کیمپس
امجد جاوید
قسط نمبر6
اس شام میں ٹی وی لاﺅنج میں تنہا بیٹھا ہوا تھا۔ سلیم کسی کام سے باہر تھا ا ور جند وڈا کچن میں مصروف تھا کہ زریاب انکل کا فون آگیا۔ چند تمہیدی جملوں کے تبادے کے بعد انہوں نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
”بہت اچھے جارہے ہو جوان.... تمہارا آج کا جو عمل تھا، بہت اچھا ہے۔ میرے خیال میں تم نے بہت سارے لوگوں کے دل جیت لیے ہوں گے“۔
”انکل آپ کو کیسے پتہ چلا“۔ میں نے خوشگوار حیرت سے پوچھا۔
”تم کیا سمجھتے ہو بیٹا، میں تم سے غافل ہوں، ایسا نہیں ہے میرے بیٹے، میں اگر تمہارے ساتھ نہیں تو میری آنکھیں اور کان تمہارے ساتھ ہیں۔ مجھے تمہارے بارے میں پتہ چلتا رہتا ہے۔ انہیں نے انتہائی جذباتی لہجے میں کہا۔
”انکل گاڑی کا تو اچھا خاصا نقصان ہو گیا ہے۔ اس کا ....“ میں نے کہنا چاہا تو وہ میری بات کاٹتے ہوئے بولے۔
”تم اس کی فکر نہ کرو۔ ایسے سینکڑوں نقصان میں برداشت کر سکتا ہوں۔ تمہارا جو مقصد ہے، تم صرف اسی پر نگاہ رکھو“۔
”ٹھیک ہے انکل.... باقی سب کیسے ہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”سب ٹھیک ہیں۔ میں بس تم سے یہی کہوں گا کہ اپنا بہت سا خیال رکھنا۔ کیونکہ بیٹا تم نے یورپ دیکھا، اس کی بہترین یونیورسٹی میں پڑھا ہے۔ ویسا ماحول تو یہاں نہیں ہے۔ یہاں بہت عجیب اور بہت گھٹیا قسم کی باتیںبھی تمہیں سننا پڑیں، بس ان پر صبر کرتے ہوئے وقت گزارنا ہے تمہیں؟“ انہوں نے کچھ اس انداز سے کہا تو مجھے واقعی عجیب سا لگا۔
”مطلب آپ کہنا کیاچاہ رہے ہیں؟“ میں نے سمجھنے کے لیے پوچھا۔
”یہی کہ تم پاکستان میں آئے ہو اور پہلی باریہاں کی کسی درسگاہ میں پڑھ رہے ہو۔ مطلب وقت گزار رہے ہو، وہ ماحول یا وہ سطح تو نہیں ملے گی، جو وہاں کے کلچرڈ لوگوں میں ہے۔ یہاں تو....“ انہوں ے کہنا چاہا لیکن میں ان کی بات کاٹتے ہوئے بولا۔
”نہیں انکل....! دنیا میں جگہ کوئی بھی ہو،جتنے بھی کلچرڈ لوگ ہو۔ انسان میں جذبے تو وہی ہیں نا، تعصب، بلکہ نسلی تعصب اُن یورپ والوں میں بھی بہت ہے، سازشی لوگ، لالچی ، مفاد پرست ایسے سب.... وہاں بھی موجود ہیں، میرے خیال میں وہ زیادہ شدت کے ساتھ دنیا میں گند پھیلاتے ہیں۔ کیونکہ آپ اسے انسانی سرشت سے نہیں نکال سکتے۔ یہ جذبات واحساسات موجود ہیں انسان میں۔ اس طرح جو اچھے ہیں، جن کا وجود اچھی اور صالح کیمسٹری پر بنا ہے، وہ دنیا میں جہاں بھی ہوں، وہ اچھے ہی ہوتے ہیں، میرے لیے یہاں کے لوگوں میں جو تعصب ہے، سازش، لالچ یامفاد پرستی کچھ اتنی تکلیف دہ نہیں ہے، کیونکہ مجھے ان سے کوئی سروکار نہیں ہے“۔میں اپنی رومیں کہنا چلا گیا تھا اور زریاب انکل خاموشی سے میری بات سنتے رہے تھے۔
”مجھے خوشی ہوئی بیٹا تمہارے خیالات جان کر.... اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ تم یہاں پر بہت اچھا وقت گزار لوگے۔ وش یوگڈلک....“ ان کے لہجے میں خوشی چھلک رہی تھی۔
”بہت شکریہ انکل“۔ میں نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا اور پھر کال ختم ہو گئی۔
انکل سے بات کرنے کے بعد میں خود کو خاصا ہلکا پھلکا محسوس کر رہا تھا۔ کیمپس میں آنے کے بعد، میں نے یہاں کے لوگوں کے بارے میں بہت سوچا تھا۔ ایک ایک کردار پر سوچا تھا۔ میرے نزدیک ایک دم سے تنویر گو پانگ ، اسد، رابعہ اور فریحہ کے علاوہ ماہم بھی آگئی تھی۔ کلاس میں بہت سارے لوگ تھے۔ ان کے ساتھ تعلق فقط چہرہ شناسائی تک محدود تھا۔ ممکن ہے آئندہ دنوں میں کسی دوسرے سے بھی دوستی ہو جائے۔ فی الحال تو ان چند دنوں میں واقعات پر میں نے جتنا غور کیا، اس سے میں نے یہی پایا تھا کہ اگر بندہ حق پر ہو تو کامیابی بہر حال اس کی ہوتی ہے۔ منفی جذبات رکھنے والے جتنا بھی شور مچا لیں، ان کی بنیاد جھوٹ پر ہی ہوتی ہے اور جھوٹ جتنا بھی مضبوط دکھائی دے وہ اندر سے کھوکھلا ہوتا ہے۔ وہ کسی بھی اہم معاملے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ تیسری بات جو میری سمجھ میں آرہی تھی، وہ یہی تھی کہ حالات پر قابو پانے کے لیے محض عقل، ہمت اور حوصلہ ہی درکار نہیں ہو تا بلکہ اس کے لیے قسمت کا ساتھ بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ یہ جو میرے ارد گرد حالات بن گئے تھے۔میں ان کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ آیا قسمت میرا ساتھ دے رہی ہے یا نہیں۔ میں ے جو سوچا تھا اور جس طرح پلان کیا تھا ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ بلکہ حالات میرے قابو میں ہوتے ہوئے بھی میرے ہاتھ میں نہیں تھے۔ ایک بات تھی جس نے مجھے پُرسکون رکھا ہوا تھا۔ وہ تھا میرے دل کا اطمینان، میں پریشان نہیں تھا، بلکہ اب مجھے خود ان حالات کا مزہ آنے لگا تھا۔ میری سوچ ایک حد پر جا کر ختم ہوئی تو مجھے احساس ہوا، میرا سیل فون پھر سے بج رہا تھا۔ اسد کی کال تھی۔
