑکی میں آ کھڑی ہوئی۔ اے سی کی مصنوعی خنکی سے اس کا دل گھبرا گیا تھا، تازہ ہوا کا جھونکا اسے زندگی کا احساس دے گیا تو وہ وہیں پر جم گئی۔ وہ سمجھنا چاہتی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ وہ اس وجہ تک رسائی حاصل کر لینا چاہتی تھی لیکن کوئی معقول وجہ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔
اسے یہ احساس تو تھا کہ جب بھی کبھی اسے اپنی اس بے کلی کا ادراک ہو گا تو اس کی بنیاد میں علی کا وجود ضرور ہو گا لیکن کیسے؟ یہی بات اس کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ جس دن علی نے اس سے کہا تھا کہ ’’محبت کبھی رائیگاں نہیں جاتی اسی لئے تو میں نے کہا ہے کہ ہم خود پر نگاہ ہی نہیں کرتے۔ کیا ہم اتنی ہمت، اتنا حوصلہ رکھتے ہیں کہ نتائج کو کھلے دل سے قبول کر لیں۔ ہجر و وصال دونوں ہی ہیں اور پھر یہ نصیب کی بات ہے کس کے حصے میں کیا آنا ہے۔ محبت کے لئے اہل ہونا ہی سب سے بڑی منزل ہے۔‘‘ اس دن سے وہ اسی پر غور کرتی چلی آ رہی تھی کہ محبت کے لئے اہل کیسے ہوتے ہیں۔ ایسی کیا باتیں ہیں جو کسی کو محبت کرنے کے لئے اہل بنا دیتی ہیں۔ کیا وہ اس قابل ہی نہیں کہ کسی سے محبت کر سکے۔ اس دن وہ بہت روئی تھی۔ اتنا کہ شاید پوری زندگی اس نے اتنے آنسو نہیں بہائے جتنے اس دن بہا دئیے تھے۔ اس دن فرزانہ نے سوچا تھا کہ شاید وہ محبت ہی کو نہیں سمجھتی اس لئے وہ محبت کے لئے اہل نہیں ہے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ اس سے کسی نے محبت نہیں کی تھی۔ اس کی ماں مریم بی بی جو خاندانی جبر کا شکار تھی اپنی بیٹی کو وہ محبت نہ دے پائی جتنی وہ اپنے بیٹے سے کرتی تھی۔ اس کی تمام تر توجہ کا مرکز اس کا بھائی اسد خان تھا۔ جسے ہمیشہ ہر معاملے میں فوقیت ملتی تھی۔ جب سے اس نے ہوش سنبھالا تھا، اس کے لاشعور میں یہی بات بیٹھ گئی تھی کہ لڑکیاں خاندان کی عزت کا باعث نہیں ہوتیں۔ اس کے ساتھ ساتھ باپ کا خوف اس کے لاشعور میں پروان چڑھتا گیا جو اس کی ماں اسے ہمہ وقت باور کراتی رہتی تھی۔ ایک دولت مند گھرانے کی بیٹی ہونے کے باوجود وہ محبت کے لئے ترستی رہی۔ بچپن کی بے بسی گزری، جوانی میں آئی تو اس کا بھائی پڑھنے کے لئے برطانیہ جا چکا تھا۔ اس کی ماں دنیا سے رخصت ہو گئی اور تب سے اسے اپنی اہمیت منوانے کا جو ردعمل دیا ہوا تھا دھیرے دھیرے ظاہر ہونے لگا۔ باپ نے ہر ممکن کوشش کی کہ وہ اپنی بیٹی کو توجہ دے لیکن وقت گزر چکا تھا۔ پرورش کے دوران شخصیت کی تعمیر میں جو ضد، اکھڑ پن، احساس کمتری کے پتھر لگ گئے تھے اب ہٹائے نہیں جا سکتے تھے۔ علی کی مزاحمت نے ایک خواب سے جگا دیا تھا، اسے پھر سے بے اہمیت ہونے کا احساس دے دیا تھا،وہ اس خواب سے نکلنا نہیں چاہتی تھی۔ شاید اس کے نزدیک محبت کا مطلب دوسروں کو اپنا دست نگر بنا لینے کا نام تھا اور علی اس کا دست نگر نہیں ہوا تھا۔
علی سے آخری ملاقات کے بعد فرزانہ ٹوٹ پھوٹ گئی تھی۔ وہ جو محبت کا دعویٰ کر رہی تھی، علی نے اسے اہل ہی نہیں مانا تھا، اسی دن سے وہ سوچ رہی تھی کہ آخر وہ کیا شے ہے جسے علی محبت کہتا ہے؟ وہ جب بھی اس سوال پر سوچتی اس کی سوچ اس حد پر آ کر رک جاتی کہ اس کا جواب تو بلاشبہ علی ہی دے سکتا ہے۔ اس نے چاہا کہ وہ اس سے ملے، پوچھے اور خود کو اہل ثابت کرے لیکن وہ پھر اسے ملا ہی نہیں۔ وہ شہر سے غائب ہو چکا تھا، اس نے کوشش کر کے علی کے گھر سے بھی معلوم کروایا تھا۔ وہ بھی نہیں بتا سکے کہ وہ کہاں ہے۔ پھر وہ تھک ہار گئی اور سارے رابطے ختم کر کے، اپنے کمرے تک محدود ہو کر رہ گئی۔ یہ چند دن اس نے تنہائی میں گزارے تھے۔ اسے یوں لگا جیسے ساری سوچیں سلب ہو چکی ہیں۔ وہ اس دنیا میں واحد لڑکی ہے جس کی نہ کوئی اہمیت ہے اور نہ وقعت۔ اس کا وجود بے معنی ہے۔ جس وقت اس نے یہ فیصلہ کیا تھا، اس وقت سے ہی ایک انجانی آسودگی اس ک رگ و پے میں سرائیت کر گئی تھی۔ اس کی وحشتوں میں کسی قدر کمی آئی تھی کہ سرشام پھر سے عجیب اور نہ سمجھ آنے والی بے کلی نے اسے گھیر لیا تھا۔ پری رات گزر گئی تھی۔ بستر بھی اچھا نہ لگا تو کھڑکی میں آن کھڑی ہوئی۔ بس اس کے سامنے منظر تھا، وہ تھی اور سوچوں سے اکتایا ہوا دماغ تھا۔ وقت گزرنے کا احساس نہیں تھا۔ اچانک ایک طرف سے صدائے تکیبر بلند ہوئی۔ کوئی بہت ہی خوش الحانی سے اذان دے رہا تھا۔ فرزانہ کی تمام تر توجہ اس جانب ہو گئی۔ ایک ایک لفظ اس کی سماعتوں سے ٹکراتا رہا۔ اسے یوں لگا جیسے کسی پیاسے کو ٹھنڈا میٹھا پانی مل جائے۔ اذان ختم ہو گئی تو وہ چونکی۔ اس نے اپنے سراپے پر نگاہ دوڑائی اور پھر وارڈ روب کی جانب بڑھی۔ ایک لباس پسند کیا اور باتھ روم میں گھس گئی۔
وہ جائے نماز بچھائے فجر کی آخری رکعت میں تھی۔ چند لمحوں بعد اس نے سلام پھیرا تو اسے یوں لگا جیسے سارے زمانے کا سکون اس کے دل میں سمٹ آیا ہو۔ ایک ایسی الوہی کیفیت اس پر طاری ہو گئی کہ چند لمحوں تک اسے احساس ہی نہیں رہا کہ وہ کہاں بیٹھی ہے۔ پھر اسے یاد آیا کہ اس نے تو ابھی اپنے رب سے دعا بھی مانگنی ہے۔ اس نے ہاتھ پھیلا دئیے لیکن لفظ اس کے ذہن سے محو ہو گئے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے رب سے کیا مانگے۔ بس اک احساس تھا کہ مانگنا ہے، کیا مانگنا ہے، یہ اسے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کتنے ہی لمحے یونہی گزر گئے۔ وہ کچھ بھی نہ مانگ سکی، بس ہاتھ پھیلائے بیٹھی رہی۔ پھر نجانے کیا ہوا وہ ہوش میں آ گئی۔ اس کے لبوں پر صرف اتنا آیا کہ اے اللہ۔۔۔ تو میرا خالق ہے اور میں تیری مخلوق، تو میرا سب حال جانتا ہے۔ میرے لئے جو بہتر ہے تو وہی کر، مجھے سمجھ عطا کر کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ بس مجھے سکون دے دے۔ اس اہل کر دے کہ میں محبت کر سکوں۔ اے اللہ تو ہی میرا پالنہار ہے، تو سب جانتا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرے، اٹھی، جائے نماز تہہ کی، اسے بیڈ کے ایک جانب رکھا اور پھر لیٹ گئی۔ وہ کچھ دیر پہلے والی کیفیت کو سمجھنا چاہ رہی تھی لیکن اس کا وقت ہی نہیں ملا۔ وہ نیند کی وادیوں میں کھو گئی۔ کچھ دیر بعد اسے یہ ہوش بھی نہ رہا کہ سورج کی کرن اس کے کمرے میں داخل ہو کر روشنی کر رہی ہے۔
نجانے وہ کون سی جگہ تھی۔ اس نے پہلے زندگی میں اتنی خوبصورت جگہ نہیں دیکھی تھی، ہر طرف سبزہ ہی سبزہ تھا۔ پھولوں کی اس قدر بہتات تھی کہ اسے لگا جیسے یہ کوئی پھولوں کا نگر ہو۔ کسی جانب سفید پھول ہیں تو کہیں چھوٹے چھوٹے کانسی کے پھول لہلہا رہے ہیں۔ پیلے پھولوں کے ساتھ سرخ گلاب، یہ سبزہ اوپر تک کہیں چلا گیا تھا جس کے درمیان میں سے ایک آبشار بہہ رہی تھی اور وہ خود ایک لکڑی کے کاٹیج میں بیٹھی، جس کی کھڑکی سے وہ سارا منظر دیکھ رہی تھی۔ وہ صبح کا وقت تھا اور ہلکی ہلکی دھند نے سارا ماحول ہی خوابناک بنا دیا تھا۔ اڑتی ہوئیں تتلیاں، پرندوں کی آوازیں آبشار کا شور سب کچھ ہم آہنگ ہو کر ایک الوہی منظر بنا رہا تھا، اس کے ذہن میں کہیں دور تک کچھ نہیں تھا۔ اسے بس یہی محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس منظر کا خود بھی حصہ ہے، تبھی اس سبزے میں سے ایک سفید براق گھوڑا نمودار ہوا جس کی سنہری رنگ کی زین تھی۔ گھوا دلکی چال چلتا ہوا، اس کی جانب آ رہا تھا۔ اس نے غور سے اس پر سوار نوجوان کو دیکھنا چاہا لیکن اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ شخص کون ہے۔ اس کی ساری توجہ اس کا چہرہ پہچاننے کی جانب مرکوز ہو گئی۔ لمحہ لمحہ وہ اس کے نزدیک آتے جا رہے تھے اور پھر وہ گھوڑا اپنے سوار سمیت اس کی کھڑکی کے قریب آ کر رک گیا۔ سوار نے اپنے چہرے پر سے رومال ہٹایا۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ وہ علی تھا اور اس کی جانب دیکھ کر مسکرا رہا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر اسے دیکھتی رہی، پھر جیسے اسے ہوش آ گیا۔
’’آؤ علی اندر آ جاؤ۔۔۔‘‘ اس نے پورے خلوص سے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ میرے پاس وقت نہیں ہے فرزانہ۔۔۔ مجھے بہت ساری ذمے داریاں نبھانی ہیں۔ تم بہت اچھی ہو، میں تمہیں یہی کہنے آیا تھا۔‘‘ علی کے لہجے میں انتہائی خوشگواریت تھی۔
