Tuesday, 26 September 2017

کیمپس۔۔۔۔۔ امجد جاوید۔۔۔ قسط نمبر8

کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر8
زندگی کس قدر پائیدار ہے یا نا پائیدار، یہ بحث اپنی جگہ، لیکن موت کو انتہائی قریب سے دیکھنے کے بعد زندگی کی طرف پلٹ آنا، یہاں تک کہ موت کے لمس کو بھی محسوس کیا جا سکے، بحث اس بعد کی کیفیت سے ہے۔ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے۔ جو با حوصلہ لوگ موت سے آنکھیں چار کر لیتے ہیں، ان کے لیے خوف کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ وہ لوگ جو موت کے لمس کو محسوس کر لیتے ہیں، وہ یا تو بے خوف ہو جاتے ہیں یا پھر انتہائی بزدل، میں کس کیفیت میں تھا، یہ احساس مجھے اس وقت ہوا، جب میں ہوش میں آیا تو پہلا خیال یہی آیا کہ میں زندہ ہوں۔ ابھی موت مجھے چھو نہیں سکی ہے۔ آنکھوں کی دھند لائٹ ختم ہوئی تو مجھ پر کئی چہرے جھلے تھے۔ واضح کوئی بھی نہیں تھا۔ مجھے لگا جیسے میری بنیائی نہیں رہی۔ وہ دھندلی ہو گئی ہے جیسے آئینے پر کہر چھا جائے۔ میں نے گھبرا کر آنکھیں بند کرلیں۔ تبھی مجھے دھیرے سے آواز آئی۔
”ابان....! میں ہوں اسد، آنکھیں کھو لو پلیز“۔
میں نے کوشش کر کے دوبارہ دیکھا تو کافی حد تک واضح ہو گیا۔ اسد کا کہر آلود سا چہرہ مجھے دکھائی دیا۔
”کہاں ہوں میں؟“ میں نے پوری قوت لگا کر پوچھا مگر آواز بہت دھیمی سی نکلی۔
”تم ہسپتال میں ہو“۔ اﷲ نے بڑا کرم کیا ہے کہ تم بچ گئے ہو۔ ”اسد نے بتایا تو مجھے تنویر کا خیال آیا۔
”وہ تنویر کہاں ہے؟ “ میں نے پوچھا۔
”وہ بھی بچ گیا ہے، لیکن وہ بہت زخمی ہے، بہر حال ٹھیک ہے وہ اس کی نسبت تمہیں تو کچھ بھی نہیں ہوا“۔ وہ بولا۔
”آپ اب انہیں تنہا چھوڑ دیں اور ہمیں اپنا کام کرنے دیں پلیز“۔ ایک ڈاکٹر نے کہا تو اسدہٹ گیا۔ ڈاکٹر مختلف آلات سے مجھے دیکھنے لگا۔ تب لاشعوری طور پر میں نے ڈاکٹر سے انگریزی میں پوچھا۔
”ڈاکٹر....! مجھے میرے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتا دیں۔ میں اپنے آپ کو سنبھالنے کا بھرپور حوصلہ رکھتا ہوں“۔
”تمہاری صرف بازو کی ہڈی ٹوٹی ہے اور زخم بہت زیادہ آئے ہیں۔ ممکن ہے بعد میں کچھ اور بھی سامنے آجائے، فی الحال تم خطرے سے باہر ہو۔ ہاں مگر چند دن ہمارے مہمان ضرور رہو گے“۔ اس نے اچھے انداز میں مجھے بتایا۔
”اور میرا دوست....“ میں نے پوچھا۔
”ایک بازو اور ٹانگ دونوں فریکچر ہیں، مزید دیکھ رہے ہیں، اسے بھی بہر حال اتنا مسئلہ نہیں ہے۔ میں انجکشن دے رہا ہوں۔ اس سے آپ کو نیند آجائے گی، سکون کیجئے گا۔ بعد میں بہت ساری باتیں کریں گے“۔ ڈاکٹر نے نرم سے لہجے میں کہ اور انجکشن دے دیا۔ کچھ ہی دیر بعد میں ہوش سے بے گانہ ہو گیا۔
ہوا دراصل یہ تھا کہ جیسے ہی گاڑی بے قابو ہوئی وہ درخت سے جا ٹکرائی، اسی طرف تنویر بیٹھا ہوا تھا، اس لیے زیادہ چوٹیں اسے آئیں۔ چونکہ رفتار زیادہ نہیں تھی اور موڑ ہونے کی وجہ سے مزید کم ہو گئی تھی ، اس لیے بچت ہو گئی۔ فائرنگ کرنے والے کون تھے ، ان کا پتہ نہیں چل سکا تھا۔ اگلی صبح جب مجھے ہوش آیا تو اسد ایک طرف لیٹا ہوا تھا اور رابعہ میرے سرہانے بیٹھی کوئی میگزین دیکھ رہی تھی، میں چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اسے متوجہ کیا۔ اس نے فوراً ہی رسالہ ایک طرف پھنکا اور مجھ پر جھک گئی۔ وہ میرے چہرے پرہاتھ پھیرتے ہوئے پیار سے بولی۔
”کیسے ہوابان....؟“
”میں ٹھیک ہوں، مجھے پانی دے دو“۔ میں نے کہا تو وہ فوراً ہی میرے لیے پانی لے آئی۔ میرے ایک ہاتھ پر کہنی تک پلاسٹر تھا اور دوسرے میں سوئیاں لگی ہوئیں تھیں۔ رابعہ ہی نے مجھے پانی پلایا۔ پھر اسی نے مجھے وقت بتا کر ساری صورتِ حال سے آگاہ کیا۔
”رات گئے سب لوگ یہاں تھے۔ تمہارے جاگنے کا انتظار کرتے رہے“۔
”ماہم کے والدین کو معلوم ہو گیا“۔ میں نے فکر مندی سے پوچھا۔
”نہیں، اس نے بتایا ہی نہیں، ہم سب آپ دونوں کو سیدھا یہاں لے آئے تھے۔ فائرنگ وغیرہ کا بتاتے تو پولیس کیس بن جانا تھا۔ یہ سب ماہم نے ہی کیا ہے.... مزید اس سے پوچھ لینا“۔
”اوکے....!“ میں نے سکون کا سانس لیا۔ اگر انہیں معلوم ہو جاتا تو میرے بارے میں ضرور تحقیق ہو جانی تھی اور پھر سارا پول کھل جاتا۔ میں خاموش ہو کر لیٹ گیا۔ رابعہ نے ایک دوبار کھانے پینے کے بارے میں پوچھا مگر میرا دل نہیںچا رہا تھا۔ میں نے انکار کر دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے نیند آرہی ہے، ہلکے سے جھپکے کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔ پھر نیند نہیں آئی۔ میں یونہی پڑا رہا۔ ا س وقت سورج نہیں نکلا تھا۔ میرے سامنے کی کھڑکی میں سے آسمان پر ہلکی سی شفق کا احساس ہو رہا تھا۔ رابعہ میگزین میں کھوئی ہوئی تھی۔ تبھی دروازہ ہلکے سے بچا۔
”اس وقت کون ہے“، رابعہ نے کہا اور اٹھنے لگی، مگر اس سے کہیں پہلے اسد کسی چیتے کی مانند اچھل کرکھڑا ہو گیا اور دروازے کے قریب جا کربولا۔
”کون ہے؟“
”میں ہوں کاشف، دروازہ کھولو“۔ دوسری طرف سے کہا گیا، تب اس نے میری جانب دیکھا، میں نے آنکھ کے اشارے سے دروازہ کھولنے کے لیے کہہ دیا۔ اسد بڑھا اور اس نے دروازہ کھول دیا۔ کاشف اندر داخل ہوا اور بڑے ٹھہرے ہوئے انداز میں میرے قریب آیا اور پھرہاتھ ملائے بغیر بیٹھ گیا۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی خاموشی بڑی عجیب سی تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ کچھ کہنا چاہتا ہو، مگر کچھ کہہ نہیں پار ہا ہو یا پھر وہ بات کی شروعات کے لیے کوئی سرا تلاش کر رہا ہو۔ 
وہ چند لمحے میری طرف دیکھتا رہا، پھر لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ لا کر بولا۔
”ابان....! میں سوچ رہا ہوں کہ تمہارے زخمی ہونے پر افسو س کرو یا تمہارا بدلہ لے لینے پر خوشی کا اظہار کروں“۔ اس کا لہجہ بڑا سرد تھا، میں بُری طرح چونک گیا۔ یہی حالت رابعہ اور اسد کی بھی تھی۔
”میں سمجھ نہیں، تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟“ میں نے واقعتا نہ سمجھتے ہوتے کہا۔
”ابھی سمجھاتا ہوں....“ یہ کہہ کر اس نے اپنی جیکٹ کی جیب سے سیل فون نکالا اور پھر ایک ویڈیو کلپ نکال کر میری طرف بڑھا دیا۔ ”دیکھو اسے ....“
میں نے سیل فون پکڑا اور ویڈیو کلپ چلا دیا۔ وہ کلپ ایک منٹ اور چند سیکنڈ کا تھا۔ اس میں دونوجوان تھے، جنہیں باندھ کرفرش پر بٹھایا ہوا تھا۔ ان کے چہروں پر وحشت تھی اور وہ بری طر ح گھبرائے ہوئے تھے۔
”یہ کون ہیں؟“ میں نے سیل فون اسے واپس دیتے ہوئے کہا۔ تو وہ سرد سے لہجے میں بولا۔
”کرائے کے قاتل.... ان کا تعلق کیمپس سے نہیں ۔ بلکہ کیمپس پر قابض تنظیم سے ہے۔ یہ وہی لڑکے ہیں جنہوں نے تم پر فائرنگ کی ہے۔ میں چاہتا تو انہیں مار کر تمہارے پاس آتا، لیکن یہ ابھی تک ڈیرے پر ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک تم ان کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر دو“۔
”مطلب یہ تمہارے قبضے میں ہیں“۔ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”ہاں اور اس وقت تک رہیں گے ، جب تک تم ٹھیک ہو کر انہیں خود اپنے ہاتھوں سے گولی نہیں مارو گے“۔ وہ پھر عجیب سے انداز میں بولا تو میرے بدن میں سنسنی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ نہ جانے کیوں میرے اندر سے ایک الجھن امنڈ آئی تھی، جس کا اس وقت کوئی جواز نہیں تھا۔ مجھے تو خوشی ہونی چاہئے تھی کہ پورا دن بھی نہیں گزرا تھا کہ اس نے بندے پکڑ لیے اور اپنے قبضے میں بھی لے لیے۔
”کاشف تم ان تک کیسے پہنچے ہو؟‘ اسد نے پوچھا تو میری توجہ ان کی جانب ہو گئی۔
”حادثہ ہوتے ہی ماہم نے مجھے فون کر دیا۔ میں ان کے طریقہ واردات ہی سے سمجھ گیا کہ یہ کون لوگ ہو سکتے ہیں، بس پھر میں پہنچ گیا ان لوگوں تک....“ اس نے مسکراتے ہوئے بتایا۔
”اتنی جلدی....“ میں نے پوچھا۔
”یہ علاقہ کوئی اتنا بڑا نہیں ہے۔ سب لوگوں کو ایک دوسرے کے بارے میں معلوم ہے، کون کیا کر رہا ہے۔ بس جو چھا گیا، وہی کامیاب ہے اور ہاں....! ایک بات اور ابان شاید تمہیں یقین نہ آرہا ہو۔ یا پھر تم مجھ پر شک بھی کر سکتے ہو کہ میں نے کوئی ڈرامہ کیا ہے۔ ممکن ہے بہت سارے سوال ذہن میں آتے ہیں۔ میں کبھی نہیں کہوں گا کہ تم مجھ پر سو فیصد یقین رکھو، مگر مجھے تمہاری ضرورت ہے اور میں ہر حال میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ یہاں پر بھی میرے لوگ موجود ہیں۔ تمہاری ضرورت کیسے ہے، یہ باتیں بعد میں ہوتی رہیں گی، فی الحال تم صرف اپنے تندرست ہو جانے پر توجہ دو.... میں روزانہ آتا رہوں گا“۔ یہ کہہ کروہ اٹھا اور ہاتھ ملائے بغیر واپس چلا گیا۔ چند لمحوں تک ہم تینوں اس کی پُراسرار آمد پر اپنے اپنے طور پر خاموش رہے، پھر اسد بولا۔
”اگر کاشف نے سچ کہا ہے تو یہ بڑا خطرناک آدمی ہے“۔
”وہ خطرناک ہے یا بہت بڑا ڈرمہ باز.... چند دن میں خود ہی کھل جائے گا۔ ایسے لوگوں کے لیے فقط وقت در کار ہوتا ہے“۔ میں نے کہا اور سوچ میں پڑ گیا، اسے میری کیا ضرورت آن پڑی ہے۔ میں نے چند لمحے تو اس پر سوچا پھر سر جھٹک دیا۔ میں قبل از سوچ کر فضول وقت کیوں ضائع کروں۔
”پھر بھی ابان کہیں یہ ہمیں....“ اس نے کہنا چاہا لیکن میں نے ٹوکتے ہوئے کہا۔
”چھوڑو، کوئی اور بات کرو“۔ میں نے کہا تو رابعہ ایک دم سے بولی۔
”سنو ، میں تمہیں لطیفے سناتی ہوں۔ میں نے ابھی اس میگزین میں پڑھے ہیں“۔ یہ کہہ کروہ میگزین کے صفحے الٹنے لگی۔ میں حیران ہو گیا کہ وہ کس حد تک ماحول کو سمجھنے والی لڑکی ہے۔
اس وقت ڈاکٹرز راونڈ لگا کر جا چکے تھے جب سلیم میرے پاس پہنچا، وہ مجھ سے سخت ناراض تھا اس نے چند لمحے میری جانب دیکھا اور بولا۔
”سر جی، اگر آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں خود کو کبھی معاف نہ کرتا۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے، آپ نے مجھے اپنے بارے میں بتایا ہی نہیں۔ شام ہوتے ہی میں آپ کو کال کر رہا ہوں، ساری رات گزر گئی۔ آپ کا فون بند جارہا ہے۔ آدھی رات سے میں آپ کو تلاش کر رہا ہوں“۔ اس نے ناراضی بھرے لہجے میں خفگی سے کہا۔
”ہاں یار، مجھے یاد آیا، میرا سیل فون کہاں ہے؟“ میں نے اسد سے پوچھا تو اس نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ تب میں چونک گیا۔ وہ سیل فون کسی کے ہاتھ نہیں لگنا چاہئے۔ اس میں نمبرز سے میرے بارے میں بہت کچھ معلوم کیا جا سکتا تھا میرے پاپا کے اورانکل زریاب کے نمبر تھے۔ میں نے سلیم کی طرف دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔
”سوری یار....! میں ہوش میں ہی نہیں تھا، تقریباً دو گھنٹے ہوئے میں ہوش میں آیا ہوں۔ تب سے ....“ میں نے مزید کہنا چاہا تو سلیم نے میری بات ٹوکتے ہوئے کہا۔
”خیر....! یہ سب تو ہو جائے گا۔ اب میں ہوں، آپ کوئی فکر نہ کریں، میں سب دیکھ لوں گا“۔
”مجھے معلوم ہے، تم ایسا ہی کرو گے....“ میں نے دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا تو وہ فوراً پلٹ گیا۔ پتہ نہیں۔ اس کے دماغ میں کیا تھا۔ میں آنکھیں بند کر کے لیٹ گیا۔ مجھے اپنے سیل فون کی فکر ہو رہی تھی۔ میں ابھی اچھی طرح سوچ بھی نہیں پایا تھا کہ مجھے مختلف ٹیسٹ کے لیے لے جایا گیا۔ تقریباً دو گھنٹے بعد میں واپس آیا تو کمرے میں رابعہ کے ساتھ ماہم بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کا چہرہ بہت سوگوار سا تھا، جیسے وہ رات بھر نہ سو سکی ہو۔ مجھے دیکھتے ہی اٹھ کر میری طرف آئی۔ میں جب بیڈ پر سکون سے لیٹ گیا تو وہ بولی۔
”کیسے ہو؟“
”ٹھیک ہوں“۔ میں نے دھیرے سے مسکراتے ہوئے کہا تو وہ چند لمحے میرے طرف دیکھتی رہی، پھر بولی۔
”میں اسد اور رابعہ کو ہاسٹل چھوڑ کر آتی ہوں۔ یہ تھک گئے ہوں گے، آرام کرلیں“۔
”مگر وہ تنویر کہاں ہے، سنا ہے اس کی حالت....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ بولی۔
”دوسرے کمرے میں ہے، کچھ دیر پہلے ہی اسے انتہائی نگہداشت سے روم میں شفٹ کیا ہے۔ اس کے پاس کچھ لوگ ہیں۔ تم فکر نہ کرو، میں کچھ ہی دیر میں آ جاﺅں گی“۔
”ماہم....! تم رابعہ کو چھوڑ آﺅ۔ میں یہیں پر ہوں۔ مجھے کچھ نہیں ہوتا“۔ اسد نے سنجیدگی سے کہا تو رابعہ بولی۔
”کچھ نہیں ہوتا ، یہاں آرام ہی آرام ہے۔ تم سکون سے بیٹھو“۔
”گاڑی کی حالت کیسی ہے، کیمپس آتے ہی دوسری گاڑی ضائع ہو گئی ہے“۔ میں نے کہا تو وہ بولی۔
”ہاں ایک سائیڈ تو بری طرح خراب ہو گئی ہو گئی ہے اور ہاں....“ یہ کہہ کر اس نے اپنا پرس کھولا اور اس سے میرا سیل فون نکال کر بولی۔ ”یہ تمہارا فون میں نے سنبھال لیا تھا“۔
میں نے فون لیا۔ وہ بند تھا۔میں نے ایک طرف رکھ دیا اور ماہم سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے کاشف کے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ مجھے احساس ہوا کہ اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ ان لوگوں تک پہنچ گیا ہے۔ کافی دیر تک ہم باتیں کرتے رہے۔ اس دوران میری رپورٹس بھی آگئیں۔ اندرونی طور پر مجھے نقصان نہیں ہوا تھا۔ اس سے مجھے کافی حوصلہ ہوا۔ میں نے اسی وقت تنویر کو دیکھنے کے بارے میں کہا۔ میں اس کے پاس جانا چاہتا تھا۔ اسد مجھے سہارا دے کر اس کے روم کی طرف چل دیا۔ مجھے اتنی مشکل نہیں ہوئی۔ تب میں نے محسوس کیا کہ مجھے زیادہ دیر بیڈ پر نہیں لیٹنا نہیں چاہئے۔