”ہاں اسد بولو کیا با ت ہے“۔ میں نے کال ریسو کرتے ہوئے کہا۔
”یار دل بہت گھبرا رہا ہے، تنہائی میں یوں لگ رہا ہے جیسے مرا دم گھٹ جائے گا، سوچا تم سے بات کرلوں، شاید دل بہل جائے“۔ اس کے لہجے میں یاسیت تھی۔ تب میں نے ایک دم سے کہا۔
”تُو ایسا کر نکل ہاسٹل سے، میں تمہیں لینے آجاتا ہوں۔گپ شپ کرتے ہیں۔ تمہارا دل ہی کیا دماغ بھی فریش ہو جائے گا“۔
”یہ تو بہت اچھا ہے یار، میں بس پانچ منٹ میں نکلتا ہوں۔ تم آجاﺅ“۔ اس نے کہا اور فون کر دیا۔ میں نے ٹی وی آف کیا اور باہر کی جانب چل دیا۔ میں اسد کو لے کر یہاں آجانے والا تھا۔ گاڑی پورچ ہی میں تھی۔ میںنے جندوڈے کو تھوڑی دیر بعد آنے کا کہا اور سبزہ زار سے کیمپس کی جانب چل دیا۔
میں جب اسد والے ہاسٹل کے سامنے پہنچا تو اندھیرا اچھا خاصا پھیل چکا تھا۔ پہلی نگاہ میںو ہ مجھے کہیں دکھائی نہیں دیا۔ حالانکہ اگر وہ فون کال کے پانچ منٹ بعد ہاسٹل سے نکلتا تو اسے وہاں آئے آدھاگھنٹے ہو جانا چاہئے تھا۔ میں نے اسے کال کرنے کے لیے اپنا سیل فون نکالا ہی تھا کہ وہ ہاسٹل گیٹ سے باہر آتا ہوا دکھائی دیا۔ اس کے چہرے پر شدید غصہ تھا، آنکھیں چڑھی ہوئیں اور بے چینی میں اپنے ہونٹ کو دانتوں تلے دبائے ہوئے تھا۔ اس کی نگاہ کا ر پر پڑی تو وہ سیدھا میری جانب آگیا۔ دروازہ کھولا اور میرے ساتھ پسنجر سیٹ پر بیٹھ کر دھیمی آواز میں بولا۔
”چلو یار....!“ اس کے لہجے میں کچھ ایسا تھا جس پر میں نے پہلے تو اس کا جائزہ لیا، پھر گاڑی بڑھاتے ہوئے پوچھا۔
”اسد.... یار اتنے پریشان کیوں ہو؟“
”یار ، اچھا بھلا تیار ہو کر کمرے سے نکلا تھا، یہ جو ہاسٹل اور گیٹ کے درمیان میں لان ہے نا، اس میں ہاسٹل کا تنظیمی ناظم اپنے حواریوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ مجھے دیکھ کر بڑی بدتمیزی سے اپنی طرف بلایا۔ میں بادل نخواستہ اس کی طرف چلا گیا تو بس اول فول بکنے لگا“۔ اس نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا ۔
”کیا کہا اس نے“۔ میں نے تحمل سے پوچھا۔
”وہی جو ایک دو دن سے ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں حالات چل رہے ہیں۔ اس باعث دھمکیاں، گالیاں اور بس ایسے ہی بکواس کرتے رہا تھا“۔ اس کا لہجہ یوں ہو گیا، جیسے وہ ابھی رو دینے والا ہے۔
”تم نے کچھ نہیں کہا“۔ میں نے یونہی سرسری سے انداز میں پوچھا تو اس نے شاکی نگاہوں سے میری جانب دیکھا اور رو دینے والے انداز میں کہا۔
”یار اگر میں اپنے ’گراں‘ میں ہوتا نا تو اُسے بتاتا کہ گالی کیسے دیتے ہیں۔ میں نے اس کی اتنی بات ہی نہیںسننی تھی۔ وہ تو چاہتا ہی یہی تھا کہ میں اُسے کوئی جواب دوں اور وہ مجھے مزید بے عزت کرے۔ کاش میں یہاں نہ ہوتا....“ اس نے کچھ انداز سے کہا تو میں نے ایک دم سے فیصلہ کر لیا۔
”وہ کون ہے اور کس ڈیپارٹمنٹ کا ہے۔ تنظیمی ناظم“۔ میں نے پوچھا اور ساتھ ہی دو رویہ سڑک سے آنے والے کٹ سے گاڑی موڑتے ہوئے کہا۔ یہ دیکھ کر اسدتیزی سے بولا۔
”یہ کہاں جا رہے ہو تم....؟“
”جو میں نے پوچھا ہے، وہ بتاﺅ“۔ میں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا۔
”اپنے ہی ڈیپارٹمنٹ کا سینئر ہے۔ وہ کلاس میں کم ہی جاتا ہے“۔ اسد نے کہا اور پھر پریشان لہجے میں بولا“۔
مگر یوں ہم دونوں.... ابان تو اس کے ساتھ کئی لوگ ہوںگے.... وہ خوامخواہ تمہارے ساتھ بھی بدتمیزی....“
”خاموش....! بس دیکھتے رہو.... وہ بھی حوصلے کے ساتھ“۔ میں نے اتنا ہی کہا اور گاڑی کی رفتار بڑھا دی۔ وہ میری طرف دیکھ کر خاموش ہو گیا۔ میں نے اس رفتار سے گاڑی گیٹ میں داخل کی۔ میں نے لان میں بیٹھے ہوئے ایک لمبے اور مضبوط سے لڑکے کو دیکھا۔ اس نے سفید شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔ کالی واسکٹ، سر پر سیاہ ٹوپی، چھوٹی چھوٹی گھنی داڑھی اور مونچھوں والا چند لڑکوں کے ساتھ کرسی پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے سامنے جو لڑکے تھے،ان کا حلیہ اور وضع قطع بھی ویس ہی تھی۔ ایک لڑکے نے پتلون اور شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ میں نے گاڑی کے بریک لگائے اور روک دی، ڈیش بورڈ میں پڑا اپنا کولٹ ریوالور نکاتے ہوئے اسد سے پوچھا۔
”کون ہے اِن میں سے تنظیمی ناظم؟“