’’بس اتنی سی بات۔۔۔ کچھ اور نہیں کہو گے؟‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔
’’اپنے دل سے پوچھو۔۔۔ وہ جو کہے وہی مانو۔۔۔ تم محبت کی راہ پر ہو اور یہ راستہ سیدھا راستہ ہے، تم پہلی بار مجھے اچھی لگی ہو۔‘‘ علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’تمہیں پسند ہے یہ راستہ؟‘‘ فرزانہ نے پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔‘‘ علی نے ہنکارا بھرتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے، میں اس راہ پر چلوں گی۔‘‘ اس نے کہا پھر اگلے ہی لمحے بولی۔ ’’کیا اس طرح میں محبت کے قابل ہو جاؤں گی۔‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔ یہی راستہ محبت کا راستہ ہے اور اس پر وہی لوگ چلتے ہیں جو محبت کے اہل ہوتے ہیں۔ بس خلوص شرط ہے۔ میری دعا ہے کہ تم ثابت قدم رہو۔‘‘ علی نے کہا اور پھر اس نے اپنا چہرہ رومال سے چھپا لیا۔ نہ اسے الوداع کہا اور نہ ہی اجازت لی۔ گھوڑا موڑا اور واپس اسی سمت چلا گیا۔ وہ اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔ یہاں تک کہ وہ دور کہیں نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔
فرزانہ کی آنکھ کھل گئی۔ چند لمحوں تک اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آیا کہ وہ خواب میں تھی یا حقیقت تھی۔ خلاؤں جیسی کیفیت میں تھی۔ پھر اسے ہوش اس وقت آیا جب ایک تیز قسم کی خوشبو نے اپنا احساس دلایا۔ تب اسے پتہ چلا کہ وہ اپنے کمرے میں اپنے بیڈ پر ہے۔ اس نے خواب کی ساری کیفیت کو یاد کیا۔ ایک ایک لمحہ، ایک ایک جرائیت اسے یاد تھی۔ وہ کچھ دیر سوچتی رہی اور پھر بہت کچھ سمجھ کر وہ دھیرے سے مسکرا دی۔ وہ جان گئی تھی کہ محبت کے لئے انسان کیسے اہل ہوتا ہے۔ اس نے اپنے سر کو آنچل سے ڈھکا اور آنکھیں موند لیں۔ اب اس پر بھی بہت ساری ذمے داریاں تھیں۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کچی بستی سے باہر جنڈ کے درخت تلے، جہاں چند دن پہلے تک میاں جی بیٹھا کرتے تھے اب وہاں پر علی بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے میاں جی کی آخری رسومات ادا کیں تھیں۔ وہ ان کا جسد خاکی اماں فیضاں کے گھر لے گیا۔ وہیں رکھا اور اس کی جیب میں جو آخری پونجی تھی وہ اس نے احمد بخش کو دی کہ وہ قریبی بستی سے کفن خرید لائے۔ اسے بھیج کر خود وہیں آ گیا جہاں میاں جی نے نماز پڑھائی تھی۔ اس نے خود اپنے ہاتھوں سے قبر تیار کی اور واپس گھر آ گیا۔ اس وقت تک احمد بخش آ گیا تھا۔ علی نے خود میاں جی کو غسل دیا۔ تب تک کی بستی اور گرد و نواح میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ میاں جی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ لوگ اماں فیضاں کے گھر کے باہر اکٹھا ہونا شروع ہو گئے تھے۔ میت تیار ہو چکی تو اسے لوگوں کے بارے میں معلوم ہوا۔ اور پھر میاں جی کو وہیں دفنا دیا گیا جہاں انہوں نے وصیت کی تھی۔ تب اس دن سے علی وہیں بیٹھا تھا۔ وہ ایک بار بھی پلٹ کر اماں فیضاں کے گھر نہیں گیا تھا۔ وہیں صبح و شام اسے کھانا دے جاتی جسے وہ خاموشی سے کھا لیتا۔ یوں چند دن گزر گئے۔
علی کی زندگی بدل چکی تھی۔ اسے میاں جی کی باتوں سے اشارے تو مل گئے تھے کہ کچھ نہ کچھ انہونا ہونے والا ہے۔ لیکن اچانک ایسا ہو جائے گا اس کی اسے خبر نہیں تھی۔ یہ سب کچھ آناً فاناً ہو گیا تھا۔ جس وقت وہ میاں جی کا جسدِ خاکی قبر میں اتار رہا تھا، انہی لمحات میں نجانے اس میں اتنا حوصلہ اور عزم کہاں سے آ گیا تھا کہ اس نے اپنے آنسو خشک کر لئے۔ بڑی تعداد میں لوگ وہاں پرموجود تھے۔ ان میں وہ نمازی بھی تھے جنہوں نے مسجد میں ان سے تلخ کلامی کی تھی۔ میاں جی کی قبر پر مٹی ڈال کر جب فاتحہ پڑھ لی گئی تو اس نے تمام لوگوں کو مخاطب کر کے کہا۔
