Saturday 11 November 2017

حصار۔۔ امجد جاوید۔۔ قسط نمبر12

حصار
امجد جاوید
قسط نمبر12
” ہاں تمہی دے سکتے ہو ۔مجھے اب تم سے محبت نہیں عزت چاہئے ، وہ اگر دے سکتے ہو تو۔“ اس نے دھیمے سے لہجے میں کہاتو اسلم نے محبت بھرے لہجے میں کہا
” دیکھو، اگر میری ماں نہ مانی تو میں تم سے کورٹ میرج کرلوں گا ۔لیکن شادی میں نے تم ہی سے کرنی ہے ۔“اسلم نے جذباتی لہجے میں کہا
” نہیں اسلم ، اس طرح عزت نہیں ملتی ۔جس طرح ہمارے معاشرے کا چلن ہے ویسے تم مجھے بیاہ کرلے جاﺅ تب ، تمہاری ماں آ ئے ، مجھے دوبارہ مانگے ، تم بارات لاﺅ تب ۔فکر نہ کرو ، میں بہت جہیز لاﺅںگی ۔“ اس نے روہانسا ہوتے ہوئے کہا ۔ اس کی آ واز تو کسی دوسری وجہ سے بھرائی تھی لیکن اسلم تڑپ کر رہ گیا۔ اس نے آ ہستگی سے اس کا ہاتھ پکڑااور بولا
”تم بس میرا انتظار کرنا، میں تمہیں پورے مان کے ساتھ اپنے گھر لے جاﺅں گا ۔اب تم میری محبت ہی نہیں ،میرا فرض بھی ہو ۔“
” میں انتظار کر لوں گی ۔“اس نے سر ہلاتے ہوئے کہا
”یہ لو یہ فون لے لو ، بات ....“اسلم نے کہا
”نہیں ، ابھی نہیں ۔اس دن لوں گی ، جب تیری اور میری منگنی ہوگئی ۔اب تم جاﺅ ، کسی نے دیکھ لیا تو بہت باتیں بنیں گی۔“ فرزانہ نے کہا تو اسلم اس کے چہرے پر دیکھتا ہوا واپس مڑا اور دروازہ پار کرکے چلا گیا۔ فرزانہ نے دروازے کی کنڈی چڑھائی اور کمرے میں آگئی۔ اپنے بستر پر لیٹنے سے اس نے اپنی ماں کو دیکھا۔وہ یونہی سو رہی تھی ، وہ بھی لیٹ گئی ۔ اس نے جو سوچا تھا ، اس کی ابتدا کر دی تھی ۔وہ اب اس دنیا کو بخشنے والی نہیں تھی ۔
اس صبح جب وہ بیگم ثروت کے ہاں کام پر گئی تو اس کا من بوجھل تھا۔رات اسلم سے کی ہوئی باتیں اس کے ذہن پر سوار تھیں ۔وہ ہی سوچتے ہوئے معمول کے کام کرتی رہی ۔اس وقت وہ بیگم ثروت اور پھوپھو کو چائے دینے باہر کاریڈر کی طرف جا رہی تھی ۔ تبھی دونوں کی باتیں اس کے کانوں میں پڑیں ۔ وہ ثانیہ کے ہاں جانے کی باتیں کر رہی تھیں ۔ بیگم ثروت الجھے ہوئے لہجے میں پوچھ رہی تھی 
” مجھے یہ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کیا بہانہ کر کے جائیں گیں اور انہیں کیا پوچھیں گیں ، کہیں وہ برا ہی نہ منا جائیں ۔“
” بہانہ کیا کرنا ، سیدھے جائیں گی اور ان سے پوچھ لیں گی کہ بھئی منگنی کیوں ٹوٹی ، اس میں سمجھ نہ آ نے والی کون سی بات ہے ۔“پھوپھو نے تیز لہجے میں کہا
 ” سچی پوچھو نا فاخرہ ، میرا تو دل کر رہا ہے آ ج ہی طلعت سے کہہ دوں کہ ثانیہ مجھے دے دو ۔“ بیگم ثروت نے پر شوق لہجے میں کہا
”تو کیا ہوا کہہ دینا۔“ پھوپھو سکون سے بولی 
” نہیں اچھا نہیں لگتا۔لیکن باتوں باتوں میں اسے احساس ضرور دلا دوں گی ۔“ اس نے کہا
فرزانہ کے قدم چند لمحے ہی رکے تھے ۔ وہ سمجھ گئی تھی کہ یہ سارا کھیل کیا کھیلا جا رہا ہے ۔ اس سے پہلے کہ وہ باہر جانے کو قدم اٹھاتی ، اس نے فیصلہ کر لیا۔ تبھی اس کے ہونٹوں پر زہریلی مسکان پھیل گئی ۔
٭....٭....٭
بیگم ثروت تیار ہونے کے اٹھ کر اندر چلی گئی۔پھوپھو وہیں باہر کاریڈور میں بیٹھی نجانے کن سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی ۔ جیسے ہی اس کی نگاہ فرزانہ پڑی ، وہ سیدھی ہوکر بیٹھ گئی ۔پھر ادھراُدھردیکھ کر اس نے اپنے قریب آ نے کا شارہ کیا۔ وہ پھوپھو کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی ۔ پھوپھو نے پھر اسے بیٹھنے کا شارہ کیا تو وہ فرش پر بیٹھ کر اس کی طرف دیکھنے لگی ۔ تبھی پھوپھو نے منمناتے ہوئے ہولے سے کہا
” فرزانہ وہ جو تو نے مجھے رقم دی تھی ، وہ آ ج واپس لے جا ، سنبھال کر رکھ لے اپنے پاس ۔“
” میں کہاں رکھوں گی اسے ، میری ماں نے کبھی اتنی رقم نہیں دیکھی، اگر اسے پتہ چل گیا تو مجھے بتانا پڑے گا کہ میرے کیا ہوا اور یہ رقم کہاں سے آ ئی ہے ۔“ فرزانہ یوں سکون سے بولی ، جیسے اس نے یہ سب پہلے ہی سے سوچ رکھا ہو ۔پھوپھو نے درزیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا، اس کے اندر خوف بھر آ یا تھا ۔ وہ جانتی تھی کہ فرزانہ کی کہی ہوئی ایک بات بھی سارا کھیل ختم کر سکتی ہے ۔ انہی لمحوں میں پھوپھو کو احساس ہو گیا کہ اب اسے فرزانہ کو اہمیت دینا ہوگی ۔ نجانے کیوں اسے فرزانہ انتہائی خطرناک لگی ۔
پھوپھو نے چند لمحے فرزانہ کے چہرے پر دیکھا، پھر خوشگوار انداز میں رسان سے بولی 
” ایک کام کرتی ہوں، میں یہ رقم صفیہ کو خود دے آتی ہوں ، اسے کہوں گی کہ یہ تمہارے جہیز کے لئے رکھ لے ۔“
” نہیں، سیدھے رقم مت دو، بلکہ ایک بڑا صندوق لو تھوڑے مزید پیسے ڈال کر اس میں چیزیں رکھو اور میری ماں کو دے کر آﺅ ۔ مزید یہ کہنا کہ اس میں فرزانہ کے جہیز کی چیزیں رکھتی چلی جانا۔“فرزانہ نے اسے سمجھایا تو ایک پھوپھو ایک لمحہ میں سمجھ گئی۔وہ جانتی تھی ، جب تک شعیب کی شادی نہیں ہو جاتی فرزانہ کو قابو کر کے رکھنا ہوگا۔اس لئے ہنستے ہوئے بڑے پیار سے بولی
” چل ٹھیک ہے ، میں کل ہی جا کر یہ سب لیتی ہوں ، اور پھر تمہارے گھر خود لے جاتی ہوں۔“
” بس یہی بات تھی ؟“ فرزانہ نے پوچھا
” ہاں ، یہی بات تھی ۔ مجھے اور ثروت کو ابھی کچھ دیر میں جانا ہے ادھر ثانیہ کے گھر، مجھے لگا شاید مجھے بعد میں وقت نہ ملے ۔“پھوپھو نے وجہ سمجھائی 
” ٹھیک ہے ، جیسے پھوپھو آ پ کہتی ہو ، ویسے ہی کرلینا ، میں اندر جاتی ہوں ۔“ یہ کہتے ہئے وہ اٹھی اور اندر کی جانب چل دی ۔ پھر یوں واپس پلٹی جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو ۔اس نے پلٹ کر پھوپھو سے مسکراتے ہوئے کہا،” اور ہاں ، مجھے ایک سیل فون لے دیں ، آ پ سے بات کرنا پڑتی ہے ۔“
” ٹھیک ہے ، آ ج ہی منگوا دیتی ہوں ۔“ پھوپھو نے کہا تو پلٹ کر جانے لگی ۔پھوپھو اسے جاتا ہوا دیکھ کر بہت کچھ سوچنے لگی تھی ۔
٭....٭....٭
اس وقت ثانیہ اپنے کمرے میں تھی۔طلعت بیگم ٹی وی لاﺅنج میں بیٹھی ہوئی تھی۔ باہر پورچ میں کار رکی اور کچھ ہی دیر بعد پھوپھوفاخرہ اور بیگم ثروت اندر آ گئیں ۔طلعت بیگم انہیں دیکھتے ہی کھل گئی ۔ وہ صوفے پر آمنے سامنے بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔اسی دوران ثانیہ بھی وہیں آ گئی ۔وہ بھی ان سے بڑی خوشی کے ساتھ ملی ۔طلعت بیگم اپنی بیٹی کی خوشی دیکھ رہی تھی ۔ تبھی اسے خیال آیا کہ چائے کے لئے کہہ دے ۔ وہ اٹھنے لگی تو بیگم ثروت نے پوچھا
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *