کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر10
میرا ایک زخمی بازو میری راہ میں رکاوٹ تھا، میں اس سے گتھم گتھا نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے سلیم پر غصہ آرہا تھا کہ وہ کدھر گیا۔ میں اوپری منزل پر اپنے بیڈ روم میں گیا۔ فوراً اندھیرے ہی میں اپنا ریوالور اٹھایا اور کھڑکی میں آگیا۔ جہاں سے نیچے کا منظر دکھائی دے سکتا تھا۔ میں اندھیرے میں تھا اور سامنے کا منظر روشن تھا۔ وہ نوجوان دکھائی نہیں دیا۔ بلاشبہ وہ اندر آگیا تھا۔ جندوڈا کچن میں تھا۔ اب معلوم نہیں کہاں ہو گا؟ میں محتاط انداز میں سیڑھیاں اترنے لگا جو ڈرائنگ روم میں اترتی تھیں۔ وہاں ہلکی سی روشنی تھی۔ میں ابھی سیڑھیوں کے درمیان ہی تھا کہ دو شخص ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے۔ اگلے ہی لمحے میں نے انہیں پہچان لیا۔ دیوار سے کودنے والا نوجوان سلیم کی گرفت میں تھا۔ میں تیزی سے بڑھا اور جاتے ہی نووارد کے سر پر زور سے ریوالور کا دستہ مارا۔ اس کے ہاتھ پاﺅں ڈھیلے پڑ گئے۔ پھر وہ بے ہوش گیا۔ ابھی میں نے اسے صحیح طور پر دیکھا بھی نہیں تھا کہ چھت پر سے فائر کی آواز آئی۔ تقریباً دو لمحے میں تین فائر ہوئے اور پھر سناٹا چھا گیا۔ میں بھاگ کر باہر کی جانب لپکا، دوسرا نوجوان باونڈری وال کے پاس لان میں تڑپ رہا تھا۔ پہلی ہی نگاہ میں اندازہ نہیں ہو پایا کہ اسے کہاں فائر لگا ہو گا۔جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا۔ وہ لان میں بے حس و حرکت پڑا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھا، وہ اجنبی سا نوجوان تھا، پہلے میں نے اسے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے فقط ایک جگہ فائر لگا تھا۔ باقی دو ضائع چلے گئے تھے۔ خون کافی پھیلا ہو ا تھا جو اس کی گردن بازو اور سینے پر تھا۔ پہلی نگاہ میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ گولی کہاں لگی ہے۔ میں اس کے پاس پہنچ گیا اور جیسے ہی اس کے پاس پہنچا، اوپر سے فائر ہوا اور پھر مسلسل فائر ہوتے چلے گئے ، اس سے پہلے میں کچھ سمجھتا، سڑک سے بھی فائر ہونے لگے، میں تب سمجھا کہ باہر سڑک پر کوئی دشمن ہیں، جنہیں ماہم نے دیکھ لیا ہے اور اس نے فائر کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ یہی وقت تھا جب اپنے حواس پر قابو رکھنا بہت ضروری تھا۔ میں خود فوراً گیٹ کی طرف بڑھا اور اس کی جھری میں سے باہر کا نظارہ دیکھنے کی کوشش کی، باہر ایک موٹرسائیکل اور ایک جیپ تھی، جس کے اردگرد چند لڑکے تھے اور ان کے پاس اسلحہ تھا۔ میں فوراً ہی پیچھا ہٹا اور ڈرائنگ روم میں آگیا۔ سلیم وہاں نہیں تھا اور نوارد بے ہوش پڑا ہوا تھا۔ میں بجلی کی سی سرعت کے ساتھ اپنے کمرے کی جانب بڑھا، وہاں کھڑکی سے باہر کا منظر بہت واضح نظر آسکتا تھا، میں نے دراز میں سے فاضل راﺅنڈ نکالے اور باہر دیکھا۔ میرے سامنے سڑک پر جیپ اور موٹر سائیکل ہی تھا، کوئی ذی روح دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے جیپ کے ٹائر میں فائر مراتو وہ دھماکے سے پھٹ گیا، جس کے ساتھ ہی دونوجوان لڑکے باہر کی طرف نکلے۔ میں نے یکے بعد دیگرے دو فائر کر دیئے۔ اس کے ساتھ ہی چیخیں بلند ہونا شروع ہو گئیں۔ ماہم کے پاس شاید گولیاں ختم ہو گئیں تھیں یا شاید اسے فائر لگ گیا تھا۔ یہ سوچتے ہی میں بری طرح چونک گیا۔ میں نے لمحے کے ہزارویں حصے میں فیصلہ کر لیا کہ مجھے ماہم کے پاس جانا چاہئے۔