”وہ سامنے....“ اس نے اُسی لڑکے کی جانب اشارہ کیا جو میری گاڑی کی طرف ہی دیکھ رہا تھا اور جسے میں پہلی نگاہ میں بھانپ گیا تھا۔ میں نے ریوالور کوٹ میں رکھا اور باہر نکل آیا۔ دوسری طرف سے اسد بھی باہر آگیا۔ میں تیز قدموں سے چلتا ہوا اس کی طرف بڑھنے لگا۔ وہ میری طرف دیکھ رہا تھا اور ابھی تک کرسی پر جما ہوا تھا۔ میں نے قریب پہنچ کر اسد سے پوچھا۔
”اس نے تمہیں گالیاں اور دھمکیاں دی ہیں“۔
”ہاںمیں نے دی ہیں.... اور تم اس کے....“
”بکواس بند کرو اور اس سے معافی مانگ کر وعدہ کرو کر آئندہ....“ میں نے اس کی بات کاٹ کر کہنا چاہا تو اس نے میری بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”اچھا تم سیواکروانے کے لیے خود ہی یہاں آگئے ہو۔ ابان ہی ہے نا تمہارا نام.... چلو یہاں اسی لان میں کان پکڑ لو“۔ ا س نے انتہائی طنزیہ اور گھٹیا انداز میں کہا تو اسد نے آگے بڑھ کر اس کے منہ پر تھپڑ مار دیا۔ وہ شاید اس کی توقع نہیں کر رہا تھا، اس لیے غصے میں پاگل ہوتے ہوئے ایک لمحے ہی میں ٹی ٹی پسٹل نکال لیا۔ میں نے اسے سیدھا بھی نہیں کرنے دیا اور کک اس کے ہاتھ پر ماری، ٹی ٹی پسٹل اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر دو ر جا پڑا۔ میں نے سنبھلتے ہی ریوالور نکال لیا تھا، وہ ٹھٹک گیا۔ تب میں نے غصے میں کہا۔
”کیا اسلحہ تمہارے پاس ہی ہے، کسی دوسرے کے پاس نہیں ہو سکتا، اب یہیں کان پکڑنے ہیں یا میرے ساتھ جانا ہے....؟“
”دیکھو....! غلطی اس کی تھی“۔
”بکواس بند کرو.... اسد مارو اسے....“۔ میں نے کہا اور ریوالور اس کی کنپٹی پر رکھ دیا۔ اسد کو کتنا غصہ تھا یہ اس وقت مجھے معلوم ہوا اس نے ایک ٹکراس کے ناک پر ماری ، اگلے ہی لمحے وہاں سے خون کا فوارہ چھوٹ گیا۔ دو تین تھپڑ مارنے کے بعد وہ پیچھے ہٹ گیا۔ اتنی دیر میں اس کے حواری لڑکے پیچھے ہٹ چکے تھے۔
”چلو کان پکڑو....!“ میں نے کہا تو اس نے دھیرے دھیرے کان پکڑ لیے تب اسد نے زور سے اس کے لات ماری تووہ گر گیا۔ تب میں نے کہا۔ ”کوئی شک میں نہ رہے کہ اسد یہاں کمزور ہے۔ کسی نے بھی آئندہ اس کے ساتھ بدتمیزی کرنے کی کوشش کی یا کسی نے گھٹیا رویہ رکھا، تو ہم سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ جس کس نے آزمانا ہے، وہ آزمالے....“ یہ کہتے ہوئے میں نے حواریوں کی طرف دیکھا، وہ خاموش تھے۔میں نے اسد کو ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ وہ گاڑی کی طرف چل پڑا۔ میں نے اس ناظم کو کالر سے پکڑ کر اٹھایا اور کہا۔ ”چلو ہمارے ساتھ.... تمہاری پٹی کروا دوں....“
”نہیں.... میں خود....“ اس سے بولا نہیں جارہا تھا، میں نے اسے ایک طرف دھکا دیا اور گاڑی کی طرف چل پڑا۔ مجھے احساس تھا کہ کہ ٹی ٹی پسٹل اس کے کہیں نزدیک ہی گرا ہو گا۔ اسے تلاش کرنے اور فائر کرنے میں جتنا وقت لگ سکتا تھا، اتنی دیر تک میں گاڑی تک پہنچ گیا تھا، میں گاڑی میں بیٹھا اور ریسوریس ہی میں گیٹ تک گیا اور وہاں سے نکل آیا۔یہاںتک کہ کیمپس کا مین گیٹ عبور کر کے بڑی شاہراہ پر آگیا۔ تب میں نے اسد کی طرف دیکھا اس کا چہرہ ابھی تک سُتا ہوا تھا۔ جیسے اب تک اسے یقین ہی نہ آرہا ہو کہ وہ ا ن سے بدلہ لے چکا ہے۔ ممکن ہے اس کے دماغ میں کچھ اور بھی چل رہا ہو۔ تب میں نے دھیرے سے پوچھا۔
”اسد....! بہت خاموش ہو، کیا سوچ رہے ہو؟“
”کچھ نہیں“ وہ آہستگی سے بولا۔
”پھر بھی....؟“ میں نے اس کے چہرے پر دیکھا۔
” یار یہ تنظیم والوں سے پھڈا اچھا نہیں، بہر حال ہم نے یہاں پڑھنا ہے تھوڑا وقت نہیں پورے دو سال گذارنے ہیں....“
”یہ میرا وعدہ ہے اسد....! میں جب تک ہوں یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے“۔میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا۔
” ان لوگوں کے بارے تمہارے ذہن میں پتہ نہیں کیا ہے، یہ کوئی چھوٹا موٹا گروپ نہیں ہے، جس سے مقابلہ ممکن ہو سکے گا، یہ ایک سیاسی جماعت کی بغل بچہ تنظیم ہے اور یہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے۔ تم اور میں بھلا ان کا مقابلہ کیا کر سکیں گے“۔ اس نے اپنا خوف مجھ پرظاہر کر دیا تو میں مسکراتے ہوئے کہا۔
”مانتا ہوں اور پوری طرح جانتا بھی ہوں ان کے بارے میں .... لیکن یہ بات ہمیشہ یاد رکھو، کوئی بھی جماعت ہو یاکوئی بھی سیاسی پارٹی ہو ۔ وہ پورے ملک میں یکساں اثر ورسوخ نہیں رکھتی، کہیں اس کا اثرکم ہوتا ہے اور کہیں زیادہ تم سمجھتے ہو کہ ایسا کیوں ہوتا ہے“۔
”ظاہر ہے یہ ایک فطری سی بات ہے۔“ اس نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے کہا۔
