Wednesday, 27 September 2017

کیمپس۔۔ امجد جاوید۔۔ قسط نمبر9

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر 9
وہ بڑی روشن صبح تھی۔ میں ناشتے کے بعد لان میں آبیٹھا۔ وہیں جندوڈانے مجھے اخبار تھما دیا۔ چمکتی ہوئی نرم دھوپ میں بہت لطف آرہا تھا۔ میں اخبار میں کھویا ہوا تھا کہ میرا سیل فون گنگنا اٹھا۔ کوئی اجنبی نمبر تھا۔ میں چند لمحے اسکرین پُر دیکھتا رہا، پھر میں نے کال ریسیور کرلی۔
”ہیلو....! “ میں نے آہستگی سے کہا۔
”میں ہوں فرخ چوہدری....“ دوسری طرف سے بڑے سرد لہجے میں کہا گیا۔ جو بالکل مصنوعی تھا، صاف لگ رہا تھا کہ وہ زبردستی لہجے کو خوف ناک بنانے کے لیے سرد کئے ہوئے ہے۔ مجھے بے ساختہ ہنسی آگئی۔ اس لیے بڑے پر لطف لہجے میں کہا۔
”ہوں....! بولو، کیا کہناچاہتے ہو“۔
”صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تمہیں اپنی زندگی عزیز ہے تو دوبارہ کیمپس میں نہ آنا ور نہ تمہاری سانسیں تک چھین لیں گے“۔
”یہ تم مجھے دھمکی دے رہے ہو یا لطیفہ سنا رہے ہو....“ میں نے طنزیہ انداز میں کہا تو شاید وہ بھنا گیا۔ اس لیے بہت غصے میں بولا۔
”تم شاید مجھے نہیں جانتے، لیکن میں تمہیں بہت اچھی طرح جانتا ہوں.... میں....“
”نہیں، تم جھوٹ بول رہے ہو۔ اگر میرے بارے میں تجھے معلوم ہوتا نا تو تم مجھے یوں فون کرنے کی جرا ¿ت نہ کرتے“۔
میں نے اسے مزید غصہ دلایا۔
”میں کیا کر سکتا ہوں.... اس کا تمہیں پتہ نہیں“۔
”پتہ ہے میری جان۔ ہیجڑوں کی طرح چھپ کر وار کرنا.... یا عورتوں کی طرح سازشیں کرنا ہی تمہارا کام ہے۔ اگر مرد کے بچے ہو تو سامنے آﺅ.... پھر پتہ چل جائے گا کہ تم کیا کر سکتے ہو....“ میں نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”ڈرو اس وقت سے جب میں سامنے آﺅں گا.... پھر تمہیں کوئی بچانے والا نہیں ہو گا.... میں....“ اس نے کہنا چاہا لیکن میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”صرف دھمکیاں ہی دیتے رہو گے.... سامنے نہیں آﺅ گے....“
”چلو ٹھیک ہے.... میں ہی تمہیں مل لیتا ہوں.... انتظار کرو.... میں آرہا ہوں“۔
”میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں.... جلدی پہنچو....“ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اب دو ہی آپشن تھے ۔ یا تو وہ مرد کا بچہ ہوتا تو اس نے یہاں تک آکے چڑھائی کروینا تھی، یا پھر کسی چوہے کی مانند بل میں چھپا رہتا.... وہ جو کچھ بھی کرتا، مگر مجھے اپنی پوری تیاری کرنا تھی۔
میںفرخ چوہدری کی فون کال کا منتظر تھا۔ اس نے آنے کا تو کہہ دیا تھا، لیکن کہاں آئے گا۔ یہ اس نے نہیں بتایا تھا۔ میں نے اس کی دھمکی کے بارے کاشف کو آگاہ کر دیا تھا۔ وہ پوری طرح تیاری کر چکا تھا۔ میرے سیل فون میں فرخ کا نمبر موجود تھا۔ میں اسے کال کر سکتا تھا۔ مگر میں چاہتا یہ تھا کہ وہ خود مجھے کال کرے۔ میں اس کے اعصاب دیکھنا چاہتا تھا۔ اس کے لیے نہ صرف مجھے انتظار کرنا تھا بلکہ اسے بھی منتظر رکھنا تھا۔ میں اصل میں شعوری طور پر یہ چاہتا تھا کہ سازش کی جڑ معلوم ہو جائے۔ وہ کون ہے؟ کیونکہ میرے پاکستان آنے او پھر کیمپس میں پہنچ جانے تک اتنی ہنگامہ آرائی ہونی نہیں چاہئے تھی، جتنی ایک طرح سے مجھ پر مسلط کر دی گئی تھی۔ صبح سے دوپہر ہونے کو آگئی لیکن فرخ چوہدری کا دوبارہ فون نہیں آیا۔ میں بجائے پُر سکون ہونے کے کسی حد تک بے چین ہو گیا۔ مجھے یہ گمان ہونے لگا تھا کہ اب میرا اور اس کا سامنا کیمپس ہی میں ہو گا۔ وہ شاید مجھے ذہنی طور پر ڈسٹرب کرنا چاہتا تھا۔ یہ بڑا پرانا ہتھکنڈہ تھا۔