’’یہاں پر موجود تمام لوگو۔۔۔ آپ میں بہت سارے میرے بزرگ ہیں، بہت سارے میرے ہم عمر اور کچھ چھوٹے ہیں، میں آپ سب سے مخاطب ہو کر کہتا ہوں کہ اگر میاں جی سے کسی کا کوئی مطالبہ ہے تو براہ کرم ابھی مجھے بتائے یا پھر بعد میں مجھ سے رابطہ کر لے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے مجمع پر نگاہ ڈالی اور انتظار کیا کہ کوئی بولے گا مگر کسی طرف سے کوئی آواز نہیں آئی۔ ہر جانب خاموشی طاری تھی۔ جب کوئی بھی نہیں بولا تو اس نے کہا۔ ’’اگر کسی کا کوئی مطالبہ ہو اور وہ یہاں پر موجود نہی ہے تو وہ بھی مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ میں یہاں پر آپ سب کی میں موجودگی میں ایک اعلان کرنے جا رہا ہوں۔ میاں جی کی وصیت ہے کہ میں انہیں یہاں دفن کروں۔ یہ بات پوری ہو گئی۔ دوسری ان کی وصیت یہ تھی کہ جہاں آپ لوگ کھڑے ہیں یہاں پر ایک مسجد اور مدرسہ تعمیر کیا جائے۔ میں آپ سب سے تعاون کا طلب گار ہوں۔‘‘
’’جب بستی میں ایک مسجد موجود تو پھر ایک نئی مسجد بنانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ ایک نمازی نے دبی دبی آواز میں کہا تو علی نے اس کی جانب غور سے دیکھا اور پھر بولا۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ ضرورت ہے یا نہیں ہے لیکن یہ میاں جی کا حکم ہے، ان کی وصیت ہے۔ یہ میں نے کرنا ہے میں پھر کہتا ہوں کہ میں آپ سے تعاون کا طلب گار ہوں۔‘‘
’’بچے یہ تم غلط کر رہے ہو۔ کوئی بھی تم سے تعاون نہیں کرے گا۔ مسجد ہے، بچے پڑھ رہے ہیں، بس ٹھیک ہے، تم کوئی اور کام کرو۔‘‘
’’اور کیا کام کرے گا، اس کے یہاں رہنے کا جواز ہی کیا ہے۔‘‘ ایک طرف سے آواز آئی تو لوگ منتشر ہونے لگے۔ شاید وہ نہیں جانتے تھے کہ اس نزاعی کیفیت میں وہ گواہ بنیں۔ کچھ ہی دیر میں وہ سارا مجمع چھٹ گیا اور وہاں فقط احمد بخش رہ گیا۔
’’علی بھائی۔۔۔ میں آپ کی مدد کروں گا۔‘‘
اس کے یوں کہنے پر علی کو اس پر بہت پیار آیا۔ اس نے احمد بخش کو گلے سے لگایا اور پھر وہ وہیں صف بچھا کر بیٹھ گئے۔ تب سے وہ دونوں وہیں موجود تھے۔ احمد بخش اپنے گھر چلا جایا کرتا تھا لیکن زیادہ وقت وہ وہیں گزارتا۔
اس دن سورج خاصا چڑھ آیا تھا۔ علی تنہا بیٹھا ذکر میں مصروف تھا کہ مہرو اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔ علی نے ایک نگاہ اس پر ڈالی اور اس کی طرف سے کچھ سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہو گیا۔ مہرو نے کچھ بھی نہ کہا اور بس اس کی طرف دیکھتی رہی۔ یوں کتنا سارا وقت یونہی گزر گیا۔ تب علی نے ہی یہ سکوت توڑا۔
’’کیا بات ہے مہرو، کچھ کہنا چاہتی ہو؟‘‘ علی نے دھیرے سے کہا تو وہ الجھتی ہوئی بولی۔
’’کچھ نہیں، بہت کچھ، یا شاید کچھ بھی نہیں۔۔۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں کیا کہوں اور کیا نہ کہوں۔‘‘
’’چلو جو تمہاری سمجھ میں آتا ہے وہی کہہ دو۔۔۔‘‘ علی نے حوصلہ افزا انداز میں کہا تو وہ بولی۔
’’علی۔۔۔ سب سے پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ تم دوبارہ یہاں کیوں آ گئے ہو۔‘‘ اس نے کہا تو علی نے چند لمحے سوچا اور کہا۔
’’تم وفا کو سمجھتی ہو۔۔۔ جانتی ہو یہ کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ سمجھتی ہوں کہ وفا کسے کہتے ہیں۔‘‘ وہ دھیرے سے بولی۔
’’وہی نبھا رہا ہوں۔‘‘ علی نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’کیا ملا تجھے، ویرانے، بے سکونی، گھر سے بے گھری، لوگوں کی نفرتیں، طعنے۔۔۔‘‘
’’تم نے تو بہت کچھ گنوا دیا ہے مہرو، لیکن تمہیں یہ اندازہ نہیں ہے کہ مجھے یہاں سے کیا کچھ ملا ہے۔‘‘
’’میں تو جو دیکھ رہی ہوں، وہی کہہ رہی ہوں۔‘‘ مہرو نے سادگی سے کہہ دیا۔
’’ہاں۔۔۔ تمہیں ایسا ہی کہنا چاہئے۔ لیکن اک ذرا سی وفا کے بدلے، میں نے جو پا لیا ہے، اس کا تم اندازہ نہیں کر سکتی ہو۔‘‘ علی نے اصل بات سے پہلو بچاتے ہوئے عام سے انداز میں کہہ دیا۔
’’میں بھی تو سنوں، آخر تم نے کیا پا لیا؟‘‘ مہرو آج نجانے کیا سوچ کر آئی تھی بحث کرتی چلی جا رہی تھی۔
’’کیا سن لو گی تم؟‘‘ علی نے پھر دامن بچایا۔
’’سننا چاہتی ہوں، اس لئے تو کہہ رہی ہوں۔‘‘ مہرو نے ضد کی۔
’’تو پھر سنو۔۔۔ مجھے عشق ملا ہے۔‘‘ علی نے کہا پھر لمحہ بھر توقف کے بعد کہا۔ ’’اب یہ مت پوچھنا بچوں کی طرح کہ عشق ہوتا کیا ہے۔ یہ نہ کسی کی سمجھ میں آیا ہے اور نہ شاید آئے گا۔ یہ تو وہی جانتا ہے جسے ہو جائے۔ تم جسے بے گھری اور ویرانہ کہہ رہی ہو، میرے لئے ساری دنیا اب ایک جیسی ہے۔ یہ ساری دنیا میرا گھر ہے۔ کیونکہ یہ اس نے بنائی ہے جس سے میں عشق کرتا ہوں۔ لوگوں کی نفرتیں میرے لئے کوئی حیثیت اس لئے نہیں رکھتیں کہ مجھے اس کی محبت ملتی ہے،
اس کی محبت کے سامنے ساری نفرتیں ہیچ ہیں۔‘‘
’’تم کیوں اپنا آپ یہاں پر ضائع کر رہے ہو۔ آخر کیا مقصد ہے تمہارا؟‘‘ مہرو نے تیزی سے کہا۔
’’یہ بات تمہیں کس نے کہہ دی۔‘‘ علی نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔ جہاں سچائی چھلک رہی تھی۔
’’سارا گاؤں کہہ رہا ہے، میرا بھائی رب نواز کہہ رہا تھا کہ تم اس کچی بستی میں کسی خاص مقصد کے تحت آئے ہو، یہاں کے لوگوں کو بہکانے، اب دیکھو۔۔۔ تم نے جو مسجد اور مدرسہ بنانے کا اعلان کیا ہے، ساری بستی میں اس بات پر تبصرے ہو رہے ہیں، لوگ باتیں بنا رہے ہیں۔‘‘
’’تم کیا کہتی ہو۔۔۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’میں۔۔۔؟ میں نے کیا کہنا، میری حیثیت ہی کیا ہے۔ تم نہیں جانتے ہم عورتوں کی قدر یہاں ڈنگروں جیسی ہے ہمیں کون پوچھتا ہے۔‘‘ مہرو نے تلخی سے کہا۔
’’کیا تم یہ نہیں چاہو گی کہ آئندہ آنے والی نسل عورتوں کی عزت کرے۔ تیرے اور میرے نبی ﷺ جو رحمت اللعالمین ہیں انہوں نے جو عورتوں کو حقوق دئیے ہیں۔ اس کے مطابق عورتیں زندگی گزار سکیں۔‘‘
’’میں تو اب بھی چاہتی ہوں۔ میں نے میاں جی سے جو پڑھا۔۔۔‘‘
’’میں یہی چاہتا ہوں کہ میں جس سے عشق کرتا ہوں۔ اس کی باتیں، اس کے احکامات لوگوں کو بتاؤں، انہیں بتاؤں کہ اللہ نے اپنے پیارے اور لاڈلے نبی ﷺ کے ذریعے ہم تک جو پیغام پہنچایا ہے وہ لوگوں کو سناؤں۔۔۔ یہی میرا مقصد ہے مہرو۔‘‘
’’کیوں۔۔۔ تم ہی کیوں؟‘‘ مہرو نے بچوں کی طرح کہا اور پھر بولی۔ ’’یہ لوگ بہت ظالم ہیں۔ میاں جی نے جس طرح زندگی بسر کی تم نہیں جانتے۔ یہاں صرف حکم چلتا ہے سیدن شاہ کا۔ اس نے اگر یہ کہہ دیا کہ تمہیں یہاں نہ رہنے دیا جائے تو یہ تمہیں یہاں نہیں رہنے دیں گے۔‘‘
’’مہرو۔۔۔ ظالم اس وقت تک ظلم کرتا ہے جب تک مظلوم اس کا ظلم سہتا ہے، جس دن مظلوم ڈٹ جاتا ہے، اس دن ظالم کا آخری دن شروع ہو جاتا ہے اور پھر مجھے کوئی ڈر نہیں، میری قسمت میں جو لکھا ہے، جو میرا رب چاہئے گا وہ ہو کر رہے گا۔ مجھے کسی سیدن شاہ کا خوف نہیں۔‘‘
’’تمہیں خوف اس لئے نہیں ہے کہ ابھی تیرے ساتھ اس نے کچھ کیا نہیں۔‘‘
’’وہ جب ہو گا تو دیکھا جائے گا۔‘‘ علی نے مسکراتے ہوئے بات ختم کرنا چاہی لیکن مہرو نے ایسا نہیں کیا۔ وہ اپنی ہی رو میں کہتی چلی گئی۔
’’تم یہاں پر اجنبی ہو۔ تمہیں نہیں معلوم وہ کتنا ظالم آدمی ہے۔ سب کچھ تیرے سامنے ہوا، میں اس معاملے میں کتنی قصور وار ہوں کہ میرے بھائی کو بچانے کے لئے مجھے سولی پر لٹکنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور میں مجبور ہوں۔ جس دن بھی اماں فیضاں نے کہا، مجھے بھیرے سے شادی کرنا ہو گی۔ بتاؤ، یہ ظلم نہیں ہے۔‘‘
’’اور تم بے قصور ہوتے ہوئے بھی سزا پاؤ گی۔ ایسا ہی ہے نا۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا اور پھر اس سے پہلے کہ مہرو کوئی جواب دیتی۔ اس نے کہا۔ ’’زیادہ سے زیادہ یہ ہو گا کہ تم زندگی ہار جاؤ گی۔ اس سے زیادہ تو کچھ نہیں ہونے والا نا۔۔۔؟ لیکن سانول، تم سے محبت کرتا تھا، اس نے تمہیں پانے کی خاطر، اپنی زندگی کی بھی پروا نہیں کی۔ وہ تم سے عشق کرتا تھا اور تم اس کی موت کو بے موت کہو گی۔ نہیں ایسا نہیں ہے مہرو۔۔۔ میں جو اگر یہاں بیٹھا ہوں تو اس کے عشق کے صدقے۔ اس عاشق کا لہو اگر اس صحرا نے پیا ہے تو یہاں لازماً پھول کھلیں گے۔ تمہارے اندر جو خوف ہیں۔ یہ صرف اس لئے ہے کہ نہ تمہیں محبت کا اندازہ ہے اور نہ وفا کے بارے میں جانتی ہو۔ تم خودڈنگر کی مانند رہنا چاہتی ہو تو رہو۔ کس نے روکا ہے۔ سیدن شاہ نے کہہ دیا اور تم نے مان لیا۔ بس۔۔۔‘‘
’’میں ماننے پر مجبور ہوں۔‘‘