میری توقع کے مطابق سلیم ڈرائنگ روم میں تھا۔ میں نے جاتے ہی یہ باتیں اس سے کہہ دیں جو میں سوچ رہا تھا۔ وہ بڑے غور سے میری باتیں سنتا رہا اور پھر بولا۔
”سر جی، آپ کو پریشان ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں۔ میں بس آپ کے دوستوں کے جانے کا انتظار کر رہا تھا۔ سکیورٹی کے کئی لوگ میری فون کال کا منتظر ہیں۔ آپ اپنے کمرے میں جا کر آرام کریں۔ وہ لوگ ابھی آجائیں گے اور صبح چلے جائیں گے“۔
”اوکے ....!“ میں نے مطمئن ہوتے ہوئے کہا اور اوپری منزل پر موجود ماہم کی طرف بڑھ گیا جو پوری طرح چوکس وہاں موجود تھی۔
اگلے دن کی صبح بڑی الجھی ہوئی تھی۔ میں رات گئے تک بہت کچھ سوچتا رہا تھا۔ میرے سوچنے کے دو پہلو تھے۔ ایک اسد، جسے شاید قربانی کا بکرا بنا کر کیمپس میں لیڈر کے طور پر کھڑا کیا جارہا تھا۔ دوسرا پہلو ماہم تھی، جو پل پل رنگ بدل کر میرے سامنے آرہی تھی۔ میں اس کے کس رنگ پر بھروسہ کروں؟ میں ابھی تک اس الجھن میں تھا۔ ایک طرف کیمپس کا ماحول میری سوچوں سے بالکل مختلف ہوتا چلا جارہاتھا تو دوسری طرف ماہم کی شخصیت نئے نئے رنگوں سے میرے سامنے کھل رہی تھی۔ رات دیر تک میں کوئی فیصلہ نہیں کرپایا تھا کہ مجھے کیا کرنا چاہئے۔ الجھی ہوئی شک زدہ سوچیں مجھے کسی بھی فیصلے پر ٹھہرنے نہیں دے رہی تھیں۔ تاہم ایک بات جو میر ی سمجھ میں آئی تھی، وہ یہ تھی کہ مجھے حددرجہ محتاط رہنے کے ساتھ ساتھ، ماحول کے مطابق فوری فیصلہ کرنا ہو گا۔ یہ عین ممکن ہے کہ میرے سارے فیصلے درست نہیں ہو سکتے، ان میں بہت ساری غلطیاں بھی ہوں گی۔ میری ہی کوشش ہونی چاہئے کہ جس قدر ممکن ہو سکے، غلطی نہ ہو پائے ورنہ یہ ممکن ہے کہ میں اپنے مقصد سے بہت دور جاپڑوں۔ میں ناشتہ کر کے اخبار پڑھ چکا تھا، جو مجھے بالکل پھیکی محسوس ہوئی تھی۔ میں نے خود پر غور کیا۔ یہ شک زدہ الجھی ہوئی سوچیں، مایوسی میں لپٹے ہوئے خیال بے چینی کا احساس مجھ پر طاری کیوں ہے؟ کہیں میں قنوطی تو نہیں ہو گیا ہوں ذرا سی دیر میں مجھ پر یہ انکشاف ہو گیا کہ میرا زخمی ہی میں میرے ان سارے احساسات اور خیالات کی وجہ ہے میں بے کاروں سی زندگی گزارتے ہوئے اپنے گھر تک محدود ہو کر رہ گیا تھا۔ جب تک میں اس جمود بھری زندگی سے نہ نکلا میری حالت مزید خستہ ہوتی چلی جائے گی۔ یہ خیال آتے ہی چونک گیا۔ میں نے سیل فون اٹھایا اور ماہم کے نمبر پش کردیئے۔ چند لمحوں بعد ہی اس سے رابطہ ہو گیا۔
”بولو پارٹنر! کیسے یاد کیا؟“ اس نے چہکتے ہوئے پوچھا۔
”تمہارا آج کا پروگرام کیا ہے“۔ میں نے جواب دینے کی بجائے اس سے پوچھ لیا۔
”کوئی ایسا خاص نہیں، بس کیمپس کا ایک چکر لگاناہے۔ باقی جو آ پ کہو، وہی کر لیتے ہیں“۔ اس نے خوشگوار لہجے میں بتایا تو میں نے کہا۔
”پھر ایسے کرو آجاﺅ، ہسپتا ل چلتے ہیں۔ تنویر سے بھی مل آتے ہیں اور میں بھی اپنا زخم دکھالوں ڈاکٹر.... کو یقین جانو بڑی بوریت ہو رہی ہے“۔
”آپ تیار ہو جاﺅ، میں آرہی ہوں“۔ اس نے تیزی سے کہا اور فون بند کر دیا۔ میں چند لمحے فون کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر اٹھ گیا۔
میں تیار ہو کرڈرائنگ روم میں آیا تو ماہم وہاں موجود تھی اور جندوڈاچائے رکھ رہا تھا۔ وہ پہلی نگاہ میں بہت خوب لگ رہی تھی۔ سیاہ شلوارہ قمیص سوٹ پہنا ہوا تھا۔ جس پر آف وائٹ کام تھا۔ بالوں کو اس طرح سنوارا ہوا تھا کہ شفاف گردن بڑی خوبصورت لگ رہی تھی۔ ہلکے ہلکے میک اپ کے ساتھ وہ خاصی پُرکشش دکھائی دے رہی تھی۔ جندوڈا چائے سرو کر کے واپس چلا گیا تو میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔
”ایسے کیا دیکھ رہے آپ ؟“ وہ میری نگاہیں بھانپ کر بولی تو میں مسکرا دیا۔ تب میں نے بھی کافی حد تک شوخ ہوتے ہوئے کہا۔
”آج میں قائل ہو گیا کہ حسن اپنی کشش رکھتا ہے۔ وہ پُرکشش حسن ، جس میں خوبصورت احساس بھی گھلے ہوں، اس کے لیے لوگ اپنا آپ کیوں قربان کر دیتے ہیں، یہ بھی مجھے سمجھ آرہا ہے“۔
”لگتا ہے آج بڑے رومانٹک ہو رہے ہو“۔ وہ دھیرے سے مسکراتے ہوئے بولی۔
”بندہ رومانوی بھی تو اس وقت ہوتا ہے۔ جب رمانوی ہونے کی کوئی وجہ اس کے سامنے ہو، کیا تمہیں احساس نہیں کہ تم سراپا حسن ہو اور تمہارے قرب سے کوئی بھی رومانوی ہو سکتا ہے“۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے ٹھہرے ٹھہرے انداز میں کہا۔
”اب مجھے بھی کچھ سمجھ میں آرہی ہے، بوریت انسان کو رومانوی کر دیتی ہے“۔ یہ کہہ کر وہ کھلکھلا کر ہنس دی میں بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکا۔
”ہاں کسی حد تک.... تم ٹھیک ہو، کیونکہ ایسے وقت میں خوبصورت ترین شے کے بارے میں سوچا جاتا ہے نا“۔ میرے یوں کہنے پر وہ ذرا سی شرمائی لیکن اگلے ہی لمحے میں بولی۔
”اور عام دنوں میں وہ خوبصورت ترین شے کیا ہو جاتی ہے؟“ اس کے لہجے میں طنز کی ہلکی سی کاٹ تھی۔ جسے نظر انداز کرتے ہوتے میں نے اس کی طرف دیکھا اور پھر ہنستے ہوئے بولا۔
”ہائے یہی تو المیہ ہے، اس ماحول کا، اس معاشرے کا، یہ پریشانیوں کا بوجھ ہی انسان پر اتنا لاد دیتا ہے کہ حسن کی طرف دیکھنے کی نہ فرصت ہوتی ہے اور سکت.... کاش، ہم زندگی کا لطف لینے کے لیے بے جا کدورتوں ، حسد اور منافقت سے بچ سکتے، لیکن کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ....“۔
”میرے سوال کا جواب دینا نہیں چاہتے یا آپ کے پاس جواب ہے ہی نہیں“۔ وہ ایک دم سے سنجیدہ ہو گئی۔
”نہیں ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے، بہت کچھ دل میں چھپائے ہوئے ہوں۔ مگر ہر بات اپنے وقت پر کہنا چاہتا ہوں“۔ میں نے کہا اور چائے کا ایک گہرا سپ لے لیا۔
”کہیں یہ نہ ہو کہ وقت ہی نکل جائے او ر بات نہ کہہ سکو“۔ وہ اسی سنجیدگی سے بولی تو میں سنبھل گیا۔ وہ بات کو کسی دوسرے ٹریک پر لے جارہی تھی۔ اس لیے میں چند لمحے خاموش رہا، پھر اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے بولا۔
”رخشندہ لوگوں کا دوبارہ فون نہیں آیا۔ کوئی رابطہ کوئی نئی بات....؟“
تبھی وہ گہری سانس لے کر بولی۔
”نہیں....! بالکل سکون ہے ، فرخ کی طرف سے بھی ابھی تک کوئی بات سامنے نہیں آئی اور ایسا سکون خوف زدہ کر دینے والا ہوتا ہے“۔ اس نے گہری سنجیدگی سے کہا تو وہ مجھے ایک مختلف سی ماہم لگی۔ میں خاموش رہا تو یہ خاموشی چائے کا آخری سپ لینے تک رہی۔ میں نے جندوڈا کو بلایا کر جانے کا کہا اور باہر آگیا۔ میرے پیچھے ہی ماہم آگئی۔ اس نے گاڑی باہر ہی کھڑی کی ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد ہم ہسپتال کے لیے چل دیئے۔
تنویر گوپانگ تیزی سے بہتر ہو رہا تھا۔ میں اور ماہم جب اس کے پاس پہنچے تو فریش لگ رہا تھا۔ شاید کچھ دیر پہلے ہی اس نے منہ ہاتھ دھویا تھا کیونکہ اس کی مونچھیں بہت چمکیلی لگ رہی تھیں۔ ہمیں دیکھتے ہی اس کے چہرے پر رونق آگئی۔علیک سلیک کے بعد جب ہم اس کے پاس بیٹھ گئے تو اس کے پاس خدمت گار تھا، وہ فوری سوڈے کی بوتلیں کھول کرلے آیا۔ اس نے بوتلیں رکھیں اور فوراً ہی باہر چلا گیا۔ یقینا وہ ہماری باتوںمیں مخل نہیں ہونا چاہتا تھا۔
”سناﺅ کوئی نئی تازہ....! دل لگا ہوا ہے تمہارا یہاں پر....؟“ میں نے تنویر کے چہرے پر دیکھتے ہوئے ہلکی سی آنکھ دبا کرکہا۔ وہ میرا اشارہ سمجھ گیا ۔ اس لیے ہلکی سی خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