بعض احمق لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی کو ذہنی اذیت دے کر اسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ مگر شاید وہ یہ نہیں جانتے کہ ان کا یہی ذہنی اذیت دینا بھی ذہنی قوت بن جاتا ہے۔ وہ منافق لوگ جودھوکے جھوٹ اور بے غیرتی کی بنیاد پر سازش تیار کرتے ہیں۔ دراصل وہی لوگ بزدل ، شکست خوردہ اور معاشرے کے ناسور ہوتے ہیں۔ یہی لوگ خود پر مختلف لبادے اوڑھ کر شیطان کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہوتے ہیں۔ اس میں قصور کسی کا نہیں ہوتا، بلکہ ان کی مٹی ہی غلاظت سے اٹھی ہوئی ہوتی ہے۔ وہ ثابت کر دیتے ہیں کہ ان کے خمیر میں حلال شامل نہیں ہوتا۔ فرخ چوہدری بھی کچھ ایسا ہی کردار تھا لگ رہا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں جتنا سوچا، مجھے اس کے خمیر ہی میں شک دکھائی دیا۔ ایک طرف سلیم نے مجھے اس کے بارے میں معلومات دیں تھیں اور دوسری طرف کاشف نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کیا ہے۔ وہ ایسے کریہہ لوگوں میں سے تھا جو مذہبی لبادہ اوڑھ کر طلبہ تنظیم میں گھسے ہوئے ہوتے ہیں۔ فرخ مذہبی تنظیم کے لیے اس وجہ سے کام کر رہا تھا کہ تنظیم کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکے۔ میں اس کے بارے میں سمجھ گیا تھا کہ اس کی ”کیمسٹری“ کیا ہے۔ اب صرف ایک سوال واضح کر کے سمجھنا تھا کہ وہ ماہم کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے؟ وہ محض اس کے حسن سے متاثر ہے اور اسے اپنی فطری کمزوری کی وجہ سے گرفت میں کرنا چاہتا ہے۔ صرف انا کی جنگ ہے کہ اس نے مارکیٹ میں اسے ذلیل کر دیا تھا یا پھر کوئی اور دوسرا مسئلہ ہے؟ اس سوال کی وضاحت ہی میں اس کے آئندہ دنوں کے پلان بارے سوچا جا سکتا تھا۔
سہ پہر ہونے کو آگئی۔ میں اپنے کمرے میں لیٹے لیٹے اکتا گیا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں اٹھ کر نیچے لان میں جاﺅں اور تھوڑی دیر کھلی فضا میں بیٹھوں۔ میں ان لمحات میں خود کو تیار کر ہی رہا تھا کہ ماہم کی فون کال میرے سیل پر آگئی۔ میں کال رسیو کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں بولو ماہم....!“
”ارے صاحب، ہم یہاں آپ کے ڈرائنگ روم تک آگئے ہیں اور آپ ہیں کہ نہ جانے کہاں چھپے بیٹھے ہیں“۔
اس نے کہا تو بجائے خوشگوارت کے میں الجھ گیا۔ لمحہ بھر بعد میں نے کہا۔
”تم یہاں، خیرت تو ہے؟“
”اب مجھے لگتا ہے کہ آپ خیریت سے نہیں ہیں۔ میں آپ سے ملنے آپ کو دیکھنے آئی ہوں۔ میرے ساتھ، رخشندہ، کاشف اور عدنان ہیں۔ ابھی کچھ دیر میں اسد بھی آتا ہو گا اور ممکن ہے رابعہ بھی آجائے ۔ اب بتاﺅ، مجھے آنا چاہئے تھا کہ نہیں“۔ اس نے کافی حد تک تلخی سے کہا۔
”میں آرہا ہوں؟“ میں نے تیزی سے کہا اور فون بند کر دیا۔
وہ سب نیچے ڈرائنگ روم میں موجود تھے اور صوفوں پر براجمان تھے۔ میں نے سب سے علیک سلیک کی اور ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا۔ تبھی کاشف بولا۔
”میں تمہاری کال کے بعد سے پوری طرح تیار تھا، پھر اکتا کر خود ہی یہاں آگیا، لیکن لگتا ہے کہ وہ اب سامنے نہیں آنے والا“۔
”وہ سامنے آئے گا، لیکن اس وقت جب اسے یہ احساس ہو گا کہ پوری گرفت رکھتا ہے۔ ایسے چوہے اپنی بلوں ہی میں گھسے رہتے ہیں“۔ ماہم نے تیز ی سے کہا۔
”جبکہ میرا یہ خیال ہے کہ وہ کبھی سامنے نہیں آئے گا۔ وہ دوسروں ہی سے الجھا کر ہمیں لڑاتا رہے گا اور خود سکون سے تماشہ دیکھے گا“۔ رخشندہ نے سکون سے کہا۔
”یہ بات تم کیسے کہہ سکتی ہو؟“ کاشف نے سوچنے والے انداز میں پوچھا۔
”سیدھی سی بات ہے، ایسے لوگ خود نہیں لڑتے۔ لڑواتے ہیں، ان کی بلا سے کون لڑ رہا ہے۔ میرے سامنے اگر بنا بنایا کھانا آرہا ہے تو مجھے کیا ضرورت ہے خود کچن میں ہاتھ جلانے کی“۔ وہ پُرسکون اور سنجیدہ لہجے میں جواباً بولی تو کاشف نے کہا۔
”تم ٹھیک کہہ رہی ہو، لیکن ایک بات میں بتا دوں، وہ اتنا ماسٹر مائنڈ نہیں ہے کہ کوئی سازش تیار کر سکے، اس کے پیچھے کچھ لوگ تو ہوں گے“۔
”ممکن ہے، ایسا ہو۔ مگر میں آج آپ سب کو ایک بات بتا دوں، ہم جب تک خود الجھتے رہیں گے، وہ ہمیں الجھاتے رہیں گے۔ جو تھوڑی بہت ہماری طارقت ہے، وہ یہیں پر ضائع کر دیں گے۔ اگر ہمارا مقصد کیمپس پر اپنی گرفت کرنا ہے تو اس کے لیے کچھ الگ سے سوچنا ہو گا“۔ رخشندہ نے اپنی مخصوص سنجیدگی سے کہا تو کاشف چونکتے ہوئے بولا۔
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہی ہو۔ ہمیں کیا کرنا ہے، اپنی طاقت کو کہاں لگانا ہے۔ اس بارے سوچنے کی نوبت اب تک نہیں آئی۔ کیا کرنا چاہئے ہمیں اور اپنی طاقت....“