’’کیوں۔۔۔ ڈرتی ہو مر جاؤ گی۔ مرنا تو ہے۔ آج نہیں توکل۔ تم ڈنگر رہنے پر راضی ہو، اس لئے تمہیں ڈنگر رکھا جاتا ہے۔ اور پھر محبت وہی کر سکتا ہے جو محبت کی لاج رکھتا ہے۔ سانول تیرے لئے مر گیا۔ کبھی سوچا وہ تم سے کس قدر محبت کرتا تھا۔‘‘ علی نے قدرے جذباتی ہوتے ہوئے کہا تو مہرو کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اس نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’علی۔۔۔ اس نے ہی تو بتایا کہ زندگی ہوتی کیا ہے۔ یہ آتش عشق کس بلا کا نام ہے۔ اس وقت جو میں تیرے پاس بیٹھی ہوں اور تجھے سمجھا رہی ہوں تو میرے اور تیرے درمیان کس کا تعلق ہے؟ سانول کا ہی ہے نا۔‘‘
’’یوں سانول کو بدنام نہ کرو۔ اس کی محبت گھٹیا ثابت مت کرو۔ جاؤ جا کر سوچو کہ سانول کی تم سے کتنی محبت تھی،وفا کا تقاضا یہی ہے کہ تم اس کے نام پر اپنی زندگی گزار دو۔ اور سنو۔۔۔ مجھے سمجھانے مت آنا۔ میں اپنی زندگی کسی اور کے لئے وقف کر چکا ہوں۔ جاؤ اب چلی جاؤ۔‘‘
’’ٹھیک ہے علی۔۔۔ میں جا رہی ہوں۔ اگر سانول میرے من میں بس گیا تو دوبارہ تیرے پاس آؤ گی ورنہ چہرہ کبھی تجھے نہیں دکھاؤں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اٹھی اور واپس چلی گئی۔ جبکہ علی اپنے جذبات قابول میں لانے لگا۔ اس کے سامنے سانول کا خون سے لت پت چہرہ آ گیا تھا۔
اسی دن عصر کے وقت جب احمد بخش اس کے پاس آیا تو علی نماز پڑھ چکا تھا اور اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی طاری تھی۔ وہ چند لمحے احمد بخش کی طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔
’’احمد بخش۔۔۔ اب ہمیں میاں جی کی وصیت کے مطابق کام شروع کر دینا چاہیے۔‘‘
’’جیسے آپ کا حکم، بتائیں مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘
’’ہمارے پاس کوئی روپے پیسے تھوڑی ہیں جو چیزیں خرید کر لائیں گے۔ یہ اللہ کی زمین ہے۔ یہیں سے گارا اور اینٹیں بنائیں گے۔ مسجد بنائیں گے اور مدرسہ تعمیر کریں گے۔ہم ا پنا کام بانٹ لیں گے۔ تم اینٹیں بنانا میں تمہیں گارا بنا دوں گا۔ پھر دونوں بھائی مل کر دیوریں چن لیں گے۔‘‘
’’جیسے آپ کا حکم علی بھائی۔‘‘
’’تو ٹھیک ہے، آج ہم اوزاروں کا بندو بست کر لیں، کل فجر کے بعد کام شروع کر دیں گے۔‘‘ علی نے کہا تو احمد بخش نے سر ہلایا جیسے اس سے پوری طرح متفق ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
شام ہونے کو تھی۔ سورج نے مغربی افق کو چھو لیاتھا۔ جب فرزانہ خاں نے اپنی ملازمہ کو آواز دی۔ آواز کی بازگشت میں اس کی ملازمہ کمرے کے اندر آ گئی اور نہایت ادب سے کہا۔
’’جی بی بی سئین۔‘‘
’’بابا سائیں آ گئے ہیں؟‘‘ اس نے دھیرے سے پوچھا۔
’’جی ابھی کچھ دیر پہلے ہی آئے ہیں۔ ابھی مردانے میں ہیں، وہاں کچھ لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے۔‘‘
’’ٹھیک ہے، جب وہ آئیں تو انہیں بتانا، میں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔‘‘ فرزانہ کے لہجے میں انتہائی درجے کا تحمل تھا۔ اس پر ملازمہ نے غور سے اس کی جانب دیکھا اور پھر سر ہلاتے ہوئے بولی۔
’’جیسے حکم بی بی سئین۔‘‘ یہ کہہ کر وہ الٹے قدموں واپس چلی گئی۔ تنہائی ملتے ہی فرزانہ خاں نے ایک بار پھر اپنے فیصلے کے بارے میں سوچا۔ کچھ دیر سوچتے رہنے کے بعد وہ مطمئن ہو گئی۔ اسے اندازہ تھا کہ ابھی بابا سائیں سے ملنے میں کچھ وقت لگے گا۔ اس لئے وہ اٹھی اور نماز مغرب ادا کرنے کی تیاری کرنے لگی۔
اس وقت فرزانہ خاں نے سلام پھیرا تھا جب ملازمہ اس کے کمرے میں آئی۔ وہ ایک جانب خاموش کھڑی ہو گئی۔ فرزانہ نے بڑے ہی خشوع و خضوع سے دعا مانگی۔ جائے نماز لپیٹتے ہوئے اس نے ملازمہ کی طرف سوالیہ انداز سے دیکھا تو وہ فوراً بولی۔
’’خاں سائیں نے آپ کو یاد کیا ہے۔ وہ اپنے کمرے میں آ گئے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تم جاؤ۔‘‘ فرزانہ نے تحمل سے کہا تو ملازمہ پلٹ گئی۔
سردار امین خاں اپنے کمرے میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نگاہیں داخلی دروازے کی طرف ہی لگی ہوئیں تھیں۔ فرزانہ کو اندازہ ہو گیا کہ اس کا باپ انتظار میں ہے۔ اس نے نہایت ادب سے سلام کیا۔ باپ نے اٹھ کر اسے پیار دیا اور پھر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولا۔
’’آج ہماری بیٹی نے بڑے تکلفات سے وقت مانگا ہے ملاقات کے لئے، خیر تو ہے نا میرے بچے۔‘‘ باپ کے لہجے میں شفقت چھلک رہی تھی۔ تب اس نے کہا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ میں نے ایک فیصلہ کیا ہے اور اس کے لئے میں آپ کی بھر پور مددچاہوں گی۔‘‘
’’کیسا فیصلہ اور کیسی مدد۔۔۔ صاف صاف بات کہو نا۔‘‘ امین خاں نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے تحمل سے پوچھا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ میں نے ایک این جی او بنانے کا سوچا ہے۔ میں چاہتی ہوں۔۔۔‘‘ابھی اس نے بات مکمل نہیں کی تھی کہ امین خاں نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’یہ تمہیں بیٹھے بٹھائے کیا سوجھی ہے بیٹا۔‘‘ پھر ایک لمحہ توقف کے بعد بولا۔ ’’پہلی تو یہ بات ہے کہ ہمارا خاندان لوگوں کی خدمت کرنے والا نہیں۔ ان سے خدمت کروانے والا ہے۔ تم دیکھتی ہو کہ علاقے کے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں۔ ہماری خدمت کرتے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحہ کے لئے رکا اور پھر بولا۔ ’’ اور دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے خاندان میں لڑکیاں ایسا کام نہیں کرتیں۔‘‘
’’لڑکیاں کیوں نہیں کر سکتی ایساکام۔۔۔؟ اس خاندان میں۔۔۔‘‘
’’میں بحث کے موڈ میں نہیں ہوں بیٹا، خاندان کی روایت اور اس کے مطابق سارے فیصلے مرد ہی کرتے ہیں، عورتیں نہیں ۔میں نے اگر تمہاری ضد کی وجہ سے تمہیں تعلیم دلوا دی ہے تو اس کا بے جا فائدہ نہ اٹھاؤ میری بیٹی۔‘‘ امین خاں نے اسے تحمل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’آپ نے اگر مجھے تعلیم دلا کر خاندان کی روایت کو توڑا ہے تو یہ بھی سہی۔ میں ثابت کر دوں گی کہ میں مردوں سے زیادہ کام کر سکتی ہوں۔‘‘ فرزانہ کے لہجے میں بھی ادب اور تحمل تھا۔
’’تم کیوں نہیں سمجھتی ہو۔ میں تمہارے بارے میں کچھ اور سوچ رہا ہوں۔تیرا بھائی اسد خاں اپنی تعلیم مکمل کر کے آ جائے تو میں تمہیں اس گھر سے وداع کر وں، بس ایک سال رہتا ہے اس کا۔ اگر تمہاری ماں ہوتی یہ باتیں وہ تم سے کرتی، خیر۔۔۔‘‘
’’لیکن بابا سائیں۔۔۔ میں فیصلہ کر چکی ہوں کہ میں نے ایک فلاحی تنظیم بنانی ہے۔ اس کے لئے میں ہوم ورک تیار کر چکی ہوں اور میں۔۔۔‘‘
’’تمہاری یہ ساری محنت فضول ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر امین خاں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔ ’’جب تک تمہیں ان سب باتوں کی سمجھ آئے گی۔ تم نے برطانیہ چلے جانا ہے۔ چھوڑ ان باتوں کو، بس تم کپڑے خریدو، پہنو، اپنی سہلیوں کو بلا کر پارٹی وغیرہ کر دیا کرو۔ اور خوش رہو۔‘‘
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ کو بھی پتہ ہے کہ میں ضد کی کتنی پکی ہوں۔ میں آپ سے یہ سب منوا لوں گی اس لئے آپ۔۔۔‘‘
’’فرزانہ۔۔۔‘‘ امین خان نے غضب سے کہا۔ ’’تم میری محبت اور شفقت کا ناجائز فائدہ مت اٹھاؤ۔ یہ نہ ہو کہ مجھے تم سے سخت لہجے میں بات کرنی پڑے۔ میں نے جو کہہ دیا تو کہہ دیا۔ میرے ساتھ بحث مت کرو اور جاؤ اپنے کمرے میں۔‘‘ امین خان نے خود پر قابو پاتے ہوئے دھیرے سے اپنی بات ختم کی جس پر فرزانہ حیرت زدہ رہ گئی۔ اسے اپنے باپ سے یہ امید نہیں تھی۔ اس نے تو کبھی اس کی بات نہیں ٹالی تھی اور کہاں اب سختی سے منع کر رہے تھے۔ شاید اس کی آنکھوں میں اتری ہوئی حیرت ہی اس کے باپ نے پڑھ لی تھی اس لئے اپنے لہجے میں حلاوت بھرتے ہوئے بولا۔
’’بیٹی۔۔۔ دیکھ یہ ہمارا کام نہیں۔ تم اگر کسی کی مدد کرنا چاہو توجتنا چاہو کر سکتی ہو۔ میں نے یہ خرچ ورچ کے معاملے میں پہلے تمہیں کبھی منع کیا ہے۔‘‘
’’بات یہ نہیں بابا سائیں۔‘‘ فرزانہ نے باادب لہجے میں کہا۔
’’تو کیا بات ہے پھر۔‘‘ امین خان نے نرمی سے پوچھا۔
’’باباسائیں۔۔۔ میں آپ کی بیٹی ہوں اور جانتی ہوں کہ خاندانی وقار کیا ہوتا ہے اور ایک عورت کی ا پنی عزت کیا ہوتی ہے۔ اب جبکہ میں نے تعلیم حاصل کر لی ہے تو خاندان کے وقار میں کیا کمی آ گئی ہے۔ اب میں اپنا آپ منوانا چاہتی ہوں تو آپ مجھے منع کر رہے ہیں۔‘‘ فرزانہ نے اپنا موقف اپنے باپ کے سامنے رکھا۔
’’تعلیم کی حد تک تو بات ٹھیک ہے۔ لیکن کیا تم نہیں جانتی ہو کہ اس علاقے میں ہماری سیاسی ساکھ بھی ہے۔‘‘ امین خان نے دلیل دی۔
’’جانتی ہوں بابا سائیں۔۔۔ میں آپ کی سیاسی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچنے دوں گی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہو گا۔ یہ میرا آپ سے وعدہ ہے۔‘‘ فرزانہ کے لہجے میں اعتماد اتر آیا تھا۔
’’تم کیا جانو یہ سیاسی معاملات کیا ہوتے ہیں۔ مجھے تو حیرت اس بات پر ہو رہی ہے کہ تمہیں فلاحی تنظیم بنانے کا خیال کس نے دیا۔‘‘ امین خان نے اکتاتے ہوئے کہا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ یہ خیال مجھے کسی نے نہیں دیا، میں نے خود فیصلہ کیا ہے۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ تمام تر سوجھ بوجھ صرف مردوں میں ہی ہوتی ہے، عورتوں میں نہیں ہے۔‘‘ فرزانہ کے لہجے میں شکوہ بھرا ہوا تھا۔
’’اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں۔ یہاں کی سیاست، یہاں کے علاقائی معاملات، یہاں کی عوامی نفسیات کو تم نہیں جانتی ہوں اور پھر خاندان میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ یہ ہمارے وقار کے منافی ہے کہ ۔۔۔‘‘ امین خاں نے زچ ہوتے ہوئے کہا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ مجھے حکم دے کر منع تو کرسکتے ہیں اور پھر میں ایسا کچھ بھی نہیں کروں گی لیکن آپ کے پاس کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس سے آپ میرے ارادے کو ختم کر سکیں۔‘‘ فرزانہ خاں نے قدرے جوش سے کہا تو امین خاں ایک لمحے کے لئے تو سوچ میں پڑ گیا۔ اسے کچھ سمجھ میں نہیں آ رہاتھا کہ وہ کیاکرے۔ اس نے اپنی بیٹی کے چہرے پر دیکھااور پھر دھیرے سے پوچھا۔
’’تم کرنا کیاچاہتی ہو بولو۔۔۔؟‘‘
’’میں۔۔۔ میں نہ صرف خود کو مصروف رکھنا چاہتی ہوں بلکہ اپنے آپ کو مطمئن کرنا چاہتی ہوں کہ میں نے بھی اس علاقے کے لوگوں کی فلاح کے لئے کچھ کیا ہے۔ میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ میں کبھی سیاست میں نہیں آؤں گی۔‘‘ فرزانہ نے اطمینان سے اپنی بات کہہ دی۔
’’مجھ سے کیا مد دچاہ رہی ہو۔‘‘امین خان نے دھیرے سے پوچھا۔
’’بابا سائیں۔۔۔ ظاہر ہے اس فلاحی تنظیم کو چلاے کے لئے سرمایے کی ضرورت ہے۔ اللہ سائیں کا ہم پر بہت کرم ہے۔ اس فلاحی کاموں میں خرچ ہونے والا سرمایہ آپ ہی کا ہو گا۔‘‘ فرزانہ نے صاف لفظوں میں کہہ دیا۔
’’بیٹی۔۔۔ پھر تم نے اپنا آپ کیا منوایا۔‘‘ امین خاں نے تیزی سے کہا۔
’’میں اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ بغیر سرمایے سے اپنا کام شروع کر دوں، لیکن پھر بات آپ پر آئے گی کہ بیٹی کو کچھ نہیں دیا۔ مجھے خود پر بھروسہ ہے بابا سائیں۔ بس آپ مجھے اجازت د ے دیں۔‘‘ اس نے بہت نرمی سے کہا تو ا مین خاں سوچنے لگا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے پھر بولا۔
’’ٹھیک ہے بیٹی جیساتم کہو۔ لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔‘‘
’’آپ کی شرط، میرے سر آنکھوں پر، آپ کہیں بابا سائیں۔‘‘
’’میں جب بھی تمہاری شادی کے بارے میں فیصلہ کروں تم اس این جی او کا یا او رکوئی دوسرا بہانہ نہیں بناؤں گی۔ تمہیں میری بات ماننا ہو گی۔ میرا ہر فیصلہ قبول کرنا ہو گا۔‘‘
’’مجھے منظور ہے۔‘‘ فرزانہ خاں نے حتمی لہجے میں کہا تو امین خاں کے چہر پر پھیلا ہوا تردد لمحے میں صاف ہو گیا۔
’’بولو۔۔۔ تمہیں کتنا سرمایہ چاہیے۔‘‘ امین خاں نے کہا تو فرزانہ کے چہرے پر خوشی کے چراغ روشن ہو گئے۔
’’نہیں بابا سائیں ۔ اتنا کچھ ابھی میرے پاس ہے، میں بعد میں آپ کو بتادوں گی۔ ابھی تو آپ مجھے ماڈل ٹاؤن والی کوٹھی خالی کروادیں۔ میں اپنا آفس وہیں بنواؤں گی۔‘‘ اس نے کہا تو امین خاں نے سر ہلا دیا جیسے وہ اس کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہو گیا ہو۔ پھر ڈنر کے بعد تک یہی معاملہ زیر بحث رہا۔ فرزانہ نے اپنی بات منوالی تھی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جاری ہے
No comments:
Post a Comment