تنویر کی حالت خاصی خراب تھی۔ میں اس کے پاس کچھ وقت رہا۔ وہ بے ہوش تھا۔ میں کمرے میں پڑا اس کے بارے میں سوچتا رہا۔ مجھے بہت بے چینی ہو رہی تھی اور اس کے ساتھ غصہ بڑھتا چلا جارہا تھا۔ اسی بے چینی کے باعث میرے دل میں دکھ بڑھتا گیا۔ تنویر میری وجہ سے اس حالت میں پڑا تھا۔ ماہم اسد اور ابعہ کچھ دیر کے لیے گئے تھے۔ جبکہ سلیم میرے پاس کئی بار آ کر جا چکا تھا۔ میں اکیلا پڑا ہی سوچتا رہا یہاں تک کہ میں نے فون اٹھایا اور کاشف کو فون کر دیا۔
”کہاں ہو؟“
”تم سے دس پندرہ منٹ کے فاصلے پر ، بولا، بات کیا ہے؟ اس نے سرد لہجے میں کہا۔
”مجھے آ کر لے جاﺅ“۔ میں نے کہا۔
”ابھی آیا“۔ اس نے مختصرسا جواب دیا اور فون بند کر دیا۔
l l l
وہ دونوں میرے سامنے فرش پر بیٹھے ہوئے تھے۔ میرے دائیں جانب کاشف اور پیچھے کہیں عدنان تھا۔ شہر سے ہٹ کر مضافات میں موجود ایک حویلی کے تہہ خانے میں جانے تک ہمیں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا تھا۔ مجھے تکلیف تو ہو رہی تھی لیکن میرا غصہ اور دکھ اتنا حاوی تھا کہ میں تکلیف کو محسوس نہیں کر رہا تھا۔ میں کرسی پر بیٹھا انہیں دیکھ رہا تھا اور وہ جذبات سے عاری چہرے کے ساتھ میری جانب دیکھ رہے تھے۔ میں چند لمحے ان کی طرف دیکھتا رہا پھر پوچھا۔
”کیا فیصلہ کیا ہے تم لوگوں نے.... سب کچھ یونہی بتا دو گے یا پھر ہمیں ہی کچھ کرنا پڑے گا“۔
”یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے تم پر حملہ کیا، لیکن ہم تمہیں قتل نہیں کرناچاہتے تھے، ہمارا مقصد صرف تمہیں دھمکانا تھا“۔ ان میں سے ایک نے بے خوف لہجے میں کہا۔
”اور وہ تنویر.... جو اس وقت موت وحیات کی کشمکش میں ہے۔ اگر اس کی جگہ میں ہوتا تو ، خیر....! میں نے یہ نہیں پوچھنا، تمہیں صرف یہ بتانا ہے کہ ایسا کیوں کیا؟“میں نے پُرسکون ہوتے ہوئے کہا تو وہ خاموش رہے۔ کتنے ہی لمحے یونہی بیت گئے۔ میرادل چاہ رہا تھا کہ اٹھوں اور اس وقت تک ان کی ٹھکائی کرتا رہوں جب تک وہ سارا کچھ نہ بک دیں ، لیکن گلے میں لٹکا ہوا بازو اور بدن سے اٹھتی ہوئیں ٹیسیں مجھے ایسا کرنے سے روک رہی تھیں۔ میں نے کاشف کی طرف دیکھا۔ اس کے چہرے پر بلا کی وحشت تھی۔ یوں جیسے ابھی ان پر ٹوٹنے کے لیے خود کو بمشکل روکے ہوئے ہو۔ تب اس نے سرد سے لہجے میں کہا۔
”یہ لوگ باتوں سے ماننے والے نہیں ہیں۔ تم چاہے جتنا مرضی ان سے پوچھتے رہو۔ جب انہیں یقینی موت دکھائی دے گی تب یہ سے منہ سے پھوٹیں گے....“
”تو پھر تمہیں روکا کس نے ہے، تنویر کے بدن پر جتنے زخم آئے ہیں، اتنے ہی زخم ان کے جسم پر بن جائیں تو بعد میں بات کرنا ان سے....“لفظ ابھی میرے منہ ہی میں تھے کہ عدنان تیرکی طرح آگے بڑھا اور ان دونوں میں سے ایک پر جھپٹ پڑا۔ پہلا گھونسہ ہی اس قدر زور دار تھا کہ سامنے والے کے منہ سے خون نکل آیا۔ اس نے لمحے کے ہزارویں حصے میں بھی خود کو نہیں روکا، وہ سامنے والا مزاحمت نہیں کر رہا تھا۔ ایک دو منٹ میں عدنان نے اسے یوں بے دم کر دیا جیسے اس میں جان ہی نہ ہو۔ عدنان نے اسے اٹھایا اور فرش پر پٹخ دیا۔ اس کے منہ سے کراہ نکلی اور وہ بے ہوش ہو گیا۔ عدنان نے قریب پڑا ہوا پانی کا جگ اٹھایا اور اس کے چہرے پر پانی پھینک دیا۔ وہ ہوش میں آگیا تو عدنان نے پھر سے اس کی ددھنائی کرنا شروع کر دی۔ وہ گوشت کے بے جان لوتھڑے کی طرح ایک طرف گر گیا تو عدنان نے دوسرے کی طرف دیکھا، آہستہ آہستہ اس کے قریب گیا اور ایک زور دار ٹکر اس کے ناک پر ماری، ساتھ ہی خون کا فوارہ ابل پڑا۔ اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ 
وہ چیخ اس وقت ہی منہ میں گھٹ گئی جب عدنان نے دونوں ہاتھوں کو باندھ کر اس کے سینے پر ہاتھ مارا، وہ اوغ کی آواز کے ساتھ دوہرا ہو گیا۔ وہ ہاتھ سے رکنے کا اشارہ کرنے لگا۔ مگر عدنان اسے دیکھ ہی نہیں رہا تھا، اس نے اپنی لات گھما کر اس کی گردن پر ماری، وہ الٹ کر فرش پرجا پڑا اورپھر وہیں پڑا رہا، عدنان اس کی پسلیوں پر زور دار ٹھوکریں مارتا رہا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوا۔
”اوئے دیکھو، کہیں مر تو نہیں گیا“۔ کاشف نے پوچھا تو عدنان اسے دیکھنے لگا، پھر دھیرے سے بولا۔
”زندہ ہے ابھی....“
”چل ابھی چھوڑ، پوچھ ان سے بتاتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ گولی مار کے پھینک دو انہیں“۔ کاشف بولا تو پہلے والے نے سر اٹھایا اور پیلے ہوتے ہوئے چہرے سے میری جانب دیکھا۔
”ہمیں.... فر....فرخ چوہدری.... نے بھیجا تھا.... صرف آپ لوگوں کو ڈرانا تھا....“
”کون فرخ چوہدری....“ میں نے تیزی سے پوچھا تو کاشف بولا۔
”میں جانتا ہوں....“ یہ کہہ کر اس نے اپنا سیل فون نکالا اور رابطہ ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اس نے سپیکر آن کر دیا ہوا تھا۔ جیسے ہی رابطہ ہوا تو وہ بولا“۔ فرخ چوہدری.... جن بندوں کو کسی کام کے لیے بھیجا جائے۔ پھر بعد میں ان کا پتہ بھی رکھتے ہیں“۔
”کیا بک رہے ہو“۔ دوسری طرف سے کہا گیا تو وہ تیزی سے بولا۔
”میں بک نہیں رہا، بلکہ جب میں تمہیں یہ بتاﺅں گا کہ تیرے بندے میرے پاس ہیں تو تم بھونکنا بھی شروع کردو گے“۔
”سیدھی بات کرو، کہنا کیا چاہتے ہو“۔
”میں نے کیا بات کرنی ہے، تمہارا بھیجا گیا کتا بات کرے گا....“ یہ کہہ کر وہ سیل فون پہلے والے کے پاس لے گیا اور اس کے منہ کے قریب کر دیا۔ تو وہ جلدی سے روہانے والے لہجے میں بولا“۔
”میں ہوں.... ذیشان.... میرے ساتھ ابرار بھی ہے اور انہوں نے....“
”پتہ چلا چوہدری....“
”ہاں....“
”کیوں.... کیوں بھیجا.... تمہیں معلوم نہیں تھا کہ....“
”جب دو دو باتیں ہو جائیں تو معاملہ اپنے ہاتھ میں لینا ہی پڑتا ہے.... تمہیں معلوم ہے کہ ماہم اپنی پسند ہے، جان چھڑکتا ہوں میں اس پر.... وہ اگر کل کے لونڈے میں دلچسپی لینے لگ جائے تو اسے ڈرانا بنتا ہے.... اور پھر ماہم کی بے وقوفی یہ دیکھو کہ اسے تمہارے ساتھ ملا دیا۔ شکرکرو، میں نے اسے مارنے کے لیے بندے نہیں بھیج دیئے“۔
”بڑی باتیں کرلی ہیں تم نے چوہدری.... تم جو چاہو شوق پورے کرو.... لیکن اب مجھ سے بچ جانا.... تجھے مارنا اب فرض ہو گیا ہے“۔
”صرف ایک رات ماہم کومیرے پاس بھیج دو.... اپنا سرکاٹ کر تیری طرف بھیج دوں گا“۔ یہ کہہ کر اس نے زور دار قہقہہ لگایا۔
”پہلے اپنی بہنوں کی راتوں کا بندوبست کرلو.... جنہیں کوئی نہیں پوچھتا، پھر بات کرنا مجھ سے....“
”اوئے.... میں تیری....“
”میں نے کہا ناتم بھونکو گے.... اب جتنا چاہے بھونکو.... میں نے تمہاری دم پر پاﺅں رکھ دیا ہے“۔ یہ کہہ کر کاشف نے زور دار قہقہہ لگایا تو دوسری طرف فرخ چوہدری زور زور سے غلیظ گالیاں بکنے لگا۔ وہ چند لمحے سنتا رہا، پھر بولا۔ ”اب یہ بھی بتا دو.... یہ تمہارے دو کتے میرے پاس ہیں۔ بھیج دوں میں تمہاری دونوں بہنوں کے لیے....“ اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ وہ ہذیانی انداز میں بکنے لگا۔ چند لمحوں بعد وہ خاموش ہوا تو کاشف نے کہا۔ ”میں انہیں پولیس کے حوالے کر رہا ہوں۔ وہ خود ہی تمہارا نام پوچھ لیں گے“۔
”تم اور وہ دونوں جاﺅ بھاڑ میں۔ وہ کبھی ثابت نہیں کر سکیں گے میں نے انہیں بھیجا ہے.... انہوں نے ایک لمبی رقم لے کر کام کیا ہے، اب پھنس گئے ہیں تو میں کیا کروں.... میرا کام ہو گیا ہے، اب وہ جانیں اور ان کا کام، میرا نام لیا تو میں انہیں خود پھنسا دوں گا“۔
”چل ٹھیک ہے.... دیکھتے ہیں اور ہاں سن....! اب اگر تم نے ماہم اور ابان کے درمیان آنے کی کوشش کی تو میں سارے کام چھوڑ کر پہلے تیرا کام کر دوں گا....“ کاشف نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اس نے فرش پر پڑے ان دونوں کی طرف دیکھا اور کہا ۔
”سن لیا.... ! کرائے کے ٹٹو کا یہی حال ہوتا ہے.... بولا، مرنا پسند کرو گے یا پولیس کے پاس جانا....“
”خدا کے لیے ہمیں چھوڑ دو.... آئندہ آپ لوگوں کے راستے میں نہیں آئیں گے....“ وہ منتیں کرنے لگے۔ دوسرا لیکن گرتے پڑتے میرے پاﺅں میں آن پڑا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا، پھر بولا۔
”کاشف....! تم جو بہتر سمجھتے ہو، وہی کرو.... میں اب ہسپتال جاﺅں گا“۔ یہ کہہ کر میں اٹھا اور باہر کی جانب چل دیا۔ میں کار میں جا بیٹھا تو کچھ ہی دیر بعد عدنان ڈرائیونگ سیٹ پر آگیا۔ تقریباً آدھے گھنٹے بعد ہم واپس ہسپتال پہنچ گئے۔
میں ہسپتال کے کمرے میں پڑا سوچ رہا تھا کہ یہ فرخ اور ماہم کا معاملہ کیا ہے؟ ظاہر ہے مجھے الہام تو ہوتے نہیں تھے۔ اس کی تفصیل کوئی مجھے بتاتا تو معلوم ہوتا ۔ مجھے یہ سارا معاملہ کاشف سے پوچھناچاہئے یا براہِ راست ماہم سے یا پھر اس کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہئے۔ میں کوئی فیصلہ نہیں کر پارہا تھا، میرے کیمپس میں آتے ہی ایسی ہنگامہ خیزیاں شروع ہو گئی تھیں، جن کا میرے مقصدکے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ وہ مجھے ان میں الجھا کر مقصد سے دورکر رہی تھیں۔ تاہم ان معاملات کی نوعیت کچھ ایسی تھی کہ ان کا تعلق براہِ راست ماہم سے نہیں بنتا تھا، لیکن فرخ چوہدری کا سامنے آنا اور اس کا ماہم کی ذات بارے اس قدر دلچسپی لینا میرے مقصد کے راستے میں بڑی رکاوٹ تھا۔ میں اسے نہیں جانتا تھا لیکن وہ میرے بارے میں معلومات رکھتا تھا۔ یہ بڑی خطرناک بات تھی۔ اگر وہ انکل زریاب کے بیٹے ابان کو جانتا ہے تو پھر میرے بارے میں ذراسی تحقیق مجھے ظاہر کر دیتی۔ میں چونک گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ مجھ تک پہنچیں، مجھے یہ معاملہ صاف کر دینا چاہئے تھا۔ اس کے لیے مجھے کیا کرنا ہو گا۔ یہی مجھے سوچنا تھا اور سوچ اس وقت آگے نہیں بڑھ سکتی تھی جب تک مجھے فرخ چوہدری کے بارے میں آگاہی نہ ہو تی اور ماہم کے لیے وہ کس قدر جذباتی ہے یہ معلوم کرنا بہت ضروری تھا۔
”کہاں کھوئے ہوئے ہو؟“ اسد نے میرے قریب آ کر میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی سوچوں کے حصار سے باہر آگیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔
”کہیں بھی نہیں، بس یونہی....“
”نہیں، کہیں تو تھے۔ ورنہ اس قدر کھوئے ہوئے نہ ہوتے، کوئی اہم بات ہے، تمہیں میرے آنے کے بارے میں معلوم نہیں ہوا؟“
”یار وہ خواب آور وواﺅں کے زیر اثر ہوں نا.... اس لیے اکثر جھپکی سی آجاتی ہے“۔ میں نے یونہی بہانہ تراش دیا۔
”اوکے....! یہ بتاﺅ، کچھ کھاﺅ پیﺅ گے ؟“ اس نے بات ختم کرتے ہوئے پوچھا۔
”نہیں، دل نہیں چا ہ رہا ہے“۔ میں نے بیزاری سے کہا۔
”تم یہ کہہ رہے ہو کہ تمہارا دل نہیں چا ہ رہا ہے لیکن کچھ دیر بعد تم کھاﺅ گے“۔ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔
”مطلب ....“ میں نے آنکھیں سکیڑتے ہوئے پوچھا تو اس نے قہقہہ لگایا، پھر مزاحیہ انداز میںبولا۔
”مطلب یہ کہ محترمہ ماہم بی بی کا فون آیا تھا، فرمارہی تھیں کہ تمہیں کچھ بھی کھانے نہ دوں، وہ خصوصی طور پر تمہارے لیے کچھ بنا کر لارہی ہے۔ اب کیا کچھ ہو گا، یہ میں نہیں جانتا“۔
”اچھا چلو جب آئے گی تو دیکھا جائے گا“۔ میں نے کہا اور بیڈ پر سیدھا ہو کر لیٹ گیا۔ اسد میری طرف چند لمحے دیکھتا رہا، پھر کچھ کہے بنا واپس پلٹ گیا۔میں کمرے میں تنہا رہ گیا۔ اچانک مجھے سلیم کا خیال آیا۔ وہ صبح سے دکھائی نہیں دیا تھا۔ میں نے فون نکالا اور اس کے نمبر پش کر ویئے ۔ لمحوں میں سے رابطہ ہو گیا۔
”کہاں ہو؟“
”یہیں ہسپتال میں“۔ اس نے جواب دیا۔
”سامنے نہیں آئے تم“۔ میں نے پوچھا۔
”لیکن آپ صبح سے میرے سامنے ہیں۔ جب گئے اور جب واپس آئے۔ سوجہاں آپ گئے ہیں۔ میں ساتھ تھا۔ مگر ذرا ساتھی دور تھا“۔
”اوہ....!“ میں نے خوشگوار حیرت سے کہا۔
”سر جی،میں ابھی آپ کے پاس آجاتا....لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ پارکنگ میں ماہم بی بی موجود ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ میرا اور اس کا آمنا سامنا ہو“۔
”اوکے....! تم بہتر سمجھتے ہو“۔ میں نے کہا تو وہ تیزی سے بولا۔
”سرجی، میں نے اپنے طور پر معلوم کر لیا ہے، لیکن تصدیق باقی ہے، میں کچھ دیر بعد آپ کو فون کروں گا“۔
”فرخ چوہدری ہے نام اس کا.... جانتے ہو اسے....؟“ میں نے اسے بتایا۔
”اوہ....! تو اس کا مطلب ہے، میں ٹھیک پہنچا ہوںخیر....! آپ پہلے اس تک پہنچ گئے۔ میں جانتا ہوں سر اسے، وہ یہاں کی معروف جاگیردار فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ باپ اس کا فخر الدین چوہدری اسی علاقے کا ایم این اے ہے، فرخ اسی کیمپس میں پڑھتا رہا ہے، ا س وقت جو تنظیم یہاں پر قابض ہے، اس کے سر پرستوں میں سے ایک ہے۔ اس کا زیادہ تر وقت انہی سر گرمیوں میں گزرتا ہے۔ اس کے بارے میں یہ سننے میں آیا کہ خاصا عیاش قسم کا بندہ ہے، عورت اور شراب اس کی کمزوری ہے۔ اس کے لیے بڑے سے بڑا رسک لینے سے بھی گریز نہیں کرتا ، ممکن ہے کیمپس پر قبضے میں اس کی یہی دلچسپی ہو“۔
اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ ماہم کمرے میں داخل ہوئی، اس کے ساتھ اسد تھا، تب میں نے بڑے نارمل انداز میں الوداعی باتیں کیں اور فون بند کر دیا۔
”کیا مسئلہ ہے ابان، سنا ہے تم نے صبح سے کچھ کھایا پیا نہیں؟“
اس نے یوں پوچھا تو مجھے خیال آیا کہ میں نے واقعتاً صبح سے کچھ بھی نہیں کھایا پیا تھا۔
”تمہیں کس نے بتایا....؟“ میں نے اسد کی جانب دیکھ کر مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”الہام ہوتے ہیں مجھے، جن بتا جاتے ہیں۔ تم اٹھو اور کچھ کھاپی لو....“ ماہم نے بڑے مان سے کہا اور کھانے کے برتنوں کو سیدھا کرنے لگی۔ تب میں نے اس کے چہرے پر دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”یہ فرخ چوہدری کون ہے؟“
میرے پوچھنے پر وہ ایک لمحہ کو ساکت ہو گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اگلے ہی لمحے اس نے خود پر قابو پالیا اور بڑے سکون سے بولی۔
”تم کچھ کھا پی لو، میں پھر تمہیں تفصیل سے بتاتی ہوں“۔
یہ کہہ کر اس نے کھانا نکالا اور میرے سامنے رکھنے لگی۔ میں اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ کھانا رکھ چکی تو اسد کو بھی بلا لیا۔ ہم کھانے لگے۔ تبھی اس نے کہنا شروع کیا۔
”میں ان دنوں کا لج کے آخری سال میں تھی۔ مطلب یہ تقریباً چھ ماہ پہلے کی بات ہے ہم چند لڑکیاں شاپنگ سنٹر میں کچھ خریدنے گئی تھیں۔ وہیں میرا اور فرخ کا آمنا سامنا ہوا تھا۔ اس نے مجھے دیکھ کر بونگی ماری تھی اور میں نے اسے وہیں پر کھری کھری سنا دیں۔ اسے شاید معلوم نہیں تھا کہ میں کون ہوں اور مجھے بھی علم نہیں تھا کہ وہ کون ہے۔ اس کے ساتھ چند لڑکے تھے۔ اسی وجہ سے فرخ نے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے“۔ اس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا تو میں نے پوچھا۔
”کیا تم نے اپنے والدین سے بات نہیں کی؟“
”نہیں....! مجھ میں اتنی ہمت ہے کہ میں ایسے لوگوں کا مقابلہ کرسکوں۔ اب نہ صرف اسے پتہ ہے کہ میں کون ہوں، بلکہ مجھے بھی علم ہے کہ وہ کون ہے اور کیا ہے۔ وہ مجھے شکست دینے کا ہر حربہ استعمال کررہا ہے۔ میں اب تک اپنا دفاع ہی کرتی آئی ہوں، لیکن اس واقعہ کے بعد لگتا ہے کہ اب مجھے ہی کچھ کرنا ہو گا....“ اس بار اس کے لہجے میں غصہ اور نفرت نمایاں ہو گئی تھی۔
”کہیں ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں یہ سب کچھ فرخ چوہدری کی وجہ سے تو نہیں ہو رہا۔ اس نے اپنی ساری توجہ اس طرف لگائی ہوئی ہو؟“میں نے اپنی سوچ اس کے سامنے رکھی۔
”میں اس بارے کیا کہہ سکتی ہوں ابان.... میں نے صرف اپنے دفاع کے لیے کاشف اور عدنان گروپ کے ساتھ شامل ہونا چایا ہے۔ وہ اگر کیمپس میں میرا دفاع کریں گے تو مجھے بھی ان کے کچھ کام کرنے پڑیں گے۔ویسے بھی اب معاملہ یہاں تک آن پہنچا ہے کہ مجھے خود فرخ سے نفرت ہونے لگی ہے اور میں چاہتی ہوں کہ اسے ایسا سبق دوں کہ وہ یاد رکھے....“ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
”تو بات یہاں تک آپہنچی ہے“۔ میں نے سوچتے ہوئے کہا۔
”مجھے بہت افسوس ہے ابان کہ میری اس لڑائی میں تم زخمی ہو گئے ہو۔ اس کا بدلہ میں فرخ سے ضرور لوں گی۔ میں اسے چھوڑوں گی نہیں“۔ وہ غصے میں اپنی آواز کو دباتے ہوئے بولی۔
”ماہم .... ! تمہاری لڑائی میں معاملات بہت خراب ہو رہے ہیں۔ تم یہ بات اپنے والد کو کیوں نہیں بتا دیتی ہو“۔ میں نے پوچھا۔
”واہ ابان واہ....! پھر میرا ہونا کیا ہوا۔پاپا زیادہ سے زیادہ کیا کریں گے۔ ان سے دشمنی ہو جائے گی۔ فرخ تو ماننے والا نہیں۔ مجھ پر ہی گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگ جائے گی، میں ایسا نہیں چاہتی، میںفرخ کو ایسی شکست سے دو چار کرنا چاہتی ہوں کہ وہ زندگی بھر یاد رکھے“۔ اس بار وہ اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکی تھی۔