”وجہ.... وہ کون سی وجہ ہوتی ہے.... میں بتاتا ہوں، ہمیشہ مقامی حالات ہی ان کا اثر ورسوخ بناتے ہیں اور مقامی حالات کیا ہوتے ہیں؟ وہاں کے لوگ جو انہیں ہرطرح کی مدد کرتے ہیں۔ اس کیمپس میں ظاہر ہے انہیں تحفظ دینے والے لوگ اگر ہیں تو ان کے مخالف بھی ہوں گے۔ کل تم دیکھنا.... اول تو انہوں نے اس واقعہ کوپھیلنے ہی نہیں دینا، اگر کیمپس میں یہ واقعہ مشہور ہو گیا تو اِن کے مخالفین ہمیں تلاش کرتے پھریں گے“۔ میں نے اسے سمجھایا تو وہ چونک کرمیری جانب دیکھنے لگا اور پھر پُرجوش لہجے میں بولا۔
”یار، میرا تو اس طرف دھیان ہی نہیں گیا تھا“۔
”ڈرنے کی ضرورت نہیں.... ہاں مگر حوصلے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ اس کی جماعت کا کوئی بھی طالب علم لیڈرکبھی تشدد کی بات نہیں کرتا، اگر ان کا کوئی واقعی لیڈر ہو یا پھر وہ کوئی تنظیم ہو۔ یہاں سارا کھیل نظریات کا ہوتا ہے اور کوئی بھی اُس وقت نظریہ قبول کرتا ہے جس میں کوئی جبر نہیں ہوتا۔یہی وجہ تو ہے کہ بر صغیر میں سلاطین نے لوگوں پر حکومت تو کی مگر دل نہیں جیت سکے، یہ اولیائے اﷲ تھے جنہوں نے دل جیتے، کیوں؟ انہوں نے جبر نہیں کیا، دھونس سے اپنی بات منوانے کی کوشش نہیں کی، اگروہ بھی اﷲ کی مخلوق پر حکومت کرنے کا ہی سوچتے.... تب کیاصورت ِحال ایسے ہوتی....“ میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
”تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو۔ جبر سے آپ کسی کو مجبور تو کرسکتے ہو لیکن اس کا دل نہیں جیت سکتے“۔ لفظ اس نے منہ ہی میںتھے کہ ہم سبزہ زار پہنچ گئے۔ آچکا تھا۔ اس نے گیٹ کھولا اور گاڑی پورچ میں جاروکی۔ ہم جب ڈرائنگ روم میں پہنچے تو جندرڈا فوراً ہی آگیا۔
”کھانا لگاﺅں سائیں“۔
”ہاں لگاﺅ، بہت بھوک لگی ہے“۔ میں نے کہا اور ہاتھ دھونے سنک کی طرف چلا گیا۔ واپس آیا تو میرے انتظار میں سلیم کھڑا تھا۔
”سر کوئی معاملہ بن گیا تھا؟ کیا ہوا؟“
”تمہیں کس نے بتایا....“ اسد نے تیزی سے حیرت بھرے لہجے میں پوچھا تو میں نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
”جی، وہ ریوالور ڈش بورڈ میں نہیں ہے۔ آ پ کے پاس ہے“۔ اس نے اتنی سی بات سے اندازہ لگا لیا تھا۔
”ہاں، بن گیا تھا معاملہ، تم آﺅ، ادھر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں، میں تمہیں ساری صورتِ حال بتا دیتا ہوں“۔ میں نے اسے کہا اور کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ وہ دونوں بھی آگئے تو کھانے کے دوران میں نے اسے سب کچھ بتا دیا۔
”بہت اچھا کیا آپ نے ، فکر نہ کریں۔ میں ہوں نا یہاں پر....“ اس نے عجیب سے لہجے میں کہا تو میں نے اسد کی وجہ سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔ کھانے بعد ہم بہت دیر تک گپیں لگاتے رہے۔ وہ رات میرے پاس ہی رہا۔
l l l
میں اور اسد وقت پرہی ڈیپارٹمنٹ پہنچ گئے۔ اس دن میں سوٹ پہن کر کیمپس گیا تھا اور میرے بغلی ہولسڑ میں میرا کولٹ ریوالور موجود تھا۔ میں کسی بھی غیر متوقع صورتِ حال کے لیے تیار ہو کرگیا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ نے جو رات کہا تھا۔ اس نے کیا کرناتھا۔ تنویر گوپانگ جیسے میرے ہی انتظار میں تھا، مجھے دیکھتے ہی تیر کی طرح میری جانب بڑھا۔
”یار ، کیا یہ بات سچ ہے جو رات تم نے....“ اس نے کہنا چاہا تو میں نے بات کاٹتے ہوئے کہا۔
”جو بھی سنا ہے وہ سچ ہے....“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا تو سامنے سے آتی ہوئی رابعہ پر میری نگاہ پڑی۔ وہ مسکراتے ہوئے آرہی تھی۔ بالکل قریب آ کرہنستے ہوئے بولی۔
”یہ سیل فون بھی بڑی چیز ہے۔ رات ہی یہ خبر ہر طرف پھیل گئی تھی۔ ممکن ہیں پلان بن گئے ہوں، اس لیے محتاط رہنا“۔
”تم کچھ نہ کہنا باقی سب خیریت ہے“۔ اسد نے اس کی نگاہوں میں دیکھتے ہوئے کہا تو سنجیدگی سے بولی۔
”وقت آنے پر بتاﺅں گی ڈھال کیسے بنتے ہیں“۔اس کے یوں کہنے پر میں چونک گیا۔ وہ اس قدر خلوص رکھتی ہے۔ کیا یہ میری ذات کے لیے ہے یا کوئی اور وجہ ہے؟ میں اس وقت بالکل بھی نہیں سمجھ پایا۔ شاید میں اس پرغور کرتا، انہی لمحات میں ماہم آگئی، وہ بلیک گاگلزلگائے ہوئے تھی۔ وہ بالکل میرے قریب آگئی۔ گاگلز اتارے اور مسکراتی ہوئی آنکھوں سے بولی۔
”ابان.... ! مجھے تم سے یہی توقع تھی، اگر تم ایسا نہ کرتے تو میرا اندازہ غلط ہو جانا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اگر ایسا ہو جاتا تو مجھے خود پر بہت افسوس ہوتا“۔
”میں سمجھا نہیں، تم نے یہ کیا کہا ہے؟“ میں نے واقعتاً اس کی بات سن کرحیرت سے پوچھا۔