”سادہ سی ایک مثال ہے کاشف، اگر طاقت کو تیکنیکی انداز میں استعال کیا جائے نا، تو معمولی سی طاقت بھی بہت بڑا کام کرجاتی ہے۔ بہت بھاری پتھر ہٹانے کے لیے اگر لیور استعمال کرلیا جائے تو بہت تھوڑی طاقت خرچ کرنا پڑتی ہے۔ اپنی اس ذراسی طاقت کو تیکنیکی انداز میں استعمال کریں اور بس....“ اس نے کہا تو مجھے اس کی ذہانت کا اعتراف کرنا پڑا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے پہلی بار اسے اہمیت دی اور بڑے غور سے دیکھا تھا۔ اس کا پہلا تاثر یہی تھا کہ اسے چکنی لڑکی کہا جا سکتا تھا۔ گول چہرہ بھرے بھرے گال، منا سا بیٹھا ہوا ناک، چھوٹا سا دہانہ، موٹے لب، گھنگھریالے بال، قدرے فربہ مائل تھی۔ اس نے سیاہ پتلون اور ہلکے سبز رنگ کی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے پر انتہائی درجے کی سنجیدگی دیکھ کر یہی احساس ہوا کہ وہ اس معاملے کو بہت اہمیت دے رہی ہے۔ تب میں نے بھی پوری سنجیدگی سے کہا۔
”رخشندہ....! تو تم یہ بھی سمجھ سکتی ہو کہ اس ذرا سی طاقت کو استعمال کیسے کرنا ہے؟“
”پلان کرنا ہو گا ہمیں۔ پہلے پوری طرح یہ واضح کرنا ہے کہ ہمارا مقصد کیا ہے۔ ظاہر ہے ہم سب اپنے اپنے ذہن میں الگ الگ مقصد لیے ہوئے ہیں، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کہیں نہ کہیں کوئی مقصد مشترکہ ہے، جس کی وجہ سے ہم مل بیٹھے ہیں۔ کوئی ایسا پلان، کوئی ایسا لائحہ عمل ہو جس سے سب کے مقاصد حل ہوں جائیں۔ میرا تو یہی خیال ہے۔ باقی آپ سب جو بہتر سمجھیں“۔
”رخشندہ....! میں جب یہاں آیا ہوں تو میرے ذہن کے کسی کونے میں بھی یہ لڑائی جھگڑے والا معاملہ نہیں تھا۔یہ مجھ پر مسلط کیا گیا ہے۔ اب سوائے دفاع کے میرے پاس کوئی بھی راستہ نہیں ہے۔ اب اگر یہ صورت حال ختم ہو جاتی ہے تو پھر مجھے کسی لڑائی جھگڑے یا دفاع وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ میں جس مقصد کے لیے یہاں آیا ہوں، وہ پورا کر کے یہاں سے چلا جاﺅں گا۔ میرا کوئی ذاتی دشمن تو ہے نہیں“۔ میں نے اپنی طرف سے وضاحت کرتے ہوئے کہا۔
”لیکن اب بن گئے ہیں دشمن، ان کا کیا کیا جائے، صرف دفاع نہیں اور میں یہ بتادوں کہ تمہارے دشمن انتہائی بزدل ہیں اور بزدل دشمن سانپ کی مانند ہوتا ہے۔ وہ خاموشی سے ڈنگ مارتا ہے ، ورنہ اپنی بل میں چھپا رہتا ہے“۔ عدنان نے اپنی بھاری آواز میں بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
”مطلب....! اگر اب دو سال رہنا ہے تو ان کے سامنے تن کر رہنا ہے“۔ رخشندہ نے تیزی سے کہا۔
”میں سمجھتا ہوں۔ میں اکیلا کچھ کر بھی نہیں سکتا، میں آپ کے ساتھ ہوں، پورے دل سے اور پورے خلوص سے اب ہمیں وہ مشترکہ مقصد تلاش کرنا چاہئے، جس پر ہم سارے متفق ہو جائیں“۔ میں نے ان سب کی طرف دیکھتے ہوئے مثبت انداز میں کہا تو ماہم نے میری جانب دیکھتے ہوئے کہا۔ 
”وہ مقصد ہے کیمپس پر اپنا ہولڈ، اگر ہم اس پر متفق ہیں تو پھر یہ سوچاجا سکتا ہے کہ ہمیں کیا کرنا ہے؟“
”ماہم مجھے بتاﺅ ہمیں کیا کرنا ہے بلکہ میں یہ چاہوں گا، مجھے بتاﺅ، میں اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے کیا کر سکتا ہوں؟“ میں نے حتمی انداز میں کہا تو ماہم کے چہرے پر ایک فاتحانہ رنگ آکر گزرگیا۔ تبھی وہ فوراً کاشف کی طرف دیکھ کر بولی۔ ”دیکھا، میں نہ کہتی تھی، ابان نہ کوئی شرط رکھے گا اور نہ ہی مایوسی کی بات کرے گا“۔
”میں سمجھتاہوں ماہم خیر....! اگر ابان مان جائے تو ہمارے گروپ کا لیڈر اسد ہو گا، کیا خیال ہے؟“ کاشف نے بڑے پُراسرار لہجے میں کہا تو میں چونک گیا۔ ”کیا وہ اتنی بھاری ذمے داری اٹھالے گا۔ یہی سوال ہے نا تمہارے ذہن میں؟“
”ہاں کاشف....! میں یہی سمجھتا ہوں “۔ میں نے تیزی سے کہا۔
”یہی تو بات ہے، ایک ممولا، جس کو شاہین ہی سے نہیں، بڑے سارے شکروں، گدھوں اور چیلوں سے لڑانے کی بات کر رہا ہوں.... میں غلط نہیں ہوں، میرا اندازہ غلط نہیں ہے، اس میں یہ ساری خوبیاں موجود ہیں، صرف حوصلہ دینے اور اسے اس کی طاقت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے“۔ کاشف نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہ کیا کہہ رہے ہو تم، مجھے خود سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟“ میں نے واقعتا حیران ہوتے ہوئے کہا۔
”میں چاہتا تھا کہ وہ آجائے تو میں بات کروں، پتہ کرو، اگر وہ یہیں کہیں نزدیک ہے تو....“ کاشف نے کہا تو رخشندہ نے فوراً اپنے سیل فون سے اسے کال ملانا شروع کر دی۔ چند ہی لمحوں میں رابطہ ہو گیا۔ وہ بات کرتی رہی پھر سیل فون بند کر کے بولی۔
”وہ یہیں نزدیک ہے، رابعہ کے ساتھ ، کچھ دیر بعد آجاتا ہے“۔
”تو چلو اسے آجانے دو، میں اتنے میں چائے کا پوچھتا ہوں، وہ ابھی تک لے کر نہیں آیا“۔ میں نے اٹھتے ہوئے کہا تو ماہم فوراً بولی۔
”ہم نے ڈنر بھی ادھر ہی لینا ہے، لیکن اپنے اس شیف کو کچھ بنانے کے لیے مت کہنا۔ میں نے آرڈر کر دیا ہوا ہے۔ بس ریستوران سے لانا ہو گا“۔
”اوکے، فی الحال چائے کا تو پوچھوں“۔ میں نے کہا اور باہر کی جانب چل دیا۔
اس وقت جند وڈاچائے کے ساتھ لوازمات رکھ کے جارہا تھا، جب سبزہ زار کی بیل ہوئی۔ جند وڈا سیدھا اس طرف چلا گیا۔کچھ لمحوں بعد گیٹ کھلا اور اس میں سے اسد اور رابعہ دونوں اندر آگئے۔ وہ دونوں یوں دکھائی دے رہے تھے جیسے بہت تھک گئے ہوں۔ وہ سکون سے بیٹھاتو میں نے ان دونوں کی جانب دیکھ کر کہا۔
”اچھا ہوا تم آگئے ہو، ورنہ تجھے جا کر لے آنا پڑتا۔ یہ کاشف تمہارے بارے میں کچھ بتاناچاہ رہا تھا“۔ میرے یوں کہنے پر اسد ذرا سا چونکا اور پھر دھیرے سے مسکرا دیا۔ تب کاشف بولا۔
”اب میں بتاتا ہوں۔ کل شام یہ دونوں شاپنگ کے بعد کیمپس بس میں واپس ہاسٹل کی طرف آرہے تھے۔ یہ رابعہ کے ساتھ ہی اس کے ہاسٹل اتر گیا، تاکہ اس کا سامان گیٹ تک چھوڑ دے۔ وہیں کہیں ہاسٹل کا وہ ناطم بھی تھا، جس کے ساتھ کچھ دین پہلے معاملہ ہوا تھا۔ وہ ایک گاڑی میں تھے، تین تھے یا چار....؟“ یہ کہتے ہوئے اس نے اسد کی طرف دیکھا۔ 
”چار تھے....“ اسد نے دھیرے سے بتایا۔
”وہ اس کی طرف بڑھے، پہلے پہل تو منہ ماری ہوئی اور جب انہوں نے اس کی پٹائی کے لیے پر تولے تو اس نے ریوالور نکال لیا“۔ 
”تم اسلحہ رکھنے لگ گئے ہو؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔
”سنو....! ریوالور نکالا ہی نہیں بلکہ فائر بھی کر دیا۔مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان کے پاس بھی اسلحہ تھا، لیکن وہ بدحواس ہو گئے اور بھاگ گئے“۔
”کیا یہ سچ ہے.... مجھے نہیں بتایا؟“ میں نے حیرت اور خوشی کے ملے جلے لہجے میں پوچھا تو کاشف نے کہا۔
”یہ سچ ہے، تبھی بتا رہا ہوں نا، اب اس کی دلیری دیکھو....!“
”بے وقوفی ہے یہ ....“ رابعہ تیزی سے بولی۔
”جو بھی ہے“۔ کاشف نے نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ”یہ رابعہ کو وہیں چھوڑ کر اس کے ہاسٹل چلا گیا۔ یہ اچھا ہوا کہ وہ وہاں ہاسٹل نہیں گئے تھے، کسی اور طرف چلے گئے ہوں گے.... یہ وہاں بھی فائر کر کے واپس اپنے ہاسٹل چلا گیا“۔
”یہ اسد نے کیا....؟“ میں نے حیرت سے پوچھا۔کیونکہ مجھے یقین نہیں آرہا تھا۔ تبھی رابعہ بولی۔
”ہاں یہ اسی نے کیا، مجھے تو آج صبح پتہ چلا ہے کہ یہ ہاسٹل....“
”کہیں اسی لیے تو فرخ چوہدری صبح صبح....“ میں کہتے کہتے رک گیا۔
”ہاں، اس لیے، مجھے اس کا یقین تھا۔ وہ ایساکرے گا۔ پھر تمہارا فون آگیا تو میں نے اس کا سارا بندوبست کر لیا “۔ یہ کہہ کر وہ لمحہ بھر کو رکا اور پھر کہتا چلا گیا۔ ”بات یہ ہے ابان، اب یہ معاملہ رکنے والا نہیں۔ ہم میں سے کسی کا بھی کوئی سمجھوتہ ہو جاتا ہے تو وہ اپنی جگہ، لیکن کسی نہ کسی کے ساتھ تو یہ الجھن چلے گی نا....“
”کاشف....! مجھے سمجھانا چھوڑو، اب یہ طے کرو کہ کرنا کیا ہے“۔ میں نے بات کو سمیٹتے ہوئے کہا۔
”یہی کہ اب اسد کیمپس میں لیڈ کرے گا، یہ اپنے فیصلے میں آزاد ہے۔ جو کہے گا، وہ ہم کریں گے۔ ہاں اگر یہ مشورہ کر لیتا ہے تو ہم اسے بہترین مشورہ دیں گے“۔ کاشف نے حتمی انداز میں کہا۔
”کس نے کیا کرنا ہے، یہ بھی ہم سب مل کر طے کر لیں گے۔ اس میں اتنا گھرانے کی ضرورت بھی نہیں“۔ ماہم نے جلدی سے کہا۔
”اب یہ اسد ہی بتائے گا کہ وہ یہ کر سکتا ہے یا نہیں؟“ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”کر سکتا ہے، یہ تو کنفرم ہے“۔ عدنان نے ہلکے سے مسکراتے ہوئے کہا تو سب اسد کی طرف دیکھنے لگے۔ وہ چند لمحے خاموش رہا، پھر انتہائی سنجیدگی سے بولا۔
”میں اکیلا کیا ہوں، کچھ بھی نہیں، میں اس کیمپس میں تنہا ہوں۔ میری پشت پرنہ کوئی جاگیردار خاندان ہے، نہ کوئی سیاسی گھرانہ اور نہ ہی کوئی سرمایہ دار نہ پس منظر، میں ایک عام سے گھرکا فرد ہوں۔ میں اگر یہاں مر گیا نا تو میری لاش میرے گھر والوں تک پہنچے گی یا نہیں، میں یہ بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ مگر میں نے دیکھا، یہاں معاشرے کے اس جنگل میں وہی رہ سکتا ہے جس کے پاس طاقت ہے، کمزور یا شریف کو یہاں اس معاشرے میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ غنڈے، بدمعاش، سازشی اور منافق لوگوں ہی کی چلتی ہے، اب جینا تو ہے، کیسے جینا ہے، اس کا ڈھنگ مجھے چند دن پہلے معلوم ہوا۔ لوہے کو اگرچہ لوہا کاٹتا ہے، لیکن یہ جو بے غیرت سازشی اور منافق ہوتے ہیں، ان بزدلوں کے لیے خود کو تیار رکھنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ ان کا گند اتنا پھیلے گا کہ کمزور اور شریف انسان اس معاشرے میں نہیں رہ پائیں گے۔ میرے جیسے نہ جانے کتنے اس کیمپس میں ہیں۔ جو وقت گزارنے پر مجبور ہیں“۔
”اور تمہارے جیسوں کی وجہ ہی سے یہ لوگ یہاں کیمپس پر حکومت کر رہے ہیں جو ظلم سہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں اور ان بزدلوں کو منہ توڑ جواب نہیں دیتے“۔ کاشف نے انتہائی تلخی سے کہا۔
”کیا اب تم وہی کچھ کرو گے جو کاشف کہہ رہاہے ؟“ میں نے یقین کرنے کے لیے پوچھا۔
”ہاں....! میں وہی کرنے جارہا ہوں۔ ابان، تمہارے آنے سے پہلے تک میں نے یہاں بہت ساری ذلالت سہی ہے۔داخلے سے لے کر کلاس روم میں وقت گزارنے تک.... کیا میں یہاں پڑھنے آیا ہوں عزت، احترام اور مان کے ساتھ یا پھر ذلیل ہونے کے لیے ؟“ اس نے تلخی سے کہا پھر سانس لے کر بولا۔ ”کب تک ابان میرے ساتھ جا کر بدلہ لیتا رہے گا؟“
”اوکے....! اور کوئی ہو نہ ہو، میں تمہارے ساتھ ہوں“۔ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تور ابعہ بولی۔
”اور اسد تم مجھے کبھی خود سے دور نہیں پاﺅ گے....“
اس نے خود اس حد تک جذباتی لہجے میں کہا کہ سبھی اس کو ستائشی اور محبت بھرے انداز میں دیکھنے لگے تو ماہم نے تو جہ دلاتے ہوئے کہا۔
”یار چائے پیﺅ، ٹھنڈی ہو جائے گی“۔
سب نے چائے کا اپنا اپنا مگ اٹھایا اور پینے لگے، ساتھ میں جس کا دل چاہا وہ لوازمات میں سے اٹھاتا گیا۔ چند لمحے یونہی گزر گئے۔ تبھی رخشندہ نے کہا۔
”تو پھر یہ طے ہے کہ ہم سب اپنی اپنی جگہ کیمپس پر گرفت کے لیے کام کریں گے؟“
”کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ یہ اتنا ہی آسان ہے ، جتنا تم نے کہہ دیا ؟“ ماہم نے تیزی سے کہا۔
”نو، نیور....! ایسا نہیں، یہ بہت مشکل ہے، مگر ناممکن نہیں، دھیرے دھیرے ، قدم بہ قدم چلنا ہو گا اور وہ بھی بہت محتاط انداز میں ، سب سے پہلے تو ہمیں یہ منوانا ہے کہ ہم ہیں؟“
”کیسے.... یہ منوانا کیسے ہو گا؟“اسد نے پوچھا۔ اس کے لہجے سے مجھے یوں لگا کہ جیسے وہ اپنی ذمہ داری کو ابھی سے سمجھ گیا ہے۔
”ویری سمپل یار....! اپنے دائرہ اختیار میں، اپنے جیسے سٹوڈئٹس کی پورے دل و جان سے مدد کی جائے۔ یہ مدد چاہے، اخلاقی ہو، حوصلہ دینا ہو، روپے پیسے سے مدد کرنا ہو یا ان کے لیے کسی سے لڑنا جھگڑنا بھی پڑے۔ کیمپس انتظامیہ سے بھی الجھنا پڑ سکتا ہے، حق دار کو اس کا حق دلایا جائے“۔
”یہ راستہ طویل تو ہے لیکن بہت مو ¿ثر ہے“۔ میں نے اس کی بات سمجھتے ہوئے کہا۔
”یہی اپنانا ہے اور اپنے آپ کو منوانا ہے“۔ رخشندہ نے سنجیدگی سے کہا تو ماہم نے جلدی سے کہا۔
”ایک بات سن لیں سب، کیمپس میں موجود جتنے بھی عاشق مزاج لوگ ہیں، انہیں کچھ نہیں کہنا، انہیں ان کے حال پر چھوڑ دینا ہے“۔
اس کے یوں کہنے پر سبھی مسکرا دیئے۔
”یہ کیا کہہ رہی ہو، اتنی سنجیدہ گفتگو چل رہی تھی....“ میں نے خوشگوار لہجے میں کہا۔
”اس لیے تو میں نے کہا۔ ہم سب ایک ہیں، بس باقی جو حالات ہوں گے، ان کے بارے میں دیکھا جائے گا، اس میں اتنا سر کھپانے کی ضرورت نہیں اور رخشی تم، مجھے معلوم ہے پلان بنانے میں تمہارا کوئی جواب نہیں۔ تم نا یہ اکیلے میں پلان بنا کر دے دیا کر وہ ہم اس پر آنکھیں بند کر کے عمل کر لیا کریں گے“۔
”لو جی، بات ختم.... اب جو اسد کہے گا وہی ہو گا“۔ کاشف نے کہا اور صوفے پر پھیل کر چائے پینے لگا۔ پھر یونہی اسد کی جھڑپ کے حوالے سے باتیں چلتی رہیں۔ وہاں سے بات نکلی تو کئی موضوعات زیر بحث آتے چلے گئے۔یہاں تک کہ اندھیرا اتر آیا۔ سہ پہر میں جو ایک اجنبیت ہم میں حائل تھی، وہ ختم ہو چکی تھی۔ ماہم نے جو ڈنر کے لیے آرڈر دیا تھا، وہ لینے کے لیے عدنان اور جند وڈا چلے گئے تھے۔ رابعہ اور ماہم نے میز سجا دیاتھا۔ بہت خوشگوار ماحول میں ڈنر کیا گیا۔ ڈنر کے بعد رخشندہ ، کاشف اور عدنان پہلے اور رابعہ کے ساتھ اسد بعد میں چلے گئے۔
اب صرف ماہم اور میں ڈرائنگ روم میں رہ گئے تھے۔ کافی دیر خاموشی کے بعد وہ بولی۔
”ابان....! چلیں چھت پر چلتے ہیں کھلی ہوا میں، وہاں جا کر گپ شپ کرتے ہیں“۔
”کیا تمہارا راد ہ گھر جانے کا نہیں ہے؟“ میں نے یونہی پوچھ لیا۔
”ہے....!“ مگر ابھی نہیں میں بہت دنوں سے بہت ساری باتیں آپ سے کرنا چاہتی ہوں“۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا تو میں بھی اٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد ہم چھت پر آگئے۔ وہاں پلاسٹک کی کرسیاں پہلے ہی پڑی ہوئیں تھیں۔ ہلکی ہلکی ہوا چل رہی تھی چاروں طرف دور دور تک رنگ برنگی روشنیاں ستاروں کی مانند دکھائی دے رہی تھی۔ ایک سکون سامن میں اتر گیا جیسے میں بھی کہیں اس ماحول کا حصہ ہوں۔ ہم دونوں ریلنگ کے ساتھ جا کر کھڑے ہو گئے جہاں سے سبزہ زار کے باہر گزرتی ہوئی سڑک صاف دکھائی دے رہی تھی۔ پیلی روشنی میں گیٹ اور سڑک واضح دکھائی دے رہی تھی۔ ہم دونوں خاموش تھے۔ میں خود ہی یہ چاہ رہا تھا کہ وہ جو باتیں کرنا چاہتی ہے، وہ کرے ۔ کتنے ہی لمحے یونہی خاموشی کی نذر ہو گئے۔ تب پھر اچانک وہ بولی۔
”ابان....! مجھے یہ پوری طرح احساس ہے کہ آپ میں میرے متعلق بہت سارے سوال ہوں گے اور میں بھی آپ کے بارے میں بہت سارے سوال رکھتی ہوں۔ میں کچھ سچائیاں بتا دینا چاہتی ہوں، پھر اس کے بعد آپ جو بھی سوال کرو گے میں اس کا پوری سچائی کے ساتھ جواب دوں گی۔ میرے سوالوں کے جواب دیں یا نہ دیں، میں اس پر اصرار نہیں کروں گی“۔
”ماہم ....! مجھ سے تم یہ امید رکھ سکتی ہو کہ جو تم پوچھو گی، وہ میں بتا دوں گا، مگر ایک بات میں تمہیں بتادوں، تعلق میں خلوص صرف اس وقت آتا ہے جب درمیان میں شک نہ ہو۔ یقین ہی تعلق کو مضبوط کرتا ہے“۔ میں نے عام سے لہجے میں کہا۔
”وہی تو.... ! میں آپ کے ساتھ تعلق رکھنا چاہتی ہوں۔ وہ تعلق جو بہت نرم، اٹوٹ اور خلوص والا ہو۔ اس لیے میں کوئی شک رکھنا بھی نہیں چاہتی“۔ یہ کہہ کر وہ چند لمحے خاموش رہ کر دور اندھیروں میں گھورتی رہی۔ پھر ایک گہری سانس لے کر بولی۔ ”میں ایک امیر باپ کی اکلوتی بیٹی ہوں۔ میرے باپ نے جوکما یا وہ مجھے ہی ملنے والا ہے۔ میری یہ حیثیت ایک طرف ، لیکن .... یہ دولت مندی، یہ امارت اور ایسے اسٹیٹس نے مجھ سے بہت کچھ چھین بھی لیا ہے۔ میرا باپ دولت کماتا چلا جارہا ہے اور بے تحاشا دولت اس کے اکاﺅنٹ میں آتی چلی جارہی ہے مگرمیری ماں اب بھی دیہات کی ایک عورت ہے۔ ایسی عورت جو اَپر کلاش میں نہیں چل سکتی۔ میں نہیں سمجھتی کہ دولت کمانا بری بات ہے، یہ ہوگی تو ہم اس معاشرے میں عزت حاصل کر سکتے ہیں۔ پھر میرے پاپا نے غربت دیکھی ہے۔ خیر....! میرا بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ دولت کے ساتھ جو برائیاں در آتی ہیں وہ غلط ہیں۔ میرے پاپا اور میری اماں کے درمیان بہت فاصلہ ہے۔ اتنا فاصلہ کہ میں دو انتہاﺅں کے درمیان کھڑی یہی سوچتی رہتی ہوں کہ اگر میں ایک انتہا کی طرف چلی گئی تو دوسری انتہا میری نگاہوں سے اوجھل ہو جائے گی“۔
”تمہاری کشش کسی ایک طرف تو ہو گی نا....“ میں نے کہنا چاہا تو ایک گہری سانس لے کر بولی۔
”یہی تو الجھن ہے میری زندگی میں۔ کوئی ایک بھی میری ذات میں دلچسپی لیتا نا تو میں اسی انتہا کی کشش میں ہوتی ۔ میں ایک بے نام سہارے کی طرح اپنے گھر کی کائنات میں رہی۔ وقت ، حالات اور ماحول نے جو چاہا مجھے بنا دیا۔ میرے پاپا دولت مند ہونے کے ساتھ ساتھ مضبوط سیاست دان بن گئے اور میری اماں محدود ہوتے ہوتے ایک کمرے میں مقید ہو گئی۔ ان دونوں میں کئی کئی دن تک بات نہیں ہوتی۔ خیر....! بتانا میں یہ چاہ رہی ہوں کہ میرے گھر کا یہ ماحول ہے، میں اگر رات دیر سے بھی گھر چلی جاﺅں تو مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ لڑکپن ہی میں مجھے یہ احساس ہو گیا تھا کہ مجھے اپنا آپ خود بنانا ہے۔ اس ماحول اور معاشرے میں زندہ رہنا ہے۔ اپنی انا اور وقار کے ساتھ، اس کے لیے میں نے فائرکرنا بھی سیکھا اور اس دنیا سے کیسے نبرد آزما ہونا ہے، یہ بھی میں نے سیکھا“۔ وہ آہستہ آہستہ اپنے بارے میں بتاتی چلی جاری تھی، چند لمحے خاموش رہنے کے بعد اس نے میرے چہرے پر دیکھا اور سکون سے بولی۔ ”زندگی سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور جو بھی مشکل پیش آتی رہی میں نے اس کا مقابلہ کیا“۔
”لیکن یہ فرخ چوہدری والا....“ میں نے کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”وہی بتانے جارہی ہوں نا، فرخ چوہدری سے میری ٹھن جانا کوئی اتفاقیہ نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب کچھ پورے پلان کے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کا خاندان اس علاقے میں سیاسی گرفت رکھنا تھا اور یہ گرفت میرے پاپا نے ہی ختم کی۔ پہلے اس کا والد ایم این اے تھا، اب میرے پاپا ہیں۔ اگرچہ ان دونوں خاندانوں میں بظاہر کوئی چپقلش دکھائی نہیں دیتی۔ عوام بھی ان کی مخالفت سے بے خبر ہیں، لیکن اندر ہی اندر میرے پاپا اپنا دفاع کرتے چلے جارہے ہیں اور وہ انہیں ختم کرنے کا کوئی موقعہ ضائع نہیں کرتے۔ میں پورے یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ میرے معاملے کے بارے میں فرخ کا باپ جانتا ہو گا، لیکن فرخ خود ایم پی اے کا امید وار ہے۔ وہ جس ہتھکنڈے کے تحت میری طرف بڑھا تھا، میں اسے خوب اچھی طرح جانتی ہوں۔ میں خود ہی اس مسئلے کو حل کرلینا چاہتی ہوں“۔
”کیا خود حل کر پاﺅ گی....؟“ میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”کوشش تو کر رہی ہوں، کیمپس میں آ کر مجھے بہت حوصلہ ملا ہے کہ میں اس کا پوری طرح مقابلہ کر سکوں، پہلے میں نے یہی سوچا تھا کہ کوشش کرتی ہوں۔ بے بس ہو گئی تو پاپا کو بتادوں گی۔ اب سچ پوچھونا،آپ سے ملنے کے بعد نہ جانے مجھے کیوں یقین ہو گیا ہے کہ میں نہ صرف اس مقابلہ کرلوں گا، بلکہ اسے بے بس ہو جانے پر مجبور کر دوں گی“۔ ماہم نے میرے قریب ہوتے ہوئے یوں کہا جیسے وہ بہت پُراعتماد ہو۔ تب میں نے اس سے صاف صاف بات کرنے کا فیصلہ لمحوں میں کر لیا۔ میں نے ریلنگ چھوڑی اور سیدھا ہوتے ہوئے کہا۔
”ماہم، تم جو بھی سوچ رہی ہو، وہ اپنی جگہ ٹھیک ہو گا۔ فرخ چوہدری کے معاملے میں تمہاری مدد خود بخود ہو جائے گی۔ وہ کوئی ایشو نہیں ہے۔ کیونکہ اب میرا اور اس کا براہِ راست معاملہ بن گیا، لیکن نہ جانے کیوں ماہم، مجھے یہ کیوں لگتا ہے کہ تم اگر تعلق بناتی ہو تو اس میں فقط تمہاری غرض شامل ہوتی ہے۔ بے لوث، پُرخلوص اور وفا کی بنیادوں پر تمہاراکوئی تعلق نہیں“۔ میرے یوں کہنے پر وہ چونک گئی۔ پھر چند لمحے نگاہیں جھکائے نہ جانے کیا سوچتی رہی، پھر جو اس نے چہرہ اٹھایا تو اس پر شرمندگی کا تاثر صاف پڑھا جاسکتا تھا۔ میں اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر جیسے اس نے حوصلہ جمع کر کے کہا۔
”ابان....! آپ ایسا سوچ سکتے ہو۔ شاید یہ میری آپ کے معاملے میں جلد بازی ہے یا میری احمقانہ سوچ مجھے ہر وقت آپ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کئے رکھتی ہے۔ پتہ نہیں کیا ہے میں اس وقت آپ کو اک ذرا سی نہ دلیل دے سکتی ہوں نہ کوئی وضاحت کرنے کی پوزیشن میں ہوں اور سچ پوچھیں نا، میں کوئی دعویٰ بھی نہیں کر سکتی۔ مجھے آپ کے اس طرح سوچنے پر نہ کوئی حیرت ہے اور نہ کوئی دکھ ، آپ کو یہاں کیمپس میں آتے ہی حالات ایسے ملے ہیں کہ آپ کسی پرکوئی اعتماد نہیں کر سکتے۔ میں نے اگر آپ سے یہ کہا ہے کہ مجھے آپ سے محبت ہے تو یہ غلط نہیں ہے۔ اس سے مجھے کوئی روک بھی نہیں سکتا، اور نہ میں اس کا کوئی صلہ آپ سے چاہتی ہوں۔ ہاں بس اتنا ضرور کہوں گی کہ وقت بتائے گا اور خود ہی فیصلہ کر دے گا کہ میں آپ سے کس قدر محبت کرتی ہوں“۔
”وقت نے تو بہت سارے فیصلے کرنا ہی ہوتے ہیں، لیکن بعض اوقات کسی ایسے ہی وقت کے انتظار میں ہم بہت کچھ گنواچکے ہوتے ہیں۔ ماہم میری بات کا برا مت ماننا، میں اگر کہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے تو یہ جھوٹ ہو گا، ہاں مگر ایک اچھی دوست کے طور پر تم مجھے دل و جان سے قبول ہو۔ ایک دوست میں خوبیاں اور خامیاں تو ہوتی ہیں۔ مجھے میں ہزار خامیاں ہوں گی ، لیکن....“
”ابان....! فارم ہاﺅس پر میں بہت حد تک جذباتی ہو گئی تھی، میں نے بعد میں بہت کچھ سوچا تھا، لیکن خیر....! اگر آپ کے ذہن میں کہیں یہ ہے کہ میں فرخ چوہدری کے معاملے میں کسی مدد کے لیے آپ سے تعلق بنایا ہے تو یہ غلط ہے۔ایسا قطعاً نہیں ہے۔ آپ میرے اس طرح کے کسی معاملے میں میری کوئی مدد نہ کریں، تو مجھے آپ سے ذرا سی بھی کوئی شکایت نہیں ہو گی، لیکن اگر میں ایسے ہی کسی معاملے میں آپ کے لیے سینہ سپر ہوئی تو آپ مجھے نہیں روکیں گے“۔وہ کافی حد تک جذباتی ہو گئی تھی۔
”مجھے تمہاری محبت سے انکار نہیں، لیکن ایک بات میں کہہ دوں، اگر مجھے کبھی یہ یقین ہو گیا کہ تم مجھے استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو ہمارے راستے الگ الگ ہوں گے“۔ میں نے پھر صاف گوئی سے کہہ دیا۔
”ایسا کچھ نہیں اور نہ ہی میں یہ پوچھوں گی کہ آپ کو یہ خیال کیوں آیا۔ آپ ایسا نہ سوچو، میری محبت خود ہی سب کچھ منوا لے گی“۔ یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے ہنس دی۔
”اوکے....! اب ہم اس موضوع پر بات نہیں کریں گے۔ ویسے کیا یہ سچ ہے کہ فرخ چوہدری تم پر مرمٹا ہے؟“ میں نے ہنستے ہوئے کہا تو کھلکھلا کر ہنس دی۔
”میرے لیے اس کے وہی جذبات ہیں جو ایک دشمن کے لیے ہوتے ہیں“۔ وہ مسکراتے ہوئے بولی تو میں بھی ہنس دیا۔ ملگجے اندھیرے میں اس کا چہرہ اور خاص طورپر خوبصورت آنکھیں بہت اچھی لگ رہی تھیں۔ تنہائی میں ایک خوبصورت لڑکی اپنے ہونے کا بھر پور احساس دلا رہی ہو تو کون کافر ایسا ہے، جس کے من میں نرم و کومل جذبے نہ پھوٹیں۔ نسوانی قرب میرے اندر جذباتی کیفیات کا مدوجذر لانے لگا تھا۔
میں نے اس کے چہرے پر سے نگاہیں ہٹائیں اور یونہی ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ میں نے دیکھا، سبزہ زار کے گیٹ کے قریب ایک موٹر سائیکل آ کر رکی۔ اس پر دونو جوان سوار تھے۔ وہ دونوں تیزی سے نیچے اترے ۔ موٹر سائیکل سٹینڈ پر لگائی اور لمحوں کی سی تیزی کے ساتھ باونڈری وال کی طرف بڑھے، ایک یقینا جھکا ہو گا، کیونکہ دوسرا باو نڈری والا پرظاہر ہوا۔ اس نے کوئی چیز اندر کی طرف پھینکی اور دم سادھے رکا رہا۔ پھر دیوار پر چڑھ گیا۔ اب مزید کسی انتظار کی گنجائش نہیں تھی۔ یہ وہ موقعہ تھا جب ریوالور میرے پاس نہیں تھا۔ وہ نیچے بیڈروم میں پڑا تھا۔ میں بجلی کی سرعت سے نیچے جانے لگا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا، جب ماہم نے اپنی سائیڈ پاکٹ سے ریوالور نکال لیا اور پھر سیفٹی کیچ ہٹا کر نشانہ لے لیا۔ تبھی وہ آہستہ آواز میں مگر تیزی سے بولی۔
”میں اسے کور کرتی ہوں، آپ نیچے جاﺅ، کوشش کریں کہ ان میں سے کوئی ایک زندہ پکڑ لیں“۔
”اوکے“۔ میں نے کہا اور تیزی سے نیچے کی جانب بڑھا۔ 


No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *