Saturday 11 November 2017

عشق کا قاف ۔۔۔امجد جاوید ۔۔۔قسط نمبر 10


عشق کا قاف
امجد جاوید
قسط نمبر 10
مغرب ہو چکی تھی اور جنڈ کے درخت سے آگے بچھی صف پر علی۔ درویش بابا اور احمد بخش نماز پڑھ چکے تھے۔ ان تک یہ خبر پہنچ گئی تھی کہ پیراں دتہ نے دن دہاڑے گامن کے گھر میں گھس کر مہرو کو اغوا کر لیا ہے۔ وہ تینوں افسردہ سے تھے کہ احمد بخش نے سوال کیا۔
’’ایسا کب تک چلتا رہے گا علی بھائی۔‘‘
اس پرعلی نے اس کی طرف غور سے دیکھا اور پھر بڑے ہی تحمل سے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ ’’تمہارے سوال میں ہی تمہارا جواب ہے۔ احمد بخش ایسا اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک اس کچی بستی کے لوگ چاہیں گے۔ کسی میں غیرت نہیں تھی کہ آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ روک لیں۔ کیا سب کی عزت سانجھی نہیں ہوتی۔ یہ کچی بستی والے سب مل کر مزاحمت کرتے تو ان کی ہمت تھی کہ وہ یوں مہرو کو لے جاتے۔‘‘
’’یہی تو دکھ ہے، یہاں کی روایت ہے کہ پیر کے حکم کو خدا کا حکم مانا جاتا ہے۔ بظاہر یہ مریدوں پر پیر سائیں کی شفقت ہے کہ ان کی بیٹی کو اس نے خدمت کے لئے چن لیا ہے۔ اس کے بدلے وہ ڈھور ڈنگر، زمین کا ٹکڑایا پھر کوئی اور شے عنایت کر دیتے ہیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ یہ لوگ اسے اپنی خوش قسمتی تصور کرتے ہیں۔‘‘ احمد بخش نے انتہائی افسردگی سے کہا۔
’’سنو۔۔۔ یہ جو دین اسلام ہے نا، یہ بندوں پر بندوں کی حکومت کا قائل ہی نہیں ہے۔ اس کا مقصد، منشاء اور پیغام یہی ہے کہ وہ بندوں سے بندوں کی گردن چھڑا کر ایک اللہ کی بندگی کی طرف راغب کرتا ہے جبکہ یہاں کے انسان اپنی اپنی حکومتوں کو مضبوط کرنے کے لئے، بندوں کو غلام بنانے کے لئے نہ جانے کیسے کیسے ہتھکنڈے آزماتے ہیں۔‘‘ علی نے دکھتے ہوئے لہجے میں کہا تو درویش بابا نے کہا۔
’’اصل میں اللہ پاک نے جو انسان کو اختیار دیا ہے نا، اس کے استعمال کے وقت انسان یہ بھول جاتا ہے کہ اس اختیار کا حساب کتاب بھی دینا ہے اور اللہ اسی اختیار سے انسان کو آزماتا ہے۔‘‘
’’وقت آ گیا ہے درویش بابا، جب ہمارے جیسے لوگ ایک حد میں رہ کر تحمل اور برداشت کو اپنی جان کا حصہ بناتے رہتے ہیں۔ میرے خیال میں۔۔۔‘‘ علی نے کہنا چاہا لیکن بابا تیزی سے بولا۔
’’نہ۔۔۔ فقیر سائیں نہ۔۔۔ ابھی نہیں۔۔۔ اور پھر ہمارا یہ راستہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا ہتھیار تیر، تلوار یا گن نہیں ہے۔ مومن کا ہتھیار تو دعا ہوتی ہے۔‘‘
’’لیکن ایک حد تک درویش بابا، ایک حد تک۔۔۔ جہاں بھی تو مومن کی معراج ہے۔‘‘ 
’’مگر اس وقت جب آپ اپنی قوت رکھتے ہو، تحمل، صبر اور برداشت ایسے ہی مومنوں کے لئے ہوتے ہیں۔ جہاں سے قطعاً انکار نہیں۔ جو منکر ہے وہ کافر ہے لیکن اس کے لئے اللہ کی تائید اتنی ہی ضروری ہے، جس قدر شدت شیطانی قوتوں میں ہوتی ہے۔ ابھی آپ خود ہی کہہ رہے تھے فقیر سائیں کہ کچی بستی والے مزاحمت کیوں نہیں کرتے، کہا ہے نا آپ نے۔‘‘
’’کہا ہے۔‘‘ علی نے دھیرے سے کہا۔
’’وہ مزاحمت کیوں نہیں کر رہے، ایسا اس لئے ہے کہ انہیں مزاحمت کا شعور نہیں۔ وہ پیر کے حکم کو خدا کاحکم تصور کرتے ہیں لیکن جب انہیں معلوم ہو گا کہ دین اسلام کی تعلیمات کے مطابق کس حد تک شیخ کا حکم مانا جاتا ہے، کہاں تک والدین کا اور کس وقت اللہ کا حکم سارے احکامات پر بھاری ہوتا ہے۔ انہیں جب نبی رحمت ﷺ کا طریقہ معلوم ہو گا تو انہیں شعور ہو گا۔ جہالت سب سے بڑی محکومی ہے اور وہ بندے جو بندوں پرحکومت کرتے ہیں۔ وہ جہالت کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ مجھے بتائیں سائیں۔۔۔ انہیں شعور کن لوگوں نے دینا ہے۔ اس طرح کی محکومی سے بندوں کو کن لوگوں نے نکالنا ہے۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں درویش بابا۔‘‘ علی نے قدرے تحمل سے پرسوچ لہجے میں کہا پھر ایک لمحہ توقف کے بعد بولا۔ ’’ہر انسان کا اس دنیا میں ایک خاص کردار ہے۔ اسے اختیار دے کر آزمایا جاتا ہے کہ وہ اپنا کردار بخوبی نبھاتا ہے یا نہیں۔ اب اصل چیز یہی ہے کہ وہ انسان اس دنیا کے لئے اپنے کردار کو پہچانے کیا اس کا کردار اللہ رب العزت کے سامنے شرمندگی کا باعث تو نہیں بنے گا۔‘‘
’’اسی لئے عرض کیا فقیر سائیں کہ ہم دعا کریں۔ اللہ سے مدد مانگیں، اپنی کسی غلطی اور کوتاہی کو تلاش کر کے اللہ سے معافی مانگیں۔ اور محبوب خدا ﷺ کے واسطے اور وسیلے سے توفیق مانگیں کہ اللہ ہم سے کوئی اچھا کام لے لے۔ ہمیں کسی مقصد کے لئے قبول کر لے۔ جس کی وجہ سے ہماری نجات ہو جائے۔‘‘
’’درویش بابا۔۔۔ کیا آپ سمجھتے نہیں ہیں کہ ہمارا یہاں ہونا کس مقصد کے لئے ہے۔ اب ہم یہاں نہیں بیٹھ سکتے، ہمیں ظلم کے خلاف بولنا ہے، عمل چاہیے۔ واعظ اور تبلغ کا اثر کتنا ہوتا ہے۔ یہ ہم دیکھ چکے ہیں۔ خوف کے سائے میں سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔ یہ خوف چاہے معیشت کا ہو یا تحفظ کا۔‘‘
’’آپ ہمیں ثابت قدم پائیں گے فقیر سائیں۔ آپ حکم دیں۔‘‘ درویش بابا نے قائل ہوتے ہوئے کہا۔
’’کھیل تماشا بہت ہو چکا ہے۔ اب عمل کا وقت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے چند لمحے سوچا اور احمد بخش کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’جاؤ احمد بخش شہر جاؤ۔۔۔ وہاں ڈی ایس پی رفاقت باجوہ ہو گا۔ کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں، اسے مل کر بتاؤ کہ مہرو کو سیدن شاہ نے اغوا کر لیا ہے۔‘‘
’’جیسے حکم فقیر سائیں۔‘‘ احمد بخش نے اٹھتے ہوئے کہا۔ وہ ذہن میں اندازہ لگا چکا تھا کہ اگر وہ اونٹ کے ذریعے شہر پہنچ گیا بھی تو کتنا وقت لگے گا۔
’’اور درویش بابا۔۔۔ آؤ، مہرو کے ماں باپ کے پاس چلیں، انہیں ڈھارس دیں کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ شاید کچی بستی کے کسی فرد کے دماغ میں ہماری بات سما جائے کہ مزاحمت بھی کی جاتی ہے۔‘‘ علی نے اٹھتے ہوئے کہا تو درویش بابا بھی اٹھ گیا۔ ان دونوں کا رخ کچی بستی کی طرف تھا جبکہ احمد بخش ان سے پہلے چل دیا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سیدن شاہ اپنے کمرہ خاص میں تھا۔ اس کے ذہن میں لاشعوری طور پر بے چینی تھی۔ وہ بار بار فون کی طرف دیکھ رہا تھا، پچھلی رات سے لے کر آج شام تک اس نے اپنے مخصوص لوگوں سے رابطے کئے تھے لیکن ابھی تک پلٹ کر کسی طرف سے بھی کوئی اشارہ نہیں آیا تھا۔ جس سے صورت حال واضح ہو اور وہ منظر کو سمجھ سکے۔ انسان کی یہ بہت بڑی کمزوری ہے کہ وہ ان دیکھی چیزوں سے نہ صرف خوف کھاتا ہے بلکہ مغلوب بھی ہو جاتا ہے۔ یہ زعم خود وہ چاہے خود کو جتنا مرضی طاقتور خیال کر رہا ہو۔ یہی صورت حال اس وقت سیدن شاہ کی تھی۔ اسے اپنے ہی خیالات ستا رہے تھے۔ اس کا دماغ لمحوں میں منطقی انجام تک پہنچ جانے کی صلاحیت رکھتا تھا لیکن اس وقت اس کا ذہن ماؤف تھا، اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اندھیرے میں وہ کس سمت جائے۔ یہی نہ ہو کہ وہ کسی کھائی میں گر جائے۔ اسے جب کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا تو اس نے اپنا دھیان مہرو کی جانب لگا دیا جو اس شام اس کے ذاتی حرم میں داخل کر دی گئی تھی۔ وہ ہمیشہ سے گرم گرم کھانے کا عادی نہیں تھا۔ اس معاملے میں تو خصوصاً وہ سکون پسند کرتا تھا۔ مہرو اس کے سامنے لائی گئی تو وہ اسے دیکھ کر چونک گیا۔ اس نے پہلے کبھی مہرو کو نہیں دیکھا تھا۔ ممکن ہے کہیں نگاہ بھی پڑی ہو تو وہ اسے دیکھ پایا ہو لیکن اس وقت جبکہ وہ اس کے سامنے تھی، اسے دیکھ کر وہ چونک گیا تھا۔ اسے یوں لگا کوہ جیسے کھلے صحرا کی کوئی ہرنی اس کے سامنے موجود ہو جس نے پہلے کبھی کوئی دیوار نہیں دیکھی ہو۔ وہ کسی اجنبی کی طرح اس کی طرف دیکھے چلی جا رہی تھی جبکہ سیدن شاہ اس کے حسن اور جسم کے سارے رنگ نگاہوں میں تول رہا تھا۔ اسے سانول کا قربان ہو جانا بہت معمولی لگا تھا۔ اس کے لئے تو باقاعدہ جنگ جیتی جا سکتی تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں بہت حسن دیکھا تھا لیکن نجانے اس لاپرواہ حسن میں کیا کشش تھی کہ ایک لمحے کو سیدن شاہ بے تاب ہو گیا تھا۔ لیکن اگلے ہی لمحے وہ سمجھ گیا کہ اگر ا س نے بے صبری دکھائی تو پھل کا وہ ذائقہ نہیں چکھ پائے گا جس کی اسے امید ہو چکی تھی اور پھر دسترس میں آئی ہوئی شے کی اتنی اہمیت بھی نہیں رہتی۔
’’تو یہ ہے مہرو۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے داراں مائی سے کہا۔
’’جی پیر سائیں۔۔۔ آج ہی پیراں دتہ اسے مغرب کے وقت چھوڑ کر گیا ہے۔‘‘ وہ بولی۔
’’تنگ تو نہیں کیا اس نے‘‘ سیدن شان نے اپنے مخصوص انداز میں داراں مائی سے پوچھا تو وہ جلدی سے بولی۔
’’نہیں پیر سائیں۔۔۔ بہت جلد یہاں کے ماحول کو سمجھ جائے گی۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ لے جاؤ اسے۔ بہت جلد میں اسے اپنی خدمت کے لئے بلاؤں گا، یہ تمہاری ذمہ داری ہے اب۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا تو وہ اسے لے کر واپس چلی گئی تھی۔ لیکن سیدن شاہ بہت دیر تک اس کے حسن میں کھویا رہا تھا۔ اب جبکہ بے چینی بہت بڑھ گئی تھی تو اس کے خیال نے پھر سے اسے خوشگوار کر دیا تھا۔ وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔ ایک خوش کن تصور انسان کی کیفیت کو کس قدر بدل دیتاہے۔ تبھی فون کی گھنٹی نے اسے اپنی جانب متوجہ کر لیا۔ اس نے فون اٹھا کر ہیلو کہا۔
’’ہیلو پیر سائیں۔۔۔‘‘ دوسری طرف سے شہر کے ایک معزز ترین شخص کی آواز سنائی دی تو سیدن شاہ اٹھ کر بیٹھ گیا اور بولا۔
’’آج آپ نے بہت انتظار کروایا ملک صاحب۔‘‘ اس کے لہجے میں تجسس تھا۔
’’سائیں۔۔۔ کوئی بات ہاتھ لگتی تو میں آپ کو فون کرتا، میں اس طرف مصروف تھا۔‘‘
’’تو پھر کیا صورت حال ہے؟‘‘ اس نے جلدی سے پوچھا،لہجہ میں بے تابی تھی۔ تبھی دوسری طرف سے ملک صاحب نے قدرے جھجکتے ہوئے کہا۔
’’صورت حال تو اچھی نہیں ہے۔ لیکن ایک طرح سے ہم اسے اچھی بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘
’’وہ کیسے؟‘‘ اس نے تجسس کو دباتے ہوئے تحمل سے پوچھا۔
’’آپ کے بندے وہیں موقع پر ہی پکڑے گئے تھے۔ وہیں خان محمد کے لوگوں نے ہی انہیں پکڑ لیا تھا۔‘‘
’’اب کہاں ہیں؟‘‘
رفاقت باجوہ کے پاس۔‘‘
’’ہائیں۔۔۔ وہ کیسے، اس کے پاس کیسے چلے گئے۔‘‘
’’سیدھی سی بات ہے شاہ جی، وہ لوگ اسے وہاں اس لئے لے گئے تھے کہ خان محمد سے رفاقت باجوہ کی دوستی تھی۔ اور وہ دونوں ہی امین خان کے خاص بندے تھے۔ رفاقت باجوہ نے اپنی طرف سے عقل مندی یہ کی ہے کہ انہیں پکڑ کر کسی نہ معلوم مقام پر رکھا ہوا ہے۔ ظاہر ہے وہ ان سے ہی اگلوانا چاہتا ہے کہ وہ آپ کانام لے دیں۔‘‘
’’پھر۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے دھیرے سے کہا۔
’’شاہ جی۔۔۔ یہ ساری صورت حال شاید مجھے معلوم نہ ہوتی لیکن معلوم اس طرح ہوئی ہے کہ رفاقت باجوہ آپ کے خلاف ڈی آئی جی سے براہ راست احکامات لیناچاہتا ہے۔ اور امین خان اس کا پورا ساتھ دے رہا، بلکہ ساتھ کیا دے رہا ہے اصل میں وہی سب کچھ کر رہا ہے۔‘‘ ملک صاحب نے سانس لیا تو سیدن شاہ نے کہا۔
’’ہوں۔۔۔ تو اس کا مطلب ہے یہ سارا کھیل امین خاں کھیل رہا ہے۔‘‘
’’جی پیر سائیں وہی کھیل رہا ہے۔ لیکن اچھی بات اب تک یہ ہوئی ہے کہ آپ کے بندے ٹھیک نکلے ہیں۔ وہ یہ اقرار کر رہے ہیں کہ خان محمد کو انہوں نے ہی قتل کیا ہے لیکن وہ یہ ماننے سے انکاری ہیں کہ اس قتل سے آ پ کا کوئی تعلق ہے۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے ہنکارا بھرا۔
’’اب صورت حال یہ ہے شاہ جی کہ ڈی آئی جی نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ رفاقت باجوہ کی ساری بات اس وقت مان لے گا اگر وہ بندے اس کے سامنے اقرار کر دیں کہ اس قتل کا تعلق سیدن شاہ سے ہے۔ اگر وہ اقراری ہو جاتے ہیں تو رفاقت باجوہ کو من پسند احکامات مل جائیں گے جو شاید ا س نے ٹائپ بھی کروا لئے ہوئے ہیں۔‘‘
’’ڈی آئی جی نے کوئی وقت دیا ہے اسے؟‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’صرف ایک دن اور دیا ہے۔ آپ کا نام آئے یا نہ آئے۔ باجوہ ان بندوں کو چھوڑنے کے موڈ میں نہیں ہے۔ ان کا کیس تیار ہے وہ کل گرفتاری ڈالے گا اور معاملے ختم ۔ ایک آپشن پھر بھی رہ جائے گا جس کی و جہ سے وہ آپ کو عدالت میں گھسیٹ سکتا ہے۔‘‘
’’میں سمجھ گیا وہ میری گاڑی ہو گی۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ میرا خیال ہے وہی آپشن ہے اس کے پاس۔‘‘
’’خیر۔۔۔ اس کا تو میں نے بندوبست کر لیا ہے۔ چوری کی ایف آئی آر درج کروادی تھی۔‘‘
’’یہ تو آپ نے بہت اچھا کیا۔ خیر۔۔۔ اب میرے لئے کیا حکم ہے۔‘‘
’’ملک صاحب۔۔۔ میں ہمیشہ آپ کے کام آیا ہوں۔ کبھی آپ کو کوئی کام نہیں کہا۔‘
’’جی میں جانتا ہوں اور ہر طرح کی خدمت کے لئے تیار ہوں۔ آپ حکم تو کریں یہ دیکھیں جو میں نے آپ کو صورت حال بتائی ہے کیااتنی جلدی اور اتنی اندر کی خبر کوئی اور لا سکتا ہے۔ یہ تو اپنے پرانے تعلقات اور اثر و رسوخ کام آ گئے۔ ورنہ اس معاملے کی خبر تو بہت کم لوگوں کو ہے۔‘‘
’’میں سمجھ رہا ہوں ملک صاحب۔۔۔ اب آپ ہی کوئی مشورہ دیں۔‘‘
’’یہی کہ آپ خاموش ہو جائیں۔ بندے جیسے ہی عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ انہیں پورا سپورٹ دیں۔ سامنے آئے بغیر ۔ ممکن ہے ان کے بچاؤ کی کوئی صورت نکل آئے۔‘‘
’’یہ بڑا لمبا پراسس ہے ملک صاحب۔۔۔ کوئی ایسا کام کر یں کہ معاملہ یہیں پر ختم ہو جائے۔ جو جتنا خوش ہوتا ہے اسے اتنا کر دیں۔‘‘
’’اتنا سر درد لینے کی کیا ضرورت ہے شاہ جی آپ کے پاس بندوں کی کمی ہے۔‘‘
’’نہیں ملک صاحب۔۔۔ دراصل سالانہ عرس میں فقط ایک مہینہ رہ گیا ہے۔ بچے بھی برطانیہ سے آ رہے ہیں۔ وہ دو ہفتے پہلے آ جائیں گے۔ پھر عرس کے بعد مجھے ان کے ساتھ ہی جانا ہے۔‘‘
’’میں ہوں نا، سب دیکھ لوں گا۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے ملک صاحب۔۔۔ لیکن اپنے ہی بندے نہ نکل سکیں۔ یہ تو بہت بری بات ہے۔ خیر۔۔۔ میں صبح شہر آتا ہوں۔ وہیں بیٹھ کر تفصیلی بات کرتے ہیں۔ آپ بہرحال کوشش کریں۔‘‘
’’ٹھیک ہے آپ صبح آ ئیں۔ میرے خیال میں اس کاکوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔ ممکن ہے میں صبح کا ناشتہ ڈی آئی جی صاحب کے ساتھ کروں۔ بہرحال آپ ا طمینان سے آ جائیے گا۔ میں کوئی اچھی خبر ہی آپ کو سناؤں گا۔‘‘ ملک صاحب نے کہا اور پھر چند رسمی جملوں کے بعد فون بند کر دیا گیا۔
سیدن شاہ نے بھی رسیور رکھ دیا۔ اورسوچ میں پڑ گیا۔ اسے گمان نہیں تھا کہ معاملہ اس حد تک جاسکتا ہے اور شاید جاتابھی نہ اگر اس میں امین خاں نہ ہوتا۔ یہ تواسے معلوم تھا کہ امین خاں ہی اس کا روایتی حریف ہے اور اسے نیچا دکھانے کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتاہے۔ تاہم وہ اس کی طرف سے ابھی تک غافل ہی تھا۔ سیدن شاہ نے اس کے ساتھ اپنا معاملہ فقط الیکشن تک ہی رکھا تھا۔ وہ ختم ہوئے تو دھیان کبھی  امین خاں کی نہیں آیا تھا۔ اس وقت اسے اپنی غلطی کا احساس ہو رہاتھا کہ اس نے امین خاں پر نگاہ کیوں نہیں رکھی۔اگر وہ دبا کر رکھا گیا ہوتا تو آج اس طرح کی صورت حال سے اس کا واسطہ ہی نہ پڑتا۔ اسے حیرت یہ ہو رہی تھی کہ امین خاں اس کے خلاف کس قدر محنت کر رہاتھا۔ ڈی ایس پی سطح کے بندے کو پالنا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ اگر وہ رفاقت باجوہ کو اپنی مرضی کے مطابق چلا سکتا ہے تو بلاشبہ اس نے اور بہت سارے معاملات کو بھی اپنے ہاتھ میں کیا ہو گا۔ اس نے کہاں کہاں گھات لگائی تھی۔ ا س کا اندازہ سیدن شاہ کو نہیں ہو سکتاتھا۔ یہی سوچتے ہی اسکی رات گزرتی چلی گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
رات کا دوسرا پہر ختم ہونے کو تھا۔ شہر سے باہر ویران ڈیرے پر مدقوق سابلب جل رہا تھا جس کی روشنی رات کے اندھیرے میں ہانپتی ہوئی لگ رہی تھی۔ ہر طر ف سناٹا تھا۔ جھینگر ہی اس سناٹے کو توڑنے کے لئے ہلکان ہو رہے تھے۔ ایسے میں ایک سفید رنگ کی کار اس ڈیرے پر آ رکی تو کونے کھدروں میں چھپے ہوئے چوکیدار اپنی گنیں سیدھی کرتے ہوئے اٹھ گئے۔ وہ پوری طرح چوکنا تھے اور پوری توجہ سے آنے والے پرنگاہ رکیے ہوئے تھے۔ کار آتے ہی اس میں سے رفاقت باجوہ نکلا جوعام لباس میں تھا۔ اس نے کے ساتھ ہی احمد بخش باہر آیا۔ اسے دیکھتے ہی چوکیداروں نے سلام کیا اور ایک نے آگے بڑھ کر ڈیرے کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ رفاقت باجوہ اندر چلا گیا۔ تعفن کے بھبکے نے اس کا دماغ سن کر دیا۔ ننگے فرش پروہ تینوں پڑے ہوئے تھے۔ پتہ نہیں وہ مدہوش تھے یا سو رہے تھے۔ رفاقت باجوہ نے جاتے ہی رب نواز کے ٹھوکر ماری تو وہ ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔
’’ک۔۔۔ ک۔۔۔ کون۔۔۔؟‘‘
’’تیرا باپ ہوں۔ اٹھ۔‘‘ اس نے سختی سے کہا۔ تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ گیا۔ اس کی آواز سن کر سیدو اور ڈرائیور بھی اٹھ گئے۔ کمرے کے اندر جلتے ہوئے بلب کی روشنی میں انکارنگ پیلا ہوتا ہوا واضح محسوس ہوا۔ وہ شاید ذہنی طور پر تشدد کے لئے تیار ہو چکے تھے۔
’’اس وقت رات کے ساڑھے تین ہو رہے ہیں اورتم لوگوں کوپتہ ہے کہ میں کیوں آیا ہوں؟‘‘
’’رفاقت باجوہ کے لہجے میں ایسی غراہٹ تھی جس سے وہ خوف زدہ ہو گئے۔ ان میں سے کوئی بھی نہ بولا تو اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’مجھے معلوم ہے کہ تم لوگ اب بھی اپنے باپ سیدن شاہ کانام نہیں لو گے۔‘‘
’’ہم اگرنام لیتے ہیں تو صرف ہم ہی نہیں ہمارے بچے بھی مر جائیں گے۔‘‘ سیدو نے تقریباً روتے ہوئے کہا۔
’’یہ تو پہلے سوچنا تھا نا۔ تمہارا کیا خیا ل ہے، تم لوگ پھانسی سے بچ جاؤ گے۔ میں اگرتم لوگوں کی مارکر یہیں دبا دوں تو مجھے کوئی پوچھنے والا نہیں ہو گا۔ مگر وہ بے غیرت بچ جائے گا جو اصل مجرم ہے۔‘‘
’’ہم مجبور ہیں مائی باپ، آپ صبح ہمیں عدالت میں پیش کر دیں۔ ہم خان محمد کاقتل قبول کر لیں گے۔‘‘
’’تم قبول کرو نہ کرو۔۔۔ لیکن یہ رب نواز قبول کرے گا۔‘‘ رفاقت باجوہ کے لہجے میں طنز تھا۔
’’یہ تمہاری بھول ہے ڈی ایس پی۔۔۔‘‘ رب نواز نے کہا جو اب تک خود پر قابو پاچکاتھا۔
’’اس کانام نہیں لو گے نا، جس نے آج شام تیری بہن مہرو کو تیرے گھر سے اٹھوا لیا ہے۔ پیراں دتہ اسے حویلی چھوڑ آیا ہے۔‘‘
’’نہیں، تم جھوٹ بولتے ہو۔‘‘
’’اگر یہ سچ ہوا تو۔۔۔؟ خیر۔۔۔ یہ تو بعد کی بات ہے کہ تم کیا کرو گے، پہلے میں تصدیق کرادوں ۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے احمد بخش کوآواز دی۔ وہ کمرے میں آیا تو انہیں دیکھ کر ایک دفعہ تو خوف زدہ ہو گیا۔ تشدد سے ان کی حالت ابتر ہو چکی تھی۔
’’جی۔‘‘ احمد بخش نے صرف اتناکہا۔
’’بتا۔۔۔ اس رب نوازکوبتاکہ تو کیا خبر لے کر آیا ہے۔‘‘ رفاقت باجوہ نے کہاتو احمد بخش نے تمام روداد کہہ دی۔ جیسے جیسے وہ سنتا چلا جا رہاتھا، اس کی حالت بدلتی چلی جا رہی تھی۔ جیسے ہی احمد بخش نے بات ختم کی تو وہ چیخ اٹھا۔
’’جھوٹ ہے۔ سب جھوٹ ہے۔ پیر سائیں ایسے نہیں کر سکتے۔‘‘
’’ایسا ہو گیا ہے رب نواز۔۔۔‘‘ رفاقت باجوہ نے دھیرے سے کہا۔ چند لمحے اس کی طرف سے رد عمل کاانتظار کرتا رہا۔ وہ کچھ نہ بولا۔ بس ساکت سارہا تو باجوہ نے کہا۔
’’جو اسے اپنی جائز بیوی بنانا چاہتا تھا۔ تمہاری وہی بہن مہرو۔۔۔ تیرے پیر سائیں کی سیج پر ہو گی۔ کیا وہاں تیری بہن کی عزت محفوظ رہے گی یا پھر کوئی گھر کا پیر لے کر آ جائے گی۔بول۔۔۔ کہاں مر گئی تیری غیرت وہ پیر اگر تیری بہن کے ساتھ کھیلے گا تو اس کی عزت خراب نہیں ہو گی۔‘‘
’’بس کرو۔۔۔ بس۔۔۔‘‘ رب نواز چیخ اٹھا۔ ’’اگر ایسا ہوا تو میں سیدن شاہ کو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔‘‘
’’چل میرے ساتھ طے کر۔۔۔‘‘ رفاقت باجوہ نے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’اگر میری بات سچ ہوئی تو تم سیدن شاہ کے خلاف عدالت میں بیان دے دو گے۔  میں جانوں یا سیدن شاہ۔ اسے پھانسی کے پھندے تک پہنچانا میراکام ہے۔‘‘
رب نواز نے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہا۔
’’مجھے قسم ہے میری بہن کی عزت کی، میں اپنے وعدہ سے نہیں پھروں گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے کل، صبح تیرا باپ آ کر تجھے بتادے گا کہ تیری بہن کو حویلی پہنچا دیا گیا ہے۔‘‘ رفاقت باجوہ نے کہا اور اٹھ گیا۔ اس نے کھڑے کھڑے دوسروں پر نگاہ دوڑائی تو خوف سے ان کے رنگ زرد ہو چکے تھے۔ اس نے کچھ بھی نہ کہا اور واپس چلا گیا۔ چوکیداروں نے اس کمرے کا دروازہ پھر سے بند کر دیا جس کے اندر پڑارب نواز تلملا رہا تھا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس وقت دوپہر ہو جانے والی تھی جب سیدن شاہ کی لگژری کار ملک امتیاز کی وسیع و عریض کوٹھی کے پورچ میں رکی۔ ملک امتیاز اس کا استقبال کرنے کے لئے پہلے ہی کایڈور میں کھڑا تھا۔ پر جوش مصافحے کے بعد وہ اسے اپنے شاندار ڈرائینگ روم میں لے گیا۔ جبکہ سیدن شاہ کے ساتھ آئے دوسرے لوگوں کو گیسٹ ہاؤس بھجوا دیا گیا۔ ڈرائینگ روم میں وہ دونوں تنہا تھے۔ ان کے سامنے مشروبات کے ساتھ دیگر لوازمات سجا دئیے گئے۔
’’جی ملک صاحب۔ اب تک کوئی پیش رفت ہوئی۔‘‘ سیدن شاہ نے پہلو بدلتے ہوئے بظاہر تحمل سے کہا۔
’’شاہ جی۔۔۔ میری سب سے بات ہو گئی ہے۔ ڈی آئی جی صاحب تو پہلے ہی سے مہربانی کر رہے ہیں ورنہ اب تک سارا کھیل ہی ہاتھ سے نکل چکا ہوتا۔ انہوں نے آج شام تک کے لئے باجوہ کو وارننگ دے دی ہے یا تو بندے پیش کر کے احکامات لے لے یا پھر ان بندوں کی گرفتاری ڈالے۔‘‘
آپ کو یقین ہے کہ آپ شام تک بندوں کی گرفتاری ڈال دی جائے گی۔‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’بالکل مجھے پورا یقین ہے۔‘‘ ملک نے پورے اعتماد سے کہا۔
’’ملک صاحب۔۔۔ جب بندوں کی گرفتاری ہو گئی۔ پھر تو بات آگے کی آگے ہی نکل جائے گی۔‘‘ اس نے الجھتے ہوئے کہا۔ جس پر ملک ہنس دیا۔
’’ارے شاہ جی۔۔۔ گرفتاری کون سا باجوے نے ڈالنی ہے۔ وہ تو متعلقہ تھانے میں پیش ہوں گے۔ جہاں پر کارروائی انسپکٹر نے کرنی ہے۔ اسی دوران بندے غائب ہو جائیں گے۔ پھر نہ بندے ہاتھ آئیں گے اور نہ کوئی بات بڑھے گی۔ دو تین ماہ میں یہ سارا معاملہ ہی گول ہو جائے گا۔‘‘
اچھا تو یہ بات ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے اطمینان کا سانس لیا۔
’’آج میں نے سارا دن یہی کیا ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ باجوہ کسی پربھی اعتماد نہیں کر رہاہے۔ اس نے بندے نجانے کہاں رکھے ہوئے ہیں۔ اس لئے نہ اس سے کوئی بات ہوئی ہے اور نہ ہی اسے کسی معاملے کی ہوا لگنے دی جا رہی ہے۔ بات میرے اور ڈی آئی جی صاحب کے درمیان ہے۔ انہوں نے ہی ذمہ داری لی ہے کہ سارا کام خوش اسلوبی سے ہو جائے گا۔‘‘
’’پھر تو وہ بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘ سیدن شاہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
’’اچھے ہیں یانہیں، یہ تو رب ہی جانتا ہے۔ اصل میں وہ خود بھی آپ تک بات نہیں پہنچانا چاہتے ہیں۔ ظاہر ہیں آپ رکن اسمبلی ہیں۔ آپ کی گرفتاری سے قبل سو معاملے انہیں در پیش ہوں گے۔ ان کے اچھلے بھلے معاملات چل رہے ہیں وہ کیوں سردردی لیں۔‘‘ ملک نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’یہ معاملہ نمٹ جائے تو امین خان کو دیکھتے ہیں۔ میں اسے شہر چھوڑنے پر مجبور کردوں گا۔‘‘ سیدن شاہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
’’اصل میں شاہ جی آپ چھوٹے معاملات پر توجہ نہیں دیتے ہیں۔ شہر کی ساری سیاست کو وہ اپنے اردگرد گھما چکا ہے۔ حالانکہ یہ آپ کو کرنا چاہیے تھا۔ یہ آپ کو ماننا پڑے گا کہ اس نے محنت کی اور اپنی گرفت مضبوط کر چکا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ آنے والے الیکشن کے لئے وہ پوری دیوانگی کے ساتھ محنت کرتا چلا جا رہا ہے۔‘‘
’’ملک صاحب۔۔۔ ٹھیک ہے کہ یہ سیٹ ہمارے خاندان کی آبائی سیٹ ہے مگر یہ میرے لئے اتنی اہمیت نہیں رکھتی کہ اس کے لئے اپنی پوری جان لڑا دی جائے۔ میں نے اس بار سوچا ہے کہ اپنے بیٹے قاسم شاہ کو الیکشن لڑاؤں اور خود یہ چھوٹے موٹے معاملات دیکھتا رہوں۔‘‘
’’آپ نے بہت ٹھیک سوچا ہے شاہ جی، دنیا بہت بدل گئی ہے۔ کہاں چند اخبار تھے جن کے صحافی ہمارے خرچ پر پلتے تھے اور کہاں آج ملک میں میڈیا کا انقلاب آ گیا ہے۔ یہ تو اچھا ہے کہ ہم جنوبی پنجاب کے پس ماندہ ترین علاقے میں ہیں اور اس عوام پر گرفت مضبوط رکھنے کے لئے اتنی محنت نہیں کرنی پڑتی۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا۔ جہالت کے اندھیرے میں ایک کرن بھی چمک اٹھی تو ہماری گرفت نہیں رہے گی۔ بہت محتاط ہونا پڑے گا۔ بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔‘‘
’’میں غافل نہیں ہوں ملک صاحب۔۔۔ ان سارے معاملات کو سمجھتا ہوں۔ بہرحال آپ تیار رہیں کہ اس بار ایم پی اے کا الیکشن آپ نے لڑنا ہے۔‘‘
’’نہ جی۔۔۔ مجھے تو معاف رکھیں۔ ہاں بیٹا اگر چاہے گا تو ضرور حصہ لیں گے۔ ہم ایسے ہی آپ جیسے احباب کی خدمت کریں، یہی بہت ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے سیدن شاہ کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔ ’’آئیں شاہ جی کھانا کھاتے ہیں۔‘‘
دونوں اٹھ گئے اور کھانے کی میز تک گئے جہاں انتہائی پرتکلف کھانا چنا ہوا تھا۔ کھانے کے دوران بھی یونہی ہلکی پھلکی گفتگو چلتی رہی۔ کھانے سے فراغت کے بعد وہ پھر ڈرائینگ روم میں آ گئے۔ اگرچہ سیدن شاہ کے من میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی لیکن وہ ظاہر نہیں کر رہاتھا۔ اسے بہت کوفت محسوس ہو رہی تھی کہ وہ کسی کے پاس آ کر بیٹھا ہوا ہے اور اس کی باتیں سن رہا ہے۔ گفتگو کا سلسلہ جاری تھا کہ فون آ گیا۔ ملک امتیاز نے فون سکرین پر نمبر دیکھے اور چونک گیا اور تیزی سے بولا۔
’’ڈی آئی جی صاحب کا فون ہے۔‘‘
’’سنیں کیا کہتا ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے اپنا تجسس ضبط کرتے ہوئے اطمینان سے کہا تو ملک نے فون آن کر دیا۔ رسمی سی باتوں کے بعد اس نے سنا اور پھر ہوں، ہاں کرتا رہا۔ اس کے چہرے پر تاثرات بدل گئے تھے۔ چند منٹ گفتگو کے بعد وہ بولا۔
’’ٹھیک ہے سر۔۔۔ میں مشورہ کر کے ابھی آپ کو بتاتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے فون بند کر دیا اور انتہائی افسردہ سا ہو کر بیٹھ گیا۔ چند لمحے اس کیفیت میں رہنے کے بعد بولا۔
’’شاہ جی سارا معاملہ ہی گڑبڑ ہو گیا ہے۔ رفاقت باجوہ کامیاب ہو گیا ہے۔‘‘
’’کیا کہہ رہے ہیں آپ ملک صاحب۔۔۔؟‘‘
’’میں نے آپ کو بتایا ہے نا کہ ڈی آئی جی نے باجوہ کو آج شام تک کا وقت دیا تھا۔ ابھی وہ ان کے پاس آیا ہے۔ بقول اس کے آپ کا ایک بندہ بَک گیا ہے کہ انہوں نے قتل سیدن شاہ کے کہنے پر ہی کئے ہیں۔ باقی ابھی دو نہیں مانے۔‘‘
’’کون بکا ہے۔۔۔؟‘‘ سیدن شاہ نے تیزی سے پوچھا۔
’’رب نواز نامی آدمی ہے۔‘‘ ملک نے کہا اور پھر تیزی سے بولا۔ ’’وہ یہی بتا رہے تھے کہ باجوہ باقاعدہ بیان لے کر آیا ہے اور آپ کے خلاف احکامات مانگ رہاہے۔‘‘
’’اسے کیا ہو گیا۔‘‘ سیدن شاہ نے بڑبڑاتے ہوئے کہا تو ملک بولا۔
’’یہ تو بعد میں سوچا جا سکتا ہے شاہ جی، اصل معاملہ تو یہ ہے کہ نا کہ اب اس صورتحال میں کیا کیا جائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ ایک دو گھنٹے اسے ٹال سکتا ہے۔‘‘ ملک نے گھمبیر لہجے میں کہا۔
’’کیا کہتے ہو آپ۔۔۔؟ کیا کرنا چاہیے۔‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’اس سارے معاملے کی جڑ کو پکڑنا ہو گا شاہ جی۔‘‘ ملک نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ہمیں امین خان سے بات کرنا ہو گی۔ وہ اگر مان گیا تو سب ٹھیک ہو جائے گا اور ظاہر ہے وہ کچھ دو کچھ لو پر ہی معاملہ طے کرے گا۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ سیدن شاہ نے ہنکارا بھرا اور پھر صوفے پر سیدھا ہو گیا۔ ٹھہرے لہجے میں بولا۔ ’’ کون کرے گا اس سے بات۔۔۔ اور پھر اتنی جلدی معاملہ کیسے حل ہو جائے گا۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ ہم ڈی آئی جی صاحب کو اس معاملے میں ڈال لیتے ہیں۔ انہیں تو ساری کہانی کا پتہ ہے اور پھر وہ ہم پر مہربانی بھی کر رہے ہیں۔ آفٹر آل وہ آفیسر ہے، بہت کچھ کر سکتا ہے۔ اگر امین خان سے بات کرنا بھی پڑی تو وہی کریں گے۔ کیا خیال ہے؟‘‘
’’ملک صاحب۔۔۔ جب آپ اس معاملے کو دیکھ رہے ہیں تو پھر آپ ہی اسے حل کریں۔ جو کرنا ہے کریں۔ شام تک معاملہ حل ہو جانا چاہئے۔‘‘
’’میں بات کرتا ہوں۔‘‘ مل امتیاز نے فون ملایا اور ڈی آئی جی سے باتیں کرنے لگا، پھر گفتگو کا اختتام یہی پر ہوا کہ وہ خود ان کے پاس آ رہا ہے۔
تقریباً آدھے گھنٹے کے بعد ڈی آئی جی بھی ان کے ساتھ ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس نے ساری تفصیل بتا کر کہا۔
’’شاہ جی۔۔۔ باجوہ مجھ پر اعتماد کر رہا ہے لیکن بہت محتاط بھی ہے۔ وہ ایک ہی بندہ پیش کر رہا ہے جو اس وقت بھی میرے آفس میں بیٹھا ہوا ہے۔ جو میرے سامنے بیان دے چکا ہے اور یہ بیان تحریر کی صورت میں بھی آ گیا ہے۔ یہ دیکھیں اس کی فوٹو کاپی۔‘‘
سیدن شاہ نے وہ بیان دکھایا اور پھر ملک امتیاز کی جانب بڑھا دیا۔ وہ پڑھ چکا تو ملک بولا۔
’’اب اس کا حل کیا ہے سر۔۔۔‘‘
’’یہ تو ممکن ہے کہ بندہ عدالت میں جا کر اپنا بیان بدل دے لیکن مجھے نہیں لگتا۔ باجوہ بہت بااعتماد ہے اسے یقین ہے کہ وہ بندہ عدالت میں جا کر بیان نہیں بدلے گا۔‘‘
’’اس کے یقین کی وجہ۔۔۔؟‘‘ ملک نے پوچھا۔
’’یہ تو وہی بتا سکتا ہے۔ اس لئے اس نے باقی بندے پیش نہیں کئے۔‘‘
’’تو پھر ایسا کرتے ہیں کہ جیسا کہ ہمارے درمیان طے تھا، بندے کو بھگا دیتے ہیں۔ آپ باجوہ سے ہینڈ اور کر لیں یا پھر اسے پولیس مقابلے میں۔۔۔‘‘ ملک نے رائے دی۔
’’باجوہ بہت سیانا بندہ نکلا ہے۔ وہ میڈیا کے سامنے بندے کو ہینڈ اور کرنا چاہ رہا ہے۔ اسی لئے میں نے آپ سے دوبارہ رابطہ کیا ہے کیونکہ وہی رب نواز سانول نامی کسی شخص کے قتل کا بھی اعتراف کر چکا ہے اور یہ قتل بھی شاہ صاحب کے کھاتے میں ڈال رہا ہے۔ اس معاملے پر ان کی بہت گرفت ہے۔ آپ کو معلوم ہی ہے کہ باجوے کے پیچھے کس بندے کا ہاتھ ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔‘‘ سیدن شاہ اچانک بولا۔ ’’کیا چاہتے ہیں وہ۔‘‘ اس کا لہجہ حتمی تھا۔
’’میں نے اپنے طور پر امین خان سے بات کی تھی۔ ان دنوں میری اس سے خاصی ملاقاتیں رہی ہیں اس کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ شاہ جی کی پگڑی اچھالی جائے۔ ظاہر ہے اگر شاہ جی ایک بار بھی پولیس کی حراست میں آ جاتے ہیں تو بات کہاں سے کہاں پہنچ جائے گی۔ یہ تو وہ بھی جانتے ہیں۔‘‘ ڈی آئی جی نے صورت حال واضح کر دی تو سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’آپ کا کیا خیال ہے، ہمیں کیا کرنا چاہیے۔‘‘
’’امین خان سے بات۔۔۔ ظاہر ہے وہ کوئی نہ کوئی شرط رکھے گا۔ آپ کو قبول ہوئی تو ٹھیک ورنہ پھر جو آپ حکم کریں، معاملہ تو ویسے ہی ہو گا۔ میں اسے یہیں ختم کرنا چاہتا ہوں کیونکہ اس وقت معاملہ میرے ہاتھ میں ہے۔ جب معاملہ ہاتھ سے نکل گیا تو پھر میں کچھ نہیں کر پاؤں گا۔‘‘ اس نے اپنی پوزیشن واضح کر دی۔
’’ٹھیک ہے تو پھر آپ بات کریں۔‘‘ سیدن شاہ نے اپنا عندیہ دے دیا۔
’’میں نہیں ملک صاحب کریں۔ انہوں نے کون سا اس سے بگاڑی ہوئی ہے۔‘‘ ڈی آئی جی نے کہا تو ملک نے امین خان کے نمبر ملائے۔ لمحوں میں اس سے رابطہ ہو گیا۔ رسمی سی باتوں کے بعد ملک نے کہا۔
’’خان سائیں۔۔۔ بندوں پرمعاملات پڑتے ہی رہتے ہیں۔ آپ مہربانی کریں اور باجوہ سے ہاتھ اٹھا لیں۔ آپ جو حکم دیں گے، ہم ماننے کو تیار ہیں۔‘‘
’’دیکھیں ملک صاحب۔۔۔ آپ بھی جانتے ہیں کہ اس میں کتنی انوسٹمنٹ ہوئی ہے۔ دو الیکشن میں ہار چکا ہوں، کیا آپ مجھے یہ حق ہی نہیں دیتے کہ میں بھی الیکشن جیتنے کے لئے محنت کروں۔‘‘
’’آپ فرمائیں ہمیں کیا کرنا ہے۔‘‘
’’یہ باتیں فون پر تو نہیں ہو سکتیں نا، آپ کیسی بچوں جیسی باتیں کر رہے ہیں ملک صاحب۔‘‘ امین خان کے لہجے میں غرور چھلک رہا تھا۔
’’تو پھر آپ میرے غریب خانے پر تشریف لے آئیں۔ یہاں وہ لوگ بھی موجود ہیں جن سے سیدھا معاملہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ میری بات سمجھ رہے ہیں نا۔‘‘
’’میں سمجھ گیا ہوں۔ مجھے ملاقات میں کوئی عار نہیں ہے۔‘‘ امین خان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’تو میں انتظار کروں گا۔‘‘ ملک نے پوچھا۔
’’میں آدھے گھنٹے میں آ رہا ہوں۔‘‘ امین خان نے کہا اور فون بند کر دیا۔ ملک نے تفصیل بتا دی۔
’’امین خان کے استقبال کے لئے ملک امتیاز خود پورچ تک گیا۔ اس کے ساتھ سیکورٹی کا ایک لشکر تھا۔ وہ اگر آیا تھا تو اپنا بندوبست کر کے آیا تھا۔ وہ دونوں ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے تو امین خان ڈی آئی جی کودیکھ کر چونک گیا۔ وہ سیدن شاہ کے گلے ملا۔ پر جوش مصافحہ کیا اورپھر اطمینان سے بیٹھنے کے بعد بولا۔
’’جی فرمائیں۔۔۔ کیا حکم ہے میرے لئے۔‘‘
’’آپ ساری بات سمجھتے ہیں اورجانتے ہیں۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔ آپ ہمارے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں۔‘‘ ملک امتیاز نے بہت تحمل سے کہا۔
’’دیکھیں ملک صاحب۔۔۔ ہم سیاست دان ہیں۔ جیسا کہ فون پر بات ہوتی ہے۔ ہم یہ محنت کس لئے کرتے ہیں؟‘‘ امین خاں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہم آپ کا سا را نقصان پورا کر دیتے ہیں۔ بولیں۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا۔
’’شاہ جی۔۔۔ جتنے آپ کے اثاثے ہیں، اس سے اگر دو گنے نہیں تو آپ کے برابر ضرور ہیں، میرے پاس دولت کی کمی نہیں۔ ایسے دس الیکشن میں بھگتادوں تومیراکچھ نہیں بگڑے گا۔‘‘
’’تو پھر کیا چاہتے ہیں آپ؟‘‘ ملک امتیاز نے حتمی انداز میں پوچھا۔
’’اس بار تو شاہ جی استعفیٰ دیں اور آنے والے الیکشن میں حصہ نہ لیں۔ میرا مطلب ضمنی الیکشن سے ہے۔‘‘
’’بس یہی مطالبہ ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’فی الحال تو اتنی سی بات ہے۔‘‘ امین خان نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ہو گیا۔۔۔ میں ابھی استعفیٰ دیتا ہوں لیکن یہ کیا گارنٹی ہے کہ خان محمد والا معاملہ صاف ہو جائے گا۔‘‘ سیدن شاہ نے پوچھا۔
’’آدھے گھنٹے کے اندر بندے چھوڑ دئیے جائیں گے۔ پھر آپ کا معاملہ ہے کہ آپ ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ یا پھر آپ بتا دیں کہ آپ کیسی گارنٹی چاہتے ہیں؟‘‘ امین خان نے گیند ان کے کورٹ میں پھینک دی۔
’’ٹھیک ہے۔ مجھے آپ کی زبان پر بھروسہ ہے۔ میرا استعفیٰ ملک صاحب کے پاس رہے گا۔ آپ بندے چھوڑ دیں۔ میں پریس کانفرنس میں استعفیٰ کا اعلان کر کے حویلی چلا جاؤں گا۔ شام ہونے سے پہلے استعفیٰ آپ سمیت سب کی طرف روانہ کر دیا جائے گا۔‘‘
’’اور اگلا الیکشن۔۔۔؟‘‘ امین خان نے وضاحب چاہی۔
’’میں نہیں لڑوں گا۔ یہ میرا وعدہ رہا۔‘‘ سیدن شاہ نے یقین دہانی کرائی۔ پھر ملک امتیاز کی طرف دیکھ کر بولا۔ 
’’ملک صاحب۔۔۔ اپنے کسی بندے کو بلوائیں۔ وہ میرا استعفیٰ ٹائپ کر لائے۔ میں دستخط کر دیتا ہوں۔
معاملہ طے پاتے ہی ہر بندہ مصرف ہو گیا۔ ڈی آئی جی نے رفاقت باجوہ کو حکم دے دیاکہ وہ سارے بندے لے کر فوراً آفس پہنچے۔ امین خان نے اللہ بخش کو پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس کا بندوبست کرنے کا کہا۔ ملک نے سیدن شاہ کا استعفیٰ ٹائپ کر وایا۔
اس وقت شام ہو رہی تھی۔ جب امین خان فتح یاب ہو کر ملک کی کوٹھی سے نکلا۔ اس کے ہاتھ میں سیدن شاہ کا استعفیٰ تھا۔ رفاقت باجوہ کو سمجھا بجھا کر اور ایک لمبی رقم دے کر منالیا گیا تھا کہ بندے چھوڑ دے۔ وہ بندے گاڑی میں بیٹھ کر حویلی کی طرف چلے گئے تھے۔ اورسیدن شاہ اپنے ذہن میں بہت ساری انتقامی سوچیں لئے واپس پلٹ پڑا تھا۔ زندگی میں پہلی بار اس نے ہزیمت اٹھائی تھی۔ اس دن اسے احساس ہوا کہ کوئی اوربھی اسے شکست سے دو چار کر سکتا ہے۔ سورج ڈھل رہا تھا جب وہ شہر سے نکلا۔
*۔۔۔*۔۔۔* 
رب نواز گاڑی کی پچھلی نشست پر بیٹھا ہوا نتہائی بے تاب تھا، اس کا بس نہیں چل رہاتھا کہ اڑ کر حویلی پہنچ جائے۔ اس کے دل میں سیدن شاہ کے لئے انتقام کی آگ بھڑک اٹھی وہ ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے ختم کر دینا چاہتا تھا۔ اس نے تو چاہا تھا کہ سیدن شاہ کو عدالت میں بے نقاب کرے۔ لیکن پتہ نہیں کیا ہوا کہ رفاقت باجوہ نے ان سب کو جانے کے لئے کہہ دیا۔
’’یہ سب کیا ہے باجوہ صاحب۔۔۔ پہلے آپ نے ہم پر تشدد کی انتہا کر دی۔ لیکن ہم نہیں مانے۔ اب جبکہ میں پورے یقین سے۔ پورے خلوص کے ساتھ آپ کی مرضی کے مطابق چلنے کے لئے تیار ہوں تو آپ ہمیں کیوں بھیج رہے ہیں۔‘‘ رب نواز نے انتہائی شک بھرے انداز میں باجوہ سے پوچھا تھا۔
’’یہ دنیا ہے اوراس میں جو دنیا دار ہیں نا ان کے پاس خیر نام کی کوئی شے نہیں ہے۔ میں بھی رشوت لینے پر مجبور ہوں۔ ورنہ کوئی بھی گولی مجھے اس لئے چاٹ سکتی ہے کہ میں بااعتماد نہیں رہوں گا۔ تم جاؤ تمہیں زندگی میں ایک موقع مل رہا ہے کوئی ایسا کام کرنا جس سے تمہارا ضمیر مطمئن ہو جائے۔‘‘ رفاقت باجوہ نے دکھے ہوئے دل سے کہا۔
’’میں کیاکروں گا وہاں جا کر، پھر سے سیدن شاہ کی غلامی کرنا پڑے گی۔ ایک عزت تھی وہ بھی۔۔۔‘‘ رب نواز کا لہجہ بھیک گیا۔’’کوئی بھی اپنی عزت پامال ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ ایک سیدن شاہ ہے جس نے مجھے دھتکارنے کی حد تک بے عزت کیا ہے۔ خیر۔۔۔ میں دیکھ لوں گا۔ تم کم از کم اتنا تو کر سکتے ہو کہ اپنی بہن کو حویلی سے نکال لو۔‘‘
’’بہت مشکل ہو گا۔ اس کے گارڈز۔‘‘
’’وہ ابھی شہر میں ہے، اس نے پریس کانفرنس کرنی ہے۔ اس سے پہلے اگر کچھ کر سکتے ہو تو کر لو۔ تمہارے پاس وقت ہے۔‘‘ رفاقت باجوہ نے کہا تو وہ کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر چل دیا۔۔۔ ڈرائیور اپنی طرف سے کچے راستے پر بہت تیزی سے جا رہا تھا لیکن رب نواز کو وہ رفتار بھی سست لگ رہی تھی اور اس وقت سورج ڈھل رہا تھا جب وہ حویلی میں پہنچ گئے۔
رب نواز کو حویلی کے طور طریقوں کا پتہ تھا۔ وہ سب لوگ بھی اسے جانتے تھے۔ اس لئے رب نواز نے جاتے ہی ایک ملازم سے کہا۔
’’داراں مائی سے کہیں۔۔۔ میں اپنی بہن مہرو سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’میں پتہ کرتا ہوں، اگر اس نے اجازت دے دی تو۔‘‘ ملازم یہ کہہ کر چلا گیااور رب نواز انتہائی بے چینی میں مریدین والے بڑے کمرے میں انتظار کرنے لگا۔اسے ایک ایک لمحہ قیمتی لگ رہا تھا۔ اسے یہ پورا یقین تھا کہ اگر سیدن شاہ آ گیا تو پھر وہ ساری عمر بھی کوشش کرتا رہے۔ مہرو کو یہاں سے نہیں نکال سکتا تھا۔یہاں تک کہ خود سیدن شاہ نہ چاہے۔ اس کے پاس یہی ایک مختصر سا وقت تھا۔ جس میں وہ مہرو کو نکال سکتا تھا ورنہ اسے لاش میں تبدیل ہونے میں سیدن شاہ کا ایک ذرا حکم چاہیے تھا۔ اسے نکانے کیوں گمان تھا کہ سیدن شاہ اس سے خوش نہیں ہو گا۔ وقت لمحہ لمحہ کر کے گزرتا چلا جا رہا تھا اور رب نواز کی بے چینی بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
’’بھالا رب نواز تو کب آیا۔‘‘ اس نے مہرو کی آواز سنی تو پلٹ کر دیکھا۔ وہ سرخ جوڑا پہنے ہاتھوں میں مہندی رچائے۔ کسی دلہن کی مانند اس کے سامنے کھڑی تھی۔ ایک لمحے کے لئے رب نواز کا دل کٹ کر رہ گیا۔ انتقام کی آگ نے اس کا دماغ پاگل کر دیا۔ جبکہ مہرو اس کے سامنے کھڑی مسکرا رہی تھی۔ وہ آگے بڑھی اور اپنے بھائی کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
’’تو مجھے لینے کے لئے آ گیا ہے نا، چلو اپنے گھر چلتے ہیں۔‘‘ اس کے لہجے میں عام سا تاثر تھا۔ جس پر رب نواز نے اس کی طر ف دیکھا اور پوچھا۔
’’تم پر کوئی ظلم تو نہیں ہوا۔‘‘ رب نواز روہانسا ہو رہا تھا۔ اس وقت مہرو نے انتہائی سنجیدگی سے کہا۔
’’نہیں بھالا رب نواز۔۔۔ جو تم سمجھ رہے ہو وہ نہیں، میرے اللہ نے میری حفاظت کی ہے۔ اگر میں یہاں رہی تو نجانے۔۔۔‘‘ لفظ اس کے منہ ہی میں تھے کہ رب نواز کو یوں لگا جیسے اسے نئی زندگی مل گئی ہو۔ اس نے مہرو کابازو پکڑا اور کمرے سے نکلتا چلا گیا۔
’’تم اسے پیر سائیں کی اجازت کے بغیر نہیں لے جا سکتے۔‘‘ چوکیدار نے اس کے سامنے آتے ہوئے کہا تو رب نواز نے قہر آلود نگاہوں سے اسے دیکھا اور پھر قدرے تحمل سے کہا۔
’’مجھے جانے دو۔۔۔‘‘
’’نہیں پیر سائیں کی اجازت کے بغیر نہیں، تمہیں پتہ ہے کہ یہاں سے کوئی کسی کو نہیں لے جا سکتا۔‘‘ چوکیدار اس کے سامنے ڈٹ گیا۔ رب نواز نے اس کا جائزہ لیا اور پھر نجانے اسکے جسم میں طاقت کہاں سے آ گئی، اس نے مہرو کاہاتھ چھوڑا، سیدھا چوکیدار کی گن پرہاتھ ڈالا۔ گن اس سے چھینی اور پھر پوری قوت سے چوکیدار کے سر پر دے ماری۔ اس نے ایک سانس بھی نہ لی اور ڈکارتا ہوا زمین بوس ہو گیا۔ اب فقط لمحوں کاکھیل تھا۔ اسے مہرو کو لے کر نکلنا تھا۔ وہ تیزی سے نکلا۔ اس کا رخ گیٹ کی طرف نہیں تھا بلکہ اس طرف کی چار دیواری کی جانب تھا۔ عین اس وقت جبکہ وہ چار دیواری کے قریب پہنچا۔ اس کے عقب سے فائر ہونا شروع ہو گیا۔ اس نے پوری قوت لگا کر مہرو کو دیوار پر چڑھایا تو مہرو دوسری جانب کود گئی۔ رب نواز کو قدرے حوصلہ ہوا۔ اس نے بھی فائر کھول دیا۔ جس سے پوری حویلی لرز گئی۔ پھر جیسے ہی فائر میں قدرے کمی آئی اس نے دیوار پھلانگی اور باہر کی جانب کو نکل پڑے۔ یہاں تک کہ بھاگتے ہوئے ان کا سانس پھول گیا۔ اگر انسان کو تھوڑی سی کامیابی مل جائے تو اس کا حوصلہ بہت بلند ہو جاتا ہے۔ یہی حال اس وقت رب نواز کا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتاتھا کہ وہ اپنی بہن کواس قدر آسانی سے پالے گا اور پھریوں کہ اس کی عزت محفوظ تھی۔ وہ اس وقت پورے زمانے سے لڑنے کا حوصلہ خود میں پا رہا تھا۔ وہ دونوں بھاگتے چلے جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ بے دم ہو کر ایک ٹیلے پر گر گئے۔
’’بھالا۔۔۔ہم کہاں جا رہے ہیں؟‘‘ مہرو نے پھولے ہوئے سانس سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’پتہ نہیں ہم کہاں جائیں گے۔ لیکن یہاں سے ہمیں نکلنا ہے۔‘‘ رب نواز نے تیزی سے کہا، لیکن اس ے ساتھ ہی اس کے ہوش ٹھکانے پر آ گئے۔ کوئی در ایسا نہیں تھا جہاں پر وہ جا سکے۔ اگر وہ کچی بستی میں اپنے والدین کے پاس گیا تو نہ صرف وہ پکڑے جائیں گے بلکہ اس کے والدین بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ وہ سیدن شاہ کے منہ سے شکار چھین کر لایا تھا۔ اس میں اس کی کتنی ہتک ہو گی کہ کوئی اس کی حویلی سے، اس کی اجازت کے بغیراپنی بہن کو لے گیا ہے۔
’’تم خاموش کیوں ہو گئے ہو۔‘‘ مہرو نے پوچھا۔
’’سچ تو یہ ہے مہرو، اس پورے علاقے میں کہیں بھی ایسا ٹھکانا نہیں ہے جہاں ہم محفوظ رہ سکیں۔ ایک طرف اگر سیدن شاہ کے لوگ میرے پیچھے ہوں گے تو دوسری جانب خان محمد کے لوگوں سے نہیں بچ پاؤں گا ۔ میں کہاں جاؤں۔۔۔‘‘ رب نوازروہانسا ہو کر ٹیلے پر بیٹھ گیا۔ پوری دنیا اسے غیر محفوظ دکھائی دے رہی تھی جبکہ اندھیرا گہرے سے گہرا ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تبھی مہرو نے اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
’’چلو۔۔۔ ایک محفوظ ٹھکانا ہے۔‘‘ مہرو نے کچھ اس انداز سے کہا تھا کہ رب نواز کو امید ہوگئی وہ اس کے ساتھ چل دیا، وہ دونوں چلتے چلے گئے یہاں تک کہ وہ کچی بستی کے باہر جنڈ کے درخت تلے پہنچ گئے۔ سامنے علی عشاء نمازپڑکے صف پر بیٹھا ہوا تھا، اس کے قریب ہی درویش بابا بیٹھا ہوا تھا۔ 
’’بھالا۔۔۔ یہی ہے محفوظ ٹھکانہ۔۔۔‘‘
’’یہ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے۔ یہ لوگ تو خود کھلے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘ رب نواز نے حیرت سے کہا تو لفظ ابھی اس کے منہ ہی میں تھے کہ درویش بابا کی آواز آئی۔
’’کون ہے۔۔۔ سامنے آ جاؤ۔‘‘
وہ دونوں چلتے ہوئے ان کے پاس گئے۔ تبھی علی نے پہچانتے ہوئے کہا۔
’’رب نواز تم۔۔۔ اور مہرو ۔۔۔‘‘
’’ہاں علی۔۔۔ یہ مجھے سیدن شاہ کی حویلی سے لے آیا ہے اور اب۔۔۔‘‘
’’فکر نہیں کرو۔ تم محفوظ پناہ میں آ گئی ہو۔ اللہ تمہاری حفاظت کرے گا۔‘‘ علی نے کچھ اس انداز سے کہا کہ لفظ رب نواز کے دل میں اتر گئے۔
’’غم نہ کرو بیٹی۔۔۔ اب کم از کم دنیا کی کوئی طاقت تم پرظلم نہیں کر سکے گی۔‘‘ درویش بابا نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو انہی لمحوں میں رب نواز نے فیصلہ کر لیا۔
’’علی۔۔۔ ممکن ہے میں کسی نہ کسی طرح تمہارا گنہگار ہوں۔ میں یہ نہیں کہوں گا کہ تم مجھے معاف کر دو، لیکن تمہارے پاؤں پڑتا ہوں کہ میری بہن کی عزت۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ روپڑا۔
مہرو سے میرا تعلق انسانیت کا ہی نہیں وہ روحانی تعلق ہے جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ تم بے فکر ہو جاؤ۔‘‘
’’علی۔۔۔ تو پھر یہ مہرو تیرے حوالے ، میں جا رہا ہوں۔ میں ایک آخری کام کر کے مرنا چاہتا ہوں۔ دعا کرنا میں سرخرو ہو جاؤ۔‘‘ رب نواز نے کہا اورکھڑا ہوگیا۔ پھر مہرو کے سر پرہاتھ پھیرا اور ایک طرف اندھیرے میں بڑھ گیا۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مہرو اس ویرانے میں علی کے پاس ہو گی۔ علی نے اسے مدرسے کی چار دیواری کے اندر بھیج دیا اور درویش بابا ا س کے کھانے پینے کاانتظام کرنے لگا۔ علی کو محسوس ہو گیا کہ جیسے دنیا تبدیل ہو رہی ہے۔ وہ دھیرے سے مسکرا دیا۔
*۔۔۔*۔۔۔* 
فرزانہ کے لئے وہ صبح اک عجیب سا احساس لے کر آئی تھی۔ رات اس نے ایک خواب دیکھا تھا، اس خواب میں اس نے جو بھی دیکھا تھا اس بارے وہ کوئی منطقی فیصلہ نہیں کر پائی تھی کہ وہ اس خواب کو برا کہے یا خوشگوار۔ وہ جو کچھ بھی تھا فرزانہ اس بارے میں پریشان تھی کہ خواب کی تعبیر کیا ہو گی۔ نجانے رات کا وہ کون سا پہر تھا جب اس نے خواب دیکھا اور پھر بہت دیر تک وہ کھوئی رہی۔ دوبارہ اس نے سونے کی کوشش بھی کی لیکن وہ نیند میں بھی بے چین رہی تھی اوریہی بے چینی ناشتے کی میز پر پہنچ کر بھی تھی۔ آج وہ خلاف معمول ناشتے کی میز پر پہلے آ گئی تھی۔ اس کے بابا سائیں ، ابھی باہر لان ہی میں ٹہل رہے تھے ۔ ملازم نے جب اسے جاکر بتایا کہ تو وہ آ گیا۔ کرسی پر بیٹھتے ہوئے اس نے فرزانہ کی جانب دیکھا اور پھر چونکتے ہوئے بولا۔
’’بیٹی۔۔۔ کیا بات ہے کوئی پریشانی ہے۔‘‘
’’نن۔۔۔ نہیں تو۔۔۔ بس رات نیند اچھی نہیں آئی۔ میں ٹھیک ہوں۔‘‘ فرزانہ نے بہانا بتا دیا تو امین خان نے اس کی توجہ ہٹاتے ہوئے کہا۔
’’بیٹا۔۔۔ آج اور ابھی ڈاکٹر سے کہو کہ وہ تمہیں دیکھنے کے لئے آئے۔ اس میں کوتاہی نہیں چلے گی۔ لگتا ہے تم نے کام کچھ زیادہ ہی کرنا شروع کر دیا ہے۔‘‘
’’او نہیں باباسائیں۔۔۔ ابھی کام شروع ہی کہاں ہوا ہے۔‘‘ پھر اپنے باپ کے چہرے پر دیکھتے ہوئے بولی۔ ’’خیر۔۔۔ آپ بہت خوش ہیں۔ اپنی خورشی مجھ سے شیئر نہیں کریں گے۔‘‘
’’کیوں نہیں۔۔۔ جب ایک طویل مدت کے بعد محنت رنگ لائے تو بندہ خوش تو ہوتا ہے۔ کیا اسے خوش نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ امین خان نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔
’’ہم بھی تو سنیں، ایسی کون سی محنت تھی جو رنگ لے آئی ہے۔‘‘ فرزانہ نے توس پرمکھن لگاتے ہوئے خوشگوار موڈ میں کہا۔
’’سیدن شاہ کا استعفیٰ ، میری محنت کا نتیجہ ہے۔ تم نے آج کا اخبار پڑھا۔‘‘
’’نہیں تو۔۔۔ میں اخبار دفتر میں دیکھتی ہوں۔ آپ نے کیا محنت کی تھی۔‘‘ فرزانہ نے عام سے لہجے میں پوچھا اور توس امین خان کی پلیٹ میں رکھ دیا۔
’’چھوڑو۔۔۔ یہ سیاسی باتیں ہیں۔ تمہیں پتہ ہے نا کہ سیاست بھی شطرنج کی بساط کی مانند ہوتی ہے۔ شہ بات دینے کے لئے کبھی پیادے اور کبھی فیل بھی مروانے پڑ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی وزیر بھی مروا دئیے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہوتا۔ کھیل ہے نا یہ۔‘‘ امین خان نے تصور ہی تصور میں سیدن شاہ کی ہزیمت کامزہ لیتے ہوئے انتہائی سرور سے کہا پھرخود ہی چونکتے ہوئے بولا۔ ’’خیر چھوڑو۔۔۔ تم ناشتہ کرو اور ہاں آج ڈاکٹر کو ملے بغیر آفس مت جانا۔‘‘
’’بابا سائیں میں بالکل ٹھیک ہوں۔ ویسے آپ کے حکم کے مطابق میں آج شام ہی ڈاکٹر سے مل لوں گی۔‘‘ فرزانہ نے کہا اور ناشتے کی طرف متوجہ ہو گئی۔ پھر اچانک چونکتے ہوئے بولی۔
’’بابا سائیں۔۔۔ آپ ہمیشہ سیدن شاہ کے علاقے کی و جہ سے ہی ہارتے رہے ہیں۔ یہ علاقہ کون سا ہے؟‘‘
’’شہر کی حدود سے باہر نکلیں تو روہی کے اندر کی طرف کا یہ علاقہ ہے۔ ایک تو ہماری اپروچ وہاں تک اتنی نہیں ہوئی۔ دوسرا وہ لوگ اسے اپنا روحانی پیشوا۔۔۔‘‘ امین خان کہتا چلا جا رہا تھا جبکہ اس کا دماغ حامد کی باتوں کی طرف چلا گیا۔ وہ وہاں کی صورت حال بتا چکا تھا۔
’’تم میری بات سن رہی ہو نا۔‘‘ امین خان نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں بابا سائیں بہت غور سے سن رہی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے چند لمحے سوچا اور پھر کہا۔ ’’بابا سائیں آپ شاید اسے کس نظر سے دیکھیں گے، مجھے نہیں معلوم مگر میں نے اس علاقے میں کام کی شروعات کر دی ہیں۔ تھوڑا عرصہ تو لگے گا لیکن آپ کی اپروچ بھی وہاں تک ہو جائے گی۔‘‘
’’کیا تم نے یہ سب سوچ سمجھ کر کیا ہے؟‘‘ امین خان نے کھاتے ہوئے ہاتھ روک کر کہا۔
ہاں۔۔۔ اور اس کام کی شروعات آج سے ہو گی۔‘‘ فرزانہ خان نے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہاتو امین خان سوچ میں پڑ گیا۔ پھر مسکراتے ہوئے بولا۔
’’کوئی بات نہیں۔ تم اپنا کام کرو۔ اگر اس دوران کسی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔‘‘ امین خان نے کہا اور ناشتہ کرنے لگا۔ پھر دونوں کی اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوئی۔
اس وقت وہ دفتر کی جانب جا رہی تھی۔ ڈرائیور گاڑی لئے جا رہا تھا لیکن فرزانہ کی ساری توجہ خواب کی طرف تھی۔ وہ خاردار جھاڑیوں کے درمیان پھنسی ہوئی تھی۔ وہ وہاں سے نکلنے کی کوشش میں تھی۔ وہ جس طرح آگے بڑھتی نوکیلے خار اسے اذیت دے رہے تھے۔ موسم میں شدید قسم کی گھٹن تھی۔ اچانک وہ میدان ختم ہو گیا اور اس کے سامنے دور تک صحرا ہی صحرا تھا جس کی تیز ہوا اسے خوف زدہ کر رہی تھی۔ وہ آنکھیں کھول کر صحرائی ویرانے کو دیکھنا چاہتی تھی مگر وہ آنکھیں کھول ہی نہیں پا رہی تھی۔ ایک انجانی قوت اسے آگے ہی آگے بڑھتے رہنے پر مجبور کر رہی تھی کہ وہ ایک ایسی جگہ پہنچ گئی جہاں پر پاؤں کے نیچے پکی زمین تھی۔ وہ وہاں جم کر کھڑی ہو گئی، اسے دور ایک سیاہ نقطہ دکھائی دیا جو لمحوں میں بڑا ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ اسے وہ نقطہ اپنے پورے وجود میں ڈھلتا ہوا دکھائی دیا۔ اس نے غور سے دیکھا، وہ علی تھا، وہ اسے پہچان کر خوش ہو گئی اور پھر جیسے ہی وہ بے تابانہ انداز میں اس کی جانب بڑھی، زمین ہی سے آگ کی ایک دیوار اٹھ کھڑی ہوئی جو ان دونوں کے درمیان حائل ہو گئی۔ علی اسکی طرف آنا چاہتا تھا اوروہ بھی اس کی جانب بڑھنا چاہتی تھی مگر آگ کی اس دیوار نے ان کی راہ روکی ہوئی تھی۔ وہ ابھی سوچ رہی تھی کیا کرے، تبھی علی کے عقب سے آندھی اٹھی جو ہر طرف چھائی چلی گئی یہاں تک کہ اندھیرا چھا گیا۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا مگر علی کا لمس اسے محسوس ہو رہا تھا، اسی احساس میں اس کی آنکھ کھل گئی تھی۔
خواب کا یہ اثر دفتر پہنچ جانے تک رہا۔ پھر جیسے ہی وہ دفتری معاملات میں کھوئی، خواب کا سارا تاثر زائل ہو گیا۔ وہ بھول گئی۔ اس وقت دن کے تقریباً گیارہ بجے ہوں گے جب اسکا سیل فون بج اٹھا، اس نے سکرین پر نمبر دیکھا تو وہ حامد کا تھا۔ پہلا خیال جو ا س کے ذہن میں آیا وہ یہی تھا کہ روہی کی جانب جاتے ہوئے حامد اسے انفارم کرنا چاہتا ہو گا۔ اس نے فون آن کیا اور ہیلو کہہ دیا تو دوسری جانب سے حامد کہہ رہا تھا۔
’’میڈم میں اس وقت روہی میں اس مقام پر ہوں جس کے بارے میں ہم نے تعین کیا تھا۔‘‘
’’کیا تم وہاں پر پہنچ بھی گئے ہو۔‘‘ فرزانہ نے حیرت سے کہا۔
’’جی، میں نے سوچا کہ صبح وقت پر پہنچ جاؤں تو میرا تقریباً ایک دن بچ جائے گا۔ خیر۔۔۔ میں آپ کو یہاں کی صورت حال سے آگاہ کرنا چاہ رہا تھا۔‘‘ ا س نے جلدی سے کہا۔
’’بولو۔۔۔‘‘ فرزانہ نے دھیرے سے کہا۔
’’یہاں پر جو نگران ہیں فقیر سائیں وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ حامد نے کہا تو فرزانہ کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔ دل کے دھڑکنے کا انداز وہی تھا۔ جس طرح یہ علی کے نام پر دھڑکتا تھا۔ اس نے خود پر قابو پایا اور پھر دھیرے سے ہی کہا۔
’’ہاں بات کراؤ۔‘‘ فرزانہ نے کہا تو چند لمحوں بعد دوسری طرف سے آواز گونجی۔
’’آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے یہاں تک محض خدمت خلق کے لئے رسائی کی۔ آپ یہاں انوسٹمنٹ کریں گی۔ کیا میں اپنی محسن کا تعارف حاصل کر سکتا ہوں۔۔۔‘‘
’’کیا ہماری تنظیم کے نمائندے نے آپ کو تعارف نہیں کرایا جو یہاں آپ کے پاس موجود ہے۔‘‘ فرزانہ نے لہجے پر غور کرتے ہوئے تیزی سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ اس نے تو بتایا ہے مگر میں اس کی تصدیق کرنا چاہتا ہوں۔ آپ فرزانہ خان ہیں، سردار امین خان کی بیٹی۔‘‘
’’جی۔۔۔ کیاآپ مجھے جانتے ہیں۔‘‘
’’آپ کو کون نہیں جانتا۔ پورا علاقہ آپ کے خاندان سے متعارف ہے۔ خیر۔۔۔آپ سے تعارف کی تصدیق میں نے اس لئے کی ہے کہ آپ سے ایک درخواست ہے۔‘‘ علی نے بہت تحمل سے اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’فرمائیں۔۔۔‘‘ فرزانہ ابھی تک گومگو کی کیفیت میں تھی، اسے لگ رہا تھا کہ جیسے یہ لہجہ اس نے بہت سنا ہے۔ کہاں سنا ہے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ بہرحال جوبھی تھا اسے وہ بہت اپنا اپنا سا لگاتھا۔
’’کیا آپ کسی مظلوم لڑکی کو کچھ عرصے کے لئے پناہ دے سکتی ہیں۔ میرا مطلب ہے آپ کی این جی او خواتین کے حقوق کے لئے بھی کام کرتی ہے؟‘‘
’’آج سے بلکہ ابھی سے کرے گی۔ آپ اس خاتون کو ہمارے ہاں بھیج دیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے ذرا سی ہمت کی اور پوچھا۔
’’کیا وہ لڑکی واقعی ہی مظلوم ہے، میرا مطلب ہے، اس میں کوئی قانونی رکاوٹ ، یا وہ کوئی کسی الزام میں۔۔۔‘‘ وہ کہتے کہتے رک گئی۔
’’جب میں نے اسے مظلوم کہا ہے تو وہ مظلوم ہے۔ آپ نے اس کی حفاظت بھی کرنا ہے۔ اس کی ضرورت نہیں ہے کہ آپ اس کی کوئی قانونی مدد کریں۔ اسے بس تحفظ چاہیے۔‘‘ علی نے اسی طرح ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’میں نے کہا نا کہ ایک لڑکی کو ہم پناہ دیں ا ور اس کے بارے میں معلوم ہی نہ ہو۔ ‘‘
’’فرزانہ۔۔۔ میں علی بات کر رہا ہوں۔‘‘ علی نے کہا تو فرزانہ کے ہاتھ سے فون چھوٹتے ہوئے بچا۔ اسے یہ احساس ہی نہیں رہاکہ وہ اپنے آفس میں بیٹھی ہے۔ چند لفظ اس کے لئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ وہ گنگ ہو کر رہ گئی۔ طویل خاموشی کی وجہ سے علی نے پوچھا۔‘‘ تم میری بات سن رہی ہو؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ علی۔۔۔ ہاں۔۔۔ کہو، تم کہو۔۔۔ پلیز۔۔۔ تم کہو۔۔۔ مجھے بتاؤ۔۔۔ تم وہاں کیوں ہو۔ تم کس مصیبت میں پھنسے ہوئے ہو۔ خدا کے لئے۔۔۔‘‘
’’میں اسی لئے اپنا تعارف نہیں کرانا چاہتا تھا کہ تم اپنی کہو گی، میری نہیں سنو گی۔‘‘ 
’’میں سنوں گی، پلیز مجھے بتاؤ۔۔۔ میں اب تمہاری ہی سنو گی۔‘‘ فرزانہ نے بھیگے ہوئے لہجے میں کہا۔
’’یہ تفصیلات پھر کبھی سہی۔ میں تمہارے پاس مہرو کو بھیج رہا ہوں۔ اس کی حفاظت خود سے بھی زیادہ کرنا اور اپنے باپ کو بھی معلوم نہیں ہونے دینا۔ یہ میں تمہیں کہہ رہا ہوں کہ وہ مظلوم ہے۔‘‘ علی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’میرے سر آنکھوں پر۔ کیا میں اسے لینے کے لئے آ جاؤں۔‘‘ فرزانہ نے جذبات میں ڈوبتے ہوئے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ میں اسے تمہارے پاس بھیج رہا ہوں۔ حامد لے آئے گا ابھی۔‘‘ علی نے واضح انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے، حامد سے میری بات کروا دو۔‘‘ فرزانہ نے کہا تو ایک لمحے بعد حامد لائن پرتھا۔ تب اس نے کہا۔ ’’حامد۔۔۔ جو جوکیش لے کر گئے تے وہ سارا انہیں دے دو اور تمہارے ساتھ جس لڑکی کو بھیجیں اسے پوری حفاظت کے ساتھ فوراً یہاں میرے پاس آفس میں لے آؤ۔‘‘
’’میڈم میرے دوسرے ساتھی۔۔۔‘‘
’’انہیں بھی واپس لے آؤ۔ جیسا یہ کہیں ویسا ہی کرنا۔‘‘ فرزانہ نے قدرے سختی سے کہا۔
’’جی میڈم۔۔۔‘‘ حامد نے تیزی سے کہا۔
’’او کے خدا حافظ۔۔۔‘‘ فرزانہ نے کہا اور فون بند کر دیا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے کرسی سے ٹیک لگا لی۔ وہ خود پر قابو پانا چاہتی تھی۔ اس کا بدن دھیرے سے لرز رہا تھا۔ کوئی بھی سوچ اس کے دماغ میں جم نہیں رہی تھی۔ ہیولے سائیں سائیں کرتے ہوئے اس کے دماغ میں شورمچا رہے تھے۔ وہ خالی الذہن ہو جانا چاہتی تھی۔ اس لئے سارے بدن کو ڈھیلا چھوڑ کر علی کا تصور کرنے لگی۔ تبھی ایک لفظ اس کے دماغ سے چپک گیا۔
’’فقیر سائیں‘‘ تو کیاعلی۔۔۔؟ اس سے آگے وہ نہ سوچ سکی۔ وہ لرز کر رہ گئی۔ اسے اپنے گنہگار ہونے کاشدت سے احساس ہوا۔ اس سے پہلے کہ آنسو اس کے پلکوں سے لرز کر اس کے گال بھگوتے اچانک اسے خواب یاد آ گیا جس نے رات سے ہی اسے بے چین کیا ہوا تھا، وہ جس قدر سوچتی چلی جا رہی تھی۔ اسی قدر اسے سمجھ آ رہی تھی۔ اگرچہ بہت سارے پہلو اس کی سمجھ میں نہ آئے لیکن اسے یقین ہو گیا کہ اس کاخواب ایک اشارہ تھا، جسے اس نے سمجھنا تھا۔ اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور علی کی طرف سے بھیجی گئی مہمان کا شایان شان استقبال کرنے کے لئےاٹھ گئی۔ وہ مظلوم تھی یا نہیں یا اس کی حیثیت کیاتھا، فرزانہ کو اس سے بھی غرض نہیں تھی، اس کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ اسے علی نے بھیجا ہے۔ زندگی میں پہلی بار علی نے کسی قابل سمجھا تھا اسے۔ وہ دھیرے سے مسکرا دی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

Posts

مصنفسے رابطہ

فیس بک https://www.facebook.com/amjadhsp




Comments

رابطہ کیجیے

Name

Email *

Message *