”ابھی بتاتی ہوں“۔ یہ کہہ کر اس نے سب کی طرف دیکھا اور بولی۔ ”آپ سب کینٹین پر چلیں، وہاں میں ٹریٹ دے رہی ہوں۔ اگر سینئرز بھی آنا چاہئیں تو انہیں بھی لے آئیں۔ تنویر پلیز“۔
”میں دیکھتا ہوں“۔ تنویر نے تیزی سے کہا اور راہداری کی جانب بڑھ گیا۔
”آﺅ چلیں، ماہم نے میرا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہوئے کہا۔ میں نے دھیرے سے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا۔ میں اس کی ادا کو نہیں سمجھ پارہا تھا۔ وہ میرے لیے معمہ بن رہی تھی۔ ڈیپارٹمنٹ کی سیڑھیاں اترتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا۔
”یہ تمہاری توقع، تمہارا اندازہ.... یہ کیا ہے؟“
”میرے سوال پر وہ سیڑھیاں اترتے ہوئے رک گئی۔ میری طرف گہری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے خمار آلود آواز میں بولی۔
”سچ پوچھنا چاہتے ہو؟“اس کے یوں پوچھنے پر میں ایک لمحے کو چکرا کر رہ گیااوروہ میری طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے میرے چہرے پر لکھی ہوئی تحریریں پڑھ رہی ہو۔ اس کے تازگی بھرے چہرے پر بھنورا آنکھوں میں شرارت چھلک رہی تھی اور لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔ ہم دونوں سیڑھیوں میں کھڑے تھے۔ وہ بالکل میرے یوں قریب کھڑی تھی جیسے میرے ساتھ لگ گئی ہو۔ اس سے اٹھتی بھینی بھینی سی مہک خوشگوارتاثر دے رہی تھی۔ وہ میری طرف یوں دیکھ رہی تھی جیسے میں نے کوئی انہونی بات کر دی ہو۔ وہ مجھے منتظر دیکھ کر خمار آلود لہجے میں بولی۔
”تو پھر سچ یہ ہے ابان.... کہ تمہارے کے بارے میں جو اندازہ میں نے لگایا تھا، وہ بالکل درست ثابت ہوا ہے، افسوس مجھے اس پر ہوتا اگر تم....“
”یہ بات تم ابھی کہہ چکی ہو، کیوں کہی، میں وہ پوچھنا چاہتا ہوں“۔ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا ۔
”تو پھرآﺅنا لان میں، وہیں بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں“۔ اس نے اشارے سے چلنے کے لیے کہا تو میں نے بھی محسوس کیا، ہم دونوں راستہ روکے کھڑے تھے۔ کوئی اور لمحہ ہوتا تو شاید میں اس کے قرب سے کچھ اور معنی اخذ کرتا، لیکن اس وقت ماہم کی بات نے مجھے پوری طرح متوجہ کیا ہوا تھا۔ ہم چلتے ہوئے لان تک چلے گئے۔ اس دوران ہم دونوں میں خاموشی رہی۔آہنی کرسیوں پر بیٹھتے ہوئے اس نے میری جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولی۔
”ابان....! ہر بندے کا ایک آئیڈیل ہوتا ہے، میرا بھی ہے، وہ آئیڈیل کیسا ہے، یہ تو شاید میں تمہیں نہ بتا سکوں، لیکن تم میرے آئیڈیل کے بہت قریب تر ہو“۔اس نے کہا تو میں نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
”کس حد تک....اور....“ میں نے کہنا چاہا تو اس نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے روکتے ہوئے کہا۔
”یہ بھی شاید میں نہ بتا سکوں، کیونکہ یہ کوئی دو اور دو چار والی بات نہیں ہے، خیر، تمہاری بات کا جواب یہ ہے کہ قدرت نے مجھے ایک وصف سے نوازا ہے۔ میں کسی کو بھی دیکھتی ہوں تو اس کے بارے میں جو میری پہلی رائے ہوتی ہے، وہ ویسا ہی ہوتا ہے، جیسے تمہیں دیکھتے ہی میری یہ رائے تھی کہ تم اناوالے، حوصلہ مند اور جرا ¿ت رکھنے والے شخص ہو اور بس“۔ یہ کہتے ہوئے وہ دھیرے سے مسکرا دی تھی۔
”میں نے کہا، پتا نہیں تم میرا کیا زائچہ بنانے چلی ہو“۔ میں نے اس کی بات کو نظر انداز کرنا چاہا۔
”پھر ایک بات اور بھی ہے ابان....؟ کہ اتنے لڑکوں میں صرف تم نے کیوں ان سینئرز کے ساتھ مقابلہ کرنے کی جرا ¿ت کی! ایسا ایک جرا ¿ت مند اور حوصلہ رکھنے والا ہی....“
”ماہم....! خدا کے لیے سیریس ہو جاﺅ.... یہ تم کیا باتیں لے کر بیٹھ گئی ہو۔ میں نے جو ٹھیک سمجھا وہ کیا ، آﺅ اب ساری کلاس آجانے والی ہے۔ ان کے پاس چلتے ہیں، یوں اکیلے میں اچھا نہیں لگتا“۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا ناچار ماہم کو بھی اٹھنا پڑا۔ ہم چلتے ہوئے اپنی کلاس میں جا پہنچے، جہاں زور وشورسے کل رات والا موضوع ہی چل رہا تھا۔ ہر کوئی اپنا اپناتبصرہ کر رہا تھا اور میں خاموشی سے سنتا رہا۔ جب سارے اپنی اپنی کہہ چکے تو میں بولا۔
”اب میری سنو! میں نے جو کچھ کیا ، اپنے دوست کے لیے ، اس کی بھی عزت ِنفس ہے، میں اسے یوں افسردہ نہیں دیکھ سکا۔ آپ لوگ کہہ رہے ہو کہ میرے اس عمل کا ردِعمل ہو گا، تو ہوتا رہے، میں بھگت لوں گا“۔ میںنے صاف انداز میں کہا تاکہ میری یہ بات ان تنظیم والوں تک پہنچ جائے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ ہماری کلاس میں ان کے لوگ ضرور ہوں گے۔ وہاں ہرکوئی مجھے یہ یقین دلانے لگا کہ وہ میرے ساتھ ہے۔ یوں باتیں کرتے، کھاتے پیتے رہے، پھر وہاں سے اٹھ گئے۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ ماہم میری طرف نہ صرف مسلسل دیکھتی رہی ہے، بلکہ وہ میری ہر بات کو بہت زیادہ اہمیت دینے لگی تھی۔ ہم سب کلاس لینے کے لیے چلے گئے۔
کلاس ختم ہو جانے کے بعد میں سیڑھیاں اتر کر ڈیپارٹمنٹ کے مین گیٹ سے چند قدم کے فاصلے پر تھا کہ ماہم نے میرے عقب سے مجھے پکارا، میں نے پلٹ کر دیکھا تو وہ خراماں خراماں آرہی تھی، اس کے انداز میں کوئی جلدی نہیں تھی جیسے اسے امید تھی کہ میں اس کا انتظار کروں گا۔ میں رک گیا، یہاں تک کہ وہ میرے پاس آ گئی ۔ وہ میری طرف دیکھ کر بولی۔
”تم مصروف تو نہیں ہو؟“
”خیریت....؟“ میں نے براہِ راست اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے پوچھا تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
”کیا خیال ہے، آج لنچ اکٹھے نہ لیں؟“
”مجھے کوئی اعتراض نہیں، اور کون کون ہو گا ہمارے ساتھ“۔ میں نے کندھے اچکاتے ہوئے جان بوجھ کر پوچھا۔
”کوئی بھی نہیں، ایک آپ اور دوسری میں“۔ اس نے خوشگوار انداز میں کہا۔
”اوکے....! جیسے تمہاری مرضی“۔ میں نے کہا تو اس نے مجھے ایک نئے ریسٹوران کے بارے میں بتایا۔ جہاں میں پہلے نہیںگیا تھا۔ پھر بولی۔
”میں وہیں تمہارا انتظار کروں گی“۔
یہ کہہ کر وہ چل دی۔ اس کا رخ پارکنگ کی طرف تھا، میں بھی اس جانب بڑھ گیا۔
ماہم اپنی گاڑی میں بیٹھ کر جا چکی تھی اور میں گاڑی سٹارٹ کر چکا تھا۔ ایسے میں میری نگاہ دور سے آتے ہوئے اسد پر پڑی۔ وہ تیز تیز قدموں سے میری جانب آرہا تھا۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے پا کر ہاتھ کے اشارے سے رکنے کو کہا۔ وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا میرے پاس آگیا۔ تب میں نے پوچھا ۔
”خیریت تو ہے اسد!“
”سب ٹھیک ہے، لیکن میں ہاسٹل کیسے جاﺅں.... وہاں تو....“ وہ کہتے کہتے رک گیا۔ میں نے گیٹ کھولا تو وہ بیٹھ گیا۔
”ہاں، یہ مسئلہ تو ہو گا، آﺅ چلیں، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے“۔میں نے گاڑی کی جانب متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
”نہیں، ایسے نہیں، وہ میرے منتظر ہیں، میں یوں گیا تو لازماً کوئی نہ کوئی بات ہو جائے گی۔ کیونکہ وہیں سے میرے روم میٹ نے مجھے بتایا ہے کہ میرا سامان انہوں نے توڑ پھوڑ دیا ہے اور دھمکیاں بھی دی ہیں“۔ اسد نے دھیمی آواز میں یوں کہا جیسے وہ مجھ سے شرمسار ہو رہا ہو۔
”کب بتایا تمہیں؟“ میں نے پوچھا۔
”یہی چند منٹ پہلے.... ورنہ میں تو ہاسٹل ہی جارہا تھا“۔ اس نے تیزی سے بتایا۔
”چلو، پھر سبزہ زار چلتے ہیں، اس کا بھی کوئی حل نکالتے ہیں“۔ میں نے کہا اور گاڑی پارکنگ سے نکالنے لگا۔ پھر اسی خاموشی سے کیمپس کے اس راہ پر آگئے جو باہر کی جانب جاتا تھا۔ وہیں مجھے خیال آیا کہ ماہم تو ریسٹوران میں میرا انتظار کر رہی ہو گی۔ اگر میں اسد کو ساتھ میں لے گیا تو کہیں وہ ناراض ہی نہ ہو جائے اور میں اسد کو بھی تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ میں نے چند لمحے سوچا اور پھر اسے فون کر کے منع کر دینا چاہا۔ میں نے فون نکال کر ماہم کے نمبرزپش کیے اور رابطہ ہو جانے کا انتظار کرنے لگا۔ چند لمحوں بعد ہی فون ریسیو کر لیا کیا۔
”جی ابان.... بولو....“ اس نے عام سے لہجے میں کہا۔
”کہاں ہو؟ “میں نے پوچھا۔
”میں ابھی ریسٹوران نہیں پہنچی،تم نے فون کیوں کیا، خیرت تو ہے نا....“ اس نے یوں پوچھا جیسے وہ میری غیر متوقع کال پر گڑبڑا گئی ہو تب میں نے اسد کے بارے میں بتا کر کہا۔
”سو ، میں سبزہ زار جارہا ہوں، لنچ، پھر کسی اور وقت سہی“۔
”نہیں....! تم سیدھے ریسٹوران آﺅ گے.... اسد بھی ہے تو کوئی بات نہیں۔ بس تم آجاﺅ“۔ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔
میں نے فون رکھا اور میں ریسٹوران کی تلاش میں گاڑی بھگانے لگا۔ ہم دونوں میں خاموشی تھی۔ اسد نے مجھ سے نہیں پوچھا کہ فون کس کا تھا۔ ماہم کی گاڑی باہر ہی کھڑی دکھائی دی تو میں نے اس سے کچھ فاصلے پر گاڑی پارک کر دی۔ ہم دونوں ریسٹوران کے اندر چلے گئے۔ چند لمحوں میں ہی میں نے ماہم کو دیکھ لیا۔ وہ ایک میز پر تھی اور اس کے پاس تین لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جن میں ایک لڑکی تھی اور دوسرے دو مرد تھے جو کافی حد تک جوان تھے، انہیں بہر حال لڑکے نہیں کہا جا سکتا تھا، مجھے ذرا سا جھٹکا لگا کہ وہ تو مجھے تنہا بلا رہی تھی، لیکن وہ تو یہاں اکیلی نہیں تھی۔ یہ کون لوگ ہیں؟ ماہم میری طرف دیکھ رہی تھی اور ان لوگوں کی نگاہیں بھی مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں۔ اس سے میرا یہ خیال پختہ ہو گیا کہ وہ میرے ہی انتظار میں تھے۔ میں اور اسد ان کے پاس جا پہنچے۔ علیک سلیک کے بعد ماہم نے تعارف کرایا۔
”یہ رخشندہ ہے، فائنل میں ہے اور یہ کاشف اور یہ عدنان، یہ سمجھ لیں یہاں کے ایکس سٹوڈنٹ ہیں“۔
”بہت خوشی ہوئی آپ سب سے مل کر“۔ میں نے رسمی سا جملہ کہہ دیا۔ تب ان میں سے زیادہ عمرکے جوان کاشف نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں نے تو کل رات ہی سے آپ کی تلاش کرنا شروع کر دی تھی، لیکن آپ سے رابطہ نہیں ہو پارہا تھا، آج صبح ماہم سے رابطہ ہوا تو آپ کا نمبر ملا، خیر پھر انہوں نے ہی آپ سے ملانے کا وعدہ کر لیا، مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ آپ ایک جرا ¿ت مند نوجوان ہیں“۔
”اور کاشف ، یہ ان کے ساتھ میں اسد ہیں، جن کی وجہ سے یہ سارا معاملہ ہوا“۔
”اوہ....! یہ تو بہت اچھا ہوا، یہ بھی مل گئے“۔ کاشف نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ پھر میری جانب دیکھ کر بولا۔ ”زیادہ تجسس نہیں پھیلاﺅں گا اور نہ ہی تمہید میں وقت لوں گا۔ سیدھی سی بات ہے، ہم ان تنظیم والوں کے مخالفین ہیں اور آپ کی ہر ممکن مدد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ یہ مت سمجھئے گا کہ ہم کوئی آپ کی ہمدردی میں آپ تک پہنچے ہیں، ایسی کوئی بات نہیں، ہم اپنا مقصد بھی چاہتے ہیں“۔
”کیا مقصد ہے؟“میں نے آہستگی سے پوچھا تاکہ وضاحت ہو جائے۔ یہ کہتے ہوئے میں نے عدنان کی جانب دیکھا جو اب تک خاموش تھا۔ اس نے میری بات کا جواب نہیں دیا، بلکہ بناءکسی تاثر کے میری طرف دیکھتا رہا۔ تب کاشف نے پُرسکون لہجے میں کہا۔
”سیدھی سی بات ہے ابان، کیمپس پر ہمارا قبضہ تھا، چند برس پہلے انہوں نے ہم سے یہ چھین لیا۔ اب ہم نے دوبارہ قبضہ کرنا ہے ، ہمارا یہی مقصد ہے ۔ اس کے لیے ہم ہر اس بندے کی مدد کریں گے، جو انہیں کمزور کرے گا“۔
”تو یہ ساری گیم قبضے کی ہے؟‘ ‘ میں نے پوچھا۔
”ابا ن ، آپ نے ابھی تک وہ لطف نہیں چکھا جو قبضہ کر لینے کے بعد کیمپس پر حاکمیت کرنے کا ہے اور پھر انہوں نے ہمارے ساتھ زیادتی بھی بہت کی ہے۔ ہمارے دو دوست قتل کیے ہیں، ان کا بدلہ بھی ہم نے لینا ہے“۔ یہ کہتے ہوئے وہ بہت حد تک جذباتی ہو گیا۔ تب میں نے اسے سمجھانے والے انداز میں کہا۔
”کاشف بھائی! مجھے نہ قبضے کی ضرورت ہے اور نہ میں کوئی حاکمیت چاہتا ہوں۔ یہ تو انہوں نے خود ہی....“ میں نے کہنا چاہا مگر اس نے میری بات قطع کرتے ہوئے کہا۔
”میں سب جانتا ہوں۔ انہوں نے دوسرے کئی لوگوں کے ساتھ بھی زیادتی کی ہے لیکن وہ خاموش رہے، مزاحمت اگر کی ہے تو آپ نے ، لیکن اب آپ یہ بھی توقع نہ کریں کہ وہ خاموش ہو جائیں گے یا کچھ بھی نہ کریں گے، وہ اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے، جب تک آپ ان کی خواہش کے مطابق روبوٹ کی طرح نہ چلنے لگیں، یہ میں آپ کو ڈرا نہیں رہا اور نہ ہی کوئی حوصلہ شکنی کر رہا ہوں۔ بلکہ آئندہ آنے والے دنوں میں ان کا ردِعمل واضح کررہا ہوں۔ ہم اگر مل جائیں تو ہم بھرپور انداز میں مزاحمت کر سکتے ہیں“۔
”میں پھر آپ سے کہوں گا، مجھے صرف یہاں دو سال گزارنے ہیں۔ فائنل امتحان دینا ہے اور چلے جانا ہے۔ اس کے علاوہ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہاں اگر مل بیٹھنے کی بات ہے، تو مجھے کوئی اعتراض نہیں “۔ یہ کہتے ہوئے میں نے ماہم کی جانب دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولا۔ ”ماہم جو چاہے ، اس نے اگر آپ سے ملوا دیا ہے تو آپ مجھے اپنادوست سمجھیں“۔ میں نے کہا ہی تھا کہ عدنان نے اپنا ہاتھ میر ی جانب بڑھا دیا۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کاتاثر تھا۔ میں نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ اس نے مضبوطی سے میرا ہاتھ پکڑ کر ہلایا اور بولا ۔ ”ہماری دوستی سے مایوسی نہیں ہو گی“۔
”میں یہی امید کرتا ہوں“۔ میں نے کہا تو اس نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا۔ کاشف اپنا ہاتھ بڑھا چکا تھا۔ میں نے اس سے ہاتھ ملایا۔ ایسے ہی دونوں نے اسد کے ساتھ کیا۔ انہی لمحات میں میری نگاہ ماہم کے چہرے پر پڑی، جہاں بھرپور خوشی چھلک رہی تھی۔ میں نہیں جانتا تھا کہ ان لوگوں سے ہاتھ ملا کر میں نے اچھا کیا ہے یا غلط، لیکن اتنا ضرور جانتا تھا کہ ماہم سے تعلق چند قدم آگے بڑھ گیا ہے۔ ماہم سے یہ تعلق بھی بڑا عجیب سا تھا۔ معلوم نہیں میں جو کچھ بھی اس کی قربت کے لیے کرتا جارہا تھا، وہ میرے لیے ٹھیک تھا یا میری تباہی تھی۔ میں اسے بہت وقت دینا چاہتا تھا۔ ان لمحات میں وہ مجھے صحرا میں بھاگتی ہوئی ہرنی دکھائی دی۔ جسے میں قابو کرنا چاہ رہا تھا۔ چاہے تو وہ مجھے سراب دکھا کر ان ٹیلوں میں پیاسا مار دے یا پھر کسی نخلستان تک لے جائے۔ میں اب اس کی راہ پر تھا۔ جہاں تک وہ جاتی، میں نے اس کے پیچھے جانا تھا۔ ماہم نے میری جانب دیکھا اور چند لمحے دیکھتے رہنے کے بعد اس نے اپنا نچلا ہونٹ دانتوں سے ذرا سا کچلا اور پھر کاشف کی طرف دیکھ کر بولی۔
”کاشف....! میرا خیال ہے ابان کو بتا دینا چاہئے، کیمپس میں ہمارا کتنا اثر ور سوخ ہے“۔
”وقت کے ساتھ ساتھ انہیں خود معلوم ہو جائے گا۔ اب ان کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھے گا۔ باقی رہی اس اسد کی بات.... تو لنچ کے بعد یہ سیدھا اپنے ہاسٹل جائے گا اور کس کی ہمت نہیں ہوگی کہ اسے ہاتھ بھی لگا سکے“۔ کاشف نے کہا تو اتنے میں ویٹر منیوکارڈ لیے ہماری طرف آتا ہوا دکھائی دیا۔ تب ماہم نے کہا۔
”اوکے....! اب باتیں ختم ، کھانے پر توجہ دی جائے۔ یہ باتیں تو چلتی رہیں گی“۔
مختلف باتوں کے دوران لنچ ختم ہو گیا۔ کاشف مجھے بتاتا رہا کہ وہ کیمپس میں اب بھی اپنا کتنا اثرورسوخ رکھے ہوئے ہیں۔ مخالفین کے ایسے کون لوگ ہیں جو خطرناک ہیں۔ آئندہ ہمیں کس طرح رہنا ہو گا۔ ان کی سیاسی جماعت کی طرف سے کس حد تک انہیں آشیرواد حاصل ہے۔ اٹھنے سے پہلے کاشف نے کہا۔
”اسد....! آپ جاﺅ، عدنان خود آپ کو ہاسٹل تک چھوڑ کے آئے گا“۔
”ایسی بھی کوئی بات نہیں ہے کاشف بھائی....! میں خود چلا جاﺅں گا، حالانکہ مجھے پتہ ہے وہ میرے منتظر ہیں۔ ان سے ڈرتا رہا تو پھر جی لیا میں نے ....“ اسد نے کہا تو میرا دل خوش ہو گیا۔ اس نے مردوں والی بات کی تھی۔ میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔
”نہیں اسد، میں تمہارے ساتھ جاﺅں گا، دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ کتے بلے صرف بھونکتے ہیں، کاٹتے نہیں، اصل کردار تو ان لومڑیوں کا ہوتا ہے، جو کتوں کو بھونکنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ہمارا ٹارگٹ یہ کتے نہیں، وہ لومڑیاں ہیں۔ چلو چلتے ہیں“۔ یہ کہتے ہوئے میں اٹھ گیا۔
”میں بھی تمہارے ساتھ جاﺅں گی“۔ ماہم نے کہا اور اٹھ گئی۔ ہم پانچوں ریسٹوران سے باہر آگئے۔
میں اسد کو لے کر نکلاتو ماہم اپنی گاڑی میں اور کاشف، عدنان کو لے کر اپنی گاڑی میں میرے پیچھے چل دیئے۔ کچھ دیر بعد ہم ہاسٹل پہنچ گئے۔ میں نے گاڑی روکی اور اِدھراُدھر دیکھا۔ مجھے وہاں کوئی بھی مشکوک بندہ دکھائی نہیں دیا۔ وہ دو گاڑیاں ہاسٹل سے باہر ہی تھیں۔ میں اسد کے ساتھ ہاسٹل میں چلا گیا۔ اسد کا کمرہ گراﺅنڈ فلور پر ہی تھا۔ میں اسے اپنے ساتھ لیے لاﺅنج میں کھڑا رہا تاکہ معلوم ہو جائے کہ اسد آگیا ہے۔ کافی دیر تک کوئی نہیں آیا۔ اس وقت میں کمرے کی طرف جانے کے لیے پلٹا ہی تھا کہ چند نوجوان مجھے دائیں جانب کے کاریڈور میں سے آتے ہوئے دکھائی دیئے۔ وہ تیز تیز آرہے تھے۔ میں رک گیا۔ وہ ہمارے بالکل قریب آ کر رک گئے۔ پھر ان میں سے ایک لمبے قد والے، سانولے سے لڑکے نے کہا۔
”آپ ابان علی ہیں، اور یہ اسد“۔
”ہاں، آپ کون ہو؟“ میں نے جواب دیتے ہوئے پوچھا۔
”مجھے کاشف بھائی نے ابھی فون پر بتایا ہے۔ آپ بے فکر ہو جائیں۔ ہم بھی منتظر تھے کہ کوئی معاملہ ہو تو ان لوگوں کو یہاں سے بھگائیں“۔ یہ کہتے ہوئے اس نے ہاتھ ملایا اور بولا ۔ ”مجھے میاں فیاض کہتے ہیں“۔
”ٹھیک ہے میں اب چلتا ہوں“۔ میں نے کہا اور پھر اسد کی طرف دیکھ کر بولا۔ ”مجھے اطلاع کرتے رہنا، میں بھی رابطے میں رہوں گا“۔ یہ کہہ کر میں نے میاں فیاض کا ہاتھ چھوڑا اور ہاسٹل سے باہر نکل آیا۔ گاڑی میں بیٹھتے ہوئے میں نے پھر اِدھر اُدھر دیکھا، مجھے کچھ دکھائی نہیں دیا ۔ میں ہاسٹل کے مین گیٹ سے باہر آگیا۔ کچھ فاصلے پر مجھے ماہم کی گاڑی دکھائی دی، اس کے ساتھ ہی کاشف کی گاڑی تھی۔ میں ان کے پاس نہیں رکا چلتا چلا گیا۔ میں نے بیک مرر میں دیکھا، وہ دونوں میرے پیچھے آرہے تھے۔ مین سڑک پر پہنچا تو ماہم کا فون آگیا۔
”اب کیا پروگرام ہے؟“
”جیسا تم کہو؟“ میں نے خمار آلود آواز میں کہا۔
”اچھا، کچھ دیر بعد بتاتی ہوں“۔ اس نے کہا اور فون بند کر دیا۔ میں نے گاڑی بڑھا دی۔ میرا رخ سبزہ زار کی طرف تھا۔
l l l
No comments:
Post a Comment