”دل تو لگانا ہی ہے نا یہاں۔ بس چند دن مزید لگیں گے پھر میں گھر چلا جاﺅں گا۔ تمہارا زخم تو ٹھیک ہو گیا ہے نا....“
”ہاں ابھی ڈاکٹر کو دکھایا ہے، زخم بالکل ٹھیک ہے، بس یہی آخری پٹی ہے۔ دو چار دن ڈرائیونگ وغیرہ سے بچنے کا کہا ہے، باقی سب ٹھیک ہے“۔ میں نے اسے تفصیل سے بتا دیا تو وہ دلچسپی سے بولا۔
”سناﺅ کیمپس کا کیا حال ہے؟سنا ہے کوئی نئی گیم شروع ہو گئی ہے“۔
اس سے پہلے کہ میں اسے جواب دیتا، ماہم نے ٹھہرے ہوئے لہجے میں سکون سے کہا۔ ”تم چھوڑو گیم شیم کو، آرام سے گھر جاﺅ، اور جلدی سے ٹھیک ہو کر واپس آﺅ۔ بڑے کام ہیں کرنے کے لیے اپنے ذہن پر بوجھ مت ڈالو“۔
”لیکن میں تمہارے ساتھ اختلاف کروں گا ماہم“۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
”وہ کیسے؟“ اس نے استفہامیہ لہجے میں کہا۔
”اس کا بیڈ پر ہونے سے یہ مطلب نہیں ہے کہ بے کار ہو گیا۔ یہ جسمانی طور پر اگر ٹھیک نہیں ہے، تو ذہنی طور پر یہاں پڑے پڑے ہم سے بہتر سوچ سکتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں اسے گھر نہیں جانا چاہئے۔ یہ ہمارے پاس ہی رہے ادھر مکمل آرام کرے، گھر نہ جائے، اس کی وجہ سے ہم سب بہتر مشورہ کر سکتے ہیں“۔ میں نے اسے تفصیل سے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”ہاں....! یہ تو ہے، میں اس کی صحت کی وجہ سے کہہ رہی تھی“۔ اس نے صاف گوئی سے اعتراف کرلیا تو میں نے تنویر کی طرف دیکھ کر کہا۔
”تو بس ٹھیک ہے، ڈاکٹر جب بھی ڈسچارج کریں، تم میرے پاس آجاﺅ، وہاں بھی گھر کا ماحول ہے“۔
”جیسے حکم میرے آقا....“ تنویر نے سینے پر ہاتھ رکھ کر باقاعدہ جھکتے ہوئے کہا تو میں نے اسے رخشندہ لوگوں اور اسد کے بارے میں بتایا، وہ خاموشی سے سنتا رہا، گاہے بگاہے درمیان میں اپنا تبصرہ بھی کرتا رہا۔انہی باتوں میں تقریباً دو گھنٹے گزر گئے۔ تب میں نے اٹھتے ہوئے کہا۔
”اچھا چل، اب تُو آرام کر ہم چلتے ہیں“۔
”یار جتنے دن میں ادھر ہوں، ایک چکر لگا جایا کر....؟“ تنویر نے میرے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں کوشش کروں گا۔ تو یہاں کتنے دن رہنا ہے، دو چار دن مزید، پھر میرے پاس ہی ہونا ہے۔ تیرے ارد گرد میلہ لگادوں گا“۔ میں نے اس کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا تووہ کافی حد تک مطمئن ہو گیا اور ہم وہاں سے چلے آئے۔
”آپ نے تنویر کے معاملے میں بروقت فیصلہ کر کے اچھا کیا۔“ پارکنگ سے نکلتے ہوئے ماہم نے کہا۔
”یار اتنے دن ساتھ رہ کر مجھے اس کی جوڑ توڑ کی صلاحیت کا اندازہ ہے۔ بنیادی طور پر وہ سیاست دان بننے کے چکر میں ہے نا، اس لیے وہ بڑا کار آمد بندہ ہے۔ وہ بستر پر بھی پڑا کام دے گا“۔ میں نے اپنی رائے دی۔
”آپ کو مشکل تو نہ ہو گی؟“ ماہم نے پوچھا۔
”نہیں، میں نے کون سا کھانا بنا کر دینا ہے“۔ میں نے عام سے لہجے میں کہا۔ اس وقت تک ماہم نے گاڑی مین روڈ پر ڈال دی تھی۔
”اب کیا پروگرام ہے؟“ اس نے پوچھا تو میں نے کاندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”میرا تو کوئی نہیں، تم اگر چاہو تو....“
”آپ کے یا میرے چاہنے سے نہیں، اب تو ہمارے لیے کوئی اور ہی پروگرام بنا چکا ہے“۔ اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ میں چونک گیا۔
”کیا مطلب ، کیا کہنا چاہ رہی ہو تم“۔ میں نے تیزی سے پوچھا تو وہ بیک ویو مرر میں جھانک کر بولی۔
”کوئی مسلسل ہمارا تعاقب کر رہا ہے، بلکہ میں کہوں گی، میرا، میں جیسے ہی گھر سے نکلی ہوں، وہ سفید ہنڈا میرے پیچھے ہے“۔
اس کے کہنے پر میں نے غیر محسوس انداز میں پیچھے دیکھا۔ کچھ فاصلے پر وہی گاڑی آرہی تھی۔
”کون ہو سکتا ہے؟“ میں نے سرسراتے ہوئے پوچھا۔
”ابھی تک تو مجھے نہیں معلوم، خیر پتہ کرتے ہیں“۔ اس نے بڑبڑانے والے انداز میں کہا اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ اس کی تمام تر توجہ گاڑی چلانے پر تھی۔ میرا ذہن پوری طرح بیدار ہو چکا تھا۔ میں اپنے طور پر سوچ رہا تھا کہ تعاقب کرنے والے کو کس طرح ٹریپ کرنا ہے۔ میرے ذہن میں یہ قطعاً نہیں تھا کہ ماہم نے کیا سوچ لیا ہے، میں اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا۔ میں دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ کیا کرتی ہے۔ میں بیک مرر میں دیکھ لیا تھا کہ وہ گاڑی مسلسل ہمارے تعاقب میں ہے۔ گاڑی مین روڈ پر بھاگتی رہی اور اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہم کیمپس جارہے، جب مین گیٹ آگیا۔ ماہم نے گاڑی مختلف راہوں پر ڈالی اور پھر پارکنگ کے پاس جا کر رک گئی، وہ گاڑی بھی ذرا سے فاصلے پر رک گئی۔ ماہم نے سیل فون نکالا اور نہ جانے کس کے نمبر پش کرنے کے بعد بولی۔
”ایک گاڑی چیک کرنی ہے ، فوراً پہنچو“۔ یہ کہتے ہی اس نے گاڑی کا رنگ ،میک اور نمبر بتا دیئے پھر اطمینان سے پرس وغیرہ اٹھا کر بولی۔ ”آئیں چلیں“۔
میں نے اس سے کوئی سوال نہیں کیا، بلکہ دوسری طرف سے اتر کر بڑے اطمینان سے اس کے ساتھ اپنے ڈیپارٹمنٹ کی جانب بڑھ گیا۔
سامنے ہی سے ہمارے چند کلاس فیلوز آرہے تھے۔ جن کی شکلوں سے تو میں واقف تھا لیکن ان کے نام نہیں جانتا تھا۔ ماہم ان کے پاس رک گئی اور جان بوجھ کر لمبی گفتگو میں پڑ گئی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ وہاں کچھ دیر ٹھہرنا چاہتی ہے تاکہ وہ لوگ گاڑی تک آجائیں، جنہیں اس نے بلوایا ہے ۔ تقریباً دس منٹ تک یونہی گپ شپ ہوتی رہی۔ تبھی چند لڑکے اس گاڑی کے قریب غیر محسوس انداز میں پہنچ گئے۔ میں کن انکھیوں سے انہیں دیکھ رہا تھا۔ اچانک ایک لڑکے نے ڈرائیورنگ سیٹ والا دروازہ کھولا اور ڈرائیور کو باہر نکال لیا۔ اسی طرح سے دوسری طرف سے ایک نوجوان کو باہر نکال لیا گیا۔ دونوں نوجوان تھے اور طالب علم ہی معلوم ہو رہے تھے۔ چند لمحوں میں انہوں نے ان دونوں کی تلاشی لے لی تو ماہم تیرکی طرح ان کی جانب بڑھی۔ میں بھی ان کے پاس جا پہنچا۔ ماہم نے انہیں سر سے پاﺅں تک دیکھا اور انتہائی غصے سے بولی۔
”کون ہو تم لوگ اور میرا تعاقب کیوں کر رہے تھے۔ آسانی سے بتا دو گے تو کچھ نہیں کہوں گی، ورنہ تم لوگوں کے ساتھ کیا ہو سکتا ہے، یہ تم نہیں جانتے ہو؟“
”ہمیں فرخ چوہدری نے بھیجا ہے“ پسنجر سیٹ کی طرف سے نکالے گئے نوجوان نے کہا۔
”تم جانتے ہو کہ تم نے کیا کیا ہے اور ....“ وہ غصے میں کہنا چاہتی تھی کہ ا س کا فون بج اٹھا۔ اس نے اسکرین پر نمبر دیکھا اور کال ریسیوکرلی۔ ”بولو فرخ....“ یہ کہتے ہوئے وہ چند لمحے اس کی بات سنتی رہی، اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ پھر کچھ کہے بنا اس نے فون بند کر دیا۔ پھر غضب ناک لہجے میں بولی۔ ”لے جاﺅ ان دونوں کو.... یہاں نہیں باہر....“ اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ میرا سیل فون بج اٹھا۔ میری چھٹی حس نے مجھے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ یہ فرخ چوہدری ہی کا فون ہو گا اور وہ مجھ سے جو بات کرنے والا ہے، وہ بہت غضب ناک ہو گی۔ میں نے کال ریسیوکرلی۔
”فرخ بات کر رہا ہوں....“
”تو کرو....“ میں نے ٹھہرے ہوئے انداز میں کہا۔
”ان بچوں کا کوئی قصور نہیں ہے، انہیں جانے دو.... انہیں میں نے تم لوگوں کی نگرانی کے لیے بھیجا تھا، یہ نہیں جانتے کہ تم کون لوگ ہو اور ....“
”مجھے اس بات پر حیرت ہے کہ تیرا جیسا احمق بندہ مجھ سے ایسی بات کر رہا ہے جو بچہ بھی نہیں کرتا۔ ان بچوں کو کم از کم یہ تو احساس ہونا چاہئے کہ تم جیسے گھٹیا بندے کے لیے کام کر کے انہوں نے کس قدر اذیت سہی تھی“۔ میں نے اپنے مخصوص لہجے میں پُرسکون رہتے ہوئے کہا۔
”بے وقوف بندے، تم لوگوں کی دشمنی مجھ سے ہے، میرے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ملاﺅ“۔ اس نے غصے میں کہا۔
”لیکن تُو ہے کہ سامنے ہی نہیں آرہا ہے، فون پر دھمکیاں وہی دیتا ہے جو دنیا کا ڈرپوک بندہ ہوتا ہے، ہاتھ ملانے کے لیے سامنے آنا پڑتا ہے“۔ میںنے طنزیہ انداز میں کہا۔
”مجھے افسوس ہے کہ میں تمہیں دوبارہ بے وقوف آدمی کہہ رہا ہوں۔ سنو احمق....! میں تمہارے سامنے ہوں۔ بلکہ اس وقت تم میرے سامنے ہو اور میرے ریوالور سے نکلی ہوئی گولی تمہیں لمحوں میں چاٹ سکتی ہے“۔ اس نے طنزیہ انداز میں غراتے ہوئے کہا۔
”روگا کس نے ہے، چلاتے کیوں نہیں ہو گولی“۔ میں تیزی سے بولا اور کن انکھیوں سے اردگرد کا جائزہ لے لیا۔ مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا۔
”بہت شوق ہے لوہا سینے میں اتارنے کا....“ اس نے مصنوعی سرد لہجے میں کہا جیسے اداکار بات کرتے ہیں۔
”عورتوں کی طرح چھپ کر رہو گے یا سامنے بھی آﺅ گے“۔ میںنے ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔
”میں تمہیں خود ٹریپ کر کے یہاں کیمپس میں لایا ہوں ابان.... چند منٹ بعد میں تمہارے سامنے ہی نہیں ہوں گا، بلکہ آج اس ماہم کو بھی اپنے ساتھ لے جاﺅں گا“۔ اس نے تیزی سے کہا اور فون بند کر دیا۔
ماہم کے بلائے ہوئے لڑکے ان دونوں کو لے جا چکے تھے۔ میں نے انتہائی اختصار سے ماہم کو فرخ سے ہونے والی بات بتائی تو اس نے چونک کر کہا۔
”ممکن ہے ، وہ یہیں کہیں ہو، آﺅ، ڈیپارٹمنٹ چلتے ہیں“۔
”تم جاﺅ، میں یہیں کھڑا ہوں۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کتنے بندوں کے ساتھ مجھ پر حملہ آور ہوگا“۔ میں نے ماہم کی بات نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ اس وقت مجھے غصے کے علاوہ چڑ سی ہو گئی تھی۔ اگرچہ میں جانتا تھا کہ یہ محض ذہنی اذیت ہے تاہم میں خود کو بھی مطمئن کرنا چاہتا تھا۔
”یہاں کھڑے رہنا کوئی عقل مندی نہیں ہے۔ ہم پھر آتے ہیں یہاں پر، بس چند لمحے یہاں سے ہٹ جائیں“۔ ماہم نے التجائیہ انداز میں کہا تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اگر وہ سچ مچ یہاں ہے اور ہمیں دیکھ رہا ہے تو یہاں سے ہٹ جانا، اسے بہت بڑا حوصلہ دے دے گا، تم نے جو کرنا ہے کرو ، میں یہیں کھڑا ہوں“۔ میں نے مضبوط لہجے میں کہا تو ماہم نے بھرپور نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور پھر فون پر نمبر پش کر دیئے میں اطمینان سے چلتا ہوا ایک سنگی بینچ پر بیٹھ گیا۔ میری پشت پر ڈیپارٹمنٹ کی عمارت تھی ، دائیں اور بائیں طرف روڈ تھا اور سامنے پارکنگ تھی۔ اگر وہ یہاں تھا تو پارکنگ ہی کے کہیں آس پاس ہو گا یا پھر کافی فاصلے پر موجود کینٹین تھی، وہاں اس کا ہوناممکن ہو سکتا تھا۔ اگر اس نے گولی چلانا ہوتی تو اب تک چلا چکا ہوتا۔ اچانک وہیں بیٹھے بیٹھے مجھے خیال آیا تو میں نے ماہم سے کہا جو فون بند کر چکی تھی۔
”وہ لڑکے ان نوجوانوں کو لے کر باہر گئے ہیں۔ وہ ضرور اپنے ....“ میں نے کہا چاہا تو وہ میری بات کاٹ کر بولی۔
”وہ انہیں اپنے ہاسٹل ہی لے کر گئے ہیں۔ وہیں سے وہ عدنان سے بات کریں گے جو انہیں رکھنے کو جگہ دے گا، میری عدنان سے بات ہو گئی ہے، وہ اپنے لوگوں کو لے کر ابھی آتا ہو گا“۔
”ٹھیک ہے، لیکن اسد کو تو نے بتایا....“ میں نے اس سے پوچھا۔
”نہیں ، مگر اب بتا دیتی ہوں....“ اس نے کہا اور سیل فون پر نمبر ملانے لگی۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ خاصی مضطرب دکھائی دے رہی تھی جبکہ میں مطمئن ہو گیا تھا۔ مجھے یہ اطمینان اس لیے تھا کہ اگر وہ سامنے ہے تو پھر اپنے لڑکوں کو بچانے کیوں نہیں آیا؟ ایک لمحے کو مان بھی لیا جائے کہ وہ یہیں کہیں ہے تو پھر وہ اس قابل نہیں کہ ہمارے سامنے آسکے یا دور کہیں سے گولی چلا کر ہمیں دہشت زدہ کر دے۔کسی طرح بھی اپنے ہونے کا احساس دے ؟ مجھے صرف ایک شک تھا۔ وہ ہماری طرف آنے کی بجائے، اپنے لڑکوں کو چھڑوانے کے لیے نہ چلا گیا ہو؟ یہ خیال آتے ہی میں نے کہا۔
”ماہم ان لڑکوں سے رابطہ کرو، اور انہیں محتاط رہنے کا کہو“۔
”میں نے انہیں یہ بات سمجھا دی ہے۔ وہ ہاسٹل پہنچتے ہی مجھے فون کر یں گے“۔ اس نے تیزی سے کہا اور اردگرد دیکھنے لگی۔ تبھی مجھے ایک اور خیال آیا میں نے اپنا سیل فون سیدھاکر کے سلیم کے نمبر ملائے۔ لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔
”جی سائیں....! حکم“۔
”فرخ چوہدری اس وقت کہاں ہے، اس کا پتہ چل سکتا ہے؟“
”خیریت....؟“ اس نے تیزی سے پوچھا۔
”پہلے مجھے بتاﺅ، پھر میں تمہیں تفصیل بتادوں گا، فوراً “۔ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔ ماہم نے میری طرف دیکھا ضرورلیکن پوچھا نہیں کہ میں نے کس سے بات کی تھی۔ انہی لمحات میں اسد ڈیپارنمنٹ کی طرف سے سیدھا میری طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔ تب میں نے مسکراتے ہوئے ماہم سے کہا۔ ”لو....! آگیا تمہارا لیڈر، اب اسے سب کچھ تمہی بتانا؟ میرے یوں کہنے پر وہ ہلکے سے مسکرا دی۔ ماحول کا جو تناﺅ اعصاب پر تھا، وہ ایک دم ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ اس نے اسد کو بتایا اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ، اس کا فون بج گیا۔ وہ سننے لگی، اس نے فون ابھی ہٹایا نہیں تھا کہ میرا فون بج گیا۔ دوسری طرف سلیم تھا۔
”بولو....!“ میں نے کال ریسیو کرتے ہوئے کہا۔
”وہ اس وقت ایک ریستوران میں چند لوگوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے؟“ یہ کہہ کر اس نے ریستوران کی لوکیشن سمجھا دی۔
”تمہیں پورا یقین ہے؟“ میں نے تیزی سے پوچھا۔
”سو فیصد، کیونکہ میں نے جس بندے سے پوچھا ہے، وہ وہیں اس کے ساتھ ہے“۔ اس نے وضاحت کر دی۔
”تم فوراً وہاں جاﺅ۔ اپنی آنکھوں سے تصدیق کرو، وہ تو سامنے نہیں آرہا۔ میں ہی اسے مل لیتا ہوں“۔ میں نے انتہائی غصے میں کہا۔
”معاملہ تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے، اس کے ساتھ دو چار گن مین ضرور ہوتے ہیں“۔ اس نے بتایا۔
”تم جاﺅ، میں وہیں آرہا ہوں“۔ میں نے کہا اور فون بند کر دیا۔
”کیا وہ یہاں کیمپس میں نہیں ہے“۔ ماہم نے فوراً سوال داغ دیا۔
”نہیں، عدنان سے پوچھو، وہ کہاں ہے، اگر وہ شہر ہی میں ہے تو وہیں رکے....“ میں نے کہا اور اسد سے پوچھا۔ ”کاشف سے رابطہ ہوا؟“
”وہ ابھی پہنچ جاتا ہے، نہیں بلکہ میں اسے شہر ہی میں روکتا ہوں“۔ یہ کہہ کر وہ بھی فون کرنے لگا۔
”آﺅ، نکلیں....!“ میں نے ماہم سے کہا اور گاڑی کی طرف بڑھ گیا۔ ماہم فوراً ہی ڈرائیورنگ سیٹ پر جا بیٹھی۔ اسد بات کرتے ہوئے پچھلی نشست پر آگیا۔ تبھی گاڑی بڑھاتے ہوئے ماہم نے مجھے بتایا کہ وہ لڑکے نوجوانوں کو اپنے ہاسٹل لے جا چکے ہیں۔
ریستوران کے قریب چوک پر کاشف، عدنان، اور اس کے ساتھ پانچ چھ بندے تھے۔ سبھی کے پاس اسلحہ تھا جو بظاہر دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ اس وقت میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا، کاشف نے مجھے ایک ریوالور تھما دیا۔ جبکہ ماہم نے اپنا ریوالور نکال کر ڈیش بورڈ پر رکھ لیا۔ مجھے صرف سلیم کا انتظار تھا کہ وہ کب مجھے فون کرتا ہے۔ سب کی نگاہیں، اس ریستوران کے روڈ پر لگی ہوئیں تھیں۔ اچانک میری گاڑی میرے قریب سے گزری، اسے سلیم چلا رہا تھا۔ اس کے ساتھ ایک اور شخص بھی تھا۔ اس نے جاتے ہی اس ریستوران کے سامنے گاڑی روکی تو ہم بھی وہاں سے چل پڑے۔ کاشف نے یہ صلاح دی تھی کہ یہاں کھڑے رہنے سے بہتر ہے کہ ریستوران کے باہر وقت گزار لیا جائے۔ جیسے ہی ہم وہاں پہنچے۔ سلیم نے فون کر دیا۔
”بولو....! کیا وہ موجود ہے“۔
”جی، اس نے نیوی بلیو سوٹ پہن رکھا ہے اور فیروزی کلر کی ٹائی لگائی ہوئی ہے۔ بظاہر یہی دکھائی دے رہا ہے کہ وہ بزنس میٹنگ ہے، لیکن یہ کیمپس ہی کے لوگ ہیں“۔
”نئے ہیں یا پرانے....“ میں نے پوچھا۔
”نئے ہیں، د و چار مہینے پرانے ہیں“۔
”تم نے اپنے سورس سے مل لیا“۔
”ہاں....! میں واش روم میں ہوں۔ ابھی آتا ہوں باہر.... “ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ تبھی ماہم نے سرسراتے ہوئے کہا۔
”وہ دیکھو....! وہ سامنے....“ اس نے انگلی کے اشارے سے بتایا تو میں تیزی سے باہر نکلا اور ریستوران کی جانب بڑھ گیا۔ تبھی میں نے محسوس کیا کہ ماہم بھی اسی تیزی سے میرے پیچھے آگئی ہے۔ریستوران کا گیٹ کراس کر کے جب میں ہال میں گیا تو وہ سامنے ہی ایک طرف چند لوگوں میں گھرا تقریر کررہا تھا۔ جبکہ باقی دم بخود اس کی بات سن رہے تھے۔ شاید اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کر دیا تھا۔ اس لیے اس نے باہر کی جانب دیکھا۔ پھر جیسے ہی اس کی نگاہ ماہم پر پڑی ، وہ دم بخود رہ گیا۔ اسے ساری بات بھول گئی۔ وہ تیزی سے کھڑا ہونے لگا تو میں نے ریوالور اس پر تان دیا۔
”بس....! بہت ہو گئیں باتیں، تم تو نہیں آئے۔ میں پہنچ گیا ہو۔ ابان کہتے ہیں مجھے“۔ میرے کہتے ہی وہ ہونقوں کی طرح دیکھنے لگا۔ میرے ریوالور تانتے ہی اردگرد کی کرسیوں پر بیٹھے چند بندے اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں جانتا تھا کہ ان میں اس کے سکیورٹی والے ہو سکتے ہیں۔ اس لیے میں نے اونچی آواز میں کہا۔ ”اگر زندگی عزیز ہے تو وہی کرو جو میں کہہ رہا تھا“۔ جیسے ہی میں نے یہ لفظ کہے مجھے لگا جیسے ماہم کی پشت میرے ساتھ آلگی ہے۔ شاید اس نے ان لوگوں کو کور کر لیا تھا جو کھڑے ہوئے تھے۔
”کوئی اپنی جگہ سے نہ ملے....“ ماہم نے اونچی آواز میں کہہ کر سب پر خوف طاری کر دیا۔
”اٹھتے ہو یا....“ میں نے کہا اور ریوالور اس کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ وہ کھڑا ہو گیا اور لڑکھڑاتے ہوئے چل دیا۔ میں اسے لے کر باہر کی سمت چل دیا۔ پھر جیسے ہی اس کی نگاہ کاشف اور عدنان پر پڑی، اس کا رنگ پیلا پڑ گیا۔ انہوں نے چشم زدن میں اسے کور میں لے لیا اور پھر اپنی گاڑی میں ڈال کر چل دیئے۔ تب تک میں ماہم کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ چکا تھا۔ اس نے گاڑی مخالف سمت میں بھگا دی۔ ہمارا رخ سبزہ زار کی طرف تھا۔
l l l
No comments:
Post a Comment