”ٹھیک ہے ماہم جیسا تم چاہو، اب جبکہ ہم دوست ہیں، میں ہر قدم پر تمہارے ساتھ ہوں، مجھے اپنے ساتھ پاﺅ گی....“ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو ایک دم سے خوش ہو گئی۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ انتہائی سنجیدگی سے بولی۔
”ابان....! تم اپنے ذہن میں یہ بات کبھی بھی مت لانا کہ میرا تم سے یا یہاں کیمپس میں اسی وجہ سے کوئی تعلق ہے، یا میں یہی سوچ کر تم سب لوگوں کی طرف بڑھی ہوں.... ایسا قطعاً نہیں، ہر بندہ لاشعوری طور پر یہ چاہتا ہے کہ جہاں وہ رہے وہاں اس کی عزت کی جائے، اسے احترام دیا جائے۔ میں بھی ایسا ہی چاہتی ہوں اور فرخ لوگوں کے لیے میں نے الگ سے بندوبست کرنے کی کوشش کی ہے، اب یہ قسمت ہے کہ تم....“ وہ کہتے کہتے رک گئی تو پھر میں نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”نو پرابلم.... دیکھ لیں گے ہم .... میں آج یہاں سے ڈسچارج ہو جاﺅں گا، پھر چند دن گھر میں ہی رہوں گا.... پھر کیا کرنا ہے، یہ ہم طے کرلیں گے....“
”مجھے تنویر کا بہت زیادہ افسوس ہو رہا ہے.... خیر وہ بھی ٹھیک ہو جائے گا....“ ماہم نے کہا تو اسد بولا۔
”یار یہ حادثے، چوٹیں، غم، دکھ خوشیاں، انعام.... غیر متوقع انعام.... یہ سب قسمت سے ہوتے ہیں اور یہی زندگی ہے۔ ان سے گھبرانا نہیں چاہئے۔ انہیں زندگی سمجھ کر ان سے لطف لینا چاہئے۔ ہاں صرف ایک بات ذہن میں رکھنی چاہئے۔ بندہ نقصان برداشت کر لیتا ہے، لیکن یہ انسان کی سب سے بڑی بد قسمتی ہوتی ہے کہ ان لوگوں کو اپنا دوست سمجھ بیٹھتا ہے جو منافق ہوتے ہیں ساری دنیا سے بندہ جیت جاتا ہے، نقصان بھی ہوجائے، شکست کھا جائے، اس کا بھی دکھ نہیں رہتا، لیکن منافق کی منافقت بہت دکھ دیتی ہے“۔
”منافقت بھی زندگی کا ایک حصہ ہے میری جان.... تم کیا سمجھتے ہو، منافق کون ہوتا ہے ارے وہ تو پہلے ہی بے غیرتی کی انتہا پر جا کر شکست قبول کرلیتا ہے۔ یہ اس کی شکست ہوتی ہے، حسد کی انتہا ہوتی ہے، تبھی وہ منافقت کرتا ہے۔ قدرت کی طرف سے وہ پہلے ہی سزا یافتہ ہوتا ہے، اپنی شکست کے ردِعمل میں ہی تو وہ منافقت کرتا ہے“۔ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو اس نے پوچھا۔
”ہر شے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، منافقت کا نہیں۔ ان کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے....“
”صبر سے.... منافق جو چاہتا ہے، وہ نہیں ہو پاتا تو حسد کی آگ زیادہ بھڑک جاتی ہے۔ وہ ہر لمحہ تڑپتا ہے۔ منافق کو سزا دینا تو بہت آسان ہے ۔ اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ کیونکہ وہ تو پہلے ہی بے غیرتی کی انتہا پر جا کر شکست کھائے ہوئے ہوتا ہے۔ تب وہ دہری سزا میں مبتلا ہو جاتا ہے“۔ 
”میں سمجھا نہیں ، تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟“
”یہی کہ منافق دنیا کا ناکام ترین انسان ہوتا ہے اور سارے ہی منفی جذبے اس کی ذات میں پرورش پا رہے ہوتے ہیں۔ اس کا سب کچھ جھوٹ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ جو خود ہی قدرت کی طرف سے لعنت کا مستحق ہو، وہ اپنے اندر خود ہی سزا جھیل رہا ہو.... اسے کیا کہنا....“
”لیکن سب سے زیادہ نقصان تو وہی پہنچاتا ہے“۔ اسد نے باقاعدہ بحث شروع کر دی۔
”اور وہ خود بھی تو سامنے آجاتا ہے.... یہ صرف صبر لاتا ہے.... خیریہ بات میں تمہیں کسی اور وقت سمجھاﺅں گا کہ مذہب نے اس کو لعنتی قرار دیا ہے تو کیوں....“
”ہاں فی الحال کھانے پر توجہ دی جائے“۔ ماہم نے کہا اور مزید کچھ چیزیں میرے سامنے رکھ دیں۔
ماہم دوپہر تک ہمارے ساتھ رہی۔ رابعہ بھی تب تک آگئی۔ میں پوری طرح یہ فیصلہ کر چکا تھا کہ ہسپتال سے گھر شفٹ ہو جانا ہے۔ میں نے اسد سے کہہ دیا کہ وہ خود تنویر کا بہت زیادہ خیال رکھے۔ اس شام جب ڈاکٹرز کا راﺅنڈ ہوا تو مجھے ڈسچارج کر دیا گیا۔ اس وقت شہر کے چراغ جل اٹھے تھے۔ جب میں سبزہ زار میں اپنے بیڈ روم میں اپنے بیڈ پر تھا۔
l l l

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

  • olisabachman"JTG Casino & Racetrack - Jackson, MS Jobs | JT..."
  • DOCTOR MARTEN"گردہ؟ تم ہواپنے گردے کو پیسے کے عوض بیچنے کا موقع ..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."
  • DOCTOR MARTEN"کیا آپ کڈنی خریدنا چاہتے ہیں یا آپ اپنا بیچنا چاہت..."

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *